Tumgik
#مسلم لیگ ق
urduchronicle · 5 months
Text
چوہدری شجاعت کا مسلم لیگ ن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کرنے کا فیصلہ
سابق وزیراعظم و مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی صدارت میں پارٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چوہدری شجاعت کا کہنا تھا صرف اپنی ذات کی حد تک سیٹ ایڈجسٹمنٹ قبول نہیں۔ہمارے دیگر امیدوار وں کے مقابلے میں  نون لیگ نے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر دیے ہیں۔ پارٹی کے قائد اوردیگر رہنماؤں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے امیدواروں کو دوہرے معیار کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 3 months
Text
سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی اہلیت
Tumblr media
سینئر سیاسی رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ملکی مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے، انھیں علم ہی نہیں ہے کہ ملکی مسائل کا حل کیا ہے۔ سینئر سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ سیاستدان صرف اپنے لیے نہیں بلکہ قوم کے بچوں کے لیے آگے آئیں اور ان کے بہتر مستقبل کا سوچیں۔ الیکشن میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، اس لیے انتخابی نتائج تسلیم کریں۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی مختلف حکومتوں کی مدت تین آمرانہ حکومتوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ 16 برس سے ملک آمریت سے محفوظ ہے۔ 2008 کے الیکشن کے بعد سے ملک میں تین جماعتوں کے وزرائے اعظم نے ہی حکومت کی ہے مگر تینوں پارٹیوں کے منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکے البتہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں اور تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طور پر ہٹایا گیا، یوں اسمبلیاں برقرار رہیں اور پانچوں قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار سے محرومی کے بعد پہلے قومی اسمبلی سے اپنے ارکان کے استعفے دلائے اور بعد میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں قبل از وقت تڑوا کر اپنے وزرائے اعلیٰ کو بھی اقتدار میں نہیں رہنے دیا اور اپنی ضد اور انا کی خاطر اپنی اچھی بھلی دو صوبائی حکومتیں اس لیے ختم کرائیں کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن قبل ازوقت جنرل الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائے لیکن عمران خان کی یہ خواہش ناتمام ہی رہی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو عدالتی فیصلوں نے مدت پوری نہیں کرنے دی تھی اور دونوں کو نااہل کیا تھا۔ نااہلی کے دونوں عدالتی فیصلوں سے قبل 1999 تک فوجی جنرلوں اور 58/2-B کے اختیار کے حامل سویلین صدور نے وزرائے اعظم برطرف کیے اور اسمبلیاں ختم کیں اور 1985 سے 1999 تک کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی۔ 1999 میں نواز شریف کو برطرف کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے حکم پر ملک میں 2002 میں الیکشن کرایا اور 2007 تک تمام اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا اور اپنی بنائی گئی مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں ظفر اللہ جمالی کو ضرور تبدیل کیا اور غیر سیاسی وزیر اعظم شوکت عزیز کے ذریعے حکومت کے 5 سال مکمل کرائے تھے اور یہ واحد فوجی جنرل تھے جنھوں نے اسمبلیوں کی مدت پوری کرائی اور خود کو وردی میں صدر منتخب کرایا اور بعد میں صدر رہ کر فوجی وردی اتار دی تھی۔ 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے اقتدار کے گیارہ برسوں میں ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کرائیں اور دو دو باریاں لیں اور دونوں ہی حکومتیں خود ان کے منتخب صدور نے ختم کیں اور فوجی مداخلت 1999 میں ہوئی جس کے بعد سے فوج نے برائے راست کوئی مداخلت نہیں کی مگر 2018 تک تمام حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے قائم ہوئیں اور پی ٹی آئی حکومت بنوائی گئی۔
Tumblr media
2018 میں پہلی بار پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی جو اس کے وزیر اعظم کے غیر جمہوری رویے، من مانیوں اور انتقامی کارروائیوں کے باعث تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہو گئی جس کو برطرف وزیر اعظم نے غلط رنگ دیا۔ کبھی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا، کبھی جنرل قمر جاوید باجوہ کو ذمے دار قرار دیا اور میر صادق، میر جعفر اور جانور تک کا طعنہ دیا گیا۔ اپنی آئینی برطرفی کے بعد انھیں جمہوری طور اسمبلیوں میں رہنا چاہیے تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی خوشامد نہیں کرنی چاہیے تھی کہ وہ انھیں دوبارہ وزیر اعظم بنوا دیں، جنرل صاحب نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا بھی کہا تھا مگر اپوزیشن نہیں مانی تھی کیونکہ اس کی تحریک عدم اعتماد آئینی تھی جو پہلی بار کامیاب ہوئی تھی۔ سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ فوج غیر جانبدار رہے، آئین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کسی وزیر اعظم کولائے نہ ہٹائے ، یہ درست ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ذمے دار تو خود سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ 1970 تک ملک میں جو ہوتا رہا اس کے ذمے دار سیاسی رہنما اور ان کی اپنی پارٹیاں تھیں جنھوں نے جنرل ایوب کو باعزت واپسی کا راستہ نہیں دیا۔
