Tumgik
#والے
apnibaattv · 1 year
Text
عرش اعظم دبئی میں ہونے والے BSV کنونشن میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
عرش اعظم دبئی میں ہونے والے BSV کنونشن میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
اسلامابا میں 13-15 مئی کو فیوچر فیسٹ 2022 کی کامیابی کے بعد، عرش اعظم کو شیخ سعود بن صقر القاسمی کی سرپرستی میں گرینڈ حیات دبئی میں بی ایس وی گلوبل بلاک چین کنونشن میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ سپریم کونسل – راس الخیمہ کا حکمران۔ فیوچر فیسٹ پاکستان کی ایکسپو کی سب سے بڑی ٹیک کانفرنس ہے جس میں بائننس، ایپک گیمز، کوکوئن، BitOasis اور BSV جیسی بڑی ویب 3 کمپنیوں نے شرکت کی۔…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-e24bollywood · 1 year
Text
شیو کے گھر والے وکاس کی شریک حیات کی مخالفت میں جوابی کارروائی کرتے ہیں۔
شیو کے گھر والے وکاس کی شریک حیات کی مخالفت میں جوابی کارروائی کرتے ہیں۔
بگ باس 16 کی معلومات: ‘بگ باس 16’ کے آخری ہفتے میں، گنجن، بیدخلی کے مدمقابل وکاس مانکتلا کی شریک حیات نے شیو ٹھاکرے پر چوری کا الزام لگایا۔ گنجن نے کہا تھا کہ شیو نے وکاس کے کپڑے چرائے تھے۔ اس کے لیے اب شیو کے گھر والوں کا جوابی حملہ آ گیا ہے۔ شیوا کے خاندان کے افراد نے اس پر بااختیار کارروائی کرنے کی بات کہی ہے۔ گنجن نے شیو ٹھاکرے کی مخالفت میں یہ الزامات لگائے (بگ باس 16 کی معلومات) ہمیں مطلع…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
کراچی والے ہوجائیں تیار، جولائی سے مون سون بارشوں کا ہوگا باقاعدہ آغاز
کراچی والے ہوجائیں تیار، جولائی سے مون سون بارشوں کا ہوگا باقاعدہ آغاز
جولائی سے مون سون بارشوں کا باقاعدہ آغاز بتایا جارہا ہے۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ 30 جون سے مون سون کا پہلا اسپیل براستہ تھرپارکر سندھ میں داخل ہوگا اور 2 یا 3 جولائی سے کراچی میں مون سون بارشوں کا باقاعدہ آغاز ممکن ہے۔ دوسری جانب  شہر قائد کا موسم آج گرم أور مرطوب رہے گا جبکہ کم سے کم درجہ حرارت 29ڈگری سینٹی گریڈ  اور  زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 36 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہونے کا امکان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 2 years
Text
’تجھ کو قسم ہے میری نہ آنا ہاتھ خالی دبئی جانے والے کہتی ہے گھر والی‘
’تجھ کو قسم ہے میری نہ آنا ہاتھ خالی دبئی جانے والے کہتی ہے گھر والی‘
’تجھ کو قسم ہے میری نہ آنا ہاتھ خالی‘ دہائیوں پہلے پاکستانی پشتون گلوکار جاوید اختر نے گایا تھا اور اس گانے کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے جاوید اختر کے بعد درجنوں اور گلوکاروں نے بھی گایا۔ اس گانے کو پاکستانی اداکارہ بشریٰ انصاری نے بھی پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ میں گایا تھا لیکن اس میں مزاح کے رنگ ڈالنے کے لیے اس کے بول کچھ تبدیل کردیے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
masailworld · 6 months
Text
داڑھی منڈانے والے کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
داڑھی منڈانے والے کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ امام کی غیر موجودگی میں اس کا طالب علم نماز پڑھاتا ہے جو داڑھی نہیں رکھتا ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اور کیا جمعہ کی نماز اس کے پیچھے ہو سکتی ہے؟امام اس طالب علم کواس بارے میں کچھ نہیں کہتا  تو اس کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے؟ عہدہ امامت سے برطرف کر دینا چاہیے یا نہیں ؟ الجواب: داڑھی منڈانا سخت ناجائز اور حرام ہے ۔در مختارمع شامی جلدششم…
View On WordPress
0 notes
animalsandbirds · 1 year
Text
youtube
0 notes
rskherbal · 2 years
Text
Tumblr media
0 notes
quran0hadees · 2 years
Text
Tumblr media
قرآن پڑھنے اور نہ پڑھنے والے مومن منافق کی مثال
Hadees
0 notes
harf-e-kun · 2 months
Text
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ دیا جلانا جلا کے رکھنا کمال یہ ہے
Khizan ki rut mein gulab lahja bana ke rakhna kamal ye hai
Hawa ki zad pe diya jalana jala ke rakhna kamal ye hai
ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے
سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
Zara si laghzish pe tod dete hain sab talluq zamane wale
So aise waison se bhi talluq bana ke rakhna kamal ye hai
کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دکھ بچھڑنے کا بھول جائے
اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا کمال یہ ہے
Kisi ko dena ye mashwara ki wo dukh bichhadne ka bhool jaaye
Aur aise lamhe mein apne aansu chhupa ke rakhna kamal ye hai
خیال اپنا مزاج اپنا پسند اپنی کمال کیا ہے
جو یار چاہے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
Khayal apna mizaj apna pasand apni kamal kya hai
Jo yaar chahe wo haal apna bana ke rakhna kamal ye hai
کسی کی رہ سے خدا کی خاطر اٹھا کے کانٹے ہٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا کمال یہ ہے
Kisi ki rah se Khuda ki Khatir utha ke kante hata ke patthar
Phir us ke aage nigah apni jhuka ke rakhna kamal ye hai
وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے شکست کھائے
لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا کمال یہ ہے
Wo jis ko dekhe to dukh ka lashkar bhi ladkhadaye shikast khaye
Labon pe apne wo muskurahat saja ke rakhna kamal ye hai
47 notes · View notes
apnibaattv · 2 years
Text
طیارے کی کھڑکی کو نقصان پہنچانے والے پاکستانی مسافر کو دبئی سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
طیارے کی کھڑکی کو نقصان پہنچانے والے پاکستانی مسافر کو دبئی سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
اسلام آباد: پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے ترجمان نے پیر کو بتایا کہ ایک پاکستانی شہری کو دبئی سے ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے کیونکہ وہ جہاز کی درمیانی ہوا میں خلل ڈالنے اور اس کی کھڑکی کو نقصان پہنچانے کا سبب بنا۔ یہ واقعہ 14 ستمبر کو پیش آیا، جب مبینہ طور پر ذہنی طور پر غیر مستحکم مسافر سوار ہوا۔ پی آئی اے کے ترجمان نے مزید کہا کہ پشاور سے دبئی جانے والی پرواز PK-283 نے پرواز کے اڑان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-e24bollywood · 1 year
Text
اننت امبانی نے رادھیکا سروس فراہم کرنے والے کے ساتھ منگنی کی۔
اننت امبانی نے رادھیکا سروس فراہم کرنے والے کے ساتھ منگنی کی۔
اننت امبانی کی منگنی: بزنس مین مکیش امبانی کے جوان بیٹے اننت امبانی نے رادھیکا سروس فراہم کرنے والی کمپنی سے منگنی کر لی ہے۔ اننت اور رادھیکا کی منگنی کی تصویر بھی سامنے آئی ہے۔ ہر ایک کو منگنی سے پہلے بہت ساری گھریلو خصوصیات میں اجتماعی طور پر دیکھا گیا ہے۔ ایسے میں پیروکار ہر ایک کی منگنی پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں اور جوڑے کو مبارکباد دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اننت امبانی نے رادھیکا سروس فراہم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
لمبے عرصے تک ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں پہلے نمبر پر براجمان رہنے والے بلےباز
لمبے عرصے تک ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں پہلے نمبر پر براجمان رہنے والے بلےباز
کرکٹ کے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی عالمی درجہ بندی میں  کئی بلےباز آئے  اپنی متاثر کن کارکردگی سے پہلی پوزیشن پر براجمان ہوئے اور کئی عرصے تک اس پوزیشن پر قبضہ جمایا۔ تفصیلات کے مطابق آج ہم ٹاپ 3 کھلاڑیوں کا ذکر کریں گے جو لمبے عرصے تک ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں پہلے نمبر پر براجمان رہے۔ پہلے نمبر پر قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم ہیں جو گزشتہ 1025 دن (تقریباً 3 سال)  سے ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں پہلے نمبر پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 8 months
Text
Tumblr media
‏پُھول اپنے ساتھ والے پُھول کا مُقابلہ کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے وہ صِرف کِھلتے ہیں
Flowers don't think about competing with their neighbors, they just bloom.
62 notes · View notes
masailworld · 10 months
Text
جاندار کی تصویر والے کپڑے کی بنائی وکڑھائی کی کمائی کا حکم
جاندار کی تصویر والے کپڑے کی بنائی وکڑھائی کی کمائی کا حکم کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ فیگر ( جاندار کی تصویر مثلا ہاتھی گھوڑا، مور طوطا و غیر ہ جاندار کی بنائی کرنے کا شرعا کیا حکم ہے ؟ ۔ پہلے شخص نے اس طرح کی ڈیزائن تیار کی ۔ دوسرے نے بنائی کی ۔ تیسرے نے بنائی کرائی ، پھر مارکیٹ میں بچا۔ اور چوتھے شخص نے خریدا ان سب کی کمائی کا کیا حکم ہے ؟ المستفتی : وقار اعظم…
View On WordPress
0 notes
animalsandbirds · 1 year
Text
youtube
0 notes
forgottengenius · 4 months
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا ��ا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes