Tumgik
#چنگیز مغل
flyer2024 · 5 months
Text
Tumblr media
Genghis Khan in the Qajar harem
عکس چنگیز خان مغل در حرمسرای قاجار
2 notes · View notes
informationtv · 4 years
Text
فرانسیسی میوزیم نے چینی درخواست کے سبب چنگیز خان کی نمائش ملتوی کردی
فرانسیسی میوزیم نے چینی درخواست کے سبب چنگیز خان کی نمائش ملتوی کردی
Tumblr media
ایک فرانسیسی میوزیم نے مغل شہنشاہ چنگیز خان پر ایک نمائش ملتوی کردی ، جس میں چینی حکومت کی مداخلت کو نوٹس کیا گیا ، جس پر اس نے تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا۔
مغربی شہر نانٹیس کے چیٹیو ڈس ڈکس ڈی بریٹگن ہسٹری میوزیم نے کہا کہ اس نے ایک خوفناک رہنما کی نمائش کی ہے جو 13 ویں صدی میں تین سال سے زیادہ عرصہ تک مقیم رہا۔
میوزیم کے ڈائریکٹر برٹرینڈ جیلیٹ نے پیر کو ایک بیان میں…
View On WordPress
0 notes
greatestwarriors · 5 years
Text
امیر تیمور کی فتوحات
تیموری سلطنت کو گورکانیان بھی کہا جاتا ہے۔ اس وسیع سلطنت میں ازبکستان، ایران، کاکیشیا، میسوپوٹامیا، افغانستان، وسط ایشیا کے بیشتر حصے شامل تھے۔ برصغیر، شام اور ترکی کے بعض حصے بھی اس میں شامل رہے۔ اس کی بنیاد امیر تیمور نے 1370ء سے 1405ء تک رکھی۔ امیر تیمور چاہتا تھا کہ چنگیز خان کی طرح ایک عظیم منگول سلطنت قائم کرے۔ 1467ء میں یہ سلطنت سکڑنا شروع ہوئی مگر تیمور کی اولاد چھوٹی ریاستوں پر حکمران رہی۔ سولہویں صدی میں ایسی ہی ایک ریاست فرغانہ جو اب ازبکستان کا حصہ ہے، کے شہزادے ظہیر الدین بابر نے موجودہ افغانستان کے ایک حصہ پر حملہ کیا اور ایک چھوٹی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 20 برس بعد وہ برصغیر وارد ہوا اور مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔
تاریخ میں دو سلطنتیں تیموری سلطنت کہلاتی ہیں جن میں سے پہلی امیر تیمور نے وسط ایشیا اور ایران میں قائم کی جبکہ دوسری ظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے نام سے قائم کی۔ امیر تیمور دریائے جیحوں کے شمالی کنارے پر واقع شہر سبز میں 1336ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک اچھا سپاہی اور سپہ سالار تھا۔ وہ ترکستان اور موجودہ افغانستان کے بڑے حصے پر قابض ہونے کے بعد 1366ء میں بلخ میں تخت نشین ہوا۔ بلخ میں تخت نشین ہونے کے بعد تیمور نے ان تمام علاقوں اور ملکوں پر قبضہ کرنا اپنا حق اور مقصد قرار دیا جن پر چنگیز خان کی اولاد حکومت کرتی تھی۔ اس غرض سے اس نے فتوحات اور لشکر کشی کے ایسے سلسلے کا آغاز کیا جو اس کی موت تک جاری رہا۔
تیمور کے ابتدائی چند سال چغتائی سلطنت کے باقی ماندہ حصوں پر قبضہ کرنے میں صرف ہو گئے۔ اگلے چند سالوں میں اس نے کاشغر، خوارزم، خراسان، ہرات، نیشاپور، قندھار اور سیستان فتح کر لیا۔ 1386ء میں اس نے ایران کی مہم کا آغاز کیا اور اس مہم کے دوران پورے شمالی ایران پر قابض ہو گیا۔ روس کی مہم سے واپسی کے بعد تیمور نے 1392ء میں ایران میں نئی لشکر کشی کا آغاز کیا۔ اس مہم کے دوران اس نے ہمدان، اصفہان اور شیراز فتح کیا۔ آل مظفر کی حکومت کا خاتمہ کیا اور بغداد اور عراق سے احمد جلائر کو بے دخل کیا۔ اس طرح وہ پورے ایران اور عراق پر قابض ہو گیا۔
تیمور ایران کی مہم سے فارغ ہوکر ابھی تبریز واپس ہی آیا تھا کہ اس کو اطلاع ملی کہ تختمش نے حملہ کر دیا ہے۔ تیمور نے دریائے تیرک کے کنارے اسے شکست فاش دی۔ 1398ء میں تیمور ہندوستان کو فتح کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا۔ ملتان اور دیپالپور سے ہوتا ہوا 1398ء کو دہلی فتح کر لیا۔ اگلے سال اس نے شام فتح کر لیا۔ 1402ء میں تیمور نے عثمانی سلطان بایزید یلدرم کو جنگ انقرہ میں شکست دی اور سمرقند واپس آنے کے بعد چین پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس سفر کے دوران وہ بیمار پڑ گیا اور 18 فروری 1405ء کو انتقال کر گیا۔  
معروف آزاد
0 notes
emergingpakistan · 7 years
Text
چنگیز خاں , نپولین اور سکندراعظم کون بڑا فاتح تھا ؟
سات سو سال پہلے ایک آدمی نے دنیا کو قریب قریب بالکل ہی فتح کر لیا تھا۔ اس زمانے کے ربع مسکون کے نصف حصہ پر اس نے اپنا تصرف قائم کیا اور نوع انسان پر ایسی دھاک بٹھائی جس کا اثر کئی نسلوں تک باقی رہا۔ اپنی زندگی میں اس نے کئی نام پائے قتال اعظم، قہر خدا، جنگجوئے کامل، باج گیر تاج و تخت۔ عام طورپر وہ چنگیز خان کے نام سے معروف ہے۔ بہت سے صاحبان اپنے خطابوں کے اہل نہیں ہوئے، مگر وہ ان سب خطابوں کا اہل تھا۔ ہم امریکی، جن کی تعلیم یورپی روایات کے مطابق ہوتی ہے، بڑے شہنشاہوں کی فہرست مقدونیہ کے سکندر اعظم سے شروع کرتے ہیں اورروم کے محلوں کو شمار کرتے ہوئے، اس فہرست کو نپولین پر ختم کرتے ہیں، لیکن اس یورپی بازی گاہ کے کھلاڑیوں کے مقابلے میں چنگیز خان بہت ہی بڑے پیمانے کا فاتح تھا۔
معمولی معیاروں سے اس کا جانچنا مشکل ہے۔ جب وہ اپنے لشکر کے ساتھ کوچ کرتا تو اس کا سفرمیلوں نہیں، عرض البلد اور طول البلد کے پیمانوں پر ہوتا۔ اس کے راستے میں جو شہر آتے، اکثر حرف غلط کی طرح مٹ جاتے۔ انسانی جانوں کی ایسی تباہی، آج کل کے انسان کے تخیل کو ششدر کر دیتی ہے۔ ایک خانہ بدوش سردار چنگیز خاں نے صحرائے گوبی سے خروج کیا۔ دنیا کی متمدن قوتوں سے جنگ کی اور اس جنگ میں کامران ہوا۔ یہ سب اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہمیں تیرہویں صدی عیسوی کی طرف واپس لوٹنا پڑے گا۔ اس زمانے میں مسلمانوں کا خیال تھا کہ اس عالم اسباب و اشیا میں یہ غیر معمولی انقلاب محض کسی مافوق الفطرت قوت کے ظہورسے ہی آ سکتا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ قیامت کے آثار ہیں۔ ایک مؤرخ لکھتا ہے۔ ’’کبھی اس سے پہلے مغلوں اور نصرانیوں کے حملوں کے نرغے میں دارالسلام کی یہ حالت نہیں ہوئی‘‘۔ 
عیسائی دنیا بھی چنگیز خاں کی موت کے بعد مغلوں کی اگلی پشت کے مقابلے میں اتنی ہی سراسیمہ و حیران تھی جب کہ خونخوار مغل شہسوار مغربی یورپ کو روندتے پھرتے تھے۔ پولینڈ کا شاہ بولسلاس اورہنگری کا بادشاہ بیلا شکست کھا کے جنگ کے میدانوں سے بھاگے تھے اورسائی لیسیا کا ڈیوک ہنری اپنے تیوتائی شہسواروں کے ساتھ لڑتا ہوا مارا گیا تھا۔ یہی حشر روس کے گرینڈ ڈیوک جارج کا ہوا تھا۔ اور قشتالیہ کی خوبرو ملکہ بلانش نے فرانس کے بادشاہ سینٹ لوئی کو یاد کر کے پکارا تھا، ’’میرے بیٹے تو کہاں ہے!‘‘ جرمنی کے شہنشاہ فریڈرک ثانی نے، جو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کا عادی تھا، انگلستان کے شاہ ہنری ثالث کو لکھ بھیجا کہ یہ ’’تاتاری‘‘ عذاب الٰہی سے کم نہیں، جو نصرانی دنیا پر عیسائیوں کے گناہوں کی پاداش میں نازل ہوئے ہیں۔ 
ہاں تک کہ روجر بیکن جیسے فلسفی نے یہ رائے ظاہر کی کہ مغل دراصل دجال کے سپاہی ہیں اوراب اپنی آخری دہشت ناک فصل کاٹنے آئے ہیں۔ چنگیز خاں ایک خانہ بدوش تھا، شکاری تھا، چرواہا تھا، لیکن تین بڑی سلطنتوں کے سپہ سالاروں کواس نے شکست دی۔ وہ وحشی تھا، جس نے کوئی شہر نہیں دیکھا تھا اورلکھنا پڑھنا نہ جانتا تھا لیکن اس نے پچاس قوموں کے لیے قانون بنایا اور نافذ کیا۔ جہاں تک خداداد فوجی قابلیت کا تعلق ہے، بادی النظر میں نپولین یورپ کا سب سے درخشاں سپہ سالار تھا، لیکن ہم یہ فراموش نہیں کر سکتے کہ نپولین نے ایک فوج کو مصر میں تقدیر کے حوالے کر کے چھوڑ دیا اور دوسری فوج کا بچا کھچا حصہ روس کے برف زاروں کے حوالے کر دیا اور بالآخر واٹرلو کی شکست پراس کا خاتمہ بالخیر ہوا۔ اس کے جیتے جی اس کی سلطنت مٹ گئی، اس کا قانون پارہ پارہ کر دیا گیا اوراس کی موت سے پہلے اس کے بیٹے کو محروم الارث قرار دیا گیا۔ یہ پورا واقعہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے تھیٹر میں کوئی ڈراما ہو رہا ہو اور جس میں نپولین خود بھی محض ایک ایکٹر ہو۔
فتح مندی میں چنگیز خاں سے موازنہ کرنے کے لیے مقدونیہ کے سکندر اعظم کا ذکر ضروری ہے۔ سکندر ایک بے پروا اورفتح مند نوجوان تھا۔ دیوتائوں جیسا، جو اپنی صف بہ صف فوج کے ساتھ مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ اس کے ہمرکاب یونان کے تمدن کی برکتیں تھیں۔ سکندر اور چنگیز خاں دونوں کی موت کے وقت ان کے اقبال کا ستارہ انتہائی عروج پر تھا اور ان کے نام ایشیا کی حکایتوں میں محفوظ ہیں۔ دونوں کی موت کے بعد کے واقعات سے دونوں کی حقیقی کامرانیوں کے حاصل کے فرق کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ فرق بے اندازہ ہے۔ سکندر کے مرتے ہی اس کے سپہ سالار آپس میں لڑنے لگے اور اس کے بیٹے کو سلطنت چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ لیکن چنگیز خاں نے اس قدر کامل طورپر اپنے آپ کو آرمینیا سے کوریا تک اورتبت سے دریائے نیل تک کے علاقے کا مالک بنا لیا تھا کہ بلا کسی ردوکد کے اس کے بیٹے کو اس کی جانشینی نصیب ہوئی اور اس کا پوتا قبلائی خان بھی نصف دنیا پر حکمران تھا۔
ہیرالڈ لیم
0 notes
Photo
Tumblr media
ہمارے بهی ہیں مہرباں کیسے کیسے – شازیہ مفتی آج ایک عزیزہ بلکہ بہت ہی ہر دل عزیزہ کے ہاں جانے کا ارادہ کیا۔ سوچا اچانک جاؤں گی تو مجھے دیکھ کر بہت خوش ہونگی ۔ اسی لئے فون بھی نہ کیا ۔ وہ اتنی محبت کرتی تھیں مجھ سے کہ اتنی مصروفیت کے دور میں بھی دوسرےتیسرے دن ملنے چلی آتی تھیں ۔ میں ہی انکے ہاں نہ جا پانے کی وجہ اپنی نالائقی پر شرمندہ ہوتی ۔اتنی سادگی سے ہمارے ساتھ بیٹھ کر جو دال ساگ پکا ہوتا تعریف کرکے کھاتیں بلکہ میری حوصلہ افزائ کرتیں ۔ ہر قدم پران کی رہنمائ اور ساتھ رہا ۔ بچاکھچا سالن روٹی چاول تک ساتھ لے جاتیں ۔ میاں بھی بہت اچھے تھے ان کے میرے پکائے کھانے کی بہت تعریف کرتے۔ بہوئیں ان کی نوکریاں کرنے والی اور بیٹیاں پڑھنے والی ۔ "بیٹیاں تو مہمان ہوتی ہیں ان کو کیا باورچی خانہ میں جھونکنا."ٹھیک ہی تو کہتی تھیں آپا۔ ویسے بھی آدھا آدھا دن تو میرے گھر ہی گذر جاتا ۔ میں بہت ممنون رہتی ان کی ہر بات میں مشورہ انہی کا ہوتا ۔ میاں جی کئی دفعہ چڑ جاتے ان کی ہر وقت کی موجودگی سے لیکن میں کہتی کہ یہ میری ایک ہی تو سکھ دکھ کی ساتھی ہیں ۔ خیر وہ گنگناتے پھرتے " اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی بیچاروں کو تنہا بھی چھوڑ دو" بہرحال آج تو ان کے ساتھ بہت ساوقت گزار کر کچھ احسانوں کا بوجھ ہلکا کرنے کی ٹھانی ۔ بہت شاندار گھر چمکتا دمکتا صاف ستھرا ۔دیکھ کر رشک آیا ۔ ان سے جلن کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ایسا ہی گھر بناؤں گی مگر ہم دو نوں میاں بیوی کی کمائی سے تو بمشکل گھر چلتا ہے وہ تو بھلا ہو سسر صاحب کا جو رہنے کا ٹھکانہ بنا گئے ۔ خیر شکر ہے اللہ پاک کا . گھنٹی بجانے پران کا چھوٹا بیٹا باہر آیا شاید دوستوں میں جارہا تھا بس سلام دعا کرکے جلدی میں نکل گیا ۔ رات دن کا نوکر رکھنا ان کےاصولوں کے خلاف تھا بس صفائی اور برتن کپڑے دھونے کے لئے ماسی آتی ۔ لو جی گھر میں داخل ہوتے ہی دل خوش ہوگیا ۔ باہر کی تیز دھوپ کے مقابلے میں اندر نیم تاریکی اور خنکی بہت دل افزاء تھی ۔ سرپرائز دینے کے لئے میں دبے قدموں چلتی ہوئی اندر پہنچی.گھر تومیرا دیکھا بھالا تھا ۔ ان کا اپنا کمرہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا.بہو کے کمرے سے ہنسنے اور بولنے کی آوازیں آرہی تھیں دونوں بیٹیاں اور بڑی بہو موجود تھیں ۔ اچھا ہے آج سبھی سے ملا قات ہوجائے گی۔کمرے میں روشنی تھی اور باہر کچھ تاریکی۔ سانس درست کرنے کو رکی۔اپنا نام سن کر ٹھٹک گئ کچھ تجسس ہوا کہ سنوں تو ذرا میرا کیا ذکر ہورہا ہے ۔ بس یوں لگا آسمان سر پر آرہا. گرنے سے بچنے کی لئے دیوار کا سہارا لیا ۔شکر ہے کچی نا تھی ورنہ میرا کیا بنتا ۔ "باولی صدف کےگھر جاؤں گی کل " آپا کی آواز تھی یا کوڑا ,"جی آنٹی دو دن ہوگئے گھر میں پکانا پڑرہا ہے "،بہو نے فرمایا ، "مما آپ نے خوب پاگل بنا رکھا ہے تعریفیں کرکرکے ،" بیٹی بولیں " بنی بنائی پاگل ہیں میں نے کیا بنانا ،ان کی اماں بھی ایسی ہی ھیں ساری عمر لٹاتی رہیں ۔ بس تعریف کرتے جاؤ اور لٹنے کو تیار ۔اب دیکھو ہفتے میں تین چار دفعہ بھر بھر ڈونگے سالن روانہ کردیتی ہیں ،تم لوگ تو باہر رہتے ہو.مجھ اکیلی کے لئے اے سی چلے آرام سےوہاں ٹھنڈے کمرے میں بیٹھتی ہوں ۔ " ان کی بہو جو بھانجی بھی تھیں خالہ بلی سے گر سیکھ رہی تھیں ،" ان پگلی کےمیاں کچھ نہیں کہتے ہمارے تو گھر میں کوئی جائے تو انکل کا ہی موڈ خراب ہوجاتا ہے " فرمایا گیا, " ارے وہ بھی ان ہی کے جیسے ہیں دیوانوں کی خوب جوڑی بنائی اللہ نے " بیٹی کو کچھ ترس آیا مجھ پر، " مما اچھی ہیں باولی صدف ، آپا آپا کرتی آپ کے آگے پیچھے رہتی ہیں " تنک کر بولیں " ارے چھوڑو پگلی کہیں کی اس قدر بے وقوف ہے کہ بس بول بول کر دماغ چاٹ جاتی ہے " بڑی بیٹی نے دخل دیا " تو آپ نا جایا کریں ،" تیوری چڑھا کر بولیں " اچھا آدھا خرچہ تو ان پگلو نے اٹھا رکھا ہے اس مہنگائی میں تم لوگوں کے اتنے خرچےکہاں سے کروں. تمہارے باپ نے تو پلاٹ لے دیا باقی تو سب میری محنت ہے ،" اور میں کھڑی کھڑی سوچتی رہی کہ نہیں آپا میری اور میرے میاں کی حلال کی کمائی بھی شامل ہے ۔ اب کمرےمیں داخل ہوئے بغیر چارہ نہ تھا .مزید سننا بس سے باہر ہوگیا. مجھے دیکھ کر یوں لگا محترماوں کو جیسے میڈوسا دیکھ لی میں نے سر پر ہاتھ پھیر کر یقین کیا کہ میرے ریشمی بال ہی ہیں جو آپا کے مشورے سےہی براؤن کرائے، سنپولیےء نہیں ۔ وہ تو وہیں آستینوں میں شونکیں مار رہے ہیں . میرے لاڈلے برسوں کے پالے ناگ اور ناگنیں ، اژدھے ۔ بہر حال میرا بعد از غاری صدیقی لہو اور اصلی نسلی مغل میاں جی کے ساتھ رہ کر مستقل بڑھ جانے والا فشار خون ایسا بھونچال لایا اور ایسی چنگیز خانی کرکے آئی وہاں کہ اب تو میرا مرا منہ دیکھنے بھی یہ خاندان نہیں آنے والا خیر میں کونسا مری جارہی ہوں ان کے لئے ۔ اب گھر بیٹھی سوچ رہی ہوں کہ ان کے ہاتھوں نا لٹتی سالوں تو اب کہاں ہوتی اور ہاں میاں جی کی واپسی کا شدت سے انتظار ہے یہ سب سنانے کو ۔ بلکہ ان سے بھی پہلے اماں جان کو سناؤں ساری کتھا ۔ایک سوال رہ رہ کر ذہن میں اٹھتا ہے سادہ لوح لوگوں کے اعتماد کو دھوکہ دینے والے کس طرح اطمینان بھری زندگی گزارلیتے ہیں ۔ پھر خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتی ہوں کہ غلط کام کرنے والوں کے پاس بھی سو جواز موجود ہوتے ہیں ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے۔ بس اللہ سب کو نیک ہدایت دے
0 notes
greatestwarriors · 7 years
Text
ہندوستان کا حکمران ظہیر الدین بابر کون تھا ؟
حال ہی میں ایک مغربی جریدے نے ظہیر الدین بابر کی شخصیت، طرز حکمرانی اور اس کی جوانمری و بہادری پر ایک تفصیلی مقالہ تحریر کیا ہے۔ کیلی شیفسن نے اپنے مقالے میں تحریر کیا ہے کہ برصغیر کا یہ نامور حکمران ماضی میں موجودہ ” ازبکستان “ کا شہنشاہ بھی رہ چکا ہے۔ اپنے چچاؤں کی بے رخی کی وجہ سے اسے 3 سال جلا وطنی میں بسر کرنا پڑے۔ وہ اپنی طاقت مجتمع کرتا رہا، مگر تخت واپس نہ لے سکا۔ افغانستان میں جلا وطنی کے دوران اسے ہندو کش کے پہاڑوں میں بہت کشش نظر آئی۔ لودھی خاندان کا ایک گورنر بھی س کے ساتھ مل گیا۔ اسی قسم کے خاندانی جوڑ توڑ کی مدد سے وہ دہلی پر قائم ”لودھی سلطنت “ کے خاتمے کے بعد انڈیا کا حکمران بن بیٹھا۔ اس کی کوششوں کے بعد مسلمان 3 سو سال تک بلا شرکت غیرے انڈیا پر حکومت کرتے رہے۔ 
بابر کا تعلق تیموری خاندان سے تھا جبکہ اس کی ماں چنگیز خان کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ سینٹرل ایشیاء سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کے بارے میں 1868ء تک لوگ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ یہ کون لوگ تھے، کہاں سے آئے اور کس طرح اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے؟ ان سوالوں پر زیادہ تحقیق نہیں ہوئی تھی۔ ظہیر الدین بابر کا تعلق تیمور لنگ خاندان سے تھا۔ وہ بابر کے لقب سے جانا جاتا تھا، جس کا مطلب ہے شیر۔ سینٹرل ایشیاء میں ایک خطے کی شہنشایت اسی کے خاندان کے پاس تھی۔ اس کے باپ نے موجودہ ” ازبکستان“ پر حکومت کی۔ Andeijan اس کا دارالحکومت تھا۔ اس نے اسی شہر میں 23 فروری 1483ء کو آنکھ کھولی۔ باپ کا پورا نام عمر شریف مرزا رکھا تھا، تاہم وہ امیر فرخانہ کے لقب سے مشہور تھا۔ اس کی ماں قتلک نگار خانم مغل بادشاہ مرزا خان کی بیٹی تھیں۔
(یہ تحریر روزنامہ دنیا کے میگزین میں شائع ہوئی)  
0 notes