1977 میں بھٹو حکومت میں انتخابی دھاندلی کے بعد ملک گیر تحریک چلی۔ وزیر اعظم بھٹو کی وجہ سے مارشل لا لگا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کی حکومت ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ نواز شریف اگر جنرل پرویز مشرف کو غلط طور نہ ہٹاتے، پی ٹی آئی وزیر اعظم اگر پی پی اور (ن) لیگ کو ساتھ لے کر چلتے تو آج تنہا نہ ہوتے۔ سیاستدانوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ ہوتا، پی ٹی آئی دوسری جماعتوں سے مل کر مسائل کا حل تلاش کرتی اور اس کے چیئرمین نئی نسل کو بگاڑنے کے بجائے ملک کے بچوں کا سوچتے تو آج جیل میں نہ ہوتے۔ دوسروں کو چور، ڈاکو قرار نہ دیتے تو سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ملک کے مفاد اور مسائل کے حل پر آپس میں متحد ہو جاتیں تو ملک میں سیاسی استحکام ہوتا، پی پی اور (ن) لیگ کی طرح پی ٹی آئی نے اقتدار کے بجائے ملک کا سوچا ہوتا تو آج ملک میں سیاسی دشمنی اور انتشار نہ ہوتا۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 4 months
Text
بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاست میں جمہوریت؟
Tumblr media
عالمی جمہوریت انڈیکس کے مطابق آمرانہ رجیم درجہ بندی میں گر کر پاکستان کا اسکور 3.25 ہو گیا ہے اور 11 درجے تنزلی ہو گئی ہے۔ پاکستان پہلے دنیا کی 165 ریاستوں میں ایک برس قبل 5.23 انڈیکس پر تھا جو اب گر کر 3.25 پر آ گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہائبرڈ رجیم سے تنزلی کے بعد آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں آ گیا ہے جب کہ عالمی سطح پر ریٹنگ میں گیارہ مقام نیچے چلا گیا ہے۔ ای آئی یو نے حالیہ انتخابات پر کہا ہے کہ یہ بات حیران کن نہیں کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور روس میں رجیم چینج یا زیادہ جمہوریت نہیں آئے گی اور پاکستان میں بھی مکمل جمہوریت نہیں آئے گی اور ناقص جمہوریت چلتی رہے گی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کو 1956 میں آئین ملا تھا جس کے نتیجے میں ملک کو 1958 میں جنرل ایوب خان کا جو طویل مارشل لا ملا تھا اس کے خاتمے کے بعد کہنے کو ملک کو 1973 کا متفقہ آئین ملا تھا جو بعد میں مارشل لاؤں کو نہیں روک سکا تھا جس کے بعد 1977ء اور 1999ء میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے مارشل لا آئے تھے جو جنرل پرویز کی وردی اترنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ 
2002ء سے 2024ء تک ملک میں چار بار قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال اور پی ٹی آئی حکومت نے پونے چار سال حکومت کی اور عمران خان کی اپنی حماقت کے نتیجے میں سولہ ماہ ملک میں ایک اتحادی حکومت رہی اور ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک میں جنرل یحییٰ نے جو الیکشن کرائے اور جیتنے والی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں 1971 میں ملک دولخت ہوا تھا جس کے بعد بھٹو صاحب نے 1972 میں حکومت بنائی تھی اور 1973 کا ایسا متفقہ آئین بنوایا تھا جو ملک میں جمہوریت برقرار رکھ سکے اور کسی اور جنرل کو آمریت قائم کرنے کا موقعہ نہ مل سکے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاسی حکومتیں آئیں اور ابتدا ہی میں بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر اپنی آمریت قائم کی اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جمہوریت کے نام پر وہ سلوک کیا جو کبھی جمہوریت میں نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں 1977 میں جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا تھا۔
Tumblr media
جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ قرار دی جانے والی حکومت میں سیاستدان شامل رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالا تھا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز کو وردی میں صدر منتخب کرانے میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزرائے اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت بنا لیا اور جمہوریت کے نام پر ملک میں اپنی ذاتی آمریت مسلط رکھی اور ملک میں حقیقی جمہوریت کسی ایک بھی سیاسی وزیر اعظم نے قائم نہ ہونے دی۔ محمد خان جونیجو نے کچھ کوشش کی تو برطرف کر دیے گئے۔ 1988 سے 2024 تک ملک میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے وہ سب متنازع رہے اور سیاسی رہنما اپنے مفادات کے لیے برسر اقتدار سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی سے اقتدار میں آئے اور بعد میں وہ بھی اپنے لانے والوں کو آنکھیں دکھانے لگتے تھے۔ ملک کو جو ترقی ملی اس میں بھی جنرلوں کے نام آئے مگر کسی سیاستدان کو تو تمغہ جمہوریت نہیں ملا مگر ایک جج نے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو صادق اور امین قرار دینے کا فیصلہ ضرور دیا تھا جو ان کا کام ہی نہیں تھا۔
بھٹو سے عمران خان تک تمام وزرائے اعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور فخریہ طور پر اپنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک پیج پر قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے تمام مخالف سیاستدانوں پر مقدمات بنوا کر سب کو جیل میں ڈلوایا جو بعد میں کوئی ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہوئے۔ پی ٹی آئی کی نام نہاد جمہوریت پونے چار سال ملک میں بدترین آمریت کی شکل میں قائم رہی اور وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں اپنے مخالف سیاستدان حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر سے ملنا گوارا نہ کیا جو کبھی آمریت میں نہ ہوا وہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کر دکھایا مگر جب دانشوروں نے انھیں سمجھانا چاہا تو وہ نہ مانے اور اپنے آمرانہ فیصلے کرتے تھے جو ان کی جمہوریت تھی۔ جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار میں آمریت قائم کرنے والے سیاسی وزیر اعظم اگر واقعی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور جمہوریت پر عمل کرتے تو ملک کو آج اس بدنامی کا سامنا نہ ہوتا اور آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں پاکستان مسلسل نہ گرتا اور جمہوریت بھی مستحکم ہوتی مگر جمہوریت کے لبادے میں اپنے اپنے اقتدار میں اگر سیاسی رہنما ذاتی آمریت قائم نہ کرتے اور ایک دوسرے سے انتقام نہ لیتے تو جمہوریت حقیقی شکل میں عوام کو میسر آتی۔ ملک میں آمریت کے ذمے دار صرف آمر ہی نہیں نام نہاد جمہوری وزرائے اعظم اور مفاد پرست بے اصول سیاستدان بھی ہیں۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
shiningpakistan · 5 months
Text
پاکستان کو بھکاری بنانے کے ذمے دار
Tumblr media
پاکستان میں پہلے طویل مارشل لا کی مدت 1970 کے الیکشن میں جنرل یحییٰ نے ختم کی تھی اور جب تک پاکستان ایک تھا جو 1970 کے انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کیے جانے پر دولخت 1971 میں ہوا تھا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا اس وقت تک مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان میں ایک بوجھ سمجھا جاتا تھا جو مغربی پاکستان سے بڑا تھا۔ جنرل ایوب کا دور 1969 میں ختم ہوا تھا جو بعد کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دور ہر قسم کی ترقی کا سنہری دور اور پاکستان دنیا میں نہایت اہمیت کا حامل ملک، مالی طور پر مستحکم اور جاپان و جرمنی کو مالی امداد اور دنیا میں قرضے دینے والا ملک تصور کیا جاتا تھا جس کے فوجی صدر کے دورہ امریکا پر استقبال کے لیے خود امریکی صدر اپنی کابینہ کے ساتھ آیا کرتے تھے۔ جہاں ایئرپورٹ پر صدر پاکستان کا شاندار استقبال کیا کرتے تھے اور خود امریکی صدور بھی پاکستان کے دورے کیا کرتے تھے جب کہ اب یہ حالت ہے کہ 15 سال پہلے امریکی صدر نے پاکستان کے خوشامد کرنے پر بھارت جاتے ہوئے پاکستان کے مختصر دورے پر آ کر ہم پر احسان کیا تھا جس کے بعد کوئی امریکی صدر پاکستان نہیں آیا اور اب پاکستانی حکمران خوشامد کر کے امریکا کے دورے کا وقت لیتے ہیں۔
جہاں کوئی امریکی وزیر بھی استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہیں آتا اور امریکی صدر بعد میں وائٹ ہاؤس میں پاکستانی وزیر اعظم سے ہاتھ ملاتا ہے جس پر وہ بڑا فخر کرتا ہے۔ صدر جنرل ضیا الحق کو بھی امریکا میں اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ جنرل ضیا امریکا کی ضرورت تھے جب کہ اس کے صرف گیارہ سال بعد صدر جنرل پرویز امریکا گئے تو انھیں جنرل ضیا جیسی اہمیت نہیں ملی تھی کیونکہ امریکا کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی تھی بلکہ امریکا جنرل پرویز کی ضرورت تھا۔ نئی نسل کو اب یہ سن کر بڑی حیرت ہوتی ہے جب اسے بتایا جاتا ہے کہ 1970 تک دنیا پاکستان کو اہمیت دیتی تھی اور پاکستان ان کی ضرورت تھا اور پاکستان آج کی طرح کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا تھا بلکہ ضرورت پر دوسرے ملکوں کو قرض اور مالی و ضروری عطیات بھی دیا کرتا تھا۔ اس وقت یو اے ای جیسے ملک کے حکمران کا استقبال کمشنر کرتا تھا پھر وہ دور بھی آیا کہ یو اے ای کے حکمران کے استقبال کو پاکستانی وزیر اعظم ایئرپورٹ جاتے رہے اور یو اے ای سے قرضے اور امداد مانگنے پاکستان بھکاری کے طور پر سوٹ پہن کر یو اے ای، قطر، کویت، سعودی عرب جیسے ملکوں میں جاتے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرض کے لیے اب پاکستان کو گر کر اور خوشامد کر کے موجودہ قرضہ حاصل کرنا پڑا جو تین قسطوں میں ملنا تھا اور اتحادی حکومت کے بعد چار ماہ میں نگراں حکومت کو دوسری قسط نہیں ملی۔
Tumblr media
1947 میں آزادی کے بعد کئی سالوں تک پاکستان مشکل حالات سے گزرا جس کے بعد 1970 تک پاکستان دوسروں کو قرضے دینے اور مالی امداد دینے والا ملک بنا رہا جس کے بعد 1988 تک جنرل ضیا الحق کے آمرانہ کہلانے والے دور کے بعد 2023 تک 35 سالوں میں انتخابات کے ذریعے بننے والی مسلم لیگ (ن)، (ق)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی حکومتوں میں سیاسی حکومتوں نے غیر ملکی قرضے لے کر ہماری آیندہ پیدا ہونے والی نسل کو بھی مقروض بنا دیا ہے اور 2023 تک ملک کا بچہ بچہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ رقم کا مقروض ہے اور ہم دنیا میں اب قرضوں پر پل رہے ہیں۔ کسی شخص کی اگر مالی حالت کمزور ہو جائے تو وہ سب سے پہلے اپنے گھریلو اخراجات کم کرتا ہے۔ اچھے کھانے ترک کر کے زندہ رہنے والی خوراک پر آ جاتا ہے۔ جو شخص سال میں کئی جوڑے بناتا تھا وہ مجبوری میں گرمی سردی میں دو جوڑوں پر گزارا کرتا ہے اور اپنے اخراجات کم کر کے کوشش کرتا ہے کہ میسر مالی وسائل میں گزارا کرے اور اسے قرض نہ مانگنا پڑے کیونکہ قرض لینا اتنا مشکل نہیں جتنا ادا کرنا ہوتا ہے اسی طرح وہ اپنی عزت کا بھرم برقرار رکھ لیتا ہے۔
35 سیاسی حکومتوں میں جس پارٹی کی بھی حکومت آئی سب نے اپنے وسائل سے ملک چلانے کے بجائے غیر ملکی قرضوں پر شاہانہ طور پر حکومت کرنا اپنا منشور بنا رکھا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قرض اتارو ملک سنوارو مہم چلائی تھی مگر غیر ملکی قرض نہ اترا بلکہ قرضوں کے لیے ملک کو آئی ایم ایف کا غلام بنانے میں ہر سیاسی حکومت نے کردار ادا کیا۔ شاہانہ طور حکومتیں چلائیں خود کو بنایا، اپنوں کو دل بھر کر نوازا، اور پی ٹی آئی حکومت نے تو اپنوں کو باہر سے بلا کر نوازا وہ سب اب واپس باہر جا چکے ہیں اور عیش کر رہے ہیں اور ملک میں غریب کیا متوسط طبقہ بھی سخت پریشان ہے۔ نواز شریف کا اب کہنا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے قرض مانگنا بند کر دیا تھا جب کہ ان کے بھائی شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے 2023 میں قرضہ وہ بھی تین قسطوں میں منظور کرایا تو اس عمل پر نواز شریف کو اپنے بھائی وزیر اعظم کو قرض مانگنے سے روکنا چاہیے تھا۔ اس وقت اتحادی حکومت میں شامل دولت مندوں کو اگر ملک سے محبت ہوتی تو وہ سب اپنی دولت میں سے ملک کے لیے اگر چوتھائی رقم بھی نکالتے تو انھیں قرض نہ لینا پڑتا۔
پاکستان کو موجودہ حالات میں پہنچا کر عالمی بھکاری بنانے والوں میں حکومت میں شامل رہ کر کرپشن کرنے والے صرف سیاستدان ہی نہیں ملک کے ہر ادارے کے کرپٹ افسران نے ملک کو لوٹا اور اندرون و بیرون ممالک میں جائیدادیں بنائیں اور وہاں کی شہریت لے کر اپنی ناجائز دولت اور اپنے خاندانوں کو محفوظ بنایا اور ملک کو اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ ملک کے سرمایہ داروں نے دبا کر ٹیکس چوری کیے۔ ٹیکس بچانے کے لیے ٹیکس وصول کرنے والوں کو رشوت دی اور ملکی خزانہ بھرنے نہیں دیا۔ ملکی خزانہ ہر ایک نے لوٹا اور ملک کنگال کر دیا اور یہ سب ہی ملک کو بھکاری بنانے کے ذمے دار ہیں۔ کوئی کم کوئی زیادہ۔ انھوں نے ملک کو نہیں اپنے ذاتی مفادات کو ہی ترجیح دی انھیں ملک عزیز ہوتا تو پاکستان کبھی بھکاری نہ بنتا۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistanpolitics · 1 year
Text
سیاسی پارٹیوں میں مطلق العنانی
Tumblr media
ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں میراث ہے نہ مطلق العنانی بلکہ جمہوریت ہے۔ جہاں امیر جماعت کی من مانی کی بجائے پارٹی مشاورت سے کام ہوتا ہے اور مقررہ مدت کے بعد طریقہ کار کے مطابق امیر کا انتخاب کیا جاتا ہے اور امارت کے حصول کے لیے کوئی رہنما از خود امیدوار نہیں بنتا بلکہ جماعت کے مجوزہ طریقے کے مطابق خفیہ ووٹنگ کے ذریعے مرکزی امیر منتخب کر لیا جاتا ہے جو حلف اٹھانے کے بعد من مانے فیصلے کر کے عہدیدار مقرر نہیں کرتا جب کہ باقی کسی جماعت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ پارٹی قائم کرنے والا ہی سربراہ ہوتا ہے اور وہ پارٹی میں اپنی مرضی ہی کے عہدیدار نامزد کرتا ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کوئی تقرری اور پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم ممکن نہیں ہوتی۔ ہر پارٹی اپنے امیدواروں کی نامزدگی کے لیے پارلیمانی بورڈ ضرور بناتی ہے اور پارلیمانی بورڈ اپنی سفارشات ہی پیش کر سکتا ہے حتمی فیصلہ پارٹی سربراہوں کا ہی ہوتا ہے۔ آصف زرداری کو پیپلز پارٹی، نواز شریف کو مسلم لیگ اور مولانا فضل الرحمن کو جے یو آئی بنی بنائی ملی۔ مسلم لیگ کو پاکستان بنانے کا اعزاز تو حاصل ہے مگر جتنے گروپ مسلم لیگ میں بنے اور کامیاب بھی رہے۔
غیر سول آمروں نے جب بھی اقتدار سنبھالا انھوں نے اپنی مرضی کی مسلم لیگ بنوائی اور اقتدار میں شریک کیا۔ جنرل ایوب کی مسلم لیگ کنونشن کا تو کوئی وجود نہیں رہا۔ بھٹو کے بعد ان کی بیگم پی پی کی چیئرمین بنی تھیں۔ جنھیں فارغ کر کے بے نظیر بھٹو نے پارٹی سنبھال لی تھی جن کی شہادت کے بعد آصف زرداری ہی پیپلز پارٹی کے وارث تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بنے گا اور وہ خود چیئرمین بن گئے مگر پارٹی میں وہی اہم فیصلے کرتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں محمد خان جونیجو کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ بنوائی گئی جس کی حکومت تین سال ہی میں جنرل ضیا نے ختم کر دی تھی جو بعد میں جونیجو لیگ کہلائی جس کے نواز شریف سربراہ بنے جو اب (ن) لیگ کہلاتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ق) قائم کر کے اس کی حکومت بنوائی جس نے 5 سال حکومت کی اور اس کے تین وزیر اعظم رہے، اگر بے نظیر کی شہادت نہ ہوتی تو مسلم لیگ (ق) 2008 میں دوبارہ حکومت بناتی۔ (ق) لیگ کی سربراہی میاں اظہر اور چوہدری شجاعت کے پاس تھی اس کے حقیقی سربراہ جنرل پرویز مشرف ہی تھے۔ (ق) لیگ سکڑ کر چوہدریوں تک رہ گئی ہے۔ 
Tumblr media
پیر پگاڑا مرحوم کی بنائی ہوئی مسلم لیگ (ف) بھی وراثت میں موجودہ پیر پگاڑا کو ملی ہے جو سندھ کے چند اضلاع اور پگاڑا خاندان تک محدود ہے۔ مسلم لیگ کے سب سے زیادہ گروپ بنے اور (ن) لیگ اب نواز شریف کی سربراہی میں کام کر رہی ہے اور انھی کی مرضی اور پالیسی کے مطابق چلائی جا رہی ہے اب میاں صاحب نے اپنی بیٹی مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر بھی بنا دیا ہے۔ میاں صاحب کے بھائی شہباز شریف کی حکومت پر اب (ن) لیگ کے سینئر رہنما بھی تنقید کر رہے ہیں اور نواز شریف دو سال سے لندن میں بیٹھ کر اپنی مرضی کے فیصلے کر رہے ہیں اور (ن) لیگ اب باپ بیٹی کے گرد گھومتی ہے اور (ن) لیگ میں دکھاؤے کے الیکشن بھی نہیں کرائے جا رہے۔ پیپلز پارٹی میں بھی من مانیوں کا راج ہے جو اب بھٹو خاندان سے ختم ہو کر زرداری خاندان کی ذاتی جاگیر بن چکی ہے اور پی پی کے سینئر رہنماؤں پر 32 سالہ بلاول زرداری کی حکمرانی ہے کیونکہ وہ وراثتی چیئرمین ہیں۔ جے یو آئی کے پی کے، بلوچستان اور سندھ میں اہم سیاسی پارٹی ہے جو پنجاب میں اہمیت کی حامل نہیں اور کے پی کے سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں کام کر رہی ہے، جہاں دکھاؤے کے الیکشن ہوتے ہیں۔ جے یو آئی کے سینئر رہنماؤں نے بلوچستان میں جے یو آئی کا نظریاتی گروپ ضرور بنایا ہوا ہے۔
پی ٹی آئی عمران خان نے بنائی تھی اور پی پی اور (ن) لیگ سے نالاں اچھی شہرت کے حامل سیاستدانوں اور ممتاز وکلا نے عمران خان سے اچھی توقعات وابستہ کر کے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی مگر جب انھوں نے قریب جا کر عمران خان کی من مانیاں اور پارٹی میں آمریت دیکھی تو ان رہنماؤں نے پی ٹی آئی چھوڑنا شروع کر دی تھی جس کا عمران خان پر کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ ان کے اصول بدلتے رہے اور انھوں نے مخلص اور نظریاتی رہنماؤں کو نظرانداز کر کے دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگوں کو اہمیت دینا اور الیکٹیبلز رہنماؤں کو بالاتروں کی مدد سے پی ٹی آئی میں لینا شروع کر دیا تھا کیونکہ عمران خان ہر قیمت پر اقتدار چاہتے تھے۔ انھوں نے عوام سے جھوٹے وعدے کر کے انھیں سہانے خواب دکھائے، بالاتروں کو متاثر کر کے ان کی حمایت حاصل کی اور اقتدار میں آ کر جو من مانی کی وہ دنیا نے دیکھ لی۔ عمران خان بیانیے تبدیل کرنے کے ماہر نکلے اور ساری پارٹیوں میں قائدین کی من مانیاں جاری ہیں۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
apnabannu · 1 year
Text
مسلم لیگ ن نے ق لیگ کی دو وکٹیں اڑا دیں
http://dlvr.it/SnQnVH
0 notes
cryptoguys657 · 1 year
Text
پرویز الہی آج سے پی ٹی آئی کا حصہ ہیں: فواد چوہدری
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الہیٰ، مونس الہیٰ، حسین الہیٰ سمیت دیگر سابق اراکین صوبائی اسمبلی آج سے پی ٹی ائی کا حصہ ہوں گے۔ اس سے قبل منگل ہی کی شام مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق چوہدری پرویز الہی کی پارٹی رکنیت ختم کرکے انہیں پارٹی کے عہدے سے برطرف کر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
پرویز الہی آج سے پی ٹی آئی کا حصہ ہیں: فواد چوہدری
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الہیٰ، مونس الہیٰ، حسین الہیٰ سمیت دیگر سابق اراکین صوبائی اسمبلی آج سے پی ٹی ائی کا حصہ ہوں گے۔ اس سے قبل منگل ہی کی شام مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق چوہدری پرویز الہی کی پارٹی رکنیت ختم کرکے انہیں پارٹی کے عہدے سے برطرف کر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 7 months
Text
نواز شریف کی چوہدری شجاعت سے ملاقات، قومی و صوبائی اسمبلی کی 5 نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت کے درمیان ہونے والی ملاقات میں عام انتخابات کے دوران قومی و صوبائی اسمبلی کی 5 نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق ہوگیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات 40 منٹ تک جاری رہی جس میں ملکی سیاسی معاملات پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ نواز شریف نے چوہدری شجاعت کی مزاج پرسی کی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں الیکشن میں سیٹ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 1 year
Text
پرویز الہی آج سے پی ٹی آئی کا حصہ ہیں: فواد چوہدری
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الہیٰ، مونس الہیٰ، حسین الہیٰ سمیت دیگر سابق اراکین صوبائی اسمبلی آج سے پی ٹی ائی کا حصہ ہوں گے۔ اس سے قبل منگل ہی کی شام مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق چوہدری پرویز الہی کی پارٹی رکنیت ختم کرکے انہیں پارٹی کے عہدے سے برطرف کر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 9 months
Text
احتسابی ڈرامے آخر کب تک؟
Tumblr media
استحکام پاکستان پارٹی کے ایک رہنما نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’ کل تک‘‘ میں کہا ہے کہ ملک پر احسان کیا جائے اور الیکشن سے قبل ایک کڑا احتساب کیا جائے۔ الیکشن اور نیب کے کیسز سائیڈ بائی سائیڈ نہیں چل سکتے، اگر احتساب شروع ہوا ہے تو اچھی بات ہے اور اس کے چانسز بھی نظر آ رہے ہیں ایسا ہوا تو یہ ملک پر احسان ہو گا اور کڑے احتساب کی اشد ضرورت ہے۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے ایک سینیٹرکا کہنا تھا کہ الیکشن اور احتساب سائیڈ بائی سائیڈ بھی چل سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری احتساب کی تاریخ بڑی منتخب اور متعصب ہے۔ ملک میں عام انتخابات کے موقع پر جہاں آئین کے مطابق مقررہ مدت میں جلد الیکشن کرانے کا مطالبہ ہوتا ہے وہاں الیکشن سے قبل پہلے احتساب کرنے کے مطالبات بھی ہوتے ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کا موقف ہے کہ انتخابات دراصل احتساب ہی ہوتا ہے اور اپنے نمایندوں کا احتساب کر کے ہی انھیں ووٹ دینے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ احتساب کے ڈرامے ملک میں تین عشروں سے چل رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں 1999 تک کرپشن کے سنگین الزامات پر برطرف بھی ہوئیں مگر عوام نے 2008 اور 2013 میں تیسری بار اقتدار کے لیے منتخب کیا۔
نواز شریف حکومت میں وزیر اعظم نے اپنے خاص شخص کو پی پی رہنماؤں کے احتساب کے لیے مقرر کیا تھا جس کے احتساب کمیشن کو سیف الرحمن کمیشن کہا گیا جس کا سربراہ جنرل مشرف دور میں ملک سے فرار ہو گیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دور میں پی پی رہنماؤں کا احتساب یک طرفہ طور پر کرایا تو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آ کر نواز شریف، آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو سمیت دونوں پارٹیوں کے احتساب کے لیے نیب بنایا تھا جسے دونوں ہی پارٹیوں نے جنرل پرویز مشرف کا سیاسی انتقام قرار دیا تھا اور نیب کے احتساب کو یک طرفہ اور مکمل جانبدارانہ قرار دیا تھا اور اقتدار میں آ کر نیب کو ختم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ 2008 کے انتخابات کے بعد جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوانے کے لیے نیب کو کھل کر استعمال کیا اور پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان قومی اسمبلی کی پیٹریاٹ بنا کر پی پی رہنماؤں کو اہم وزارتیں دی تھیں پرویز مشرف اور پی ٹی آئی دونوں فوجی و سویلین حکومت میں نیب کو دوسری پارٹیوں کو توڑنے اور صرف سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا۔
Tumblr media
جنرل پرویز مشرف کے 2008 میں اقتدار سے ہٹنے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی دس سال تک حکومتیں رہیں مگر ان کے چاروں وزرائے اعظم کے دور میں نیب کو پی ٹی آئی کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا۔ حالانکہ پی ٹی آئی میں دونوں پارٹیوں کی حکومتوں میں رہنے والے وہ لوگ شامل تھے جن پر کرپشن کے الزامات تھے مگر نیب نے ان کے خلاف کارروائی کی ہی نہیں یا برائے نام کی۔ نیب کے سابق چیئرمین جاوید اقبال کا تقرر مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پی پی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی مشاورت سے کیا تھا جس کے کچھ عرصے بعد ہی پی ٹی آئی کی حکومت آگئی جس کے سربراہ انتقام پر یقین رکھتے تھے اور انھوں نے چیئرمین نیب کو اپنے ساتھ ملا کر ملک میں پی پی اور (ن) لیگ ہی نہیں بلکہ اپنے کسی غیر سیاسی مخالف کو بھی نہیں بخشا اور نیب کے ذریعے اپنے تمام مخالفین کو گرفتار کرایا اور سالوں قید رکھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت پر بعض ججزکی خصوصی عنایات رہیں اور انھوں نے بھی ملک میں ہونے والے یکطرفہ انتقامی احتساب پر توجہ دی نہ پی ٹی آئی حکومت نے سیاسی مخالفین کو ناحق طویل قید کے باوجود فوری ضمانتیں دیں مگر طویل قید کاٹنے کے باوجود نیب ان کے خلاف مقدمات میں کچھ کرپشن یا بے قاعدگی ثابت کر سکا، نہ کسی ایک کو سزا دلائی جا سکی اور وہ تمام ضمانتوں پر رہا ہوئے اور ان پر مقدمات اب بھی چل رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم خود ہی نیب اور منصف بھی بنے ہوئے تھے اور اپنے مخالفین کو گرفتار کرانے کے بیانات دیتے تھے جن پر نیب اور ایف آئی اے عمل کرتے تھے۔ سابق وزیر اعظم کی خواہش چیئرمین نیب پوری کرتے رہے جس پر اپوزیشن ان پر باہمی گٹھ جوڑکے الزامات لگاتی تھی مگر نیب مقدمات عدالتوں میں ثابت نہ کرسکی۔ سابق وزیر اعظم اپنے تمام سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو قرار دیتے رہے اور اپنے حامی کرپٹ لوگوں کی سرپرستی بھی کرتے رہے۔ ان کے دور میں نیب کو مخالفین کے خلاف بھرپور طور پر استعمال کیا اور مکمل من مانیاں کیں۔ توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کر کے کروڑوں روپے کمائے۔ اپنوں کو دل کھول کر نوازا جس کی سزا وہ اب خود بھی بھگت رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ملک میں کبھی منصفانہ احتساب نہیں ہوا بلکہ احتساب کے نام پر مخالفین کو رگڑا گیا۔ انھیں بدنام کیا گیا اور اپنے انتقامی احتساب سے ذاتی تسکین سے ملک کو نقصان پہنچایا گیا اور احتساب کے نام پر ڈرامے بازی کی گئی اور جھوٹ بولا گیا۔ ملک میں ہر دور میں ہر ادارے میں کرپشن ہوئی، سرکاری اختیارات کے ذریعے ملک کو لوٹا گیا، اقربا پروری اور بدعنوانوں کی سرپرستی کی گئی جب کہ ملک کو واقعی ایک بے رحمانہ اور منصفانہ احتساب کی ضرورت اور عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے جو اب تک پورا ہوا نہ ہو گا اور ماضی کی طرح احتساب کے نام پر ڈرامے ہوتے رہیں گے۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
shiningpakistan · 9 months
Text
قابل اعتماد اور عوام دوست رہنما ہے کون؟
Tumblr media
رواں برس پنجاب اور خیبرپختون خوا میں دو نئی پارٹیوں کے قیام کے بعد ایک نئی قومی سطح کی پارٹی کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی تو یہ خواہش ہے کہ نئی پارٹی ایسی ہو جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اقتدارکی خواہاں اور اپنے طور پر اقتدار کے حصول کے قابل ہو، جس پر عوام بھی اعتماد کر سکیں۔ نئی پارٹی کے قیام کے لیے سب سے اہم بات وہ شخصیت ہو جس کی سربراہی میں پارٹی وجود میں آئے۔ اب تک ملک میں اہم شخصیات نے پارٹیاں بنائیں نہ برسر اقتدار بالاتروں کی خواہش پر پارٹیاں بنائی گئیں اور تین آمر سربراہوں، ایوب خان دور میں مسلم لیگ کنونشن، جنرل ضیا دور میں پاکستان مسلم لیگ اور جنرل پرویز مشرف دور میں مسلم لیگ قائد اعظم بنائی گئی تھیں۔ تینوں کے نام مسلم لیگ پر تھے۔ مسلم لیگ کنونشن جنرل ایوب دور ہی میں ختم ہو گئی تھی جس کے بعد مسلم لیگ کے تین بڑے گروپ جونیجو، نواز اور چٹھہ میں تقسیم ہوئے اور صرف مسلم لیگ (ن) ہی کی شناخت باقی ہے۔ مسلم لیگ (ق) چند علاقوں تک محدود ہے جس کے سربراہ چوہدری شجاعت طویل عرصے سے بیمار ہیں جس سے پرویز الٰہی گروپ الگ ہو کر پی ٹی آئی میں جا چکا ہے جو 9 مئی کے بعد تین حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔
پیپلز پارٹی بغیر گروپنگ آصف زرداری اور بلاول بھٹوکی سربراہی میں قائم ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے (ش) نکالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی قیادت میں متحد ہے اور یہ تینوں پارٹیاں وفاقی اقتدار میں رہ چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور کچھ قیادت قید ہے اور اس کے برطرف کیے گئے وزیر اعظم کو ابھی بے شمار مقدمات کا سامنا ہے اور خوش فہمی کے شکار اس کے رہنماؤں کو امید ہے کہ قید چیئرمین کے باوجود پی ٹی آئی بھی 2018 کے قید نواز شریف کی طرح اپنی مقبولیت کے باعث پی ٹی آئی کو کامیابی دلا دیں گے مگر وہ یہ بھول گئے کہ نواز شریف پر بنائے گئے مقدمات کمزور تھے اور بالاتروں کی حمایت بھی انھیں حاصل نہیں تھی جب کہ قید چیئرمین پی ٹی آئی پر بعض مقدمات درست بھی ہیں اور بعض سنگین بھی اور انھیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر سزا نہیں ہوئی بلکہ بعض مقدمات انھیں سالوں قید میں رکھیں گے۔ قید چیئرمین کی پارٹی جس طرح بنوائی گئی تھی ویسے ہی وہ بکھر چکی۔ آیندہ انتخابات 1970 جیسے نہیں ہوں گے کہ بھٹو صاحب کے ٹکٹ پر کھمبا بھی جیت سکتا ہے مگر اس وقت بھٹو صاحب آزاد تھے اور صرف مغربی پاکستان کے دو صوبوں میں اکثریت لے سکے تھے۔
Tumblr media
چیئرمین پی ٹی آئی نہ صرف قید بلکہ سیاسی طور پر تنہا ہیں۔ ان کی پارٹی پر مال لگانے والے اپنی پارٹی بنا چکے۔ چیئرمین پی ٹی آئی دوسروں کے مال پر سیاست کے عادی رہے ہیں اور جو مال ان کے پاس ہے وہ اب ان کے مقدمات پر خرچ ہو رہا ہے اور انھیں مہنگے مہنگے وکیلوں کی خدمات معاوضے پر حاصل کرنا پڑ رہی ہیں اور اب صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی کروڑوں روپے خرچ کرنے پر ہی جیتا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی باریوں کے بعد پونے چار سال پی ٹی آئی کی حکومت بھی آزمائی جا چکی اور مختلف پارٹیوں میں موجود جو نمایاں چہرے ہیں وہ سب ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور ماضی سے حکمران رہنے والوں نے الیکشن میں جو وعدے کیے، پارٹی منشور دیے ان میں چیئرمین پی ٹی آئی واحد وزیر اعظم تھے جنھوں نے عوام سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ پی پی کہہ سکتی ہے کہ اس نے لوگوں کو روزگار دیا، (ن) لیگ کہہ سکتی ہے کہ اس نے 2018 تک ملک کو اندھیروں سے نکال کر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ پورا کیا تھا مگر پی ٹی آئی کے پاس صرف مظلومیت کی دہائی کے سوا کچھ نہیں ہو گا اور نواز شریف بھی کہیں گے کہ ان کی تینوں حکومتیں اچھی کارکردگی کے باوجود ختم کی گئیں اور انھیں ناحق قید رکھا گیا تھا۔
مسلم لیگ ن کے اس موقف میں کسی حد تک وزن بھی موجود ہے کیونکہ عوام نے دیکھا ہے کہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ تقریباً ختم ہو گئی تھی‘ اس کے علاوہ ملک کی کاروباری صورتحال بھی خاصی بہتر تھی‘ مڈل کلاس طبقے کے لیے اتنی مشکلات پیدا نہیں ہوئی تھیں جتنی کہ آج یہ طبقہ برداشت کر رہا ہے۔ تعمیراتی کام بھی زیادہ ہو رہے تھے جس کا اثر بھی معاشی سرگرمیوں میں تیزی آنے کا سبب بنا۔ عوام مہنگائی کے جس عذاب میں مبتلا ہیں اس کی ذمے دار تینوں سابق حکمران جماعتیں ہیں اور ان پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں اور تینوں کی قیادت نے جیلیں بھی بھگتی ہیں اور خود کو بھی مالی طور پر مستحکم کیا ہے۔ عوام مہنگائی، کرپشن اور سابق حکمرانوں کی کارکردگی سے مایوس ہو کر کسی نئی پارٹی کے منتظر نہیں بلکہ اسی جان لیوا مہنگائی سے چھٹکارا چاہتے اور تینوں بڑی پارٹیوں کو آزما چکے اور پرانے حکمرانوں سمیت اب کسی نئی پارٹی کے نئے دعوؤں میں آنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان کا مسئلہ کسی پارٹی کا اقتدار نہیں بلکہ انھیں درپیش مالی مسائل ہیں۔
ملک میں اب کوئی ایسی قومی شخصیت موجود نہیں جس کی قیادت میں نئی پارٹی بن سکے۔ نئی پارٹی کے خواہش مندوں میں کوئی بھی قومی اہمیت کا حامل نہیں۔ مفتاح اسمٰعیل نے اپنی وزارت میں عوام کو نظر انداز کیا۔ ہنس ہنس کر پٹرول بڑھاتے اور عوام پر ٹیکس نہ دینے کا الزام لگاتے رہے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کبھی صوبائی الیکشن تک نہیں لڑا۔ ملک میں چینی کی مہنگائی کا ذمے دار بعض سیاستدانوں کو سمجھا جاتا ہے اور ان کی پارٹی میں وہ تمام لوگ ہیں جو پی ٹی آئی میں تھے اور پنجاب تک محدود ہیں۔ پرویز خٹک کی سیاست کے پی کے چند اضلاع تک محدود ہے اور یہ سب چیئرمین پی ٹی آئی کے وفادار اور ان کے اشاروں پر چلا کرتے تھے انھیں اب عوام کا خیال آیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا جہاں تک معاملہ ہے تو یاد رکھیں کہ نئی پارٹی کثیر سرمائے کے بغیر بن نہیں سکتی اور اب الیکشن کروڑوں کا کھیل بن چکے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں میں کوئی ایک بھی عوام دوست ثابت نہیں ہوا سب کے دعوے جھوٹے تھے۔ ہر پارٹی نے عوام کو مایوس کیا کوئی ایک رہنما قومی لیڈر ہے، نہ عوام میں مقبول تو نئی پارٹی کون بنائے گا؟
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistanpolitics · 1 year
Text
کیا ن لیگ اپنی طبعی عمر پوری کر چکی؟
Tumblr media
شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق اور مفتاح اسماعیل کے بدلتے تیور کیا اس بات کی علامت ہیں کہ موروثیت کا سرطان مسلم لیگ ن کو گھائل کر چکا اور اس کی طبعی عمر پوری ہو چکی؟ حزب اختلاف کا دور مسلم لیگ ن نے دلاوری سے گزارا لیکن اقتدار میں آئے ایک سہ ماہی نہیں گزری کہ اس کی صفوں میں اب ان رہنماؤں کا دم بھی گھٹنے لگا ہے جو عشروں پورے قد اور سارے حوصلے کے ساتھ مسلم لیگ ن کا حصہ رہے۔ شاہد خاقان عباسی الجھے الجھے سے پھر رہے ہیں، سعد رفیق جیسا آدمی دہائی دیتا ہے کہ موروثیت نے اس کا دل توڑ دیا ہے اور مفتاح اسماعیل معاشی پالیسی سے اختلاف کرتے ہیں تو انہیں ’جوکر‘ کا طعنہ دیا جاتا ہے؟ نجی معاملات اور پرائیویٹ لمیٹڈ قسم کے بندوبست میں خدام اور مشقتیوں کے ساتھ تو اس طرح کے بے نیازی اور تند خوئی گوارا کی جا سکتی ہو گی لیکن کیا ایک سیاسی جماعت اپنے کارکنان اور رہنماؤں کے ساتھ اس رویے کی متحمل ہو سکتی ہے؟
کہنے کو اسے سازش سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد، ہم خیال، پیٹریاٹ، ق لیگ اور تحریک انصاف جیسے تجربات کے بعد اس تجربہ گاہ میں تمام سیاسی جماعتوں سے ’نیک نام‘ لوگ اکٹھے کر کے ایک نیا تجربہ کیا جا رہا ہے لیکن فی الوقت اس کا یقین کرنا مشکل ہے۔ سعد رفیق کا تو معلوم نہیں لیکن شاہد خاقان عباسی ایسے کسی تجربے کی بھینٹ کیوں چڑھیں گے؟ انہوں نے ایسا کچھ کرنا ہوتا تو تجربہ گاہ میں انہیں بہت پہلے بہت سازگار ماحول میسر تھا۔ تب وہ ہلکا سا التفات کرتے اور سارے موسم ان پر سازگار ہو جاتے۔ لیکن انہوں نے نیب کی قید کاٹی اور جرات سے کاٹی۔ مسلم لیگ ن سے سعد رفیق کا تعلق بھی معمولی نہیں۔ ایک فعال وزیر رہے، ریلوے کو کھڑا کیا اور نیک نامی کمائی۔ اگرچہ ایک زمانے میں ان کے تحریک انصاف سے رابطوں کی کہانیاں عام ہوئیں لیکن ان کی صداقت کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ دور ابتلا میں بھی اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔
Tumblr media
مفتاح اسماعیل کو ن لیگ نے اس وقت متبادل معاشی مینیجر کے طور پر پیش کیا جب عمران خان کو حکومت سے الگ کر کے اقتدار سنبھالا گیا۔ پھر یہ کیا قصہ ہے کہ ایک دو ماہ میں وہ اتنے معتوب ہو گئے کہ شریف خاندان کے وہ نوجوان ان کی تضحیک کر رہے ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق ہے نہ ان کے پاس کوئی منصب ہے؟ یہ تینوں رہنما آج گریزاں گریزاں سے پھرتے ہیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ پارٹی میں ہر اس شخص کے لیے ماحول اجنبی ہوتا جا رہا ہے جو عقل پر عقیدت کی برتری کا قائل نہ ہو۔ سیاسی جماعتوں میں یہ رویہ ایک حد تک گوارا ہوتا ہے لیکن پھر ایک وقت آتا ہے، اس پر رد عمل آتا ہے۔ مسلم لیگ ن پر وہی وقت آ چکا ہے، آثار بتا رہے ہیں اس کی طبعی عمر تمام ہو چکی۔مسلم لیگ ن کے پاس کارکنان کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی رومان باقی نہیں رہا۔ جو پارٹی سیاست میں رومان برقرار نہ رکھ سکے وہ فعل ماضی بن جاتی ہے۔ اس کے پاس ایسا کوئی پروگرام بھی نہیں جو نوجوانوں کو اس کی طرف راغب کر سکے۔ پرانی عصبیت برف کے باٹ کی صورت دھوپ میں پڑی ہے اور نیا خون پارٹی میں شامل نہیں ہو رہا۔ ایسے میں انجام جاننے کے لیے آئن سٹائن کی ضرورت ہے نہ ابن خلدون کی۔
مسلم لیگ کی سب سے بڑی قوت اس کی معاشی استعداد تھی۔ ایک تاثر تھا کہ یہ جیسی بھی ہے معیشت کو سنبھال لے گی۔ یہ تاثر بھی بکھر چکا ہے۔ عمران کو ہٹانے کے بعد کوئی ایک کام ایسا نہیں کیا جا سکا جس سے عوام کو کچھ ریلیف ملا ہو۔ مسلم لیگ ن کی مبلغ معاشی مہارت کوئی دانش اجتماعی یا ادارہ سازی نہیں تھی صرف اسحاق ڈار تھے۔ معلوم نہیں وہ کہاں ہیں۔ ان کی معاشی پالیسیوں پر مفتاح اسماعیل کو بھی اعتماد نہیں، عوام کیسے کریں؟ اس کی قوت کا مرکز پنجاب تھا۔ پرویز الہی نے اعتماد کا ووٹ لے کر اس مرکز کے طلسم میں بھی شگاف ڈال دیا ہے کے پی، بلوچستان اور سندھ میں پہلے ہی مسلم لیگ ن کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب میں بھی سمٹ گئی تو اس کا مستقبل کیا ہو گا ؟ مسلم لیگ ن اگر ایک سیاسی جماعت ہے تو اسے ان پہلوؤں پر توجہ دینا ہو گی لیکن اگر وہ محض ایک موروثی بندوبست ہے توپھر اسے معلوم ہونا چاہیے وقت کا موسم بدل چکا ہے۔ نئے موسم موروثیت کو راس نہیں آئیں گے۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
cryptosecrets · 1 year
Text
چوہدری شجاعت نے پرویز الہیٰ کو پارٹی سے نکال دیا، رکنیت ختم
 لاہور / اسلام آباد: مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے پرویز الہیٰ کی پارٹی رکنیت ختم کردی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق چوہدری شجاعت حسین نے پرویز الہیٰ کی پارٹی آئین 2006 کے تحت بنیادی رکنیت ختم کی اور اعلان کیا کہ پرویز الہیٰ کو جتنے بھی عہدے دیے گئے انہیں کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ چوہدری شجاعت نے کہا کہ پرویز الہیٰ آئندہ کسی بھی لحاظ سے خود کو مسلم لیگ ق سے منسلک نہ کریں کیونکہ اُن کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
toptopic4u · 1 year
Text
عام انتخابات وقت پر ہوتے نظر نہیں آ رہے، چوہدری شجاعت
پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا کہنا ہے کہ انہیں ملک میں عام انتخابات وقت پر ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ق کے صدر اور سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ملک میں عام انتخابات اپنے وقت پر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں جب کہ ابھی تو انتخابات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سینیئر سیاستدان نے مشورہ دیا کہ تمام جماعتیں معاشی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 1 year
Text
مونس الٰہی کے کزن کو گجرات سے اٹھا لیا گیا
لاہور : مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنما مونس الہٰی نے کہا ہے کہ میرے کزن کو راستے سے اٹھالیا گیا ہے، ان کے بارے میں ایف آئی اے اور قومی احتساب بیورو بھی کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنما اور چوہدری پرویزالہٰی کے صاحبزادے مونس الہٰی نے ٹوئٹر پیغام میں بتایا ہے کہ میرے کزن ضیغم گوندل کو گجرات سے منڈی بہاءالدین جاتے ہوئے راستے سے اٹھالیا گیا ہے۔ میرا کزن ضیغم گوندل آج…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes