Tumgik
#نامزد انتخابات
roya422 · 3 months
Text
نقش شبکه اجتماعی در تعاملات تبلیغاتی
شبکه اجتماعی جز پرقدرت‌ترین ابزارهایی است که می‌تواند تاثیر زیادی در بین مخاطبان شما داشته باشد. هر چقدر بتوانید از این فضا استفاده بهتری داشته باشید، بهتر می‌توانید برنامه‌های خود را به پیش ببرید.
شما اگر قصد دارید به عنوان نامزد انتخاباتی فعالیت کنید، توصیه می‌کنیم که از همین ابتدا شروع به راه‌اندازی پیج مخصوصی کنید تا زمان انتخاباتی بتوانید راه‌اندازی آن را تا حد زیادی به سرانجام برسانید. شما اگر بتوانید در زمان مناسبی پیج خود را راه‌اندازی کنید، در واقع کار خود را راحت‌تر کرده و می‌توانید نظر بسیاری از افراد را به خود جلب کنید.
برای ارتقاء پیج می‌توانید به راحتی از سایت دیجی فالوور اقدام به خرید فالوورها کنید. سایت دیجی فالوور برای ارتقا پیج شما روش‌های مناسبی چون خرید لایک و خرید بازدید را دارد. شما با داشتن یک پیج قوی با سرعت بیشتر از آن چیزی که فکر می‌کنید، می‌توانید در این زمینه با موفقیت عمل کنید.
برای دیدن ادامه مطالب به سایت دیجی فالوور مراجعه کنید .
2 notes · View notes
humansofnewyork · 8 months
Photo
Tumblr media
(20/54) “Dr. Ameli helped me open a party office. He was an established man by then. But he took the time to come to Nahavand, and I’ll never forget the speech that he gave. He said: ‘Now it is winter, the rivers are frozen, the trees are all dead. But soon green sprouts will burst from the soil. The air will fill with the songs of nightingales. And together we will say: 'Spring has arrived.'” There were over one hundred villages in Nahavand, and I made the decision to visit every single one. My father loaned me his jeep, and I would spend all day on the road. Most villages had a central square, and that is where I would speak. I was a practicing Muslim; I knew the Koran front-to-back. But I never spoke about religion. I spoke about what needed to be done: better roads, better schools, fresh water. I spoke about justice. Daad. About an Iran where every person got their fair share. And I spoke about freedom. Azadi. I told them: ‘The king should not choose your candidates. All of Iran should be your candidates.’ In the first few villages only a handful of people came to my speeches. It was not customary for candidates to speak directly to the voters. My two opponents stayed in their homes and held fancy parties with their friends. But as I continued to speak, word began to spread. More people came, and then those people would go tell others. I’d always give my speeches around 6 pm. Some of the stores began to close early, so that the shopkeepers could attend. At first it was just a few. But by the end of my campaign, every single shop would close. The moment my jeep pulled into town, it would be met by cheering crowds. Hundreds of people would gather around to hear me. People as far as the eye could see. On the day of the vote I took the jeep for one final trip around Nahavand. I remember seeing young women, with babies on their breast, going to cast their vote. Later that night the results were announced on television. Early in the day people began to gather around my father’s house. When the vote was announced, the crowd erupted into cheers. Each of my opponents had gotten two thousand votes. I received over twenty thousand.”
 دکتر عاملی برای گشایش دفتر حزب به نهاوند آمد. او بزرگمردی ستودنی بود. سخنرانی او را فراموش نکرده‌ام.‌ گفت: «اکنون زمستان است، آب‌ها یخ بسته‌اند، درختان مرده‌اند. پرندگان رفته‌اند، برگ و باری و نغمه و آهنگی نیست ولی به زودی جوانه‌های سبز درفش‌هایشان را از دل خاک برخواهند افراشت. آوای بلبلان آسمان را پر خواهد کرد. و همه با هم خواهیم گفت: بهار آمد!» بر آن شدم تا با مردمانی از بیش از یک‌سد روستای نهاوند گفت‌وگو کنم. پدرم جیپش را در اختیارم نهاد و من روزها را در راه و روستا می‌گذراندم. درمیدان روستا با من آشنا می‌شدند و سخنانم را می‌شنیدند. با آنکه مسلمانی باورمند بودم هرگز درباره‌ی دین سخن نگفتم. سخن من تنها در زمینه‌ی کارهایی بود که باید انجام می‌گرفت: راه‌های بهتر، دبستان‌های بهتر، آب آشامیدنی پاکیزه و دیگر بایسته‌های ویژه‌ی هر روستا. درباره‌ی عدالت سخن می‌گفتم. درباره‌ی ایرانی که در آن همه به حق خود برسند و درباره‌ی آزادی. به آنها می‌گفتم: «دولت نباید نامزدهای شما را انتخاب کند. هر ایرانی باید بتواند خود را نامزد کند، رأی شماست که او را برمی‌گزیند!» در نخستین روزها تنها تنی چند برای شنیدن سخنانم می‌آمدند. گفت‌وگوی رو در رو با رأی‌دهندگان امری نا‌آشنا بود. رقیبانم در خانه‌های خود می‌ماندند و با دوستانشان مهمانی‌هایی برگزار می‌کردند. من به دیدار‌هایم ادامه دادم و خبر در میان مردم پخش می‌شد. هر روز که می گذشت، مردم بیشتری می‌آمدند و دیگران را باخبر می‌کردند. همیشه سخنرانی‌هایم را در میدان شهر حدود ساعت ۶ عصر برگزار می‌کردم. کاسبان فروشگاه‌ها‌یشان را زودتر می‌بستند تا بتوانند در سخنرانی‌هایم باشند. نخست شمارشان اندک بود ولی در روزهای پایانی کارزار انتخاباتی من، فروشگاه‌هایشان را زودتر می‌بستند. هنگامی که جیپ من وارد شهر می‌شد، جمعیتی هوراکشان به پیشباز می‌آمدند. کسانی از راه های دورتر می‌رسیدند تا سخنانم را بشنوند. تا جایی که چشمم کار می‌کرد مردم ایستاده بودند. در روز انتخابات با جیپ پدرم به چندین روستا سرکشیدم. به یاد دارم که زنان جوان با کودکی در آغوش به سوی صندوق های رأی در راهند. در واپسین ساعت‌های آن شب نتیجه‌ از تلویزیون پخش می‌شد. مردم کم کم پیرامون فرمانداری که به خانه‌ی پدرم هم نزدیک بود گرد می‌آمدند. هنگامی که نتیجه اعلام شد همه از شادی فریاد کشیدند. هر یک از رقیبان من دو هزار رأی آورده بودند. من بیش از بیست‌ هزار
173 notes · View notes
risingpakistan · 3 months
Text
عام انتخابات اور عوامی لاتعلقی
Tumblr media
عام انتخابات کے انعقاد میں گنتی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی بات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔ 
اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد امیدواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔
Tumblr media
انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔ 
میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔
ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
saeeddaily · 4 days
Text
انتخابات سراسری ترکیه (۲۰۲۳)
انتخابات ریاست‌جمهوری و پارلمانی ترکیه در ۱۴ مه ۲۰۲۳ (۲۴ اردیبهشت ۱۴۰۲) برگزار شد، دور دوم انتخابات ریاست جمهوری ترکیه در ۲۸ مه ۲۰۲۳با حضور دو نامزد ریاست جمهوری که بیش‌ترین رای را کسب کردند بین رجب طیب اردوغان و قلیچدار اوغلو برای تعیین رئیس‌جمهور برگزار شد
0 notes
airnews-arngbad · 5 days
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 24 April-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ:  ۲۴؍ اپریل  ۲۰۲۴ء؁
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
                پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
                ٭             پارلیمانی انتخابات کے د وسرے مرحلے کی تشہیری مہم آج ختم ہوگی؛ 26 اپریل کو ر ائے دہی۔
                ٭             مہایوتی اور مہاوِکاس اگھاڑی کے سرکردہ قائدین کی جانب سے تشہیری مہم تیز ۔
                ٭             چوتھے مرحلے کے انتخابات کیلئے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کا کل آخری دن ؛ جالنہ سےمہایوتی کے امیدوار راؤ صاحب دانوے کا امید واری پرچہ د اخل۔
اور۔۔۔٭     مراٹھواڑہ میں کل بجلی گرنے سے تین افراد کی موت ۔
***** ***** *****
                اب خبریں تفصیل سے:
                 پارلیمنٹ کے عام انتخابات کے دوسرے مرحلے کی تشہیری مہم کا آج آخری دن ہے۔ اس مرحلے میں 26 تاریخ کو رائے دہی کی جائےگی۔ ان میں ریاست کے ہنگولی، ناندیڑ، پربھنی، بلڈانہ، امراوتی، اکولہ، وردھا او ر ایوت محل-واشم پارلیمانی حلقے شامل ہیں۔ ان تمام انتخابی حلقوں میں سبھی سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما اور قائدین انتخابی تشہیر ی جلسے کر رہے ہیں۔
                بی جے پی رہنما اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کل اکولہ میں عظیم اتحا د کے امیدوار اَنوپ دھوترے کے تشہیر ی جلسے سے خطاب کیا۔ اس موقع پر انہوں نے وضاحت کی کہ ملک میں کوئی بھی حکومت درج فہرست ذاتوں اور قبائل سمیت دیگر پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کو ختم نہیں کر سکے گا۔ امت شاہ آج امراوتی میں عظیم اتحاد کی امیدوار نونیت رانا کیلئے بھی تشہیری جلسوں سے خطاب کریں گے۔
                وزیر اعلیٰ اور شیوسینا کے سربراہ ایکناتھ شندے نے کل پربھنی ضلعے کے پاتھری میں عظیم اتحا د کے امید وار مہادیو جانکر کیلئے تشہیر ی مہم چلائی۔ اس دوران انھوں نے کہا کہ وہ بلالحاظِ مذہب و ملت او ر ذات پات کی تفریق کیے بغیر راستوں پر اُترکر ترقیاتی کام کر رہے ہیں۔ بی جے پی رہنما اورمرکزی وزیر بھاگوت کراڑ نے بھی کل پربھنی شہر میں پیدل ریلی نکال کر مہادیو جانکر کے حق میں تشہیر کی۔
                کانگریس پارٹی کے ریاستی صدر نانا پٹولے نے کل ناندیڑ میں مہاوکاس اگھاڑی کے امیدوار وسنت راؤ چوان کی تشہیری مہم کے تحت ناڑیشور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا‘ جبکہ شیوسینا ادھو بالاصاحب ٹھاکرے پارٹی کے صدر ادھو ٹھاکرے نے کل پربھنی میں مہا وِکاس اگھاڑی کے امیدوار سنجے جادھو کے تشہیری جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بی جے پی کو تنقید کا نشا نہ بنایا اور کہا کہ بی جے پی کے پا س بولنے کیلئے کوئی موضوع نہیں ہے اس لیے وہ ہماری خاند انی سیاست پر اعتر اض کررہی ہے۔
***** ***** *****
                پارلیمانی انتخابات کے چوتھے مرحلے کیلئے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کی مہلت کل 25 تاریخ کو ختم ہورہی ہے او ر 26 تاریخ کو موصولہ امیدواری پرچوں کی جانچ ہو گی جبکہ 29 تاریخ تک امیدواری عریضے واپس لیے جا سکیں گی۔ چوتھے مرحلے میں اورنگ آباد، جالنہ، بیڑ، نندوربار، جلگاؤں، راویر، ماول، پونے، شرور، احمدنگر اور شرڈی پارلیمانی حلقے شامل ہیں۔
***** ***** *****
                جالنہ حلقۂ انتخاب سے عظیم اتحاد کے امیدوار راؤ صاحب دانوے نے کل اپنا امید واری پرچہ داخل کیا۔ اس حلقے میں اب تک 10 امیدواروں نے 16 کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ گزشتہ روز 11 خواہشمندوں نے 24 امیدو ار ی پرچے حاصل کیے جبکہ مجموعی طور پراب تک 88 امیدواروں نے 210 کاغذات نامزدگی حاصل کیے ہیں۔
                اورنگ آباد پارلیمانی حلقہ میں کل گیارہ امیدواروں نے اپنے امید واری عریضے جمع کیے۔ ان میں بھارتیہ یوا جن ایکتا پارٹی کے رویندر بوڑکھے، بہوجن مہا پارٹی کی امیدوار منیشا عرف مندا کھرات اور دیگر آزاد امیدوار شامل ہیں۔ اسطرح اب تک اورنگ آباد حلقۂ انتخاب میں  19 امیدواروں نے 27 کاغذاتِ نامزد گی داخل کیے ہیں۔
                بیڑ لوک سبھا حلقے میں کل پانچ خواہش مندو ں نے بطورِ آزاد امیدوار اپنے پرچۂ نامزدگی داخل کیے۔ اب تک اس حلقے میںمہاوکاس اگھاڑی کے بجرنگ سونونے سمیت 15 امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے ہیں۔ اسی طرح اس حلقے میں گزشتہ روز 14 امیدواروں کی جانب سے 35  امیدواری پرچے حاصل کرنے کی اطلاع ہمارے نمائندے نےدی ہے۔
                 احمد نگر لوک سبھا حلقے سے راشٹروادی کانگریس شرد چندر پوار پارٹی کے امیدوار نیلیش لنکے نے کل اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا۔
***** ***** *****
                ناگپور پارلیمانی حلقے سے عظیم اتحاد کے امیدوار نتن گڈکری کی تشہیری ریلی میں اسکولی طلبہ کی شرکت سے متعلق متعلقہ اسکولوں کے ڈ ائریکٹر وں کیخلاف کارروائی کے ا��کامات دئیے گئے ہیں۔انتظامِ عامہ محکمے نے اس معاملے میں ناگپور کے محکمۂ تعلیم کے افسران کو آگاہ کیا ہے۔ دریں اثنا اس معا ملے میں گڈکری کے خلاف کب کارروائی ہوگی اس طرح کا سو ال کانگریس ترجمان اَتل لونڈھے نے کیا ہے۔
***** ***** *****
                بارامتی لوک سبھا حلقۂ انتخاب میں ایک آزاد امیدوار کو ’’بگل‘‘ انتخابی نشان دینے سے متعلق راشٹروادی کانگریس شردپوار گر وپ نے مرکزی انتخابی کمیشن سے شکایت کی ہے۔ راشٹرواد ی کانگریس شرد پوار کو انتخابی کمیشن نے بگل بجانے والا آدمی نشان دیا ہے۔ بار امتی لوک سبھا حلقۂ انتخاب میں اس پارٹی کی ا میدوار سپر یہ سولے بھی اسی نشان پر انتخاب لڑرہی ہیں۔ اس حلقے میں د وسرے امیدوار کو کمیشن نے بگل انتخابی نشان دینے سے متعلق پارٹی نے ناراضگی ظاہر کی ہے، جبکہ کمیشن نے یہ اعتراض خارج کردیا ہے۔
***** ***** *****
                ریاست کے پارلیمانی انتخابی حلقوں کے امیدواروں کی معلومات‘ انتخابات میں حصہ لینے کے ان کے مقصد اور مقامی سیاست کا جائزہ لینے کیلئے آکاشوانی نے ایک پروگرام ’’لوک نِرنئے مہاراشٹراچا‘‘ شروع کیا ہے ۔اس پروگرام کی آج کی قسط میں سانگلی لوک سبھا حلقے کا جائزہ پیش کیا جائےگا۔ شام سوا سات بجے یہ پرو گر ام ممبئی آکاشوانی مرکز سے نشر کیا جائے گا۔
ؕ***** ***** *****
یہ خبریں آکاشو انی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں۔
***** ***** *****
                چھترپتی سمبھاجی نگر، بیڑ، جالنہ اور ہنگولی ضلعوںمیں کل غیر موسمی بارش ہوئی۔ اس د و ر ان بجلی گرنے سے چھترپتی سمبھاجی نگر ضلعے میں دو اور ناندیڑ ضلع میں ایک شخص کی موت ہو گئی۔ کنڑ تعلقہ کے موضع رِٹھی میں راؤ صاحب نیل نامی جواں سال مزدور کی موت واقع ہوئی‘ جبکہ اجنتا میں طوفانی بارش سے بچنے کیلئے درخت کے نیچے ٹھہرے ہوئے کسان پر بجلی گرنے سے اس کی موت ہو گئی۔ اسی طرح ناندیڑ ضلعے کے کنوٹ تعلقہ کے اِرےگاؤں میں ایک شخص بجلی کے سبب ہلاک ہوگیا۔ ضلعےکے کئی علاقو ں میں پیر کی شب بھی ژالہ باری کے ساتھ غیر موسمی بارش ہوئی تھی۔
***** ***** *****
                ریاست میں مختلف مقامات پر مذہبی یاتر ائوں عقیدت مندو ں کی بھیڑ کو مدِنظر رکھتے ہوئے محکمۂ اغذیہ و ادویات نے اشیائے خو رد و نوش میں ملاوٹ کی جانچ مہم شر وع کی ہے۔ کل اس مہم کے د ور ان ناسک ضلع میں واقع مشہور شکتی پیٹھ وَنی میں دو ہزار کلو ملاوٹ شدہ مٹھائی ضبط کی گئی۔ اس مٹھائی کی قیمت تقریباً پانچ لاکھ 83 ہزار روپے ہونے کی وضاحت اس سے متعلق خبر میں کی گئی ہے ۔ سپت شرنگی قلعے کے روپ وے کامپلیکس علاقے میںواقع دکانوں پر یہ کارروائی کی گئی۔
***** ***** *****
                بیڑ پارلیمانی انتخابی حلقے کی انتخابی افسر دیپا مدھوڑ منڈے کا انٹرویو آج صبح گیارہ بجے آکاشوانی بیڑ مرکز سے نشر کیا جائے گا۔ اس انٹرویو میں ضلع انتخابی افسربیڑ پارلیمانی حلقے میں انتخابات کے سلسلے میں انتظامیہ کی جانب سے کی گئی تیاریوں، ر ائے دہی فیصد کو بڑھانے کیلئے ضلع انتظامیہ کی مختلف بیداری سرگرمیوں کے بارے میں معلومات دیں گی۔
***** ***** *****
                دھاراشیو میں کل بیداریِ رائے دہندگان سائیکل ریلی نکالی گئی اور تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ ضلع کلکٹر سچن اومباسے کے ہاتھوں دونوں ہی پر وگراموں کا افتتاح عمل میں آیا۔ اسکولی طلبہ کی سائیکل ریلی نے پورے شہر میں گشت کرتے ہوئے عو ام سے را ئے دہی کرنے کی اپیل کی۔ ضلع میں رائے دہندگان کو حقِ رائے دہی سے متعلق بیدار کرنے کیلئے ہر اسکول کے طلبہ اپنے سرپرستوں کو جذ باتی خط لکھ کر را ئے دہی کرنے کی اپیل کررہے ہیں‘ اسی طرح انسانی زنجیر بناکر ا ور نکڑ ناٹک جیسی سرگرمیوں کے ذریعے حقِ رائے دہی کا پیغام دیا جارہا ہے۔
***** ***** *****
                انسپکٹر جنرل آف الیکشنز نرنجن کمار نے غیر جانبدار انہ اور خوف سے پاک ماحول میں پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کیلئے سبھی سے تعاون کرنے کی اپیل کی ہے۔وہ کل لاتور ضلع کلکٹر دفتر میں امیدو ار وںکے اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر انتخابی اخراجا ت شعبہ کے انسپکٹرسنجیب بینرجی نے امید واروں کو متعلقہ رجسٹر میں اپنے انتخابی اخراجا ت کا اندراج کرنے کی ہدا یت دی۔
***** ***** *****
                بزرگ ادیب رشی کیش کامبڑے نے خیال ظاہر کیا ہے کہ انسانی دنیا کتابوں کی معرفت پہچانی گئی ہے۔کل عالمی یومِ کتاب کے موقع پر چھترپتی سمبھاجی نگر میں مرا ٹھواڑہ سا ہتیہ پریشد کے ہال میں وہ خصوصی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ پریشد کے صدر کوتِک رائو ٹھالے پاٹل نے مراٹھی کتب کی تفصیلی تار یخ بیان کی۔ اس کے بعد پروفیسر مہیش کھرات کی صدارت میں منعقدہ مشاعرہ میں 15  شاعروں نے اپنی اپنی تخلیقات پیش کیں۔
***** ***** *****
                جالنہ میں ضلع کلکٹر ڈاکٹر شری کرشن پانچاڑ کی صدارت میں کل قبل از خریف ہنگام کا جائزاتی اجلاس منعقد ہوا۔ اس موقع پر انہوں نے کسانوں کو بیج، کھاد اور دیگر زرعی اشیاء بروقت اور معقول مقدار میں فراہم کرنے کیلئےمنظم منصو بہ بندی کرنے کی ہدایت کی۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
                آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
                ٭             پارلیمانی انتخابات کے د وسرے مرحلے کی تشہیری مہم آج ختم ہوگی؛ 26 اپریل کو ر ائے دہی۔
                ٭             مہایوتی اور مہاوِکاس اگھاڑی کے سرکردہ قائدین کی جانب سے تشہیری مہم تیز ۔
                ٭             چوتھے مرحلے کے انتخابات کیلئے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کا کل آخری دن ؛ جالنہ سےمہایوتی کے امیدوارراؤ صاحب دانوے کا امید واری پرچہ د اخل۔
اور۔۔۔٭     مراٹھواڑہ میں کل بجلی گرنے سے تین افراد کی موت ۔
***** ***** *****
                اس کے ساتھ ہی علاقائی خبریں ختم ہوئیں۔
                 ان خبروں کو آپ AIR چھترپتی سمبھاجی نگر یوٹیوب چینل‘ پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
***** ***** *****
0 notes
bornlady · 2 months
Text
آرایشگاه زنانه جردن تهران : بل تنسی و اورت از ماساچوست را نامزد کردند. طرفداران این برگه اخیر پیشنهاد کردند که هر موضوع دیگری را غرق کنند و از "اتحادیه، قانون اساسی و اجرای قوانین" حمایت کنند. در انتخابات سال 1860، لینکلن و هملین اکثریت آرای مردمی را در تقریباً تمام ایالت‌های شمالی به دست آوردند و تنها با آن رأی اکثریت آرای کالج‌های انتخاب‌کننده را به دست آوردند. رنگ مو : اما آنها تقریباً فاقد آن بودند از دریافت اکثریت آرای عمومی مردم ایالات متحده. در این انتخابات، مردم جنوب در مخالفت خود با لینکلن و هاملین اتفاق نظر داشتند، اگرچه نسبت به سایر نامزدها اختلاف نظر داشتند، چند هزار رأی داده شده در مرز برای بلیت جمهوری خواهان، توسط مردان شمالی که از آن سوی خط مهاجرت کرده بودند، داده شد. آرایشگاه زنانه جردن تهران آرایشگاه زنانه جردن تهران : به کسری بسیار ناچیز می رسد. این اولین بار در تاریخ دولت بود که یک کاندیدای صرفاً مقطعی انتخاب می شد و این کار صرفاً بر اساس مسائل مقطعی انجام می شد. این نتیجه وضعیت نگران کننده ای را نشان داد و این واقعیت را توسعه داد که تحت یک شکل جمهوری خواه از دولت فدرال، با حق رای تقریباً همگانی، برای یک اقلیت کاملاً عملی بود که در مسائل مقطعی مالکیت دولت را در اختیار داشته باشند. لینک مفید : سالن آرایشگاه زنانه شاید به طور دائم آن را کنترل کنند. پیش از این، روسای جمهور با رای اقلیت مردم انتخاب شده بودند، اما این در مورد مسائل ملی بود و حمایت نامزد موفق به بخش خاصی محدود نمی شد. از سیزده رئیس جمهور منتخب، هفت نفر از ایالت های جنوبی انتخاب شده بودند و همه آنها اکثریت آرای مردم را به دست آوردند به جز آقای پولک از تنسی، و رقیب اصلی او آقای کلی از کنتاکی، مرد جنوبی بود. آرایشگاه زنانه جردن تهران : شش نفر از ایالت های شمالی انتخاب شده بودند، اما یکی از آنها، هریسون از اوهایو، اما اهل ویرجینیا، اکثریت آرای مردم را به دست آورد. از میان روسای جمهور جنوبی، رأی انتخاباتی واشنگتن به اتفاق آرا بود. جفرسون در اولین انتخابات خود بیست رای الکترال شمالی دریافت کرد و همه آنها به جز 9 رای در دومین انتخابات خود. مدیسون اکثریت آرای الکترال شمالی را در اولین انتخابات خود و چهل رای را در دومین انتخابات خود به دست آورد. مونرو در اولین انتخابات خود اکثریت بسیار زیادی از آرای الکترال شمالی را دریافت کرد و در آخرین انتخابات به جز یک مورد، که تنها رای علیه او بود. آرایشگاه زنانه جردن تهران : جکسون [85]در اولین انتخابات خود، 73 رای الکترال شمالی و شمال غربی از 147 رای انتخاب شده را دریافت کرد و در دومین انتخابات خود اکثریت بسیار زیادی را کسب کرد. پولک 103 رای مشابه در مقابل 58 رای برای آقای کلی و تیلور اکثریت زیادی از همان آرا را دریافت کردند. از میان روسای جمهور شمالی، جان آدامز 12 رای الکترال از جنوب دریافت کرد. آرایشگاه زنانه جردن تهران : جان کوئینسی آدامز شش رای الکترال از ایالت های برده دریافت کرد و با دریافت آرای چندین ایالت برده توسط مجلس نمایندگان انتخاب شد. ون بورن 61 رای از 126 رای داده شده توسط ایالت های برده را به دست آورد که 28 رای مابقی به هریسون داده شد. هریسون اکثریت زیادی از آرای الکترال جنوبی را به دست آورد، مانند پیرس و بوکانان و در هر انتخابات اکثریت آرای الکترال شمالی برای نامزدهای موفق به دست آمد، به جز در اولین انتخابات جفرسون، دومین انتخابات مدیسون، اولین انتخابات جکسون و انتخاب بوکانان و در این. اکثریت آن آرا برای فرمونت، کاندیدای جمهوری خواه بخش، داده شده بود. آرایشگاه زنانه جردن تهران : دو معاون رئیس جمهور، تایلر از ویرجینیا و فیلمور از نیویورک، با مرگ مدیران فعلی به ریاست جمهوری رسیدند و هر دوی آنها اکثریت آرای مردمی و همچنین آرای الکترال شمالی را به دست آورده بودند. بنابراین، انتخاب لینکلن اولین نمونه از انتخاب یک رئیس جمهور صرفا بخش بود. کاملاً مشهود بود که اگر حزبی که او را انتخاب می‌کرد. برای مدت طولانی در اختیار دولت بود، ناگزیر براندازی حقوق ایالت‌ها و تثبیت تمام قدرت در دولت فدرال تحت کنترل یک بخش به وجود می‌آمد. اکثریت، نه اکثریت کل. این شکل از تحکیم وعده می داد که بی نهایت بدتر از نابودی کامل تمام خطوط دولتی و تمرکز قدرت در دست کل مردم است. [86] تحت شرایط حضور در انتخابات لینکلن، ایالت های جنوبی که معمولاً به عنوان "ایالت های پنبه ای" نامگذاری می شوند. آرایشگاه زنانه جردن تهران : تصور کردند که امنیت آنها مستلزم خروج آنها از اتحادیه است و در نتیجه از اتحادیه خارج شدند. مجلس قانونگذاری کارولینای جنوبی به منظور انتصاب انتخاب کنندگان برای رئیس جمهور در حال برگزاری بود، و هنگامی که نتیجه مشخص شد، کنوانسیون برای آن ایالت تشکیل شد که در 20 دسامبر 1860 فرمان جدایی را تصویب کرد.
جورجیا، فلوریدا، آلاباما، می سی سی پی و لوئیزیانا به زودی از کارولینای جنوبی پیروی کردند و کنگره ایالت های جدا شده در اوایل فوریه 1861 در مونتگومری، آلاباما تشکیل شد و دولت موقتی را به سبک "ایالات کنفدرال آمریکا" تشکیل داد. که جناب جفرسون دیویس، از می سی سی پی، به عنوان رئیس جمهور منصوب شد. آرایشگاه زنانه جردن تهران : از جورجیا، معاون رئیس جمهور. تگزاس قبلاً یک فرمان جدایی را تصویب کرده بود که با تأیید رأی مردم به اجرا درآمد و آن ایالت بلافاصله پس از آن نیز به یکی از ایالات کنفدراسیون تبدیل شد. قانون اساسی دائمی برای ایالات کنفدراسیون تصویب شد تا در 22 فوریه 1862 به اجرا درآید، با الگوبرداری از قانون اساسی ایالات متحده، اما حاوی تغییراتی در جزئیات و اختیارات تفویض شده. با به رسمیت شناختن بیشتر حقوق ایالت ها و ممنوعیت ورود برده از هر کشور دیگری غیر از ایالت ها و سرزمین های برده دار ایالات متحده. جدایی این ایالت ها بدون خشونت بوده است، مگر برای تصرف برخی دژها و زرادخانه های ایالات متحده در محدوده ایالت های جدا شده، که بدون خونریزی انجام شده است. آرایشگاه زنانه جردن تهران : کمیسرانی به دولت ایالات متحده منصوب شدند تا به حل و فصل مسالمت آمیز همه مسائل بین دولت ایالات متحده دست یابند [87]دو دولت در رابطه با بدهی عمومی، قلمرو و غیره. این تغییر در روابط ایالت های جدا شده با ایالات متحده منجر به تغییری در امور داخلی آن ایالت ها نشد، اما همچنان طبق قوانین و قانون اساسی چندین ایالت تنظیم می شد. فصل پنجم اقدام کشورهای برده مرزی - کنوانسیون ویرجینیا «کشورهای بردگان مرزی» که به آنها گفته می‌شد، از جمله کارولینای شمالی، تنسی و آرکانزاس، که بلافاصله به «ایالت‌های پنبه‌ای» در جنوب ملحق شدند.
0 notes
shiningpakistan · 2 months
Text
کوئی تو سبق سیکھے
Tumblr media
عمران خان کی سیاست کا اصل ہدف اب بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ پہلے لڑائی اگر کھل کر لڑی جا رہی تھی اوراسٹیبلشمنٹ اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر براہ راست حملے کیے جا رہے تھے جس کا نکتہ عروج 9؍مئی تھا تو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے باوجود اپنی بڑی کامیابی کے بعد اب تحریک انصاف اور عمران خان نے اس لڑائی کیلئے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ اب براہ راست لڑائی کی بجائے ایک سرد جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کا اختتام نجانے کیا ہو گا۔ 9؍مئی کے حوالے سے خیبر پختونخوا میں ریاست کی طرف سے سنگین الزامات کے شکار علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا بنوا کر اسٹیبلشمنٹ کو پہلا واضح پیغام دیا گیا ہے کہ عمران خان کی لڑائی جاری ہے۔ اس کے بعد اب محمود خان اچکزئی کی قومی اسمبلی میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دھواں دھار تقریر کے بعد اُنہیں اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر کے طاقت ور حلقوں کو دوسراپیغام دے دیا گیا ہے کہ عمران خان اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ 
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رہنمائوں کی تقریریں اور میڈیا ٹاک سنیں تو اُن کا اشاروں کنایوں میں اصل نشانہ اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ انتخابات سے پہلے تو اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا مقصد اسٹیبلشمنٹ سے ٹوٹے ہوے رابطوں کو بحال کرنا تھا جس کا عمران خان بار بار اظہار کرتے رہے اور یہاں تک کہ الیکشن سے ایک دو ہفتہ قبل تک یہ شکایت کی کہ اُن سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی رابطہ نہیں کیا جا رہا۔ الیکشن میں تحریک انصاف کی بڑی کامیابی کے بعد عمران خان کی حکمت عملی کا اب کیا مقصد ہے؟ کیا اب وہ واقعی قانون کی حکمرانی اور اسٹیبلشمنٹ کو آئندہ کے لیے سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں یا اُن کی اب بھی کوشش یہی ہے کہ مقتدر حلقوں سے اُن کے رابطہ اور تعلقات بحال ہوں تاکہ اُن کے لیے موجودہ مشکلات سے نکلنے اور اقتدار میں آنے کا رستہ ہموار ہو سکے۔ عمران خان کی جدوجہد اگر واقعی قانون کی حکمرانی کے لیے ہے اور وہ واقعی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو پھر اُن کو کھل کر اس کا اعلان کرنا چاہیے۔ 
Tumblr media
اُن کو اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت اور رابطوں کی بحالی کی خواہش کی بجائے اپنے ماضی کی غلطیوں، جہاں اُنہوں نے اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل کی، کو تسلیم کر تے ہوئے تجاویز دینی چاہئیں کہ پاکستان کی سیاست کو کیسے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے دور رکھا جا سکتا ہے ابھی تک تو ہم دائروں کا سفر ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی کوئی ایک سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا بنتی ہے تو کبھی کوئی دوسری۔ جب کسی سیاسی رہنما اور سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن جاتے ہیں لیکن جیسے ہی موقع ملتا ہے اسٹیبلشمنٹ کے سائے تلے سیاست اور اقتدار کے حصول کے لیے اپنے تمام اصول اور بیانیے بھول جاتے ہیں۔ میاں نوازشریف اور ن لیگ کے ’ ووٹ کو عزت دو ‘ کے نعرے کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ اب تک عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا واحد مقصد اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی دوبارہ حاصل کرنا تھا۔ 
کوئی شک نہیں کہ انتخابات میں مبینہ طور پر بڑی دھاندلی ہوئی جس کا اصل نشانہ تحریک انصاف تھی۔ اس سلسلے کو روکنے کے لیے سیاستدانوں کو ہی کردار ادا کرنا ہو گا جس کے لیے بار بار اپنے سیاسی مفادات اور حصول اقتدار کے لیے اُنہیں اپنے آپ کو استعمال ہونے سے روکنا پڑے گا۔ وفاقی حکومت بنانے والی ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے تو توقع نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کرنے کے اصول پر اس وقت بات کریں۔ لیکن کیا عمران خان اس اصول پر قائم رہ سکتے ہیں؟ اس کا بھی یقین نہیں۔ بے شک عمران خان کے پاس ایک موقع ضرور ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد لینے کے خیال کو ترک کر دیں اور اپنی سیاسی لڑائی کو پرامن طریقے سے عوام کی حمایت سے آئین و قانون کی حدود میں رکھیں۔ کوئی تو ہو جو سبق سیکھے!
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ  
1 note · View note
urduchronicle · 3 months
Text
ہمیں منصوبے کے تحت اسمبلی سے باہر رکھا جا رہا ہے، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی
پی بی 42 کے امیدوار اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کی خاطر ایچ ڈی پی کو اسمبلی سے باہر رکھا گیا، واضع اکثریت کے باوجود نتائج تبدیل کردیے گئے۔ کوئٹہ پریس کلب میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے خالق ہزارہ کا کہنا تھا کہ 2024 کے عام انتخابات میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے دو دو امیدوار نامزد کئے، 8 فروری کے دن پی بی 40 اور پی بی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingkarachi · 11 months
Text
لاوارث شہر کا ’میئر‘ کون
Tumblr media
وہ شاعر نے کہا تھا نا’’ ؎ مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں۔‘‘ ابھی ہم پہلے سال کی بارشوں کی تباہ کاریوں سے ہی باہر نکل نہیں پائے کہ ایک اور سمندری طوفان کی آمد آمد ہے۔ اب خدا خیر کرے یہ طوفان ٹلے گا یا میئر کا الیکشن جو کم از کم کراچی میں کسی سیاسی طوفان سے کم نہیں۔ ویسے تو مقابلہ پی پی پی کے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب اور جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کے درمیان ہے مگر دونوں کی جیت اس وقت زیر عتاب پاکستان تحریک انصاف کے منتخب بلدیاتی نمائندوں پر منحصرہے، وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں۔ اتوار کے روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بڑے پراعتماد نظر آئے اور کہا نہ صرف میئر کراچی ایک ’جیالا‘ ہو گا بلکہ اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر سندھ کے لوگ پی پی پی کو ووٹ دیں گے۔ بظاہر کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے مگر شاہ صاحب پہلے آنے والے طوفان سے تو بچائیں۔ دوسری طرف اسی شام جماعت اسلامی نے، جس کی شکایت یہ ہے کہ پی پی پی زور زبردستی سے اپنا ’میئر‘ لانا چاہتی ہے، سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے ’مدد‘ طلب کی ہے۔ 
امیر جماعت اسلامی سراج الحق خصوصی طور پر کراچی آئے کیونکہ یہ الیکشن جماعت کیلئے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ شاید پورے پاکستان میں یہ واحد بلدیہ ہے جہاں ان کا میئر منتخب ہو سکتا ہے اگر پاکستان تحریک انصاف کے تمام منتخب بلدیاتی نمائندے حافظ نعیم کو ووٹ دے دیں۔ ماضی میں جماعت کے تین بار میئر منتخب ہوئے دو بار عبدالستار افغانی 1979ء اور 1983ء میں اور جناب نعمت اللہ ایڈووکیٹ 2001 میں، مگر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 1979ء میں پی پی پی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جیسا آج پی ٹی آئی کے بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ ہو رہا ہے ورنہ افغانی صاحب کا جیتنا مشکل تھا البتہ 1983ء میں وہ باآسانی جیت گئے اور دونوں بار ڈپٹی میئر پی پی پی کا آیا۔ لہٰذا ان دونوں جماعتوں کا یہاں کی سیاست میں بڑا اسٹیک ہے۔ اسی طرح نعمت اللہ صاحب کو 2001 کی میئر شپ متحدہ قومی موومنٹ کے بائیکاٹ کے طفیل ملی جنہوں نے اس وقت کے بلدیاتی الیکشن میں حصہ نہیں لیا، جو ایک غلط سیاسی فیصلہ تھا۔
Tumblr media
اب تھوڑی بات ہو جائے پی پی پی کی بلدیاتی سیاست کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ 22 اگست 2016ء کے بعد جو ہوا اس سے شہری سندھ کا سیاسی توازن پی پی پی کے حق میں چلا گیا اور پہلی بار دیہی اور شہری سندھ کی بلدیاتی قیادت ان کے ہاتھ آنے والی ہے، جس میں حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر اور نواب شاہ شامل ہیں۔ پی پی پی پر تنقید اپنی جگہ مگر کسی دوسری سیاسی جماعت نے اندرون سندھ جا کر کتنا سیاسی مقابلہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہو یا 29 سال پرانی تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن)۔ رہ گئی بات ’قوم پرست‘ جماعتوں کی تو بدقسمتی سے یہ صرف استعمال ہوئی ہیں ’ریاست‘ کے ہاتھوں۔ ایسے میں افسوس یہ ہوتا ہے کہ اتنی مضبوط پوزیشن میں ہونے اور برسوں سے برسر اقتدار رہنے کے باوجود آج بھی سندھ کا اتنا برا حال کیوں ہے۔ شہروں کو ایک طرف رکھیں کیا صوبہ تعلیمی میدان میں آگے ہے کہ پیچھے۔ بارشوں کا پانی جاتا نہیں اور نلکوں میں پانی آتا نہیں۔ 
18ویں ترمیم میں واضح اختیارات کے باوجود۔ آج بھی منتخب بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت کے مرہون منت ہیں، آخر کیوں؟۔ چلیں اس کو بھی ایک طرف رکھیں۔ شاہ صاحب جس وقت پریس کانفرنس کر رہے تھے تو ان کے دائیں اور بائیں سب منتخب نمائندے بیٹھے تھے، سوائے میئر کیلئے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب کے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں بات بھی شائستگی سے کرتے ہیں جس میں والدین وہاب اور فوزیہ وہاب کی تربیت بھی نظر آتی ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ یو سی کا الیکشن جیت کر امیدوار بنتے۔ اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ اگر پی پی پی بلدیاتی الیکشن میں کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے تو کیا کوئی بھی منتخب نمائندہ اس قابل نہیں کہ ’میئر‘ کیلئے نامزد ہو سکے ایسے میں صرف ایک غیر منتخب نمائندے کو میئر بنانے کیلئے قانون میں ترمیم کی گئی۔ کیا یہ رویہ جمہوری ہے۔ مرتضیٰ سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ آپ نے بلدیاتی الیکشن نہیں لڑا اور اب کیا آپ کی نامزدگی منتخب یوسی چیئرمین کے ساتھ ’تھوڑی زیادتی‘ نہیں۔ 
تعجب مجھے اس لئے نہیں ہوا کیونکہ پی پی پی میں کچھ ایسا ہی چند سال پہلے بھی ہوا تھا جب پارٹی کی کراچی کی صدارت کیلئے رائے شماری میں تین نام تھے جن کو ووٹ پڑا مگر جب نتائج کا اعلان ہوا تو ایک صاحب جو دوڑ میں ہی نہیں تھے وہ کراچی کے صدر ہو گئے۔ ’جیالا‘ کون ہوتا ہے اس کا بھی شاید پی پی پی کی موجودہ قیادت کو علم نہ ہو کہ یہ لفظ کیسے استعمال ہوا اور کن کو ’جیالا‘ کہا گیا۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی چڑھ جانے والوں، خود سوزی کرنے اور کوڑے کھانے، شاہی قلعہ کی اذیت سہنے والوں کے لئے اس زمانے میں پہلی بار استعمال ہوا یعنی وہ جو جان دینے کے لئے تیار رہے اور دی بھی۔ اب مرتضیٰ کا مقابلہ ہے جماعت کے ’جیالے‘ سے یا انہیں آپ جماعتی بھی کہہ سکتے ہیں، حافظ نعیم سے ، جنہوں نے پچھلے چند سال میں خود کو ایک انتہائی محنتی اور متحرک سیاسی کارکن منوایا اور جلد کراچی شہر میں جماعت کی پہچان بن گئے۔ دوسرا 2016ء میں متحدہ کو ’ریاستی طوفان‘ بہا کر لے گیا جس کو حافظ نعیم نے پر کرنے کی کوشش کی اور بارشوں میں شہر کے حالات اور تباہی نے بھی انہیں فائدہ پہنچایا۔
مگر ان دونوں جماعتوں کے درمیان آئی، پی ٹی آئی اور 2018ء میں 14 ایم این اے اور 25 ایم پی اے جیت گئے جس کا خود انہیں الیکشن کے دن تک یقین نہیں تھا۔ البتہ حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں انہیں نشستیں ضرور مل گئیں کہ کراچی کا میئر جو بھی منتخب ہو گا وہ ’پی ٹی آئی‘ کی وجہ سے ہی ہو گا چاہے وہ ووٹ کی صورت میں، مبینہ طور پر ’نوٹ‘ کی صورت میں ہو یا لاپتہ ہونے کی صورت میں۔ اگر 9؍ مئی نہیں ہوتا توشاید ان کے معاملات خاصے بہتر ہوتے، اب دیکھتے ہیں کہ اگر الیکشن ہو جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کے کتنے نومنتخب نمائندے آتے ہیں اور کتنے لائے جاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ووٹنگ اوپن ہے سیکرٹ بیلٹ کے ذریعہ نہیں۔ رہ گئی بات ’لاوارث کراچی‘ کی تو بھائی کوئی بھی آجائے وہ بے اختیار میئر ہو گا کیونکہ سیاسی مالی اور انتظامی اختیارات تو بہرحال صوبائی حکومت کے پاس ہی ہوں گے یہ وہ لڑائی ہے جو کسی نے نہیں لڑی۔ لہٰذا ’کراچی کی کنجی‘ جس کے بھی ہاتھ آئے گی اس کا اختیار 34 فیصد شہر پر ہی ہو گا۔ جس ملک کے معاشی حب کا یہ حال ہو اس ملک کی معیشت کا کیا حال ہو گا۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
spitonews · 1 year
Text
پی ایس ایل8 کی ٹیم کا اعلان ہوگیا! شاہین کپتان نامزد
ٹیم آف دی پی ایس ایل کا انتخابات خود مختار پینل نے کیا، بورڈ (فوٹو: پی ایس ایل) پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے ٹیم آف دی پی ایس ایل 8 کا اعلان کردیا، لاہور قلندرز کے کپتان شاہین شاہ آفریدی کو ٹیم کا کپتان نامزد کردیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں پی ایس ایل ایٹ کیلئے 12 رکنی ٹیم کا اعلان کیا، اسکواڈ میں ملتان سلطانز کے 5 ،پشاور زلمی کے 3، لاہور قلندرز کے 2 جبکہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کیا ہماری قسمت میں یہی لوگ بچے ہیں؟
Tumblr media
اس خطے کے عوام کو بس دو بار اپنے اظہار کا حقیقی موقع ملا۔ پہلی بار 1947 میں، جب اُن سے پوچھا گیا کہ نیا ملک چاہیے یا نہیں۔ انھوں نے کہا کیوں؟ جواب ملا تاکہ تم استحصال سے پاک ایک پُرامن آزاد زندگی بسر کر سکو۔ لوگوں نے کہا ٹھیک ہے، یہ بات ہے تو بنا لو پھر نیا ملک۔ دوسری بار دسمبر 1970 میں پوچھا گیا کہ تمہیں ایسا ہی ملک چاہیے جیسا چل رہا ہے یا کچھ اور چاہتے ہو؟ عوام نے کہا کچھ اور چاہتے ہیں۔ بالکل ویسا جیسا کہ ڈیل کرتے ہوئے وعدہ کیا گیا تھا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ تو پرانی بات ہو گئی۔ رات گئی بات گئی۔ تمہاری بھلائی کس میں ہے یہ تم سے زیادہ ہم جانتے ہیں۔ جیسا تم چاہتے ہو ویسا ملک تو نہیں ملے گا، لہذا جیسا ہم چاہتے ہیں ویسا ہی تم بھی چاہو۔ عوام نے کہا تو پھر تمہاری ایسی کی تیسی۔ ان دو مواقع کے سوا یاد نہیں کہ عوام سے کب اور کس نے رجوع کیا ؟ تو کیا اس ملک میں انتخابات ایک درجن سے زائد بار نہیں ہوئے؟ جی ہاں ہوئے؟ کیا یہاں پونے دو درجن حکومتیں تبدیل نہیں ہوئیں؟ یقیناً ہوئیں۔ تو پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ عوام سے سوائے دو بار کے کبھی نہیں پوچھا گیا؟
اب جب آپ نے یہ سوال اٹھا ہی دیا ہے تو پھر جواب بھی تحمل سے سنیے۔ پہلی قانون ساز اسمبلی اور ستر کی قانون ساز اسمبلی تو ہماری مرضی سے بنی۔ کوئی تیسری قانون ساز اسمبلی ہماری مرضی سے بنی ہو تو بتائیے۔ پہلی نے ہمیں ملک دیا اور ستر والی نے آئین۔ دیگر اسمبلیوں نے دُکھ یا ربر سٹیمپ کے سوا کیا دیا۔  تراکیب و استعاروں میں تو ویسٹ منسٹر ڈھانچے کی خوب نقالی کر لی۔ یہ عدلیہ ہے تو یہ ایوانِ بالا و زیریں ہے تو یہ کابینہ ہے اور یہ ہے آئینی دستاویز۔ مگر اس نظام کو چلانے کے لیے جو جمہوری روح درکار ہے وہ کہاں ہے۔ آپ کہتے ہیں ووٹر کو ضمیر کی آواز پر کُھلے ذہن سے سوچ سمجھ کے اپنا نمائندہ چننا چاہیے۔ لیکن اسی ضمیر کی آواز پر منتخب ہونے والا نمائندہ اپنا ضمیر گروی رکھنے پر مجبور ہے۔حالانکہ یہ سب کے سب صادق اور امین ہیں۔ یعنی عوام جو ووٹ حقیقی جمہوریت کی آس میں دیتے ہیں وہی ووٹ اوپر جا کر ایک غلام پارلیمانی پارٹی کی صورت میں پارٹی سربراہوں کی آمریت میں بدل جاتا ہے۔
Tumblr media
گویا کسی ایک ڈکٹیٹر سے بچنے کے چکر میں پورا نظام آٹھ، دس منتخب یا نامزد پارلیمانی ڈکٹیٹرز کا غلام بن جاتا ہے اور وہ بھی قانون کی بھرپور پشت پناہی کے ساتھ۔ اور پھر ان آٹھ، دس ڈکٹیٹرز کو پردوں کے پیچھے بیٹھا سپر ڈکٹیٹر ریموٹ کنٹرول پر چلاتا ہے۔ یوں عوام کا من و رنجن ایک کورئیو گرافڈ پتلی تماشے سے ہوتا رہتا ہے۔ کہانی بھی اس کی، ڈور بھی اس کی، پتلی بھی اس کی۔ سندھی کا محاورہ ہے ’واردات بھی جہان خان کی اور فیصلہ بھی جہان خان کا‘ اور وہ بھی وسیع تر قومی مفاد کے نام پر۔ آپ کو ثبوت چاہیے؟ کیا سرد جنگ کی ابتدا ہی میں امریکہ کا میلا اٹھانے کا فیصلہ عوام سے پوچھ کے ہوا تھا؟ کیا فالج زدہ غلام محمد اور لومڑ صفت اسکندر مرزا کو عوام نے منتخب کیا تھا؟ کیا ون یونٹ کا مطالبہ عوام نے کیا تھا؟ کیا اعلی عدلیہ نے نظریہ ضرورت کا عدالتی بم اس ملک کے سیاسی مستقبل پر عوام کے وسیع تر مفاد میں گرایا تھا؟ کیا جنرل ایوب خان کو مشرقی و مغربی پاکستان کے ایک ملین لوگوں نے پیٹیشن بھیجی تھی کہ خدا کے واسطے ہمیں کرپٹ نظام سے مارشل لا کے ذریعے نجات دلاؤ۔
کیا باسٹھ کا صدارتی آئین کسی منتخب رہنما نے کسی عوامی ریفرنڈم میں منظور کروایا تھا؟ کیا یہ لوگوں کی فرمائش تھی کہ ہمیں مغربی طرز ِجمہوریت نہیں بلکہ بنیادی طرزِ جمہوریت درکار ہے۔ کیا پینسٹھ کی جنگ عام آدمی کی بنیادی ضرورت تھی؟ کیا یحیی خان نے ایوبی آمریت کے خلاف ایجی ٹیشن کرنے والوں کی تائید سے مارشل لا لگایا؟ ستر میں عوام کو رائے دینے کی تو انتخابی آزادی ملی لیکن پھر رائے کی دھجیاں ملک کے کون سے عظیم تر مفاد میں اڑا دی گئیں۔ جو قتل ہوئے ان میں سے کون کون ووٹر نہیں تھا؟ جنھوں نے مارا ان میں سے کون کون ووٹر نہیں تھا؟ جنھوں نے مروایا ان میں سے کون کون ووٹر نہیں تھا؟ بھٹو کو پھانسی عوام کے پرزور مطالبے پر دی گئی؟ افغان خانہ جنگی میں اگر ضیا الحق نہ کودتا تو کیا عوام اس کا تختہ الٹ دیتے؟ جماعتی کی جگہ غیر جماعتی نظام کیا جمہوریت کو آگے لے کے گیا یا رہا سہا ستر بھی چاک کر گیا؟
پروڈا، ایبڈو، ڈی پی آر، اٹھاون ٹو بی، اے ٹی اے، نیب، صادق اور امین، جبری گمشدگیاں، محکمہ زراعت، آر ٹی ایس، سلیکٹڈ، امپورٹڈ۔ کیا ہماری قسمت میں یہی ہے؟ جہادی کلچر ریاست نے عوام کو دیا یا عوام میں خود بخود پنپا؟ فرقہ واریت کا وائرس کسی نصابی لیبارٹری میں تیار کر کے رگوں میں اتارا گیا یا پہلے سے ہی ہر پاکستانی کے ڈی این اے میں تھا؟ قرضے عوام کے نام پر عوام کے لیے کس نے لیے۔ ان میں سے کتنے عوام پر اور کتنے اشرافی فیصلوں اور فصیلوں کی تعمیر پر لگے؟ یہ قرضے کون چکائے گا؟ باجوہ، عمران، شہباز، اسحاق، زرداری یا وہ سکیورٹی گارڈ جو پندرہ ہزار روپے تنخواہ میں سے بھی ہر شے پر براہ راست یا بلاواسطہ ٹیکس دے رہا ہے۔ دس دس لاکھ روپے پنشن پانے والے مفلوک الحال تو اعزازی گاڑی، سکیورٹی، رہائش، کوڑیوں کے مول کروڑوں کے پلاٹ، ٹول ٹیکس کی معافی، اشرافی کلب میں مفت کے بھاؤ لنچ، ڈنر، گالف، بہترین ملکی و غیرملکی طبی سہولتوں کے قانونی حق دار بن کے فصیلی کالونیوں میں رہیں اور عوام اپنے لیے صبح سے شام تک ایک ایک لمحہ خریدیں اور اسحاق ڈاروں کی مسلسل خوش خبریوں کی اذیت بھی سہیں جمہوریت، آمریت، مستقبل گئے بھاڑ میں۔ یہ بتائیے 22 کروڑ میں سے اکیس کروڑ ننانوے لاکھ انسانوں کا اب کیا کرنا ہے کہ جن کی اوقات کچرا برابر کر دی گئی ہے؟ ان میں سے کتنوں کو ٹائی ٹینک سے اُتاری جانے والی کشتیوں میں جگہ یا لائف جیکٹ یا کوئی ٹوٹا تختہ مل سکے گا؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
humansofnewyork · 8 months
Photo
Tumblr media
(19/54) “It has always been my philosophy: wherever I am, I try to make the most of the responsibilities I am given. Managing a factory was not my ideal position. I had hoped to find a place where I could have more of a national impact. But I tried my best to improve the lives of the people nearest to me. I continued to hold meetings with the workers. I studied employment practices from all over the world, and drafted a policy of worker’s rights. It was very progressive for the time. But when I presented the document to the Department of Labor, it was approved for the entire factory. Five thousand lives were made better. In 1975 the king made an announcement that he was dissolving all political parties and combining them into one. He claimed that it was an attempt at unity, but it was abhorrent to me. A country cannot be ruled by a single voice. In the next election I decided to return to Nahavand and run for parliament as my own man. Mitra was against it. She told me that I was too honest for politics, too naive. She said: ‘Even if you win. You’re a single voice. The rest of the parliament will still be controlled by the king.’ Even my father didn’t want me to run. He didn’t think I stood a chance, and he didn’t want to see me get my heart broken. The king had to approve all candidates, and he’d chosen two of his closest allies as my opponents. One of them played volleyball with the king and empress. The other was Undersecretary of Education for the entire country. He was so confident of his victory that he’d already resigned from his previous position. After I announced my candidacy, he paid me a visit. He told me: ‘I want you to know. Everyone in government is supporting me. And this position has been promised to me.’ I told him: ‘I’m very happy for you. I have no intention of winning. But I am going to say what I have to say.”
 فلسفه‌ی زندگی‌ام همواره بر آن بوده است که بیشترین تلاشم را در هر جایگاه و مسئولیتی که به من داده شود انجام دهم. کار من در کارخانه‌ی ذوب‌آهن اصفهان مدیریت بخش ارزیابی و آمار بود. پیشه‌ی دلخواهم نبود. مهندس مکانیک و کارشناس اقتصاد فنی ملی بودم. دوست داشتم برنامه‌ریزی کلان کشور را یاری کنم. پیش‌نویسی از قانون حقوق کارگران آماده کردم. از بررسی همه‌ی قانون‌های کار جهان پیشرفته بهترین‌ها را برگزیدم. پیش‌نویس تنها به هدف استفاده در کارخانه‌ی خودمان نوشته شده بود. هنگامی که آن سند را به وزارت کار دادم، پسندیدند. کیفیت زندگی ۵۰۰۰ کارگر کارخانه بهبود یافت. سال ۱۹۷۵ شاه اعلام کشور یک‌حزبی کرد. وی از اتحاد می‌گفت ولی ناخوشایند بود زیرا با یک صدا نمی‌شود رهبری کرد. کار سیاسی تنها از درون حزب‌ رستاخیز می‌گذشت. اساس حزب همان قانون اساسی بود که دربرگیرنده‌ی سلطنت مشروطه و انقلاب سفید هم بود. آرمان را باید پی می‌گرفتم، سخن گفتن با مردم رهگشای آینده‌ی روشن است. بر آن شدم که در انتخابات بعدی از نهاوند نامزد شوم و آرمان‌هایم را برای ایران و ایرانیان در آن کارزار با مردم در میان بگذارم. میترا موافق نبود. گفت که من برای سیاست خیلی درستکارم، خیلی ناوارد هستم. او گفت: «حتا اگر پیروز شوی، تنها یک صدا هستی. بقیه‌ی مجلس همچنان تحت فرمان شاه خواهد بود.» پدرم نیز امیدی به پیروزی‌ من نداشت و نمی‌خواست دلشکسته شوم. بر آن بود که نامزدها باید مورد پذیرش شاه باشند، دو نفر دیگر بختشان از این بابت بلند بود. یکی از آنها در کاخ با شاه و شهبانو والیبال بازی می‌کرد. دیگری معاون وزیر آموزش و پرورش کشور بود. به آن اندازه از پیروزی خود اطمینان داشت که از سمت خود کناره‌گیری کرده بود. پس از آنکه نامزدی خود را اعلان کردم، با من تماس گرفت. گفت: «تنها خواستم بدانی که همه‌ی دولتمردان از من پشتیبانی می‌کنند و این مقام از پیش به من وعده داده شده است.» پاسخ دادم: «برای شما خوشحالم. به پیروزی نمی‌اندیشم. برای شناساندن اندیشه‌هایم می‌آیم.»
181 notes · View notes
risingpakistan · 9 months
Text
’باپ رے باپ‘ ہمارے حکمراں
Tumblr media
شاعر محسن بھوپالی مرحوم نے برسوں پہلے ہماری سیاست کو اس خوبصورت قطعہ میں سمو دیا تھا جمہوریت کی خیر ہو، اس مملکت کی خیر، جو وقت کے غلام تھے لمحوں میں بک گئے
چشم فلک نے دیکھا ہے ایسا بھی ماجرا لاکھوں کے ترجمان کروڑوں میں بک گئے
مجھے یہ قطعہ اس دن بہت یاد آیا جب 2018ء میں چیئرمین سینٹ کا انتخاب تھا دونوں امید واروں کا تعلق بلوچستان سے تھا ایک طرف موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی تھے جنہیں سابق وزیر اعظم عمران خان، اس وقت کے مقتدر حلقہ اور اسی سال معرض وجود میں آنے والی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی حمایت حاصل تھی تو دوسری طرف اس وقت کی اپوزیشن کے متفقہ امیدوار اور صوبہ کے سابق گورنر میرغوث بخش بزنجو کے فرزند میر حاصل بزنجو مرحوم تھے۔ اپوزیشن کے پاس واضح اکثریت تھی جس کو انہوں نے اجلاس میں کھڑے ہو کر دکھایا بھی مگر جب ’بیلٹ باکس‘ کھلا تو حاصل ہار گیا اور سنجرانی جیت گئے ۔ ’ باپ رے باپ‘ اور خود حاصل کے بقول، ’’میرا مقابلہ سیاستدان سے نہیں فیض سے تھا مجھے تو ہارنا ہی تھا۔‘‘ شاید اس وقت کی اپوزیشن بھی اپنی قبولیت کا انتظار کر رہی تھی اس لیے انہوں نے اپنے اندر سے دبک جانے والوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جبکہ اصولوں‘ پر یقین رکھنے والے کپتان اور ان کے حواریوں نے اسے سینیٹرز کی ’ضمیر‘ کی آواز کہا۔ ساڑھے تین سال بعد وقت نے کروٹ لی ’ضمیر پلٹ گیا، اور خان صاحب کو جو لوگ لائے تھے انہوں نے ہی گھر بھیج دیا اس بار اسے ’ضمیر‘ کے مطابق ووٹ دینے والوں نے کپتان کے خلاف ووٹ کہا۔
جو کچھ 2018 میں سینٹ میں ہوا وہ ہماری سیاست میں اسی سینٹ میں پھر ہوا اور اس بار تو ’خفیہ کیمرے‘ نے اسے محفوظ بھی کیا مگر نہ کوئی تحقیق نہ کوئی کارروائی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود سینیٹر بھی بنے، چیئرمین سینیٹ کے امیدوار بھی اور پھر قائد حزب اختلاف بھی۔ سنجرانی پھر جیت گئے۔ ’باپ رے باپ، ہماری سیاست۔ لفظ ’ احساس محرومی‘ کا بھی خوب استعمال ہوتا ہے۔ ایک بار میں حاصل بزنجو کے ساتھ انکے والد کا انٹرویو کرنے کراچی میں ان کے دوسرے بیٹے بیزن کے گھر گیا میں نے پوچھا میر صاحب بلوچستان کا احساس محرومی کیسے دور ہو سکتا ہے۔ ان کا جواب تھا ’’ جب ہمارے حکمرانوں کو محرومی کا احساس ہو گا‘‘۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کا تعلق پنجاب سے تھا مگر 2013 کے الیکشن کے بعد انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے ایک انتہائی مثبت سیاسی فیصلہ کیا اور مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہونے کے باوجود اپنے اتحادی بلوچستان کی ہی ایک معتبر سیاسی شخصیت اور نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ نامزد کیا مسلم لیگ کے صوبائی صدر ثنا اللہ زہری کی مخالفت کے باوجود ۔ میں اس دن مری میں ہی تھا جب یہ اجلاس چل رہا تھا میاں صاحب کی موجودگی میں شہباز شریف نے بڑی مشکل سے انہیں منایا مگر انہوں نے مشروط حمایت کی، ڈھائی۔ ڈھائی سال کی وزارت اعلیٰ کے فارمولہ پر۔ ابھی ثنا اللہ جو 2018ء میں وزیراعلیٰ تھے ڈاکٹر مالک کے بعد کی مدت پوری نہیں ہوئی تھی کہ ان کے خلاف پارٹی میں’ بغاوت‘ ہو گئی جس میں بیشتر وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے عام انتخابات سے قبل ’ باپ بنائی، ’باپ رے باپ‘ کیا سیاست اور کیا ہمارا سیاسی مستقبل۔
Tumblr media
سینیٹر انوار الحق کاکڑ ہمارے کئی سیاستدانوں کی طرح جماعتیں بدلتے رہتے ہیں ویسے بھی اس صوبہ سے تعلق رکھنے والے منتخب ہوں یا نگراں’ باپ‘ کے احترام میں ہر فیصلہ قبول کر لیتے ہیں ویسے بھی اس ملک کی سیاست اس وقت بھی اور پہلے بھی ’بزرگوں‘ کے پاس ہی رہی ہے۔ مگر انوار الحق پڑھے لکھے انسان ہیں اور گو کہ وہ اسکول میں بھی پڑھا چکے ہیں اور بلوچستان یونیورسٹی میں بھی اور تعلیمی مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں مگر کیا وہ اس مختصر وقت میں اس سمت میں کوئی اقدامات کر سکتے ہیں شاید نہیں، ویسے بھی ان کی تمام تر توجہ 90 روز میں عام انتخابات کروانے پر ہونی چاہئے۔ انہوں نے احسن فیصلہ کیا اپنی پارٹی اور سینٹ کی سیٹ سے استعفیٰ دے کر ورنہ تو ہمارے حکمرانوں نے ’ ایوانوں‘ کو اپنی اپنی جماعتوں کا ’گڑھ‘ بنا لیا ہے چاہے وہ ایوان صدر ہو، وزیراعظم ہائوس ہو، گورنر ہائوس ہو یا وزیر اعلیٰ ہائوس۔ جب آپ وزیر اعظم، صدر، گورنر یا وزیر اعلیٰ بنتے ہیں تو آپ ملک یا اپنے صوبہ کے ’باپ‘ کا درجہ رکھتے ہیں پارٹی کے حصار سے نکل کر لوگوں کی بلا امتیاز خدمت کرنی ہوتی ہے۔ نگراں وزیر اعظم تمام سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف کو ایک ٹیبل پر بیٹھا کر ’ میثاق سیاست‘ پر بات چیت کا آغاز کرسکتے ہیں۔
سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو ایک غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی اسمبلی کی نمائندگی کرتے تھے مگر انہوں نے ملک کی بڑی جماعتوں کو جو اس نظام کو قبول نہیں کرتی تھیں وزیر اعظم ہائوس میں دعوت دی اور افغانستان جیسے حساس معاملے پر اعتماد میں لے کر’جنیوا‘ گئے اور ایکارڈ کیا۔ آج کی صورتحال میں شاید یہ کام اتنا آسان نہیں خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب سابق وزیر اعظم عمران خان ’ اٹک جیل‘ میں تین سال کی قید اور پانچ سال کی نااہلی بھگت رہے ہیں اور ان کی جماعت کے ہزاروں کارکن جیلوں میں ہیں۔ کیا کاکڑ صاحب بہت زیادہ نہیں تو خاں صاحب کو اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کروا سکتے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے قیدی جن پر 9 مئی یا سنگین مقدمات قائم نہیں ہیں ان کے حوالے سے کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ کیا وہ بحیثیت ’نگراں‘ جونیجو کی طرح شہری آزادیوں، میڈیا کی آزادی اور الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں کو ’ لیول پلینگ فیلڈ‘ دلوا سکتے ہیں۔ دوسرا بڑا کام جو شاید سب سے مشکل نظر آتا ہے وہ بلوچ قوم پرستوں، علیحدگی پسندوں، شدت پسندوں سے مذاکرات کا آغاز کریں۔ اگر طالبان سے بات چیت ہوسکتی ہے تو ان بلوچوں سے کیوں نہیں۔ 
بات چیت سے ہی دروازے کھلتے ہیں ’گھر کے بھی اور دل کے بھی، لاپتہ افراد کا مسئلہ شاید ان کے کیا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اتنا مشکل نہیں جتنا ہم نے بنا دیا ہے۔ جو لوگ ’اٹھائے گئے ہیں وہ اسی ملک کے شہری ہیں اگر وہ سنگین جرائم میں ملوث ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کریں مقدمہ چلائیں اور سزا دیں، ان کے خاندان کے افراد کو ان سے ملنے دیں، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے وہ اگر ماورائے عدالت مارے گئے تو ان کے والدین اور رشتہ داروں کو اعتماد میں لیں۔ یہ صرف بلوچستان کا ہی نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے کراچی سے خیبر تک۔ کاش پاکستان بننے کے بعد اس ملک سے جاگیرداری اور سرداری نظام کا خاتمہ کر دیا جاتا، جمہوریت کی صحیح سمت کا تعین ہو جاتا، نظریہ ضرورت، آمروں کے لیے نہیں جمہوریت کے لیے استعمال ہو جاتا تو آج نہ احساس محرومی کا سوال ہوتا نہ سیاسی محرومیوں کا۔ بلوچستان حساس صوبہ ہے اس کی حساسیت کا احساس کریں ’ نگرانی‘ نہیں اور مسئلہ حل کریں اور یہی کاکڑ صاحب کا کڑا امتحان ہے 90 روز صرف 90 روز خدارا !
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
gamekai · 1 year
Text
کانگریس کا اجلاس اور بی جے پی
چھتیس گڑھکی راجدھانی رائے پور میں آج سے کانگریس کا 85 واں اجلاس شروع ہوچکا ہے۔پہلے دن اسٹیئرنگ کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ کانگریس صدر کو کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کے اراکین کو نامزد کرنے کا اختیار دیا جانا چاہیے یعنی اب سی ڈبلیو سی کیلئے پارٹی کے اندر انتخابات نہیں ہوں گے۔یہ ایک غیرمعمولی بات ہے اور صدر کو زیادہ بااختیار کرنے کی سمت اسے پارٹی کی مثبت حکمت عملی کے طور پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
airnews-arngbad · 11 months
Text
آکاشوانی اورنگ آباد‘ علاقائی اُردو خبریں: بتاریخ: 03 جون 2023‘ وقت: صبح 09:00 تا 09:10
 ::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ اُڑیسہ میں تین ٹرینوں کے حادثے میں 207 مسافر ہلاک؛ سینکڑوں زخمی۔
٭ ریاست میں جماعت دہم کے 93  اعشاریہ آٹھ تین فیصد طلباء کامیاب؛ اورنگ آباد ڈویژن کا نتیجہ 93  اعشاریہ دو تین فیصد۔
٭ 350 ویں تاجپوشی میلے میں پرتاپ گڑھ اتھاریٹی کے قیام کا وزیرِ اعلیٰ کا اعلان۔
٭ لوک سبھا انتخابات سے قبل مقامی سطح پر صورتحال کا جائزہ لینا ضروری: سابق وزیرِ اعلیٰ اشوک چوہان کا عندیہ۔
٭ 500 روپئے کے جعلی کرنسی نوٹ لے جانے والے تین افراد ایوت محل پولس کی حراست میں۔
٭ اورنگ آباد میں جنسی تشخیص کرنے والا ڈاکٹر گرفتار۔
اور۔۔ ٭ تھائی لینڈ اوپن بیڈمنٹن چمپئن شپ میں لکشیہ سین سیمی فائنل میں داخل۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
اُڑیسہ میں تین ریل گاڑیوں کے حادثے میں 207 مسافر ہلاک اور دیگر سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ بالاسور ضلع کے بہناگا ریلوے اسٹیشن پر کل شام یہ حادثہ پیش آیا۔ اسٹیشن پر کھڑی ایک مال گاڑی سے شالیمار- ہاؤڑا- کورومنڈل ایکسپریس ٹرین ٹکراکر پٹری سے اُتر گئی۔ چند ہی ساعتوں بعد بنگلورو- ہاؤڑہ سپر ایکسپریس بھی اسی مقام پر ان گاڑیوں سے ٹکراکر پٹری سے اُتر گئی۔ دونوں ٹرینوں کے تقریباً 17 ڈبوں کو شدید نقصان پہنچا اور 207 مسافر ہلاک جبکہ تقریباً 900 مسافر شدید زخمی ہوئے۔ جائے حادثے پر امدادی کام بڑے پیمانے پر جاری ہیں اور مہلوکین کی تعداد میں اضافے کے خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے۔
صدرِ جمہوریہ دروپدی مُرمو‘ وزیرِ اعظم نریندر مودی‘ ریلوے کے وزیر اشوینی ویشنو اور اُڑیسہ کے وزیرِ اعلیٰ نوین پٹنائک نے اس حادثے پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ حادثے میں ہلاک ہونے والے مسافروں کے اہلِ خانہ کو 10 لاکھ روپئے‘ شدید زخمیوں کو دو لاکھ روپئے اور معمولی زخمی مسافروں کو 50 ہزار روپئے امداد دینے کا اعلان محکمہئ ریل نے کیا ہے۔ وزیرِ اعظم امدادی فنڈ سے بھی مہلوکین کے ورثاء کو دو لاکھ روپئے اور زخمیوں کو 50 ہزار روپئے امداد دی جائیگی۔
***** ***** *****
ریاست میں جماعت دہم کے امتحان کے نتائج میں طلباء کی کامیابی کا تناسب 93  اعشاریہ آٹھ تین فیصد رہا۔ ریاستی ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کے چیئرمین شرد گوساوی نے کل ایک اخباری کانفرنس میں ان نتائج کا اعلان کیا۔ طلباء ان نتائج کی تفصیلات بورڈ کی ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ ریاست میں بہترین نتیجہ کوکن ڈویژن کا 98  اعشاریہ ایک ایک فیصد رہا۔ اورنگ آباد ڈویژن میں 93  اعشاریہ دو تین فیصد، جبکہ لاتور ڈویژن میں 92  اعشاریہ چھ سات فیصد طلباء کامیاب ہوئے۔ کولہاپور ڈویژن 96 اعشاریہ سات تین فیصد‘ پونا 95 اعشاریہ چھ چار فیصد‘ ممبئی 93 اعشاریہ چھ چھ‘ امراوتی 93 اعشاریہ دو۔دو اور ناسک میں کامیاب ہونے والے طلباء کا تناسب 92 اعشاریہ دو۔ دو فیصد رہا۔
جماعت دہم کے امتحانات میں اس برس بھی روایت کے مطابق طالبات نے مرد طلباء کی بہ نسبت بہتر کارکردگی پیش کی۔ مجموعی طور پر 95  اعشاریہ آٹھ سات فیصد طالبات کامیاب ہوئیں، جبکہ مرد طالب علموں میں یہ تناسب 92  اعشاریہ صفر پانچ فیصد رہا۔ بورڈ کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق ریاست میں تقریباً 10 ہزار اسکولوں کا نتیجہ صد فیصد رہا۔
مراٹھواڑہ میں اورنگ آباد ضلع کا نتیجہ 93  اعشاریہ پانچ آٹھ، جالنہ 90  اعشاریہ چار چار‘ بیڑ 96 اعشاریہ دو چار‘ پربھنی 90 اعشاریہ چار پانچ‘ ہنگولی 88 اعشاریہ سات ایک‘ ناندیڑ 90 اعشاریہ 39‘ عثمان آباد 93 اعشاریہ پانچ اور لاتور ضلع کا نتیجہ 94 اعشاریہ آٹھ آٹھ فیصد رہا۔
وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کامیاب ہونے والے طلباء کو مبارکباد دیتے ہوئے مستقبل کیلئے نیک خواہشات پیش کی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جن طلباء کے حاصل کردہ نشانات کم ہیں وہ مایوس نہ ہوں اور نئے سرے سے تیاری کرکے دوبارہ امتحان دینے کے دستیاب مواقع استعمال کریں۔ اسکولی تعلیم کے وزیر دیپک کیسرکر نے بھی جماعت دہم کے کامیاب طلباء کو مبارکباد دی۔
***** ***** *****
دسویں جماعت میں کم نشانات حاصل کرنے والے طلباء منفی خیالات کے باعث نفسیاتی ہیجان میں مبتلاء ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اس قسم کے طلباء کو مایوسی سے باہر نکالنے کیلئے تعلیمی بورڈ کی جانب سے آن لائن کونسلنگ خدمات شروع کی گئی ہیں۔ اس کے لیے 10 کونسلرز کو نامزد کیا گیا، جن کا فون نمبر بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور آئندہ ایک ہفتے تک صبح آٹھ تا رات آٹھ بجے تک یہ خدمات مفت دستیاب رہیں گی۔
***** ***** *****
وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے رائے گڑھ اتھاریٹی کے طرز پر پرتاپ گڑھ اتھاریٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ 350 ویں تاجپوشی میلے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ شیواجی مہاراج کے خاندان سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمان اُدین راجے بھونسلے اس اتھاریٹی کے سربراہ ہوں گے۔ رائے گڑھ قلعے کے دامن میں شیو میوزیم کی تعمیر کیلئے 50 کروڑ روپئے فنڈز دینے اور ممبئی کی ساحلی سڑک کو چھترپتی سنبھاجی مہاراج کا نام دینے کا اعلان بھی انھوں نے کیا۔ نائب وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس‘ رکنِ پارلیمان اُدین راجے بھونسلے، وزیر برائے ثقافتی اُمور سدھیر منگنٹیوار اور ریاستی کابینہ کے بیشتر ارکان اس پروگرام میں موجود تھے۔ اس موقع پر وزیرِ اعظم نریندر مودی کا ویڈیو پیغام بھی سنایا گیا۔ انھوں نے یومِ تاجپوشی کی مبارکباد بھی دی۔ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس نے مطالبہ کیا کہ شیواجی مہاراج کی یادگار دہلی میں بھی قائم کی جائے اور وہ اس کیلئے کوشش کریں گے۔
***** ***** *****
سابق وزیرِ اعلیٰ اشوک چوہان نے کہا ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات سے قبل مقامی سطح پر موجودہ صورتحال سے آگاہی ضروری ہے۔ کانگریس پارٹی کے دو روزہ جائزہ اجلاس کے پیشِ نظر کل ممبئی میں صحیفہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مقامی سطح پر انتخابات میں معقول رابطے اہمیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے وضاحت کی کہ نشستوں کی تقسیم کے اثرات مہاوِکاس آگھاڑی کے وجود پر مرتب نہیں ہوں گے‘ نیز تبادلہئ خیال کے بعد مہا وِکاس آگھاڑی کے طئے کردہ اُمیدوار کو منتخب کرنے کی ہرایک کو کوشش کرنا ضروری ہے۔
دریں اثناء مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر نانا پٹولے نے کہا ہے کہ فی الحال صورتحال مہاوِکاس آگھاڑی کیلئے بہتر ہے اور کانگریس ریاست کے تمام لوک سبھا حلقوں کا جائزہ اس دو روزہ اجلاس میں لے گی۔ کل اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مہا وِکاس آگھاڑی کی تینوں رُکن جماعتیں متحدہ طور پر لوک سبھا الیکشن لڑیں گی اور عنقریب ریاست کے تمام اضلاع کا دورہ کیا جائیگا۔
***** ***** *****
پرسار بھارتی کی جانب سے آکاشوانی ممبئی مرکز کے علاقائی خبررساں شعبے کے تحت پربھنی‘ ناندیڑ، لاتور‘ بیڑ، ممبئی، رتناگیری اور سانگلی اضلاع کے کانٹریکٹ بنیاد پر جزوقتی نامہ نگاروں کے تقرر کیلئے درخواستیں مطلوب ہیں۔ 24 تا 45 سال عمر کے امیدوار اس آسامی کیلئے اپنی درخواست ارسال کرسکتے ہیں۔ اس کیلئے تعلیمی قابلیت، درخواست فارم کا نمونہ اور دیگر معلومات ویب سائٹ پرسار بھارتی ڈاٹ جی او وی، ڈاٹ اِن، سلیش پی بی ویکینسیز پر دستیاب ہیں۔ درخواست گذار اپنی درخواستیں ایئر نیوز پینل ٹوئنٹی ٹوئنٹی @ جی میل ڈاٹ کام پر ای میل کرسکتے ہیں۔
***** ***** *****
اورنگ آباد کے کانگریس پارٹی کے رہنماء چندر بھان پارکھے کل اپنی رہائش گاہ پر انتقال کرگئے۔ وہ 75 برس کے تھے۔ پارکھے نے 2009 میں کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر اورنگ آباد مغرب سے اسمبلی الیکشن لڑا تھا۔ اُن کی آخری رسومات آج شام اورنگ آباد میں ادا کی جائیں گی۔
***** ***** *****
جعلی کرنسی نوٹ لے جانے والے تین افراد کو ایوت محل پولس نے حراست میں لے لیا ہے۔ ان ملزمان سے 500 روپئے کے 964 نوٹ ضبط کیے گئے۔ پولس کو موصول خفیہ اطلاع کی بنیاد پر مارواڑی پھاٹے پر گاڑیوں کی جانچ کے دوران ایک شخص وشال پوار کو حراست میں لیا گیا۔ اس ملزم سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر بیڑ سے ونود راٹھوڑ اور بالو کامبڑے نامی افراد کو بھی حراست میں لیا گیا۔
***** ***** *****
اورنگ آباد ضلع کے والوج سے غیر قانونی طور پر جنسی تشخیص کرتے ہوئے ایک ڈاکٹر کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس کا نام ڈاکٹر سنیل راجپوت بتایا جاتا ہے۔ والوج پولس کو اطلاع ملی تھی کہ ایک بی ایچ ایم ایس ڈاکٹر اسقاطِ حمل کیلئے گھروں تک پہنچ کر خدمات پیش کررہا ہے۔ اس بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے ڈاکٹر راجپوت اور نرس پوجا بھالے راؤ کو گرفتار کیا گیا۔
***** ***** *****
تھائی لینڈ اوپن بیڈ منٹن ٹورنامنٹ میں بھارت کے لکشیہ سین نے مردوں کے سنگلز کے سیمی فائنل میں داخلہ حاصل کرلیاہے۔ انھوں نے کوارٹر فائنل میں ملیشیاء کے جون ہاؤ لیانگ کو 21-11, 21-19 سے شکست دے دی۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ اُڑیسہ میں تین ٹرینوں کے حادثے میں 207 مسافر ہلاک؛ سینکڑوں زخمی۔
٭ ریاست میں جماعت دہم کے 93  اعشاریہ آٹھ تین فیصد طلباء کامیاب؛ اورنگ آباد ڈویژن کا نتیجہ 93  اعشاریہ دو تین فیصد۔
٭ 350 ویں تاجپوشی میلے میں پرتاپ گڑھ اتھاریٹی کے قیام کا وزیرِ اعلیٰ کا اعلان۔
٭ لوک سبھا انتخابات سے قبل مقامی سطح پر صورتحال کا جائزہ لینا ضروری: سابق وزیرِ اعلیٰ اشوک چوہان کا عندیہ۔
٭ 500 روپئے کے جعلی کرنسی نوٹ لے جانے والے تین افراد ایوت محل پولس کی حراست میں۔
٭ اورنگ آباد میں جنسی تشخیص کرنے والا ڈاکٹر گرفتار۔
اور۔۔ ٭ تھائی لینڈ اوپن بیڈمنٹن چمپئن شپ میں لکشیہ سین سیمی فائنل میں داخل۔
***** ***** *****
0 notes
bornlady · 4 months
Text
رنگ مو سامبره یخی : بنابراین، انتخاب کنندگان همگی گنگ بودند. صدایی برای او نبود، اما هیچ یک علیه او. در غروب آفتاب نمایندگان مردم جدا شدند و انتخابات خود را به روز دیگری موکول کردند. سپس تربا پیشنهاد شد: اما اعتماد به افسون های او ایجاد شده بود سر گیج شده است. رنگ مو : او مغرور و مغرور بود. نیازمند به عنوان یک الهه مورد احترام قرار گیرد. و اگر همیشه بخور برای او دود نمی شد، او بداخلاق، متقابل، دمدمی مزاج شد. نمایش تمام خصوصیات توسط که جنس منصف، زمانی که بخواهد، می تواند منصف نباشد. او کمتر بود از خواهر بزرگترش می ترسید. رنگ مو سامبره یخی رنگ مو سامبره یخی : اما نه از این جهت بیشتر دوستش داشت. برای به این دلایل، میدان انتخابات به عنوان یک بیداری در سکوت ادامه یافت. و رای هرگز فراخوانده نشد. روز سوم نوبت لیبوسا رسید. خیر زودتر این نام تلفظ شد، زمزمه محرمانه شنیده شد در سراسر دایره انتخاباتی؛ چهره های موقر بدون چروک و روشن شد. لینک مفید : سامبره مو و هر یک از انتخاب کنندگان چیزهایی برای زمزمه کردن داشتند به همسایه خود. یکی فضیلت او را ستود، دیگری او را ستود حیا، سومی احتیاط، چهارمی عصمت او در نبوت، الف پنجم بی‌علاقگی او به نصیحت، یک دهم عفت او، نود دیگر زیبایی او، و آخرین هدیه او به عنوان یک خانه دار. وقتی یک عاشق چنین فهرستی از کمالات معشوقه خود می کشد. رنگ مو سامبره یخی : آن هنوز شک دارد که آیا او واقعاً صاحب یک مجرد است یا خیر یکی از آنها؛ اما عموم مردم به ندرت در سمت مساعد اشتباه می کنند، هر چند اغلب از سوی دیگر، در قضاوت آن را در مورد شهرت خوب تلفظ می کند. با تعداد زیادی که در سراسر جهان به رسمیت شناخته شده اند. لینک مفید : سامبره مو شکلاتی ویژگی های ستودنی، لیبوسا بدون شک نامزد مورد علاقه بود، حداقل در petto، انتخاب کنندگان حکیم: اما ترجیح خواهر کوچکتر به بزرگتر به طور مکرر، در امر ازدواج، همانطور که تجربه گواهی می دهد، آرامش خانه را از بین برد که ممکن است ترس منطقی باشد. رنگ مو سامبره یخی : سرگرم مبادا در امور لحظه ای بزرگتر ممکن است مزاحم شود صلح کشور این توجه را نگهبانان عاقل قرار داده است مردم چنان خجالتی شده اند که می توانند به هیچ وجه بیایند نتیجه گیری هر چه باشد می خواستند یک بلندگو، برای آویزان کردن وجود دارد ساعت وزن فصاحت او بر چرخ انتخاب کنندگان' مطلوب خواهد شد. لینک مفید : سامبره مو بدون دکلره قبل از اینکه کسب و کار بتواند به حرکت درآید، و خوب است خلق و خوی ذهن آنها فعال و کارآمد می شود. و این بلندگو اکنون ظاهر شد، گویی برای کسب و کار منصوب شده است. ولادومیر، یکی از بزرگان بوهمی، بالاترین پس از دوک، داشت مدتها برای لیبوسا دلربا آه کشید و در زمان پدر او را جلب کرد. رنگ مو سامبره یخی : طول عمر کروکوس. جوانی که یکی از وفادارترین وفاداران او بود و کروکوس شایسته که به عنوان پسر مورد علاقه او بود، می توانست این آرزو را داشته باشد عشق این جفت را متحد می کند. اما خجالتی بودن دوشیزه بود غلبه ناپذیر، و او به هیچ وجه تمایل او را مجبور نمی کند. لینک مفید : تبدیل تمام دکلره به سامبره شاهزاده اما ولادومیر از این جنبه های مشکوک منصرف نمی شود. ولی هنوز امیدوار بود، با وفاداری و پایداری، قلب سخت را خسته کند، و با توجهات لطیف خود آن را نرم و انعطاف پذیر می کند. او در گروه دوک تا انتها ادامه یافت، بدون اینکه با این کار ظاهر شود یعنی یک تار مو به سمت هدف خواسته هایش پیش رفته است. رنگ مو سامبره یخی : اما اکنون، او فکر کرد، فرصتی برای باز کردن او به او پیشنهاد شد دل بسته با عملی شایسته و کسب درآمد از نجیب او قدردانی که عشق به نظر نمی رسید داوطلبانه به او عطا کند. او مصمم به شجاعت در برابر نفرت و انتقام این دو ترسیده خواهران، و معشوق خود را به تخت پدری خود رساند. لینک مفید : رنگ مو سامبره و امبره مشاهده از بلاتکلیفی مجلس متزلزل، خطاب به آنان گفت: "اگر به من گوش دهید، ای شوالیه ها و نجیب زادگان شجاع ای مردم، من برای شما مَثَلی خواهم گذاشت که به وسیله آن خواهید دید چگونه این انتخاب آینده ممکن است به سود و ثروت انجام شود زمین." با دستور سکوت، او اینگونه ادامه داد: "زنبورها ملکه خود را از دست داده بودند. رنگ مو سامبره یخی : کل کندو غمگین نشسته بودند و مواظب بودند. آنها به ندرت و کند به بیرون پرواز می کردند، قلب کوچک یا فعالیتی داشتند عسل‌سازی و تجارت و رزق و روزی آنها رو به زوال نهاد. از این رو آنها بر یک حاکم جدید تصمیم گرفتند، به[صفحه 75]بر جامعه خود حکومت کنند، که نظم و انضباط ممکن است. لینک مفید : سامبره ی مو از بین آنها گم نشود. سپس آمد زنبور به سمت آنها پرواز کرد و گفت: "من را برای ملکه خود انتخاب کنید. من هستم." قدرتمند و وحشتناک؛ اسب قوی از نیش من می ترسد.
با آن من حتی می تواند با شیر، دشمن ارثی شما سرپیچی کند و پوزه او را بخرد وقتی به فروشگاه شما نزدیک می شود. رنگ مو سامبره یخی : من شما را تماشا خواهم کرد و از شما دفاع خواهم کرد.' این سخنرانی برای زنبورها خوشایند بود. اما پس از بررسی عمیق آن، داناترین آنها پاسخ داد: "تو تنومند و مخوف هستی، اما حتی نیشی که از ما می ترسیم محافظت کند: تو نمی توانی ملکه ما باشی.' سپس زنبور فروتن به طرف آنها زوزه کشید و گفت: «من را برای خود انتخاب کنید. لینک مفید : رنگ مو سامبره و امبره ملکه؛ نمی شنوید که صدای بال های من از بلندی و بلندی خبر می دهد کرامت؟ نیش هم از من نمی خواهد تا از تو محافظت کنم.' را زنبورها پاسخ دادند: ما مردمی صلح‌جو و آرام هستیم. صدای غرور آفرین بال‌های تو ما را آزار می‌دهد و تداوم زندگی ما را مختل می‌کند. رنگ مو سامبره یخی : سخت کوشی: تو نمی توانی ملکه ما باشی.' سپس زنبور سلطنتی درخواست کرد مخاطب: 'اگرچه من از شما بزرگتر و قوی ترم،' گفت: "من قدرت نمی تواند به شما صدمه بزند یا به شما آسیب برساند. برای، ببینید، نیش خطرناک است در کل خواستن من نرم خو، دوست نظم و صرفه جویی هستم. لینک مفید : رنگ مو سامبره چیه می تواند عسل سازی شما را راهنمایی کند و کار شما را بیشتر کند.' 'سپس،' گفت زنبورها، "تو لایق حکومت بر ما هستی: ما از تو اطاعت می کنیم. ملکه ما باشید.'" ولادمیر ساکت بود. تمام مجلس معنای او را حدس زدند گفتار، و ذهن همه در لحن مطلوب برای بود.
0 notes