Tumgik
#دی ایکٹیوسٹ
weaajkal · 3 years
Text
پریانکا چوہڑا نے رئیلیٹی شو دی ایکٹیوسٹ کا حصہ بننے پر معافی مانگ لی
پریانکا چوہڑا نے رئیلیٹی شو دی ایکٹیوسٹ کا حصہ بننے پر معافی مانگ لی @priyankachopra #Bollywood #aajkalpk
ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا نے رئیلیٹی شو دی ایکٹیوسٹ کا حصہ بننے پر معافی مانگ لی۔ شو کے فارمیٹ کے مطابق اس میں 6 لوگ حصہ لینے والے تھے اور پریانکا، اشر اور جولیانا ان 6 لوگوں کی تین ٹیموں کے جج تھے۔ شو میں یہ تینوں ٹیمیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ کرنے والی تھیں اور جو ٹیم سب سے اچھا مظاہرہ کرتی اسے فاتح قرار دیاجاتا۔ شو کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ اس میں حصہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
maqsoodyamani · 2 years
Text
عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے آشا بہنوں کو اعزاز ملنا فخر کی بات: پرینکا گاندھی
عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے آشا بہنوں کو اعزاز ملنا فخر کی بات: پرینکا گاندھی
عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے آشا بہنوں کو اعزاز ملنا فخر کی بات: پرینکا گاندھی نئی دہلی، 23 مئی ( آئی این ایس انڈیا ) کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے کہا ہے کہ ڈبلیو ایچ او(عالمی ادارۂ صحت) کی جانب سے تسلیم شدہ سوشل ہیلتھ ایکٹیوسٹ (آشا بہنوں) کو اعزاز سے نوازا جانا پورے ملک کے لیے فخر کی بات ہے۔ پرینکا گاندھی نے پیر کو ٹوئٹ کیا اور کہا کہ ہماری آشا بہنوں کو ڈبلیو ایچ او نے جو عزت دی ہے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
breakpoints · 2 years
Text
ٹوئٹر نے اسلام مخالف تقریر پر ڈچ اسلامو فوبک ایکٹیوسٹ گیئرٹ کا اکاؤنٹ معطل کر دیا – The Pakistan Frontier
ٹوئٹر نے اسلام مخالف تقریر پر ڈچ اسلامو فوبک ایکٹیوس�� گیئرٹ کا اکاؤنٹ معطل کر دیا – The Pakistan Frontier
ٹوئٹر نے ڈچ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز کی معطلی سے متعلق افواہوں کی تصدیق کر دی ہے۔ کل شام سے ان کا اکاؤنٹ معطل کیے جانے کی افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ گیرٹ وائلڈرز آزادی اظہار کے نام پر اپنے اسلامو فوبک اقدامات کے لیے دنیا میں مشہور ہیں۔ اس سے قبل وہ گستاخانہ کارٹونوں کے مقابلے منعقد کراتے تھے۔ کئی مسلم ممالک نے انتہا پسند کارکن کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا اور اس کے بائیکاٹ کے لیے سوشل میڈیا ایپس کا مطالبہ…
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
پریانکا چوہڑا نے رئیلیٹی شو ’دی ایکٹیوسٹ‘ کا حصہ بننے پر معافی مانگ لی - اردو نیوز پیڈیا
پریانکا چوہڑا نے رئیلیٹی شو ’دی ایکٹیوسٹ‘ کا حصہ بننے پر معافی مانگ لی – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا نے رئیلیٹی شو’’دی ایکٹیوسٹ‘‘ کا حصہ بننے پر معافی مانگ لی۔ گزشتہ ہفتے خبریں سامنے آئی تھیں کہ اداکارہ پریانکا چوپڑا امریکی رئیلیٹی شو’’دی ایکٹیوسٹ‘‘ کا حصہ بن گئی ہیں اور امریکی گلوکار وسونگ رائٹر اشر اور جولیانے کے ساتھ شو کو جج کریں گی۔ دراصل یہ رئیلیٹی شو 6 سرگرم کارکنوں کی تین ٹیموں پر مبنی تھا جو سماجی مسئلوں پر آواز اٹھاتے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan24 · 4 years
Text
گلالئی اسماعیل کے والد پروفیسر اسماعیل کو سی ٹی ڈی نے گرفتار کر لیا
گلالئی اسماعیل کے والد پروفیسر اسماعیل کو سی ٹی ڈی نے گرفتار کر لیا
پشاور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے معروف پشتون قوم پرست ایکٹیوسٹ گلالئی اسماعیل کے والد پروفیسر اسماعیل کی ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع کی درخواست خارج کر دی جس کے بعد محکمہ انسداد دہشت گردی نے ان کو حراست میں لیا ہے۔ منگل کو پروفیسر اسماعیل کی ضمانت میں توسیع کی درخواست اے ٹی سی جج فضل ستار نے خارج کی۔ درخواست ضمانت خارج ہونے پر عدالت نے پروفیسر اسماعیل کو سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیا۔ پاکستان میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gcn-news · 4 years
Text
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ٹویٹ پر غریدہ فاروقی ماروی سرمد کی حمایت میں آگئیں، دوٹوک اعلان کر دیا
Tumblr media
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ٹویٹ پر غریدہ فاروقی ماروی سرمد کی حمایت میں آگئیں، دوٹوک اعلان کر دیا اسلام آباد (جی سی این نیوز) حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ٹویٹ پر غریدہ فاروقی نے ماروی سرمد کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ذرائع کے مطابق اینکر پرسن غرید فاروقی نے اپنی ایک ٹویٹ‌ میں ‌ماروی سرمد کی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ماروی سرمد کی حمایت کرتے ہوئے خاتون صحافی غریدہ فاروقی نے لکھا کہ “‌ماروی جن حالات سے تم گز رہی ہو مجھے سن کر کر بہت افسوس ہوا ۔ ماروی نے کچھ غلط نہیں‌ کیا، میں‌ اس معاملے میں‌ ماروی کے ساتھ کھڑی ہوں ‌اور میری حمایت اس کے ساتھ ہے۔ واضح رہے کہ ماروی سرمد نے حضرت عیسیٰ‌ علیہ السلام کے متعلق ایک پوسٹ‌کی تھی جس سے ان کی توہین کا تاثر تھا جس پر پاکستانیوں کی جانب سے شدید مطالبہ کیا گیا تھا کہ ماروی نے توہین کی ہے اس کو گرفتار کیا جائے اور اس پر مقدمہ چلایا جائے اس پر ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بھی رہا۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر گستاخانہ ٹوئٹ کرنے پر ماروی سرمد کے خلاف مقدمہ کے اندراج کے لیے لاہور کے تھانہ فیصل ٹاؤن میں درخواست دے دی گئی۔ شہری قیس عظیم کی جانب سے وکیل کے ذریعے تھانے میں دی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ماروی سرمد نے سوشل میڈیا کے ذریعے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف گستاخانہ الفاظ استعمال کیے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ماروی سرمد کی اس حرکت سے مذہبی جذبات مجروح ہوئے، لہذا ماروی سرمد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ درخواست موصول ہوگئی ہے، قانون کے مطابق جائزہ لیکر کارروائی کی جائے گی۔ Read the full article
0 notes
pullen-kharan-news · 5 years
Text
Tumblr media
راشد حسین و دیگر لاپتہ افراد کیلئے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں ۔ بی ایچ آر او
( پھلین خاران نیوز )
تنظیم کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری نوازعطا بلوچ کی جبری گمشدگی کو دو سال مکمل ہونے پر پریس کانفرنس کی جائیگی اور سوشل میڈیا میں کیمپین چلائی جائیگی – بی ایچ آر او
بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کرده بیان میں راشد حسین بلوچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے ہونے والے احتجاجی مظاہرے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان دو دہائیوں سے انسانی بحران کی کیفیت سے دوچار ہے جہاں سکیورٹی فورسز آئین و قانون کے بر خلاف بلوچ سیاسی کارکنوں اور مختلف طبقہ فکر کے لوگوں کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے نا معلوم میں تشدد کرنے کے بعد انہیں ماورائے عدالت قتل کررہے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان ایک مقتل گاه میں تبدیل ہوچکی ہے۔
راشد حسین انسانی حقوق کا کارکن تھا جنہیں چھبیس دسمبر دو ہزار اٹھاره کو شارجہ سے گرفتار کیا گیا اور بغیر کسی جرم کے چھ ماه پابند سلاسل رکھنے کے بعد بائیس جون دو ہزار انیس کو پاکستان کے حوالے کیا گیا لیکن آج تک ایک انسانی حقوق کے ممبر کو نہ عدالتوں میں پیش کیا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں فیملی کو اطلاع دی گئی۔
ترجمان نے مزید کہا کہ نواز عطا بلوچ جنہیں دو سال قبل کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے سکیورٹی فورسز نے اٹھا کر لاپتہ کردیا تھا لیکن دو سال گزرنے کے باوجود تاحال انہیں منظر عام پہ نہیں لایا گیا۔ عطا نواز‘ بلوچ ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ اور بی ایچ آر او کا مرکزی انفارمیشن سیکرٹری ہے جنہیں انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے کی پاداش میں ماورائے عدالت گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ راشد حسین اور نواز عطا کی بازیابی کے لئے اہلخانہ نے انسانی حقوق کے قوانین کے تحت ہر فورم پر ان کے بازیابی کے لئے آواز اٹھائی لیکن انہیں آج تک انصاف کے حق سے محروم رکھا گیا ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں راشد حسین اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے احتجاجی مظاہرے کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بائیس اکتوبر دو ہزار انیس کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے نواز عطا، راشد حسین اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے مظاہره کیا جائے گا جبکہ 28 اکتوبر کو نواز عطا کی جبری گمشدگی کو دو سال مکمل ہونے پر سوشل میڈیا میں ReleaseNawazAtta# کمپین چلائی جائے گی اور اسی دن کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کیا جائے گا۔
0 notes
shiningpakistan · 5 years
Text
’’دیوار بناؤ صدر ٹرمپ، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ
امریکی سپریم کورٹ نے میکسیکو کی سرحد کے ساتھ متنازعہ دیوار بنانے سے متعلق مقدمے میں ٹرمپ انتظامیہ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ، میکسیکو کی سرحد پر دیوار کا ایک حصہ تعمیر کرنے کے لیے امریکی محکمہ دفاع (پنٹاگون) کے بجٹ میں سے 2.5 ارب ڈالر خرچ کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ صدارتی انتخابات کے دوران میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر، ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی منشور میں شامل تھی جبکہ انہوں نے صدر بنتے ہی اس دیوار کی تعمیر کےلیے کوششیں شروع کر دی تھیں۔ البتہ، ٹرمپ کے سیاسی مخالفین اس فیصلے کے خلاف ریاست کیلیفورنیا کی عدالت میں چلے گئے تھے جس نے ٹرمپ کو یہ دیوار تعمیر کرنے سے روک دیا تھا۔
اس فیصلے کے خلاف صدر ٹرمپ نے امریکی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے گزشتہ روز انہیں نہ صرف یہ دیوار تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ہے بلکہ یہ بھی فیصلہ دیا ہے کہ وہ اس مقصد کےلیے پنٹاگون کے بجٹ میں سے ڈھائی ارب ڈالر استعمال بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی مخالفین، خاص کر ڈیموکریٹس نے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ممتاز رہنما نینسی پلوسی نے ٹرمپ کے طرزِ حکمرانی کو ’’بادشاہت‘‘ کہتے ہوئے اس فیصلے کو ’’انتہائی غلط‘‘ قرار دیا ہے۔
ٹرمپ کی مخالف اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ سیلی ڈیل نے ٹرمپ کی ٹویٹ کا طنزیہ جواب دیتے ہوئے لکھا: ’’بہت خوب! تو آپ نے ہمارے دفاعی فنڈز ایک ایسی بے کار دیوار کے لیے لوٹ لیے جس کی مخالفت اکثر امریکی کرتے ہیں۔‘‘ اُدھر امریکا میں شہری آزادی کی تنظیم ’’اے سی ایل یو‘‘ اور ماحولیاتی تحفظ کے پریشر گروپس نے بھی اس فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور اس کے خلاف ’’نائنتھ سرکٹ کورٹ‘‘ جانے کا اعلان کیا ہے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
breakpoints · 3 years
Text
پریانکا چوپڑا نے 'دی ایکٹیوسٹ' کا حصہ بننے سے معذرت کر لی ایکسپریس ٹریبیون۔
پریانکا چوپڑا نے ‘دی ایکٹیوسٹ’ کا حصہ بننے سے معذرت کر لی ایکسپریس ٹریبیون۔
شدید عالمی ردعمل کا سامنا کرنے کے بعد ، آنے والی رئیلٹی سیریز کے پروڈیوسروں نے نئی شکل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کارکن ، شو کے ساتھ اب ایک دستاویزی فلم کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ کے مطابق مختلف قسم۔، پانچ قسطوں والا مقابلہ ہونے کے برعکس ، یہ نہ صرف ایک وقت کی دستاویزی فلم ہوگی۔ کے سابقہ ​​تکرار کے کچھ مناظر۔ ایکٹوسٹ۔ پہلے ہی گولی مار دی گئی ہے ، لیکن توقع کی جاتی ہے کہ نئے ورژن کے لیے شروع سے ہی فلم…
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
منشا پاشا نے شادی کے بعد اپنا نام کیوں نہیں بدلا؟ اداکارہ نے وجہ بتا دی - اردو نیوز پیڈیا
منشا پاشا نے شادی کے بعد اپنا نام کیوں نہیں بدلا؟ اداکارہ نے وجہ بتا دی – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین پاکستان شوبز انڈسٹری کی با صلاحیت اداکارہ منشا پاشا نے سوشل ایکٹیوسٹ جبران ناصر سے شادی کے بعد اپنا نام تبدیل نہ کر نے کی وجہ بالآخر اپنے مداحوں کو بتا دی ہے۔ سوشل میڈیا رپورٹس کے مطابق منشا پاشا نے انسٹاگرام پر اپنی ایک تصویر شیئر کی ، جس پر  ایک انسٹا صارف نے اداکارہ سے ایک اہم سوال بھی پوچھ لیا۔ انسٹا گرام صارف نے منشاپاشا سے سوال پوچھا کہ  انہوں نے شادی کے بعد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mkaleemtahirpat · 3 years
Photo
Tumblr media
معزز ممبران سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے آفیشل ڈی پی لانچ کر دی گئی ہے. آپ اپنے تمام سوشل میڈیا اکاونٹس پر ڈی پی اپلوڈ کریں اور اپنی فرینڈ لسٹ میں موجود تمام تحریکی احباب کو ڈی پی لگانے کا کہیں، اسکے علاوہ کوئی بھی انفرادی طور پر ڈی پی لگائی جائے تو اسکی حوصلہ شکنی کریں اور انہیں مرکزی ڈی پی لگانے کا کہیں تا کہ پورے سوشل میڈیا پر صرف آفیشل ڈی پی کو ہی لگایا جائے، بطور ممبر منہاج سائبر ایکٹیوسٹ آپ سب کی زمداری ہے کہ اس ڈی پی کو ہر طرف وائرل کریں، آج اس ڈی پی کے لانچ سے ہم باقاعدہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے سوشل میڈیا ایکٹیوٹیز کا آغاز کر رہے ہیں. #OfficialDp (at Daska) https://www.instagram.com/p/CPvlKBUlKCO/?utm_medium=tumblr
1 note · View note
gcn-news · 4 years
Text
مظاہرین نے بصرہ میں پارلیمانی دفاتر کو آگ لگا دی
اے پی: عراق کے جنوبی شہر بصرہ میں جمعے کو ہونے والے مظاہروں میں مظاہرین نے دو ایکٹوسٹس کے قتل کے بعد حکومتی عدم اقدامات پر پارلیمانی دفاتر کو نذر آتش کر دیا۔ یاد رہے بصرہ شہر عراق میں تیل کی دولت سے مالا مال علاقے میں واقع ہے۔ مظاہرین نے بصرہ صوبے کی پارلیمان کی عمارت کے بیرونی دروازے کو آگ لگائی۔ یہ عمارت بغداد میں واقع مرکزی پارلیمان کے ذیلی دفاتر کی حامل تھی۔ یہ مظاہرے بصرہ شہر میں گذشتہ اکتوبر کے بعد سے مت��دد ترین مظاہرے تھے۔ یاد رہے گذشتہ سال ہزاروں شہریوں نے بدعنوانی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بغداد سمیت ملک بھر کے شہروں میں بڑے مظاہرے کیے تھے۔ بصرہ میں 2018 میں بھی حکومت کے خلاف مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔  ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک فوٹوگرافر نے مظاہرین کی جانب سے جھڑپوں میں سکیورٹی فورسز کے خلاف آتش گیر مادے کے استعمال کا بھی مشاہدہ کیا۔ نیم سرکاری خود مختار ہائی کمشن فار ہیومن رائٹس کے ترجمان علی البیاتی کے مطابق جھڑپوں میں آٹھ سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ مظاہرین کی جانب سے گذشتہ ہفتے کے دوران دو سرگرم افراد کی ہلاکت کے بعد بصرہ کے گورنر اسد العیدانی کے استعفی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ بدھ کو بصرہ میں ایکٹیوسٹ رھام یعقوب کو گولی مار کے قتل کر دیا گیا تھا۔ رھام یعقوب نے اکتوبر میں ہونے والے مظاہروں میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ چند روز قبل ہی ایک اور ایکٹوسٹ تحسین اوسامہ کو بھی مسلح افراد کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کے قتل کے بعد بھی مظاہرین کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی تھی جس کے بعد عراق کے وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے بصرہ کے پولیس سربراہ کو معطل کر دیا تھا۔ لیکن مظاہرین کے مطابق صرف پولیس سربراہ کی معطلی کافی Read the full article
0 notes
pakistan24 · 5 years
Text
سری لنکا حملے میں شامل نہیں، امریکی مصنفہ
سری لنکا حملے میں شامل نہیں، امریکی مصنفہ
سری لنکن پولیس نے غلطی سے امریکی خاتون مصنفہ کو مشتبہ حملہ آوروں میں شامل کرتے ہوئے تصویر جاری کر دی جس کے بعد معافی مانگنا پڑی ہے ۔
امریکی ریاست میری لینڈ کی یونیورسٹی میں پڑھنے والی مصنفہ اور سوشل ایکٹیوسٹ عمارہ مجید نے کہا ہے کہ جمعرات کی صبح بیدار ہونے پر انہوں نے انٹرنیٹ پر اپنی تصویر ان حملہ آوروں میں دیکھی جن کو سری لنکن پولیس نے اتوار کو گرجا گھروں پر حملہ کرنے والے شدت پسندوں کا ساتھی…
View On WordPress
0 notes
breakpoints · 3 years
Text
جمیلہ جمیل نے پرینکا چوپڑا کی 'دی ایکٹیوسٹ' کو سرگرمی کو ایک گیم میں تبدیل کرنے پر تنقید کی۔
جمیلہ جمیل نے پرینکا چوپڑا کی ‘دی ایکٹیوسٹ’ کو سرگرمی کو ایک گیم میں تبدیل کرنے پر تنقید کی۔
جمیلہ جمیل نے پرینکا چوپڑا کی ‘دی ایکٹیوسٹ’ کو سرگرمی کو ایک گیم میں تبدیل کرنے پر تنقید کی۔ ایک نیا امریکی رئیلٹی شو جو کہ ایک دوسرے کے خلاف فلاحی کاموں کو فروغ دینے والے کارکنوں کو کھڑا کرتا ہے اور سوشل میڈیا کو ان کی کامیابی کے ایک میٹرک کے طور پر استعمال کرتا ہے تنازعات کو بھڑکاتا ہے۔ ایکٹیوسٹ ، جس کے لانچ کا اعلان اس ہفتے کیا گیا تھا ، اکتوبر میں امریکی نیٹ ورک سی بی ایس پر نشر کیا جائے گا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
aj-thecalraisen · 6 years
Text
'ہم گنہگار عورتیں ہیں۔۔۔'
واشنگٹن — 
زیادہ پرانی بات نہیں۔ بلوچوں نے اپنے لاپتا بیٹوں، بھائیوں، باپ اور شوہروں کی بازیابی کے لئے ملک بھر میں پیدل مارچ کیا۔ مرد، عورت، بوڑھے، بچے سب اس مارچ میں شامل تھے، جگہ جگہ پڑاؤ ڈالا۔ مہینوں تک در بدر رہے۔ لیکن مجال ہے کہ میڈیا نے کوئی چرچا کیا ہو، سرخیاں لگائی ہوں۔
آئے دن، مختلف شہروں میں، کبھی پریس کلب کے سامنے، سڑک پر، سرکاری دفاتر کے باہر، تھکے ہارے، دھول میں اٹے، ہاتھوں میں احتجاجی پوسٹر اٹھائے نظر آتے تھے۔ کبھی کبھار ان کی کوئی چھوٹی سی تصویر خالی جگہ پُر کرنے کے لئے لگا دی جاتی تھی مگر پھر وہی سناٹا۔
تو آخر آٹھ مارچ کو عورت مارچ میں کیا سرخاب کے پر لگے تھے کہ سوشل میڈیا تھکتا ہی نہیں اس کی بات کرتے۔ اور بات بھی نہ تو عورتوں کے حقوق کی، نہ ان کے عالمی دن کی، نہ ان کی صدیوں کی جدوجہد کی۔ بلکہ ان چنیدہ پوسٹرز کی جو اس مارچ میں سامنے آئے۔
ان پر قدامت پسند حلقوں اور بیشتر مرد حضرات کا اعتراض تو تھا ہی، پھر جواب در جواب کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ لیکن جب کشور ناہید جیسی معتبر شاعر اور عشروں سے عورتوں کے حقوق کی ایکٹیوسٹ نے کچھ پوسٹرز کی زبان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ’’اپنی تہذیب، روایات اور شعور کو مد نظر رکھیں‘‘۔ تو لگتا یوں ہے کہ مارچ کے حامی حلقے کشور ناہید کے رد عمل پر سچ مچ شاک میں ہیں۔ مگر مثبت بات یہ ہے کہ انتہائی احترام کے ساتھ، آخر آج کے بہت سے’اینگری ینگ مین‘ انہیں کشور آپا جو کہتے ہیں۔ بہرحال نقادوں کو بھی اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ عشروں پہلے سےعورتوں کے ایک غیر روایتی تصور کے لئے آواز اٹھانے والی خواتین میں ایک بہت جاندار آواز کشور ناہید کی ہے۔
’یہ ہم گنہگار عورتیں ہ��ں جو اہلِ جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں نہ جان بیچیں نہ سر جھکائیں نہ ہاتھ جوڑیں یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں کہ جن کے جسموں کی فصل بیچیں جو لوگ وہ سرفراز ٹھہریں نیابتِ امتیاز ٹھہریں وہ داورِ اہلِ ساز ٹھہریں یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں کہ سچ کا پرچم اُٹھا کے نکلیں ۔۔۔‘
بات یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی گلیوں اور محلوں سے آنے والی اور اسی طرح انگریزی اسکولوں میں پڑھنے والی یہ عورتیں، یہ لڑکیاں، یہ بچیاں، ادبی زبان لکھنے کی اہل نہیں ہیں۔ ان ’احتجاجیوں‘ کو اپنے غصے کے اظہار کے لئے جو بھی لفظ سمجھ میں آئے وہ انہوں نے اپنے پرچم پر لکھ دئے۔ جیسا کہ مارچ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ کسی سیاسی پارٹی کی مارچ تو تھی نہیں کہ پوسٹر بنوا کر تقسیم کئے جاتے۔ ’’ ایک کھلی مارچ میں حصہ لینے والے جب صدیوں سے گھٹے، دبے غصے کا اظہار کرتے ہیں تو ان کے لفظوں کو سنسر کرنا نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی ممکن‘‘۔
جب ان پوسٹرز پر اتنی لے دے ہوئی تھی تو ہم نے بھی سوچا کہ کیوں نہ کچھ خواتین کو راؤنڈ ٹیبل میں جمع کر کے ان سے بات کی جائے، رابطے شروع کیے تو ایک خوشگوار حیرت اس پر ہوئی کہ ناقدین اور حامی دونوں ہی واٹس ایپ پر جڑے ہوئے تھے اور ہر قسم کے لنکس کا دھڑا دھڑ تبادلہ کیا جا رہا تھا۔ ٹی وی اینکر نادیہ مرزا اور جویریہ ملک کاخیال تھا کہ ان پوسٹرز نے مارچ کے اصل مقصد کو ہائی جیک کر لیا۔
جویریہ کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی مارچ یا تحریک شروع کی جائے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس کے بنیادی مقاصد پر کام کرتے ہوئے، انہی کو ہائی لائٹ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان تصویروں نے اس مقصد کو نقصان پہنچایا ہے۔ ’’اس طرح کے پوسٹرز جن پر نازیبا الفاظ یا ذومعنی جملے لکھے ہوں، ہمارے مذہب اور معاشرے سے میل نہیں کھاتے‘‘۔ نگہت داد، مارچ کے منتظمین میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’کسی بھی مارچ کو پابند نہیں کیا جا سکتا۔ مارچ ایک اوپن کال ہوتی ہے اور لوگ مختلف بیک گراؤنڈز سے آتے ہیں۔ آپ نہ تو مارچ کو پولیس کر سکتے ہیں نہ مانیٹر کر سکتے ہیں اور نہ ہی مارچ کو پولیس یا سنسر کرنا چاہیے‘‘۔
تو کیا یہ سچ ہے اصل ’کاز‘ کو نقصان پہنچا؟
نگہت کہتی ہیں ’’ذرا نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ایک ایسی بحث نے جنم لیا ہے جو اس سے قبل کبھی میڈیا کا حصہ نہیں تھی اور اب اجتماعی طور پر حصہ بنی ہے‘‘۔
نگہت کے خیال میں اصل نقصان میڈیا نے پہنچایا ہےاور ٹی وی شوز نے چند پوسٹرز کو سامنے رکھ کر فیصلے صادر کئے ہیں۔ لیکن، نادیہ مرزا جنہوں نے اس بارے میں ٹی وی شو بھی کیا تھا، کہا ہے کہ ان پوسٹرز کی وجہ سے ایک پوری بحث اس بارے میں شروع ہوگئی ہے کہ ’’خواتین کس قسم کی آزادی چاہتی ہیں۔ خواتین کی مارچ کے ’مینی فیسٹو‘ سے تو کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ مارچ کا مقصد حقیقی تھا اور میں اس کو سپورٹ کرتی ہوں۔
لیکن، ہر سوسائٹی کے کچھ رولز ہیں۔۔۔ مؤقف کو بیان کرنے کے لیے ان گالیوں کا سہارا لیا گیا جو ہم عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتے‘‘۔ نادیہ نے یہ بھی کہا کہ جب انہوں نے یہ پروگرام کیا تو ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے محض ریٹنگ کے لئے ایسا کیا ہے۔
خواتین کس قسم کی آزادی چاہتی ہیں۔ اور کس سے؟
عافیہ سلام سوشل میڈیا پر خود بھی ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ ان کے خیال میں یہ جو سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کس سے چاہئے آزادی۔ تو ضروری نہیں ہے کہ آزادی ’کسی‘ سے چاہئے ہو۔ آزادی چاہئے سڑک پر چلنے کی، آواز اٹھانے کی۔ کیا عورتوں کو اس طرح مل کر کسی بات پر کھڑے ہونے کی، پبلک اسپیس میں جانے کی آزادی ہے؟ اس اعتراض پر کہ معاشرے کی حدود میں رہ کر بات کرنی چاہئے۔ عافیہ سلام کہتی ہیں کہ ’انہی حدود نے تو پابند کیا ہوا ہے۔ انہی حدود سے تو آزادی چاہئے۔ آپ کا یہی معاشرہ تو خواتین کو ان کے حقوق نہیں دے رہا‘‘۔
بینا سرور، انسانی، بالخصوص خواتین کے حقوق کی ایکٹیوسٹ ہی نہیں بلکہ جرنلزم کی استاد بھی ہیں۔ وہ اس بارے میں نادیہ اور جویریہ سے اتفاق کرتی ہیں کہ مارچ، ان پلے کارڈز اور سلوگنز کی وجہ سے ایک طریقے سے ہائی جیک ہوگئی۔
’’اس کہ ذمہ داری نہ تو منتظمیں پر ہے اور نہ ہی ایک حد تک سوشل میڈیا پر ۔ بلکہ ایک حد تکperception management ہو ہی نہیں پایا‘‘۔
’’میں اس میں ذمہ دار ٹھہراؤں گی ان صحافیوں کو جنہوں نے اپنا کام نہیں کیا، بلکہ محض سوشل میڈیا پوسٹس کی بنیاد پر پروگرام کئے۔ صحافیوں کا فرض پوری تصویر کو دیکھنا اور ایک میں دیکھنا ہے۔ تصدیق کے بغیر بات کا بتنگڑ بنانا نہیں ‘‘۔
’یہ فیصلہ کون کرے گا کہ اصل مقصد کیا تھا‘؟
یہ سوال کیا ایوارڈ یافتہ صحافی اور حقوق کی سرگرم کارکن صبا اعتزاز نے۔ جو ایک عرصے سے خواتین کے مسائل پر کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں آپ کو ایک ایک نعرے، ایک ایک پوسٹر کی کیس اسٹڈی بتا سکتی ہوں۔ ’کھانا خود گرم کرلو‘ کو لے کر اتنا بڑا تنازعہ شروع ہو گیا، جس زاویے کو سوشل میڈیا پر دکھایا گیا اور جو زیادہ تر بیانیہ تھا وہ مرد حضرات کی طرف سے تھا کہ یہ تو ایلیٹ خواتین کے مسئلے تھے ۔۔۔ یہ پوسٹر وہاں اس لئے تھے کہ یہ معاشرے کے عکاس تھے۔ کہیں باہر سے نہیں آئے تھے۔
ان میں مختلف اقتصادی طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے ذاتی تجربات کا اظہار کر رہی تھیں۔ آپ پوسٹرز کی ’بےہودگی‘ کے بجائے اگر یہ سوچیں کہ اس طرح کی بےہودگی یہ خواتین ہر روز برداشت کرتی ہیں۔ تو اس بےہودگی کو ختم کرنے پر کیوں نہیں فوکس کیا جاتا؟‘‘ تو کیا عشروں سے جاری یہ جدوجہد یا کم از کم اس پر بحث کسی حتمی نتیجے تک پہونچے گی؟ یہ فیصلہ آپ کریں۔
’یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں کہ اب تعاقب میں رات بھی آئے تو یہ آنکھیں نہیں بجھیں گی کہ اب جو دیوار گر چکی ہے اسے اُٹھانے کی ضد نہ کرنا یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں جو اہلِ جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں نہ جان بیچیں نہ سر جھکائیں نہ ہاتھ جوڑیں‘۔
The post 'ہم گنہگار عورتیں ہیں۔۔۔' appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2FdZVok via Urdu News
0 notes
dragnews · 6 years
Text
'ہم گنہگار عورتیں ہیں۔۔۔'
واشنگٹن — 
زیادہ پرانی بات نہیں۔ بلوچوں نے اپنے لاپتا بیٹوں، بھائیوں، باپ اور شوہروں کی بازیابی کے لئے ملک بھر میں پیدل مارچ کیا۔ مرد، عورت، بوڑھے، بچے سب اس مارچ میں شامل تھے، جگہ جگہ پڑاؤ ڈالا۔ مہینوں تک در بدر رہے۔ لیکن مجال ہے کہ میڈیا نے کوئی چرچا کیا ہو، سرخیاں لگائی ہوں۔
آئے دن، مختلف شہروں میں، کبھی پریس کلب کے سامنے، سڑک پر، سرکاری دفاتر کے باہر، تھکے ہارے، دھول میں اٹے، ہاتھوں میں احتجاجی پوسٹر اٹھائے نظر آتے تھے۔ کبھی کبھار ان کی کوئی چھوٹی سی تصویر خالی جگہ پُر کرنے کے لئے لگا دی جاتی تھی مگر پھر وہی سناٹا۔
تو آخر آٹھ مارچ کو عورت مارچ میں کیا سرخاب کے پر لگے تھے کہ سوشل میڈیا تھکتا ہی نہیں اس کی بات کرتے۔ اور بات بھی نہ تو عورتوں کے حقوق کی، نہ ان کے عالمی دن کی، نہ ان کی صدیوں کی جدوجہد کی۔ بلکہ ان چنیدہ پوسٹرز کی جو اس مارچ میں سامنے آئے۔
ان پر قدامت پسند حلقوں اور بیشتر مرد حضرات کا اعتراض تو تھا ہی، پھر جواب در جواب کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ لیکن جب کشور ناہید جیسی معتبر شاعر اور عشروں سے عورتوں کے حقوق کی ایکٹیوسٹ نے کچھ پوسٹرز کی زبان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ’’اپنی تہذیب، روایات اور شعور کو مد نظر رکھیں‘‘۔ تو لگتا یوں ہے کہ مارچ کے حامی حلقے کشور ناہید کے رد عمل پر سچ مچ شاک میں ہیں۔ مگر مثبت بات یہ ہے کہ انتہائی احترام کے ساتھ، آخر آج کے بہت سے’اینگری ینگ مین‘ انہیں کشور آپا جو کہتے ہیں۔ بہرحال نقادوں کو بھی اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ عشروں پہلے سےعورتوں کے ایک غیر روایتی تصور کے لئے آواز اٹھانے والی خواتین میں ایک بہت جاندار آواز کشور ناہید کی ہے۔
’یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں جو اہلِ جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں نہ جان بیچیں نہ سر جھکائیں نہ ہاتھ جوڑیں یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں کہ جن کے جسموں کی فصل بیچیں جو لوگ وہ سرفراز ٹھہریں نیابتِ امتیاز ٹھہریں وہ داورِ اہلِ ساز ٹھہریں یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں کہ سچ کا پرچم اُٹھا کے نکلیں ۔۔۔‘
بات یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی گلیوں اور محلوں سے آنے والی اور اسی طرح انگریزی اسکولوں میں پڑھنے والی یہ عورتیں، یہ لڑکیاں، یہ بچیاں، ادبی زبان لکھنے کی اہل نہیں ہیں۔ ان ’احتجاجیوں‘ کو اپنے غصے کے اظہار کے لئے جو بھی لفظ سمجھ میں آئے وہ انہوں نے اپنے پرچم پر لکھ دئے۔ جیسا کہ مارچ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ کسی سیاسی پارٹی کی مارچ تو تھی نہیں کہ پوسٹر بنوا کر تقسیم کئے جاتے۔ ’’ ایک کھلی مارچ میں حصہ لینے والے جب صدیوں سے گھٹے، دبے غصے کا اظہار کرتے ہیں تو ان کے لفظوں کو سنسر کرنا نہ تو ��ناسب ہے اور نہ ہی ممکن‘‘۔
جب ان پوسٹرز پر اتنی لے دے ہوئی تھی تو ہم نے بھی سوچا کہ کیوں نہ کچھ خواتین کو راؤنڈ ٹیبل میں جمع کر کے ان سے بات کی جائے، رابطے شروع کیے تو ایک خوشگوار حیرت اس پر ہوئی کہ ناقدین اور حامی دونوں ہی واٹس ایپ پر جڑے ہوئے تھے اور ہر قسم کے لنکس کا دھڑا دھڑ تبادلہ کیا جا رہا تھا۔ ٹی وی اینکر نادیہ مرزا اور جویریہ ملک کاخیال تھا کہ ان پوسٹرز نے مارچ کے اصل مقصد کو ہائی جیک کر لیا۔
جویریہ کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی مارچ یا تحریک شروع کی جائے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس کے بنیادی مقاصد پر کام کرتے ہوئے، انہی کو ہائی لائٹ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان تصویروں نے اس مقصد کو نقصان پہنچایا ہے۔ ’’اس طرح کے پوسٹرز جن پر نازیبا الفاظ یا ذومعنی جملے لکھے ہوں، ہمارے مذہب اور معاشرے سے میل نہیں کھاتے‘‘۔ نگہت داد، مارچ کے منتظمین میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’کسی بھی مارچ کو پابند نہیں کیا جا سکتا۔ مارچ ایک اوپن کال ہوتی ہے اور لوگ مختلف بیک گراؤنڈز سے آتے ہیں۔ آپ نہ تو مارچ کو پولیس کر سکتے ہیں نہ مانیٹر کر سکتے ہیں اور نہ ہی مارچ کو پولیس یا سنسر کرنا چاہیے‘‘۔
تو کیا یہ سچ ہے اصل ’کاز‘ کو نقصان پہنچا؟
نگہت کہتی ہیں ’’ذرا نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ایک ایسی بحث نے جنم لیا ہے جو اس سے قبل کبھی میڈیا کا حصہ نہیں تھی اور اب اجتماعی طور پر حصہ بنی ہے‘‘۔
نگہت کے خیال میں اصل نقصان میڈیا نے پہنچایا ہےاور ٹی وی شوز نے چند پوسٹرز کو سامنے رکھ کر فیصلے صادر کئے ہیں۔ لیکن، نادیہ مرزا جنہوں نے اس بارے میں ٹی وی شو بھی کیا تھا، کہا ہے کہ ان پوسٹرز کی وجہ سے ایک پوری بحث اس بارے میں شروع ہوگئی ہے کہ ’’خواتین کس قسم کی آزادی چاہتی ہیں۔ خواتین کی مارچ کے ’مینی فیسٹو‘ سے تو کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ مارچ کا مقصد حقیقی تھا اور میں اس کو سپورٹ کرتی ہوں۔
لیکن، ہر سوسائٹی کے کچھ رولز ہیں۔۔۔ مؤقف کو بیان کرنے کے لیے ان گالیوں کا سہارا لیا گیا جو ہم عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتے‘‘۔ نادیہ نے یہ بھی کہا کہ جب انہوں نے یہ پروگرام کیا تو ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے محض ریٹنگ کے لئے ایسا کیا ہے۔
خواتین کس قسم کی آزادی چاہتی ہیں۔ اور کس سے؟
عافیہ سلام سوشل میڈیا پر خود بھی ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ ان کے خیال میں یہ جو سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کس سے چاہئے آزادی۔ تو ضروری نہیں ہے کہ آزادی ’کسی‘ سے چاہئے ہو۔ آزادی چاہئے سڑک پر چلنے کی، آواز اٹھانے کی۔ کیا عورتوں کو اس طرح مل کر کسی بات پر کھڑے ہونے کی، پبلک اسپیس میں جانے کی آزادی ہے؟ اس اعتراض پر کہ معاشرے کی حدود میں رہ کر بات کرنی چاہئے۔ عافیہ سلام کہتی ہیں کہ ’انہی حدود نے تو پابند کیا ہوا ہے۔ انہی حدود سے تو آزادی چاہئے۔ آپ کا یہی معاشرہ تو خواتین کو ان کے حقوق نہیں دے رہا‘‘۔
بینا سرور، انسانی، بالخصوص خواتین کے حقوق کی ایکٹیوسٹ ہی نہیں بلکہ جرنلزم کی استاد بھی ہیں۔ وہ اس بارے میں نادیہ اور جویریہ سے اتفاق کرتی ہیں کہ مارچ، ان پلے کارڈز اور سلوگنز کی وجہ سے ایک طریقے سے ہائی جیک ہوگئی۔
’’اس کہ ذمہ داری نہ تو منتظمیں پر ہے اور نہ ہی ایک حد تک سوشل میڈیا پر ۔ بلکہ ایک حد تکperception management ہو ہی نہیں پایا‘‘۔
’’میں اس میں ذمہ دار ٹھہراؤں گی ان صحافیوں کو جنہوں نے اپنا کام نہیں کیا، بلکہ محض سوشل میڈیا پوسٹس کی بنیاد پر پروگرام کئے۔ صحافیوں کا فرض پوری تصویر کو دیکھنا اور ایک میں دیکھنا ہے۔ تصدیق کے بغیر بات کا بتنگڑ بنانا نہیں ‘‘۔
’یہ فیصلہ کون کرے گا کہ اصل مقصد کیا تھا‘؟
یہ سوال کیا ایوارڈ یافتہ صحافی اور حقوق کی سرگرم کارکن صبا اعتزاز نے۔ جو ایک عرصے سے خواتین کے مسائل پر کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں آپ کو ایک ایک نعرے، ایک ایک پوسٹر کی کیس اسٹڈی بتا سکتی ہوں۔ ’کھانا خود گرم کرلو‘ کو لے کر اتنا بڑا تنازعہ شروع ہو گیا، جس زاویے کو سوشل میڈیا پر دکھایا گیا اور جو زیادہ تر بیانیہ تھا وہ مرد حضرات کی طرف سے تھا کہ یہ تو ایلیٹ خواتین کے مسئلے تھے ۔۔۔ یہ پوسٹر وہاں اس لئے تھے کہ یہ معاشرے کے عکاس تھے۔ کہیں باہر سے نہیں آئے تھے۔
ان میں مختلف اقتصادی طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے ذاتی تجربات کا اظہار کر رہی تھیں۔ آپ پوسٹرز کی ’بےہودگی‘ کے بجائے اگر یہ سوچیں کہ اس طرح کی بےہودگی یہ خواتین ہر روز برداشت کرتی ہیں۔ تو اس بےہودگی کو ختم کرنے پر کیوں نہیں فوکس کیا جاتا؟‘‘ تو کیا عشروں سے جاری یہ جدوجہد یا کم از کم اس پر بحث کسی حتمی نتیجے تک پہونچے گی؟ یہ فیصلہ آپ کریں۔
’یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں کہ اب تعاقب میں رات بھی آئے تو یہ آنکھیں نہیں بجھیں گی کہ اب جو دیوار گر چکی ہے اسے اُٹھانے کی ضد نہ کرنا یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں جو اہلِ جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں نہ جان بیچیں نہ سر جھکائیں نہ ہاتھ جوڑیں‘۔
The post 'ہم گنہگار عورتیں ہیں۔۔۔' appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2FdZVok via Today Pakistan
0 notes