Tumgik
#پنجاب میں ضمنی انتخابات
waqtnews-blog · 2 years
Text
حمزہ شہباز نے صوبائی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کر لیا
حمزہ شہباز نے صوبائی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کر لیا
وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے آج صوبائی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کرلیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی اور حمایتی آزاد ارکان اسمبلی شرکت کریں گے۔ مزید پڑھیے: ن لیگ نے ضمنی انتخابات میں شکست تسلیم کرلی ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں ضمنی انتخابات کے بعدکی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اتوار کے روز پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
پنجاب میں ضمنی انتخابات، چیف الیکشن کمشنر نے متعلقہ افسران کو اہم ہدایات جاری کردیں
پنجاب میں ضمنی انتخابات، چیف الیکشن کمشنر نے متعلقہ افسران کو اہم ہدایات جاری کردیں
اسلام آ باد (نمائندہ عکس ) پنجاب کے 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات کی پیش نظر چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے متعلقہ افسران کو اہم ہدایات جاری کردیں گئیں ہیں۔ تفصیلات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی جانب سے پنجاب کے 20 حلقوں میں 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخاب کے حوالے سے افسران سے رابطہ کیا گیا ہے۔ اس دوران افسران کو ہدایات دی گئیں کہ وہ 20 حلقوں میں انتخابات کو صاف شفاف اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
ای سی پی نے سندھ، پنجاب اور کے پی کے 13 حلقوں میں ضمنی انتخابات ملتوی کر دیے۔
ای سی پی نے سندھ، پنجاب اور کے پی کے 13 حلقوں میں ضمنی انتخابات ملتوی کر دیے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی عمارت۔ – فیس بک/فائل اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے جمعرات کو سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے 13 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخاب ملتوی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان نے آج ہونے والی میٹنگ کے دوران فیصلہ کیا کہ 11 ستمبر، 25 ستمبر اور 2 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے لیے پولنگ حالیہ طوفانی سیلاب اور اس سے ہونے والی تباہی کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
‘پی ٹی آئی رہنماؤں پر مقدمات حکومت کی پنجاب میں ضمنی انتخابات کے خلاف منصوبہ بندی ہے’
‘پی ٹی آئی رہنماؤں پر مقدمات حکومت کی پنجاب میں ضمنی انتخابات کے خلاف منصوبہ بندی ہے’
اسلام آباد : تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں پر مقدمات حکومت کی پنجاب میں ضمنی انتخابات کے خلاف منصوبہ بندی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی لانگ مارچ کے دوران پی ٹی آئی رہنماؤں پر مقدمات کی سماعت میں شاہ محمود، عمران اسماعیل، عامر کیانی سیشن عدالت میں پیش ہوئے۔ اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما شاہ محمودقریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا آج پی ٹی آئی کی قیادت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 3 months
Text
عمران خان ہر بار عوامی عدالت میں سرخرو کیوں ہوتے ہیں؟
Tumblr media
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آج عمران خان کو بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرنا کسی بھی طرح قابلِ فہم نہیں۔ تمام پیش گوئیاں کہ ایک بار اقتدار سے جانے کے بعد عمران خان کی مقبولیت کا سورج جلد غروب ہو جائے گا، غلط ثابت ہوئیں۔ جیسے ہی معاملات ان کے خلاف جانے لگتے ہیں، کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس سے ان کی مقبولیت میں ایک بار پھر اضافہ ہو جاتا ہے۔ عوام سے تعلق ہمیشہ سے ان کی سیاست کا اہم حصہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر اپریل 2022ء میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد عمران خان نے مئی 2022ء میں اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن لانگ مارچ اس وجہ سے ناکام رہا کیونکہ اتنی تعداد میں لوگ جمع نہیں ہو پائے کہ جس سے کوئی تبدیلی لائی جاتی۔ اسلام آباد پہنچ کر اچانک عمران خان نے لانگ مارچ ختم کر دیا اور بنی گالا چلے گئے۔ یہ گمان کیا جارہا تھا کہ اگست 2014ء کے نام نہاد سونامی مارچ نے ان کے عروج میں جو کردار ادا کیا، اب وہ ہیجان کی سیاست کام نہیں آئے گی کیونکہ اب انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل نہیں جوکہ اس سے قبل ان کی سیاست کا اہم عنصر تھی۔ اس کے باوجود عمران خان نے غرور اور دھوکے سے بھری شدید بیان بازی کے ذریعے لوگوں کی بڑی تعداد کو متوجہ کیا۔
لیکن پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے خالی کی جانے والی پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات کی باری آئی اور عمران خان نے ان میں سے 15 نشستیں جیت لیں۔ یہ پہلا جھٹکا تھا جس نے یہ عندیہ دیا کہ کچھ چل رہا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے وہی نشستیں دوبارہ جیتیں جو ان کی تھیں۔ اس کے باوجود کچھ حلقوں کے نزدیک ان کی اس کامیابی میں حکومت مخالف جذبات نے اہم کردار ادا کیا کیونکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے ایندھن اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس سے افراطِ زر اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور عوام کی قوتِ خرید شدید حد تک متاثر تھی۔ پھر اکتوبر 2022ء آیا جس میں قومی اسمبلی کی 11 نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہوئے، ان میں سے 7 نشستوں پر عمران خان خود بطور امیدوار کھڑے ہوئے اور وہ 6 نشستیں جیتنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ عمران خان، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار سے ملیر کراچی کی نشست ہار گئے جس پر پی پی پی نے کافی بڑھ چڑھ کر بات کی۔ لیکن بڑے منظرنامے پر تصویر واضح ہو رہی تھی اور وہ یہ تھی کہ عمران خان جب جب عوام کی عدالت میں گئے ہیں، ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
Tumblr media
اسی زعم میں عمران خان نے بڑی چال چلی اور جنوری 2023ء میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں کیونکہ انہیں امید تھی کہ دونوں صوبوں کے ضمنی انتخابات میں وہ درکار آئینی اکثریت حاصل کر لیں گے۔ لیکن یہ اندیشہ کہ انتخابات سے ان کی طاقت میں اضافہ ہو گا، پی ڈی ایم حکومت انتخابات کو طول دیتی رہی اور بلآخر وہ انہیں سال تک ملتوی کرنے میں کامیاب رہے۔ 8 فروری 2024ء ایک اور موقع تھا کہ عمران خان عوام کے سامنے جائیں اور اس دفعہ انہیں دبانے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ عمران خان جیل میں تھے ، ان کی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں تھا، ان کے کارکنان و رہنما زیرِحراست تھے، پارٹی رہنماؤں کی بڑی تعداد کو سیاست چھوڑنے یا کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے مجبور کیا گیا جبکہ ان کے سیاسی رہنماؤں کو انتخابات کے لیے ریلیاں تو کیا کارنر میٹنگ کرنے تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے انتخابی نتائج کی ساکھ کافی حد تک متاثر ہوئی کیونکہ کچھ حلقے جہاں سے عمران خان کے امیدوار جیت رہے تھے، وہاں مخالفین کو جتوایا گیا۔
اس کے باوجود عمران خان کے امیدواروں نے کاسٹ کیے گئے مجموعی ووٹوں میں سے ایک تہائی حاصل کیے ہیں جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا ووٹ بلاک سب سے بڑا ہے۔ نشستیں بھی انہیں زیادہ ملیں کیونکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ووٹرز کو متحرک کرنے کی ان کی حکمت عملی اچھی تھی۔ اس بات سے انکار کرنا یا اس حقیقت کو دبانے کا کوئی مطلب نہیں کہ عمران خان نے ووٹرز کے ساتھ ایک مضبوط تعلق قائم کر لیا ہے۔ انہیں جتنا زیادہ دبانے کی کوشش کی جائے گی، عوام اور ان کا تعلق اتنا ہی مضبوط ہو گا اور ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہو گا۔ اس حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ ان کی کامیابی کے پیچھے کون سے عناصر ہیں۔ کچھ کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ مخالف ووٹ ہے۔ جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ 20 ماہ تک عوام کو جس کمرتوڑ مہنگائی کا سامنا تھا، اس نے عوام کو عمران خان کی جماعت کی جانب راغب کیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ عمران خان کے لیے عوام کی پسندیدگی نہیں بلکہ یہ نواز شریف کے لیے ناپسندیدگی (حتیٰ کہ نفرت بھی کہہ سکتے ہیں) ہے جس کا نتیجہ ہم نے عام انتخابات 2024ء میں بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی کامیابی کی صورت میں دیکھا۔
ہم عمران خان کی طاقتور عوامی حمایت کے حوالے سے بات کر سکتے ہیں لیکن اس کے ختم ہونے کی امید نہیں کر سکتے۔ عمران خان کو اپنی سوچ سے بھی زیادہ کامیابی ملی ہے۔ اس لیے اب ان کی اس شاندار سیاسی کہانی کے گہرے اور بنیادی محرکات کا جائزہ لینا اہم بن چکا ہے۔ اس حوالے سے ناکام معیشت اور بدلتی ہوئی ڈیموگرافی اہمیت کی حامل ہیں جن پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ پاکستان کو سنجیدہ فیصلے درکار ہیں، اس لیے ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو فیصلہ کرنے میں نہ ہچکچائے۔ سب سے پہلے تو ہمیں مستقل طور پر مہنگی توانائی کا سامنا ہے جبکہ گھریلو گیس کے کم ہوتے ذخائر کی جگہ اب درآمد شدہ ایل این جی لے رہی ہے۔ دوسری بات، قرضوں کے غیرمعمولی بوجھ کا مطلب یہ ہے کہ معمول کے مطابق کاروبار نہیں چل پائیں گے۔ پاکستان کو ان دو حقائق، توانائی پر مبنی پیداوار کو ترک کرنا اور توانائی کے شعبے میں ترقی کو فروغ دینے کے لیے غیر ملکی قرضوں کے بجائے ملکی وسائل پر انحصار کرنے پر بیک وقت کام کرنا ہو گا۔ یہ تبدیلیاں لانے میں ناکامی کا مطلب مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہے جبکہ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور ملک کی افرادی قوت میں ہر سال 20 لاکھ افراد شامل ہورہے ہیں۔
یہ تمام نوجوان ہیں۔ یہ لوگ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب 9/11 کا واقعہ ہوا تھا۔ یہی نوجوان تیزی سے ہماری ووٹر لسٹوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات سے موازنہ کریں تو 2024ء میں 2 کروڑ 20 لاکھ افراد کا ووٹر لسٹوں میں اندراج ہوا جوکہ ایک ریکارڈ اضافہ ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں نوجوانوں کی تعداد کیا تھی۔ پاکستان بدل رہا ہے۔ اقتصادی اعتبار سے پرانے پیداواری شعبوں کو متروک قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ توانائی کی قیمتیں ہر گزرتے سال کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ جبکہ سیاسی دنیا میں جیسے جیسے نوجوان ووٹرز کے اندراج میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، پرانی سیاسی جماعتوں کی سرپرستوں کے لیے دشوار حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ جو تبدیلی کو اپنا کر اس میں خود کو ڈھال لیں گے وہی سالم رہیں گے، بصورت دیگر ان کا اس نظام میں حصہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔
خرم حسین 
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
gamekai · 1 year
Text
پیپلزپارٹی نے 2 صوبوں میں انتخابات میں تاخیر کا معاملہ پی ڈی ایم پر چھوڑ دیا
اسلام آباد : پیپلزپارٹی نے سینئر رہنماؤں کی انتخابات میں تاخیر کی مخالفت کے بعد دو صوبوں میں انتخابات کا معاملہ پی ڈی ایم پر چھوڑدیا۔ تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی نے2صوبوں میں انتخابات میں تاخیر کامعاملہ پی ڈی ایم پرچھوڑدیا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ پیپلزپارٹی کی اکثریت نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ضمنی انتخابات میں ممکنہ تاخیر کی مخالفت کردی، پی پی پارلیمانی بورڈمیٹنگ میں سینئر رہنماؤں نے انتخابات…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
spitonews · 1 year
Text
پنجاب، خیبر پختونخوا میں انتخابات کیلئے چیف الیکشن کمشنر نے اہم اجلاس طلب کرلیا
پنجاب کے عام انتخابات یکم سے 10 اپریل جبکہ کے پی میں 10 سے 15 اپریل تک کروائے جانے کی تجویز (فوٹو: فائل)  اسلام آباد: پنجاب اور خیبر پختون خوا میں عام انتخابات اور ضمنی الیکشن کے معاملے پر چیف الیکشن کمیشن نے اہم اجلاس طلب کرلیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت اہم اجلاس آج ہوگا، عام انتخابات اور ضمنی الیکشن کے اخراجات اور تیاریوں پر بریفنگ دی جائے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 1 year
Text
پنجاب، خیبر پختونخوا میں انتخابات کیلئے چیف الیکشن کمشنر نے اہم اجلاس طلب کرلیا
پنجاب کے عام انتخابات یکم سے 10 اپریل جبکہ کے پی میں 10 سے 15 اپریل تک کروائے جانے کی تجویز (فوٹو: فائل)  اسلام آباد: پنجاب اور خیبر پختون خوا میں عام انتخابات اور ضمنی الیکشن کے معاملے پر چیف الیکشن کمیشن نے اہم اجلاس طلب کرلیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت اہم اجلاس آج ہوگا، عام انتخابات اور ضمنی الیکشن کے اخراجات اور تیاریوں پر بریفنگ دی جائے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
htvpakistan · 2 years
Text
بیک ڈور رابطے ختم، اِن ہاؤس تبدیلی کا منصوبہ کھٹائی میں، پرویز الٰہی محفوظ
بیک ڈور رابطے ختم، اِن ہاؤس تبدیلی کا منصوبہ کھٹائی میں، پرویز الٰہی محفوظ
پنجاب میں ضمنی انتخابات میں بدترین شکست۔ پی ڈی ایم کا اِن ہاؤس تبدیلی کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ پارٹی ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم سے بیک ڈوررابطے رکھنے والے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے نتائج کے بعد رابطے منقطع کر دئیے۔ باغی ارکان نے مؤقف اپنایا کہ مسلم لیگ ن نے اپنی 2 نشستیں کھو دیں، یہ ہمیں کیا بچائیں گے یا آئندہ انتخابات میں جتوائیں گے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اپنی پارٹی کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
umeednews · 2 years
Text
ضمنی انتخابات: تحریک انصاف 8 اور پیپلزپارٹی 2 نشستوں پر کامیاب
ضمنی انتخابات: تحریک انصاف 8 اور پیپلزپارٹی 2 نشستوں پر کامیاب
قومی اور پنجاب اسمبلی کے 11 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے مکمل نتائج کے مطابق تحریک انصاف 8 اور پیپلزپارٹی نے 2 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی جبکہ ایک نشست ن لیگ کے حصے میں آئی۔ قومی اسمبلی کے جن حلقوں پر ضمنی انتخاب ہوا ان میں خیبر پختونخوا کے 3، کراچی کے 2 اور پنجاب کے 3 حلقے شامل ہیں جبکہ تینوں صوبائی نشستیں پنجاب اسمبلی کی ہیں۔ ضمنی انتخابات کے لئے 11 حلقوں میں 2 ہزار 937 پولنگ اسٹیشنز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
waqtnews-blog · 2 years
Text
مریم نواز شریف نے بھی شکست تسلیم کر لی
مریم نواز شریف نے بھی شکست تسلیم کر لی
پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے ضمنی انتخابات میں اپنی جماعت کی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کو شکست تسلیم کرنا چاہیے عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے اور دل بڑا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں کمزوریاں ہیں ان کی نشاندھی کر کے انہیں دور کرنے کے لیے میںنے کی ضرورت ہے۔ انشاء اللہ خیر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
دسمبر یا جنوری، جب بھی انتخابات ہوں گے تو نواز شریف آکر قیادت خود کریں گے'رانا ثناء اللہ
دسمبر یا جنوری، جب بھی انتخابات ہوں گے تو نواز شریف آکر قیادت خود کریں گے’رانا ثناء اللہ
لاہور (نمائندہ عکس) وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے واضح کیا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑی گئیں تو وفاقی حکومت برقرار رہے گی ،ضمنی یا عام انتخابات دونوں صورتوں میں انتخابی مہم کی قیادت نواز شریف کریں گے،پنجاب میں عدم اعتماد پیش کرنی ہے یا نہیں، اس پر فیصلہ نہیں ہوا، عمران خان سے مذاکرات پر اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد لائحہ عمل سامنے آئے گا ،کوئی بیک ڈور رابطے نہیں ہو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
حکومت نے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ہمیں ہرانے کی کوشش کی، عمران خان
حکومت نے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ہمیں ہرانے کی کوشش کی، عمران خان
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بدھ کو عوام سے خطاب کر رہے ہیں۔ – اسکرین گریب/جیو نیوز پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے بدھ کے روز ایک ٹیلی ویژن خطاب کیا جس میں عوام کی حمایت کا اظہار کرنے اور گزشتہ رات پی ٹی آئی کے حق میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جشن منانے پر سڑکوں پر آنے پر شکریہ ادا کیا۔ سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کو عہدے سے ہٹانے کے بعد پرویز الٰہی کو پنجاب کا نیا وزیراعلیٰ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
کیا اپنوں کو ہی نوازنے آئے تھے؟
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید 8 معاونین خصوصی مقرر کر دیے ہیں جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور اس نئے تقرر کے بعد کابینہ کی تعداد 70 ہو گئی ہے۔ برسوں قبل رقبے میں سب سے بڑا اور آبادی میں سب سے چھوٹے صوبے میں صرف ایک رکن بلوچستان اسمبلی اپوزیشن میں رہ گیا تھا اور باقی تمام ارکان اسمبلی کو بلوچستان کابینہ میں مختلف عہدوں سے نواز دیا گیا تھا اور اب ایک نئی مثال موجودہ اتحادی حکومت میں پیش کی گئی ہے جس میں 11 جماعتیں شامل ہیں اور صرف دو چھوٹی جماعتیں ایسی ہیں جن کو حکومتی عہدہ نہیں ملا۔ اے این پی کو کے پی کی گورنر شپ دی جانی تھی جس میں مولانا فضل الرحمن رکاوٹ بنے تو ایک قومی نشست رکھنے والی اے این پی کو وفاقی وزارت دینے کی کوشش کی گئی مگر انھوں نے لینے سے انکار کر دیا اور سابق وزیر اعلیٰ کے پی آفتاب شیرپاؤ بھی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں اور اب 8 معاونین خصوصی کا حصہ بھی پیپلز پارٹی کو دیا گیا ہے کیونکہ سندھ میں برسر اقتدار اور اتحادی حکومت کی دوسری بڑی جماعت ہے جس کے پاس متعدد اہم وفاقی وزارتیں ہیں۔
قومی اسمبلی میں 85 نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ (ن) نے 5 ماہ قبل وزارت عظمیٰ اور بعض اہم وزارتیں لی تھیں جس کے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سیاسی کم اور کاروباری زیادہ ہیں اور انھوں نے ملک میں مہنگائی بڑھا کر ماضی کی پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) کو جولائی کے ضمنی انتخابات میں شکست سے دوچار کرا کر (ن) لیگ سے پنجاب کی حکومت بھی گنوائی اور آئی ایم ایف سے قسطیں ملنے کے بعد صورتحال میں بہتری کا جو خواب انھوں نے (ن) لیگی قیادت کو دکھایا تھا وہ بھی چکنا چور ہو گیا اور قرضے کی دو قسطیں ملنے کے بعد ڈالر کی مسلسل اڑان جاری ہے اور مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے جس کی ذمے داری خود لینے کے بجائے وزیر خزانہ سیلاب پر ڈال کر بری الذمہ ہو جائیں گے اور مفتاح اسمٰعیل کے اس دوسرے تجربے کی ناکامی کے بعد دس اکتوبر کے بعد وہ آئینی طور پر وزیر خزانہ نہیں رہ سکیں گے۔
محکمہ ریلوے کے ماضی کے کامیاب وزیر خواجہ سعد رفیق کو نہ جانے کیوں ہوا بازی کا محکمہ وزیر اعظم نے دیا ہوا ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف کی واپسی کی آئے دن تاریخیں دینے والے وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف سمیت متعدد وزیر محکموں سے محروم ہیں۔ بھٹو دور میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے میاں خورشید تو بھٹو حکومت کے خاتمے تک وزیر بے محکمہ ہی رہے تھے اور انھیں چار سال تک عہدہ نہیں ملا تھا جب کہ موجودہ اتحادی حکومت کا تو مستقبل بھی نظر نہیں آ رہا کہ کب اتحادی روٹھ جائیں یا کب کسی کے اشارے پر صدر مملکت وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیں اور کب نئے انتخابات کا بگل بج جائے۔ اتحادی حکومت میں یہ حال ہے کہ ان کی اپنی ہی پارٹی کے وزیر توانائی خرم دستگیر ہی اپنے وزیر اعظم کے اعلان کی تردید کر رہے اور کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کے اعلان کردہ تین سو یونٹوں تک فیول ایڈجسٹمنٹ کی ر��م معاف نہیں کی جا رہی ہے بلکہ عارضی طور پر ملتوی کی جا رہی ہے جو یقینی طور پر سردیوں میں بجلی کے کم استعمال کے نتیجے میں جب بل کم ہوں گے تو یہ فیول ایڈجسٹمنٹ رقم وصول کر لی جائے گی۔
ملک بھر میں وزیر توانائی خرم دستگیر کے اپنے ضلع گوجرانوالہ سمیت بجلی بلوں کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ بل اور ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کی جا رہی ہیں، مظاہرین بل جمع نہ کرانے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت میں بڑے حصے کی حامل مسلم لیگ (ن) سے پوچھ رہے ہیں کہ بیوی بچوں کا پیٹ پالیں یا بجلی کے بھاری بل ادا کریں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف بھی عوام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پٹرول کی بچت کے لیے عوام پیدل چلیں یا سائیکلوں پر سفر کریں اور بجلی کی بھی بچت کریں تاکہ بجلی کے بل کم آئیں۔ وزیر توانائی سمیت متعدد (ن) لیگی وزیروں نے بارشوں سے قبل ملک میں بجلی کی بے پناہ لوڈ شیڈنگ کم ہونے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے مگر سخت گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ مزید بڑھ گئی تھی۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق تو ملک میں حکومت کا وجود ہے ہی نہیں بلکہ موقعہ پرستوں کا ایک ٹولہ ہے جو جلد سے جلد اپنے اقتداری حصے وصول کرنے میں دن رات مصروف ہے شاید انھیں خطرہ ہے کہ نہ جانے کب اتحادی حکومت ختم ہو جائے اس لیے زیادہ سے زیادہ مفادات اور مال سمیٹ لیا جائے جس میں وہ کمی نہیں کر رہے اور اپنوں کو نواز بھی رہے ہیں۔
گیارہ بارہ جماعتوں کی حکومتوں میں شامل سیاسی رہنما اپنے اتحادیوں کو بھی بھول چکے ہیں جن سے وعدے کر کے شہباز شریف کو اپنا وزیراعظم منتخب کرایا تھا۔ پیپل�� پارٹی سندھ کا گورنر ایم کیو ایم کا بنوا سکی نہ کے پی میں اے این پی کو گورنری دلا سکی اور حکومت بلوچستان میں پانچ ماہ بعد بھی اپنے اتحادی کو گورنر کا عہدہ نہیں دلا سکی ہے البتہ آئے روز وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کے نوٹیفکیشن ضرور جاری کیے جا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے پی اور بلوچستان میں اپنے گورنر لگوانے کے لیے کوشاں ہیں اور باقی اتحادیوں کو کچھ نہیں ملا۔ مولانا کے صاحبزادے کے پاس مواصلات جیسی اہم وزارت اور جے یو آئی کے تین وزیر بھی حکومت کا حصہ ہیں۔ ایک سابق سینئر بیورو کریٹ نے اپنے ایکسپریس میں شایع ہونے والے کالم میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان سے بیرون ملک سرمایہ منتقل کرانے، شہریت دلوانے جیسے کام کرانے کے ایک ماہر نے انھیں بتایا ہے کہ اتحادی حکومت کے لوگ اپنا کمایا گیا ناجائز مال بیرون ملک محفوظ کرانے میں پہلے والوں سے بھی زیادہ پیش پیش ہیں اور بہت جلدی یہ کام کرا رہے ہیں۔
اتحادی حکومت کو عمران حکومت کی نااہلی اور آئی ایم ایف سے طے معاملات کا پتا تھا انھوں نے ریاست بچانے کی آڑ میں عمران خان کے خوف اور مزید مقدمات سے بچنے کے لیے عمران خان کو ہٹایا تھا یہ بھی سابق حکومت کی طرح عوام کے ہمدرد ہیں نہ ہی عوام کو ریلیف دینے آئے تھے بلکہ مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم کرنے عوام کے لیے بجلی گیس، پٹرول مہنگا کرنے آئے تھے۔ متعدد وزرا اپنا سوٹ پہننے کا شوق پورا کرنے آئے تھے تاکہ میڈیا میں منفرد نظر آئیں کیونکہ سوٹ پہنے بغیر یہ خود کو حاکم نہیں سمجھتے۔ اتحادی حکومت کو بھی عوام سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ انھوں نے عوام مخالفانہ اقدامات سے عوام کے دلوں میں اپنے لیے دوریاں بڑھا لی ہیں اور سب نے اپنوں کو نوازنا تھا اور مزید نوازیں گے۔ اب ان سے اچھائی کی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیے۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
تیس اپریل کو الیکشن کرانا آئینی تقاضا ہے
Tumblr media
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تجویز پر صدر ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 57 کے تحت پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کرانے کے لیے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کر دی ہے جب کہ صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی کی تاریخ کا تعین گورنر خیبر پختونخواہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر کریں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داری سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے میں ادا کی ہے اور بادی النظر میں یہ اہم اقدام ملکی استحکام کے لیے نیک شگون ثابت ہو گا۔ اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر صدر مملکت نے 30 اپریل کو صوبہ پنجاب میں جنرل الیکشن کرانے کی راہ ہموار کر دی ہے جو پانچ سال کی مدت کے لیے ہوں گے۔ اس کے برعکس میڈیا میں جو مناظر پیش کیے جا رہے ہیں اس سے یوں نظر آ رہا ہے کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن انتظامات ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں اور حیرت انگیز طور پر وفاقی حکومت کی جانب سے بھی مقررہ تاریخ مقرر ہونے پر سرکاری موقف سامنے نہیں آیا ہے۔
میری اطلاع کے مطابق وفاقی حکومت اس کے قانونی پہلوؤں پر غور و غوض کر رہی ہے اور مردم شماری اور مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی ریفرنس دائر کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 86 کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس میں آئین کے آرٹیکل 51 کی بنیاد پر نئی مردم شماری اور پرانی مردم شماری کے حوالے سے پرانی حلقہ بندیاں اور نئی حلقہ بندیوں کے تضادات کو مدِنظر رکھنا ہو گا اور کوشش کی جائے گی کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے تناظر میں ایسی راہ نکالی جائے کہ ملک میں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن میں منعقد کرا کے سیاسی استحکام کی طرف اہم قدم اٹھایا جائے۔ موجودہ حالات میں منقسم الیکشن کروانے سے پاکستان میں سیاسی استحکام کا فقدان برقرار رہے گا۔ جس سیاسی جماعت نے ان دونوں صوبائی اسمبلیوں میں کامیابی حاصل کر لی، اسی جماعت کو وفاق میں حکومت سازی کا سنہرا موقع مل جائے گا۔
Tumblr media
اگر جمہوری ممالک کی روایات کو مدنظر رکھا جائے تو کئی جمہوری ممالک نے غیر معمولی حالات میں انتخابات ملتوی یا موخر کیے تھے۔ انڈیا میں 1973 کی ایمرجنسی کی آڑ میں ایک سال اور ریاستی انتخابات 10 سال ملتوی ہوئے۔ انڈیا کے الیکشن قوانین کے مطابق ضمنی انتخابات کے لیے مدت کا تعین مقرر نہیں کیا گیا اور ضمنی انتخابات متعین سال کے بعد کرائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق 60 روز میں انتخابات کا انعقاد نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا حالیہ فیصلہ حکومتی اور اپوزیشن حلقے اپنی اپنی پسند کی تشریح کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کو اصولی طور پر نئی مردم شماری کے آئینی اور قانونی پہلوئوں کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے تھا اب جو دو صوبوں میں انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے انتخابات کے موقعے پر جو آئینی، قانونی افراتفری دیکھنے میں آئے گی اس سے پاکستان مزید سیاسی گرداب کا شکار ہو جائے گا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات اور صوبہ سندھ اور بلوچستان کے انتخابات نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ہوں گے۔
نئی مردم شماری کے بغیر انتخابات متنازع ہی رہیں گے، کیونکہ مشترکہ مفادات کونسل، جو ملک کا آئینی ادارہ ہے، اس کی سفارش پر نئی مردم شماری کا فیصلہ ہوا تھا، اور اس کی عمران خان نے بطور وزیراعظم منظوری دی تھی، اور عمران خان نے ہی فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ کے انتخابات ساتویں مردم شماری کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔  حکومتی حلقوں کو سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں چار اور تین کے فارمولا سے باہر نکالنا ہو گا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ ججوں کا فیصلہ آ چکا ہے جو حتمی اور آئینی ہے اور اسی پر عمل درآمد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک ایک طویل عرصے سے مردم شماری کے روایتی اور پرانے طریقہ کار کو ترک کر کے ڈیجیٹل مردم شماری کا موثر نظام اپنا چکے ہیں، مگر پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں رواں ہفتہ پہلی بار ڈیجیٹل مردم شماری کا آغاز یکم مارچ سے ہوا ہے۔ یاد رہے کہ مردم شماری کرنا وقت طلب کام تو ہے ہی، مگر اس کے نتائج مرتب کرنے میں وقت بھی زیادہ درکار ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ماضی میں ہونے والی ہر خانہ مردم شماری کے لیے حکومت کو بڑے پیمانے پر سوال نامے چھپوانے پڑے اور روایتی طریقہ کار کے تحت کی جانے والی مردم شماری کا سب سے مشکل اور متنازع مرحلہ ہاتھ کی لکھائی سے بھرے گئے فارمز کو پڑھنا ہوتا ہے، جو ہمیشہ متنازع ہی رہی۔ اس کے مقابلے پر ڈیجیٹل مردم شماری سے تمام متنازع امور کا ازالہ ہو جائے گا۔ اگر نومبر 2023 میں قومی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو پھر نئے قومی انتخابات ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں ہونے والی نئی حلقہ بندیوں پر منعقد کیے جائیں، بادی النظر میں ایسا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اگر ڈیجیٹل مردم شماری کا حتمی نوٹی فیکیشن جاری ہونے میں غیر ضروری تاخیر ہوتی ہے تو پھر اگلے قومی انتخابات گذشتہ مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے کیونکہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 51 (5) کہتا ہے کہ ہر صوبے اور وفاقی دارالحکومت کے لیے قومی اسمبلی کی نشستیں آخری منظور شدہ مردم شماری کے سرکاری نتائج کے مطابق آبادی کی بنیاد پر مختص کی جائیں گی۔ اب جب کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہو رہے ہیں، لہٰذا مردم شماری کا مسئلہ زیر غور نہیں آئے گا۔ 2017 کی مردم شماری اور 2018 کی حلقہ بندیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔
کنور دلشاد 
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
gamekai · 1 year
Text
پنجاب اور کے پی میں تمام بلدیاتی عہدیداران معطل
اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات کے سلسلے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تمام بلدیاتی عہدیداروں کو معطل کردیا۔ اس حوالے سے ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق آرٹیکل (3)218 اورالیکشن ایکٹ2017 کے سیکشن 3اور8 کےتحت احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ این اے ٹو سوات، این اے تھری سوات میں ضمنی الیکشن ہوگا، این اے5،6،7 لوئردیر میں ضمنی انتخاب ہوگا، این اے8مالاکنڈ، این اے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes