Tumgik
#ترسیلات زر
urduchronicle · 1 year
Text
سمندرپارپاکستانیوں کی ترسیلات زرمیں جون کے دوران ماہانہ بنیادوں پر4 فیصد اضافہ
سمندرپارپاکستانیوں کی ترسیلات زرمیں جون کے دوران ماہانہ بنیادوں پر4 فیصدکی نموریکارڈکی گئی ہے۔سٹیٹ بینک کی جانب سے اس حوالہ سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق جون میں سمندرپارپاکستانیوں کی ترسیلات زرکاحجم 2.184 ارب ڈالرریکارڈکیاگیا جومئی کے مقابلہ میں 4 فیصدزیادہ ہے، مئی میں سمندرپارپاکستانیوں نے2.103 ارب ڈالرکازرمبادلہ ملک ارسال کیاتھا۔گزشتہ سال جون کے مقابلہ میں رواں سال جون میں سمندرپارپاکستانیوں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
آئی ایم ایف نے بجٹ کو مواقع ضائع کرنیوالا بجٹ قرار دیا
Tumblr media
آئی ایم ایف نے بجٹ کو معاشی بحالی کا موقع ضائع کرنے کے مترادف قرار دے دیا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے تجویز کردہ اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی اور قرضوں پر انحصار میں کمی، اور ڈیفالٹ کے امکانات کم ہونے تھے، لیکن وفاقی حکومت نے معاشی بحالی کا یہ موقع گنوا دیا ہے، تاہم ابھی بھی معاشی بحران کو کچھ طریقے اختیار کر کے ٹالا جاسکتا ہے، جیسا کہ حکومت کو آمدنی اور خرچ میں توازن لانا ہو گا۔ پاکستان کا نیٹ ریونیو 6,887 ارب روپے ہے جبکہ اخراجات کا تخمینہ 14,460 ارب روپے لگایا گیا ہے، جس کا کوئی جواز نہیں ہے، اخراجات میں کمی کیلیے حکومت کو دفاعی، تنخواہوں، پینشن اور وفاقی ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز میں کمی کرنی ہو گی، لیکن حکومت نے بجٹ میں ان اخراجات میں 20 فیصد اضافہ کر دیا ہے، مہنگائی میں کمی کرنا ہو گی جو کہ 1957 سے بھی بلند سطح پر پہنچ چکی ہے اور مزید اضافے کا امکان ہے۔
Tumblr media
ترسیلات زر، ایکسپورٹس اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے ذرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا ضروری ہے، حکومت نے ان میں اضافے کیلیے کچھ اقدامات کیے ہیں، جیسا کہ سمندر پار پاکستانیوں کیلیے ڈائمنڈ کارڈ اور لاٹری اسکیم وغیرہ کا اجراء کرنا، لیکن ایکسپورٹ اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی کا رجحان برقرار ہے، جس میں اضافے کیلیے مزید اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے، کرنسی کی قدر میں ریکارڈ 80 فیصد گراوٹ کے باجود اس میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ درآمدی ٹیرف کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، اگرچہ بجٹ میں بیجوں، سولر ایکوپمنٹس، خام مال اور ذرعی مشینری پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے، لیکن برآمدات کو بڑھانے کیلیے ضروری ہے کہ درآمدی ٹیرف میں مزید اصلاحات کی جائیں، پاکستان کیلیے سب سے اہم توانائی کے شعبوں میں بھی اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بہت سے پری بجٹ سیمینارز میں وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ اصلاحات کا وقت نہیں ہے، حالانکہ بہت سے ممالک ایسے ہی مواقع پر اصلاحات کر چکے ہیں، اسی لیے اس بجٹ کو مواقع ضائع کرنے والا بجٹ کیا گیا ہے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز  
0 notes
shiningpakistan · 1 year
Text
آئی ایم ایف کی 1998 جیسی سخت شرائط
Tumblr media
آئی ایم ایف کی اضافی شرائط اور پروگرام کی بحالی میں تاخیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار پاکستان کو آئی ایم ایف کی 1998 ء جیسی سخت شرائط کا سامنا ہے، جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے اور معاشی مشکلات کے باعث پاکستان کو 400 ملین ڈالر کے مالیاتی فرق کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا جس پر 1999 میں آئی ایم ایف نے پروگرام بحالی کیلئے 24 سخت شرائط رکھیں جنہیں پاکستان نے پورا کیا۔ اس بار بھی ہمیں معاہدے کی بحالی میں آئی ایم ایف کا رویہ سخت نظر آرہا ہے جس نے شرائط پر عمل کرنا نہایت مشکل بنا دیا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے پہلے ہی تمام شرائط مان لی ہیں اور پارلیمنٹ سے اضافی ریونیو کیلئے 170 ارب روپے کا منی بجٹ بھی منظور کرا لیا ہے جبکہ اسٹیٹ بینک نے افراط زر پر قابو پانے کیلئے اپنے ڈسکائونٹ ریٹ میں 3 فیصد اضافہ کر کے 20 فیصد کر دیا ہے جس کے بعد آئی ایم ایف نے 4 پیشگی اقدامات کی اضافی شرائط رکھی ہیں جن میں گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے کیلئے تمام صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں 3.82 روپے فی یونٹ چارج لگایا جانا، مارکیٹ کی بنیاد پر روپے کو فری فلوٹ رکھنا جس میں حکومت کی کوئی دخل اندازی نہ ہو اور بیرونی ادائیگیوں میں 7 ارب ڈالر کی کمی کو پورا کرنے کیلئے دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹس یا رول اوور کی ضمانت حاصل کرنا شامل ہے۔ 
اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے پاکستانی روپے کے ایکسچینج ریٹ کو افغان بارڈر ریٹ سے منسلک کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جو پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث ہو گا کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈالر ریٹ میں تقریباً 20 روپے کا فرق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر سال تقریباً 2 ارب ڈالر پاکستان سے افغانستان اسمگل ہوتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف معاہدہ جون 2023 میں ختم ہو جائے گا لہٰذا بجلی کے بلوں میں مستقل بنیادوں پر سرچارج لگانا ��ناسب نہیں۔ حکومت اور آئی ایم ایف کی بیرونی ادائیگیوں کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ حکومت کے مطابق ہمیں 5 ارب ڈالر جبکہ آئی ایم ایف کے حساب سے 7 ارب ڈالر کمی کا سامنا ہے۔ چین کی طرف سے پاکستان کو پہلے ہی 700 ملین ڈالر مل چکے ہیں اور 1.3 ارب ڈالر کی 3 قسطیں جلد ملنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر، UAE سے 1 ارب ڈالر، ورلڈ بینک اور ایشین انفرااسٹرکچر بینک کے 950 ملین ڈالر کے اضافی ڈپازٹس ملنے کی توقع ہے جس سے جون 2023 تک پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر موجودہ 4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 10 ارب ڈالر ہو جائیں گے جو آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرتا ہے۔
Tumblr media
آئی ایم ایف کا پاکستان اور دیگر ممالک کو قرضے دینا احسان نہیں بلکہ یہ آئی ایم ایف کے ممبر ممالک کا حق ہے کہ مالی مشکلات کے وقت آئی ایم ایف ان کی مدد کرے۔ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے والے ممالک میں ارجنٹائن 150 ارب ڈالر قرضے کے ساتھ سرفہرست ہے جس کے بعد مصر 45 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے، ایکواڈور 40 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے، یوکرین 20 ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے جس کے بعد پاکستان، لاطینی امریکی ممالک اور کولمبیا آتے ہیں۔ پاکستان اب تک آئی ایم ایف کے ساتھ مجموعی 23.6 ارب ڈالر کے 22 سے زائد معاہدے کر چکا ہے لیکن ان سے صرف 14.8 ارب ڈالر کی رقم حاصل کی ہے اور باقی پروگرام مکمل ہوئے بغیر ختم ہو گئے۔ آئی ایم ایف کا موجودہ 6.5 ارب ڈالر کا توسیعی فنڈ پروگرام 2019 میں سائن کیا گیا تھا جس کو بڑھا کر 7.5 ارب ڈالر تک کر دیا گیا جو جون 2023 میں ختم ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے حالیہ نویں جائزے کی شرائط مکمل کرنے کے بعد پاکستان کو1.1 ارب ڈالر کی قسط ملے گی۔ 
حکومت کے آئی ایم ایف شرائط ماننے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آنے کے علاوہ بیرونی ممالک سے بھی شکایتیں اور دبائو بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں جرمنی کے سفیر الفریڈ گرناس نے وفاقی وزیر معاشی امور سردار ایاز صادق سے اسٹیٹ بینک کی جرمنی سے مرسڈیز، BMW اور Audi الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ اور بینکوں کے LC کھولنے پر پابندی پر اعتراض کیا ہے کہ یہ WTO معاہدے، جس کا پاکستان ممبر ملک اور دستخط کنندہ ہے، کے خلاف ہے لہٰذا جرمنی سے الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ کی فوری اجازت دی جائے بصورت دیگر جرمنی، پاکستان کے یورپی یونین کے ساتھ GSP پلس ڈیوٹی فری معاہدے، جو 31 دسمبر 2023 کو ختم ہو رہا ہے، کی مزید 10 سال تجدید کیلئے پاکستان کو سپورٹ نہیں کرے گا اور اس پابندی سے پاکستان اور جرمنی کے تجارتی تعلقات پر اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ غیر ملکی ایئر لائنز کی 225 ملین ڈالرکی ترسیلات زر نہ ہونے کے باعث غیر ملکی ایئر لائنز نے پاکستان کیلئے سخت پالیسیاں اور ٹکٹ مہنگے کر دیئے ہیں جس میں حکومت کی حج زائرین کیلئے ڈالر کی فراہمی پر بھی نئی پابندیاں شامل ہیں۔
پاکستان ان شاء اللہ ڈیفالٹ نہیں ہو گا لیکن بے شمار قارئین نے مجھ سے ڈیفالٹ کے ملکی معیشت پر اثرات کے بارے میں پوچھا ہے۔ آسان الفاظ میں ایک خود مختار ملک کے واجب الادا قرضوں اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز کی ادائیگی میں ناکامی کو ’’ساورن ڈیفالٹ‘‘ کہا جاتا ہے جس کا حکومت رسمی اعلان کر سکتی ہے جیسے سری لنکا نے کیا یا پھر حکومت ان قرضوں کو ری اسٹرکچر یا ادائیگی میں تاخیر کی درخواست کرتی ہے جو تکنیکی اعتبار سے ڈیفالٹ ہی کہلاتا ہے۔ اس صورت میں مقامی کرنسی کی قدر کافی حد تک گر جاتی ہے اور بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اُس ملک کی ریٹنگ کم کر دیتی ہیں جس سے ملک کے بینکوں کا بین الاقوامی مارکیٹ میں تجارت کرنا مشکل ہو جاتا ہے، شرح سود میں اضافہ اور سپلائرز LCs پر غیر ملکی بینکوں کی کنفرمیشن مانگتے ہیں جس سے LCs اور امپورٹ کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNCTD نے پاکستان کو دنیا کے اُن 5 ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا ناقابل برداشت دبائو ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ سری لنکا، مصر، کولمبیا اور انگولا شامل ہیں۔ ایسی صورتحال میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپیل کی ہے کہ پاکستان کی موجودہ مالی مشکلات کا سبب کچھ ترقی یافتہ ممالک کی معاشی پالیسیاں ہیں، امیر ممالک کو چاہئے کہ وہ پاکستان کی مدد کریں جس کیلئے میرے نزدیک ملک میں سیاسی استحکام اشد ضروری ہے۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
osarothomprince · 1 year
Text
اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں تین روپے کا اضافہ
کراچی: جمعہ کو بھی انٹربینک میں ڈالر ریورس گئیر میں رہا لیکن اس کے برعکس اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی پرواز برقرار رہی اور اوپن ریٹ 292 روپے کی سطح پر آگئے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اور سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی آمد بڑھنے جیسے عوامل کے باعث جمعہ…اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں تین روپے کا اضافہ
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
جنوری میں اوورسیز پاکستانیوں کی بھیجی گئی ترسیلات زر میں کمی ریکارڈ
  کراچی: اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے گزشتہ ماہ بھیجی گئی ترسیلات زر میں سالانہ اور ماہانہ دونوں بنیادوں پر کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ جنوری 2023ء میں اوررسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر میں سالانہ بنیادوں پر 13.14فیصد کمی ریکارڈ ہوئی۔ اوور سیز پاکستانیوں نے گزشتہ ماہ ایک ارب 89کروڑ49 لاکھ ڈالر کی ترسیلات زر بھجوائیں۔ سالانہ کے علاوہ ماہانہ بنیاوں پر بھی اوورسیز پاکستانیوں کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
#SBP اسٹیٹ بینک کا بیان
کراچی: اسٹیٹ بینک نے واضح کیا ہے کہ برآمدات ، ترسیلات زر میں کمی متعدد خارجی اور ملکی وجوہات کا نتیجہ ہے۔ تفصیلات کے مطابق مرکزی بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ موجودہ حالات میں ترسیلات زر کی کمی کو بنیادی طور پر اقتصادی سست روی سے منسوب کیا گیا مگر برآمدات میں کمی کو نسبتاً مستحکم شرح مبادلہ سے جوڑنا مناسب نہیں۔ اسٹیٹ بینک نے کہا کہ بیشتر بڑے تجارتی شراکت دار مالیاتی سختی کے دور سے گزر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
2022؛ معیشت تنزلی کا شکار رہی، ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلانے لگا
2022؛ معیشت تنزلی کا شکار رہی، ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلانے لگا
غیرملکی سرمایہ کاری، ترسیلات زر اور برآمدات سمیت بیشتر اہم معاشی اشاریے منفی رہے۔ فوٹو: فائل کراچی: 2022ء کے دوران پاکستان میں سیاسی عدم استحکام عروج پر رہا جب کہ معیشت تنزلی کا شکار رہی۔ ملک پر ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلانے لگا، روپے کی بے قدری، توانائی کے بحران اور سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال نے مہنگائی کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے، سرمایہ کاری، ترسیلات اور برآمدات سمیت بیشتر اہم معاشی اشاریے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
نگران وفاقی وزیر عمر سیف نے پے پال کے حوالے سے بڑی خوشخبری دے دی
نگراں حکومت نے فری لانسرز کی دیرینہ مانگ پوری کرتے ہوئے بین الاقوامی گیٹ وے ”پے پال“ کے ذریعے ترسیلات زر کی ترسیل قابل عمل بنانے کا اعلان کیا ہے۔ نگران وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن ڈاکٹر عمر سیف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی وزارت پاکستان کو ایک ”ٹیک ڈیسٹینیشن“ بنانے کے لیے پے پال کے ذریعے ترسیلات زر کو چینلائز کرنے سمیت اگلے ہفتے کئی ڈیجیٹل اقدامات…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
حکومت آئی ایم ایف کے سامنے بے بس
Tumblr media
آئی ایم ایف مذاکراتی ٹیم کے حکومت کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے میں بیرونی فنانسنگ اور پاور سیکٹر خسارے پر تشویش پائی جاتی ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف، حکومت کو نہایت ٹف ٹائم دے رہی ہے اور حکومت کے پاس ان شرائط کو ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں آئی ایم ایف نے بجٹ خسارے کو جی ڈی پی کا 4.9 فیصد رکھنے کا ہدف دیا ہے جبکہ معاشی اشاریوں کو دیکھتے ہوئے رواں مالی سال بجٹ خسارہ 6.5 سے 7 فیصد تک جا سکتا ہے جس کیلئے آئی ایم ایف نے 900 ارب روپے جو پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریباً ایک فیصد بنتا ہے، خسارے کو کم کرنے کیلئے شرائط حکومت کو پیش کر دی ہیں جنہیں حکومت نے کافی حد تک مان لیا ہے جس میں ایکسپورٹ شعبے کو 110 ارب روپے کی بجلی اور گیس پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، پیٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ، پیٹرول اور ڈیزل پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 855 ارب روپے کی وصولی کا ہدف دیا ہے جس کیلئے حکومت کو پیٹرول اور ڈیزل پر مجموعی 50 روپے فی لیٹر PDL لگانا ہو گا۔ آئی ایم ایف نے سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے 500 ارب روپے کے بجٹ خسارے، کسان پیکیج اور ٹیوب ویل سبسڈی کو مان لیا ہے لیکن آئی ایم ایف جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے پر آمادہ نہیں۔ 
اس کے علاوہ گردشی قرضوں میں نظرثانی ڈیٹ مینجمنٹ پلان کے ذریعے کمی اور حکومتی اخراجات میں 600 ارب روپے کی کمی تاکہ زیادہ سے زیادہ مالی خسارہ 400 سے 450 ارب روپے رہے جس کیلئے حکومت نے سگریٹ، مشروبات، جائیداد کے لین دین، بیرون ملک فضائی سفر پر ودہولڈنگ ٹیکسز، امیر طبقے، امپورٹس اور بینکنگ سیکٹر کے منافع پر سیلاب ٹیکس لگانے پر آمادگی ظاہر کی ہے جس پر منی بجٹ کے ذریعے عملدرآمد متوقع ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے 30 جون تک زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب 20 کروڑ ڈالر تک لانا، امپورٹ پر عائد پابندیوں کا خاتمہ LCs کھولنے کیلئے 4 ارب ڈالر کی فراہمی اور بجلی گیس کے نرخوں میں 50 فیصد اضافے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو اس سال کا ریونیو ہدف 7470 ارب روپے دیا ہے جس کی ایف بی آر نے یقین دہانی کرائی ہے۔ ڈالر کے انخلا کو روکنے کیلئے اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر نے بیرون ملک سفر کرنے والے افراد کیلئے زیادہ سے زیادہ غیر ملکی کرنسی بیرون ملک لے جانے کی حد کم کر کے 5000 ڈالر فی وزٹ اور 30000 ڈالر سالانہ مقرر کر دی ہے۔ 
Tumblr media
اس وقت پاکستان کی معیشت کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سیاسی عدم استحکام، مہنگائی یعنی افراط زر 32 فیصد، بیرونی ذخائر کم ہو کر 3 ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح تک آجانا، ملکی ایکسپورٹس میں 18 فیصد، ترسیلات زر میں 10 فیصد، روشن ڈیجیٹل اکائونٹ (RDA) میں نومبر 2020ء سے مسلسل کمی، روپے کی قدر 20 فیصد کمی سے 277 سے 280 روپے تک پہنچ جانا اور موجودہ معاشی صورتحال میں ریونیو وصولی کے ہدف کو پورا کرنا ایک ٹاسک ہے جس سے ملک میں ایک معاشی بحران پیدا ہوا ہے۔ ڈالر نہ ہونے کی وجہ سے امپورٹ پر پابندیاں لگا کر سپلائی چین متاثر ہوئی ہے جس کا فائدہ ذخیرہ اندوز اشیاء کی قیمتیں بڑھا کر اٹھا رہے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بابائے قوم قائداعظم نے ایک زرعی صنعتی پاکستان کا خواب دیکھا تھا لیکن ہم نے زراعت اور صنعت کے شعبوں کو نظر انداز کر کے آج ملک کو ٹریڈنگ اسٹیٹ بنا دیا ہے۔ ہمیں دوبارہ پاکستان کی اصل طاقت زراعت کے شعبے کو ترجیح دینا ہو گی۔
یہ افسوس کی بات ہے کہ پہلے جن زرعی اجناس میں ہم نہ صرف خود کفیل تھے بلکہ ایکسپورٹ بھی کرتے تھے، آج ہم انہیں امپورٹ کر رہے ہیں جس کیلئے ہمارے پاس ڈالر نہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام سے نکلنے اور ڈالر روپے کے ریٹ کو مصنوعی طریقے سے روکنے سے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں 30 روپے کے فرق کی وجہ سے 1.5 ارب ڈالر کی ترسیلات زر ہنڈی اور حوالہ سے بھیجی گئیں جس سے ملکی ترسیلات زر میں 1.5 ارب ڈالر کی کمی ہوئی جبکہ ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کے مدنظر برآمدات کی رقوم باہر روکنے سے بھی ڈیڑھ ارب ڈالر ایکسپورٹ کم ہوئی۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام جاری رہتا تو تقریباً 3 ارب ڈالر کی کمی کو روکا جاسکتا تھا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے ہمیں ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامک ڈویلپمنٹ بینک سے ملنے والے فنڈز نہیں روکے جاتے اور دوست ممالک کے سافٹ ڈپازٹس کو رول اوور کرنے کیلئے آئی ایم ایف پروگرام بحالی کی شرط نہ لگائی جاتی۔ 
قارئین! آئی ایم ایف کے معاہدے سے مہنگائی کا ایک طوفان آجائے گا جس کا مقابلہ کرنا غریب آدمی کیلئے نہایت مشکل ہو گا لیکن اگر حکومت آئی ایم ایف کی مطلوبہ اصلاحات کے ذریعے اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دے کر اور جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے پہلے مرحلے میں موجودہ 10 فیصد سے 15 فیصد تک لے آتی ہے تو اس کے ملکی معیشت پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ غریب عوام کی قربانیوں کے پیش نظر اگر ہم ملک میں کرپشن کے خاتمے، گڈ گورننس، شاہ خرچیوں اور پرتعیش اشیاء کی امپورٹ پر پابندی اور آمدنی کے مطابق حکومتی اخراجات میں کمی سے مستقبل میں پاکستان کو بار بار ہاتھ پھیلانے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ بات نہایت تکلیف دہ ہے کہ آج 75 سالوں کے بعد جب ہمارے علاقائی ممالک دنیا میں معاشی رینکنگ میں تیزی سے اوپر جارہے ہیں، ہم ڈیل یا ڈیفالٹ کی باتیں کررہے ہیں۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
googlynewstv · 3 years
Text
اگست میں ترسیلات زر کا10سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا
اگست میں ترسیلات زر کا10سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا
اوورسیز پاکستانیوں نےمالی سال 2021-22 کے دوسرے ماہ اگست میں بھی 2 ارب ڈالر سے زائد کی رقوم بھجوائی ہیں۔  دس سال بعد اگست کے مہینے میں سب سے زیادہ ترسیلات زر موصول ہوئی ہیں۔ پاکستانیوں نے گزشتہ ماہ ریکارڈ 2.66 ارب ڈالرز بھیجے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ مسلسل چھٹا مہینہ ہے جب اوسطا 2.7 ارب ڈالر کے لگ بھگ ترسیلار زر بھجوائی گئی ہیں۔ نمو کے لحاظ سے اگست…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mrhfz90 · 4 years
Text
ستمبر میں ترسیلات زر $ 2b سے زیادہ رہتے ہیں | ایکسپریس ٹریبون
ستمبر میں ترسیلات زر $ 2b سے زیادہ رہتے ہیں | ایکسپریس ٹریبون
Tumblr media
[ad_1]
پاکستان کو ستمبر 2020 میں مسلسل چوتھے مہینے مزدوروں کی ترسیلات زر کے حساب سے 2 ارب ڈالر سے زائد کی آمدنی ہوئی ، جو کوڈ 19 کے باعث جولائی تا دسمبر کے عرصے میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعہ 12 سے 20 فیصد تک کمی کا خدشہ ہے۔ .
کوویڈ کے باوجود ، ہماری معیشت کے لئے مزید خوشخبری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے لکھا ہے کہ ستمبر 2020 میں ہمارے محنتی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر ستمبر…
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
منگل کو بھی ڈالر کی پرواز جاری رہی
  کراچی: آئی ایم ایف قرض پروگرام کی بحالی مؤخر ہونے کے باعث منگل کو بھی ڈالر کی پرواز جاری رہی منفی معاشی اشاریوں اور حکومت کی جانب سے غیرمقبول معاشی فیصلوں میں تاخیر سے آئی ایم ایف قرض پروگرام کی بحالی موخر ہونے جیسے عوامل کے باعث منگل کو بھی ڈالر کی پیشقدمی جاری رہی۔ ترسیلات زر میں کمی اور 4.3 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ملکی ضروریات کے لیے ناکافی ہونے، معیشت کو درپیش چیلنجز یومیہ بنیادوں پر…
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
آئی ایم ایف معاہدے کے بعد معیشت کو درپیش چیلنجز
Tumblr media
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اشد ضروری ہے تاکہ ڈالر آنے کے وہ دروازے کھل سکیں جو معاہدے کے اب تک نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں جس میں مالیاتی اداروں کے علاوہ دوست ممالک کی امداد بھی شامل ہے جس میں سے چین نے 1.5 ارب ڈالر کے ڈپازٹس رول اوور کر دیئے ہیں لیکن پروگرام بحالی سے قبل آئی ایم ایف ان تمام ممالک سے گارنٹی پر بضد ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ آئی ایم ایف سے لی گئی رقم سے چین کے قرضوں کی ادائیگی نہ کی جائے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر ہو رہی ہے۔ میں آئی ایم ایف پر کئی کالم لکھ چکا ہوں لیکن آج کے کالم میں معاہدے کے بعد آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے ملکی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات شیئر کرنا چاہوں گا۔ آئی ایم ایف کا 3 سالہ پروگرام جو 2019ء میں سائن کیا گیا تھا، ایک سال کی توسیع کے بعد جون 2023ء میں ختم ہو رہا ہے جبکہ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی بحالی اپریل تک متوقع ہے لہٰذا ملکی معیشت سنبھالنے کیلئے ہمیں فوراً آئی ایم ایف کے 24 ویں پروگرام کی طرف جانا ہو گا لیکن افسوس آئی ایم ایف کے 23 پروگراموں کے باوجود ہم اہم شعبوں میں اصلاحات نہ لانے کے باعث معیشت میں بہتری نہ لاسکے اور نتیجتاً ملکی معیشت بگڑتی گئی۔
حکومتوں کے غیر ذمہ دارانہ اخراجات سے مالی خسارہ، قرضوں اور سود کی ادائیگیوں میں اضافہ ہوتا گیا، زراعت اور مینوفیکچرنگ شعبوں کو نظر انداز کر کے سروس سیکٹر کو فروغ دیا گیا جس سے ایکسپورٹ کے ذریعے گروتھ حاصل کرنے کے بجائے امپورٹ پر انحصار کیا گیا جس سے ناقابل برداشت تجارتی خسارے نے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر کو کم ترین سطح تک پہنچا دیا اور روپیہ شدید دبائو کے باعث انٹربینک میں 285 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 290 روپے پر پہنچ گیا، روپے کی قدر میں کمی سے ملکی خزانے کو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں 5200 ارب روپے اضافی ادا کرنا ہوں گے جس کیلئے آئی ایم ایف نے منی بجٹ اور دیگر اقدامات کے ذریعے اضافی ٹیکس لگائے ہیں جو ملک میں مہنگائی کا سبب ہیں، ہم آئی ایم ایف کے زرمبادلہ ذخائر بڑھانے کے مطالبے کو دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹ اور پرانے ڈپازٹس کو رول اوور کر کے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لے رہے ہیں جس سے سود کی ادائیگی ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئی ہے جبکہ ہم نے ایکسپورٹ، ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری کے حقیقی ذرائع سے اپنے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ نہیں کیا، آج بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 562 ارب ڈالر جبکہ اسٹیٹ بینک پاکستان کے صرف 4.3 ارب ڈالر ہیں۔ 
Tumblr media
ملک میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں SMEs نہ لگنے اور ڈالر کی کمی کی وجہ سے امپورٹ LC پر پابندی کے باعث ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کی پیداواری صلاحیتوں میں کمی کے باعث ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے، آئی ایم ایف کے مطالبے پر ملکی GDP گروتھ کو کم کر کے 2 فیصد تک کر دیا گیا ہے جبکہ افراط زر یعنی مہنگائی گزشتہ 50 سال میں بڑھ کر 42 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس سے غریب کے علاوہ متوسط طبقے کا گزارہ بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ان حالات میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے موجودہ معاشی بحران میں آئی ایم ایف کے رویے کو غیر منصفانہ کہا ہے جبکہ آئی ایم ایف نے ٹیکس اصلاحات پر عملدرآمد کو پروگرام کی بحالی سے منسلک کر دیا ہے جو پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اعتماد میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ 3 سے 4 سال میں پاکستان کی معیشت خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور مستقبل قریب میں ملکی معیشت میں کوئی فوری بہتری کی امید نہیں۔ پیداواری اور مالی لاگت میں اضافے سے ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کی ایکسپورٹس میں کمی، انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں بڑے فرق کی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی، ملک میں سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی غیر مطمئن صورتحال کے باعث بیرونی سرمایہ کاری میں منفی رجحان واضح ہے، بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے باعث آنے والے وقت میں زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ مشکل ہے جبکہ آئی ایم ایف نے جون 2023 تک 10 ارب ڈالر کا ہدف دیا ہے۔ 
آئی ایم ایف پروگرام نے ملکی معاشی گروتھ کو سست کرنے کیلئے جو اقدامات کیے ہیں، اس سے ہماری معاشی گروتھ بہت کمزور ہو گئی ہے جبکہ ہمیں نئی ملازمتوں کے مواقع اور ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے تیز معاشی گروتھ کی ضرورت ہے۔ ممتاز معیشت دانوں کا خیال ہے کہ معیشت کی ترقی کیلئے پاکستان کو کم از کم 6 سے 7 فیصد معاشی گروتھ حاصل کرنا ہو گی جو ان حالات اور موجودہ آئی ایم ایف شرائط میں ممکن نہیں۔ پرتعیش اشیا پر 25 فیصد سیلز ٹیکس لگا کر ان اشیا کی امپورٹ کو روکنے کے عمل کو میں سراہتا ہوں لیکن ادویات، ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کے خام مال، پرزہ جات اور آلات کی امپورٹ کی حوصلہ شکنی کے ملکی معیشت اور ایکسپورٹ پر منفی اثرات دیکھنے میں آئے ہیں لہٰذا اسٹیٹ بینک اور FBR کو نہایت احتیاط کیساتھ امپورٹ پر پابندیاں لگانا ہوں گی۔ اس کیساتھ ساتھ اشرافیہ کی مراعات میں کمی بھی ایک خوش آئند قدم ہے، حکومت کوغیر پیداواری اخراجات میں اضافے کو کنٹرول کرنا ہو گا اور ملکی بقا کےعزم کیساتھ اخراجات میں کمی لانا ہو گی۔ اس موقع پر میں سیاسی جماعتوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ سیاسی اختلافات بھلا کر ملکی بقا کیلئے میثاق معیشت پر متفق ہوں جو ملکی معیشت کی بحالی کیلئے مختصر، درمیانے اور طویل المیعاد ایک روڈ میپ دے سکے جس پر عمل کر کے ہم پاکستان کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
googlynewstv · 3 years
Text
اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ
اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ
کارکنوں کی ترسیلات زر کا مضبوط رجحان جاری رہا اور اگست 2021ء میں وہ 2.66 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق یہ مسلسل چھٹا مہینہ ہے کہ آنے والی رقوم اوسطاً 2.7 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہی ہیں اور مسلسل پندرہ مہینہ ہے کہ 2 ارب ڈالر سے زائد رہی ہیں۔ نمو کے لحاظ سے ترسیلات زر اگست میں 26.8 فیصد (سال بسال) بڑھ گئیں جو اس مہینے کے لیے پوری دہائی کی بلند ترین شرح نمو ہے۔ اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ ماہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes