Tumgik
#Chief Justice Pakistan
risingpakistan · 1 year
Text
اگر عدلیہ آزاد ہوتی
Tumblr media
چیف جسٹس عمر بندیال کو تاریخ کیسے یاد رکھے گی یہ تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اب ہے امتحان نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں کہ الیکشن 2023ء کے ہونے نہ ہونے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ 2007ء میں سابق چیف جسٹس (ر) افتخار چوہدری کے انکار کے نتیجے میں جس تحریک نے جنم لیا وہ تاریخی جدوجہد ہونے کے باوجود اپنے اصل مقاصد یعنی اعلیٰ عدلیہ کو نظریہ ضرورت اور پی سی او کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد نہ کر پائی البتہ ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دیگر اداروں کی طرح یہاں عہدہ کی میعاد میں توسیع نہیں ہوتی اور آپ کو پتا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں کون کب چیف جسٹس ہو گا۔ جناب افتخار چوہدری سے لیکر جسٹس بندیال تک شاید ہم وہ خواب پورے نہ کر سکے کہ عام آدمی کو بھی جلد انصاف ملے۔ ایک ایسے تقسیم شدہ معاشرہ میں جہاں لوگ بینچ کی تشکیل سے فیصلے سمجھ جائیں، جہاں ریاست کے اندر ریاست کا تصور عدلیہ کو کمزور سے کمزور کر رہا ہو وہاں بہت زیادہ توقعات بھی نہیں ہونی چاہئیں بس نئے چیف پر بھاری ذمہ داری اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کی بھی آگئی ہے۔ 
ایک کنٹرول جمہوریت میں جہاں چند سال بعد سیاست کا نیا اسکرپٹ تیار کیا جاتا ہو، جماعتیں بنانے اور توڑنے کی فیکٹریاں لگی ہوں وہاں عدلیہ کے سیاسی فیصلوں میں شک و شہبات آتے ہی ہیں۔ ریاست کے چار ستونوں میں اگر تضاد آجائے اور تصادم والی صورت حال پیدا ہو جائے تو سب کی نظر اعلیٰ عدلیہ پر ہی جاتی ہے۔ کاش 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد کے گورنر راج والے فیصلے کو فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر نظریہ ضرورت کے تحت درست نہ قرار دیتے اور سندھ کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے تو شاید ہمیں 1971ء دیکھنے کو نہ ملتا۔ اس وقت غلام محمد اور جسٹس منیر کے درمیان خفیہ پیغامات نے پاکستان توڑنے کی بنیاد فراہم کر دی اور اسکے بعد سے آج تک ہم سنبھل ہی نہ پائے اور عدلیہ اتنی آزاد ہوئی جتنی جمہوریت اور صحافت۔ اس ملک میں چار مارشل لا لگے 1958ء سے 1999ء کے درمیان۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پہلی ہی آمریت کو آمریت اور آمر کو آمر کہہ دیتے تو شاید مارشل لا دفن ہو جاتا ہمیشہ کیلئے اور نظریہ ضرورت زندہ نہ ہوتا، کیا بدقسمتی ہے کہ جہاں ججز کیا عدلیہ ہی نظر بند ہو، ججز، چیف جسٹس اپنے گھروں سے باہر نہ آ سکیں وہاں کیسی آزاد عدلیہ اور کہاں کے انصاف پر مبنی فیصلے، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور گھروں کی آڈیو ویڈیو لیک ہوتی ہوں اور کوئی تحقیق تک نہ ہو کمیشن بنے تو اسے روک دیا جائے وہاں خود ججزز کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں۔
Tumblr media
ایسے فیصلے تو ویڈیو ریکارڈ کرنے والے کو حوصلہ دیتے ہیں۔ ایک بار سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی مرحوم نے بتایا تھا کہ 16؍ اکتوبر 1999ء کی شام جب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ حکومت ختم کر دی گئی ہے اور فوج نے اقتدار سنبھال لیا ہے میں نے ساتھی ججوں کو فون کرنا شروع کیا کہ کیا کرنا ہے ماسوا چند ججز کے جن کا تعلق کراچی سے تھا کسی نے یا تو فون نہیں اٹھایا یا اگر مگر کر کے اس مسئلے پر بات نہیں کی۔ جب ہم خود ہی کمزور ہو جائیں تو کسی سے کیا شکایت۔ میں کورٹ جانے کے لئے دوسرے دن باہر نکلا تو ایک جونیئر آفیسر نے جو باہر ہی کھڑا تھا مجھ سے کہا سر آپ گھر میں رہیں۔ جس ملک میں ایک وزیراعظم کو عدالتی قتل کے ذریعہ پھانسی دیدی جائے اور اس بینچ کے ایک جج سالوں بعد اعتراف کریں کہ انہوں نے جونیئر جج ہونے کے ناتے پھانسی کے حق میں فیصلہ دبائو میں دیا اور پھر وہی جج اس ملک کا چیف جسٹس بنے وہاں انصاف نہ ہوتا ہے اور نہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے، ایک زمانہ تھا جب ججزز اپنے فیصلوں سے بولتے تھے اب ریمارکس اور ٹی وی کے ٹکرز کے ذریعہ بولتے ہیں۔
بدقسمتی سے وکیلوں اور صحافیوں، سیاستدانوں اور سی ایس پی اور بیورو کریسی کی جو نئی پود اس فرسودہ تعلیمی نظام کی وجہ سے سامنے آ رہی ہے اسکے واضح اثرات ہمیں ان اداروں میں نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں اس ملک کے نئے چیف جسٹس کیا تبدیلی لاسکتے ہیں اور یہ ہی ان کا اصل امتحان ہو گا۔ ان کے سامنے کئی چیلنجزز ہیں کاش چیف جسٹس عمر بندیال صاحب فل کورٹ اجلاس بلا کر اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے تقسیم کا تاثر ختم کرتے، کسی ایک آدھ مسئلہ پر فل کورٹ بنا ڈالتے، مفادات کے ٹکرائو پر بینچ سے الگ ہونے کی اعلیٰ روایت برقرار رکھی جاتی اور کچھ نہیں تو یا تو پنجاب اسمبلی کے معاملے پر از خود نوٹس نہ لیتے اور یا پھر 14 مئی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کو توہین عدالت پر سزا ہی دے ڈالتے۔ ہر چیز تاریخ پرچھوڑنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ ہم تو تاریخ بھی اپنے مطلب کی لکھتے ہیں۔ 
اب نئے چیف صاحب ایک ایسے وقت میں اپنے عہدہ کا حلف لینے جا رہے ہیں جہاں انہیں ایک طرف اعلیٰ عدلیہ کی تقسیم کے تاثر کو زائل کرنا ہے، بہت سے اہم فیصلے کرنے ہیں، سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا ہے، ازخود نوٹس کے طریقہ کار کو اور اس کیخلاف اپیل والے مسئلے کو دیکھنا ہے اور سب سے بڑھ کر سول کورٹ سے سیشن کورٹ تک ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک اور ان عدالتوں کے درمیان انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے لے کر ملٹری کورٹ تک کے معاملات کو صرف دیکھنا ہی نہیں حل نکالنا ہے۔ عام آدمی کے لئے تاریخ پر تاریخ کے رحجان کو ختم کرنا ہے۔ شاید ان کے لئے یہ آسان نہ ہو کیونکہ خود ہماری وکلا برادری اور بار ایسوسی ایشن سیاسی طور پر مکمل تقسیم ہیں وکیلوں پر بدقسمتی سے سیاسی مفادات حاوی ہیں۔ خود میری برادری میں صحافیوں کو وزیر، مشیر اور وزیراعلیٰ بننے کا شوق بڑھتا جا رہا ہے تو دوسرں سے کیا شکایت۔ آج کا تو فلسفہ صحافت بھی یہ ہے جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔ چاہے ضمیر ہی کیوں نہ ہوں۔
مظہر عباس 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کن چی��نجز کا سامنا ہو گا
Tumblr media
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک کے 29 ویں چیف جسٹس بن گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اب تک اس عہدہ پر فائز ہونے والے چیف جسٹس صاحبان سے اس بناء پر مختلف ہیں کہ انھیں عدلیہ سے باہر کرنے کی مسلسل کوشش ہوئی مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بہادری، ان کی اہلیہ کی مشکل حالات برداشت کرنے کی صلاحیت اور ان وکلاء اور سول سوسائٹی کی جدوجہد سے طالع آزما قوتوں کی سازش ناکام ہوئی۔ گزشتہ دس برسوں کی عدلیہ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے مگر انھوں نے زیادہ تر وکالت کا وقت کراچی میں گزارا۔ وکلاء تحریک کے جلوسوں کو کور کرنے والے صحافی گواہی دیتے ہیں کہ فائز عیسیٰ ان جلوسوں میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے، جب سابق صدر پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت مقرر ہونے والے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج صاحبان بشمول چیف جسٹس رخصت کر دیے گئے تو فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے براہِ راست بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔
انھوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اخبارات میں کالعدم تنظیموں کی خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ کوئٹہ میں 8 اگست 2016 کو مرکزی شاہراہ پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کانسی کو دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا تو بلال انور کانسی کی میت سول اسپتال لے جائی گئی تو کوئٹہ کے وکیل سول اسپتال پہنچ گئے تھے۔ دہشت گردوں نے سول اسپتال کوئٹہ پر خودکش حملہ کیا۔ اس حملہ میں 70 کے قریب وکلاء شہید ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل ٹریبونل اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس خودکش دھماکے کے تمام محرکات کا گہرائی سے جائزہ لیا تھا اور رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ افغانستان کی سرحد عبور کر کے خودکش حملہ آور کس طرح کوئٹہ میں اپنا ہدف پورا کرتے ہیں؟ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثارکو جسٹس فائز عیسیٰ کی اس رپورٹ سے شدید صدمہ ہوا تھا۔ انھوں نے اس رپورٹ پر عملدرآمد میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور ذرایع ابلاغ پر رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
Tumblr media
2018 میں ایک مذہبی تنظیم نے انتخابی قوانین میں ہونے والی ترمیم کے خلاف راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد چوک پر دھرنا دیا، یہ دھرنا کئی ہفتوں جاری رہا۔ اس دھرنا کے مقاصد واضح نہیں تھے۔ ایک معاہدہ کے بعد دھرنے کے شرکاء منتشر ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس غیر قانونی اجتماع کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت کے لیے مقرر کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری 2019 کو ایک جامع رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں دھرنے کے ذمے داروں کا تعین کیا تھا۔ اس رپورٹ میں آزادئ صحافت اور آئین کے آرٹیکل 19 پر لگنے والی پابندیوں کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق اظہارِ رائے اور پریس کی آزادی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ان معرکتہ الآراء فیصلوں پر سپریم کورٹ نے عملدرآمد پیدا کرنے میں کسی نے دلچسپی نہیں لی۔ صدر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کیا۔ ان پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے گوشوارے انکم ٹیکس میں جمع نہ کرانے کا الزام لگایا گیا۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان الزامات سے بری کر دیا مگر ان کی اہلیہ کے خلاف ایف بی آ�� کو تحقیقات کا حکم دیا لیکن ان پر بھی کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تحریک انصاف کے جیالوں نے سوشل میڈیا پر حقائق کے منافی بہت سی وڈیوز وائرل کیں۔ سپریم کورٹ نے قاضی فائز عیسیٰ کیس میں صدر عارف علوی کے خلاف یہ فیصلہ تحریر کیا کہ انھوں نے ریفرنس بھیجتے وقت اپنا ذہن استعمال نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے کو غلطی قرار دیا اور اس کی ذمے داری سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم پر عائد کی۔ بہر حال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بحال تو ہوئے مگر چیف جسٹس، ریٹائرڈ عمر عطاء بندیال نے کسی بھی اہم مقدمہ میں انھیں بنچ میں شامل نہیں کیا۔ جسٹس عطاء بندیال نے عدالتی تاریخ کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ وہ ایک متنازعہ جج کی حیثیت سے تاریخ کا حصہ بن گئے۔
جسٹس عطاء بندیال نے تو اپنی ساس اور سینئر وکیل خواجہ طارق رحیم کی گفتگو کے آڈیو اور دیگر رہنماؤں کی گفتگو پر مشتمل آڈیوز کی تحقیقات کے لیے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل کمیشن کو تحقیقات سے روک دیا تھا۔ بہرحال اب جسٹس عطاء بندیال کا دور تو ختم ہوا اور قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا امتحان شروع ہورہا ہے۔ انھوں نے حلف اٹھاتے ہوئے اپنی اہلیہ کو ساتھ کھڑا کر کے صنفی مساوات کی ایک نئی مثال قائم کی۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 50 ہزار سے زائد مقدمات زیرِ التواء ہیں۔ گزشتہ دنوں جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے گھروں پر حملے ہوئے۔ ان کے گھر جلائے گئے۔ اس برادری کے اکثر افراد کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے ساتھ مسیحی برادری کے ساتھ یکجہتی کے لیے جڑانوالہ گئے، یوں مظلوم طبقات سے یکجہتی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی مگر معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے ایک معرکتہ الآراء فیصلہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن نے اقلیتوں سے امتیازی سلوک ختم کرنے کے لیے اہم تجاویز پیش کی تھیں مگر ان تجاویز پر بھی مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس فیصلہ پر مکمل طور پر عملدرآمد کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔ گزشتہ 23 برسوں سے لاپتہ افراد کا معاملہ کسی صورت حل نہیں ہو پایا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ یہ کمیشن اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ کسی اور غیر جانبدار اور بہادر جج کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 27 days
Text
’عدلیہ وکٹری کے نشان والے ہجوم کے نرغے میں‘
Tumblr media
سنا ہے کوئی زمانہ تھا جب کوئی سینیئر قانون دان جج کی کرسی پر بیٹھتے ہی دنیا تیاگ دیتا تھا۔ اپنا سماجی حقہ پانی خود ہی بند کر لیتا۔ شادی، بیاہ، سالگرہ، برسی، جنازے اور سیمیناروں میں جانا حرام کر لیتا۔ سوائے گھر والوں، قریبی عزیزوں یا دو چار پرانے دوستوں کے کسی دور پرے کے رشتہ دار یا واقف کار سے ملنا گناہ سمجھتا۔ سنا ہے مائی لارڈ کی کسی بھی وکیل سے صرف کمرہِ عدالت میں ہی ملاقات ممکن تھی۔ ججز چیمبرز میں پیش کار، رجسٹرار یا نائب قاصد کے سوا تیسرا شخص داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ جسے بھی کچھ کہنا سننا یا درخواست دینا مقصود ہو اس کے لیے عدالتی سیکرٹیریٹ کا نظام آج کی طرح کل بھی تھا۔ جج کا رابطہ اسی نظام کے توسط سے سرکار اور عوام سے رہتا تھا۔ جج کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ خود نہیں بولتا اس کے فیصلے بولتے ہیں۔ آج جب ہم اس طرح کے قصے سنتے ہیں تو یہ کوئی افسانہ یا سوشل ناول کا کوئی باب معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے باپ دادا نے ایسے جج ضرور دیکھے ہوں گے۔ ہم نے تو نہیں دیکھے۔
ہم نے تو عزت مآب کو ہر طرح کی تقریبات، کانفرنسوں، صحت افزا مقامات اور سب سے زیادہ ٹی وی چینلز کی پٹیوں میں دیکھا ہے۔ بھلا ہو میڈیائی کیمرے کے سحر کا کہ عدالتی کارروائی لائیو براڈ کاسٹ ہونے لگی۔ وکلا کو آستین چڑھاتے منھ سے تھوک نکالتے مائی لارڈ سے بدتمیزی کی سوشل میڈیا ویڈیوز دیکھی ہیں۔ لیک ہونے والی خفیہ ٹیپس سنی ہیں۔ خفیہ فلمیں افشا ہوتی دیکھی ہیں۔ توہینِ عدالت کو ایک پامال روایت بنتے دیکھا ہے۔ پلاٹوں اور بے نامی کاروبار سے لگنے والی چھوت کی بیماری دیکھی ہے، بے باک اور اصول پسند ججوں کا گھیراؤ اور کردار کشی کی مہم دیکھی ہے۔ اپنی اپنی پسند کے فیصلوں پر موکلوں کی جانب سے قصیدہ خوانی اور ناپسندیدہ فیصلوں پر جج کی ذات پر رکیک اور گھٹیا حملے دیکھے ہیں۔ نامعلوم سایوں کو ججوں، ان کے اہلِ خانہ اور جاننے والوں کو ہراساں کرتے سنا ہے اور ان کی نجی زندگی میں براہ راست مداخلت کی داستانیں خود ان ججوں کی زبانی سنی ہیں۔
Tumblr media
عدالتوں کے اکثر فیصلے یقیناً آج بھی منصفانہ اور معیاری ہوتے ہیں۔ مگر اس مطالبے کا کیا کیا جائے کہ میرا مقدمہ فلاں کے بجائے فلاں جج سنے۔ ان سرگوشیوں سے کیسے کان بند کریں کہ بس اس جج کو ریٹائر ہونے دو۔ اس کے بعد آنے والا معاملات سیدھے کر دے گا۔ کئی وکلا اور پیش کاروں کو پسندیدہ فیصلوں کے لیے دلالی کا دعوی کرتے سنا ہے۔ عمارت ایک دن میں نہیں گرتی۔ نہ ہی ایک ضرب سے گرتی ہے۔ مگر ہر ضرب اسے کمزور ضرور کرتی چلی جاتی ہے۔ بھلا کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے برسراقتدار آ کر ججوں کو طرح طرح کی ترغیبات اور بعد از ریٹائرمنٹ پیش کشوں سے رجھانے کی کوشش نہ کی ہو۔ عدلیہ کے احترام کی تسبیح پڑھتے پڑھتے ہجوم اکھٹا کر کے انصاف کے ایوان پر چڑھ دوڑنے اور عدلیہ کو ’ساڈے تے پرائے‘ میں تقسیم کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ کون سی سرکار ہے جس نے عدلیہ کے ناپسندیدہ فیصلوں پر بھی بلا چون و چرا مکمل عمل کیا ہو۔ بلکہ ناپسندیدہ فیصلوں کو مسخ کرنے کے لیے آئین کو موم کی ناک بنا کر استعمال نہ کیا ہو۔
آخر ایسا کیا ہوا کہ اس زمین پر انصاف کی مقدس نشست پر بیٹھنے والی جس ہستی کو عام آدمی واقعی خدا کا نائب سمجھتا تھا۔ اب وہی آدمی شاید ہی کسی جج کو رول ماڈل سمجھتا ہو۔ سوچیے ایسے کروڑوں انسانوں کی تنہائی کا کیا عالم ہو گا جنھیں زمین پر انصاف کی آخری امید جج میں نظر آتی تھی اور اب اس کی پتھرائی ہوئی آنکھ صرف آسمان کی جانب ہی مرکوز ہے۔ عمارت ایک ضرب سے منہدم نہیں ہوتی۔ خود ججوں نے انصاف کے مندر کے ساتھ کیا کیا؟ پہلی کاری ضرب اندر سے جسٹس منیر کے نظریہِ ضرورت نے لگائی۔ اس نظریے نے آئینی حرام کو بیک قلم حلال قرار دے دیا۔ یہ نظریہ آج ستر برس بعد بھی شکل بدل بدل کے آئین کو بھوت کی طرح ڈراتا رہتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدلیہ کے حلق میں آج بھی کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ نہ اُگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔ کسی آمر کے کرسی پر متمکن ہوتے ہوئے کسی عدالت نے مارشل لا کو بالائے آئین شب خون قرار نہیں دیا گیا۔ یحییٰ خان اور پرویز مشرف کو بھی معزولی کے بعد غاصب ڈکلیئر کیا گیا۔ بلکہ ہر طالع آزما کو آئین سے کھلواڑ کا انعام عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھا کے دیا گیا۔ 
غیر منظورِ نظر سیاسی حکومتوں کا باہم مل کے ہانکا کیا گیا اور منظورِ نظر کے سات گناہ بھی درگذر ہو گئے۔ اب یہ کوئی خبر نہیں کہ عدلیہ نے اپنی پنشنوں اور تنخواہوں میں ازخود کتنا اضافہ کر لیا۔ کتنے جج باقی ہیں جنھیں حاصل سرکاری مراعات و وسائل کا اہلِ خانہ استعمال نہیں کرتے۔ بہت عرصے سے یہ خبر بھی تو نہیں آئی کہ کسی جج نے یہ مراعات لینے سے صاف انکار کر دیا۔ زیریں سے اعلیٰ عدالتوں میں روزانہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے مگر مقدمات کا انبار ہے کہ سال بہ سال بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس انبار کے سبب جنتا کے عدم اعتماد کا بوجھ بھی پہاڑ ہوتا جا رہا ہے۔ جب سب نے ریاستی استحکام کے نام پر عدم استحکام کے ہتھوڑوں سے اپنے ہی اداروں کو ضرب در ضرب کمزور کرنا شروع کر دیا تو پھر ہجوم بھی دلیر ہوتا چلا گیا۔ پارلیمنٹ بانجھ ہوئی تو فیصلے سڑک پر ہونے لگے۔ حتیٰ کہ غضب ناک ہجوم کے دباؤ کی تپش اعلیٰ عدالتوں کے کمروں میں محسوس ہو رہی ہے۔ 
اب تک ججوں کے فیصلوں پر جج ہی نظرثانی کرتے آئے ہیں۔ مگر یہ چلن بھی دیکھنا پڑ گیا ہے کہ اب ہجوم کے سرخیل ابھی اور اسی وقت فیصلے پر نظرِ ثانی کی دھمکی آمیز درخواست کرتے ہیں اور لجلجاتے کمرہِ عدالت میں اندر کے شور سے زیادہ باہر کھڑے ہجوم کے نعرے سنائی دیتے ہیں۔ مگر عدالت بھی خلا میں تو سماعت نہیں کرتی۔ عدالت کے پیچھے جب ریاست اور سماج کھڑا ہوتا ہے تو اس کے فیصلوں کا معیار ہی کچھ اور ہوتا ہے اور جب ریاست اور سماج بھی عدلیہ کو بے توقیری کی جانب دھکیلنے پر سڑک سے ہاتھ ملانے پر تل جائیں تو پھر عدالت اور جرگے میں تمیز کہاں رہتی ہے۔ ہم نے مسلسل ساڑھے سات دہائیوں تک زوال کو عروج تک پہنچانے کے لیے خوب محنت کی اور اب اس محنت کا ثمر ادارہ جاتی انہدام کی شکل میں اپنے سامنے دیکھ کر خود ہی وکٹری کا نشان بھی بنا رہے ہیں۔
خدا بچائے کس طرف مرا وطن چلا ہے یہ ابھی تو کچھ نہیں ہوا ابھی تو ابتدا ہے یہ ( حمایت علی شاعر )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
dailyworldecho · 2 months
Text
Tumblr media
0 notes
justnownews · 2 months
Text
Justices Tariq Masood and Mazhar Alam Take Oath as Ad Hoc Judges Today
Justice (retd) Sardar Tariq Masood and Justice (retd) Mazhar Alam Mian Khel will take oath as ad hoc judges of the Supreme Court of Pakistan on Monday (today).Chief Justice Qazi Faez Isa will administer the oath in a ceremony scheduled to be held at 11 AM in the judges block committee room within the Supreme Court building.The appointment of Justice Masood and Justice Mian Khel as ad hoc judges,…
0 notes
pakistanpolitics · 1 year
Text
بغاوت یا انقلاب
Tumblr media
سپریم کورٹ میں تقسیم گہری اور نمایاں ہو گئی ہے۔ اس پر بہت سے لوگ پریشان ہیں اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ دیکھیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا کیا حال ہے؟ تاہم میری نظر میں اس تقسیم میں سپریم کورٹ کے لئے، انصاف کے نظام کے لئے اور پاکستان کے لئے بہت بہتری ہو گی۔ دوسروں کو چھوڑیں اب سپریم کورٹ کے ججوں نے ہی چیف جسٹس کے سوموٹو ایکشن لینے کے اختیار پر سوال اُٹھا دیے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ بھی ہوا کہ چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار اور منطق پر بھی سپریم کورٹ کے ججوں نے ہی اعتراض اٹھا دیا۔ ایک روز قبل تو سپریم کورٹ کے دو جج حضرات نے اس بات پر بھی سوال کیا کہ کس اصول کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے ججوں کے سامنے کیس لگائے جاتے ہیں اور یہ بھی کہ موجودہ نظام شفاف نہیں جس میں کسی کیس کو سماعت کے لئے منتخب کر لیا جاتا ہے اور کسی کو برسوں گزرنے کے باوجود سنا ہی نہیں جاتا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس کے سٹاف افسر کی طرف سے موصول ہونے والی چٹ پر دی گئی ہدایت پر مقدمات مختلف بینچوں کے سامنے لگاتے ہیں۔ یہ سن اور دیکھ کر اچھا لگا کہ سپریم کورٹ کے اندر سے ججوں نے آڈیو سکینڈل کی زد میں آنے والے جج صاحب سمیت دو ججوں کا نوے دن میں الیکشن کروانے کے لئے چیف جسٹس کا سوموٹو کیس سننے کے لئے بنائے گئے نو رُکنی بنچ میں شامل ہونے پر اعتراض اُٹھایا جس کے نتیجے میں وہ بینچ ہی ٹوٹ گیا۔ 
Tumblr media
سپریم کورٹ کو انصاف کے نظام کی بہتری اور اپنی Repute کے لئے اصلاحات اور شفافیت کی بہتر ضرورت ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو بنچ بنانے اور سوموٹو نوٹس لینے کے اپنے اختیار کو ختم کر کے سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کی ایک کمیٹی بنانی چاہئے جو یہ فیصلے کرے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ چیف جسٹس کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ سمیت دو سینئر ترین ججوں کو نہ ہی اہم بنچوں میں شامل کیا جاتا ہے نہ ہی اُنہیں اہم نوعیت کے کیس سننے کے لئے دیے جاتے ہیں۔ بظاہر کیس لگانے کا اختیار اگرچہ رجسٹرار سپریم کورٹ کا ہے لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ زیادہ تر اہم مقدمات کو چیف جسٹس کے حکم پر ہی اُن کی مرضی کے ججوں کی عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان معاملات کی درستی سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس میں ہونی چاہئے۔ ایسا نہیں کہ یہ خرابی اب پیدا ہوئی ہے۔ یہ نظام کی خرابی ہے جو پہلے سے چل رہی ہے اور جسے درست کرنے کی ذمہ داری سپریم کورٹ کی ہے۔ کسی نے ہمیشہ کے لئے کسی عہدے پر نہیں بیٹھے رہنا۔ چیف جسٹس بھی آتے ہیں اور ریٹائر ہو جاتے ہیں۔
اُس چیف جسٹس کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جو اپنے اختیارات جن کا غلط استعمال ہوتا رہا، ختم کر کے کیسوں کو مختلف ججوں کے سامنے فکس کرنے، عدالتی بنچ بنانے، سوموٹو نوٹس لینے کے لئے ایک ایسا نظام وضح کرے گا جو شفافیت پر مبنی ہو، انصاف کے نظام میں بہتری کی کوشش ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے نظام پر نظر ثانی کرے تاکہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے ججوں کا معیار جان پہچان اور تعلقات کی بجائے میرٹ ، اعلیٰ کردار اور انصاف پسندی پر ہو۔کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ ایک چپراسی کی تعیناتی کے لئے اخباروں میں اشتہار جاری ہوتا ہے، مقابلے کے لئے ایک پالیسی اپنائی جاتی ہے لیکن ہائی کورٹوں کے جج جو بعد میں سپریم کورٹ میں جانے کے اہل بن جاتے ہیں اُن کی تعیناتی کے لئے نہ کوئی اشتہار، نہ کوئی مقابلہ، نہ کوئی ٹیسٹ اور نہ ہی کوئی انٹرویو۔ ان تعیناتیوں کی بنیاد چند افراد کی پسند و ناپسند پر ہوتی ہے۔ 
اس نظام کو بدلا جائے۔ اسی طرح ملک کی موجودہ معاشی بدحالی کے تناظر میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور چیف جسٹس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی مراعات، پروٹوکول اور ریٹائرڈ ججوں کی دس سے پندرہ لاکھ روپے ماہانہ پنشن جیسے معاملات پر نظر ثانی کریں۔ ایک ملک جو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے وہ اپنے ججوں اور اعلیٰ عدلیہ سے توقع رکھتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی مراعات، پروٹوکول اور پنشن میں کمی کریں گے بلکہ دوسرے سرکاری اداروں اور محکموں کے افسروں اور حکمراں طبقے کی قوم کے پیسے پر عیاشیوں پر قدغن لگائیں گے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
ثاقب نثار کے اعترافات
Tumblr media
پاکستان کے نویں چیف جسٹس شیخ انوارالحق کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ایک ڈکٹیٹرجنرل ایوب خان نے انہیں ہائیکورٹ کا جج بنایا، دوسرے ڈکٹیٹرجنرل یحییٰ خان نے انہیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا جب کہ تیسرے ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق نے انہیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔ جالندھر سے تعلق رکھنے والے شیخ انوارالحق نے انڈین سول سروس سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور کئی اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، انتظامیہ سے عدلیہ کی طرف آئے تو کراچی اور لاہور سمیت متعدد اضلاع میں بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کام کیا۔ جسٹس انوارالحق تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے اکانومسٹ تھے مگر عدلیہ کا رُخ کیا تو یہاں بھی اپنی قابلیت کا سکہ منوایا لیکن انہیں تاریخ ایک ایسے چیف جسٹس کے طور پر یاد کرتی ہے جن کے دور میں نہ صرف مارشل لا کی توثیق کی گئی بلکہ نظریۂ ضرورت کے تحت ڈکٹیٹر کو آئین میں من چاہی ترمیم کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ نصرت بھٹو کیس ان کے دامن پر سب سے بدنما داغ ہے، وہ عمر بھر اس حوالے سے وضاحتیں پیش کرتے رہے۔ جسٹس انوارلحق اپنی کتاب ’’Revolutionnary, Legality in Pakistan‘‘ میں اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کوآئین سازی یا آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت ضرور دی مگر یہ اجازت صریحاً نظریۂ ضرورت کے تحت دی گئی۔
یہ ایک عبوری بندوبست تھا اور فیصلے کے مطابق عدالتیں نظریہ ٔضرورت کے تحت سی ایم ایل اے کی طرف سے بنائے گئے کسی بھی قانون کا جائزہ لے سکتی تھیں۔ نصرت بھٹو کیس میں جسٹس افضل چیمہ نے اضافی نوٹ لکھ کر نظریۂ ضرورت کے حق میں دلائل دیئے اور لکھا کہDoctrine of Necessity یعنی نظریۂ ضرورت کو اسلامک جیورس پروڈنس میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ جسٹس انوارالحق کے علاوہ سپریم کورٹ کے اس بنچ میں شامل بیشتر جج صاحبان صفائیاں دیتے رہے یا پھر ندامت کا اظہار کرتے دکھائی دیئے۔ جسٹس دراب پٹیل جن کا شمار باضمیر جج صاحبان میں ہوتا ہے، انہوں نے بھی برملا اس فیصلے پر پشیمانی کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس دراب پٹیل اپنی سوانح حیات ’’Testament of a liberal‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس فیصلے پر تنقید کی گئی کیونکہ ہم نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیدیا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ایسے لا جرنلز شائع نہیں ہوتے جن میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے اور ان پر تنقید کی جائے چنانچہ یہ کام جج صاحبان خود کر سکتے ہیں اور انہیں یہ کرنا چاہئے کہ مخصوص وقت کے بعد اپنے فیصلوں پر تنقید کا جائزہ لیں۔
Tumblr media
(نصرت بھٹوکیس) پر ہونے والی تنقید کہ ہم نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں تبدیلی کا اختیار دے دیا، اس کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ تنقید درست ہے۔ نصرت بھٹو کیس کے بعد جنرل ضیا الحق نے سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے گئے آئین سازی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آئین میں آرٹیکل 212A کا اضافہ کر کے اعلیٰ عدالتوں کے پر کاٹ دیئے۔ آرٹیکل 212A کے تحت سپریم کورٹ پر تو کوئی قدغن نہ لگائی گئی البتہ ہائیکورٹس کو فوجی عدالتوں سے متعلق رٹ جاری کرنے سے روک دیا گیا گویا اب ہائیکورٹ کسی فوجی عدالت کی کارروائی روکنے کے لئے حکم جاری نہیں کر سکتی تھی۔ دراب پٹیل اپنی خود نوشت ’’Testament of a Liberal‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آرٹیکل 212A کے نفاذ سے پہلے جنرل ضیا الحق نے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انوارالحق اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مولوی مشتاق کو مشاورت کے لئے راولپنڈی بلایا۔ جسٹس انوارالحق ،جسٹس حلیم، جسٹس صفدر شاہ اورمیں، ہم سب پشاور میں تھے۔ 
مولوی مشتاق کے مطابق انہیں معلوم ہوا کہ جنرل ضیا الحق آئین کو منسوخ کرنیوالے ہیں اس لئے انہوں نے آئین کی منسوخی کے متبادل کے طور پر ایک آئینی مسودہ تیار کر لیا۔ یہ آئینی مسودہ جسٹس مولوی مشتاق نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا اور چیف جسٹس انوارالحق نے اس کا جائزہ لینے کے بعد اپنے ہاتھ سے اس میں کچھ ترامیم کیں۔ پھر یہ دونوں چیف جسٹس صاحبان جنرل ضیاالحق سے ملنے گئے جو راولپنڈی میں سینئر جرنیلوں کے ہمراہ ان کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ ملاقات بہت کٹھن تھی مگر آخر کار جرنیلوں نے دونوں چیف جسٹس صاحبان کا تیار کردہ مسودہ قبول کر لیا اور آئین کو منسوخ کرنیکا ارادہ ترک کر دیا گیا۔ اس مسودے نے ہی آرٹیکل 212A کی شکل اختیار کی اور سپریم کورٹ کی جیورس ڈکشن کو بچا لیا گیا۔ نصرت بھٹو کیس کا فیصلہ اس خوش فہمی کی بنیاد پر دیا گیا کہ اعلیٰ عدالتیں کام کر رہی ہیں ان کے جوڈیشل ریویو کا اختیار باقی ہے مگر پھر خود ہی اپنے ہاتھ قلم کر دیئے گئے۔ 
یہ سب باتیں یوں یاد آئیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے چند صحافیوں سے گفتگو کے دوران اعتراف کیا ہے کہ بطور جج ان سے غلط فیصلے ہوئے۔ مگر ان فیصلوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے انہوں نے کہا کہ بعد از مرگ ان کی آپ بیتی شائع ہو گی جس میں یہ تمام تفصیلات موجود ہوں گی۔ اگر جسٹس دراب پٹی�� کے الفاظ مستعار لوں تو پاکستان میں جج صاحبان خود ہی اپنے فیصلوں کا جائزہ لے سکتے ہیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ یادداشتیں اور مشاہدات قلمبند کئے جائیں۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی زندگی میں ہی اعتراف کرلیا تھا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کس طرح ہوا۔ حال ہی میں جسٹس ارشاد حسن خان کی سوانح حیات شائع ہوئی۔ بہتر ہو گا کہ ثاقب نثار بھی اپنی زندگی میں ہی یہ کتاب منظر عام پر لے آئیں۔
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
نظامِ انصاف کا نوحہ
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آڈیٹوریم میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستانی قوم عدلیہ کی کارکردگی سےمطمئن ہے تو انہوں نے یہ سوال سامعین کی طرف اچھال دیا۔ اس اجلاس کے سامعین بھی عدلیہ سے ہی تعلق رکھتے تھے لیکن یہ سوال سننے کے بعد کوئی شخص بھی یہ نہ کہہ سکا کہ پاکستانی عدلیہ عوامی توقعات پر پورا اتر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تو یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں ایک مخصوص طبقہ کے مفادات کی محافظ بن کر رہ گئی ہیں۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کبھی قابلِ رشک نہیں رہی۔ جسٹس منیر نے نظریۂ ضرورت کی سیاہی اس کے دامن پر انڈیل دی۔ یحییٰ خان کے مارشل لا کو سند جواز بھی پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے عطا کی اور جسٹس ارشاد حسن خان نے پرویز مشرف کو وہ سب کچھ عطا کر دیا جو اس نے مانگا بھی نہیں تھا۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کے نتیجے میں بحال ہونے والے چیف جسٹس کی داستانیں آج افسانوی کہانیوں کی طرح معلوم ہوتی ہے۔
انہوں نے ریکوڈک سے لے کر افسران کی تقرری تک کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کی ان کے اس تسلسل کو جسٹس ثاقب نثار نے بھی خوب نبھایا عدالت عظمیٰ سے ڈیموں کی تعمیر کی بات ہونے لگی۔ کبھی اسکولوں کی چیکنگ کے لیے جج صاحبان کی ڈیوٹیاں لگ گئیں۔ سابق چیف جسٹس معززین کو بے عزت کرنے کے علاوہ شاید کوئی کام جانتے ہی نہیں تھے۔ موصوف نے انصاف فراہم کرنے کے علاوہ ہر وہ کام کیا جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مذکورہ اصحاب نے پاکستانی عدلیہ کو تماشا بنا کے رکھ دیا۔ اگر عدالتی تاریخ میں جسٹس کارنیلیس، جسٹس وجیہ الدین احمد، جسٹس شفیع الرحمٰن جیسے جج صاحبان کا نام نہ ہو تویہ تاریخ ناقابلِ بیان دستاویز بن کر رہ جاے؟ پھر پاکستان کی تاریخ نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جب عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔ یوسف رضا گیلانی عدالتی انا کی بھینٹ چڑھتے ہوئے نااہل ہوئے۔
میاں نواز شریف نہ صرف نااہل ہوئے بلکہ انہیں بار بار نااہل قرار دیا گیا، مریم نواز اور ان کا خاوند اسی عدالت عظمیٰ سے نہ صرف سزا یافتہ ہوئے بلکہ نااہل بھی ٹھہرے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی عدالتی پیشیاں کیسے فراموش کی جا سکتی ہیں پاکستان کے ایک اور مقبول ترین لیڈر عمران خان کو سبق سکھانے کے لئے رات 12 بجے یہی عدالتیں کھلیں۔ کبھی شاہراہ دستور پر واقع عدالت عظمیٰ نے رات گئے انگڑائی لی تو کبھی اسلام آباد کی عدالت عالیہ نے رات کو انصاف کا بول بالا کرنے کی کہانی تحریر کی۔ وہی عمران خان عدالتی وقار کی خاطر معافی مانگنے جج صاحبہ کی عدالت میں پیش ہوا تو جج صاحبہ نے عدالت میں بیٹھنے کے بجائے رخصت پر جانا زیادہ مناسب سمجھا۔ کیا اس رویہ کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے عدلیہ کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جس کے تمام کردار غم و اندوہ کی تصویر بنے ہوئے ہیں، اس کی دہلیز پر سیاستدانوں کی کردار کشی کے چھینٹے ہیں اور عوامی مینڈیٹ کا خون بھی۔
انہیں جس کام کی تنخواہ ملتی ہے اس میں کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ آج پاکستان عالمی رینکنگ میں 130 ویں نمبر پر ہے اور ہمارے بعد کمبوڈیا اور افغانستان جیسے ممالک ہیں جہاں پر نظام انصاف سرے سے موجود ہی نہیں۔ پاکستان کے عدالتی نظام پر نہ عوام کو اعتماد ہے اور نہ خود عدلیہ کے ارکان کو۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ نے محترمہ مریم نواز کو بری کرنے کا فیصلہ کیا جس پر تمام قانون پسند حلقوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ یہ کیسا چمتکار ہو گیا۔ اگر سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کا فیصلہ درست مان لیا جائے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ماتحت عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔ اور اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ درست مانا جائے تو کیا سپریم کورٹ کے جج صاحبان اس فیصلے کے نتیجے میں مریم نواز کی قیدو بند اور کردار کشی کا حساب دیں گے؟ جےآئی ٹی کی تفتیش کے بعد سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کی کیا حیثیت رہ گئی ہے،؟
کبھی یہی عدالت عظمی اور عالیہ تھیں جن کا غصہ کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا اب ایسی کیا تبدیلی آگئی ہے کہ معزز جج صاحبان یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ ملزمان کے خلاف صفحہ مثل پر ایک بھی ثبوت موجود نہیں۔ جے آئی ٹی کے دس والیم پر مشتمل ثبوت اگر ناکافی تھے تو سپریم کورٹ نے سزا کس بنیاد پر دی تھی؟ اور اگر وہ ثبوت کافی تھے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں ناکافی قرار کیوں دیا؟ یہ محض ایک مثال ہے ورنہ عدلیہ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اس زوال کی سب سے بڑی وجہ عدالتوں میں احتساب کا فقدان ہے، تحریک انصاف کے دور حکومت میں ایک معزز جج کے اثاثوں کے متعلق ریفرنس دائر کیا گیا تو گویا قیامت سی آ گئی۔حکومت کو وہ ریفرنس واپس لینا پڑا۔ قوم سراپا سوال ہے کہ اگر سیاستدان اپنے خاندان کے اثاثوں کا جواب دہ ہے تو عدلیہ کے جج صاحبان کیوں نہیں؟حالیہ برسوں میں ماتحت عدالتوں کے لکھے گئے فیصلوں کے معیار پر سینئر وکلا کی گفتگو سن کر بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔
عدلیہ کی حالیہ کارکردگی سے عوام شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں، لیکن اشرافیہ کے مقدمے فاسٹ ٹریک پر سنے جا رہے ہیں۔ معزز جج صاحبان اور وکلا حضرات کو مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ ''معاشرہ کفر کے ساتھ چل سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں،‘‘ اب عدالتوں کو اشرافیہ کے بجائے عوام کے مقدمات پر توجہ دینا ہو گی ورنہ عوامی عدالت انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
tomorrowusa · 2 months
Text
While perhaps it's too early to call it a "masterstroke", Joe Biden stepping aside for Kamala Harris will probably turn out much better than any Democrat would have predicted a month ago.
Kamala Harris will likely be the next president of the United States – and that’s overall good news if you care about democracy, justice and equality. Joe Biden’s decision on Sunday to bow out of the presidential race clears the path for the country to elect its first woman and first woman of color as president.
For people who need a historical reminder...
[M]ost people in this country typically choose the Democratic nominee for president over the Republican nominee time and time again. With the sole exception of 2004, in every presidential election since 1992, the Democratic nominee has won the popular vote (Biden bested Donald Trump by 7m votes in 2020).
Now for more recent events.
If, in fact, support for Democrats among people of color is the principal problem, then putting Harris at the top of the ticket is a master stroke. The enthusiasm for electing the first woman of color as president will likely be a thunderclap across the country that consolidates the support of voters of color, and, equally important, motivates them to turn out in large numbers at the polls, much as they did for Barack Obama in 2008. The challenge the party will face in November is holding the support of Democratic-leaning and other “gettable” whites, especially given the electorate’s tortured history in embracing supremely qualified female candidates such as Hillary Clinton and Stacey Abrams. (The primary difference between Abrams, who lost in Georgia, and Senator Raphael Warnock, who won, is gender.) Sexism, misogyny and sexist attitudes about who should be the leader of the free world are real and Democrats will have to work hard to address that challenge. One critical step to solidifying the Democratic base is for all political leaders to quickly and forcefully endorse and embrace Harris’s candidacy. Mathematically, it is likely – and certainly possible, if massive investments are made in getting out the vote of people of color and young people as soon as possible – that the gains for Democrats will offset any losses among whites worried about a woman (and one of color, no less) occupying the Oval Office and becoming our nation’s commander in chief.
We shouldn't forget that the VP's mom was born in India. A number of people in the growing South Asian community in the US who may not be especially interested in politics will be tempted to pause their disinterest and vote for Kamala. India, Pakistan, and Bangladesh have all had female prime ministers – so there's not exactly a taboo about women in power.
One way to measure enthusiasm for Kamala is to look at how much money is being raised by ActBlue. Not all the money ActBlue raises goes to the national ticket. I donated to a US Senate campaign in June via ActBlue. BUT the timing of recent donations leaves little doubt what the cause of the recent spike is.
For context, first some recent weekly totals (source)...
Week of June 30 through July 6 — $65,220,920
Week of July 7 through July 13 — $48,669,913
Week of July 14 through July 20 — $61,349,601
As of Noon today (CDT): Week of July 21 through July 27th — $150,042,360 and the third day of the week is just a little over half over. In the previous hour alone, roughly $2.44 million was raised.
These are small donations, not like the $45 million per month promised by multi-billionaire Elon Putz to Trump. So grassroots Dems are stoked and are out for a win.
ActBlue is fairly no-nonsense, it's not exactly Amazon in layout. So people are not drawn there by flashy graphics.
Kamala Harris — Donate via ActBlue
85 notes · View notes
eretzyisrael · 21 days
Text
by Melanie Phillips
he outspoken chief rabbi of South Africa, Dr. Warren Goldstein, has once again given voice to crucial truths that others have shamefully ignored.
He accused both Pope Francis and the Archbishop of Canterbury, Justin Welby, of being indifferent to the murder of black Christians in Africa and the terrorism threat in Europe while being “outright hostile” to Israel’s attempts to battle jihadi forces led by Iran.
“The world is locked in a civilizational battle of values, threatened by terrorism and violent jihad,” said Goldstein. “At a time when Europe’s very future hangs in the balance, its two most senior Christian leaders have abandoned their most sacred duty to protect and defend the values of the Bible. Their cowardice and lack of moral clarity threaten the free world.”
Goldstein’s blistering accusations were on the mark.
Christians in Africa have been subjected to barbaric slaughter and persecution by Islamists for decades. Two years ago, Open Doors, an organization that supports persecuted Christians, observed: “In truth, there are very few Muslim countries—or countries with large Muslim populations—where Christians can avoid intimidation, harassment or violence.”
In January 2024, a report for Genocide Watch confirmed that, since 2000, 62,000 Christians in Nigeria have been murdered by Islamist groups in an ongoing attempt to exterminate Christianity. In addition, more than 32,000 moderate black Nigerian Muslims and non-faith individuals have been massacred.
According to a report in 2020 by the United States Commission on International Religious Freedom, Christians in Myanmar, China, Eritrea, India, Iran, Nigeria, North Korea, Pakistan, Russia, Saudi Arabia, Syria and Vietnam are being persecuted.
These facts were reported in June by Peter Baum for The Daily Blitz. Yet the mainstream media all but ignore these atrocities. There are no marches in Western cities to accuse these countries of facilitating crimes against humanity. There are no NGO-inspired petitions to the International Court of Justice (ICJ) to declare these countries and groups guilty of genocide.
Instead, the media and Western elites demonize Israel as the pariah of the world for defending itself against these genocidal Islamists. This unique and egregious double standard is the hallmark of classic antisemitism.
The attitude of the church leaders is even more astonishing. The hundreds of thousands of victims of this persecution are their flock. The goal of this onslaught is the wholesale destruction of the faith they lead.
Yet from Welby and the pope have emerged little more than occasional expressions of measured concern. And even then, they usually refuse to call out what’s happening by its proper name—the Islamist war to eradicate Christianity and destroy the West.
The 10-month war against Israel by Iran and its proxies following the Oct. 7 pogrom is a crucial front in that onslaught against Western civilization. Yet as Goldstein said, the pope and Welby have stood passively by while African Christians are “butchered by jihadi groups with direct ties to Israel’s enemies in Gaza and the West Bank.”
The jihadi ideology, he said, was also a clear and present danger to Europe. As a result of open-border policies, immigrants poured into the United Kingdom and across Europe, many of them “brandishing a violent jihadi ideology deeply hostile to Christianity, liberal democracy and western values.”
The result has been surging antisemitism leaving Diaspora Jews living in fear. Yet on the ideology fueling this civilizational onslaught, Welby and the pope have been silent. Instead, they have recycled the Islamists’ propaganda that demonizes and delegitimizes Israel with lies.
13 notes · View notes
Photo
Tumblr media
Μνάσεσθαί τινά φαμι καὶ ὔστερον ἀμμέων.**
- Sappho
**I think men will remember us even hereafter.
Men of the British Indian Army were heroes, some recognised but mostly unsung. Their stories and their heroism have long been omitted from popular histories of the first world war (and the second world war).
Approximately 1.3 million Indian soldiers served in World War One, and over 74,000 of them lost their lives. But history has mostly forgotten these sacrifices, which were rewarded with broken promises of Indian independence from the British government as well as inadequate post-war mental health care for those struggling with PTSD.
Khudadad Khan became the first Indian to be awarded a Victoria Cross, the highest honour a soldier can receive on the battlefield. He was a machine gunner with the 129th Baluchi Regiment. A total of 11 Victorian Crosses were won by Indian soldiers. Others are Mir Dast, Shahamad Khan, Lala, Darwan Negi, Gabbar Negi, Karanbahadur Rana, Badlu Singh, Chatta Singh, Gobind Singh and Kulbir Thapa. This is an incredible feat unknown to those unversed in military history. Next to the fearsome Gurkhas, the Indians, especially from the Punjab, have always been recognised as some of the fiercest, brave, and most loyal of fighting soldiers.
The Indian army played a vital role in the victory of 'allies' while India was under the British colonial rule. It provided in large numbers and distinctly to the European, Mediterranean and the Middle East halls of war, obviously from the British side. Whilst its soldiers were fighting in the muddy fields of the Somme and other bloody battlefields of northern France, India itself was struggling for self-rule and dominion status under British, if not for complete freedom.
Sir Claude Auchinleck, Commander-in-Chief of the Indian Army once said "Britain couldn't have come through both wars if they hadn't had the Indian Army." This is painfully true. The myth we tell ourselves is ‘Britain alone’. Yes, that’s true but she wasn’t alone against the dark forces of evil. She had the nations within the empire (and later the commonwealth) standing next to her - the brave servicemen and women drawn from such countries as Australia, New Zealand, Canada, and of course British India. 
Having been raised in both India and Pakistan as a child I had always been aware of the sacrifices the past generations of brave Indians and Pakistanis had made for the British Empire through the deep friendships made with Indian and Pakistani childhood friends and their families, but also through the written words of diaries and private papers of my family that lived and served in India in the 19th and 20th Centuries.
The lack of recognition of the brave and sacrificial contribution of the British Indian soldier in both wars has been something that has always upset me as a travesty of justice and the truth of the historical record. Until recently no acknowledgement in the public consciousness has been widely shared of their bravery and courage in history. Happily things have changed, albeit slowly, with more books and films being produced. But more has to be done.
Lest we forget.
Photo: A French boy introduces himself to Indian soldiers who had just arrived in France to fight alongside French and British forces, Marseilles, 30th September 1914.
115 notes · View notes
risingpakistan · 1 year
Text
نئے چیف جسٹس سے قوم کی توقعات
Tumblr media
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس منصب جلیلہ پر فائز ہوتے ہی ان سے قوم نےبہت سی توقعات وابستہ کر لی ہیں کیونکہ ان کی شہرت ایک ایسے جج کی ہے جو نہ صرف آئین کی پاسداری کرتے ہیں بلکہ آئین کی بنیادی روح کو بھی سمجھتے ہیں اور ان پر کوئی اثر انداز بھی نہیں ہو سکتا۔ بحیثیت قوم ہمارا عظیم المیہ یہ رہا کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ قابل فخر نہیں رہی، جس کی وجہ سے ہم عظیم بحرانوں کا شکار ہیں ۔ چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال کا دور ختم ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے ان کے دور میں بھی ہماری عدلیہ کے ناقابل فخر کردار کا عمومی تاثر نہ صرف یہ کہ ختم یا کم نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے فیصلوں سے جتنا اختلاف ان کے ساتھ بینچز میں شامل جج صاحبان نے کیا ، شاید اتنا اختلاف کسی اور چیف جسٹس کے فیصلوں پرنہیں ہوا ۔ ان کی سربراہی میں قائم کردہ ایک بینچ کے اکثریتی فیصلے پر تو ایک جج صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ تک لکھ دیا کہ’’ اس فیصلے سے آئین کو ازسر نو تحریر کیا گیا ہے۔ ‘‘اختلافی نوٹ کا یہ جملہ عدلیہ کی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کی ایک تاریخی چارج شیٹ ہے۔ 
چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال نے جاتے جاتے اپنی سربراہی میں قائم کردہ تین رکنی بینچ کا دو ایک کی اکثریت سے جو آخری فیصلہ سنایا ہے، جس میں قومی احتساب آرڈی ننس یعنی نیب آرڈی ننس میں پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، اس فیصلے سے نہ صرف بینچ کے ایک رکن جسٹس منصور علی شاہ نے اختلاف کیا بلکہ اپنا ایک ایسا اختلافی نوٹ لکھا ہے، جس میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے بنیادی مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ ’’ اس کیس میں بنیادی سوال نیب آرڈی ننس میں ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمان کی بالادستی کا ہے۔‘‘ اس اختلافی نوٹ میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے پارلیمان کے اختیارات استعمال کئے ہیں۔ ہماری عدلیہ کا یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ اس نے نہ صرف مقننہ ( پارلیمنٹ ) اور انتظامیہ (ایگزیکٹو) کے اختیارات میں مداخلت کی اور جوڈیشل ایکٹیوزم سے اس مداخلت میں اضافہ کیا بلکہ اسٹیبلشمنٹ خصوصاً فوجی آمروں کی آئین شکنی کو بھی درست قرار دیا۔ 
Tumblr media
عدلیہ پر نہ صرف یہ الزام ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے راستہ ہموار کیا بلکہ بعض جج صاحبان نے خود بھی پولیٹیکل انجینئرنگ بھی کی۔ عمر عطا بندیال ، ثاقب نثار ، آصف سعید کھوسہ ، گلزار احمد اور افتخار چوہدری پر یہ الزامات بہت زیادہ ہیں ۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی ، کرپشن اور معاشی بحران کا شکار ہے ۔ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف جنگ اور معاشی بحران پر قابو پانے کی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن اس جنگ اور ان کی کوششوں میں ہر ادارے کی اپنی آئینی حدود ہیں ، جو خطرناک حد تک پار کر لی گئی ہیں۔ یہ صورت حال حقیقی جمہوریت ، قانون، آئین کی عمل داری اور معاشی استحکام کیلئے خطرناک ہے ۔ اگر ادارے اپنی آئینی حدود میں کام نہیں کریں گے تو حالات مزید بگڑ تے جائیں گے ۔ ملک میں نہ جمہوریت جڑ پکڑ سکے گی، نہ امن قائم ہو سکے گا ، نہ معیشت ٹھیک ہو گی اور نہ احتساب کا مضبوط نظام قائم ہوپائے گا۔ اس صورت حال میں پاکستان کی عدلیہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود سمیت دیگر اداروں کو آئینی حدود سے باہر نہ نکلنے دے۔ 
مقننہ اور سویلین انتظامیہ کے اختیارات میں تجاوز کر کے انہیں مفلوج کر دیا گیا ہے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ اس صورت حال سے نکلنے کیلئے ’’ ہیرو‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس ناجائز خواہش پر مبنی کردار کی تمنا ہی ازخود آئینی اور ریاستی ڈھانچے کو منہدم کر رہی ہے ۔ ریاست پاکستان میں طاقت کا ایک مرکز نہیں رہا، جس کی مضبوط بنیاد عوام کے آزادانہ جمہوری فیصلے ہوتے ہیں بلکہ طاقت کے کئی مراکز بن گئے ہیں ، جو انتشار کا باعث ہیں۔ احتساب کا نظام صرف پولیٹیکل انجینئرنگ کا ہتھیار بن کر رہ گیا ہے اور بعض طاقتور حلقے احتساب سے بالاتر ہیں۔ اب پاکستان کو کسی ’’ ہیرو ‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کی ضرورت نہیں ۔ مہذب اور جمہوری معاشروں کی طرح ایسے لوگوں کی ضرورت ہے ، جو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے قائل ہوں ۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ داروں کو مقننہ اور انتظامیہ کی حدود میں مداخلت سے روکنا ہی آج کی عدلیہ اور خصوصاً نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ 
دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس چیلنج سے کیسے بنرد آزما ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلے انہیں اپنے ’’ ہاوس کو آرڈر میں لانا ہو گا ‘‘ یعنی اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا تاکہ جج صاحبان میں گروہ بندی کا وہ تاثر ختم ہو ، جو عمر عطا بندیال کے دور میں پیدا ہوا ۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کے مطابق یا خود عدلیہ کی سوچ کے مطابق سب مسائل کو حل کرنے کا زعم اگر کسی میں ہے تو اسے ختم کرنا ہو گا۔ پاکستان میں مقننہ اور سول انتظامیہ کو مضبوط بنانا ہو گا۔ احتساب کا سیاسی انتقام یا پولیٹیکل انجینئرنگ والا نظام ختم کر کے جمہوری اداروں کے ذریعے احتساب کا مضبوط نظام قائم کرنا ہو گا۔ اس کیلئے نیب آرڈی ننس کو درست کرنے کی پارلیمان کی دانش سے اتفاق کرنا ہو گا کیونکہ یہ آرڈی ننس نہ صرف پروڈا ، ایبڈو اور پوڈا جیسے سیاہ قوانین کا چربہ اور تسلسل ہے بلکہ انہی سیاہ قوانین کے پس پردہ مذموم مقاصد اور بدنیتی کا ورثہ ہے۔ اگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ادارے اپنی آئینی حدود میں واپس آجاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی بڑی کامیابی ہو گی بلکہ عدلیہ کی ساکھ اور اس کا اعتبار بحال کرنے میں مددگاربھی ملے گی۔ قوم کو نئے چیف جسٹس سے یہی توقعات ہیں۔
نفیس صدیقی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
نئے چیف جسٹس پاس ہونگے یا فیل
Tumblr media
چیف جسٹس عمر عطا بندیال رخصت ہو گئے اور جاتے جاتے اپنے ساتھ ایسے تنازعات کی ایک لمبی فہرست لے گئے جن کا تعلق اُن کے دور کے عدالتی فیصلوں سے ہے۔ اپنے مختلف پیشروئوں کی طرح ہو سکتا ہے وہ بھی اپنے آپ سے مطمئن ہوں کہ اُنہوں نے بہت کام کئے لیکن سچ پوچھیں تو بندیال کا نام بھی تاریخ کے ناکام چیف جسٹسز میں ایک اور اضافہ ہو گا۔ ویسے تو اُنہیں تاریخ اس حوالے سے بھی یاد رکھے گی اُنہوں نے سیاسی نوعیت کے فیصلے کس قدر جانبداری سے کئے، کیسے ہم خیال ججوں کو مرضی کے فیصلے کرانے کےلئے استعمال کیا، کس طرح سپریم کورٹ کے اندر تقسیم پیدا کی لیکن اُن کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے دور میں عدالتوں پر عوام کا اعتماد بحال نہ کر سکے۔ کسی فرد سے پوچھ لیں، پاکستان کے کسی خطہ میں چلے جائیں کسی کو بھی عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں۔ لوگ عدالتوں میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ نہ صرف انصاف بہت مہنگا ہو چکا بلکہ اگر کوئی اپنا سب کچھ بیچ کر انصاف کے لئے عدالت میں چلا بھی جائے تو برسوں بلکہ کچھ کیسوں میں تو دہائیوں تک فیصلے نہیں ہوتے۔
Tumblr media
مجموعی طور پر عدالتی نظام ناکام ہو چکا۔ اپنے گزشتہ کئی چیف جسٹسز کی طرح بندیال صاحب نے بھی اس بنیادی مسئلہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ دوسروں کی طرح اُن کی توجہ بھی بڑے بڑے سیاسی مقدمات پر ہی مرکوز رہی اور یوں عدلیہ مزید تنازعات کا بھی شکار ہوئی اور عوام کو انصاف دینے کے بنیادی فریضے سے بھی مزید دور ہوتی چلی گئی۔ بندیال رخصت ہو گئے اور اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے چیف جسٹس بن گئے۔ اب اُن کا امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔ نئے چیف جسٹس اچھی ساکھ کے مالک ہیں لیکن اُن کو تاریخ کیسے دیکھے گی اس کا فیصلہ اس بات پر ہو گا کہ اُن کا کردار بحیثیت چیف جسٹس کیا رہتا ہے۔ مختلف لوگوں کی اُن سے مختلف توقعات وابستہ ہیں۔ کوئی چاہتا ہے کہ چیف جسٹس ماضی میں کئے گئے غلط سیاسی فیصلوں کو درست کریں۔ کسی کی خواہش ہے کہ وہ فوجی عدالتوں کو سب سے پہلے ختم کریں۔ سیاسی جماعتوں کی چیف جسٹس سے متعلق اپنی اپنی توقعات ہیں۔ تاہم میری نظر میں چیف جسٹس صاحب کا اصل امتحان یہ ہو گا کہ کیا وہ عمومی طور پر پاکستان کی عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کر پائیں گے۔
اگر ایک طرف سپریم کورٹ سے یہ توقع ہو گی کہ اُس کا جھکاؤ کسی ایک سیاسی طبقہ کی بجائے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے پر مرکوز ہو، عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تقسیم ختم ہو، چیف جسٹس کے بینچ بنانے، مقدمات لگانے وغیرہ جیسے اختیارات کو غلط استعمال ہونے سے بچانے کے لئے اصلاحات کی جائیں تو دوسری طرف پاکستانی قوم کو عام عدالتوں میں انصاف چاہئے۔ جلد اور سستا انصاف۔ ایسا عدالتی نظام جو مظلوم کے لئے امید کا ذریعہ ہو اور ظالم اور قانون شکن کے لئے خوف کی علامت۔ پاکستان کی عدلیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا میں انصاف کی فراہمی کے لحاظ سے آخری نمبروں پر آتی ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری عدالتیں انصاف دینے میں ناکام ہیں۔ اگر یہاں مظلوم تھانے میں جانے سے ڈرتا ہے تو کورٹ کچہری کا بھی یہی حال ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سب سے زیادہ توجہ پاکستان کے عدالتی نظام کی سمت درست کرنے کی طرف ہونی چاہئے تاکہ عدالتیں ظالم کی بجائے مظلوم کو انصاف دینا شروع کریں۔ عدالتیں انصاف دیں گی تو اُن کا احترام ہو گا۔ اگر سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا جیسے کئی دہائیوں سے چل رہا ہے تو پھر چیف جسٹس فائز عیسیٰ خود سوچ سکتے ہیں کہ تاریخ اُن کے بارے میں کیا فیصلہ کرے گی۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
beardedmrbean · 1 month
Text
Bangladesh’s new leader is clear: this was not his revolution, and this was not his dream.
But Muhammad Yunus knew the second he took the call from the student on the other end of the phone last week that he would do whatever it took to see it through.
And the students had decided that what they needed was for Prof Yunus - an 84-year-old Nobel laureate - to step into the power vacuum left by the sudden resignation of Prime Minister Sheikh Hasina and lead the new interim government. He accepted immediately.
“I'm doing this because this is what the youth of the country wanted, and I wanted to help them to do it,” he explains during a private briefing for select journalists at his office in the Jamuna State House.
“It's not my dream, it’s their dream. So I'm kind of helping them to make it come true.”
Prof Yunus was sworn in on Thursday after months of student-led protests culminated in the fall of the government, and is still trying to gauge the scale of the job in front of him.
Most pressing, he says, is the security situation. In the wake of the violence which left more than 400 dead, the South Asian country’s police had all but disappeared - the country’s police union had announced a strike, and traffic was being guided by the students, while hundreds of police stations had been gutted by fires.
“Law and order is the first one so that people can sit down or get to work,” Prof Yunus says.
Monday saw the first glimmers of progress as officers returned to the streets. It is a first step, but security is far from the only problem.
The government entirely “disappeared” after Sheikh Hasina fled the country, Prof Yunus says.
What was left behind after 15 years of increasingly authoritarian rule is “a mess, complete mess”.
“Even the government, what they did, whatever they did, just simply doesn't make sense to me… They didn't have any idea what administration is all about.”
And yet in the face of the chaos is “lots of hope”, Prof Yunus emphasises.
“We are here: a fresh new face for them, for the country... Because finally, this moment, the monster is gone. So this is excitement.”
Reform is key, according to Prof Yunus. It was a simple demand for reform of a quota system which reserved some public sector jobs for the relatives of war heroes, who fought for the country’s independence from Pakistan in 1971, that sparked the protest movement in the first place.
But it was the brutal and deadly crackdown by security services which followed that saw it grow into demands for Sheikh Hasina to stand aside.
Reform is desperately needed, says Prof Yunus, pointing to freedom of speech - heavily restricted under Sheikh Hasina’s government, the prisons filled with people who sought to speak out against her.
He himself alleges he was a victim of the crackdown on freedom of speech. An outspoken critic of Sheikh Hasina’s government, Prof Yunus - lauded for his pioneering use of micro-loans but regarded as a public enemy by the former prime minister - was sentenced to six months in jail in what he has called a politically motivated case.
But there are other, more radical, ideas in the pipeline.
Each ministry will have a student seat in it, an acknowledgement of the role they played in bringing the previous administration to an end.
Already, Nahid Islam and Asif Mahmud, students who led the anti-government protests, sit in his cabinet.
And then there is reform of the judiciary. Already, the students have put pressure on the chief justice to resign.
Prof Yunus argues the judiciary was failing to act independently - instead allegedly taking orders from “some superior authority”.
“In the technical terms, he was the chief justice,” he says. “But actually, he was just a hangman.”
There will, he acknowledges, be decisions made that not everyone agrees with, but he hopes it will be better than what has come before.
“Whatever experience I have in my work... So I'm not saying I can run a government. I'm saying that I have some experience of running some organisations. I'll bring that as much as I can. There will be people who like it, people who dislike it. But we have to go through with it.”
3 notes · View notes
collapsedsquid · 11 months
Text
The UN negotiations over a climate Loss and Damage Fund are a major effort at global organization to face the climate disasters to come. Beyond long-range mitgation efforts and adaptations to unavoidable new risks, the world needs an institutionalized mechanism to provide assistance to those most directly impacted by climate disasters particularly in poor countries. In 2022 the disaster in question was the catastrophic flooding in Pakistan which left a third of the country underwater and cost an impoverished and debt-ridden country $30 billion in damages. It was touted as one of the great breakthroughs at the UN climate talks in Egypt in 2022 (COP27) that at the last minute, and to general surprise the US delegation agreed to start talks over a fund to compensate victims of climate catastrophes. The decision was vital in political terms, because though it did not include an admission of historic responsibility or liability it implied a concession to the cause of climate justice, by the United States, for so long the chief polluter. But now, only weeks ahead of the COP28 meeting in Dubai, the loss and damage talks have collapsed acrimoniously. There was no agreement between the rich countries that will have to come up with most of the funding and the claimant countries, the Small Island Developing States and the larger grouping of the G77 and China. The Americans were very much there. After Trump’s withdrawal from the Paris agreement, the Biden administration immediately restored America’s adherence to the UN climate talks. The diplomats negotiating on behalf of the Biden administration are good internationalist committed to the climate cause. But they represent an administration committed to asserting American leadership and behind the White House stands a Congress that defines narrow terms of engagement. It cleaves to the Byrd-Hagel Senate Resolution that rejected common and differentiated responsibility already in 1997. America will agree to no climate treaty that does not place obligations on all parties, not just the rich states. It will under no circumstances accept liability or any idea of compensation, the basis for the climate justice movement. It might conceivably find a few billion with which to top up a World Bank fund - there are a few billion for the World Bank tucked into the Ukraine-Israel aid package - but is not going to provide tens of billions to a stand alone UN fund with a governing board whose majority is likely to be skeptical if not hostile towards America. And if money is to be handed out, there will be conditions, qualifying rules and strings attached. Like them or not, these are largely non-negotiable positions on the American side. They are unacceptable to the vast majority of the rest of the world. Given America’s entrenched power, all its negotiators need to do is to spell out their terms. This provokes indignation, a breakdown in trust, deadlock and thus the perpetuation of a disorganized status quo.
8 notes · View notes
xtruss · 5 months
Text
All That’s Left For Them Now Is To Murder Me – But I’m Not Afraid To Die! The Former Pakistani Prime Minister Writes Exclusively For The Telegraph From His Prison Cell
— BY IMRAN KHAN | 2 May, 2024 | The Telegraph
Tumblr media
Former Pakistan Prime Minister Imran Khan is currently serving a prison sentence for controversial corruption charges. Credit: AP Photo/K.M. Chaudary
Today, Pakistan and its people stand in confrontation with each other. Almost two years ago, an engineered vote of no confidence was moved against my government and a government cobbled together by the military establishment came into being.
Since then, the Corrupt Military Establishment, under direct guidance of General Asim Munir, The Corrupt Chief of Army Staff, has tried every tactic to decimate my party’s presence from the political environment of Pakistan.
The oppression, torture and denial of our election symbol have been extensively documented, but nothing has worked for the military and the powerless civilian leadership acting as its puppets.
Pakistan’s general elections on Feb 8 2024, showed the utter failure of their design.
With no single electoral symbol in a country where the vast majority of voters are guided by a party symbol, the people came out and voted overwhelmingly for candidates supported by my party, the Pakistan Tehreek e Insaf (PTI), despite standing as “independents” with a host of diverse symbols.
This democratic revenge by the people of Pakistan against the agenda of the military establishment not only was a national defiance by the people but also a complete rejection of the official state narrative of May 9 2023, when PTI supporters were falsely accused – as a pretext for a crackdown – of attacking military installations.
Tumblr media
Pakistan's Corrupt to his Core Chief of Army Staff General Asim Munir (left) shakes hand with Iranian president Ebrahim Raisi CREDIT: Inter Services Public Relations via AP
Unfortunately, instead of accepting the people’s mandate, the military establishment went into a fit of rage and electoral results were manipulated to bring into power the losers.
The same vote tampering was seen in the recent by-elections.
As a result, today Pakistan is at a dangerous crossroads. The people have shown in no uncertain terms their rejection of state electoral machinations and of the oppression, incarceration and torture of not just the PTI leadership but also of its workers.
The military leadership has been subjected to overt criticism at a level unseen before in our history. The government is a laughing stock.
More Oppression and Violence
The response of the state has been to unleash more oppression and violence not just on party workers but also on journalists and human rights defenders. Social media restrictions have been put in place with a complete ban on the X platform.
Perhaps the most ominous development has been the systematic attempt to destroy the independent functioning of the judiciary at all levels.
Judges have been subjected to all manner of pressures including blackmail and harassment of family members. As a result, our trials on false charges are conducted with no proper defence allowed and no concern for the law of the land and the constitution.
The Corrupt Chief Justice of Pakistan (CJP) and of the Islamabad High Court have been found short of delivering unbiased justice.
But members of the senior judiciary have risen against the attempted destruction of the independence of the judiciary. Six brave judges of the Islamabad High Court have written a letter to the CJP highlighting instances of harassment and blackmail including of their families by intelligence agencies. Specific instances are cited and details given.
This is unprecedented in our history – although, informally, many knew what was happening to the senior judiciary but for such a letter to have come from these judges shows the level of despair, anger and frustration.
The sorry state of judicial affairs is reflected in the hesitancy shown by the CJP, who eventually felt compelled to act but instead of calling for a full bench hearing of the supreme court and summoning those named by the six judges, he has sought to put the six judges effectively in the dock.
With an economy in crisis, spiralling prices and a people politically angry at having their electoral mandate stolen and being economically beleaguered, the state stands isolated.
Unwilling to mitigate its grave errors which have led Pakistan to this precarious juncture and unable to go beyond its mantra of oppression and violence against critics, the State is treading the same path it trod in 1971, when it lost East Pakistan, now Bangladesh.
Upsurge in Terrorism
At the same time, it is seeing an upsurge in terrorism and a growing alienation in Balochistan where the issue of enforced disappearances is growing in severity. On Pakistan’s borders, India has already admitted to undertaking assassinations inside of Pakistan and the international border with Afghanistan remains volatile.
The military establishment’s expectation of unquestioning support from the US, in return for the provision of access to airspace and related facilities to the US for military purposes, has been punctured after the publication of the latest US state department’s Country Reports on Human Rights Practices which highlights the many human rights violations in Pakistan.
Again, seeking salvation by relying on support from the International Monetary Fund when there is a confrontation with the people will not result in any stability for Pakistan. There is no other way out of the crisis but to restore the people’s mandate and release all political prisoners including those being held for trial under military courts. The constitutional functioning of state institutions must be restored.
“The Corrupt Military Establishment has done all they could against me. All that is left for them is to now ‘Murder Me’. I have stated publicly that if anything happens to me or my wife, Corrupt General Asim Munir will be responsible. But I am not afraid because my faith is strong. I would prefer death over slavery.”
— Imran Khan is the leader of the Pakistan-Tehreek e Insaf (PTI) party. He is serving a prison sentence for controversial corruption charges.
2 notes · View notes