Tumgik
islamiclife · 2 years
Text
اللّٰہ تعالیٰ پر توکل کے راز
توکل کے معنی ہیں، بھروسہ اور یقین۔ اللّٰہ پاک پر توکل ایک ایسا پیمانہ ہے۔ جس سے انسان کے ایمان کی مضبوطی اور کمزوری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مثلاً جتنا اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ یا توکل مضبوط اور پکا ہوگا اتنا ہی انسان کا ایمان مضبوط ہو گا۔ اور جتنا انسان کا اللّٰہ کریم پر توکل کمزور ومتزلزل ہو گا۔ اتنا ہی اس کا ایمان کمزور ہو گا۔ مطلب یہ کہ انسان ہر وقت اللہ عظیم پر مضبوط توکل و بھروسہ رکھے۔ بعض اوقات انسان سوچتا یا کہتا ہے کہ یہ سب تو ٹھیک ہے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشا سے ہی ہوتا ہے۔ وہی مسبب الاسباب ہے وہی وسیلہ اور ذریعہ بناتا ہے لیکن اگر میں نے یہ فلاں کام یا طریقہ اختیار نہ کیا تو نتیجہ مشکوک بھی ہو سکتا ہے، بس یہی سوچ اور وسوسہ شیطانی انسان کو توکل اور یقین سے ہٹا دیتا ہے، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللّٰہ رحیم پر توکل اور یقین کے بعد لیکن، اور اگر مگر کی گنجائش نہیں ہے ورنہ انسان پھسل جاتا ہے۔
یہاں پہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اللّٰہ پاک پر توکل ویقین کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان کوشش ہی نہ کرے اور یہ کہے کہ مجھے اللّٰہ تعالیٰ پر توکل و یقین ہے وہ خود ہی میرا مسئلہ حل کر دے گا۔ بلکہ انسان جو ممکنہ کوشش کر سکتا ہے وہ کر لے اور اس کے بہتر نتیجہ کے لیے رب کریم سے دعا مانگتا رہے۔ یقین رکھیں کہ اللّٰہ رحیم وکریم اپنی ذات باری پر توکل کرنیوالوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ اس بارے میں سورۃ آل عمران، آیت نمبر159 میں ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ:’’ بے شک اللّٰہ تعالیٰ بھروسہ کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔ سورۃ طلاق میں فرمان الٰہی ہے’’ اور جو اللّٰہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ ’’ سورۃ المائدہ میں فرمایا۔’’ اور اللّٰہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تمہیں ایمان ہے۔ ‘‘ سورۃ الانفال میں ارشاد ربانی ہے۔’’ سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللّٰہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں۔ اور جب ان کے سامنے اللّٰہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد کرتے ہیں‘‘۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اعتماد ویقین اپنی کوشش پر نہیں بلکہ اللّٰہ کی قدرت اور رحم وکرم پر ہو۔ ہمیشہ ہر معاملہ میں اللّٰہ تعالیٰ پر اعتماد، ہر معاملہ میں اللّٰہ پاک سے رجوع اور ہر کام میں اللّٰہ ہی کی محتاجی ہونی چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں پھینکا جارہا تھا اس وقت بھی یہ کلمات ان کی زبان مبارک پر تھے ’’میرے لیے اللّٰہ ہی کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے‘‘۔ اسی طرح سورۃ القصص میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ دعا بھی کامل یقین کو ظاہر کرتی ہے’’ پروردگار جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں۔‘‘ سورۃ نساء میں فرمایا ’’تو اے نبیﷺ ان سے کہہ دو کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ مالک ہے عرش عظیم کا‘‘۔ اسی طرح سورۃ ابراہیم، سورۃ النحل، سورۃ ہود، سورۃ العنکبوت اور سورۃ المزمل میں بھی اللّٰہ کریم وعظیم پر توکل ویقین کے بارے آیات مبارکہ موجود ہیں۔
ترمذی شریف میں حضرت عمر ؓ بن خطاب سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’ اگر تم اس طرح توکل کرو جیسا کہ اللّٰہ پر توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اسی طرح رزق دے جیسے وہ پرندوں کورزق دیتا ہے جو صبح بھوکے پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر لوٹتے ہیں‘‘۔ ترمذی شریف کی ایک اور حدیث پاک میں منقول ہے، جس کے راوی حضرت انسؓ بن مالک ہیں۔’’ایک شخص نے عرض کیا:’’ یا رسول اللّٰہ! کیا میں اونٹ باندھوں اور توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں؟ آپﷺ نے فرمایا’’ باندھ کر توکل کرو‘‘۔ امام بہیقی اور طبرانی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ’’نبی کریمﷺ نے فرمایا’’ مجھے اپنی امت پر ضعف یقین کے سوا کسی شے کا خوف نہیں ہے‘‘۔ امام احمد نے کتاب الزہد میں روایت کیا ہے۔’’ حضرت عبداللّٰہ بن عباس ؓ نے فرمایا’’ جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ طاقتور ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ معزز بن جائے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرے اور جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ غنی ہو جائے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر قناعت وکفایت کرے‘‘۔
کسی نے امام علی بن موسیٰ الرضا سے پوچھا’’ توکل کی حد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا’’ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی سے نہ ڈرو‘‘۔ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا’’ بے نیازی اور عزت محو جستجو رہتی ہیں اور جہاں توکل پالیتی ہیں وہیں رہنے لگتی ہیں‘‘۔ توکل کے بارے میں متعدد احادیث قدسیہ اور روایات وفرمودات اہل بیتؓ اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم موجود ہیں۔ اس تحریرکا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ و یقین ہی مضبوط ایمان کی نشانی ہے اور اسی میں دنیاوی مشکلات کا حل اور اخروی راحت کا راز پوشیدہ ہے لیکن اس کے لیے اللّٰہ تعالیٰ، نبی کریمﷺ اور قرآن کریم پر مضبوط و مکمل یقین بنیادی شرط ہے اور اس کے لیے قرآن کریم کی سورۃ یٰسین کی آیت نمبر 82 ہی کافی ہے کہ جس میں ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ :’’ اور وہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے‘‘۔ تو جب سب کام اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے ہی منسلک ہیں اور اس کے حکم اور منشا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا تو پھر اللّٰہ پاک پر توکل اور بھروسہ اور یقین محکم نہ کرنے میں کیا امر مانع ہو سکتا ہے۔ وہی خالق و مالک اور پروردگار ہے۔ تمام کائنات اس کے تابع ہیں۔ بادشاہ ہے یا فقیر سب اس کے محتاج ہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کرانسان کی محتاجی کرنا بدبختی نہیں تو اور کیا ہے۔ اللّٰہ کریم ہم سب کو تقویٰ اور مکمل توکل نصیب فرمائے۔ آمین!
ایس اے زاہد
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
کامیاب زندگی کی شاہ کلید
ﷲ تعالیٰ کا صد ہزار بار شُکر ہے کہ اس ذات نے ہمیں انسان بنانے کے بعد ایمان جیسی نعمت عطا فرمائی۔ اہل ایمان کی پہچان یہی ہے کہ وہ ﷲ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان کے ساتھ شریعت اسلامی کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ ﷲ کے رسول ﷺ نے ہر موقع پر ایسی باتیں سکھلائی ہیں جن پر عمل کرنا دونوں جہانوں کی کامیابیوں کا باعث ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی درج ذیل حدیث مبارک ہے جس میں آپ ﷺ نے کامیاب ہونے کی پانچ قیمتی نصیحتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: کون ہے جو مجھ سے چند نصیحتیں سیکھے تاکہ خود ان پر عمل کرے اور دوسروں تک بھی پہنچائے اور وہ بھی ان پر عمل کر سکیں۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے ﷲ کے رسول ﷺ! میں اس کام کے لیے تیار ہوں۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ پانچ نصیحتیں شمار کرائیں: 1:شریعت کی حرام کردہ چیزوں سے خود کو بچاؤ تو سب سے زیادہ عبادت گزار بندے بن جاؤ گے۔ 
2: ﷲ کی تقسیم پر دل و جان سے راضی ہو جاؤ تو سب سے زیادہ غنا حاصل ہو جائے گا یعنی ﷲ تمہیں (لوگوں کے مال و منصب سے) بے نیازی کی دولت نصیب فرمائیں گے۔ 3: اپنے ہمسائیوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا معاملہ کرو تو (کامل صفات والے اچھے اور سچے) مومن بن جاؤ گے۔ 4: صحیح معنوں میں مسلمان تبھی کہلاؤ گے جب دوسرے مسلمان کے لیے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو۔ 5: زیادہ (فضول باتوں پر) کھل کھلا کر ہنسنے سے بچو کیوں کہ (بے فکری کی وجہ سے) زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ (جامع الترمذی)
محرمات سے بچنا:
شریعت اسلامیہ میں جن کاموں سے روکا گیا ہے انہیں ’’منہیات‘‘ اور جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں ’’مامورات‘‘ کہا جاتا ہے۔ منہیات کو کرنا اور مامورات کو چھوڑنا حرام ہے۔ حدیث مبارک میں اسی حرام سے بچنے والے کو سب سے بڑا عبادت گزار قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے عقائد اسلامیہ کو اپنانے کے بعد فرائض و واجبات کو ادا کرنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ اور یہ اس وقت تک کامل عبادت نہیں بن سکتی جب تک گناہوں کو چھوڑ نہ دیا جائَے اور جو گناہ ہو چکے ہیں ان سے سچے دل سے توبہ نہ کر لی جائے۔ محرمات سے بچنے والے کو سب سے بڑا عبادت گزار اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ بعض محرمات کا ارتکاب نیکیوں کے اجر و ثواب کو ختم کر دیتا ہے۔ اس لیے بڑا عبادت گزار وہی ہو گا جس کی عبادات محفوظ رہیں اور عبادات اسی کی محفوظ رہیں گی جو گناہوں سے خود کو بچائے گا۔ عوام الناس کی بنیادی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ فرائض و واجبات کو ادا نہیں کرتے اور نفلی عبادات میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جو شخص فرض نماز کو چھوڑ کر نوافل میں مشغول ہو جائے، زکوٰۃ، عشر صدقہ الفطر اور قربانی کو چھوڑ کر رفاہی کاموں میں اپنے پیسے کو خرچ کرے، فرض روزوں کو چھوڑ کر نفلی روزوں کا اہتمام کرے، فرض حج کو چھوڑ کر نفلی عمرے ادا کرتا رہے۔ نفلی عبادات کا ثواب اپنی جگہ لیکن فرائض و واجبات کو چھوڑنے کا گناہ اپنی جگہ۔
چند حرام کام  کفر، شرک، اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام کو چھوڑ دینا یعنی ارتداد، دین میں کمی یا بیشی کرنا یعنی الحاد و بدعت، قرآن و حدیث کی غلط اور من مانی تشریح کرنا، جھوٹ، ناحق تہمت، سود، رشوت، حسد، غیبت، چغل خوری، کسی کا ناحق مال کھانا، فحاشی و عریانی کو عام کرنا، تکبّر، غرور، ریاکاری، فخر و مباہات، والدین کی نافرمانی، جھوٹی گواہی، زنا، لواطت، بدنظری، ظلم، گالیاں بکنا، کسی پر تشدد کرنا، مُردوں کو گالی دینا، احسان جتلانا، بدگمانی، بدزبانی بالخصوص اسلام کی مقتد�� شخصیات کو بُرا کہنا، قطع رحمی کرنا، بول چال چھوڑنا، بلاوجہ جاسوسی کرنا، دھوکے بازی، خیانت، چوری، ڈکیتی، غیر محرم مرد یا عورت سے بلاوجہ گفت گو کرنا، مرد و خواتین کا ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا، عورت کا اپنے شوہر کی نافرمان اور ناشُکری ہونا، مرد کا اپنی بیوی کے مالی، جسمانی، معاشی اور معاشرتی حقوق ادا نہ کرنا، اسراف یعنی فضول خرچی، شادی بیاہ اور طرز معاشرت میں غیر اسلامی روایات اپنانا، فرائض و واجبات کو چھوڑنا بالخصوص نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، کاہن ( جسے آج کی زبان میں دست شناس یا نجومی کہا جاتا ہے) کے پاس اپنی قسمت جاننے یا سنوارنے کے لیے جانا، جادو، ﷲ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا، جھوٹی بات پر قسم کھانا، ملاوٹ کرنا، ناپ تول میں کمی کرنا، بد عہدی کرنا، میت پر نوحہ کرنا، بین کرنا، گریبان چاک کرنا، رخسار پیٹنا، قبروں کی پامالی کرنا، بائیں ہاتھ سے کھانا پینا، بلاوجہ کھڑے ہو کر کھانا پینا، مسلمان پر اسلحہ اٹھانا، غیر مسلموں کو بلاوجہ قتل کرنا، شراب پینا، چرس پینا، افیون پینا، بھنگ پینا، کسی کو نشہ پلانا، گانا، عشقیہ غزلیں، موسیقی، فلمیں، ڈرامے دیکھنا اور سننا، مرد کا سونا استعمال کرنا، خواتین کا بے پردہ ہونا، شعائر دین کا مذاق اڑانا وغیرہ ۔
ﷲ کی تقسیم پر راضی رہنا  ﷲ رب العزت نے جتنا رزق مقدر میں لکھ دیا ہے وہ ضرور مل کر رہے گا۔ اس کے لیے جائز اسباب کو اختیار کرنے کا حکم شریعت خود دیتی ہے۔ جو مل جائے اس پر شُکر ادا کیا جائے کیوں کہ جو چیز ملی ہے وہ محض ﷲ کے فضل سے ملی ہے اور اسباب کی توفیق کا مل جانا بھی ﷲ کا فضل ہے۔ مومن کی پہچان یہ ہے نعمتوں پر شُکر بجا لاتا ہے اور تکالیف و آزمائشوں پر صبر سے کام لیتا ہے۔ وہ کسی دوسرے سے حسد نہیں رکھتا، طمع، لالچ، حرص و ہوس سے خود کو بچاتا ہے۔ ہر حال میں ﷲ سے راضی رہتا ہے۔ کوئی نعمت مل جائے تو شُکر اور کوئی مصیبت آجائے تو صبر کرتا ہے۔
بندہ شاکر و صابر کب بنتا ہے؟ حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے دادا عبدﷲ بن عمروؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول ﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، مفہوم: دو خصلتیں ایسی ہیں جس میں وہ پیدا ہو جائیں ﷲ کریم اس کو صابر و شاکر لکھ دیتا ہے پہلی خوبی دین داری کے معاملے میں اپنے سے فائق انسان کی طرف دیکھے اور پھر اس کی اقتداء میں لگ جائے خود بھی نیکی اختیار کرے اور اس جیسی نیکیوں کو انجام دینے کی بھر پور کوشش کرے۔ دوسری خوبی اس میں یہ ہو کہ دنیاوی امور میں اپنے سے کم تر انسان کو دیکھے پھر ﷲ کی طر ف سے ملنے والی زیادہ نعمت کو دیکھے اس پر ﷲ کا شُکر ادا کرے تو ایسے شخص کو ﷲ پاک صابر و شاکر لکھ دیں گے۔ (جامع الترمذی)
ہمسایوں کے حقوق کی پاس داری  ادیان عالم میں اسلام وہ واحد دین ہے جس میں پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کرنے کی سب سے زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔ اور اسے کامل ایمان والے مومن کی صفت قرار دیا گیا ہے۔ ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پڑوسیوں کے (حقوق) کے بارے میں میرے پاس جبریل امینؑ اتنی بار تشریف لائے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث میں وارث (حق دار) قرار دیا جائے گا۔ (صحیح البخاری)
پڑوسیوں کے بنیادی حقوق: حضرت عمرو بن شعیبؓ والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: کیا تمہیں پڑوسیوں کے حقوق کا پتا ہے؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا: جب وہ آپ سے جانیں یا مالی مدد مانگیں تو اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ رکھ کر ان کی مدد کریں۔ اگر ضرورت کے پیش نظر وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے۔ جب فقر اور محتاجی کی حالت کو پہنچ جائے پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے تب بھی اپنی حیثیت کے پیش نظر اس کے فقر و تنگ دستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور بیمار پرسی کی جائے۔ جب ان کے ہاں کوئی خوشی کا موقع آئے تو ان کو مبارک باد دینا۔ جب ان کے ہاں کوئی غمی کا موقع آئے تو ان کے ساتھ اظہار ہم دردی کرنا۔ جب ان کے ہاں فوتگی ہو جائے تو (بہ شرطِ صحتِ عقائد) اس کے جنازے میں شرکت کی جائے۔ اپنے گھر کی دیوار اس کی اجازت کے بغیر اتنی اونچی نہ کی جائے کہ اس کے گھر کی ہوا رک جائے۔ گھر میں کھانا تیار کرتے وقت پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے۔ اپنے لیے پھل وغیرہ خریدیں تو ان میں سے کچھ پڑوسیوں کو بھی ہدیے کے طور پر بھیج دیں۔ (شعب الایمان للبیہقی)
مسلمان بھائیوں کا خیال  حدیث مبارک میں صحیح معنوں میں مسلمان ہونے کے لیے اس چیز کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے کہ بندہ جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرے۔ چناں چہ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث ہے کہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)
اسلام کی تعلیمات کا مقابلہ دنیا کا کوئی دین نہیں کر سکتا۔ بات کو اتنے خوب صورت پیرائے میں بیان کر دیا ہے کہ ہر انسان کو بہ آسانی سمجھ میں آجائے۔ جو تمہیں پسند ہے اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو۔ بندے کی تمام پسندیدہ چیزوں کا خلاصہ دو چیزیں ہیں: عزت اور راحت۔ بعض ایسے اسباب ہیں جو انسان معاشرے میں عزت کے حصول کے لیے اختیار کرتا ہے اور بعض ایسے اسباب ہیں جو انسان راحت کے حصول کے لیے اختیار کرتا ہے۔ حدیث مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ بس اپنی زندگی کے ہر موڑ پر دیکھتے جاؤ کہ جو تمہیں پسند ہے وہ اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرو۔ اگر آج کا معاشرہ اس اصول پر آجائے فساد کی جڑیں ہی اکھڑ جائیں۔
زیادہ ہنسنے سے دل مردہ  حدیث مبارک میں بے فکری اور غفلت کی وجہ سے کھل کھلا کر ہنسنے سے منع کیا گیا ہے اور اسے مردہ دلی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ خوش ہونے کی بات پر خوش ہونا الگ بات ہے لیکن آخرت سے غافل ہو کر، انجام سے بے فکر ہو کر قہقہے لگا کر زور سے ہنسنا الگ بات ہے۔ ﷲ کے رسول ﷺ کے شمائل و اوصاف میں ہنسنے کا تذکرہ ان الفاظ میں ملتا ہے۔ ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو کبھی اتنے زور سے (قہقہہ لگا کر) ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ کا حلق مبارک نظر آئے۔ (صحیح البخاری)
ایک حدیث مبارک میں مردہ دلی کے ساتھ اس بات کا اضافہ بھی ملتا ہے کہ زیادہ قہقہے لگانے سے چہرے کا نور چھن جاتا ہے۔ انسان کی بات بے وقعت ہو جاتی ہے، لوگوں کے دلوں میں عزت ختم یا کم ہو جاتی ہے، سنجیدگی اور متانت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ باوقار شخصیت کا نقش مٹ جاتا ہے جس کا لازمی نتیجا یہ نکلتا ہے کہ انسان کی معاشرے میں حیثیت کم ہو جاتی ہے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ہنسنے کے موقع پر ہنسنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ راتوں کو تنہائیوں میں بندہ ﷲ کے حضور رونا بھول جائے۔ ﷲ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
مولانا محمد الیاس گھمن 
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
چھوٹی نیکی بڑا اَجر
اسلام دنیا کا واحد دین ہے جو حقوق العباد اور حقوق ﷲ پر بالخصوص زور دیتا ہے اور انسان کی عزت نفس کا خیال کرتا اور دوسروں کو اس کی تعظیم کا حکم دیتا ہے۔ دین اسلام میں حسنات کو قرب الٰہی کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ صوم و صلوٰۃ، زکوٰۃ و حج کے علاوہ بھی بے شمار طریقِ حسنات بیان کیے گئے ہیں جس کی ادائی سے بندہ اپنے رب سے قریب اور محبوب خدا ﷺ کی نگاہ میں محبوب ہو جاتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: کسی کے لیے مسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔ راستے سے کانٹا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔ بھوکے کو کھانا کھلا دینا اور لباس سے محروم کو کپڑے پہنا دینا بھی صدقہ ہے۔  کسی یتیم، غریب، مسکین، فقیر کے سر پر دستِ شفقت رکھ دینا بھی صدقہ ہے۔ بھٹکے ہوئے مسافر کو راستہ بتا دینا اور اندھیری رات میں چراغ جلا دینا بھی صدقہ ہے۔ پیاسے کو پانی پلا دینا بھی صدقہ ہے۔ 
یہ وہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہیں جو دیکھنے میں تو کوئی حقیقت و زیادہ وقعت نہیں رکھتیں یہ تو چلتے پھرتے ہر شخص کر سکتا ہے، لیکن دراصل اسلام میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو بالخصوص چھوٹی نیکیوں کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور ان چھوٹی نیکیوں کا اجر بہت بڑا ہے، اگر اس بات کو سمجھا جائے تو رب تعالیٰ کی نظر میں عمل و نیّت کی جو اہمیت ہے اس کے پیش نظر یہ چھوٹی نیکی ہمارے اعمال کو وزنی اور اس قدر بھاری کر سکتی ہے کہ روزِ محشر ہمیں شرمندگی نہیں ہونے دے گی۔ کیوں کہ ان کے عمل کا حکم محبوب خدا ﷺ نے ناصرف دیا ہے، بلکہ آپ ﷺ نے ان پر عمل کر کے دکھایا بھی ہے۔ اسلام کسی بھی شخص کو دکھ ، تکلیف، دھوکا یا فریب دینے کی قطعی اجازت نہیں دیتا، بلکہ وہ تو ہر ایک کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے اور یہی حسن اخلاق تھا کہ آج دنیا مسلمانوں سے بھری ہوئی ہے۔ حسن عمل اور حسن اخلاق قُرب رب کریم کا پہلا زینہ ہے۔ قرآن کریم و احادیث مبارکہ ان دونوں معاملات کو نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
نیکی کیا ہے؟ یہ انسان کے دل کی آواز ہے۔ اگر ایک شخص یہ طے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا، کسی پر جبر و ظلم کے پہاڑ نہیں توڑے گا، ہر ایک کے کام آئے گا اور فرمان نبوی ﷺ کی روشنی میں اپنی نیکیاں بڑھانے کے لیے ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرے گا، تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ حضور نبی کریم ﷺ کے فرمان گرامی کا مفہوم ہے کہ مومن وہ ہے کہ اس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے دوسرا محفوظ رہے۔ یہ حدیث ہما ری زندگی کا نچوڑ ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ پہل کون کرے ؟ سوال یہ ہے کہ مسلمان جب ایمان رکھتا ہے تو اسے اس بات پر کُلّی یقین ہونا چاہیے کہ جو اجر اس پر پہلے عمل کرنے والے کو ملے گا تو وہی اجر آخر والے کو بھی ملے گا، لہٰذا بلا تاخیر و انتظار خود ہی اس پر عمل پیرا ہوجانا چاہیے کہ ہر ایک کو اپنا نامۂ اعمال بھرنا ہے۔ خواہ بُرائی سے بھرے یا نیکی سے، اس لیے اچھی زندگی اور عمدہ آخرت کے لیے ’’چھوٹی نیکیوں کے بڑے اجر‘‘ پر عمل پیرا ہو جائیے۔ ﷲ تعالی ہمیں اسلام پر کامل عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین
حاجی محمد حنیف طیّب 
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
ریاکاری کی مذمت
انسان کی عبادت اور اعمال کا دار و مدار نیّت پر ہے، اگر نیّت خالص ہے تو اعمال ﷲ کے ہاں قبول ہوتے ہیں، اگر نیّت میں کھوٹ ہے یا ریاکاری یا نام و نمود مقصود ہے تو ایسے اعمال بہ جائے قبولیت کے انسان کے لیے موجب وبال بنیں گے۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اعمال کی قبولیت کی دو شرائط ہیں، پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل خالص ﷲ کے لیے ہو، دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل سنّت کے مطابق ہو، ان دو شرائط میں سے کوئی بھی ایک شرط نہ پائی گئی تو وہ عمل قبول نہیں ہو گا۔ ریاکاری ایسا مذموم وصف ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان کا بڑے سے بڑا نیک عمل ﷲ کے ہاں رائی کے دانے کی حیثیت نہیں رکھتا، اور ریاکاری کے بغیر کیا ہوا چھوٹا سا عمل بھی ﷲ کے ہاں پہاڑ کے برابر کی حیثیت رکھتا ہے۔
ﷲ رب العزت نے ریاکاری کی مذمت مختلف آیات میں بیان فرمائی ہے، ارشاد باری تعالی کا مفہوم : ’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔‘‘ (سورۃ الکہف) دوسری جگہ ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ’’جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور ﷲ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو، وہ بدترین ساتھی ہے۔‘‘ (النساء) ایک اور مقام پر ﷲ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے اور نہ ﷲ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر۔‘‘ ( البقرہ)
ان دونوں آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ریا کار اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ ﷲ سے اس کو اجر کی توقع نہیں، کیوں کہ جس سے توقع ہو گی اُسی کے لیے عمل کیا جائے گا اور ریاکار کو خالق کے بہ جائے مخلوق سے اجر کی توقع ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا آخرت پر بھی ایمان نہیں کہ اگر ایمان ہوتا تو ہرگز خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے اجر کی توقع نہ رکھتا اور آخرت کی باز پرس سے ڈرتا۔ احادیث مبارکہ میں بھی ریاکاری کی نبی اکرم ﷺ نے سخت مذمت بیان فرمائی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ کے فرمان گرامی کا مفہوم: ’’کیا میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں جو میرے نزدیک تمہارے لیے مسیح دجال سے بھی زیادہ خوف ناک ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: ہاں کیوں نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: شرک خفی ہے کہ آدمی کھڑا نماز پڑھے تو کسی شخص کو اپنی طرف دیکھتا ہوا دیکھ کر اپنی نماز اور سنوار لے۔‘‘ ( سنن ابن ماجہ) 
دوسری حدیث میں ہے، جب ﷲ تعالیٰ تمام اگلوں اور پچھلوں کو قیامت کے روز جس کی آمد میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا، تو ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا: جس نے ﷲ کے لیے کیے ہوئے کسی عمل میں کسی غیر کو شریک کیا ہو وہ اس کا ثواب بھی اسی غیر ﷲ سے طلب کرے، کیوں کہ ﷲ تعالیٰ شرک سے تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز ہے۔ (سنن الترمذی) ایک اور مقام پر نبی کریمؐ نے فرمایا: جو شخص شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا، ﷲ تعالیٰ اس کے عیوب ظاہر کر دے گا اور جو دکھاوے کے لیے عمل کرے گا ﷲ تعالیٰ اسے رسوا کر دے گا۔ (بخاری) ﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا کرے۔
مولانا محمد راشد شفیع  
1 note · View note
islamiclife · 2 years
Text
‏قرآن مجید میں انسان کی موت کے بعد بیان کی گئی حسرتیں
1- ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﯿﮟ ﻣﭩﯽ ﮨﻮﺗﺎ (النبأ) 2- ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ (ﺍﺧﺮﯼ) ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ کچھ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ (البقرہ)
3- ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻣﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ (ﺍﻟﺤﺎﻗﺔ)
‏4- ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﻧ�� بناتا۔ الفرقان
5- ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍللہ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ۔ ﺍﻷﺣﺰﺍﺏ
6- ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ساتھ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ۔ ﺍﻟنسا
‏7- ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﺘﺎ (اﻟﻔﺮﻗﺎﻥ)
8- ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ساتھ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﮏ ﻧﮧ ﭨﮭﺮﺍﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ (اﻟﻜﻬﻒ)
9- ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ‏ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺟﮭﭩﻼﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ۔ (ﺍﻷﻧﻌﺎﻡ)
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اسی زندگی میں اپنے عقیدے و عمل کو درست کر لیں ورنہ یہ دن آ گیا تو صرف پچھتاوا ہی رہ جائے گا۔
1 note · View note
islamiclife · 2 years
Text
مکہ مکرمہ کی فضائی حدود میں جہاز کیوں نہیں اُڑتے؟
سعودی پائلٹ عبداللہ صالح الغامدی کا کہنا ہے کہ مکہ مکرمہ کی فضائی حدود سے جہازوں کے نہ گزرنے کی واحد وجہ سعودی حکومت کی جانب سے اس روٹ کو اختیار کرنے پر پابندی کا عائد کرنا ہے۔ سبق نیوز کے مطابق سعودی ہوابازی کے ماہر پائلٹ عبداللہ الغامدی کی جانب سے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری ویڈیو پیغام میں سوشل میڈیا پر کیے جانے والے ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ مکہ مکرمہ مقناطیسی فیلڈ کے مضبوط حصار میں ہونے کی وجہ سے شہرمقدس کی فضاوں میں کوئی جہاز نہیں اڑ سکتا۔ پائلٹ الغامدی نے مزید کہا کہ اس کی اصل وجہ کوئی مقناطیسی میدان نہیں بلکہ سعودی حکومت کی جانب سے حرم شریف کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے فضائی کمپنیوں کو جو روٹ دیا گیا ہے اس میں مکہ مکرمہ کی فضائی حدود میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
الغامدی کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی افواہیں غیرمعمولی طور پر مقبول ہوئیں جنہیں محض چند گھنٹوں میں 25 لاکھ سے زائد ویوز ملے۔ انہوں نے ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے وضاحت کی کہ اس حوالے سے پہلے بھی متعدد بار وضاحت کی جا چکی ہے کہ حرم شریف کے تقدس کے پیش نظر وہاں فضائی روٹ نہیں رکھا گیا۔ فضائی روٹ نہ رکھنے کی دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے الغامدی کا کہنا تھا کہ اس کی سائنسی وجہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ بلند وبالا پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جہاں ہوا کا دباؤ کافی ہوتا ہے جب جہاز وہاں سے گزرتے ہیں تو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے شور زیادہ ہو جاتا ہے جو مسجد الحرام میں موجود زائرین اور عازمین کے لیے باعث پریشانی ہوتا اسی لیے سعودی حکومت نے وہاں فضائی روٹ پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔
بشکریہ اردو نیوز  
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
بَدگوئی کے منفی سماجی اثرات
بَدگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسی بات یا اشارہ جو کسی شخص کے سامنے اسے ایذا پہنچانے کی نیت سے ادا کیا جائے یا جس سے مخاطب کو ناحق ایذا پہنچے یا بات اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر شرعی یا غیر اخلاقی ہو۔ قرآن کریم میں بدگوئی کی ممانعت: قرآن میں سورہ الحجرات کی آیت میں واضح طور پر اس رویے کو بُرا سمجھا گیا اور اس کی ممانعت بیان کی گئی ہے اور باز نہ آنے والے لوگوں کو ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔ مفہوم: ’’اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب لگاؤ اور نہ (ایک دوسرے کو) بُرے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا بُرا ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں۔‘‘ (الحجرات) اسی طرح بدگو انسان کو سورہ الھمزہ میں ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے، مفہوم: ’’ہر طعنہ زن اور عیب جوئی کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے۔ ‘‘ (الھمزہ) سورہ القلم میں بھی طعنہ دینے والے شخص کے لیے وعید آئی ہے۔
حدیث میں بدگوئی کی ممانعت: قرآن کے علاوہ احادیث میں بھی بَدگوئی کی واضح طور پر مذمت کی گئی ہے چناں چہ ایک حدیث میں خوش خلقی کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو تم سب میں زیادہ بااخلاق ہو۔‘‘ (صحیح بخاری) اسی طرح ایک اور حدیث میں بیان ہوتا ہے۔ ’’جو شخص ﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘ ( صحیح بخاری) اسی طرح ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ بندے کو سب سے اچھی چیز کیا عطا کی گئی؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: خوش خلقی۔ (سنن ابن ماجہ) بدگوئی کے مختلف انداز: گالی دینا، گالی کا مطلب کوئی دشنام، بدزبانی یا کوئی فحش بات بولنا ہے۔ بدگوئی کی سب سے سنگین صورت حال یہی ہے کہ مخاطب کو گالی دی جائے۔ گالی دینے کے کئی انداز ہیں جیسے کسی جانور سے منسوب کرنا، کسی غلط کردار سے موسوم کرنا، کسی فحش فعل سے نسبت دینا، کسی کے گھر کی خواتین کے بارے میں غلیظ زبان استعمال کرنا، کوئی فحش بات کہہ دینا وغیرہ۔ گالی کسی صورت میں بھی انسانی سماج میں گوارا نہیں اور اس کی ہر مہذّب فورم میں مذّمت ہی کی جاتی ہے۔
گالی دینے کا بنیادی مقصد مخاطب کی توہین کرنا، بے عزت و ذلیل کرنا اور ایذا پہنچانا ہوتا ہے۔ حالاں کہ گالی دینے والے شخص کو جواب میں خود اس بے عزتی کے عمل سے گزرنے کا احتمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آخرت میں اس کے اعمال سے نیکیاں مخاطب کے کھاتے میں بھی منتقل ہونے کا خدشہ بھی موجود ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق یعنی گناہ ہے۔ ایک اور مقام پر نبی کریمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’وہ دو شخص جو ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں، وہ دونوں شیطان ہوتے ہیں جو بکواس اور جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد) اسی طرح آپؐ نے منافق کی خصلتوں میں سے ایک خصلت یہ بتائی ہے کہ جب بھی وہ کسی سے اختلاف کرے تو گالیاں بکے (صحیح بخاری) آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’قیامت کے دن میری امّت کا مفلس وہ آدمی ہو گا جو نماز روزے زکوۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی اور کسی پر تہمت لگائی ہو گی اور کسی کا مال کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دیے جائیں گے اور پھر اس آدمی کو جہنّم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘ ( صحیح مسلم) 
گالی کی سب سے سنگین صورت یہ ہے کسی مسلمان کو کافر کہا جائے۔ اس بارے میں آپؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’جس نے کسی کو کافر کہا یا ﷲ کا دشمن کہہ کر پکارا حالاں کہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا۔‘‘ (مسلم)  لعنت کرنا: بدگوئی کا ایک اور پہلو لعنت کرنا ہے۔ لعنت کرنے کا مطلب کسی کو خدا کے عذاب کی یا خدا کی رحمت سے محروم کرنے کی بَددعا دینا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ ﷲ تجھے برباد کرے یا خدا تجھے غارت کرے وغیرہ۔ یہ لازمی طور پر ایک سنگین بَددعا ہے جس سے مخالف کے بارے میں ہمارے عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص پر بلاجواز لعنت کی جارہی ہے تو یہ ایک سنگین گناہ ہے۔ اسی لیے حدیث میں لعنت کرنے کو مومن کے قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ (بخاری) لعنت کرنے والوں کے بارے میں نبی کریمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی جانب پروان چڑھتی ہے اور آسمان کے دروازے اس پر بند کر دیے جاتے ہیں پھر وہ زمین کی جانب اترتی ہے تو اس کے لیے زمین کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں پھر دائیں بائیں جگہ پکڑتی ہے جب کہیں کوئی داخلے کی جگہ نہیں ملتی تو جس پر لعنت کی گئی ہے اس کی طرف جاتی ہے اگر وہ اس لعنت کا حق دار ہو ورنہ کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔‘‘ (سنن ابوداؤد) آپؐ نے عورتوں کے بڑی تعداد میں جہنم میں جانے کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ وہ کثرت سے لعنت کرتی ہیں۔
عیب جوئی کرنا: عیب جوئی کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کے عیب بیان کرنا، ان کی خامیوں کو بیان کرنا، نقص نکالنا، نکتہ چینی کرنا، بلاجواز تنقید کرنا یا یا زبردستی ان میں کوئی مفروضہ کمی کو بیان کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ چوں کہ عیب جوئی کا منطقی نتیجہ ایذا رسانی ہے، جس کی قرآن میں ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے، مفہوم: ’’بے شک! جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذاب جہنّم ہے اور ان کے لیے آگ میں جلنے کا عذاب ہے۔‘‘ (البروج) رسول اکرمؐ کے فرمان کا مفہوم: ’’مسلمان کو اذیت نہ دو، انہیں عار نہ دلاؤ، اور ان میں عیوب مت تلاش کرو، کیوں کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے ﷲ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا اور جس کی عیب گیری ﷲ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ ( جامع ترمذی) الزام تراشی کرنا: اس کا مطلب تہمت، بہتان، اتہام یا کسی کو قصور وار ٹھہرانا ہے۔ یہاں الزام سے مراد کسی پر جھوٹا الزام لگانا اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ بہتان ایک کبیرہ گناہ ہے۔ خاص طور پر اگر یہ تہمت پاک دامن عورتوں پر لگائی جائی تو لائق تعزیر ہے اور ایسے شخص کو اسّی کوڑوں کی سزا ہے اور ساتھ ہی ان کی گواہی آئندہ کے لیے ناقابل قبول ہے۔
