Tumgik
#اوورسیز پاکستانی
urduchronicle · 11 months
Text
سمندر پار پاکستانیوں کے لیے سرکاری ہاؤسنگ سکیموں میں 10 فیصد کوٹہ، ایئرپورٹس پر کاؤنٹرز، جائیداد مسائل کے لیے خصوصی عدالتیں
وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے اقتدار کےآخری دن سمندر پار پاکستانیوں کے لیے پبلک سیکٹر ہاؤسنگ سکیموں میں 10فیصد کوٹہ مختص کرنے کا اعلان کردیا۔ سمندر پار پاکستانیوں کی جائیدادوں کے مسائل کے حل کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی،سمندر پار پاکستانیوں کے لیے چیف سیکرٹریز کی سربراہی میں ہاٹ لائن قائم کی جائیں گی۔ اسلام آباد میں ایک تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف نے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے متعدد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jhelumupdates · 4 days
Text
دبئی: ضلع سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد جرمن وسیم بٹ مسلسل تیسری مرتبہ سٹی ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوگئے۔ جرمنی میں 9 جون کو منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے مسلسل تیسری مرتبہ سٹی ممبر اسمبلی بائیڈل برگ منتخب ہو کر کامیابی حاصل کی اور 14768 ووٹ حاصل کئے۔ شہر اقبال کے شاہین وسیم بٹ سیالکوٹ سے تعلیم یافتہ ہیں۔ انہیں مسلسل تیسری بار ہیڈر برگ اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے پر طارق پھابڑہ ھیمبرگ اور تمام اوورسیز پاکستانیوں نے دلی مبارکباد دی ہے۔ انہوں نےشاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے لئے جرمنی میں دل و جان سے کام کیا اور علامہ سرمحمد اقبال کو جرمن قوم سے روشناس کروایا۔ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے نواحی علاقہ چونڈہ سے تعلق رکھنے والے وسیم بٹ نے پہلی بار 2009 میں جرمن انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد بر پانچ سال بعد منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لیتےرہے اور اب تک مسلسل کامیاب ہوئے ہیں۔ سال 2009 سے قبل وسیم بٹ ہائیڈل برگ کی امیگریشن کونسل کے وائس چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ پہلے پاکستانی ہیں جو جرمن شہر کالسرومے کی ہائی کورٹ میں اعزازی جج کے فرائض بھی سر انجام دے رہے ہیں۔ پائیدار ترقی، سماجی انصاف اور شفاف سیاست کے عزم کے ساتھ وسیم بٹ جرمنی میں بھرپور طریقے سے عوامی خدمت میں پیش پیش ہیں لہٰذا عوام نے بھی ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان پر تیسری بار اعتماد کرتے ہوئے انہیں کامیاب کیا ہے۔
0 notes
googlynewstv · 25 days
Text
پاکستانی روپیہ ایشیا کی بہترین کرنسی قرار دیدیاگیا
1سال کے دوران امریکی ڈالر کے خلاف پاکستانی روپیہ ایشیا کی بہترین کرنسی کے طور پر ابھرا ہے رپورٹ کے مطابق روپے کی قدر بڑھانے میں  روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے 8 ارب ڈالر کی غیر ملکی کرنسی کی آمد نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ مرکزی بینک نے بتایا کہ ستمبر2020 میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ متعارف کرانے کے بعد سے اب تک 45 ماہ میں اوورسیز پاکستانی اس کے ذریعے 8 ارب ڈالر سے زائد کی رقم بھیج چکے ہیں، عیدالاضحیٰ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 2 months
Text
پاکستانی بھکاریوں کے دنیا میں چرچے
Tumblr media
بیرون ملک پاکستانی بھکاریوں کے بارے میں حالیہ خبر نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں کہ ’’خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں گرفتار کئے جانے والے 90 فیصد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔‘‘ یہ ہوشربا انکشاف گزشتہ دنوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیوں کے اجلاس میں سامنے آیا اور سیکریٹری اوورسیز ذوالفقار حیدر نے اجلاس میں شریک حکام کو مزید حیرت زدہ کر دیا کہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی حدود سے گرفتار کئے جانے والے اکثر پاکستانی بھکاری جیب کترے تھے جو عازمین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے پکڑے گئے۔ سیکریٹری اوورسیز کے مطابق صرف رمضان المبارک میں سعودی عرب کی پولیس نے 202 بھکاریوں جن میں 90 خواتین بھی شامل تھیں، کو گرفتار کر کے پاکستان ڈی پورٹ کیا جو عمرہ کے ویزے پر سعودی عرب گئے تھے اور زیارات کے مقامات پر بھیک مانگنے اور جیب کاٹنے میں ملوث تھے۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ پاکستانی پیشہ ور بھکاریوں کی سرگرمیاں صرف سعودی عرب تک محدود نہیں بلکہ یو اے ای بھی پھیل گئی ہیں۔ صرف رمضان المبارک کے دوران یو اے ای میں پہلے دو عشروں میں 200 سے زیادہ پیشہ ور پاکستانی بھکاری پکڑے اور 5 ہزار درہم جرمانہ کی ادائیگی کے بعد ڈی پورٹ کئے گئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ 
یہ بھکاری یو اے ای کی نرم ویزا پالیسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئے تھے تاکہ لوگوں کی رحمدلی کا فائدہ اٹھا کر بھاری رقم بٹوری جاسکے۔ سعودی عرب اور یو اے ای حکام نے پاکستانی حکام کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے اور اور درخواست کی ہے کہ گداگروں کو ان ممالک میں آنے سے روکا جائے کیونکہ ان کی جیلیں پاکستانی بھکاریوں سے بھری ہوئی ہیں اور اطلاعات ہیں کہ پکڑے جانے والے بھکاریوں کو اب پاکستانی قونصلیٹ اور سفارتخانوں کے حوالے کیا جارہا ہے جبکہ یو اے ای حکومت نے پاکستانیوں کیلئے ویزے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ اسی طرح ایران اور عراق سے بھی ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ ان ممالک میں بھی زیارت کے نام پر وہاں جا کر گداگری کا پیشہ اختیار کرنے والے پاکستانیوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور ان ممالک کی حکومتوں نے بھی حکومت ِپاکستان سے شکایت کی ہے۔ گزشتہ دنوں ایف آئی اے کے حوالے سے یہ خبر منظر عام پر آئی کہ ملتان ائیرپورٹ پر عمرے کی آڑ میں سعودی عرب جانے والے بھکاریوں کے ایک گروہ کو آف لوڈ کر دیا گیا۔ ایف آئی اے ترجمان کا کہنا تھا کہ ان مسافروں سے امیگریشن حکام کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ افراد بھیک مانگنے کیلئے سعودی عرب جارہے تھے جہاں ایجنٹ ان کا منتظر تھا اور بھیک کی آدھی رقم اس ایجنٹ کو دینی تھی۔ 
Tumblr media
اطلاعات ہیں کہ یہ ایجنٹ ان افراد سے بیرون ملک بھیجنے کیلئے بھاری رقم وصول کرتے ہیں اور یہ ایجنٹ ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ اسی طرح یو اے ای سے ڈی پورٹ کئے جانے والے پاکستانی بھکاریوں نے فی کس 5 ہزار درہم جو تقریباً 4 لاکھ روپے بنتے ہیں، جرمانہ یو اے ای حکومت کو ادا کیا۔ اس طرح اگر ٹکٹ، ویزا، رہائش اور ٹرانسپورٹ اخراجات بھی شامل کر لئے جائیں تو ایک بھکاری پر 10 لاکھ روپے بنتے ہیں جو معمولی رقم نہیں اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ عرب ممالک میں پکڑے جانے والے غریب افراد نہیں بلکہ فیملی سمیت عرب ممالک جا کر پیشہ ور بھکاری کا روپ دھار لیتے ہیں اور صاحب حیثیت لوگوں کو دیکھ کر انہیں اپنی دکھ بھری داستان سناتے اور بھاری رقم بٹورتے ہیں۔ بھارتی میڈیا بھی پاکستانی بھکاریوں کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی خبروں کوخوب مرچ مسالہ لگا کر پیش کر رہا ہے اور مختلف وی لاگ میں تضحیک آمیز تبصرے کئے جارہے کہ پاکستان دنیا کو بھکاری (Beggars) ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ 
اس طرح کے تبصرے پاکستان کی تضحیک کا سبب بن رہے ہیں جس سے نہ صرف ملک کی ساکھ مجروح ہو رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ خلیجی ممالک میں ان واقعات کے بعد وہاں مقیم پاکستانی ورکرز کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے اور انہیں خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں بھیک مانگنے پر 3 سال قید کی سزا ہے مگر وکلاء اور پولیس حکام کے بقول ان پیشہ ور بھکاریوں کو یہ سزا کم ہی ملتی ہے اور وہ معمولی جرمانہ ادا کر کے دوبارہ اپنا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ پیشہ ور بھکاریوں اور اس دھندے میں ملوث مافیا سے سختی سے نمٹا جائے اور سخت قوانین مرتب کئے جائیں تاکہ یہ افراد ملک کی بدنامی کا سبب نہ بن سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیشہ ور بھکاریوں، جو وبا کی صورت اختیار کر گئے ہیں، کے خاتمے کیلئے بھی موثر اقدامات کیے جائیں اور ان ایجنٹس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جو لوگوں کی غربت کا فائدہ اٹھاکر انہیں گداگری کیلئے اکسا رہے ہیں۔ اسی طرح خلیجی ممالک سے ڈی پورٹ کئے جانے والے بھکاریوں کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے تاکہ یہ افراد دوبارہ ان ممالک کا سفر نہ کر سکیں۔
مرزا اشتیاق بیگ 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 4 months
Text
پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟
Tumblr media
اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔ تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر آپ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟
کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 برس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2018 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔ گویا معاشی ترقی کی شرح آبادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔
Tumblr media
اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے۔ چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔ البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
کئی ’ریٹائرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔ اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔ میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔ ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیتے تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )
صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔
 وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
cryptosecrets · 1 year
Text
اوورسیز پاکستانی ترک بھائیوں کی مدد میں پیش پیش -
ہیوسٹن : اوورسیز پاکستانیوں نے ترکی کے زلزلہ متاثرین کے لیے امدادی سامان ترک قونصل خانے کے حوالے کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق اوورسیز پاکستانی ترک بھائیوں کی مدد میں پیش پیش ہے،ہیوسٹن میں ترکی کے زلزلہ متاثرین کے لیے امدادی سامان پر مشتمل پہلی کھیپ ترک قونصل خانے کے حوالے کر دی گئی۔ یہ امدادی سامان پاکستانی کمیونٹی آرگنائزیشنز پر مشتمل الائنس فار ڈیزاسٹر ریلیف کی جانب سےحوالے کیا گیا۔ اس سے قبل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 1 year
Text
پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریوں اور مقدمات کے خلاف امریکا میں اوورسیز پاکستانی سراپا احتجاج
ٹیکساس: اوورسیز پاکستانیوں نے پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریوں اور مقدمات کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور کہا ہم تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریوں اور مقدمات کے خلاف امریکا میں اوورسیز پاکستانی سراپا احتجاج ہیں۔ ریاست ٹیکساس کےشہر آسٹن میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ،اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ حکومت الیکشن سے فرار چاہتی ہے، پی ٹی آئی رہنماؤں کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
لندن میں پاکستانی صحافیوں کا عماد یوسف سے اظہار یکجہتی
پاکستان پریس کلب لندن اور دیگر تنظیموں سے وابستہ اوورسیز پاکستانی صحافیوں نے اے آر وائی کے ہیڈ آف نیوز سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔ اے آر وائی کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف کے خلاف درج بے بنیاد مقدمات کے خلاف پاکستان پریس کلب لندن اور دیگر تنظیموں سے وابستہ اوورسیز پاکستانی صحافیوں نے عماد یوسف سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔ اوور سیز پاکستانیوں نے عماد یوسف کے خلاف بے بنیاد مقدمات کو آزادی صھافت کا گلا دبانے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 1 year
Text
’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی انڈین ریلیز تعلقات بڑھانے کا ذریعہ بنے گی، فواد خان
’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی انڈین ریلیز تعلقات بڑھانے کا ذریعہ بنے گی، فواد خان
فلم کی تاریخ ساز کامیابی کا اثر پاکستانی سینما پر پڑے گا ، فواد خان (فوٹو: ٹویٹر)  لاہور: پاکستانی سپر اسٹار فواد خان نے کہا ہے کہ ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی انڈیا میں ریلیز دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان تعلقات بڑھانے کا ایک بہترین طریقہ ثابت ہوگی۔ امریکی چینل کو انٹرویو کے دوران اداکار کا کہنا تھا کہ یہ ریلیز اسی طرح ہوگی جس طرح عید یا دیوالی کے موقع پر اوورسیز انڈین اور پاکستانی ایک دوسرے کو کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Text
وزیر اعظم شہباز شریف کی نواز شریف سے ملاقات
وزیر اعظم شہباز شریف کی نواز شریف سے ملاقات
London : Prime Minister Shehbaz Sharif meeting with Nawaz Sharif. لندن میں اوورسیز پاکستانی خواتین نے مریم اورنگزیب کو گندی گندی گالیاں دیں Prime Minister Shehbaz Sharif meeting with Nawaz Sharif | Pakistan Prime Minister Shehbaz Sharif Meets Nawaz Sharif In London
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jhelumupdates · 5 days
Text
برسلز: بیرون وطن موجود پاکستانی ڈائس پورہ کے ایک بڑے حصے نے حکومت کی جانب سے اسائلم سیکرز کیلئے پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے کی پابندی کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ میڈیا کو بھیجے گئے پیغامات اور اپنی گفتگو میں پاکستانی ڈائسپورہ نے اس عمل کو دیار غیر میں موجود پاکستانیوں کی زندگی کو مزید خطرات میں دھکیلنے کے مترادف قرار دیا۔ انہوں نےکہاکہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے لے کر آج تک بیرون ملک سے زرمبادلہ کما کر لانے کے نام پر ، ملک کے اندر پہلے تو ایک ماحول بنایا گیا اور اسے بڑے فخر سے بیان کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی گئی لیکن دوسری جانب ملک کی معاشی خراب حالت کے سبب جب بہت سے نوجوان باہر نکلے ہیں تو اب ان کی شہریت ہی سے انکار کرکے انہیں غلط لوگوں کیلئے تر نوالہ بنا دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد بڑی تعداد میں موجود پاکستانی اسائلم سیکرز کے سبب پاکستان کی شہرت کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنا ہے کیونکہ جو شخص بھی پاکستان کے باہر اپنا اسائلم کیس کرواتا ہے تو وہ اس کیلئے پاکستان اور پاکستانی حکومت کے اقدامات کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے ۔ دوسری جانب پاکستان نے یورپین یونین سے ری ایڈمشن ایگریمنٹ بھی سائن کر رکھا ہے جس کے باعث اس سے اپنے غیر مقیم شہری واپس لینے کا تقاضا کیا جاتا ہے لیکن اسائلم سیکرز ایک ملک میں اپنی اپیل جمع کروانے کے بعد کسی دوسرے ملک میں شفٹ ہوجاتے ہیں اور وہاں کی ایمبیسی سے گمشدگی کی رپورٹ دکھا کر نیا پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد نیا کیس اپلائی کر دیتے ہیں جو ملک کی شہرت کیلئے مسلسل نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ ذرائع کے ان دلائل کے جواب میں پاکستانی ڈائس پورہ کا کہنا یہ ہے کہ جس ملک کے دو بڑے آئینی عہدیدار یعنی صدر مملکت اور وزیراعظم اپنی غیر ملکی رہائش گاہوں کے سبب خود غیر مستقل اوورسیز ہوں اور اپنا ہر برا وقت ملک سے باہر جاکر گزارتے ہوں انہیں اپنے دیگر ہم وطنوں کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے ایک بڑی مشاورت کا اہتمام ضرور کر لینا چاہئے تھا۔
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
الخدمت فاؤنڈیشن
ہجومِ نالہ میں یہ ایک الخد مت فاؤنڈیشن ہے جو صلے اور ستائش سے بے نیاز بروئے کار آتی ہے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلاف ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ زلزلہ ہو یا سیلاب آئے یہ اس سماج کے گھائل وجود کا اولین مرہم بن جاتی ہے۔ خد مت خلق کے اس مبارک سفر کے راہی اور بھی ہوں گے لیکن یہ الخدمت فاؤنڈیشن ہے جو اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ مبالغے سے کوفت ہوتی ہے اور کسی کا قصیدہ لکھنا ایک ایساجرم محسوس ہوتا ہے کہ جس سے تصور سے ہی آدمی اپنی ہی نظروں میں گر جائے۔ الخدمت کا معاملہ مگر الگ ہے ۔ یہ قصیدہ نہیں ہے یہ دل و مژگاں کا مقدمہ ہے جو قرض کی صورت اب بوجھ بنتا جا رہا تھا۔ کتنے مقبول گروہ یہاں پھرتے ہیں۔ وہ جنہیں دعوی ہے کہ پنجاب ہماری جاگیر ہے اور ہم نے سیاست کو شرافت کا نیا رنگ دیا ہے ۔ وہ جو جذب کی سی کیفیت میں آواز لگاتے ہیں کہ بھٹو زندہ ہے اور اب راج کرے گی خلق خدا، اور وہ جنہیں یہ زعم ہے کہ برصغیر کی تاریخ میں وہ پہلے دیانتدار قائد ہیں اور اس دیانت و حسن کے اعجاز سے ان کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ بلے پر دستخط کر دیں تو کوہ نور بن جائے۔
ان سب کا یہ دعوی ہے کہ ان کا جینا مرنا عوام کے لیے ہے۔ ان میں کچھ وہ ہیں جو عوام پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ تو شہنشاہوں جیسی زندگی گزار رہے تھے، ان کے پاس تو سب کچھ تھا وہ تو صرف ان غریب غرباء کی فلاح کے لیے سیاست کے سنگ زار میں اترے ۔ لیکن جب اس ملک میں افتاد آن پڑتی ہے تو یہ سب ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ جن کے پاس سارے وسائل ہیں ان کی بے نیازی دیکھیے ۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو مل کر ایک ہیلی کاپٹر سے آٹے کے چند تھیلے زمین پر پھینک رہے ہیں۔ ایک وزیر اعظم ہے اور ایک وزیر خارجہ ۔ ابتلاء کے اس دور میں یہ اتنے فارغ ہیں کہ آٹے کے چند تھیلے ہیلی کاپٹر سے پھینکنے کے لیے انہیں خود سفر کرنا پڑا تا کہ فوٹو بن جائے، غریب پروری کی سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ فوٹو شوٹ سے انہیں اتنی محبت ہے کہ پچھلے دور اقتدار میں اخباری اشتہار کے لیے جناب وزیر اعلی شہباز شریف کے سر کے نیچے نیو جرسی کے مائیکل ریوینز کا دھڑ لگا دیا گیا تا کہ صاحب سمارٹ دکھائی دیں ۔ دست ہنر کے کمالات دیکھیے کہ جعل سازی کھُل جانے پر خود ہی تحقیقات کا حکم دے دیا ۔ راز کی یہ بات البتہ میرے علم میں نہیں کہ تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلا۔
ہیلی کاپٹرز کی ضرورت اس وقت وہاں ہے جہاں لوگ پھنسے پڑے ہیں اور دہائی دے رہے ہیں ۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر یہ اہل سیاست سیلاب زدہ علاقوں میں کیا دیکھنے جاتے ہیں ۔ ابلاغ کے اس جدید دور میں کیا انہیں کوئی بتانے والا نہیں ہوتا کہ زمین پر کیا صورت حال ہے ۔ انہیں بیٹھ کر فیصلے کرنے چاہیں لیکن یہ ہیلی کاپٹر لے کر اور چشمے لگا کر ”مشاہدہ“ فرمانے نکل جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا فائدہ کیا ہے؟ کیا سیلاب کو معطل کرنے جاتے ہیں؟ یا ہواؤں سے اسے مخاطب کرتے ہیں کہ اوئے سیلاب، میں نے تمہیں چھوڑنا نہیں ہے۔ سندھ میں جہاں بھٹو صاحب زندہ ہیں، خدا انہیں سلامت رکھے، شاید اب کسی اور کا زندہ رہنا ضروری نہیں رہا ۔ عالی مرتبت قائدین سیلاب زدگان میں جلوہ افروز ہوتے ہیں تو پورے پچاس روپے کے نوٹ تقسیم کرتے پائے جاتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیسے لوگ ہیں ۔ ان کے دل نہیں پسیجتے اور انہیں خدا کا خوف نہیں آتا؟ وہاں کی غربت کا اندازہ کیجیے کہ پچاس کا یہ نوٹ لینے کے لیے بھی لوگ لپک رہے تھے۔ 
یہ جینا بھی کوئی جینا ہے۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے جو ہمارے لوگ جی رہے ہیں۔ کون ہے جو ہمارے حصے کی خوشیاں چھین کر مزے کر رہا ہے ۔ کون ہے جس نے اس سماج کی روح میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں؟ یہ نو آبادیاتی جاگیرداری کا آزار کب ختم ہو گا؟ ٹائیگر فورس کے بھی سہرے کہے جاتے ہیں لیکن یہ وہ رضاکار ہیں جو صرف سوشل میڈیا کی ڈبیا پر پائے جاتے ہیں ۔ زمین پر ان کا کوئی وجود نہیں۔ کسی قومی سیاسی جماعت کے ہاں سوشل ورک کا نہ کوئی تصور ہے نہ اس کے لے دستیاب ڈھانچہ۔ باتیں عوام کی کرتے ہیں لیکن جب عوام پر افتاد آن پڑے تو ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ محاورہ بہت پرانا ہے لیکن حسب حال ہے۔ یہ صرف اقتدار کے مال غنیمت پر نظر رکھتے ہیں ۔ اقتدار ملتا ہے تو کارندے مناصب پا کر صلہ وصول کرتے ہیں۔ اس اقتدار سے محروم ہو جائیں تو ان کا مزاج یوں برہم ہوتا ہے کہ سر بزم یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمیں اقتدار سے ہٹایا گیا ہے اب فی الوقت کوئی اوورسیز پاکستانی سیلاب زدگان کے لیے فنڈز نہ بھیجے۔
ایسے میں یہ الخدمت ہے جو بے لوث میدان عمل میں ہے ۔ اقتدار ان سے اتنا ہی دور ہے جتنا دریا کے ایک کنارے سے دوسرا کنارا ۔ لیکن ان کی خدمت خلق کا طلسم ناز مجروح نہیں ہوتا ۔ سچ پوچھیے کبھی کبھی تو حیرتیں تھام لیتی ہیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ حکومت اہل دربار میں خلعتیں بانٹتی ہے اور دربار کے کوزہ گروں کو صدارتی ایوارڈ دیے جاتے ہیں ۔ اقتدار کے سینے میں دل اور آنکھ میں حیا ہوتی تو یہ چل کر الخدمت فاؤنڈیشن کے پاس جاتا اور اس کی خدمات کا اعتراف کرتا۔ لیکن ظرف اور اقتدار بھی دریا کے دو کنارے ہیں ۔ شاید سمندر کے۔ ایک دوسرے کے جود سے نا آشنا ۔ الخدمت فاؤندیشن نے دل جیت لیے ہیں اور یہ آج کا واقعہ نہیں ، یہ روز مرہ ہے ۔ کسی اضطراری کیفیت میں نہیں ، یہ ہمہ وقت میدان عمل میں ہوتے ہیں اور پوری حکمت عملی اور ساری شفافیت کے ساتھ ۔ جو جب چاہے ان کے اکاؤنٹس چیک کر سکتا ہے ۔ یہ کوئی کلٹ نہیں کہ حساب سے بے نیاز ہو، یہ ذمہ داری ہے جہاں محاسبہ ہم رکاب ہوتا ہے۔
مجھے کہنے دیجیے کہ الخدمت فاؤنڈیشن نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے ۔ میں ہمیشہ جماعت اسلامی کا ناقد رہا ہوں لیکن اس میں کیا کلام ہے کہ یہ سماج الخدمت فاؤنڈیشن کا مقروض ہے ۔ سیدنا مسیح کے الفاظ مستعار لوں تو یہ لوگ زمین کا نمک ہیں ۔ یہ ہم میں سے ہیں لیکن یہ ہم سے مختلف ہیں ۔ یہ ہم سے بہتر ہیں ۔ ہمارے پاس دعا کے سوا انہیں دینے کو بھی کچھ نہیں ، ان کا انعام یقینا ان کے پروردگار کے پاس ہو گا۔ الخدمت فاؤنڈیشن کی تحسین اگر فرض کفایہ ہوتا تو یہ بہت سے لوگ مجھ سے پہلے یہ فرض ادا کر چکے ۔ میرے خیال میں مگر یہ فرض کفایہ نہیں فرض عین ہے ۔ خدا کا شکر ہے میں نے یہ فرض ادا کیا۔
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ جسارت
0 notes
pakistan-news · 2 years
Text
اوورسیز پاکستانیوں کے نام
ہمارے اوورسیز پاکستانی بلاشبہ ملک کے بارے میں ہم سے زیادہ حساس ہیں۔ وہ وطن عزیز کے بارے میں بری خبر سن کر تڑپ اٹھتے ہیں، کسی مشکل کا شکار ہوکر ملک مدد کے لیے پکارے تو فوراً لبیک کہتے ہیں اور اس کے لیے مالی ایثار میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے 1998 جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو بتا دیا کہ ’’اب پاکستان ایک ایٹمی قوّت ہے‘‘ تو امریکا اور یورپ نے ہم پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ اُس وقت وزیراعظم نواز شریف نے جب اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’ہمیں عالمی مہاجنوں کی محتاجی قبول نہیں، ہم ان کے سارے قرضے اتار دینگے‘‘ تو پرائم منسٹر آفس میں ہر روز اوورسیز پاکستانیوں کے صرف یہ پوچھنے کے لیے ہزاروں میسج موصول ہوتے تھے کہ ’’ہمیں بینک اور اکاؤنٹ نمبر بتا دیں، جہاں ہم ملک کا قرض اتارنے کے لیے پیسے بھیج سکیں۔‘‘ بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کے انھی جذبوں کے پیشِ نظر انھیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
یہ کالم اسی خواہش پر لکھا گیا ہے کہ ملک کی محبت سے سرشار ہماری یہ انتہائی قابلِ احترام کمیونٹی پھلے پھولے اور وطنِ عزیز کے لیے مذید بہتر، موثر اور تعمیری کردار ادا کر سکے۔ اب میں براہِ راست اپنے اوورسیز بھائیوں، بہنوں اور نوجوانوں سے مخاطب ہوتا ہوں۔ میرے پیارے اور محترم بھائیو اور بہنو! آپ صدیوں سے تسلیم شدہ اس اٹل حقیقت سے تو انکار نہیں کریں گے کہ ’’ہم تقسیم ہوئے تو گر جائیں گے اور متحد رہے تو کھڑے رہیں گے‘‘ یعنی اتحاد میں ہماری طاقت مضمر ہے اور نفاق اور انتشار ہمیں کمزور کر دے گا۔ لہٰذا اگر آپ دبئی ، برطانیہ یا امریکا میں رہتے ہوئے گروہوں میں بٹ جائیں گے، ایک گروہ دوسرے کا گریبان پکڑے گا اور دوسرا گروہ چوکوں اور چوراہوں میں پہلے کے خلاف نعرے لگائے گا اور اپنے ہی ہم وطنوں کو سرِ عام گالیاں دے گا تو کیا اس سے آپ کی اور آپ کے ملک کی عزت میں اضافہ ہو گا؟ کیا اس سے آپ کی جگ ہنسائی نہیں ہو گی؟ کیا دیکھنے والے آپ کا اور آپ کے ملک کا مذاق نہیں اڑائیں گے؟ تلخ حقیقت یہی ہے کہ ایسا کرنے سے اغیار آپ پر ہنسیں گے، اس سے آپ اپنا مذاق بھی بنوائیں گے اور آپ کے ملک کا امیج بھی مسخ ہو گا۔
بھارت میں بھی ہماری طرح سیاست بہت گرم ہے اور سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے سے برسرِپیکار رہتی ہیں، اگر آپ کو لندن کے ٹریفالگر اسکوائر پر یہ تماشا دیکھنے کو ملے کہ مودی کی بی جے پی کے سپورٹرز، راہول گاندھی کی کانگریس پارٹی کے حامیوں پر حملہ آور ہوئے ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا اور جو تم پیزار ہیں، تو دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا آپ اسے اظہارِ رائے کی آزادی قرار دے کر اس کی تحسین کریں گے یا اس کا ٹھٹھہ اڑائیں گے اور اس پر ناپسندیدہ رائے کا اظہار کریں گے؟ آپ یقیناً اس کا مذاق اڑائیں گے، اور بھارت کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو گی۔ مگر آپ ایسا تماشا کبھی نہیں دیکھ پائیں گے کیونکہ وہ کسی کو اپنے ملک کا مذاق اڑانے کا موقع نہیں دیں گے۔ بدقسمتی سے اپنے آپ کو تماشہ بنانے کا اعزاز صرف پاکستانیوں کو حاصل ہے، جرمنی میں بڑی تعداد میں ترک آباد ہیں، ترک قوم بھی طیب اردوان کے حامیوں اور مخالفوں میں تقسیم ہے، اپنے ملک میں وہ کھل کر ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں، مگر کیا کسی نے کبھی جرمنی کے چوکوں اور چوراہوں پر ترکوں کو ایک دوسرے سے دست و گریباں دیکھا ہے؟ 
ہرگز نہیں ، اس لیے کہ وہ ایک شاندار ماضی کے حامل ہیں اور انھیں قابلِ فخر رہنما میسر رہے ہیں اور آج بھی میسرہیں، جنھیں اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ وہ ترکی کی سیاست کو اپنے گھر سے باہر یعنی غیر ملکی سرزمین پر لے جائیں گے اور دیارِ غیر میں ایک دوسرے پر تنقید کریں گے تو پوری دنیا میں خود بھی مذاق کا نشانہ بنیں گے اور ملک کو بھی رسوا کریں گے۔ لہٰذا مہذب قوموں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ ’ہم اختلافی سیاست گھر کے اندر رہ کر کریں گے، اپنے گندے کپڑے دوسرے ملکوں کی سڑکوں اور چوراہوں پر کبھی نہیں دھوئیں گے اور اپنے ادنیٰ سیاسی مقاصد کے لیے اپنے آبائی وطن کو کبھی بے توقیر نہیں ہونے دیں گے‘ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں اور رہنماؤں نے بیرون ملک جانے والے پاکستانی باشندوں کو نہ Ethics کی تربیت دی اور نہ ہی انھیں وہاں پاکستان کی سیاست کرنے اور تقسیم ہونے سے روکا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
آج سے بارہ سال پہلے میں نے ’’خدارا اووسیز پاکستانیوں کو تقسیم نہ کریں‘‘ کے عنوان سے پہلا کالم لکھا تھا جس کی حمایت میں مجھے بیرون ممالک سے سیکڑوں ای میلز موصول ہوئی تھیں، بیرون ممالک رہنے والے پروفیشنلز اور باشعور خواتین و حضرات پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی بیرون ملک شاخیں قائم کرنے اور وہاں پاکستان کی سیاست کرنے اور اس کی وجہ سے باہم اختلاف اور انتشار کا شکار ہونے پر سخت نالاں ہیں۔ یورپ اور امریکا میں تعینات رہنے والے درجنوں پاکستانی سفیروں سے اس موضوع پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا ہے، سب اس چیز کے پرزور حامی ہیں کہ بیرون ممالک میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی شاخیں اور دفاتر بند ہونے چاہیے، انھیں کسی ایسی سرگرمی میں حصہ نہیں لینا چاہیے جو انھیں تقسیم کرے۔ اگر وہ متحد رہیں گے تو ان کی طاقت اور اہمیت میں اضافہ ہو گا اور وہ اپنی کمیونٹی اور ملک کے لیے زیادہ موثر کردار ادا کر سکیں گے۔
چند ماہ پہلے مجھے یورپ کی ایک معیاری یونیورسٹی میں پڑھانے والی ڈاکٹر ارم آفتاب صاحبہ نے ای میل بھیجی تھی، انھوں نے لکھا تھا ’’پاکستان واحد ملک ہے جس کے باشندے برطانیہ میں ایک دوسرے کے خلاف جلوس نکالتے ہیں۔ اتنا دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ قومی تہواروں پر بھی پاکستانیوں نے قومی پرچم کے بجائے اپنی پارٹیوں کے جھنڈے اُٹھائے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیڈروں کو چور اور بدکار کہہ کر گالیاں دیتے ہیں۔ دنیا بھر کا میڈیا ان کا مذاق اڑاتا ہے۔ برطانوی شہری پاکستانیوں کو برطانیہ کی سرزمین پر ایک دوسرے سے دست و گریبان دیکھ کر بڑی حقارت سے کہتے ہیں ’’یہ پاکستانی کس طرح کی قوم ہے‘‘ بھارت کے تارکینِ وطن کی تعداد ہم سے کہیں زیادہ ہے، مگر وہ برطانیہ کی سرزمین پر بھارت کی سیاست نہیں کرتے، وہ متحد ہو کر یہاں کی مقامی سیاست میں حصّہ لیتے ہیں، اسی لیے ان کے ہم سے کہیں زیادہ لوگ پارلیمنٹ کے ممبر ہیں، پاکستانی متحد ہوں تو برٹش پارلیمنٹ کی زیادہ نشستیں جیت سکتے ہیں اور پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں‘‘۔
کچھ عرصہ پہلے ہم نے علامہ اقبال کونسل کی جانب سے اسلام آباد میں ایک سیمینار منعقد کیا تھا جس میں منتخب نمایندوں، دانشوروں اور سینئر صحافیوں کے علاوہ پاکستان کے وہ سفیر حضرات بھی شریک ہوئے جو برطانیہ، امریکا اور مڈل ایسٹ میں خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ تمام شرکاء کا یہ متفقہ موقف تھا کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں میں Polorisation اور تقسیم کم کرنے کی ضرورت ہے، انھیں پاکستانی سیاست میں الجھانے سے ان کے درمیان نفاق بڑھے گا اور ان کی طاقت کمزور ہو گی۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی باشندوں کے درمیان نفرت اور مخاصمت کے کانٹے بونے کے بجائے اتحاد اور یگانگت کا پھول اُگائیں۔ مجھے بارہا برطانیہ جانے اور وہاں برمنگھم، بریڈ فورڈ اور مانچسٹر میں پاکستانیوں کے اجتماعات سے خطاب کرنے کا موقع ملا ہے، اُن سے جب بھی پوچھا کہ برطانیہ میں پاکستانی پارٹیوں کی شاخیں اور دفاتر ہونے چاہئیں؟
تو وہ باآوازِ بلند کہتے تھے ’’ہرگز نہیں ہونے چاہئیں‘‘ برطانیہ میں کئی نسلوں سے مقیم پاکستانی ڈاکٹروں، پروفیسروں اور پروفیشنلز سے بھی رابطہ رہتا ہے، ان کی واضح اکثریت divided loyality کے حامل افراد کو پاکستانی پارلیمنٹ کا ممبر بنانے بلکہ ووٹ کا حق دینے کی حامی نہیں ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت کی مثال دی جاتی ہے، صرف متحدہ عرب امارات میں رہنے والے بھارتی باشندے 42 ارب ڈالر سالانہ اپنے وطن بھیجتے ہیں، مگر انھیں بھارت میں ووٹ کا حق نہیں ہے، کسی بڑے جمہوری ملک میں دہری شہریت رکھنے والوں کو ووٹ کا حق نہیں دیا گیا، اور نہ وہ اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ووٹ کا حق اتنا دلکش نہیں کہ جس کے لیے ہمارے تارکینِ وطن تڑپ رہے ہوں یا پُرزور مطالبہ کر رہے ہوں۔ ووٹ کا حق اوورسیز پاکستانیوں کا مطالبہ نہ کبھی رہا ہے اور نہ اب ہے۔ یہ حق اتنا ہی دلکش ہوتا تو پاکستان میں رہنے والے (جنھیں یہ حق حاصل ہے) تمام شہری یہ حق استعمال کیا کرتے مگر ان میں سے آدھے بھی یہ حق استعمال نہیں کرتے۔
بارہ سال پہلے لکھے گئے کالم میں کیا گیا مطالبہ کچھ ترمیم کے ساتھ آج پھر دہراتا ہوں کہ اگر ہمارے سیاسی رہنما بیرون ملک میں اپنی پارٹیوں کی شاخیں ختم نہیں کرتے تو پھر میں اوورسیز پاکستانیوں سے کہوں گا کہ وہ خود پاکستانی لیڈروں سے مطالبہ کریں کہ پاکستانی سیاست کو پاکستان تک محدود رکھا جائے اور بیرون ملک پاکستانی پارٹیوں کی شاخیں اور دفاتر فوری طور پر بند کیے جائیں۔ غیر ممالک میں پاکستانی باشندے ’’پاکستان سوسائٹی‘‘ کے نام سے منظّم اور متحد ہوں۔ قومی تہواروں پر پاکستانی فیمیلیز جمع ہوں، مگر ان کے ہاتھوں میں صرف پاکستانی پرچم ہوں اور زبان پر صرف پاکستان زندہ باد کے نعرے ہوں۔
ذوالفقار احمد چیمہ    
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
googlynewstv · 3 years
Text
اگست میں ترسیلات زر کا10سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا
اگست میں ترسیلات زر کا10سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا
اوورسیز پاکستانیوں نےمالی سال 2021-22 کے دوسرے ماہ اگست میں بھی 2 ارب ڈالر سے زائد کی رقوم بھجوائی ہیں۔  دس سال بعد اگست کے مہینے میں سب سے زیادہ ترسیلات زر موصول ہوئی ہیں۔ پاکستانیوں نے گزشتہ ماہ ریکارڈ 2.66 ارب ڈالرز بھیجے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ مسلسل چھٹا مہینہ ہے جب اوسطا 2.7 ارب ڈالر کے لگ بھگ ترسیلار زر بھجوائی گئی ہیں۔ نمو کے لحاظ سے اگست…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 3 years
Text
اوورسیز پاکستانیوں کے لیے اسپیشل کورٹس بنانے کا فیصلہ
اوورسیز پاکستانیوں کے لیے اسپیشل کورٹس بنانے کا فیصلہ #Courts #Pakistani #aajkalpk
لاہور: اوورسیز پاکستانیوں کے لئے پنجاب حکومت نے بڑا فیصلہ کرلیا۔ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے پنجاب میں اسپیشل کورٹس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر قانون راجہ بشارت کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے قانون کا اجلاس ہوا جس میں اوورسیز اسپیشل کورٹس کے لیے مسودہ قانون کی منظوری دے دی گئی۔ حکومت پنجاب کے فیصلے کے مطابق آرڈیننس کی منظوری کے بعد اسپیشل کورٹس برائے اوورسیز قائم کی جائیں گی ۔ کوشش ہے غیر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
ملک میں نئی حکومت کیسے بنے گی، شیخ رشید کا اہم بیان
مانچسٹر: عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ نواز شریف برطانیہ میں چھپ چھپ کر جی رہا ہے، پاکستان میں اب نئی حکومت اوورسیز والے بنائیں گے۔ یہ بات انہوں نے مانچسٹر میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، انہوں نے کہا کہ اگر نوازشریف خود ساختہ ہاؤس اریسٹ ہونے کے بجائے اپنے ملک میں جیل کاٹ لیتا تو اچھا ہوتا۔ شیخ رشید نے کہا کہ نوازشریف بیرون ملک میں چھپنے کے بجائے پاکستانی جیل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes