Tumgik
#کرونا ویکسین
googlynewstv · 3 years
Text
کرونا ویکسین کی بوسٹر خوراک کیلئے1270 روپے قیمت مقرر
کرونا ویکسین کی بوسٹر خوراک کیلئے1270 روپے قیمت مقرر
حکومت نے کرونا ویکسین کی بوسٹر خوراک کے لیے 1270  روپے قیمت مقرر کر دی ہے ، وزرات قومی صحت سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے 24 اگست 2021 کو ہونے والے اجلاس کے فیصلے کے مطابق بیرون ممالک سفر کرنے والوں کو مخصوص کورونا ویکسی نیشن سینٹرز میں اضافی (بوسٹر) خوراک لگائی جائے گی۔ نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ بیرون ممالک جانے والوں کے لیے ویکسینز کی بوسٹر کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 3 years
Text
آسٹریا میں 3 دن میں کتنے لاکھ لوگوں کو کرونا ویکسین لگائی گئی...؟
آسٹریا میں 3 دن میں کتنے لاکھ لوگوں کو کرونا ویکسین لگائی گئی…؟
ویانا: آسٹریا بھر میں جمعرات سے ہفتہ تک دو لاکھ سے زائد افراد کو مزید کرونا ویکسین لگائی جا چکی ہے۔. گزشتہ تین دنوں لگاتار روزانہ 60 ہزار سے زیادہ افراد کو ویکسین لگائی گئی ہے مجموعی طور پر ان تین دنوں میں دو لاکھ تین ہزار988افراد کو ویکسین لگائی گئی۔ کرونا ویکسین کے تین دن کے دوران ایک لاکھ 22 ہزار 922 افراد نے پہلی جزوی ویکسی نیشن حاصل کی اور آٹھ لاکھ ایک ہزار چھیاسٹھ افرا کو مکمل حفاظتی ٹیکے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
arp-newz · 3 years
Text
سگریٹ نوشی کرنے والوں پر ویکسین اثر انداز نہیں ہوتی
سگریٹ نوشی کرنے والوں پر ویکسین اثر انداز نہیں ہوتی
ٹوکیو: جاپانی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کے اینٹی باڈیز ویکسین لگوانے کے باوجود بھی انتہائی کم درجے پر ہوتا ہے۔   خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جاپان کے ماہرین نے کرونا ویکسین کی مکمل خوراکیں لگوانے والے 378 ورکرز کو اپنی تحقیق کا حصہ بنایا، جن کی عمریں 32 سے 54 سالوں کے درمیان تھیں۔ تحقیق کے دوران ماہرین کے سامنے یہ بات آئی کہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد ویکسین…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
maqsoodyamani · 3 years
Text
کرونا وائرس کے بارے میں غلط معلومات کو پھیلنے سے روکا جائے:امریکی سرجن جنرل
کرونا وائرس کے بارے میں غلط معلومات کو پھیلنے سے روکا جائے:امریکی سرجن جنرل
کرونا وائرس کے بارے میں غلط معلومات کو پھیلنے سے روکا جائے:امریکی سرجن جنرل نیویا��ک ، 17جولائی (آئی این ایس انڈیا ) امریکہ کے سرجن جنرل ویوک مورتھی کی جانب سے جمعرات کو صحت عامہ کے لئے جاری کی گئی ایک ایڈوائزری میں عوام پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کووڈ- 19 کی ویکسین کے بارے میں غلط معلومات پر کنٹرول میں مدد کریں، جو ان کے بقول، امریکی ویکسی نیشن پروگرام کی سست روی کا باعث بن رہی ہیں۔ امریکہ میں…
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
pakistantime · 3 years
Text
ایشیائی ممالک ویکسین کے لیے چین سے رابطے کرنے لگے
بنگلا دیش اور سری لنکا جیسے جنوبی ایشیائی ممالک کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کے لیے چین سے رجوع کر رہے ہیں کیونکہ بھارت نے اپنے ملک میں وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ اور ویکسین کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث اس کی برآمد معطل کر دی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے بیجنگ کو اسٹریٹجک اہمیت کے حامل بحرہند کے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد ملے گی۔ چین نے اپنی سائنو فارم ویکسین کی 11 لاکھ خوراکیں سری لنکا کو دی ہیں جب کہ بنگلہ دیش کو اس مہینے چین سے پہلے عطیے میں پانچ لاکھ خوراکیں وصول ہوئی ہیں۔ چین نے نیپال کو بھی ویکسین کی مزید 10 لاکھ خوراکیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ چین کی سپلائی سے ان ملکوں کو اپنے ہاں ویکسین لگانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے میں مدد ملے گی جو بھارت کی جانب سے فراہمی کی معطلی کے بعد رک گیا تھا۔ 
عالمی وبا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باعث یہ خوف سر اٹھا رہا تھا کہ کہیں کرونا وائرس کی دوسری لہر، جس سے بھارت نبرد آزما ہے، ہمسایہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے لیے پروگرام ڈائر��کٹر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ بھارت کی طرف سے ویکسین کی برآمد میں معطلی بیجنگ کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کے موقع کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب بیجنگ کو اپنی ساکھ کے سلسلے میں مشکل وقت کا سامنا ہے، ویکسین ڈپلومیسی اس کام میں چین کی مدد کر سکتی ہے۔  سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے کئی ممالک کو، جنہیں چین کی تیار کردہ ویکسینز کے بارے میں ہچکچاہٹ کا سامنا تھا، پچھلے مہینے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے چین کی ویکسین سائنوفارم کے ہنگامی استعمال کے لیے منظوری مل گئی تھی جس کے بعد ان کے لیے چین سے ویکسین لینے کے لیے راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اس سے قبل یہ ملک بھارت پر انحصار کر رہے تھے جس نے اس سال کے شروع میں سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال سمیت کئی ملکوں کو ایسٹرازینیکا اور دوسری ویکسینز فراہم کی تھیں۔ 
ان ملکوں نے بھارت میں قائم ویکسین بنانے والے دنیا کے سب سے بڑے مرکز سیرم لیبارٹریز کو کمرشل آرڈرز بھی دے دیے تھے لیکن بھارت میں وبا کے تیز پھیلاؤ کے باعث ان کی فراہمی رک گئی۔ پچھلے مہینے کئی ایشیائی ملکوں کے ساتھ ویڈیو کانفرنس میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے خطے کے لیے ویکسین کا ایمرجنسی سٹاک رکھنے کی پیش کش کی تھی۔  تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب جب کہ چین، بھارت کے چھوڑے ہوئے خلا کو بھرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے، ویکسین ڈپلومیسی اس خطے میں بیجنگ کی مدد کر سکتی ہے جو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کے تحت کئی ملکوں میں انفراسٹرکچر کے منصوبے مکمل کرنا چاہتا ہے۔ دہلی میں قائم اورسیز ریسرچ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہرش پنت کہتے ہیں کہ اس چیز کے پیش نظر کہ یہ بحران مستقبل میں جاری رہ سکتا ہے، اگر بھارت صورت حال مستحکم ہونے کے چند ماہ بعد تک ویکسین میں اپنا حصہ نہ ڈال سکا تو ان ملکوں میں چین کو ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔
سری لنکا میں چین پہلے ہی بندرگاہ، سڑکوں اور ریلوے سمیت انفراسٹرکچر کے کئی اہم منصوبے مکمل کر چکا ہے اور اب وہ کولمبو کے قریب ایک اہم بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے۔ کولمبو کے ایک سیاسی تجزیہ کار اسانگا ابے یاگونا سیکیرا کہتے ہیں کہ چین کو ویکسین کی مدد سے ملک میں اپنی بڑھتی ہوئی موجودگی میں مزید اضافے کے لیے ایک اور جہت مل گئی ہے۔  وبا کی دوسری لہر شروع ہونے سے پہلے بھارت نے ویکسین کی ساڑھے چھ کروڑ خوراکیں بیرونی ملکوں کو بھیجی تھیں، جس کے بعد برآمد کو روکنا پڑا۔ نئی دہلی کو توقع ہے کہ وہ وبا پر قابو پانے کے بعد ویکسین کی سپلائی بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا موجودہ سال کے آخر تک ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری جانب چین دنیا بھر میں سب سے زیادہ ویکسین برآمد کرنے والے ملک کے طور پر ابھر رہا ہے۔ وہ اس وقت ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کو ویکسین فراہم کر کے عالمی وبا پر قابو پانے میں وہاں کے ملکوں کی مدد کر رہا ہے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
1 note · View note
emergingpakistan · 3 years
Text
پاکستان میں کرونا ویکسی نیشن کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے؟
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وبا سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے۔ تاہم ملک میں بہت سے لوگ ویکسین کی افادیت اور اس کے اثرات کے حوالے سے مختلف آرا رکھتے ہیں۔ کرونا ویکسین سے متعلق عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ویکسین آپ کو وبا سے 100 فی صد محفوظ رکھتی ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ وائرس سے بچاؤ کے لیے پاکستان میں متعارف کرائی گئی ویکسین کتنی مؤثر ہے، کیا واقعی اس کے منفی اثرات ہیں؟ اور کیا ویکسین لگوانے کے بعد کرونا نہیں ہوتا؟ ان سوالات اور کرونا ویکسین کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کے جواب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے پنجاب میں کرونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کی رُکن ڈاکٹر صومیہ اقتدار سے گفتگو کی ہے۔
کیا ویکسین کرونا کے خلاف مکمل تحفظ دیتی ہے؟ ڈاکٹر صومیہ اقتدار کا کہنا ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد بھی یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ دوبارہ انفیکشن نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر صومیہ کے مطابق ہر ویکسین کی ایک شرح افادیت ہوتی ہے اور پاکستان میں لگائی جانے والی چین کی 'سائنو فارم' ویکسین کمپنی کے مطابق ان کی ویکسین 72 فی صد مؤثر ہے۔ یعنی ان کے بقول ویکسین لگوانے کے باوجود 28 فی صد افراد میں یہ امکان رہتا ہے کہ انہیں دوبارہ کرونا ہو سکتا ہے۔
کون سی کرونا ویکسین زیادہ مؤثر ہے؟ ڈاکٹر صومیہ کے مطابق 'سائنو فارم' کے علاوہ چین کی ہی 'کین سائنو' ویکسین 75 فی صد تک مؤثر ہے جس کی ایک خوراک لگائی جاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں نجی طور پر لگائی جانے والی روسی ویکسین 'اسپوتنک فائیو' کی شرح افادیت 90 فی صد ہے۔
پھر ویکسین لگوانے کا فائدہ؟ ڈاکٹر صومیہ کا ویکسین لگوانے کے فوائد بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ جو لوگ کرونا سے متاثر ہوتے ہیں اور انہوں نے ویکسین لگوائی ہوتی ہے تو وہ اس وبا سے معمولی متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے بقول گو کہ ویکسین بیماری کے خلاف 100 فی صد تحفظ فراہم نہیں کرتی، تاہم یہ مریض کو شدید بیمار ہونے اور اس کی جان جانے سے بچاتی ہے۔ ان کے بقول اگر کوئی شخص وائرس کا شکار ہو بھی جاتا ہے تو معمولی علامات کے بعد وہ جلد صحت یاب ہو جاتا ہے۔
ویکسین کی دو خوراکیں کیوں ضروری ہیں؟ ڈاکٹر صومیہ کے مطابق کرونا ویکسین کی پہلی خوراک لگانے کے پانچ سے چھ دنوں بعد اینٹی باڈیز بننے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ تاہم ان کے بقول یہ ریسپانس اتنا کافی نہیں ہوتا کہ یہ آپ کو بیماری سے مکمل محفوظ رکھ سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کرونا ویکسین کی دوسری خوراک لگنے کے 15 سے 20 دنوں بعد ریسپانس اتنا اچھا ہوتا ہے کہ آپ کو بیماری سے بچایا جا سکے۔
کیا ویکسین کی دونوں خوراکوں کے دوران کرونا ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر صومیہ کے مطابق ویکسین کی پہلی اور دوسری خوراک لگوانے کے درمیانی عرصے میں بھی انفیکشن ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اُن کے بقول اس وقت جسم میں قوتِ مدافعت ناکافی ہوتی ہے۔
کرونا سے صحت یاب ہونے والوں کے لیے بھی ویکسین ضروری ہے؟ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ چوں کہ کرونا سے صحت یاب ہونے والے افراد میں اینٹی باڈیز بن چکی ہوتی ہیں۔ لہذا انہیں ویکسین کی ضرورت یا ویکسین کی دونوں خوراکوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس سے متعلق ڈاکٹر صومیہ کا کہنا تھا کہ چوں کہ یہ ایک نیا وائرس ہے۔ اس لیے اس پر ابھی اتنی تحقیق نہیں کی گئی کہ پتا ہو کہ اس کے خلاف قوت مدافعت کتنی دیر تک موجود رہتی ہے۔ لہذا ان کے بقول یہ ضروری ہے کہ قوت مدافعت جتنی بہتر ہو گی اتنا اچھا ہے۔
ویکسین لگوانے کے بعد ری ایکشن کے امکانات برطانیہ اور یورپی ممالک میں 'آکسفورڈ یونیورسٹی' کی تیار کردہ 'ایسٹرا زینیکا' ویکسین لگوانے سے ہونے والی اموات اور بلڈ کلوٹس (خون کے لوتھڑے) بننے کی شکایات سے متعلق ڈاکٹر صومیہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لگائے جانے والی سائنو فارم، 'کین سائنو' اور 'اسپوتنک فائیو' ویکسین بہت محفوظ ہیں اور ان کے تاحال منفی اثرات سامنے نہیں آئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ویکسینز لگوانے کے بعد معمولی بخار، جسم درد یا انجکشن والی جگہ پر درد ہو سکتا ہے جو کوئی بھی اور ویکسین لگوانے سے بھی ہو سکتا ہے۔
کیا ویکسین بچوں کو بھی لگائی جا سکتی ہے؟ ڈاکٹر صومیہ کے مطابق پاکستان میں سائنو فارم ویکسین کو صرف 18 سال سے زائد عمر کے افراد کو ہی لگانے کی اجازت دی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آزمائش بچوں میں نہیں کی گئی۔
ویکسین لگوانے کے بعد تدابیر؟ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر صومیہ کا کہنا تھا کہ ویکسین لگوانے کے بعد بھی وہی احتیاطی تدابیر اپنائی جانی چاہئیں جو ویکسین لگوانے سے پہلے اپناتے ہیں۔ ان کے بقول یہ سب اس لیے ضروری ہے کیوں کہ کرونا ویکسین آپ کو 100 فی صد بیماری سے نہیں بچاتی تاہم یہ شدید بیمار ہونے اور موت سے بچاتی ہے۔
نوید نسیم
بشکریہ وائس آف امریکہ
1 note · View note
risingpakistan · 4 years
Text
روس نے اتنی جلدی کرونا وائرس ویکسین کیسے تیار کر لی ؟
گذشتہ روز روسی صدر ولادی میر پوتن نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ روس ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ کر کرونا وائرس کے خلاف منظور شدہ ویکسین تیار کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ حیرت کی ایک وجہ تو سائنسی ہے کہ ویکسین کی تیاری کوئی آسان کام نہیں اور دوسری یہ تھی کہ صدر پوتن اس طرح سے اعلان کر رہے تھے جیسے ملکوں کے درمیان کوئی باقاعدہ دوڑ ہو رہی تھی جو روس نے جیت لی۔ اس بات کو مزید تقویت اس ویکسین کے نام یعنیٰ سپتنک 5 سے ملتی ہے جس سے روس اور امریکہ کے درمیان 50 اور 60 کی دہائیوں میں خلائی دوڑ اپنے عروج پر تھی اور امریکہ اپالو کے نام سے اور روس سپتنک کے نام سے راکٹ بنا کر خلا میں بھیج رہا تھا۔
کیا واقعی اتنی جلد ویکسین بنانا ممکن ہے؟ روس نے ابھی تک سپتنک 5 کا مکمل سائنسی ڈیٹا دنیا کے سامنے نہیں رکھا جس سے پتہ چلتا ہو کہ یہ ویکسین کتنی موثر اور محفوظ ہے۔ یہ ویکسین گمائلا انسٹی ٹیوٹ تیار کر رہا ہے۔ اس نے ویکسین کی تیاری کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے شرکا کے بارے میں دعویٰ کیا کہ ان میں کوئی مضر اثرات دیکھنے میں نہیں ملے۔ تاہم انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یہ ویکسین صرف دو سے تین ہزار لوگوں پر آزمائی گئی ہے، جس سے اس کے وسیع تر اور دیرپا اثرات کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ امریکہ میں وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر اینتھنی فاؤچی کو بھی اس ویکسین پر شکوک و شبہات ہیں۔ انہوں نے اے بی سی ٹی وی کو بتایا: مجھے امید ہے کہ روسیوں نے حتمی طور پر ثابت کر دیا ہو گا کہ ویکسین محفوظ اور موثر ہے، تاہم مجھے اس بارے میں سخت شکوک و شبہات ہیں۔‘
تیسرا مرحلہ کہاں گیا؟ عام طور پر ویکسین کی تیاری تین مراحل یا فیزز میں ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے (فیز 1) میں سو سے کم صحت مند لوگوں کو ویکسین دی جاتی ہے تاکہ جسم پر اس کے مضر اثرات جانچے جا سکیں۔
دوسرے مرحلے (فیز 2) میں چند سو لوگوں کو ویکسین استعمال کروائی جاتی ہے جس دوران اس کے مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کی مناسب ڈوز یا خوراک کا تعین کیا جاتا ہے۔
تیسرا مرحلہ (فیز 3) وہ ہوتا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف عمروں اور جسمانی حالت والے مردوں اور عورتوں پر ویکسین کی آزمائش ہوتی ہے تاکہ مختلف لوگوں میں اس کے اثرات اور خاص طور پر شاذ و نادر ہونے والے اثرات کا پتہ چل سکے۔
اگر ان تینوں مراحل سے گزرنے کے بعد ثابت ہو کہ ویکسین موثر بھی ہے اور اس کے مضر اثرات اس سے پہنچنے والے فائدے سے کم ہیں تو اسے منظور کر کے بازار تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس کام میں جلدی نہیں کی جا سکتی، کیوں کہ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ بعض اوقات کوئی دوا بظاہر فوری طور پر فائدہ مند معلوم ہوتی ہے لیکن کچھ ماہ گزرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کا جسم کے اعضا پر کوئی خطرناک ذیلی اثر مرتب ہو گیا ہے۔  چونکہ کرونا وائرس کی ویکسین ممکنہ طور پر اربوں لوگوں کو دی جانی ہے، اس لیے اس میں زبردست احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ انتہائی شاذ و نادر مضر اثر بھی لاکھوں لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ 
یہ تینوں مراحل سائنس دانوں نے کئی عشروں کی تجربات کے بعد وضع کیے ہیں اور دنیا میں استعمال ہونے والی تمام ادویات اسی طریقۂ کار کے تحت تجربہ گاہ سے میڈیکل سٹور کے شیلف تک پہنچتی ہیں۔ ماضی کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ یہ طریقہ بےحد کارآمد ہے۔ تاہم روس نے اپریل میں ایک قانون منظور کر کے دوا کو منظور کرنے کے لیے تیسرے مرحلے کی شرط ہی ختم کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی ویکسین اتنی جلدی منظوری کے لیے تیار ہو گئی۔ اس کے مقابلے پر امریکہ، یورپ اور چین میں کئی ویکسینیں ایسی ہیں جو تیسرے مرحلے سے گزر رہی ہیں اور ان کے نتائج آنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں ویکسین سیفٹی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر ڈینیئل سامن نے کہا، ’فیز 3 انتہائی ضروری ہے۔ کیا فیز 3 کے بغیر میں (ویکسین کے) موثر یا محفوظ ہونے کے بارے میں پراعتماد ہو سکتا ہوں؟ ہرگز نہیں۔‘
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
urduinspire · 4 years
Text
نسیم شاہ کا خطرناک باؤنسر لگنے سے فواد عالم کو طبی امداد
Tumblr media
انگلینڈ میں موجود پاکستانی کرکٹرز کے انٹر سکواڈ پریکٹس میچ کے دوران نسیم شاہ کا خطرناک بائونسر لگنے پر فواد عالم کو طبی امداد کی ضرورت پڑ گئی اور ہیلمٹ بھی تبدیل کرنا پڑا۔ ڈربی میں کھیلے جانے والے 4 روزہ میچ کے پہلے روز وائٹ ٹیم نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا گرین ٹیم کے پیسرز بھرپور فارم میں نظر آئے،خاص طور پر نسیم شاہ نے خطرناک سپیل کیے، انہوں نے سلو پچ پر کپتان بابر اعظم سمیت تمام بیٹسمینوں کو پریشان کیا۔ نوجوان پیسر کا ایک خطرناک بائونسر فواد عالم کے سر پر لگا جس کے بعد طبی امداد کے لیے ڈاکٹر کو بلایا گیا، ان کا ہیلمٹ بھی تبدیل کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ بابر اعظم کی قیادت میں وائٹ ٹیم جمعہ کو 8 وکٹوں کے نقصان پر 231رنز بنا سکی تھی، کوئی ایک بیٹسمین بھی نصف سنچری کا سنگ میل عبور نہیں کر سکا،  پاکستانی کرکٹرز نسیم شاہ اور محمد عباس نے 3،3، یاسر شاہ نے 2 شکار کیے۔ Express.com شکریہ مزید پڑھیں برطانیہ میں کرونا ویکسین ٹرائلز کے مثبت نتائج نکلے ہیں،اے ایف پی Read the full article
1 note · View note
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
کرونا اور لاک ڈاؤن کے بعد کی صورتحال
‏کیا ہم کورونا وائرس کو شکست دےپائیں گے اور اسکے بعد جس صورتحال کا ہمیں سامنا کرنا پڑے گا چلیں اس پہ ایک نظر ڈالتے ہںم ایک غریب ملک میں رہ رہے ہیں جہاں سالہا سال سے پولیو اور ڈینگی جیسے مرض ختم نہیں ہو پائے تو ہمیں یہ امید کرنی چاہیے کہ ہمارے ملک سے کورونا وائرس جیسی مہلک بیماری ختم ہو سکتی ہےابھی جو عوام لاک ڈاؤن سے پریشان ہے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئی ہے
کیا لاک ڈاؤن کے بعد سڑکوں ریسٹورنٹ پبلک پلیس تفریح گاہوں اور ہر اس جگہ پہ جہاں ضرورت زندگی کی اشیاء اور کچھ تفریح کا ساماں میسر ہو وہاں عوام کا تانتا نہیں بندھے گا؟ایسے میں اگر ایک بھی کورونا وائرس جیسا مریض ویکسینیشن کے بنا رہ گیا تو کیا ہم کسی بڑے سانحے سے بچ پائیں گے اور ہماری گورنمنٹ کیا ہر انسان تک رسائی رکھتی ہے کہ انہیں ویکسین دے سکے؟
ابھی تک کی صورت حال یہ ہے کہ ملک کے کئی بڑے شہروں اور بڑے ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے کٹس ہی موجود نہیں تو ایسے میں ویکسینیشن کا مرحلہ کیسے طے پائے گا؟ اب آتے ہیں مہنگائی کی طرف کہ جو مزدور طبقہ دوکان دار حضرات اور بالخصوص پرائیویٹ فرم میں کام کرنے والے لوگ جو کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ ہےجو کہ ممکنہ طور پر حالات کے پیش نظر تقریباً بیس پچیس دن بے روزگار ہوں گے اور تنخواہیں کم ملیں گی پھر رمضان المبارک بھی شروع جوکہ اس ملک میں نیکیاں کمانے کے بجائے مال بنانے میں کاروباری حضرات مصروف ہو جاتے تو اس پہ کیسے پایا جائے گا ہماری گورنمنٹ قوم کو ریلیف دے گی یا عوام کے ویکسین خریدے گی
یہ تمام وہ سوالات ہیں جو کہ لاک ڈاؤن کے بعد پیش آئیں گے اور عوام پہ کورونا سے زیادہ قہر ڈھائیں گے..
کرونا کا خاتمہ کب تک ممکن؟
سماجی دوری کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا، کوئی نہیں جانتا۔ ماہرین کہتے ہیں اس کا جواب مشکل ہے اور دار و مدار اس بات پر ہے کہ سماجی دوری کس حد تک مؤثر ثابت ہوتی ہے اور کرونا کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں کتنی مدد ملتی ہے۔
حال ہی میں امریکہ میں اپریل کے اختتام تک اس سماجی دوری کو قائم رکھنے کا اعلان کر دیا گیا ہے اور یہی ماہرین کا خیال ہے کہ اس عرصے میں صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے بشرطیکہ اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
دوسری جانب عبداللہ شیہاپر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ سماجی دوری کرونا انفیکشن کی روک تھام کے لئے ضروری ہے، لیکن اکیلا پن اور تنہائی بھی ہمیں بیمار کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا کا شکار ہونے والوں یا اس سے متاثر ہونے والے افراد کو اکیلا رکھنا ضروری ہے۔ تاہم اس کے نتیجے میں سماجی اور جذباتی تنہائی کو پیدا ہونے سے روکنا بھی ضروری ہے۔
ہیلتھ ریسورز اینڈ سروسز ایڈمنسٹریشن نے خبردار کیا ہے کہ تنہائی اور اکیلے پن کے جذبات سے ڈپریشن میں اضافے کا امکان ہے بلکہ بلڈ پریشر بھی بڑھ سکتا ہے۔ اور سب سے خطرناک پہلو یہ کہ اس کی وجہ سے انفیکشن کا مقابلہ کرنے والے انسانی مدافعتی نظام کی صلاحیت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
یہ تو ہوئے مسائل اور آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں کیا کیا جائے اور کس طرح اس دشوار وقت میں ہم اس کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ جن ملکوں میں یہ صورت حال کچھ عرصے سے جاری ہے، وہاں لوگ اس کا مقابلہ کس طرح کر رہے ہیں۔
چین کے شہر ووہان جہاں سے کرونا وائرس کا آغاز ہوا وہاں بھی لوگ سماجی دوری کے ساتھ ساتھ رابطوں کو بحال رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض افراد کانسرٹس اور جم کلاسز کو آن لائن سٹریمنگ کے ذریعے براہ راست دکھا رہے ہیں۔
ووہان شہر کے لوگ اپنے گھروں کی کھڑکیوں سے کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے نعرے لگاتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم بھی رابطے برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ جن معمر افراد کو جانتے ہیں، ان کو تنہا نہ چھوڑیں اور ان سے مستقل رابطے میں رہیں۔ اگر سہولت ہو تو ویڈیو چیٹ پر بات چیت میں اضافہ کیا جائے۔
اس سارے تناظر میں ہم نے بات کی ڈاکٹر مبین راٹھور سے جو یونیورسٹی آف فلوریڈا میں پروفیسر ہیں اور وولفسن چلڈرنز ہاسپیٹل فلوریڈا اور جیکسن ول میں متعدی امراض کے شعبے کے سربراہ بھی ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کے خیال میں اس وبا کا خاتمہ کب تک ممکن ہو پائے گا۔
ڈاکٹر راٹھور نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وبا کے خاتمے کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ اس کا زیادہ انحصار ان اقدامات پر مؤثر عمل درآمد پر ہے جو ہم اس وبا کی روک تھام کے لئے اٹھا رہے ہیں۔ آئندہ چند ہفتوں اور مہینوں کے دوران ہم بہتر طور پر اندازہ لگا سکیں گے کہ وبا کب ختم ہو گی۔ ابھی اس کے خاتمے کے بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہے۔
ڈاکٹر راٹھور سے ہمارا دوسرا سوال یہ تھا کہ طبی عملہ کرونا وائرس کی اس لڑائی میں کس حد تک کامیاب ہے۔ ڈاکٹر راٹھور کہتے ہیں کہ طبی عملہ اس وبا سے نمٹنے کے لئے محدود وسائل کے ساتھ بھی اپنی بہترین کوششیں کر رہا ہے۔ طبی عملہ نئی اختراعات بھی کر رہا ہے اور جب جہاں ضرورت پڑے معمول کے طریقہ کار میں تبدیلیاں بھی کرتا ہے۔ مناسب ذاتی حفاظتی ساز و سامان کے فقدان سے طبی عملے کو غیر ضروری خطرہ لاحق ہے۔ اس وبا سے براہ راست نمٹنے والے عملے کے افراد حقیقی ہیروز ہیں کیونکہ وہ اپنے مریضوں کی مدد کرنے کے لئے خود بھی خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔
پریشانی اور خطرہ اپنی جگہ لیکن اب انفرادی سطح پر ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس وبا کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے میں اپنا مثبت کردار نبھائیں۔ دوسروں کو اور خود کو محفوظ رکھنے کے سارے ضابطوں پر بہترین انداز میں عمل کریں تاکہ جلد سے جلد اس سماجی دوری کو ختم کرتے ہوئے اپنے رشتوں اور رابطوں کا پہلے سے زیادہ احترام کریں اور ایک ایسی زندگی کا آغاز ہو جو ہمیں پہلے سے زیادہ ایک دوسرے سے قریب کر دے اور معاشرے میں پڑی تقسیم کی دراڑ کو پاٹ دے۔
آج ہمیں ایک دوسرے کو اختلاف رائے کے باوجود کھلے دل سے تسلیم کرنے کی جو ضرورت ہے وہ اس سے پہلے کبھی اتنی زیادہ نہ تھی۔ ویسے بھی آزمائش زندگی کی قدر و قیمت میں اضافہ کر دیتی ہے۔ آئیے اس قدر و قیمت کا احترام کریں اور اپنے درمیان تلخی اور مخاصمت کے جذبات کو ختم کر کے ایک بہتر دنیا کی تخلیق کریں جو آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے
2 notes · View notes
googlynewstv · 3 years
Text
کرونا ویکسی نیشن کیلئے ڈیڈ لائن میں 30 ستمبر تک توسیع
کرونا ویکسی نیشن کیلئے ڈیڈ لائن میں 30 ستمبر تک توسیع
محکمہ صحت نے ویکسی نیشن کی ڈیڈلائن میں توسیع کردی، 31اگست تک پہلی ڈوز لگوانا ضروری ہوگی، جبکہ 30 ستمبر تک دوسری ڈوز لگوانا لازم ہوگا، 30 ستمبر کے ویکسی نیشن نہ کرانے والے فضائی ، ریلوے، اور ٹرانسپورٹ، ہوٹلز ، شاپنگ مالز میں نہیں جاسکیں گے۔ تفصیلات کے مطابق این سی اوسی نے ملک میں ویکسی نیشن کیلئے وسیع بنیاد پر سخت فیصلے کیے ہیں جس کے تحت ویکسی نیشن نہ کرانے والے فضائی ، ریلوے، اور ٹرانسپورٹ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 3 years
Text
کرونا ویکسین کی 30 کروڑ خوراکوں کی ڈیل کرلی ہے، معاون خصوصی صحت
کرونا ویکسین کی 30 کروڑ خوراکوں کی ڈیل کرلی ہے، معاون خصوصی صحت #Coronavirus #Health #Pakistan #aajkalpk
اسلام آباد: وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت فیصل سلطان نے کہا ہے کہ حکومت نے کرونا ویکسین کی 30 کروڑ خوراکوں کی ڈیل کرلی ہے۔ میڈیا بریفنگ کے دوران ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ کرونا کیسز میں اضافے کی وجہ سے مردان میں لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے، اگر کرونا قابو میں نہ رہا تو دیگر شہروں میں بھی لاک ڈاؤن لگ سکتاہے، عوام ماسک کا استعمال کریں، آپس میں 6 فٹ کا فاصلہ رکھیں، ہجوم میں نہ جائیں، ہمیں رمضان اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
peoplessvoice · 4 years
Video
اگر پہلے دن سے ملک میں کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے کیلیے ایک مشترکہ پالیسی ہوتی تو آج اس کے ثمرات مختلف ہوتے: پیپلز پارٹی رہنماؤں کی پریس کانفرنس کراچی(18 اپریل2020ء) پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما سینیٹر شیری رحمٰٰن نے کہا ہے کہ کرونا کی وبا نے پوری دنیا کوئی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ابھی تک اس بیماری کی ویکسین موجود نہیں سماجی دوری بہت ضروری ہے ،یواین او کے مطابق پاکستان میں کرونا کی خطرناک صورتحال ہوسکتی ہے ایسے میں وفاق اور صوبوں کا یک ہی بیانیہ ہونا چاہیے ہمیں کورونا سے لڑنا ہے آپس میں نہیں۔
1 note · View note
uaeinpersian · 4 years
Text
0 notes
emergingpakistan · 4 years
Text
برطانیہ میں کرونا وائرس کی نئی قسم سامنے آنے پر حکام پریشان
برطانوی سائنس دان ہفتے کو ان کوششوں میں مصروف تھے کہ وہ جان سکیں کہ آیا رواں ماہ برطانیہ میں تیزی سے پھیلنے والے کرونا وائرس کی نئی قسم کے خلاف حال ہی میں منظور ہونے والی کرونا ویکسین کار آمد ہو گی یا نہیں۔ کرونا وائرس کی نئی قسم جسے 'وی یو آئی 202012/01' کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی تشخیص جنوبی برطانیہ کی کاؤنٹی کینٹ میں کی گئی تھی اور سائنس دانوں کے ابتدائی اندازوں کے مطابق وی یو آئی پہلے سے موجود کرونا وائرس کے مقابلے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے وی یو آئی کے خدشے کے پیشِ نظر وزرا کا اجلاس رکھا جو کہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا۔  بورس جانسن کا صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اس چیز کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کرونا ویکسین، وی یو آئی کے خلاف کار آمد ثابت نہیں ہو گی۔ تاہم ان کے بقول ابھی بھی بہت کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں وہ نہیں جانتے۔
ان کا کہنا تھا کہ وی یو آئی پہلے سے موجود وائرس کے مقابلے میں 70 گنا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین مہم جاری ہے۔ یہ ویکسین امریکی دوا ساز کمپنی 'فائزر' اور جرمنی کی بائیو اینڈ ٹیک کمپنی نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔ برطانوی وزیرِ اعظم نے لندن اور جنوب مشرقی برطانیہ میں جزوی لاک ڈاؤن کے نفاذ کا حکم دیا ہے۔ جس میں لوگوں سے گھروں میں رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔ سرکاری ہدایات کے مطابق ان علاقوں میں غیر ضروری اشیا کی دکانیں بند کر دی گئی ہیں اور دیگر علاقوں کے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ لندن میں داخل نہ ہوں اور لندن کے رہائشی، شہر سے باہر نہ جائیں۔ رواں ہفتے کے وسط میں وزیرِ صحت میٹ ہان کوک کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ جنوب مشرقی برطانیہ اور لندن میں وی یو آئی کی وجہ سے کرونا وائرس زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہو۔ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ان کے بقول ہو سکتا ہے کہ وی یو آئی حال ہی میں منظور ہونے والی ویکسین کے خلاف مزاحمت کرے۔ برطانیہ کے چیف میڈیکل افسر کرس وٹی کا کہنا تھا کہ انہوں نے عالمی ادارۂ صحت کو وی یو آئی کی تیزی سے منتقلی سے متعلق آگاہ کر دیا ہے۔ برطانیہ میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین مہم جاری ہے۔ برطانیہ میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین مہم جاری ہے۔ ایک بیان میں کرس کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وی یو آئی کی وجہ سے زیادہ اموات واقع ہوتی ہیں اور یہ ویکسین کے اثرات کو متاثر کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بارے میں تحقیق جاری ہے۔ وی یو آئی میں کرونا وائرس کے مقابلے میں لگ بھگ 23 تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ جن میں پروٹین میں اضافہ بھی شامل ہے جو کہ وائرس انسانی جسم میں داخل ہونے اور وائرس کو پھیلانے کا سبب بنتی ہے۔
چین کے شہر ووہان سے پھوٹنے والے کرونا وائرس میں متعدد تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ جن میں چار ہزار تبدیلیاں صرف پروٹین کے اضافے سے متعلق ہیں۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم وی یو آئی دوسرے ممالک میں بھی موجود ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پتا لگانے میں کہ کرونا ویکسین، وی یو آئی کے خلاف بھی کار آمد ہو گی یا نہیں، تحقیق میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ تاہم وبائی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ پُر امید ہیں کہ کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم ویکسین کی افادیت کو کم نہیں کرے گی۔ جو کہ جسم میں اینٹی باڈیز بنانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ برطانیہ میں اس وبا سے اب تک 66 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بشکریہ وائس آف امریکہ  
1 note · View note
risingpakistan · 4 years
Text
ویکسین کیسے بنائی جاتی ہے؟
روایتی طور پر ویکسین بنانے کے چار طریقے ہیں۔ لائیو ویکسین میں وائرس کو کمزور کر کے شامل کیا جاتا ہے۔ ان ایکٹی ویٹڈ ویکسین میں مردہ وائرس ڈالا جاتا ہے۔ ٹوکسوئیڈ ویکسین میں وائرس کا کچھ حصہ ملا دیا جاتا ہے۔ چوتھی قسم میں وائرس کے پروٹین ڈال دیے جاتے ہیں۔ ویکسین بنانے کے کئی جدید طریقے بھی ہیں جن میں وائرس کی جینیاتی مواد یعنی ڈی این اے یا آر این اے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ جب انسان بیمار ہوتا ہے تو اس کے خون کے سفید خلیے اینٹی باڈیز بنانا شروع کر دیتے ہیں جو بیماری سے لڑتے ہیں۔ قوت مدافعت زیادہ ہو تو بیماری کے خلاف کامیابی ملتی ہے ورنہ نقصان ہو جاتا ہے۔ ویکسین بھی بیماری کی طرح قوت مدافعت کو بیدار کرتی ہے۔ لیکن جراثیم مہلک نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ انسان کے مدافعتی نظام کو کامیابی ملتی ہے۔ اکثر اوقات ویکسین کی ایک خوراک بیماری سے بچانے کے لیے کافی نہیں ہوتی اور اسے وقفے وقفے سے کئی بار لگوانا پڑتا ہے۔
ویکسین بنانے میں زیادہ وقت کیوں لگتا ہے؟ ویکسین یا کوئی بھی دوا بناتے ہی عوام کو پیش نہیں کی جاتی۔ پہلے کئی مرحلوں میں اس کی آزمائش کی جاتی ہے اور انسانی صحت کے لیے ہر طرح سے محفوظ ہونے کا اطمینان کرنے کے بعد اسے بازار میں فروخت کرنے اجازت دی جاتی ہے۔ عام طور پر نئی ویکسین کو پہلے کسی جانور پر آزمایا جاتا ہے۔ تسلی بخش نتائج ملنے پر صحت مند رضاکاروں کے ایک مختصر گروپ، عام طور پر پچاس افراد، کو ویکسین لگائی جاتی ہے۔ اگر مضر اثرات سامنے نہ آئیں تو دوسرے مرحلے میں نسبتاً زیادہ افراد کو، عموماً کئی سو افراد کو، ویکسین دی جاتی ہے۔ تیسرے مرحلے میں اسے وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے اور دسیوں ہزار افراد کو اس آزمائش میں شریک کیا جاتا ہے۔
اگر ہر عمر، نسل اور خطے کے لوگوں کو اس سے یکساں فائدہ ہو تو پھر اس کی منظوری دے دی جاتی ہے۔ معمول کے حالات میں کوئی ویکسین بنانے میں 8 سے 15 سال کا عرصہ لگتا ہے۔ اب تک جو ویکسین سب سے جلدی بنائی گئی ہے، اس میں بھی 5 سال لگے تھے۔ لیکن عالمگیر وبا کے جانی اور معاشی نقصانات کی وجہ سے ماہرین نے اپنا کام انتہائی تیز کر دیا ہے۔ کرونا وائرس کی ممکنہ ویکسینز کی آزمائش 12 سے 18 ماہ میں مکمل ہو جانے کی توقع ہے۔ چونکہ یہ کام جنوری میں شروع کر دیا گیا تھا اس لیے ماہرین امید کر رہے ہیں کہ اس سال کے آخر یا نئے سال کے آغاز تک ویکسین دستیاب ہو جائے گی۔
ویکسین کے لیے کتنی رقوم مختص کی گئی ہیں؟ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی ممکنہ ویکسینز کے لیے اربوں ڈالر مختص کیے گئے ہیں، تاکہ تحقیق اور آزمائش میں رکاوٹ نہ آئے اور جلدازجلد یہ کام مکمل کرلیا جائے۔ ان میں امریکہ سرفہرست ہے جس نے آپریشن وارپ اسپیڈ کے نام سے اربوں ڈالر کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 18 دواساز اداروں سے تعاون کیا جارہا ہے اور انھیں مختلف رقوم دی جارہی ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے فائزر اور بایو این ٹیک کو ایک ارب 95 کروڑ ڈالر، نوواویکس کو ایک ارب 60 کروڑ ڈالر اور آسٹرازینیکا کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے ہیں۔ دوسری کمپنیوں کو بھی کروڑوں ڈالر دیے گئے ہیں جن میں جانسن اینڈ جانسنز، موڈرنا، ایمرجنٹ بایوسولوشنز اور ریجینیرون فارماسیوٹیکلز شامل ہیں۔
یہ رقم گرانٹ کے طور نہیں دی جارہی بلکہ ممکنہ ویکسین کی کروڑوں خوراکوں کا معاوضہ ہے۔ ان کے ساتھ یہ یقین دہانی بھی حاصل کی جارہی ہے کہ ویکسین بننے کے بعد اسے سب سے پہلے امریکی عوام کو دیا جائے گا۔ امریکی انتظامیہ اپنے عوام کو ویکسین مفت فراہم کرے گی۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ویکسین بننے کے بعد اس کی قیمت زیادہ ہو اور غریب ممالک اپنے تمام شہریوں کے لیے اسے حاصل نہ کر سکیں۔ اس خدشے کے پیش نظر عالمی ادارے گیوی ویکسین الائنس کے اجلاس میں عطیہ دینے والے ملکوں، اداروں اور فلاحی تنظیموں نے لگ بھگ 9 ارب ڈالر کی رقوم کے وعدے کیے تاکہ ویکسین بن جائے تو اسے غریب ملکوں کو فراہم کیا جاسکے۔ برطانیہ نے اس مقصد سے 2 ارب ڈالر اور بل اینڈ امینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے ایک ارب 60 کروڑ ڈالر دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
کرونا وائرس کی زیادہ ویکسینز کیوں بنائی جارہی ہیں؟ نیویارک ٹائمز کے مطابق، دنیا بھر میں 165 سے زیادہ ممکنہ ویکسینز پر کام جاری ہے۔ عالمی ادارہ صحت کو ان میں سے 70 کا علم ہے جبکہ ریگولیٹری افیئرز پروفیشنلز سوسائٹی کی ویب سائٹ پر 41 ممکنہ ویکسینز کی تفصیلات موجود ہیں جن میں سے چند تحقیق کے ابتدائی مرحلے ہیں۔ متعدد پری کلینیکل یا پہلے مرحلے کے کلینیکل ٹرائل میں ہیں۔ صرف تین ممکنہ ویکسینز ایسی ہیں جن کی تیسرے مرحلے کی آزمائش شروع ہونے والی ہے۔ اس وقت امریکہ میں چار، چین میں چھ، آسٹریلیا میں تین، جرمنی میں دو، برطانیہ، روس اور جنوبی کوریا میں ایک ایک ویکسین کی آزمائش جاری ہے۔
میساچوسیٹس کی کمپنی موڈرنا کی ویکسین کا آخری مرحلہ جولائی کے آخر میں، آکسفرڈ یونیورسٹی اور آسٹرازینیکا کی ویکیسن کا آخری مرحلہ اگست میں اور فائزر اور بایو این ٹیک کی ویکسین کا آخری مرحلہ ستمبر میں شروع کیا جائے گا۔ کسی بھی بیماری کی ویکسین کے لیے کئی ادارے بیک وقت کام شروع کر سکتے ہیں، لیکن کرونا وائرس کی وبا پوری دنیا میں پھیلنے کی وجہ سے زیادہ ممالک اور ادارے اس ویکسین کو بنانے کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان میں سے بعض کمپنیاں دوسروں سے پہلے ویکسین مارکیٹ کر کے زیادہ منافع کمانا چاہتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ تمام ویکسین کامیاب ہو جائیں اور انھیں مارکیٹ کیا جاسکے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سی ویکسینز آزمائش میں ناکام ہو جائیں گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ابتدائی ویکسینز کی کامیابی کے بعد باقی پر کام درمیان میں چھوڑ دیا جائے۔
ویکسین بننے کے بعد عوام کو کب مل سکے گی؟ ویکسین بنانا اور طرح کا کام ہے اور اس کی وسیع پیمانے پر پیداوار یقینی بنا کر عوام تک پہنچانا مختلف کام۔ کوئی ایک کمپنی اتنی بڑی تعداد میں ویکسین نہیں بنا سکتی کہ اسے چند ماہ میں پوری دنیا کی آبادی کو فراہم کیا جاسکے۔ دوا ساز کمپنیاں دعویٰ کر رہی ہیں کہ ان کی ویکسین کو منظوری ملی تو وہ چند ماہ میں کئی کروڑ خوراکوں کی پیداوار کرنے کے قابل ہوں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ ویکسین کو منظور کیے جانے کے بعد ترقی پذیر ممالک کے عوام تک پہنچنے پہنچے ایک سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔ اسی لیے ماہرین کی خواہش ہے کہ ایک ساتھ کئی ویکسینز کامیاب ہو جائیں گے اور مختلف خطوں کے لوگوں کے لیے مختلف ویکسینز کی دستیابی ممکن ہو جائے۔
کیا ویکسین بننے کے بعد کرونا وائرس ختم ہو جائے گا؟ یہ کہنا مشکل ہے کہ کوویڈ نائنٹین کا سبب بننے والا کرونا وائرس کبھی ختم ہو سکے گا۔ خیال یہ ہے کہ اگر تمام بیمار افراد کو قرنطینہ کر دیا جائے اور وائرس کا پھیلاؤ سو فیصد روک دیا جائے تو بیماری ختم ہو جائے گی۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ انفلوئنزا جس کرونا وائرس سے ہوتا ہے، وہ ہر سال صورت بدلتا ہے اور موسم سرما میں پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ویکسین بننے کے بعد بھی کرونا وائرس موجود رہے گا اور شدت کم ہونے کے بعد بھی انسانوں کو پریشان کرتا رہے گا۔
مبشر علی زیدی
بشکریہ وائس آف امریکہ
2 notes · View notes
urduinspire · 4 years
Text
برطانوی وزیر خارجہ:روس نے برطانوی انتخابات میں مداخلت کی تھی
Tumblr media
برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ روس نے غیر قانونی طور پر حاصل شدہ دستاویزات کے ذریعے یقینی طور پر ملک کے 2019 کے انتخابات میں مداخلت کرنے کی کوشش کی۔برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک رابب نے کہا ہے کہ برطانیہ میں مداخلت کی کوششیں بالکل ناقابل قبول ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے مابین تجارتی مذاکرات کی دستاویزات انٹرنیٹ پر جاری کی گئیں اور لیبر پارٹی نے اپنی انتخابی مہم میں اسے استعمال کیا۔ توقع ہے کہ برطانیہ کے جمہوری نظام میں مداخلت کے الزامات سے متعلق طویل التواء سے متعلق تفصیلی رپورٹ آئندہ ہفتے جاری کی جائے گی۔ یہ پہلا موقع ہے جب برطانوی حکومت نے اعتماد کے ساتھ برطانیہ کے جمہوری نظام میں روس کی مداخلت کا اعتراف کیا ہے۔ برطانیہ کی حزب اختلاف کی لیبر پارٹی نے کہا ہے کہ وہ روس یا کسی اور غیر ملکی طاقت کی طرف سے ملک کے جمہوری نظام میں مداخلت کی کوششوں کی مذمت کرتی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ترجمان نے اس تاثر کو نامعقول قرار دے کر رد کر دیا ہے کہ ڈومنک راب کی طرف سے یہ بیان پارلیمنٹ کی انٹیلیجنس سکیورٹی کمیٹی کی طرف سے روس کے بارے میں رپورٹ کی اشاعت کی اہمیت کو کم کرنا ہے۔ لیبر رہنما جرمی کوربن نے سنہ 2019 کے انتخابات میں کہا تھا کہ اس دستاویز سے ثابت ہوا تھا کہ امریکہ سے ہونے والے تجارتی مذاکرات میں برطانیہ کا صحت کا سرکاری محکمہ این ایچ ایس بھی شامل تھا۔ حکومت نے اس بات کی تردید کی تھی۔ حکومت نیشنل سائبر سکیورٹی سینٹر کے تعاون سے یہ تحقیقات کر رہی ہے کہ کس طرح یہ دستاویز عام ہوئی۔ یہ اعلان قومی سلامتی کے اداروں کے ایک گروپ کے مطابق سامنے آیا ہے کہ روسی ہیکرز کرونا وائرس ویکسین پر کام کرنے والی کمپنیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ "کوئی ثبوت Read the full article
1 note · View note