Tumgik
#ساواک
shahzamani1357 · 2 years
Photo
Tumblr media
، آیا آزادی و امنیت در عصر رضاخان برقرار بود؟ در سال‌های ۱۳۰۴ تا ۱۳۲۰،‌ قدرت مطلق و نو پدرشاهی رضاخان سد مهمی در مقابل پیدایش جامعه مدنی، آزادی، امنیت مالی و جانی افراد عادی، روشنفکران مخالف و سیاستمداران اصلاح‌طلب بود. تمام ویژگی‌های حکومت‌های سلطانی، از جمله حکومت شخصی، رسمی نبودن سیاست، انحصار سیاسی، ناآگاهی سیاسی مردم، ناتوانی نهادهای مردمی و فساد سیاسی در نهادهای اداری، در حکومت رضاخان نمود یافت. کتاب موانع تحقق توسعه سیاسی در دوره سلطنت رضاشاه  چاپ مرکز اسناد انقلاب اسلامی صفحه ۴۶ #شاه #پهلوی #برانداز #ولیعهد #ساواک #آریامهر #رضاشاه #سلطنت #رضاخان #شاهنشاه #ثریا_پهلوی #فرح_پهلوی #محمدرضا_شاه #محمدرضا_پهلوی #شهبانو_فرح_پهلوی #شاهزاده_رضا_پهلوی #mohammadreza_pahlavi #mohammadreza_shah #Reza_pahlavi #rezapahlavi #Reza_shah #pahlavi   #shahzamani_1357 @shahzamani_1357 https://www.instagram.com/p/Cm1_-pAIZrb/?igshid=NGJjMDIxMWI=
1 note · View note
humansofnewyork · 1 year
Photo
Tumblr media
(13/54) “In Germany we started a family. When our first daughter was born we named her Ahang. Ferdowsi uses the word a lot in Shahnameh. It means melody, but it also means willpower. Eighteen months later our son Maziar arrived. After the children were born Mitra said it was time to choose a normal profession, and secure the life that we had. At university I studied mechanical engineering. But wherever I am, I think of all of Iran. There were many Iranian students living in Germany, so I started my own version of Niroo called the Assembly of Kaveh, after one of Shahnameh’s greatest champions. Kaveh is a special champion. He was a normal man. An ordinary blacksmith. But he rallies the people to defeat Zahak—the most evil king in all of Shahnameh. Our meetings were held in the back room of a local tavern. The meetings were more cultural than political, each week we’d lecture on a different topic. But I was outspoken about my support for the White Revolution. We’d lost half our family’s land as part of the land reform, but still: I supported it. I wrote my father a letter. I said: ‘Today we can hold our heads higher, because there is more freedom in Iran.’ One day we were in the middle of a meeting when the door was kicked in. Two hundred angry men rushed into the room. They were mainly members of a leftist group, but they’d also been infiltrated by The Shah’s secret police, SAVAK. Their agents had been tasked with creating conflict between student groups. The men went around the room, knocking over furniture. One of them broke a coke bottle against the table, and wielded it as a weapon. I stood up from my chair and rolled my papers in my hand. I said: ‘Please, sit down. Let us discuss. Let us use our words.’ One of them was dressed exactly like Fidel Castro. He picked up a chair and jabbed its leg directly into my eye. Blood started streaming from my face. My friends picked me off the floor and helped me to the basement of the tavern. After a few minutes a police car arrived to take me to the hospital, and I was loaded in the back. I began to lose consciousnesses. The last thing I remember was a horrible, sharp pain in my eye. Then everything turned to black.”
 میترا و من در آلمان صاحب دختری شدیم. نامش را آهنگ نهادیم. این واژه‌ای‌ست که فردوسی در شاهنامه بارها به کار برده است. به معنای نغمه و آواز، به معنای اراده‌ی راسخ نیز هست. هجده ماه پس از او پسرمان مازیار پا به دنیا نهاد. پس از به دنیا آمدن فرزندان‌مان، میترا از من خواست که پیشه‌ای معمولی برگزینم. آسایش و آرامشی داشته باشیم. در دانشگاه، مهندسی مکانیک می‌خواندم. ولی هر جا باشم، ایران با من است. از آنجا که در آلمان دانشجویان ایرانی بسیار بودند، پس از رایزنی با دوستان بر آن شدیم که سازمانی فرهنگی-سیاسی برپا کنیم. نامش را «انجمن ملی کاوه» نهادیم، به افتخار یکی از نامدارترین پهلوانان شاهنامه. کاوه پهلوانی‌ست ویژه. او از تبار آزاده مردمان بود. آهنگری ساده. ولی ب�� ضحاک، پلیدترین شاه شاهنامه شورید. دیدار هفتگی‌مان را در اتاقی ویژه‌ی نشست‌ها و گردهمآیی‌ها در میخانه‌ا‌ی محلی برگزار می‌کردیم. هر هفته به جُستار متفاوتی می‌پرداختیم: تاریخ، شعر، ادبیات، معماری و جز آن. گردهمآیی‌هایمان بیشتر فرهنگی بود تا سیاسی. ولی من انقلاب سفید را نیز پشتیبان بودم. با اصلاحات ارضی نیمی از زمین‌های خانوادگی‌مان از دست رفته بود ولی من با خرسندی به پدرم نوشتم که: «امروز می‌توانیم سرمان را بالاتر بگیریم زیرا عدالت، آزادی و آسایش بیشتری در ایران پدید می‌آید.» شبی در میانه‌ی گردهمآیی‌مان ناگهان در اتاق باز شد. چند سد تن از مردان خشمگین به اتاق ما یورش آوردند. ما بیست‌و‌‌‌چند تن بودیم. آنان اعضا و هواداران کنفدراسیون دانشجویان ایرانی بودند. کنگره‌ی سالانه‌شان را در شهر ما برپا کرده بودند. ساواک درگیری میان دانشجویان ایرانی را به سود خود می‌دانست. بیشتر آنان طرفداران چپ وابسته به سیاست‌های شوروی و دیگر کشورهای کمونیستی بودند و با ناسیونالیسم و انقلاب سفید مخالفت داشتند. یکی از آنها بطری نوشابه‌ای را شکست و به هوا برد. یکی که مانند فیدل کاسترو لباس پوشیده بود دور اتاق چرخید و پس از پرسیدن نام من روی میز جلوی من نشست. کاغذهایم را لوله کردم و از جا برخاستم. گفتم: «خواهش می‌کنم بنشینید تا با هم گفت‌وگو کنیم.» او صندلی را برداشت و پایه‌ی آن را یکراست به چشم راست من کوبید. دوستان، مرا به زیرزمین میخانه رساندند که ایمن‌تر بود. مهاجمان آمبولانسی را که برای بردن من رسیده بود، واژگون کردند. ناگزیر مرا در ماشین پلیس به بیمارستان رساندند. آرام آرام هوشیاری‌ام از دست می‌رفت. آخرین چیزی که به یاد دارم، احساس دردی شدید در چشمم بود. دیگر چیزی به یاد ندارم
155 notes · View notes
kent6029 · 1 year
Video
youtube
حرفهای اولین شکنجه گررژیم که تیمساررحیمی،دکترتهرانی ساواک را شکنجه وبازج...
2 notes · View notes
kanooniranian · 8 days
Text
دوشنبه ۲۳ سپتامبر ۲۰۲۴- ساعت ۷:۳۰ شب به وقت واشنگتن دی سی- سخنران: محسن رضوانی- موضوع سخنرانی: نگاهی به کارنامهٔ شکست خورده ی ساواک و پرویز ثابتی
Kanoon is inviting you to a scheduled Zoom meetingDate: Monday, September 23, 2024 Time: 7:30 PM EST (USA & Canada)Join Zoom Meetinghttps://us02web.zoom.us/j/7032021982?pwd=R1QzdnFBQzdvdzJjY1YvQXFJcXdpUT09Meeting ID: 703 202 1982 در کرمانشاه و محله فیض آباد در سال ۱۳۱۶ متولد شدم. در آنجا ، تهران ‌ و لندن درس خواندم. از دبیرستان رازی کرمانشاه فعالیت سیاسی را یاد گرفتم. در جنبش صنعت نفت در سراسر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
جنوبی افریقہ کو ہی غصہ کیوں آیا؟
Tumblr media
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جنوبی افریقہ پہلا ملک ہے جس نے ایک نسل پرست، نسل کش ریاست اسرائیل کو عالمی عدالتِ انصاف ( آئی سی جے) کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اب فیصلہ جب بھی ہو، جو بھی ہو، کم ازکم یہ دیومالائی تاثر ٹوٹ گیا کہ اسرائیل کے گریبان پر کوئی مائی کا لال ہاتھ نہیں ڈال سکتا اچھی بات یہ ہے کہ کسی عرب یا مسلمان ملک کے ہاتھوں یہ کام انجام نہیں پایا بلکہ ایک سیکولر غیر عرب، غیر مسلم اکثریتی ریاست کے ہاتھوں یہ کارِ خیر ہوا۔ لہٰذا اس پیٹیشن کو روایتی یہود دشمن مسلمان تعصب بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے تعلقات کی تاریخ میں جائیں تو یہ اسرائیل اور ایران کے تعلقاتی اتار چڑھاؤ سے بہت مماثل ہیں۔ ایران ان چند ممالک میں شامل تھا جنھوں نے اسرائیل کا ریاستی وجود بہت شروع میں ہی تسلیم کر لیا تھا۔ شاہی ایران کو ایک پولیس اسٹیٹ بنانے میں اسرائیل نے بھرپور آلاتی و مہارتی مدد کی۔ بالخصوص خفیہ ایجنسی ساواک کو سفاک بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ تہران فروری انیس سو اناسی تک سی آئی اے اور موساد کا ایشیا میں سب سے بڑا نگراں اسٹیشن تھا۔ 
جب ایران میں انقلاب نے ہر شے الٹ دی تو اس الٹ پلٹ میں اسرائیل، امریکا اور ایران بھی راتوں رات ایک دوسرے کے پکے دوستوں سے پکے دشمنوں میں بدل گئے۔ البتہ اسرائیل کے وجود میں آتے ہی جس اعلیٰ بیرونی عہدیدار نے اس غصب شدہ زمین پر قدم رنجہ فرمایا، وہ کھلم کھلا نسل پرست جنوبی افریقہ کی گوری اقلیتی حکومت کے وزیرِ اعظم ڈینیل ملان تھے۔ انیس سو اکسٹھ میں جنوبی افریقہ کے اگلے وزیرِ اعظم ہنڈرخ ورورڈ نے تل ابیب کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم دو نظریاتی نسل پرست دوست ریاستیں ہیں۔‘‘ (جب یہی بات اکسٹھ برس بعد ایمنٹسی انٹرنیشنل نے کہی تو اسے یہود دشمنی قرار دیا گیا)۔ انیس سو پچھتر میں دونوں ریاستوں نے نسل پرستی کے تصور کو ایک خوشنما زود ہضم نظریے کی شکل دینے کے خاطر سیاسی و نفسیاتی پروپیگنڈے کی جدت کاری کے لیے ایک مشترکہ سیکرٹیریٹ تشکیل دیا۔ انیس سو چھہتر میں جنوبی افریقہ کے وزیرِ اعظم جان وورسٹر نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ 
Tumblr media
اسرائیل نے یہ جاننے کے باوجود ان کے لیے سرخ قالین بچھایا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ نے جان وورسٹر کو ایک نازی ہمدرد ہونے کی پاداش میں کچھ عرصے قید میں بھی رکھا۔ جان وورسٹر کے دورے کے نتیجے میں اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے جنوبی افریقہ کے عالمی بائیکاٹ کے سبب جنوبی افریقہ کے فوجی افسروں کو تربیت کے لیے اسرائیل بھیجا جانے لگا۔ انیس سو اکیاسی تک لگ بھگ دو سو اسرائیلی فوجی مشیر جنوبی افریقہ کی نسل پرست فوج سے منسلک ہو چکے تھے۔ اسرائیل نے جنوبی افریقہ کے ایلیٹ کمانڈو یونٹ کی تشکیل و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ یونٹ جنوبی افریقہ کے اندر اور اردگرد کے ممالک میں افریقن نیشنل کانگریس سمیت دیگر حریت پسند سیاہ فام تنظیموں کو تتر بتر کرنے کی نیت سے قائم کیا گیا۔ یوں اسرائیل نے تنظیم آزادی فلسطین ( پی ایل او ) کے ’’دہشت گردوں ’’ سے نپٹنے کا تجربہ جنوبی افریقہ کے نسل پرستوں کو منتقل کیا۔اسرائیل کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنی ایلبیت سسٹمز نے جنوبی افریقہ کو جدید الیکٹرونکس آلات و اسلحہ سازی کی مقامی صنعت استوار کرنے کے لیے ہر طرح کی مدد بہم پہنچائی۔
جنوبی افریقہ کے عالمی اقتصادی و اسٹرٹیجک بائیکاٹ کے باوجود اسرائیل اقوامِ متحدہ کا واحد رکن تھا جس نے اسی کی دہائی میں جنوبی افریقہ کو پونے دو ارب ڈالر کے لگ بھگ ساٹھ کفر ساختہ لڑاکا طیارے فروخت کیے۔ ان طیاروں کو ہمسائیہ ممالک انگولا ، موزمبیق اور زیمبیا میں قائم اے این سی کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ جنوبی افریقہ کی بحریہ کو اسرائیل نے وہی ریڈار سسٹم فروخت کیا جو وہ خود استعمال کرتا تھا۔ دراصل اسرائیل نے اپنے اسلحے کی صنعت امریکی ٹیکنالوجی کی مدد سے استوار کی اور پھر یہی امریکا ٹیکنالوجی تھرڈ پارٹی ٹرانسفر کے ذریعے جنوبی افریقہ کے ہاتھوں پہنچ گئی۔ امریکا نے اس بارے میں کبھی بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جنوبی افریقہ کی فوج کے پاس جو اسٹینڈرڈ سب مشین گن تھی وہ اسرائیل کی اوزی سب مشین گن کی ہی ایک مقامی نقل تھی۔ اسرائیل کے جوہری پروگرام کی بقا کے لیے جنوبی افریقہ کے یورینیم کی بنیادی اہمیت تھی۔
اس کے بدلے اسرائیل نے جنوبی افریقہ کو فوجی سطح کی جوہری افزودگی کی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی فراہم کی۔ جنوبی افریقہ کو کولڈ بلاسٹ کی صلاحیت فراہم کر کے اسے ایک خاموش جوہری طاقت بنایا گیا۔ نسل پرست حکومت کے خاتمے کے بعد انکشاف ہوا کہ جنوبی افریقہ نے چھ ہیروشیما حجم کے ایٹم بم بنا لیے تھے۔ امریکی سی آئی اے کو یہ راز پہلے دن سے معلوم تھا۔ انیس سو نوے کے عشرے میں پی ڈبلیو بوتھا آخری وزیرِ اعظم تھے جنھوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت کے خاتمے کے سبب اسرائیل براعظم افریقہ میں اپنے سب سے قریبی حلیف سے محروم ہو گیا۔ اپارتھائیڈ نظام کے زوال کے بعد جنوبی افریقہ میں اکثریتی سیاہ فام اے این سی کی قیادت والی حکومت نیلسن منڈیلا کی سربراہی میں قائم ہوئی۔ ستائیس برس کی قید سے رہائی کے بعد جب منڈیلا برے وقت میں ساتھ کھڑے رہنے والے دوستوں سے پہلی بار ملنے زیمبیا پہنچے تو یاسر عرفات بھی منڈیلا کا ماتھا چومنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔
نئے جنوبی افریقہ نے اسرائیل سے سفارتی و اقتصادی تعلقات برقرار رکھے۔ البتہ خارجہ پالیسی کا قطب نما ایک سو اسی ڈگری گھوم گیا۔ پی ایل او کو سفارتی طور پر تسلیم کیا گیا۔ رام اللہ میں جنوبی افریقہ کا سفارتی دفتر قائم ہوا۔ کیپ ٹاؤن کے شہریوں نے فلسطینی اتھارٹی کو دو ہزار پندرہ میں نیلسن منڈیلا کا مجسمہ پیش کیا۔جو اس وقت رام اللہ کے منڈیلا اسکوائر میں ایستادہ ہے۔ منڈیلا نے رہا ہوتے ہی ایک بات کہی جو فلسطین اور جنوبی افریقہ کی سیاہ فام اکثریت کے درمیان مظلوم کے مظلوم سے تعلق کی کہانی کو مکمل طور پر سموئے ہوئے ہے۔ یعنی،’’ جنوبی افریقہ کی آزادی فلسطین کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے۔‘‘ اس جملے کی لاج جنوبی افریقہ کی ہر حکومت رکھ رہی ہے۔ بھلا جنوبی افریقہ سے زیادہ کون نسل پرستی اور نسل کشی کے زہریلے اثرات کے بارے میں جانتا ہے؟ جنوبی افریقہ کی تحریکِ آزادی کے ہیرو آر�� بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو جب پہلی بار فلسطینی اتھارٹی کی دعوت پر مقبوضہ مغربی کنارے پر پہنچے اور انھوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی فوج اور پولیس کا رویہ اور چیک پوسٹوں کا جال دیکھا تو بشپ ٹو ٹو کے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’ ارے یہ سب تو میرے گھر جیسا ہے۔ وہ گھر جہاں میں پیدا ہو، بڑا ہوا ، باشعور ہوا۔ اور پھر اس سب سے نجات پائی۔ ایک دن تم بھی وہ دن ضرور دیکھو گے ۔‘‘ جنوبی افریقہ کی فلسطین پالیسی اس کے سوا کیا ہے ؟
سب پہ جس بار نے گرانی کی اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا (میر) وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکپسریس نیوز
0 notes
hedayatashtarilarki · 2 years
Video
شاه مجرد با رئیس جدید ساواک به ایران میاید
0 notes
najahmali · 2 years
Photo
Tumblr media
شاه هیچکس رو نکُشت و بسیار مهربان بود. 🔹شاه اصلاً اعدام و شکنجه نمی‌کرد؛ ساواک به دستور شاه با مردم بسیار مهربان بود؛ در واقعه میدان ژاله هم کسی را نکشت. شاه مهربان هرگز با دست‌های خودش کسی رو به قتل نرسوند. اگر به موزه عبرت رفته باشید، میبینید که زندانیان شاه تمامی امکانات مدنی مانند استخر، سونا و جکوزی برخوردار بودند و اوضاع طوری بود که حتی قطره‌ای خون از دماغ کسی سرازیر نشد. 🔹او هرگز به کودتا علاقه نداشت و با کودتا حکومت را آغاز نکرد؛ بلکه برپایه همه پرسی مردم او را به عنوان شاه ایران زمین انتخاب کردند. شاه به فقرا بسیار بخشش میکرد، بجز 25 میلیون دلاری که برای جشن‌های 2500 ساله خرج کرد؛ باقی اموال دولت را به رعایا بخشید و هرگز برای خود کاخی نساخت. 🔹شاه نماز می‌خواند، عاشق علما بود. پیوسته با ساواک مذاکره میکرد تا آنان را تبعید ننمایند. زبان روشنفکران را نمی‌دوخت و کسی در بستر بیماری به طرز مشکوکی در نمی‌گذشت! ⚠️گوشه‌ای از فکاهیات سلطنت طلبان در مورد شاه مخلوع ! https://www.instagram.com/p/Cl_lw46Ie23/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
ivnanews · 2 years
Text
داستان سور روحانی برای تغییر نام
روحانی حتی در خاطرات خود چنین عنوان می کند که بعد از این تغییر نام به اطرافیان خود سور هم داده و در دوره ای این تغییر نام به او کمک کرده از دست ساواک رهایی پیدا کند.
0 notes
restart-officer · 3 years
Photo
Tumblr media
🔵✔️ بزودی قسمت دوم اسرار شاه و خمینی ✔️چرا #علیرضا_پهلوی کشته شد؟! چرا همهٔ اخوندها از #خمینی نفرت دارند؟! ✔️نظر #ساواک در مورد خمینی زرتشتیان برای کشتار شیعه و سنی آماده میشوند ✔️راز قتل موسی صدر ! @pastonews لیدر ری استارت :سیاست را ری استارت میکند #موبدان_زرتشتی #آتئیست_زرتشتی https://www.instagram.com/p/CZr0_a5OkZL/?utm_medium=tumblr
0 notes
shahzamani1357 · 2 years
Photo
Tumblr media
، ابتدای توسعه‌ صنعتی دوران سلطنت محمدرضا پهلوی، وابستگی و انتهایش عقب‌ماندگی بود توسعه‌ صنعتی دوران سلطنت محمدرضا پهلوی كه ابتدای آن وابستگی و انتهایش عقب‌ماندگی بود با تكیه بر صنایع مونتاژ وابسته و صنایع سرمایه‌بر و نیروی انسانی خارجی نه تنها نتیجه‌‌ای در بر نداشت بلكه باعث افزایش واردات كالای صنعتی در اواخر عمر رژیم پهلوی شد. صنایع مونتاژ یكی از مهم‌ترین عواملی بود كه در توسعه‌ صنعتی بدون زیرساخت؛ چرخه‌ وابستگی و عقب‌ماندگی را كامل می‌كرد. نیاز به متخصص خارجی از یك طرف و واردات مواد اولیه‌ كارخانه‌های مونتاژ از طرف دیگر نتیجه‌ای جز وابستگی به امپریالیسم برای صنعت ایران در بر نداشت. برای مثال با ركود اقتصادی كه در سال ۱۳۴۹ به بعد گریبان‌گیر صنعت اتومبیل غرب شده بود رژیم پهلوی از یك سو با كاهش تولید و افزایش قیمت پیكان و از سوی دیگر با دادن وام خرید آونجر و تشویق به واردات آن به وابستگی هرچه بیشتر خود مهر تأیید زد. احمد پرخیده ، صنعت و تجربه سیاست‌گذاری صنعتی در ایران ، تهران: مركز اسناد انقلاب اسلامی صص ۱۲۳ تا ۱۲۵   #شاه #پهلوی #برانداز #ولیعهد #ساواک #آریامهر #رضاشاه #سلطنت #رضاخان #شاهنشاه #ثریا_پهلوی #فرح_پهلوی #محمدرضا_شاه #محمدرضا_پهلوی #شهبانو_فرح_پهلوی #شاهزاده_رضا_پهلوی #mohammadreza_pahlavi #mohammadreza_shah #Reza_pahlavi #rezapahlavi #Reza_shah #pahlavi   #shahzamani_1357 @shahzamani_1357 https://www.instagram.com/p/CmwfxXooAX5/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
humansofnewyork · 1 year
Photo
Tumblr media
(30/54) “We were at the eighteenth birthday party of our daughter Ahang when we learned that a crowded movie theater had been set on fire in the town of Abadan. The arsonists had locked the exits from the outside, and four hundred people were killed. It was the largest act of terrorism in the history of Iran. Later it would be discovered that the arsonists were religious fanatics. But Khomeini was able to convince much of the country that the fire had been started by SAVAK, at the order of the king. The riots continued to grow. And the king began to panic. He called for the formation of a new government and fired his ministers. He wanted to replace them with upright people. People who could inspire confidence. People who could not be corrupted. And there was one member of parliament that was trusted most of all. He lived in a simple house. He drove a beat-up car. Nobody could question Dr. Ameli’s integrity. The king asked him to join the new administration as Minister of Information. In his new position he would be responsible for investigating the Abadan fire. If he discovered something that implicated Khomeini, I knew he would become a marked man. I drove to his office. I begged him to turn down the position. I told him: ‘Things have become too dangerous. Let’s stay low, let’s keep in our bunker. Once things have calmed down, we can reemerge. We can take a stand and make our case to the people.’ Thirty years earlier we had sworn an oath, to give our lives for Iran. The years had changed him in so many ways. There was white in his hair now. He was a respected leader. He’d written and spoken on every facet of Iran’s society and history. His thoughts had evolved. His policies had evolved. But his ideals had never changed. Every choice he made, he made for Iran. Every choice. He listened politely while I made my case. He knew. Deep in his heart he knew. He knew even better than I did. If something happened to the king, he was done. He’d have no protection. He’d have no support. But he had already made his decision. He was going to serve.”
 ما سرگرم جشن هجدهمین زادروز دخترمان آهنگ بودیم که دریافتیم سینمای بزرگی در شهر آبادان به آتش کشیده شده است. آتش‌افروزان درهای خروجی را از بیرون قفل کردند، و بیش از چهارسد تن را سوزاندند. این بزرگترین کار تبهکارانه‌ی تروریستی در تاریخ ایران بود. دیرتر آشکار شد که آتش‌افروزان از تندروهای مذهبی بودند. خمینی و یاران تبهکارش به سادگی توانستند به بسیاری بباورانند که آتش‌سوزی کار ساواک بوده است و به فرمان شاه. پیروانش بیش از پیش خشمگین شدند. شورش‌ها رو به فزونی بود. شاه ترسیده بود. نخست وزیر را برکنار کرد و دولت جدیدی سر کار آمد. می‌خواست دولتی درخور اعتماد مردم باشد، دنبال درست‌کردارانی می‌گشت که به عنوان وزیر خدمت کنند. کسانی که آلوده به فساد نبودند. آنانی را که به درستی شهرت داشتند. دکتر عاملی پزشکی توانا، استاد دانشگاه و نماینده‌ی مجلس بود که در خانه‌ای ساده به سادگی می‌زیست و خودروی فرسوده‌ای را می‌راند. مردی ستودنی بود. شاه از او خواست که به دولت جدید به عنوان وزیر اطلاعات و جهانگردی بپیوندد. در آن جایگاه وی سرپرست بررسی حادثه‌ی آتش‌سوزی سینما رکس آبادان بود. او بود که باید تبهکاران را پیدا کند و چنین کاری جانش را در خطر می‌انداخت. هنگامی که شنیدم به او چنین پیشنهادی شده است به دیدنش رفتم و نگرانی‌ام را یادآوری کردم و گفتم بهتر است که ما در سنگر خود بمانیم. سی سال از سوگندی که در همراهی با او برای جان باختن در راه ایران یاد کرده بودم، می‌گذشت. موهایش اندکی به سپیدی گراییده، گرانمایه‌ای ارجمند بود. درباره‌ی تمامی زمینه‌های جامعه و تاریخ ایران نوشته و سخنرانی داشت. اندیشه‌ها و سیاستش پخته‌تر شده و آرمان‌هایش همچنان استوار و پا بر جا بودند. هر تصمیم و گزینشش برای ایران بود. او ‌به سخنانم با ادب و بزرگی همیشگی‌اش گوش داد. می‌دانست، در ژرفای قلبش می‌دانست که اگر سلطنت شاه به خطر افتد، کار او نیز تمام است. از من بهتر می‌دانست که دیگر پناهگاهی نخواهد داشت. ولی او راهش را برگزیده بود. باید خدمت می‌کرد.
135 notes · View notes
afebrahimi · 3 years
Video
‌‌ #ایران_بریفینگ / ‏توصیف خامنه ای از #ساواک و #زندان_اوین در پیش از #انقلاب_شکوهمند_اسلامی ! بحمدالله آن دوران سیاه گذشت و دیگر در #جمهوری_اسلامی کسی در زندانها شکنجه نمی‌شود. #خامنه_ای_دیکتاتور #Farsi🏳️ @Irbriefing @iran.briefing (at زندان اوین) https://www.instagram.com/p/CS_bW7-AKia/?utm_medium=tumblr
0 notes
Photo
Tumblr media
Frames • • • 📚📚📚 انقلاب بر وخامت فلاکت آن ها افزوده بود. از سال ۸۹ پولدار ها چنان حریصانه به خود افتاده بودند و بر ثروت خود می افزودند که حتی ریزه های سفره شان را هم برای کارگران نمی گذاشتند. بیایید ببینید که از صد سال پیش آیا بهرهٔ معقولی از این افزایش بی سابقه ثروت نصیب زحمتکشان شده است؟ با اعلام آزادی کارگران فقط به ریش آن ها خندیده بودند. بله، آزاد بودند که از گرسنگی بمیرند و از این آزادی خوب استفاده می کردند. رأی دادن به گردن کلفت هایی که وقتی انتخاب می شدند شکم گنده می کردند و اعتنایی به وضع بیچارگان نداشتند نانی به سفرهٔ خالی آن ها نیاورده بود. این وضع باید هر جور شده عوض شود... خواه با مسالمت، از راه قوانین و تفاهم و دوستی یا با خشونت و آتش زدن همه چیز و پاره کردن یکدیگر. اگر پیر ها چنین روزی را نبینند بچه ها حتماً شاهد آن خواهند بود. زیرا این قرن ممکن نیست بی انقلاب تمام شود... اما این بار دیگر انقلاب کارگران خواهد بود...انقلابی که جامعه را از بالا تا پایین خواهد شست و جامعه ی دیگری، با صفا و عدالت بیشتری خواهد ساخت. 📚📚📚 📕 از #ژرمینال اثر #امیل_زولا ... از وقتی که خوندمش واقعا دیدم این پاراگراف حرف حسابیه برا خودش با تاریخ انقضای نامحدود در طول تاریخ و صد البته که این تسلسل هم چنان تکرار می شود باشد که عاقبت به خیر شویم😂😂😂😬😎🚶🏻‍♂️ ... تهران موزه عبرت ... Tehran Ebrat museum • • • #ایران#تهران#جمهوری_اسلامی#ساواک#موزه_عبرت#اعتراض#زندان#بازداشتگاه#یادبود#ملا#سیاست_عین_دیانت 😂😂😂#مقوله_نسبیت 📷#پیمان_دانشور #عکسنوشت_پیمان #Iran#Tehran#IslamicRepublic#Ebratmuseum#protest#prison#Mullah#Mullahs##politic#relative#frames#people#Peiman_Daneshvar#PDA_photography
1 note · View note
hedayatashtarilarki · 2 years
Video
سال ۱۳۵۷ ساواک به شاه خیانت ومردم این خیانت را تکمیل کردند
0 notes
nima1taofficialpage · 4 years
Video
سیر تا پیاز وزارت اطلاعات جمهوری اسلامی (قسمت اول): ■وزارت اطلاعات جمهوری اسلامی ایران (به‌اختصار: واجا) از وزارت‌خانه‌های دولت جمهوری اسلامی ایران است،که مسئولیت گردآوری و پرورش اطلاعات امنیتی و برون‌مرزی، حفاظت اطلاعات، فعالیت‌های جاسوسی و ضدجاسوسی و مبارزه با تروریسم را برعهده دارد.هم‌اکنون در دولت دوازدهم سید محمود علوی بعنوان وزیر اطلاعات فعالیت میکند. . 🕵️‍♂️بنیادگذاری : ۲۷ مرداد ۱۳۶۳ 🕵️‍♂️سازمان پیشین : سازمان اطلاعات و امنیت کشور (ساواک) 🕵️‍♂️بودجهٔ سالانه : ۵ هزار و ۸۰۰ میلیارد تومان (۱۳۹۸)[۱][۲] 🕵️‍♂️وزیر مسئول : سید محمود علوی، (وزیر اطلاعات) 🕵️‍♂️سازمان بالادست قوه مجریه جمهوری اسلامی ایران 🕵️‍♂️سازمان زیردست : سازمان حراست کل کشور دانشگاه اطلاعات و امنیت ملی. . تاکنون هیچگونه آمار رسمی از تعداد کارمندان، افسران اطلاعاتی و پرسنل شاغل در وزارت اطلاعات جمهوری اسلامی ایران منتشر نشده است، با این حال، وزارت دفاع آمریکا، در ژانویه ۲۰۱۳ میلادی، گزارشی ۶۴ صفحه‌ای دربارهٔ وزارت اطلاعات جمهوری اسلامی ایران منتشر نمود، که در این گزارش، به نقل از شخصی بنام مگنوس رانستورپ، تعداد پرسنل این وزارت‌خانه در حدود ۳۰ هزار نفر اعلام گردید.[۳][۴][۵] گرچه بخش اعظم از شمار کارکنان منتسب به وزارت اطلاعات، مربوط به آمار کارکنان سازمان حراست کل کشور می‌باشد، که از نیروهای حراست ادارات سایر وزارتخانه‌ها و سازمان‌های دولتی محسوب می‌شوند.[۶] اعضای فعال این وزارتخانه در ادبیات رهبران جمهوری اسلامی، با لقب «سربازان گمنام امام زمان» شناخته می‌شوند.[۷] . پ.ن (منابع) : [۱]«بیشترین بودجه ۹۸ به آموزش‌ و پرورش رسید». خبرگزاری تسنیم. ۴ دی ۱۳۹۷. [۲]سهم وزارتخانه‌ها در بودجه ۱۳۹۵. خبرگزاری مشرق. [۳]How Iran would retaliate if it comes to war. [۴] گزارش پنتاگون دربارهٔ وزارت اطلاعات ایران، رادیو بین‌المللی فرانسه. [۵]پنتاگون: اطلاعات ایران ۳۰ هزار کارمند دارد که بسیاری در عملیات خارجی شرکت دارند، العربیه فارسی. [۶]«شرايط استخدام در وزارت اطلاعات چيست؟». باشگاه خبرنگاران جوان. [۷]«جانیان با نام و نشان از صف سرباز». پیک نت. بایگانی‌شده از اصلی در ۱۲ ژوئن ۲۰۱۲. . #رضاخان #شاه #رضاشاه #محمدرضاشاه #فرح_پهلوی #رضاپهلوی #ارتشبد_فردوست #شاپوربختیار #ارتشبد_قره_باغی #شاپورجی #مصدق #محمدعلی_فروغی #خیانت #خائن #سقوط_شاه #شاهنشاهی #طرح_کمربند_سبز #انقلاب_سفید #وزارت_اطلاعات #سپاه_پاسداران #سپاه_قدس #ناتو #موساد #موساد_شبکه_زیتون #ام_آی_5 #ام_آی_6 #سی_آی_ای #کا_گ_ب #ساواک #نیما یکتا https://www.instagram.com/p/B_xzu9kgpe4/?igshid=2jmt40s2pq2n
1 note · View note
restart-officer · 3 years
Photo
Tumblr media
🔵✔️ بزودی قسمت دوم اسرار شاه و خمینی ✔️چرا #علیرضا_پهلوی کشته شد؟! چرا همهٔ اخوندها از #خمینی نفرت دارند؟! ✔️نظر #ساواک در مورد خمینی زرتشتیان برای کشتار شیعه و سنی آماده میشوند ✔️راز قتل موسی صدر ! @pastonews لیدر ری استارت :سیاست را ری استارت میکند #موبدان_زرتشتی #آتئیست_زرتشتی https://www.instagram.com/p/CZr0_a5OkZL/?utm_medium=tumblr
0 notes