Tumgik
#وفاقی وزیر آئی ٹی
googlynewstv · 16 days
Text
عمران خان کو ارشد شریف قتل کا پہلے سے علم تھا: واوڈا
سابق وفاقی وزیر و سینیٹر فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا ہے کہ صحافی ارشد شریف کے قتل کا پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کو پہلے سے علم ہو چکا تھا، انہیں یہ بھی پتا تھا کہ اس قتل میں مراد سعید اور فیض حمید کا کیا کردار ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا کا کہنا تھاکہ علی امین کے بیان کے بعد اب پی ٹی آئی کے پاس راہ فرار نہیں، 9 مئی انہوں نے ہی کیا ہے یہی مائنڈ سیٹ ہے،…
0 notes
meta-bloggerz · 2 months
Text
حکومت کا پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا اعلان ، حکومت کا عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری پر آرٹیکل 6 لگانے کا بھی فیصلہ“وفاقی حکومت تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے لیے کیس دائر کرے گی, پاکستان تحریک انصاف اور ملک ایک ساتھ نہیں چل سکتے، پی ٹی آئی پر پابندی لگانے جارہے ہیں۔”ن لیگی وزیر عطا تارڑ کا پریس کانفرنس میں اعلان
0 notes
emergingpakistan · 6 months
Text
سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی اہلیت
Tumblr media
سینئر سیاسی رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ملکی مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے، انھیں علم ہی نہیں ہے کہ ملکی مسائل کا حل کیا ہے۔ سینئر سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ سیاستدان صرف اپنے لیے نہیں بلکہ قوم کے بچوں کے لیے آگے آئیں اور ان کے بہتر مستقبل کا سوچیں۔ الیکشن میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، اس لیے انتخابی نتائج تسلیم کریں۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی مختلف حکومتوں کی مدت تین آمرانہ حکومتوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ 16 برس سے ملک آمریت سے محفوظ ہے۔ 2008 کے الیکشن کے بعد سے ملک میں تین جماعتوں کے وزرائے اعظم نے ہی حکومت کی ہے مگر تینوں پارٹیوں کے منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکے البتہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں اور تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طور پر ہٹایا گیا، یوں اسمبلیاں برقرار رہیں اور پانچوں قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار سے محرومی کے بعد پہلے قومی اسمبلی سے اپنے ارکان کے استعفے دلائے اور بعد میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں قبل از وقت تڑوا کر اپنے وزرائے اعلیٰ کو بھی اقتدار میں نہیں رہنے دیا اور اپنی ضد اور انا کی خاطر اپنی اچھی بھلی دو صوبائی حکومتیں اس لیے ختم کرائیں کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن قبل ازوقت جنرل الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائے لیکن عمران خان کی یہ خواہش ناتمام ہی رہی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو عدالتی فیصلوں نے مدت پوری نہیں کرنے دی تھی اور دونوں کو نااہل کیا تھا۔ نااہلی کے دونوں عدالتی فیصلوں سے قبل 1999 تک فوجی جنرلوں اور 58/2-B کے اختیار کے حامل سویلین صدور نے وزرائے اعظم برطرف کیے اور اسمبلیاں ختم کیں اور 1985 سے 1999 تک کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی۔ 1999 میں نواز شریف کو برطرف کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے حکم پر ملک میں 2002 میں الیکشن کرایا اور 2007 تک تمام اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا اور اپنی بنائی گئی مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں ظفر اللہ جمالی کو ضرور تبدیل کیا اور غیر سیاسی وزیر اعظم شوکت عزیز کے ذریعے حکومت کے 5 سال مکمل کرائے تھے اور یہ واحد فوجی جنرل تھے جنھوں نے اسمبلیوں کی مدت پوری کرائی اور خود کو وردی میں صدر منتخب کرایا اور بعد میں صدر رہ کر فوجی وردی اتار دی تھی۔ 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے اقتدار کے گیارہ برسوں میں ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کرائیں اور دو دو باریاں لیں اور دونوں ہی حکومتیں خود ان کے منتخب صدور نے ختم کیں اور فوجی مداخلت 1999 میں ہوئی جس کے بعد سے فوج نے برائے راست کوئی مداخلت نہیں کی مگر 2018 تک تمام حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے قائم ہوئیں اور پی ٹی آئی حکومت بنوائی گئی۔
Tumblr media
2018 میں پہلی بار پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی جو اس کے وزیر اعظم کے غیر جمہوری رویے، من مانیوں اور انتقامی کارروائیوں کے باعث تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہو گئی جس کو برطرف وزیر اعظم نے غلط رنگ دیا۔ کبھی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا، کبھی جنرل قمر جاوید باجوہ کو ذمے دار قرار دیا اور میر صادق، میر جعفر اور جانور تک کا طعنہ دیا گیا۔ اپنی آئینی برطرفی کے بعد انھیں جمہوری طور اسمبلیوں میں رہنا چاہیے تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی خوشامد نہیں کرنی چاہیے تھی کہ وہ انھیں دوبارہ وزیر اعظم بنوا دیں، جنرل صاحب نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا بھی کہا تھا مگر اپوزیشن نہیں مانی تھی کیونکہ اس کی تحریک عدم اعتماد آئینی تھی جو پہلی بار کامیاب ہوئی تھی۔ سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ فوج غیر جانبدار رہے، آئین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کسی وزیر اعظم کولائے نہ ہٹائے ، یہ درست ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ذمے دار تو خود سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ 1970 تک ملک میں جو ہوتا رہا اس کے ذمے دار سیاسی رہنما اور ان کی اپنی پارٹیاں تھیں جنھوں نے جنرل ایوب کو باعزت واپسی کا راستہ نہیں دیا۔
1977 میں بھٹو حکومت میں انتخابی دھاندلی کے بعد ملک گیر تحریک چلی۔ وزیر اعظم بھٹو کی وجہ سے مارشل لا لگا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کی حکومت ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ نواز شریف اگر جنرل پرویز مشرف کو غلط طور نہ ہٹاتے، پی ٹی آئی وزیر اعظم اگر پی پی اور (ن) لیگ کو ساتھ لے کر چلتے تو آج تنہا نہ ہوتے۔ سیاستدانوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ ہوتا، پی ٹی آئی دوسری جماعتوں سے مل کر مسائل کا حل تلاش کرتی اور اس کے چیئرمین نئی نسل کو بگاڑنے کے بجائے ملک کے بچوں کا سوچتے تو آج جیل میں نہ ہوتے۔ دوسروں کو چور، ڈاکو قرار نہ دیتے تو سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ملک کے مفاد اور مسائل کے حل پر آپس میں متحد ہو جاتیں تو ملک میں سیاسی استحکام ہوتا، پی پی اور (ن) لیگ کی طرح پی ٹی آئی نے اقتدار کے بجائے ملک کا سوچا ہوتا تو آج ملک میں سیاسی دشمنی اور انتشار نہ ہوتا۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
حماد اظہر الیکشن سے دستبردار، سپریم کورٹ سے اپیل واپس لے لی
پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر الیکشن سے دستبردار ہو گئے،کاغذات نامزدگی مسترد کئے جانے کے خلاف سپریم کورٹ سے اپیل واپس لے لی۔ سپریم کورٹ میں سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کے کاغذات نامزدگی کیس کی سماعت ہوئی۔ معاون وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حماد اظہر اپیل کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں 62 ون ایف کا حوالہ کیوں دیا ہے؟سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح ہے کہ آرٹیکل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
نقصان دہ فیصلوں کے ذمے دار محفوظ کیوں؟
Tumblr media
نگران وفاقی حکومت نے قومی ایئر لائن پی آئی اے کی نج کاری کا عمل جنگی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ہدایت اور ادارے کو مزید فنڈز کی فراہمی سے انکار کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں پی آئی اے کو درپیش مالی بحران پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ قومی ایئر لائن کے آپریشن کو بحال رکھنے کے لیے فنڈز کی اشد ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ آپریشنل پی آئی اے سالوں سے مسلسل خسارے کے باعث تباہی کے کنارے پہنچ چکی ہے اور بند ہونے کے قریب ہے۔ پی آئی اے اور دیگر قومی ادارے سالوں سے خسارے میں جا رہے ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز سالوں سے بند رہ کر تباہ ہو چکی ہے جس کی قیمتی مشینری و دیگر سامان مسلسل چوری ہو رہا ہے اور وفاقی حکومت بند اسٹیل ملز کے ملازمین کو قومی خزانے سے تنخواہیں بھی ادا کر رہی ہے اور پی آئی اے، ریلوے و دیگر خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کو فنڈز بھی فراہم کر رہی ہے اور خسارے میں جانے یا بند سرکاری ادارے سفید ہاتھی بنے ہوئے حکومت اور قومی خزانے پر مسلسل بوجھ ہیں اور عالمی مالی اداروں سے مسلسل قرضے لے کر ان اداروں کے ملازمین کو پالنے والے ملک پاکستان کو اب اس کے ہمدرد دوست ملک بھی قرضے دے کر تنگ آ چکے ہیں اور سوٹ پہن کر بادشاہوں کی طرح قرضے مانگنے کے عادی ہمارے حکمرانوں کو بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ قرضے لینا بند کریں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔
قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھانے والے ہمارے حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا اور اب تو آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے کے لیے حکمرانوں کو ان کے پیروں میں پڑنا پڑا۔ رسوائی کے بعد جو قرض ملا وہ سخت شرائط پر ملا اور حکمرانوں نے اپنے ہی عوام کو سولی پر چڑھا دیا اور آئی ایم ایف کی شرائط مان کر مہنگائی اور بے روزگاری کا ریکارڈ قائم کر دیا۔ سیاسی حکمرانوں نے تو اپنے سیاسی مفاد کے لیے ملک کے سفید ہاتھیوں کو پالنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا مگر اب پہلی بار نگران حکومت نے پی آئی اے کو مزید پالنے سے انکار کر دیا ہے اور خسارے میں جانے والی قومی ایئرلائن کی نجکاری جلد مکمل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ قومی ادارے اسٹیل ملز کی نجکاری سالوں قبل نہیں ہونے دی گئی جس کے باعث ملز بند ہوئی مگر اس کے ملازمین برقرار ہیں اور ماضی کی ہر حکومت نے پی آئی اے کی طرح اسٹیل مل میں بھی ضرورت سے زیادہ اپنے حامیوں کو بھرتی کیا تھا جن کی تنخواہوں کا بوجھ ان دونوں قومی اداروں پر بڑھا اور کرپشن نے باقی کسر پوری کردی تھی۔
Tumblr media
قومی اداروں میں اپنے حامیوں کو بھر کر نوازنے کے عمل میں ہر حکومت شریک رہی ہے اور ان کے خسارے پورے کرنے کے لیے فنڈز دیتی رہی مگر کبھی خسارے ختم کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ ان قومی اداروں میں کرپشن ہی عروج پر نہیں بلکہ وہاں کے ملازمین کی لیبر انجمنیں بھی پاور فل رہیں جن کے عہدیدار مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے تھے ان عہدیداروں نے بھی ملک اور اداروں کے مفاد کے بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو ترجیح دی جس کے نتیجے میں اسٹیل مل سالوں سے بند اور اب پی آئی اے کے بارے میں ایسی باتیں کی جا رہی ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اپنے غیر ذمے دارانہ بیانات اور فیصلوں سے قومی ایئرلائن کو دنیا میں بدنام کرایا جس سے کئی ملکوں میں پی آئی اے کی پروازیں بند ہوئیں اور خود ملک کے لوگوں نے اپنی قومی ایئرلائن کو غیر محفوظ سمجھ کر سفر کرنا چھوڑ دیا تھا اور وہ دیگر ایئرلائنز کے جہازوں میں سفر کرتے تھے۔ ملک میں نجی ایئرلائنز نے فروغ پایا اور قومی ایئر اس مقام پر پہنچ گئی کہ جسے اب نگران حکومت بھی مزید فنڈز فراہم کرنے سے انکار کر چکی ہے اور اس کی نجکاری کی جا رہی ہے۔
2008 سے 2013 تک پی پی حکومت کے وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے پاکستان ریلوے کو اپنے فیصلوں سے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا جس کو بعد میں (ن) لیگی حکومت نے مشکل سے سنبھالا تھا اور ریلوے کرایوں میں مسلسل اضافوں کے باوجود پاکستان ریلوے اب بھی خسارے میں چل رہی ہے اور سفید ہاتھی بنی ہوئی ہے۔ (ق) لیگ کے وزیر ریلوے شمیم حیدر نے بتایا تھا کہ ان سے پہلے کے وزیر ریلوے نے اپنے علاقے کے 8 ہزار سے زائد لوگ ریلوے میں بھرتی کیے تھے اور میں اب کسی کو مزید بھرتی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ وزیر ریلوے غلام احمد بلور ہوں یا وزیر ہوا بازی غلام سرور خان اور دیگر وزرا اپنے اپنے دور میں ضرورت سے زیادہ بھرتیاں کر کے ہر کسی نے قومی اداروں کو تباہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا مگر کبھی ان کی سرزنش تک نہیں ہوئی۔ عدالتی اور وزارتی فیصلوں نے ہر سرکاری ادارے کو سفید ہاتھی بنایا اور کرپشن روکنے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ ایم کیو ایم کے وزیر شپنگ ہوں یا پی ٹی آئی، (ن) لیگ، پیپلز پارٹی ہر کسی نے محکمہ جہاز رانی میں اپنے لوگ بھرتی کیے۔
عدالت عظمیٰ واحد ادارہ ہے جہاں ماضی میں میرٹ پر ججوں کا تقرر ہوا مگر بعد میں سینئر ججوں کو نظرانداز کرنے پر سوالات اٹھائے گئے۔ اٹھارہویں ترمیم میں فیصلہ ہوا تھا کہ آیندہ ہر حکومت 11 فیصد کے حساب سے کابینہ بنائے گی مگر عمل نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت میں باہر سے دوستوں کو بلا کر حکومت میں شامل کیا گیا تھا تو اگست میں جانے والی اتحادی حکومت میں سب سے بڑی کابینہ کا ریکارڈ قائم ہوا۔ ہر پارٹی نے اپنے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کابینہ میں شامل کرایا۔ ایک سابق رکن پنجاب اسمبلی کے مطابق آئی ایم ایف سے جو پہلی قسط ملی اس میں ہر سابق رکن قومی اسمبلی کو الیکشن کے لیے ایک ایک ارب روپے کا فنڈ دیا گیا۔ سندھ میں 15 سال حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی نے ہر محکمے میں جیالے بھرتی کیے۔ ترقیاتی کاموں کی بندربانٹ کی، پنجاب کی حکومت نگران ہونے کے باوجود ججوں کو بلاسود قرضے دے رہی ہے اور اسسٹنٹ کمشنروں کو مہنگی گاڑیاں دے رہی ہے کسی کو ملک کے غریبوں کا احساس نہیں ہوا۔ ملک میں اپنے غلط فیصلوں سے نقصان پہنچانے والوں کو اگر سزا ملتی یا نقصان ان سے وصول کیا جاتا تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
shiningpakistan · 1 year
Text
قابل اعتماد اور عوام ��وست رہنما ہے کون؟
Tumblr media
رواں برس پنجاب اور خیبرپختون خوا میں دو نئی ��ارٹیوں کے قیام کے بعد ایک نئی قومی سطح کی پارٹی کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی تو یہ خواہش ہے کہ نئی پارٹی ایسی ہو جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اقتدارکی خواہاں اور اپنے طور پر اقتدار کے حصول کے قابل ہو، جس پر عوام بھی اعتماد کر سکیں۔ نئی پارٹی کے قیام کے لیے سب سے اہم بات وہ شخصیت ہو جس کی سربراہی میں پارٹی وجود میں آئے۔ اب تک ملک میں اہم شخصیات نے پارٹیاں بنائیں نہ برسر اقتدار بالاتروں کی خواہش پر پارٹیاں بنائی گئیں اور تین آمر سربراہوں، ایوب خان دور میں مسلم لیگ کنونشن، جنرل ضیا دور میں پاکستان مسلم لیگ اور جنرل پرویز مشرف دور میں مسلم لیگ قائد اعظم بنائی گئی تھیں۔ تینوں کے نام مسلم لیگ پر تھے۔ مسلم لیگ کنونشن جنرل ایوب دور ہی میں ختم ہو گئی تھی جس کے بعد مسلم لیگ کے تین بڑے گروپ جونیجو، نواز اور چٹھہ میں تقسیم ہوئے اور صرف مسلم لیگ (ن) ہی کی شناخت باقی ہے۔ مسلم لیگ (ق) چند علاقوں تک محدود ہے جس کے سربراہ چوہدری شجاعت طویل عرصے سے بیمار ہیں جس سے پرویز الٰہی گروپ الگ ہو کر پی ٹی آئی میں جا چکا ہے جو 9 مئی کے بعد تین حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔
پیپلز پارٹی بغیر گروپنگ آصف زرداری اور بلاول بھٹوکی سربراہی میں قائم ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے (ش) نکالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی قیادت میں متحد ہے اور یہ تینوں پارٹیاں وفاقی اقتدار میں رہ چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور کچھ قیادت قید ہے اور اس کے برطرف کیے گئے وزیر اعظم کو ابھی بے شمار مقدمات کا سامنا ہے اور خوش فہمی کے شکار اس کے رہنماؤں کو امید ہے کہ قید چیئرمین کے باوجود پی ٹی آئی بھی 2018 کے قید نواز شریف کی طرح اپنی مقبولیت کے باعث پی ٹی آئی کو کامیابی دلا دیں گے مگر وہ یہ بھول گئے کہ نواز شریف پر بنائے گئے مقدمات کمزور تھے اور بالاتروں کی حمایت بھی انھیں حاصل نہیں تھی جب کہ قید چیئرمین پی ٹی آئی پر بعض مقدمات درست بھی ہیں اور بعض سنگین بھی اور انھیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر سزا نہیں ہوئی بلکہ بعض مقدمات انھیں سالوں قید میں رکھیں گے۔ قید چیئرمین کی پارٹی جس طرح بنوائی گئی تھی ویسے ہی وہ بکھر چکی۔ آیندہ انتخابات 1970 جیسے نہیں ہوں گے کہ بھٹو صاحب کے ٹکٹ پر کھمبا بھی جیت سکتا ہے مگر اس وقت بھٹو صاحب آزاد تھے اور صرف مغربی پاکستان کے دو صوبوں میں اکثریت لے سکے تھے۔
Tumblr media
چیئرمین پی ٹی آئی نہ صرف قید بلکہ سیاسی طور پر تنہا ہیں۔ ان کی پارٹی پر مال لگانے والے اپنی پارٹی بنا چکے۔ چیئرمین پی ٹی آئی دوسروں کے مال پر سیاست کے عادی رہے ہیں اور جو مال ان کے پاس ہے وہ اب ان کے مقدمات پر خرچ ہو رہا ہے اور انھیں مہنگے مہنگے وکیلوں کی خدمات معاوضے پر حاصل کرنا پڑ رہی ہیں اور اب صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی کروڑوں روپے خرچ کرنے پر ہی جیتا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی باریوں کے بعد پونے چار سال پی ٹی آئی کی حکومت بھی آزمائی جا چکی اور مختلف پارٹیوں میں موجود جو نمایاں چہرے ہیں وہ سب ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور ماضی سے حکمران رہنے والوں نے الیکشن میں جو وعدے کیے، پارٹی منشور دیے ان میں چیئرمین پی ٹی آئی واحد وزیر اعظم تھے جنھوں نے عوام سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ پی پی کہہ سکتی ہے کہ اس نے لوگوں کو روزگار دیا، (ن) لیگ کہہ سکتی ہے کہ اس نے 2018 تک ملک کو اندھیروں سے نکال کر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ پورا کیا تھا مگر پی ٹی آئی کے پاس صرف مظلومیت کی دہائی کے سوا کچھ نہیں ہو گا اور نواز شریف بھی کہیں گے کہ ان کی تینوں حکومتیں اچھی کارکردگی کے باوجود ختم کی گئیں اور انھیں ناحق قید رکھا گیا تھا۔
مسلم لیگ ن کے اس موقف میں کسی حد تک وزن بھی موجود ہے کیونکہ عوام نے دیکھا ہے کہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ تقریباً ختم ہو گئی تھی‘ اس کے علاوہ ملک کی کاروباری صورتحال بھی خاصی بہتر تھی‘ مڈل کلاس طبقے کے لیے اتنی مشکلات پیدا نہیں ہوئی تھیں جتنی کہ آج یہ طبقہ برداشت کر رہا ہے۔ تعمیراتی کام بھی زیادہ ہو رہے تھے جس کا اثر بھی معاشی سرگرمیوں میں تیزی آنے کا سبب بنا۔ عوام مہنگائی کے جس عذاب میں مبتلا ہیں اس کی ذمے دار تینوں سابق حکمران جماعتیں ہیں اور ان پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں اور تینوں کی قیادت نے جیلیں بھی بھگتی ہیں اور خود کو بھی مالی طور پر مستحکم کیا ہے۔ عوام مہنگائی، کرپشن اور سابق حکمرانوں کی کارکردگی سے مایوس ہو کر کسی نئی پارٹی کے منتظر نہیں بلکہ اسی جان لیوا مہنگائی سے چھٹکارا چاہتے اور تینوں بڑی پارٹیوں کو آزما چکے اور پرانے حکمرانوں سمیت اب کسی نئی پارٹی کے نئے دعوؤں میں آنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان کا مسئلہ کسی پارٹی کا اقتدار نہیں بلکہ انھیں درپیش مالی مسائل ہیں۔
ملک میں اب کوئی ایسی قومی شخصیت موجود نہیں جس کی قیادت میں نئی پارٹی بن سکے۔ نئی پارٹی کے خواہش مندوں میں کوئی بھی قومی اہمیت کا حامل نہیں۔ مفتاح اسمٰعیل نے اپنی وزارت میں عوام کو نظر انداز کیا۔ ہنس ہنس کر پٹرول بڑھاتے اور عوام پر ٹیکس نہ دینے کا الزام لگاتے رہے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کبھی صوبائی الیکشن تک نہیں لڑا۔ ملک میں چینی کی مہنگائی کا ذمے دار بعض سیاستدانوں کو سمجھا جاتا ہے اور ان کی پارٹی میں وہ تمام لوگ ہیں جو پی ٹی آئی میں تھے اور پنجاب تک محدود ہیں۔ پرویز خٹک کی سیاست کے پی کے چند اضلاع تک محدود ہے اور یہ سب چیئرمین پی ٹی آئی کے وفادار اور ان کے اشاروں پر چلا کرتے تھے انھیں اب عوام کا خیال آیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا جہاں تک معاملہ ہے تو یاد رکھیں کہ نئی پارٹی کثیر سرمائے کے بغیر بن نہیں سکتی اور اب الیکشن کروڑوں کا کھیل بن چکے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں میں کوئی ایک بھی عوام دوست ثابت نہیں ہوا سب کے دعوے جھوٹے تھے۔ ہر پارٹی نے عوام کو مایوس کیا کوئی ایک رہنما قومی لیڈر ہے، نہ عوام میں مقبول تو نئی پارٹی کون بنائے گا؟
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
osarothomprince · 1 year
Text
سعد رفیق اور ایاز صادق، پرویز خٹک کے گھر پہنچ گئے،گفتگو کی تفصیل سامنے آ گئی
پی این آئی کے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں ۔ لاہور (پی این آئی) مسلم ن کے سینئر رہنما اور وفاقی وزراء خواجہ سعد رفیق اور ایاز صادق ڈیفنس لاہور میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کی رہائش گاہ پہنچ گئے اور ان کی اہلیہ کے انتقال پر…سعد رفیق اور ایاز صادق، پرویز خٹک کے گھر پہنچ گئے،گفتگو کی تفصیل سامنے آ گئی
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
762175 · 2 years
Text
پاکستان امریکہ کے ساتھ زراعت، آئی ٹی میں پیش رفت کا خواہاں
وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر نے کہا ہے کہ پاکستان، امریکہ کے ساتھ زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پیش رفت کا خواہاں ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کی باڈی کا گذشتہ سات برسوں میں پہلا وزارتی اجلاس جمعرات (23 فروری) کو ہوگا۔ وفاقی وزیر سید نوید قمر جمعرات کو پاکستان امریکہ تجارتی اور سرمایہ کاری فریم ورک معاہدے (ٹیفا) کے تحت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
پاکستان امریکہ کے ساتھ زراعت، آئی ٹی میں پیش رفت کا خواہاں
وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر نے کہا ہے کہ پاکستان، امریکہ کے ساتھ زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پیش رفت کا خواہاں ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کی باڈی کا گذشتہ سات برسوں میں پہلا وزارتی اجلاس جمعرات (23 فروری) کو ہوگا۔ وفاقی وزیر سید نوید قمر جمعرات کو پاکستان امریکہ تجارتی اور سرمایہ کاری فریم ورک معاہدے (ٹیفا) کے تحت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 1 month
Text
جلسہ نہیں ہوا،علی امین گنڈاپور سیاست چھوڑنے کاوعدہ پورا کریں،امیرمقام
وفاقی وزیر امیرمقام نے کہا کہ علی امین گنڈا پور نے گزشتہ روز کہا تھا کہ اسلام آباد میں جلسہ نہ کیا تو سیاست چھوڑ دوں گا، اب وہ اپنا وعدہ پورا کریں۔  وفاقی وزیر سیفران انجینئر امیر مقام کا پی ٹی آئی جلسے کی منسوخی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورکیجانب سے پیسے بانٹنے کی ویڈیو کے ردعمل میں کہنا تھا کہ وزیراعلی علی امین گنڈا پور کے پاس پی ٹی آئی ورکروں کو دینے کے لئے پیسے ہیں…
0 notes
meta-bloggerz · 3 months
Text
شیر افضل مروت ڈرائیور لیول کے ہیں، حادثاتی طور پر لیڈر بن گئے: فواد چوہدری
شیر افضل مروت اور فواد چوہدری—فائل فوٹو سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا شیر افضل مروت کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہنا ہے کہ یہ ڈرائیور لیول کے لوگ ہیں، حادثاتی طور پر لیڈر بن گئے، ان کا سیاست میں کردار ہی کیا ہے؟ جاری کیے گئے بیان میں انہوں نے سوال کیا ہے کہ حادثاتی طور پر جیتنے والوں نے سیاست میں کیا حصہ ڈالا ہے؟ سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے مشورہ دیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بانیٔ پی ٹی آئی سے…
0 notes
emergingpakistan · 10 months
Text
قرضوں میں جکڑا ہوا ملک اور ہمارے حکمران
Tumblr media
ہمارا ملک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے بھاری قرضوں اور سود کی ادائیگی میں جکڑا ہوا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی خبروں کے بارے میں تحقیق کے مطابق اب تک قرضہ 62 ہزار 880 ارب روپے ہو گیا ہے۔ رپورٹ بھی آئی ایم ایف کو پیش کر دی گئی ہے۔ ملکی قرضہ 38 ہزار 809 ارب جب کہ غیر ملکی قرض 24 ہزار 71 ارب ہو گیا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں 13 ہزار 638 ارب اضافہ ہوا ہے جب کہ قرض پر سود کا حجم 3 ہزار 182 ارب سے بڑھ کر 5 ہزار 671 ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے ذمے 72 ارب ڈالر واجب ہے۔ اس دوران پاکستان کی کرنسی کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 204.4 سے گر کر 286.4 روپے تک ہو گئی ہے۔ وزارت خزانہ کے ڈائریکٹوریٹ جنرل ڈیٹ کی جانب سے تیارکردہ رپورٹ میں آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں ملکی قرض 7 ہزار 724 ارب روپے بڑھ کر 31 ہزار 685 ارب سے 38 ہزار 809 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ غیر ملکی قرض 5 ہزار 914 ارب سے بڑھ کر 18 ہزار 157 ارب سے 24 ہزار 71 ارب روپے ہو گیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں ملکی قرضہ جی ڈی پی کے 46.7 فی صد سے بڑھ کر 45.8 فیصد تک پہنچا ہے اور غیر ملکی قرض 27.3 فی صد سے بڑھ کر 28.4 فی صد پہنچا ہے، ملک پر واجب الادا قرض پر سود کی ادائیگی 3 ہزار 182 ارب سے بڑھ کر 5 ہزار 671 ارب ڈالر تک آگئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری اداروں کے لیے ریاستی گارنٹی پر لگائے گئے قرض کا حجم 14 ارب 60 کروڑ ڈالر تک ہے۔ آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض 37 ارب 91 کروڑ ڈالر اور دیگر ملکوں کا قرض 17 ارب 57 کروڑ ڈالر تک آگیا ہے جب کہ پنجاب کے لیے 5 ارب 95 کروڑ ڈالر، سندھ کے لیے 3 ارب 12 کروڑ ڈالر، کے پی کے لیے 2 ارب 5 کروڑ ڈالر، بلوچستان کے لیے 30 کروڑ ڈالر، گلگت بلتستان کے ذمے 5 کروڑ 93 لاکھ اور وفاقی حکومت کے ملکی قرضے کا حجم 72 ارب 34 کروڑ ڈالر۔ اس کا پریس کلب کا قرض ایک گورکھ دھندا جاری ہے۔ دوسری طرف ہمارے حکمران مرکزی ہوں یا صوبائی، سینیٹ چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین سابق ہوں یا موجودہ وزیر ہوں، سفیر ہوں، مشیر ہوں یا پھر اشرافیہ سب ہی مراعات یافتہ ہیں۔ ان کی تنخواہیں یا پھر الاؤنسز سب کچھ مفت ہے۔ پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس، اسپتال اور میڈیکل کی مفت سپلائی ساتھ بھی ملازمین کی بھاری تعداد بڑی گاڑیاں بڑے بڑے بنگلے مفت کی پروٹوکول سب کچھ فری اور مفت میں مل رہا ہے۔ بڑی بڑی جاگیریں ہیں زمینوں پر کاشت کاری سے لے کر شوگر مل مالکان، فیکٹری مالکان، بینکوں اور انشورنس کمپنی کے مالکان، دواؤں کی فیکٹریاں، بڑے شاپنگ مالزکے مالکان، شادی ہالوں کے مالکان، ہوائی جہاز اور فوکر طیاروں کے مالکان، بڑی بڑی گدی کے پیر اورسب ہی بلکہ ہمارے ملک اور صوبوں کے مالکان کہاں تک لکھوں بلکہ ہماری غربت، جہالت، بیماری اور اسپتالوں کے مالکان۔ 
Tumblr media
اب تو ملک کے ہوائی اڈے فروخت ہو رہے ہیں۔ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل اور ہمارے ہائی ویز بھی گروی رکھ دیے گئے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کی کم ازکم تنخواہ جو کہ آپ کے اعلان کے مطابق 32 ہزار مقرر کی گئی کم ازکم اس پر تو عمل درآمد کرا دو۔ تمام ٹی ایل اے اور کچے ملازمین کو مستقل ملازمت دے دو سیلاب زدگان کے گھر تو بنا دو۔ تعلیمی ادارے ہی ٹھیک کر دو، اپنے اسپتالوں میں دوائیں تو دے دو۔ ایک ایک گھر تو انھیں دے دو۔ ملک کو بنے ہوئے 76 سال ہو گئے ہیں۔ 50 سال پہلے تو ایسا پاکستان نہیں تھا۔ اتنی غربت اتنی بھوک اور اتنی لوٹ مار اور کرپشن تو نہ تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان شہید تو ایسے نہیں تھے، ان کی اتنی جائیدادیں تو نہیں تھیں اتنی رشوت اور کرپشن تو نہیں تھی۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے پاس اسلام آباد میں کوئی رہائشی پلاٹ تو نہیں تھا، صرف پاکستان کی قومی اسمبلی کی بنیاد ہی اسلام آباد میں رکھی تھی، بس کراچی میں ایک 70 کلفٹن کا بنگلہ تھا یا پھر گڑھی خدا بخش میں اپنی پہلی بیوی کی زمینیں ورثے میں ملی تھیں۔ خیر اب تو ایک طرف جاتی عمرہ رائے ونڈ ہے اور دوسری طرف بلاول ہاؤسز ہیں۔
بے چارے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک بلوچ کے پاس شاید اتنی جائیداد نہ ہو۔ خیر اب تو ایم کیو ایم سے لے کر پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کے پاس ایم این اے اور ایم پی اے بڑے مالدار ہیں لیکن غریب ہاری، کسان اور مزدور کو تو کوئی اسمبلی کا ٹکٹ بھی نہیں دیتا۔ وہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ سوشل ازم کا نعرہ طاقت کا سرچشمہ عوام اور اسلام ہمارا دین ہو گا، کیا ہوا؟ آج اسرائیل نے 11 ہزار فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی پر گولیاں اور بم برسا کر تباہ اور برباد کر کے رکھ دیا ہے، یورپ سمیت دنیا بھر کے عوام سڑکوں پر نکل کر اسرائیل کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں، خود بعض یہودی بھی اس کی مذمت کر رہے ہیں مگر ہمارے 57 اسلامی ممالک کے سربراہ اور ڈھائی ارب مسلمان کیا کر رہے ہیں؟  ہمارے جیسے دکھی انسان خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں اب چار ایشوز پر ٹی وی اور اخبارات میں خبریں آ رہی ہیں، الیکشن 8 فروری کو ہو گا جلسے جلوس جاری ہیں۔ 
ملک بھر میں ورلڈ کرکٹ کا زور شور جاری ہے۔ کراچی، سکھر، لاہور، اسلام آباد میں ہسٹری فیسٹیول ہو رہے ہیں، گانے بجانے اور قوالیاں ہو رہی ہیں، قانون کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں کچھ اچھے فیصلے ہو رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن الیکشن کرانے کے انتظامات میں لگا ہوا ہے۔ خیر شکر ہے کہ الیکشن کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ملک میں شفاف الیکشن کرا کے منتخب نمایندوں کے حوالے کیا جائے گا اور تمام سیاسی جماعتوں جن میں تحریک انصاف بھی شامل ہو، الیکشن لڑنے کا اختیار دیا جائے تو ہی اس الیکشن میں مزہ آئے گا۔ ہمیں امید ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا جلد خاتمہ ہو سکے، ملک امن کی طرف روانہ ہو سکے ملک میں تھوڑی بہت بہتر جمہوریت آ سکے اور پاکستان کے عوام کو عدالتوں سے کچھ انصاف مل سکے۔ منظر بھوپالی کا اشعار یاد آگئے۔
اونچے اونچے ناموں کی تختیاں جلا دینا ظلم کرنے والوں کی وردیاں جلا دینا
در بدر بھٹکنا کیا دفتروں کے جنگل میں بیلچے اٹھا لینا ڈگریاں جلا دینا
پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا
منظور رضی  
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
عمران خان نے سائفر کیس میں کئی باتوں کا اعتراف کیا، عدالت کے پاس سزا کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا، اعظم نذیر تارڑ
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ عمران خان نے سائفر کیس میں کئی باتوں کا اعتراف کیا، عدالت کے پاس سزا دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ملک بھر میں انتخابی ماحول جاری ہے،عدالتی معاملات بھی ہائی لائٹڈ ہیں،مختلف حلقوں کے مطالبے پر جے آئی ٹی بنائی گئی، آئین عدلیہ کے بارے میں بڑا واضح ہے،پارلیمان سپریم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
سیاسی قربانی کی سزا عوام کیوں بھگتیں؟
Tumblr media
سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے متعدد بار کہا کہ ہم نے ملک کو بچانے کے لیے اپنی سیاست قربان کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے بھی کہا کہ ہم نے ملک کے لیے سیاسی قربانی دی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنی سیاست قربان کرنے اور ملک کے لیے سیاسی قربانی دینے کی سزا یہ دعوے کرنے والے نہیں بلکہ ملک کے عوام بھگت رہے ہیں اور جانے والی حکومت ملک میں مہنگائی کا ایسا ریکارڈ قائم کر گئی جس کی سزا سولہ ماہ حکومت کرنے والوں نے نہیں بھگتی اور وہ ایسے اقدامات کر گئے جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ 16 ماہ اقتدار میں رہنے والے ملک کی صورت حال کا ذمے دار 44 ماہ تک اقتدار میں رہنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کو قرار دیتے رہے اور الزام لگاتے رہے کہ سابق حکومت ملک کا جو حال کر گئی ہے وہ سالوں میں بھی بہتر نہیں بنائے جاسکتے تھے۔ 16 ماہ کی اتحادی حکومت عوام کو مہنگائی، بے روزگاری، خودکشیوں اور بجلی و گیس کی مہنگی ترین قیمتوں میں پھنسا گئی ہے وہ عذاب ختم نہیں ہو گا اور کہا جا رہا ہے کہ عوام کو یہ سزائیں 5 سال تک بھگتنا ہوں گی جس کے بعد بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ عوام کو ریلیف ملے گا یا نہیں؟ اتحادی حکومت پی ٹی آئی حکومت میں ہونے والی مہنگائی کو بنیاد بنا کر اقتدار میں آئی تھی جس نے سابق حکومت میں مہنگائی مارچ کیے تھے جس سے عوام کو توقع تھی کہ اتحادی حکومت عوام کی بھلائی کے لیے اقدامات کرے گی مگر اتحادی حکومت نے ملک کو سب سے بڑی کابینہ کا تحفہ دیا اور اتحادی حکومت کی بڑی پارٹیوں نے یہ نہ سوچا کہ معیشت کی تباہی کا شکار ملک اتنی بڑی کابینہ کا بوجھ اٹھانے کا متحمل بھی ہے یا نہیں۔ 
اہم پارٹیوں نے بڑی کابینہ میں اپنا حصہ بھرپور طور پر وصول کیا۔ اپنے ارکان اسمبلی کو مکمل وزارتیں دلائیں اور جو کسر رہ گئی تھی وہ اپنی پارٹیوں کے منتخب و غیر منتخب رہنماؤں کو وزرائے مملکت، مشیر اور معاونین خصوصی بنوا کر پوری کردی تھی اور سیاسی تقرریوں کا یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا۔ اتحادی پارٹیوں میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزیر اعظم سمیت کوئی وفاقی وزیر ایسا نہیں تھا جو ٹی وی پر سوٹ میں ملبوس نظر نہ آیا ہو جس سے لگتا تھا کہ (ن) لیگی سوٹ پہننے کا شوق پورا کرنے یا ایک دوسرے کا قیمتی سوٹوں میں مقابلہ کرنے والے وزیر بنے ہیں جب کہ ماڈرن کہلانے والی پیپلز پارٹی میں ایسا بہت کم تھا اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اندرون ملک تو کیا بیرونی دوروں میں بھی سوٹ میں کبھی نظر نہیں آئے اور تیسری بڑی اتحادی جے یو آئی کے وزیروں نے بھی قومی لباس اور پگڑی کا ہی استعمال کیا جب کہ (ن) لیگی وزیروں نے اپنی شناخت ہی سوٹ بنا لی تھی اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف اپنے یو اے ای کے آخری دورے میں دو عرب حکمرانوں کے درمیان سوٹ پہنے بیٹھے تھے جب کہ عرب حکمران اپنے قومی لباس میں ان کے اطراف بیٹھے تھے اور سابق وزیر اعظم کا یہ دورہ اظہار تعزیت کے لیے تھا۔
Tumblr media
اتحادی حکومت میں 16 ماہ تک اقتدار میں رہنے والے پارٹی رہنماؤں نے ذاتی طور پر کیا قربانی دی؟ عوام کو ان کی سیاسی و مالی قربانیوں کا نہیں پتا مگر جب بڑی کابینہ پر اعتراض ہوا تو کہا گیا کہ بہت سے عہدیدار اعزازی تقرریوں پر تعینات کیے گئے ہیں اور اتحادی حکومتوں میں سب پارٹیوں کو نمایندگی دینے کے لیے عہدے دینے ہی پڑتے ہیں۔ حکومتی عہدوں کی اس بندربانٹ میں تمام اتحادی پارٹیوں نے بھرپور حصہ وصول کیا اور کسی پارٹی نے نہیں کہا کہ ملک کی معاشی بدحالی کے باعث کابینہ چھوٹی رکھی جائے اور وزیر اعظم سمیت حکومت عہدیدار تنخواہیں، مراعات اور سرکاری پروٹوکول نہ لیں سادگی اپنائیں تاکہ ان کی کی گئی بچت سے عوام کو کچھ ریلیف دیا جاسکے۔ سرکاری اداروں کے عہدیدار تو خود کو غیر سیاسی قرار دیتے اور سیاست بھی کرتے ہیں اور سرکاری سیاسی عہدیداروں سے زیادہ تنخواہیں سرکاری مراعات اور پروٹوکول سے سفر کرتے ہیں۔ کسی اتحادی عہدیدار نے نہیں کہا کہ وہ اعزازی طور کام کریں گے۔ مراعات اور پروٹوکول نہیں لیں گے بلکہ پی پی رہنما اور وفاقی مشیر نے تو یہ کہا کہ دو لاکھ بیس ہزار کی تنخواہ میں ہوتا کیا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ 2013 میں پی پی حکومت میں سرکاری عہدے کے بغیر ان کا گھر کیسے چلتا تھا۔
اتحادی حکومت میں شامل کوئی ایک بھی عہدیدار متوسط طبقے سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ کوئی بھی سرکاری تنخواہ اور مراعات کا محتاج نہیں تھا۔ سب کا تعلق امیر گھرانوں سے تھا یہ سب اعلان کرتے کہ ہم ملک کے لیے مالی قربانی دیں گے اور قومی خزانے سے کوئی تنخواہ نہیں لیں گے تو 16 ماہ میں اربوں روپے کی بچت کی جاسکتی تھی جس سے غریبوں کو ریلیف دیا جاسکتا تھا۔ (ن) لیگی وزیر نے موٹرسائیکل سواروں کو سستا پٹرول دینے کا اعلان کیا تھا مگر اتحادی حکومت جاتے جاتے پٹرول بیس روپے مہنگا کر گئی اور پٹرول بم سے قبل بجلی و گیس انتہائی مہنگا کرنے کا ریکارڈ قائم کر گئی۔ اتحادی حکومت کے کسی بھی عہدیدار نے مالی قربانی نہیں دی۔ حکومت میں اتنے امیر لوگ تھے کہ جو چاہتے تو اپنی کمائی سے کروڑوں روپے نکال کر مالی قربانی دیتے تاکہ آئی ایم ایف کی شرائط پر مزید قرض نہ لینا پڑتا۔ پی ٹی آئی کے امیر اسمبلی ٹکٹ کے لیے پانچ کروڑ روپے اور ٹکٹ دینے والے سے ملنے کے لیے ایک ایک کروڑ دیتے تھے تو کیا اتحادی حکومت میں مالی قربانی دینے والا کوئی نہیں تھا؟ اسمبلی ٹکٹ اور الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی مالی حیثیت رکھنے والوں نے ملک کے لیے کبھی مالی قربانی نہیں دی۔ اتحادی حکومت میں بھی کرپشن عروج پر رہی اور صرف دعوے ہوئے کہ ہم نے سیاست قربان کر کے ملک بچایا مگر کسی نے مالی قربانی دے کر عوام کو مہنگائی سے نہیں بچایا۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
gamekai · 2 years
Text
پاکستان امریکہ کے ساتھ زراعت، آئی ٹی میں پیش رفت کا خواہاں
وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر نے کہا ہے کہ پاکستان، امریکہ کے ساتھ زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پیش رفت کا خواہاں ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کی باڈی کا گذشتہ سات برسوں میں پہلا وزارتی اجلاس جمعرات (23 فروری) کو ہوگا۔ وفاقی وزیر سید نوید قمر جمعرات کو پاکستان امریکہ تجارتی اور سرمایہ کاری فریم ورک معاہدے (ٹیفا) کے تحت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
پاکستان امریکہ کے ساتھ زراعت، آئی ٹی میں پیش رفت کا خواہاں
وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر نے کہا ہے کہ پاکستان، امریکہ کے ساتھ زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پیش رفت کا خواہاں ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کی باڈی کا گذشتہ سات برسوں میں پہلا وزارتی اجلاس جمعرات (23 فروری) کو ہوگا۔ وفاقی وزیر سید نوید قمر جمعرات کو پاکستان امریکہ تجارتی اور سرمایہ کاری فریم ورک معاہدے (ٹیفا) کے تحت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes