Tumgik
#پنجاب اسمبلی نتائج
urduchronicle · 8 months
Text
پنجاب اسمبلی نتائج: مسلم لیگ ن 131، پیپلز پارٹی 10، مسلم لیگ ق 8 اور 126 آزاد
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر ابھی تک مکمل نتائج فراہم نہیں ہوسکے، پنجاب اسمبلی کی 297 میں سے 296 نشستوں پر انتخابات کرائے اور اب تک 295 حلقوں کے نتائج جاری کئے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری کئے گئے نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن پنجاب کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور اس نے 131 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے،پیپلز پارٹی کو دس نشستیں ملی ہیں جبکہ مسلم لیگ ق کو 8 نشستوں پر کانمیابی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 6 months
Text
سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی اہلیت
Tumblr media
سینئر سیاسی رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ملکی مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے، انھیں علم ہی نہیں ہے کہ ملکی مسائل کا حل کیا ہے۔ سینئر سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ سیاستدان صرف اپنے لیے نہیں بلکہ قوم کے بچوں کے لیے آگے آئیں اور ان کے بہتر مستقبل کا سوچیں۔ الیکشن میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، اس لیے انتخابی نتائج تسلیم کریں۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی مختلف حکومتوں کی مدت تین آمرانہ حکومتوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ 16 برس سے ملک آمریت سے محفوظ ہے۔ 2008 کے الیکشن کے بعد سے ملک میں تین جماعتوں کے وزرائے اعظم نے ہی حکومت کی ہے مگر تینوں پارٹیوں کے منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکے البتہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں اور تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طور پر ہٹایا گیا، یوں اسمبلیاں برقرار رہیں اور پانچوں قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار سے محرومی کے بعد پہلے قومی اسمبلی سے اپنے ارکان کے استعفے دلائے اور بعد میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں قبل از وقت تڑوا کر اپنے وزرائے اعلیٰ کو بھی اقتدار میں نہیں رہنے دیا اور اپنی ضد اور انا کی خاطر اپنی اچھی بھلی دو صوبائی حکومتیں اس لیے ختم کرائیں کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن قبل ازوقت جنرل الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائے لیکن عمران خان کی یہ خواہش ناتمام ہی رہی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو عدالتی فیصلوں نے مدت پوری نہیں کرنے دی تھی اور دونوں کو نااہل کیا تھا۔ نااہلی کے دونوں عدالتی فیصلوں سے قبل 1999 تک فوجی جنرلوں اور 58/2-B کے اختیار کے حامل سویلین صدور نے وزرائے اعظم برطرف کیے اور اسمبلیاں ختم کیں اور 1985 سے 1999 تک کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی۔ 1999 میں نواز شریف کو برطرف کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے حکم پر ملک میں 2002 میں الیکشن کرایا اور 2007 تک تمام اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا اور اپنی بنائی گئی مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں ظفر اللہ جمالی کو ضرور تبدیل کیا اور غیر سیاسی وزیر اعظم شوکت عزیز کے ذریعے حکومت کے 5 سال مکمل کرائے تھے اور یہ واحد فوجی جنرل تھے جنھوں نے اسمبلیوں کی مدت پوری کرائی اور خود کو وردی میں صدر منتخب کرایا اور بعد میں صدر رہ کر فوجی وردی اتار دی تھی۔ 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے اقتدار کے گیارہ برسوں میں ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کرائیں اور دو دو باریاں لیں اور دونوں ہی حکومتیں خود ان کے منتخب صدور نے ختم کیں اور فوجی مداخلت 1999 میں ہوئی جس کے بعد سے فوج نے برائے راست کوئی مداخلت نہیں کی مگر 2018 تک تمام حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے قائم ہوئیں اور پی ٹی آئی حکومت بنوائی گئی۔
Tumblr media
2018 میں پہلی بار پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی جو اس کے وزیر اعظم کے غیر جمہوری رویے، من مانیوں اور انتقامی کارروائیوں کے باعث تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہو گئی جس کو برطرف وزیر اعظم نے غلط رنگ دیا۔ کبھی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا، کبھی جنرل قمر جاوید باجوہ کو ذمے دار قرار دیا اور میر صادق، میر جعفر اور جانور تک کا طعنہ دیا گیا۔ اپنی آئینی برطرفی کے بعد انھیں جمہوری طور اسمبلیوں میں رہنا چاہیے تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی خوشامد نہیں کرنی چاہیے تھی کہ وہ انھیں دوبارہ وزیر اعظم بنوا دیں، جنرل صاحب نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا بھی کہا تھا مگر اپوزیشن نہیں مانی تھی کیونکہ اس کی تحریک عدم اعتماد آئینی تھی جو پہلی بار کامیاب ہوئی تھی۔ سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ فوج غیر جانبدار رہے، آئین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کسی وزیر اعظم کولائے نہ ہٹائے ، یہ درست ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ذمے دار تو خود سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ 1970 تک ملک میں جو ہوتا رہا اس کے ذمے دار سیاسی رہنما اور ان کی اپنی پارٹیاں تھیں جنھوں نے جنرل ایوب کو باعزت واپسی کا راستہ نہیں دیا۔
1977 میں بھٹو حکومت میں انتخابی دھاندلی کے بعد ملک گیر تحریک چلی۔ وزیر اعظم بھٹو کی وجہ سے مارشل لا لگا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کی حکومت ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ نواز شریف اگر جنرل پرویز مشرف کو غلط طور نہ ہٹاتے، پی ٹی آئی وزیر اعظم اگر پی پی اور (ن) لیگ کو ساتھ لے کر چلتے تو آج تنہا نہ ہوتے۔ سیاستدانوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ ہوتا، پی ٹی آئی دوسری جماعتوں سے مل کر مسائل کا حل تلاش کرتی اور اس کے چیئرمین نئی نسل کو بگاڑنے کے بجائے ملک کے بچوں کا سوچتے تو آج جیل میں نہ ہوتے۔ دوسروں کو چور، ڈاکو قرار نہ دیتے تو سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ملک کے مفاد اور مسائل کے حل پر آپس میں متحد ہو جاتیں تو ملک میں سیاسی استحکام ہوتا، پی پی اور (ن) لیگ کی طرح پی ٹی آئی نے اقتدار کے بجائے ملک کا سوچا ہوتا تو آج ملک میں سیاسی دشمنی اور انتشار نہ ہوتا۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاست میں جمہوریت؟
Tumblr media
عالمی جمہوریت انڈیکس کے مطابق آمرانہ رجیم درجہ بندی میں گر کر پاکستان کا اسکور 3.25 ہو گیا ہے اور 11 درجے تنزلی ہو گئی ہے۔ پاکستان پہلے دنیا کی 165 ریاستوں میں ایک برس قبل 5.23 انڈیکس پر تھا جو اب گر کر 3.25 پر آ گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہائبرڈ رجیم سے تنزلی کے بعد آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں آ گیا ہے جب کہ عالمی سطح پر ریٹنگ میں گیارہ مقام نیچے چلا گیا ہے۔ ای آئی یو نے حالیہ انتخابات پر کہا ہے کہ یہ بات حیران کن نہیں کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور روس میں رجیم چینج یا زیادہ جمہوریت نہیں آئے گی اور پاکستان میں بھی مکمل جمہوریت نہیں آئے گی اور ناقص جمہوریت چلتی رہے گی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کو 1956 میں آئین ملا تھا جس کے نتیجے میں ملک کو 1958 میں جنرل ایوب خان کا جو طویل مارشل لا ملا تھا اس کے خاتمے کے بعد کہنے کو ملک کو 1973 کا متفقہ آئین ملا تھا جو بعد میں مارشل لاؤں کو نہیں روک سکا تھا جس کے بعد 1977ء اور 1999ء میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے مارشل لا آئے تھے جو جنرل پرویز کی وردی اترنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ 
2002ء سے 2024ء تک ملک میں چار بار قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال اور پی ٹی آئی حکومت نے پونے چار سال حکومت کی اور عمران خان کی اپنی حماقت کے نتیجے میں سولہ ماہ ملک میں ایک اتحادی حکومت رہی اور ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک میں جنرل یحییٰ نے جو الیکشن کرائے اور جیتنے والی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں 1971 میں ملک دولخت ہوا تھا جس کے بعد بھٹو صاحب نے 1972 میں حکومت بنائی تھی اور 1973 کا ایسا متفقہ آئین بنوایا تھا جو ملک میں جمہوریت برقرار رکھ سکے اور کسی اور جنرل کو آمریت قائم کرنے کا موقعہ نہ مل سکے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاسی حکومتیں آئیں اور ابتدا ہی میں بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر اپنی آمریت قائم کی اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جمہوریت کے نام پر وہ سلوک کیا جو کبھی جمہوریت میں نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں 1977 میں جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا تھا۔
Tumblr media
جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ قرار دی جانے والی حکومت میں سیاستدان شامل رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالا تھا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز کو وردی میں صدر منتخب کرانے میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزرائے اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت بنا لیا اور جمہوریت کے نام پر ملک میں اپنی ذاتی آمریت مسلط رکھی اور ملک میں حقیقی جمہوریت کسی ایک بھی سیاسی وزیر اعظم نے قائم نہ ہونے دی۔ محمد خان جونیجو نے کچھ کوشش کی تو برطرف کر دیے گئے۔ 1988 سے 2024 تک ملک میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے وہ سب متنازع رہے اور سیاسی رہنما اپنے مفادات کے لیے برسر اقتدار سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی سے اقتدار میں آئے اور بعد میں وہ بھی اپنے لانے والوں کو آنکھیں دکھانے لگتے تھے۔ ملک کو جو ترقی ملی اس میں بھی جنرلوں کے نام آئے مگر کسی سیاستدان کو تو تمغہ جمہوریت نہیں ملا مگر ایک جج نے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو صادق اور امین قرار دینے کا فیصلہ ضرور دیا تھا جو ان کا کام ہی نہیں تھا۔
بھٹو سے عمران خان تک تمام وزرائے اعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور فخریہ طور پر اپنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک پیج پر قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے تمام مخالف سیاستدانوں پر مقدمات بنوا کر سب کو جیل میں ڈلوایا جو بعد میں کوئی ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہوئے۔ پی ٹی آئی کی نام نہاد جمہوریت پونے چار سال ملک میں بدترین آمریت کی شکل میں قائم رہی اور وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں اپنے مخالف سیاستدان حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر سے ملنا گوارا نہ کیا جو کبھی آمریت میں نہ ہوا وہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کر دکھایا مگر جب دانشوروں نے انھیں سمجھانا چاہا تو وہ نہ مانے اور اپنے آمرانہ فیصلے کرتے تھے جو ان کی جمہوریت تھی۔ جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار میں آمریت قائم کرنے والے سیاسی وزیر اعظم اگر واقعی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور جمہوریت پر عمل کرتے تو ملک کو آج اس بدنامی کا سامنا نہ ہوتا اور آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں پاکستان مسلسل نہ گرتا اور جمہوریت بھی مستحکم ہوتی مگر جمہوریت کے لبادے میں اپنے ا��نے اقتدار میں اگر سیاسی رہنما ذاتی آمریت قائم نہ کرتے اور ایک دوسرے سے انتقام نہ لیتے تو جمہوریت حقیقی شکل میں عوام کو میسر آتی۔ ملک میں آمریت کے ذمے دار صرف آمر ہی نہیں نام نہاد جمہوری وزرائے اعظم اور مفاد پرست بے اصول سیاستدان بھی ہیں۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
shiningpakistan · 7 months
Text
پی ٹی آئی ووٹرز کا انتقام
Tumblr media
الیکشن نے سب کو حیران اور بہت سوں کو پریشان کر دیا۔ سب اندازے، تجزیے غلط نکلے۔ تحریک انصاف کے ووٹر، سپورٹر اتنے نکلے کہ ہر طرف چھا گئے۔ انتخابات سے پہلے تمام تر پابندیوں، سختیوں، جلسے جلوس کرنے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود، بلے کے بغیر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے۔ قومی اسمبلی میں نمبر ون، خیبر پختونخوا میں تو سویپ کر لیا، پنجاب بھی میں ایک بڑا نمبر حاصل کر لیا اوریہ سب کچھ 2018 کے آر ٹی ایس کے بدلے میں الیکشن کمیشن کے نئے نظام ای ایم ایس کے بیٹھنے کے باوجود ممکن ہوا۔ الیکشن کمیشن کا الیکشن کے نتائج مرتب کرنے کے حوالے سے بنایا گیا ای ایم ایس (Election Management System) تو آر ٹی ایس کا بھی باپ نکلا۔ یہ نظام ماضی کے آ ر ٹی ایس کی طرح پہلے تو بیٹھ گیا اور پھر جب صبح اُٹھا تو مبینہ طور پر رات کو کئی ہارنے والوں کو جیتنے والا اور کئی جیتنے والوں کو ہارنے والے بنا دیا۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اُس کے کوئی پچاس ساٹھ جیتے ہوئے امیدواروں کو ای ایم ایس کو بٹھا کر ہرایا گیا۔ گویا 8 فروری تحریک انصاف کے ووٹروں، سپوٹروں کے لیے ’’ـ بدلہ لینے‘‘ یا ’’انتقام لینے‘‘ کا دن ثابت ہوا۔ 
دھاندلی کے الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن ابھی تک کے الیکشن نتائج کے مطابق وفاق میں کوئی ایک جماعت بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکی، اس لیے یہاں صرف ایک مخلوط حکومت ہی بن سکتی ہے جس کیلئے ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیوایم ، جے یو آئی ایف وغیرہ میں پہلے ہی بات چیت شروع کر چکی ہے وفاقی سطح پر تحریک انصاف کے جیتے ہوئے امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے حکومت سازی کیلئے ابھی تک کسی سیاسی جماعت سے رابطہ کرنے کی اطلاعات نہیں ملیں۔ دھاندلی کے الزامات اور ان الزامات کی شنوائی کا جو نظام ہمارے ہاں موجود ہے اُس سے تحریک انصاف کو وہ 150 یا 170 سیٹیں فوری نہیں ملیں گی جس کا وہ دعویٰ کر رہی ہے۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح حکومت سازی کیلئے کوشش کرتی اور ساتھ ساتھ اپنے دھاندلی کے الزمات کیلئے قانونی چارہ جوئی کرتی رہتی۔
Tumblr media
تحریک انصاف کے ترجمان کی خواہش (کہ حکومت سازی کے عمل کو اُس وقت تک روکا جائے جب تک کہ تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کے الزمات کا فیصلہ نہیں ہوتا) تو کسی صورت کوئی پوری نہیں کر سکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف اور اس کے بانی چیئرمین عمران خان ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم وغیرہ سے مل کر حکومت بنانےکیلئے ہاتھ ملانے پر تیار ہونگے؟ اگر دوسروں سے ہاتھ نہیں ملائیں گے تو پھر وفاق میں حکومت کیسے بنے گی۔ عمران خان کے ماضی کے رویے کی وجہ سے کسی بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے تحریک انصاف سے بھی رابطہ کی اطلاعات نہیں ملیں۔ تحریک انصاف نے ووٹ تو بہت لیے لیکن اگر وہ ماضی کی طرح کسی دوسری سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی یا پھر دھاندلی کا رونا ہی روتی رہے گی تو پھر وہ وفاق میں حکومت کیسے بنا سکتی ہے۔ 
اس وقت تحریک انصاف کیلئے یہ بھی چیلنج ہے کہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے اپنے اراکین قومی اسمبلی کو سنبھالے کیوں کہ خطرہ موجود ہے کہ ان میں سے کئی، حکومت کا حصہ بننے کی لالچ میں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں جا سکتے ہیں۔خیبر پختونخوا میں تو تحریک انصاف کو حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا، پنجاب میں ممکنہ طور پر ن لیگ ہی حکومت بنائے گی جبکہ وفاق میں اگر تحریک انصاف کو حکومت بنانی ہے تو اپنےماضی کے رویے سے ہٹ کر اپنے سیاسی مخالفین سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔ اگر ایسا ہو جائے تو سب کیلئے بہت اچھا ہو گا لیکن مجھے ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ پاکستان کیلئے سب سے بہتر تو یہ ہے کہ سب سیاسی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں اور اس ملک و قوم کو مشکلات سے نکالیں ۔ یہ ایک خواب ہے جو نجانے کب پورا ہو گا۔ فی الحا ل جو نظر آ رہا ہے اُس کے مطابق وفاق میں پی ڈی ایم طرز کی ہی حکومت بنے گی، پنجاب میں ن لیگ، کے پی کے میں تحریک انصاف، سندھ میں پی پی پی اور بلوچستان میں ایک مخلوط حکومت بنے گی جس کا وزیراعلی ٰممکنہ طور پر پیپلز پارٹی کا ہو گا۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
airnews-arngbad · 1 year
Text
آکاشوانی او��نگ آباد‘ علاقائی اُردو خبریں: بتاریخ: 18 مئی 2023‘ وقت: صبح 09:00 تا 09:10
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ مرکزی کابینہ کی جانب سے کیمیائی کھادوں پر سبسیڈی کیلئے ایک لاکھ آٹھ ہزار کروڑ روپئے کی منظوری؛ آئندہ خریف ہنگام میں کھادوں کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں۔
٭ جل یُکت شیوار اسکیم کے کاموں کو تیز کرنے کا وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے کا حکم۔
٭ جنین کی تشخیص کیلئے ہونے والی ہرقسم کی جانچ پر پابندی عائد کی جائے: قانون ساز کونسل کی چیئرپرسن نیلم گورہے کی ہدایت۔
٭ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار ضمانتی اسکیم کے تحت پیاز ذخیرہ مراکز کی تعمیر کیلئے فنڈ مہیا کرنے کا وزیر سندیپان بھومرے کا اعلان۔
اور۔۔ ٭ IPL کرکٹ ٹورنامنٹ میں دہلی کیپیٹلس کی پنجاب کنگس کے خلاف 14 رَنوں سے فتح۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
آئندہ خریف ہنگام کیلئے کیمیائی کھادوں پر سبسیڈی کی غرض سے مرکزی کابینہ نے ایک لاکھ آٹھ ہزار کروڑ روپئے کے مصارف کو منظوری دے دی ہے۔ اس طرح اب آنے والے خریف ہنگام میں کھادوں کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ یہ اطلاع مرکزی وزیرِ کھاد و کیمیائی اشیاء من سُکھ مانڈویہ نے کل مرکزی کابینی اجلاس کے بعد اخباری نمائندوں کو دی۔ انھوں نے بتایا کہ اجلاس میں 2023 کے خریف سیزن میں فصلوں کیلئے درکار غذائی اجزاء کے مطابق مراعات کی شرح میں ت��میم کی تجاویز کو بھی منظور کیا گیا۔ اس کے تحت حکومت کی جانب سے فاسفیٹک اور پوٹاشک کھادوں کیلئے 38ہزار کروڑ روپئے سبسیڈی دی جائیگی۔
اطلاعاتی ٹکنالوجی کے شعبے میں ہارڈویئر تیار کرنے سے متعلق ترغیبی اسکیم کے دوسرے مرحلے کو بھی مرکزی کابینہ نے منظوری دی۔ الیکٹرانکس اور اطلاعاتی ٹکنالوجی کے وزیر اشونی ویشنو نے یہ اطلاع دی۔ اس کیلئے 17ہزار کروڑ روپئے جاری کیے گئے ہیں۔ اس اسکیم کی مدت چھ برس ہوگی۔
***** ***** *****
بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت کی مختلف اسکیموں کی بدولت قومی معیشت مستحکم ہورہی ہے‘ نیز زرعی اور انفراسٹرکچر سہولتوں کے میدان میں بھی ترقی ہورہی ہے۔ کل ممبئی میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سابقہ حکومت جو اسکیمیں اور منصوبے شروع نہیں کرسکی انھیں شروع کرنے کیلئے شندے- پھڑنویس حکومت کوشاں ہے۔ جے پی نڈا دو روزہ مہاراشٹر دورے پر کل ممبئی پہنچے۔ وہ آج پونے میں پارٹی کے ریاستی مجلس ِ عاملہ کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
***** ***** *****
ریاست کے ارکانِ اسمبلی کو وزارت کا لالچ دیکر جعلسازی کرنے والے ایک شخص کو کل ناگپور پولس نے گجرات کے موربی شہر سے حراست میں لے لیا۔ نیرج راٹھوڑ نامی اس شخص نے بی جے پی کے رکنِ اسمبلی وِکاس کمبھارے کو فون کیا اور خود کو بی جے پی صدر جے پی نڈا کا قریبی رفیق ظاہر کرکے وزارت دلانے کیلئے رقم کا مطالبہ کیا تھا۔ کمبھارے کی جانب سے ناگپور پولس میں کی گئی شکایت کی بنیاد پر نیرج سنگھ راٹھوڑ کو گرفتار کیا گیا۔ پولس نے بتایا کہ اس جعلساز نے مزید کن ارکانِ اسمبلی کو فون کرکے پھنسانے کی کوشش کی تھی اس کی تحقیقات کی جارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ قبل ازیں ناگالینڈ اور گوا کے متعدد ارکانِ اسمبلی کو اسی طرح پھنسایا جاچکا ہے۔
***** ***** *****
ٹیلی کام سروس فراہم کرنے والی کمپنی ٹی ایس پی کی جانب سے ممبئی میں جاری کردہ 30 ہزار سے زائد غیر مستند موبائل کا محکمہئ ٹیلی کام نے پتہ لگایا ہے۔ مرکزِ اطلاعات صارفین یعنی کنزیومر انفارمیشن سینٹر سے جانچ میں پتہ چلا ہے کہ 62 گروپوں میں ایک ہی تصویر کا استعمال کرکے مختلف ناموں سے موبائل نمبر حاصل کیے گئے۔ مرکزی وزیرِ مواصلات اشونی ویشنو کی جانب سے سنچار ساتھی پورٹل کے افتتاح کے بعد ممبئی ٹیلی کام محکمے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایچ ایس جاکھڑ کی جانب سے دی گئی معلومات کے بعد یہ بات سامنے آئی۔
***** ***** *****
نئی اور قابلِ تجدید توانائی کی مرکزی وزارت کے سیکریٹری بھوپیندر سنگھ بھلّا نے کہا ہے کہ ہوائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی کے منفی نتائج کے اثرات کو کم کرنے کیلئے ہوائی توانائی ایک بہترین متبادل ہے۔ G-20 کے تحت اینرجی ٹرانزیشن ورکنگ گروپ کا اجلاس کل ممبئی میں اختتام پذیر ہوا۔ اس سے قبل اجلاس میں ہوائی توانائی کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے بھلّا خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہوائی توانائی کے استعمال کے باعث روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
***** ***** *****
وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے حکم دیا ہے کہ بارش کی ہربوند کو زمین میں جذب کرنے کیلئے جل یُکت شیوار منصوبے کے کاموں کو تیز کیا جائے۔ کل ریاست کے تمام ضلع کلکٹرز، بقائے آب اور محکمہئ جنگلات کے افسران سے وہ بذریعہئ ٹیلی کانفرنسنگ خطاب کررہے تھے۔ جل یُکت شیوار اسکیم کے دوسرے مرحلے‘ وزیرِ اعظم زرعی آبپاشی اسکیم اور دیگر اسکیموں سے متعلق کاموں کا وزیرِ اعلیٰ نے جائزہ لیا۔
***** ***** *****
پلاسٹر آف پیرس سے بنائے گئے مجسّموں میں سے آلودگی پیدا کرنے والے اجزاء کو کم کرنے اور اس کیلئے متبادل فراہم کرنے کیلئے چیف سیکریٹری کی زیرقیادت ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ کل ممبئی میں وزیرِ اعلیٰ کی زیرِ صدارت ممبئی کے گنپتی کے مجسمہ سازوں اور عوامی گنیش منڈلوں کے نمائندوں کے اجلاس میں یہ اعلان کیا گیا۔
***** ***** *****
قانون ساز کونسل کی ڈپٹی چیئرپرسن ڈاکٹر نیلم گورہے نے جنین کی تشخیص کی تمام اقسام پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا ہے۔ پونا ضلع کے نیرا میں جنین کی تشخیص اور اس کے بعد اسقاطِ حمل کے واقعے کے انکشاف کے بعد انھوں نے یہ اعلان کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کیلئے ضلع انتظامیہ تمام متعلقہ سرکاری محکموں کے افسران پر مشتمل اسکواڈ تیار کرے‘ سونوگرافی مراکز میں جانچ سے قبل فارم ایف پُر کرنے کے امر کو یقینی بنائیں‘ اسقاطِ حمل قانون کی مؤثر عمل آوری کیلئے ایک کمیٹی قائم کی جائے، اس کے علاوہ اس طرح کی شکایات کی ابتدائی جانچ کرکے اس کی رپورٹ ہر تین ماہ میں جاری کی جائے۔
***** ***** *****
وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے حکم دیا ہے کہ 55 سال سے زائد عمر کے ٹریفک پولس اہلکاروں کو سڑکوں پر ڈیوٹی انجام دینے کیلئے تعینات نہ کیا جائے۔ وزیرِ اعلیٰ نے ممبئی پولس کمشنر ویویک پھنساڑکر کو ہدایت کی کہ دوپہر کی تیز دھوپ میں فرائض کی انجام دہی کرنے والے پولس اہلکاروں کی سہولت کیلئے فوری طور پر شیڈ اور پینے کے پانی کا انتظام کیا جائے۔ ضرورت پڑنے پر اس کام کیلئے وزیرِ اعلیٰ امدادی فنڈ سے اضافی فنڈ جاری کیا جائیگا۔
***** ***** *****
مہاتماگاندھی قومی روزگار ضمانتی اسکیم کے تحت پیاز ذخیرہ مراکز کی تعمیر کیلئے ایک لاکھ 60 ہزار 367 روپئے کی امداد دی جائیگی۔ روزگار ضمانتی اسکیم کے وزیرِ سندیپان بھومرے نے یہ اطلاع دی۔ اس میں سے غیر فنی کاموں کیلئے 96 ہزار 220 اور فنی کاموں کیلئے 64 ہزار 147 روپئے اور مزدوری اخراجات کیلئے 60 ہزار روپئے دئیے جائیں گے۔
***** ***** *****
اورنگ آباد ضلع میں گرام پنچایت کی خالی نشستوں کیلئے آج رائے دہی عمل میں آرہی ہے۔ ضلع کے نو تعلقوں میں 46 گرام پنچایتوں کی 50 خالی نشستوں کیلئے یہ انتخابات ہورہے ہیں۔ اس کیلئے صبح ساڑھے سات بجے سے شام ساڑھے پانچ بجے تک ووٹ ڈالے جائیں گے۔ حقِ رائے دہی کے استعمال کیلئے ورکرز اور ملازمت پیشہ افراد کو کام سے تین گھنٹوں کی چھٹی دینے کا حکم لیبر ڈپٹی کمشنر نے دیا ہے۔
***** ***** *****
ہنگولی کے ضلع کلکٹر جتندر پاپڑکر نے ہدایت کی ہے کہ فی الحال زیرِ استعمال دس روپئے کا سکہ قبول کرنے سے انکار نہ کیا جائے۔ انھوں نے انتباہ دیا کہ یہ سکہ قبول کرنے سے انکار کی صورت میں مقدمہ درج کرکے پولس کارروائی کی جائیگی۔
***** ***** *****
اورنگ آباد کی ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے پوسٹ گریجویشن کورسیز کے امتحانات 31 مئی اور پروفیشنل کورسیز کے امتحانات 6 جون سے شروع ہوں گے۔ ان 32 کورسیز کیلئے 78 مراکز پر طلباء امتحان دیں گے۔ یہ اطلاع ڈائریکٹر اگزامنیشن ڈاکٹر بھارتی گولی نے دی۔
***** ***** *****
انڈین پریمیر لیگ کرکٹ ٹورنامنٹ میں کل دھرم شالہ میں کھیلے گئے میچ میں دہلی کیپیٹلس کی ٹیم نے پنجاب کنگز کو 14 رنوں سے شکست دے دی۔ دہلی نے پہلے بلّے بازی کرتے ہوئے دو وِکٹ کے نقصان پر 213 رَن بنائے۔ جواب میں پنجاب کی ٹیم مقررہ 20 اوور میں 198 رن ہی بناسکی۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ مرکزی کابینہ کی جانب سے کیمیائی کھادوں پر سبسیڈی کیلئے ایک لاکھ آٹھ ہزار کروڑ روپئے کی منظوری؛ آئندہ خریف ہنگام میں کھادوں کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں۔
٭ جل یُکت شیوار اسکیم کے کاموں کو تیز کرنے کا وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے کا حکم۔
٭ جنین کی تشخیص کیلئے ہونے والی ہرقسم کی جانچ پر پابندی عائد کی جائے: قانون ساز کونسل کی ڈپٹی چیئرپرسن نیلم گورہے کی ہدایت۔
٭ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار ضمانتی اسکیم کے تحت پیاز ذخیرہ مراکز کی تعمیر کیلئے فنڈ مہیا کرنے کا وزیر سندیپان بھومرے کا اعلان۔
اور۔۔ ٭ IPL کرکٹ ٹورنامنٹ میں دہلی کیپیٹلس کی پنجاب کنگس کے خلاف 14 رَنوں سے فتح۔
***** ***** *****
0 notes
gamekai · 2 years
Text
پنجاب اور کےپی اسمبلی میں الیکشن کی تیاریاں تیز
پنجاب اور کےپی اسمبلی میں انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن نے تیاریاں تیز کر دیں۔ عملے کو آر ایم ایس سسٹم کی ٹریننگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ الیکشن عملے کی ٹریننگ کا عمل وفاقی دارالحکومت اور چاروں صوبوں میں جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق رزلٹ مینجمنٹ سسٹم سے متعلق ٹریننگ مرحلہ وار کرائی جا رہی ہے ہر بیج کو2 دن ٹریننگ کرائی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آر ایم سسٹم نتائج کی بروقت فراہمی میں مددگار ثابت ہو گا۔…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
اقتداری اور سیاسی مصلحتیں
سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار میں اپنی بے بسی کا جو اعتراف کیا وہ نیا نہیں بلکہ اب تک ہر سیاسی جماعت کے وزیر اعظم کے ساتھ بے بسی کا مسئلہ رہا ہے صرف پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو یہ مسئلہ درپیش نہیں تھا مگر بعد میں ان کے خلاف بھی ملک میں سازشیں شروع ہو گئی تھیں جس کے نتیجے میں انھیں راولپنڈی کے جلسے میں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا تھا۔ لیاقت علی خان کے بعد آنے والے تمام ہی وزیر اعظم مختصر عرصہ بعد اقتدار سے ہٹائے گئے کہ بھارتی وزیر اعظم نہرو کو کہنا پڑا تھا کہ ’’ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی وزیر اعظم بدل جاتا ہے۔‘‘ پاکستان کے چار فوجی حکمرانوں نے تین عشروں سے زیادہ اور تقریباً چار عشروں تک سیاسی وزرائے اعظم نے حکومت کی۔ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کے دور میں کوئی سیاسی وزیر اعظم نہیں تھا۔ ملک کے دو ٹکڑے ہو جانے کے بعد جنرل یحییٰ سے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کرایا گیا تھا اور بھٹو صاحب غیر منتخب صدر اور پہلے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور بعد میں 1973 کے متفقہ آئین کے تحت وزیر اعظم بنے تھے۔ جنرل یحییٰ نے 1970 میں غیر جانبدارانہ انتخابات اپنی مصلحت کے تحت کرائے تاکہ وہ صدر برقرار رہ سکتے مگر انتخابی نتائج ان کی توقعات کے برعکس آئے تھے۔
جنرل ایوب خان نے اقتدار سے علیحدگی سے قبل سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس بلائی تھی جس کی ناکامی کے بعد جنرل یحییٰ نے اقتدار سنبھال لیا تھا اور دو سالہ صدارت میں وہ مزید صدارت کے خواہاں تھے مگر ملک ٹوٹ گیا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے اقتدار میں آتے ہی سیاسی حمایت کے حصول کے لیے بھٹو مخالف سیاسی جماعتوں کو حکومت میں شامل کیا تھا جو انتخابات نہ کرائے جانے پر حکومت چھوڑ گئی تھیں اور 1985 میں انھوں نے غیر جماعتی انتخابات کروا کر محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا تھا مگر وہ واحد اصول پرست سیاستدان تھے۔ جنھوں نے جنرل ضیا کی مرضی کے خلاف فیصلے کیے تو جنرل ضیا نے انھیں ہٹا دیا تھا اور میاں نواز شریف واحد وزیر اعلیٰ پنجاب ��ھے جنھیں جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد نگران وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا گیا تھا۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کو برطرف کر کے اقتدار س��بھالا اور 2002 میں سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کرائے اور ان کی صدارت میں ملک کو تین وزیر اعظم ملے جن میں چوہدری شجاعت اور ظفراللہ جمالی سیاسی وزیر اعظم تھے۔
جنرل پرویز مشرف کو اپنا مفاد غیر سیاسی شوکت عزیز میں نظر آیا مگر اپنے مزید اقتدار کے لیے انھوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ یو اے ای جا کر این آر او کیا اور وہ بے نظیر کی وطن واپسی نہیں چاہتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف خود نواز شریف اور بے نظیر کے اسی طرح خلاف تھے جیسے آج عمران خان میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے صدارت بچانے کے لیے بے نظیر سے معاہدہ کیا اور بے نظیر نے وزیر اعظم بننے کے لیے وطن واپسی کو ترجیح دی اور دو ماہ میں شہید کردی گئیں۔ جنرل پرویز مشرف 2007 میں 8 سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی ملک کا مزید صدر بننا چاہتے تھے۔ 2008 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت نے جنرل پرویز مشرف کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف پیپلز پارٹی کے امین فہیم اور اعتزاز احسن کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے مگر عمران خان وزیر اعظم بننا چاہتے تھے اور عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کو ریفرنڈم میں وردی میں صدر منتخب کرایا مگر جنرل پرویز مشرف نے انھیں ملک کا وزیر اعظم نہیں بنایا جس پر وہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ہو گئے اور انھوں نے ظفراللہ جمالی کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم کا ووٹ دیا تھا جن کے وہ اب سخت ترین مخالف ہیں۔
1970 کے بعد 2022 تک 52 سالوں میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف تقریباً 20 سال اور سیاسی وزرائے اعظم محمد خان جونیجو سے عمران خان تک جتنے وزرائے اعظم اقتدار میں آئے ان کا عرصہ اقتدار تقریباً 32 سال بنتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب، ایوب خان کے وزیر خارجہ تھے اور باہمی اختلاف پر حکومت سے علیحدہ ہو کر انھوں نے صدر ایوب کے خلاف کھل کر تحریک چلائی تھی۔ بے نظیر بھٹو، نواز شریف طویل عرصہ اقتدار میں رہے مگر مصلحتوں کا شکار رہے۔ تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف تینوں بار وقت سے قبل اقتدار سے نکالے گئے۔ اب ان کے بھائی شہباز شریف اقتدار میں ہیں جو پہلی بار تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کے بعد وزیر اعظم قومی اسمبلی سے منتخب ہوئے مگر عمران خان نہیں مانتے اور اپنے ہٹائے جانے کا ذمے دار کبھی امریکا کو کبھی غیر جانبدار ہو جانے والوں کو قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان کو آر ٹی ایس کے باعث اکثریت نہ ہونے کے باوجود اتحادی دلا کر وزیر اعظم بنایا گیا تھا اور اپنے اتحادیوں کے الگ ہونے کے بعد وہ اقتدار سے محروم ہوئے۔ 
عمران خان نے بھی اقتدار کے لیے 5 قومی اسمبلی کی نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ (ق) کو دو اور سات نشستیں رکھنے والی ایم کیو ایم کو ایک وزارت دی تھی اور اختر مینگل والے اصول پرست رہنما تھے جنھوں نے 4 نشستوں کے باوجود کوئی وزارت نہیں لی تھی اور عمران حکومت میں ہی وعدے پورے نہ ہونے پر حکومت کی حمایت چھوڑ دی تھی۔ جنرل ضیا کے دور میں محمد خان جونیجو ان کی جی حضوری کر کے وزیر اعظم رہ سکتے تھے مگر وہ اصولوں پر قائم رہے جس پر انھیں ہٹایا گیا تھا۔ سابق وزراء اعظم میں سے کوئی بھی اصول پرستی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ سب نے اقتدار کو اصولوں پر ترجیح دی اور مفاداتی سیاست کی۔ عمران خان نے پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا کر اقتدار حاصل کیا تھا۔ انھیں بالاتروں کی جتنی حمایت ملی کسی اور وزیر اعظم کو کبھی نہیں ملی تھی اور وہ اب بھی غیر سیاسی ہو جانے والوں کو اقتدار میں پھر آنے کے لیے کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ وہ غیرجانبداری ختم کر کے انھیں دوبارہ لائیں۔ عمران خان کی طرح کسی سابق وزیر اعظم نے ماضی میں کبھی ایسا نہیں کہا تھا جس سے تمام سابق حکمرانوں اور عمران خان کی سیاست کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
htvpakistan · 2 years
Text
بیک ڈور رابطے ختم، اِن ہاؤس تبدیلی کا منصوبہ کھٹائی میں، پرویز الٰہی محفوظ
بیک ڈور رابطے ختم، اِن ہاؤس تبدیلی کا منصوبہ کھٹائی میں، پرویز الٰہی محفوظ
پنجاب میں ضمنی انتخابات میں بدترین شکست۔ پی ڈی ایم کا اِن ہاؤس تبدیلی کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ پارٹی ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم سے بیک ڈوررابطے رکھنے والے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے نتائج کے بعد رابطے منقطع کر دئیے۔ باغی ارکان نے مؤقف اپنایا کہ مسلم لیگ ن نے اپنی 2 نشستیں کھو دیں، یہ ہمیں کیا بچائیں گے یا آئندہ انتخابات میں جتوائیں گے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اپنی پارٹی کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
umeednews · 2 years
Text
ضمنی انتخابات: تحریک انصاف 8 اور پیپلزپارٹی 2 نشستوں پر کامیاب
ضمنی انتخابات: تحریک انصاف 8 اور پیپلزپارٹی 2 نشستوں پر کامیاب
قومی اور پنجاب اسمبلی کے 11 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے مکمل نتائج کے مطابق تحریک انصاف 8 اور پیپلزپارٹی نے 2 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی جبکہ ایک نشست ن لیگ کے حصے میں آئی۔ قومی اسمبلی کے جن حلقوں پر ضمنی انتخاب ہوا ان میں خیبر پختونخوا کے 3، کراچی کے 2 اور پنجاب کے 3 حلقے شامل ہیں جبکہ تینوں صوبائی نشستیں پنجاب اسمبلی کی ہیں۔ ضمنی انتخابات کے لئے 11 حلقوں میں 2 ہزار 937 پولنگ اسٹیشنز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
پنجاب میں اہم عہدوں کے لیے مریم نواز، حمزہ شہباز، ملک احمد خان کے نام زیرغور
مسلم لیگ ن  پنجاب میں حکومت سازی کی طرف بڑھنے  لگی ،وزارت اعلیٰ کیلئے مریم نواز ہاٹ فیورٹ ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے 297 حلقوں کے نتائج جاری ہوگئے۔ مسلم لیگ ن پہلے نمبر کی جماعت بن گئی۔ ایک سو سینتیس نشستیں حاصل کیں۔ مخصوص نشستیں ملا کر مسلم لیگ ن کا سیکور ایک سو ستر ہوجائے گا۔ پیپلزپارٹی  دس نشستوں کے ساتھ دوسری بڑی جماعت ،ایک مخصوص نشست کے ساتھ انکے گیارہ ارکان ہوجائیں گے۔ پارٹی ذرائع  کے مطابق مریم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 7 months
Text
عمران خان ہر بار عوامی عدالت میں سرخرو کیوں ہوتے ہیں؟
Tumblr media
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آج عمران خان کو بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرنا کسی بھی طرح قابلِ فہم نہیں۔ تمام پیش گوئیاں کہ ایک بار اقتدار سے جانے کے بعد عمران خان کی مقبولیت کا سورج جلد غروب ہو جائے گا، غلط ثابت ہوئیں۔ جیسے ہی معاملات ان کے خلاف جانے لگتے ہیں، کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس سے ان کی مقبولیت میں ایک بار پھر اضافہ ہو جاتا ہے۔ عوام سے تعلق ہمیشہ سے ان کی سیاست کا اہم حصہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر اپریل 2022ء میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد عمران خان نے مئی 2022ء میں اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن لانگ مارچ اس وجہ سے ناکام رہا کیونکہ اتنی تعداد میں لوگ جمع نہیں ہو پائے کہ جس سے کوئی تبدیلی لائی جاتی۔ اسلام آباد پہنچ کر اچانک عمران خان نے لانگ مارچ ختم کر دیا اور بنی گالا چلے گئے۔ یہ گمان کیا جارہا تھا کہ اگست 2014ء کے نام نہاد سونامی مارچ نے ان کے عروج میں جو کردار ادا کیا، اب وہ ہیجان کی سیاست کام نہیں آئے گی کیونکہ اب انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل نہیں جوکہ اس سے قبل ان کی سیاست کا اہم عنصر تھی۔ اس کے باوجود عمران خان نے غرور اور دھوکے سے بھری شدید بیان بازی کے ذریعے لوگوں کی بڑی تعداد کو متوجہ کیا۔
لیکن پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے خالی کی جانے والی پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات کی باری آئی اور عمران خان نے ان میں سے 15 نشستیں جیت لیں۔ یہ پہلا جھٹکا تھا جس نے یہ عندیہ دیا کہ کچھ چل رہا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے وہی نشستیں دوبارہ جیتیں جو ان کی تھیں۔ اس کے باوجود کچھ حلقوں کے نزدیک ان کی اس کامیابی میں حکومت مخالف جذبات نے اہم کردار ادا کیا کیونکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے ایندھن اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس سے افراطِ زر اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور عوام کی قوتِ خرید شدید حد تک متاثر تھی۔ پھر اکتوبر 2022ء آیا جس میں قومی اسمبلی کی 11 نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہوئے، ان میں سے 7 نشستوں پر عمران خان خود بطور امیدوار کھڑے ہوئے اور وہ 6 نشستیں جیتنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ عمران خان، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار سے ملیر کراچی کی نشست ہار گئے جس پر پی پی پی نے کافی بڑھ چڑھ کر بات کی۔ لیکن بڑے منظرنامے پر تصویر واضح ہو رہی تھی اور وہ یہ تھی کہ عمران خان جب جب عوام کی عدالت میں گئے ہیں، ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
Tumblr media
اسی زعم میں عمران خان نے بڑی چال چلی اور جنوری 2023ء میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں کیونکہ انہیں امید تھی کہ دونوں صوبوں کے ضمنی انتخابات میں وہ درکار آئینی اکثریت حاصل کر لیں گے۔ لیکن یہ اندیشہ کہ انتخابات سے ان کی طاقت میں اضافہ ہو گا، پی ڈی ایم حکومت انتخابات کو طول دیتی رہی اور بلآخر وہ انہیں سال تک ملتوی کرنے میں کامیاب رہے۔ 8 فروری 2024ء ایک اور موقع تھا کہ عمران خان عوام کے سامنے جائیں اور اس دفعہ انہیں دبانے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ عمران خان جیل میں تھے ، ان کی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں تھا، ان کے کارکنان و رہنما زیرِحراست تھے، پارٹی رہنماؤں کی بڑی تعداد کو سیاست چھوڑنے یا کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے مجبور کیا گیا جبکہ ان کے سیاسی رہنماؤں کو انتخابات کے لیے ریلیاں تو کیا کارنر میٹنگ کرنے تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے انتخابی نتائج کی ساکھ کافی حد تک متاثر ہوئی کیونکہ کچھ حلقے جہاں سے عمران خان کے امیدوار جیت رہے تھے، وہاں مخالفین کو جتوایا گیا۔
اس کے باوجود عمران خان کے امیدواروں نے کاسٹ کیے گئے مجموعی ووٹوں میں سے ایک تہائی حاصل کیے ہیں جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا ووٹ بلاک سب سے بڑا ہے۔ نشستیں بھی انہیں زیادہ ملیں کیونکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ووٹرز کو متحرک کرنے کی ان کی حکمت عملی اچھی تھی۔ اس بات سے انکار کرنا یا اس حقیقت کو دبانے کا کوئی مطلب نہیں کہ عمران خان نے ووٹرز کے ساتھ ایک مضبوط تعلق قائم کر لیا ہے۔ انہیں جتنا زیادہ دبانے کی کوشش کی جائے گی، عوام اور ان کا تعلق اتنا ہی مضبوط ہو گا اور ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہو گا۔ اس حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ ان کی کامیابی کے پیچھے کون سے عناصر ہیں۔ کچھ کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ مخالف ووٹ ہے۔ جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ 20 ماہ تک عوام کو جس کمرتوڑ مہنگائی کا سامنا تھا، اس نے عوام کو عمران خان کی جماعت کی جانب راغب کیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ عمران خان کے لیے عوام کی پسندیدگی نہیں بلکہ یہ نواز شریف کے لیے ناپسندیدگی (حتیٰ کہ نفرت بھی کہہ سکتے ہیں) ہے جس کا نتیجہ ہم نے عام انتخابات 2024ء میں بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی کامیابی کی صورت میں دیکھا۔
ہم عمران خان کی طاقتور عوامی حمایت کے حوالے سے بات کر سکتے ہیں لیکن اس کے ختم ہونے کی امید نہیں کر سکتے۔ عمران خان کو اپنی سوچ سے بھی زیادہ کامیابی ملی ہے۔ اس لیے اب ان کی اس شاندار سیاسی کہانی کے گہرے اور بنیادی محرکات کا جائزہ لینا اہم بن چکا ہے۔ اس حوالے سے ناکام معیشت اور بدلتی ہوئی ڈیموگرافی اہمیت کی حامل ہیں جن پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ پاکستان کو سنجیدہ فیصلے درکار ہیں، اس لیے ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو فیصلہ کرنے میں نہ ہچکچائے۔ سب سے پہلے تو ہمیں مستقل طور پر مہنگی توانائی کا سامنا ہے جبکہ گھریلو گیس کے کم ہوتے ذخائر کی جگہ اب درآمد شدہ ایل این جی لے رہی ہے۔ دوسری بات، قرضوں کے غیرمعمولی بوجھ کا مطلب یہ ہے کہ معمول کے مطابق کاروبار نہیں چل پائیں گے۔ پاکستان کو ان دو حقائق، توانائی پر مبنی پیداوار کو ترک کرنا اور توانائی کے شعبے میں ترقی کو فروغ دینے کے لیے غیر ملکی قرضوں کے بجائے ملکی وسائل پر انحصار کرنے پر بیک وقت کام کرنا ہو گا۔ یہ تبدیلیاں لانے میں ناکامی کا مطلب مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہے جبکہ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور ملک کی افرادی قوت میں ہر سال 20 لاکھ افراد شامل ہورہے ہیں۔
یہ تمام نوجوان ہیں۔ یہ لوگ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب 9/11 کا واقعہ ہوا تھا۔ یہی نوجوان تیزی سے ہماری ووٹر لسٹوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات سے موازنہ کریں تو 2024ء میں 2 کروڑ 20 لاکھ افراد کا ووٹر لسٹوں میں اندراج ہوا جوکہ ایک ریکارڈ اضافہ ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں نوجوانوں کی تعداد کیا تھی۔ پاکستان بدل رہا ہے۔ اقتصادی اعتبار سے پرانے پیداواری شعبوں کو متروک قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ توانائی کی قیمتیں ہر گزرتے سال کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ جبکہ سیاسی دنیا میں جیسے جیسے نوجوان ووٹرز کے اندراج میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، پرانی سیاسی جماعتوں کی سرپرستوں کے لیے دشوار حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ جو تبدیلی کو اپنا کر اس میں خود کو ڈھال لیں گے وہی سالم رہیں گے، بصورت دیگر ان کا اس نظام میں حصہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔
خرم حسین 
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
متنازع ترین انتخابات کے حیران کن نتائج
Tumblr media
آٹھ فروری کو پاکستان کے ’متنازع ترین‘ انتخابات کے بعد نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، جس کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت نے سکون کا سانس لیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گذشتہ کئی مہینوں سے قید اور سینکڑوں مقدمات میں الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستان کے ’مقبول ترین‘ رہنما عمران خان سٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی لڑائی جتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ پارلیمان سے باہر سیاسی تنازعات اور کڑوا ترین وقت اب ممکنہ طور پر ماضی کا حصہ ہے۔ کچھ مخصوص نتائج کو چھوڑ کر عمومی نتائج کے بعد سیاسی مفاہمت کا امکان بڑھ گیا ہے۔ انتخابات کے بہت سے حیران کن نتائج میں سے تین قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن، جس کی قیادت نے 2018 میں شکست کھانے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا سہارا لیا، نتائج کے بعد کافی مایوسی کا شکار ہے۔ مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کلین سویپ کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں 70 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ پاکسان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 100 کے قریب سیٹوں پر کامیابی سمیٹی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی۔
صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کا امکان ہے جہاں پی ٹی آئی ان سے چند سیٹیں ہی پیچھے ہے، اس لیے مسلم لیگ ن کی صفوں میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جہاں پورا شریف خاندان، کم از کم چھ، اپنی اپنی نشستیں جیت چکا ہے، وہیں مسلم لیگ ن کے کئی بڑے رہنما بشمول تجربہ کار وزرا جیسے خرم دستگیر اور رانا ثنا اللہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ درحقیقت پنجاب کے بڑے شہروں بشمول گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شیخوپورہ سے مسلم لیگ ن سے منسوب گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کی شناخت فی الحال مٹ چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پی ٹی آئی سے انتخابات میں اچھی کارکردگی کی توقع نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر دھاوا بولنے کے بعد مبینہ طور پر طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ کمان اس کی شکست کی خواہاں تھی۔ بہت سے لوگوں کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کا نام مٹانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے۔ 
Tumblr media
انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم کر دیا گیا اور پی ٹی آئی کی چھتری تلے الیکشن لڑنے کی کوشش کرنے والے آزاد ارکان کے خلاف ریاستی طاقت، قید و بند، ہراسانی، ٹارگٹڈ حملے، وکٹمائزیشن اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ عوامی عزم اور جرات، جو پی ٹی آئی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں سے ظاہر ہوتی ہے، کے برعکس قابل اعتراض عدالتی فیصلے اور ان کے رہنما کی سزا اور قید و بند سے توڑنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان نے تقریباً 66 سال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عوامی طاقت ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور انتخابات کے دوران پارٹی کو مؤثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا جیسا کہ لاکھوں پاکستانی ووٹرز کے لیے پی ٹی آئی کے سینکڑوں قومی اور صوبائی امیدواروں کے انفرادی انتخابی نشان یاد رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے باوجود عوام نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مایوس نہیں کیا۔
انتخابی نتائج کا اعلان تقریباً مکمل ہو گیا اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 97 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی دوڑ میں آگے ہیں اور مسلم لیگ ن 71 اور پی پی پی 54 نشستوں کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ تاریخ ساز نتائج میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے ان انتخابات میں کلین سویپ کیا ہے ملک کے دوسرے سرے یعنی کراچی میں بھی پی ٹی آئی نے کئی نشستیں حاصل کی ہیں۔ تیسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے سابق بڑے رہنما، جنہوں نے عمران خان ان سے راہیں جدا کر لی تھیں، کو انتخابات میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی میں عمران خان کے اہم معتمد اور حامی جہانگیر ترین اور ان کے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع پرویز خٹک دونوں ہی جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔ باغی رہنماؤں نے عمران خان کی بظاہر ڈوبتی ہوئی کشتی سے اترنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ پرویز خٹک کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے خٹک خاندان کے تمام سات ارکان ہار گئے ہیں۔ 
پی ٹی آئی کے لیے اب بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ کئی سیٹوں سے اس کے امیدواروں نے نتائج کو چیلنج کر رکھا ہے۔ انتخابی نتائج شیئر کے طریقہ کار پر اس کے ارکان سوال اٹھا رہے ہیں۔ کچھ اس معاملے کو عدالتوں میں لے گئے ہیں۔ اگلی حکومت میں پی ٹی آئی کے کردار کے ساتھ ساتھ قانونی لڑائیاں بھی زور پکڑیں گی۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ اب بھی مشکل وقت ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے بہت سے اہم معاملات پر مسائل حل طلب ہیں، بشمول اس کے کہ نو مئی کی کہانی کو کیسے ختم کیا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، پارٹی اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بہترین راستے کے بارے میں سوچیں۔
 نسیم زہرہ  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
omega-news · 2 years
Text
مسلم لیگ ن کے لئے اچھی خبر
مسلم لیگ ن کے لئے اچھی خبر
: پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے نتائج کا معاملہ، الیکشن کمیشن نے پی پی 7 کی نشست کا بھی نوٹیفکیشن جاری کردیا ۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پی پی 7 سے مسلم لیگ ن کے راجہ صغیر کامیاب قرار پائے ۔ پی پی 7 میں مسترد شدہ ووٹوں کی جانچ پڑتال مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے فاتح امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا ۔ ضمنی انتخاب کے دوران مسترد شدہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بعد ریٹرننگ افسر نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
waqtnews-blog · 2 years
Text
ن لیگ نے ضمنی انتخابات میں شکست تسلیم کرلی
ن لیگ نے ضمنی انتخابات میں شکست تسلیم کرلی
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک احمد خان نے پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں شکست تسلیم کرلی۔جیو نیوز سے گفتگو میں ملک احمد خان کا کہنا تھاکہ دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ تحریک انصاف کو تاریخی فتح ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ عوام کا ووٹ ہمارے خلاف آیا ہے، عوام نے ووٹ سے اپنی رائے دی، اس کے بعد حکومت کا رہنا نہ رہنا سیکنڈری ہوجاتا ہے۔ ملک احمد خان کا کہنا تھاکہ الیکشن کے نتائج بتارہے ہیں کہ ہمارے پاس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
maqsoodyamani · 2 years
Text
اعظم خان کا سیاسی قلعہ منہدم ، رام پورلوک سبھا سیٹ پر بی جے پی کی جیت
اعظم خان کا سیاسی قلعہ منہدم ، رام پورلوک سبھا سیٹ پر بی جے پی کی جیت
اعظم خان کا سیاسی قلعہ منہدم ، رام پورلوک سبھا سیٹ پر بی جے پی کی جیت رامپور ، 26 جون ( آئی این ایس انڈیا) یوپی اور پنجاب کی دو ریاستوں میں کل تین لوک سبھا سیٹوں (اعظم گڑھ، رام پور اور سنگرور) کے علاوہ چار دیگر ریاستوں میں سات اسمبلی سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج اور رجحانات آ چکے ہیں۔بی جے پی نے اتر پردیش کی رام پور لوک سبھا سیٹ سماج وادی پارٹی سے چھین لی ہے۔ بی جے پی امیدوار گھنشیام…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
airnews-arngbad · 3 years
Text
آکاشوانی اورنگ آباد‘اُردو علاقائی خبریں تاریخ: 10 مارچ 2022 وقت: صبح 09:00-09:10
Regional Urdu Text Bulletin, Aurangabad. Date: 10 March-2022 Time: 09:00-09:10 am آکاشوانی اورنگ آباد علاقائی خبریں تاریخ: ۱۰؍ مارچ  ۲۰۲۲ء؁ وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹ ***** ***** ***** آکاشوانی اورنگ آباد ۔ کووِڈ 19- سے محفوظ رہنے کیلئے ہماری سامعین سے گذارش ہے کہ اب بھی احتیاط برتیں‘ اس سلسلے میں تین سہل احکامات پر عمل کریں۔ ماسک لگائیں‘ دو میٹر کا فاصلہ رکھیں‘ ہاتھ اور منہ کو صاف رکھیں۔کووِڈ 19- سے متعلق کسی بھی مدد یا معلومات کیلئے مرکزی ہیلپ لائن نمبر011-23 97 80 46  یا  1075  پر اور ریاستی امدادی مرکز کی ہیلپ لائن نمبر 020- 26 12 73 94  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ::::: سرخیاں:::::: پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں: ٭ ملک کی 5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کیلئے ووٹوںکی گنتی جاری۔ ٭ اسمبلی اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابی عمل کو چیلنج کرنے والی مفادِ عامہ کی عرضداشت ممبئی عدالت ِ عالیہ نے مسترد کردی۔ ٭ میڈیکل نصاب میں داخلے کے نیٖٹ امتحانات کیلئے عمر کی حد ختم۔ ٭ اقلیتی اُمور کے وزیر نواب ملِک کے استعفے کے مطالبے پر بی جے پی کا ممبئی میں احتجاجی جلوس۔ ٭ اورنگ آباد‘ پربھنی اور بیڑ اضلاع کی مصروف ضلع شاہراہوں کا ریاستی شاہراہوں کے زمرے میں شمار۔ اور۔۔٭ اورنگ آباد و جالنہ اضلاع کے چند مقامات پر غیر موسمی بارش۔ ***** ***** ***** اب خبریں تفصیل سے: اُترپردیش‘ اُتراکھنڈ‘ پنجاب‘ گوا اور منی پور کی اسمبلیوں کیلئے ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ صبح آٹھ بجے ووٹوں کی گنتی کے عمل کا آغاز ہوا۔ انتخابی کمیشن کی ویب سائٹ اور اَیپ پر انتخابی نتائج کا اعلان کیا جارہا ہے۔ آکاشوانی اور دوردرشن کے بیشتر چینل انتخابی نتائج اور تجزیاتی پروگرام نشر کررہے ہیں۔ ابتدائی رجحان کے مطابق اُتر پردیش میں بی جے پی نے سماج وادی پارٹی پر سبقت حاصل کررکھی ہے‘ جبکہ گوا اور منی پور میں کانگریس نے ابتدائی برتری حاصل کی ہے۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی کانگریس سے آگے چل رہی ہے‘ جبکہ اُتراکھنڈ میں بی جے پی اور کانگریس کے مابین سخت مقابلہ ہے۔ ***** ***** ***** اسمبلی اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابی عمل کو چیلنج کرنے والی دو عرضداشت ممبئی عدالت ِ عالیہ نے کل مسترد کردی۔ بی جے پی رہنماء گریش مہاجن اور جنک وِیاس نے یہ درخواستیں داخل کی تھیں۔ اسمبلی اسپیکر کا انتخاب خفیہ رائے دہی کی بجائے صوتی رائے دہی کے ذریعے کروانے کے حکومت کے فیصلے کو مہاجن نے چیلنج کیا تھا۔ اس درخواست کو عدالت نے ناقابلِ سماعت قرار دیا۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ 8 ماہ قبل قانون ساز کونسل کے 12  ارکان سے متعلق فیصلہ دیا گیا تھا تاہم اس فیصلے کی قدر نہیں کی گئی۔ نیز آئینی عہدوں پر فائز  2  افراد کا ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہے۔ مفادِ عامہ کی اس عرضداشت کی سماعت کیلئے عدالت نے گریش مہاجن سے 10 لاکھ روپئے اور وِیاس سے 2 لاکھ روپئے زرِ ضمانت جمع کروانے کیلئے کہا تھا۔ کل کے فیصلے میں یہ رقم بھی عدالت نے ضبط کرلی۔ ***** ***** ***** ویب سیریز کے ذریعے خواتین کی کردار کشی اور فحش تشہیر کی شکایات پر آشا ویب سیریز پر پابندی عائد کرنے کی کاروائی مہاراشٹر پولس نے شروع کررکھی ہے۔ وزیرِ داخلہ دلیپ ولسے پاٹل نے یہ اطلاع اسمبلی میں دی۔ اس دوران شکتی بل منظوری کیلئے صدرِ جمہوریہ کو ارسال کردیا گیا ہے۔ دلیپ ولسے پاٹل نے کہا کہ اس بل کی منظوری کے بعد خواتین کو انصاف کی فراہمی مؤثر طور پر کی جاسکے گی۔ ***** ***** ***** پربھنی ضلع میں پربھنی تا جھیرو پھاٹہ 12 کلو میٹر سڑک پر تارکول بچھانے کا کام سست روی سے کیے جانے کے سبب یہ کام گتے دار سے واپس لیے جانے کی تجویز مرکزی وزارتِ حمل و نقل کو روانہ کردی گئی ہے۔ قانون ساز کونسل میں وقفۂ سوالات کے دوران یہ اطلاع مملکتی وزیر برائے تعمیراتِ عامہ دتاتریہ بھرنے ‘نے دی۔ اس سڑک پر آمد و رفت کو برقرار رکھنے کیلئے گتے دار کی زرِ ضمانت میں سے ترمیمی ٹینڈر بھی جاری کیے گئے ۔ ***** ***** ***** گریجویشن میڈیکل نصاب میں داخلے کیلئے ہونے والے NEET امتحانات کیلئے زیادہ سے زیادہ عمر کی حد ختم کردی گئی ہے۔ قومی میڈیکل کمیشن کے چوتھے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ قبل ازیں کھلے زمرے کیلئے امیدوار کی عمر زیادہ سے زیادہ 25 برس اور ریزرویشن کیلئے امیدواروں کیلئے یہ عمر 30 برس کی شرط تھی۔ ***** ***** ***** ریاست میں کل کووِڈ سے متاثرہ 359 نئے مریض پائے گئے۔ جس کے بعد ریاست میں اب تک کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی کُل تعداد 78 لاکھ 69 ہزار 857 ہوگئی ۔ کل ریاست میں کسی بھی کورونا مریض کی موت واقع نہیں ہوئی۔ ریاست میں اس وباء کے باعث ایک لاکھ 43 ہزار 754  افراد کی موت واقع ہوچکی ہے۔ اب بھی ریاست کے مختلف اسپتالوں میں 3 ہزار 9 مریض زیرِ علاج ہیں۔ ***** ***** ***** مراٹھواڑہ میں کل کورونا کے 14 مریضوں کی جانچ مثبت پائی گئی۔ عثمان آباد ضلع میں 5‘ بیڑ 4‘ اورنگ آباد اور لاتور اضلاع میں 2-2‘ اور ناندیڑ ضلع میں کورونا کے ایک نئے مریض کی موجودگی سامنے آئی۔ پربھنی‘ ہنگولی اور جالنہ اضلاع میں کل ایک بھی کورونا مریض نہیں پایا گیا۔ ***** ***** ***** ریاست کے وزیر برائے اقلیتی اُمور کے استعفے کے مطالبے پر بی جے پی نے کل ممبئی کے آزاد میدان سے احتجاجی جلوس نکالا۔ پولس نے اس جلوس کو میٹرو سینما کے قریب روک کر دیویندر پھڑنویس اور پروین دریکر سمیت بی جے پی کے دیگر رہنمائوں کو حراست میں لیا۔ انڈرورلڈ ڈان دائود ابراہیم کے رفقاء سے زمین کی خرید و فروخت کرنے پر بی جے پی کی جانب سے نواب ملِک کے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں حزبِ اختلاف کے قائد دیویندر پھڑنویس نے کہا کہ جب تک ریاستی حکومت نواب ملِک کا استعفیٰ نہیں لیتی تب تک بی جے پی کا احتجاج جاری رہے گا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ اس زمین کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا استعمال دہشت گردی کیلئے ہوا‘ قانون ساز کونسل میں حزبِ اختلاف کے قائد پروین دریکر‘ ریاستی صدر چندر کانت پاٹل‘ سدھیر منگنٹیوار‘ آشیش شیلار اور دیگر رہنمائوں نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔ ***** ***** ***** اورنگ آباد‘ پربھنی اور بیڑ اضلاع میں سڑکوں پر آمد و رفت کی شرح اور سڑکوں کے طرزِ استعمال کی بنیاد پر ان اضلاع کی اہم ضلع شاہراہوں کو ریاستی شاہراہ اور دیہی سڑکوں کو ضلع شاہراہ کے زمرے میں شامل کرلیا گیا ہے۔ وزیر برائے تعمیراتِ عامہ اشوک چوہان کی جانب سے اس فیصلے کو منظوری دئیے جانے کے بعد حکومت کی جانب سے اس خصوص میں سرکاری مکتوب جاری کیا گیا۔ ***** ***** ***** بیڑ ضلع کی دُوارکا داس ناگری سہکاری بینک کے کام کاج پر ریزرو بینک آف انڈیا نے ضوابط کے تحت 6 ماہ کی پابندی عائد کردی ہے۔ اس بینک پر پہلے ہی ایڈمنسٹریٹر تعینات ہے۔ بینک کے ذریعے قرضے تقسیم کرنے میں ہوئی بدعنوانیوں پر بینک کے سابق ڈائریکٹرز کیخلاف مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔ ***** ***** ***** ناندیڑ تعلقے کے 8 دیہاتوں میں مکانات کی بذریعے ڈرون پیمائش کا کام مکمل کرلیا گیا ہے۔ ان قصبوں کے شہریوں کو یہ نقشے تقسیم کیے جائیں گے۔ یہ نقشے آج سے لینڈ ریکارڈ کے دفتر میں 12 مارچ تک تقسیم کیے جائیں گے۔ ***** ***** ***** اورنگ آباد ضلع میں کل چند مقامات پر غیر موسمی بارش ہوئی۔ کنڑ‘ ویجا پور‘ پشور‘ سوئیگائوں میں یہ بارش ریکارڈ کی گئی۔ اورنگ آباد شہر کے چند علاقوں میں بھی ہلکی بارش ہوئی۔ پھلمبری تعلقے کے بابرا میں اور کرماڑ میں بھی رِم جھم بارش ہوئی۔ جالنہ ضلع کے متعدد مقامات پر بھی بارش ہونے کی خبریں ہیں۔ اسی دوران ریاست میں آئندہ دو دِنوں میں کوکن‘ وسطی مہاراشٹر اور مراٹھواڑہ کے چند مقامات پر غیر موسمی بارش کی پیش گوئی محکمۂ موسمیات نے کی ہے‘ جبکہ ودربھ ریجن خشک رہے گا۔ ***** ***** ***** ::::: سرخیاں:::::: آخرمیں چند اہم خبروں کی سرخیاں دوبارہ سن لیجیے: ٭ ملک کی 5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کیلئے ووٹوںکی گنتی جاری۔ ٭ اسمبلی اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابی عمل کو چیلنج کرنے والی مفادِ عامہ کی عرضداشت ممبئی عدالت ِ عالیہ نے مسترد کردی۔ ٭ میڈیکل نصاب میں داخلے کے نیٖٹ امتحانات کیلئے عمر کی حد ختم۔ ٭ اقلیتی اُمور کے وزیر نواب ملِک کے استعفے کے مطالبے پر بی جے پی کا ممبئی میں احتجاجی جلوس۔ ٭ اورنگ آباد‘ پربھنی اور بیڑ اضلاع کی مصروف ضلع شاہراہوں کا ریاستی شاہراہوں کے زمرے میں شمار۔ اور۔۔ ٭ اورنگ آباد و جالنہ اضلاع کے چند مقامات پر غیر موسمی بارش۔ ***** ***** *****
0 notes