Tumgik
#الیکشن کی تاریخ
emergingpakistan · 1 year
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
Tumblr media
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دھچکا لگا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کے اہم رہنما عمران خان کو اس سال کے آخر میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ اس قانونی جنگ کے بارے میں کئی اہم سوالات ہیں جن کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا؟ قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد کوئی شخص کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ نااہلی کی مدت کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ قانونی طور پر اس نااہلی کی مدت سزا کی تاریخ سے شروع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس صورت میں تاحیات پابندی عائد کر سکتی ہے اگر وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ بے ایمانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ سرکاری عہدے کے لیے ’صادق ‘ اور ’امین‘ کی آئینی شرط پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا فیصلہ 2018 میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف دیا گیا تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے باہر ہونے کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ان کی برطرفی اور ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں عسکری عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج اس سے انکار کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جو جیل گئے اور رہائی کے بعد زیادہ مقبول ہوئے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں نے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں وقت گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی جیل جا چکے ہیں۔ 
Tumblr media
عمران خان کے لیے قانونی راستے کیا ہیں؟ عمران خان کے وکیل ان کی سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ تک ان کے لیے اپیل کے دو مراحل باقی ہیں۔ سزا معطل ہونے کی صورت میں انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ان سزا معطل کر دی جاتی ہے تو عمران خان اب بھی اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو مجرم ٹھہرانے کے فیصلے کو بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا اور انہیں اپنے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن سزا سنانے والی عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے جو گواہ پیش کیے ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ بار بار طلب کیے جانے کے باوجود کئی ماہ تک عدالت میں پیش ہونے سے عمران خان کے انکار کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت تیز کر دی تھی۔ تاہم توشہ خانہ کیس ان پر بنائے گئے 150 سے زیادہ مقدمات میں سے صرف ایک ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات میں دو بڑے مقدمات شامل ہیں جن میں اچھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے انہیں زمین کے معاملے میں دھوکہ دہی اور مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لے جایا جائے گا کیوں کہ وہ تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے جیل جانے کے بعد ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ نو مئی کے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کئی اہم رہنماؤں کے جانے سے پارٹی پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض رہنما اور سینکڑوں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے لیکن سروے کے مطابق یہ زیادہ تر عمران خان کی ذات کے بدولت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے پاس اس طرح کے ذاتی فالوورز نہیں ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ کرکٹ کے ہیرو کی طرح تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پر پابندی کے بعد بھی عمران خان نے اپنے حامیوں کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا فورمز جیسے ٹک ٹاک ، انسٹاگرام، ایکس اور خاص طور پر یوٹیوب تقریبا روزانہ یوٹیوب تقاریر کے ذریعے رابطہ رکھا تھا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
googlynewstv · 9 days
Text
سپریم کورٹ کے 8 عمرانڈو ججز کی الیکشن کمیشن کو کھلی دھمکی
سپریم کورٹ آف پاکستان کے 8 عمرانڈو ججز نے مخصوص نشستوں کے کیس میں تفصیلی فیصلہ دینے کی بجائے اب ایک دھمکی آمیز پریس ریلیز جاری کر دی ہے جس میں الیکشن کمیشن اف پاکستان کو وارننگ دی گئی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 12 جولائی 2024 کی ججمنٹ کے مطابق فوری طور پر مخصوص نشستیں الاٹ نہ کی گئیں تو اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ یہ پاکستان کی 75 سالہ سیاسی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ…
0 notes
airnews-arngbad · 6 months
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 09 April-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ:  ۹؍  اپریل  ۲۰۲۴ء؁
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
                پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
                ٭              لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلہ میں ریاست کے 204امیدوار،ہنگولی 33،ناندیڑ23جبکہ پربھنی میں34امیدوارانتخابی میدان میں۔
                ٭              وزیراعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کاسیاسی طورپراستعمال معاملہ میںافسران کووجہ بتائونوٹس۔
                ٭              قریبی رشتہ داروں اوراوبی سی میں سے ریزرویشن دینے کامطالبہ منوج جرانگے پاٹل نے دہرایا۔
اور۔۔۔٭      آج گڑی پاڑواکے موقع پربازاروںمیںہجوم۔
***** ***** *****
                اب خبریں تفصیل سے:
                لوک سبھاالیکشن کے دوسرے مرحلہ کیلئے امیدواری پرچہ واپس لینے کی مدت کل ختم ہوگئی۔اس مرحلہ میںریاست کے بلڈھانہ ،اکولہ ، امراوتی،وردھا،ایوت محل ،واشم ،ہنگولی،پربھنی اورناندیڑ یہ آٹھ پارلیمانی حلقے شامل ہیں۔ ان تمام حلقوںکی تصویراب ��اف ہوچکی ہے۔اور ان تمام نشستوں میں منجملہ 204 امیدوارمیدان میں ہیں۔ریاست کے چیف الیکشن کمشنروپرنسپل سیکریٹری ایس چوک لنگم نے یہ اطلاع دی ہے۔ وہ کل منترالیہ میںصحافتی کانفرنس سے مخاطب تھے۔ان تمام حلقوں میں26اپریل کورائے دہی ہوگی۔ناندیڑ میں66اہل امیدواروں میں سے تقریباً43 افرادکے پرچے واپس لینے سے اب23امیدوارمیدان میں ہیں۔پربھنی حلقے میں41 اہل امیدواروں میں سے7 امیدواروں کے پرچے واپس لینے کی وجہہ سے وہاں اب34 امیدوارمیدان میں ہیں۔
                ہنگولی میں48اہل امیدواروں میں سے15افرادکے نا م واپس لینے سے اب 33امیدوارمیدان میں ہیں۔عظیم اتحاد کے نشستوں کی تقسیم میںہنگولی لوک سبھا حلقہ شیوسینا کے حصہ میںآیاہے۔جس کی وجہہ سے بی جے پی کے 3 عہدیداروں نے بطورآزادامیدوار عرضی داخل کی تھی۔ جس میںرامداس پاٹل اورشیام بھارتی مہاراج نے کل امیدواری عرضی واپس لے لی۔جبکہ بی جے پی کے سابق ضلع صدرشیواجی جادھو نے اب تک واپس نہیں لی ہے۔
                بلڈھانہ حلقہ میں اکیس امیدوارانتخابی میدان میں ہیں۔ اکولہ حلقے سے پندرہ ،امراوتی حلقے سے37، وردھا حلقے میں24       جبکہ ایوت محل ،واشم حلقے میں17                امیدوارالیکشن میںحصہ لے رہے ہیں۔
***** ***** *****
                پربھنی میں عظیم اتحاد کے امیدوارمہادیوجانکر کے سیٹی اس نشان پرالیکشن لڑنے کی اطلاع ہمارے نامہ نگارنے دی ہے۔پرکاش امبیڈکر کے ونچت بہوجن آگھاڑی کوپریشرکوکریہ انتخابی نشان ملاہے۔اس پارٹی نے گیس سیلنڈرنشان کامطالبہ کیاتھا۔لیکن قرعہ اندازی میںانہیں وہ نہیں ملا۔
***** ***** *****
                دوسرے مرحلے کے آٹھ لوک سبھا حلقوں میںتقریباً ایک کروڑ49لاکھ 25ہزار912ووٹرس ہیں۔ جن میں سے18ہزار471 افراد بذریعہ پوسٹ اور14ہزار612افراد گھرسے ووٹ دیںگے۔گھر سے ووٹ دینے والوں میں سے دس ہزار672افراد85برس سے زائد عمر کے سینئرسٹیزن میں اورتین ہزار555افرادیہ 40فیصد سے زائدمعذورہیں۔جبکہ 385افرادیہ لازمی خدمات شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
***** ***** *****
                ملک بھر میںانتخابی تشہیر میںتیزی آگئی ہے اورمختلف پارٹیوں کے لیڈران ملک کے مختلف علاقوں میں تشہیری مہم میںحصہ لے رہے ہیں۔ وزیراعظم نریندرمودی نے کل چندرپوراورگڑھ چرولی ،چیمورلوک سبھا حلقہ کیلئے چندرپورمیں اجلاس سے خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ الیکشن مستحکم وغیرمستحکم کے درمیان ہے۔ ریاست کے وزیرجنگلات سدھیرمنگٹی وار، چندرپورلوک سبھا حلقہ سے اورموجودہ رکن پارلیمان اشوک نیتے گڑھ چرولی حلقے سے عظیم اتحاد کے امیدوارہیں۔وزیراعظم کل10تاریخ کوناگپورمیںتشہیری مہم میں حصہ لیںگے۔
***** ***** *****
                وزیراعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ ورشا کاسیاسی استعمال ہونے سے متعلق افسران کووجہ بتائونوٹس جاری کی گئی ہے۔ اس نوٹس کاجواب ملنے کے بعدکاروائی کرنے کی اطلاع ریاست کے چیف الیکشن کمشنر ایس چوک لنگم نے دی ہے۔اس معاملہ میںشکایت موصول ہونے پرممبئی شہرضلع کلکٹر نے نوٹس جاری کی ہے۔
***** ***** *****
                وَنچت بہوجن آگھاڑی کے سربراہ ا یڈوکیٹ پرکاش امبیڈکر نے الزام عائد کیا ہے کہ پارلیمانی انتخابات کیلئے مہاوِکاس آگھاڑی کی پارٹیوں میں تال میل نہیں ہے۔ وہ کل اکولہ میں صحافتی کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وَنچت بہوجن آگھاڑی نے اب تک 19 نشستوں کیلئے اُمیدوار وں کا اعلا ن کیا ہے۔ ریاست کی بقیہ نشستوں سے متعلق فیصلہ آئندہ دو دِنوں میں کیا جائےگا۔
***** ***** *****
                شیوسینا اُدّھو بالا صاحب ٹھاکرے پارٹی کے رہنما امول کیرتیکر سے کل انفورسمنٹ ڈائر یکٹوریٹ (ED) کے دفتر میں آٹھ گھنٹے پوچھ تاچھ ہوئی۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے مبینہ کھچڑی گھوٹالے کے معا ملے میں ای ڈی نے انھیں گذشتہ 25 تاریخ کو سمن بھیجا تھا۔ دریں اثنا شیوسینا ٹھاکرے گروپ نے امول کیرتیکر کو پارلیمانی انتخاب میں اپنا اُمیدو ا ر بنایا ہے۔
***** ***** *****
                مراٹھا ر یزرو یشن تحر یک کے رہنما منوج جرانگے پاٹل نے کہا ہے کہ مراٹھا سماج نے پارلیمنٹ کے عام انتخابات میں کسی کو اُمیدواری یا حمایت نہیں دی ہے۔ ر یزرو یشن کیلئے قر یبی رشتہ دار وں کے متعلق مطالبہ کا جو بھی سیاسی جماعت حمایت کرے گی‘ مراٹھا سماج اسی جماعت کے امیدو ار وں کی حمایت کرے گا۔ ناسک ضلعے کے سِنّر تعلقے کے پانگری میں مراٹھا سماج کے اجلاس کے بعد وہ نامہ نگاروں سے مخاطب تھے۔ انھوں نے کہا کہ 57 لاکھ کُنبی اندراج پائے جانےکے بعد بھی انھیں OBC زمرے سے ریزرویشن فراہم نہیں کیا گیا، لہٰذا مراٹھا سماج کو او بی سی زمرے سے ہی ریزرویشن دینے کے مطالبہ پر اب بھی قائم رہنے کی وضاحت بھی جر انگے پاٹل نے کی۔
***** ***** *****
                سامعین! پارلیمانی انتخابات کے ضمن میں ’’لوک نِرنئے مہاراشٹراچا‘‘ پر وگرام آکاشو انی نے شرو ع کیا ہے۔ اس پرو گرام کے آج کے نشریہ میں ناند یڑ پارلیمانی حلقہ کا جائزہ پیش کیا جائےگا۔ شام سوا سات بجے یہ پرو گرام سُنا جاسکے گا۔
***** ***** *****
                نیشنل کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ ا ینڈ ٹریننگ NCERT نے اپنے تعلیمی مواد کے مالکانہ حقوق سے متعلق احکامات جار ی کیے ہیں‘ اگر کوئی شخص یا تنظیم بغیر اجازت NCERT کی نصا بی کتب کا روباری استعمال کیلئے شائع کرتے ہیں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا ئے گی۔
***** ***** *****
                ہند و کیلنڈر کے مطابق آج یعنی گڑی پاڑوا سے نئے سال کی شر وعات ہورہی ہے۔ وزیرِ اعظم نر یندر مودی نے کل چندر پور میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے عو ام کو مر اٹھی میں گڑی پاڑوا کی مبارکباد دی۔ صدرِ جمہوریہ دَرَوپد ی مُرمو اور ریاستی گورنر رمیش بئیس نے گڑی پاڑوا اور مراٹھی نئے سال کے موقع پر ریاست کی عو ام کو مبارکباد د ی ہے۔
                چھترپتی سمبھاجی نگر میں گلمنڈی علاقے میں ہر سال گڑی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آج صبح نو بجے شیوسینا رہنما چندر کانت کھیرے کے ہاتھوں گڑی پوجا کی جائےگی۔ دریں اثنا گڑی پاڑوا کیلئے بازار سج گئے ہیں۔
***** ***** *****
                رمضان عید او ر ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی یومِ پید ائش کے موقع پر خریداری کیلئے پربھنی کے بازارو ں میں گاہکوں کی بھیڑ ہورہی ہے۔ خصوصی طورپر کپڑے ‘ زیورات‘ عطریات اور خشک میوہ جات کی دُکا نوں میں خریداروں کی بھیڑ ہونے کی خبر ہمارے نمائندے نے د ی ہے۔
                کل شام شوال کا چاند دکھائی د ینے پر پرسوں عیدالفطر متوقع ہے۔
***** ***** *****
                لاتور میں کل ’’میرا ایک دِن رائے دہند گان کی بیداری کیلئے‘‘ سرگرمی انجام دی گئی۔ ضلع کے شہری اور د یہی علاقوں میں بیک وقت ر ائے دہندگان بیداری ریلیوں کا انعقاد کیا گیا اور تقریباً ڈھائی لاکھ خاندانوں تک ر ائے دہی سے متعلق بیداری کا پیغام پہنچایا گیا۔
***** ***** *****
                 جالنہ ضلعے کے دیہی اور شہری علاقوں میں کل رائے دہی سے متعلق اسکولی طلباء کی عوامی بیداری ریلی نکالی گئی۔ اس ریلی میں شریک طلباء نے شہریوں کو اپنا حقِ ر ائے دہی ادا کرنےکا پیغام د یا۔
***** ***** *****
                 بیڑ میں واقع سنسکار اسکول میں کل رنگولی مقابلہ منعقد ہوا۔ اس موقع پر مقابلے کے شرکا نے ر ائے دہی کی اہمیت واضح کرنے والی 43 مختلف رنگولیاں تیار کیں۔
***** ***** *****
                ناندیڑ پارلیمانی حلقۂ انتخابات 2024کی معلومات پر مبنی پارلیمنٹری ڈائریکٹری کی اشاعت کل ناندیڑ کے ضلع کلکٹر ابھیجیت رائوت کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ اس ڈائریکٹری میں 1951 سے 2019 کے ناندیڑ پارلیمانی حلقۂ انتخاب کے نتائج اور دیگر معلومات شامل ہیں۔
***** ***** *****
                مراٹھی وِگیان پریشد کی جانب سے دیا جانے والا وسنت راؤ نائیک زرعی پرتشٹ��ان ایوارڈ چھترپتی سمبھاجی نگر ضلعے کے دھنے گاؤں کے کسان یگنیش وسنت کاتبنے کو دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ 10 ہزار روپےنقد اور توصیف نامے پر مشتمل یہ ایوارڈ کاتبنے کو آئندہ 28 تاریخ کو ممبئی میں دیا جائے گا۔
***** ***** *****
                لاتور میونسپل کارپوریشن نے شہریوں کو چار دن کے وقفے یعنی پانچویں دن پانی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میونسپل کارپوریشن انتظامیہ نے شہریوں سے بھی پانی کو کفایت شعاری سے استعمال کرنے اور پانی کے بے دریغ استعمال سے گریز کرنے کی اپیل کی ہے۔
***** ***** *****
                انڈین پریمیر لیگ (IPL) کرکٹ ٹورنامنٹ میں کل‘ چنئی سپر کنگز نے کولکتہ نائٹ رائیڈرز کو سات وکٹوں سے شکست دے دی۔ اس ٹورنامنٹ میں آج پنجاب کنگز اور سن رائزرز حیدرآباد کے درمیان مقابلہ ہوگا۔
***** ***** *****
                پانی کی بڑھتی ضرورت اورلاتورشہرمیںپیش آنے والی پانی کی قلت کومدنظررکھتے ہوئے لاتورمیونسپل کارپوریشن نے آج سے شہریان کیلئے چاردنوں کے وقفے سے نلوں کے ذریعہ پانی فراہمی کافیصلہ کیاہے۔لاتورشہرمیںشہریان کوبیڑ ضلع کے کیج تعلقہ کے دھنے گائوں کے مانجرا آبی منصوبہ سے پانی فراہمی کی جاتی ہے۔ اس سال بارش کی کمی کی وجہ سے اس آبی منصوبہ میں کافی پانی کاذخیرہ نہیں ہے۔لیکن پھربھی پانی کامناسب استعمال کرکے انہیں ہرپانچویں دن پانی فراہم کئے جانے کی اطلاع ہے۔ میونسپل کارپوریشن نے اپیل کی ہے کہ پانی ضائع نہ کریں۔
***** ***** *****
                محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی کے مطابق آئندہ چار دنوں میں مراٹھواڑہ کے بیشتر اضلاع میں ہلکی سے اوسط درجے کی بارش ہونے کا امکان ہے۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
                آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
                ٭              لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلہ میں ریاست کے 204امیدوار،ہنگولی 33،ناندیڑ23جبکہ پربھنی میں34امیدوارانتخابی میدان میں۔
                ٭              وزیراعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کاسیاسی طورپراستعمال معاملہ میںافسران کووجہ بتائونوٹس۔
                ٭              قریبی رشتہ داروں اوراوبی سی میں سے ریزرویشن دینے کامطالبہ منوج جرانگے پاٹل نے دہرایا۔
اور۔۔۔٭      آج گڑی پاڑواکے موقع پربازاروںمیںہجوم۔
***** ***** *****
                اس کے ساتھ ہی علاقائی خبریں ختم ہوئیں۔
                 ان خبروں کو آپ AIR چھترپتی سمبھاجی نگر یوٹیوب چینل‘ پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
***** ***** *****
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
کیا اسلام آباد میں ایک دیوانے کی گنجائش بھی نہیں؟
Tumblr media
نگران حکومت کے سنہرے دور کے آغاز میں ہی ایک وزیر نے سب کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اس لیے یہاں پر اداروں کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میرا خیال تھا نگران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے چلے ہیں۔ جتنا بڑا آپ کے پاس ہتھیار ہوتا ہے، خوف اتنا ہی کم ہونا چاہیے۔ جب سے ہم نے بم بنایا ہے ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ اب دشمن ہمیں کبھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ سے انڈیا تک جتنی آوارہ طاقتیں ہیں، جہاں چاہے گھس جاتی ہیں وہ پاکستان کی سرحدوں کے اند آتے ہوئے سو دفعہ سوچیں گے۔ دفاعی تجزیہ نگار بھی یہی بتاتے تھے کہ یہ والا بم چلانے کے لیے نہیں، دشمن کو دھمکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب نگران وزیر صاحب نے اس بم سے اپنے ہی عوام کو دھمکانا شروع کیا تو لگا کے شاید پاکستان ایک اور طرح کی دفاعی ریاست بننے جا رہی ہے۔ کل اسلام آباد میں زیرِ حراست صحافی اور یوٹیوبر اسد طور کی 78 سالہ والدہ کا ایک مختصر سا ویڈیو دیکھا جب وہ اپنے بیٹے سے مل کر آئی تھیں۔ وہ کھانا لے کر گئیں تھیں طور نے نہیں کھایا، وہ اصرار کرتی رہیں۔ طور بھوک ہڑتال پر تھا اس لیے غالباً والدہ کو ٹالنے کے لیے کہا بعد میں کھا لوں گا۔
ان کی والدہ نے ایف آئی اے کو، عدالتوں کو یا کسی اور ادارے سے کوئی شکوہ نہیں کیا صرف یہ دعا کی کہ اللہ میرے بیٹے کو ہدایت دے۔ اسلام آباد کو ہمیشہ دور سے حسرت کی نظر سے دیکھا ہے۔ کبھی جانے کا اتفاق ہوا تو ایک ہی شام میں دس سیانوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ کسی کے پاس اندر کی خبر، کسی کے پاس اندر سے بھی اندر کی اور پھر وہ جو اندر کی خبر باہر لانے والوں کے نام اور حسب نسب بھی بتا دیتے ہیں۔ اسد طور سے نہ کبھی ملاقات ہوئی نہ کبھی سیانا لگا۔ کبھی کبھی اس کے یوٹیوب چینل پر بٹن دبا دیتا تھا۔ منحنی سا، جذباتی سا، گلی کی نکڑ پر کھڑا لڑکا جو ہاتھ ہلا ہلا کر کبھی ٹھنڈی کبھی تلخ زبان میں باتیں کرنے والا۔ گذشتہ ماہ اسلام آباد میں بلوچستان سے اپنے اغوا شدہ پیاروں کا حساب مانگنے آئی ہوئی بچیوں اور بزرگوں نے کیمپ لگایا اور اسلام آباد کے زیادہ تر سیانے اپنے آتش دانوں کے سامنے الیکشن کے نتائج پر شرطیں لگا رہے تھے تو وہ کیمرا لے کر احتجاجی کیمپوں سے ان کی آواز ہم تک پہنچاتا رہا۔
Tumblr media
میں نے سوچا کہ یہ کیسا یوٹیوبر ہے جسے یہ بھی نہیں پتا کہ بلوچ کہانیاں سنا کر کبھی بھی کوئی یوٹیوب سٹار نہیں بنا۔ اس سے پہلے سنا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس پر بُرا وقت آیا تھا تو ان کی عزت کا محافظ بنا ہوا تھا۔ عدلیہ کی سیاست کی کبھی سمجھ نہیں آئی لیکن میں یہی سمجھا کہ سیانوں کے اس شہر اسلام آباد میں شاید ہمیشہ ایک دیوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ اور ثقافتی روایت بھی ہے۔ بادشاہ بھی اپنے دربار میں مسخرہ رکھتے تھے، گاؤں کا چوہدری بھی میراثی کو برداشت کرتا ہے۔ گاؤں میں ایک ملنگ نہ ہو تو گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اسد طور بھی مجھے کیمرے والا ملنگ ہی لگا جس کے بغیر اسلام آباد کا گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اس گاؤں میں ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ طور پر زیادہ غصہ عدلیہ عظمیٰ کو ہے یا ان کو جن کے لیے اسلام آباد کے صحافی کندھوں پر انگلیاں رکھ کر بتاتے تھے، پھر کسی نے بتایا کہ یہ کوڈ ورڈ پاکستان کے عسکری اداروں کے لیے ہے۔ اسلام آباد کے ایک بھیدی نے بتایا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ کس ادارے کی زیادہ بےعزتی ہوئی ہے لیکن یہ کہ اسد طور تھوڑا سا بدتمیز ہے، کسی کی عزت نہیں کرتا۔
مجھے اب بھی امید ہے کہ اسلام آباد میں کوئی سیانا کسی بڑے سیانے کو سمجھا دے گا کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور ہم نے دشمن چنا ہے اتنا دبلا پتلا طور۔ اچھا نہیں لگتا۔ ہمارے نگران وزیراعظم ہمیں ایک دفعہ یہ بھی بتا چکے ہیں کہ دہشت گردوں کی بھی مائیں ہوتی ہیں۔ اسد طور کی و��لدہ کیمرے پر دعا مانگ چکی ہیں کہ اللہ ان کے بیٹے کو ہدایت دے۔ دونوں ادارے جن کے ساتھ اسد طور نے بدتمیزی کی ہے، ان کے سربراہ ہمیں کبھی کبھی دین کا درس دیتے ہیں۔ دعا ہر دین کا بنیادی عنصر ہے۔ اگر وہ انصاف نہیں دے سکتے تو طور کی والدہ کی دعا کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ ہمارے بیٹے کو ہدایت دے اور اس کے ساتھ اپنے لیے بھی اللہ سے ہدایت مانگ لیں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
وفاق، پنجاب اور کے پی میں حکومت بنائیں گے، پی ٹی آئی، کل آر او دفاتر کے سامنے احتجاج کا اعلان
تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت پی ٹی آئی بنائے گی، مخصوص نشستوں کیلئے کسی دوسری جماعت کو جوائن کرسکتے ہیں،مخصوص نشستوں کی فہرست الیکشن کمیشن کو جمع کراچکے ہیں،جلد فیصلہ کریں گے مخصوص نشستوں کیلئے کیا کرنا ہے۔ اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بیرسٹرگوہر سپریم کورٹ کی ہدایت پر ملک بھر میں 8 فروری کو الیکشن کی تاریخ طے ہوئی،پاکستان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Video
youtube
تحریک انساف نے طوفان برپا کردیا تاریخ کی سب سے بڑی الیکشن کیمپین انقلاب ...
0 notes
shiningpakistan · 10 months
Text
میاں صاحب ! آپ کو کیوں لایا گیا؟
Tumblr media
نواز شریف ایک بات پھر خطرناک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر اُن سے اپنا غصہ نہیں سنبھل رہا اور وہ اب بھی اپنی گزشتہ تین حکومتوں کے خاتمہ کا احتساب چاہتے ہیں تو آگے رولا ہی رولا ہو گا۔ جبکہ میاں صاحب کی واپسی کے لیے سہولت کاری نہ ہی پرانے کٹے کھولنے اور پرانی لڑائیاں لڑنے کے لیے کی گئی اور نہ اُن کے لیے آئندہ انتخابات کا رستہ اس لیے ہموار کیا جا رہا ہے کہ ہم اُس تاریخ سے ہی نہ نکل سکیں جس نے فوج اور سول کے درمیان لڑائیوں کی وجہ سے ملک اور عوام کی حالت ہی خراب کر دی۔ موجودہ صورتحال میں جو بھی حکومت آئے گی اُس کے لیے ماسوائے معیشت کی بہتری، کاروباری حالات اور سرمایہ کاری کے فروغ، مہنگائی پر قابو پانے، زراعت، آئی ٹی، مائننگ اور دوسرے شعبوں میں ترقی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے بہترین گورننس کے علاوہ کوئی دوسری چوائس نہیں ہو گی۔ ڈیفالٹ سے ہم بمشکل بچے لیکن اگر ملک کو اس خطرے سے بچانا ہے اور معاشی مشکلات سے نکلنا ہے تو پھر میاں صاحب کو واقعی اپنا غصہ، اپنے ذاتی معاملات وغیرہ کو بھلانا پڑے گا۔
جو میاں صاحب کو لا رہے ہیں اُن کی بھی ساری توجہ اس وقت پاکستان کی معیشت، کاروبار، ٹیکس سسٹم وغیرہ کو درست کرنے پر ہے، کھربوں کا نقصان کرنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کو یقینی بنانا ہے تاکہ پاکستان معاشی طور پر استحکام حاصل کر سکے، ہماری ایکسپورٹس میں اضافہ ہو، یہاں کارخانے چلیں، ملازمتوں کے مواقع میں اضافہ ہو۔ شہباز شریف نے بحیثیت وزیراعظم آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ مل کر معیشت کی بہتری کے لیے ایک روڈ میپ کی بنیاد رکھ دی تھی، جس کا مقصد سب کو مل کر، فوکس ہو کر پاکستان کے معاشی حالات کو بہتر بنانا ہے تاکہ ہمارا انحصار بیرونی معاشی اداروں اور دوسری قوتوں پرسے ختم ہو سکے اور ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ اگر میاں صاحب نے بھی واپس آ کر لڑنا ہی ہے تو پھر عمران خان کو بھی الیکشن لڑنے دیں، تحریک انصاف کا رستہ کیوں روکا جائے۔ پھر جو الیکشن جیتے اپنے اپنے بدلے لے۔
Tumblr media
تحریک انصاف کو اس لیے روکا جا رہا ہے کہ اگر عمران خان الیکشن جیتتا ہے تو پھر اُس کا مطلب ہے کہ نئی حکومت کے آتے ہی فوج سے ایک نئی لڑائی شروع ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں نہ یہاں سیاسی استحکام آسکے گا اور نہ ہی معاشی استحکام ممکن ہو گا۔ عمران خان کی فوج سے لڑائی جیسی بڑی غلطی نے نواز شریف کی واپسی کا رستہ ہموار کیا۔ اب اگر وہ اپنی پرانی غلطیاں دہرانا چاہیں تو اُن کی مرضی، تاہم ان کی اس روش سے نہ اُنہیں کچھ ملے گا نہ پاکستان کو اور نہ ہی عوام کو۔ اُن کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ فوج کی مدد سے پاکستان کی معیشت میں بہتری کے لیے دن رات کام کریں، گورننس کی بہتری پر توجہ دیں، مہنگائی پر قابو پائیں اور سب سے اہم بات یہ کہ عوام کو اپنے بہترین طرز حکومت سے اس طرح مطمئن کریں کہ لوگ جب حکومتی محکموں میں اپنے کام کے لیے جائیں تو اُن کے کام فوری ہوں، بغیر رشوت بغیر سفارش۔ اُنہیں دھکے نہ پڑیں، اُن کا احترام کیا جائے۔
پولیس، تھانے، کچہری، محکمہ مال، افسر شاہی، بجلی و گیس کے محکمے سب کو عوام کی خدمت کے لیے بدل دیں تاکہ ہمارے ہاں بھی عوام کے کام میرٹ کے مطابق Smooth طریقے سے ہوں۔ جو حکمران پاکستان کو صحیح معنوں میں بدلے گا عوام اُس کے ساتھ ہی ہوں گے، معیشت اچھی ہو گی، طرز حکمرانی بہترین ہو گا، عوام سرکاری محکموں کی خدمات سے خوش ہوں گے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیاسی معاملات سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی اور شارٹ کٹ نہیں۔ میاں صاحب جو سپورٹ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مل رہی ہے اُس کو پاکستان اور عوام کے فائدے کے لیے استعمال کریں۔ اپنے غصے پر قابو پائیں اور جو موقع آپ کے لیے پیدا کیا جا رہا ہے اس کو ضائع مت کریں۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
apnabannu · 1 year
Text
پیپلزپارٹی کا الیکشن کمیشن سے انتخابات کی تاریخ کے جلد اعلان کا مطالبہ
http://dlvr.it/SvXgsF
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
عمران سمیت سب رہنماؤں کے لئے دلی دُعا
Tumblr media
پہلے تو میں اپنا محاسبہ کرتا ہوں۔ اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ میں اُردو کے سب سے بڑے ��خبار میں اپنے دل کی باتیں کر سکوں۔ دنیا بھر میں لاکھوں پڑھنے والے پاکستان کے کونے کونے میں میرے الفاظ کے مطالعے کے لئے اپنا قیمتی وقت نکالتے ہیں۔ کیا میں ان کے علم میں کوئی اضافہ کرتا ہوں۔ سات دہائیوں سے مجھے خدائے بزرگ برتر نے حکمرانوں کو بہت قریب سے دیکھنے ان کے ساتھ سفر کرنے کی سہولتیں دی ہیں۔ میں نے ان کی حاشیہ برداری کی ہے یا ان کے سامنے کلمۂ حق کہا ہے۔ تاریخ میرے کان میں کہہ رہی ہے۔ آج 14 مئی ہے۔ اگر اس سر زمین میں آئین کی پاسداری ہو رہی ہوتی۔ عدالتِ عظمیٰ کے قوانین کو حکمران تسلیم کر رہے ہوتے تو آج پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا دن تھا۔ انتخابات ٹالنے کے لئےانتخابات کروانے والوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ کہا گیا کہ 14 مئی کو سیکورٹی نہیں دے سکتے کیونکہ فورسز سرحدوں پر مصروف ہیں۔ مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ فورسز 14 مئی کو پنجاب میں موجود ہیں۔ الیکشن کے انعقاد کے مثبت اقدام کے لئے نہیں۔ بلکہ الیکشن پر اصرار کرنے والوں کی تادیب کے لئے۔ 9 مئی کو انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے یوم سیاہ قرار دیا ہے۔ 70 سال سے اوپر کے میرے ہم عصروں نے کتنے سیاہ دن دیکھے ہیں۔
16 دسمبر 1971 سب کیلئے یوم سیاہ۔ پھر کسی کیلئے 4 اپریل 1979۔ کسی کیلئے 17 اگست 1988۔ کسی کیلئے 12 اکتوبر 1999۔ کسی کیلئے 26 اگست 2006۔ کسی کیلئے 27 دسمبر2007۔ جن سر زمینوں میں آئین کو بار بار سرد خانے میں ڈالا جائے۔ جہاں آمروں کے منہ سے نکلے الفاظ ہی قانون ہوں۔ جہاں اپنے اپنے علاقوں میں سرداروں۔ جاگیرداروں۔ مافیا چیفوں کا راج ہو۔ وہاں مختلف خاندانوں کے لئے مختلف دن سیاہ ہو جاتے ہیں۔ آج اتوار ہے۔ میں نادم ہوں کہ ہمارے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوئوں دامادوں کو ایسے ایسے بھیانک مناظر دیکھنا پڑ رہے ہیں جو وہ تاریخ کے اوراق میں چنگیز۔ ہلاکوخان اور دوسرے سفاک جابروں کے دَور میں پڑھتے رہے ہیں۔ میں تو اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے شرمندہ ہوں۔ مگر جن کے حکم پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہ خبر نہیں کہ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوئوں دامادوں کے سامنے سر بلند کر کے کھڑے ہوتے ہیں یا سر جھکا کے۔ عورتوں کو بال پکڑ کر گھسیٹا جارہا ہے۔ بزرگوں کو ڈنڈا ڈولی کیا جارہا ہے۔ ہانکا لگا کر شکار کیا جارہا ہے۔ ایمبولینسوں کو جلایا جا رہا ہے ۔ سرکاری عمارتوں میں گھس کر آگ لگائی جارہی ہے۔ 
Tumblr media
بہت ہی حساس رہائش گاہیں اور ہیڈ کوارٹرز کسی محافظ کے بغیر چھوڑے جارہے ہیں۔ ہجوم ان میں بلاک روک ٹوک داخل ہو رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے پولیس حکومت کے سیاسی مخالفین کی رہائش گاہوں میں گھس کر بلوائیوں کی طرح شکست وریخت کر رہی ہے۔ قوم ۔ میڈیا تقسیم ہو چکے ہیں۔ من حیث القوم۔ اس افراتفری کو نہیں دیکھا جارہا کہ ملک تباہ ہو رہا ہے۔ حکومت وقت جو معیشت کے سامنے بازی ہار چکی ہے۔ جو افراط زر کے آگے ناکہ نہیں لگا سکی۔ جو اپنے قائد اعظم کی تصویر والی کرنسی کو کافروں کی تصویروں والی کرنسی کے سامنے عاجز ہونے سے نہیں روک سکی۔ وہ ملک کے استحکام کے لئے کوئی تدبیر نہیں کر سکی۔ جس کے وزراء کو ایسے ہنگامی حالات میں میڈیا کے کیمروں کے سامنے بیٹھنے۔ عدلیہ کو بے نقط سنانے اور اپنے سیاسی مخالف کو فتنہ ۔غیر ضروری عنصر۔ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ کہنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ سوشل میڈیا پر قیامتیں برپا ہیں۔ تاریخ کے شرمناک مناظر دکھائے جارہے ہیں۔ ملک کو مزید جلائو گھیرائو۔ نوجوانوں کی ہلاکتوں سے بچانے کے لئے سب سے بڑی عدالت کو اسی قیدی کو روبرو بلانا پڑتا ہے۔ 
جس کی گرفتاری پر ادارے۔ حکمراں بہت مطمئن تھے۔ قاضی القضاۃ کو کہنا پڑا کہ آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اس ایک جملے کے بہت معانی ہیں۔ بہت سے اداروں اور بہت سے لوگوں کے لئے اس ایک جملے میں بہت اشارے اور بہت انتباہ بھی ہیں۔ آگے کیا ہونا ہے۔ ستارے تو بہت خوفناک پیشنگوئیاں کررہے ہیں۔ میں تو اللہ تعالیٰ سے اس شخصیت کے لئے دعائیں مانگوں گا کہ جس کو سامنے لا کر احتجاج کرنے والوں سے اپیل کروانا پڑی کہ وہ پُر امن رہیں۔ املاک کو تباہ نہ کریں۔ میں پورے خشوع و خضوع سے قادرمطلق سے التجا کر رہا ہوں کہ اگر ہم تاریخ کے ایسے موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں ملک میں امن۔ استحکام نہ صدر مملکت کے ہاتھ میں ہے۔ نہ وزیر اعظم کے۔ نہ کسی وزیر اعلیٰ کے بلکہ ایک اپوزیشن لیڈر کے بس میں ہے۔ جس کے خلاف ایک سو سے کہیں زیادہ مقدمات مختلف شہروں۔ مختلف تعزیرات کے تحت دائر کر دیے گئے ہیں۔ تو ہم اپنے پروردگار اپنے معبود۔ اپنے قدیر۔ کبیر سے گڑ گڑا کر درخواست کریں کہ اے سارے جہانوں کے مالک۔ عمران خان کو تدبر۔ بصیرت اور وژن عطا کر کہ وہ قوم کو استحکام کی منزل کی طرف لے جائے۔ اسے اس ادراک کی تقویت دے کہ وہ مستقبل کے لئے صراط مستقیم کا انتخاب کر سکے۔ 
اس عظیم مملکت میں معیشت کے سنبھلنے میں اپنی سیاسی طاقت سے کام لے سکے۔ اس وقت اس خطّے میں بڑی سازشیں ہو رہی ہیں۔ منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ بڑی طاقتوں کی بھی کوششیں ہیں کہ پاکستانی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا رہیں۔ صوبوں کے درمیان کشمکش رہے۔ سوشل میڈیا پر ان سازشوں کے مظاہر بھی درج ہو رہے ہیں۔ لسانی۔ نسلی۔ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی جارہی ہے تو ہم اس الرحمن الرحیم سے التماس کریں کہ اب جب اس ایک شخص کی آواز پر نوجوان جگہ جگہ شہر شہرسڑکوں پر نکل آتے ہیں تو اس کے ذہن کو ایسی تقویت دے ۔ ایسی روشنی دے کہ وہ اس عظیم مملکت کے بانی اور بر صغیر کے بے مثال رہبر قائد اعظم کے افکار پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے نوجوانوں کو تیار کرے۔ ملک میں صرف احتجاج کے لئے اپیل نہ کرے۔ بلکہ آئندہ دس پندرہ برس کا ایک لائحہ عمل دے۔ اس ایک سال میں خواب بہت بکھر چکے۔ آرزوئیں خاک ہو چکیں۔ معیشت ریزہ ریزہ ہو چکی۔ اقوام عالم میں پاکستان بے وقعت ہو چکا ہے۔ اے الملک۔ اے الرافع۔ اے الغنی۔ اے الوارث۔ الباقی۔ یہ 22 کروڑ تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمارے منصفوں کو۔ سالاروں کو۔ حکمرانوں کو یہ ہدایت دے کہ وہ صرف ایسی راہ پر چلیں۔ جس پر تیری نعمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ان راہوں کو چھوڑ دیں۔ جس پر تیرا غضب اترتا ہے۔ ہمارے سب رہنمائوں بالخصوص عمران خان کو یہ استطاعت دے کہ وہ صرف ملک کے لئے سوچیں۔ اسے بحرانوں سے نکالیں۔ آمین۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingkarachi · 1 year
Text
میئر کراچی کا انتخابی معرکہ
Tumblr media
پاکستان کی بڑھتی بس پلتی مایوس اور مبتلائے عتاب و عذاب نئی نسل پر ہماری 75 سالہ سیاسی تاریخ کی یہ حقیقت تو اب مکمل بے نقاب ہے کہ : آئین پاکستان کا اطلاق فقط جیسے تیسے الیکشن سے تبدیلی و تشکیل حکومت تک محدود رہا ہے۔ جمہوریت کا یہ لبادہ بھی مملکت کو جمہوری ہونا تو کیا منواتا اس سے متصادم ادھوری سی قوم اور دنیا بھر میں ہم مارشل لائوں کی بے آئین سرزمین، مسلسل عدم استحکام میں مبتلا جھگڑالو اور غیر منظم ریاست اور قوم سمجھے گئے۔ اپنی تاریخ کے سیاسی ریکارڈ حقائق و ابلاغ میں بھی اور دنیا کی نظر میں بھی۔ کج بحثی اور جھوٹے جواز کی آڑ لینا الگ اور یکسر منفی رویہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ ہی سچ ہے پہاڑ جیسی اٹل حقیقت آئینی و سیاسی جھگڑے میں پاکستان کا فقط 24 سال میں ہی دولخت ہو جانا اور ملکی موجود گمبھیر صورتحال ہے جس کے بڑے فیصد کی تشکیل گزرے تیرہ ماہ میں ایسے ہی سیاسی فساد اور آئین سے بدترین سلوک سے ہوئی۔ پاکستان کا قیام تو بلاشبہ، متعصب ہندو اکثریت اور فرنگی راج میں رہتے، بدلے زمانے کی حقیقتوں کے ساتھ اکابرین مسلمانان ہند کا جدید دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے والا کارنامہ تھا ہی سرسید، اقبال و قائد کی دور بینی علمی و عملی جدوجہد اور رہنمائی اور تاریخ پاکستان کے سنہری ابواب ہیں۔ 
قائداعظم کو اگر حاصل منزل کے بعد نومولود مملکت کو سنبھالنے اور ارادوں اور تصورات کے مطابق بنانے کی مہلت نہ ملی تو اس کا راستہ تو وہ تین الفاظ اتحاد، ایمان، تنظیم کے کمال روڈ میپ کے ساتھ پھر بھی دکھا گئے۔ اگلی تاریخ (ایٹ لارج) اس سے مختلف سمت میں چلنے کی ہے۔ یہ ہے موجود بدترین ملکی سیاسی و آئینی و انتظامی بحران، جس میں ایک بہت مہلک قومی ابلاغی بحران کے جنم کا اضافہ ہوا ہے، کا پس منظر ایسا نہیں کہ قائد کی رخصتی کے بعد قوم مکمل ہی گمراہی میں چلی گئی، جب کبھی اتحاد، ایمان و تنظیم کا دامن پکڑا، بگڑتی قوم کے نصیب جاگ گئے، پاکستان سنبھلا اور نیک نامی اور بہت کچھ پایا، لیکن آئین سے روگردانی، بار بار اسے توڑنے پھوڑنے اور اپنی سیاست کے لئے اس سے کھلواڑ کو سیاست دانوں، جرنیلوں اور ججوں نے اپنے اپنے دائروں سے باہر نکل کر وہ کھلواڑ کیا کہ ملک بھی آدھا گیا اور اگلے عشروں کے سفر میں آج وینٹی لیٹر پر نہیں بھی تو آئی سی یو میں تو ہے اور تیرہ مہینے سے ہے۔
Tumblr media
پاکستانی بیش بہا پوٹینشل ایسے ٹیسٹ ہوا کہ اتحاد، ایمان اور تنظیم مطلوب سے بہت کم مدتی مقدار میں ہوتے بھی ایٹمی طاقت بن گیا، پانچ گنا دشمن کے حملے کا کامیاب دفاع کیا، طویل العمر آمرانہ ادوار میں بڑی جمہوری و پارلیمانی قوتوں اور تحریکوں کی تشکیل و تنظیم ہوتی رہی۔ اور بہت کچھ۔ لیکن اس سے مکمل جڑی تلخ حقیقت ملک و آئین شکنی سے لے کر بنے بنائے چلتے چلاتے پاکستان پر قابض مافیہ راج (OLIGARCHY) کے مسلسل حملوں سے ہوئے بار بار ڈیزاسٹر ہیں۔ شاخسانہ پوری قوم کو خوف و ہراس اور سب اداروں کو تقسیم و مسلسل دبائو میں مبتلا رکھنے والا سیاسی و آئینی اور انتظامی و ابلاغی بحران جاری ہے۔ ماہرین آئین وسیاسیات حتمی رائے دے رہے ہیں کہ حکومتی سیاسی کھلواڑ سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کو روکنے، عدلیہ کو دھونس دھاندلی سے نیم جامد کرنے اور دونوں صوبوں پر مکمل حکومت نواز فسطائیت اخیتار کی قطعی غیر آئینی نگراں حکومتوں کے تسلط سے ملکی آئین ٹوٹ چکا۔ چلیں! اتنی معتبر اور پیشہ ورانہ آرا سے بھی اختلاف کر کے ہم اختتام آئین کی بار بار علانیہ بلکہ چیخ پکار سے آئی ماہرین کی اس رائے سے جزوی اختلاف کرکے اتنا مان لیتے ہیں کہ آئین وزیر دفاع کی رائے (کے مطابق بھی نہیں) ملک وینٹی لیٹر پر بھی نہیں، بلکہ آئی سی یو میں ہے۔ اتنا تو ماننا ہی پڑے گا، وہ بھی فقط اس لئے کہ گردو نواح سے ظہور پذیر ہوتے مواقع حوصلہ دلاتے ہیں کہ بیمار بحال ہو سکتا ہے۔
15 جون 2023ء کو آئی سی یو میں سسکتے آئین کا ایک حساس ٹیسٹ ہونے والا ہے۔ اس کا نتیجہ آنے والے سالوں میں واضح طور پر ملکی قومی صحت کے بہتر ہونے یا بگڑنے کا تعین کرے گا۔ تین روز بعد کراچی کے میئر کے انتخاب کا سیاسی معرکہ ہونے والا ہے۔ ’’معرکہ‘‘ اس لئے کہ یہ کوئی معمول کا انتخاب نہیں، آئین کی بنتے ہی بڑی خلاف ورزی، جو اب تک ہو رہی ہے یہ ہوتی رہی اور جاری ہے کہ آئین میں جمہوریت کی تین بنیادی جہتوں (قومی، صوبائی اور مقامی منتخب حکومتوں کا قیام) میں سے عوام الناس کے حقوق و مفادات کی عکاس ’’مقامی حکومتوں کے نظام‘‘ کو سول منتخب حکومت نے غصب کر کے آئینی لازمے کے مطابق معمول بننے ہی نہیں دیا ۔ مارشل لائوں میں ہی سول سپورٹ لینے کے لئے اس پر عملدرآمد کر کے مارشل لا رجیمز کو ہضم کرنے میں بڑے فیصد کی مدد لی گئی۔ ایوبی دور تو اس کا مخصوص ماڈل (بی ڈی سسٹم) قائم کر کے ہی فرد واحد کی حکومت کو ’’جمہوری‘‘ بنا دیا گیا، جو خاصا ہضم ہو گیا تھا۔ آئین سے منحرف ہوتے بلدیاتی اداروں کے قیام کو روکے رکھنے کا سب سے متاثرہ شہر، شہر عظیم کراچی اور دیہی سندھ ہے۔ کراچی کی تیز تر ترقی ہو کر بھی اسی کھلواڑ سے ریورس رہی اور دیہات پسماندہ ہی رہے۔ 
موجود سندھ حکومت کے تو بس میں نہیں کہ وہ کوڑا اٹھانے، پانی کی تقسیم، نالوں کی صفائی، ٹرانسپورٹ ہر ہر عوامی سروس اپنے ہی اختیار میں رکھے اور رکھ کر بھی کچھ نہ کرے۔ کراچی کی واضح حالت زار کے سینکڑوں ثبوت ریکارڈ پر ہیں۔ اب بھی جو بلدیاتی انتخاب جماعت اسلامی کی جدوجہد اور عدالتی فیصلوں سے ممکن ہوا اس میں بڑا کھلواڑ مچا کر اکثریتی جماعت اسلامی کے واضح منتخب ہوتے میئر کا راستہ روک کر، میئر کی جگہ اپنے مسلط کئے سابق ایڈمنسٹریٹر کو ہر حالت میں میئر بنانے کے لئے ہر غیر جمہوری اور غیر آئینی و غیر قانونی حربہ استعمال ہو رہا ہے، جیسے چار مرتبہ انتخاب کا التوا۔ الیکٹرول کالج میں چمک کے استعمال (ہارس ٹریڈنگ) سے لے کر سیاسی مخالف کونسلروں کے اغوا اور غائب ہونے کی خبروں، ثبوتوں اور الزامات سے میڈیا بھرا پڑا ہے۔ خصوصاً تحریک انصاف سے جماعت اسلامی کے میئرشپ کے انتخاب پر اتحاد کے بعد تو کوئی راہ نہیں بچی کہ پی پی کا میئر منتخب ہو لیکن صوبائی وزراء کے دعوئوں کے مطابق 100 فیصد ان کا میئر بننے والا ہے۔ پی پی اپنے جمہوری ہونے کی دعویدار تو بہت ہے لیکن اس کا ہی نہیں اصل میں تو زخمی آئین کا ٹیسٹ ہونے کو ہے۔ 15 جون کا یہ انتخابی معرکہ پاکستان میں شدت سے ملک میں مطلوب آئینی عمل کی بحالی کا نکتہ آغاز بھی بن سکتا ہے۔ لیکن اگر آئی سی یو میں پڑے مریض کی حکومتی مرضی سے بنی کوئی ٹیلر میڈ رپورٹ آگئی تو کراچی ہی نہیں پورے ملک پر اللّٰہ رحم فرمائے۔ وماعلینا الالبلاغ ۔
ڈاکٹر مجاہد منصوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
عمران خان کی نا اہلی
پاکستانی جمہوریت کا المیہ یہ رہا کہ اس کے مقدر میں ہمیشہ کم نصیبی ہی آئی۔ پروڈا اور ایبڈو جیسے کالے قوانین ماضی میں جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوئے۔ آج کے زمانے میں نیب وہی کچھ کر رہا ہے جو ماضی میں ایبڈو کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ ہماری جمہوریت کے دامن میں نااہلیاں ہیں، پھانسیاں ہیں اور جلاوطنیاں ہیں۔ سزائیں اور کال کوٹھڑیاں ہیں، ہماری جمہوریت کا دامن محترمہ بے نظیر بھٹو کے دن دہاڑے قتل کے خون سے رنگین ہے اور میاں نواز شریف کی بار بار سزا کا داغ بھی اس کی پیشانی پر نمایاں ہے۔ جمہوریت کے قبرستان میں عمران خان کی نااہلی کی صورت میں ایک تازہ قبر کھودی گئی ہے۔ اب معلوم نہیں اس میں کیا کچھ دفن ہو گا۔ جمہوری روایات مدت ہوئی دم توڑ چکیں، شخصی احترام کی باتیں تو قصۂ پارینہ بن گئیں، اب اس دور میں اور کیا کچھ دفن ہونا ہے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ماضی میں بھٹو کی پھانسی پر عوامی اتحاد نے مٹھائیاں بانٹی تھیں، نواز شریف کی تاحیات نااہلی پر تحریک انصاف نے جشن منایا تھا، اسی طرح عمران خان کی نااہلی پر پی ڈی ایم کی اتحادی پارٹیاں شاداں و فرحاں نظر آ رہی ہیں۔
ہمارے سیاسی جماعتوں کے قائدین یہ کب سمجھیں گے کہ ہمارے نظام انصاف نے کبھی جمہوریت کی شان میں اضافہ نہیں کیا۔ اب پھر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کے لیے پر تولے جا رہے ہیں۔ کوئی تو صاحبِ دانش ہو، جو اس کلاس کو یہ بتائے کہ ان کے سیاسی مسائل کا حل عدالتوں کے پاس نہیں بلکہ عوام کے ووٹ کی طاقت میں ہے۔ آخر کب تک انصاف کی راہداریوں میں سیاستدان بے لباس ہوتے رہیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو کب ہوش آئے گا کہ وہ اپنے باہمی تنازعات کے حل کیلئے گیٹ نمبر 4 کی طرف یا عدالتوں کی طرف دیکھنے کی بجائے عوام سے رجوع کریں کیوں کہ جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ تو عوام ہیں۔ پاکستان الیکشن کمیشن نے گزشتہ جمعہ کے روز سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس کیس میں متفقہ فیصلے کے ذریعے نااہل قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں ان کی وہ نشست خالی قرار دے دی جس سے وہ پہلے سے ہی مستعفی ہو چکے تھے۔
وہ حالیہ ضمنی انتخاب میں جیتی ہوئی چھ نشستوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے جن پر ابھی انہوں نے حلف ہی نہیں اٹھایا۔ اب یہ بحث اپنی جگہ پر موجود ہے کہ آیا الیکشن کمیشن کسی کو نااہل قرار دینے کا مجاز ہے یا نہیں، دوسری طرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں عمران خان کے خلاف فوجداری مقدمہ چلائے جانے کا بھی امکان ہے۔ آرٹیکل 63/1-P کے تحت نااہلی موجودہ اسمبلی کی دستوری میعاد پوری ہونے تک رہے گی جب کہ فوجداری مقدمہ چلنے کی صورت میں الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 174 کی رو سے کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب شخص کو تین سال قید اور ایک لاکھ تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ ان قانونی نکات کے باوجود یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس طرح کے احکامات سے نہ تو سیاسی جماعت ختم کی جا سکتی ہے نہ ہی کسی سیاسی شخصیت کا کیریئر ختم کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی لیکن انکی پارٹی آج بھی زندہ ہے۔ میاں نواز شریف جلاوطن ہوئے، پھر نااہل ہوئے، ایک مرتبہ پھر جلاوطنی اختیار کی، لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ نون اپنی جگہ پر قائم ہے، یہ الگ بات ہے کہ میاں شہباز شریف کے بعض عوام دشمن اقدامات کی بدولت عوام میں مسلم لیگ نون کی مقبولیت کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عمران خان کو نااہل کر کے وہ ان کی سیاست ختم کر دے گا تو یہ سوچ درست نہیں۔ نااہلی کے فیصلے کے باوجود عمران خان آج ملک کا مقبول ترین لیڈر ہے، جس کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبولیت حاصل ہے۔ اس نوعیت کے متنازع فیصلے کبھی عوام میں مقبول نہیں ہو سکے۔ اگر ان فیصلوں کی کوئی وقعت ہوتی تو ’’عاصمہ جہانگیر کانفرنس‘‘ میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، جسٹس قاضی فائز عیسٰی یہ نہ کہتے کہ عدالتوں کے ذریعے نواز شریف کو غلط سزا دلوائی گئی۔جسٹس عیسٰی کا عدالتی سیاسی فیصلوں پر کھلا تبصرہ یہ بتا رہا ہے کہ عدالت، عظمیٰ ہو یا عالیہ، اب ان فیصلوں کا مزید بوجھ اٹھانے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان کی عدالتوں میں اب یہ بات کھلے عام کہی جانے لگی ہے کہ عدلیہ کے ماضی میں کیے گئے فیصلوں سے ملک میں جمہوریت عدم استحکام کا شکار ہوئی۔اس لئے سیاستدانوں کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک نئے جمہوری اور آئینی میثاق پر اتفاق کرنا ہو گا۔ تب ہی پارلیمنٹ کا وقار بحال ہو گا۔ اگر سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جھگڑے کوئی اور ادارہ نمٹاے گا تو انہیں یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس سے جمہوریت کا ادارہ روز بروز طبعی موت کی طرف بڑھتا جائے گا۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ اس نوعیت کی متنازع مداخلت سے نہ تو ملک کی جمہوریت کو استحکام نصیب ہوا اور نہ ہی آئندہ ممکن ہے۔ ایسے غیر جمہوری اقدامات سے نہ بھٹو کو سیاست کے میدان سے نکالا جا سکا، نہ نواز شریف کا کردار ختم کیا جا سکا اور نہ ہی عمران خان کو بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو آئندہ کا سیاسی منظر نامہ تشکیل دینے کیلئے مل بیٹھنا ہو گا۔
اگرچہ سیاسی میدان سے کوئی اچھی خبر نہیں ملی تاہم اس خبر نے پوری قوم کو سرشار کر دیا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔ایف اے ٹی ایف کے شکنجے سے نکلنے کیلئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ مسلم لیگ نون کے آخری دور میں جب پاکستان کو ایف اے ٹی ایف نے اپنے شکنجے میں لیا تھا تب اس کی کوئی سمت واضح نہ تھی۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے نہ صرف تمام اداروں کو منظم کیا بلکہ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے دیئے گئے اہداف کو مقررہ مدت سے پہلے ہی مکمل کر لیا۔ اس خوشخبری پر آرمی چیف مبارکباد کے مستحق ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کی حکومت اور دفتر خارجہ بھی تحسین کا حقدار ہے جن کی محنتیں رنگ لائیں اور پاکستان عالمی برادری میں سرخرو ہوا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
googlynewstv · 2 months
Text
مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل تیار
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست تیار کرلی۔ ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن کمیشن  کی جانب سے نظر ثانی درخواست آئندہ چند روز میں سپریم کورٹ میں دائر کیے جانے کا امکان ہے ۔مخصوص نشستوں  کے 12 جولائی کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی دائر کرنے کی آخری تاریخ 11 اگست ہے۔ الیکشن کمیشن کا نظر ثانی کی درخواست کے لیے وکیل کی خدمات کے لیے 3 ناموں پر غور…
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ 14 مارچ کو طے کی جائے گی: گورنر
نوشہرہ: خیبرپختونخوا (کے پی) کے گورنر حاجی غلام علی نے جمعہ کو کہا کہ وہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کی تصدیق کے لیے اگلے ہفتے چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سے بات کریں گے۔ نوشہرہ پریس کلب کے صحافیوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آئینی مدت کے اندر انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا اور حکومت نے اس فیصلے کو من و عن تسلیم کیا۔ 8 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
