Tumgik
#خوراک فراہم
emergingpakistan · 11 months
Text
طاقت سے مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو دبایا نہیں جاسکتا‘
Tumblr media
اسرائیل-فلسطین تنازع اور غزہ میں جنگ ایک ایسا لاوا تھا جو طویل عرصے سے پک رہا تھا۔ فلسطین پر 7 دہائیوں کے وحشیانہ اسرائیلی قبضے کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے۔ اسرائیل جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ’حالتِ جنگ‘ میں ہے، اس نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا جبکہ انہیں ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔
ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ’دردناک انتقام‘ لے گا اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جو کہ بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سے 700 بچوں سمیت 2 ہزار 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 5 لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کر کے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 11 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ 
Tumblr media
اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس مؤقف کی غیرمشروط حمایت کر رہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو ’جدید ہتھیار‘ بھی فراہم کیے ہیں۔ کوئی بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا جس کے تحت دونوں جانب بےگناہ افراد مارے گئے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتوں نے اسرائیلیوں کی اموات پر تو غم و غصے کا اظہار کیا مگر بے گناہ فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے پر وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ جس دوران اسرائیلی بمباری سے پوری کی پوری آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ 
لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔ نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ درحقیقت نارملائزیشن کی اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آزادانہ طور پر غزہ میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 8 اکتوبر کو حالات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن یہ اجلاس اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب سیکیورٹی کونسل کوئی بیان ہی جاری نہ کرسکی۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی ممالک چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے جبکہ کشیدگی کم کرنے پر ہرگز زور نہ دے۔
روسی نمائندے نے کونسل پر جنگ بندی اور بامعنیٰ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنیٰ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کوئی توجہ نہ مل سکی جبکہ اس پر ووٹ ہونا ابھی باقی ہے لیکن اس قرارداد کو اکثریت کی حمایت ملنا ناممکن لگ رہا ہے۔ یوں سلامتی کونسل تشدد کو روکنے کا اپنا فرض ادا نہیں کر پائی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 
فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہو گا۔ لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کر کے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ ان قراردادوں پر عمل نہ کر کے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ موجودہ تنازع ’اچانک کھڑا نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک ’دیرینہ مسئلہ ہے جو 56 سال پرانے قبضے سے پروان چڑھا‘۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خونریزی کو بند کیا جائے اور ’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پیش کردہ دو ریاستی حل کی روشنی میں مذاکرات کر کے امن بحال کیا جائے۔ اسی طرح اس سرزمین کے لوگوں اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پائیدار استحکام لایا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے اسرائیل پر یہ بھی زور دیا کہ وہ 11 لاکھ لوگوں کے انخلا کے اپنے حکم پر نظرثانی کرے۔ اس طرح کی اپیلوں پر اسرائیل بالکل بھی کان نہیں دھر رہا۔ اسرائیل کی غزہ پر زمینی کارروائی اور غزہ پر دوبارہ قبضے کی منصوبہ بندی کے باعث اس تنازع کے نتائج واضح نہیں ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جنگ خطے میں پھیل سکتی ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ خطے میں نارملائزیشن کی تمام کوششیں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بنانے کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ پھر گزشتہ 7 دہائیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ طاقت اور جبر سے کوئی بھی مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا سکتا ۔
ملیحہ لودھی  یہ مضمون 16 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
airnews-arngbad · 2 months
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chhatrapati Sambhajinagar
Date: 26 July-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ:  ۲۶؍ جولائی  ۲۰۲۴ء؁
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
                پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
                ٭             پیاز کے ذخیرےکیلئے چھترپتی سمبھاجی نگر سمیت ناسک اور شولاپور میں جوہری توانائی پرمبنی پیاز کے مہابینک منصوبے قائم کیے جائیں گے۔
                ٭                دودھ اور دودھ کی مصنوعات میں ملاوٹ کی روک تھام کیلئے علیحدہ قانون وضع کرنے کا وزیر اعلیٰ کا اعلان۔
                ٭             ریاست کے بیشتر حصوں میں بارش سے نظام زندگی مفلوج؛ سرکاری مشنریوں کو تال میل کے ساتھ حالات سے نمٹنے کی ہد ایات۔
اور۔۔۔٭     پیرس اولمپک مقابلوں میںبھارت کی خواتین اور مرد تیر انداز کوارٹر فائنل میں داخل، اولمپک مقابلوں کا آج باقاعدہ افتتاح۔
***** ***** *****
                اب خبریں تفصیل سے:
                 وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے ریاست کے چھترپتی سمبھاجی نگر سمیت ناسک اور شولاپور میں فوری طور پر پیاز کے مہا بینک پروجیکٹ شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ریاست میں پیاز کے نقصان کی رو ک تھام اور پیاز کا ذخیرہ کرنے کیلئےجوہری توانائی پر چلنے والا پیاز بینک پروجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے ۔ کل اس خصوص میں منعقدہ جائزاتی اجلاس میں وزیر اعلیٰ نےیہ ہدایات دیں۔ ان بینکوں کے قیام کیلئے صنعتی ترقیاتی کارپوریشن، شعبۂ مارکیٹنگ اور ریاستی شاہراہ ترقیات کارپوریشن کی دستیاب جگہوں کا استعمال کرنے کی ہد ایات بھی وزیرِ اعلیٰ نے دیں۔
***** ***** *****
                وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے دودھ اور دودھ سے تیار ہونے والی اشیا‘ میں ملاوٹ کی روک تھام کیلئےریاستی حکومت کی جانب سے ایک علیحدہ سخت قانون بنانے کا اعلان کیا ہے۔ کل‘ اس سلسلے میں منعقدہ میٹنگ کے بعد وزیرِ اعلیٰ نے یہ جانکاری دی۔ نیا قانون‘ موجودہ ریاستی قانون ‘مہاراشٹر پروہیبیشن آف ڈین��رس ایکٹیویٹیز،( (MPDA سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔ وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ خوراک میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف غیر ضمانتی مقدمہ درج کرنے کےسلسلے میں بھی مرکزی حکومت سے سفارش کی جائیگی۔
                دریں اثنا، وزیر اعلیٰ نے سابق فوجیوں کی فلاح و بہبود کیلئے ایک کارپوریشن قائم کرنے کے احکامات بھی دیئے ہیں۔ اسی طرح ریاست کے سبھی سرکاری دفاتر میں اہل امیدواروں کو انٹرن شپ کے مواقع فراہم کرنے کی ہد ایت بھی  وزیر اعلیٰ نے دی ہے۔ اس اسکیم کے تحت گڈچرولی ضلع کی سونالی گیڈام کو ریاست میں پہلی تقرری دی گئی ہے۔
***** ***** *****
                 ریاست کے مختلف حصوں میں گزشتہ روز ہوئی موسلادھار بارش سے معمولاتِ زندگی درہم برہم ہوگئے۔ پونے میںاس بارش کا سب سے زیادہ اثر رہا۔ کھڑک واسلہ ڈیم سے مُٹھا ندی میں پانی چھوڑنے کے سبب شہر کی کئی بستیوں میں پانی داخل ہو گیا۔ سنہہ گڑھ روڈ پر واقع ایکتا نگر میں نیشنل ڈیزاسٹر رِسپانس دستے اور فوج کے جوانوں نے شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ جبکہ پونے ضلعے میں کل کی بارش کے سبب مختلف حادثات میں چار افراد کی موت اور 12 افراد زخمی ہوگئے۔
                ممبئی، پنویل، پال گھر، کلیان ۔ڈومبیولی، رائے گڑھ، رتناگیری اور ستارااضلاع میں بھی کل شدید بارش ہوئی۔ ممبئی کے کئی نشیبی علاقوں میں پانی بھر جانے کی وجہ سے راستوں سمیت ٹرینوں کی آمدورفت پر اثر پڑا۔ تھانے ضلع کی الہاس ندی خطرے کے نشان کو عبور کر چکی ہے اور بیشتر راستوں پر ٹریفک کی آمد و رفت بند کر دی گئی ہے۔ رائے گڑھ ضلع کی ساوتری اور امبا ندیوں نے بھی خطرے کا نشان پار کرلیا ہے۔
                کولہاپور ضلعے کے رادھا نگری آبی پشتے سے پانی کا اخراج کیے جانے سے پنچ گنگا ندی نے خطرے کے نشان کو عبور کر لیا ہے۔ ندی کے اطرا ف کے دیہاتوں کے ساکنان کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
                دھاراشیو ضلع میں اب تک اوسطاً 395 ملی میٹر بارش کا اندراج کیا گیا ہے اور یہ بارش خریف کی فصلوں کیلئے مفید ہونے سمیت ضلع میں آبی سطح کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔
                لاتور ضلعے میں اب تک تقریباً 432 ملی میٹر بارش درج کی گئی ہے۔ ضلع کے کئی ندیوں اورنالوںمیں طغیانی آنے کی وجہ سے ضلع کے مانجرا، ماکنی، نمن تیرنا آبی پشتوں میں پانی کی مسلسل آمد جاری ہے۔ ضلع میں کئی مقامات پر پل زیرِ آب آگئے ہیں‘ جس کے سبب متعلقہ راستے ٹریفک کیلئے بند ہوگئے ہیں۔
                ناندیڑ ضلعے کا وشنو پوری آبی منصوبہ 83 فیصد بھر چکا ہے۔ ناندیڑ کے ضلع کلکٹر ابھیجیت رائوت نےبتایا کہ ڈیم کے دروازے کسی بھی وقت کھولےجاسکتے ہیں، لہٰذا ساحلی علاقوں پر آباددیہاتوں کو چوکنا رہنے کی ہد ایات جاری کی گئی ہیں۔
***** ***** *****
                 محکمہ موسمیات نے آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران ریاست کے چاروں ڈویژنوں میں بیشتر مقامات پر بارش ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔ اس دوران کوکن اور وسطی مہاراشٹر کے مختلف مقامات پر موسلادھار بارش ہونے کا امکان ہے۔
***** ***** *****
                 ریاست میں سیلابی صورتحال سے متاثرہ علاقوں میں جنگی پیمانے پر راحت رسانی کے کام کیے جارہے ہیں۔ لہٰذ ا وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے شہریوں سے ضرو رت کے مطابق ہی گھرو ں سے باہر نکلنے کی اپیل کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے قومی اور ریاستی انسدادِ آفاتِ سماوی دستوں، فوج، بحریہ، پولس، آتش فرو دستے سمیت شعبۂ صحت کے ذمہ دارا ن کو آپسی تال میل کے ذریعے ضرورت کے مطابق شہریوں کا تعاون کرنے کی ہدایات دی ہیں۔
***** ***** *****
                قانون ساز اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف وجے وڑیٹیوار نے کہا ہے کہ ریاست میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے کسان طبقہ ایک بار پھر مشکلات سے دوچار ہوا ہے۔ لہٰذا نقصان سے متاثرہ کسانوں کو خاطر خواہ امداد فراہم کر نے کا انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔
***** ***** *****
                ریاست کے مختلف حصوں میں جار ی شدید بارش کے پیش نظر آج معلّنہ دسویں اور بارہویں کے سپلیمنٹری امتحانات کے پرچے ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ آج،دہم جماعت کا سائنس اور ٹیکنالوجی حصہ دوم، مضمون کا پرچہ آئندہ 31 جولائی بروز بدھ صبح گیارہ بجے سے دوپہرایک بجے کے درمیان منعقد ہوگا۔ جبکہ بارہویں ج��اعت کے کامرس آرگنائزیشن اینڈ مینجمنٹ، علمِ اغذیات سمیت ایم سی وی سی حصہ دوم کا پرچہ آئندہ9 اگست برو زِ جمعہ کو صبح گیارہ تا دوپہر دو بجے کے درمیان لیا جائےگا۔ ان پرچہ جات کے علاوہ سپلیمنٹری امتحانات کے نظام الاوقات میں دیگر کوئی تبدیلی نہ کرنے کی اطلاع تعلیمی بورڈ کی جانب سے دی گئی ہے۔
***** ***** *****
                آج کارگل جنگ میں فتح کا 25 واں یومِ تاسیس منایا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے وزیر اعظم نریندر مودی کارگل جنگ کی یادگار پر شہیدوں کے اعزاز میں گلہائے عقیدت نچھاور کریں گے۔ ساتھ ہی وزیراعظم ٹیلی کانفرنسنگ سسٹم کے ذریعے شِنکون لا نامی زیرِ زمین منصوبے کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ جبکہ کارگل فتح دِن کے موقع پر آج ستارا میں وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا ہے۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں۔
***** ***** *****
                پیرس اولمپک کھیلوں میں بھارت نےشاندار کارکرد گی سے حصولِ تمغہ جات مہم کا آغاز کیا ہے۔ تیر اندا زی میں بھارتی خواتین اور مرد کھلاڑیوںنے کوارٹر فائنل میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ تیر اند از ترون دیپ رائے اورپروین جادھوسمیت دیپیکا کماری‘ اَنکیتا بھگت‘ بھجن کور اور بی دھیرج نے سنگل رینکنگ ر ائونڈ میں حصہ لیا۔
                ٹورنامنٹ کے باقی مرحلے 28  جولائی تا 4  اگست کے درمیان ہوں گے۔ جبکہ پیرس اولمپک کھیلوں کی افتتاحی تقریب ا ٓج بھارتی وقت کے مطابق رات گیارہ بجے شرو ع ہوگی۔ بیڈمنٹن کھلاڑی پی وی سندھو اور ٹیبل ٹینس کھلاڑی شرتھ کمل کو بھارت کے پرچم بردار ہونے کا اعزاز دیا گیا ہے۔
                ٹوکیو اولمپکس میں ایک گولڈ میڈل سمیت سات تمغے جیتنے والے 117 کھلاڑیوں پر مشتمل بھارتی دستہ پیرس میں داخل ہوچکا ہے۔ ایتھلیٹکس میں سب سے زیادہ 29، نشانے بازی میں 21، بیڈمنٹن 7 اور تیر اندازی اور کشتی زمرے میں فی کس چھ کھلاڑی شرکت کررہے ہیں۔ ان میں، سبھی کی نظریں  اسٹیپل چیس میں بیڑ کے اویناش سابڑے، تیر اندازی میں پروین جادھو، بیڈمنٹن میں چراغ شیٹی، نشانے بازی میں سوپنیل کُسڑے اور ہائی جمپ میں سرویش کشارے پر ٹکی ہوئی ہیں، ۔ ٹوکیو اولمپکس میں شاندارکارکردگی کے بعد اویناش سابڑے سے تمغے کی بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہوئی ہیں۔
***** ***** *****
                34ویں ریاستی جونیئر تائیکواندو ٹورنامنٹ کا آج سے بیڑ میں آغاز ہورہا ہے۔ ریاست بھر سے تقریباً ساڑھے چار سو کھلاڑی اس ٹورنامنٹ میں شرکت کیلئے بیڑ پہنچ چکے ہیں۔ 27جولائی تک یہ مقابلے جا ری رہیں گے۔ اس ٹورنامنٹ میں کل شام پُومسے زمرے کے مقابلے ہونے کی اطلاع ہمارے نامہ نگار نے دی ہے۔
***** ***** *****
                پربھنی پولس محکمے کے موٹر شعبے کی جانب سے ’’شی وَین‘‘ تیار کی گئی ہے۔ اس جدید گاڑی میں خواتین پولس ملازمین کیلئے درکا ر ضروری سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ پولس سپرنٹنڈنٹ رو یندر سنگھ پردیشی نے کل اس وَین کا افتتاح کرتے ہوئے بتایاکہ یہ وَین بندوبست پر تعینات خواتین پولس ملازمین کیلئے تیار کی گئی ہے۔
***** ***** *****
                چھترپتی سمبھاجی نگر کے زرعی سائنس مرکز میں ’’آم ؛بہتر زرعی طریقہ‘‘کے موضوع پر کل ایک ر وزہ تربیتی کیمپ منعقد ہوا۔ پربھنی کی وسنت رائو نائیک مراٹھواڑہ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اِندر مَنی کے ہاتھوں پروگرام کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس کیمپ میں سو سے زائد کسانوں نے شرکت کی۔
***** ***** *****
                وسطی ر یلوے کے دَونڈ ریلوے اسٹیشن پر درستی کے کاموں کے پیشِ نظر آئندہ اتوار سے کچھ ریلوے گاڑیوں کی خدمات آئندہ چند دِنوں تک منسوخ کردی گئی ہیں۔ ان میں ناندیڑ۔ پنویل۔ ناندیڑ‘ پونے۔ نظام آباد۔ پونے‘ او ر نظام آباد۔ پنڈھر پور گاڑیاں شامل ہیں۔ جنوب وسطی ریلوے کے ناندیڑ زون دفتر نے مسافروں سے اس منسوخی کو نوٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
                آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
                ٭             پیاز کے ذخیرےکیلئے چھترپتی سمبھاجی نگر سمیت ناسک اور شولاپور میں جوہری توانائی پرمبنی پیاز کے مہابینک منصوبے قائم کیے جائیں گے۔
                ٭                دودھ اور دودھ کی مصنوعات میں ملاوٹ کی روک تھام کیلئے علیحدہ قانون وضع کرنے کا وزیر اعلیٰ کا اعلان۔
                ٭             ریاست کے بیشتر حصوں میں بارش سے نظام زندگی مفلوج؛ سرکاری مشنریوں کو تال میل کے ساتھ حالات سے نمٹنے کی ہد ایات۔
اور۔۔۔٭     پیرس اولمپک مقابلوں میںبھارت کی خواتین اور مرد تیر انداز کوارٹر فائنل میں داخل، اولمپک مقابلوں کا آج باقاعدہ افتتاح۔
***** ***** *****
0 notes
googlynewstv · 3 months
Text
جنوبی کوریا  کی مصالحہ دار نوڈلز پرپابندی
ڈنمارک نے جنوبی کوریا کی مصالحہ دار نوڈلز پرپابندی لگا ۔مارکیٹ سے واپس اٹھانے کا اعلان بھی کردیا۔  تفصیلات کے مطابق جنوبی کوریا کی کمپنی کی تیار کردہ نوڈلز میں میرا خیال ہے مرچیں زیادہ ہی ڈال دی گئی ہیں۔وفاقی وزارت خوراک نے بڑاایکشن لیتے ہوئے پابندی لگائی۔ ذرائع کے مطابق نوڈلز میں مرچ کا عرق ڈالا گیا ہے جو اسے مصالحہ دار ذائقہ فراہم کرتا ہے۔
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
پنجاب کی نگران حکومت نے خیرپختونخوا، بلوچستان، کشمیر اور گلگت بلتستان کو گندم فراہمی کی منظوری دے دی
صوبہ پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر  اور گلگت بلتستان کو گندم فراہم کرے گا۔پنجاب حکومت اضافی گندم کے ذخائر میں سے  4 ہزار 786 فی من قیمت کے حساب  سے گندم فراہم کرے گی۔پنجاب حکومت کے پاس اس وقت 3ملین میٹرک ٹن سے زائد  گندم کے ذخائر موجود ہیں،خیبر پختون خوا سے پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن نے محکمہ خوراک پنجاب سے رجوع کیا تھا۔ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے پی کے نے رقم متعلقہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
rimaakter45 · 8 months
Text
جانوروں کی فلاح و بہبود اور ویگنزم کا عروج: ایک عالمی تناظر
Tumblr media
تعارف
جانوروں کی فلاح و بہبود تیزی سے دنیا بھر میں بحث کا ایک اہم موضوع بن گیا ہے، زیادہ سے زیادہ افراد ایک ہمدرد اور پائیدار طرز زندگی کو فروغ دینے کے طریقے کے طور پر ویگنزم کو اپنا رہے ہیں۔ ویگنزم، جس میں پودوں پر مبنی خوراک اور جانوروں سے حاصل کی جانے والی تمام مصنوعات سے اجتناب شامل ہے، کا مقصد جانوروں پر ہونے والے ظلم کا مقابلہ کرنا، ماحول کی حفاظت کرنا اور انسانی صحت کو بہتر بنانا ہے۔ اس مضمون کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جانوروں کی فلاح و بہبود اور ویگنزم.
جانوروں کی بہبود کا تحفظ
جانوروں کی فلاح و بہبود سے مراد جانوروں کی صحت اور معیار زندگی ہے، جس میں مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جیسے کہ رہائش کے حالات، خوراک اور پانی تک رسائی، تکلیف سے آزادی، اور درد اور تکلیف سے بچنا۔ جانوروں کی بہبود کے حامی اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ جانوروں کے ساتھ احترام اور مہربانی کے ساتھ برتاؤ کیا جائے۔ تاہم، جانوروں کی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے، کھیتی باڑی کے سخت طریقے رائج ہو گئے ہیں، جس کے نتیجے میں جانوروں کے ساتھ بدسلوکی اور بدسلوکی ہوتی ہے۔
بہت سے لوگ ویگن طرز زندگی کو اپنانے کا انتخاب کرنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک خوراک کی صنعت میں جانوروں کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔ جانوروں کو چھوٹی جگہوں پر قید کرنا، پیداوار کے ظالمانہ طریقوں کا استعمال، اور ان کی جذباتی اور ذہنی ضروریات پر غور نہ کرنا اہم خدشات ہیں۔ ان صنعتوں میں حصہ نہ لینے کا انتخاب کرکے، ویگنز جانوروں کی فلاح و بہبود کے مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے فعال طور پر کام کرتے ہیں۔
ماحولیاتی پائیداری
جانوروں کی زراعت کی صنعت ماحولیاتی انحطاط میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مویشیوں کی پیداوار عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تقریباً 14.5 فیصد بنتی ہے، جو اسے موسمیاتی تبدیلی کا ایک اہم محرک بناتی ہے۔ مزید برآں، صنعت پانی اور زمین کا بہت زیادہ استعمال کرتی ہے، جس سے جنگلات کی کٹائی، صحرائی اور پانی کی کمی ہوتی ہے۔ کھاد، کیڑے مار ادویات اور کھادوں کی وجہ سے ہونے والی آلودگی انتہائی کھیتی باڑی کے طریقوں میں استعمال ہونے والے ماحولیاتی انحطاط کو مزید بڑھاتی ہے۔
ویگن جانوروں کی زراعت اور ماحولیاتی تباہی کے درمیان تعلق کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کی خوراک سے جانوروں کی مصنوعات کو ختم کرکے، وہ اپنے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کرتے ہیں، پانی کو بچاتے ہیں، اور قیمتی ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ پودوں پر مبنی طرز زندگی خوراک کی پیداوار کے لیے ایک زیادہ پائیدار اور ماحولیات کے بارے میں شعور رکھنے والے نقطہ نظر کی حمایت کرتا ہے، جو انسانوں اور جانوروں دونوں کے لیے ایک صحت مند سیارے کے لیے کام کرتا ہے۔
اخلاقیات اور ہمدردی
بنیادی اصول جو ویگنزم کو تقویت دیتے ہیں ان کی جڑیں اخلاقیات اور ہمدردی میں ہیں۔ یہ عقیدہ کہ جانوروں کو نقصان اور استحصال سے آزاد زندگی گزارنے کا حق ہے اس فلسفے کا مرکز ہے۔ جانوروں کے استحصال پر بنائی گئی پوری صنعتیں، جیسے فیکٹری فارمنگ، کھال کی پیداوار، اور جانوروں کی جانچ، ان اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی۔
ویگنزم فعال طور پر جانوروں کے اعتراض اور اجناس کو چیلنج کرتا ہے اور سماجی رویوں میں تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے کہ جانوروں کو جذباتی مخلوق کے طور پر دیکھنے کے لیے جو احترام اور غور و فکر کے مستحق ہیں۔ یہ اخلاقی نقطہ نظر کھانے کے انتخاب سے آگے بڑھتا ہے، طرز زندگی کے فیصلوں جیسے کہ لباس، کاسمیٹکس، اور تفریح کو متاثر کرتا ہے۔ ویگنزم کو اپنانے سے، افراد اپنے اعمال کو اپنے اخلاقی عقائد کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں اور ایک زیادہ ہمدرد دنیا کے لیے کوشش کرتے ہیں۔
صحت کے فوائد
اخلاقی اور ماحولیاتی وجوہات کے ساتھ ساتھ، ویگنزم ممکنہ صحت کے فوائد کی ایک حد پیش کرتا ہے۔ ایک اچھی طرح سے پلانٹ پر مبنی خوراک تمام ضروری غذائی اجزاء فراہم کر سکتی ہے جب کہ دائمی بیماریوں جیسے دل کی بیماری، قسم 2 ذیابیطس، اور کینسر کی بعض اقسام کے خطرے کو کم کرتی ہے۔ ویگن غذا عام طور پر فائبر، وٹامنز اور معدنیات سے بھرپور ہوتی ہے اور سیر شدہ چکنائی اور کولیسٹرول کی مقدار کم ہوتی ہے۔ نتیجے کے طور پر، بہت سے لوگ اپنی مجموعی صحت اور تندرستی کو بہتر بنانے کے لیے ویگنزم کو اپناتے ہیں۔
نتیجہ
جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے بڑھتی ہوئی تشویش، جانوروں کی زراعت کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں بڑھتی ہوئی بیداری کے ساتھ، طرز زندگی کے انتخاب کے طور پر ویگنزم کے عروج کو ہوا دی ہے۔ ویگنز زیادہ ہمدرد اور پائیدار دنیا کے لیے فعال طور پر کام کرتے ہیں، جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کو بے نقاب کرتے ہیں اور ان کے ماحولیاتی اثرات کو کم کرتے ہیں۔ جیسے جیسے زیادہ افراد ویگنزم کو اپناتے ہیں، تحریک تیز ہوتی جاتی ہے، جس سے جانوروں کی بہبود کے مسائل اور پودوں پر مبنی طرز زندگی کے فوائد کو عالمی بحث میں سب سے آگے لایا جاتا ہے۔
0 notes
risingpakistan · 10 months
Text
موسمیاتی تبدیلی اور پاکستانی معیشت پر اس کے اثرات
Tumblr media
پاکستان کے معاشی حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سرمائے کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ یہ تک کہا جا رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 340 ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور 2030 تک ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات پر پاکستان کے اخراجات کا تخمینہ 200 ارب ڈالر لگایا گیا ہے اور نظریں حسب سابق آئی ایم ایف پر لگی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے آیندہ راؤنڈ میں ادارے کے ٹرسٹ فنڈ سے پاکستان کے لیے اضافی فنڈنگ حاصل کرنے پر غور جاری ہے اور یہ فنڈنگ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے سرمائے کی کمی کو دور کرنے میں مدد دے گی۔ اب یہ صورت حال ہے، اب موسمیات کی تبدیلی اس کے نقصانات اس کے اثرات اس سے بچاؤ اس سے محفوظ رہنے غرض ہر طریقے سے پاکستان میں ہونے والی شدید ترین موسمیاتی تبدیلی اس کی شدت سے محفوظ رہنے کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے اور وہ پوری کرنے میں مدد فراہم کرے آئی ایم ایف۔ جب کہ آئی ایم ایف کی ان معاملات سے کنارہ کشی کا اظہار اس وقت ہی سامنے آگیا تھا جب اس سال کے ابتدائی مہینوں میں 4 ہفتے مذاکرات، جائزے، گفتگو اور بہت کچھ ہونے کے بعد پاکستان کے ناک کی لکیریں بھی نکلوائی گئیں۔
کچھ عرصہ قبل ہی پاکستان دنیا میں واحد ملک تھا جوکہ موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہوا تھا۔ ملک کا بیشتر حصہ سیلاب کی زد میں آ کر ڈوب چکا تھا۔ 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا تھا، لاکھوں مویشی دریا برد ہو گئے تھے، سیکڑوں افراد ہلاک یا پھر سانپ کے ڈسنے سے ہلاک ہوئے۔ دنیا بھر کے ملکوں نے تسلیم کیا کہ پاکستانی معیشت ڈوب چکی ہے۔ مزید دو سے ڈھائی کروڑ افراد سیلاب سے بچ کر نکلے لیکن غربت کی کھائی میں گر گئے۔ مزید اس کے کنارے آ کر آباد ہو گئے، فصلیں برباد ہو گئیں، ہر قسم کی خوراک کی قلت پیدا ہو گئی، لیکن سچ بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ اکتوبر 2022 میں آمد تھی، اس میں تاخیر ہوتی چلی گئی، پھر نومبر کی نوید سنائی جانے لگی حتیٰ کہ سال کا اختتام آیا۔ پھر جب آئے تو جاتے وقت کہہ گئے کہ جلد ہی منظوری کا اعلان ہو جائے گا، حالانکہ مذاکرات کے دوران سخت ترین مطالبے اور شرائط اور ان باتوں پر کان نہیں دھرا کہ ایسا ملک جس کے لاکھوں افراد سیلاب کے پانی میں ابھی تک گھرے ہوئے ہیں۔ کھانے کو روٹی نہیں، پہننے کو چپل نہیں، پھٹے پرانے کپڑے، سر پر چھت نہیں، ان کی نظر کے سامنے ان کی کھیتی برباد پڑی ہے، سیلاب اپنی آمد کے ساتھ ہی ان کے مویشیوں کو بہا کر لے گیا۔
Tumblr media
بہرحال موسمیاتی تبدیلی کے نام پر ہاتھ میں لیے ہوئے کاسے پر کسی نے غور نہ کیا۔ اب موسمیاتی تبدیلی کے نام پر آئی ایم ایف سے فنڈنگ کے تحت اضافی فنڈنگ کا حصول کچھ مشکل کام نظر آ رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف 71 کروڑ ڈالر کی قسط کے اجرا کے لیے مذاکرات کرے گا، پاکستان کی تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ پاکستان نے طے شدہ اسٹرکچرل اہداف حاصل کر لیے ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ جائزہ مشن مطمئن ہوا تو اگلی قسط کی سفارش کرے گا۔ امید ہے کہ مشن کو اس وقت ماحول مختلف ملے گا کیونکہ نگران وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر اور ان کی ٹیم نے اس سلسلے میں کافی تیاری کر رکھی ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی آئی ہے، درآمدات میں کمی لائی گئی ہے، محصولات اور سرمایہ کاری کے زیادہ ہونے کی رپورٹ دی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 2022 میں جس طرح سے ملک اقتصادی گراوٹ کی طرف جا رہا تھا اور جس طرح اقتصادی بحران کا شکار تھا اس س�� نکالنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں، اس کے مثبت نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں لیکن ��س مرتبہ مذاکرات میں پاکستان کو اپنی معیشت کو عالمی معیشت کے ساتھ ملا کر مذاکرات کا ڈول ڈالنا ہو گا۔
کیونکہ اسرائیل کی بربریت اور سفاکیت بڑھتی چلی جا رہی ہے اور امریکا کھل کر اس کی حمایت کر رہا ہے۔ ہر ناجائز بات کو سر تسلیم خم کر رہا ہے جس کے منفی اثرات پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں اور عالمی معیشت زبردست طریقے سے ڈانواں ڈول ہونے جا رہی ہے اور سب سے زیادہ نقصان امریکا کو اٹھانا پڑے گا۔ جلد یا بدیر اسرائیلی اور دیگر زبردست حمایتی ممالک کی مصنوعات کی سیل میں کمی ہو سکتی ہے۔ کئی ممالک نے اسرائیل سے اپنے سفیر بلا لیے یا ان کے سفیروں کو نکال دیا ہے، اگر یہ سلسلہ عرب ممالک تک پھیل گیا اور اسرائیل کے لیے برآمدات، تیل کی ترسیل اور اس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا سلسلہ دراز ہوا تو جلد ہی اسرائیل گھٹنے ٹیک دے گا۔ اس کے ساتھ ہی عالمی باہمی تجارت کو سخت دھچکا پہنچے گا جس کے اثرات پاکستان پر اس طرح مرتب ہوں گے کہ اس کی برآمدات میں کمی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی درآمدات اگرچہ کم ہو رہی ہیں لیکن جس طرح کی کمی لائی جا رہی ہے وہ برآمدات کی قیمت پر ہے یا روزگار میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے، لہٰذا مذاکرات میں غربت اور موسمیاتی تبدیلی کا اصل شکار ملک کے طور پر ان کی توجہ دلانا ہو گی اور عالمی معیشت کے نقصان دہ اثرات جو کہ جلد مرتب ہونے والے ہیں ان پہلوؤں کا ذکر بھی ضروری ہو گا۔ 
آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی، گیس کے نرخ بڑھائے جا چکے ہیں اسٹیٹ بینک نے شرح سود بھی 22 فی صد پر برقرار رکھی ہے۔ پاکستان کا اصل مسئلہ ملک کے اندر غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کا برآمدات میں اضافے کا اور دیگر معاشی مسائل ہیں جو تمام کے تمام ابھی ملک میں حل ہونے کا نام نہیں لے رہے، مہنگائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچایا جا سکا۔
محمد ابراہیم خلیل  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
winyourlife · 1 year
Text
ذرا سی توجہ خود پر بھی دے لیں
Tumblr media
اس سے پہلے کہ ذیابطیس کے تازہ عالمی نقشے پر نگاہ ڈالیں۔ خود ذیابطیس کی ابجد کیوں نہ دوھرا لی جائے۔ جو بھی خوراک ہم استعمال کرتے ہیں وہ جسم میں داخل ہو کر گلوکوز ( شوگر ) بنتی ہے اور پھر خون میں شامل ہوتی ہے۔ خون میں گلوکوز ایک مخصوص مقدار میں ہی داخل ہو۔ اسے یقینی بنانے کے لیے قدرت نے ہر جسم میں لبلبہ نامی ایک کنٹرولر مقرر کر رکھا ہے جو انسولین بناتا ہے، تاکہ آپ کے خون میں داخل ہونے والے گلوکوز کی مقدار توانائی کی شکل میں جسم کو ضروری ایندھن فراہم کر سکے۔ بعض اوقات متعدد وجوہات کے سبب لبلبلہ یا تو ضروری مقدار میں انسولین پیدا نہیں کر پاتا یا پھر پوری طرح فعال نہیں رہتا۔ یوں گلوکوز کی مقدار آپ کے خون میں بلا رکاوٹ بڑھتے بڑھتے جسمانی پیچیدگیوں کا محرک بن جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ فالتو گلوکوز دل، گردے، اعصاب اور بینائی پر اثرانداز ہونے لگتا ہے۔ اب تک شوگر کی بے قاعدگی کو قدرتی سطح پر برقرار رکھنے کے لیے کوئی مستقل حل دریافت نہیں ہو سکا۔ البتہ وزن میں کمی، صحت مند غذا، متحرک معمولات، اچھی نیند اور اعصابی تناؤ میں کمی کی مشق سے کسی حد تک شوگر مینیجمنٹ ضرور ہو سکتی ہے۔
شوگر کے مرض کی دو عمومی اقسام زیادہ جانی جاتی ہیں۔ ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو۔ٹائپ ون شوگر کی شکایت تب لاحق ہوتی ہے جب جسم میں کسی اندرونی ردِعمل کے سبب انسولین بننے کا عمل معطل ہو جاتا ہے۔ یہ اچانک ردِعمل بچوں اور نوعمروں میں بھی ہو سکتا ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کے لیے روزانہ انسولین لینا پڑتی ہے۔عموماً ٹائپ ون کے مریضوں کی تعداد پانچ سے دس فیصد کے درمیان ہے۔ البتہ اکثریت بتدریج ٹائپ ٹو شوگر کی زد میں آتی ہے۔ آپ کا لبلبلہ رفتہ رفتہ انسولین کی مقدار کم بنانے لگتا ہے۔ یوں خون میں گلوکوز کی مقدار میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔اس کا ہدف زیادہ تر جوان یا پکی عمر کے لوگ ہیں۔ علامات بھی آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں۔ ذیابطیس کی ایک تیسری قسم بھی ہے جو دورانِ حمل گلوکوز کی مقدار میں اتار چڑھاؤ کے سبب پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے منفی اثرات بچے میں بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دورانِ حمل شوگر لیول کی نگرانی ازبس ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت دنیا کا ہر تیسرا شخص شوگر کی سرحد پر کھڑا ہے۔ طرزِ زندگی اور روزمرہ عادات میں صحت مند تبدیلیوں کے ذریعے اس سرخ لکیر سے پیچھے ہٹنا ممکن ہے۔
Tumblr media
عالمی ادارہِ صحت کے مطابق انیس سو اسی میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد ایک سو آٹھ ملین تھی جو اگلے چار عشروں میں چار گنا بڑھ گئی۔ اس وقت دنیا بھر میں ذیابطیس کے متاثرین کی تعداد لگ بھگ چار سو بیالیس ملین ہے۔ ہر سال ذیابطیس کی پیچیدگیوں کے سبب پندرہ سے بیس لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ یہ مسئلہ متوسط اور غریب ممالک میں زیادہ سنگین ہے۔ ذیابطیس کی بین الاقوامی فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کا اندازہ ہے کہ سرکاری و عمومی عدم دلچسپی کے باعث یہ مسئلہ وبائی شکل اختیار کر رہا ہے اور اگر اس بابت موثر بنیادی اقدامات نہ کیے گئے تو خدشہ ہے دو ہزار تیس تک چھ سو تینتالیس ملین اور دو ہزار پینتالیس تک سات سو تراسی ملین افراد لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ اگر بیس برس کی عمر تک کے ٹائپ ون ذیابطیس چارٹ پر نگاہ ڈالی جائے تو حیرت انگیز طور پر امریکا سرِفہرست دکھائی دیتا ہے۔ وہاں فی ہزار ایک سو پچھتر افراد ٹائپ ون ذیابطیس کے کسی نہ کسی مرحلے میں ہیں جب کہ انڈیا میں یہ تناسب فی ہزار ایک سو اکہتر ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک کے طرزِ زندگی میں بہت فرق ہے۔
جب کہ ٹائپ ٹو ذیابطیس کا عالمی چارٹ دیکھا جائے تو چین مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے سرِفہرست ہے۔ وہاں بیس سے اسی برس تک کے ایک سو اکتالیس ملین متاثرین ہیں۔ دیگر بہتر ملین چینیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں بھی ذیابطیس ہے مگر وہ تشخیصی نظام کے مدار سے باہر ہیں۔ چین کے بعد تعداد کے اعتبار سے انڈیا اور پاکستان کا درجہ ہے۔ آبادی کے تناسب سے ذیابطیس کے پھیلاؤ کو دیکھا جائے تو پھر پاکستان پہلے، فرنچ پولینیشیا دوسرے اور کویت تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی اکتیس فیصد، فرنچ پولنیشیا اور کویت کی پچیس فیصد آبادی اس وبا کی لپیٹ میں ہے اور متاثرہ افراد میں لگ بھگ نوے فیصد کو ٹائپ ٹو ذیابطیس لاحق ہے۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ براعظم افریقہ کی محض ساڑھے چار فیصد آبادی میں ذیابطیس کی علامات پائی گئی ہیں۔ ایک سبب شہری آبادی کی کم تعداد اور موٹاپے کی کم شکایت ہے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ متاثرہ افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہو مگر اکثریت کو اس کا ادراک نہ ہو یا پھر تشخیصی سہولتوں تک رسائی نہ ہو۔
جب تک کوئی تسلی بخش سستا علاج یا طریقہ وسیع پیمانے پر دریافت نہیں ہو جاتا تب تک ایک سادہ و متحرک زندگی اختیار کرنے سے ہی کام چلانا پڑے گا۔ کیونکہ ذیابطیس کوئی ایک مسئلہ نہیں بلکہ کئی جسمانی پیچیدگیوں کی جڑ ہے۔ جنھیں گمان ہے کہ وہ محفوظ ہیں۔ انھیں اس خوش فہمی میں مسلسل رہنے کے بجائے سال میں کم از کم ایک بار ضرور اپنا معائنہ کروانا چاہیے اور جو مبتلا ہیں انھیں اضافی جسمانی پیچیدگیوں سے بچنے اور صحت کے معیار کو مزید ابتری سے بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر کو روز مرہ زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہیے۔ اس وقت صحت کے کل عالمی بجٹ کا چھ فیصد (نو سو چھیاسٹھ بلین ڈالر) ذیابطیس کی روک تھام اور اس سے پیدا ہونے والی دیگر جسمانی پیچیدگیوں کے علاج معالجے اور دیکھ بھال پر صرف ہو رہا ہے۔ اس اضافی خرچے سے بچنا ممکن ہے اگر دوسروں کے معاملات کے ساتھ ساتھ ذرا سی توجہ خود پر بھی دے لی جائے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
spito · 2 years
Text
جاپان کا سیلاب زدگان کیلیے مزید 3 کروڑ 89 لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان
جاپان کا سیلاب زدگان کیلیے مزید 3 کروڑ 89 لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان
اسلام آباد: جاپان نے سیلاب زدگان کی زندگی بچانے والی امداد کی فراہمی کے لیے ضمنی بجٹ کے حصے کے طور پر پاکستان کو 3 کروڑ89 لاکھ امریکی ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔  اس حوالے سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ پاکستان میں آنے والے غیر معمولی سیلاب نے ایک کثیر جہتی انسانی بحران کو جنم دیا ہے، جس سے متاثرہ آبادی کو صحت کے بڑھتے ہوئے خطرات اور خوراک کی عدم تحفظ، غیر محفوظ ذریعہ معاش، اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
htvpakistan · 2 years
Text
سردیوں میں ان غذاؤں کا استعمال لازمی کریں
سردیوں میں ان غذاؤں کا استعمال لازمی کریں
سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی بیشتر افراد کو الرجی سمیت کئی دیگر بیماریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ان میں الرجی، بالوں کا گرنا، جلد کی خشکی، بدہضمی، پیٹ پھولنا اور قبض جیسے مختلف صحت کے مسائل شامل ہیں۔ ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ آپ موسم سرما میں غذائیت سے بھرپور درج ذیل تین اجزاء اپنی خوراک میں شامل کریں۔ یہ کھانے آپ کو گرم رکھیں گے اور آپ کو سردیوں سے لطف اندوز ہونے میں مدد فراہم کریں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
airnews-arngbad · 1 year
Text
آکاشوانی اورنگ آباد‘ علاقائی اُردو خبریں: بتاریخ: 09 جون 2023‘ وقت: صبح 09:00 تا 09:10
 ::::: سرخیاں::::::
سب سے پہلے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ ابتدائی زرعی قرض فراہم کرنے والے اداروں کو وزیرِ اعظم کسان سمردّھی مراکز کے تحت لانے کا مرکزی حکومت کا فیصلہ۔
٭ ریزرو بینک کی جانب سے سود کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں؛ دو ہزار کے 50 فیصد نوٹ ہی بینکوں میں اب تک کیے گئے جمع۔
٭ ریاست کی تمام سرکاری اقامت گاہوں کے تحفظ کے جائزے کی خاطر اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل۔
٭ جالنہ میں دو زرعی خدمات مراکز کے لائسنس منسوخ؛ 37 زرعی مراکز کو عارضی طور پر فروخت بند رکھنے کے احکامات۔
٭ مراٹھواڑہ کے 11 بڑے آبی منصوبوں میں صرف 39% پانی کا ذخیرہ۔
اور۔۔ ٭  موسمی بارش مانسون کیرل میں داخل۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
  مرکزی حکومت نے ابتدائی زرعی قرض فراہم کرنے والے اداروں کو وزیرِ اعظم کسان سمردّھی مراکز کے تحت لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئی دہلی میں کل امدادِ باہمی کے مرکزی وزیر امت شاہ اور کیمیائی اشیاء و کھاد کے مرکزی وزیر منسکھ مانڈویہ کے درمیان میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ اس میٹنگ میں ملک بھر کے کم و بیش ایک لاکھ ابتدائی زرعی قرض اداروں کو نامیاتی کھاد کی مارکیٹنگ سے جوڑنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ محکمہئ کھاد کی مارکیٹنگ ڈیولپمنٹ امدادی اسکیم کے تحت کھاد کمپنیاں اپنی حتمی پیداوار کی فروخت کی خاطر اور چھوٹی  Bio Organic کھاد کمپنیوں کیلئے مل کر کام کریں گی۔
ابتدائی زرعی قرض فراہم کرنے والے ادارے کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے چھڑکاؤ کیلئے ڈرون کاروباریوں کے طور پر بھی کام کرسکتے ہیں۔ ان فیصلوں سے ان زرعی قرض فراہم کرنے والے اداروں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
***** ***** *****
مرکزی حکومت نے خواتین کے تحفظ کی خاطر مزید 300 وَن اسٹاپ مراکز کے قیام کو منظوری دی ہے۔ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے کل نئی دہلی میں یہ اطلاع دی۔ وزیر موصوفہ نے بتایا کہ ان مراکز کے قیام کا مقصد خواتین پر تشدد سے متعلق معاملات میں ان کے علاج میں تعاون کرنا‘ قانونی امداد فراہم کرنا‘ رہنمائی کرنا اور عارضی آسرا فراہم کرنا ہے۔ ایرانی نے یہ بھی بتایا کہ ملک میں 34 سے زائد خواتین ہیلپ لائن کام کررہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ آنگن واڑیوں میں خوراک کی فراہمی پر نظر رکھنے کیلئے ٹریکرس نصب کیے گئے ہیں۔ اس کے ذریعے چھ کروڑ سے زائد بچوں کی معلومات یکجا کی جارہی ہے۔
***** ***** *****
مرکزی بینک RBI نے کل سہ ماہی مالی رپورٹ جاری کی، اس میں شرح سود 6.5 فیصد قائم رکھا گیا ہے۔ ریزرو بینک کے گورنر شکتی کانت داس نے کل صحافتی کانفرنس میں یہ اطلاع دی۔ انھوں نے بتایا کہ مالی سال 2023-24 کے دوران افراطِ زر یعنی مہنگائی 4% فیصد سے زیادہ رہے گی۔ گذشتہ چھ جون سے ممبئی میں ریزرو بینک کی مالی لائحہ عمل طئے کرنے والی کمیٹی کا سہ روزہ اجلاس جاری تھا۔ جس کے بعد آج سہ ماہی اقتصادی پالیسی کا اعلان کیا گیا۔ گورنر شکتی کانت داس نے مزید بتایا کہ عوام نے دو ہزار روپؤں کے 50 فیصد نوٹ ہی اب تک بینکوں میں جمع کیے ہیں۔ انھوں نے عوام سے جلد از جلد دو ہزار روپؤں کی بقیہ نوٹ بینک میں جمع کرنے یا دوسری نوٹوں سے بدلنے کی اپیل کی ہے۔
***** ***** *****
امدادِ باہمی کے ریاستی وزیر اتل ساوے نے دیوالیہ ہوچکی وسنت دادا فارمرس کوآپریٹیو بینک کے کھاتے داروں کو ترجیحی بنیاد پر ان کی جمع شدہ رقم واپس کرنے کی ہدایت دی ہے۔ کل اس خصوص میں ممبئی میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا۔ وزیرِ موصوف نے ایک لاکھ تا پانچ لاکھ روپؤں تک کی جمع رقم طئے کرنے اور اس کی فوری واپسی کی شرح کا تعین کرنے کی بھی ہدایت دی۔ ساوے نے تجویز پیش کی کہ کوآپریٹیو کمشنر کی سطح پر ہر ماہ بینک لون کی وصولی اور ڈپازٹ کی واپسی کے حوالے سے میٹنگ کا انعقاد کیا جائے اور اس کیلئے ایکشن پلان تیار کیا جائے۔
***** ***** *****
ریاستی حکومت کی جانب سے اعلیٰ اور تکنیکی تعلیم کے محکمے کے دائرہئ اختیار کی تمام سرکاری اقامت گاہوں کے تحفظ کے جائزے کی خاطر اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل کی گئی ہے۔ ممبئی کے ساوتری بائی پھلے سرکاری ہاسٹل کی 18 سالہ طالبہ کی عصمت ریزی اور قتل کے معاملے کے تناظر میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ اس خصوص میں کل ریاستی حکومت کی جانب سے سرکلر جاری کیا گیا۔ یہ کمیٹی متعلقہ کالج پرنسپل اور ہاسٹل کے وارڈن سے معلومات لے کر تجویز کیے گئے مسائل کا حل تلاش کرے گی۔ یہ کمیٹی 14 جون تک حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
***** ***** *****
مراٹھواڑہ کے 11 بڑے آبی منصوبوں میں پانی کا ذخیرہ 38.96 فیصد رہ گیا ہے۔ محکمہئ آبی وسائل کے گوداوری مراٹھواڑہ آبپاشی کارپوریشن نے کل یہ اطلاع دی۔ پیٹھن کے جائیکواڑی ڈیم میں فی الحال 34.56 فیصد پانی کا ذخیرہ موجود ہے۔ لووور دودھنا آبی منصوبے میں 29.76‘ یلدری 57%‘ ماجل گاؤں 23.32%‘ پین گنگا 47.18%فیصد اور وشنوپوری آبی منصوبے میں 51.49 فیصد پانی کا ذخیرہ باقی ہے۔
***** ***** *****
 اورنگ آباد ضلع کے رابطہ وزیر سندیپان بھومرے نے کہا ہے کہ مراٹھواڑہ کی جنگ ِ آزادی کے امرت مہوتسو برس کی مناسبت سے شہر کے ایک مرکزی مقام پر عظیم الشان یادگار تعمیر کی جائیگی۔ وزیرِ موصوف کل اورنگ آباد میں مراٹھواڑہ مکتی سنگرام امرت مہوتسو برس کے موقع پر کابینہ کی ذیلی کمیٹی کی میٹنگ میں بول رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ سو کروڑ روپؤں کے خرچ سے تعمیر ہونے والی اس 200 فٹ اونچی یادگار کا کام دو برسوں میں مکمل کیا جائیگا۔ اس عمارت میں ثقافتی ہال‘ نمائشی ہال‘ دیہی فنون‘ مراٹھواڑہ کی آزادی کی جدوجہد کی یادیں اور کتب خانہ سمیت دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
***** ***** *****
ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے ڈگری کورسیز کے امتحانات کے نتائج کا کل اعلان کیا گیا۔ یہ اطلاع یونیورسٹی میں امتحانات کی کنٹرولر ڈاکٹر بھارتی گولی نے دی۔ انھوں نے بتایا کہ گذشتہ مارچ/ اپریل میں ہوئے بی. اے‘ بی ایس سی‘ بی کام‘ سمیت دیگر کورسیز کے نتائج کل ظاہر کردئیے گئے۔ بیڑ‘ عثمان آباد‘ جالنہ اور اورنگ آباد کے 23 جانچ مراکز پر امتحانی پرچو ں کی جانچ کی گئی۔
***** ***** *****
جالنہ ضلع میں محکمہئ زراعت نے دو زرعی خدمت مراکز کے لائسنس منسوخ کردئیے ہیں ’ساتھ ہی ایسے 37 مراکز چلانے والوں کو عارضی طور پر فروخت بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ ضلع زرعی افسر گنونت کاپسے نے بتایا کہ کپاس کے بیج کی کچھ اقسام زیادہ قیمت پر فروخت کیے جانے کی شکایات موصول ہونے اور خرید و فروخت کے ریکارڈ میں تضاد پائے جانے کے بعد یہ کارروائی کی گئی۔ کاپسے نے بتایا کہ ضلع میں اب محکمہئ زراعت کے ملازمین کی موجودگی میں کپاس کے بیجوں کی اقسام فروحت کی جارہی ہے۔ ضلع محکمہئ زراعت نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مخصوص قسم کے بیجوں کی فراہمی پر اصرار نہ کریں۔
***** ***** *****
ریاست کے وزیرِ صنعت اُدئے سامنت نے کل ناندیڑ طیران گاہ پر سہولیات کا جائزہ لیا۔ انھوں نے بتایا کہ کئی مہینوں سے اس طیران گاہ پر سہولیات سے متعلق شکایات موصول ہورہی ہیں۔ سامنت نے کہا کہ ہوائی جہاز سے سفر کرنے والوں کو بڑی تعداد موجود ہونے کے بعد بھی طیران گاہ میں مناسب نظم کی کمی کے سبب مسافر طیاروں کی خدمات بند ہوچکی ہے۔ انھوں نے انتباہ دیا کہ طیران گاہ کا انتظام سنبھالنے والی ایجنسی نے اگر فوری طور پر معاملات درست نہیں کیے تو دیگر طیران گاہوں کی طرح ناندیڑ طیران گاہ کو بھی آئندہ تین مہینوں میں محکمہئ صنعت کے ذریعے چلایا جائیگا۔
***** ***** *****
عثمان آباد ضلع پریشد کے CEO راہل گپتا نے کل بچوں کی شادی کی روک تھام سے متعلق ضلع ٹاسک فورس کی میٹنگ کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ ضلع میں بچپن کی شادیوں کو روکنے کی خاطر پولس‘ تحفظ ِ اطفال اور تعلیم کے محکمے کو چوکس رہنا چاہیے۔ گپتا نے متعلقہ افسران کو ہدایت دی کہ وزیرِ اعظم ماتر وندن اسکیم کے تحت اگر کوئی نابالغ اندراج کرائے تو بچپن کی شادی کی روک تھام کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔ 
***** ***** *****
موسمی بارش مانسون کل کیرل میں داخل ہوگئی۔ کیرل کے کئی علاقوں میں کل صبح سے رحمت ِ باراں کا نزول شروع ہوگیا۔ اس مرتبہ بارش کم و بیش سات دِنوں کی تاخیر سے آرہی ہے۔ کوکن میں 16 جون سے بارش ہونے کا امکان محکمہئ موسمیات نے ظاہر کیا ہے۔ بحیرہئ عرب میں بیپر جوائے نامی طوفان جاری ہے جو آئندہ تین دِنوں کے دوران شمال کی جانب جائیگا۔ محکمہئ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ مراٹھواڑہ‘ کوکن‘ وسطی مہاراشٹر اور ودربھ کے کچھ علاقوں میں تیز ہواؤں سمیت ہلکی بارش کا امکان ہے۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ ابتدائی زرعی قرض فراہم کرنے والے اداروں کو وزیرِ اعظم کسان سمردّھی مراکز کے تحت لانے کا مرکزی حکومت کا فیصلہ۔
٭ ریزرو بینک کی جانب سے سود کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں؛ دو ہزار کے 50 فیصد نوٹ ہی بینکوں میں اب تک کیے گئے جمع۔
٭ ریاست کی تمام سرکاری اقامت گاہوں کے تحفظ کے جائزے کی خاطر اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل۔
٭ جالنہ میں دو زرعی خدمات مراکز کے لائسنس منسوخ؛ 37 زرعی مراکز کو عارضی طور پر فروخت بند رکھنے کے احکامات۔
٭ مراٹھواڑہ کے 11 بڑے آبی منصوبوں میں صرف 39% پانی کا ذخیرہ۔
اور۔۔ ٭  موسمی بارش مانسون کیرل میں داخل۔
***** ***** ****
0 notes
urdunewspost · 4 years
Text
ترکی کا ٹاکا بے گھر ہونے والے پاکستانی خاندانوں کو خوراک کی امداد فراہم کرتا ہے
ترکی کا ٹاکا بے گھر ہونے والے پاکستانی خاندانوں کو خوراک کی امداد فراہم کرتا ہے
[ad_1]
Tumblr media
ترکی کے تعاون اور کوآرڈینیشن ایجنسی (TIKA) نے دہشت گردی سے بے گھر ہونے والے تقریبا some ایک ہزار پاکستانی خاندانوں تک رسائی حاصل کی۔
منگل کو ترکی کی معروف ترقیاتی امدادی ایجنسی نے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں غذائی امداد کی فراہمی کی۔
ان خاندانوں کو ، جو افغانستان کی سرحد پر وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں اپنی رہائش گاہیں چھوڑنے پر مجبور…
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 3 years
Text
مالدیپ : پانیوں میں گھرا ایک چھوٹا سا خوبصورت ملک
مالدیپ سارک ممالک کا ایک اہم رکن ہے، جو کہ بحرہند میں اس کے پانیوں میں گھرا ایک چھوٹا سا خوبصورت ملک ہے۔ یہ بہت سارے جزائر پرمشتمل ملک ہے، جس میں سے بیشتر جزائرغیر آباد ہیں۔ تقریبًا دو سو کے قریب جزائر پر انسان آباد ہیں لیکن بیشتر آبادی دارالحکومت مالے میں رہتی ہے۔ مالدیپ پاکستان سے زیادہ دور نہیں ہے۔ مالدیپ سری لنکا کے مغربی کنارے کی سمت واقع ہے، کل جزائر کی تعداد ایک ہزار ایک سو بانوے ہے۔ ان میں سے ایک سو بانوے جزائر آباد ہیں جن کی آبادی تقریبًا تین لاکھ اٹھائیس ہز��ر پانچ سو چھتیس ہے۔ اس کے علاوہ غیرآباد جزائر بھی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کے لئے مخصوص دلکشی رکھتے ہیں۔ کئی جزائر پر سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے متعدد سہولیات بھی فراہم کی جا چکی ہیں۔ مالدیپ کا رقبہ نوے ہزار مربع کلومیٹر یعنی پنتیس ہزار مربع میل ہے۔ اس طرح یہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے براعظم ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک مانا جاتا ہے۔
اس ملک کے سمندری ساحلوں سے لطف اندوز ہونے کا شوق رکھنے والے سیاحوں کے لیے اس میں بہت دلکشی پائی جاتی ہے۔ اس ملک کا ویزا لینا بھی بہت آسان ہے۔ یہاں کا موسم سال کے بیشتر حصے میں بہت خوش گوار رہتا ہے۔ نومبر سے اپریل تک کا موسم سیاحت کے لیے بہت بہترین سمجھا جاتا ہے۔ جب مون سون کی بارشیں شروع ہو جائیں تو ان بارشوں کا سلسلہ مئی سے اکتوبر تک جاری رہتا ہے۔ ان بارشوں میں زیاہ گھومنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ملک کو قدرت نے صاف اور شفاف پانیوں سے نواز رکھا ہے۔ جیسے ہی ان پانیوں کے قریب آتے ہیں تو سمندری حیات صاف نظر آنے لگتی ہے جس کی وجہ سے سیکڑوں اقسام کی مچھلیوں اور نباتات کو عام آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں جو مختلف انواع و اقسام کی ہوتی ہیں۔ غوطہ خوری کرنے کے لئے'' بولی ساؤتھ کارنر‘‘ بہت اچھا مقام ہے جہاں سے شفاف پانیوں میں مختلف آبی حیات کا خوبصورت نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
مالدیپ ایک ایسا ملک ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی خوبصورتی سے نوازا ہے، یہاں سرمایہ کاروں نے کاروباری مقاصد کے لئے مختلف جزائر میں تفریحی مقام اور فائیو سٹار ہوٹل بنائے ہیں۔ مالدیپ کے لوگوں کی خوراک میں مچھلی اور ناریل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مالدیپ آنے والے تمام سیاح بڑی بڑی کشتوں پر سمندر کی سیر کر کے لطف اندوز ہونا ضرور ی سمجھتے ہیں۔ مالدیپ کو دنیا کا واحد ملک سمجھا جاتا ہے جہاں زیر سمندر ریستوران بنائے گئے ہیں، جہاں پر مختلف اقسام کے کھانوں اور مشروبات سے تواضع کی جاتی ہے۔ حقیقت میں یہ ریستوران وہاں قائم کئے جاتے ہیں جو کسی زمانے میں خشکی کا حصہ تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جزائر زیر آب آتے چلے گئے، یوں یہاں پر سمندر کی گہرائی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ مالدیپ کے یہ جزائر سیاحوں کے لئے بہت دلچسپی کا درجہ رکھتے ہیں اس وجہ سے دنیا بھر سے ہر سال لاکھوں سیاح یہاں آتے ہیں اور یہی مالدیپ کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت سیاحوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتی ہے۔
مالدیپ کو کرہ ارض کے سب سے کم بلند مقام کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں قدرتی طور پر بلند مقام یعنی پہاڑ یا ٹیلہ وہ بھی سات یا دس میٹر سے زیادہ بلند نظر نہیں آتا۔ کیونکہ یہ ملک بحر ہند میں واقع ہے اس کی وجہ سے اسے پاکستان کا بحری ہمسایہ ملک بھی کہہ سکتے ہیں، سمندر کے راستے سے یہاں پر آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔ کافی تعداد میں پاکستانی اور بھارتی آباد ہیں۔ یہاں پاکستان کا چاول بہت مشہور ہے۔ پاکستانی تاجروں نے یہاں محنت سے اپنا مقام بنایا ہے۔ جب دنیا بھر میں نو آبادیاتی نظام کو رائج کرنے والے برطانیہ نے انیسویں صدی میں مالدیپ پر قبضہ کر لیا تووہ اٹھارہ سو ستاسی سے انیس سو پینسٹھ تک یہاں پر قابض رہے۔ کیونکہ یہ جزائر بحر ہند میں ایک ایسے مقام پر واقع تھے جو دوسروں ملکوں کو جاتے ہوئے راستے میں آتے تھے اس لئے ان جزائر کو پڑائو کے لئے استعمال میں لایا جاتا رہا تھا۔
انیس سو اڑسٹھ میں جمہوریہ ملک بننے کے بعد سب سے طویل دور حکومت مامون عبدالقیوم کا رہا تھا جو تیس سال تک صدر منتخب ہوتے رہے۔ وہ چھ مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ مالدیپ کے کچھ جزائر کے کنارے کافی حد تک پانی کے اندر ڈوب چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سمندروں میں اٹھنے والے طوفان نے اس خطرے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ 2004 کو آنے والے سونامی نے مالدیپ میں تباہی مچا دی تھی۔ اس سمندری طوفان میں صرف نو جزائر بچ پائے تھے، باقی تمام جزائر کو سخت طوفانی لہروں کا سامنا کرنا پڑا تھا جو کہ چودہ فٹ تک بلند تھیں۔ انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ کی دوہزار سات کی رپورٹ کے مطابق دو ہزار ایک سو تک سمندر کی سطح میں انسٹھ سنٹی میٹر یعنی تئیس انچ تک اضافہ ہو گیا تواس سے مالدیپ کے آباد دو سو جزائر میں سے اکثر پانی میں ڈوب جائیں گے۔
اسراراحمد بشکریہ دنیا نیوز
1 note · View note
urdu-shayri-adab · 4 years
Text
دنیا کی محبت
(ترجمہ:محمد شبیر خان)
ہم سب تحائف سے محبت کرتے ہیں۔ہم ان نعمتوں سے محبت کرتے ہیں جو ہماری زندگی کو حسین بناتی ہیں ۔ہم اپنے بچوں ،شریکِ حیات ،والدین ، دوستوں، جوانوں اور اپنی صحت سے محبت کرتے ہیں ۔ہم اپنے گھر ،گاڑی ،دولت اور اپنی خوب صورتی سے پیار کرتے ہیں ۔مگراس وقت کیا ہوتا ہے جب ایک نعمت،ہمارے لیے ایک نعمت سے بہت ہی بڑھ کر بن جاتا ہے؟جب ایک خواہش، ضرورت بن جاتی ہے؟اور جب ایک تحفہ صرف ایک تحفہ نہیں رہتا؟
نعمت کیا ہے؟یہ ایسی چیز ہے جو ہماری ذات سے نہیں بلکہ رب کی طرف سے آتی ہے۔ جو ہمیں دی گئی ہے اور واپس بھی لی جاسکتی ہے۔ہم کسی بھی نعمت کے اصلی مالک نہیں ہیں۔کوئی بھی نعمت ہمارے زندہ رہنے کے لیے ضروری نہیں ۔یہ آتی ہے اور جاتی ہے۔اگر چہ بحیثیت انسان ہم کسی بھی نعمت کوحاصل کرناچاہتے ہیں مگر یہ ہماری وجود کے لیے ضروری نہیں ہے۔ہم اس پر منحصر نہیں ہیں۔ہماری زندگی کا مقصد صرف انہیں حاصل کرنا نہیں اور اگر یہ نہ ملیں تو ہم مرنہیں جائیں گے ۔یہ ہماری سانس یا خوراک نہیں ہے مگر پھر بھی ہم انہیں چاہتے ہیں۔کون ساایسا انسان ہے جو نعمتوں سے محبت نہیں کرتا؟کون ہے ایسا شخص جو زیادہ سے زیادہ چیزیں لینا نہیں چاہتا ؟بلکہ ہم تواس کریم ذات سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں کبھی بھی نعمتوں سے محروم نہ کردے۔انسان کابنیادی انحصار جن چیزوں پر ہوتا ہے اس کی طرح کوئی بھی دنیاوی چیز انسان کی مجبوری نہیں ہوتی اورنہ ہی ہم ان کے بغیرمرجاتے ہیں۔
چیزوں کو رکھنے کے لیے دو جگہیں ہیں ،یا تو انسا ن ہاتھ میں رکھتا ہے یا پھر دِل میں۔البتہ یہ ضرور دیکھنا ہے کہ ہم کسی نعمت کو کہاں رکھتے ہیں؟یاد رکھیں نعمت دِل میں نہیں رکھی جاتی بلکہ یہ ہاتھ میں رکھنے کی چیز ہے۔ہاتھ میں رکھی نعمت اگر واپس بھی لی جائے تو تکلیف صرف ہاتھ کو ہوتی ہے دل کو نہیں ۔ہر باشعور اور زندگی جینے والا انسان یہ بات جانتا ہے کہ ہاتھ کا درد ،دِل کے درد کی طرح شدیدنہیں ہوتا۔دِل کا درد تب پیدا ہوتا ہے جب انسان کسی گہرے تعلق یا احتیاجی کوکھودیتا ہے ۔یہ عام درد نہیں بلکہ بڑااذیت ناک دردہوتا ہے۔شایداس درد کو ہم نہ جان سکیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے فقط ایک دِلی تعلق کو کھودیا ہے لیکن یہ ہماری غلط فہمی ہوتی ہے اور یہی دِل کے درد کا سبب بنتی ہے ۔۔ایک نعمت جو ہم نے غلط جگہ پر رکھ دی تھی۔
ہاتھ کا درد بھی درد ہے مگر مختلف ہے۔بہت مختلف ۔ہاتھ کا دردکسی چیز کے کھوجانے سے پیدا ہوتا ہے مگر ان چیزوں کا کھوجانا نہیں جو ہماری مجبوری ہوتی ہیں ۔جب ایک نعمت ہاتھ سے واپس لے لی جاتی ہے یا خواہش کے باجود وہ ہمیں نہیں ملتی تو ایک عام انسان کی طرح اس کے نہ ملنے کا رنج ہمیں ہوتا ہے۔شایدہم دکھی ہوں،ہم چیخیں ،چلائیں مگر درد صرف ہاتھ کوہوگا دِل میں نہیں اترے گا ،دل سلامت رہے گاکیونکہ اس میں اللہ موجود ہے اور وہ صرف اللہ کے لیے ہے۔
اگر ہم ان چیزوں کو جائزہ لیں جو ہماری زندگی میں درد اور خو ف کا باعث بنتی ہیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ چند چیزیں ہیں جن کو ہم نے غلط جگہ پر رکھی ہیں ۔جیسے کہ نامناسب جگہ شادی کی خواہش، پھر بچہ ،ملازمت کی فکر ، ایک خاص طرزِ زندگی کی آرزو،، ڈگری اور معاشرے میں اونچا معیار جو ہم چاہتے ہیں ۔۔وغیرہ وغیرہ
مگر ہمیں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ہمیں اس حالت پر جانے کی ضرورت ہے جہاں نعمتیں محفوظ ہیں۔ہمیں ان دنیاوی چیزوں کو دِل سے نکال کر واپس ہاتھ پر لانا چاہیے کہ یہی ان کا اصلی مقام ہے۔
ہم ان چیزوں سے محبت کرسکتے ہیں کیونکہ انسان محبت کے لیے ہے اوروہ جس چیزکو چاہتا ہے اس سے لگاؤ بھی رکھتا ہے مگر ہمار ا مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب ہم کسی بھی مادی چیز کو دِل میں بسالیتے ہیں اور اللہ کو اپنے ہاتھ میں ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں ہم اللہ کے بغیر جی سکتے ہیں لیکن اگر وہ نعمت ہم سے ضائع ہوگئی تو ہم چورا چورا ہوجائیں گے اور آگے بڑھ نہیں پائیں گے۔
نتیجتاً ،ہم بہت آسانی کے ساتھ اپنی زندگی سے اپنے رب کو توباہر کردیتے ہیں ،لیکن ہمارا دل اس نعمت کے لیے ہی دھڑکتا ہے۔درحقیقت ہم نعمت کی خاطر اپنے رب کو بھول جاتے ہیں اور اسی لیے پھر ہمارے لیے نماز کو موخر کرنا یا چھوڑدینا بڑا آسان ہوتا ہے،مگر اپنی پروفیشنل میٹنگ،اپنی مووی ،اپنی سیر وتفریح ،اپنی شاپنگ ،اپنی کلاس ،اپنی پارٹی اور اپنے باسکٹ بال میچ کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔پھر ہمارے لیے آسان ہوجاتا ہے قرض پر سود لینا یا شراب بیچنا ،لیکن بس اپنے منافع اور شاندار کیریر سے محروم ہونا نہیں چاہتے ۔بس اپنی نئی برانڈ کی کا ر اور بلند وبالاگھر سے محروم ہونا نہیں چاہتے ۔تب پھر آسان ہوتا ہے حرام تعلق رکھنا ،لیکن اس انسان سے محروم ہونا نہیں چاہتے جس کو ہم پیار کرتے ہیں۔نیک کاموں کو چھوڑنا یاپردہ نہ کرناآسان ہوتا ہے لیکن بس اپنی خوبصورتی،رُوپ ، پسند کی شادی یا لوگوں کے سامنے مقام و رُتبے سے محروم ہونا نہیں چاہتے۔تب پھرآسان ہوتا ہے عفت و حیاکو ایک طرف کردینا جس کو اللہ نے خوبصورتی کہا ہے،مگر اپنی جینزکو نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ معاشرہ ہمیں کہتا ہے کہ اس میں تم اچھے لگتے ہو۔
یہ سب کچھ آسان ہوتا ہے کیونکہ نعمت ہمارے دِل میں جو موجود ہے اور اللہ ہمارے ہاتھ میں۔۔او ر جو بھی کچھ انسان کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ بڑی آسانی سے پھسل جاتا ہے۔انسان کے دِل میں جو بھی کچھ ہو وہ اس کے بغیر نہیں جی سکتا اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتا ہے ۔مگر جلد یا بدیر ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا ہوگاکہ وہ کیا چیز ہے جس کی ہم پوجا کررہے ہیں۔نعمت یا اس کا دینے والا؟خوبصورتی یا خوبصورتی کاذریعہ اور تعریف ؟فراہمی یا فراہم کرنے والا؟مخلوق یا خالق؟
ہمارے انتخاب کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے تعلقات میں گردنوں کاایک بڑا سلسلہ بنالیتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں ہمارا گلا کیوں دبایا گیا۔ہم اپنی ہوا(سانس) کو نظر اندا ز کردیتے ہیں اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ ہماری سانس کیوں گھٹ رہی ہے۔ہم اپنا آخری نوالا بھی دوسروں کودے دیتے ہیں اور پھر بھوک سے مرنے کا شکوہ بھی کرتے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ ہم اپنے سینے میں خود ہی چھرا گھونپ دیتے ہیں اور اور پھر درد کی شدت سے بلبلاتے بھی ہیں۔پھر سوال بھی پوچھتے ہیں کہ آخر ہم نے کیا کیا ہے؟جبکہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفو عن کثیر
��’اور تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو وہ معاف فرمادیتا ہے۔‘‘
(سورۃ الشوریٰ:42)
جی ہاں جو کچھ ہم کرتے ہیں ، اپنے لیے ہی کرتے ہیں مگر دیکھیے اس آیت مبارکہ کے آخر میں کیا کہا ہے:’’وہ بہت غلطیوں کو معاف کرتا ہے‘‘ یہاں پر ’’یعفو‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ اللہ کی صفت ’’العفو‘‘ سے ہے۔’’عفو‘‘ کا مطلب صرف معاف کرنایا بخشنانہیں ہے بلکہ گناہوں کا مکمل طورپر مٹاناہے !پس اس سے کوئی غرض نہیں کہ کتنی دفعہ ہم نے اپنے سینے میں چھرا گھونپا ،اللہ ہمارے زخموں کوایسا بھردے گا جیسے یہ زخم لگا ہی نہیں۔بس شرط یہ ہے کہ ہم رب کو تلا ش کریں۔
مگر کتنے سارے بے وقوف ایسے ہیں جو اپنی سانس بیچ کر ’’گلے کا ہار‘‘ لے لیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں:’’مجھے ہار چاہیے اور اس کے بدلے میری سانس بھی مجھ سے لے لو تو کوئی بات نہیں۔میرا گلا گھونٹ دو مگر یہ بات یقینی ہو کہ جب میں مروں تو میں نے ہارپہناہو ا ہو۔‘‘اوربدقسمتی دیکھیے کہ ہمارے گلے کا ہار ہی ہمارا گلا گھونٹتا ہے۔یہ ہمارے تعلقات اور دنیاوی لگاؤ کی ہی ایک چیز ہے اور وہ تمام چیزیں جن کو ہم اپنے رب سے زیادہ چاہتے ہیں و ہی پھرہمیں قتل کردیتی ہیں۔
ہمارا مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب ہم دنیا کو سانس کی طرح ضروری سمجھنے لگتے ہیں،حالانکہ وہ صرف ایک نعمت ہے۔ہم اپنے اندھے پن کی وجہ سے اس پر انحصار کرنے لگتے ہیں اور حقیقی ہوا(سانس) کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔نتیجے کے طورپر جب وہ نعمت واپس لے لی جاتی ہے یا کسی کو دی ہی نہیں جاتی تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم زندہ نہیں رہ سکیں گے۔مگر یہ ایک جھوٹ ہے جو ہم اپنے آپ سے کہتے ہیں ،جب تک اس کے جھوٹے پن پر یقین نہ آجائے۔یہ ایک نقصان ہے جس کی تلافی ہم نہیں کرسکتے ۔اگر ہم نے اپنے خدا کو اپنی زندگیوں سے کھودیاتو ہم زندگی میں آگے چلنے کے قابل نہیں ہوں گے اور بدقسمتی سے ہم میں سے اکثر نے خدا کو اپنی زندگیوں سے کھودیا ہے پھر بھی سمجھتے ہیں کہ ہم ابھی تک زندہ ہیں ۔نعمتوں پر ہمارا جھوٹا انحصار ہمیں بہت زیادہ دھوکا دیتا ہے۔صرف اللہ ہی ہماری بقا ہے نہ کہ دنیا اور دنیاوی چیزیں ۔اللہ ہی ہمارا حامی اور ہماری سچی ضرورت ہے ۔وہ فرماتا ہے:
کیا اللہ کافی نہیں اپنے بندے کے لیے ۔وہ تمہیں اللہ کے سوا دوسروں سے ڈراتے ہیں اور جسے اللہ گمراہ کردے اس کے لیے کوئی ہدایت نہیں ۔(سورۃ الزمر:آیۃ 36)
ہم سب کسی نہ کسی چیز کوچاہتے ہیں اورہم سب کی ضروریات بھی ہیں لیکن ہماری مصیبت تب شروع ہوجاتی ہے جب ہم اپنی خواہش کو ضرورت بنالیتے ہیں اور حقیقی ضرورت(اللہ)کو غیرضروری بنالیتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اپنی خواہش کے بغیرہم زندہ نہیں رہ سکتے ۔ہماری اصلی مصیبت تب شروع ہوتی ہے جب ہم دنیا وی وسائل اورآخرت کو الجھادیتے ہیں ،حالانکہ اختتام تو صرف اللہ ہے باقی تمام چیزیں وسائل اور ذرائع ہیں اور جس لمحے ہم اللہ سے آنکھیں پھیر کر وسائل میں کھوجاتے ہیں تو ہماری بربادی شروع ہوجاتی ہے۔
دراصل کسی بھی نعمت کا بذات خودمقصد یہ ہے کہ وہ ہمیں اللہ کی طرف لے جائے ،کیونکہ وہ ایک ذریعہ ہے۔مثال کے طورپر ، کیا حضور ﷺنے ارشاد نہیں فرمایا کہ نکاح آدھا دین ہے؟کیوں ؟ اگر اس کو درست استعمال کیا جائے تو انسانی کردار کی تعمیر میں اس کے بڑے وسیع اثرات ہوسکتے ہیں۔آپ بے شک اخلاقی خوبیوں جیسے کہ صبر ، شکرگزاری ، رحم دلی ،عاجزی ، سخاوت ، انکساری اور دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دینا وغیرہ کے بارے میں پڑھ لیں مگر ان کواپنی ذات میں نمایاں نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ خود کو اس کی عملی صورت میں ڈھال نہ لیں۔
نکاح جیسی نعمت کا مطلب ہوگا کہ وہ اللہ کے زیادہ قریب کردے،اگر دل میں دنیا رہے تو پھراللہ کوپہنچنا مشکل ہوگا۔اللہ کی نعمتیں اس تک پہنچنے کے ذرائع ہیں ،جب تک کہ یہ ہاتھ میں رکھی ہوں نہ کہ دِل میں ۔یاد رکھیں ! دِل میں جو بھی چیز ہوگی وہ آپ کو کنٹرول کرے گی۔یہ وہ چیزبن جاتی ہے جس کے لیے آپ ہر وقت جدوجہد کرتے ہیں اور کسی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے اورتب یہ آپ کی شدید مجبوری بن جاتی ہے ۔
لہٰذا دنیاوی اور مادی تحائف کے بجائے ہمیں اپنی روح کے لیے ایسی چیزیں درکار ہیں تو ہمیشہ کے لیے ہوں ، جو تھکتی نہ ہوں اورنہ ہی رُکتی ہوں ۔ یہ تلاش اس لیے بھی ضروری ہے کہ کچھ ایسا مل جائے توجوانسان کو کبھی نہ چھوڑے اور وہ صرف ایک ہی ذات ہے جو کہ ہم سب کا خالق اور مالک ہے۔ہمیں اپنے دِل و روح کو صرف اُسی کا مسکن بنانا پڑے گا نہ کہ دنیا اور دنیاوی نعمتوں کا۔
3 notes · View notes
risingpakistan · 10 months
Text
پاکستان کس بنیاد پر افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کر رہا ہے؟
Tumblr media
پاکستان بھر میں افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کا جاری عمل رکاوٹوں اور بدانتظامی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ہر طرف مصائب و تکالیف کا سلسلہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان افغان کو اس کے خاندان سے الگ کر دیا گیا، جب کہ اس کی بیوی اور دو ماہ کے بچے کو کہیں اور لے جایا گیا۔ نوجوان گرنے ہی والا تھا کیونکہ کوئی اسے نہیں بتا رہا تھا کہ اس کی بیوی اور بچے کو کہاں رکھا گیا ہے۔ پولیس تشدد کے واقعات عام ہیں۔ ’ہولڈنگ سینٹرز‘ بدانتظامی، ساز و سامان سے عاری اور تشدد آمیز ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی بےدخلی میں بدانتظامی کا یہ عالم ہے کہ دستاویزات رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی پکڑا جا رہا ہے، ہراساں کیا جا رہا ہے اور ہولڈنگ سنٹرز میں رکھنے کے لیے ٹرکوں پر لادا جا رہا ہے، بےبس متاثرین کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ اس سارے ذلت آمیز تماشے میں کچھ حقائق کو سہولت سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کیا پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کرنا بےگھر افراد کی ذمہ داری تھی؟ نہیں۔ یہ پاکستانی حکام کا فرض تھا کہ وہ تمام پناہ گزینوں تک پہنچیں اور انہیں عارضی شناختی دستاویزات دیں۔
ان کی رجسٹریشن کرانے میں ناکامی نظام کی ناکامی ہے، افغان مہاجرین کی نہیں۔ انہیں صرف 20 دن کا نوٹس دینا انصاف کا مذاق ہے۔ تصور کریں کہ ایک خاندان تین دہائیوں سے کسی گاؤں یا قصبے میں رہ رہا ہے اور پھر اسے 20 دنوں کے اندر سب کچھ سمیٹ کر وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت، کوئی بھی میزبان ملک کسی ایسے خاندان کو زبردستی بےدخل نہیں کر سکتا جو ظلم و ستم، عدم تحفظ یا شدید غربت یا فاقہ کشی کے خوف کی وجہ سے اپنا اصل ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا ہو۔ افغان معیشت تباہی کا شکار ہے۔ ملک کو بین الاقوامی بینکاری اور مالیاتی نظام سے الگ کر دیا گیا ہے۔ امریکہ نے امریکی بینکوں میں موجود افغان حکومت کے چھ ارب ڈالر کے اثاثے جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ کے یورپی اتحادی اپنے بینکوں میں موجود افغان حکومت کے مزید دو ارب ڈالر کے اثاثے روک کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ امریکہ واضح طور پر نظام کے خاتمے کو یقینی بنانا چاہتا ہے، لیکن یہ ایسا ہدف ہے جس کے حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔
Tumblr media
لیکن پاکستان اس فیصلے سے ایسا کیا حاصل کرنا چاہتا ہے جو آنے والی کئی دہائیوں تک پاکستان افغان تعلقات پر اثرات مرتب کرے گا؟ پہلی بات تو یہ واضح ہے کہ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کوئی مشاورت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے افغان حکومت میں پاکستان کے خلاف اتنی دشمنی پیدا ہوئی ہے۔ اس معاملے پر سٹیک ہولڈرز سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں سے جہاں زیادہ تر مہاجرین موجود ہیں۔ 15 لاکھ لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرنے والے اتنے اہم فیصلے کے فائدے اور نقصانات پر کوئی بحث نہیں ہوئی، جسے کرنے کا نگران حکومت کے پاس اختیار ہی نہیں تھا۔ پھر ایسا فیصلہ کیسے ہوا؟ افغان مہاجرین پاکستان کی معیشت پر بوجھ نہیں ہیں۔ وہ سب اپنی دیکھ بھال خود کر رہے ہیں۔ وہ کبھی ملک میں کسی منظم بدامنی میں ملوث نہیں رہے اور نہ ہی انہوں نے مقامی سیاست میں حصہ لیا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں مقامی کمیونٹیز سے کوئی مسئلہ نہیں ہے جنہوں نے کبھی اپنی زمینوں سے ان کی بےدخلی کا مطالبہ نہیں کیا۔
ان تمام برسوں میں مقامی لوگوں اور افغانوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی رہی ہے۔ اور اب، اس قدر اچانک بےبس افغانوں پر آسمان ٹوٹ پڑا ہے، حالانکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مہاجرین میں سے کوئی بھی سرحد پر حملوں میں ملوث رہا ہو۔ یہ حملے داعش یا تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے کیے جا رہے ہیں اور وہی ان کی ذمہ داری قبول کرتے آئے ہیں۔ طالبان حکومت اس ناروا سلوک اور اسلام آباد کے معاندانہ رویے کو قبول نہیں کرے گی۔ کابل اس غیر ضروری، غیر منصفانہ علیحدگی کے ساتھ مفاہمت نہیں کرے گا۔ کیا پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کرنا بےگھر افراد کی ذمہ داری تھی؟ نہیں۔ یہ پاکستانی حکام کا فرض تھا کہ وہ تمام پناہ گزینوں تک پہنچیں اور انہیں عارضی شناختی دستاویزات دیں۔ پاکستانی حکومت نے ایک ہی جھٹکے میں ہمدردی، حمایت اور تعاون کے تمام جذبات کو ہوا میں پھینک دیا ہے جس کے بعد ایک نئی حرکیات نے جنم لیا ہے۔ اب ایک دیوانگی اور غلط سوچ پر مبنی فیصلے کے ذریعے نئی تاریخ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ افغان حکومت سے اس کی ٹوٹی پھوٹی معیشت اور نظام سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان کے سخت موسمِ سرما میں پاکستان سے واپس آنے والوں کو پناہ، خوراک، پانی اور ادویات فراہم کرنے کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالے۔ ان لاکھوں غریبوں کے مصائب اور حالت زار کی یاد تادیر زندہ رہے گی۔
رستم شاہ مہمند 
(رستم شاہ مہمند افغانستان اور وسط ایشیا کے امور کے ماہر ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ایک دہائی تک چیف کمشنر مہاجرین کے عہدے پر بھی فائز رہے۔)
 بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
ایمریٹس پاکستان کو امداد کے لیے مفت کارگو صلاحیت کی پیشکش کر رہا ہے۔
ایمریٹس پاکستان کو امداد کے لیے مفت کارگو صلاحیت کی پیشکش کر رہا ہے۔
امارات کا ہوائی جہاز۔ – امارات پاکستان کے لیے ایمریٹس کی تمام مسافر پروازیں انٹرنیشنل ہیومینٹیرین سٹی (IHC) میں قائم تنظیموں کے لیے کارگو کی گنجائش مفت فراہم کر رہی ہیں تاکہ وہ ملک میں سیلاب سے متاثرہ افراد کو امداد فراہم کر سکیں۔ خلیج ٹائمز۔ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے والے پاکستان میں لاکھوں لوگوں کے لیے سامان اور خوراک کی فراہمی کے لیے دبئی اور پاکستان کے درمیان ایک ہوائی پل قائم کیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
قربانی صرف عوام کے لیے ہی کیوں؟
ایکسپریس نیوز کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوام اپنی قربانی دینے کی تیاری شروع کر دیں کیونکہ حکمران اشرافیہ کے اخراجات ویسے ہی رہتے ہیں اور عوام کو ہی اخراجات کم کرنے اور قربانی پر قربانی دینے کے لیے کہا جاتا ہے، اس لیے عوام اپنی قربانی کے لیے تیار ہو جائیں، دوسری قربانی تو اس بار بہت کم لوگوں کو نصیب ہو گی۔ وفاقی وزیر شیری رحمن نے کہا ہے کہ ہمیشہ غریب عوام نے قربانی دی ہے اب اشرافیہ کی باری ہے ہمیں خود احتسابی کی طرف جانا ہو گا۔ موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے سخت معاہدے کا ذمے دار سابق حکومت کو قرار دے رہی ہے اور سابق حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ ہمارے دور میں پٹرول ڈیڑھ سو روپے لیٹر تھا، جو اب موجودہ اتحادی حکومت کے چند دنوں میں 100 روپے لیٹر بڑھایا جا چکا ہے اور مزید مہنگا ہو گا۔ پی ٹی آئی رہنما یہ نہیں بتا رہے کہ ملک میں مہنگائی بڑھانے کا آئی ایم ایف سے معاہدہ پی ٹی آئی حکومت نے کیا تھا اور معاہدے سے انحراف کیا تھا، کیونکہ عمران خان کو گزشتہ سال ہی میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا پتا چل چکا تھا۔
جس پر انھوں نے پٹرول دس روپے لیٹر سستا کر دیا تھا اور اس فیصلے کو موجودہ حکومت بارودی سرنگیں قرار دے رہی ہے جو موجودہ حکومت کی راہ میں حائل کی گئی تھیں جن کی وجہ سے حکومت کو یک دم پٹرول 84 روپے لیٹر مہنگا کرنا پڑا، جس کی سزا عوام بھگت رہے ہیں اور موجودہ اور سابقہ حکومتیں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو سب سے زیادہ بار آئی ایم ایف کے پاس قرضے لینے گیا ہے اور سب سے زیادہ قرضے بھی پاکستان نے لیے ہیں۔ ہمیں قرض لینے کی عادت پڑ چکی ہے اور ہم اپنے معاشی مسائل حل کرنے پر توجہ ہی نہیں دے رہے اور ہمارے ہر حکمران نے قرضوں کا بوجھ بڑھانا ضروری سمجھا اور پی ٹی آئی حکومت نے تو قرضے لینے کا پرانا ریکارڈ ہی توڑ دیا جبکہ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل کہا تھا کہ میری حکومت آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائے گی اور میں ان سے قرضے لینے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دوں گا۔
مگر عمران خان تاخیر سے آئی ایم ایف کے پاس گئے اور حکومت جانے سے قبل انتہائی سخت شرائط پر مزید قرضے لینے کا معاہدہ کر گئے جو اب نئی حکومت کے گلے پڑا ہوا ہے اور اتحادی حکومت مہنگائی بڑھا کر بدنام ہو رہی ہے اور مہنگائی بڑھنے کا ذمے دار سابق حکومت کو قرار دے رہی ہے اور عمران خان سے پوچھ رہی ہے کہ ان کی حکومت نے پونے چار سال میں جو قرضے لیے وہ خرچ کہاں کیے وہ ملک میں لگے تو نظر نہیں آ رہے؟ مسلم لیگی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہماری پالیسی ہے کہ ہم اس طبقے پر ٹیکس لگائیں جو ٹیکس دے سکتا ہے اور ہم اس طبقے کو نہ چھیڑیں جو غریب اور مڈل کلاس طبقہ ہے اور ٹیکس نہیں دے سکتا۔ امیر لوگوں پر ٹیکس زیادہ ڈالا جائے۔ کہنے کی حد تک تو آج تک ہر حکومت یہی کہتی آئی ہے اور اس نے کیا اس کے برعکس ہے اور ہر حکومت کے نزدیک صرف عوام ہی قربانی دینے کے لیے رہ گئے ہیں۔ عوام اب تک ہر حکومت کے لیے قربانی ہی دیتے آئے ہیں اور اب تو غریب خودکشیاں کر کے خود قربان ہو رہے ہیں اور ان مرے ہوئے لوگوں سے ہی حکومت مزید قربانی مانگ رہی ہے جن کے پاس کچھ بچا ہی نہیں ہے۔
سوشل میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں سب سے سستا کھانا پارلیمنٹ کے کیفے ٹیریا میں دستیاب ہے۔ اگر ارکان پارلیمنٹ کو اتنے معمولی نرخوں پر کھانا مل رہا ہے تو کیفے ٹیریا کو حکومت ارکان پارلیمنٹ کی سہولت کے لیے سبسڈی دے رہی ہو گی۔ امیر ترین ارکان پارلیمنٹ کو اتنی سستی خوراک کیوں فراہم کرائی جا رہی ہے اور عوام محروم کیوں ہیں؟ وزیر خزانہ کے بقول حکومت نے وزیر اعظم کے بیٹوں پر بھی سپر ٹیکس لگا دیا ہے میری کمپنی 20 کروڑ روپے زیادہ ٹیکس ادا کرے گی۔ سپر ٹیکس عائد کیے جانے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بڑی صنعتوں اور زیادہ آمدنی والوں پر ایک سال کے لیے سپر ٹیکس لگایا گیا ہے جس سے 13 بڑی صنعتوں پر ٹیکس لگے گا۔ ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق تجزیہ کاروں کے مطابق سپر ٹیکس عائد کیے جانے کا فیصلہ درست ہے۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سپر ٹیکس کا بوجھ بھی عام آدمی پر پڑے گا اگر گزشتہ دور میں دی گئی ٹیکس چھوٹ واپس لے لی جاتی تو نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہ پڑتی۔
وزیر اعظم کے بقول سپر ٹیکس امیروں پر لگاہے مگر اس کی سو فیصد حقیقت یہ ہے کہ اثر عوام پر ہی پڑے گا اور مہنگائی مزید بڑھے گی۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی کمپنی جو اضافی ٹیکس دے گی وہ یہ رقم بھی عوام سے ہی وصول کر کے دے گی۔ وزیر اعظم نے سپر ٹیکس لگا کر جو قربانی صنعتوں سے مانگی ہے یہ قربانی بھی عوام کو ہی دینا پڑے گی۔ وزیر خزانہ سمیت کوئی صنعت اپنے گھر سے ٹیکس کبھی نہیں دے گی اور تیل تلوں سے ہی نکالا جائے گا اور یہ تل ملک کے کروڑوں عوام ہیں جو ہمیشہ سے قربانی دیتے آئے ہیں اور مرنے تک انھیں ہی قربانی دینا ہو گی۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes