Tumgik
#Justice Qazi Faiz Essa
emergingpakistan · 4 months
Text
تمام ججوں کو ہیرو مان لیتے ہیں مگر
Tumblr media
چیف جسٹس آف پاکستان، ہائی کورٹس کے تمام چیف جسٹس صاحبان، اعلیٰ عدلیہ کے تمام جج حضرات جب ہائی پروفائل سیاسی کیسوں کا فیصلہ کر لیں، جب ایجنسیوں کی طرف سے عدالتی معاملات میں پہلے مداخلت کا ذریعہ بننے اور پھر اُس کو روکنے کے کسی فارمولے پر اتفاق رائے پیدا کر لیں۔ جب نواز شریف، عمران خان اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو اپنی ہی ناانصافیوں کے بعد انصاف دینے میں کامیاب ہو جائیں، جب اپنے ججوں کے کردار کو یکسر بھولتے ہوئے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید سمیت سیاسی اور عدالتی معاملات میں مداخلت کرنے والے جرنیلوں کے احتساب سے فارغ ہو جائیں، جب مارشل لا کو بار بار قانونی قرار دیکر اب اُس کو روکنے کے قابل ہو جائیں تو پھر تھوڑی سی توجہ عوام کو جلد اور سستا انصاف دینے پر بھی دے دیں۔ اس کام میں اتنی واہ واہ تو نہیں ہو گی، ٹی وی ٹکرز بھی نہیں چلیں گے، لائیو ٹیلی کاسٹ بھی نہیں ہو گی لیکن یہ وہ بنیادی فریضہ ہے جو ہماری عدلیہ ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ 
ہم بغیر چوںو چرا تمام اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ہیرو تسلیم کرتے ہیں، مان لیتے ہیں کہ سب بڑے کمال کے جج ہیں لیکن مہربانی فرما کر عام آدمی کو انصاف دیں۔ تھوڑی سی توجہ ذرا اُن لاکھوں پاکستانیوں پر بھی مرکوز کر لیں جو ہر روز کورٹ کچہریوں میں انصاف کیلئے دھکے کھاتے ہیں، برسوں، بلکہ دہائیوں عام کیسوں کے فیصلے کا انتظار کرتے رہتے ہیں، یہاں تو کیس کے فیصلوں کے انتظار میں نسلوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں کیس عدالتوں میں زیر التوا ہیں اور ان کیسوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ نہ یہاں جلد انصاف ملتا ہے نہ سستے انصاف کا کوئی تصور اب باقی بچا ہے۔ پیسہ ہے تو عدالت جائو ورنہ گھر زمین سب کچھ بیچ کر بھی انصاف نہیں ملتا۔ غریب اور عام آدمی کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ عدالتیں انصاف کی بجائے ناانصافی کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ اسی وجہ سے عدالت کا نام سن کر ڈر لگتا ہے کہ عدالت گئے تو پھر برسوں دہائیوں کیلئے پھنس جائینگے۔ 
Tumblr media
اعلیٰ عدلیہ کے تمام جج حضرات سے سوال ہے کہ اُنہوں نے عام عدالتوں میں جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے کیا کیا؟ کتنی اصلاحات تجویز کیں؟ کتنے خط لکھے؟ گذشتہ برسوں میں چیف جسٹس حضرات نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں کتنی بار اس اہم ترین مسئلہ کے حل کیلئے فل کورٹ میٹنگز بلائیں؟ سپریم جوڈیشل کونسل نے انصاف کی جلد فراہمی میں ناکامی پر ججوں کے احتساب کے بارے میں کتنی بار سوچا اور کیا فیصلے کیے؟جب موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنا عہدہ سنبھالا تو میں نے جنگ میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس ماضی کی تمام خرابیوں کے ہر ذمہ دار کو کٹہرے میں لا کھڑا کریں، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ میں نے لکھا کہ جو ایسے مشورے چیف جسٹس کو دے رہے ہیں دراصل وہ جن کرداروں کو پسند نہیں کرتے اُن کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ احتساب جسٹس فائز کریں اور سب سے پہلے کریں۔ 
میں چاہتا تھا کہ پاکستان اور عوام کے مستقبل کیلئے چیف جسٹس کی اولین توجہ عدلیہ کی سمت درست کرنے اور اسے اس قابل بنا نے پر ہونی چاہئے کہ وہ لوگوں کو انصاف دے، عوام کا عدالتوں پر اعتماد بحال ہو، مقدمات برسوں دہائیوں تک چلنے کی بجائے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔ میری رائے میں اگر چیف جسٹس پاکستان کے عدالتی نظام میں ایسی اصلاحات لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ عدالتیں فوری اور سستا انصاف دینے لگیں تو یہ وہ کارنامہ ہو گا جو نہ صرف جسٹس فائز عیسیٰ کو امر کر دے گا بلکہ اس کا فائدہ پاکستان اور عوام کو بھی ہو گا۔ اصل توجہ اُس عدالتی نظام کی اصلاح پر ہونی چاہئے جو عوام کو انصاف دینے میں ناکام ہو چکا ہے، جس پر کسی کو کوئی اعتماد نہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں آخری نمبروں پر گنا جاتا ہے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
risingpakistan · 8 months
Text
جسٹس فائز کیسے ’’اچھا جج‘‘ بن سکتے ہیں
Tumblr media
بّلے کا نشان بیلٹ پیپر پر نہیں ہوگا یعنی تحریک انصاف بحیثیت سیاسی جماعت 8 فروری کے انتخابات سے باہر ہو گئی۔ اب پارٹی کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے یعنی کسی کا انتخابی نشان کرسی ہو گا، تو کسی کا پھول، کوئی ہارمونیم کے نشان پر الیکشن لڑے گا تو کسی کو جہاز، فاختہ، مور جیسے کئی دوسرے انتخابی نشانات پر ووٹ مانگنے پڑیں گے۔ اتنے بڑے بڑے وکیلوں کے ہوتے ہوئے بھی تحریک انصاف اپنا کیس سپریم کورٹ میں بھی ہار گئی، انٹرا پارٹی الیکشن بھی قانونی تقاضوں کے مطابق نہ کروا سکی، نہ ہی الیکشن کمیشن کو مطمئن کر سکی اور اوپر سے بلّے کے نشان کے جانے کی صورت میں بلّے باز کا نشان بھی نہ لے سکی۔ یعنی ��حریک انصاف کا پلان اے بھی فیل ہو گیا اور پلان بی بھی ناکام، نہ بلّا رہا نہ بلّے باز۔ اس صورتحال تک تحریک انصاف کو پہنچانے کا کون کون ذمہ دار ہے اس کیلئے عمران خان سمیت تحریک انصاف کی قیادت کو دوسروں کی طرف انگلیاں اُٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنے گریبانوں میں بھی ضرور جھانکنا چاہیے کہ پارٹی اور اس کے رہنمائوں سے کہاں کہاں غلطیاں بلکہ بلنڈرز ہوئے۔
بلّے کے نشان کا بیلٹ پیپر پر نہ ہونے نے بلاشبہ انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے اور اس بات کا افسوس اپنی جگہ کہ ایک بڑی سیاسی جماعت بحیثیت سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتی لیکن سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے والے مقدمہ میں دو دن کی طویل بحث کو سننے کے بعد کسی کو اس بات کا شک نہیں کہ تحریک انصاف کا کیس بہت کمزور تھا، اس کے وکیلوں کے پاس نہ ثبوت تھے نہ مضبوط قانونی نکات۔ اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بُرا بھلا کہنے سے اور اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے اُن کی ٹرولنگ کرنے سے تحریک انصاف والے اپنے آپ کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن کیا یہ درست نہیں کہ بار بار موقع دیے جانے کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروایا اور جب کروایا تو وہ محض کاغذی کارروائی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ قانونی طور پر تو تحریک انصاف کے وکیلوں کے پاس کچھ نہ تھا اس لیے سارا زور کیس کے سیاسی پہلو پر ڈالا گیا اور بار بار یہ کہا گیا کہ اتنی بڑی سیاسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کا سیاست، جمہوریت اور سسٹم کو بہت نقصان ہو گا۔
Tumblr media
عدالتی کارروائی کے دوران یہ بھی کہا گیا کہ تحریک انصاف انتخابی نشان سے محروم ہوئی تو اُس کے امیدوار پھر بھی الیکشن لڑیں گے لیکن آزاد حیثیت سے۔ سپریم کورٹ کے تین ججوں نے متفقہ طور پر جو فیصلہ دیا وہ قانونی نوعیت کا تھا اور اُس میں سیاسی پہلو کو نظر انداز کیا گیا، جس پر قاضی فائز جیسے جج پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ اُنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر یہ فیصلہ دیا۔ اگر سیاسی فیصلہ کیا جاتا اور قانونی نکات کو نظر انداز کیا جاتا تو پھر کہا جاتا کہ یہ تو سیاسی فیصلہ ہے جس میں قانون اور آئین سے ایک لاڈلے کی خاطر پہلو تہی کی گئی۔ اگر تحریک انصاف آج سے دو سال پہلے، ایک سال پہلے یا چھ ماہ پہلے ہی الیکشن کمیشن کے بار بار کہنے پر انٹرا پارٹی الیکشن کروا دیتی تو یہ مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ یاد رہے کہ یہ مسئلہ الیکشن کمیشن اور تحریک انصاف کے درمیان عمران خان کی حکومت کے دور سے چل رہا ہے اور یہ وہ دور تھا جب خان صاحب کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کھڑی تھی۔
کہا جا رہا ہے کہ انتخابات سے ایک ماہ قبل سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیوں دیا؟ ذرا سوچیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا سپریم کورٹ نے کوئی سوموٹو لیا؟ تحریک انصاف کے کسی مخالف کی درخواست کو سنا؟ یا تحریک انصاف کی اپنی اپیل پر فیصلہ دیا جو دو تین دن پہلے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی اور یہ درخواست کی گئی کہ اس اپیل کو فوری سنا جائے جس کیلئے عدالت کو ہفتہ کے روز بھی پورا دن بیٹھنا پڑا۔ اس فیصلے کی ٹائمنگ کا تعلق تحریک انصاف کے اپنے فیصلوں اور اپنے اقدامات سے تھا۔ تحریک انصاف کو یقیناً فوج پر 9 مئی کے حملے اور اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی مول لینے پر کئی مشکلات کا سامنا ہے لیکن یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے تحریک انصاف کی لڑائی چیف جسٹس فائز عیسیٰ کو لڑنی چاہیے، اُنہیں دو تین جرنیلوں کے خلاف فیصلے دینے چاہئیں اور عمران خان کو جیل سے نکال کر اقتدار کی کرسی میں بٹھا دینا چاہیے تو پھر ہی وہ اچھے جج کہلوانے کے اہل ہوں گے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا ماضی گواہ ہے کہ وہ کسی دباؤ میں نہ فیصلہ کرتے ہیں نہ اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی سے خوفزدہ ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف فیصلے بھی دیے اور اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ ��مایت سے عمران خان کی حکومت میں اپنے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس اور اپنی اہلیہ سمیت ہراساں کیے جانے کی تمام کوششوں کا بڑی جرات مندی سے مقابلہ کیا اور تمام الزامات کو کھلی عدالت میں غلط ثابت کیا۔ اُنہوں نے چیف جسٹس بننے کے بعد گزشتہ چند مہینوں میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے متعلق فیض آباد دھرنا کیس سمیت مشکل مقدمات (جن کو سابق چیف جسٹسز نے فائلوں میں دبا دیا تھا) کو کھول کر کھلی عدالت میں سنا اور ایکشن لیا۔ جسٹس فائز کے فیصلے پر اعتراض ہو سکتا ہے، اُن کا فیصلہ غلط ہو سکتا ہے لیکن کیا ایسا جج تحریک انصاف اور اُس کی سوشل میڈیا کی ٹرولنگ سے خوفزدہ ہو کر اُن کیلئے ’’اچھا جج‘‘ بن سکتا ہے۔
 انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
newstvchannel-blog · 6 years
Photo
Tumblr media
GEO News TV Pakistan https://is.gd/2tM585
Justice Qazi Faiz Essa Ke Khilaaf Darkhwast, Naya Tanaza. Aaj Shahzaib Khanzada Kay Sath - GEO News TV Talk Show
GEO News Live TV Stream - Justice Qazi Faiz Essa Ke Khilaaf Darkhwast, Naya Tanaza. Aaj Shahzaib Khanzada Kay Sath - GEO News TV Talk Show - News TV Channel
0 notes
Breaking News Justice Qazi Faiz Essa Ka Faisla Sunadiya Gaya
Breaking News Justice Qazi Faiz Essa Ka Faisla Sunadiya Gaya
Breaking News Justice Qazi Faiz Essa Ka Faisla Sunadiya Gaya Breaking News Justice Qazi Faiz Essa Ka Faisla Sunadiya Gaya
View On WordPress
0 notes
siasiexpress · 7 years
Photo
Tumblr media
Government and army should not be maligned in Faizabad Operation – Watch detailed report Justice Qazi Faiz Essa remarks http://dlvr.it/Q3f2Hb
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
اگر عدلیہ آزاد ہوتی
Tumblr media
چیف جسٹس عمر بندیال کو تاریخ کیسے یاد رکھے گی یہ تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اب ہے امتحان نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں کہ الیکشن 2023ء کے ہونے نہ ہونے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ 2007ء میں سابق چیف جسٹس (ر) افتخار چوہدری کے انکار کے نتیجے میں جس تحریک نے جنم لیا وہ تاریخی جدوجہد ہونے کے باوجود اپنے اصل مقاصد یعنی اعلیٰ عدلیہ کو نظریہ ضرورت اور پی سی او کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد نہ کر پائی البتہ ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دیگر اداروں کی طرح یہاں عہدہ کی میعاد میں توسیع نہیں ہوتی اور آپ کو پتا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں کون کب چیف جسٹس ہو گا۔ جناب افتخار چوہدری سے لیکر جسٹس بندیال تک شاید ہم وہ خواب پورے نہ کر سکے کہ عام آدمی کو بھی جلد انصاف ملے۔ ایک ایسے تقسیم شدہ معاشرہ میں جہاں لوگ بینچ کی تشکیل سے فیصلے سمجھ جائیں، جہاں ریاست کے اندر ریاست کا تصور عدلیہ کو کمزور سے کمزور کر رہا ہو وہاں بہت زیادہ توقعات بھی نہیں ہونی چاہئیں بس نئے چیف پر بھاری ذمہ داری اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کی بھی آگئی ہے۔ 
ایک کنٹرول جمہوریت میں جہاں چند سال بعد سیاست کا نیا اسکرپٹ تیار کیا جاتا ہو، جماعتیں بنانے اور توڑنے کی فیکٹریاں لگی ہوں وہاں عدلیہ کے سیاسی فیصلوں میں شک و شہبات آتے ہی ہیں۔ ریاست کے چار ستونوں میں اگر تضاد آجائے اور تصادم والی صورت حال پیدا ہو جائے تو سب کی نظر اعلیٰ عدلیہ پر ہی جاتی ہے۔ کاش 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد کے گورنر راج والے فیصلے کو فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر نظریہ ضرورت کے تحت درست نہ قرار دیتے اور سندھ کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے تو شاید ہمیں 1971ء دیکھنے کو نہ ملتا۔ اس وقت غلام محمد اور جسٹس منیر کے درمیان خفیہ پیغامات نے پاکستان توڑنے کی بنیاد فراہم کر دی اور اسکے بعد سے آج تک ہم سنبھل ہی نہ پائے اور عدلیہ اتنی آزاد ہوئی جتنی جمہوریت اور صحافت۔ اس ملک میں چار مارشل لا لگے 1958ء سے 1999ء کے درمیان۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پہلی ہی آمریت کو آمریت اور آمر کو آمر کہہ دیتے تو شاید مارشل لا دفن ہو جاتا ہمیشہ کیلئے اور نظریہ ضرورت زندہ نہ ہوتا، کیا بدقسمتی ہے کہ جہاں ججز کیا عدلیہ ہی نظر بند ہو، ججز، چیف جسٹس اپنے گھروں سے باہر نہ آ سکیں وہاں کیسی آزاد عدلیہ اور کہاں کے انصاف پر مبنی فیصلے، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور گھروں کی آڈیو ویڈیو لیک ہوتی ہوں اور کوئی تحقیق تک نہ ہو کمیشن بنے تو اسے روک دیا جائے وہاں خود ججزز کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں۔
Tumblr media
ایسے فیصلے تو ویڈیو ریکارڈ کرنے والے کو حوصلہ دیتے ہیں۔ ایک بار سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی مرحوم نے بتایا تھا کہ 16؍ اکتوبر 1999ء کی شام جب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ حکومت ختم کر دی گئی ہے اور فوج نے اقتدار سنبھال لیا ہے میں نے ساتھی ججوں کو فون کرنا شروع کیا کہ کیا کرنا ہے ماسوا چند ججز کے جن کا تعلق کراچی سے تھا کسی نے یا تو فون نہیں اٹھایا یا اگر مگر کر کے اس مسئلے پر بات نہیں کی۔ جب ہم خود ہی کمزور ہو جائیں تو کسی سے کیا شکایت۔ میں کورٹ جانے کے لئے دوسرے دن باہر نکلا تو ایک جونیئر آفیسر نے جو باہر ہی کھڑا تھا مجھ سے کہا سر آپ گھر میں رہیں۔ جس ملک میں ایک وزیراعظم کو عدالتی قتل کے ذریعہ پھانسی دیدی جائے اور اس بینچ کے ایک جج سالوں بعد اعتراف کریں کہ انہوں نے جونیئر جج ہونے کے ناتے پھانسی کے حق میں فیصلہ دبائو میں دیا اور پھر وہی جج اس ملک کا چیف جسٹس بنے وہاں انصاف نہ ہوتا ہے اور نہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے، ایک زمانہ تھا جب ججزز اپنے فیصلوں سے بولتے تھے اب ریمارکس اور ٹی وی کے ٹکرز کے ذریعہ بولتے ہیں۔
بدقسمتی سے وکیلوں اور صحافیوں، سیاستدانوں اور سی ایس پی اور بیورو کریسی کی جو نئی پود اس فرسودہ تعلیمی نظام کی وجہ سے سامنے آ رہی ہے اسکے واضح اثرات ہمیں ان اداروں میں نظر ا��رہے ہیں۔ ایسے میں اس ملک کے نئے چیف جسٹس کیا تبدیلی لاسکتے ہیں اور یہ ہی ان کا اصل امتحان ہو گا۔ ان کے سامنے کئی چیلنجزز ہیں کاش چیف جسٹس عمر بندیال صاحب فل کورٹ اجلاس بلا کر اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے تقسیم کا تاثر ختم کرتے، کسی ایک آدھ مسئلہ پر فل کورٹ بنا ڈالتے، مفادات کے ٹکرائو پر بینچ سے الگ ہونے کی اعلیٰ روایت برقرار رکھی جاتی اور کچھ نہیں تو یا تو پنجاب اسمبلی کے معاملے پر از خود نوٹس نہ لیتے اور یا پھر 14 مئی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کو توہین عدالت پر سزا ہی دے ڈالتے۔ ہر چیز تاریخ پرچھوڑ��ے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ ہم تو تاریخ بھی اپنے مطلب کی لکھتے ہیں۔ 
اب نئے چیف صاحب ایک ایسے وقت میں اپنے عہدہ کا حلف لینے جا رہے ہیں جہاں انہیں ایک طرف اعلیٰ عدلیہ کی تقسیم کے تاثر کو زائل کرنا ہے، بہت سے اہم فیصلے کرنے ہیں، سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا ہے، ازخود نوٹس کے طریقہ کار کو اور اس کیخلاف اپیل والے مسئلے کو دیکھنا ہے اور سب سے بڑھ کر سول کورٹ سے سیشن کورٹ تک ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک اور ان عدالتوں کے درمیان انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے لے کر ملٹری کورٹ تک کے معاملات کو صرف دیکھنا ہی نہیں حل نکالنا ہے۔ عام آدمی کے لئے تاریخ پر تاریخ کے رحجان کو ختم کرنا ہے۔ شاید ان کے لئے یہ آسان نہ ہو کیونکہ خود ہماری وکلا برادری اور بار ایسوسی ایشن سیاسی طور پر مکمل تقسیم ہیں وکیلوں پر بدقسمتی سے سیاسی مفادات حاوی ہیں۔ خود میری برادری میں صحافیوں کو وزیر، مشیر اور وزیراعلیٰ بننے کا شوق بڑھتا جا رہا ہے تو دوسرں سے کیا شکایت۔ آج کا تو فلسفہ صحافت بھی یہ ہے جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔ چاہے ضمیر ہی کیوں نہ ہوں۔
مظہر عباس 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا
Tumblr media
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک کے 29 ویں چیف جسٹس بن گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اب تک اس عہدہ پر فائز ہونے والے چیف جسٹس صاحبان سے اس بناء پر مختلف ہیں کہ انھیں عدلیہ سے باہر کرنے کی مسلسل کوشش ہوئی مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بہادری، ان کی اہلیہ کی مشکل حالات برداشت کرنے کی صلاحیت اور ان وکلاء اور سول سوسائٹی کی جدوجہد سے طالع آزما قوتوں کی سازش ناکام ہوئی۔ گزشتہ دس برسوں کی عدلیہ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے مگر انھوں نے زیادہ تر وکالت کا وقت کراچی میں گزارا۔ وکلاء تحریک کے جلوسوں کو کور کرنے والے صحافی گواہی دیتے ہیں کہ فائز عیسیٰ ان جلوسوں میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے، جب سابق صدر پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت مقرر ہونے والے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج صاحبان بشمول چیف جسٹس رخصت کر دیے گئے تو فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے براہِ راست بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔
انھوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اخبارات میں کالعدم تنظیموں کی خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ کوئٹہ میں 8 اگست 2016 کو مرکزی شاہراہ پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کانسی کو دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا تو بلال انور کانسی کی میت سول اسپتال لے جائی گئی تو کوئٹہ کے وکیل سول اسپتال پہنچ گئے تھے۔ دہشت گردوں نے سول اسپتال کوئٹہ پر خودکش حملہ کیا۔ اس حملہ میں 70 کے قریب وکلاء شہید ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل ٹریبونل اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس خودکش دھماکے کے تمام محرکات کا گہرائی سے جائزہ لیا تھا اور رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ افغانستان کی سرحد عبور کر کے خودکش حملہ آور کس طرح کوئٹہ میں اپنا ہدف پورا کرتے ہیں؟ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثارکو جسٹس فائز عیسیٰ کی اس رپورٹ سے شدید صدمہ ہوا تھا۔ انھوں نے اس رپورٹ پر عملدرآمد میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور ذرایع ابلاغ پر رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
Tumblr media
2018 میں ایک مذہبی تنظیم نے انتخابی قوانین میں ہونے والی ترمیم کے خلاف راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد چوک پر دھرنا دیا، یہ دھرنا کئی ہفتوں جاری رہا۔ اس دھرنا کے مقاصد واضح نہیں تھے۔ ایک معاہدہ کے بعد دھرنے کے شرکاء منتشر ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس غیر قانونی اجتماع کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت کے لیے مقرر کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری 2019 کو ایک جامع رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں دھرنے کے ذمے داروں کا تعین کیا تھا۔ اس رپورٹ میں آزادئ صحافت اور آئین کے آرٹیکل 19 پر لگنے والی پابندیوں کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق اظہارِ رائے اور پریس کی آزادی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ان معرکتہ الآراء فیصلوں پر سپریم کورٹ نے عملدرآمد پیدا کرنے میں کسی نے دلچسپی نہیں لی۔ صدر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کیا۔ ان پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے گوشوارے انکم ٹیکس میں جمع نہ کرانے کا الزام لگایا گیا۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان الزامات سے بری کر دیا مگر ان کی اہلیہ کے خلاف ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا لیکن ان پر بھی کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تحریک انصاف کے جیالوں نے سوشل میڈیا پر حقائق کے منافی بہت سی وڈیوز وائرل کیں۔ سپریم کورٹ نے قاضی فائز عیسیٰ کیس میں صدر عارف علوی کے خلاف یہ فیصلہ تحریر کیا کہ انھوں نے ریفرنس بھیجتے وقت اپنا ذہن استعمال نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے کو غلطی قرار دیا اور اس کی ذمے داری سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم پر عائد کی۔ بہر حال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بحال تو ہوئے مگر چیف جسٹس، ریٹائرڈ عمر عطاء بندیال نے کسی بھی اہم مقدمہ میں انھیں بنچ میں شامل نہیں کیا۔ جسٹس عطاء بندیال نے عدالتی تاریخ کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ وہ ایک متنازعہ جج کی حیثیت سے تاریخ کا حصہ بن گئے۔
جسٹس عطاء بندیال نے تو اپنی ساس اور سینئر وکیل خواجہ طارق رحیم کی گفتگو کے آڈیو اور دیگر رہنماؤں کی گفتگو پر مشتمل آڈیوز کی تحقیقات کے لیے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل کمیشن کو تحقیقات سے روک دیا تھا۔ بہرحال اب جسٹس عطاء بندیال کا دور تو ختم ہوا اور قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا امتحان شروع ہورہا ہے۔ انھوں نے حلف اٹھاتے ہوئے اپنی اہلیہ کو ساتھ کھڑا کر کے صنفی مساوات کی ایک نئی مثال قائم کی۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 50 ہزار سے زائد مقدمات زیرِ التواء ہیں۔ گزشتہ دنوں جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے گھروں پر حملے ہوئے۔ ان کے گھر جلائے گئے۔ اس برادری کے اکثر افراد کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے ساتھ مسیحی برادری کے ساتھ یکجہتی کے لیے جڑانوالہ گئے، یوں مظلوم طبقات سے یکجہتی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی مگر معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے ایک معرکتہ الآراء فیصلہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن نے اقلیتوں سے امتیازی سلوک ختم کرنے کے لیے اہم تجاویز پیش کی تھیں مگر ان تجاویز پر بھی مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس فیصلہ پر مکمل طور پر عملدرآمد کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔ گزشتہ 23 برسوں سے لاپتہ افراد کا معاملہ کسی صورت حل نہیں ہو پایا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ یہ کمیشن اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ کسی اور غیر جانبدار اور بہادر جج کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
نئے چیف جسٹس سے قوم کی توقعات
Tumblr media
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس منصب جلیلہ پر فائز ہوتے ہی ان سے قوم نےبہت سی توقعات وابستہ کر لی ہیں کیونکہ ان کی شہرت ایک ایسے جج کی ہے جو نہ صرف آئین کی پاسداری کرتے ہیں بلکہ آئین کی بنیادی روح کو بھی سمجھتے ہیں اور ان پر کوئی اثر انداز بھی نہیں ہو سکتا۔ بحیثیت قوم ہمارا عظیم المیہ یہ رہا کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ قابل فخر نہیں رہی، جس کی وجہ سے ہم عظیم بحرانوں کا شکار ہیں ۔ چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال کا دور ختم ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے ان کے دور میں بھی ہماری عدلیہ کے ناقابل فخر کردار کا عمومی تاثر نہ صرف یہ کہ ختم یا کم نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے فیصلوں سے جتنا اختلاف ان کے ساتھ بینچز میں شامل جج صاحبان نے کیا ، شاید اتنا اختلاف کسی اور چیف جسٹس کے فیصلوں پرنہیں ہوا ۔ ان کی سربراہی میں قائم کردہ ایک بینچ کے اکثریتی فیصلے پر تو ایک جج صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ تک لکھ دیا کہ’’ اس فیصلے سے آئین کو ازسر نو تحریر کیا گیا ہے۔ ‘‘اختلافی نوٹ کا یہ جملہ عدلیہ کی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کی ایک تاریخی چارج شیٹ ہے۔ 
چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال نے جاتے جاتے اپنی سربراہی میں قائم کردہ تین رکنی بینچ کا دو ایک کی اکثریت سے جو آخری فیصلہ سنایا ہے، جس میں قومی احتساب آرڈی ننس یعنی نیب آرڈی ننس میں پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، اس فیصلے سے نہ صرف بینچ کے ایک رکن جسٹس منصور علی شاہ نے اختلاف کیا بلکہ اپنا ایک ایسا اختلافی نوٹ لکھا ہے، جس میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے بنیادی مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ ’’ اس کیس میں بنیادی سوال نیب آرڈی ننس میں ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمان کی بالادستی کا ہے۔‘‘ اس اختلافی نوٹ میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے پارلیمان کے اختیارات استعمال کئے ہیں۔ ہماری عدلیہ کا یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ اس نے نہ صرف مقننہ ( پارلیمنٹ ) اور انتظامیہ (ایگزیکٹو) کے اختیارات میں مداخلت کی اور جوڈیشل ایکٹیوزم سے اس مداخلت میں اضافہ کیا بلکہ اسٹیبلشمنٹ خصوصاً فوجی آمروں کی آئین شکنی کو بھی درست قرار دیا۔ 
Tumblr media
عدلیہ پر نہ صرف یہ الزام ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے راستہ ہموار کیا بلکہ بعض جج صاحبان نے خود بھی پولیٹیکل انجینئرنگ بھی کی۔ عمر عطا بندیال ، ثاقب نثار ، آصف سعید کھوسہ ، گلزار احمد اور افتخار چوہدری پر یہ الزامات بہت زیادہ ہیں ۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی ، کرپشن اور معاشی بحران کا شکار ہے ۔ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف جنگ اور معاشی بحران پر قابو پانے کی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن اس جنگ اور ان کی کوششوں میں ہر ادارے کی اپنی آئینی حدود ہیں ، جو خطرناک حد تک پار کر لی گئی ہیں۔ یہ صورت حال حقیقی جمہوریت ، قانون، آئین کی عمل داری اور معاشی استحکام کیلئے خطرناک ہے ۔ اگر ادارے اپنی آئینی حدود میں کام نہیں کریں گے تو حالات مزید بگڑ تے جائیں گے ۔ ملک میں نہ جمہوریت جڑ پکڑ سکے گی، نہ امن قائم ہو سکے گا ، نہ معیشت ٹھیک ہو گی اور نہ احتساب کا مضبوط نظام قائم ہوپائے گا۔ اس صورت حال میں پاکستان کی عدلیہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود سمیت دیگر اداروں کو آئینی حدود سے باہر نہ نکلنے دے۔ 
مقننہ اور سویلین انتظامیہ کے اختیارات میں تجاوز کر کے انہیں مفلوج کر دیا گیا ہے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ اس صورت حال سے نکلنے کیلئے ’’ ہیرو‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس ناجائز خواہش پر مبنی کردار کی تمنا ہی ازخود آئینی اور ریاستی ڈھانچے کو منہدم کر رہی ہے ۔ ریاست پاکستان میں طاقت کا ایک مرکز نہیں رہا، جس کی مضبوط بنیاد عوام کے آزادانہ جمہوری فیصلے ہوتے ہیں بلکہ ��اقت کے کئی مراکز بن گئے ہیں ، جو انتشار کا باعث ہیں۔ احتساب کا نظام صرف پولیٹیکل انجینئرنگ کا ہتھیار بن کر رہ گیا ہے اور بعض طاقتور حلقے احتساب سے بالاتر ہیں۔ اب پاکستان کو کسی ’’ ہیرو ‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کی ضرورت نہیں ۔ مہذب اور جمہوری معاشروں کی طرح ایسے لوگوں کی ضرورت ہے ، جو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے قائل ہوں ۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ داروں کو مقننہ اور انتظامیہ کی حدود میں مداخلت سے روکنا ہی آج کی عدلیہ اور خصوصاً نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ 
دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس چیلنج سے کیسے بنرد آزما ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلے انہیں اپنے ’’ ہاوس کو آرڈر میں لانا ہو گا ‘‘ یعنی اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا تاکہ جج صاحبان میں گروہ بندی کا وہ تاثر ختم ہو ، جو عمر عطا بندیال کے دور میں پیدا ہوا ۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کے مطابق یا خود عدلیہ کی سوچ کے مطابق سب مسائل کو حل کرنے کا زعم اگر کسی میں ہے تو اسے ختم کرنا ہو گا۔ پاکستان میں مقننہ اور سول انتظامیہ کو مضبوط بنانا ہو گا۔ احتساب کا سیاسی انتقام یا پولیٹیکل انجینئرنگ والا نظام ختم کر کے جمہوری اداروں کے ذریعے احتساب کا مضبوط نظام قائم کرنا ہو گا۔ اس کیلئے نیب آرڈی ننس کو درست کرنے کی پارلیمان کی دانش سے اتفاق کرن�� ہو گا کیونکہ یہ آرڈی ننس نہ صرف پروڈا ، ایبڈو اور پوڈا جیسے سیاہ قوانین کا چربہ اور تسلسل ہے بلکہ انہی سیاہ قوانین کے پس پردہ مذموم مقاصد اور بدنیتی کا ورثہ ہے۔ اگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ادارے اپنی آئینی حدود میں واپس آجاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی بڑی کامیابی ہو گی بلکہ عدلیہ کی ساکھ اور اس کا اعتبار بحال کرنے میں مددگاربھی ملے گی۔ قوم کو نئے چیف جسٹس سے یہی توقعات ہیں۔
نفیس صدیقی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
نئے چیف جسٹس پاس ہونگے یا فیل
Tumblr media
چیف جسٹس عمر عطا بندیال رخصت ہو گئے اور جاتے جاتے اپنے ساتھ ایسے تنازعات کی ایک لمبی فہرست لے گئے جن کا تعلق اُن کے دور کے عدالتی فیصلوں سے ہے۔ اپنے مختلف پیشروئوں کی طرح ہو سکتا ہے وہ بھی اپنے آپ سے مطمئن ہوں کہ اُنہوں نے بہت کام کئے لیکن سچ پوچھیں تو بندیال کا نام بھی تاریخ کے ناکام چیف جسٹسز میں ایک اور اضافہ ہو گا۔ ویسے تو اُنہیں تاریخ اس حوالے سے بھی یاد رکھے گی اُنہوں نے سیاسی نوعیت کے فیصلے کس قدر جانبداری سے کئے، کیسے ہم خیال ججوں کو مرضی کے فیصلے کرانے کےلئے استعمال کیا، کس طرح سپریم کورٹ کے اندر تقسیم پیدا کی لیکن اُن کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے دور میں عدالتوں پر عوام کا اعتماد بحال نہ کر سکے۔ کسی فرد سے پوچھ لیں، پاکستان کے کسی خطہ میں چلے جائیں کسی کو بھی عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں۔ لوگ عدالتوں میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ نہ صرف انصاف بہت مہنگا ہو چکا بلکہ اگر کوئی اپنا سب کچھ بیچ کر انصاف کے لئے عدالت میں چلا بھی جائے تو برسوں بلکہ کچھ کیسوں میں تو دہائیوں تک فیصلے نہیں ہوتے۔
Tumblr media
مجموعی طور پر عدالتی نظام ناکام ہو چکا۔ اپنے گزشتہ کئی چیف جسٹسز کی طرح بندیال صاحب نے بھی اس بنیادی مسئلہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ دوسروں کی طرح اُن کی توجہ بھی بڑے بڑے سیاسی مقدمات پر ہی مرکوز رہی اور یوں عدلیہ مزید تنازعات کا بھی شکار ہوئی اور عوام کو انصاف دینے کے بنیادی فریضے سے بھی مزید دور ہوتی چلی گئی۔ بندیال رخصت ہو گئے اور اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے چیف جسٹس بن گئے۔ اب اُن کا امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔ نئے چیف جسٹس اچھی ساکھ کے مالک ہیں لیکن اُن کو تاریخ کیسے دیکھے گی اس کا فیصلہ اس بات پر ہو گا کہ اُن کا کردار بحیثیت چیف جسٹس کیا رہتا ہے۔ مختلف لوگوں کی اُن سے مختلف توقعات وابستہ ہیں۔ کوئی چاہتا ہے کہ چیف جسٹس ماضی میں کئے گئے غلط سیاسی فیصلوں کو درست کریں۔ کسی کی خواہش ہے کہ وہ فوجی عدالتوں کو سب سے پہلے ختم کریں۔ سیاسی جماعتوں کی چیف جسٹس سے متعلق اپنی اپنی توقعات ہیں۔ تاہم میری نظر میں چیف جسٹس صاحب کا اصل امتحان یہ ہو گا کہ کیا وہ عمومی طور پر پاکستان کی عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کر پائیں گے۔
اگر ایک طرف سپریم کورٹ سے یہ توقع ہو گی کہ اُس کا جھکاؤ کسی ایک سیاسی طبقہ کی بجائے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے پر مرکوز ہو، عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تقسیم ختم ہو، چیف جسٹس کے بینچ بنانے، مقدمات لگانے وغیرہ جیسے اختیارات کو غلط استعمال ہونے سے بچانے کے لئے اصلاحات کی جائیں تو دوسری طرف پاکستانی قوم کو عام عدالتوں میں انصاف چاہئے۔ جلد اور سستا انصاف۔ ایسا عدالتی نظام جو مظلوم کے لئے امید کا ذریعہ ہو اور ظالم اور قانون شکن کے لئے خوف کی علامت۔ پاکستان کی عدلیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا میں انصاف کی فراہمی کے لحاظ سے آخری نمبروں پر آتی ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری عدالتیں انصاف دینے میں ناکام ہیں۔ اگر یہاں مظلوم تھانے میں جانے سے ڈرتا ہے تو کورٹ کچہری کا بھی یہی حال ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سب سے زیادہ توجہ پاکستان کے عدالتی نظام کی سمت درست کرنے کی طرف ہونی چاہئے تاکہ عدالتیں ظالم کی بجائے مظلوم کو انصاف دینا شروع کریں۔ عدالتیں انصاف دیں گی تو اُن کا احترام ہو گا۔ اگر سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا جیسے کئی دہائیوں سے چل رہا ہے تو پھر چیف جسٹس فائز عیسیٰ خود سوچ سکتے ہیں کہ تاریخ اُن کے بارے میں کیا فیصلہ کرے گی۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
قاضی فائزعیسیٰ نظام انصاف کو ’ڈی کالونائز‘ کر سکیں گے؟
Tumblr media
پاکستان کا نظام انصاف نو آبادیاتی غلامی کی جورسپروڈنس، قانون اور روایات کے ہاتھوں گھائل ہوا پڑا ہے، سوال یہ ہے کیا قاضی فائزعیسیٰ بطور چیف جسٹس اسے ’ڈی کالونائز‘ کر پائیں گے؟ یہ کام، بنیادی طور پر کسی فرد واحد کا نہیں، پارلیمان کا ہے۔ 13 ماہ کی قلیل مدت میں کسی چیف جسٹس سے کچھ زیادہ توقعات وابستہ کر لینا بھی مناسب نہیں، تاہم اس کے باوجود دل امید کی ڈوری سے بندھا ہے کہ کوئی اس کام کو پایہ تکمیل تک بھلے نہ پہنچا سکے، اس کا نقش اول تو بن ہی سکتا ہے۔ سماج کو تو مرہم کی حاجت ہے، ابن مریم نہ سہی کوئی ’ابن عیسیٰ‘ ہی سہی!  پاکستان کا قانون، نظام انصاف اور فلسفہ قانون، جوہری طور پر نو آبادیاتی ہے۔ ہم آج تک اپنے ’نظریہ ضرورت‘ کے علاوہ کوئی مقامی جورسپروڈنس تشکیل نہیں دے سکے۔ ہمارا قانون، ہمارا فلسفہ قانون، ہمارا نظام انصاف سب کچھ وکٹوریائی تصور کائنات کا اسیر ہے۔ جنگ آزادی 1857 کے فوری بعد متعارف کرایا جانے والا یہ نظامِ قانون و انصاف، شہریوں کے لیے نہییں رعایا کے لیے تھا۔ اس کا مقصد انصاف کی فراہمی نہ تھی، اس کا مقصد یہ تھا کہ رعایا کبھی آئندہ سر اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ یہ قانون ہم نے نہیں بنایا تھا، مسلط کیا گیا تھا۔ یہ قانون ہماری زبان میں نہیں تھا، اجنبی زبان میں تھا۔
چنانچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ آج رول آف لا کے باب میں ہم دنیا میں 130 ویں نمبر پر کھڑے ہیں اور خود جناب قاضی فائز عیسیٰ وکلا کے ملک گیر اجتماع سے سوال پوچھتے ہیں کہ کوئی ہے جو اس نظام انصاف سے مطمئن ہو، تو کوئی ایک وکیل بھی ہاتھ کھڑا نہیں کرتا۔ اس نو آبادیاتی جورسپرووڈنس کے ہوتے ہوئے قانون کی حکمرانی ممکن نہیں۔ یہ کسی کو اس کے جرم پر سزا نہیں دیتا بلکہ جس کو سزا دینا مقصود ہو یہ اس کا جرم تلاش کر لیتا ہے۔ اس نظام انصاف کو ڈی کالونائز کرنا ہو گا۔ اگرچہ یہ کام چیف جسٹس کا نہیں، پارلیمان کا ہے تاہم چونکہ عدالت کے پاس قانون کی شرح اور تعبیر کے غیر معمولی اختیارات ہیں اس لیے امید کی ڈوری جب دل کو کھینچتی ہے تو وہ صرف پارلیمان ہی کو نہیں دیکھتا، نگاہ طلب سپریم کورٹ کی جانب بھی اٹھ جاتی ہے۔ یہ میرے جیسے صف نعلین میں کھڑے طالب علم کا منصب نہیں کہ وہ نامزد چیف جسٹس کو مشورہ دے، طالب علم البتہ امید کی اس ڈوری کی کہانی لکھ سکتا ہے جو دل کو کھینچتی ہے۔
یہی امید سرگوشی کرتی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔  کچھ کام ایسے ہیں جو علامتی ہیں، جن کا تعلق تہذیب و ثقافت سے ہے اور جو لاشعور میں پڑی نو آبادیاتی گرہ کھول سکتے ہیں اور کچھ معاملات قانون اور آئین کی شرح کے ہیں جو نہ صرف ہماری سمت درست کر سکتے ہیں بلکہ ہمیں وکٹوریائی تصور کائنات سے آزاد کر کے مقامی جورسپروڈنس کی تشکیل میں معاون ہو سکتے ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ میں مختصرا عرض کیے دیتا ہوں۔ پہلی نو آبادیاتی گرہ زبان کی ہے۔ آئین اور قانون انگریزی میں ہے، عدالت کی کارروائی انگریزی میں ہوتی ہے، عدالت اپنے فیصلے انگریزی میں لکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کیا پاکستان کے شہریوں کا یہ بنیادی انسانی حق نہیں کہ انہیں ان کا قانون ان کی زبان میں لکھ کر دیا جائے تاکہ وہ اس سے آگاہ ہوں، عدالت کی کارروائی کو سمجھ سکیں اور فیصلوں کو آسانی سے پڑھ سکیں؟ اجنبی زبان میں قانون لکھ کر یہ قرار دینا کہ ’قانون سے ناواقفیت کوئی عذر نہیں‘ کیا انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے؟ نو آبادیاتی دور غلامی میں تو اس مشق کی سمجھ آتی تھی کہ انگریز کے نزدیک مقامی لوگ اور ان کی تہذیب حقیر تھی اور نو آبادیاتی بندوبست انہیں ’تہذیب‘ سکھانے آیا تھا لیکن ابھی تک اسی پر اصرار کی حکمت نا قابل فہم ہے۔ قاضی صاحب یہ گرہ ایک انتظامی فیصلے سے کھول سکتے ہیں۔ اس کے لیے کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔
Tumblr media
دوسری نو آبادیاتی گرہ کا تعلق لباس سے ہے۔ ہمارے جج صاحبان انگریزی لباس پہنتے ہیں اور پیچھے کھڑے خدام ادب کو قومی لباس، اچکن اور جناح کیپ پہنائی جاتی ہے۔ یہ انتظام ایک تہذیبی سوال ہے۔ لباس کوئی سا بھی ہو، پہن لینے میں قباحت نہیں تاہم جب مقامی تہذیب کی علامات کی تذلیل کا عنصر نمایاں ہونے لگے تو یہ تکلیف دہ بات ہے۔ اس رویے کی جڑیں بھی نو آبادیاتی دور غلامی میں ہیں۔ انگریز نے ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد مسلم تہذیب و ثقافت کی توہین اور تذلیل کو بطور پالیسی اختیار کیا اور 1857 کی جنگ آزادی کو کچلنے کے بعد اس نے اس پالیسی کو پوری شدت سے نافذ کیا۔ مسلمانوں کی تہذیبی علامتوں کو رسوا کیا گیا۔ مسلم اشرافیہ کا لباس نوکروں اور خادموں کے لیے مختص کر دیا گیا۔ قاضی فائز عیسیٰ اپنی تہذیب کی بے توقیری کی یہ رسم ایک حکم سے ختم کر سکتے ہیں۔ وہ چاہیں تو اپنی تقریب حلف برداری میں قومی لباس اور جناح کیپ میں جا سکتے ہیں اور چاہیں تو گاہے اسی لباس میں عدالت بھی تشریف لے جا سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ خدام ادب کا ڈریس کوڈ بدل کر انہیں بھی کبھی پینٹ کوٹ پہنا دیں تا کہ لباس کی بنیاد پر یہ امتیازی بندوبست ختم ہو سکے۔
کوئین میری کے سوگ میں ایک روز وکلا نے بادشاہ کے حکم پر سیاہ لباس پہنا تھا۔ ہمارے وکلا جون کی گرمی اور اگست کے حبس میں اپنے موسمی تقاضوں سے بے نیاز یہی لباس پہن کر نو آبادیاتی رسم نبھا رہے ہیں، اگرچہ اس ڈریس کوڈ کو بدلنا بار کونسلز کا کام ہے تاہم اس نو آبادیاتی گرہ کو کھولنے میں قاضی صاحب کی بطور چیف جسٹس دو چار آبزرویشنز ہی کفایت کر سکتی ہیں۔ ہمارا نوآبادیاتی نظامِ انصاف کسی کو اس کے جرم پر سزا نہیں دیتا بلکہ جس کو سزا دینا مقصود ہو اس کا جرم تلاش کر لیتا ہے۔ تیسری گرہ جورسپروڈنس کی ہے۔ ہمارے عدالتی فیصلوں میں جان مارشل سے لے کر خلیل جبران تک سب کے حوالے موجود ہوتے ہیں، لیکن اپنی اسلامی جورسپروڈنس اور اپنی تہذیب کے کتنے حوالے موجود ہوتے ہیں؟ ہم فلسفہ قانون کے لیے مغرب ہی کی طرف کیوں دیکھتے ہیں، اگر ریاست کا مملکتی مذہب اسلام ہے تو عدالتی فیصلوں میں اسلامی جورسپروڈنس کیوں نہیں ملتی؟ ہم آج بھی نو آبادیاتی جورسپروڈنس پر کھڑے ہیں۔ ہم پاکستان کی اپنی مقامی جورسپروڈنس کیوں نہیں تشکیل کر سکے؟
چوتھی نوآبادیاتی گرہ لامحدود اختیارات کی بے کراں خواہش کی ہے۔ جسے اختیار ملتا ہے وہ نو آبادیاتی وائسرائے کی طرح اس پر کوئی قدغن برداشت نہی کرتا۔ سوموٹو کے اختیارات ہوں یا بنچ بنانے کے، بہت سے معاملات اصلاح طلب ہیں۔ عالم یہ ہے کہ کبھی چپل کباب پر سوموٹو ہو جاتا ہے کبھی سموسوں کی قیمت پر۔ جو اختیارات سپریم کورٹ کو دیے گئے ہیں وہ بھی عملا فرد واحد یعنی چیف جسٹس کی ذات میں جمع ہو گئے ہیں۔ غیر ضروری جوڈیشل ایکٹوزم بھی اصل میں اسی رویے کا ایک عملی آزار ہے۔ اس سے نجات بھی ضروری ہے۔ پانچویں نو آبادیاتی گرہ کا تعلق انصاف کی فراہمی سے ہے۔ دستاویزات بتاتی ہیں کہ برطانوی نو آبادیاتی بندوبست میں انصاف کی فراہمی عدالت کی ذمہ داری نہیں تھی، یہ اس کی مہربانی تھی۔ چنانچہ سائل کو انصاف مانگنے کا حق نہیں تھا، ہاں وہ اس کی درخواست ضرور کر سکتا تھا اور نو آبادیاتی نظام اپنے وفاداروں کی شکایت کا ازالہ ازرہ احسان کرتا تھا، فرض سمجھ کر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ درخواستوں میں آج بھی prayer لکھی جاتی ہے اور انصاف کی التجا کی جاتی ہے، سائل آج بھی عرض گزار ہے، وہ انصاف کی ڈیمانڈ نہیں کر سکتا۔ 
وہ لجاجت سے صرف التجا کرتا ہے۔ نو آبادیاتی جورسپروڈنس کے اس پہلو کا یہ منطقی نتیجہ ہے کہ مقدمات لٹک جائیں، سالوں فیصلہ نہ ہو اور ان کا انبار لگ جائے۔ لوگ بری ہوں تو معلوم ہو پہلے ہی پھانسی پا چکے یا تین مرلے کے مکان کے مقدمے کا فیصلہ ہوتے ہوتے عشروں بیت جائیں۔ یہ گرہ بھی قاضی صاحب کے ایک انتظامی حکم نامے سے کھل سکتی ہے کہ انصاف کے لیے التجا نہیں جائے گی مطالبہ کیا جائے گا، prayer نہیں لکھی جائے گی ’ڈیمانڈ‘ لکھی جائے گی اور انصاف کی فراہمی رعا پر احسان نہیں، منصف پر فرض ہے۔ فیڈرل جیوڈیشل اکیڈمی اور لا اینڈ جسٹس کمیشن جیسے ادارے چیف جسٹس کے ماتحت ہوتے ہیں لیکن اب تک ان کی کارکردگی کیا ہے؟ لا اینڈ جسٹس کمیشن کے آرڈی نینس کی دفعہ 6 کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ اسلام کے سماجی عدل کے اصولوں کے مطابق قانون میں اصلاحات تجویز کرے گا۔ کیا کمیشن کی آج تک کی سفارشات میں کہیں اسلامی سماجی عدل کا کوئی ذکر ہے؟
اسی طرح ہر سال کمیشن سپریم کورٹ کے زیرِ اہتمام ایک سالانہ جوڈیشل کانفرنس کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ایجنڈا کیسے طے کیا جاتا ہے؟ اس سال آبادی کے مسئلے پر کانفرنس تھی۔ جوڈیشل کانفرنس کا آبادی سے کیا تعلق ہے؟ عالم یہ ہے کہ 52 ہزار مقدمات تو صرف سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہیں۔ تو کیا انسانی آبادی کے بجائے کانفرنس اس پر نہیں ہونی چاہیے تھی کہ سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں میں ’مقدمات کی آبادی‘ کیسے کنٹرول کی جائے؟ چھٹی نو آبادیاتی گرہ یہ ہے کہ اس میں وسائل کو امانت نہیں، مال غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ سے افسران یہاں آتے تھے اور برصغیر کے وسائل عملاً مال غنیمت تھے۔ یہاں سے ایک خاص نفسیات کی تشکیل ہوئی اور اس جدید دور میں مراعات کی شکل میں یہ نفسیاتی گرہ باقی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ چاہیں تو ان غیر معمولی مراعات کو ایک حکم نامے سے کم کر سکتے ہیں۔ اپنے ادارے سے آغاز کریں اور پھر اس کا اطلاق ساری افسر شاہی پر کر دیں۔
ہمارے نظام انصاف میں جو ’اسلامی ٹچ‘ دیا گیا ہے اس کی جڑیں بھی نو آبادیاتی بندوبست میں ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے کیا کیا تھا؟ سارا نظام کامن لا کا لیکن تھورا سا اسلامی ٹچ، کہیں قاضی، کہیں منصف تاکہ رعایا مطمئن رہے۔ یہاں بھی وہی ہے۔ یہ گویا ساتویں گرہ ہے۔ یہ ابھی تک نہیں کھل سکی۔ آج بھی قانونی بندوبست سارا کامن لا کا ہے لیکن اسلامی ٹچ کے طور پر کہیں کہیں فیڈرل شریعت کورٹ اور شریعت اپیلیٹ بنچ جیسے ادارے موجود ہیں۔ جس طرح وہاں اسلامی جج نسبتاً کم تر ہوتے تھے ایسی ہی ہمارے ہا�� بھی شریعت اپیلٹ بنچ کے ججوں کے ساتھ ہر اعتبار سے سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے۔ حتی کہ انہیں جج کا درجہ بھی صرف اس مختصر دورانیے کے لیے حاصل ہوتا ہے جب وہ بنچ کا حصہ ہوتے ہیں اور سماعت کر رہے ہوتے ہیں۔ شریعت اپیلیٹ بنچ عملاً غیر فعال ہے اور اس کے سامنے پچھلی صدی کے مقدمات بھی فیصلے کے منتظر ہیں۔ قاضی صاحب چاہیں تو یہ بنچ بھی فعال ہو سکتا ہے۔ اور وہ چاہیں تو تمام جج صاحبان کے لیے اسلامی قانون سے آگہی کا بھی کوئی پروگرام شروع کر سکتے ہیں تا کہ الگ سے کسی اسلامی اور شرعی عدالت کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں شریعہ اکیڈیمی بنائی ہی اسی مقصد کے لیے گئی تھی۔
آٹھویں نو آبادیاتی گرہ کا تعلق تعیناتی اور احتساب سے ہے۔ نو آبادیاتی دور میں جج تو کیا معمولی سے انگریز عمال حکومت کے خلاف بھی احتساب کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ مناصب عطا کرنے میں بھی اہلیت کا بنیادی کردار نہ تھا۔ اس نو آبادیاتی روایت نے ہمارے پورے سماج کو گرفت میں لے رکھا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ چاہیں تو اس رسم کے خاتمے کی ابتدا اپنے ادارے سے کر سکتے ہیں۔ ججوں کی تعیناتی اور ججوں کے احتساب کی ذمہ داری آئین نے جیوڈیشل کمیشن اور سپریم جیوڈیشل کونسل پر ڈالی ہے۔ یہ دو الگ ادارے ہیں لیکن عملاً سپریم کورٹ کے ماتحت دکھائی دیتے ہیں۔ غور طلب معاملہ یہ ہے کہ ان کی الگ حیثیت کیسے قائم کی جائے، تعیناتی کا طریقِ کار کیسے شفاف بنایا جائے اور کڑا احتساب کیسے یقینی بنایا جائے ججوں کو جو اعلیٰ مقام دیا گیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا احتساب بھی کڑا ہو اور چونکہ جج ہی ججوں کا احتساب کرتے ہیں تو انھیں مثالی نمونہ پیش کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ سپریم جیوڈیشل کونسل یا تو عضو معطل کی طرح رہتا ہے یا کسی مخصوص جج کو نشانہ بنانا ہو تو تیز رفتار کارروائی کے ریکارڈ توڑ دیتا ہے۔
نویں گرہ قانون کی تشریح سے متعلق ہے۔ ہمارا صرف قانون ہی نو آبادیاتی نہیں ہے بلکہ اس کی شرح بھی بالعموم کامن لا ہی کے تناظر میں کی جاتی ہے اور کسی بھی نکتے کی تفہیم کے لیے عملا کامن لا کی روایات ہی معیار ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہمارا قانون بھلے کامن لا سے اخذ کیا گیا ہو لیکن ہماری آئینی جورسپروڈنس اس سے یکسر مختلف ہے۔ ہمارے نو آبادیاتی قانون کی تشریح کامن لا کی روایات کی روشن میں نہیں بلکہ ہماری آئینی مبادیات کی روشنی میں ہونی چاہیے۔ یہی بات فواد اسحاق بنام مہرین منصور کیس کے فیصلے میں جناب جسٹس قاضی فائز عیسی اور جناب جسٹس طارق مسعود لکھ بھی چکے ہیں کہ قدیم امریکی اور یورپی تصورات بسا اوقات ہمارے پاکستان کے جج صاحبان کے ذہن میں بھی سرایت کر جاتے ہیں۔ قانون کی شرح کرتے وقت ان یورپی اور امریکی قدیم تصورات کو ججوں کے ذہنوں سے باہر نکا لنے میں بھی قاضی فائز عیسیٰ بطور چیف جسٹس اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 
نظام انصاف کا اس ملک میں جو حال ہے اس میں مناجات کے تو دفتر لکھے جا سکتے ہیں لیکن سو باتوں کی ایک بات یہی ہے کہ اس نظام قانون و انصاف کو ڈی کالونائز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی کام قائد اعظم کر رہے تھے، اور انہوں نے ایکٹ آف انڈیا کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جب اپنی دستور ساز اسمبلی کے فیصلوں کو گورنر جنرل کی توثیق سے مبرا قرار دینے کی رسم ڈالی تو یہ گویا ڈی کالونائزیشن کا ارتقائی طریقہ تھا۔ افسوس کہ سپریم کورٹ کے جسٹس منیر کی سربراہی میں وضع کیے گئے نظریہ ضرورت نے اس سارے عمل کو پامال کر دیا۔ تاریخ اب قائد اعظم کے رفیق کار قاضی محمد عیسیٰ کے بیٹے کی طرف دیکھ رہی ہے۔ دیکھیے کیا فیصلہ آتا ہے۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
emergingpakistan · 4 years
Text
سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کر لیا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی، فل کورٹ کے دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد شامل تھے۔ یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں، اس دوران ایک اٹارنی جنرل نے ججز سے متعلق بیان پر نہ صرف استعفیٰ دیا بلکہ فروغ نسیم بھی کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے کے لیے وزیر قانون کے عہدے سے مستعفی ہوئے، یہی نہیں بلکہ یہ کیس تاریخی لحاظ سے اس لیے بھی اہم رہا کیونکہ اس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس عیسیٰ عدالت میں خود پیش ہوئے۔
دوران سماعت جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے حکومتی وکیل فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہونے پر جواب الجواب دیا جس کے بعد آج کیس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا اور 4 بجے کے بعد فیصلہ جاری کر دیا۔ سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ابتدائی طور پر مختصر فیصلہ سنایا، بعد ازاں مختصر تحریری فیصلہ جاری کیا گیا جس میں تین ججز نے اکثریت فیصلے سے اختلاف میں اضافی نوٹ لکھا۔ فیصلے کے مطابق عدالت نے درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست کو منظور کر لیا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جاری کیا گیا شوکاز نوٹس بھی منسوخ کر دیا، مزید یہ کہ عدالت کی جانب سے یہ حکم دیا گیا کہ فیڈرل بورڈ آف (ایف بی آر) 7 روز میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کو نوٹس جاری کرے، نوٹس ہر پراپرٹی کا الگ الگ بھجوایا جائے، ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ نوٹس جسٹس عیسیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کے پتے پر بھجوایا جائے اور ایف بی آر معاملے کو التوا میں نہ ڈالے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ قانون کی کارروائی بنتی ہو تو سپریم جوڈیشل کونسل مجاز ہو گی، چیئرمیں ایف بی آر اپنے دستخط سے رپوٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو جمع کرائیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ انہوں نے 2011 سے 2015 کے دوران لندن میں لیز پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیدادیں حاصل کیں تھیں لیکن انہیں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا۔ بعدازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات کا مقابلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ فلیٹس کے بینیفشل اونر نہیں ہیں۔ اس درخواست کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں استدعا کی تھی کہ کچھ طاقتیں انہی کسی نہ کسی طریقے سے آئینی عہدے سے ہٹانا چاہتی ہیں جبکہ صدر مملکت عارف علوی نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے قبل اپنی آزادانہ رائے قائم نہیں کی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وزیراعظم، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 116 (بی) کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا اور غلطی سے اسے ان کی اہلیہ اور بچوں پر لاگو کر دیا تھا جبکہ اس قانون کا اطلاق صرف منحصر اہلیہ اور ان بچوں پر اطلاق ہوتا ہے جو چھوٹے ہوں اور والد پر انحصار کرتے ہوں۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سرکاری ایجنسیوں بشمول ایف آئی اے نے خفیہ طور پر درخواست گزار اور ان کے خاندان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 4 اور 14 کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے معلومات حاصل کیں اور انہیں تحقیقات سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا گیا نہ ہی انہیں جواب دینا کا کوئی موقع فراہم کیا گیا۔ جسٹس قاضیٰ عیسیٰ نے عدالت سے درِخواست کی تھی کہ حکومت کی جانب سے ان کے خاندان کی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو غیرقانونی قرار دیا جائے، ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ میرے اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقات غیر قانونی ہیں۔ اس معاملے پر گزشتہ روز حکومتی وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے جس پر عدالت نے ان سے تحریری معروضات جمع کروانے کا کہا تھا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔
بشکریہ ڈان نیوز
1 note · View note
emergingpakistan · 5 years
Text
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور کے کے آغا کون ہیں ؟
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم آئینی ادارہ سپریم جوڈیشل کونسل آج سے اعلیٰ عدلیہ کے دو ججز کے خلاف اپنے حلف کی خلاف ورزی اور مس کنڈکٹ کی شکایات کے تحت صدر پاکستان کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنسز کی سماعت کررہا ہے۔ ان دو ججز میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد کریم خان آغا شامل ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تحریک پاکستان کے سرگرم رکن قاضی محمد عیسیٰ کے صاحبزادے ہیں۔ ان کے والد کا شمار بانی پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ قاضی محمد عیسیٰ صوبہ بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم رہنما اور پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کرنے کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئے اور یہاں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے قانون کی تعلیم لندن سے حاصل کی اور پھر وطن واپس آ کر وکالت شروع کی۔ وہ بطور وکیل تقریبا 27 سال ملک کی مختلف عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا عدالتی کیرئیر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 5 اگست 2009 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ انھیں 5 ستمبر 2014 میں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔ انھوں نے نومبر 2007 میں سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی اور عبوری آئینی حکم کے تحت ججز کے حلف لینے کی مخالف کی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہم فیصلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس عرصے کے دوران کئی اہم مقدمات میں انتہائی اہم فیصلے تحریر کیے۔ سنہ 2012 میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے میمو گیٹ کمیشن کی سربراہی بھی کی۔ میمو گیٹ اسکینڈل میں اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی پر الزام تھا کہ انھوں نے پاکستان میں فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے امریکہ سے سول حکومت کی مدد کی درخواست کی تھی۔ جسٹس فائز عیسٰی نے سپریم کورٹ کو پیش کی جانے والی کمیشن رپورٹ میں حسین حقانی کو قصوار ٹھہرایا تھا۔
کوئٹہ خودکش دھماکہ انکوائری کمیشن اسی طرح 8 اگست 2016 میں کوئٹہ میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد اس کے حقائق جاننے کے لئے ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا جس کی سربراہی بھی جسٹس قاضی فائز عیٰسی کو سونپی گئی۔ انکوائری کمیشن نے اپنی پیش کردہ رپورٹ میں خود کش دھماکے کو حکومت کی غفلت قرار دیا تھا۔ انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو متنبہ کیا کہ ملک میں دہشتگردی کے خاتمے کے لئے کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی ضروری ہے۔
حدیبیہ پیپر ملز کیس جسٹس قاضی فائز عیسٰی سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے دسمبر 2017 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف نیب کی اپیل کو مسترد کر دیا تھا۔ نیب نے حدیبیہ پیپر مل کیس میں لاہور کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کو ایک ارب 20 کروڑ روپے کی کرپشن کے الزام سے بری کر دیا تھا۔
چیف جسٹس سے اختلافات گزشتہ سال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ��اقب نثار نے اختلافات کے باعث اپنی سربراہی میں قائم اس تین رکنی بینچ سے بھی نکال دیا تھا جو آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت ایک کیس کی سماعت کر رہا تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ ان درخواستوں کی سماعت کی مجاز ہے جو عوامی نوعیت کی ہوں اور اس میں بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ بھی درپیش ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چئف جسٹس کے اس اقدام پر اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے بینچ دوبارہ تشکیل دینے کے فیصلے کو عجلت اور عدالتی نظام کے لیے برا شگون قرار دیا تھا۔
فیض آباد دھرنا کیس وکلا رہنماؤں کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر ریفرنس کی بنیاد ان کے فیض آباد دھرنا کیس میں تحریر کیا گیا فیصلہ ہے جو فوج سمیت بہت سی مقتدر قوتوں کو ناگوار گزرا تھا۔ فروری 2017 میں وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے داخلی علاقے فیض آباد میں مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے سے عوام کو درپیش مشکلات پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا جس کے بعد تقریبا ڈیڑھ سال کیس کی سماعت کے بعد جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ تحریرکیا تھا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکومت وقت کے علاوہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے دھرنے میں خلاف قانون کردار پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ 
فیصلے میں حکم دیا گیا تھا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں نفرت، انتہا پسندی اور دہشتگردی کا پرچار کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ فیصلے میں چیف آف آرمی اسٹاف کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ان ماتحت اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ فوج کسی ایک جماعت، سیاست دان یا تنظیم کو سپورٹ کر رہی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف وزارت دفاع کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست دائر کی جا چکی ہے اور عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ فیصلے میں سے فوج اور خفیہ ایجنسی سے متعلق سطور خارج کی جائیں۔
جسٹس کے کے آغا کون ہیں؟ سپریم جوڈیشل کونسل میں حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف بھی ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔ جسٹس محمد کریم خان آغا 20 ستمبر 1964 کو پیدا ہوئے اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد قانون کا پیشہ اختیار کیا۔ جسٹس کریم خان آغا اقوام متحدہ میں قانونی خدمات سرانجام دینے کے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل کے طور پر پیش ہوتے رہے ہیں۔ انہیں 2010 میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل تعینات کیا گیا تھا جس کے بعد وہ قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔ لگ بھگ 25 سال تک قانون کے شعبے سے منسلک رہنے کے بعد انہیں 30 اکتوبر 2015 کو سندھ ہائی کورٹ کا مستقل جج تعینات کیا گیا۔ اس وقت وہ سندھ ہائی کورٹ میں سنیارٹی کے حساب سے 21 ویں نمبر پر ہیں اور 19 ستمبر 2026 کو اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہوں گے۔
محمد ثاقب
بشکریہ وائس آف امریکہ
0 notes
Tumblr media
Justice Qazi Faiz Essa Ke Khilaaf Darkhwast, Naya Tanaza. Aaj Shahzaib Khanzada Kay Sath Watch Latest Pakistani talk shows Justice Qazi Faiz Essa Ke Khilaaf Darkhwast, Naya Tanaza. Aaj Shahzaib Khanzada Kay Sath via pakupdates
0 notes