معیشت اور جمہوریت کو بچانے کا چیلنج؟
Tumblr media
پاکستان میں توقع یہی تھی کہ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد ملکی حالات میں بہتری آجائے گی اور اس کے باعث معاشی مشکلات بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جائیں گی، اِس طرح پاکستان میں پُرامن باشعور جمہوریت پسند رحجان معاشرے میں فروغ پائے گا، جس کے باعث صنعتی و تجارتی شعبہ کی سرگرمیاں بھی مثبت سمت پر شروع ہو پائیں گی، مگر یہاں’’ اُلٹی ہو گئیں سب تدبریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘ اور ملکی تاریخ میں ایک بارپھر الیکشن تنازع ہو گئے، اس بار تو کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ ہارنے والے تو شور مچاتے ہی ہیں جتنے والے بھی اندر ہی اندر سے گھبرائے اور پریشان پریشان نظر آرہے ہیں، انتخابات کے بعد یہ سب کچھ نہ ہوتا تو پاکستان اور عوام کیلئے اچھا ہوتا، اس سے اندرون ملک تو ہمارے 25 کڑور سے زائد عوام پر یشان ہیں اور انہیں روز مرہ مہنگائی اور بے روزگاری نے کئی مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے، اصل پریشانی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور اُن کے خاندانوں کو ہے ، میں ابھی آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں آٹھ دس ہفتے گزار کر آیا ہوں ، وہاں جمہوریت سے زیادہ ریاست کو عوام کو معاشی ریلیف اور Peace of Mind کی فکر ہے، وہاں ہر شخص روزگار کمانے میں مصروف ہے، وہاں ٹریفک اور روزمرہ زندگی میں مثالی ڈسپلن نظر آتا ہے، 
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آسٹریلیا ہو یا نیوزی لینڈ یا دیگر کئی ترقی یافتہ مغربی ممالک وہاں پاکستان اور پاکستانیوں کے حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھی جاتی بلکہ اس سے پاکستان کا امیج سنورنے کی بجائے بگڑتا جا رہا ہے، یہ بات ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے جس پر قومی اداروں کو ایک سوچ کے تحت کوئی کام کرنا ہو گا، ہمارے سیاسی نظام میں بڑھتی ہوئی ناہمواری ایک قومی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، قومی معاشی مسائل حل ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اندرون ملک تو عوام کی ایک بڑھتی تعداد جمہوریت ہی سے بیزار نظر آرہی ہے، جبکہ عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے معاشی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں، اب وہ بھی پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کو قومی وسائل کا ضیاع سمجھ رہے ہیں، اس سارے پس منظر میں پاکستان کے جمہوری نظام کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جو ایک مثبت سوچ نہیں ہے اس سوچ کو دور کرنے کیلئے ہمارے سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر سیاسی کشیدگی اور مختلف اداروں پر نام لئے بغیر عدم اعتماد کے اظہار کے رحجان کو دور کرنا ہو گا، 
Tumblr media
دنیا بھر میں جمہوری نظام میں کئی جماعتیں ہوتی ہیں لیکن وہاں کی جمہوری سیاسی جماعتیں خود اپنے آپ کو ٹھیک کرنے پر فوکس کرتی ہیں، اگر دنیا بھر میں ایسا ہو سکتا ہے تو پھر پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا، اس وقت خدشہ یہ ہے کہ اگر وفاق اور صوبوں میں کوئی مستحکم حکومت نہ ہوئی تو سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور پاکستان کے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ نئے قرضوں کے حصول اور پرانے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے پلان متاثر ہو سکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ریاست اور عوام سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور پھر سرکاری اداروں کے دعوئوں کے برعکس خوفناک قسم کی مہنگائی کا سیلاب آئے گا، جس سے سب سے زیادہ جمہوریت متاثر ہو گی، اس لئے پاکستان کو بچانا ہے تو جمہوریت کو بچانا پڑے گا، چاہے اس کیلئے شراکت اقتدار کا فارمولا ہو یا مشاورت کا سلسلہ ہو، سب چیزوں پر اتفاق رائے ضروری ہے، اس سلسلے میں قومی سطح پر قومی اداروں اور سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر ایک متوازن اصلاحاتی نظام وضع کرنا ہو گا اس سے پاکستان میں زوال پذیر حالات شاید بہتری کی طرف چلے جائیں، اس وقت ہم سب کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ پاکستان کو ناکام ریاست بننے سے کیسے بچایا جائے۔ 
پاکستان الحمد للہ قدرتی وسائل سے مالا مال مثالی ملک ہے اس کے پاس 60 فیصد سے زائد یوتھ ہے، یہ اثاثہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس بھی نہیں ہے، لیکن وہاں اس کے باوجود قومی ترقی کو ذاتی مفادات اور کاروبار پر ترجیح دی جاتی ہے کاش یہ سب کچھ پاکستان میں بھی ہو جائے، اور قومی وسائل قوم پر ہی استعمال کرنے کے قوانین اور نظام بن جائے، پھر عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ جمہوریت ہے یا نہیں، عوام کو روٹی ، سیکورٹی اور ذہنی سکون چاہئے اور یہ سب کچھ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست کو یہ سمجھنا ہو گا۔
سکندر حمید لودھی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
ثریا بی بی چترال سے جنرل الیکشن پر جیتنے والی پہلی خاتون
غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق خیبرپختونخوا کے علاقے اپر چترال سے پہلی بار خاتون امیدوار جنرل نشست پر کامیاب ہوگئیں۔ آزاد امیدوار ثریا بی بی نے صوبائی حلقے پی کے ون اپر چترال سے 18 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرکے جمعیت علما اسلام  کے امیدوار کو شکست دی۔ ثریا بی بی چترال کی تاریخ کی پہلی خاتون بن گئیں جنہوں نے جنرل نشست پر انتخاب جیتا۔ ثریا بی بی کی جیت پر علاقے میں جشن کا سماں ہے جب کہ صوبے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
الیکشن کی تاریخ دے کر ریاست کو مشکلات میں نہیں ڈال سکتا، گورنر کے پی
مردان : گورنر خیبرپختونخوا غلام علی نے کہا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دے کر ریاست کو مشکلات میں نہیں ڈال سکتا، کوشش ہے کہ تمام جماعتوں کو ایک میز پر بٹھا سکوں۔ یہ بات انہوں نے مردان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ مانیں گے، امید ہے اعلیٰ عدالت کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرے گی جس سے انارکی پھیلے۔ گورنرخیبرپختونخوا نے کہا کہ چار سال میں سیاست کی اقدار کو ملیا میٹ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes