Tumgik
#مصنوعی ذہانت
nooriblogger · 4 days
Text
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
ریڈنگ منٹس04کل الفاظ664 اے آئی کی نزاکت ظالمو! اے آئی آرہی ہے کیا  شور بپا ہوا تھا اے آئی کا: اے آئی تہائی نوکریاں کھا جائے گی، اے آئی سپر آے جی آئی بن جائے گی، آے آئی سے دنیا کو خطرہ ہے، مشین انسان کے قابو سے باہر ہوجائے گی، اے آئی مارکیٹ پر کنٹرول حاصل کرلے گی، اے آئی مجازی خدا بن جائے گی، یہ ہوجائے گا، وہ ہوجائے گا۔  اتنا زبردست ہائپ اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، ٹائیں ٹائیں فش!  اتنا  شور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 4 months
Text
مصنوعی ذہانت کو بھلائی کے لیے استعمال کرنے کے لیے عالمی ضابطے بنائے جائیں، پوپ فرانسس
پوپ فرانسس نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ وہ ایک ڈیپ فیک تصویر کا شکار ہوئے تھے، بدھ کے روز مصنوعی ذہانت کے خطرات کے خلاف خبردار کیا، پوپ فرانسس نے اس کے عالمی ضابطے کو عام بھلائی کے لیے استعمال کرنے کی اپیل کی تجدید کی۔ پوپ فرانسس نے رومن کیتھولک چرچ کے سماجی رابطوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں مصنوعی ذہانت کے لیے اپنے خوف اور امیدوں کا ذکر کیا، جو 12 مئی کو دنیا بھر میں منایا جائے گا۔ پوپ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
ssnews · 1 year
Text
مصنوعی ذہانت کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے اور آگے کیا ہونے والا ہے۔ انکشاف کیا ہے۔
ایک حالیہ اعلان میں، گوگل نے اپنے سرچ انجن میں جدید مصنوعی ذہانت (AI) فنکشنز کو شامل کرنے کے منصوبوں کا انکشاف کیا ہے، جس سے صارفین زیادہ باخبر فیصلے کرنے اور متعلقہ معلومات کو تیزی سے تلاش کر سکیں گے۔AI سے چلنے والے نئے فیچرز آنے والے مہینوں میں شروع ہونے کی توقع ہے، اور یہ صارفین کو قدرتی زبان کا استعمال کرتے ہوئے پیچیدہ سوالات کو تلاش کرنے کے قابل بنائے گی، جیسے کہ “میرے نزدیک بہترین ریستوراں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
forgottengenius · 4 months
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes
jhelumupdates · 11 days
Text
مصنوعی ذہانت کی جنگ کون جیتے گا؟
0 notes
urduintl · 2 months
Text
0 notes
auratube-blog · 5 months
Text
ہزاروں فوجیوں کی واپسی: اسرائیل نے اہداف حاصل کرلیے یا پسپائی ہوئی؟
سترہ میں سے صرف 4 بریگیڈ فوج غزہ میں رہ گئی، اگلے چند روز میں مزید فوج نکالے جانے کا امکان مصنوعی ذہانت کے ڈرونز اور روبوٹس کا استممال بڑھائےجانے اورجنوبی غزہ پروسیع پیمانے پرتباہی کے ہتھیاروں سے حملے کاخدشہ کراچی( ڈاکٹرسہیل محمود)اسرائیل نے غزہ سے ہزاروں فوجی نکالنے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ شمالی غزہ اور وسطیٰ غزہ مین مقاصد حاصل کرلیے گئے ہیں لہذا اب اتنی فوج رکھنے کی ضرورت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 5 months
Text
کیا انتخابات سے ملک میں استحکام آسکے گا؟
Tumblr media
خوشخبری یہ ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد 8 فروری کو ہورہا ہے۔ بری خبر یہ ہے کہ یہ انتخابات بھی مذاق ثابت ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا گیا، شاید اس صورتحال نے انتخابات کے حوالے سے ابہام کچھ حد تک کم کیا ہو لیکن ان کی شفافیت پر اب بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ گمان یہ ہورہا ہے کہ پسندیدہ لوگوں کے لیے میدان صاف کیا جارہا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوششوں کے تناظر میں ان معاملہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان مقابلے پر آچکا ہے۔ اس پورے کھیل نے انتخابی عمل کو مضحکہ خیز بنا دیا ہے۔ یہ شاید پہلا موقع نہیں ہے کہ ہم نے ایسے حالات دیکھے ہوں لیکن صورتحال کبھی اتنی خطرناک نہیں تھی۔ یہ سب ’مثبت‘ نتائج سامنے لانے کی کوششیں ہیں۔ لیکن کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس طرح ختم نہیں کیا جاسکتا۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے طاقت کے مظاہرے نے ظلم و ستم اور پابندیوں کو ٹھکراتے ہوئے بڑھتی ہوئی مزاحمت کی جھلک پیش کی۔ 
سوشل میڈیا کے اس دور میں آواز دبانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں۔ اب پی ٹی آئی ان پابندیوں کے خلاف مصنوعی ذہانت کا استعمال کررہی ہیں۔ حال ہی میں پی ٹی آئی نے انتخابی مہم کے لیے اپنے پہلے ورچوئل جلسے کا انعقاد کیا۔ یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے پی ٹی آئی نے اپنے قائد عمران خان کی آواز بھی بنائی۔ اگرچہ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے 5 گھنٹے طویل یہ ورچول جلسہ تعطل کا شکار ہوا لیکن اس کے باوجود یہ کسی حد تک اپنا مؤقف پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا ایسا استعمال اس حوالے سے ریاست کی جانب سے عائد پابندیوں کی حدود کو ظاہر کرتا ہے جوکہ انتخابات سے قبل سیاسی حرکیات کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔ یہ ان طاقتوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دے گا جوکہ انتخابی عمل میں مداخلت کرنا چاہتی ہیں۔ مرکزی دھارے کی دو سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی تو سوشل میڈیا کے استعمال میں بہت پیچھے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا پر غلبہ حاصل ہے جس سے وہ نوجوانوں تک اپنا پیغام پہنچانے میں کافی حد تک کامیاب ہے۔ 
Tumblr media
پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے ووٹرز کو بڑی تعداد میں انتخابات والے دن باہر نکلنے کا پیغام، پولنگ کے روز حالات کو الگ رخ دے سکتا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ابھی مزید پتے ہیں۔ پارٹی کی طرف سے کسی بھی ممکنہ چیلنج کو روکنے کے لیے ریاست کی جانب سے جابرانہ ہتھکنڈے اپنانے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کریک ڈاؤن کا دائرہ کار وسیع ہورہا ہے اور اب تیسرے اور چوتھے درجے کے رہنما بھی اس کریک ڈاؤن کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ وہ رہنما تائب ہونے سے انکار رہے ہیں انہیں شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی خواتین قیدیوں کی حالتِ زار بھی بدتر ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے اُس فیصلے کو منسوخ کر دیا ہے جس میں سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا۔ یوں اس فیصلے کو سیاسی قیدیوں کو مزید دھمکانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ لیکن پھر بھی ان تمام سخت اقدامات کے باوجود، لگ نہیں رہا کہ صورتحال پوری طرح قابو میں ہے۔
اگرچہ پی ٹی آئی کے پاس بیان بازی کے علاوہ کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے لیکن درحقیقت ریاست کے جابرانہ اقدامات ان کی حمایت میں اضافہ کررہے ہیں۔ زبردستی پارٹی چھڑوانے اور ان کے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی کوششوں سے پی ٹی آئی کی حمایت میں کمی واقع نہیں ہورہی۔ یہ وہ ماحول ہے جس میں عام انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ عوام میں یہ بڑھتا ہوا خیال کہ انتخابات کے نتائج کا فیصلہ ہو چکا ہے، انتخابی عمل کی ساکھ کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایسے انتخابات سے ملک میں استحکام آسکے گا یا پھر اس سے تقسیم میں مزید اضافہ ہو گا؟ سوشل میڈیا کے دور میں ریاست کے لیے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا انتہائی مشکل ہے۔ متنازع انتخابات کی ساکھ صورتحال کو انتہائی غیر مستحکم کرنے کا سبب بن سکتی ہے جس سے مستقبل کی حکومت کے لیے ملک کو درپیش متعدد چیلنجز سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا۔ متنازع انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی کسی بھی حکومت کی ساکھ انتہائی کمزور ہو گی جس سے ان کا سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر انحصار مزید بڑھے گا۔ اس سے ملک میں جمہوری عمل کو شدید نقصان پہنچے گا۔ 
ہمارے لیے یہ حقیقت لمحہِ فکریہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی اقتدار کے اس کھیل میں اسٹیلشمنٹ کے تمام جابرانہ اقدامات کا ساتھ رہی ہیں۔ درحقیقت سابق وزیراعظم نواز شریف کو اسٹیلشمنٹ کے اس نئے کھیل میں سب سے زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ جس طرح اس پورے نظام میں تبدیلی لائی گئی ہے، اس تناظر میں ان کے خلاف مقدمات میں عدلیہ کا فیصلہ نواز شریف کے حق میں آنا کوئی حیران کُن بات نہیں ہے۔ اس عدالت جس نے انہیں پہلے ’مجرم‘ قرار دیا تھا، اب وہی عدالت انہیں ان الزامات سے بری کر رہی ہے۔ یہ ثابت شدہ ہے کہ ان کو اقتدار سے ہٹانے اور مجرم قرار دینے والی وہی قوتیں تھیں جو اب مبینہ طور پر 2024ء کے انتخابات میں ان کی سرپرستی کررہی ہیں۔ سزا معطلی کے بعد نواز شریف اب انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں جس سے ان کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کے امکانات کو تقویت مل رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو یقین ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آرہے ہیں۔ اب نواز شریف کی جگہ عمران خان کرپشن اور بغاوت جیسے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ سائفر کیس میں عمران خان پر پہلے ہی فردِجرم عائد ہو چکی ہے۔ سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی بھی حکومتی عہدہ سنبھالنے کے اہل نہیں ہیں۔ 
ہمارے عدالتی نظام کی مشکوک ساکھ اور جس طرح انہیں سزا دی گئی ہے، یہ بظاہر پولیٹیکل وکٹیمائزیشن کا ایک اور کیس معلوم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں منعقد ہونے والے تمام انتخابات میں اسی طرح ہیرا پھیری کی گئی لیکن اس وقت جاری پری پول منیجمنٹ کی مثال ہمیں کم ہی ملتی ہے۔ انتخابی عمل میں اس قدر مداخلت تو ہمیں فوجی حکومتوں کے ادوار میں بھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ جس طرح ہمارے ملک کے ہر شعبے میں سیکیورٹی اسٹیلشمنٹ کا اثرورسوخ ہے اس سے انتخابات میں سویلین بالادستی انتہائی مشکل ہے اور اس سے ایک بار پھر ممکنہ طور پر ہائبرڈ اقتدار کا دور شروع ہو گا جس میں سویلین انتظامیہ کا ذیلی کردار ہو گا۔ ایک ریاست جو پہلے ہی لاتعداد مسائل میں گھری ہوئی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسی مضبوط نمائندہ حکومت اقتدار میں آئے جو ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرے۔ ملک کو سیاسی تقسیم کی نہیں بلکہ سیاسی طور پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنی تاریخ سے کبھی بھی سبق نہیں سیکھتے۔ ان کی تمام تر توجہ صرف قلیل مدتی مفادات پر ہوتی ہے جبکہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے ہدف پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔
زاہد حسین   یہ مضمون 20 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
اے آئی پھیپھڑوں کے کینسر کی نشاندہی میں مددگار ثابت
شکاگو: ایک نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مصنوعی ذہانت (AI) سگریٹ نوشی نہ کرنے والوں میں پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرے کا اندازہ لگانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق شکاگو میں امریکی محققین نے کہا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس “CXR-Lung-Risk” پروگرام سینے کے ایکسرے کی معمول کی تصاویر کا جائزہ لیتا ہے جس میں پھیپھڑوں کے کینسر سے منسلک نمونوں کی تلاش کی جاتی ہے۔ شکاگو میں ریڈیالوجیکل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnabannu · 7 months
Text
ملازمین جو چھپ کر آفس میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں:’ایسا لگا ویڈیو گیم کا چِیٹ کوڈ مل گیا‘
http://dlvr.it/SyPxxn
0 notes
nooriblogger · 16 days
Text
سب سے بڑا ڈیٹا سینٹر
ریڈنگ منٹس05کل الفاظ957 ایک ملی میٹر (مکعب) 1 مکعب ملی میٹر دماغی ٹشوز کے مکمل اسکین میں 1.4 پیٹا بائٹ ڈیٹا لیا گیا، جو 14,000 4K فلموں کے برابر ہے- گوگل کے مصنوعی ذہانت کے ماہرین نے محققین کی مدد کی۔ حالیہ کوششوں میں، جہاں انسانی دماغ کے صرف ایک مکعب ملی میٹر کا مکمل نقشہ بنایا گیا، نمونے کی تصاویر کے لیے 1.4 پیٹا بائٹ اسٹوریج استعمال ہوئی۔ ہارورڈ کے محققین اور گوگل کے مصنوعی ذہانت کے ماہرین…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 5 months
Text
مصنوعی ذہانت سے 40 فیصد ملازمتیں متاثر ہوں گی، عدم مساوات بڑھے گا، آئی ایم ایف کا انتباہ
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایک نئے تجزیے کے مطابق، مصنوعی ذہانت تمام ملازمتوں کے تقریباً 40 فیصد کو متاثر کرنے والی ہے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا ہے کہ “زیادہ تر منظرناموں میں،مصنوعی ذہانت ممکنہ طور پر مجموعی عدم مساوات کو مزید خراب کر دے گا”۔ محترمہ جارجیوا نے مزید کہا کہ پالیسی سازوں کو “پریشان کن رجحان” کو حل کرنا چاہیے تاکہ “ٹیکنالوجی کو سماجی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 10 months
Text
گوگل، اوپن اے آئی اور مائیکروسوفٹ نے محفوظ اے آئی پلیٹ فارم تجویز کردیا
 واشنگٹن: مصنوعی ذہانت، زندگی کے ہرشعبے میں داخل ہوچکی ہے اور گویا ایک ایسا فرماںبردار جن ہے جو ہر کام بجالانے کی قوت رکھتا ہے۔ لیکن کے ان دیکھے اور منفی پہلوؤں کو بھی نظرمیں رکھنا ضروری ہے۔ اب مائیکروسوفٹ، گوگل، اپن اے آئی اور اینتھروپِک نامی بڑے اداروں نے اس کے لیے ایک مشترکہ تنظیم و فورم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’فرنٹیئرماڈل فورم‘ نامی تنظیم عام استعمال سے لے کر صنعتوں تک کے لیےاے آئی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
besturdunews · 11 months
Text
مصنوعی ذہانت ALS کے مریضوں کو اپنی آواز کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتی ہے۔
مصنوعی ذہانت ALS کے مریضوں کو اپنی آواز کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتی ہے – CBS News سی بی ایس نیوز دیکھیں مصنوعی ذہانت کی مدد سے، ALS کے مریض اپنی بولنے کی صلاحیت کو محفوظ رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر جون لاپوک کے پاس اور بھی ہیں۔ جاننے والے پہلے بنیں۔ بریکنگ نیوز، لائیو ایونٹس، اور خصوصی رپورٹنگ کے لیے براؤزر کی اطلاعات حاصل کریں۔ ابھی نہیں آن کر دو
View On WordPress
0 notes
jhelumupdates · 18 days
Text
نئے فیچرز کے ساتھ چیٹ جی پی ٹی کا نیا ورژن متعارف
0 notes
urduintl · 3 months
Text
0 notes