Tumgik
#نرم گرم ہوائیں
bazmeur · 10 months
Text
نرم گرم ہوائیں ۔۔۔ ضیا فتح آبادی، جمع و ترتیب: اعجاز عبید
نرم گرم ہوائیں ضیا فتح آبادی جمع و ترتیب: اعجاز عبید ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائلورڈ فائلٹیکسٹ فائلای پب فائلکنڈل فائل مکمل کتاب پڑھیں ….. نرم گرم ہوائیں ضیا فتح آبادی سال اشاعت:  ۱۶۱۱ء ناشر:  شریمتی راج کماری سونی جمع و ترتیب: اعجاز عبید ضیا فتح آبادی کا ادبی سفر ۔۔۔ اوم پرکاش بجاج وقت طلوع مستی نکلا تھا گھر سے راہی اک سوچ کے سفر پر صحن چمن میں اُس نے سورج اگا دیا تھا لے کر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdubbcus-blog · 5 years
Photo
Tumblr media
یہ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے دنیا میں تین جگہیں ایسی ہیں جہاں آپ زندگی کی اصل حقیقت جان سکتے ہیں‘ ہم کیا ہیں‘ ہماری اوقات کیا ہے‘ ہماری حسرتوں‘ ہماری خواہشوں اور ہماری سماجی‘ معاشرتی اور معاشی ترقی کی حیثیت کیاہے اور ہماری نفرتوں‘ ہماری رقابتوں اور ہماری دشمنیوں کی اصل حقیقت کیا ہے؟ آپ مہینے میں ایک بار ان جگہوں کا وزٹ کر لیا کریں آپ کو اپنے ظاہر اور باطن دونوں کی اوقات سمجھ آ جائے گی۔ میں اکثر ان جگہوں پر جاتا ہوں اور کسی کونے میں چپ چاپ بیٹھ کر زندگی کی اصل حیثیت دیکھتا ہوں اور پھر پوری طرح چارج ہو کر واپس آ جاتا ہوں۔یہ تین جگہیں قبرستان‘ ہسپتال اور جیل ہیں۔ آپ کبھی اپنا سب سے قیمتی سوٹ پہنیں‘ شیو کریں‘ جسم پر خوشبولگائیں‘ جوتے پالش سے چمکائیں‘ اپنی سب سے مہنگی گاڑی نکالیں اور شہر کے سب سے بڑے قبرستان میں چلے جائیں‘ آپ ایک کونے سے دوسرے کونے تک قبروں کے کتبے پڑھنا شروع کریں‘ آپ تمام قبروں کا سٹیٹس دیکھیں‘ آپ کو محسوس ہوگا ان قبروں میں سوئے ہوئے زیادہ تر لوگ سٹیٹس کے لحاظ سے آپ سے کہیں آگے تھے‘ یہ لوگ آپ سے زیادہ مہنگے سوٹ پہنتے تھے‘ دن میں دو‘ دو بار شیو کرتے تھے‘ ان کے پاس زیادہ مہنگی پروفیومز تھیں‘ یہ اطالوی جوتے خریدتے تھے اور ان کے پاس آپ سے زیادہ مہنگی اور لگژری گاڑیاں تھیں لیکن آج یہ مٹی میں مل کر مٹی ہو چکے ہیں اور قبر کا کتبہ ان کی واحد شناخت رہ گیا ہے۔ آپ کو محسوس ہوگا یہ لوگ رتبے‘ اختیار اور تکبر میں بھی آپ سے بہت آگے تھے‘ مکھیاں بھی ان کی ناک پر بیٹھنے سے پہلے سو سو بار سوچتی تھیں‘ ہوائیں بھی ان کے قریب پہنچ کر محتاط ہو جاتی تھیں اور یہ کبھی اس زمین‘ اس ملک اور اس سسٹم کیلئے ناگزیر سمجھے جاتے تھے لیکن پھر کیا ہوا‘ ایک سانس ان کے پھیپھڑوں سے باہر نکلی اور واپس جانے کا راستہ بھول گئی اور اس کے بعد یہ لوگ دوسروں کے کندھوں پر سفر کرتے ہوئے یہاں پہنچے اور زندگی انہیں فراموش کر کے واپس لوٹ گئی اور اب ان کا مرتبہ‘ ان کے اختیارات‘ ان کا تکبر اور ان کی ناگزیریت دو فٹ کے کتبے میں سمٹ کر رہ گئی۔آپ قبرستان کی کسی شکستہ قبر کے سرہانے بیٹھ جائیں‘ اپنے ارد گرد پھیلی قبروں پر نظر ڈالیں اور اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں ”میرے پاس کتنا وقت باقی ہے؟“ آپ کو اس سوال کے جواب میں تاریکی‘ سناٹے اور بے بسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ آپ اسی طرح کبھی کبھی ہسپتالوں کا چکر بھی لگا لیا کریں‘ آپ کو وہاں اپنے جیسے سینکڑوں ہزاروں لوگ ملیں گے‘ یہ لوگ بھی چند دن‘ چند گھنٹے پہلے تک آپ کی طرح دوڑتے‘ بھاگتے‘ لپکتے اور شور مچاتے انسان تھے‘ یہ بھی آپ کی طرح سوچتے تھے کہ یہ زمین پر ایڑی رگڑیں گے تو تیل کے چشمے پھوٹ پڑیں گے‘ ان کا بھی خیال تھا یہ پاؤں مار کر زمین دہلا دیں گے اور ان کو بھی یہ گمان تھا کہ دنیا کا کوئی وائرس‘ کوئی جراثیم اور کوئی دھات انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی لیکن پھر ایک دن زندگی ان کیلئے عذاب بن گئی‘ ان کے پاؤں‘ ان کے ہاتھ‘ ان کی آنکھیں‘ ان کے کان‘ ان کا جگر‘ ان کا دل‘ ان کا دماغ اور ان کے گردے ان کے ساتھ بے وفائی کر گئے اور یہ اپنے ٹھنڈے گرم محلوں سے نکل کر ہسپتال کے بدبودار کوریڈورز کے مسافر بن گئے‘ آپ ہسپتالوں کی پرائیویٹ وارڈز اور مہنگے پرائیوٹ ہسپتالوں کا چکر ضرور لگایا کریں‘ آپ کو وہاں وہ لوگ ملیں گے جو م��نگے سے مہنگا ڈاکٹر اور قیمتی سے قیمتی ترین دوا خرید سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ بے بسی کے عالم میں ہسپتالوں میں پڑے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ انسان ڈاکٹر اور دوا تو خرید سکتا ہے لیکن شفاء نہیں اور یہ لوگ قدرت کے اس قانون کے قیدی بن کر ہسپتالوں میں پڑے ہیں‘ آپ مریضوں کو دیکھیں‘ پھر اپنے آپ کو دیکھیں‘ اللہ کا شکر ادا کریں اور صحت کی اس مہلت کو مثبت طریقے سے استعمال کریں۔ آپ جیلوں کا چکر بھی لگایا کریں‘ آپ کو وہاں ایسے سینکڑوں ہزاروں لوگ ملیں گے جو کبھی آپ کی طرح آزاد پھرتے تھے‘ یہ رات کے تین بجے کافی پینے نکل جاتے تھے‘ یہ سردیوں کی یخ ٹھنڈی راتیں اپنے نرم اور گرم بستر پر گزارتے تھے لیکن یہ کسی دن کسی اپنے حیوانی جذبے کے بہکاوے میں آ گئے‘ یہ کسی کمزور لمحے میں بہک گئے اور طیش میں‘ عیش میں یا پھر خوف میں ان سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو گئی جس کی پاداش میں یہ لوگ سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے اور یہ اب جیل کے معمول کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آپ سزائے موت کے قیدیوں سے بھی ضرور ملیں‘ آپ کو ان سے مل کر محسوس ہوگا ہم لوگ رقابت کے جذبے کو ایک لمحے کا سکھ دینے کیلئے‘ ہم اپنی انا کو گنے کے رس کا ایک گلاس پلانے کیلئے‘ ہم ایک منٹ کیلئے اپنی ناک کو دوسروں کی ناکوں سے بلند رکھنے کیلئے اور ہم دوسروں کی ضد کو کچلنے کیلئے بعض اوقات ایسی غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ موت بھی ہم پر ترس کھانے سے انکار کر دیتی ہے اور ہم جیل کی سلاخیں پکڑ کر اور اللہ سے معافی مانگ مانگ کر دن کو رات اور رات کو دن میں ڈھلتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن ہماری سزا پوری نہیں ہوتی۔ آپ جیل کے قیدیوں کو سلاخوں کے پیچھے کھڑے ہو کر اپنی بیویوں کو حسرتوں سے دیکھتے ہوئے دیکھئے‘ آپ ان کی کانپتی ہوئی ان انگلیوں کو دیکھئے جو اپنے بچوں کے لمس کو ترس گئی ہیں‘ آپ ان کے بے قرار پاؤں دیکھئے جنہیں آزادی کا احساس چکھے ہوئے کئی برس بیت گئے ہیں اور آپ ان کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے ان رت جگوں کی فصلیں بھی دیکھئے جو انہوں نے اپنی غلطی‘ اپنی کوتاہی اور اپنے جرم پر معافی مانگ مانگ کر اگائی ہیں لیکن قدرت یہ فصل کاٹنے پر راضی نہیں ہو رہی۔ آپ ان لوگوں کو دیکھئے‘ اپنے اوپر نگاہ ڈالئے اور پھر یہ سوچئے آپ پر بھی دن میں ایسے سینکڑوں ہزاروں کمزور لمحے آتے ہیں‘ آپ بھی لالچ کے بہکاوے میں آتے ہیں‘ آپ بھی غرور اور تکبر کے ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھ جاتے ہیں‘ آپ بھی رقابت کے نرغے میں آ کر دوسرے لوگوں کی زندگیوں کو کھیل بنا لیتے ہیں‘ آپ بھی غیرت کے سیراب میں الجھ کر دوسروں کا خون پینے کا فیصلہ کرتے ہیں اور آپ بھی دوسروں کے مال کو اپنا بنانے کے منصوبے بناتے ہیں لیکن کوئی نادیدہ ہاتھ‘ کسی دوست کی کوئی نصیحت اور حالات کی کوئی مہربانی آپ کو روک لیتی ہے‘ آپ باز آ جاتے ہیں اور یہ بھی ہوتا ہے قدرت آپ پر خاص مہربانی کرتے ہوئے آپ کی خامیوں‘ آپ کی کوتاہیوں‘ آپ کی غلطیوں‘ آپ کے گناہوں اور آپ کے جرائم پر پردہ ڈال دیتی ہے‘ یہ آپ کو گواہیوں‘ ثبوتوں‘ قانون اور کچہریوں سے بچائے رکھتی ہے لیکن آپ قدرت کی اس مہربانی کو اپنی چالاکی‘ اپنا کمال سمجھ لیتے ہیں‘ آپ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں آپ چارلس سوبھراج ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے قانون کی آنکھوں میں خاک جھونکنے کیلئے دنیا میں بھیجا ہے اور دنیا کا کوئی قانون‘ کوئی ضابطہ آپ کو کبھی پکڑ نہیں سکے گا۔ آپ کو قبرستانوں‘ ہسپتالوں اور جیلوں میں بے گناہ‘ معصوم اور انتہائی شریف لوگ بھی ملیں گے‘ یہ لوگ کبھی کوئی ضابطہ‘ کوئی اصول نہیں توڑتے تھے‘ یہ اس قدر محتاط لوگ تھے کہ یہ آب زم زم بھی ابال کر پیتے تھے‘ یہ دودھ‘ دہی اور مکھن کیلئے اپنی بھینسیں پالتے تھے اور دیسی مرغی کا شوربہ پیتے تھے‘ یہ ہمیشہ رات نو بجے سو جاتے تھے اور صبح پانچ بجے اٹھ جاتے تھے اور ان سے پوری زندگی کوئی بے اعتدالی‘ کوئی غفلت سرزد نہیں ہوئی‘ آپ ایسے لوگ بھی دیکھیں گے جو آرام سے اپنے گھر میں سوئے ہوئے تھے‘ جو اپنی لین میں گاڑی چلا رہے تھے یا فٹ پاتھ پر اپنی سمت میں جا رہے تھے اور آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے پوری زندگی قانون کا احترام کیا‘ یہ تھانے کے سامنے سے گزرتے ہوئے سر جھکا لیتے تھے اور نیلی پیلی ہر قسم کی یونیفارم کو سلام کر کے آگے جاتے تھے اور جو دوسری جنگ عظیم کے دوران بننے والے قوانین کا بھی احترام کرتے تھے اور جنہوں نے آج بھی سائیکل پر بتی لگوا رکھی تھی لیکن پھر یہ لوگ دوسرے کردہ جرائم میں محبوس ہو گئے‘ یہ بے گناہ ہونے کے باوجود قانون کے نہ کھلنے‘ نہ ٹوٹنے والے دانتوں میں پھنس گئے‘ آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو کھیرا کاٹنے سے پہلے اسے ڈیٹول سے دھوتے تھے لیکن یہ لوگ بھی ہسپتال کے مستقل مہمان بن گئے اور ایسے لوگ بھی جو فٹ پاتھ پر دوسروں کی موت کا نوالہ بن گئے‘ جو کسی آوارہ گولی کا نشانہ بن گئے یا پھر ان کے سر پر کوئی طیارہ آ کر گر گیا‘ آپ ان لوگوں کو دیکھئے اور اس کے بعد اپنے اوپر نگاہ ڈالئے اور پھر سوچئے یہ طیارہ آپ پر بھی گر سکتا ہے‘ دوسری لین سے کوئی گاڑی اڑ کر آپ کے موٹر سائیکل‘ آپ کی گاڑی پر بھی گر سکتی ہے اور ڈاکٹر اچانک آپ کو بھی کینسر کا مریض ڈکلیئر کر سکتے ہیں یا پھر آپ کے دل کے اندر بھی اچانک درد کی ایک لہر دوڑ سکتی ہے اور آپ کو کلمہ تک پڑھنے کی مہلت نہیں ملتی۔ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے‘ یہ ہم بھی ہو سکتے ہیں لہٰذا آئیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور اس مہلت‘ اللہ تعالیٰ کی اس مہربانی پر اس کا شکریہ ادا کریں اور کبھی کبھی جیلوں‘ ہسپتالوں اور قبرستانوں میں بھی ایک گھنٹہ گزار لیا کریں کیونکہ یہ تین ایسی جگہیں ہیں جہاں گئے بغیر ہمیں زندگی کی اصل حقیقت‘ اپنی اوقات اور اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کا اندازا نہیں ہو سکتا۔ The post یہ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے appeared first on Zeropoint. Get More News
0 notes
Text
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
وہ شوال 5 ہجری کی ایک سرد صبح تھی، جب مکہ مکرّمہ کے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکتی سورج کی رُوپہلی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ابو سفیان کی قیادت میں 10ہزار مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف قبائل پر مشتمل اس لشکر نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا ہے۔ امام الانبیاءؐ، سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ اممؐ کو ہر ہر لمحے کی خبر ہے۔ اللہ کی تائید و نصرت اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینے کے گرد ایک وسیع و عریض خندق نے مشرکین کے عزائم کے درمیان حائل ہو کر اُن کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ غیظ و غضب میں بپھرے مشرکین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُن کے ارادے یوں پامال ہو جائیں گے ۔
آج محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے، لیکن ان بے سروسامان مسلمانوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی۔ اس کے برعکس، چند دنوں میں فتح کے شادیانے بجاتے واپس لَوٹنے کے خواب دیکھنے والے مشرکین کو طویل محاصرے نے بددل اور پست ہمّت کر دیا۔ گھربار سے دُور خیموں کی سخت ترین کٹھن زندگی، مدینے کی سرد ہوائیں اور خراب موسم موت کا پیغام بن کر اُنہیں مختلف بیماریوں میں گھیر چُکا ہے۔ اُن کے اونٹ، گھوڑے اور مویشی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں۔ حالات کی سختی نے اُن کے اعصاب مفلوج کر کے اُنھیں آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے۔ مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ سرد ہو چُکا اور اب اُنہیں اپنے گھروں کو واپسی کی فکر ہے۔ اور پھر ایک سرد ٹھٹھرتی تاریک رات میں کالی آندھی اور ریت کا طوفان اللہ کا قہر بن کر نازل ہو گیا۔ اُن کے خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں، چراغ گُل ہو گئے۔ سامان ہوا میں اُڑ گیا، اونٹ اور گھوڑے رسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ مشرکین کے چہرے خاک آلود، آنکھیں، ناک اور کان مٹّی سے بھر گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اسی رات کا انتظار تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ کوئی ہے، جو اس خوف ناک طوفان سے نبردآزما ہوتا ہوا مشرکین کی صفوں میں جائے اور اندر کا حال معلوم کر کے آئے؟‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس یخ بستہ موسم اور ریت کے طوفان میں خندق پار کر کے دشمنوں کی صفوں میں داخل ہونا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحابہؓ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ کھڑے ہوئے’’یارسول اللہؐ ! یہ کام مَیں انجام دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے محبّت بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا۔ شفقت سے اپنے پاس بلا کر ہدایات دیں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور کفّار کی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ عجیب افراتفری کا عالم ہے، لوگ اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ابو سفیان خود بھی اپنے گھوڑے پر بیٹھا واپسی کا قصد کر رہا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آ کر حضور ؐ کو وہاں کی صُورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ صبح فجر کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ میدان صاف ہو چُکا ہے اور مشرکین ناکام و نامُراد واپس لَوٹ چُکے ہیں۔
تعارف
حضرت حذیفہؓ کے والد، حسیلؓ بن جابر الیمانی کا تعلق، بنو غطفان کے عبس خاندان سے تھا۔ یہ خاندان، اپنی بہادری اور جواں مَردی کے لیے مشہور تھا۔ حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّہ میں ایک شخص کا قتل ہو گیا، چناں چہ وہ چُھپ کر مدینہ آ گئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ حاصل کر لی اور اُسی قبیلے کی ایک خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کر لیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ حسیلؓ بن جابر چوں کہ یمنی النّسل تھے، لہٰذا اہلِ مدینہ نے اُن کا نام یمان رکھ دیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ جب رسول اللہؐ نے نبوّت کا اعلان کیا، تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد یمانؓ کے ساتھ مکہ آئے اور حضورؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ ؓکے والد قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی، چناں چہ اُنھوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا’’یارسول اللہؐ ! مَیں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ حضور اکرم ﷺنے فرمایا’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلائو یا انصار۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یارسول اللہؐ ! مَیں انصار کہلانا پسند کروں گا۔‘‘
سلسلۂ نسب، حلیہ
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حذیفہؓ بن حسیلؓ بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن یفیض بن زیت بن غطفان۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے کے قبائل اوس و خزرج یمنی النّسل تھے، اس لیے حسیل کا نام اُن کی قوم نے یمان رکھ دیا۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت ، عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ میانے قد، چوڑے چکلے، مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ ماتھا چوڑا، سفید چمکیلے دانت، نگاہیں عقابی تھیں۔ دلائل کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرتے۔ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم اور درویش منش انسان تھے۔‘‘
صاحبِ سرِ رسول اللہ ﷺ
آپؓ کا ایک لقب ’’صاحبِ سرِ رسول اللہؐ ‘‘ ہے۔ یعنی پیغمبرِ اسلامؐ کے رازدار ۔ ابن عبدالبر’’ الاستیعاب‘‘ میں اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہؐ نے اُن کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا اور آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیّت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں۔‘‘ رسول اکرمؐ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔
کاتبِ وحی
حضرت حذیفہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ چناں چہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز فرمایا۔ آپؓ علم و فضل، قرآن و حدیث اور فقہ میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ آپؓ سے حدیث کی تعلیم حاصل کرتے۔ ابو عبیدالقاسم اپنی کتاب’’کتاب القراء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت حذیفہؓ عہدِ نبویؐ کے شروع کے حفّاظِ قرآن میں سے تھے۔ فتنوں سے متعلق آپ ؓکو کافی احادیث یاد تھیں۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ’’تم میں سے کس کو فتنوں سے متعلق رسول اللہؐ کی احادیث یاد ہیں؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے کہا ’’مجھے۔‘‘حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’تم اس معاملے میں بڑے دلیر ہو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔ وہ بڑے بارُعب صحابی تھے، اُن کے شاگرد بلاوجہ اُن سے سوال نہیں کر سکتے تھے(بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرمایا کرتے تھے’’اے قاریعہ! (یعنی علماء) کی جماعت، استقامت اختیار کرو، کیوں کہ تم بہت پیچھے رہ گئے ہو، اگر تم دائیں بائیں اُتر جائو گے، تو گم راہ ہو جائو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔
غزوات میں شرکت
حضرت حذیفہؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن راستے میں کفّار نے گرفتار کر لیا۔ ابوجہل نے اُن سے پوچھا’’کیا تم جنگ میں شرکت کے لیے بدر جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘ ابوجہل کی خواہش تھی کہ دونوں باپ بیٹے کو قتل کر دے، لیکن ایک مشرک سردار نے اُسے سمجھایا کہ’’اگر اُنہیں قتل کرو گے، تو عبس قبیلہ ہمارا دشمن ہو جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجہل نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اُن دونوں سے کہا’’تم یہ عہد کرو کہ بدر کی لڑائی میں محمّد(ﷺ)کا ساتھ نہیں دو گے، تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے جان بچانے کی غرض سے وعدہ کر لیا، مگر آزادی ملتے ہی دونوں بدر میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور اُنہیں واپس مدینہ بھیج دیا(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)۔ رحمت دوعالمؐ کے یہ تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک کے لیے معاہدوں کی پاس داری کا بین الاقوامی اصول وضع کر گئے۔
شہادت ہے معراجِ مردِ مومن
غزوۂ اُحد کے دن آنحضرتؐ نے حضرت یمان ؓبن جابر اور حضرت ثابت بن وقشؓ کو ضعیف العمری کی وجہ سے خواتین اور بچّوں کے ساتھ ایک اونچے ٹیلے پر محفوظ جگہ بٹھا دیا، مگر جب جنگ کا میدان گرم ہوا، تو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے خود پر قابو نہ رکھ سکے اور شہادت کے عظیم منصب کی خواہش دِل میں لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی تھی، لیکن جبل رماۃ پر متعیّن تیراندازوں کی ذرا سی کوتاہی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور میدانِ جنگ میں افراتفری مچ گئی۔ دوست اور دشمن کی شناخت مشکل ہو گئی، اس افراتفری میں حضرت حذیفہؓ کے والد شہید ہو گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہؐ نے اُن کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ ’’مَیں نے اُن کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔‘‘ اس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جنگِ نہاوند
حضرت عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع ہے۔ آپؓ نے پہلے خود جانے کا ارادہ کیا، لیکن صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرنؓ کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو نائب بنا کر روانہ کیا۔ یہ دونوں صحابیؓ 30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند کی جانب بڑھے، وہاں دونوں افواج میں گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن اُن کے سپہ سالار، نعمان بن مقرنؓ شہید ہو گئے، جس پر حضرت حذیفہؓ لشکرِ اسلام کے سپہ سالار مقرّر ہوئے۔ اُنہوں نے نہاوند شہر پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے، مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا، جب کہ ہیرے جواہرات کا بکس حضرت فاروق اعظمؓ کو بھجوا دیا، تاہم اُنھوں نے حکم دیا کہ اُنہیں بھی فروخت کر کے رقم لشکر میں تقسیم کر دو، چناں چہ اُن جواہرات کو چار لاکھ درہم میں فروخت کر کے رقم تقسیم کر دی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں دینور اور ہمدان جیسے شہروں کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور فاتح کہلائے۔
حاکمِ شہر کی شانِ بے نیازی
امیرالمومنین ، حضرت عُمر فاروق ؓ نے آپؓ کو فوجی خدمات سے سبک دوش کر کے مدائن کا گورنر مقرّر کر دیا۔ گورنر کی حیثیت سے آپؓ کے مدائن میں داخلے کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ معزّزینِ شہر ہزاروں افراد کے ساتھ آپؓ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع ہیں، سب کی نظریں گورنر کی شاہانہ سواری کی منتظر ہیں۔ ایک شخص نہایت معمولی لباس زیبِ تن کیے ہوئے، ایک خچر پر سوار شہر میں داخل ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر گزر گئی، تو فکر بڑھی اور پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟ حاکمِ شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟‘‘بتایا گیا کہ’’وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر معزّزینِ شہر سخت حیران ہوئے۔
شہنشاہی میں فقیری
جب تک مدائن میں قیام پزیر رہے، عجز و انکساری اور سادگی کی تصویر بنے رہے، کوئی بھی حاجت مند کسی بھی وقت گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔ گھر کی معمولی ضروریات کے خرچ کے علاوہ اپنی ساری تن خواہ غریب، غرباء میں تقسیم کر دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے پانی مانگا۔ ایک مجوسی نے سونے یا چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا۔ آپ ؓنے اس برتن کا پانی پھینک دیا اور فرمایا’’مَیں نے تم کو کئی بار منع کیا ہے، مَیں اس میں پانی نہیں پیتا، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ’’ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھائو اور نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔
سادگی مومن کی شان ہے
کچھ عرصے بعد امیرالمومنین، حضرت عمر فاروقؓ نے دربارِ خلافت میں طلب فرمایا۔ فاروق اعظمؓ کو تجسّس ہوا کہ دیکھیں، مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں۔ آپؓ شہرِ مدینہ آنے والے راستے میں کھجوروں کے ایک جھنڈ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں اُنہیں دُور سے حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے۔ دیکھا کہ وہ جس حال میں مدینے سے گئے تھے، اس سے زیادہ خستہ حالی میں واپس ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبّت سے اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا ’’اے حذیفہؓ !تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘
خالقِ حقیقی سے جا ملے
موت کا وقت جب قریب آیا، تو آپؓ نے وصیّت فرمائی کہ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا، اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو مجھے وہاں جنّت کے کپڑے کے بہترین کفن سے نوازا جائے گا اور اگر وہاں پر میرے لیے بہتری نہیں ہے، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے امیری کے مقابلے میں فقیری کو چاہا ہے اور ہمیشہ موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد مدائن میں آپؓ نے وفات پائی (اسدالغابہ)۔
The post حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2yC5RDR via
0 notes
dani-qrt · 6 years
Text
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
وہ شوال 5 ہجری کی ایک سرد صبح تھی، جب مکہ مکرّمہ کے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکتی سورج کی رُوپہلی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ابو سفیان کی قیادت میں 10ہزار مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف قبائل پر مشتمل اس لشکر نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا ہے۔ امام الانبیاءؐ، سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ اممؐ کو ہر ہر لمحے کی خبر ہے۔ اللہ کی تائید و نصرت اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینے کے گرد ایک وسیع و عریض خندق نے مشرکین کے عزائم کے درمیان حائل ہو کر اُن کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ غیظ و غضب میں بپھرے مشرکین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُن کے ارادے یوں پامال ہو جائیں گے ۔
آج محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے، لیکن ان بے سروسامان مسلمانوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی۔ اس کے برعکس، چند دنوں میں فتح کے شادیانے بجاتے واپس لَوٹنے کے خواب دیکھنے والے مشرکین کو طویل محاصرے نے بددل اور پست ہمّت کر دیا۔ گھربار سے دُور خیموں کی سخت ترین کٹھن زندگی، مدینے کی سرد ہوائیں اور خراب موسم موت کا پیغام بن کر اُنہیں مختلف بیماریوں میں گھیر چُکا ہے۔ اُن کے اونٹ، گھوڑے اور مویشی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں۔ حالات کی سختی نے اُن کے اعصاب مفلوج کر کے اُنھیں آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے۔ مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ سرد ہو چُکا اور اب اُنہیں اپنے گھروں کو واپسی کی فکر ہے۔ اور پھر ایک سرد ٹھٹھرتی تاریک رات میں کالی آندھی اور ریت کا طوفان اللہ کا قہر بن کر نازل ہو گیا۔ اُن کے خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں، چراغ گُل ہو گئے۔ سامان ہوا میں اُڑ گیا، اونٹ اور گھوڑے رسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ مشرکین کے چہرے خاک آلود، آنکھیں، ناک اور کان مٹّی سے بھر گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اسی رات کا انتظار تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ کوئی ہے، جو اس خوف ناک طوفان سے نبردآزما ہوتا ہوا مشرکین کی صفوں میں جائے اور اندر کا حال معلوم کر کے آئے؟‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس یخ بستہ موسم اور ریت کے طوفان میں خندق پار کر کے دشمنوں کی صفوں میں داخل ہونا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحابہؓ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ کھڑے ہوئے’’یارسول اللہؐ ! یہ کام مَیں انجام دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے محبّت بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا۔ شفقت سے اپنے پاس بلا کر ہدایات دیں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور کفّار کی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ عجیب افراتفری کا عالم ہے، لوگ اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ابو سفیان خود بھی اپنے گھوڑے پر بیٹھا واپسی کا قصد کر رہا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آ کر حضور ؐ کو وہاں کی صُورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ صبح فجر کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ میدان صاف ہو چُکا ہے اور مشرکین ناکام و نامُراد واپس لَوٹ چُکے ہیں۔
تعارف
حضرت حذیفہؓ کے والد، حسیلؓ بن جابر الیمانی کا تعلق، بنو غطفان کے عبس خاندان سے تھا۔ یہ خاندان، اپنی بہادری اور جواں مَردی کے لیے مشہور تھا۔ حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّہ میں ایک شخص کا قتل ہو گیا، چناں چہ وہ چُھپ کر مدینہ آ گئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ حاصل کر لی اور اُسی قبیلے کی ایک خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کر لیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ حسیلؓ بن جابر چوں کہ یمنی النّسل تھے، لہٰذا اہلِ مدینہ نے اُن کا نام یمان رکھ دیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ جب رسول اللہؐ نے نبوّت کا اعلان کیا، تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد یمانؓ کے ساتھ مکہ آئے اور حضورؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ ؓکے والد قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی، چناں چہ اُنھوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا’’یارسول اللہؐ ! مَیں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ حضور اکرم ﷺنے فرمایا’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلائو یا انصار۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یارسول اللہؐ ! مَیں انصار کہلانا پسند کروں گا۔‘‘
سلسلۂ نسب، حلیہ
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حذیفہؓ بن حسیلؓ بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن یفیض بن زیت بن غطفان۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے کے قبائل اوس و خزرج یمنی النّسل تھے، اس لیے حسیل کا نام اُن کی قوم نے یمان رکھ دیا۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت ، عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ میانے قد، چوڑے چکلے، مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ ماتھا چوڑا، سفید چمکیلے دانت، نگاہیں عقابی تھیں۔ دلائل کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرتے۔ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم اور درویش منش انسان تھے۔‘‘
صاحبِ سرِ رسول اللہ ﷺ
آپؓ کا ایک لقب ’’صاحبِ سرِ رسول اللہؐ ‘‘ ہے۔ یعنی پیغمبرِ اسلامؐ کے رازدار ۔ ابن عبدالبر’’ الاستیعاب‘‘ میں اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہؐ نے اُن کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا اور آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیّت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں۔‘‘ رسول اکرمؐ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔
کاتبِ وحی
حضرت حذیفہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ چناں چہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز فرمایا۔ آپؓ علم و فضل، قرآن و حدیث اور فقہ میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ آپؓ سے حدیث کی تعلیم حاصل کرتے۔ ابو عبیدالقاسم اپنی کتاب’’کتاب القراء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت حذیفہؓ عہدِ نبویؐ کے شروع کے حفّاظِ قرآن میں سے تھے۔ فتنوں سے متعلق آپ ؓکو کافی احادیث یاد تھیں۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ’’تم میں سے کس کو فتنوں سے متعلق رسول اللہؐ کی احادیث یاد ہیں؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے کہا ’’مجھے۔‘‘حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’تم اس معاملے میں بڑے دلیر ہو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔ وہ بڑے بارُعب صحابی تھے، اُن کے شاگرد بلاوجہ اُن سے سوال نہیں کر سکتے تھے(بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرمایا کرتے تھے’’اے قاریعہ! (یعنی علماء) کی جماعت، استقامت اختیار کرو، کیوں کہ تم بہت پیچھے رہ گئے ہو، اگر تم دائیں بائیں اُتر جائو گے، تو گم راہ ہو جائو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔
غزوات میں شرکت
حضرت حذیفہؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن راستے میں کفّار نے گرفتار کر لیا۔ ابوجہل نے اُن سے پوچھا’’کیا تم جنگ میں شرکت کے لیے بدر جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘ ابوجہل کی خواہش تھی کہ دونوں باپ بیٹے کو قتل کر دے، لیکن ایک مشرک سردار نے اُسے سمجھایا کہ’’اگر اُنہیں قتل کرو گے، تو عبس قبیلہ ہمارا دشمن ہو جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجہل نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اُن دونوں سے کہا’’تم یہ عہد کرو کہ بدر کی لڑائی میں محمّد(ﷺ)کا ساتھ نہیں دو گے، تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے جان بچانے کی غرض سے وعدہ کر لیا، مگر آزادی ملتے ہی دونوں بدر میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور اُنہیں واپس مدینہ بھیج دیا(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)۔ رحمت دوعالمؐ کے یہ تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک کے لیے معاہدوں کی پاس داری کا بین الاقوامی اصول وضع کر گئے۔
شہادت ہے معراجِ مردِ مومن
غزوۂ اُحد کے دن آنحضرتؐ نے حضرت یمان ؓبن جابر اور حضرت ثابت بن وقشؓ کو ضعیف العمری کی وجہ سے خواتین اور بچّوں کے ساتھ ایک اونچے ٹیلے پر محفوظ جگہ بٹھا دیا، مگر جب جنگ کا میدان گرم ہوا، تو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے خود پر قابو نہ رکھ سکے اور شہادت کے عظیم منصب کی خواہش دِل میں لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی تھی، لیکن جبل رماۃ پر متعیّن تیراندازوں کی ذرا سی کوتاہی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور میدانِ جنگ میں افراتفری مچ گئی۔ دوست اور دشمن کی شناخت مشکل ہو گئی، اس افراتفری میں حضرت حذیفہؓ کے والد شہید ہو گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہؐ نے اُن کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ ’’مَیں نے اُن کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔‘‘ اس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جنگِ نہاوند
حضرت عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع ہے۔ آپؓ نے پہلے خود جانے کا ارادہ کیا، لیکن صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرنؓ کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو نائب بنا کر روانہ کیا۔ یہ دونوں صحابیؓ 30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند کی جانب بڑھے، وہاں دونوں افواج میں گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن اُن کے سپہ سالار، نعمان بن مقرنؓ شہید ہو گئے، جس پر حضرت حذیفہؓ لشکرِ اسلام کے سپہ سالار مقرّر ہوئے۔ اُنہوں نے نہاوند شہر پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے، مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا، جب کہ ہیرے جواہرات کا بکس حضرت فاروق اعظمؓ کو بھجوا دیا، تاہم اُنھوں نے حکم دیا کہ اُنہیں بھی فروخت کر کے رقم لشکر میں تقسیم کر دو، چناں چہ اُن جواہرات کو چار لاکھ درہم میں فروخت کر کے رقم تقسیم کر دی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں دینور اور ہمدان جیسے شہروں کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور فاتح کہلائے۔
حاکمِ شہر کی شانِ بے نیازی
امیرالمومنین ، حضرت عُمر فاروق ؓ نے آپؓ کو فوجی خدمات سے سبک دوش کر کے مدائن کا گورنر مقرّر کر دیا۔ گورنر کی حیثیت سے آپؓ کے مدائن میں داخلے کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ معزّزینِ شہر ہزاروں افراد کے ساتھ آپؓ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع ہیں، سب کی نظریں گورنر کی شاہانہ سواری کی منتظر ہیں۔ ایک شخص نہایت معمولی لباس زیبِ تن کیے ہوئے، ایک خچر پر سوار شہر میں داخل ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر گزر گئی، تو فکر بڑھی اور پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟ حاکمِ شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟‘‘بتایا گیا کہ’’وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر معزّزینِ شہر سخت حیران ہوئے۔
شہنشاہی میں فقیری
جب تک مدائن میں قیام پزیر رہے، عجز و انکساری اور سادگی کی تصویر بنے رہے، کوئی بھی حاجت مند کسی بھی وقت گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔ گھر کی معمولی ضروریات کے خرچ کے علاوہ اپنی ساری تن خواہ غریب، غرباء میں تقسیم کر دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے پانی مانگا۔ ایک مجوسی نے سونے یا چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا۔ آپ ؓنے اس برتن کا پانی پھینک دیا اور فرمایا’’مَیں نے تم کو کئی بار منع کیا ہے، مَیں اس میں پانی نہیں پیتا، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ’’ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھائو اور نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔
سادگی مومن کی شان ہے
کچھ عرصے بعد امیرالمومنین، حضرت عمر فاروقؓ نے دربارِ خلافت میں طلب فرمایا۔ فاروق اعظمؓ کو تجسّس ہوا کہ دیکھیں، مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں۔ آپؓ شہرِ مدینہ آنے والے راستے میں کھجوروں کے ایک جھنڈ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں اُنہیں دُور سے حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے۔ دیکھا کہ وہ جس حال میں مدینے سے گئے تھے، اس سے زیادہ خستہ حالی میں واپس ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبّت سے اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا ’’اے حذیفہؓ !تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘
خالقِ حقیقی سے جا ملے
موت کا وقت جب قریب آیا، تو آپؓ نے وصیّت فرمائی کہ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا، اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو مجھے وہاں جنّت کے کپڑے کے بہترین کفن سے نوازا جائے گا اور اگر وہاں پر میرے لیے بہتری نہیں ہے، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے امیری کے مقابلے میں فقیری کو چاہا ہے اور ہمیشہ موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد مدائن میں آپؓ نے وفات پائی (اسدالغابہ)۔
The post حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2yC5RDR via Urdu News
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years
Text
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
وہ شوال 5 ہجری کی ایک سرد صبح تھی، جب مکہ مکرّمہ کے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکتی سورج کی رُوپہلی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ابو سفیان کی قیادت میں 10ہزار مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف قبائل پر مشتمل اس لشکر نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا ہے۔ امام الانبیاءؐ، سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ اممؐ کو ہر ہر لمحے کی خبر ہے۔ اللہ کی تائید و نصرت اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینے کے گرد ایک وسیع و عریض خندق نے مشرکین کے عزائم کے درمیان حائل ہو کر اُن کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ غیظ و غضب میں بپھرے مشرکین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُن کے ارادے یوں پامال ہو جائیں گے ۔
آج محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے، لیکن ان بے سروسامان مسلمانوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی۔ اس کے برعکس، چند دنوں میں فتح کے شادیانے بجاتے واپس لَوٹنے کے خواب دیکھنے والے مشرکین کو طویل محاصرے نے بددل اور پست ہمّت کر دیا۔ گھربار سے دُور خیموں کی سخت ترین کٹھن زندگی، مدینے کی سرد ہوائیں اور خراب موسم موت کا پیغام بن کر اُنہیں مختلف بیماریوں میں گھیر چُکا ہے۔ اُن کے اونٹ، گھوڑے اور مویشی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں۔ حالات کی سختی نے اُن کے اعصاب مفلوج کر کے اُنھیں آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے۔ مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ سرد ہو چُکا اور اب اُنہیں اپنے گھروں کو واپسی کی فکر ہے۔ اور پھر ایک سرد ٹھٹھرتی تاریک رات میں کالی آندھی اور ریت کا طوفان اللہ کا قہر بن کر نازل ہو گیا۔ اُن کے خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں، چراغ گُل ہو گئے۔ سامان ہوا میں اُڑ گیا، اونٹ اور گھوڑے رسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ مشرکین کے چہرے خاک آلود، آنکھیں، ناک اور کان مٹّی سے بھر گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اسی رات کا انتظار تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ کوئی ہے، جو اس خوف ناک طوفان سے نبردآزما ہوتا ہوا مشرکین کی صفوں میں جائے اور اندر کا حال معلوم کر کے آئے؟‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس یخ بستہ موسم اور ریت کے طوفان میں خندق پار کر کے دشمنوں کی صفوں میں داخل ہونا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحابہؓ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ کھڑے ہوئے’’یارسول اللہؐ ! یہ کام مَیں انجام دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے محبّت بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا۔ شفقت سے اپنے پاس بلا کر ہدایات دیں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور کفّار کی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ عجیب افراتفری کا عالم ہے، لوگ اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ابو سفیان خود بھی اپنے گھوڑے پر بیٹھا واپسی کا قصد کر رہا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آ کر حضور ؐ کو وہاں کی صُورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ صبح فجر کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ میدان صاف ہو چُکا ہے اور مشرکین ناکام و نامُراد واپس لَوٹ چُکے ہیں۔
تعارف
حضرت حذیفہؓ کے والد، حسیلؓ بن جابر الیمانی کا تعلق، بنو غطفان کے عبس خاندان سے تھا۔ یہ خاندان، اپنی بہادری اور جواں مَردی کے لیے مشہور تھا۔ حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّہ میں ایک شخص کا قتل ہو گیا، چناں چہ وہ چُھپ کر مدینہ آ گئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ حاصل کر لی اور اُسی قبیلے کی ایک خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کر لیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ حسیلؓ بن جابر چوں کہ یمنی النّسل تھے، لہٰذا اہلِ مدینہ نے اُن کا نام یمان رکھ دیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ جب رسول اللہؐ نے نبوّت کا اعلان کیا، تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد یمانؓ کے ساتھ مکہ آئے اور حضورؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ ؓکے والد قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی، چناں چہ اُنھوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا’’یارسول اللہؐ ! مَیں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ حضور اکرم ﷺنے فرمایا’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلائو یا انصار۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یارسول اللہؐ ! مَیں انصار کہلانا پسند کروں گا۔‘‘
سلسلۂ نسب، حلیہ
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حذیفہؓ بن حسیلؓ بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن یفیض بن زیت بن غطفان۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے کے قبائل اوس و خزرج یمنی النّسل تھے، اس لیے حسیل کا نام اُن کی قو�� نے یمان رکھ دیا۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت ، عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ میانے قد، چوڑے چکلے، مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ ماتھا چوڑا، سفید چمکیلے دانت، نگاہیں عقابی تھیں۔ دلائل کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرتے۔ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم اور درویش منش انسان تھے۔‘‘
صاحبِ سرِ رسول اللہ ﷺ
آپؓ کا ایک لقب ’’صاحبِ سرِ رسول اللہؐ ‘‘ ہے۔ یعنی پیغمبرِ اسلامؐ کے رازدار ۔ ابن عبدالبر’’ الاستیعاب‘‘ میں اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہؐ نے اُن کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا اور آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیّت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں۔‘‘ رسول اکرمؐ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔
کاتبِ وحی
حضرت حذیفہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ چناں چہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز فرمایا۔ آپؓ علم و فضل، قرآن و حدیث اور فقہ میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ آپؓ سے حدیث کی تعلیم حاصل کرتے۔ ابو عبیدالقاسم اپنی کتاب’’کتاب القراء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت حذیفہؓ عہدِ نبویؐ کے شروع کے حفّاظِ قرآن میں سے تھے۔ فتنوں سے متعلق آپ ؓکو کافی احادیث یاد تھیں۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ’’تم میں سے کس کو فتنوں سے متعلق رسول اللہؐ کی احادیث یاد ہیں؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے کہا ’’مجھے۔‘‘حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’تم اس معاملے میں بڑے دلیر ہو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔ وہ بڑے بارُعب صحابی تھے، اُن کے شاگرد بلاوجہ اُن سے سوال نہیں کر سکتے تھے(بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرمایا کرتے تھے’’اے قاریعہ! (یعنی علماء) کی جماعت، استقامت اختیار کرو، کیوں کہ تم بہت پیچھے رہ گئے ہو، اگر تم دائیں بائیں اُتر جائو گے، تو گم راہ ہو جائو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔
غزوات میں شرکت
حضرت حذیفہؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن راستے میں کفّار نے گرفتار کر لیا۔ ابوجہل نے اُن سے پوچھا’’کیا تم جنگ میں شرکت کے لیے بدر جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘ ابوجہل کی خواہش تھی کہ دونوں باپ بیٹے کو قتل کر دے، لیکن ایک مشرک سردار نے اُسے سمجھایا کہ’’اگر اُنہیں قتل کرو گے، تو عبس قبیلہ ہمارا دشمن ہو جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجہل نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اُن دونوں سے کہا’’تم یہ عہد کرو کہ بدر کی لڑائی میں محمّد(ﷺ)کا ساتھ نہیں دو گے، تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے جان بچانے کی غرض سے وعدہ کر لیا، مگر آزادی ملتے ہی دونوں بدر میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور اُنہیں واپس مدینہ بھیج دیا(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)۔ رحمت دوعالمؐ کے یہ تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک کے لیے معاہدوں کی پاس داری کا بین الاقوامی اصول وضع کر گئے۔
شہادت ہے معراجِ مردِ مومن
غزوۂ اُحد کے دن آنحضرتؐ نے حضرت یمان ؓبن جابر اور حضرت ثابت بن وقشؓ کو ضعیف العمری کی وجہ سے خواتین اور بچّوں کے ساتھ ایک اونچے ٹیلے پر محفوظ جگہ بٹھا دیا، مگر جب جنگ کا میدان گرم ہوا، تو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے خود پر قابو نہ رکھ سکے اور شہادت کے عظیم منصب کی خواہش دِل میں لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی تھی، لیکن جبل رماۃ پر متعیّن تیراندازوں کی ذرا سی کوتاہی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور میدانِ جنگ میں افراتفری مچ گئی۔ دوست اور دشمن کی شناخت مشکل ہو گئی، اس افراتفری میں حضرت حذیفہؓ کے والد شہید ہو گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہؐ نے اُن کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ ’’مَیں نے اُن کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔‘‘ اس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جنگِ نہاوند
حضرت عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع ہے۔ آپؓ نے پہلے خود جانے کا ارادہ کیا، لیکن صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرنؓ کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو نائب بنا کر روانہ کیا۔ یہ دونوں صحابیؓ 30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند کی جانب بڑھے، وہاں دونوں افواج میں گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن اُن کے سپہ سالار، نعمان بن مقرنؓ شہید ہو گئے، جس پر حضرت حذیفہؓ لشکرِ اسلام کے سپہ سالار مقرّر ہوئے۔ اُنہوں نے نہاوند شہر پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے، مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا، جب کہ ہیرے جواہرات کا بکس حضرت فاروق اعظمؓ کو بھجوا دیا، تاہم اُنھوں نے حکم دیا کہ اُنہیں بھی فروخت کر کے رقم لشکر میں تقسیم کر دو، چناں چہ اُن جواہرات کو چار لاکھ درہم میں فروخت کر کے رقم تقسیم کر دی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں دینور اور ہمدان جیسے شہروں کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور فاتح کہلائے۔
حاکمِ شہر کی شانِ بے نیازی
امیرالمومنین ، حضرت عُمر فاروق ؓ نے آپؓ کو فوجی خدمات سے سبک دوش کر کے مدائن کا گورنر مقرّر کر دیا۔ گورنر کی حیثیت سے آپؓ کے مدائن میں داخلے کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ معزّزینِ شہر ہزاروں افراد کے ساتھ آپؓ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع ہیں، سب کی نظریں گورنر کی شاہانہ سواری کی منتظر ہیں۔ ایک شخص نہایت معمولی لباس زیبِ تن کیے ہوئے، ایک خچر پر سوار شہر میں داخل ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر گزر گئی، تو فکر بڑھی اور پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟ حاکمِ شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟‘‘بتایا گیا کہ’’وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر معزّزینِ شہر سخت حیران ہوئے۔
شہنشاہی میں فقیری
جب تک مدائن میں قیام پزیر رہے، عجز و انکساری اور سادگی کی تصویر بنے رہے، کوئی بھی حاجت مند کسی بھی وقت گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔ گھر کی معمولی ضروریات کے خرچ کے علاوہ اپنی ساری تن خواہ غریب، غرباء میں تقسیم کر دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے پانی مانگا۔ ایک مجوسی نے سونے یا چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا۔ آپ ؓنے اس برتن کا پانی پھینک دیا اور فرمایا’’مَیں نے تم کو کئی بار منع کیا ہے، مَیں اس میں پانی نہیں پیتا، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ’’ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھائو اور نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔
سادگی مومن کی شان ہے
کچھ عرصے بعد امیرالمومنین، حضرت عمر فاروقؓ نے دربارِ خلافت میں طلب فرمایا۔ فاروق اعظمؓ کو تجسّس ہوا کہ دیکھیں، مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں۔ آپؓ شہرِ مدینہ آنے والے راستے میں کھجوروں کے ایک جھنڈ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں اُنہیں دُور سے حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے۔ دیکھا کہ وہ جس حال میں مدینے سے گئے تھے، اس سے زیادہ خستہ حالی میں واپس ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبّت سے اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا ’’اے حذیفہؓ !تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘
خالقِ حقیقی سے جا ملے
موت کا وقت جب قریب آیا، تو آپؓ نے وصیّت فرمائی کہ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا، اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو مجھے وہاں جنّت کے کپڑے کے بہترین کفن سے نوازا جائے گا اور اگر وہاں پر میرے لیے بہتری نہیں ہے، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے امیری کے مقابلے میں فقیری کو چاہا ہے اور ہمیشہ موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد مدائن میں آپؓ نے وفات پائی (اسدالغابہ)۔
The post حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2yC5RDR via Daily Khabrain
0 notes
newestbalance · 6 years
Text
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
وہ شوال 5 ہجری کی ایک سرد صبح تھی، جب مکہ مکرّمہ کے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکتی سورج کی رُوپہلی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ابو سفیان کی قیادت میں 10ہزار مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف قبائل پر مشتمل اس لشکر نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا ہے۔ امام الانبیاءؐ، سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ اممؐ کو ہر ہر لمحے کی خبر ہے۔ اللہ کی تائید و نصرت اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینے کے گرد ایک وسیع و عریض خندق نے مشرکین کے عزائم کے درمیان حائل ہو کر اُن کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ غیظ و غضب میں بپھرے مشرکین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُن کے ارادے یوں پامال ہو جائیں گے ۔
آج محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے، لیکن ان بے سروسامان مسلمانوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی۔ اس کے برعکس، چند دنوں میں فتح کے شادیانے بجاتے واپس لَوٹنے کے خواب دیکھنے والے مشرکین کو طویل محاصرے نے بددل اور پست ہمّت کر دیا۔ گھربار سے دُور خیموں کی سخت ترین کٹھن زندگی، مدینے کی سرد ہوائیں اور خراب موسم موت کا پیغام بن کر اُنہیں مختلف بیماریوں میں گھیر چُکا ہے۔ اُن کے اونٹ، گھوڑے اور مویشی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں۔ حالات کی سختی نے اُن کے اعصاب مفلوج کر کے اُنھیں آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے۔ مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ سرد ہو چُکا اور اب اُنہیں اپنے گھروں کو واپسی کی فکر ہے۔ اور پھر ایک سرد ٹھٹھرتی تاریک رات میں کالی آندھی اور ریت کا طوفان اللہ کا قہر بن کر نازل ہو گیا۔ اُن کے خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں، چراغ گُل ہو گئے۔ سامان ہوا میں اُڑ گیا، اونٹ اور گھوڑے رسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ مشرکین کے چہرے خاک آلود، آنکھیں، ناک اور کان مٹّی سے بھر گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اسی رات کا انتظار تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ کوئی ہے، جو اس خوف ناک طوفان سے نبردآزما ہوتا ہوا مشرکین کی صفوں میں جائے اور اندر کا حال معلوم کر کے آئے؟‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس یخ بستہ موسم اور ریت کے طوفان میں خندق پار کر کے دشمنوں کی صفوں میں داخل ہونا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحابہؓ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ کھڑے ہوئے’’یارسول اللہؐ ! یہ کام مَیں انجام دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے محبّت بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا۔ شفقت سے اپنے پاس بلا کر ہدایات دیں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور کفّار کی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ عجیب افراتفری کا عالم ہے، لوگ اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ابو سفیان خود بھی اپنے گھوڑے پر بیٹھا واپسی کا قصد کر رہا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آ کر حضور ؐ کو وہاں کی صُورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ صبح فجر کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ میدان صاف ہو چُکا ہے اور مشرکین ناکام و نامُراد واپس لَوٹ چُکے ہیں۔
تعارف
حضرت حذیفہؓ کے والد، حسیلؓ بن جابر الیمانی کا تعلق، بنو غطفان کے عبس خاندان سے تھا۔ یہ خاندان، اپنی بہادری اور جواں مَردی کے لیے مشہور تھا۔ حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّہ میں ایک شخص کا قتل ہو گیا، چناں چہ وہ چُھپ کر مدینہ آ گئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ حاصل کر لی اور اُسی قبیلے کی ایک خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کر لیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ حسیلؓ بن جابر چوں کہ یمنی النّسل تھے، لہٰذا اہلِ مدینہ نے اُن کا نام یمان رکھ دیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ جب رسول اللہؐ نے نبوّت کا اعلان کیا، تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد یمانؓ کے ساتھ مکہ آئے اور حضورؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ ؓکے والد قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی، چناں چہ اُنھوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا’’یارسول اللہؐ ! مَیں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ حضور اکرم ﷺنے فرمایا’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلائو یا انصار۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یارسول اللہؐ ! مَیں انصار کہلانا پسند کروں گا۔‘‘
سلسلۂ نسب، حلیہ
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حذیفہؓ بن حسیلؓ بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن یفیض بن زیت بن غطفان۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے کے قبائل اوس و خزرج یمنی النّسل تھے، اس لیے حسیل کا نام اُن کی قوم نے یمان رکھ دیا۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت ، عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ میانے قد، چوڑے چکلے، مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ ماتھا چوڑا، سفید چمکیلے دانت، نگاہیں عقابی تھیں۔ دلائل کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرتے۔ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم اور درویش منش انسان تھے۔‘‘
صاحبِ سرِ رسول اللہ ﷺ
آپؓ کا ایک لقب ’’صاحبِ سرِ رسول اللہؐ ‘‘ ہے۔ یعنی پیغمبرِ اسلامؐ کے رازدار ۔ ابن عبدالبر’’ الاستیعاب‘‘ میں اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہؐ نے اُن کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا اور آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیّت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں۔‘‘ رسول اکرمؐ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔
کاتبِ وحی
حضرت حذیفہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ چناں چہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز فرمایا۔ آپؓ علم و فضل، قرآن و حدیث اور فقہ میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ آپؓ سے حدیث کی تعلیم حاصل کرتے۔ ابو عبیدالقاسم اپنی کتاب’’کتاب القراء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت حذیفہؓ عہدِ نبویؐ کے شروع کے حفّاظِ قرآن میں سے تھے۔ فتنوں سے متعلق آپ ؓکو کافی احادیث یاد تھیں۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ’’تم میں سے کس کو فتنوں سے متعلق رسول اللہؐ کی احادیث یاد ہیں؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے کہا ’’مجھے۔‘‘حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’تم اس معاملے میں بڑے دلیر ہو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔ وہ بڑے بارُعب صحابی تھے، اُن کے شاگرد بلاوجہ اُن سے سوال نہیں کر سکتے تھے(بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرمایا کرتے تھے’’اے قاریعہ! (یعنی علماء) کی جماعت، استقامت اختیار کرو، کیوں کہ تم بہت پیچھے رہ گئے ہو، اگر تم دائیں بائیں اُتر جائو گے، تو گم راہ ہو جائو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔
غزوات میں شرکت
حضرت حذیفہؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن راستے میں کفّار نے گرفتار کر لیا۔ ابوجہل نے اُن سے پوچھا’’کیا تم جنگ میں شرکت کے لیے بدر جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘ ابوجہل کی خواہش تھی کہ دونوں باپ بیٹے کو قتل کر دے، لیکن ایک مشرک سردار نے اُسے سمجھایا کہ’’اگر اُنہیں قتل کرو گے، تو عبس قبیلہ ہمارا دشمن ہو جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجہل نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اُن دونوں سے کہا’’تم یہ عہد کرو کہ بدر کی لڑائی میں محمّد(ﷺ)کا ساتھ نہیں دو گے، تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے جان بچانے کی غرض سے وعدہ کر لیا، مگر آزادی ملتے ہی دونوں بدر میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور اُنہیں واپس مدینہ بھیج دیا(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)۔ رحمت دوعالمؐ کے یہ تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک کے لیے معاہدوں کی پاس داری کا بین الاقوامی اصول وضع کر گئے۔
شہادت ہے معراجِ مردِ مومن
غزوۂ اُحد کے دن آنحضرتؐ نے حضرت یمان ؓبن جابر اور حضرت ثابت بن وقشؓ کو ضعیف العمری کی وجہ سے خواتین اور بچّوں کے ساتھ ایک اونچے ٹیلے پر محفوظ جگہ بٹھا دیا، مگر جب جنگ کا میدان گرم ہوا، تو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے خود پر قابو نہ رکھ سکے اور شہادت کے عظیم منصب کی خواہش دِل میں لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی تھی، لیکن جبل رماۃ پر متعیّن تیراندازوں کی ذرا سی کوتاہی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور میدانِ جنگ میں افراتفری مچ گئی۔ دوست اور دشمن کی شناخت مشکل ہو گئی، اس افراتفری میں حضرت حذیفہؓ کے والد شہید ہو گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہؐ نے اُن کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ ’’مَیں نے اُن کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔‘‘ اس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جنگِ نہاوند
حضرت عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع ہے۔ آپؓ نے پہلے خود جانے کا ارادہ کیا، لیکن صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرنؓ کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو نائب بنا کر روانہ کیا۔ یہ دونوں صحابیؓ 30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند کی جانب بڑھے، وہاں دونوں افواج میں گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن اُن کے سپہ سالار، نعمان بن مقرنؓ شہید ہو گئے، جس پر حضرت حذیفہؓ لشکرِ اسلام کے سپہ سالار مقرّر ہوئے۔ اُنہوں نے نہاوند شہر پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے، مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا، جب کہ ہیرے جواہرات کا بکس حضرت فاروق اعظمؓ کو بھجوا دیا، تاہم اُنھوں نے حکم دیا کہ اُنہیں بھی فروخت کر کے رقم لشکر میں تقسیم کر دو، چناں چہ اُن جواہرات کو چار لاکھ درہم میں فروخت کر کے رقم تقسیم کر دی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں دینور اور ہمدان جیسے شہروں کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور فاتح کہلائے۔
حاکمِ شہر کی شانِ بے نیازی
امیرالمومنین ، حضرت عُمر فاروق ؓ نے آپؓ کو فوجی خدمات سے سبک دوش کر کے مدائن کا گورنر مقرّر کر دیا۔ گورنر کی حیثیت سے آپؓ کے مدائن میں داخلے کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ معزّزینِ شہر ہزاروں افراد کے ساتھ آپؓ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع ہیں، سب کی نظریں گورنر کی شاہانہ سواری کی منتظر ہیں۔ ایک شخص نہایت معمولی لباس زیبِ تن کیے ہوئے، ایک خچر پر سوار شہر میں داخل ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر گزر گئی، تو فکر بڑھی اور پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟ حاکمِ شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟‘‘بتایا گیا کہ’’وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر معزّزینِ شہر سخت حیران ہوئے۔
شہنشاہی میں فقیری
جب تک مدائن میں قیام پزیر رہے، عجز و انکساری اور سادگی کی تصویر بنے رہے، کوئی بھی حاجت مند کسی بھی وقت گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔ گھر کی معمولی ضروریات کے خرچ کے علاوہ اپنی ساری تن خواہ غریب، غرباء میں تقسیم کر دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے پانی مانگا۔ ایک مجوسی نے سونے یا چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا۔ آپ ؓنے اس برتن کا پانی پھینک دیا اور فرمایا’’مَیں نے تم کو کئی بار منع کیا ہے، مَیں اس میں پانی نہیں پیتا، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ’’ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھائو اور نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔
سادگی مومن کی شان ہے
کچھ عرصے بعد امیرالمومنین، حضرت عمر فاروقؓ نے دربارِ خلافت میں طلب فرمایا۔ فاروق اعظمؓ کو تجسّس ہوا کہ دیکھیں، مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں۔ آپؓ شہرِ مدینہ آنے والے راستے میں کھجوروں کے ایک جھنڈ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں اُنہیں دُور سے حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے۔ دیکھا کہ وہ جس حال میں مدینے سے گئے تھے، اس سے زیادہ خستہ حالی میں واپس ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبّت سے اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا ’’اے حذیفہؓ !تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘
خالقِ حقیقی سے جا ملے
موت کا وقت جب قریب آیا، تو آپؓ نے وصیّت فرمائی کہ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا، اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو مجھے وہاں جنّت کے کپڑے کے بہترین کفن سے نوازا جائے گا اور اگر وہاں پر میرے لیے بہتری نہیں ہے، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے امیری کے مقابلے میں فقیری کو چاہا ہے اور ہمیشہ موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد مدائن میں آپؓ نے وفات پائی (اسدالغابہ)۔
The post حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2yC5RDR via Urdu News
0 notes
party-hard-or-die · 6 years
Text
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
وہ شوال 5 ہجری کی ایک سرد صبح تھی، جب مکہ مکرّمہ کے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکتی سورج کی رُوپہلی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ابو سفیان کی قیادت میں 10ہزار مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف قبائل پر مشتمل اس لشکر نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا ہے۔ امام الانبیاءؐ، سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ اممؐ کو ہر ہر لمحے کی خبر ہے۔ اللہ کی تائید و نصرت اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینے کے گرد ایک وسیع و عریض خندق نے مشرکین کے عزائم کے درمیان حائل ہو کر اُن کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ غیظ و غضب میں بپھرے مشرکین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُن کے ارادے یوں پامال ہو جائیں گے ۔
آج محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے، لیکن ان بے سروسامان مسلمانوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی۔ اس کے برعکس، چند دنوں میں فتح کے شادیانے بجاتے واپس لَوٹنے کے خواب دیکھنے والے مشرکین کو طویل محاصرے نے بددل اور پست ہمّت کر دیا۔ گھربار سے دُور خیموں کی سخت ترین کٹھن زندگی، مدینے کی سرد ہوائیں اور خراب موسم موت کا پیغام بن کر اُنہیں مختلف بیماریوں میں گھیر چُکا ہے۔ اُن کے اونٹ، گھوڑے اور مویشی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں۔ حالات کی سختی نے اُن کے اعصاب مفلوج کر کے اُنھیں آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے۔ مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ سرد ہو چُکا اور اب اُنہیں اپنے گھروں کو واپسی کی فکر ہے۔ اور پھر ایک سرد ٹھٹھرتی تاریک رات میں کالی آندھی اور ریت کا طوفان اللہ کا قہر بن کر نازل ہو گیا۔ اُن کے خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں، چراغ گُل ہو گئے۔ سامان ہوا میں اُڑ گیا، اونٹ اور گھوڑے رسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ مشرکین کے چہرے خاک آلود، آنکھیں، ناک اور کان مٹّی سے بھر گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اسی رات کا انتظار تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ کوئی ہے، جو اس خوف ناک طوفان سے نبردآزما ہوتا ہوا مشرکین کی صفوں میں جائے اور اندر کا حال معلوم کر کے آئے؟‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس یخ بستہ موسم اور ریت کے طوفان میں خندق پار کر کے دشمنوں کی صفوں میں داخل ہونا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحابہؓ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ کھڑے ہوئے’’یارسول اللہؐ ! یہ کام مَیں انجام دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے محبّت بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا۔ شفقت سے اپنے پاس بلا کر ہدایات دیں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور کفّار کی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ عجیب افراتفری کا عالم ہے، لوگ اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ابو سفیان خود بھی اپنے گھوڑے پر بیٹھا واپسی کا قصد کر رہا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آ کر حضور ؐ کو وہاں کی صُورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ صبح فجر کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ میدان صاف ہو چُکا ہے اور مشرکین ناکام و نامُراد واپس لَوٹ چُکے ہیں۔
تعارف
حضرت حذیفہؓ کے والد، حسیلؓ بن جابر الیمانی کا تعلق، بنو غطفان کے عبس خاندان سے تھا۔ یہ خاندان، اپنی بہادری اور جواں مَردی کے لیے مشہور تھا۔ حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّہ میں ایک شخص کا قتل ہو گیا، چناں چہ وہ چُھپ کر مدینہ آ گئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ حاصل کر لی اور اُسی قبیلے کی ایک خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کر لیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ حسیلؓ بن جابر چوں کہ یمنی النّسل تھے، لہٰذا اہلِ مدینہ نے اُن کا نام یمان رکھ دیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ جب رسول اللہؐ نے نبوّت کا اعلان کیا، تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد یمانؓ کے ساتھ مکہ آئے اور حضورؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ ؓکے والد قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی، چناں چہ اُنھوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا’’یارسول اللہؐ ! مَیں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ حضور اکرم ﷺنے فرمایا’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلائو یا انصار۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یارسول اللہؐ ! مَیں انصار کہلانا پسند کروں گا۔‘‘
سلسلۂ نسب، حلیہ
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حذیفہؓ بن حسیلؓ بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن یفیض بن زیت بن غطفان۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے کے قبائل اوس و خزرج یمنی النّسل تھے، اس لیے حسیل کا نام اُن کی قوم نے یمان رکھ دیا۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت ، عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ میانے قد، چوڑے چکلے، مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ ماتھا چوڑا، سفید چمکیلے دانت، نگاہیں عقابی تھیں۔ دلائل کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرتے۔ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم اور درویش منش انسان تھے۔‘‘
صاحبِ سرِ رسول اللہ ﷺ
آپؓ کا ایک لقب ’’صاحبِ سرِ رسول اللہؐ ‘‘ ہے۔ یعنی پیغمبرِ اسلامؐ کے رازدار ۔ ابن عبدالبر’’ الاستیعاب‘‘ میں اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہؐ نے اُن کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا اور آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیّت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں۔‘‘ رسول اکرمؐ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔
کاتبِ وحی
حضرت حذیفہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ چناں چہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز فرمایا۔ آپؓ علم و فضل، قرآن و حدیث اور فقہ میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ آپؓ سے حدیث کی تعلیم حاصل کرتے۔ ابو عبیدالقاسم اپنی کتاب’’کتاب القراء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت حذیفہؓ عہدِ نبویؐ کے شروع کے حفّاظِ قرآن میں سے تھے۔ فتنوں سے متعلق آپ ؓکو کافی احادیث یاد تھیں۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ’’تم میں سے کس کو فتنوں سے متعلق رسول اللہؐ کی احادیث یاد ہیں؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے کہا ’’مجھے۔‘‘حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’تم اس معاملے میں بڑے دلیر ہو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔ وہ بڑے بارُعب صحابی تھے، اُن کے شاگرد بلاوجہ اُن سے سوال نہیں کر سکتے تھے(بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرمایا کرتے تھے’’اے قاریعہ! (یعنی علماء) کی جماعت، استقامت اختیار کرو، کیوں کہ تم بہت پیچھے رہ گئے ہو، اگر تم دائیں بائیں اُتر جائو گے، تو گم راہ ہو جائو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔
غزوات میں شرکت
حضرت حذیفہؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن راستے میں کفّار نے گرفتار کر لیا۔ ابوجہل نے اُن سے پوچھا’’کیا تم جنگ میں شرکت کے لیے بدر جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘ ابوجہل کی خواہش تھی کہ دونوں باپ بیٹے کو قتل کر دے، لیکن ایک مشرک سردار نے اُسے سمجھایا کہ’’اگر اُنہیں قتل کرو گے، تو عبس قبیلہ ہمارا دشمن ہو جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجہل نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اُن دونوں سے کہا’’تم یہ عہد کرو کہ بدر کی لڑائی میں محمّد(ﷺ)کا ساتھ نہیں دو گے، تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے جان بچانے کی غرض سے وعدہ کر لیا، مگر آزادی ملتے ہی دونوں بدر میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور اُنہیں واپس مدینہ بھیج دیا(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)۔ رحمت دوعالمؐ کے یہ تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک کے لیے معاہدوں کی پاس داری کا بین الاقوامی اصول وضع کر گئے۔
شہادت ہے معراجِ مردِ مومن
غزوۂ اُحد کے دن آنحضرتؐ نے حضرت یمان ؓبن جابر اور حضرت ثابت بن وقشؓ کو ضعیف العمری کی وجہ سے خواتین اور بچّوں کے ساتھ ایک اونچے ٹیلے پر محفوظ جگہ بٹھا دیا، مگر جب جنگ کا میدان گرم ہوا، تو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے خود پر قابو نہ رکھ سکے اور شہادت کے عظیم منصب کی خواہش دِل میں لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی تھی، لیکن جبل رماۃ پر متعیّن تیراندازوں کی ذرا سی کوتاہی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور میدانِ جنگ میں افراتفری مچ گئی۔ دوست اور دشمن کی شناخت مشکل ہو گئی، اس افراتفری میں حضرت حذیفہؓ کے والد شہید ہو گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہؐ نے اُن کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ ’’مَیں نے اُن کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔‘‘ اس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جنگِ نہاوند
حضرت عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع ہے۔ آپؓ نے پہلے خود جانے کا ارادہ کیا، لیکن صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرنؓ کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو نائب بنا کر روانہ کیا۔ یہ دونوں صحابیؓ 30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند کی جانب بڑھے، وہاں دونوں افواج میں گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن اُن کے سپہ سالار، نعمان بن مقرنؓ شہید ہو گئے، جس پر حضرت حذیفہؓ لشکرِ اسلام کے سپہ سالار مقرّر ہوئے۔ اُنہوں نے نہاوند شہر پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے، مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا، جب کہ ہیرے جواہرات کا بکس حضرت فاروق اعظمؓ کو بھجوا دیا، تاہم اُنھوں نے حکم دیا کہ اُنہیں بھی فروخت کر کے رقم لشکر میں تقسیم کر دو، چناں چہ اُن جواہرات کو چار لاکھ درہم میں فروخت کر کے رقم تقسیم کر دی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں دینور اور ہمدان جیسے شہروں کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور فاتح کہلائے۔
حاکمِ شہر کی شانِ بے نیازی
امیرالمومنین ، حضرت عُمر فاروق ؓ نے آپؓ کو فوجی خدمات سے سبک دوش کر کے مدائن کا گورنر مقرّر کر دیا۔ گورنر کی حیثیت سے آپؓ کے مدائن میں داخلے کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ معزّزینِ شہر ہزاروں افراد کے ساتھ آپؓ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع ہیں، سب کی نظریں گورنر کی شاہانہ سواری کی منتظر ہیں۔ ایک شخص نہایت معمولی لباس زیبِ تن کیے ہوئے، ایک خچر پر سوار شہر میں داخل ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر گزر گئی، تو فکر بڑھی اور پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟ حاکمِ شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟‘‘بتایا گیا کہ’’وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر معزّزینِ شہر سخت حیران ہوئے۔
شہنشاہی میں فقیری
جب تک مدائن میں قیام پزیر رہے، عجز و انکساری اور سادگی کی تصویر بنے رہے، کوئی بھی حاجت مند کسی بھی وقت گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔ گھر کی معمولی ضروریات کے خرچ کے علاوہ اپنی ساری تن خواہ غریب، غرباء میں تقسیم کر دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے پانی مانگا۔ ایک مجوسی نے سونے یا چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا۔ آپ ؓنے اس برتن کا پانی پھینک دیا اور فرمایا’’مَیں نے تم کو کئی بار منع کیا ہے، مَیں اس میں پانی نہیں پیتا، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ’’ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھائو اور نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔
سادگی مومن کی شان ہے
کچھ عرصے بعد امیرالمومنین، حضرت عمر فاروقؓ نے دربارِ خلافت میں طلب فرمایا۔ فاروق اعظمؓ کو تجسّس ہوا کہ دیکھیں، مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں۔ آپؓ شہرِ مدینہ آنے والے راستے میں کھجوروں کے ایک جھنڈ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں اُنہیں دُور سے حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے۔ دیکھا کہ وہ جس حال میں مدینے سے گئے تھے، اس سے زیادہ خستہ حالی میں واپس ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبّت سے اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا ’’اے حذیفہؓ !تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘
خالقِ حقیقی سے جا ملے
موت کا وقت جب قریب آیا، تو آپؓ نے وصیّت فرمائی کہ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا، اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو مجھے وہاں جنّت کے کپڑے کے بہترین کفن سے نوازا جائے گا اور اگر وہاں پر میرے لیے بہتری نہیں ہے، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے امیری کے مقابلے میں فقیری کو چاہا ہے اور ہمیشہ موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد مدائن میں آپؓ نے وفات پائی (اسدالغابہ)۔
The post حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2yC5RDR via Daily Khabrain
0 notes
thebestmealintown · 6 years
Text
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
وہ شوال 5 ہجری کی ایک سرد صبح تھی، جب مکہ مکرّمہ کے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکتی سورج کی رُوپہلی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ابو سفیان کی قیادت میں 10ہزار مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف قبائل پر مشتمل اس لشکر نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا ہے۔ امام الانبیاءؐ، سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ اممؐ کو ہر ہر لمحے کی خبر ہے۔ اللہ کی تائید و نصرت اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینے کے گرد ایک وسیع و عریض خندق نے مشرکین کے عزائم کے درمیان حائل ہو کر اُن کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ غیظ و غضب میں بپھرے مشرکین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُن کے ارادے یوں پامال ہو جائیں گے ۔
آج محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے، لیکن ان بے سروسامان مسلمانوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی۔ اس کے برعکس، چند دنوں میں فتح کے شادیانے بجاتے واپس لَوٹنے کے خواب دیکھنے والے مشرکین کو طویل محاصرے نے ��ددل اور پست ہمّت کر دیا۔ گھربار سے دُور خیموں کی سخت ترین کٹھن زندگی، مدینے کی سرد ہوائیں اور خراب موسم موت کا پیغام بن کر اُنہیں مختلف بیماریوں میں گھیر چُکا ہے۔ اُن کے اونٹ، گھوڑے اور مویشی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں۔ حالات کی سختی نے اُن کے اعصاب مفلوج کر کے اُنھیں آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے۔ مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ سرد ہو چُکا اور اب اُنہیں اپنے گھروں کو واپسی کی فکر ہے۔ اور پھر ایک سرد ٹھٹھرتی تاریک رات میں کالی آندھی اور ریت کا طوفان اللہ کا قہر بن کر نازل ہو گیا۔ اُن کے خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں، چراغ گُل ہو گئے۔ سامان ہوا میں اُڑ گیا، اونٹ اور گھوڑے رسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ مشرکین کے چہرے خاک آلود، آنکھیں، ناک اور کان مٹّی سے بھر گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اسی رات کا انتظار تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ کوئی ہے، جو اس خوف ناک طوفان سے نبردآزما ہوتا ہوا مشرکین کی صفوں میں جائے اور اندر کا حال معلوم کر کے آئے؟‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس یخ بستہ موسم اور ریت کے طوفان میں خندق پار کر کے دشمنوں کی صفوں میں داخل ہونا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحابہؓ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ کھڑے ہوئے’’یارسول اللہؐ ! یہ کام مَیں انجام دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے محبّت بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا۔ شفقت سے اپنے پاس بلا کر ہدایات دیں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور کفّار کی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ عجیب افراتفری کا عالم ہے، لوگ اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ابو سفیان خود بھی اپنے گھوڑے پر بیٹھا واپسی کا قصد کر رہا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آ کر حضور ؐ کو وہاں کی صُورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ صبح فجر کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ میدان صاف ہو چُکا ہے اور مشرکین ناکام و نامُراد واپس لَوٹ چُکے ہیں۔
تعارف
حضرت حذیفہؓ کے والد، حسیلؓ بن جابر الیمانی کا تعلق، بنو غطفان کے عبس خاندان سے تھا۔ یہ خاندان، اپنی بہادری اور جواں مَردی کے لیے مشہور تھا۔ حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّہ میں ایک شخص کا قتل ہو گیا، چناں چہ وہ چُھپ کر مدینہ آ گئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ حاصل کر لی اور اُسی قبیلے کی ایک خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کر لیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ حسیلؓ بن جابر چوں کہ یمنی النّسل تھے، لہٰذا اہلِ مدینہ نے اُن کا نام یمان رکھ دیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ جب رسول اللہؐ نے نبوّت کا اعلان کیا، تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد یمانؓ کے ساتھ مکہ آئے اور حضورؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ ؓکے والد قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی، چناں چہ اُنھوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا’’یارسول اللہؐ ! مَیں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ حضور اکرم ﷺنے فرمایا’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلائو یا انصار۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یارسول اللہؐ ! مَیں انصار کہلانا پسند کروں گا۔‘‘
سلسلۂ نسب، حلیہ
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حذیفہؓ بن حسیلؓ بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن یفیض بن زیت بن غطفان۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے کے قبائل اوس و خزرج یمنی النّسل تھے، اس لیے حسیل کا نام اُن کی قوم نے یمان رکھ دیا۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت ، عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ میانے قد، چوڑے چکلے، مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ ماتھا چوڑا، سفید چمکیلے دانت، نگاہیں عقابی تھیں۔ دلائل کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرتے۔ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم اور درویش منش انسان تھے۔‘‘
صاحبِ سرِ رسول اللہ ﷺ
آپؓ کا ایک لقب ’’صاحبِ سرِ رسول اللہؐ ‘‘ ہے۔ یعنی پیغمبرِ اسلامؐ کے رازدار ۔ ابن عبدالبر’’ الاستیعاب‘‘ میں اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہؐ نے اُن کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا اور آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیّت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں۔‘‘ رسول اکرمؐ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔
کاتبِ وحی
حضرت حذیفہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ چناں چہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز فرمایا۔ آپؓ علم و فضل، قرآن و حدیث اور فقہ میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ آپؓ سے حدیث کی تعلیم حاصل کرتے۔ ابو عبیدالقاسم اپنی کتاب’’کتاب القراء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت حذیفہؓ عہدِ نبویؐ کے شروع کے حفّاظِ قرآن میں سے تھے۔ فتنوں سے متعلق آپ ؓکو کافی احادیث یاد تھیں۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ’’تم میں سے کس کو فتنوں سے متعلق رسول اللہؐ کی احادیث یاد ہیں؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے کہا ’’مجھے۔‘‘حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’تم اس معاملے میں بڑے دلیر ہو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔ وہ بڑے بارُعب صحابی تھے، اُن کے شاگرد بلاوجہ اُن سے سوال نہیں کر سکتے تھے(بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرمایا کرتے تھے’’اے قاریعہ! (یعنی علماء) کی جماعت، استقامت اختیار کرو، کیوں کہ تم بہت پیچھے رہ گئے ہو، اگر تم دائیں بائیں اُتر جائو گے، تو گم راہ ہو جائو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔
غزوات میں شرکت
حضرت حذیفہؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن راستے میں کفّار نے گرفتار کر لیا۔ ابوجہل نے اُن سے پوچھا’’کیا تم جنگ میں شرکت کے لیے بدر جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘ ابوجہل کی خواہش تھی کہ دونوں باپ بیٹے کو قتل کر دے، لیکن ایک مشرک سردار نے اُسے سمجھایا کہ’’اگر اُنہیں قتل کرو گے، تو عبس قبیلہ ہمارا دشمن ہو جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجہل نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اُن دونوں سے کہا’’تم یہ عہد کرو کہ بدر کی لڑائی میں محمّد(ﷺ)کا ساتھ نہیں دو گے، تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے جان بچانے کی غرض سے وعدہ کر لیا، مگر آزادی ملتے ہی دونوں بدر میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور اُنہیں واپس مدینہ بھیج دیا(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)۔ رحمت دوعالمؐ کے یہ تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک کے لیے معاہدوں کی پاس داری کا بین الاقوامی اصول وضع کر گئے۔
شہادت ہے معراجِ مردِ مومن
غزوۂ اُحد کے دن آنحضرتؐ نے حضرت یمان ؓبن جابر اور حضرت ثابت بن وقشؓ کو ضعیف العمری کی وجہ سے خواتین اور بچّوں کے ساتھ ایک اونچے ٹیلے پر محفوظ جگہ بٹھا دیا، مگر جب جنگ کا میدان گرم ہوا، تو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے خود پر قابو نہ رکھ سکے اور شہادت کے عظیم منصب کی خواہش دِل میں لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی تھی، لیکن جبل رماۃ پر متعیّن تیراندازوں کی ذرا سی کوتاہی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور میدانِ جنگ میں افراتفری مچ گئی۔ دوست اور دشمن کی شناخت مشکل ہو گئی، اس افراتفری میں حضرت حذیفہؓ کے والد شہید ہو گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہؐ نے اُن کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ ’’مَیں نے اُن کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔‘‘ اس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جنگِ نہاوند
حضرت عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع ہے۔ آپؓ نے پہلے خود جانے کا ارادہ کیا، لیکن صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرنؓ کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو نائب بنا کر روانہ کیا۔ یہ دونوں صحابیؓ 30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند کی جانب بڑھے، وہاں دونوں افواج میں گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن اُن کے سپہ سالار، نعمان بن مقرنؓ شہید ہو گئے، جس پر حضرت حذیفہؓ لشکرِ اسلام کے سپہ سالار مقرّر ہوئے۔ اُنہوں نے نہاوند شہر پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے، مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا، جب کہ ہیرے جواہرات کا بکس حضرت فاروق اعظمؓ کو بھجوا دیا، تاہم اُنھوں نے حکم دیا کہ اُنہیں بھی فروخت کر کے رقم لشکر میں تقسیم کر دو، چناں چہ اُن جواہرات کو چار لاکھ درہم میں فروخت کر کے رقم تقسیم کر دی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں دینور اور ہمدان جیسے شہروں کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور فاتح کہلائے۔
حاکمِ شہر کی شانِ بے نیازی
امیرالمومنین ، حضرت عُمر فاروق ؓ نے آپؓ کو فوجی خدمات سے سبک دوش کر کے مدائن کا گورنر مقرّر کر دیا۔ گورنر کی حیثیت سے آپؓ کے مدائن میں داخلے کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ معزّزینِ شہر ہزاروں افراد کے ساتھ آپؓ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع ہیں، سب کی نظریں گورنر کی شاہانہ سواری کی منتظر ہیں۔ ایک شخص نہایت معمولی لباس زیبِ تن کیے ہوئے، ایک خچر پر سوار شہر میں داخل ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر گزر گئی، تو فکر بڑھی اور پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟ حاکمِ شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟‘‘بتایا گیا کہ’’وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر معزّزینِ شہر سخت حیران ہوئے۔
شہنشاہی میں فقیری
جب تک مدائن میں قیام پزیر رہے، عجز و انکساری اور سادگی کی تصویر بنے رہے، کوئی بھی حاجت مند کسی بھی وقت گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔ گھر کی معمولی ضروریات کے خرچ کے علاوہ اپنی ساری تن خواہ غریب، غرباء میں تقسیم کر دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے پانی مانگا۔ ایک مجوسی نے سونے یا چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا۔ آپ ؓنے اس برتن کا پانی پھینک دیا اور فرمایا’’مَیں نے تم کو کئی بار منع کیا ہے، مَیں اس میں پانی نہیں پیتا، کیوں کہ رس��ل اللہؐ نے فرمایا ہے کہ’’ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھائو اور نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔
سادگی مومن کی شان ہے
کچھ عرصے بعد امیرالمومنین، حضرت عمر فاروقؓ نے دربارِ خلافت میں طلب فرمایا۔ فاروق اعظمؓ کو تجسّس ہوا کہ دیکھیں، مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں۔ آپؓ شہرِ مدینہ آنے والے راستے میں کھجوروں کے ایک جھنڈ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں اُنہیں دُور سے حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے۔ دیکھا کہ وہ جس حال میں مدینے سے گئے تھے، اس سے زیادہ خستہ حالی میں واپس ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبّت سے اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا ’’اے حذیفہؓ !تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘
خالقِ حقیقی سے جا ملے
موت کا وقت جب قریب آیا، تو آپؓ نے وصیّت فرمائی کہ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا، اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو مجھے وہاں جنّت کے کپڑے کے بہترین کفن سے نوازا جائے گا اور اگر وہاں پر میرے لیے بہتری نہیں ہے، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے امیری کے مقابلے میں فقیری کو چاہا ہے اور ہمیشہ موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد مدائن میں آپؓ نے وفات پائی (اسدالغابہ)۔
The post حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2yC5RDR via India Pakistan News
0 notes
rebranddaniel · 6 years
Text
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
وہ شوال 5 ہجری کی ایک سرد صبح تھی، جب مکہ مکرّمہ کے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکتی سورج کی رُوپہلی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ابو سفیان کی قیادت میں 10ہزار مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف قبائل پر مشتمل اس لشکر نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا ہے۔ امام الانبیاءؐ، سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ اممؐ کو ہر ہر لمحے کی خبر ہے۔ اللہ کی تائید و نصرت اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینے کے گرد ایک وسیع و عریض خندق نے مشرکین کے عزائم کے درمیان حائل ہو کر اُن کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ غیظ و غضب میں بپھرے مشرکین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُن کے ارادے یوں پامال ہو جائیں گے ۔
آج محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے، لیکن ان بے سروسامان مسلمانوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی۔ اس کے برعکس، چند دنوں میں فتح کے شادیانے بجاتے واپس لَوٹنے کے خواب دیکھنے والے مشرکین کو طویل محاصرے نے بددل اور پست ہمّت کر دیا۔ گھربار سے دُور خیموں کی سخت ترین کٹھن زندگی، مدینے کی سرد ہوائیں اور خراب موسم موت کا پیغام بن کر اُنہیں مختلف بیماریوں میں گھیر چُکا ہے۔ اُن کے اونٹ، گھوڑے اور مویشی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں۔ حالات کی سختی نے اُن کے اعصاب مفلوج کر کے اُنھیں آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے۔ مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ سرد ہو چُکا اور اب اُنہیں اپنے گھروں کو واپسی کی فکر ہے۔ اور پھر ایک سرد ٹھٹھرتی تاریک رات میں کالی آندھی اور ریت کا طوفان اللہ کا قہر بن کر نازل ہو گیا۔ اُن کے خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں، چراغ گُل ہو گئے۔ سامان ہوا میں اُڑ گیا، اونٹ اور گھوڑے رسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ مشرکین کے چہرے خاک آلود، آنکھیں، ناک اور کان مٹّی سے بھر گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اسی رات کا انتظار تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ کوئی ہے، جو اس خوف ناک طوفان سے نبردآزما ہوتا ہوا مشرکین کی صفوں میں جائے اور اندر کا حال معلوم کر کے آئے؟‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس یخ بستہ موسم اور ریت کے طوفان میں خندق پار کر کے دشمنوں کی صفوں میں داخل ہونا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحابہؓ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ کھڑے ہوئے’’یارسول اللہؐ ! یہ کام مَیں انجام دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے محبّت بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا۔ شفقت سے اپنے پاس بلا کر ہدایات دیں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور کفّار کی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ عجیب افراتفری کا عالم ہے، لوگ اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ابو سفیان خود بھی اپنے گھوڑے پر بیٹھا واپسی کا قصد کر رہا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آ کر حضور ؐ کو وہاں کی صُورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ صبح فجر کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ میدان صاف ہو چُکا ہے اور مشرکین ناکام و نامُراد واپس لَوٹ چُکے ہیں۔
تعارف
حضرت حذیفہؓ کے والد، حسیلؓ بن جابر الیمانی کا تعلق، بنو غطفان کے عبس خاندان سے تھا۔ یہ خاندان، اپنی بہادری اور جواں مَردی کے لیے مشہور تھا۔ حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّہ میں ایک شخص کا قتل ہو گیا، چناں چہ وہ چُھپ کر مدینہ آ گئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ حاصل کر لی اور اُسی قبیلے کی ایک خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کر لیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ حسیلؓ بن جابر چوں کہ یمنی النّسل تھے، لہٰذا اہلِ مدینہ نے اُن کا نام یمان رکھ دیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ جب رسول اللہؐ نے نبوّت کا اعلان کیا، تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد یمانؓ کے ساتھ مکہ آئے اور حضورؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ ؓکے والد قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی، چناں چہ اُنھوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا’’یارسول اللہؐ ! مَیں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ حضور اکرم ﷺنے فرمایا’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلائو یا انصار۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یارسول اللہؐ ! مَیں انصار کہلانا پسند کروں گا۔‘‘
سلسلۂ نسب، حلیہ
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حذیفہؓ بن حسیلؓ بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن یفیض بن زیت بن غطفان۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے کے قبائل اوس و خزرج یمنی النّسل تھے، اس لیے حسیل کا نام اُن کی قوم نے یمان رکھ دیا۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت ، عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ میانے قد، چوڑے چکلے، مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ ماتھا چوڑا، سفید چمکیلے دانت، نگاہیں عقابی تھیں۔ دلائل کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرتے۔ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم اور درویش منش انسان تھے۔‘‘
صاحبِ سرِ رسول اللہ ﷺ
آپؓ کا ایک لقب ’’صاحبِ سرِ رسول اللہؐ ‘‘ ہے۔ یعنی پیغمبرِ اسلامؐ کے رازدار ۔ ابن عبدالبر’’ الاستیعاب‘‘ میں اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہؐ نے اُن کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا اور آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیّت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں۔‘‘ رسول اکرمؐ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔
کاتبِ وحی
حضرت حذیفہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ چناں چہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز فرمایا۔ آپؓ علم و فضل، قرآن و حدیث اور فقہ میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ آپؓ سے حدیث کی تعلیم حاصل کرتے۔ ابو عبیدالقاسم اپنی کتاب’’کتاب القراء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت حذیفہؓ عہدِ نبویؐ کے شروع کے حفّاظِ قرآن میں سے تھے۔ فتنوں سے متعلق آپ ؓکو کافی احادیث یاد تھیں۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ’’تم میں سے کس کو فتنوں سے متعلق رسول اللہؐ کی احادیث یاد ہیں؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے کہا ’’مجھے۔‘‘حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’تم اس معاملے میں بڑے دلیر ہو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔ وہ بڑے بارُعب صحابی تھے، اُن کے شاگرد بلاوجہ اُن سے سوال نہیں کر سکتے تھے(بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرمایا کرتے تھے’’اے قاریعہ! (یعنی علماء) کی جماعت، ��ستقامت اختیار کرو، کیوں کہ تم بہت پیچھے رہ گئے ہو، اگر تم دائیں بائیں اُتر جائو گے، تو گم راہ ہو جائو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔
غزوات میں شرکت
حضرت حذیفہؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن راستے میں کفّار نے گرفتار کر لیا۔ ابوجہل نے اُن سے پوچھا’’کیا تم جنگ میں شرکت کے لیے بدر جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘ ابوجہل کی خواہش تھی کہ دونوں باپ بیٹے کو قتل کر دے، لیکن ایک مشرک سردار نے اُسے سمجھایا کہ’’اگر اُنہیں قتل کرو گے، تو عبس قبیلہ ہمارا دشمن ہو جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجہل نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اُن دونوں سے کہا’’تم یہ عہد کرو کہ بدر کی لڑائی میں محمّد(ﷺ)کا ساتھ نہیں دو گے، تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے جان بچانے کی غرض سے وعدہ کر لیا، مگر آزادی ملتے ہی دونوں بدر میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور اُنہیں واپس مدینہ بھیج دیا(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)۔ رحمت دوعالمؐ کے یہ تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک کے لیے معاہدوں کی پاس داری کا بین الاقوامی اصول وضع کر گئے۔
شہادت ہے معراجِ مردِ مومن
غزوۂ اُحد کے دن آنحضرتؐ نے حضرت یمان ؓبن جابر اور حضرت ثابت بن وقشؓ کو ضعیف العمری کی وجہ سے خواتین اور بچّوں کے ساتھ ایک اونچے ٹیلے پر محفوظ جگہ بٹھا دیا، مگر جب جنگ کا میدان گرم ہوا، تو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے خود پر قابو نہ رکھ سکے اور شہادت کے عظیم منصب کی خواہش دِل میں لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی تھی، لیکن جبل رماۃ پر متعیّن تیراندازوں کی ذرا سی کوتاہی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور میدانِ جنگ میں افراتفری مچ گئی۔ دوست اور دشمن کی شناخت مشکل ہو گئی، اس افراتفری میں حضرت حذیفہؓ کے والد شہید ہو گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہؐ نے اُن کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ ’’مَیں نے اُن کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔‘‘ اس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جنگِ نہاوند
حضرت عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع ہے۔ آپؓ نے پہلے خود جانے کا ارادہ کیا، لیکن صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرنؓ کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو نائب بنا کر روانہ کیا۔ یہ دونوں صحابیؓ 30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند کی جانب بڑھے، وہاں دونوں افواج میں گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن اُن کے سپہ سالار، نعمان بن مقرنؓ شہید ہو گئے، جس پر حضرت حذیفہؓ لشکرِ اسلام کے سپہ سالار مقرّر ہوئے۔ اُنہوں نے نہاوند شہر پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے، مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا، جب کہ ہیرے جواہرات کا بکس حضرت فاروق اعظمؓ کو بھجوا دیا، تاہم اُنھوں نے حکم دیا کہ اُنہیں بھی فروخت کر کے رقم لشکر میں تقسیم کر دو، چناں چہ اُن جواہرات کو چار لاکھ درہم میں فروخت کر کے رقم تقسیم کر دی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں دینور اور ہمدان جیسے شہروں کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور فاتح کہلائے۔
حاکمِ شہر کی شانِ بے نیازی
امیرالمومنین ، حضرت عُمر فاروق ؓ نے آپؓ کو فوجی خدمات سے سبک دوش کر کے مدائن کا گورنر مقرّر کر دیا۔ گورنر کی حیثیت سے آپؓ کے مدائن میں داخلے کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ معزّزینِ شہر ہزاروں افراد کے ساتھ آپؓ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع ہیں، سب کی نظریں گورنر کی شاہانہ سواری کی منتظر ہیں۔ ایک شخص نہایت معمولی لباس زیبِ تن کیے ہوئے، ایک خچر پر سوار شہر میں داخل ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر گزر گئی، تو فکر بڑھی اور پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟ حاکمِ شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟‘‘بتایا گیا کہ’’وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر معزّزینِ شہر سخت حیران ہوئے۔
شہنشاہی میں فقیری
جب تک مدائن میں قیام پزیر رہے، عجز و انکساری اور سادگی کی تصویر بنے رہے، کوئی بھی حاجت مند کسی بھی وقت گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔ گھر کی معمولی ضروریات کے خرچ کے علاوہ اپنی ساری تن خواہ غریب، غرباء میں تقسیم کر دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے پانی مانگا۔ ایک مجوسی نے سونے یا چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا۔ آپ ؓنے اس برتن کا پانی پھینک دیا اور فرمایا’’مَیں نے تم کو کئی بار منع کیا ہے، مَیں اس میں پانی نہیں پیتا، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ’’ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھائو اور نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔
سادگی مومن کی شان ہے
کچھ عرصے بعد امیرالمومنین، حضرت عمر فاروقؓ نے دربارِ خلافت میں طلب فرمایا۔ فاروق اعظمؓ کو تجسّس ہوا کہ دیکھیں، مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں۔ آپؓ شہرِ مدینہ آنے والے راستے میں کھجوروں کے ایک جھنڈ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں اُنہیں دُور سے حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے۔ دیکھا کہ وہ جس حال میں مدینے سے گئے تھے، اس سے زیادہ خستہ حالی میں واپس ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبّت سے اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا ’’اے حذیفہؓ !تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘
خالقِ حقیقی سے جا ملے
موت کا وقت جب قریب آیا، تو آپؓ نے وصیّت فرمائی کہ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا، اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو مجھے وہاں جنّت کے کپڑے کے بہترین کفن سے نوازا جائے گا اور اگر وہاں پر میرے لیے بہتری نہیں ہے، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے امیری کے مقابلے میں فقیری کو چاہا ہے اور ہمیشہ موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد مدائن میں آپؓ نے وفات پائی (اسدالغابہ)۔
The post حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2yC5RDR via Urdu News Paper
0 notes
katarinadreams92 · 6 years
Text
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
وہ شوال 5 ہجری کی ایک سرد صبح تھی، جب مکہ مکرّمہ کے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکتی سورج کی رُوپہلی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ابو سفیان کی قیادت میں 10ہزار مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف قبائل پر مشتمل اس لشکر نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا ہے۔ امام الانبیاءؐ، سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ اممؐ کو ہر ہر لمحے کی خبر ہے۔ اللہ کی تائید و نصرت اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینے کے گرد ایک وسیع و عریض خندق نے مشرکین کے عزائم کے درمیان حائل ہو کر اُن کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ غیظ و غضب میں بپھرے مشرکین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُن کے ارادے یوں پامال ہو جائیں گے ۔
آج محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے، لیکن ان بے سروسامان مسلمانوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی۔ اس کے برعکس، چند دنوں میں فتح کے شادیانے بجاتے واپس لَوٹنے کے خواب دیکھنے والے مشرکین کو طویل محاصرے نے بددل اور پست ہمّت کر دیا۔ گھربار سے دُور خیموں کی سخت ترین کٹھن زندگی، مدینے کی سرد ہوائیں اور خراب موسم موت کا پیغام بن کر اُنہیں مختلف بیماریوں میں گھیر چُکا ہے۔ اُن کے اونٹ، گھوڑے اور مویشی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں۔ حالات کی سختی نے اُن کے اعصاب مفلوج کر کے اُنھیں آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے۔ مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ سرد ہو چُکا اور اب اُنہیں اپنے گھروں کو واپسی کی فکر ہے۔ اور پھر ایک سرد ٹھٹھرتی تاریک رات میں کالی آندھی اور ریت کا طوفان اللہ کا قہر بن کر نازل ہو گیا۔ اُن کے خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں، چراغ گُل ہو گئے۔ سامان ہوا میں اُڑ گیا، اونٹ اور گھوڑے رسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ مشرکین کے چہرے خاک آلود، آنکھیں، ناک اور کان مٹّی سے بھر گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اسی رات کا انتظار تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ کوئی ہے، جو اس خوف ناک طوفان سے نبردآزما ہوتا ہوا مشرکین کی صفوں میں جائے اور اندر کا حال معلوم کر کے آئے؟‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس یخ بستہ موسم اور ریت کے طوفان میں خندق پار کر کے دشمنوں کی صفوں میں داخل ہونا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحابہؓ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ کھڑے ہوئے’’یارسول اللہؐ ! یہ کام مَیں انجام دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے محبّت بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا۔ شفقت سے اپنے پاس بلا کر ہدایات دیں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور کفّار کی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ عجیب افراتفری کا عالم ہے، لوگ اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ابو سفیان خود بھی اپنے گھوڑے پر بیٹھا واپسی کا قصد کر رہا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آ کر حضور ؐ کو وہاں کی صُورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ صبح فجر کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ میدان صاف ہو چُکا ہے اور مشرکین ناکام و نامُراد واپس لَوٹ چُکے ہیں۔
تعارف
حضرت حذیفہؓ کے والد، حسیلؓ بن جابر الیمانی کا تعلق، بنو غطفان کے عبس خاندان سے تھا۔ یہ خاندان، اپنی بہادری اور جواں مَردی کے لیے مشہور تھا۔ حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّہ میں ایک شخص کا قتل ہو گیا، چناں چہ وہ چُھپ کر مدینہ آ گئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ حاصل کر لی اور اُسی قبیلے کی ایک خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کر لیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ حسیلؓ بن جابر چوں کہ یمنی النّسل تھے، لہٰذا اہلِ مدینہ نے اُن کا نام یمان رکھ دیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ جب رسول اللہؐ نے نبوّت کا اعلان کیا، تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد یمانؓ کے ساتھ مکہ آئے اور حضورؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ ؓکے والد قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی، چناں چہ اُنھوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا’’یارسول اللہؐ ! مَیں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ حضور اکرم ﷺنے فرمایا’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلائو یا انصار۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یارسول اللہؐ ! مَیں انصار کہلانا پسند کروں گا۔‘‘
سلسلۂ نسب، حلیہ
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حذیفہؓ بن حسیلؓ بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن یفیض بن زیت بن غطفان۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے کے قبائل اوس و خزرج یمنی النّسل تھے، اس لیے حسیل کا نام اُن کی قوم نے یمان رکھ دیا۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت ، عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ میانے قد، چوڑے چکلے، مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ ماتھا چوڑا، سفید چمکیلے دانت، نگاہیں عقابی تھیں۔ دلائل کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرتے۔ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم اور درویش منش انسان تھے۔‘‘
صاحبِ سرِ رسول اللہ ﷺ
آپؓ کا ایک لقب ’’صاحبِ سرِ رسول اللہؐ ‘‘ ہے۔ یعنی پیغمبرِ اسلامؐ کے رازدار ۔ ابن عبدالبر’’ الاستیعاب‘‘ میں اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہؐ نے اُن کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا اور آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیّت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں۔‘‘ رسول اکرمؐ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔
کاتبِ وحی
حضرت حذیفہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ چناں چہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز فرمایا۔ آپؓ علم و فضل، قرآن و حدیث اور فقہ میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ آپؓ سے حدیث کی تعلیم حاصل کرتے۔ ابو عبیدالقاسم اپنی کتاب’’کتاب القراء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت حذیفہؓ عہدِ نبویؐ کے شروع کے حفّاظِ قرآن میں سے تھے۔ فتنوں سے متعلق آپ ؓکو کافی احادیث یاد تھیں۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ’’تم میں سے کس کو فتنوں سے متعلق رسول اللہؐ کی احادیث یاد ہیں؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے کہا ’’مجھے۔‘‘حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’تم اس معاملے میں بڑے دلیر ہو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔ وہ بڑے بارُعب صحابی تھے، اُن کے شاگرد بلاوجہ اُن سے سوال نہیں کر سکتے تھے(بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرمایا کرتے تھے’’اے قاریعہ! (یعنی علماء) کی جماعت، استقامت اختیار کرو، کیوں کہ تم بہت پیچھے رہ گئے ہو، اگر تم دائیں بائیں اُتر جائو گے، تو گم راہ ہو جائو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔
غزوات میں شرکت
حضرت حذیفہؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن راستے میں کفّار نے گرفتار کر لیا۔ ابوجہل نے اُن سے پوچھا’’کیا تم جنگ میں شرکت کے لیے بدر جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘ ابوجہل کی خواہش تھی کہ دونوں باپ بیٹے کو قتل کر دے، لیکن ایک مشرک سردار نے اُسے سمجھایا کہ’’اگر اُنہیں قتل کرو گے، تو عبس قبیلہ ہمارا دشمن ہو جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجہل نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اُن دونوں سے کہا’’تم یہ عہد کرو کہ بدر کی لڑائی میں محمّد(ﷺ)کا ساتھ نہیں دو گے، تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے جان بچانے کی غرض سے وعدہ کر لیا، مگر آزادی ملتے ہی دونوں بدر میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور اُنہیں واپس مدینہ بھیج دیا(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)۔ رحمت دوعالمؐ کے یہ تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک کے لیے معاہدوں کی پاس داری کا بین الاقوامی اصول وضع کر گئے۔
شہادت ہے معراجِ مردِ مومن
غزوۂ اُحد کے دن آنحضرتؐ نے حضرت یمان ؓبن جابر اور حضرت ثابت بن وقشؓ کو ضعیف العمری کی وجہ سے خواتین اور بچّوں کے ساتھ ایک اونچے ٹیلے پر محفوظ جگہ بٹھا دیا، مگر جب جنگ کا میدان گرم ہوا، تو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے خود پر قابو نہ رکھ سکے اور شہادت کے عظیم منصب کی خواہش دِل میں لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی تھی، لیکن جبل رماۃ پر متعیّن تیراندازوں کی ذرا سی کوتاہی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور میدانِ جنگ میں افراتفری مچ گئی۔ دوست اور دشمن کی شناخت مشکل ہو گئی، اس افراتفری میں حضرت حذیفہؓ کے والد شہید ہو گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہؐ نے اُن کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ ’’مَیں نے اُن کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔‘‘ اس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جنگِ نہاوند
حضرت عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع ہے۔ آپؓ نے پہلے خود جانے کا ارادہ کیا، لیکن صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرنؓ کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو نائب بنا کر روانہ کیا۔ یہ دونوں صحابیؓ 30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند کی جانب بڑھے، وہاں دونوں افواج میں گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن اُن کے سپہ سالار، نعمان بن مقرنؓ شہید ہو گئے، جس پر حضرت حذیفہؓ لشکرِ اسلام کے سپہ سالار مقرّر ہوئے۔ اُنہوں نے نہاوند شہر پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے، مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا، جب کہ ہیرے جواہرات کا بکس حضرت فاروق اعظمؓ کو بھجوا دیا، تاہم اُنھوں نے حکم دیا کہ اُنہیں بھی فروخت کر کے رقم لشکر میں تقسیم کر دو، چناں چہ اُن جواہرات کو چار لاکھ درہم میں فروخت کر کے رقم تقسیم کر دی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں دینور اور ہمدان جیسے شہروں کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور فاتح کہلائے۔
حاکمِ شہر کی شانِ بے نیازی
امیرالمومنین ، حضرت عُمر فاروق ؓ نے آپؓ کو فوجی خدمات سے سبک دوش کر کے مدائن کا گورنر مقرّر کر دیا۔ گورنر کی حیثیت سے آپؓ کے مدائن میں داخلے کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ معزّزینِ شہر ہزاروں افراد کے ساتھ آپؓ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع ہیں، سب کی نظریں گورنر کی شاہانہ سواری کی منتظر ہیں۔ ایک شخص نہایت معمولی لباس زیبِ تن کیے ہوئے، ایک خچر پر سوار شہر میں داخل ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر گزر گئی، تو فکر بڑھی اور پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟ حاکمِ شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟‘‘بتایا گیا کہ’’وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر معزّزینِ شہر سخت حیران ہوئے۔
شہنشاہی میں فقیری
جب تک مدائن میں قیام پزیر رہے، عجز و انکساری اور سادگی کی تصویر بنے رہے، کوئی بھی حاجت مند کسی بھی وقت گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔ گھر کی معمولی ضروریات کے خرچ کے علاوہ اپنی ساری تن خواہ غریب، غرباء میں تقسیم کر دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے پانی مانگا۔ ایک مجوسی نے سونے یا چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا۔ آپ ؓنے اس برتن کا پانی پھینک دیا اور فرمایا’’مَیں نے تم کو کئی بار منع کیا ہے، مَیں اس میں پانی نہیں پیتا، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ’’ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھائو اور نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔
سادگی مومن کی شان ہے
کچھ عرصے بعد امیرالمومنین، حضرت عمر فاروقؓ نے دربارِ خلافت میں طلب فرمایا۔ فاروق اعظمؓ کو تجسّس ہوا کہ دیکھیں، مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں۔ آپؓ شہرِ مدینہ آنے والے راستے میں کھجوروں کے ایک جھنڈ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں اُنہیں دُور سے حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے۔ دیکھا کہ وہ جس حال میں مدینے سے گئے تھے، اس سے زیادہ خستہ حالی میں واپس ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبّت سے اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا ’’اے حذیفہؓ !تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘
خالقِ حقیقی سے جا ملے
موت کا وقت جب قریب آیا، تو آپؓ نے وصیّت فرمائی کہ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا، اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو مجھے وہاں جنّت کے کپڑے کے بہترین کفن سے نوازا جائے گا اور اگر وہاں پر میرے لیے بہتری نہیں ہے، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے امیری کے مقابلے میں فقیری کو چاہا ہے اور ہمیشہ موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد مدائن میں آپؓ نے وفات پائی (اسدالغابہ)۔
The post حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2yC5RDR via Hindi Khabrain
0 notes
aj-thecalraisen · 6 years
Text
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
وہ شوال 5 ہجری کی ایک سرد صبح تھی، جب مکہ مکرّمہ کے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکتی سورج کی رُوپہلی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ابو سفیان کی قیادت میں 10ہزار مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف قبائل پر مشتمل اس لشکر نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا ہے۔ امام الانبیاءؐ، سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ اممؐ کو ہر ہر لمحے کی خبر ہے۔ اللہ کی تائید و نصرت اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینے کے گرد ایک وسیع و عریض خندق نے مشرکین کے عزائم کے درمیان حائل ہو کر اُن کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ غیظ و غضب میں بپھرے مشرکین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُن کے ارادے یوں پامال ہو جائیں گے ۔
آج محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے، لیکن ان بے سروسامان مسلمانوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی۔ اس کے برعکس، چند دنوں میں فتح کے شادیانے بجاتے واپس لَوٹنے کے خواب دیکھنے والے مشرکین کو طویل محاصرے نے بددل اور پست ہمّت کر دیا۔ گھربار سے دُور خیموں کی سخت ترین کٹھن زندگی، مدینے کی سرد ہوائیں اور خراب موسم موت کا پیغام بن کر اُنہیں مختلف بیماریوں میں گھیر چُکا ہے۔ اُن کے اونٹ، گھوڑے اور مویشی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں۔ حالات کی سختی نے اُن کے اعصاب مفلوج کر کے اُنھیں آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے۔ مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ سرد ہو چُکا اور اب اُنہیں اپنے گھروں کو واپسی کی فکر ہے۔ اور پھر ایک سرد ٹھٹھرتی تاریک رات میں کالی آندھی اور ریت کا طوفان اللہ کا قہر بن کر نازل ہو گیا۔ اُن کے خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں، چراغ گُل ہو گئے۔ سامان ہوا میں اُڑ گیا، اونٹ اور گھوڑے رسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ مشرکین کے چہرے خاک آلود، آنکھیں، ناک اور کان مٹّی سے بھر گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اسی رات کا انتظار تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ کوئی ہے، جو اس خوف ناک طوفان سے نبردآزما ہوتا ہوا مشرکین کی صفوں میں جائے اور اندر کا حال معلوم کر کے آئے؟‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس یخ بستہ موسم اور ریت کے طوفان میں خندق پار کر کے دشمنوں کی صفوں میں داخل ہونا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحابہؓ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ کھڑے ہوئے’’یارسول اللہؐ ! یہ کام مَیں انجام دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے محبّت بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا۔ شفقت سے اپنے پاس بلا کر ہدایات دیں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور کفّار کی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ عجیب افراتفری کا عالم ہے، لوگ اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ابو سفیان خود بھی اپنے گھوڑے پر بیٹھا واپسی کا قصد کر رہا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آ کر حضور ؐ کو وہاں کی صُورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ صبح فجر کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ میدان صاف ہو چُکا ہے اور مشرکین ناکام و نامُراد واپس لَوٹ چُکے ہیں۔
تعارف
حضرت حذیفہؓ کے والد، حسیلؓ بن جابر الیمانی کا تعلق، بنو غطفان کے عبس خاندان سے تھا۔ یہ خاندان، اپنی بہادری اور جواں مَردی کے لیے مشہور تھا۔ حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّہ میں ایک شخص کا قتل ہو گیا، چناں چہ وہ چُھپ کر مدینہ آ گئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ حاصل کر لی اور اُسی قبیلے کی ایک خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کر لیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ حسیلؓ بن جابر چوں کہ یمنی النّسل تھے، لہٰذا اہلِ مدینہ نے اُن کا نام یمان رکھ دیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ جب رسول اللہؐ نے نبوّت کا اعلان کیا، تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد یمانؓ کے ساتھ مکہ آئے اور حضورؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ ؓکے والد قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی، چناں چہ اُنھوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا’’یارسول اللہؐ ! مَیں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ حضور اکرم ﷺنے فرمایا’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلائو یا انصار۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یارسول اللہؐ ! مَیں انصار کہلانا پسند کروں گا۔‘‘
سلسلۂ نسب، حلیہ
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حذیفہؓ بن حسیلؓ بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن یفیض بن زیت بن غطفان۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے کے قبائل اوس و خزرج یمنی النّسل تھے، اس لیے حسیل کا نام اُن کی قوم نے یمان رکھ دیا۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت ، عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ میانے قد، چوڑے چکلے، مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ ماتھا چوڑا، سفید چمکیلے دانت، نگاہیں عقابی تھیں۔ دلائل کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرتے۔ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم اور درویش منش انسان تھے۔‘‘
صاحبِ سرِ رسول اللہ ﷺ
آپؓ کا ایک لقب ’’صاحبِ سرِ رسول اللہؐ ‘‘ ہے۔ یعنی پیغمبرِ اسلامؐ کے رازدار ۔ ابن عبدالبر’’ الاستیعاب‘‘ میں اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہؐ نے اُن کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا اور آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیّت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں۔‘‘ رسول اکرمؐ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔
کاتبِ وحی
حضرت حذیفہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ چناں چہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز فرمایا۔ آپؓ علم و فضل، قرآن و حدیث اور فقہ میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ آپؓ سے حدیث کی تعلیم حاصل کرتے۔ ابو عبیدالقاسم اپنی کتاب’’کتاب القراء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت حذیفہؓ عہدِ نبویؐ کے شروع کے حفّاظِ قرآن میں سے تھے۔ فتنوں سے متعلق آپ ؓکو کافی احادیث یاد تھیں۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ’’تم میں سے کس کو فتنوں سے متعلق رسول اللہؐ کی احادیث یاد ہیں؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے کہا ’’مجھے۔‘‘حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’تم اس معاملے میں بڑے دلیر ہو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔ وہ بڑے بارُعب صحابی تھے، اُن کے شاگرد بلاوجہ اُن سے سوال نہیں کر سکتے تھے(بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرمایا کرتے تھے’’اے قاریعہ! (یعنی علماء) کی جماعت، استقامت اختیار کرو، کیوں کہ تم بہت پیچھے رہ گئے ہو، اگر تم دائیں بائیں اُتر جائو گے، تو گم راہ ہو جائو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔
غزوات میں شرکت
حضرت حذیفہؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن راستے میں کفّار نے گرفتار کر لیا۔ ابوجہل نے اُن سے پوچھا’’کیا تم جنگ میں شرکت کے لیے بدر جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘ ابوجہل کی خواہش تھی کہ دونوں باپ بیٹے کو قتل کر دے، لیکن ایک مشرک سردار نے اُسے سمجھایا کہ’’اگر اُنہیں قتل کرو گے، تو عبس قبیلہ ہمارا دشمن ہو جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجہل نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اُن دونوں سے کہا’’تم یہ عہد کرو کہ بدر کی لڑائی میں محمّد(ﷺ)کا ساتھ نہیں دو گے، تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے جان بچانے کی غرض سے وعدہ کر لیا، مگر آزادی ملتے ہی دونوں بدر میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور اُنہیں واپس مدینہ بھیج دیا(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)۔ رحمت دوعالمؐ کے یہ تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک کے لیے معاہدوں کی پاس داری کا بین الاقوامی اصول وضع کر گئے۔
شہادت ہے معراجِ مردِ مومن
غزوۂ اُحد کے دن آنحضرتؐ نے حضرت یمان ؓبن جابر اور حضرت ثابت بن وقشؓ کو ضعیف العمری کی وجہ سے خواتین اور بچّوں کے ساتھ ایک اونچے ٹیلے پر محفوظ جگہ بٹھا دیا، مگر جب جنگ کا میدان گرم ہوا، تو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے خود پر قابو نہ رکھ سکے اور شہادت کے عظیم منصب کی خواہش دِل میں لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی تھی، لیکن جبل رماۃ پر متعیّن تیراندازوں کی ذرا سی کوتاہی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور میدانِ جنگ میں افراتفری مچ گئی۔ دوست اور دشمن کی شناخت مشکل ہو گئی، اس افراتفری میں حضرت حذیفہؓ کے والد شہید ہو گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہؐ نے اُن کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ ’’مَیں نے اُن کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔‘‘ اس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جنگِ نہاوند
حضرت عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع ہے۔ آپؓ نے پہلے خود جانے کا ارادہ کیا، لیکن صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرنؓ کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو نائب بنا کر روانہ کیا۔ یہ دونوں صحابیؓ 30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند کی جانب بڑھے، وہاں دونوں افواج میں گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن اُن کے سپہ سالار، نعمان بن مقرنؓ شہید ہو گئے، جس پر حضرت حذیفہؓ لشکرِ اسلام کے سپہ سالار مقرّر ہوئے۔ اُنہوں نے نہاوند شہر پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے، مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا، جب کہ ہیرے جواہرات کا بکس حضرت فاروق اعظمؓ کو بھجوا دیا، تاہم اُنھوں نے حکم دیا کہ اُنہیں بھی فروخت کر کے رقم لشکر میں تقسیم کر دو، چناں چہ اُن جواہرات کو چار لاکھ درہم میں فروخت کر کے رقم تقسیم کر دی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں دینور اور ہمدان جیسے شہروں کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور فاتح کہلائے۔
حاکمِ شہر کی شانِ بے نیازی
امیرالمومنین ، حضرت عُمر فاروق ؓ نے آپؓ کو فوجی خدمات سے سبک دوش کر کے مدائن کا گورنر مقرّر کر دیا۔ گورنر کی حیثیت سے آپؓ کے مدائن میں داخلے کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ معزّزینِ شہر ہزاروں افراد کے ساتھ آپؓ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع ہیں، سب کی نظریں گورنر کی شاہانہ سواری کی منتظر ہیں۔ ایک شخص نہایت معمولی لباس زیبِ تن کیے ہوئے، ایک خچر پر سوار شہر میں داخل ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر گزر گئی، تو فکر بڑھی اور پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟ حاکمِ شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟‘‘بتایا گیا کہ’’وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر معزّزینِ شہر سخت حیران ہوئے۔
شہنشاہی میں فقیری
جب تک مدائن میں قیام پزیر رہے، عجز و انکساری اور سادگی کی تصویر بنے رہے، کوئی بھی حاجت مند کسی بھی وقت گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔ گھر کی معمولی ضروریات کے خرچ کے علاوہ اپنی ساری تن خواہ غریب، غرباء میں تقسیم کر دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے پانی مانگا۔ ایک مجوسی نے سونے یا چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا۔ آپ ؓنے اس برتن کا پانی پھینک دیا اور فرمایا’’مَیں نے تم کو کئی بار منع کیا ہے، مَیں اس میں پانی نہیں پیتا، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ’’ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھائو اور نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔
سادگی مومن کی شان ہے
کچھ عرصے بعد امیرالمومنین، حضرت عمر فاروقؓ نے دربارِ خلافت میں طلب فرمایا۔ فاروق اعظمؓ کو تجسّس ہوا کہ دیکھیں، مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں۔ آپؓ شہرِ مدینہ آنے والے راستے میں کھجوروں کے ایک جھنڈ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں اُنہیں دُور سے حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے۔ دیکھا کہ وہ جس حال میں مدینے سے گئے تھے، اس سے زیادہ خستہ حالی میں واپس ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبّت سے اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا ’’اے حذیفہؓ !تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘
خالقِ حقیقی سے جا ملے
موت کا وقت جب قریب آیا، تو آپؓ نے وصیّت فرمائی کہ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا، اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو مجھے وہاں جنّت کے کپڑے کے بہترین کفن سے نوازا جائے گا اور اگر وہاں پر میرے لیے بہتری نہیں ہے، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے امیری کے مقابلے میں فقیری کو چاہا ہے اور ہمیشہ موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد مدائن میں آپؓ نے وفات پائی (اسدالغابہ)۔
The post حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2yC5RDR via Urdu News
0 notes
dragnews · 6 years
Text
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
وہ شوال 5 ہجری کی ایک سرد صبح تھی، جب مکہ مکرّمہ کے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکتی سورج کی رُوپہلی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ابو سفیان کی قیادت میں 10ہزار مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف قبائل پر مشتمل اس لشکر نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا ہے۔ امام الانبیاءؐ، سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ اممؐ کو ہر ہر لمحے کی خبر ہے۔ اللہ کی تائید و نصرت اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینے کے گرد ایک وسیع و عریض خندق نے مشرکین کے عزائم کے درمیان حائل ہو کر اُن کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ غیظ و غضب میں بپھرے مشرکین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُن کے ارادے یوں پامال ہو جائیں گے ۔
آج محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے، لیکن ان بے سروسامان مسلمانوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی۔ اس کے برعکس، چند دنوں میں فتح کے شادیانے بجاتے واپس لَوٹنے کے خواب دیکھنے والے مشرکین کو طویل محاصرے نے بددل اور پست ہمّت کر دیا۔ گھربار سے دُور خیموں کی سخت ترین کٹھن زندگی، مدینے کی سرد ہوائیں اور خراب موسم موت کا پیغام بن کر اُنہیں مختلف بیماریوں میں گھیر چُکا ہے۔ اُن کے اونٹ، گھوڑے اور مویشی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں۔ حالات کی سختی نے اُن کے اعصاب مفلوج کر کے اُنھیں آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے۔ مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ سرد ہو چُکا اور اب اُنہیں اپنے گھروں کو واپسی کی فکر ہے۔ اور پھر ایک سرد ٹھٹھرتی تاریک رات میں کالی آندھی اور ریت کا طوفان اللہ کا قہر بن کر نازل ہو گیا۔ اُن کے خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں، چراغ گُل ہو گئے۔ سامان ہوا میں اُڑ گیا، اونٹ اور گھوڑے رسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ مشرکین کے چہرے خاک آلود، آنکھیں، ناک اور کان مٹّی سے بھر گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اسی رات کا انتظار تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ کوئی ہے، جو اس خوف ناک طوفان سے نبردآزما ہوتا ہوا مشرکین کی صفوں میں جائے اور اندر کا حال معلوم کر کے آئے؟‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس یخ بستہ موسم اور ریت کے طوفان میں خندق پار کر کے دشمنوں کی صفوں میں داخل ہونا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحابہؓ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ کھڑے ہوئے’’یارسول اللہؐ ! یہ کام مَیں انجام دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے محبّت بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا۔ شفقت سے اپنے پاس بلا کر ہدایات دیں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور کفّار کی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ عجیب افراتفری کا عالم ہے، لوگ اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ابو سفیان خود بھی اپنے گھوڑے پر بیٹھا واپسی کا قصد کر رہا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آ کر حضور ؐ کو وہاں کی صُورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ صبح فجر کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ میدان صاف ہو چُکا ہے اور مشرکین ناکام و نامُراد واپس لَوٹ چُکے ہیں۔
تعارف
حضرت حذیفہؓ کے والد، حسیلؓ بن جابر الیمانی کا تعلق، بنو غطفان کے عبس خاندان سے تھا۔ یہ خاندان، اپنی بہادری اور جواں مَردی کے لیے مشہور تھا۔ حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّہ میں ایک شخص کا قتل ہو گیا، چناں چہ وہ چُھپ کر مدینہ آ گئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ حاصل کر لی اور اُسی قبیلے کی ایک خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کر لیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ حسیلؓ بن جابر چوں کہ یمنی النّسل تھے، لہٰذا اہلِ مدینہ نے اُن کا نام یمان رکھ دیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ جب رسول اللہؐ نے نبوّت کا اعلان کیا، تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد یمانؓ کے ساتھ مکہ آئے اور حضورؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ ؓکے والد قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی، چناں چہ اُنھوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا’’یارسول اللہؐ ! مَیں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ حضور اکرم ﷺنے فرمایا’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلائو یا انصار۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یارسول اللہؐ ! مَیں انصار کہلانا پسند کروں گا۔‘‘
سلسلۂ نسب، حلیہ
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حذیفہؓ بن حسیلؓ بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن یفیض بن زیت بن غطفان۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے کے قبائل اوس و خزرج یمنی النّسل تھے، اس لیے حسیل کا نام اُن کی قوم نے یمان رکھ دیا۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت ، عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ میانے قد، چوڑے چکلے، مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ ماتھا چوڑا، سفید چمکیلے دانت، نگاہیں عقابی تھیں۔ دلائل کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرتے۔ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم اور درویش منش انسان تھے۔‘‘
صاحبِ سرِ رسول اللہ ﷺ
آپؓ کا ایک لقب ’’صاحبِ سرِ رسول اللہؐ ‘‘ ہے۔ یعنی پیغمبرِ اسلامؐ کے رازدار ۔ ابن عبدالبر’’ الاستیعاب‘‘ میں اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہؐ نے اُن کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا اور آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیّت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں۔‘‘ رسول اکرمؐ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔
کاتبِ وحی
حضرت حذیفہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ چناں چہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز فرمایا۔ آپؓ علم و فضل، قرآن و حدیث اور فقہ میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ آپؓ سے حدیث کی تعلیم حاصل کرتے۔ ابو عبیدالقاسم اپنی کتاب’’کتاب القراء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت حذیفہؓ عہدِ نبویؐ کے شروع کے حفّاظِ قرآن میں سے تھے۔ فتنوں سے متعلق آپ ؓکو کافی احادیث یاد تھیں۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ’’تم میں سے کس کو فتنوں سے متعلق رسول اللہؐ کی احادیث یاد ہیں؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے کہا ’’مجھے۔‘‘حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’تم اس معاملے میں بڑے دلیر ہو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔ وہ بڑے بارُعب صحابی تھے، اُن کے شاگرد بلاوجہ اُن سے سوال نہیں کر سکتے تھے(بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرمایا کرتے تھے’’اے قاریعہ! (یعنی علماء) کی جماعت، استقامت اختیار کرو، کیوں کہ تم بہت پیچھے رہ گئے ہو، اگر تم دائیں بائیں اُتر جائو گے، تو گم راہ ہو جائو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔
غزوات میں شرکت
حضرت حذیفہؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن راستے میں کفّار نے گرفتار کر لیا۔ ابوجہل نے اُن سے پوچھا’’کیا تم جنگ میں شرکت کے لیے بدر جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘ ابوجہل کی خواہش تھی کہ دونوں باپ بیٹے کو قتل کر دے، لیکن ایک مشرک سردار نے اُسے سمجھایا کہ’’اگر اُنہیں قتل کرو گے، تو عبس قبیلہ ہمارا دشمن ہو جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجہل نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اُن دونوں سے کہا’’تم یہ عہد کرو کہ بدر کی لڑائی میں محمّد(ﷺ)کا ساتھ نہیں دو گے، تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے جان بچانے کی غرض سے وعدہ کر لیا، مگر آزادی ملتے ہی دونوں بدر میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور اُنہیں واپس مدینہ بھیج دیا(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)۔ رحمت دوعالمؐ کے یہ تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک کے لیے معاہدوں کی پاس داری کا بین الاقوامی اصول وضع کر گئے۔
شہادت ہے معراجِ مردِ مومن
غزوۂ اُحد کے دن آنحضرتؐ نے حضرت یمان ؓبن جابر اور حضرت ثابت بن وقشؓ کو ضعیف العمری کی وجہ سے خواتین اور بچّوں کے ساتھ ایک اونچے ٹیلے پر محفوظ جگہ بٹھا دیا، مگر جب جنگ کا میدان گرم ہوا، تو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے خود پر قابو نہ رکھ سکے اور شہادت کے عظیم منصب کی خواہش دِل میں لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی تھی، لیکن جبل رماۃ پر متعیّن تیراندازوں کی ذرا سی کوتاہی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور میدانِ جنگ میں افراتفری مچ گئی۔ دوست اور دشمن کی شناخت مشکل ہو گئی، اس افراتفری میں حضرت حذیفہؓ کے والد شہید ہو گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہؐ نے اُن کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ ’’مَیں نے اُن کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔‘‘ اس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جنگِ نہاوند
حضرت عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع ہے۔ آپؓ نے پہلے خود جانے کا ارادہ کیا، لیکن صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرنؓ کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو نائب بنا کر روانہ کیا۔ یہ دونوں صحابیؓ 30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند کی جانب بڑھے، وہاں دونوں افواج میں گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن اُن کے سپہ سالار، نعمان بن مقرنؓ شہید ہو گئے، جس پر حضرت حذیفہؓ لشکرِ اسلام کے سپہ سالار مقرّر ہوئے۔ اُنہوں نے نہاوند شہر پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے، مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا، جب کہ ہیرے جواہرات کا بکس حضرت فاروق اعظمؓ کو بھجوا دیا، تاہم اُنھوں نے حکم دیا کہ اُنہیں بھی فروخت کر کے رقم لشکر میں تقسیم کر دو، چناں چہ اُن جواہرات کو چار لاکھ درہم میں فروخت کر کے رقم تقسیم کر دی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں دینور اور ہمدان جیسے شہروں کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور فاتح کہلائے۔
حاکمِ شہر کی شانِ بے نیازی
امیرالمومنین ، حضرت عُمر فاروق ؓ نے آپؓ کو فوجی خدمات سے سبک دوش کر کے مدائن کا گورنر مقرّر کر دیا۔ گورنر کی حیثیت سے آپؓ کے مدائن میں داخلے کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ معزّزینِ شہر ہزاروں افراد کے ساتھ آپؓ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع ہیں، سب کی نظریں گورنر کی شاہانہ سواری کی منتظر ہیں۔ ایک شخص نہایت معمولی لباس زیبِ تن کیے ہوئے، ایک خچر پر سوار شہر میں داخل ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر گزر گئی، تو فکر بڑھی اور پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟ حاکمِ شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟‘‘بتایا گیا کہ’’وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر معزّزینِ شہر سخت حیران ہوئے۔
شہنشاہی میں فقیری
جب تک مدائن میں قیام پزیر رہے، عجز و انکساری اور سادگی کی تصویر بنے رہے، کوئی بھی حاجت مند کسی بھی وقت گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔ گھر کی معمولی ضروریات کے خرچ کے علاوہ اپنی ساری تن خواہ غریب، غرباء میں تقسیم کر دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے پانی مانگا۔ ایک مجوسی نے سونے یا چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا۔ آپ ؓنے اس برتن کا پانی پھینک دیا اور فرمایا’’مَیں نے تم کو کئی بار منع کیا ہے، مَیں اس میں پانی نہیں پیتا، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ’’ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھائو اور نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔
سادگی مومن کی شان ہے
کچھ عرصے بعد امیرالمومنین، حضرت عمر فاروقؓ نے دربارِ خلافت میں طلب فرمایا۔ فاروق اعظمؓ کو تجسّس ہوا کہ دیکھیں، مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں۔ آپؓ شہرِ مدینہ آنے والے راستے میں کھجوروں کے ایک جھنڈ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں اُنہیں دُور سے حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے۔ دیکھا کہ وہ جس حال میں مدینے سے گئے تھے، اس سے زیادہ خستہ حالی میں واپس ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبّت سے اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا ’’اے حذیفہؓ !تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘
خالقِ حقیقی سے جا ملے
موت کا وقت جب قریب آیا، تو آپؓ نے وصیّت فرمائی کہ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا، اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو مجھے وہاں جنّت کے کپڑے کے بہترین کفن سے نوازا جائے گا اور اگر وہاں پر میرے لیے بہتری نہیں ہے، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے امیری کے مقابلے میں فقیری کو چاہا ہے اور ہمیشہ موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد مدائن میں آپؓ نے وفات پائی (اسدالغابہ)۔
The post حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2yC5RDR via Today Pakistan
0 notes
Text
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
وہ شوال 5 ہجری کی ایک سرد صبح تھی، جب مکہ مکرّمہ کے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکتی سورج کی رُوپہلی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ابو سفیان کی قیادت میں 10ہزار مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف قبائل پر مشتمل اس لشکر نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عہد کیا ہے۔ امام الانبیاءؐ، سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ اممؐ کو ہر ہر لمحے کی خبر ہے۔ اللہ کی تائید و نصرت اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینے کے گرد ایک وسیع و عریض خندق نے مشرکین کے عزائم کے درمیان حائل ہو کر اُن کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ غیظ و غضب میں بپھرے مشرکین کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُن کے ارادے یوں پامال ہو جائیں گے ۔
آج محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے، لیکن ان بے سروسامان مسلمانوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی۔ اس کے برعکس، چند دنوں میں فتح کے شادیانے بجاتے واپس لَوٹنے کے خواب دیکھنے والے مشرکین کو طویل محاصرے نے بددل اور پست ہمّت کر دیا۔ گھربار سے دُور خیموں کی سخت ترین کٹھن زندگی، مدینے کی سرد ہوائیں اور خراب موسم موت کا پیغام بن کر اُنہیں مختلف بیماریوں میں گھیر چُکا ہے۔ اُن کے اونٹ، گھوڑے اور مویشی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں۔ حالات کی سختی نے اُن کے اعصاب مفلوج کر کے اُنھیں آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے۔ مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ سرد ہو چُکا اور اب اُنہیں اپنے گھروں کو واپسی کی فکر ہے۔ اور پھر ایک سرد ٹھٹھرتی تاریک رات میں کالی آندھی اور ریت کا طوفان اللہ کا قہر بن کر نازل ہو گیا۔ اُن کے خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں، چراغ گُل ہو گئے۔ سامان ہوا میں اُڑ گیا، اونٹ اور گھوڑے رسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے۔ مشرکین کے چہرے خاک آلود، آنکھیں، ناک اور کان مٹّی سے بھر گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اسی رات کا انتظار تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ کوئی ہے، جو اس خوف ناک طوفان سے نبردآزما ہوتا ہوا مشرکین کی صفوں میں جائے اور اندر کا حال معلوم کر کے آئے؟‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس یخ بستہ موسم اور ریت کے طوفان میں خندق پار کر کے دشمنوں کی صفوں میں داخل ہونا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحابہؓ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ کھڑے ہوئے’’یارسول اللہؐ ! یہ کام مَیں انجام دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے محبّت بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا۔ شفقت سے اپنے پاس بلا کر ہدایات دیں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپا اور کفّار کی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ عجیب افراتفری کا عالم ہے، لوگ اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ابو سفیان خود بھی اپنے گھوڑے پر بیٹھا واپسی کا قصد کر رہا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آ کر حضور ؐ کو وہاں کی صُورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔ صبح فجر کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ میدان صاف ہو چُکا ہے اور مشرکین ناکام و نامُراد واپس لَوٹ چُکے ہیں۔
تعارف
حضرت حذیفہؓ کے والد، حسیلؓ بن جابر الیمانی کا تعلق، بنو غطفان کے عبس خاندان سے تھا۔ یہ خاندان، اپنی بہادری اور جواں مَردی کے لیے مشہور تھا۔ حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّہ میں ایک شخص کا قتل ہو گیا، چناں چہ وہ چُھپ کر مدینہ آ گئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ حاصل کر لی اور اُسی قبیلے کی ایک خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کر لیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ حسیلؓ بن جابر چوں کہ یمنی النّسل تھے، لہٰذا اہلِ مدینہ نے اُن کا نام یمان رکھ دیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گئے۔ جب رسول اللہؐ نے نبوّت کا اعلان کیا، تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد یمانؓ کے ساتھ مکہ آئے اور حضورؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ ؓکے والد قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی، چناں چہ اُنھوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا’’یارسول اللہؐ ! مَیں اپنے آپ کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ حضور اکرم ﷺنے فرمایا’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلائو یا انصار۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یارسول اللہؐ ! مَیں انصار کہلانا پسند کروں گا۔‘‘
سلسلۂ نسب، حلیہ
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حذیفہؓ بن حسیلؓ بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن یفیض بن زیت بن غطفان۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’ مدینے کے قبائل اوس و خزرج یمنی النّسل تھے، اس لیے حسیل کا نام اُن کی قوم نے یمان رکھ دیا۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت ، عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ میانے قد، چوڑے چکلے، مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ ماتھا چوڑا، سفید چمکیلے دانت، نگاہیں عقابی تھیں۔ دلائل کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرتے۔ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم اور درویش منش انسان تھے۔‘‘
صاحبِ سرِ رسول اللہ ﷺ
آپؓ کا ایک لقب ’’صاحبِ سرِ رسول اللہؐ ‘‘ ہے۔ یعنی پیغمبرِ اسلامؐ کے رازدار ۔ ابن عبدالبر’’ الاستیعاب‘‘ میں اس لقب کی وجۂ تسمیہ یہ لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہؐ نے اُن کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا اور آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیّت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں۔‘‘ رسول اکرمؐ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔
کاتبِ وحی
حضرت حذیفہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ چناں چہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو کاتبِ وحی کے منصب پر فائز فرمایا۔ آپؓ علم و فضل، قرآن و حدیث اور فقہ میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ آپؓ سے حدیث کی تعلیم حاصل کرتے۔ ابو عبیدالقاسم اپنی کتاب’’کتاب القراء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت حذیفہؓ عہدِ نبویؐ کے شروع کے حفّاظِ قرآن میں سے تھے۔ فتنوں سے متعلق آپ ؓکو کافی احادیث یاد تھیں۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ’’تم میں سے کس کو فتنوں سے متعلق رسول اللہؐ کی احادیث یاد ہیں؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے کہا ’’مجھے۔‘‘حضرت عُمرؓ نے فرمایا’’تم اس معاملے میں بڑے دلیر ہو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔ وہ بڑے بارُعب صحابی تھے، اُن کے شاگرد بلاوجہ اُن سے سوال نہیں کر سکتے تھے(بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرمایا کرتے تھے’’اے قاریعہ! (یعنی علماء) کی جماعت، استقامت اختیار کرو، کیوں کہ تم بہت پیچھے رہ گئے ہو، اگر تم دائیں بائیں اُتر جائو گے، تو گم راہ ہو جائو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔
غزوات میں شرکت
حضرت حذیفہؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوئے، لیکن راستے میں کفّار نے گرفتار کر لیا۔ ابوجہل نے اُن سے پوچھا’’کیا تم جنگ میں شرکت کے لیے بدر جا رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘ ابوجہل کی خواہش تھی کہ دونوں باپ بیٹے کو قتل کر دے، لیکن ایک مشرک سردار نے اُسے سمجھایا کہ’’اگر اُنہیں قتل کرو گے، تو عبس قبیلہ ہمارا دشمن ہو جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجہل نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اُن دونوں سے کہا’’تم یہ عہد کرو کہ بدر کی لڑائی میں محمّد(ﷺ)کا ساتھ نہیں دو گے، تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے جان بچانے کی غرض سے وعدہ کر لیا، مگر آزادی ملتے ہی دونوں بدر میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور اُنہیں واپس مدینہ بھیج دیا(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)۔ رحمت دوعالمؐ کے یہ تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک کے لیے معاہدوں کی پاس داری کا بین الاقوامی اصول وضع کر گئے۔
شہادت ہے معراجِ مردِ مومن
غزوۂ اُحد کے دن آنحضرتؐ نے حضرت یمان ؓبن جابر اور حضرت ثابت بن وقشؓ کو ضعیف العمری کی وجہ سے خواتین اور بچّوں کے ساتھ ایک اونچے ٹیلے پر محفوظ جگہ بٹھا دیا، مگر جب جنگ کا میدان گرم ہوا، تو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے خود پر قابو نہ رکھ سکے اور شہادت کے عظیم منصب کی خواہش دِل میں لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی تھی، لیکن جبل رماۃ پر متعیّن تیراندازوں کی ذرا سی کوتاہی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور میدانِ جنگ میں افراتفری مچ گئی۔ دوست اور دشمن کی شناخت مشکل ہو گئی، اس افراتفری میں حضرت حذیفہؓ کے والد شہید ہو گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہؐ نے اُن کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ ’’مَیں نے اُن کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔‘‘ اس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جنگِ نہاوند
حضرت عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع ہے۔ آپؓ نے پہلے خود جانے کا ارادہ کیا، لیکن صحابہ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرنؓ کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو نائب بنا کر روانہ کیا۔ یہ دونوں صحابیؓ 30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند کی جانب بڑ��ے، وہاں دونوں افواج میں گھمسان کا رَن پڑا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن اُن کے سپہ سالار، نعمان بن مقرنؓ شہید ہو گئے، جس پر حضرت حذیفہؓ لشکرِ اسلام کے سپہ سالار مقرّر ہوئے۔ اُنہوں نے نہاوند شہر پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے، مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا، جب کہ ہیرے جواہرات کا بکس حضرت فاروق اعظمؓ کو بھجوا دیا، تاہم اُنھوں نے حکم دیا کہ اُنہیں بھی فروخت کر کے رقم لشکر میں تقسیم کر دو، چناں چہ اُن جواہرات کو چار لاکھ درہم میں فروخت کر کے رقم تقسیم کر دی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں دینور اور ہمدان جیسے شہروں کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور فاتح کہلائے۔
حاکمِ شہر کی شانِ بے نیازی
امیرالمومنین ، حضرت عُمر فاروق ؓ نے آپؓ کو فوجی خدمات سے سبک دوش کر کے مدائن کا گورنر مقرّر کر دیا۔ گورنر کی حیثیت سے آپؓ کے مدائن میں داخلے کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ معزّزینِ شہر ہزاروں افراد کے ساتھ آپؓ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع ہیں، سب کی نظریں گورنر کی شاہانہ سواری کی منتظر ہیں۔ ایک شخص نہایت معمولی لباس زیبِ تن کیے ہوئے، ایک خچر پر سوار شہر میں داخل ہوا، کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر گزر گئی، تو فکر بڑھی اور پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟ حاکمِ شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟‘‘بتایا گیا کہ’’وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر معزّزینِ شہر سخت حیران ہوئے۔
شہنشاہی میں فقیری
جب تک مدائن میں قیام پزیر رہے، عجز و انکساری اور سادگی کی تصویر بنے رہے، کوئی بھی حاجت مند کسی بھی وقت گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔ گھر کی معمولی ضروریات کے خرچ کے علاوہ اپنی ساری تن خواہ غریب، غرباء میں تقسیم کر دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے پانی مانگا۔ ایک مجوسی نے سونے یا چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا۔ آپ ؓنے اس برتن کا پانی پھینک دیا اور فرمایا’’مَیں نے تم کو کئی بار منع کیا ہے، مَیں اس میں پانی نہیں پیتا، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ’’ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھائو اور نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔
سادگی مومن کی شان ہے
کچھ عرصے بعد امیرالمومنین، حضرت عمر فاروقؓ نے دربارِ خلافت میں طلب فرمایا۔ فاروق اعظمؓ کو تجسّس ہوا کہ دیکھیں، مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں۔ آپؓ شہرِ مدینہ آنے والے راستے میں کھجوروں کے ایک جھنڈ کے پیچھے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں اُنہیں دُور سے حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے۔ دیکھا کہ وہ جس حال میں مدینے سے گئے تھے، اس سے زیادہ خستہ حالی میں واپس ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبّت سے اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا ’’اے حذیفہؓ !تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘
خالقِ حقیقی سے جا ملے
موت کا وقت جب قریب آیا، تو آپؓ نے وصیّت فرمائی کہ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا، اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو مجھے وہاں جنّت کے کپڑے کے بہترین کفن سے نوازا جائے گا اور اگر وہاں پر میرے لیے بہتری نہیں ہے، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے امیری کے مقابلے میں فقیری کو چاہا ہے اور ہمیشہ موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد مدائن میں آپؓ نے وفات پائی (اسدالغابہ)۔
The post حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2yC5RDR via Urdu News
0 notes
imdocsam-blog · 7 years
Link
موسم سرما میں ہماری جلد کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرد اور خشک ہوائیں جلد کو کھردرا اور خشک بنا دیتی ہیں۔ کبھی کبھار حساس جلد پر یہ خشکی اس قدر ہوتی ہے کہ جلد کی سطح پر اس کی خشک تہہ سی ہوتی ہے جو جھڑنے لگتی ہے۔ نتیجتاً جلد پر خراشوں اور جھریاں بننے کا عمل تیزی سے بڑھنے لگتا ہے، جلد کی ایسی خراب اور حساس صورت حال میں کسی بھی قسم کا میک اپ کرنا غیر ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لیے میک اپ سے پہلے اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ جلد صحت مند ہو، تاکہ میک اپ کے بعد وہ اچھا تاثر قائم کرے۔ جلد کی حفاظت کے لیے چند ضروری اقدام کرلیے جائیں، تو سرد موسم میں جلد ہمیشہ تروتازہ اور نرم و ملائم رہ سکتی ہے۔
💄 سردیوں کا آغاز ہوتے ہی اپنی روزمرہ کلینزنگ کی روٹین کو تبدیل کرنا ازحد ضروری ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب آپ فومنگ جیل کے تیارکلینزنگ استعما ل کر رہی ہیں۔ ان کے بجائے milky اور کریم والے کلینزنگ سے چہرے کی روزانہ کلینزنگ کریں اور انہی کی مدد سے جلد پر آہستگی سے مالش بھی کریں۔ یہ عمل جلد کو نرم بنائے گا اور خشکی کو دور کرے گا اور پھر صاف پانی سے دھولیں۔ اس کے بعد کاٹن کے تولیے یا ٹشوپیپر کی مدد سے چہرہ خشک کر لیں۔
💄 کلینزنگ کے بعد اور میک اپ شروع کرنے سے قبل سب سے پہلے فاؤنڈیشن لگانا ضروری ہے۔ ٹھنڈے موسم کی مناسبت سے فاؤنڈیشن کی زیادہ مقدار لگائی جاتی ہے اور اس کا زیادہ بہتر طریقہ یہی ہے کہ اسے کسی اچھے اور معیاری موئسچرائزر کے ساتھ ملا کے لگایا جائے۔ اس طرح سے جلد میک اپ کے بعد کسی بھی وجہ سے خشک محسوس نہیں ہوگی۔ فاؤنڈیشن ہمیشہ اپنی ’اسکن ٹون‘ کو مد نظر رکھ کر ہی منتخب کیا کریں۔
💄 عام طور خواتین اس بات کا خیال کرتی ہیں کہ سن اسکرین بلاک یا سن کریم کا استعمال صرف گرمیوں میں ہی کیا جانا چاہیے، کیوں کہ گرمیوں میں سورج کی تپش اور حدت زیادہ ہوتی ہے، لیکن اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جس طرح گرم موسم میں سن اسکرین لگانا اہم ہے بالکل اسی طرح موسم سرما میں بھی یہ ضروری ہے۔ ایسے سن اسکرین جن میں spf 30 موجود ہوں استعمال کیے جانے چاہئیں اور اسے اپنے معمولات کا لازمی حصہ بنالیں کہ جب بھی دن کے اوقات میں گھر سے باہر جانا مقصود ہو تب سن اسکرین لگا لیا جائے۔
💄 یخ بستہ اور خشک ہواؤں سے جلد کو محفوظ رکھنے کے لیے موئسچرائزر کی مقدار میں اضافہ کرلیں اور اس کے ساتھ ساتھ جب گھر سے باہر جانا ہو تب چہرہ کو دوپٹے سے ڈھانپ لیں۔
💄 ٹھنڈے اور خشک موسم میں اکثر چہرے پر سرخی سی آجاتی ہے۔ یہ زیادہ تر گالوں، ناک اور تھوڑی پر ہوتی ہے۔ میک اپ سے قبل اسے دور کرنے کے لیے اس پر بغیررنگ کا کنسیلیر لگائیں۔
💄 جلد کو خشکی سے محفوط رکھنے کے لیے موئسچرئزانگ کریم سے بھرپور ماسک بہتر نتائج دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ نائٹ کریم کو رات میں دس سے پندرہ منٹ تک لگا کر رکھیں، اس کے بعد اضافی کریم کو ایک ٹشو پیپر کی مدد دے صاف کرلیں۔
💄 ٹھنڈے اور خشک موسم میں جلد کے ساتھ ساتھ ہونٹ بھی بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ یہ موسم انہیں خراب کر دیتا ہے۔ ان پر لکیریں پڑنے لگتی ہیں اور خشک ہونے کی وجہ سے ہونٹ پھٹنے لگتے ہیں، کبھی کبھار صورت حال اس حد تک خراب ہو جاتی ہے کہ ان میں سے خون بھی رسنے لگتا ہے اس تکلیف دہ صورت حال سے بچنے کے لیے ان پر ہمہ وقت لپ بام لگائیں اس لپ میں بام سن اسکرین کی خوبی بھی موجود ہونی لازمی ہے عام طور پر استعمال کی جانے والی کلرز لپ اسٹک کو اس موسم میں زیادہ دیر تک لگائے رکھنے کا مطلب ہونٹوں کو مزید خشک کرنا ہوتا ہے ۔
💄 سرد موسم میں میک اپ کے لیے آ پ کے رنگوں کا انتخاب کھلتا ہو ا ہونا چاہیے، جیسے کہ رائل بلو، شوخ جامنی، ہلکا سرخ اور سبزاور فیروزی رنگ شامل ہیں۔ قدرتی رنگ جیسے سیاہ، گہرا سرمئی اور نیلے رنگ کو سفید رنگ کے امتزاج کے ساتھ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
💄 لپ اسٹک کے لیے سرد موسم میں لپ گلوس یا لپ بام کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس کے لیے بغیر رنگ کے لپ گلوس یا پھر ہلکے گلابی رنگ کے گلوس بہترین ثابت ہو سکتے ہیں۔ کلرز لپ اسٹک میں میرون اور سرخ سردیوں کے رنگ شمار کیے جاتے ہیں۔
💄 آنکھوں کے میک اپ میں شیڈ کے لیے بنیادی رنگوں میں سلور، بھورا، سرمئی اور سنہرا بہتر رہتے ہیں۔ لائنر کے لیے ہلکا یا گہرا سرمئی یا کاربن رنگ بہترین انتخاب ثابت ہوتے ہیں۔
0 notes