Tumgik
#تختیاں
moizkhan1967 · 3 years
Text
Tumblr media
عجیب لوگ تھے وہ تتلیاں بناتے تھے
سمندروں کے لیے مچھلیاں بناتے تھے
,
مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے
,
وہی بناتے تھے لوہے کو توڑ کر تالا
پھر اُس کے بعد وہی چابیاں بناتے تھے
,
فضول وقت میں وہ سارے شیشہ گر مل کر
سہاگنوں کے لیے چوڑیاں بناتے تھے
,
ہمارے گاؤں میں دو چار ہندو درزی تھے
نمازیوں کے لیے ٹوپیاں بناتے تھے...
10 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
‏میرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
میرے بزگ مگر تختیاں بناتے تھے
وہی بناتے تھے لوہے کو توڑ کر تالا
پھر اسکے بعد وہی چابیاں بناتے تھے
ہمارے گاؤں میں دو چار ہندو درزی تھے
نمازیوں کیلئے ٹوپیاں بناتے تھے
5 notes · View notes
urduclassic · 4 years
Text
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی ؟
' 'یہ دیکھئے یہ وہ تختی ہے جو بّرصغیر پاک و ہند میں پائی جانے والی قدیم ترین تحریروں میں سے ہے۔ انتہائی نادر اور انتہائی اہم۔ اس کو حاصل کرنے والا عجائب گھر اس کی موجودگی پر اتراتا ہے اور دور دور سے ماہرین آثار ِقدیمہ اس کو محض ایک نظر دیکھنے آتے ہیں۔ یہ چھوٹی سی تختی بہت بڑی ہے۔ اس کا کاتب کون ہو گا معلوم نہیں لیکن یقیناً وہ اپنے زمانے کا بہت بڑا عالم رہا ہو گا کہ اس وقت آواز کو نقوش میں تبدیل کرنے کا علم کسی کسی کے پاس تھا۔ ہم آپ خوش قسمت ہیں کہ اس لوح کو دیکھنے والوں میں ہیں ‘ ‘ ۔ میرے مہمان نے مجھے ایک اکتاہٹ بھری مسکراہٹ سے نوازا اور ہاتھ کے ایک اشارے سے اس گیلری سے باہر چلنے کا اشارہ کیا۔ اس کی عدم دلچسپی اور لا تعلقی سے آگاہ ہونے کے لیے کسی خاص علم کی ضرورت نہیں تھی۔' ' سنیے یہاں کہیں زنگر برگر مل جائے گا؟ ‘ ‘ اس نے بے تابی سے پوچھا۔'' کیوں نہیں۔ ہمارے ہاں ساڑھے پانچ ہزار سال پرانا زنگر برگر ملتا ہے۔ وادیٔ سندھ کے قدیم باشندوں کی اصل خوراک یہی تو تھی ‘ ‘ میں نے ٹھنڈے لہجے میں اسے جواب دیا۔
غلطی میری ہی تھی۔ وہ لاہور دیکھنے آیا تھا اور میرے اصرار پر عجائب گھر بھی چلا آیا تھا۔ میں آدابِ میزبانی کا شکار تھا اور وہ آداب مہمانی کا اسیر۔ سو‘ دو قیدی ایک ہی بندھن میں بندھ گئے تھے ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اس کا بھی قصور نہیں ۔ یہ بات صرف اس کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہر ایک شخص تاریخ سے شغف نہیں رکھتا اور ہر ایک کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ آج سے پانچ ہزار سال پہلے کے لوگ کن جتنوں سے کیا لکھتے تھے۔ میں ایسے ہر موقع پر بد مزہ ہونے کے بعد یہ ایک بار پھر عہد کرتا ہوں کہ کسی بھی عجائب گھر میں کسی کے ساتھ نہیں آؤں گا لیکن مقدر پر کس کو اختیار ہے۔ ہر بار عہد شکنی ہو جاتی ہے‘ اور ہر بار بدمزہ ہونا پڑتا ہے ۔ خیر چھوڑئیے ان باتوں کو ۔ ایسا کرتے ہیں کہ ان مہمانوں کو برگر کے حوالے کرتے ہیں۔ آپ اگر یہ ذوق رکھتے ہیں تو میرے ساتھ آئیے۔ یہ نوادر ٹھیک سے دیکھتے ہیں۔ اپنی تاریخ سے ملاقات دراصل اپنے مستقبل سے آگاہی ہے۔ لاہور‘ پشاورـ‘ ہڑپہ اور موہنجودڑو کے عجائب گھروں سمیت کئی عجائب گھروں میں وہ تحریریں محفوظ ہیں جو وادیٔ سندھ کی تہذیب کی یادگار ہیں۔
مٹی کی تختیاں اور چاک پر بنائے ہوئے برتن وہ نقوش اور خطوط محفوظ کر کے ہم تک پہنچا چکے ہیں جو اس زمانے کی تحریریں تھیں۔ یہ تو صرف برّصغیر کی ایک قدیم تہذیب ہے۔ دنیا بھر کے نوادر خانوں میں ��یاحوں کے ہجوم ان مکتوبہ الفاظ کے چشم دید گواہ بننے آتے ہیں جو کہیں گِلی الواح پر‘ کہیں تانبے اور لوہے کی پلیٹوں پر ‘کہیں پتھروں اور خشتی سلوں پر‘کہیں ہرن کی کھال پر‘ کہیں دیگر جانوروں کے چمڑے پر ‘کہیں پائپرس پر ثبت ہیں اور جریدۂ عالم پر اپنے دوام کا بولتا ثبوت ہیں۔ غاروں ‘چٹانوں‘ تباہ شدہ شہروں‘اجڑے محلوں اور متروک بستیوں میں تحریریں اس کے علاوہ ہیں۔ انسان جانے کتنے ہزار سال کتنی نسلوں اور کتنے جتنوں کے بعد اس درجے پر پہنچا تھا کہ ان آوازوں کو تحریر کی شکل دے سکے۔یہ تحریر جو ہم اب سمجھ ہی نہیں سکتے اور وہ چمڑے کے ٹکڑے جو کتاب کی ابتدائی شکل ہیں۔ کہیں غلافی شکل میں‘ کہیں تصویری زبان میں اور کہیں آڑے ترچھے نقوش کی صورتوں میں وہ ا بتدائی کتابیں ہیں جن تک پہنچ جانا اس وقت کی انسانی ترقی کی معراج تھی۔ 
چمڑے اور کھالیں ان تحریروں کی امین اور رکھوالی تھیں اور لکھنے کا علم خال خال لوگوں کے پاس تھا‘ پھر پائپرس نامی درخت کی چھال نمودار ہوئی۔ مصر میں بحر ِ احمر کے کنارے وادیٔ الجرف سے ملنے والے پائپرس پر لکھے ہوئے کاغذات کم و بیش 2550 سال قبل از مسیح کے ہیں۔ پائپرس کے رول کتاب کی پہلی اور ابتدائی شکل تھی اور یہ اس وقت تک مروج رہی جب تک عرب مسلمانوں نے مصر میں کاغذ بنانے کا آغاز نہیں کیا۔ یہ وہ مسلمان تھے جنہوں نے یہ فن چینیوں سے سیکھا تھا۔ یہ 1946ء کی بات ہے جب محمد الذئب نامی گڈریا بحیرہ ٔ مردار کے پاس قمران نامی بستی کے قریب نزدیکی پہاڑیوں میں اپنی بکری کا تعاقب کرتے ہوئے ایک غار میں گھسا جہاں اس نے مٹی کے بیشمار مرتبان دیکھے۔ ان مرتبانوں میں پائپرس کے طومار تھے جو تمام تر مذہبی تحریروں پر مشتمل تھے ۔ وہ چند کاغذات جو وہ گڈریا اس غار سے اٹھا لایا تھا' وہ اس نے سات برطانوی پونڈز کے عوض برطانوی مستشرقین کے ہاتھ فروخت کر دئیے اور اس طرح علمی دنیا اس لائبریری سے پہلی بار آگاہ ہوئی۔
بعد ازاں قمران کے بارہ مختلف غاروں سے یہ تمام لائبریری نکالی گئی اور اسے بحیرۂ مردار کے طومار (ڈیڈ سی سکرولز ) کا نام دیا گیا ۔ پائپرس کے یہ رول تیسری صدی قبل از مسیح سے پہلی صدی بعد از مسیح تک کی کتابوں اور کاغذات پر مشتمل تھے۔ مختلف طرح کی 981 کتابوں اور کاغذات پر مشتمل یہ لائبریری زیادہ تر عبرانی زبان میں‘ چند ایک کتب آرامی زبان میں اور اکا دکا یونانی زبان میں لکھی کتابوں پر مشتمل تھی۔ یہ کتاب کی اور کتب خانے کی وہ شکل تھی جو تیسری صدی قبل مسیح میں علمی دنیا تک پہنچی تھی اور جس تک انسان سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال کی جدو جہد کے بعد رسا ہوا تھا۔ کاغذ کی ایجاد سے کتاب کے زرّیں دور کا آغاز ہوا۔ تحریر ترقی کرتی گئی اور کتابت کے فن کا آغاز ہوا جسے مسلمانوں نے بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ مخطوطات کا دور شروع ہوا اور پوری دنیا سے آگے بڑھ کر مسلمانوں نے خاص طور پر کتاب کی بے پناہ خدمت کی۔ کاغذ‘ خطاطی‘ نقش و نگار ‘ جلد بندی غرضیکہ مخطوطہ کتاب کا ہر ہر پہلو اِن کی توجہ سے اعلیٰ مقام تک پہنچا اور ایک زمانے نے اس کتاب سے فیض اٹھایا۔
اس دور میں کسی شخص کے پاس کتب خانہ نہ ہونا اس کے افلاس کی نشانی تھی۔ یہ کتاب اور کتب خانوں کی اگلی نسل تھی۔ پھر وقت نے ایک طویل جست بھری اور کتاب کی اگلی نسل ظہور پذیر ہوئی۔ 1450 کے لگ بھگ یعنی آج سے تقریباً پانچ سو ستر سال پہلے پہلی مطبوعہ کتاب شائع ہوئی۔ جرمنی کے شہر مینز میں جوہانیز گوٹن برگ نے پہلی کتاب چھاپ کر ایک انقلاب برپا کر دیا اور کتاب کو وسیع اور تیز رفتار دنیا سے آشنا کرایا۔ مخطوطات نے مطبوعات سے ہاتھ ملایا۔ دنیا کے ہر حصے میں کتابیں سینکڑوں‘ ہزاروں اور پھر لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونا شروع ہوئیں۔ یہ کتاب کے دورِ زریں کا آغاز تھا۔ ہم سے پہلی نسل اور ہماری نسل شاید وہ خوش نصیب نسلیں ہیں جنہوں نے کاغذی کتاب کا بہترین زمانہ پایا۔ لفظ اب لتھو گرافی سے آفسٹ پرنٹنگ پر منتقل ہو چکے تھے۔ اعلیٰ ریشمی کاغذ‘ برّاق صفحات‘ سیاہ چمکدار حروف اور حسین سر ورق۔
کتاب دلہن بن گئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ کتاب نے تاریخ میں پہلی بار خود کو مکمل رنگین لباس میں دیکھا۔ کتاب خوبصورتی کے ہر تصور کے مطابق ملنے لگی۔شرق و غرب کی تمام زبانیں اور تمام علوم و فنون کتاب کے محتاج تھے اور کتاب دور دور اپنا کوئی مد مقابل اور ثانی نہیں رکھتی تھی۔ لیکن ذرا ٹھہریے عجائب گھر کی سیر تو کر چکے اور کتاب کی مختلف نسلوں سے ملاقات بھی ہو لی۔ وہ جو میرے دل میں ایک سوال اپنے پر کھولے منڈلا رہا ہے‘ کیا آپ کے دل میں بھی ہے؟ایسا سوال جس سے آنکھیں ملانے کو جی نہیں چاہتا مگر آنکھیں چرائی بھی نہیں جا سکتیں‘ یہ کہ کتاب کی اگلی نسل کیا ہے ؟ کیا برقی کتاب کاغذی کتاب کو پچھاڑ دے گی ؟ کیا کاغذ کتاب کیلئے پیدا ہونا اور استعمال ہونا بند ہو جائے گا۔ کیا کتاب خواں اور کتابچی کاغذ کے لمس اور خوشبو سے محروم ہو جائیں گے ؟ کیا اگلی انسانی نسلیں کاغذی کتاب کو عجائب گھروں میں دیکھ کر حیران ہوا کریں گی؟ بارا لٰہا ! کیا واقعی یہ ہونے والا ہے ؟ کیا یہ کاغذی کشتی آب ِرواں پر ٹھہرنے والی نہیں؟
کاغذ کی یہ مہک‘ یہ نشہ روٹھنے کو ہے؟ یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی؟
سعود عثمانی
بشکریہ دنیا نیوز
3 notes · View notes
fmbrothers · 6 years
Text
‏مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے
11 notes · View notes
aamiribd · 2 years
Photo
Tumblr media
#Quran #DailyHadithSMS #Hadith #Islam سورة الأعراف ١٥٠ وَ لَمَّا رَجَعَ مُوۡسٰۤی اِلٰی قَوۡمِہٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ بِئۡسَمَا خَلَفۡتُمُوۡنِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ۚ اَعَجِلۡتُمۡ اَمۡرَ رَبِّکُمۡ ۚ وَ اَلۡقَی الۡاَلۡوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاۡسِ اَخِیۡہِ یَجُرُّہٗۤ اِلَیۡہِ ؕ قَالَ ابۡنَ اُمَّ اِنَّ الۡقَوۡمَ اسۡتَضۡعَفُوۡنِیۡ وَ کَادُوۡا یَقۡتُلُوۡنَنِیۡ ۫ ۖفَلَا تُشۡمِتۡ بِیَ الۡاَعۡدَآءَ وَ لَا تَجۡعَلۡنِیۡ مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ. And when Moses returned to his people, angry and grieved, he said, "How wretched is that by which you have replaced me after [my departure]. Were you impatient over the matter of your Lord?" And he threw down the tablets and seized his brother by [the hair of] his head, pulling him toward him. [Aaron] said, "O son of my mother, indeed the people oppressed me and were about to kill me, so let not the enemies rejoice over me and do not place me among the wrongdoing people." [Surah Al-A'raaf: 150] سورة الأعراف 150 اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تو فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی بری جانشینی کی؟ کیا اپنے رب کے حکم سے پہلے ہی تم نے جلد بازی کر لی اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔ ہارون (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے ماں جائے! ان لوگوں نے مجھ کو بے حقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں تو تم مجھ پر دشمنوں کو مت ہنساؤ اور مجھ کو ان ظالموں کے ذیل میں مت شمار کرو۔ Surah Al-A'raaf: 150 Aur jub Musa Alyhe Salam apni qoum ki taraf wapis aye ghussay aur ranj main bharay huay to fermaya tum ny mere bad ye bari buri jan-nasheeni ki. Kia apny Rab k hukam sy pehly hi tum ny jald bazi ker li? aur jaldi sy takhtian aik taraf rakhin aur apny bhai ka sir pakar kr unko apni taraf ghaseetnay lagay. Haroon Alyhe Salam ny kaha k ay Mere maan jaye! En logon ny mujhay be-haqeeqat samjha aur qareeb tha k mujy qatal kr dalain to tum mujh per dushmano ko matt hansao aur mujh ko en zalim logon main shamil matt kejeay. https://www.instagram.com/p/ChV3Br1oHLm/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
maqsoodyamani · 2 years
Text
اگنی پتھ: پرینکا گاندھی کا نوجوانوں کے نام پیغام آپ سے بڑا محب وطن کوئی نہیں، کانگریس آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے
اگنی پتھ: پرینکا گاندھی کا نوجوانوں کے نام پیغام آپ سے بڑا محب وطن کوئی نہیں، کانگریس آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے
اگنی پتھ: پرینکا گاندھی کا نوجوانوں کے نام پیغام آپ سے بڑا محب وطن کوئی نہیں، کانگریس آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے     نئی دہلی، 19جون ( آئی این ایس انڈیا )     راجدھانی دہلی میں جنتر منتر پر اتوار کے روز کانگریس لیڈران نے اگنی پتھ اسکیم کے خلاف ستیہ گرہ کیا۔ جس میں کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی سمیت پارٹی کے متعدد اہم لیڈران نے شرکت کی۔ لیڈران نے ’اگنی پتھ‘ کے خلاف نعرے لکھی ہوئیں تختیاں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
airnews-arngbad · 2 years
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Aurangabad. Date : 31 March 2022 Time:  09 : 00 to 09: 10 AM آکاشوانی اَورنگ آباد علاقائی خبریں تاریخ  :   ٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗ ۳۱   ؍  مارچ  ۲۰۲۲ء؁ وَقت: صبح  ۰۰۔۹  سے  ۱۰۔۹؍ بجے
چند اہم خبروں کی سر خیاں سماعت کیجیے...
٭ ریاست میں کورونا وائرس کا پھیلائو کم ہو جانے کی وجہ سے کَل سے ما سک سے
نجات کے علا وہ تمام پا بندیاں ختم کر دی جائے گی ‘ وزیر صحت راجیش ٹو پے
٭ مرکزی  اور  ریاستی سر کا ری ملازمین کے مہنگائی بھتّے میں3؍ فیصد اضا فہ ‘ ریاستی حکو مت کے
ملازمین کو مہنگائی بھتّے کے بقا یہ جات دینے کا فیصلہ
٭ ریاست کے28؍ شہروں کو کچرے پر پروسیسنگ کرنے کے لیے 433؍ کروڑ74؍ لاکھ
روپیوں کا فنڈ
٭ دُکانوں  اور  اِداروں کے نام کے بورڈ مراٹھی میں آ ویزاں کا آرڈیننس جاری
٭ ریاست میں کووڈ وباء کے119؍ تاہم مراٹھواڑہ میں5؍ نئے مریضوں کا اندراج
٭ مراٹھواڑہ کے ریلوے راستوں کے پرو جیکٹس فوراً مکمل کیے جائیں ‘ رکن ِ اسمبلی
ستیش چوہان کا ریلوے مملکتی وزیر رائو صاحب دانوے سے مطا لبہ
اور
٭ دھو لیہ-   شو لا پور  قو می شاہراہ کی اراضی تحویل لینے میں بد نظمی کرنے کے جرم میں
اورنگ آباد کے رہائشی ڈِپٹی کلکٹر ششی کانت ہدگل معطّل
اب خبریں تفصیل سے....
ریاست میں کورونا وائرس کا پھیلائو کم ہو جانے کی وجہ سے کَل یکم اپریل سے ماسک کے استعمال کی سختی کے علاوہ تمام پا بندیاں ختم کرنے کا فیصلہ وزیر اعلیٰ کی رضا مندی سے لیا جائے گا ۔ یہ بات وزیر صحت راجیش ٹو پے نے کہی ہے ۔ وہ کَل ممبئی میں صحا فیوں سے مخاطب تھے ۔ کَل سے ہنگامی قانون واپس لینے کا عمل شروع کیا جا ئے گا ۔ یہ بات اُنھوں ن�� کہی۔ تاہم دنیا کے چند مما لک میں کورونا کی چو تھی لہر آ نے کی وجہ سے فی الحال ماسک سے نجات کا کوئی خیال ریاستی حکو مت نہیں کر رہی ہے ۔ اِس بات کی وضا حت ٹو پے نے کہی ۔
***** ***** *****
آئندہ آنے والے گڈی پاڑوا کے سلسلے میں نکالی جانے والی شو بھا یاترا کے ضمن میں کورونا ایکشن فورس نے مثبت سفارش کی ہے ۔ تاہم پا بندیوں میںنر می کرنے کا فیصلہ وزیر اعلیٰ لیں گے ۔ اِس کے لیے مزید ایک دِن انتظار کر نے کی اپیل اُنھوں نے کی  ۔ ڈاکٹر با با صاحب امبیڈکر کی جینتی جوش و خروش سے منا نے کی اجازت ریاستی حکو مت نے دی ہے ۔ تاہم نظم و ضبط کے ساتھ یہ جینتی منا نے کی اپیل ٹو پے نے کی ہے ۔
***** ***** *****
مرکزی  اور  ریاستی سر کاری ملازمین کے مہنگائی بھتّے میں3؍ فیصد اضا فہ کر دیا گیا ہے ۔ مرکزی کا بینہ کی کَل ہوئی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا ۔ اِس کی وجہ سے اب مرکزی سر کاری ملازمین کا مہنگائی بھتّہ 34؍ فیصد ہو گیا ہے ۔ مرکزی حکو مت کے47؍ لاکھ68؍ ہزار ملازمین اِسی طرح 68؍ لاکھ62؍ ہزارسبکدوش ملازمین کو اِس کا فائدہ حاصل ہو گا ۔
ریاستی حکو مت نے بھی مہنگائی بھتّے میں اضا فے کے سلسلے میں GR کَل جاری کیا ۔ اِس کے تحت تمام ملازمین کو28؍ فیصد کے بجائے31؍ فیصد شرح سے مہنگائی بھتّہ دیا جا ئے گا ۔ غیر تر میمی تنخواہ ڈھانچے کے تحت چھٹے تنخواہ کمیشن کے تنا سب سے تنخواہ حاصل کرنے والے ملازین کا مہنگائی بھتّہب 189؍ فیصد سے 196؍ فیصد کر دیا گیا ہے ۔ یکم جولای 2021؁ سے یہ فیصلہ عائد ہو گا ۔ 9؍ ماہ کا بقایہ  ماہ  مارچ کی تنخواہ میں نقد ادا کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ۔
***** ***** *****
کچرے کے انتظام پر پُر اثر طریقے سے عمل در آمد کرنے کے لیے مہاراشٹر کا تعا ون کرنے کے نظر یہ سے مرکزی حکو مت نے 3؍ اعشا ریہ 7؍ کروڑ میٹرک ٹن شہری کچرے پر  پروسیسِنگ کرنے کے لیے 433؍ کروڑ74؍ لاکھ روپیوں کی تجویز کو منظو ری دی گئی ہے ۔ اِس میں مہاراشٹر کے28؍ شہری مقامی خود مختار اِدارے شامل ہیں ۔
***** ***** *****
ریاست کے دُکانوں اور اِداروں کے نام کی تختیاں مراٹھی دیو نا گِیری رسم الخط میں آ ویزاں کرنے کے سلسلے میں آرڈیننس جاری کیا گیا ۔ اِس کے تحت اب آئندہ ریاست کے تمام دُکانوں اِسی طرح اِداروں کو مراٹھی زبان میں نام کے بورڈ آ ویزاں کرنا لازمی کر دیا گیا ہے ۔ اِس سلسلے میں کابینہ کی منظوری سے مہا راشٹر شاپ اینڈ اِنسٹی ٹیوٹ ایکٹ 2017؁ میں تر میم کرنے کے ضمن میں بِل مالی بجٹ اجلاس کے دو نوں ایوانوں میں منظور کر لیا گیا ۔ اِس لیے ایکٹ کو گور نر نے منطوری دے دی ۔
***** ***** *****
ریاست میں کَل کووِڈ وباء کے نئے119؍ مریضوں کی شناخت ہوئی ۔ اِس کی وجہ سے تمام ریاست میں کووِڈ متاثرین کی جملہ تعداد78؍ لاکھ73؍ ہزار841؍ ہو گئی ہے ۔ اِس وباء کی وجہ سے کَل 2؍ مریض چل بسے ۔ ریاست میں اب تک اِس وباء کی وجہ سے مرنے والوں کی جملہ تعداد ایک لاکھ47؍ ہزار782؍ ہو گئی ہے ۔ شرح اموات ایک اعشاریہ 87؍ فیصد ہو گیا ہے ۔ کَل138؍ مریض شفا یاب ہو گئے ۔ ریاست میں اب تک77؍ لاکھ25؍ ہزار120؍ مریض کورونا وائرس سے نجات حاصل کر چکے ہیں ۔ کووِڈ سے نجات کی شرح 98؍ اعشا ریہ 11؍ فیصد ہو گئی ہے ۔ ریاست میں فی الحال 160؍ مریضوں کا علاج جاری ہیں ۔
***** ***** *****
مراٹھواڑہ میں کَل5؍ کورونا وائرس مریضوں کی تصدیق ہوئی ۔ اِس میں اورنگ آ باد اور بیڑ اضلاع میں فی کس 2؍  اور  عثمان آبادضلعے میں ایک مریض پا یا گیا ۔ پر بھنی ‘ ناندیڑ‘ جالنہ ‘ ہنگولی  اِسی طرح لاتور ضلعے میں کَل کورونا وائرس سے متاثرہ ایک بھی مریض نہیں پا یا گیا ۔
***** ***** *****
اورنگ آباد میں ریلوے کی پیٹ لائن کے لیے رکن پارلیمنٹ  اور  رکن اسمبلی کی جانب سے کوشش کی گئی ۔ اورنگ آ باد  کے رکن پارلیمنٹ امتیاز جلیل نے اورنگ آباد میں مجوزہ ریلوے پِیٹ لائن جالنہ میں منتقل نہ کریں ۔ ایسا مطا لبہ کَل لوک سبھا میں کیا ۔ اِسی طرح شیواجی نگر میں ریلوے لائن کے التواء میں پڑے ہوئے کام کو فوراً شروع کرنے کا سوال  اُٹھا یا  اور  کام میں ہو رہی تاخیر کے سلسلےمیں مرکزی ریلوے کابینہ سے وضاحت طلب کی ۔
***** ***** *****
صنعتی اِسی طرح سیاحتی نظر یہ سے اہمیت کے حامل مراٹھواڑہ کے التواء میں پڑے ریلوے راستوں کے پرو جیکٹس فوراً مکمل کیے جا ئیں ۔ ایسا مطالبہ مراٹھواڑہ گریجویٹ حلقہ انتخاب کے رکن اسمبلی ستیش چو ہان نے ریلوے مملکتی وزیر رائو صاحب دانوے سے کیا ہے ۔ چو ہان نے کَل دِلّی میں دانوے سے ملا قات کر کے اُنھیں اِ س سلسلے میں میورینڈم پیش کیا ۔
***** ***** *****
اورنگ آ باد کے رہائشی ڈِپٹی کلکٹر ششی کانت ہد گل کو معطّل کر دیا گیا ہے ۔ کار گذار سب ڈیویژنل آفیسر اِسی طرح اراضی تحویل آفیسر کے عہدے پر رہتے ہوئے اُنھوں نے دھو لیہ- شو لا پور قو می شاہراہ 211؍ کی اراضی تحویل میں دیگر اراضی کو شاہراہ کے قیب کی اراضی بتا کر تقریباً41؍ کروڑ روپیوں کا اضا فی فنڈ دیا ہے ۔ اِس پر یہ کار وائی کی گئی ۔ معطّلی کے دوران ہد گل ‘ ضلع کلکٹر سنیل چوہان کی رضا مندی کے بغیر ہید کوارٹر نہیں چھوڑیں گے ۔ یہ بات حکم نا مے میں کہی گئی ہے ۔
***** ***** *****
اورنگ آباد ضلعے کے اجنتا میں کھیت تا لاب میں تیر نےکے لیے گئے ہوئے3؍ اسکولی طلباءڈوب کر جا بحق ہو گئے ۔ عمیر خان نصیر خان پٹھان ‘ شیخ محمد انس عبد الحفیظ  اور  اِکرام خان ایوب خان پٹھان  مرنے والوں کے نام ہے ۔ کَل دو پہر کے قریب یہ سانحہ پیش آ یا ۔
***** ***** *****
موسم :
آئندہ 3؍ سے4؍ یوم میں ریاست میں کئی مقا مات پر درجہ ٔ  حرارت میں2؍ سے3؍ ڈگری سیلسِیس اضا فہ کا قیاس محکمہ ٔ  موسمیات نے ظاہر کیا ہے ۔ آکو لہ ضلعے میں سب سے زیادہ43؍ اعشا ریہ ایک ڈگر سیلسیس درجہ ٔ  حرارت درج کیا گیا ۔
مراٹھواڑہ کے چند اضلاع میں گرم لہر جاری ہے ۔ شہری اپنی فکر کریں ۔ ایسی اپیل انتظامیہ نے کی ہے ۔
***** ***** *****
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی اورنگ آ باد سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** *****
آخر میں اہم خبروں کی سر خیاں دوبارہ  
٭ ریاست میں کورونا وائرس کا پھیلائو کم ہو جانے کی وجہ سے کَل سے ما سک سے
نجات کے علا وہ تمام پا بندیاں ختم کر دی جائے گی ‘ وزیر صحت راجیش ٹو پے
٭ مرکزی  اور  ریاستی سر کا ری ملازمین کے مہنگائی بھتّے میں3؍ فیصد اضا فہ ‘ ریاستی حکو مت کے
ملازمین کو مہنگائی بھتّے کے بقا یہ جات دینے کا فیصلہ
٭ ریاست کے28؍ شہروں کو کچرے پر پروسیسنگ کرنے کے لیے 433؍ کروڑ74؍ لاکھ
روپیوں کا فنڈ
٭ دُکانوں  اور  اِداروں کے نام کے بورڈ مراٹھی میں لگا نے کا آرڈیننس جاری
٭ ریاست میں کووڈ وباء کے119؍ تاہم مراٹھواڑہ میں5؍ نئے مریضوں کا اندراج
٭ مراٹھواڑہ کے ریلوے راستوں کے پرو جیکٹس فوراً مکمل کیے جائیں ‘ رکن ِ اسمبلی
ستیش چوہان کا ریلوے مملکتی وزیر رائو صاحب دانوے سے مطا لبہ
اور
٭ دھو لیہ-   شو لا پور  قو می شاہراہ کی اراضی تحویل لینے میں بد نظمی کرنے کے جرم میں
اورنگ آباد کے رہائشی ڈِپٹی کلکٹر ششی کانت ہدگل معطّل
اِسی کے ساتھ آکاشوانی اورنگ آباد سے علاقائی خبریں ختم ہوئیں۔
٭٭٭٭٭
0 notes
moizkhan1967 · 4 years
Text
عجیب لوگ تھے وہ تتلیاں بناتے تھے
سمندروں کے لیے مچھلیاں بناتے تھے
❣️
مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے
❣️
وہی بناتے تھے لوہے کو توڑ کر تالا
پھر اُس کے بعد وہی چابیاں بناتے تھے
❣️
فضول وقت میں وہ سارے شیشہ گر مل کر
سہاگنوں کے لیے چوڑیاں بناتے تھے
❣️
ہمارے گاؤں میں دو چار ہندو درزی تھے
نمازیوں کے لیے ٹوپیاں بناتے تھے
❣️
13 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 years
Text
‏پینٹر کی دکان کے سامنے لمبی قطار لگی ہوئی تھی تمام لوگ گلے میں تختیاں لٹکاۓ کھڑے تھے
پینٹر نے سب سے اگے کھڑے شخص سے اس کا مذہب پوچھا پھر اسکے گلے میں لٹکی تختی پر تحریر کیا مسلمان
اس کے بعد دوسرے شخص سے سوال کیا اس کے گلے میں لٹکی تختی پر تحریر کیا مسیحی
اس کے بعد تیسرے شخص ‏سے دریافت کیا اس کے گلے میں لٹکی تختی پر درج کیا ہندو
میری باری ائی تو پینٹر کو بتایا میں تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتا ہوں ستم ظریف اس نے میری تختی پر لکھا
......... کافر
2 notes · View notes
urduclassic · 6 years
Text
کتب خانوں سے متعلق حیران کن حقائق
ورجینیا ووُلف نے ایک بار کہا تھا ’عوامی کتب خانوں کی چھان بین کرنے پر میں انھیں آنکھوں سے اوجھل خزانے سے بھرا ہوا پاتی ہوں۔‘ ساتھی مصنف ہورہے لوئس بورجیز نے بھی ان سے کافی حد تک اتفاق کرتے ہوئے کہا ’میں نے ہمیشہ یہ تصور کیا ہے کہ جنت ایک قسم کی لائبریری ہو گی۔‘ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں کچھ لوگوں کے خیال میں شاید یہ کتب خانے فرسودہ ہو چکے ہوں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان کی دریافت کے آغاز سے ہی یہ انسانی دلچسپی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ان دروازوں کے اندر داخل ہو کر ہم کھو سے جاتے ہیں اور حیرت کے مارے ایسی کتب کا مطالعہ بھی شروع کر دیتے ہیں جنھیں پڑھنا مقصود ہی نہیں ہوتا۔
یہ کتابیں نہ صرف علم فراہم کرتی ہیں بلکہ ان کا مطالعہ ہر کوئی کر سکتا ہے۔ یہ جسم اور روح کے لیے ایک پناہ گاہ ثابت ہوتی ہیں اور آرام و سکون کا باعث بنتی ہیں۔ ان کتب خانوں میں لا محدود کتابوں کے مطالعے کے علاوہ تجربے کی بنیاد پر مشورے بھی ملتے ہیں اور تو اور قسمت اچھی ہو تو مفت وائی فائی سمیت، فری ہیٹینگ بھی میسر ہوتی ہے۔ جی ہاں یہ سچ ہے کہ کتب خانے ہمارے لیے بہت کچھ کرتے ہیں، مگر ہم ان کتب خانوں سے متعلق کیا معلومات رکھتے ہیں؟ 
ڈیوئی ڈیسیمل سسٹم کا وہ نظام استعمال کرتے ہوئے جو 135 ممالک میں دو لاکھ سے زائد کتب خانوں میں درجہ بندی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ہم نے کچھ حیران کن حقائق مرتب کیے ہیں۔ کتب خانوں کے کچھ ابتدائی شواہد، ثومر سے دریافت ہوئے جو میسوپوٹیمیا کا تاریخی علاقہ ہے۔ مٹی سے تیار کردہ منظم انداز میں رکھی گئی ایسی تختیاں دریافت ہوئیں جن پر لکھنے کی سب سے قدیم شکل موجود تھی، ان پر کاروباری اور تجارتی لین دین کا ریکارڈ رکھا گیا تھا۔ تاہم ماہرین آثار قدیمہ کو میگیزین رکھنے والے ریکس، سکے سے چلنے والی فوٹو کاپیئر مشینوں یا کسی قسم کی مائیکروفلم کے کوئی شواہد نہیں مل پائے۔
مصر کی عظیم لائبریری ایلیگزینڈریا میں ملنے والے حقائق کچھ زیادہ ہی دلچسپ تھے، جس نے قدیم زمانوں کا تمام علم ایک مقام پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی۔ جب تک کہ جولیئس سیزر نے اسے ایک فوجی غلطی میں زمین بوس نہیں کر دیا۔ یہ 48 سال قبل از مسیح کی بات ہے، رومن جنرل کو بندرگاہ خالی کروانے کے لیے اپنے ہی بحری جہازوں کو آگ لگانا پڑی تھی۔ بیشتر قدیم مصنفین چاہے وہ پلوٹارک ہو یا اوروسیئس، کے مطابق آگ قابو سے باہر ہو گئی جس نے تمام شہر اور اس میں پائے جانے والے مشہور کتب خانے میں خاصی تباہی مچائی۔ 
کئی صدیوں تک کتب خانوں میں لپٹے ہوا کاغذوں پر معلومات درج ہوا کرتی تھیں جنھیں عالم، کتابوں کی ایجاد سے قبل کہیں کھڑے ہو کر پڑھا کرتے تھے۔ کتابوں کی ایجاد کے بعد، مطالعے کے شوقین حضرات اور لائبریریوں کے عملے کے لیے بہت سی چیزیں بے نقاب ہوئیں۔ کانگرس کا کتب خانہ درحقیقت امریکہ کا قومی کتب خانہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ دنیا کا سب سے بڑا کتب خانہ بھی ہے جس میں 16 کروڑ سے زائد اشیا تقریباً 450 زبانوں میں موجود ہیں۔ اس کتب خانے میں دنیا بھر سے اکٹھا کیا گیا ادبی اور شائع شدہ، اہم مواد موجود ہے۔ اگرچہ عام عوام اس کتب خانے کا دورہ کر سکتی ہے لیکن کتب اور دیگر مواد تک رسائی صرف اعلٰیٰ حکومتی عہدے داران ہی حاصل کر سکتے ہیں۔
برطانوی کتب خانہ دنیا کا دوسرا بڑا کتب خانہ ہے جس میں 15 کروڑ اشیا مثلاً کتابیں، نقشے، میگیزین، شیٹ میوزک اور دیگر اشیا موجود ہیں۔ اور اپنے امریکی حریف کے برعکس اس کتب خانے میں موجود تمام اشیا عوام کے مطالعے کے لیے دستیاب ہیں۔ کتب خانے سے سب سے زیادہ چوری ہونے والی کتاب گینیس بُک آف ورلڈ ریکارڈز ہے جسے لوگ شاید اس نیت سے چوری کرتے ہیں کہ یہ جان سکیں کہ وہ کونسی کتاب ہے جو سب سے زیادہ چوری کی جاتی ہے۔ ان خاص قسم کے چوروں کو خوشگوار سرپرائز ملے گا۔
جن دوردراز علاقوں میں کتب خانے تک رسائی ممکن نہیں ہوتی وہاں جانوروں کو عارضی کتب خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور گھوڑوں، اونٹوں اور گدھوں کی پیٹھ پر کتابیں لاد کر لوگوں تک پہنچائی جاتی ہیں۔ ستم ظریفی ہے یہ کہ عام طور پران جانوروں کا کتب خانے میں داخلہ ممنوع ہے۔ آپ یہ سن کر بہت حیران ہوں گے کہ کتب خانے صرف کتابیں ہی نہیں جاری کرتے۔ دنیا بھر کے کتب خانے کھلونے، بیج، اوزار، موسیقی، صوتی کتابیں، آرٹ اور یہاں تک کہ انسانوں کی صورت میں ’زندہ کتابیں‘ بھی مہیا کرتے ہیں، جن میں لوگ اپنی زندگی کی کہانیاں اپنی زبانی سناتے ہیں۔ دنیا کا سب سے زیادہ اونچائی پر پایا جانے والا کتب خانہ چین کے شہر شینگھائی کے جے ڈبلیو میریٹ ہوٹل کی 60 ویں منزل پر ہے۔ کوئی نہیں جانتا ایسا کیوں ہے۔ سنہ 1789 میں صدر جارج واشنگٹن نے نیویارک سوسائٹی کے کتب خانے سے ’دی لا آف نیشنز‘ کتاب لی اور اگلے 221 برسوں تک یہ کتاب ان کے خاندان کے پاس ہی رہی۔ بلآخر سنہ 2010 میں یہ کتاب، کتب خانے کو لوٹا دی گئی۔ شاید اس واقعہ کی وجہ سے جارج واشنگٹن کی لائبریرینز میں مقبولیت کم ہو گئی تھی دنیا کے مشہور ترین لائبریرینز میں جیکب گرِم، ماؤ زیڈانگ، گولڈا مئیر، فییلپ لارکن، مارسل پروسٹ، ہورہے لوئس بورجیز، گوئتھا اور لوئس کیرل کا شمار ہوتا ہے۔ یہ تمام لوگ نہ صرف لکھ کر لطف اٹھاتے تھے بلکہ کتابوں کو اپنے ارد گرد پا کر بے حد خوش ہوتے تھے اور شاید رومن مقرر اور فلسفی سیسیرو سے متاثر بھی تھے جنھوں نے ایک بار کہا ’کتابوں سے خالی کمرے کی مراد ایسی ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو  
1 note · View note
tohfa-e-qalandar · 3 years
Photo
Tumblr media
#ListentoSurrahAlrehman #Qalandar_Baba_Bukhari بسم اللہ الرحمن الرحیم اور جب موسٰی اپنی قوم کی طرف غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے واپس آئے، تو کہا تم نے میرے بعد یہ بڑی نامعقول حرکت کی، کیا تم نے اپنے رب کے حکم (کے آنے) سے پہلے ہی جلد بازی کرلی، اور (موسٰی نے) تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑا اسے اپنی طرف کھینچنے لگا، اس نے کہا کہ اے میری ماں کے بیٹے لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے، سو مجھ پر دشمنوں کو نہ ہنسا اور مجھے گناہگار لوگوں میں نہ ملا۔( سورة الاعراف آیت ۱۵۰) https://www.instagram.com/p/CYBGtWWpopH/?utm_medium=tumblr
0 notes
siyyahposh · 3 years
Text
نیب نیازی گٹھ جوڑ کے خاتمے کا وقت آ گیا، کارکن تیاری کریں، شہبازشریف
نیب نیازی گٹھ جوڑ کے خاتمے کا وقت آ گیا، کارکن تیاری کریں، شہبازشریف
اگر تختیاں لگانے کا شوق تھا تو آپ کو تختیاں لگانے پر لگا دیتے، شہبازشریف۔ فوٹو:فائل لاہور: مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کا کہنا ہے کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ کے خاتمے کا وقت آ گیا، کارکن تیاری کریں۔ لاہور میں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور پارلیمنٹ میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ساڑھے 3 سال میں معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
عمران خان نواز شریف کے منصوبے پر اپنی تختیاں لگاتے ہیں، ن لیگ - اردو نیوز پیڈیا
عمران خان نواز شریف کے منصوبے پر اپنی تختیاں لگاتے ہیں، ن لیگ – اردو نیوز پیڈیا
ار��و نیوز پیڈیا آن لائین اسلام آباد / کراچی: مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے کراچی میں وزیراعظم کے گرین لائن منصوبے کے افتتاح کے ردعمل میں کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان شکر کریں کہ نواز شریف یہ منصوبے شروع کرگئے، آج عمران خان ان منصوبوں پر اپنی تختیاں لگا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نواز شریف کے لگائے منصوبہ کا افتتاح کردیا، کرائے کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
moderndiscoveries · 3 years
Text
قدیم مصر میں ممی کی تیاری کیسے ہوتی تھی؟
قدیم مصر میں ایک وسیع احاطے میں مرکزی جگہ تھی جہاں لوگوں کو ان کی موت کے بعد حنوط کر کے ان کی ممیاں تیار کی جاتی تھیں۔ پرانے زمانے میں ممی بنانے کا کیا طریقہ رائج تھا اور اس عمل میں کتنا وقت لگتا تھا۔ اس کا آغاز کچھ اس طرح کیا جاتا تھا کہ جب کوئی شخص مر جاتا تھا تو گھر میں اس کی موت کی مروجہ رسومات کے مکمل ہونے کے بعد اس کی لاش کو اس مرکزی معبد میں لا کر بڑے پجاری کے حوالے کر دیا جاتا تھا جو اسے اس چبوترے پر لٹا کر حنوط کرنے کے عمل کا آغاز کرتا تھا ۔ چونکہ ان کا ایمان تھا کہ یہ مرے ہوئے لوگ ایک بار پھر سے زندہ ہوں گے اس لئے ان کے جسم کے سارے اعضاء کو بھی نکال کر محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ سب سے پہلے مردے کے بائیں پہلو میں شگاف لگا کر جسم سے نسبتاً جلد خراب ہونے والے نرم اجزاء جیسے معدہ، انتڑیاں، جگر، دل اور پھیپھڑے نکال لیتے، پھر ایک مخصوص آلے سے ناک کے ذریعے اس کے دماغ کو بھی ایک خاص ترکیب سے باہر کھینچ لیتے تھے۔ 
ان کے نزدیک یہ ایک غیرضروری چیز تھی ، جس کو حنوط کرنا ضروری نہیں تھا ۔ اس لئے وہ اس کو ضا ئع کر دیتے تھے۔ دل کو البتہ اس کی اپنی جگہ پر ہی چھوڑ دیا جاتا تھا، کیونکہ اس کو عقل اور دانش کا منبع تصور کیا جاتا تھا۔ اس دوران لاش کی چیر پھاڑ کرنے والے پجاری اپنے چہرے پر ایسے نقاب چڑھائے رکھتے جن پر مختلف جانوروں کی شکلیں بنی ہوتی تھیں تاکہ مردے کی حفاظت کرنے والے دیوتا ان کو پہچان نہ سکیں اور ان کا یہ عمل کہیں بعدازاں ان کے لئے کسی تباہی کا پیغام نہ بن جائے۔ چبوترے کے پاس ہی کھڑا ہوا بڑا پروہت اس دوران بلند آواز میں منتر پڑھتا رہتا اوران چیر پھاڑ کرنے والے پجاریوں پر مسلسل چھوٹی چھوٹی کنکریاں پھینکتا تاکہ دیوتائوں کو ان لوگوں سے اپنی نفرت کے اظہار کا تاثر دیا جاسکے جو اس لاش کی بے حرمتی کر رہے تھے۔ یہ ان کی رسم یا عقیدے میں شامل تھا۔ اس کے بعد وہ لاش کے اندرونی اجزاء کو ایک خاص قسم کے نمک اور مصالحہ وغیرہ لگا کر دھوتے اور پھر ان کو خشک ہونے کے لئے محفوظ جگہ پر رکھ دیتے تھے۔ پھر لاش کو حنوط کرنے کا عمل شروع ہو جاتا تھا۔
پجاری لاش کو اچھی طرح ایک خاص نمک والے پانی سے مسلسل دھوتے۔ اس کے لئے وہ شراب بھی استعمال کرتے جو اینٹی بائیوٹک کا کام کرتی تھی۔ پھر وہ کچھ اور کیمیاوی اجزاء استعمال کر کے لاش کو چالیس دنوں کے لئے ملحقہ کمرے میں سوکھنے کے لئے رکھ دیا کرتے تھے۔ جب لاش اچھی طرح خشک ہو کر سوکھ جاتی تو وہ سکڑ جاتی تھی اور اس کے جسم پر جھریاں بھی پڑ جاتی تھیں ، جن کو نرم کرنے کے لئے اس پر مسلسل کئی روزتک مختلف تیلوں کی مالش کی جاتی تھی، جس سے جسم ایک بار پھر نرم پڑ جاتا تھا اور جھریاں بھی غائب ہو جاتی تھیں۔ اس کے بعد وہ پیٹ اور دیگر خالی ہو جانے والی جگہوں کو بیروزے میں بھیگے ہوئے لکڑی کے برادے، گھاس پھوس اور کپڑے کی کترنوں سے بھر دیتے، تاکہ وہ ابھرے ہوئے محسوس ہوں اورقدرتی نظر آئیں۔
آخری مرحلے میں اس پر موم اور تیل میں ڈوبی ہوئی سوتی پٹیوں کو باندھنا شروع کیا جاتا۔ پٹیوں کی کچھ پرتوں کولپیٹنے کے بعد ان میں مرنے والے کا نام اور قبیلے یا سوسائٹی میں اس کے مقام کے بارے میں لکھی ہوئی لکڑی کی چھوٹی چھوٹی تختیاں رکھ دی جاتیں۔ اس کے علاوہ مردے کی مالی حیثیت کے مطابق ان پٹیوں میں طلائی زیورات قیمتی پتھر یا ہیرے جواہرات وغیرہ بھی رکھے جاتے تھے۔ علاوہ ازیں پٹیوں کے آخری سرے پر ایک بار پھر مردے کا نام وغیرہ تحریر کر کے ان کے اوپر کوئی گوند نما مصالحہ ڈال کر جوڑ دیا جاتا تھا۔ اب گویا لاش کے حنوط کرنے کا عمل مکمل ہو گیا ۔ اسی دوران جب جسم کے اندر سے نکالے گئے اجزاء خشک ہو جاتے تو ان کو بھی ایک خاص طریقے سے حنوط کر کے مٹی سے مزین مرتبانوں میں رکھ دیا جاتا تھا۔ یہ چار مرتبان ہوتے تھے جن کے ڈھکن مختلف اشکال اور جانوروں کے چہروں سے مشابہ ہوتے تھے۔ 
یہ ان کے چار اہم دیوتائوں سے مشابہت رکھتے تھے۔ ان کے عقیدے کے مطابق یہ ان اجزاء کی حفاظت کے ذمہ دار تھے۔ ایک مرتبان کا ڈھکن گیدڑ، ایک عقاب، ایک ببون بندر اور ایک انسانی شکل میں بنا ہوا ہوتا تھا اور ہر ایک مرتبان جسم کے مخصوص حصے کو حنوط کرنے کے کام آتا۔ مثلاً گیدڑ کے ڈھکن والا مرتبان معدے اور عقاب والا انتڑیوں کے اجزا ء کے لئے مخصوص ہوتا تھا۔ اسی طرح بندر کے ڈھکن والے مرتبان میں متوفی کے پھیپھڑے رکھے جاتے تھے ا ور انسانی چہرے والا مرتبان اس کے جگرکے لئے مخصوص تھا۔ بعدازاں ان مرتبانوں میں ایک خاص قسم کا تیل اور کچھ دوسرے کیمیا وی اجزاء ڈال کر اوپر ڈھکن سے بند کر کے مستقل طور پر سیل کر دیا جاتا تھا۔ پھر غالباً کسی تحقیق کے نتیجے میں انہوں نے یہ راز پا لیا کہ ان اعضاء کو جسم سے باہر نکال کر حنوط کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لہذا اب وہ انہیں لاش کے اندر ہی چھوڑ دیتے تھے۔ تاہم اپنی مذہبی روایات اور اعتقاد کے مطابق چاروں خالی مرتبان ممی کے پہلو میں رکھ دیئے جاتے تھے۔
فرعونوں اور صاحبِ ثروت افراد کے لئے تو باقاعدہ پتھر کے تابوت بنتے تھے۔ جن میں حنوط کی گئی لاش کو ایک سے زیادہ دھاتی، نقرئی یا طلائی تابوتوں میں بند کر کے سنگی تابوت میں رکھ کر پتھر کے ڈھکن سے اس کو بند کر دیا جاتا تھا۔ جسے اس کے پہلے سے تیار مقبرے میں رکھ کر چاروں مرتبان ایک خاص ترتیب کے ساتھ تابوت کے سرہانے رکھ دیئے جاتے تھے۔ پھر مقبرے کو وزنی پتھر کی سلوں سے دروازے بند کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سیل کر دیا جاتا تھا۔ حنوط شدہ جسم ایک بڑے سے ہال کی دیواروں میں بنائے گئے کبوتر کے کابک کی طرح کے خانوں میں رکھ کر چاروں مرتبان بھی ساتھ رکھ کر اس چھوٹے سے قبر نما خانے کو پتھریلی سلوں سے بند کر دیا جاتا تھا۔ یہ ایک طرح سے ان کا عمومی قبرستان تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کھدائی کے دوران ایسے اجتماعی مدفونوں سے ہزاروں کی تعداد میں عام قسم کی ممیاں برآمد ہوئی تھیں۔ بعد میں جب یونانیوں اور رومیوں نے آکر فرعونوں سے یہ علاقہ چھین کر اپنی حکومت قائم کی تو وہ اپنی روایتیں بھی ساتھ لائے تھے۔ حالانکہ وہ بھی قدیم مصریوں کی طرح اپنے مردوں کو حنوط کرتے تھے تاہم انہوں نے ممی بنانے کے اس فن کو مزید نفاست دی۔ وہ ایک خاص اندا ز سے مردے کے جسم پر اس طرح پٹیاں لپیٹتے تھے کہ خوبصورت ڈیزائن بن جاتے تھے۔
احمد عالم
بشکریہ دنیا نیوز  
0 notes
weaajkal · 3 years
Text
شہباز شریف نے پنجاب میں کنٹونمنٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کی شکست سیاسی موت قرار دیدی
شہباز شریف نے پنجاب میں کنٹونمنٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کی شکست سیاسی موت قرار دیدی
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف نے کہا ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز وہ علاقے ہیں جہاں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے جنم لیا تھا، آج  اسی جنم بھومی میں پی ٹی آئی کی سیاسی موت واقع ہوگئی۔ سیالکوٹ میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ انتخابات میں پنجاب کی اکثریت نے ن لیگ کوووٹ دیا،جہاں ن لیگ کے منصوبے بن چکے ہیں وہاں پی ٹی آئی اپنی تختیاں لگارہی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
Tumblr media
عجیب لوگ تھے وہ تتلیاں بناتے تھے
سمندروں کے لیے مچھلیاں بناتے تھے
مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے
وہی بناتے تھے لوہے کو توڑ کر تالا
پھر اُس کے بعد وہی چابیاں بناتے تھے
فضول وقت میں وہ سارے شیشہ گر مل کر
سہاگنوں کے لیے چوڑیاں بناتے تھے
ہمارے گاؤں میں دو چار ہندو درزی تھے
نمازیوں کے لیے ٹوپیاں بنایا کرتے تھے
؎ لیاقتؔ جعفری 💝
4 notes · View notes