الزام لگانے کی اس کے علاوہ بھی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ جیسے کسی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگانا، رشوت خوری کی تہمت دھرنا، کفر کے فتوے لگانا وغیرہ۔ الزام تراشی بھی بَدگوئی کی ایک قسم ہے جس سے اجتناب لازم ہے۔ الزام لگانے کی ایک صورت یہ ہے کہ لگایا گیا الزام درست ہو۔ اس صورت میں اگر نیّت اصلاح کی ہے تو یہ بَدگوئی نہیں۔ اگر نیّت تحقیر و ایذا رسانی کی ہے تو یہ بَدگوئی ہے۔ یوں بھی کسی کے منہ پر اس کی خامی کو بہت حکمت سے بیان کرنا چاہیے ورنہ فساد کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مختلف طبقات میں بدگوئی کی نوعیت: یوں تو بدگوئی ایک عام مرض ہے لیکن کچھ مخصوص طبقات میں خاص قسم کی بدکلامی کی جاتی ہے جن پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ نوجوانوں میں بدگوئی: نوجوانوں میں عام طور پر بدگوئی کے جو انداز زیادہ عام ہیں ان میں ایک دوسرے کو بُرے ناموں سے پکارنا، مذاق اڑانا، کسی چڑ کی بنا لینا وغیرہ زیادہ عام ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کا ایک مسئلہ فحش گفت گُو بھی ہے۔ عام طور پر جنس پر مبنی لطیفے، چٹکلے، بُرے القابات، گالیاں اور کلمات ایک دوسرے کے سامنے بولے جاتے ہیں۔
خواتین میں بدگوئی: خواتین کی بدزبانی کے طریقے عام طور پر کسی پر طنز و تشنیع، طعنے بازی، متعلقات جیسے کپڑوں، زیورات، میک اپ وغیرہ پر نکتہ چینی اور ایک دوسرے پر بلا جواز الزام تراشی پر مبنی ہوتے ہیں۔ خواتین میں عام طور پر بدگوئی کا سبب حسد، جلن اور عدم برداشت ہوتا ہے۔ مردوں کی بدگوئی: مرد حضرات عام طور پر تُو تڑاخ، گالم گلوچ، فحش القابات وغیرہ کے ذریعے اس عمل کو انجام دیتے ہیں۔ اسی طرح مرد حضرات کی بدگوئی کے اہم موضوعات میں دفتری اختلافات، سڑک حادثے پر لڑائی، زمین کا مسئلہ یا کسی عورت پر جھگڑا وغیرہ شامل ہیں۔ مذہبی حلقوں میں بدگوئی: مذہبی حلقے میں علماء اور ان کے مقلدین دونوں شامل ہیں۔ علماء کی بدگوئی میں ایک دوسرے پر کفر کے بلا جواز فتوے لگانا، مخالفین کو منافق، زندیق وغیرہ کہنا شامل ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے کو ان القابات سے پکارا جاتا ہے جس سے مخالف چِڑنے پر مجبور ہو جائے۔ دوسری جانب ان علماء کے مقلدین اپنے علماء کی تقلید میں ان سارے القابات کو مزید نئے ناموں کے ساتھ بازاری زبان میں بیان کرتے ہیں۔
بدگوئی کے اسباب: بدگوئی کے چند اسباب مندرجہ ذیل ہیں۔ تکبر، نفرت اور کینہ، منفی سوچ، حسد، زیادہ بولنے کی عادت، احساسِ کم تری، انتقام و بدگمانی، غصہ، تحمل کی کمی، مخاطب کے جذبات سے لاعلمی وغیرہ۔ بدگوئی سے بچنے کے طریقے: بدگوئی سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ سب سے پہلے وہ سبب معلوم کیا جائے جس کی بنا پر بدگوئی کی جا رہی ہے اور پھر اس سبب کے مطابق علاج کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر بدگوئی کا سبب غصہ ہے تو اس ہر قابو پایا جائے، اگر سبب بہت زیادہ بولنا ہے تو کم بولنے کی مشق کی جائے وغیرہ۔ ﷲ تعالیٰ ہمیں اس مہلک بیماری سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
مولانا رضوان اللہ پشاوری  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
وقت کی قدر و قیمت جانیے
پروردگارِ عالم کی ذاتِ پاک کی عطا کردہ زندگی میں، ساعتیں، لمحے، گھڑیاں، دن، ماہ و سال اور صدیاں وقت کے تابع ہیں کہ جوں جوں وقت گزرتا ہے تو گزرنے کے اِس عمل سے دن، ہفتے، ماہ و سال اور صدیاں جنم لیتی ہیں۔ ماہ و سال اور صدیاں تو ختم ہو جاتی ہیں، مگر وقت کبھی نہیں رکتا بس گزرتا ہی چلا جاتا ہے۔ مگر ہاں! انسان اگر چاہے تو اپنے نیک مقاصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی منزل کا تعین کر سکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان بے اختیار ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ وہ اپنے وقت کو اپنی مرضی سے مصرف میں نہ لا سکے۔ لیکن یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے کہ جب انسان وقت کی قدر و اہمیت سے شناسائی رکھتا ہو۔ ہم ﷲ تبارک و تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ رحمت سے اسلام میں داخل ہوتے ہوئے، اور آپ صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت میں شامل ہونے پر خوش قسمتی کے عظیم اعزاز سے نوازے جا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خوش قسمتی کا یہ عظیم اعزاز ہم سے اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم بہ حیثیت مسلمان باقی مذاہب کے ماننے والوں سے بڑھ کر وقت کی قدر کریں۔
وقت کی قدر جاننے کے لیے ہمیں کسی غیر کے دروازے پر دستک نہیں دینا پڑے گی۔ کسی کے آگے جھکنا نہیں پڑے گا، جھوٹے اور خود ساختہ آقائوں سے ہدایات لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، نا ہی اِس کے لیے ہیرے جواہرات اور مال و دولت کے انبار درکار ہیں۔ بس ذرا دل کے کسی ایک گوشے میں وقت کی قدر جاننے کے لیے تھوڑی سی تڑپ ہونا چاہیے۔ الحمدﷲ! دنیا کی سب سے عظیم کتاب قرآن حکیم میں ﷲ اور دنیا کے سب سے عظیم اور بڑے راہبر، ہادی عالم، محسنِ انسانیت صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرامینِ مقدس کی روشنی میں وقت کی قدر و اہمیت کا پتا اور اس کے گزارنے کے روشن اصول ملتے ہیں۔ بات مزید آگے بڑھانے سے قبل یہ بات اور نکتہ پیش کرنا بھی ضروری ہے کہ جو جتنی بڑی ذات ہو گی، اُس کے اُتنے ہی بڑے اہم اور روشن اصول ہوں گے۔ دنیا میں سب سے بڑی حقیقت اور سچائی یہی ہے کہ خالقِ کائنات ﷲ سے بڑھ کر کوئی ذات نہیں اور لباسِ بشریت میں ملبوس ہادی عالم صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر کوئی راہبر نہیں۔ اب بھلا ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ﷲ کسی کم تر چیز کی قسم، بارہا کھائے۔ پروردگارِ عالم نے کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے۔
سورۃ الفجر میں وقتِ فجر اور عشر ذوالحجہ کی قسم کھائی ہے، مفہوم: ’’فجر کے وقت کی قسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی) اور دس (مبارک) راتوں کی قسم۔‘‘ پھر ایک مقام پر ربِ قدوس نے رات اور دن کی قسم بھی کھائی، مفہوم: ’’رات کی قسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے) اور دن کی قسم جب وہ چمک اُٹھے۔‘‘ اسی طرح سورۃ الضحیٰ میں ربِ کائنات نے وقت چاشت کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’قسم ہے وقتِ چاشت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نُور پھیلاتا ہے) اور قسم ہے رات کے وقت کی جب وہ چھا جائے۔‘‘ پھر ایک جگہ خدائے واحد نے سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کھائی ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ اکثر ہمارے احباب نادانی اور کم علمی کی وجہ سے زمانے کو بُرا کہتے اور کوستے ہیں، یہ سخت گناہ ہے۔ کیوں کہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے، مفہوم: زمانہ میں خود ہوں۔ العصر میں ارشاد ہوتا ہے، مفہوم: ’’زمانے کی قسم (جس کی گردش انسانی حالات پر شاہد ہے) بے شک! انسان خسارے میں ہے۔‘‘ (کیوں کہ وہ اپنی عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)
حضورِ اقدس صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’صحت اور فراغت ﷲ کی طرف سے یہ دو ایسی نعمتیں ہیں کہ جس کے بارے میں لوگ اکثر خسارے میں رہتے ہیں۔‘‘ ربِ غفور انسان کو جسمانی صحت اور فراغتِ اوقات کی انمول نعمتوں سے نوازتا ہے تو اُن میں سے اکثر نادان انسان یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ ساتھ رہیں گی اور انہیں کبھی زوال نہ ہو گا۔ حقیقت یہ ہے یہ صرف شیطانی چال اور وسوسہ ہوتا ہے، جس کی بِنا پر انسان اِدھر اُدھر کے فضول اور بے سود کاموں میں اپنے آپ کو مصروف کر بیٹھتا ہے۔ جس کا نا کوئی دنیا میں فائدہ اور نا آخرت کا سامان۔ حضور سیدِ عالم صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمانِ مقدس کا مفہوم: ’’قیامت کے دن بندہ اُس وقت تک (بارگاہِ الہٰی میں) کھڑا رہے گا کہ جب تک اس سے چار چیزوں کے متعلق پوچھ نہ لیا جائے گا۔ اولاً: زندگی کیسے گزاری۔ دوسری: جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا۔ تیسری: مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ چوتھی: جسم کس کام میں کھپائے رکھا۔‘‘
اسی طرح کا ایک اور فرمانِ رسولؐ جس کے راوی حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔ بیماری سے پہلے صحت کو۔ محتاجی سے پہلے تونگری کو۔ مصروفیت سے پہلے فراغت کو۔ اور موت سے پہلے زندگی کو۔‘‘ اگر ہم اپنی اپنی زندگی کے گزرنے والے شب و روز، درج بالا سطور کے تناظر میں دیکھیں تو کیا ہم خود کو مطمعن پائیں گے؟ یقیناً نہیں! ہم تو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اور لمحات فضول گپ شپ، واہیات فلمیں اور اخلاق سوز ڈرامے دیکھنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے دل دکھانے میں صرف کر دیتے ہیں۔ یوں گزرنے والے ماہ و سال ماضی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ تلخ و شیریں یادوں سے بھرا سال ماضی کا حصہ بن گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ گزرا وقت واپس نہیں آتا، مگر آنے والا ہر لمحہ اور ہر صبح کو طلوع ہونے والے سورج کی کرنوں سے پھوٹنے والی روشنی امید کا پیغام ضرور دیتی ہے۔ یہی ایک امید ہی تو ہے کہ جس پر یہ دنیا قائم ہے۔ مایوسی کو گناہ قرار دیا گیا ہے۔ ربِ قدوس کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں۔ ہمیں وقت کی قدر کرتے ہوئے امیدوں کے اس شجر سے وابستہ رہ کر نئی امنگوں اور جذبوں کے ستاروں کو اپنے آنگن میں اتارتے ہوئے اسلام اور وطن عزیز پاکستان کے مکار دشمنوں کے ناپاک عزائم کو اتفاق و اتحاد، خلوص و پیار، ایثار، ملی یک جہتی، جذبۂ حب الوطنی اور صبر و رضا کے انمول ہتھیاروں سے ناکام بنا سکتے ہیں۔ ﷲ کریم ہم سب کو اپنے حبیب صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے صدقے عمل کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔ آمین
صاحب زادہ پیر مختار احمد جمال تونسوی 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
اپنا محاسبہ کیجیے
سال مہینوں کی طرح اور مہینے دنوں کی طرح اور دن گھنٹوں کی طرح گزرتے چلے جارہے ہیں۔ یہ ہم سب کا مشاہدہ ہے اور آج کل تو ہم سب وقت میں بے برکتی کا شکوہ ہر محفل میں سنتے ہیں۔ ہر گزرتا ہوا دن ہماری عمر کو کم کرتا چلا جا رہا ہے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے ہر جان دار کے لیے موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے اور موت کو دنیا کے سبھی انسان چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب و فرقے یا قوم و علاقے سے ہو یک ساں تسلیم کرتے ہیں۔ ﷲ کے سوا کسی بشر کو یہ نہیں معلوم کہ کس جگہ اور کس مقام اور کس عمر میں اسے موت آئے گی۔ بعض بچپن میں، بعض جوانی میں چلے جاتے ہے بعض ادھیڑ عمری تک جیتے ہیں اور بعض ارذل عمری تک پہنچتے ہیں اور پھر داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں۔ بعض نوجوان سُہانے مستقبل کے لیے اپنے منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں اور انہیں معلوم تک نہیں ہوتا کہ موت کا فرشتہ ان کی تلاش میں روانہ ہو چکا ہے۔
گزشتہ برس ہی دیکھ لیجیے۔ کورونا کی وباء نے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے لوگوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا اور اب تک پوری دنیا کورونا کے عفریت کی زد میں ہے۔ آئے دن ہونے والے حادثات میں کیسے کیسے نوجوان ملک الموت اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک دن ہمیں بھی ﷲ کے پاس حاضر ہونا ہے اور حساب کتاب دینا ہے۔ ﷲ تعالی نے بارہا قرآن عظیم الشان میں موت کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے، مفہوم: ’’تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آپکڑے گی، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو۔‘‘ (سورہ النساء) ��فہوم: ’’کہہ دیجیے! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی۔‘‘ (سورہ جمعہ) متعدد آیات ہیں جن میں ﷲ پاک نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ اپنی آخرت کی فکر کرو۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جلدی سے نیکیاں کر لو، اس سے پہلے کے اندھیری رات کی طرح فتنے چھا جائیں گے، جس میں صبح کے وقت آدمی مومن ہو گا تو شام کو کافر بن جائے گا، یا شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر بن جائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم) گزشتہ سال کتنے لوگ ہمارے ساتھ تھے۔ اب قبروں میں ان کی ہڈیاں بھی بوسیدہ ہو چکی ہوں گی۔ آج ہم بہ قید حیات ہیں کچھ خبر نہیں کب ملک الموت ہماری جان نکالنے آجائے۔ تب ہمیں دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں بچا سکے گی۔
اسی لیے ہمارے پیارے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو قیمتی مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی راہ نمائی فرمائی اور موقع ہاتھ سے جانے سے پہلے اچھائی اور نیکیاں کر گزرنے کی ترغیب دی۔ اور فرمایا، مفہوم: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت جانو! جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔ تن درستی کو بیماری سے پہلے۔ امیری کو فقیری سے پہلے۔ فراغت کو مصروفیت سے پہلے۔ اور زندگی کو موت سے پہلے۔‘‘ ( سنن نسائی) زندگی کو غنیمت جانو کیوں کہ موت کے ساتھ ہی عمل منقطع ہو جاتے ہیں، اس کی امیدیں مٹی میں مل جاتی ہیں اور اس کی ندامت کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اپنی صحت کو غنیمت جانو کیوں کہ بیمار ہونے کے بعد انسان بہت سے اعمال کی سکت نہیں رکھتا اور صرف تمنا ہی کرتا رہتا ہے کہ کاش! نماز پڑھتا یا روزہ رکھ لیتا، یا نیک اعمال کر لیتا۔ اپنی فراغت کو مصروفیات کے آنے سے پہلے غنیمت جانو، کہ کہیں تمہیں دنیا مصروف نہ کر دے۔اور تم نیک اعمال کرنے سے محروم رہ جاؤ۔ 
اپنی جوانی کو غنیمت جانو، اس سے پہلے کہ تم عمر رسیدہ ہو جاؤ، جسم لاغر ہو جائے، اعضاء جواب دینے لگیں اور فرائض کی بجا آوری بھی دشوار ہوجائے۔ اپنی امیری کو غنیمت سمجھو، صدقات کرو، ﷲ کی راہ میں خرچ کرو، اس سے پہلے کہ تمہارا مال تم سے بچھڑ کر کسی اور کا بن جائے۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا، مفہوم: ’’قیامت کے دن انسان کے قدم ﷲ تعالیٰ کے سامنے سے نہ ہٹیں گے حتی کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال کیا جائے گا اور وہ ان کے جوابات دیدے۔ اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیز میں خرچ کی؟ اور اس کی جوانی کے متعلق کہ کہاں لگائے؟ اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور جن باتوں کا علم تھا اس پر کتنا عمل کیا؟‘‘ (سنن ترمذی) اس حدیث مبارکہ میں غور کیجیے۔ آج اپنا محاسبہ کرنے کا وقت ہے۔ آج ہم اپنی عمر کا بیشتر حصہ کہاں خرچ کر رہے ہیں ؟ ہم کن کاموں میں اپنا وقت اور صلاحیتیں لگا رہے ہیں؟ ﷲ کی اطاعت میں زندگی خرچ کر رہے ہیں یا معصیت میں؟ ہمارے مال کمانے کے ذرائع حلال ہیں یا حرام ؟ اور ہم اس مال کو خرچ کہاں اور کیسے کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے مال ﷲ کی راہ میں خرچ کر کے ﷲ سے نفع بخش تجارت کی؟ مال سے متعلقہ ہم نے ﷲ اور بندوں کے حقوق پورے کیے ۔۔۔؟
اپنا محاسبہ کیجیے کہ گزشتہ سال ہم نے کتنی نیکیاں کیں اور کتنے گناہ کیے؟ کیا ہم نے اپنے نامۂ اعمال میں ایسی نیکیاں درج کروائیں جو بہ روز قیامت ہمارے لیے خوشی و مسرت کا باعث بنیں گی؟ یا ہم غفلت میں ڈوبے رہے؟ اور اپنے نامۂ اعمال میں اپنی کوتاہیوں اور غفلت سے وہ درج کروا بیٹھے جو بہ روز قیامت ہمارے لیے حسرت اور ندامت کا باعث بنیں گی؟ گزشتہ سال کورونا وائرس کی جو وبا آئی اور اب تک مکمل ختم نہیں ہوئی اس سے ہم میں کیا تبدیلی آئی؟ کیا ہم میں تقویٰ پیدا ہوا ؟ کیا ہم نے رجوع الیٰ ﷲ کیا؟ کیا ہم پر ﷲ کے، اس کے رسول ﷺ کے اپنے عزیز و اقارب کے، پڑوسیوں کے جو حقوق تھے ہم نے ادا کیے؟ کیا ہم نے لوگوں کی راحت کا کچھ سامان کیا یا ان کی ایذا رسانی کا سبب بنے رہے؟ کیا اس سال بھی ہماری ساری کوششیں، مال و اسباب صرف اپنی دنیا بنانے میں خر چ ہوتے رہے یا ہم نے کچھ توشہ آخرت بھی جمع کر لیا ۔۔۔۔ ؟ لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رجوع الی ﷲ کریں۔ سچی توبہ کریں اور بعد میں حسرت اور پشیمانی میں مبتلا ہونے کے بہ جائے اس دنیاوی زندگی میں ہی اپنے رب کو راضی کرنے کی فکر کریں۔
کرن فاطمہ  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
سعودی عرب نے ای عمرہ کے اجرا کا طریقہ کار جاری کر دیا
وزارت حج و عمرہ نے ای عمرہ گیٹ کے ذریعے ویزے کے اجرا کا طریقہ کار جاری کر دیا ہے- ایسے ممالک سے زائرین عمرہ گیٹ کے ذریعے عمرہ ویزہ کی کارروائی کر سکیں گے جہاں سے مملکت آنے پر پابندی نہیں ہے- عاجل، اخبار 24 کے مطابق وزارت حج نے ٹوئٹر کے اپنے اکاؤنٹ پر بیان جاری کر کے کہا ہے کہ ایسے ممالک کے شہری جہاں سے مملکت آمد پر کوئی پابندی نہیں- عمرہ ویزہ مندرجہ ذیل کارروائی کر کے حاصل کر سکتے ہیں-  زائر، وزارت حج و عمرہ کی لائسنس ہولڈر ٹریولنگ ایجنسی یا کمپنی کا انتخاب کرے- مناسب پیکیج اختیار کرے- پیکیج کی رقم ادا کرے، پیکیج رہائش اور ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی سہولیات پر مشتمل ہو گا-  عمرہ زائر ٹریولنگ ایجنسی یا متعلقہ کمپنی کے دفتر جا کر اپنا پاسپورٹ پیش کرے اور وہاں عمرہ پروگرام سے متعلق متعلقہ فارم پر کرے- 
نیز اپنے وطن سے ارض مقدس روانگی اور وہاں سے واپسی کی تاریخ متعین کرے-سفر سے قبل عمرہ ویزے کے اجرا کی مندرجہ ذیل شرائط پوری کرنا ضروری ہیں-آمدورفت کا ٹکٹ کنفرم ہو- میڈیکل انشورنس سکیم حاصل کر چکا ہو- مملکت میں منظور شدہ کورونا ویکسین لے کر مصدقہ رپورٹ پیش کرے- عمرہ کی ادائیگی اور مسجد نبوی کی زیارت کی تاریخ اور وقت کا اصولی وقت حاصل کرے- وزارت حج و عمرہ نے توجہ دلائی ہے کہ عمرہ زائر کو پیروی کے لیے سپیشل نمبر دی جائے گا- جسے دکھا کر وہ سعودی وزارت خارجہ کے ماتحت ای ویزا سروس پلیٹ فارم سے عمرہ ویزہ کی درخواست پیش کرسکے گا 
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
پیغمبر اسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں ہے : روسی صدر پوتن
روسی صدر ولادی میر پوتن کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام کی توہین کو آزادی کا اظہار نہیں کہا جا سکتا۔ روسی خبر رساں ادارے ٹاس کے مطابق روسی صدر کا کہنا تھا کہ ’پیغمبر کی توہین مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے اور یہ ان لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے جو اسلام کے ماننے والے ہیں۔‘ روسی صدر نے ان ویب سائٹس پر بھی تنقید کی جن پر دوسری عالمی جنگ میں مرنے والے روسیوں اور نازیوں کی تصاویر پوسٹ کی جاتی ہیں۔ پوتن کا کہنا تھا کہ ایسی حرکات انتہاپسندی میں اضافہ کرتی ہیں۔ انہوں نے پیرس میں شارلی ایبدو میگزین کے ادارتی دفتر پر ہونے والے حملے کی مثال دیتے ہوئے کہا ایسی باتیں انتہا پسندانہ سوچ میں اضافہ کرتی ہیں۔  یاد رہے فرانسیسی میگزین شارلی ایبدو نے چند سال قبل ایسے خاکے شائع کیے تھے جن پر مسلمان ممالک کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ 
اپنی پریس کانفرنس میں روسی صدر نے جمالیاتی آزادی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’مجموعی طور پر تخلیقی آزادی کی حدود مقرر ہونی چاہییں اور ان میں کسی اور کی آزادیوں کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔‘ روسی صدر کا مزید کہنا تھا کہ ’روس ایک کثیر النسلی اور کثیرالمذہبی ملک کے طور پر ابھرا ہے اس لیے روسی ایک دوسرے کی روایات کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن کئی ممالک میں ایسا احترام کم ہی پایا جاتا ہے۔‘ روسی صدر پوتن کے اس بیان پر پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا اپنی ٹویٹ میں کہنا ہے کہ ’میں روسی صدر کے اس بیان کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ یہ میری اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں ہے۔‘  ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم مسلمانوں، بالخصوص مسلمان رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ غیر مسلم دنیا کے رہنماؤں تک اس پیغام کو پہنچایں تاکہ اسلاموفوبیا کا مقابلہ کیا جا سکے۔‘
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو  
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
صدر پیوٹن نے مسلمانوں کے دل جیت لئے
روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے گزشتہ دنوں اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں پیغمبر اسلام کے بارے میں دلیرانہ بیان دے کر پوری امتِ مسلمہ کے دل جیت لیے۔ روسی صدر کا کہنا تھا کہ حضور اکرمﷺ کی توہین آزادی اظہار رائے ہرگز نہیں بلکہ یہ مذہبی آزادی کی کھلی خلاف ورزی اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال فرانسیسی جریدے چارلی ایبڈو میں نبی کریمﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ایسے اقدامات انتہا پسندانہ انتقامی کارروائیوں کو جنم دیتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آزادی اظہار ِکی ایک حد ہوتی ہے اور ہمیں دوسروں کی مذہبی آزادی کی حدود کو پار نہیں کرنا چاہئے۔ فرانس اور دیگر یورپی ممالک کا نام لئے بغیر روسی صدر نے انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک بھی مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا احترام کریں۔
انہوں نے کہا کہ روس میں کئی مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں، ہمیں ایک دوسرے کی مذہبی آزادی اور روایات کا احترام کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 2018 میں یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق اپنے فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی آزادی اظہار کی جائز حدوں سے تجاوز کرتی ہے۔ پیوٹن کا حالیہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یوکرین کے معاملے میں مغرب کے ساتھ روس کے تعلقات کشیدہ ہیں اور یہ پہلا موقع ہے جب کسی بڑی عالمی طاقت کے رہنما نے یورپ بالخصوص فرانس میں حضور اکرمﷺ کی شان میں ہونے والی گستاخیوں کو کھلے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا اور پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کیخلاف آواز بلند کی۔ یوں وہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور دیگر مسلمان لیڈروں کے بعد پہلے غیر مسلم عالمی رہنمائوں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلامؐ اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز بلند کی۔ 
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ فرانسیسی میگزین چارلی ایبڈو وقتاً فوقتاً گستاخانہ خاکے شائع کرتا رہتا ہے اور گزشتہ سال مذکورہ میگزین نے پیغمبر اسلام ؐکے خاکے دوبارہ شائع کئے تھے اور ردِعمل کے طور پر پیرس میں مقیم پاکستانی نژاد نوجوان نے میگزین کے دفتر کے باہر کھڑے دو افراد کو چاقو کے وار کر کے شدید زخمی کر دیا تھا جبکہ ایک اور واقعہ میں پیرس کے مضافات میں ہائی اسکول کے ٹیچر کا نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کرنے پر ایک مسلمان نوجوان نے سر تن سے جدا کر دیا تھا جس پر فرانسیسی صدرنے ملعون ٹیچر کو ’’قومی ہیرو‘‘ قرار دیتے ہوئے قومی ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کیا تھا اور گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو آزادی اظہار رائے قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ فرانس خاکے بنانا نہیں چھوڑے گا اور اِن خاکوں کو عوامی مقامات پر لگایا جائے گا۔ فرانسیسی صدر کے اس بیان سے گستاخانہ خاکے بنانے والوں کی حوصلہ افزائی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی تھی۔ 
فرانسیسی صدر کے بیان پر ترکی کے صدر طیب اردوان نے اپنے ردعمل میں انہیں دماغی معائنے کا مشورہ دیا تھا۔ روسی صدر کے حالیہ بیان کو صرف امت مسلمہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ بیان ایسے عالمی منظر نامے میں دیا ہے جب مختلف تہذیبوں اور مذہبوں کے درمیان تصادم کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے اور ردِعمل کے طور پر پیش آنے والے واقعات کو یورپ انتہا پسندی کا نام دے رہا ہے۔ اس سے قبل مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروع کئے جانے پر صرف اسلامی ممالک کے لیڈران ہی عالمی سطح پر آواز بلند کرتے تھے مگر یہ پہلا موقع ہے جب کسی غیر مسلم ملک روس، جو سپر پاور اور سلامتی کونسل کا سرگرم رکن ہے، کے صدر نے پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بیان دیا ہے، جسے روس کی نئی سرکاری حکمت عملی کے طور پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ روسی صدر پیوٹن نے نبی کریمﷺ کے بارے میں جو موقف پیش کیا، وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا موقف ہے۔
دنیا کے دو ارب مسلمان خوش ہیں کہ آج روسی صدر کی شکل میں دنیا میں ایک مضبوط آواز مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو گئی جس پر وہ اُن کے شکر گزار ہیں اور یہ رواداری پوری دنیا کو دکھانی چاہئے۔ اسلامی ممالک اور ان کی تنظیم او آئی سی کو چاہئے کہ وہ کھل کر روسی صدر کے بیان کی حوصلہ افزائی کریں۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ حضور اکرمﷺ کی شان میں دلیرانہ بیان دینے پر پیوٹن کو پاکستان مدعو کیا جائے اور پاکستانی عوام ان کا فقید المثال استقبال کریں۔ وقت آگیا ہے کہ اس آواز میں چین کو بھی شامل کیا جائے اور او آئی سی، اقوام متحدہ پر زور دے کہ عالمی سطح پر جس طرح ہولوکاسٹ کی توہین کو جرم تصور کیا جاتا ہے، اسی طرح ایسے قوانین بنائے جن کی رو سے پیغمبر اسلامؐ یا قرآن پاک کی توہین عالمی جرم تصور کیا جائے۔
مرزا اشتیاق بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
اسلام کا نظام تجارت
زمانہ قبل از اسلام مکہ میں عقیق و عکاظ جیسے مشہور بازاروں میں تجارتی نمائشیں لگتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ بھی اس نمائش میں اپنے بیس اونٹ لائے، جن میں سے ایک اونٹ معمولی لنگڑا تھا جسے ہر کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔ آپ ﷺ نے اپنے غلام کو ہدایات فرمائیں کہ مجھے ضروری کام پڑ گیا ہے تو اگر کوئی اس اونٹ کا خریدار آئے تو اسے اونٹ کا عیب ضرور بتانا اور قیمت بھی نصف وصول کرنا۔ جب آپؐ واپس آئے تو پتا چلا کہ غلام نے اونٹ کو فروخت تو کر دیا ہے لیکن خریدار کو اونٹ کا عیب بتانا بھول گیا اور قیمت بھی پوری لے بیٹھا ہے۔ آپ ﷺ کو بہت رنج ہوا۔ آپؐ نے فوراً اسے ساتھ لیا اور خریدار کی تلاش میں نکلے۔ خریدار چوں کہ یمن کی طرف سے آئے تھے، تو ایک دن ایک رات کے مسلسل سفر کے بعد ان کا قافلہ ملا۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ان میں ایک اونٹ لنگڑا ہے تم یا تو وہ اونٹ واپس کر دو یا اپنی آدھی قیمت واپس لے لو۔ تو ان کی خوشی سے آپؐ نے وہ اونٹ لے کر قیمت واپس کر دی۔ اس امانت و دیانت کو دیکھ کر آپؐ کی نبوت پر وہ فوراً اسلام لے آئے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تاجرانہ زندگی کا یہ وہ حسین پہلو ہے جو تاجروں کے لیے قابل تقلید ہونا چاہیے۔ اکثر تاجروں کے لیے انتہائی مشکل یہ ہوتی ہے کہ ہم شرعی حکم کی وجہ سے اپنی چیز میں نقص بتا کر اپنا نقصان کیسے کریں، جب کہ خریدار کو عیب کا پتا ہی نہ ہو۔ اس کے حل کے لیے ﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایمان کے کمال اور آخرت کے محاسبے پر زور دیا اور اپنے عمل سے مال کی اہمیت کو گھٹایا۔ ایک یہودی جس سے آپؐ نے کچھ قرض لیا تھا وہ آکر سختی سے اپنے مال کا مطالبہ کرنے لگا۔ صحابہ رضی ﷲ عنہم نے اسے روکنا چاہا، آپؐ نے منع فرما دیا کہ صاحب حق کو کہنے کا حق حاصل ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے اونٹ خرید کر دے دو۔ صحابہؓ واپس آکر کہنے لگے: یارسول ﷲ ﷺ! اس کے اونٹ جیسا اونٹ تو نہیں مل رہا اس سے اچھا مل رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہی اسے خرید کر دے دو اور فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہی ہے جو ادائی میں اچھا ہو۔‘‘
کوئی ملک قانون شکن اور بااثر سرمایہ داروں پر ہاتھ ڈالے بغیر چھوٹے تاجروں اور عوام کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتا۔ اس کے بارے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ واقعہ مطالعہ فرمائیے۔ قبیلہ ارش کے ایک شخص نے ابوجہل کے ہاتھ ایک اونٹ بیچا لیکن ابوجہل قیمت دینے میں ٹال مٹول کرنے لگا۔ اس مظلوم شخص نے مکے کے سب شرفاء سے اس بابت بار بار دہائی دی۔ مگر کوئی ابوجہل سے اس کا حق دلانے کی جرأت نہ کر سکا۔ ان دنوں ابوجہل اسلام دشمنی میں اپنے عروج پر بھی تھا۔ کسی نے اس نے کہا محمد صلی ﷲ علیہ وسلم سے جا کر کہو، وہ تجھے رقم دلا دیں گے۔ وہ آپ ﷺ کے پاس چلا آیا۔ آپ ﷺ اسے لے کر ابوجہل کے پاس پہنچے۔ ابوجہل نے آپ ﷺ کو دیکھا تو اس کا چہرہ سفید اور رنگ فق ہو گیا۔ آپؐ نے اسے فرمایا: اس کا حق ادا کرو۔ ابوجہل نے فورا رقم دے دی۔ بعد میں ابوجہل سے لوگوں نے اس کی گھبراہٹ کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ محمد (ﷺ) کی آواز سن کر مجھ پر ناقابل بیان رعب طاری ہو گیا تھا۔
اس واقعے سے معلوم ہوا کہ مظلوم کو اس کا حق دلانے میں بااثر سرمایہ کاروں سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس طرح کی حق تلفی اپنے عروج پر ہے۔ وطن عزیز میں اس خوف ناک صورت حال کا حل سیرت نبویؐ میں تلاش کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ بازاروں کا چکر لگاتے، ناپ تول کے پیمانوں کی تحقیق کرتے اور تاجروں کے معاملات کو بہ غور دیکھتے اور پرکھتے تھے۔ ایک تاجر کے گندم کے ڈھیر کے پاس سے گ��رے، اس میں ہاتھ ڈالا تو اندر سے وہ گیلی نکلی۔ آپ ﷺ پوچھا یہ کیا ہے۔۔۔۔ ؟ اس نے کہا بارش کی وجہ سے ایسا ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: گیلی گندم اوپر رکھو تاکہ خریدار کو پتا چلے۔ پھر فرمایا: یاد رکھو! جس نے دھوکا اور فریب سے کام لیا تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ دو لوگوں کو وزن کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’تولو اور جھکتا ہو تولو۔‘‘
تو یہ ہے چیکنگ اور فوری احکامات دینے کا مؤثر، منظم اور مربوط نظام جس کی بہ دولت ایک ملک ترقی کی راہ پر گام زن ہو سکتا ہے۔ غور کیجیے اگر نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم خود بازاروں میں نکل کر چیکنگ کو عار سمجھتے اور گھر بیٹھے صرف رپورٹ لے لیتے تو معاشرہ، ملک اور ادارے کبھی نہ سدھرتے۔ آج غیر مسلم اقوام تجارت و معیشت میں اسلام کے زرّیں اصولوں کو اپنا کر دنیا پر راج کر رہی ہیں، جب کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی ان اصولوں کو فراموش کرنے کی وجہ سے ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔ تاجروں کو چاہیے کہ وہ اسوۂ رسول کریمؐ پر عمل کرتے ہوئے تجارت کریں۔ ملاوٹ، دھوکا دہی، دجل و فریب، وعدہ خلافی، ناپ تول میں کمی اور جعلی اشیاء کی خرید و فروخت سے مکمل اجتناب برتیں۔
مفتی عزیز الرحمان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
تقسیم اموال : قرآنِ حکیم کی روشنی میں
اِسلام ایک کامل دِین ہے، جو زِندگی کے ہر موڑ پر انسان کی صحیح راہ نمائی کرتا ہے۔ مال و دولت اِنسان کی اہم ضرورت ہے، اسے کیسے حاصل کیا جائے؟ کون سے ذرائع اور وسائل اِختیار اور کن ذرائع سے اِجتناب کیا جائے اور مال و دولت کے حصول کے بعد اسے کیسے تقسیم اور خرچ کیا جائے۔۔۔؟ ان سب اُمور میں اِسلام ہمارِی صحیح راہ نمائی کرتا ہے۔ اگر دولت کے حصول، اُس کی تقسیم اور خرچ کرنے میں اِسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو مسلمان معاشرے میں عدل و اِنصاف، اِخلاص و محبت، ہمدردی و خیر خواہی اور اَمن و سکون کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ مال و دولت کا اِنسانی زِندگی میں کیا مقام ہے۔ قرآنِ کریم نے اموال کے بارے میں ’’قیاماً‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا ہے، اور ’’قیام‘‘ اور ’’قوام‘‘ ایسی چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی دُوسری چیز کا وجود قائم ہو، گویا اِنسانی زِندگی کے قائم رہنے کے لیے مال و دولت ایک اَہم ذریعہ ہے۔ اس لیے اس کی حفاظت بھی لازمی ہے، اسے ایسے ہاتھوں میں نہ دِیا جائے جو اَپنی ناسمجھی اور بے وقوفی کی بنا پر اسے صحیح خرچ کرنا نہیں جانتے۔ مال و دولت ﷲ کی نعمت ہے، اِس لیے اسے بے جا خرچ کرنے سے روکا گیا ہے۔
ارشادِ باری کا مفہوم: ’’اسے بے جا اور بے موقع اُڑَایا نہ کرو، بے شک مال کو بے موقع اُڑَانے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان اَپنے رَب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل) اس کے ساتھ ساتھ اِسلام اِس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ مال و دولت حاصل کرنے کے لیے وہی ذرائع اور اَسباب اِختیار کیے جائیں جو جائز اور مشروع ہوں اور ان جائز اور مشروع ذرائع سے حاصل شدہ روزِی اور مال و دولت کو اِسلام طیّب اور پاکیزہ روزِی سے تعبیر کرتا اور ناجائز اور غیر مشروع ذرائع سے مال و دولت کمانے کو منع کرتا ہے، اور ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ مال کو حرام اور خبیث مال سے تعبیر کرتا ہے۔ نیز قرآنِ کریم جا بہ جا جائز اور مشروع ذرائع کی طرف اِشارہ کرتا ہے اور غیر مشروع ذرائع کی بھی نشان دہی کرتا ہے۔ مشروع ذرائع جیسے تجارت، صنعت و حرفت، ملازمت و مزدوری، میراث و ہدیہ وغیرہ اور ناجائز ذرائع جیسے سود، چورِی، ڈَاکا، غصب، دھوکا، جھوٹ، گناہ، معصیت وغیرہ ان ناجائز ذرائع کو قرآنِ کریم نے باطل سے تعبیر کیا ہے۔
اِرشادِ باری کا مفہوم ہے: ’’اور آپس میں ناجائز طور پر ایک دوسرے کا مال مت کھاؤ۔‘‘ (البقرہ) جائز اور مشروع ذرائع سے مال و دولت حاصل کرنے کے بعد اسے خرچ کرنے اور تقسیم کرنے میں بھی اِسلام ہمارِی راہ نمائی کرتا ہے، کیوں کہ ایسا مال و دولت ﷲ کی دِی ہوئی نعمت ہے، اسی لیے اسے اس کی ہدایت کے مطابق خرچ کیا جائے اور خرچ کرنے میں اِعتدال کی راہ اِختیار کی جائے۔ اِرشادِ خداوندی کا مفہوم ہے: ’’اور بخل کی وجہ سے نہ تو اَپنا ہاتھ اَپنی گردن کے ساتھ باندھ کر رَکھ اور نہ اس ہاتھ کو بالکل کھول دے ورنہ تو اِلزام خوردہ اور تہی دست ہو کر بیٹھ رہے گا۔‘‘ (بنی اسرائیل) یعنی سب اِلزام دیں گے کہ کنجوس ہے یا یہ کہ اِتنا کیوں دِیا کہ آپ محتاج ہوکر رہ گیا۔ غرض یہ کہ ہر معاملے میں اِعتدال کی راہ اِختیار کی جائے اور اَپنی استطاعت اور آمدنی کے مطابق خرچ کیا جائے۔ نبی کریم ﷺ کا اِرشاد ہے، مفہوم: ’’جس نے میانہ روی اِختیار کی وہ محتاج نہیں ہوا۔‘‘
قرآنِ کریم نے مال و دولت میں کمانے والوں کے علاوہ دُوسروں کے بھی حقوق رکھے ہیں اور ان کے حقوق اَدا کرنے کا حکم دِیا ہے۔ اِرشادِ بارِی کا مفہوم ہے: ’’اور دو قرابت والے کو اس کا حق اور محتاج کو اور مسافر کو۔‘‘ (بنی اسرائیل) قرابت والوں میں ماں باپ، بہن بھائی، بیوی اور اولاد وغیرہ درجہ بہ درجہ سب شامل ہیں۔ سورہ انعام میں باغات اور کھیتوں سے حاصل ہونے والے پھل اور غلہ جات میں بھی حق اَدا کرنے کا حکم دِیا گیا ہے۔ اِرشادِ بارِی کا مفہوم ہے: ’’ان سب چیزوں کے پھل کھاؤ جب یہ پھل لائیں اور ان میں سے کٹائی کے دِن مقررہ حق اَدا کر دِیا کرو اور حد سے نہ بڑھو، یقین جانو کہ وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الانعام) قرآنِ کریم میں متعدد آیات میں مال کو خرچ کرنے کا حکم دِیا گیا ہے، یہ خرچ کرنا کبھی فرض اور واجب کے درجے میں ہوتا ہے، جیسے زکوٰۃ اَدا کرنا، غلہ وغیرہ سے عشر اَدا کرنا، بیوی، بچوں، والدین اور غریب رِشتے داروں پر خرچ کرنا، قربانی، فطرہ، کفارہ وغیرہ اُمور میں صرف کرنا اور کبھی بہ طورِ نفل اور تبرع کے خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اِرشادِ خداوندی کا مفہوم ہے: ’’تم لوگ ﷲ اور اُس کے رسول (ﷺ) پر اِیمان لاؤ اور اس مال میں سے خیرات کرو جس مال میں ﷲ نے دُوسروں کا تم کو قائم مقام کیا ہے، سو جو لوگ تم میں سے اِیمان لے آئیں اور خیرات کریں اُن کو بہت بڑا اَجر ملے گا۔‘‘ (الحدید) اس کے علاوہ اِسلام نے تقسیم میراث کا ایک عادلانہ نظام قائم کر دِیا ہے کہ اَگر اس پر صحیح عمل کیا جائے اور ہر صاحب حق کو اُس کا حق دِیا جائے تو مال و دولت ایک جگہ جمع رہنے کے بہ جائے گردش میں رہتی ہے اور اس سے زیادہ سے زیادہ اَفراد فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں عورتیں چاہے بڑی ہوں یا چھوٹی میراث سے محروم رہتی تھیں۔ اِسی طرح مردوں میں نابالغ بچے، جو جنگ کے قابل نہ ہوتے وہ بھی میراث سے محروم رہتے تھے، میراث کا حق صرف اُسی شخص کو تھا جو جنگ کر سکے۔ اِسلام نے اِس جاہلیت کی رسم کو ختم کر کے مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے ہر ایک کے لیے درجہ بہ درجہ میراث میں حصہ مقرر فرما دیا اور اس قانون کا اِعلان ان الفاظ میں فرمایا:
’’ماں، باپ اور قرابت دار جو ترکہ چھوڑ جائیں اُس میں سے مَردوں کا بھی حصہ ہے اور ماں، باپ اور قرابت دار جو کچھ ترکہ چھوڑ جائیں خواہ وہ کم ہو یا زیادہ اُس میں سے عورتوں کا بھی حصہ ہے، ہر ایک کا یہ حصہ مقرر شدہ ہے۔‘‘ (النساء) بہر حال مال و دولت کو مشروع ذرائع اور وسائل سے حاصل کیا جائے اور پھر اس میں سے حقوق ﷲ اور حقوق العباد اَدا کیے جائیں تو معاشرے میں محبت، اَمن، سلامتی اور تعاون کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
مولانا ڈاکٹر عبدالرزّاق اسکندر 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
بدل جاتی ہے قسمت دعا سے
’’ﷲ تعالیٰ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو یقیناً ﷲ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘ (النساء) ہماری زندگی میں دعاؤں کی اہمیت سے کون واقف نہیں۔ ہم اپنے لیے دعائیں کرتے بھی ہیں اور دوسروں سے کرواتے بھی ہیں اس یقین کے ساتھ کہ ہماری دعا گر فوری قبول نہ بھی ہو تو شاید کسی اور کی خلوصِ دل سے ہمارے حق میں کی گئی دعا قبول ہو جائے۔ دعا لینا اور دعا دینا ایک مومن کا دوسرے مومن پر حق ہے مگر جس طرح دعا کرنے کے آداب ہیں اسی طرح دعاؤں کو سمیٹنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ دعاؤں کو سمیٹنے کے آداب سے ناواقف ہوتے ہیں۔ دعا دینے والے کا اپنا ظرف ہوتا ہے مگر دعا لینے والے کو بھی اپنا دامن وسیع رکھنا چاہیے اور دعاؤں کو خُوب صورتی سے اپنے دامن میں سمیٹنے کا ہنر آنا چاہیے۔ آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں جہاں ہر دوسرا شخص حسد اور جلن جیسی بیماری میں مبتلا ہے وہیں دوسروں کی ہمارے حق میں کی گئی پُرخلوص دعائیں نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔ معاملاتِ زندگی میں برکت کے اٹھ جانے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ شاید یہ بھی ہے۔
نفسا نفسی کے اس دور میں جو دعائیں ہمیں بے ساختہ دی جا رہی ہیں انہیں اتنی ہی عاجزی و انکساری کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ دعا تو دعا ہوتی ہے۔ دعاؤں کی برکت سے ہی بگڑے کام بن جاتے ہیں اور ناممکن کام ممکن ہو جاتا ہے۔ مفہوم: ’’جو بَلا اتر چکی اور جو نہیں اتری، دعا ان سے نفع دیتی ہے۔‘‘ (ترمذی) جب دعائیں ملتی ہیں تو دعاؤں کو سمیٹنا سیکھیں۔ کچھ معلوم نہیں ہوتا کون سی جگہ اور کون سی گھڑی قبولیت کی ہے۔ آپ کو دی گئی دعا کے ردعمل میں آپ کے منہ سے نکلے ہوئے بے ساختہ منفی الفاظ ناشکری کے زمرے میں آتے ہیں۔ قدرت یقیناً آپ کے لیے بہترین سوچتی ہے مگر جب یہی منفی الفاظ گرفت میں آ جاتے ہیں تو دعا پلٹ جاتی ہے۔ بس پھر وقت گزرنے کے بعد شرمندگی اور ندامت ہی حصے میں آتے ہیں اور فقط پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔ لوگ جانے انجانے میں محض لمحاتی زبانی لغزش کے نتیجے میں برسوں اس کی گرفت میں رہتے ہیں۔ بے شک دلوں کا حال ﷲ بہتر جانتا ہے مگر زبان گرفت میں لے آتی ہے اور میرے رب کی پکڑ بہت شدید ہے۔ افسوس! اکثر توبہ کرنے کی سمجھ اور عقل بھی اس وقت آتی ہے جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔
دراصل اس تحریر کا محرک ایک آنکھوں دیکھا واقعہ ہے جب ایک جاننے والے گھرانے کے چار بچوں میں سے تین بچوں کی شادیاں آگے پیچھے ہوئیں۔ بس ایک بیٹی باقی رہ گئی تھی جو اس وقت ایک جامعہ میں زیرِ تعلیم تھی۔ بچوں کے نکاح کے فوری بعد اسٹیج پر بچوں کی والدہ کو مبارک باد دیتے ہوئے کسی عزیزہ نے کہا کہ ﷲ آپ کو جلد ہی اس بچی کے فرض سے بھی سبک دوش کرا دے تو ماں نے (جو خوشی خوشی مہمانوں سے اپنے بچوں کے نکاح کی مبارک باد وصول کر رہی تھیں) اٹھلاتے ہوئے کہا: ارے نہیں بھئی! ابھی اتنا جلدی تو نہیں، اب تو میں اپنی بیٹی کی شادی آرام سے ہی کروں گی۔ ابھی تو بہت وقت پڑا ہے۔ وہ عزیزہ اپنی پُرخلوص دعا کا یہ ردعمل دیکھ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں اور ان کے اطراف میں موجود دیگر خواتین نے بھی اپنی دعائیں روک کر محض مبارک باد دینے پر ہی اکتفا کیا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک بہ ظاہر یہ معمولی سی بات ہو گی مگر ایسا نہیں ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ بیٹی کے اچھے مستقبل کے لیے دی جانے والی وہ خُوب صورت دعا سمیٹ لی جاتی، سنبھال لی جاتی اور خُوش ہو کر دل سے آمین کہا جاتا، مگر اس کے برعکس اس قبولیت کی گھڑی کو گنوا دیا گیا۔ 
آج اتنے برس ہو گئے وہ بچی تعلیم مکمل ہونے کے باوجود بھی آج تک اپنے ماں باپ کے گھر بن بیاہی بیٹھی ہے۔ رشتے آتے رہے مگر ماں کی اس سلسلے میں سکون و اطمینان والی بات پوری ہو گئی۔ وقت نکل گیا، آج بھی اس لمحے کی خلش ماں کو شدت سے محسوس ہوتی ہے اور وہ ہر ایک سے دعا کرواتی ہیں اس امید کے ساتھ کہ ناجانے کس کی دعا ان کی بچی کے حق میں قبول ہو جائے۔ غور کیجیے! ہمیں نہیں معلوم کب کس وقت کون سی بات کو سند قبولیت مل جائے لہذا ایسے موقع پر زبان کو قابو رکھنا اور دعاؤں کو اپنے دامن میں سمیٹنا سیکھیں تاکہ وہ آپ کے حق میں محفوظ ہو جائیں۔ بعض اوقات ہمیں دعاؤں کی سمجھ نہیں آتی۔ ہم انہیں اپنے انداز سے اور اپنے فائدے کے ترازو میں رکھ کر تول رہے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارا ذہن انہیں اسی طرح من و عن تسلیم نہیں کر پاتا۔ لوگ اک عمر گزار لیتے ہیں، تجربہ کار ہوجاتے ہیں مگر کچھ بنیادی باتوں کو سیکھنے سے محروم رہتے ہیں۔ ہمارے اطراف ایسے ہی ناجانے کتنے لوگ روزمرہ کے مشاہدے میں نظر آتے ہیں جو اپنی زبان کے باعث ناصرف خود خسارے میں ہوتے ہیں بل کہ اپنے سے وابستہ لوگوں کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
رب کریم کے جلال کو نہ للکاریں اور منکسر المزاج رہیں۔ بحث مباحثوں اور خاندانی جھگڑوں میں لوگ عموماً تمام حدود پار کر جاتے ہیں۔ خاندانی معاملات میں خود کو حاوی رکھنے کے چکر میں شر انگیز باتیں کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ انسان کی جُھوٹی اکڑ اور شان اس کو کہیں کا نہیں چھوڑتی، رسوا کر دیتی ہے۔ راقم الحروف کے مشاہدے میں ایک واقعہ ایسا بھی آیا جب دو بھائیوں کے مابین خاندانی جھگڑے میں ایک ہم درد رشتے دار نے صلح صفائی کرانے کی نیّت سے، جمعے کی نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلتے چھوٹے بھائی کو روکا اور حال احوال دریافت کرتے ہوئے دعا دی کہ ﷲ آپ بھائیوں کو ہمیشہ ملا کر رکھے، آپ لوگوں کا باہمی اتفاق قائم رہے اور ساتھ ہی سمجھایا کہ آپ چھوٹے ہیں، آپ اپنا دل بڑا کر لیجیے، بڑا بھائی نہیں مل رہا اور نہیں جھک رہا تو آپ اپنے بڑے بھائی سے جُھک کر مل لیں۔ زندگی کا کیا بھروسا آج ہے کل نہیں آپس میں کم از کم دل تو صاف کر لیں۔
خونیں رشتے ہیں ان رشتوں کا احترام رکھیں۔ مگر چھوٹے بھائی کا تکبّر دیکھنے لائق تھا۔ بڑے تکبّر سے جواب آیا کہ آپ یہ دعا ہمارے بڑے بھائی کو دیجیے اور ان کو ہی سمجھائیے۔ میں مرتا مرجاؤں گا مگر کم از کم اپنے بڑے بھائی کے آگے نہیں جُھکوں گا۔ میں کیوں معافی مانگوں وہ خود آئیں اور مجھ سے معافی مانگیں، اگر واقعی بڑے ہیں تو۔ یہ سب سن کر وہ صاحب مزید کیا کہتے چھوٹے بھائی کو ہدایت کی دعا دے کر اپنی راہ ہو لیے۔ دیکھیں لفظوں کے غیر محتاط استعمال سے کس طرح مظلوم بھی اکثر ظالم بن جاتے ہیں۔ بازی پلٹ جاتی ہے کیوں کہ ﷲ کو تکبّر قطعی پسند نہیں۔ جمعہ کا دن، دعاؤں کی قبولیت کا وقت اور جب مسجد کے باہر کھڑے ہو کر بھی انسان فرعون بننے کی کوشش کرے تو بس ﷲ کے قہر کو ہی للکارتا ہے۔ زبان کی پکڑ کتنی شدید ہوتی ہے یہ سب صرف سمجھنے والوں کے لیے ہے ورنہ کچھ نہیں۔
ایک مہینے سے بھی کم وقت کے اندر چھوٹے بھائی کے منہ کے اندر ایک چھوٹا سا دانہ نکلا، جسے کچھ دن انہوں نے نظر انداز کیا اور حکیمی علاج کی طرف متوجہ رہے۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دانہ ناسور کی شکل اختیار کر گیا۔ تکلیف جب حد سے سوا ہوئی تو ڈاکٹر سے رجوع کیا اور ٹیسٹ کرانے پر منہ کے کینسر میں مبتلا ہونے کا لرزہ خیز انکشاف ہوا۔ کچھ ہی ہفتوں میں وہ منہ کے کینسر کے تیسرے اسٹیج پر جا پہنچے تھے۔ اس اسٹیج پر مرض کی اس نوعیت کے ساتھ طبیب بالکل بھی پُرامید نہیں تھے۔ اب حال یہ تھا کہ چھوٹے بھائی کو اپنی اس زبانی لغزش پر ﷲ کی گرفت سمجھ آ رہی تھی۔ اپنے کہے گئے جملے یاد آ رہے تھے۔ بیماری نے ساری جھوٹی اکڑ اور مزاج کی فرعونیت نکال دی تھی۔ منہ اتنا سُوج چکا تھا کہ چہرہ پہچاننا مشکل ہو رہا تھا۔ منہ سے ایک لفظ ادا کرنے سے بھی قاصر تھے۔ ضمیر ملامت کرنا شروع ہوا ہاتھ جوڑ کر اشاروں سے بڑے بھائی سے رو رو کر معافی مانگی۔
اب وہی بڑے بھائی جو معمولی اختلاف پر ان کو اپنے جانیں دشمن لگ رہے تھے ان کے بہترین علاج معالجے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ آئی سی یو کے باہر چھوٹے بھائی کی زندگی کے لیے رب کے حضور گڑگڑا رہے تھے۔ اور چھوٹے بھائی شرمندگی سے بڑے بھائی سے نظریں نہیں ملا پا رہے تھے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا اور بہت جلد کروٹ لے لیتا ہے۔ اگلے لمحے کا نہیں معلوم۔ زبان کو قابو رکھنا سیکھیں اور تکبّر اور بدکلامی سے ہمیشہ بچیں۔ اکڑ کس لیے؟ لہجے کی رعونت کس لیے؟ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کا خمیر خاک ہے اور ایک دن ہم سب کو خاک ہو جانا ہے۔ تو اس فنا ہو جانے والے وجود کے ساتھ تکبر کیسا ۔۔۔ ؟ زبان قابو میں رہے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے بے قابو ہو جائے تو اس کی پکڑ شدید ہے۔ ہمیں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کون سی گھڑی قبولیت کی ہے۔ اور ہمارا کون سا عمل اور گھمنڈ رب کی پکڑ میں آجائے۔ لہٰذا اپنے لیے بھی اچھا سوچیں اور اپنے مومن بھائی کے لیے بھی۔ ﷲ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔ دعا کی نعمت سے نوازے، ہمیں دعا کرنے کی اور دعا سمیٹنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین
لبنیٰ مقبول  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
قلب کا صاف ہونا
ایک روایتِ حدیث کا مفہوم ہے کہ سرکارِ دو عالمﷺ نے فرمایا کہ انسانی جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ ٹھیک ہے تو سارا جسم ٹھیک ہے۔ اس روایت کے آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ جسم کا وہ عضو دل ہے۔ اسی کو قلب بھی کہتے ہیں۔ ﷲ کے آخری نبیﷺ کے ایک نوجوان صحابی سے منقول ہے کہ ایک دن آپﷺ مسجدِ نبوی میں کچھ صحابہ کے ساتھ صحنِ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ یہ ایک بہت ہی خوبصورت محفل تھی ایسے میں آپ کے پیغام پر ایمان لانے والے ایک صحابی مسجد میں داخل ہوئے۔ آپ کی نظرِ مبارک اس پر پڑی اور اپنے پیارے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ فرد جو مسجد میں داخل ہوا ہے یہ جنتی ہے۔ صحابہ کو اُس پر بہت رشک آیا اور ساتھ ہی خوشی بھی ہوئی کہ اسے جنت کی بشارت مل گئی ہے۔ 
دوسرے دن پھر آپ مسجد میں صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے اور صحابہ کو ایمان و یقین کی باتیں بتا رہے تھے کہ وہی فرد پھر نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں داخل ہوا۔ آپ نے اُسے مسجد میں داخل ہوتے دیکھا تو تبسم فرمایا اور صحابہ کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ جنتی ہے۔ تیسرے دن وہی ماجرا پھر پیش آیا۔ آپ اپنے پیارے صحابہ کے ساتھ صحنِ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ پھر وہ صحابی نماز کی نیت سے مسجد میں داخل ہوا۔ آپﷺ کی نظر اس پر پڑی تو آپ نے ایک بار پھر صحابہ کو مخاطب فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ جنتی ہے۔ روایت کرنے والے نوجوان صحابی بیان کرتے ہیں کہ مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ اُس پر بہت رشک بھی آیا کہ کتنا خوش نصیب ہے یہ شخص جس کو بار بار جنت کی بشارت دی جا رہی ہے اور اُس پاک ہستی کی پاک زبان سے دی جا رہی ہے جس سے بڑا کوئی اور سچا نہیں۔یعنی آپ کے لبوں سے نکلی ہوئی جس طرح کسی بھی بات میں شک نہیں اسی طرح آپ کی دی ہوئی بشارت بھی عین حق ہے۔
نوجوان راوی مزید بیان کرتے ہیں کہ جب اس انتہائی خوش قسمت صحابی نے نماز ختم کر کے گھر کی راہ لی تو میں بھی چپکے سے چند قدم کا فاصلہ رکھتے ہوئے ان کے پیچھے ہو لیا۔ میں یہ جاننے کی کوشش میں تھا کہ وہ کون سا عمل ہے جس کی وجہ سے سرکارِ دو عالمﷺ نے اس صحابی کے لیے جنت کی بشارت دی ہے۔ تین دن ان کے ساتھ چپکے رہنے کے باوجود میں ان کے اندر کوئی خاص بات، کوئی خاص عمل نہ دیکھ سکا۔ تین دن کے بعد میں نے ان سے کہا کہ سرکارِ دوجہاںﷺ کے آپ کے لیے جنت کی بشارت دینے پر مجھے تجسس ہوا کہ میں آپ کا وہ خاص عمل جان سکوں جس کی وجہ سے یہ فضیلت آپ کو حاصل ہوئی ہے۔ میں نے دیکھا کہ عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد آپ آرام سے سو جاتے ہیں۔ آپ رات کو نفلی عبادت کے لیے بھی نہیں اُٹھتے۔ گھر والوں کے ساتھ بھی آپ کا برتاؤ معمول کا ہے بہت اچھا ہے لیکن کوئی غیر معمولی بات نظر نہیں آئی۔ 
انھوں نے کہا کہ تم ٹھیک کہ رہے ہو میں بالکل سادہ اور عام سی زندگی گزارتا ہوں۔میں فرائض کو بہت خوبصورتی سے ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور گناہوں سے دوری کی تگ و دو کرتا ہوں، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو ٹھیک ہے لیکن کوئی نہ کوئی خصوصی عمل ضرور ہو گا۔ میرے اصرار پر وہ کہنے لگے کہ میرا دل ہر ایک کے لیے صاف ہے اور ہر ایک کی خیر خواہی سے بھرا ہوا ہے۔ نوجوان صحابی فرماتے ہیں کہ میں ان کی بات سن کر، ان کا شکریہ ادا کر کے چل پڑا کیونکہ بات پلے پڑ گئی تھی۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضور ختم المرسلینﷺ نے سیدنا معاذ ؓ بن جبل کو فرم��یا کہ ’’معاذؓ کیا میں تمھیں ایک بہترین نسخہ نہ دوں‘‘۔ سیدنا معاذ نے دست بستہ عرض کی کہ یا رسول اﷲﷺ عنایت فرمائیں۔ سرکارِ دو جہاں نے فرمایا کہ ’’معاذ یہ ایسا نسخہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر بغیر سوال و جواب جنت میں داخل ہو جاؤ گے‘‘۔
سیدنا معاذ نے سوچا کہ اس دنیا میں اگر سوال ہو جائے تو بن نہیں آتی۔ ﷲ کے سوالات پر بندے کا کیا حال ہو گا اور اگر وہاں سوال وجواب کے مرحلے سے گزرے بغیر کام بن جائے تو اس سے بڑی اور کیا نعمت اور خوش قسمتی ہو گی۔ سیدنا معاذ بن جبل رسول ﷲ کے بہت ہی پیارے صحابی تھے۔ آپؐ نے یمن فتح ہونے پر انھیں وہاں ذمے داری سونپی تھی۔ سیدنا معاذؓ نے پھر عرض کی کہ ’’سرکار عطا ہو‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’معاذ ؓ اس پر عمل کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ میرے ساتھ وعدہ کرو کہ اس پر عمل کرو گے‘‘۔ سیدنا معاذ نے ایک بار پھر دست بستہ عرض کی کہ ’’حضور عطا فرمائیے۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا میں وعدہ کرتا ہوں میں عمل کروں گا‘‘۔سرکارِ دو عالم نے سیدنا معاذ ؓ بن جبل سے تین مرتبہ وعدہ لے کر فرمایا کہ ’’معاذ اگر تم ہر ایک کو معاف کرتے ہوئے اپنے دل کو ہر ایک کے لیے پاک اور صاف کر لو تو بغیر سوال و جواب جنت میں داخل کر دیے جاؤ گے‘‘۔
قارئینِ کرام، ہم میں سے ہر کوئی اچھے اور برے حالات سے دوچار ہوتا ہے۔ اچھوں سے بھی پالا پڑتا ہے اور جو اچھے نہیں ہوتے ان سے بھی ۔ ہماری زندگی میں وہ لمحات جن میں ہماری مرضی کے مطابق حالات و واقعات پیش آئیں بہت قلیل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر ناخوشگواریوں سے سامنا رہتا ہے۔ ایسے بہت تھوڑے افراد ہوتے ہیں جن کے لیے دل صاف ہوتا ہے ورنہ ہر ایک کے لیے دل میں کوئی نہ کوئی شکوہ بسا ہوتا ہے۔ کبھی ہم ان شکووں کا اظہار کر پاتے ہیں ورنہ عام طور پر دل ہی میں رکھے رہتے ہیں۔ ہر ایک کے لیے دل کو ہمیشہ صاف رکھنا بہت ہی مشکل عمل ہے۔خوش قسمت ہیں ایسے افراد جو اپنے دل کو دوسروں کے لیے صاف رکھتے ہیں، یہی فلاح پانے والے ہیں۔
عبد الحمید  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
islamiclife · 2 years
Text
رحمت للعالمین ﷺ کا سفر طائف
رسولِ رحمت ﷺ نے جب آغازِ نبوت میں لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلایا اور انہیں امن و سلامتی کا راستہ دکھلایا تو کوئی اُن کی بات سننے کو تیار نہ تھا۔ اللہ کے رسول کو مسلسل 23 برس تک مشکلات و مصائب کے دریائوں کو عبور کرنا پڑا اور پے در پے جنگیں لڑنا پڑیں۔ آپ کی حیاتِ طیبہ ایک جانکاہ جہد مسلسل کی بے مثال حقیقی داستان ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک روز رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ آپ پر کوئی دن ایسا بھی آیا ہے جو اُحد کے دن سے زیادہ سنگین رہا ہو؟ آپؐ نے فرمایا ''ہاں! تمہاری قوم سے مجھے جن جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے سنگین مصیبت وہ تھی جس سے میں گھاٹی کے دن دوچار ہوا...‘‘۔ مکۃ المکرمہ سے طائف صرف 100 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ آپﷺ نے یہ سفر پیدل طے فرمایا۔ آپ کے ساتھ آپ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ تھے۔ راستے میں جس قبیلے سے گزر ہوتا انہیں رسولِ خدا اسلام کی دعوت دیتے تھے مگر کوئی مسلمان نہ ہوا۔ 
جب آپ طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے ہاں تشریف لے گئے جو آپس میں بھائی تھے۔ ان کے نام تھے عَبْدِیالیل‘ مسعود اور حبیب۔ آپ اُن کے پاس بیٹھے اور انہیں اللہ کی وحدانیت‘ اس کی اطاعت اور اسلام کی مدد کی دعوت دی۔ تینوں نے دل میں چھید کر دینے اور روح کو تڑپا دینے والے جواب دیے۔ ایک نے کہا کہ وہ کعبے کا پردہ پھاڑے اگر اللہ نے تمہیں رسول بنایا ہو۔ دوسرے نے کہا کہ اللہ کو تمہارے علاوہ کوئی اور نہ ملا۔ تیسرے نے کہا میں تم سے ہرگز بات نہ کروں گا، اگر تم واقعی اللہ کے پیغمبر ہو تو تمہاری بات رد کرنا میرے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اگر تم نے اللہ پر جھوٹ گھڑا ہے تو پھر مجھے تم سے بات کرنی ہی نہیں چاہئے۔ یہ سن کر آپ وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ جنابِ مصطفی ﷺ نے طائف میں دس روز قیام فرمایا۔ اس دوران آپﷺ نے ایک ایک کو کلامِ خدا سنایا اور اللہ کی اطاعت کی دعوت دی لیکن ان سنگ دل انسانوں کا ایک ہی جواب تھا کہ تم ہمارے شہر سے نکل جائو۔ 
انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اپنے اوباشوں کو شہ دے دی؛ چنانچہ آپ نے واپسی کا قصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں بکتے‘ تالیاں پیٹتے اور شور مچاتے آپ کے پیچھے لگ گئے۔ انہوں نے گالیوں اور بدزبانیوں کے ساتھ ساتھ سنگ باری بھی کی جس سے آپ کی ایڑی پر اتنے زخم آئے کہ دونوں جوتے خون میں تربتر ہو گئے۔ لاعلم اوباشوں نے پتھر پھینکنے کا یہ سلسلہ جاری رکھا حتیٰ کہ آپ مکۃ المکرمہ سے تعلق رکھنے والے عتبہ اور شیبہ کے باغ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ذرا چشم تصور سے سوچیے کہ یہ سلوک دنیا وی شان و شوکت والے خانوادئہ بنو ہاشم کے اس چشم و چراغ سے ہو رہا تھا کہ جس کے مرحوم دادا عبدالمطلب عربوں کے سردار تھے۔ اگر رسولِ خدا ﷺ بددعا کر دیتے تو خالق ِارض و سما طائف کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اہلِ طائف کو آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنا دیتا۔
انگوروں کے اس باغ میں ایک عیسائی غلام عدّاس نے جنابِ مصطفیﷺ کو انگور کا ایک گچھا پیش کیا۔ آپ بسم اللہ پڑھ کر انگور کھانے لگے۔ جب آپ قرنِ منازل پہنچے تو اللہ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ ان کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ بھی تھا۔ ملک الجبال نے آنجناب ﷺ کو آواز دی اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں انہیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں۔ آپﷺ نے فرمایا ''نہیں ایسا مت کرنا۔ مجھے امید ہے کہ اللہ عزّوجل اُن کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھیرائے گی‘‘۔ خالقِ دو جہاں نے اس دعا کو شرفِ قبولیت بخشا۔ اللہ نے اس فقیر کو طائف میں دو دہائیوں سے اوپر مقیم ہونے کی سعادت بخشی۔ طائف سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار فٹ بلند ہے۔ گرمیوں میں یہاں گرمی نہیں ہوتی‘ موسم بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ سردیوں میں شدید سردی نہیں ہوتی اور نہ ہی معمولاتِ زندگی منجمد کرنے والی برفباری ہوتی ہے۔ گویا سارا سال موسم معتدل رہتا ہے۔ 
طائف کے خوش ذائقہ انگوروں اور بغیر بیج کے میٹھے اناروں کا ساری دنیا میں کوئی متبادل نہیں۔ آج کا جدید خوبصورت طائف رحمۃ للعالمینﷺ کی دعا کا ثمر ہے۔ انکار کرنے والے ثقفی سرداروں کی اولاد آج اپنے نبی سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتی ہے۔ آج جبکہ ہم عشرئہ رحمۃ للعالمین اور جشن ولادتِ رسولﷺ منا رہے ہیں‘ اس موقع پر میں نے طائف کے واقعے کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے تاکہ ہمیں احساس ہو سکے کہ جنابِ مصطفی ﷺ کی ساری زندگی مشکلات و مصائب میں گزری جس کا نقطۂ عروج سفرِ طائف تھا۔ نبوت کے بعد قریش کے بائیکاٹ کے نتیجے میں آپﷺ کو اپنے خاندان سمیت شعب ابی طالب میں تین برس محصور رہنا پڑا۔ اس سے اگلے سال حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہو گیا جو ایک طرح سے دنیاوی سہاروں کا اختتام تھا۔ اس کے دو برس بعد آپﷺ کو میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ یثرب کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ 
ہجرت کے صرف دو برس بعد ہی جنگ بدر کی مہم پیش آگئی۔ اس ک�� ایک برس بعد حضورﷺ کو غزوئہ اُحد کے اذیت ناک لمحات سے گزرنا پڑا۔ اُحد میں آپ کے عزیز ترین اور انتہائی بہادر چچا حضرت حمزہ ؓکو ��البازی سے شہید کر دیا گیا۔ اس موقع پر جناب مصطفی ﷺ پر بھی تیروں کی بارش کر دی گئی مگر جانثار صحابہ آپﷺ کے لیے ڈھال بن گئے۔ اُحد کے بعد غزوئہ خندق اور حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا جس میں قریش نے مدینہ سے آئے ہوئے 1400 مسلمانوں کو عمرے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے حدودِ حرم میں خونریزی سے بچنے کے لیے کفارِ مکہ کے پیش کردہ صلح نامے کو قبول کر لیا اور اُس پر دستخط کر دیے۔ اگرچہ مسلمان اس پر بہت دل گرفتہ تھے مگر بعد میں یہ صلح مسلمانوں کے لیے فتح مبین ثابت ہوئی۔ سفر طائف سے لے کر فتح مکہ تک رسول خداﷺ کی پرصعوبت طویل جدوجہد کا نتیجہ یومِ شوکتِ اسلام یعنی فتح مکہ کی صورت میں ایک عظیم خوشخبری بن کر مسلمانوں کے سامنے آیا۔ 
یوں تو رسول ﷺ کی ساری حیاتِ مبارکہ ہمارے لیے اسوئہ حسنہ ہے؛ تاہم واقعۂ طائف سے لے کر فتح مکہ تک ہمیں سیکھنے کے لیے دو اہم سبق ملتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ محمد مصطفی ﷺ نے اللہ کے سپرد کردہ مشن کی تکمیل کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے اپنے اوپر ظلم وستم ڈھانے اور گھٹیا ترین بازاری زبان استعمال کرنے والوں کو بھی معاف کر دیا۔ اس سال جشن ولادتِ رسول کے موقع پر ہمارے حکام اور شہریوں کو اپنے آپ سے اور اپنے خالق سے یہ وعدہ کرنا چاہئے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنے فرائض نہایت دیانت و امانت سے ادا کریں گے نیز عفوو درگزر کو اپنا شعار بنا کر اللہ اور اس کے رسول سے اپنی سچی محبت کا ثبوت دیں گے۔
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ 
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes