Tumgik
#بلوں
apnibaattv · 2 years
Text
صارفین سے بلوں میں غیر متعلقہ ٹیکس، سرچارجز نہ لگائے جائیں، نیپرا
صارفین سے بلوں میں غیر متعلقہ ٹیکس، سرچارجز نہ لگائے جائیں، نیپرا
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کا دفتر۔ – نیپرا/فائل اسلام آباد: نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)نے اپنی اسٹیٹ آف دی انڈسٹری رپورٹ 2022 میں کہا ہے کہ بجلی کے بلوں میں کچھ سرچارجز ہیں جن کا صارف کے بجلی کے استعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نیپرا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صارفین سے غیر متعلقہ ٹیکسز اور سرچارجز وصول کرنا بند کرنے کی ضرورت ہے جب کہ بلنگ سسٹم کی تشکیل نو کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
حکومت کاماہ ستمبر کے بلوں میں 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والوں سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارج نہ کرنے کا فیصلہ
حکومت کاماہ ستمبر کے بلوں میں 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والوں سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارج نہ کرنے کا فیصلہ
لاہو ر(عکس آن لائن) حکومت نے ماہ ستمبر کے بلوں میں 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والوں سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارج نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔نجی ٹی وی کے مطابق جولائی میں300 یونٹس استعمال پر ایف پی اے چارج نہیں ہو گا ماہ ستمبر میں مشروط طور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارج نہ کرنیکا فیصلہ جولائی میں300 یونٹس استعمال پر ایف پی اے چارج نہیں ہو گی نیپرا نے ماہ جولائی میں4 روپے34 پیسے فی یونٹ چارج کی منظوری دی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 6 months
Text
اسرائیل دنیا کو اپنے خلاف کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے
Tumblr media
ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اس کے پاس مغرب کی طرف سے چار ہزار سے زائد بچوں سمیت ہزاروں فلسطینی شہریوں کو مارنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ ہے۔ گنجان پناہ گزین کیمپوں پر گرائے گئے ایک ٹن وزنی مہیب بم اور ایمبولینسوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسے حماس کی طرح عام شہریوں کی اموات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل مہذب دنیا کی نظروں میں خود کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ غزہ کے قتلِ عام سے پہلے بن یامین نتن یاہو کے فاشسٹوں اور بنیاد پرستوں کے ٹولے کے ذریعے اسرائیل کے عدالتی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نے امریکی لابی گروپ اے آئی پی اے سی کے پے رول پر موجود سیاست دانوں کی جانب سے اسرائیل کے جمہوری ملک ہونے اور اخلاقی طور پر برتر اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے برسوں سے کیے جانے والے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ پچھلی دہائیوں میں، واحد بین الاقوامی آواز جو اہمیت رکھتی تھی وہ واشنگٹن کی تھی، جس میں یورپی اتحادی ہمنوا کی حیثیت سے ساتھ ساتھ تھے۔ لیکن 2020 کی کثیرالجہتی دہائی میں ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں ابھرتی ہوئی طاقتیں اسرائیل کی مذمت کرنے اور سفارتی تعلقات کو گھٹانے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔
انصاف کے حامی بڑے حلقے غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی۔ مسلمانوں، عربوں اور ترقی پسند رحجان رکھنے والے یہودیوں کے انتخابی لحاظ سے اہم طبقوں کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیاں ​​نوجوانوں کی سیاست زدہ نسل سے فلسطین کی حامی سرگرمیوں کے لیے اہم مراکز بن گئی ہیں۔ جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، برطانیہ کی وزیر داخلہ بریورمین جیسے دائیں بازو کے کارکن فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو مجرمانہ بنانے کے لیے شہری آزادیوں پر غصے سے کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جسے وہ ’نفرت مارچ‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔  وہ دور لد چکا جب اسرائیل کی حامی لابیوں نے بیانیے کو قابو میں کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا کی خوفناک تصاویر مظالم کو ریئل ٹائم میں سب کو دکھا رہی ہیں، جبکہ دونوں فریق بیک وقت ہمیں غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں مذہب پر مبنی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا پر مبنی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عمر رسیدہ امریکی سیاست دان ایک مٹتے ہوئے اسرائیل نواز اتفاقِ رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر مشی گن جیسی اہم ’سوئنگ‘ ریاستوں میں بڑی مسلم، عرب اور افریقی نژاد امریکی کمیونٹیز بائیڈن کی اسرائیل کی پالیسی کے خلاف ہو رہی ہیں۔
Tumblr media
اوباما نے اپنے جانشینوں کو خبردار کیا ہے، ’اگر آپ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پوری سچائی کو اپنانا ہو گا۔ اور پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، بلکہ ہم سب اس میں شریک ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’اسرائیلی فوجی حکمت عملی جو انسانی جانوں کی اہیمت کو نظر انداز کرتی ہے بالآخر الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس موجودہ تباہی کے بعد بائیڈن کے پاس مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کو فوری طور پر بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے فلسطین کے حامی ترقی پسند ونگ کی طرف خاصا رجحان رکھتی ہے، جسے ایسے لوگوں کی وسیع بنیاد پر حمایت حاصل ہے جو آج غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان ترقی پسندوں کو ایک دن قانون سازی کی مطلوبہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کی فوجی امداد کے لیے کانگریس کے بلوں کو ویٹو کرنے میں کچھ پریشانی ہو گی۔ اسی قسم کا تناؤ یورپ بھر میں بھی چل رہا ہے۔ آئرلینڈ اور سپین واضح طور پر فلسطینیوں کے حامی ہیں، جب کہ ارسلا فان ڈیر لیین اور رشی سونک جیسی شخصیات اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بےچین ہیں۔
فرانس اور جرمنی جیسی بڑی عرب اور مسلم آبادی والے ملک اپنی سیاسی بیان بازی کو اعتدال پر لانے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی بائیکاٹ کی تحریکوں کے خلاف بھرپور طریقے سے جنگ لڑی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے اسرائیل کے لیے عالمی اقتصادی تنہائی کتنی تباہ کن ثابت ہو گی۔ غزہ کے باسیوں کی تسلی کے لیے اس طرح کے رجحانات بہت دور کی بات ہیں، لیکن ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے برسوں میں فلسطین تنازع اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے تناظر میں سامنے آئے گا۔ بین الاقوامی بار ایسوسی ایشن سمیت عالمی اداروں کے تمام حصوں نے بھرپور طریقے سے جنگ بندی کی وکالت کی ہے، اور اسرائیل کو انسانی حقوق کی عالمی ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کا حملہ اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا نفسیاتی دھچکہ تھا، جس نے بالآخر اسے یہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب تک وہ امن کی کوششوں کو مسترد کرتا رہے گا، اس کے وجود کو خطرات کا سامنا رہے گا۔  اس جیسے چھوٹے سے ملک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جنوبی اور شمالی اسرائیل کے بڑے علاقوں اور دیگر غیر محفوظ علاقوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے، کچھ کو شاید مستقل طور پر، لیکن آبادی کے بڑے مراکز اب بھی حزب اللہ اور اسلامی جہاد کے راکٹوں کی آسانی سے پہنچ میں ہیں۔
نتن یاہو جیسے امن کو مسترد کرنے والوں کی ایک دوسرے سے ملتی جلتی کارروائیاں ہیں جنہوں نے امن کی میز پر فریقین کی واپسی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں معاشروں میں اوسلو معاہدے کے برسوں سے سرگرم امن کیمپوں کو دوبارہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو انصاف، امن اور مفاہمت کے لیے مہم چلا سکیں۔ اسرائیل کی انتقامی پیاس نے انتہا پسند کیمپ کو طاقت بخشی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ غزہ کی فوجی مہم فلسطین کو عربوں سے پاک کرنے کے لیے بہترین دھواں دھار موقع پیش کرتی ہے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ گیورا آئلینڈ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ’ایسے حالات پیدا کرے جہاں غزہ میں زندگی غیر پائیدار ہو جائے۔ ایسی جگہ جہاں کوئی انسان موجود نہ ہو‘ تاکہ غزہ کی پوری آبادی یا تو مصر چلی جائے، یا پھر مصر منتقل ہو جائے۔ ‘نتن یاہو مصر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کے صحرائے سینا کی طرف ’عارضی‘ انخلا کو قبول کرے، جبکہ دوسری طرف وہ محصور آبادی کو بھوک سے مرنے اور کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فلسطینی صرف اتنا چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حالتِ زار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے۔ 
فلسطین کی حمایت اور حماس کی حمایت ایک برابر نہیں ہیں۔ بلاروک ٹوک مغربی پشت پناہی نے اسرائیل کو یہ باور کروایا ہے کہ اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، جو نہ صرف مقبوضہ علاقوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ان گنت قراردادوں اور عالمی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی زک پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایک مختصر دورانیے میں غزہ میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے 72 عملے کی اموات ایک ریکارڈ ہے، جب کہ الٹا اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر ’خون کی توہین‘ اور ’دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے تھے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عرب ریاستیں دلچسپی کھو رہی ہیں، فلسطینی اپنے علاقوں کے ہر سال بڑھتے ہوئے نقصان پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور تھے، اور یہ سوچ تھی کہ جب 1947 اور 1967 کی نسلیں ختم ہو جائیں تو کیا ان کے ساتھ ہی قوم پرستانہ جذبات بھی فنا نہیں ہو جائیں گے؟ اس کے بجائے، نئی فلسطینی نسل اور ان کے عالمی حامی پہلے سے زیادہ پرجوش، پرعزم اور سیاسی طور پر مصروف ہیں۔ اور معقول طور پر، کیونکہ تمام تر مشکلات اور خونریزی کے باوجود ناقابل تسخیر عالمی رجحانات اس بات کی علامت ہیں کہ وقت، انصاف اور آخرِ کار تاریخ ان کے ساتھ ہے۔
اس طرح سوال یہ بنتا ہے کہ کتنی جلد کوتاہ اندیش اسرائیلی امن کے لیے ضروری سمجھوتوں کی وکالت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ اسرائیل کو لاحق دفاعی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی ریاست کی جغرافیائی سیاسی طاقت ختم ہو رہی ہے۔ 
بارعہ علم الدین  
نوٹ: کالم نگار بارعہ عالم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
jhelumupdates · 8 days
Text
نعت خوانی کا بچپن سے شوق ہے، یہ شوق میرا فخر ہے، مصطفی فخر عباس
0 notes
emergingpakistan · 3 months
Text
نئی حکومت کو کون سی نئی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے؟
Tumblr media
نئی حکومت ایک ایسے وقت میں چارج سنبھالے گی کہ جب ہمارا ملک مختلف بحرانوں کی لپیٹ میں ہے۔ معاشی اعتبار سے بات کریں تو ہمارے ملک میں افراطِ زر کی شرح 25 فیصد سے زائد ہے، بجٹ خسارہ قومی آمدنی کا 7 فیصد ہے، توانائی کی قیمتیں اور اس کی عدم دستیابی صنعتوں اور صارفین کے لیے اہم مسئلہ ہے، مقامی اور غیرملکی قرضوں کی واپسی کی مہلت بھی ہمارے سر پر تلوار کی مانند لٹک رہی ہے جبکہ ملکی برآمدات کی شرح بھی انتہائی کم ہے۔ عوامی ترقی کے اعتبار سے دیکھیں تو دیگر ترقی پذیر ممالک کی نسبت ہمارے ملک میں نومولود بچوں کی اموات کی شرح اور خواتین کا فرٹیلیٹی ریٹ انتہائی بلند ہے، 5 سال سے کم عمر 58 فیصد بچے نشونما کی کمی کا شکار ہیں، 26 لاکھ (40 فیصد) بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، ہر سال 80 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے لیے ہمارے پاس نہ اسکول ہیں اور نہ ہی اساتذہ جبکہ سب سے بدتر تو یہ ہے کہ 39 فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گورننس کے اعتبار سے بات کریں تو ہمارا بلدیاتی نظام، جو عوام کی بڑی تعداد کو حکومتی معاملات سے منسلک کرتا ہے اور انہیں سہولیات فراہم کرتا ہے لیکن غیرمؤثر بلدیاتی نظام ہونے کی وجہ سے ہمارے شہری صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
درحقیقت گورننس کے تمام شعبہ جات میں ہی عوام کو سہولیات کی فراہمی کا فقدان ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال ہمارے سرکاری اداروں کو 700 ارب روپے کا خسارہ ہوا، ہمارے پاس ایک ایسی بیوروکریسی ہے جہاں میرٹ موجود نہیں، عدالتوں میں موجود مقدمات دہائیوں سے حل طلب ہیں اور ہماری پولیس خدمات فراہم نہیں کرتی بلکہ انہیں شہریوں پر ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے، مندرجہ ذیل وہ اصلاحات ہیں جو نئی حکومت کو کرنی چاہئیں۔ اگر آبادی کا 40 فیصد لوگ غریب اور ناخواندہ ہوں تو ایسے ملک کی معیشت کبھی بھی ترقی نہیں کر پائے گی جبکہ ناخواندہ افراد تعلیم اور ہنر سے محروم رہیں گے۔ اس کے بعد ہمیں حکومت کی مالی اعانت سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد تمام وفاقی ٹیکسس کا تقریباً 63 فیصد صوبوں (آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور سابقہ فاٹا بھی شامل ہیں) کو ملتا، اس سے صوبوں کو بہت سی رقم ملی لیکن وفاق کے پاس اتنی دولت نہیں تھی کہ وہ سود کی ادائیگیاں کر سکتا۔
Tumblr media
اگلے این ایف سی ایوارڈ یعنی پانچ برس میں وفاق کا حصہ 55 فیصد تک بڑھانا چاہیے اور صوبوں، اضلاع اور ڈویژن سے بھی کہا جائے کہ وہ اپنی ٹیکس وصولی خود کریں۔ یہ خیال کہ ایک حکومت ٹیکس جمع کرتی ہے اور دوسری حکومت اسے خرچ کرتی ہے، اس سے مالی بے ضابطگی ہوتی ہے۔ ذمہ دار وفاق کو صرف خرچ کرنے کا اختیار ہی نہیں بلکہ ٹیکس کی ذمہ داری بھی صوبوں تک منتقل کرنی چاہیے۔ مزید اصلاحات میں آئینی اعتبار سے مقامی حکومت کو بااختیار بنانا بھی شامل ہے اور اس حد تک بااختیار کہ صوبائی انتظامیہ اسے کمزور نہ کرسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم اور صحت کو ضلع یا شہر کی سطح پر جبکہ پولیس اور انفرااسٹرکچر کو ڈویژن اور شہری سطح پر منتقل کیا جانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ منتخب کردہ تحصیل، ضلع، شہر اور ڈویژن کے ناظم کو اس وقت تک اپنے عہدے سے نہیں ہٹانا چاہیے جب تک ان کی جگہ کوئی اور منتخب نہ ہوجائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان اداروں کو پہلے سے طے شدہ فارمولے پر براہِ راست وفاقی تقسیم شدہ پول سے فنڈز دیے جائیں تاکہ انہیں صرف صوبائی انتظامیہ پر انحصار کرنے کی ضرورت نہ ہو۔
حکومت کا نجی شعبے کو اختیارات کی منتقلی بھی ایجنڈا میں شامل ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب تمام سرکاری اداروں کی نجکاری اور مضبوط ضابطے بنانا ہے۔ یہ عمل سب سے پہلے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز سے شروع کرنا ہو گا جوکہ پہلے ہی ایجنڈے میں شامل ہیں لیکن اس فہرست میں تمام توانائی، گیس کے پیداواری و تقسیم کار اور تیل کی پیداواری اور تقسیم کے اداروں کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ فوری نجکاری کی اجازت دینے کے لیے قانون میں ضروری تبدیلیاں کی جانی چاہئیں (فی الحال اسے مکمل کرنے کے لیے کم از کم 460 دن درکار ہیں)۔ ہماری بجلی اور گیس کے تقسیم کار کمپنیز کو اپنے کُل اثاثوں پر منافع کی اجازت ہے جبکہ نجکاری کے بعد اس فارمولے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ نجکاری کے بعد ان کمپنیز کی قیمتوں کا انحصار ��س بات پر ہو گا کہ انہیں کتنا منافع لینے کی اجازت ہے۔ حکومت کو احتیاط سے نیا فارمولا سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ اضافی منافع کو تقسیم کیا جا سکے، بلوں کی وصولی میں بہتری کے بعد اور ترسیل اور تقسیم کے دوران ہونے والے نقصان کا تخمینہ بھی نجکاری کے بعد، صارفین اور کمپنیز کے درمیان طے ہونا چاہیے۔ اس نجکاری کا حتمی مقصد بجلی اور گیس کے لیے ہول سیل مارکیٹ کا قیام اور صارفین کے لیے قیمتوں میں خاطر خواہ کمی اور خدمات میں بہتری ہونا چاہیے۔
سرکاری اداروں کی نجکاری کے علاوہ بھی دیگر راستوں سے ہمیں حکومتی دائرہ اختیار کو محدود کرنا ہو گا۔ مثال کے طور پر وزارتوں اور ڈویژن میں کمی بالخصوص 18ویں ترمیم کے بعد جن علاقوں میں اقتدار منتقل ہوا وہاں کچھ اختیارات نجی شعبے کے سپرد کرنا ہوں گے۔ مثال کے طور پر فوڈ سیکیورٹی کی وزارت کا دفتر کامرس کی وزارت کی عمارت میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ یا پھر اسلام آباد اور گلگت بلتستان کے ا��کولز چلانے والی وزارتِ تعلیم کو مقامی اختیارات میں دے کر پورے ملک میں قومی نصاب کے معیارات نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو ختم کردینا چاہیے اور نجی سیکٹر کو اجناس کی برآمدات کرنے کی ذمہ داری دے دینی چاہیے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اپنے لوگوں کی فوڈ سیکیورٹی کا کام ذمہ دارانہ طریقے سے کرتے ہیں لیکن اس کام میں کوئی بھی سرکاری کمپنی براہ راست تجارت اور درآمدات میں ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ حکومت کی جانب سے گندم اور کھاد کا اسٹریٹجک ذخیرہ بنایا جاتا ہے۔ اگر حکومت نجی شعبے پر انحصار کرتی ہے تو اقتصادی طور پر وہ گندم اور کھاد کی زیادہ خریداری اور ذخیرہ کر سکے گی۔
پاکستان کی سخت معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ترقیاتی پروگرامز ختم کرنا ہوں گے۔ بچنے والی رقم شاید بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا صوبے کے ماتحت چلنے والے پروگرامز کے ذریعے تقسیم کر دینی چاہیے اور ان پروگرامز کو جی ڈی پی کے ایک فیصد تک بڑھانا چاہیے۔ میری پسندیدہ اصلاح غریب بچوں کو نجی اسکولز میں تعلیم دلوانے کے لیے واؤچر فراہم کرنا ہے۔ سندھ اور پنجاب نے اس حوالے سے کامیاب پائلٹ پروگرامز بھی شروع کیے ہیں اور اب ان پروگرامز کو ملک بھر کے غریب بچوں تک رسائی دینی چاہیے ۔ طویل المدتی اقتصادی ترقی کے لیے شاید قانونی اصلاحات سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہے کیونکہ ان کے نتیجے میں عدالتوں کی طرف سے بروقت اور متوقع فیصلے ہوں گے۔ اس سے حکومت کی زیادتیوں کو روکا جائے گا، غیر ملکی سرمایہ کاری میں سہولت ملے گی اور اشرافیہ کے مفادات کو عدالتی مقدمات کو اپنے فائدے کے لیے طول دینے سے منع کیا جائے گا۔ اختتام میں گورننس کا نظام بہتر بنانے کا سب سے مؤثر طریقہ بیوروکریٹس کی اہلیت کو بہتر بنانا ہے۔ اس حوالے سے عوامی خدمت کے شعبے میں اصلاحات لانی چاہئیں جن میں اسپیشلائزیشن، میرٹ پر ترقی اور ایسے عہدیداران کی ریٹائرمنٹ شامل ہونی چاہیے جو معیارات پر پورا نہ اترتے ہوں۔ اگر پاکستان کو دیگر ممالک سے مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں اپنے لوگوں کو غربت سے نکالنا ہو گا، اس لیے یہ تمام اصلاحات انتہائی ضروری ہیں۔ بصورتِ دیگر ہم بحیثیت قوم یونہی بھٹکتے رہیں گے۔
مفتاح اسمٰعیل  
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
urduchronicle · 5 months
Text
بجلی 3 روپے 5 پیسے فی یونٹ مہنگی، اسی ماہ کے بلوں میں وصولی
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی 3 روپے 5 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ اسلام آباد سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ بجلی اکتوبر کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مہنگی کی گئی ہے۔ نیپرا نوٹیفکیشن کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 5 پیسے کا اضافہ دسمبر کے بلوں میں وصول کیا جائے گا۔ نیپرا اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ لائف لائن صارفین اور کےالیکٹرک صارفین پر اس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 7 months
Text
کون کس سے فریاد کرے
Tumblr media
پاکستانی سماج میں جو دکھ اور تکالیف کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ غریب طبقہ ہو یا مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس، دیہی یا شہری افراد، کاروباری یا ملازم پیشہ افراد یا نئی نسل کی آوازیں ہوں ہمیں ان کا مشترکہ دکھ معاشی تکالیف کی شکل میں دیکھنے اور سننے کا موقع مل رہا ہ��۔ گھر گھر کی کہانی معاشی بدحالی کے مختلف مناظر کے ساتھ لوگ بیان کرتے ہیں او ریہ سناتے وقت ان پر جو بے بسی یا مایوسی غالب ہے وہ بھی توجہ طلب مسئلہ ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج یا عدم توازن نے پورے سماج کی سطح پر گہری معاشی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، چینی، آٹا، دالیں، گھی، گوشت، ادویات، تعلیم اور صحت کے اخراجات سمیت دیگر بنیادی ضرورتوں پر جو ضرب کاری لگی ہے اس پر سب ہی سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ لوگوں کی کہانیاں سنیں تو اپنی کہانی کا دکھ پیچھے رہ جاتا ہے۔ یقین کریں لوگوں نے اپنے گھروں کی قیمتی اشیا کو بیچ کر بجلی کے بلوں کی آدائیگی کی ہے۔ ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام اور ریاستی وحکومتی سطح سے عام لوگوں سے جبری بنیادوں پر ٹیکسوں کی وصولی کے پورا نظام نے ہی لوگوں کو عملی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ طاقتور طبقات کو نظرانداز کر کے یا ان کو سیاسی و معاشی ریلیف دے کر عام آدمی کی زندگی میں مسائل بڑھائے جارہے ہیں۔
سفید پوش طبقہ یا ملازم پیشہ افراد کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنا دکھ کسی کو بیان کرنے کے لیے بھی تیار نہیں اور کوئی ایسا ریاستی , حکومتی یا ادارہ جاتی نظام موجود نہیں جو ان کی آوازوں کو بھی سن سکے یا ان کی شفافیت کی بنیاد پر داد رسی کر سکے۔ یہ ہی المیہ کی کہانی ہے جو آج پاکستان کی سیاست پر غالب ہے۔ آپ کسی بھی علمی یا فکری مجلس کا حصہ ہوں یا سیاسی مباحثوں کا یا کاروباری طبقات یا نوکری پیشہ افراد یا مزدود کہیں بھی بیٹھ جائیں تو دکھوں کی ایک لمبی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ اس کہانی میں حکمرانی کے ظالمانہ نظام سے لے کر حکمران طبقات کی شاہانہ زندگی کے معاملات اور عام آدمی کو جو تکالیف ہیں سب کچھ سننے کو ملتا ہے۔ جس کی بھی کہانی ہو گی اس کا ایک ولن بھی ہو گا اور ہر فریق کا ولن ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن ان سب میں ایک مشترکہ دکھ حکمرانی کا بدترین نظام اور معاشی استحصال ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے مستقبل کا نقشہ کھینچیں اور ان کو بتائیں کے حالات درست ہونے والے ہیں یا آپ امید رکھیں تو وہ مزید کڑوا ہو جاتا ہے اور اس میں مزید غصہ اور انتقام کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اس طرح کی جذباتیت پر مبنی کہانیاں کے حالات درست ہونے والے ہیں سن سن کر خود ہمت ہار بیٹھا ہے۔
Tumblr media
حکومتی نظام برے طریقے سے اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور لوگوں کو اب اس نظام پر اعتماد نہیں رہا۔ یہ واقعی ایک بڑا المیہ ہے جو اس وقت ریاستی سطح پر ہمیں درپیش ہے۔ مسئلہ محض ماتم کرنا , دکھ بیان کرنا یا کسی کو بھی گالیاں دینا نہیں اور نہ ہی یہ مسائل کا حل ہے لیکن سوال یہ ہے طاقت ور طبقہ یا فیصلہ ساز قوتیں کیونکر لوگوں کی آوازوں کے ساتھ اپنی آواز نہیں ملا رہی اور کیوں لوگوں کے بنیادی نوعیت کے معالات کے حل کے بجائے اس سے فرار کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔ ارباب اختیار میں یہ سوچ کیونکر غالب نہیں ہو رہی کہ ریاستی یا حکومتی نظام موجودہ طریقوں یا حکمت عملی یا عملدرآمد کے نظام سے نہیں چل سکے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارا ریاستی و حکومتی نظام عملاً گونگا اور بہرہ ہو گیا ہے اور لوگوں کے دکھ اور آوازوں کو سننے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں اور حکمران طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے اور لوگ حکمران طاقتور طبقات کو اپنے مسائل کی جڑ سمجھ رہے ہیں۔ سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ سیاسی نظام , سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت اور سیاسی کارکن سب ہی غیر اہم ہوتے جارہے ہیں۔ جن سیاسی افراد نے ملک کے سیاسی نظام کی باگ ڈور کی قیادت کرنا تھی وہ کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ 
لوگوں کو ایک ایسے ظالمانہ ادارہ جاتی نظام میں جکڑ دیا گیا ہے کہ لوگ خود کو ہی غیر اہم سمجھنے لگ گئے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ ہم وہ طبقہ نہیں جن کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا بلکہ یہ ملک ایک خاص طبقہ کے مفادات کی تقویت کے لیے بنایا گیا اور ہم اس میں محض تماشائی کی حیثیت سے موجود ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر کئی سیاسی افراد جو قومی اور صوبائی اسمبلیو ں کے سابق ارکان ہیں اور جنھوں نے آنے والے انتخابات میں حصہ لینا ہے سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے بقول ہمیں یہ ہی سمجھ نہیں آرہی کہ اگر انتخابات ہونے ہیں تو ہم عوام کا سامنا کیسے کریں گے اور کیوں لوگ ہمیں ان حالات میں ووٹ دیں گے۔ کیونکہ ہم نے اپنے سیاسی حکمرانی کے نظام میں کچھ ایسا نہیں کیا کہ لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگ کدھر جائیں اور کس سے فریاد کریں کیونکہ ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ یہ تو شکر کریں کہ ان بدترین معاشی حالات میں ایسے خدا ترس لوگ یا خوشحال لو گ موجود ہیں جو اپنے اردگرد لوگوں کی خاموشی کے ساتھ مدد کر رہے ہیں ۔
میں کئی لوگوں کو انفرادی سطح پر جانتا ہوں جو بغیر کسی شور شرابے کے اپنے اردگرد ہمسائیوں یا رشتہ داروں یا دوست احباب کی مدد میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان خد ا ترس افراد کے مقابلے میں ریاستی اور حکومتی نظام کدھر ہے اور کیونکر لوگوں کے ساتھ لاتعلق ہوتا جارہا ہے ریاست اور حکومت کا جوابدہ ہونا , ذمے داری کا احساس ہونا , لوگوں کو ریلیف دینا اور ان کی زندگیوں میں خوشیا ں لانا ہی ریاستی نظام کی ساکھ کو قائم کرتا ہے۔ لوگوں کو اب طاقتور طبقات کی جانب سے امید نہیں چاہیے بلکہ وہ عملی بنیادوں پر اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ بھی فوری طور پر ایسے اقدامات جو ان کی زندگیوں میں کچھ مثبت نمایاں تبدیلیاں لا سکے۔ موجودہ حالات میں مڈل کلاس یا درمیانی درجے کی کلاس کو ہم نے واقعی مفلوج کر دیا ہے اور ان کو اپنے رہن سہن میں مختلف نوعیت کے معاشی سمجھوتے کرنے پڑرہے ہیں۔ ان حالات کے ذمے دار وہی ہیں جن کو حکمرانی کرنے کا حق ملا، اختیارات ملے، وسائل ملے اور لوگ ان ہی کو جوابدہ بنانا چاہتے ہیں۔
جنگ وہ نہیں جو اسلحہ کی بنیاد پر کسی دشمن ملک سے لڑی جائے، ایک جنگ پاکستان کے لوگ پاکستان کے اندر حکمرانی کے نظام سے لڑ رہے ہیں اور اس جنگ نے لوگوں کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے یا اس ریاستی نظام سے لاتعلق بھی۔ اس جنگ کا دشمن ظالمانہ حکمرانی کا نظام ہے اور اس میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو عوام دشمنی کو بنیاد بنا کر اپنے لیے وسائل کو سمیٹ رہے ہیں۔ یہ جنگ عملاً ریاستی نظام کمزور کر رہی ہے اور لوگو ں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور دنیا میں اپنی منزل تلاش کریں۔ ہمیں اگر واقعی ملک میں سول نافرمانی سے بچنا ہے یا ملک کو ایک بڑی ہیجانی یا انتشار یا ٹکراو کی سیاست سے باہر نکالنا ہے تو ہمیں بہت کچھ نیا کرنا ہو گا۔ غیرمعمولی اقدامات ہماری بنیادی نوعیت کی ترجیحات ہونی چاہیے اور ایسی ترجیحات جس میں طاقتور طبقات کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے اور عام آدمی کے مقدمہ کو زیادہ فوقیت دی جائے لیکن سوال یہ ہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور کون ��وگوں کے دکھوں میں خود کو ایک بڑے سہارے کے طور پر پیش کریگا کیونکہ ریاستی اور حکومتی نظام آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی طاقتور طبقہ اسے آسانی سے بدلنے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ ایک سیاسی جدوجہد کی کہانی ہے جہاں ہمیں ریاستی یا حکومتی نظام پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست پیدا کرنا ہوتی ہے۔ یہ کام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کرتی ہیں لیکن وہ تو سیاسی بانجھ پن کا شکار ہیں اور ان کے مفادات عوامی مفادات کے برعکس نظر آتے ہیں۔ ایسے میں لوگ کدھر جائیں گے، ڈر ہے کہ لوگوں میں موجود غصہ ایک بڑے انتقام کی سیاست کی صورت میں آج نہیں تو کل سامنے آئے گا۔ سیاسی نظام کی قیادت سے لاتعلق عوامی ردعمل کسی بھی صورت میں ریاستی مفاد میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ عمل حالات کو اور زیادہ خراب کرتا ہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش سنبھالیں اور خود کو عوام کے ساتھ جوڑیں یہ ہی حکمت عملی ہمیں کچھ بہتری کا راستہ دے سکتی ہے۔
سلمان عابد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
nooriblogger · 8 months
Text
بلیاں
ریڈنگ منٹس09کل الفاظ1708 ان��ہائی غلط اور بے حد احمقانہ جوابات: چیٹ جی پی ٹی بلی جب بلوں سے ملتی ہیں تو نیچے اتنی چیختی کیوں ہیں؟ بلوں سے ملنے کے بعد اتنی چیخیں نکلنے کی وجہ کچھ اور ہو سکتی ہے۔ عموماً جب بلیوں کو ٹھیک سے نکالا یا کٹا جاتا ہے تو وہ کئی عوامل کی بنا پر چیختی ہیں: 1. تناؤش (Irritation): بلیوں کا ٹھیک سے نکالنا یا کاٹنا جسمانی تناؤش پیدا کرتا ہے جس کی بنا پر چیختیں نکلتی ہیں۔ 2.…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 8 months
Text
آئی پی پیز معاہدوں کی تجدید ملکی مفاد میں نہیں
Tumblr media
اپنے گزشتہ کئی کالموں میں بار بار حکومت سے آئی پی پیز سے گئے معاہدوں اور ان سے بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی مد میں ادائیگی پر گہری تشویش کا اظہار کر چکا ہوں۔ میں نے یہاں تک کہا ہے کہ یہ کینسر زدہ معاہدے پاکستان کے پاور سیکٹر اور معیشت کو ڈبو سکتے ہیں لہٰذا جلدازجلد پاور سیکٹر میں اصلاحات لا کر اِن معاہدوں کی تجدید پر نظرثانی کی جائے جو پاکستان کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بجلی کے حالیہ اجلاس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال 2023-24 میں بجلی کے صارفین کیپسٹی سرچارج کی مد میں 1300 ارب روپے بجلی خریدے بغیر آئی پی پیز کو ادا کرینگے۔ کیپسٹی سرچارج میں اضافے کی وجوہات میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی، درآمدی کوئلے، RLNG اور بینکوں کا شرح سود میں اضافہ شامل ہے۔ گزشتہ 20 سال میں حکومت آئی پی پیز کو کیپسٹی سرچارج کی مد میں 8000 ارب روپے ادا کر چکی ہے جبکہ صرف گزشتہ سال 2000 ارب روپے ادا کئے گئے جو فوج کے بجٹ 1800 ارب روپے سے بھی زیادہ ہیں۔ آج کیپسٹی سرچارج کا یہ کینسر بڑھکر صارفین کے بلوں کا آدھے سے زیادہ تک پہنچ چکا ہے۔ 2021-22ء میں پاور سیکٹر میں ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کے نقصانات اور چوری بڑھکر 550 ارب روپے (17 فیصد) تک پہنچ چکی ہے جس میں پشاور الیکٹریسٹی کے صرف ایک سال میں 154 ارب روپے (37 فیصد) کے نقصانات شامل ہیں جس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جو پورے سسٹم کو تباہ کر رہا ہے۔ 
اسمارٹ گرڈ اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم ترسیل کے نقصانات کو ایک سال میں 50 فیصد کم کر سکتے ہیں لیکن ہم IMF کے مطالبے پر ان نقصانات کو عام صارفین سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے وصول کر رہے ہیں جس سے بجلی کے نرخ ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکے ہیں۔ میرے دوست اور فیصل آباد کے سابق ضلعی ناظم رانا زاہد توصیف نے مطالبہ کیا ہے کہ آئی پی پیز معاہدوں کی انکوائری اور بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی پر ایک انکوائری کمیشن بنایا جائے اور ان کالی بھیڑوں کو، جو آئی پی پیز میں کک بیکس اور غیر حقیقی مراعات حاصل کر رہی ہیں، بے نقاب کیا جائے جس نے ملکی صنعت کو بھی خطے میں غیر مسابقتی بنا دیا ہے جس کا اندازہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باوجود ملکی ایکسپورٹس میں مسلسل کمی سے لگایا جاسکتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن نقصانات اور چوری، بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی، بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار، درآمدی کوئلے، فرنس آئل اور RLNG سے مہنگی بجلی کی پیداوار، فاٹا اور ٹیوب ویل کے صارفین کو سبسڈی اور واپڈا کے افسران کو مفت بجلی کی فراہمی شامل ہے۔ یہ سب خامیاں اور کوتاہیاں غریب صارفین سے بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کی جارہی ہیں جو سراسر ناانصافی ہے۔
Tumblr media
2018ء میں بجلی کا اوسط یونٹ 11.72 روپے تھا جسکے بعد PTI دور حکومت میں بجلی کے نرخ میں 60 فیصد اضافہ کیا گیا اور بجلی فی یونٹ تقریباً 18 روپے ہوگئی۔ PDM حکومت نے گزشتہ سوا سال میں 4 مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جس سے بجلی کی قیمت 50 روپے فی یونٹ سے بھی بڑھ گئی ہے جبکہ اسکی اصل لاگت 30 روپے سے بھی کم ہے۔ بجلی کے بلوں میں 14 ٹیکسز وصول کئے جاتے ہیں جن میں الیکٹریسٹی ڈیوٹی، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، فیول پرائز ایڈجسٹمنٹ (FPA)، فنانشل کاسٹ سرچارج (FCS)، میٹر رینٹ، ریڈیو، ٹی وی ٹیکس، ایکسٹرا ٹیکس اور دیگر ٹیکسز شامل ہیں۔ بجلی کے بلوں پر سامنے آنے والا عوامی ردعمل فطری ہے۔ حکومت IMF کی منظوری کے بغیر عوام کو بجلی کے بلوں میں کوئی ریلیف نہیں دے سکتی۔ ملک میں معاشی اور صنعتی سرگرمیوں میں سست رفتاری کی وجہ سے بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ملک میں معاشی اور صنعتی سرگرمیاں تیز ہوں اور آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر ادائیگیاں کرنے کے بجائے بجلی خرید کر انہیں ادائیگیاں کی جائیں۔ حکومت نے 1995، 2002، 2012، 2015 اور 2020 کی پاور پالیسی کے تحت 42 آئی پی پیز سے 15663 میگاواٹ بجلی کے معاہدے کئے ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کی معیاد اس سال یا آئندہ سال ختم ہونیوالی ہے۔ 
سابق مشیر پیٹرولیم ندیم بابر نے حکومت ��ے سفارش کی تھی کہ آئی پی پیز معاہدوں کی پرانی شرائط پر تجدید نہ کی جائے بلکہ نئے معاہدوں میں ڈالر میں منافع اور کیپسٹی سرچارج کے بجائے صرف خریدی گئی بجلی کی ادائیگی Competative Bidding کے ذریعے سب سے کم نرخ والے آئی پی پیز سے بجلی خریدی جائے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ زیادہ تر آئی پی پیز کی پلانٹ مشینری میں اوور انوائسنگ کی گئی ہے اور 10 سال میں 60 ارب روپے کی سرمایہ کاری پر 400 ارب منافع لے چکے ہیں اور اب یہ پلانٹ مفت ہو گئے ہیں اور ان سے بجلی کی پیداواری لاگت نہایت کم ہو گئی ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے آئی پی پیز معاہدوں کو غیر منصفانہ کہا ہے جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے آئی پی پیز کو 10 سال میں کی گئی ادائیگیوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر گزشتہ ایک ہفتے میں ایک درجن سے زائد افراد خود کشی کر چکے ہیں اور مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ستائے لوگ سول نافر مانی کی طرف جارہے ہیں۔ نگراں حکومت کو چاہئے کہ آئی پی پیز معاہدوں کی پرانی شرائط پر تجدید نہ کی جائے۔ اسکے علاوہ درآمدی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو تھرکول پر منتقل کیا جائے تاکہ مقامی کوئلے سے سستی بجلی پیدا کی جاسکے۔ یاد رکھیں کہ اس بار مہنگائی اور اضافی بلوں کا ڈسا مڈل کلاس طبقہ ہی الیکشن کا فیصلہ کریگا کیونکہ اسکے پاس اب کھونے کیلئے کچھ نہیں بچا۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
azharniaz · 8 months
Text
لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے؟عطا محمد تبسم
ملک میں کامیاب ہڑتال پر جماعت اسلامی خوش ہے، اور اسے ایک بڑی کامیابی خیال کیا جارہا ہے، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے امارت کی دوسری ٹرم پوری کرنے سے پہلے ملکی سیاست میں پہلی بار بھرپور احتجاج کیا ہے۔ گو اس احتجاج میں جماعت اسلامی سے زیادہ مہنگائی سے تنگ آئی عوام اور بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف عوامی غم و غصہ کا زیادہ دخل نظر آتا ہے۔بجلی پیٹرول کے نرخوں میں اضافے اور مہنگائی کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnabannu · 9 months
Text
بجلی بلوں میں اضافے اور مہنگائی کیخلاف عوام سراپا احتجاج ، شٹرڈائون ہڑتال
http://dlvr.it/SvXPkW
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
ایس ایچ سی نے کے الیکٹرک کے بلوں کے ذریعے میونسپل ٹیکس کی وصولی پر پابندی لگا دی۔
ایس ایچ سی نے کے الیکٹرک کے بلوں کے ذریعے میونسپل ٹیکس کی وصولی پر پابندی لگا دی۔
کے الیکٹرک کا بل۔ کراچی: سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) نے پیر کو کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کو کے الیکٹرک کے بلوں کے ذریعے میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اور ٹیکسز (ایم یو سی ٹی) کی وصولی سے عارضی طور پر روک دیا۔ 23 ستمبر کو جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان اور دیگر نے بجلی کے بلوں کے ذریعے میونسپل ٹیکس کی وصولی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ پیروی کرنے کے لیے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے خلاف دائر درخواستیں،حکومتی وکیل سے جواب طلب
بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے خلاف دائر درخواستیں،حکومتی وکیل سے جواب طلب
لاہور (کورٹ رپورٹر ) لاہورہائیکورٹ نے بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر وفاقی حکومت کے وکیل سے آئندہ سماعت پر جواب طلب کرلیا۔ جمعرات کو لاہورہائیکورٹ میں بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ جسٹس علی باقر نجفی نے منیر احمد سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل نے نیپرا کی اتھارٹی کوچیلنج کردیا اور موقف دیا کہ نیپرا کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 21 days
Text
پی ٹی وی کی بھی نجکاری کی جائے
Tumblr media
ہماری لڑکھڑاتی معیشت اگر پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے اداروں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تو کیا یہ پی ٹی وی کے لنگر خانے کا بوجھ اٹھا سکتی ہے؟ اگر دیگر اداروں کی نجکاری کا سوچا جا سکتا ہے تو کیا پی ٹی وی کے سفید ہاتھی کی نجکاری نہیں ہو سکتی؟ پبلک پرائیویٹ پارٹنر سکیم کا بڑا شہرہ ہے تو کیا اس سکیم کا اطلاق پی ٹی وی پر نہیں ہو سکتا؟ کیا عقل اور دلیل کی دنیا میں اس رویے کا کوئی اعتبار ہے کہ بجلی کے بلوں سے تیس پینتیس روپے ٹیکس کاٹ اس ادارے میں منظور نظر اف��اد کو نوازا جائے اور اندھا دھند نوازا جائے؟ یہ ایک قومی ابلاغی ادارہ ہے اور یہاں کوئی میرٹ ہے یا یہ محض اپنے اپنے حصے کے کارندوں کو نوازنے کے لیے ایک چراگاہ ہے؟ پی ٹی وی کی الیکشن ٹرانسمیشن اس وقت شہر اقتدار میں زیر بحث ہے۔ معلوم نہیں آپ میں سے کسی نے یہ ٹرانسمیشن دیکھی ہے یا نہیں لیکن واقفان حال کا دعوی ہے کہ یہ ایک ایسی واردات تھی کہ اپنی نوعیت میں یہ نیب کا کیس ہے۔ یہ ٹرانسمیشن صرف بیس بائیس روز چلی۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس مختصر مدت کے لیے جو دو اینکر رکھے گئے تھے ان کا معاوضہ کیا تھا؟ سر پیٹ لیجیے ، یہ رقم قریب پونے دو کروڑ روپے بنتی ہے۔ یعنی قریب 84 لاکھ فی کس۔
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا ایک ماہ سے بھی کم مدت کے لیے ٹی وی شو کرنے پر کسی میزبان کو 84 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا کوئی جواز بنتا ہے؟ چند روز کے پروگرام اور دو اینکروں کو پونے دو کروڑ روپے۔ اس بے رحمی سے تو کوئی مال غنیمت بھی تقسیم نہ کرتا ہو جس سفاک انداز سے پاکستان ٹیلی وژن کے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے۔ اس رقم میں دنیا کا قابل ترین آدمی بلایا جا سکتا تھا اور اس سے پروگرام کرایا جا سکتا تھا۔ لیکن پی ٹی وی نے اس رقم سے جو اینکر رکھے، ان کی صلاحیت اور تعارف کیا ہے۔ یہ معاوضہ کیا انہیں ان کی صلاحیت پر دیا گیا یا اس کی وجوہات کچھ اور تھیں؟ یہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟ کیا کوئی فورم ہے جہاں پر اس بندر بانٹ کی بابت سوال پوچھا جا سکے؟ پی ٹی وی میں معاوضے دینے کا طریقہ کار کیا ہے؟ کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کا کوئی اصول ہے یا یہ مال غنیمت ہے اور یہ بانٹنے والے کی مرضی ہے کس کو کتنا عطا فرما دے؟ اتنا بھاری معاوضہ جنہیں دیا گیا ان کا مارکیٹ ریٹ کیا ہے؟
Tumblr media
یہی نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی اطلاعات کے مطابق پی ٹی وی کی اس الیکشن ٹرانسمیشن کا صرف کھانے کی مد میں آخری دو دن کا بل 48 لاکھ روپے بنا۔ کیا کوئی ہے جو پی ٹی وی انتظامیہ سے پوچھ سکے کہ ان دو دنوں میں اس ٹرانسمیشن کے مہمانوں نے ایسا کیا کھا لیا کہ اس کا بل 48 لاکھ روپے بنا؟ یہ لوگ کھانا کھاتے رہے یا سارے معززین نے مل بیٹھ کر پیسے ہی کھائے؟ اس سارے پینل کو تمام شرکا کو اور ٹیکنیکل سٹاف کو اکٹھا کر کے کسی فائیو سٹار ہوٹل میں بند کر دیجیے اور اسے کہیے کہ دو دن جب اور جتنا اور جو چاہو یہاں سے کھا لو۔ پھر دو دن کے بعد حساب کر لیجیے کہ کیا وہ 48 لاکھ کا کھانا کھا گئے؟ ٹرانسپورٹ کا بھی سن لیجیے، سینیہ گزٹ کی خوف ناک چیزوں کو تو چھوڑ ہی دیجیے ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی اطلاعات کے مطابق ٹرانسپورٹ پر ایک کروڑ روپے کا خرچ آیا، قریب اتنا ہی خرچ لوگوں کی رہائش کی مد میں ڈالا گیا۔ یہ بے رحم اور سفاک اخراجات اس ادارے کے ہیں جو اپنے ذرائع خود تلاش کرنے کے قابل نہیں اور جسے چلانے کے لیے ہر گھر کے بجلی بل سے تیس روپے کا ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ 
غریب اور مسکین لوگ بھی یہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کیا اس لیے کہ پی ٹی وی میں منظور نظر افراد کو نوازا جائے۔ کیا قومی اداروں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے؟ اور کیا ایسا سلوک کرنے والے قومی مجرم نہیں؟ ایسا ہر گز نہیں کہ پی ٹی وی میں قابل سٹاف نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کارندوں کو نوازا جاتا ہے اور اس انداز سے نوازا جاتا ہے کہ محنت کرنے والا کارکن مایوس ہو کر لا تعلق ہو جاتا ہے۔ ہزاروں میں پی ٹی وی کا سٹاف ہے لیکن ڈائریکٹر نیوز اور ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز اور اس جیسے عہدے پر باہر سے منظور نظر کارندوں کو لا کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی وی کا اپنا ریگولر سٹاف جب موجود ہے تو باہر سے کنٹریکٹ پر لوگوں کو بھاری معاوضے پر لا کر کیوں بٹھایا جاتا ہے؟ جو بندر بانٹ پر اعتراض کرتا ہے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور جو سہولت کار بن جاتا ہے وہ بیک وقت جی ایم ، نیوز کنٹرولر اور ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز کے تین تین عہدوں پر فائز کر دیا جاتا ہے۔
پی ٹی وی ایک متفقہ چراگاہ بن چکا ہے۔ میرٹ نام کی یہاں کوئی چیز نہیں رہی۔ ہر حکومت اپنے منظور نظر لوگوں کو باہر سے لا کربٹھاتی ہے اور اس کی وجہ ان کی متعلقہ شعبوں میں مہارت نہیں ہوتی ۔ یہ امور دیگر ہوتے ہیں جو ان لوگوں کو منصب پر لا بٹھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے ۔ موجودہ معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ پی ٹی وی کو ایک چراگاہ کے طور پر چلایا جائے۔ اسے ایک ادارہ بنانا ہو گا۔ اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر سفید ہاتھی کو ختم کر دینا چاہیے۔ اس کا سنہرا دور گزر چکا۔ اب یہ ایک بوجھ ہے۔ سماج پر بھی اور قومی خزانے پر بھی۔ قومی زندگی میں اس کا مثبت کردار عرصہ ہوا ختم ہو چکا ہے۔ نہ یہ اچھے ڈرامے بنا رہا ہے نہ کوئی ڈھنگ کی ڈاکومنٹری بن رہی ہے۔ سیاحت سے سماج تک کسی موضوع میں اس کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں رہا۔ یہ صرف ایک چراگاہ بن چکا ہے۔ جہاں منظور نظر لوگ آتے ہیں تین چار ہفتوں میں اسی نوے لاکھ لے کر چلے جاتے ہیں۔
اب کچھ آئوٹ آف دی باکس سوچنا ہو گا۔ یا تو اسے ایک ادارے کے طور پر کھڑا کیا جائے اور بندر بانٹ کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے اور اگر یہ ممکن نہیں تو جہاں سٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری کی جارہی ہے وہیں پی ٹی وی کی بھی نجکاری کر دی جائے۔ جتنے وسائل اور انفراسٹرکچر اس کے پاس ہے، اس میں پاکستان کے تمام چینل چل سکتے ہیں۔ اگر پی ٹی وی اپنے لیے مالی امکانات خود تلاش نہیں سکتا تو بجلی کے بلوں کی مد میں مہنگائی کے ستائے لوگوں سے ٹیکس لے لے کر اسے کیوں چلایا جائے۔ بجا کہ ریاستی ٹی وی کو نجی ٹی وی کے کاروباری ماڈل پر نہیں چلایا جا سکتا لیکن اسے موجودہ طرز پر بھی نہیں چلایا جا سکتا جہاں قومی وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر بے رحمی سے منظور نظر افراد میں بانٹا جاتا ہے۔
  آصف محمود 
بشکریہ روزنامہ ٩٢نیوز
0 notes
jhelumupdates · 9 days
Text
جہلم میں صرف 2 لاکھ میں پنکھے اور فریج سولر پر منتقل ہونے لگے
0 notes
emergingpakistan · 5 months
Text
بجلی صارفین کا استحصال
Tumblr media
وفاقی حکومت کے تحت نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی 1997 کے ایکٹ کے تحت قائم ہوا۔ نیپرا کا انتظامی بورڈ چاروں صوبوں کے ماہرین اور ایک چیئر پرسن پر مشتمل ہے۔ اس ادارے کا بنیادی فریضہ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے نظام کے لیے قابلِ اعتبار مارکیٹ اور صارفین کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنا ہے۔ نیپرا کا ایک بنیادی فریضہ بجلی صارفین اور اداروں کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے، یوں قانون کے تحت نیپرا کی ذمے داری ہے کہ صارفین کے مفادات کا تحفظ کرے۔ نیپرا نے گزشتہ دنوں بجلی تقسیم کار اداروں کے بارے میں رپورٹ افشاء کی تو بجلی صارفین کی شکایات کی تصدیق ہوتی ہے۔ نیپرا کی اس رپورٹ میں۔ نیپرا کی اس رپورٹ کے سرسری مطالعہ سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ بجلی تقسیم کار بعض اداروں نے صارفین سے حقیقی بل سے صد فی صد زیادہ رقم وصول کی۔ نیپرا کی اس جامع تحقیقاتی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ تمام کمپنیاں صارفین سے زائد بل وصولی کی ذمے دار ہیں، ملک بھر میں ایک کمپنی بھی ایسی نہیں ہے جو صارفین نے زیادہ بل وصول نا کرتی ہو۔ 
اس سال جون کے مہینے میں بجلی کے نرخ غیر معمولی طور پر بڑھائے گئے ہیں ، چھوٹے صارفین کی قوتِ خرید جواب دے گئی، یوں چند سر پھرے لوگوں نے اوور بلنگ کے خلاف احتجاج شروع کیا، جب صورتحال قابو سے باہر ہونے لگی تو اوور بلنگ کے بارے میں تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں ماہرین نے ایک مستند رپورٹ مرتب کی۔ یہ رپورٹ بجلی گھروں کی تقسیم کے نظام کے بغور مطالعہ، اس موضوع پر ہونے والی تحقیق کے جائزہ اور بجلی کی کمپنیوں کے طویل سروس سے حاصل کردہ اعدادوشمارکی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صارف کے میٹر کی ریڈنگ سے زیادہ رقم وصول کی گئی ہے اور بعض کیسوں کے غور سے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوں میں اوور چارجنگ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کی گئی ہے۔ اسی طرح صارفین کو طے شدہ مدت کو نظرانداز کر کے بل بھیجے گئے۔ یوں یہ بل 30 دن کی طے شدہ مدت سے زیادہ ہو گئے۔ اس صورتحال کا نقصان ان لاکھوں صارفین کو پہنچا جو ہر ماہ 200 یونٹ سے کم بجلی خرچ کرتے ہیں۔ ملکی قانون کے تحت 30 دن کے اندر بجلی کے میٹر کی ریڈنگ حاصل کرنی چاہیے مگر اس قانون کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ 
Tumblr media
نیپرا کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے ملک 13.76 ملین صارفین کو 30 دن سے زائد ریڈنگ کی بنیاد پر بل بھیجے گئے۔ اسی طرح 3.2 ملین صارفین سے اوور بلنگ کی گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گجرانوالہ میں 1.65 ملین صارفین سے اوور بلنگ کی گئی۔ فیصل آباد کے 1.9 ملین صارفین کو زیادہ بل بھجوائے گئے۔ بجلی کے نظام کو ریگولیٹ کرنے والے سرکاری ادارہ کی اس رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ کے الیکٹرک سمیت تمام کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور عوام کو بجلی کے بلوں میں رعایت دی جائے۔ نیپرا کی یہ رپورٹ گزشتہ جولائی اور اگست کے بلوں سے متعلق ہے۔ سال کے باقی 10 مہینوں کے بارے میں کیا صورتحال ہو گی اس کے بارے میں ایک جامع تحقیقات سے ہی حقائق کا علم ہو سکتا ہے۔ بجلی بلز میں اووربلنگ کے تناظر میں افسوس ناک یہ حقیقت ہے کہ کم آمدنی والے کروڑوں صارفین کو استعمال سے زیادہ بجلی کے بل بھیجے گئے۔ جب لاکھوں افراد ان بلوں کی ادائیگی سے قاصر رہے تو ان کے کنکشن منقطع کر دیے گئے۔ 
بنیادی انسانی حقوق میں بجلی کے استعمال کا حق بھی شامل ہے، مگر اس ملک میں ہر سال بجلی کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے جہاں بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ کراچی میں بجلی کی تقسیم کے حوالے سے شہر کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جن علاقوں میں صد فی صد بلنگ ہوتی ہے، وہ لوڈ شیڈنگ فری زون قرار دیے گئے ہیں اور جہاں بلز کی ادائیگی کم ہے وہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ جہاں بجلی بلزکی وصولی کی شرح کم ہے وہاں سردیوں میں 8 سے 10 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ ایک صورتحال یہ بھی ہے ان علاقوں میں جہاں صارفین صد فی صد بل ادا کرتے ہیں مگر ان صد فی صد بل ادا کرنے والے صارفین کی بستیوں سے متصل بستیوں میں بل ادا کرنے کی شرح کم ہوتی ہے تو وہاں 10 ,10 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور جو لوگ ہر ماہ بل ادا کرتے ہیں وہی سزا پاتے ہیں۔ ایک طرف تو لوڈ شیڈنگ کی بناء پر بجلی نہیں آتی تو دوسری طرف ہر مہینہ دو مہینہ بعد بجلی کے بلوں کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران بجلی کے نرخ میں صد فی صد کے قریب اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورتحال تو گھریلو صارفین کی ہے، تجارتی اور صنعتی استعمال والے اداروں میں ایک نیا بحران جنم لیتا ہے۔ جب بھی بجلی کے ٹیرف میں اضافہ ہوتا ہے تو تیار کی جانے والی اشیاء پر آنے والی قیمت بڑھ جاتی ہے، یوں برآمدات کا شعبہ اس صورتحال سے براہِ راست متاثر ہوتا ہے۔ برآمد کنندگان مسلسل یہ شکایت کر رہے ہیں کہ گزشتہ 15 ماہ کے دوران بجلی اور گیس کے نرخ بڑھے تو ان کارخانوں کی تیار کردہ اشیاء کی برآمدی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ پاکستانی اشیاء غیر ممالک کی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کر پا رہی ہیں۔ نیپرا نے گزشتہ جولائی اور اگست کے مہینوں کے بارے میں جب یہ تحقیق کی تھی تو اس وقت میاں شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کر رہے تھے۔ پارلیمانی نظام کی روایت کے تحت حکومت میں شریک تمام جماعتیں حکومتی فیصلوں کی ذمے دار ہوتی ہیں،
یوں پی ڈی ایم حکومت میں شامل تمام جماعتیں اس صورتحال کی براہِ راست ذمے دار ہیں، جس کے وزراء آنکھیں بند کر کے حکومت کے بجلی کے نرخ بڑھانے کے فیصلے کی وکالت کرتے رہے۔ سابق پارلیمانی سیکریٹری زاہد توصیف کا کہنا ہے کہ بجلی کی کمپنیوں نے 1700 ارب روپے زیادہ وصول کیے ہیں جو ہر صورت صارفین کو واپس ہونے چاہئیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ بلند ترین مارک اپ ریٹ اور مہنگی ترین بجلی اور گیس پاکستان میں ہے۔ ملک میں ایک نگراں حکومت برسرِ اقتدار ہے جس کے بارے میں تصور یہ ہے کہ وہ خاموشی سے اپنی پیش رو حکومتوں کی پیروی کررہی ہے مگر اس کے باوجود نگراں حکومت کی ذمے داری ہے کہ فوری طور پر بجلی کے نرخ کم کرے اور تمام شہریوں کو بجلی فراہم کرنے کے بارے میں لائحہ عمل تیار کرے۔ نیپرا کی اس رپورٹ پر غور کرنے کے لیے پاور ڈویژن نے چار رکنی ایک کمیٹی بنائی ہے۔ مگر کیا یہ کمیٹی طاقتور کمپنیوں کا کیا احتساب کرے گی ؟ شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ کمیٹی وقت ضایع کرنے کے سوا کچھ نہ کر پائے گی۔ سیاسی جماعتوں کو بجلی صارفین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خاتمے کے لیے اقتدار میں آنے کے قابل عمل پالیسی بنانی چاہیے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes