Tumgik
#سرخ
chro2019 · 1 year
Photo
Tumblr media
‏‎#سرخ #سرخکن_بدون_روغن #سرخکن_بدون_روغن_لمسی #غذا #آشپزی #واردات_لوازم_خانگی #لوازم_برقی_خانگی #لوازم_بزرگ_خانگی #لوازم_ریزخانگی #لوازم_غیربرقی_خانگی #حراجی_لوازم #اف_خورده #تخفیفات #جهیزیه #کابینه #عروس #جهیزیه_عروس #اقساط #کمپانی_چرو #تامین_قطعات #پشتیبانی_کالا #شرکت_بازرگانی_تجاری_چرو #بازرگانی_چرو #چرو #chro #companychro‎‏ (در ‏‎شرکت بازرگانی تجاری چرو‎‏) https://www.instagram.com/p/CoohapwN8m8/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
urdu-e24bollywood · 1 year
Text
سونم کپور سرخ رنگ کے لباس میں گرمی کا ایک لمس فراہم کرتی ہیں۔
سونم کپور سرخ رنگ کے لباس میں گرمی کا ایک لمس فراہم کرتی ہیں۔
سونم کپور نظر آئیں: سونم کپور بالی ووڈ کی خوبصورت اداکاراؤں کی فہرست میں شامل ہیں۔ سونم کپور کو سٹائل کوئین کہا جا سکتا ہے، جو اپنے فیشن کو لے کر بحثوں میں رہتی ہیں۔ سونم کپور کی تصاویر سوشل میڈیا پر آتے ہی تیزی سے ٹرینڈ ہونے لگتی ہیں اور اب جیسے ہی ایک بار پھر ان کی چند تصاویر منظر عام پر آئی ہیں، جن کے ذریعے اداکارہ کا قاتل اوتار دیکھا جا رہا ہے۔ ان تصاویر کو دیکھ کر سونم کپور سے نظریں ہٹانا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
قطر نے وزیر اعظم شہباز شریف کے لیے سرخ قالین بچھا دیا۔
قطر نے وزیر اعظم شہباز شریف کے لیے سرخ قالین بچھا دیا۔
دوحہ: وزیر اعظم شہباز شریف کا دو روزہ سرکاری دورے پر دوحہ پہنچنے پر ریڈ کارپٹ استقبال کیا گیا جہاں وہ قیادت کے ساتھ “گہرائی سے مشاورت” کریں گے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کے لیے تاجر برادری سے بات چیت کریں گے۔ جب وزیراعظم دوحہ ایئرپورٹ پر اترے تو قطر کے وزیر ٹرانسپورٹ جاسم سیف احمد السلیطی نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کی دعوت پر اپریل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
tajkalaa · 2 years
Video
سرخ کن بدون روغن فیلیپس مدل 9270
با استفاده از این سرخ کن همه کاره می توانید انواع رسپی ها را بدون روغن و یا حداقل با کمترین میزان چربی تهیه و آماده سرو نمایید. این دستگاه با کمک المنتی که بر روی آن تعبیه شده است گردش هوا را در میان مواد غذایی قرار گرفته شده درون آن به جریان می اندازد که موجب پخت بهتر و سالم تر آنها خواهد شد. لطفا جهت کسب اطلاعات بیشتر به سایت زیر مراجعه فرمایید
https://www.aparat.com/v/7Zbj1
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
سرخ پیازمتعددبیماریوں کے خلاف قوت مدافعت میں اضافہ کرتا اور نظام انہضام کو بہتر بناتا ہے، ماہرین صحت
سرخ پیازمتعددبیماریوں کے خلاف قوت مدافعت میں اضافہ کرتا اور نظام انہضام کو بہتر بناتا ہے، ماہرین صحت
میڈرڈ(عکس آن لائن):ماہرین صحت نے کہا ہے کہ سرخ پیازمتعددبیماریوں کے خلاف قوت مدافعت میں اضافہ اور نظام انہضام بہتر بناتا ہے۔ یونیورسٹی آف بارسلونا کے شعبہ صحت کے ماہرین کی حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سرخ پیاز میں پائے جانے والے اینٹی آکسیڈنٹس متعدد بیماریوں کے خلاف مزاحمت، قوت مدافعت میں اضافے اور نظام انہضام کو بہتر بنا نے میں مفید ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سرخ پیاز دیگر اقسام کے پیاز کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
humansofnewyork · 8 months
Photo
Tumblr media
(16/54) “When the children were old enough I started reading them Shahnameh before they went to sleep. The stories of Rostam were too violent. They’d cry and cry. So I started with the stories of Iran’s mythic kings. These were the first kings of Iran. They discovered fire, language, and law. Some of them spoke to animals. Others lived for hundreds of years and sat on floating thrones made entirely of precious stones. It’s not known if Ferdowsi intended to name his book Shahnameh. The Book of Kings. But the title fits. For as long as there has been an Iran, there has been a king. In 1967 Mohammed Reza held a coronation ceremony. By that time he’d already been king for twenty years. But he’d wanted his coronation to wait, until Iran was prosperous. And now it was. The Shah had come a long way since that day I’d first seen him in the shrine. He’d tightened his grip on power, and his popularity was at an all-time high. The White Revolution had been a massive success. Iran was rapidly industrializing. Millions of Iranians were lifted out of poverty. Hundreds of new schools and universities were built. And it was a time of great freedom. Iranian women had more rights than anywhere else in the Muslim world. They could vote, obtain a divorce, own property, and run for office. In the words of Saadi: ‘The homeland is where no one disturbs the other.’ In Tehran you could see women in mini-skirts standing next to women who were fully-veiled. On the day of his coronation The Shah rode to the palace in a golden carriage pulled by eight Hungarian stallions. As he passed the streets were filled with shouts of ‘Long Live The King!’ Trumpets blared. Guns fired. The Air Force dropped 17,532 roses from the sky. One for every day of his life. At the coronation a crown of diamonds was placed upon his head, and he took his seat on the famous Naderi throne. It was decorated with carvings of lions and dragons. And it was covered with 25,000 precious stones.”
 هنگامی که بچه‌ها به سن دبستان رسیدند، شب‌ها خواندن داستان‌های شاهنامه را پیش از خوابشان آغاز کردم. بسیاری از داستان‌های رستم پر از خون و‌خشونت بودند. آنها را به گریه می انداخت. بنابراین از داستان‌های پادشاهان افسانه‌ای ایران آغاز کردم. آنها نخستین پادشاهان ایران و جهان آشنای آن روزگار بودند. آفریننده‌ی آتش، زبان و قانون. برخی از آنان جانوران را رام و با آنان زندگی می‌کردند. برخی دیگر سدها سال زنده می‌ماندند و بر تخت‌هایی که از سنگ‌های گرانبها درست شده بودند، می‌نشستند. روشن نیست که آیا فردوسی می‌خواست نام کتابش شاهنامه باشد یا نه. ولی نامی زیبنده‌ی کتاب است. از نامه ی شهریاران پیش سخن می‌گوید: من این نامه‌ی شهریاران پیش / بگفتم بدین نغز گفتار خویش. پادشاهی از ایران برآمده است. در سال ۱۹۶۷ مراسم تاج‌گذاری‌اش برگزار شد. تا آن هنگام بیش از بیست سال از پادشاهی‌اش گذشته بود. ولی او تاجگذاری‌اش را تا رسیدن به پیشرفت ایران به عقب انداخته بود. و اکنون پیشرفتی به دست آمده بود. شاه از نخستین باری که او را در حرم دیده بودم راه بلندی را پیموده بود. او بر قدرت سیاسی‌اش افزوده و محبوبیتش به اوج رسیده بود. انقلاب سفیدش موفقیت‌آمیز بود. میلیون‌ها ایرانی از فقر رهایی یافته بودند. سدها مدرسه و دانشگاه نوین ساخته شده بود. ایران به سرعت در حال صنعتی شدن بود. و دوران آزادی‌های بزرگ فرا می‌رسید. زنان ایرانی نسبت به دیگر جاها در جهان اسلام از حقوق بیشتری برخوردار بودند. آنها می‌توانستند رأی بدهند، درخواست طلاق کنند، صاحب دارایی شوند و نامزد انتخابات گردند. سعدی چنین گفته بود: وطن آنجاست کآزاری نباشد / کسی را با کسی کاری نباشد. در تهران، زنانی را می‌شد دید که با دامن‌های کوتاه در کنار زنانی با چادر و حجاب کامل ایستاده‌اند. در روز تاجگذاری شاه سوار بر کالسکه‌ی سلطنتی زرین که به وسیله‌ی هشت اسب مجاری کشیده می‌شد به کاخش رفت. در طول راه، خیابان‌ها پر از مردمی بودند که فریاد «جاوید شاه!» سر می‌دادند. شیپورها نواخته شدند. تفنگ‌ها شلیک شدند. و نیروی هوایی ۱۷۵۳۲ عدد گل سرخ از آسمان رها کرد. یک گل برای هر روز زندگی‌اش. در آیین تاجگذاری، شاه تاجی با ۳۰۰۰ قطعه الماس بر سر نهاد و بر تخت نادری نشست. تختی آراسته به ۲۵۰۰۰ یاقوت کبود، زمرد و یاقوت سرخ
152 notes · View notes
honeyandelixir · 7 months
Text
سوچنے دو اک ذرا سوچنے دو یہ بھرا شہر جو اب وادئ ویراں بھی نہیں اس میں کس وقت کہاں آگ لگی تھی پہلے اس کے صف بستہ دریچوں میں سے کس میں اول زہ ہوئی سرخ شعاعوں کی کماں کس جگہ جوت جگی تھی پہلے سوچنے دو
let me think for a while…
Where in that once-teeming city,
forsaken even by loneliness now,
was that fire first lit that burned it down to ruins?
From which of its blacked-out rows of windows
flew the first arrows, tipped with blood?
In which home was the first candle lit?
Let me think…  
Faiz Ahmed Faiz Tr. Agha Shahid Ali
21 notes · View notes
amiasfitaccw · 3 months
Text
گڈ لک ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
مکمل کہانی
فوزیہ باجی کے گھر کام کرتے تیسرا سال تھا۔
جب یہاں آیا تھا تو کم عمر لڑکا تھا۔ اب اچھی خاصی مسیں بھیگ چکی تھیں۔
بچپن کی معصومیت رخصت ہو گئی تھی اور چہرے پر مردانہ کشش جگہ بنا رہی تھی۔
عام طور پر بنگلوں میں گھریلو کاموں کے لیے لڑکیاں ملازم رکھی جاتی ہیں لیکن فوزیہ باجی کی سمجھ داری تھی کہ وہ مجھ سے باہر کے کام سودا سلف ، گاڑی کی صفائی وغیرہ کے ساتھ برتن کپڑے گھر کی جھاڑ پونچھ بھی کرواتی تھی یوں دو کے بجائے ایک کی تنخواہ میں مزے سے مالکن بنی بیٹھی تھی۔
شروع کا کچھ عرصہ چھوڑ کر یہ سب معاملہ میری سمجھ سے باہر نہ تھا لیکن یہ سارا کام اتنا کٹھن بھی نہ تھا کہ میں کام بدلتا۔
Tumblr media
میرا رشتے کا چچا جو قریبی مارکیٹ میں پھل فروخت کرتا تھا اس کی بھی یہی تجویز تھی کہ جب تک یہاں سے روزی چلے ، کام کرتے رہو۔
ایسی مفت رہائش اور کھانے کے ساتھ نوکری چھوڑنے کی چیز نہیں۔
پرانے کپڑے بھی ملتے تھے۔
نوکری کی ابتدا میں ڈرائیور نے اردو پڑھنا بھی سکھا دیا تھا۔باقی کسر ٹیلیویژن نے پوری کی اور اب میں پٹھان ہوتے ہوئے بھی صاف اردو بولتا تھا۔
فوزیہ باجی کے بنگلہ پر ایک عورت نجمہ آتی تھی۔
ہفتے میں دو سے تین بار
عمر میں مجھ سے کم سے کم دگنی ہو گی یا شاید اس سے بھی زیادہ۔
ڈرائیور نے بتایا تھا کہ یہ ان کی دور کی رشتے دار ہے۔
ایک طرح سے وہ فوزیہ باجی کی ذاتی ملازمہ تھی
ٹیلر کی دکان کے کام سے لے کر سر میں تیل ڈالنے تک بےشمار کام اس کے حوالے تھے۔
اچھی بھلی خوبصورت اور دلکش عورت تھی۔
کچھ فاصلے پر کھیل کی میدان کے پار فلیٹوں میں اپنی ساس کے ساتھ رہتی تھی۔ میری ذات میں اس کو خاص دلچسپی تھی۔
شاید بےاولاد ہونے کی وجہ سے۔۔۔۔۔
پہلی بار جب ملی تو میرا مکمل انٹرویو لیا۔۔۔۔
میری کمزور اردو پر کھل کر ہنستی رہی۔۔۔۔
اور مجھے تصیح کرتی رہی۔۔۔
بعد کے عرصہ میں بھی اس کا یہ معمول رہا کہ مجھ سے بات چیت میں اس کو مزا آتا۔۔۔۔
کبھی میری غیر موجودگی میں آ کر چلی جاتی تو اگلے چکر پوچھتی بتاؤ کہاں تھے۔
بےتکلفی الگ ہی نوعیت کی تھی۔۔۔
راستہ میں آتے جاتے سیاہ چادر بدن پر لپیٹ کر نکلتی۔۔۔
پھر ایک روز جب گرمیوں کے موسم کا آغاز باقاعدہ طور پر ہو چکا تھا۔
ظہر سے قبل فوزیہ باجی کسی فوتگی پر چلی گئی۔۔
گھر پر کوئی نہ تھا علاوہ فوزیہ باجی کی ساس کے جو اپنے کمرے سے کم ہی نکلتی تھی
میں نے حسب معمول گھر کی صفائی ختم کی اور اوپری منزل پر لیٹ گیا۔۔۔۔۔
کہنی سے چہرہ ڈھانپ کر گنگنا رہا تھا کہ زینے پر آہٹ ہوئی۔
چہرے سے ہاتھ ہٹا کر دیکھا تو نجمہ چلی آ رہی
تھی۔۔۔
Tumblr media
میں اسے دیکھتے ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
اس نے مسکرا کر پوچھا۔۔۔۔۔
زمان ۔۔۔۔۔ تمہاری باجی کہاں ہیں۔۔۔؟
اپنے کسی رشتے دار کے ہاں گئی ہوئی ہیں۔۔۔
مار ڈالا کمبخت نے۔۔۔۔۔۔۔
نجمہ نے آنکھوں سے دھوپ کا چشمہ اتار کر رومال سے پسینہ خشک کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
اس وقت وہ گلابی کلر کا لان کا سوٹ پہنے ہوئی تھی۔ ست رنگی دوپٹہ کاندھے پر رسی کی مانند ٹنگا ہوا تھا۔ سیاہ چادر ہاتھ میں تھی۔
دھوپ میں چل کر آنے کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔
وہ چشمے کی کمانی دانتوں میں دبا کر کچھ
سوچنے لگی۔۔۔۔۔۔
میری نگاہیں اس کے حسین پیکر پر جمی ہوئی تھیں۔
جن جگہوں سے پسنے کی نمی نے لباس کو متاثر کیا تھا وہاں سے بدن جھلک رہا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ ایک دراز قد کی دلکش اور صحت مند عورت تھی۔
اس کے سینے پر نگاہ گئی تو صبح کو خربوزے خریدنے کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔
میں نے کبھی کسی عورت کو بے لباس نہیں دیکھا تھا۔۔۔
بازارِ میں سبزیوں کی دکان پر کام کرنے والے لڑکے سے کچھ دوستی تھی اس نے مرد عورت کے تعلق کو مجھ پر ایک انگریزی رسالے کی مدد سے ظاہر کیا تھا۔۔۔۔
اس کو تجربہ بھی تھا ایک فقیرنی کے ساتھ۔۔۔
میں نجمہ کو کچھ دیر یوں ہی دیکھتا رہا۔۔۔۔۔
اس وقت وہ مجھ کو بہت اچھی معلوم ہو رہی تھی۔۔
چند سیکنڈ بعد میں نے اس سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔
کوئی ضروری کام تھا۔۔۔۔۔۔؟
نہیں۔۔۔۔۔ نجمہ نے اسی طرح سوچتے ہوئے جواب دیا۔
گھر پر طبعیت گھبرائی۔۔۔۔
میں نے کہا چلو فوزیہ کے ہی پاس چل کر گپیں لڑائیں۔۔۔۔
تو پھر چلیے۔۔۔۔۔۔۔
Tumblr media
کمرے میں بیٹھیے۔۔۔۔۔
نجمہ نے مجھے معنی خیز نگاہوں سے دیکھا اور مسکرا کر پوچھا۔۔۔۔۔۔
کچھ خاطر تواضع بھی کرو گے ۔۔۔۔۔
کیوں نہیں۔۔۔۔
میں نے بڑھ کر کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
وہ میرے ساتھ ہی کمرے میں داخل ہوئی اور پلنگ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
میں نے پنکھا کھول دیا اور اس سے کہا۔۔۔۔۔
اب اس قدر گرمی میں کہاں جائیں گی۔۔۔۔۔۔
یہیں آرام کیجیے۔۔۔۔
Tumblr media
سینڈل اتار ڈالیے۔۔۔
گھر سے یہاں تک آنے میں پسینے میں تر ہو گئی ہوں۔۔۔۔
غسل کر لیجیے۔۔۔بہتر محسوس ہوگا
ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھی، دوپٹہ سرہانے پھینکا اور سینڈل اتارتی ہوئی غسل خانے میں چلی گئی۔
میں کمرے کے دروازے کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔
اندر سے فوارے کا پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔
کچھ دیر بعد نجمہ نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر جھانکا اور مجھ سے کہا۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد نجمہ نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر جھانکا اور مجھ سے کہا۔۔۔۔۔۔۔
زمان یہاں تولیہ نہیں ہے۔
جسم کس چیز سے خشک کروں۔۔۔۔۔۔؟
اس کے لہجے کی شوخی نے مجھے ایک عجیب احساس سے دوچار کیا
میں نے الماری سے تولیہ نکالا اور غسل خانے کے دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے پکارا۔۔۔۔
" تولیہ لیجیے "
ایک بار پھر دروازے کی جھری ایک بڑے خلا میں بدلی اور نجمہ کا چہرہ نمودار ہوا۔۔۔
اس نے تولیہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور اس قدر بڑھایا کہ اس کا سینہ بھی جھانکنے لگا۔۔۔
میرے قدم جہاں تھے وہیں تھم گئے۔۔۔۔
Tumblr media
اور تولیہ میرے ہاتھ سے گر گیا۔۔۔
اس کے بال کھلے ہوئے تھے اور لٹوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔۔۔
دروازے کا کنارہ اس کے سینے سے چپکا ہوا تھا۔۔۔
اس کے کاندھوں تک ننگے بازو اور سینہ دیکھ کر میرے جذبات میں ہیجان پیدا ہو گیا اور میں جہاں تھا وہیں کھڑا رہ گیا۔۔۔۔
اس نے مسکرا کر میری کیفیت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پکارا۔۔۔
"تولیہ دے دو"
میں نے پر شوق نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اگر آپ نے تولیے سے بدن خشک کر لیا تو غسل کا فائدہ ہی کیا۔
لطف تو جب آتا ہے جب پنکھے کی ہوا بھیگے ہوئے جسم پر لگتی رہے۔۔۔
تو نہ خشک کروں تولیہ سے۔۔؟
نجمہ نے معصومیت سے پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیال سے تو خشک کرنا بےکار ہے۔۔۔
تو پھر میرے کپڑے جو بھیگ جائیں گے۔۔۔۔ وہ بولی۔۔۔
ابھی کپڑے پہن کر کیا کیجیےگا۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا۔
اس نے ہنس کر کہا۔۔۔
تو کیا میں یوں ہی ننگی آ جاؤں کمرے میں۔۔۔۔؟
ہرج ہی کیا ہے۔۔۔۔ میں نے دھیرے سے کہا۔۔۔
تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو کیا میں تمھارے سامنے ننگی آ جاؤں۔۔۔
Tumblr media
میں تو آپ کا خادم ہوں۔۔۔
مجھ سے کیا پردہ۔۔۔
آپ کی سہیلی بھی مجھ سے کوئی تکلف نہیں کرتیں اگر لباس بدلنا ہو تو۔۔۔
میں نے اس کو بتایا۔۔۔۔
نہیں ، میں اس طرح نہ آؤں گی
تم مجھے کوئی چادر لا دو۔۔۔۔۔
نجمہ نے مجھے دیکھتے ہوئے نشیلی آواز میں کہا۔۔۔۔
میں نے ایک باریک ریشمی چادر نکال کر اس کو دے دی اور وہ اس کو اپنے بھیگے بدن پر لپیٹ کر باہر آ گئی۔۔۔
کچھ دیر قبل دیکھا ہوا اس کا تھن میرے حواس پر چھایا ہوا تھا۔
میں نے اس کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
اس وقت تو آپ جل پری معلوم ہو رہی ہیں۔۔۔۔
وہ ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔۔۔
اچھا جی۔۔۔۔
اب تمہیں مسکہ لگانا بھی آ گیا ہے۔۔۔۔۔
میں نے کہا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسم لے لیجیے اگر جھوٹ لگے تو۔۔۔۔۔۔
آپ زرا خود کو آئینے میں تو دیکھیں۔۔۔ یقین آ جائے گا۔۔۔
اپنی تعریف سن کر وہ اس درجہ خوش ہوئی کہ مدہوشی کے عالم میں فخر کے ساتھ خود کو آئینے میں دیکھنے لگی۔۔۔
پھر بولی ۔۔۔۔۔
Tumblr media
زمان ۔۔۔۔!! ۔ دروازہ کھلا ہے۔۔۔۔
اگر کوئی اس طرح مجھے اور تمھیں یہاں دیکھ لے تو کیا ہو۔؟
کچھ بھی نہیں۔۔۔ میں نے کہا
میں تو ایک معمولی ملازم ہوں اور کوئی ہوتا تو چاہے کوئی شک بھی کرتا۔۔۔۔۔
نجمہ نے کہا۔۔۔۔۔۔
نہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔
تم دروازہ بند کر دو۔۔۔۔
میں اب خوشی کے مارے اپنے حواس میں نہ تھا۔
کانوں کی لویں گرم ہو رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی
اور
گلا خشک ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے لپک کر دروازہ بند کیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے لپک کر دروازہ بند کیا اور کنڈی لگا دی پھر جو پلٹ کر دیکھتا ہوں تو وہ پلنگ پر چت لیٹی چھت پر نظریں جمائے سوچ میں گم تھی۔
Tumblr media
چادر جو غسل خانے سے باہر نکلتے ہوئے اس نے لی تھی، زیادہ وسیع نہ تھی۔
پہلے بھی گھٹنوں سے اوپر تھی
اب لیٹنے سے اور بھی بے ترتیب ہو گئی تھی
اس کا جھلکتا بدن ایک یادگار نظارہ تھا
سینے کے ابھار دیکھ کر میری سانس رکنے لگی
بہت سوچ کر ایک خیال سوجھ ہی گیا
میں نے پاس جا کر کہا ہاتھ پاؤں دبا دوں ۔۔۔۔۔؟
آپ تھکی ہوں گی۔۔۔۔۔۔
Tumblr media
اس نے مجھ پر ترچھی نظر ڈالی اور مسکراہٹ دبا کر کہا۔
جو چاہو دبا دو
واقعی میرے سارے جسم میں درد ہو رہا ہے۔
پھر کیا تھا، مجھے تو سمجھو اجازت کی صورت میں خزانہ مل گیا۔
میں نے گھٹنوں کو فرش پر ٹکایا اور اس کی برہنہ ٹانگیں پاؤں سے گھٹنوں تک دبانے لگا
پاؤں سے شروع کرتا اور گھٹنوں سے ایک مٹھی اوپر تک دبا کر واپس پاؤں پر لوٹ آتا
جب دونوں ٹانگوں کو بےشمار دفعہ دبا کر دل بھر گیا تو میری توجہ اپنی شلوار کی طرف گئی جہاں میرا ہتھیار پلنگ کی کناری سے ٹکرا ٹکرا کر بپھر چکا تھا
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مجھے آگے کی حکمت عملی سوجھ نہیں رہی تھی اور وہ مزے سے آنکھیں موند کر گہری سانسیں لے رہی تھی جس کے سبب سینہ کی بلندی کبھی بڑھ جاتی کبھی کم ہو جاتی۔
پھر سے شیطان نے آئیڈیا بھیجا اور میں نے یکایک نوٹ کیا کہ جیسے وہ چادر کو شال کی طرح لپیٹ کر باہر آئی ہے اسی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور چادر کا ایک سرا پکڑ کر یوں الٹ دیا جیسے آپ کتاب کا سرورق کھولتے ہیں۔
اگلے پل اس کا سینہ نصف سے زیادہ میرے سامنے ننگا تھا۔
فوراً ہی اس نے آنکھیں کھول کر حیرانگی اور بدحواسی سے مجھے دیکھا۔
Tumblr media
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتی، میں نے اس کا ہاتھ کلائی سے پکڑا اور فضا میں بلند کرتا ہوا پلنگ کے سرہانے کی طرف لے گیا۔
ہاتھ کو وہاں ٹکا کر میں نے چادر پھر سے وہیں ڈال دی جہاں وہ پہلے تھی۔
اور بازو کو سرہانے سے واپس اس کے پہلو میں لے آیا۔
سیکنڈوں میں سب کچھ ہو گیا۔
وہ کچھ کہتے کہتے چپ رہ گئی لیکن کچھ سیکنڈ مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھتی رہی ۔
میں بے نیازی سے اس کے بازو کو دبانے میں خود کو مگن ظاہر کرتا رہا۔
اب ہمارے درمیان ایک طرح کا بلی چوہے کا کھیل چل رہا تھا کہ پہل کون کرتا ہے۔
میں اناڑی پن سے دوچار تھا اور وہ میرے حال سے لطف اٹھا رہی تھی۔
کچھ لمحوں کے لیے اس نے آنکھیں بند کیں تو میں نے وہی عمل دہرایا اور دوسرے ہاتھ کو بھی چادر سے باہر نکال دیا۔
Tumblr media
اس بار چادر کو بے ترتیبی سے ڈالا کہ سینہ محض نام کو ڈھکا ہوا تھا اور بیشتر بالائی حصہ ظاہر تھا۔
یہاں ایک تجزیہ پیش کرتا چلوں کہ جو شاعروں نے ہزاروں پرچے محبوبہ کی زلفوں اور نگاہوں کی تعریف میں کالے کیے ہیں سب بےکار ہیں۔
میں جتنی دیر اس کے ساتھ رہا ایک پل بھی میری توجہ اس کی چھاتیوں سے کہیں اور منتقل نہ ہو سکی۔
آج اس کی شکل بھی یادداشت میں واضح نہیں لیکن اس کا سینہ ایک پل میں آنکھیں بند کر کے چشم تصور سے صاف طور سے دیکھ سکتا ہوں۔
شاید اس لیے کہ وہ پہلی بار تھا ۔
شاید اس لیے کہ وہ بے مثال تھا۔
لیکن اس کے بعد کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے ہر عورت کا موازنہ اس کے ساتھ نہ کیا ہو۔
بازو دبانے میں کچھ خاص لطف نہ تھا۔ میں نے غیر محسوس انداز میں انگلیوں کی مدد سے چادر کو ذرا سرکایا کہ وہ دوبارہ سے برہنہ ہونے لگی۔
یہ بات اس نے محسوس کر لی اور دوسرے ہاتھ سے چادر کو درست کر لیا۔
میرے ذہن میں آگے کا کچھ خاکہ نہ تھا۔ میرا واحد مقصد اس کے سینے کو دوبارہ دیکھنا تھا لیکن بہرحال میں تھا تو ایک ملازم۔
وہ مالکن نہ سہی لیکن اس سے کم بھی نہ تھی۔
ماحول ایک دم سنجیدہ تھا کبھی اس کے چہرے پر مسکان جھلکتی تو کبھی چہرہ بےتاثر ہو جاتا۔
Tumblr media
میں نے اکتا کر سوچا کچھ ایسا ہو کہ یہ پلنگ سے اترے۔۔
شاید کوئی صورت نکلے
ہاتھ دبانا چھوڑ کر میں نے کہا
سر دبا دوں
نہیں، وہ بولی
ادھر درد ہے۔ اس نے اپنی رانوں کو چھوا۔
دبا دیتا ہوں۔ میں نے کہا
نہیں۔ اوپر آؤ اور میری ٹانگوں پر بیٹھ جاؤ۔
میں تعجب کی کیفیت میں دونوں گھٹنے اس کے پہلوؤں سے ملا کر دوزانو ہو کر اس کی رانوں پر بیٹھ گیا۔
آ ہ ہ ہ ہ۔ ۔ ۔ ۔
اس کے لبوں سے ایک کراہ برآمد ہوئی۔
میں نے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ ٹکا کر اپنا وزن اس پر سے کم کیا۔
کہنے لگی۔ یوں تو دبلے پتلے ہو لیکن وزن رکھتے ہو۔
ذرا آگے سرک جاؤ۔
جی اچھا کہہ کر میں کچھ آگے ہو گیا۔
اب میری گیندیں عین اس کی شرم گاہ کے قریب تھیں
لیکن آپ میری سادگی دیکھیں کہ میرے ذہن میں اس وقت بھی ایک ہی خواہش تھی کہ میں کسی طرح اس کا سینہ دیکھ سکوں۔
Tumblr media
اف........ آرام تو مل رہا ہے لیکن وزن زیادہ ہے تمہارا۔۔
یوں کرو کہ تم لیٹ جاؤ
یہ کہتے ہوئے اس نے میرے دونوں ہاتھ میرے گھٹنوں سے اٹھائے اور انگلیاں پھیلا کر پنجے میں پنجہ جکڑ لیا۔ پھر جو اپنے دونوں ہاتھوں کو اس نے دائیں بائیں پھیلاتے ہوئے مجھے اپنی طرف کھینچا تو میں اس پر جھکتا چلا گیا
یہاں تک کہ میرا سینہ اس کے سینے پر ٹک گیا۔
دو سیکنڈ یا شاید تین گزرے ہں گے ۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ہاتھ چھوڑ کر مجھے شانوں سے پکڑا اور واپس اٹھا دیا
میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو بولی۔۔۔
پسینہ کی بو آتی ہے۔۔
قمیض اتارو
میں نے بلا توقف قمیض اتار ڈالی
بنیان بھی اتارو
میں نے یہ بھی کیا
بنیان سے آخری بازو نکال کر کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے سینے سے چادر ہٹا دی ہے۔
Tumblr media
میں ٹھیک سے دیکھ بھی نہ پایا کہ اس نے مجھے کہنیوں سے تھام کر خود پر جھکا لیا
اس حد تک کہ میرا گال اس کے گال کو چھونے لگا
اور میرا ہتھیار جو پہلے سے سوجا ہوا تھا اب مکمل طور پر اکڑ کر اس کی ناف کے نچلے حصے سے رگڑ کھانے لگا۔
لاتیں بھی سیدھی کرو۔ وہ بولی
میں اب اس کے اوپر بالکل سیدھا لیٹا ہوا تھا۔
اس نے اپنے ہاتھوں سے میری پشت کو سہلایا اور پھر ایک ہاتھ میرے سر کے پیچھے رکھ کر میرے گال سے گال رگڑنے لگی۔
میری خواہش قدرے مختلف انداز میں پوری ہو گئی تھی
گو کہ میں اس کے سینے کو دیکھ نہیں پا رہا تھا لیکن اپنے سینے پر اس کے سینے کا لمس ایک جادو بھرا احساس تھا۔
Tumblr media
اس نے اپنی ایک ٹانگ میرے گرد لپیٹی اور یکایک پلٹی کھائی کہ میں اب اس کے نیچے تھا
وہ اپنی شرمگاہ کو میرے ہتھیار پر رکھ کر حرکت دینے لگی۔
اس نے اپنے پاؤں کو میری پنڈلی پر دو چار دفعہ رگڑا۔۔۔
میرے گال کا بوسہ لیا اور پھر اٹھ کر مجھ پر بیٹھ گئی
جیسے کچھ دیر قبل میں اسکے اوپر بیٹھا تھا
اب میں اس کا سینہ بہت قریب سے دیکھ رہا تھا
اس نے میری نگاہوں کا ہدف بھانپ لیا ۔
میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر ذرا سا جھکی اور میرے ہاتھ اپنے پستانوں پر رکھ کر غمگین انداز میں بولی۔
ان سے میں بہت تنگ ہوں
دیکھو تو یہ کتنے بڑے ہیں
یہ مجھے بہت درد دیتے ہیں
میں نے دونوں تھن گرفت میں لینے کی کوشش کی لیکن میں نے اپنی انگلیوں کی لمبائی کو ناکام پایا۔
زور سے پکڑو۔
آٹا گوندھا ہے کبھی تم نے۔۔۔؟
اس نے پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے بتایا
اچھا دیکھا تو ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔
Tumblr media
جی ہاں۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا
بس وہی کرنا ہے۔۔۔
میں تو ایک ملازم تھا
اکیلے کمرے میں اس کے ساتھ تنہا
وہ بھی ایسی صورت حال میں کہ وہ مجھ کو بستر پر لٹا کر مجھ پر چڑھی بیٹھی تھی
انکار کی مجال ہوتی بھی تو ایسا غضب کا موقع کون جانے دیتا ہے
سو میں نے پوری تسلی سے اس کی چھاتیوں کا بھرکس نکال کر رکھ دیا۔
اس دوران وہ آنکھیں بند کیے عجیب سی مبہم آوازیں نکالتی رہی۔
آخر اس نے آنکھیں کھولیں اور سیدھی ہو گئی
کہنے لگی کچھ فرق پڑا ہے
ٹانگوں میں ابھی درد باقی ہے
میری نگاہ اس کی شرم گاہ کی طرف گئی۔
چادر ابھی بھی اس کے نچلے دھڑ سے الجھی ہوئی تھی۔
اس نے کہا
میری کسی بات کا برا تو نہیں لگا تم کو۔
Tumblr media
نہیں بالکل نہیں۔
اس نے میرے ہتھیار پر اپنی شرمگاہ کو حرکت دی اور بولی
بس ایک آخری چیز اور
شاید چین آ جائے
تکیہ اٹھایا اور میرے چہرے پر رکھ کر بولی اپنے ہاتھوں کو اپنے سر کے نیچے رکھو۔
میں نے ایسا ہی کیا۔
وہ قدرے پیچھے کو سرک کر بیٹھی۔ تقریباً میرے گھٹنوں سے زرا سا اوپر ۔۔۔۔۔۔۔
یوں ہی رہنا۔۔۔۔۔۔ ۔ وہ بولی
اور نہایت پھرتی سے اس نے میرا ناڑا کھینچ ڈالا
جوتوں کی لیس والی ڈیڑھ گرہ لمحے میں کھل گئی۔
Tumblr media
دوسرے ہاتھ سے اس نے شلوار کا گھیر ڈھیلا کیا اور دونوں ہاتھ سے نیچے کھینچ دی
میں نے بوکھلا کر اپنے ہاتھ نکالے اور تکیہ ہٹایا لیکن میرے سنبھلنے تک وہ پوزیشن بدل کر عین میرےہتھیار کے اوپر تھی
جو کہ پہلے ہی راکٹ کی صورت اختیار کیے ہوئے تھا
اس کاایک ہاتھ اپنی شرمگاہ پر تھا اور دوسرے سے اس نے میرے ہتھیار کو پکڑ کر پوزیشن بنائی
قبل اس کے میں کچھ کہتا سمجھتا
دخول شروع ہو چکا تھا
سیکنڈوں میں ہتھیار اس کے بدن کی گہرائی میں گم ہو چکا تھا۔
Tumblr media
میں نے پاگلوں کی طرح اس کو شانوں سے پکڑ کر کھینچا اور خود پر گرا لیا عمر کے حساب سے وہ اپنی جوانی کے عروج پر تھی بدن بہت کسا ہوا اور متناسب تھا۔
میں اگر اس کی خلوت میں اس کو بےحجاب اور بے لباس اپنی دسترس میں پا سکا تو میرا اس میں کچھ کمال نہ تھا۔
یہ محض میرا گڈلک تھا
دراصل میں اس کے تصرف میں تھا۔
وہ مجھ کو حاصل کرنے کے ارادے سے یہاں ہرگز نہیں آئی تھی۔
غسل کے بعد سینے کی گولائی ظاہر کرنا بھی ممکنہ طور پر محض شرارت ہو سکتی تھی۔
لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ عورت کو آج تک کوئی بھی نہیں سمجھ پایا۔
میں اس کے بدن تلے دبا اسی پیچیدگی سے فیض یاب ہو رہا تھا۔
Tumblr media
میں نے اس کو خود پر گرا کر بازوؤں کے حلقے میں اس کے اوپری دھڑ کو دبوچ لیا۔
اب میرے ذہن میں کچھ غلط فہمی نہ تھی کہ یہ درد سے نجات حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
میں سبزی والے اکرم کے پاس دیکھی ہوئی تصویروں سے ملتےجلتے منظر کا حصہ تھا اور وہ میری بانہوں کی قید میں تھی۔
میں نے ہاتھ میں اپنی دوسری کلائی کو تھام کر ایک زور کے جھٹکے سے گھیرا تنگ کیا۔
اس کے منہ سے ایک نشیلی ہائے نکلی ، میں نے اپنے ہاتھوں کا گھیرا اس کی کمر پر قدرے نیچے سیٹ کیا اور دوبارہ طاقتور جھٹکے سے اپنی طرف دبایا۔
مار ڈالا کمبخت، یوں تو میں تیری پسلیاں گن لوں۔ زور پتا نہیں کہاں سے لگا رہا ہے۔
تیسرا جھٹکا میں نے اس کی کمر کے اوپری حصے پر دیا تو وہ جھنجھلا گئی۔
موڈ خراب نہ کرو میرا ۔۔۔۔۔۔۔
میں نے بازو ڈھیلے کر دیے۔
Tumblr media
وہ سیدھی ہوئی اور میرے ہاتھ قابو کر کے مجھ پر ایسے جھکی کہ سینے کی گولائی پر سجا انگور دانہ میرے ہونٹ چھونے لگا۔
میں نے چومنے کی کوشش کی تو اس نے ذرا سی حرکت سے میری کوشش ناکام کر دی۔
پھر دوبارہ وہی حرکت دہرائی اور پھر مجھے ناکامی ہوئی۔
تیسری بار میں تیار تھا۔اس کے قریب آتے ہی میں نے جھٹکے سے سر اٹھا کر منہ میں انگور سمیت پورا براؤن دائرہ قابو کر لیا۔
اس نے سیدھا ہونے کی کوشش کی تو میں نے دانت گاڑ دیے۔
اس نے خود کو ڈھیلا چھوڑ کر میرے چہرے پر اپنا سینہ اور سارا وزن ڈال دیا۔
اب میں کیا کرتا، میں نے منہ کھول دیا۔
وہ پھرتی سے سیدھی ہوئی اور مجھ پر سے اتر کر برابر میں لیٹ گئی۔
میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں بند تھیں۔
Tumblr media
کیا ہوا۔۔۔ میں اٹھ بیٹھا۔۔۔
اس نے اوپری دھڑ کو ایک طرف موڑ کر دونوں ہاتھ بلند کیے اور زور کی انگڑائی لی۔۔
دونوں کام سکھا کر وہ مجھے کارکردگی دکھانے کا موقع دے رہی تھی۔
میں بےتاب ہو گیا۔اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھا تو اس نے ٹانگیں کشادہ کر دیں۔
لیکن منہ سے کچھ بولی نہ آنکھیں کھولیں۔۔۔
میں اس کے اوپر آ کر دوبارہ ڈالنے لگا لیکن مجھے ہدف نہ ملا۔
دو تین کوششیں ناکام ہونے پر وہ آنکھیں کھول کر مسکرائی اور اپنی ٹانگیں سمیٹ کر پیٹ پر لے گئی۔
Tumblr media
مجھے اس کے دونوں سوراخ واضح نظر آئے تو میں جلدی سے گھٹنوں کے بل اس کے کولہوں سے اپنی رانیں جوڑ کر پھر سے داخل کرنے لگا
جیسے ہی مجھے لگا جگہ مل گئی ہے میں نے یکدم پورا اندر کر دیا۔اور اس پر جھک کر دوسرا سبق دہرانے لگا۔
ایک سبق سینے سے متعلق تھا اور دوسرا نیچے شرمگاہ کی تواضع کا۔
میں اس پر جھکا دونوں گیندوں سے کھیلتا رہا۔
پہلے تجربے میں جتنی عجیب و غریب حرکات سرزد ہو سکتی ہیں۔
وہ سب میں نے کیں۔ ایک موقع پر میں اس کے دونوں پھل ملا کر دونوں انگور بیک وقت چوسنے میں کامیاب ہوا تو اس کی کیفیت عجیب ہو گئی، میں ڈر گیا کہ یہ کیسا دورہ پڑا ہے۔
اب تک میں نیچے کچھ نہیں کر رہا تھا داخل کرنے کے بعد سینے پر توجہ تھی۔
اس نے دونوں ہاتھ میرے پہلوؤں پر رکھ کر اپنی دونوں ٹانگوں سے میری کمر پر قینچی لگا لی۔
ہاتھوں کے دباؤ سے مجھے دور کرتی اور پیروں کے دباؤ سے اپنی جانب کھینچ لیتی۔
کئی بار کرنے کے بعد بولی۔
اب یہی کرتے رہو۔۔۔
میں نے یہ حرکت دہرانا شروع کی تو لذت کے نئے زاویے سے واقف ہوا اور میری بھی آنکھیں بند ہونے لگیں۔
Tumblr media
تیز تیز کرو۔۔۔۔
میں نے رفتار بڑھا دی۔
اس کی کیفیت مجھے کچھ خبر نہ تھی۔بس یہ پتا تھا کہ جتنی تیز گھوڑے کو دوڑائیں گے اتنا ہی مزہ آئے گا۔
سواری بھی بھرپور مزہ لے رہی تھی۔میں نے اس کے سینے کو دبوچ رکھا تھا کہ اچانک اس نے مجھے کھینچ کر چمٹا لیا اور اپنے دانت میرے کاندھے پر گاڑ کر عجیب طریقے سے کمر پر ناخن سے کھروچنے لگی۔
اس کے بدن کا نچلا حصہ بدستور حرکت میں تھا۔ میرے ہتھیار میں سرسراہٹ ہوئی۔
میں نے سوچا باتھروم جاتا ہوں یہ پیشاب کی حاجت ہے لیکن اس کی گرفت میں ہلنے کے قابل بھی نہ تھا سو میں نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا لیکن ہتھیار کے ساتھ جو ہو رہا تھا اس کے بدن کے اندر ہی اندر۔۔۔۔۔
تو آخر وہ لمحہ آیا جب مجھے انزال ہوا اور لذت کے جھولے کی پہلی سواری کا مزہ نکتہ عروج پر پہنچ گیا۔
وہ بھی سکون پا کر نارمل ہو گئی اور ہم دونوں برابر لیٹ گئے ۔۔
Tumblr media
میں کچھ دیر آنکھیں بند کیے لیٹا رہا۔
جب اٹھا تو وہ دوبارہ نہانے جا چکی تھی.
میں نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھول کر چوروں کی طرح باہر نکلا۔
کوٹھی میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔
میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا اور نیچے جا کر
ایک گلاس روح افزا بنا کر اوپر آ گیا۔
نجمہ غسل خانے سے لباس پہن کر آ چکی تھی اور سنگھار میز کے سامنے بیٹھی کنگھا کر رہی تھی۔
مجھے آئینے میں دیکھ کر کہنے لگی
دیکھو زمان!! میری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔ کسی سے کچھ نہ کہنا۔
میں نے گلاس سنگھار میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
کیسی باتیں کرتی ہیں آپ۔۔۔۔
میں تو خادم ہوں آپ کا۔۔۔
بھلا میری اتنی ہمت پڑ سکتی ہے۔۔
وہ مطمئن ہو گئی اور میں باہر چلا آیا۔
کچھ دیر بعد نجمہ بھی اپنے گھر چلی گئی۔
ختم شد
Tumblr media
9 notes · View notes
nomadboy · 6 months
Text
Tumblr media
میں سردیوں کی ٹھٹھرتی شاموں کے سرد لمحوں میں سوچتا ہوں — وہ سرخ ہاتھوں کی گرم پوریں نجانے اب کس کو راس ہوگی.
In the frosty moments of the shivering winter evenings,often I think — who knows who would pleasured with those warm fingertips of red hands now.....
9 notes · View notes
divinetrinity666 · 1 year
Text
Tumblr media
محصول نهایی کیمیاگری Rebis نام گرفته.‌جدا کردن خصایص متضاد و افرینش هرمافرودیت الهی.‌ یکپارچه سازی روح و ماده..‌توسط یک دوسر در یک‌تن واحد نشان داده میشود.‌
در اساطیر یونان، افرودیت و هرمس فرزند زیبایی بنام هرمافروودیتوس بوجود اوردند. پادشاه سرخ و ملکه سفید.‌
✡☸🔯
30 notes · View notes
chro2019 · 1 year
Photo
Tumblr media
‏‎#سرخ #سرخکن #سرخکن_رژیمی #واردات_لوازم_خانگی #لوازم_برقی_خانگی #لوازم_بزرگ_خانگی #لوازم_ریزخانگی #لوازم_غیربرقی_خانگی #حراجی_لوازم #اف_خورده #تخفیفات #جهیزیه #کابینه #عروس #جهیزیه_عروس #اقساط #کمپانی_چرو #تامین_قطعات #پشتیبانی_کالا #شرکت_بازرگانی_تجاری_چرو #بازرگانی_چرو #چرو #chro #companychro‎‏ (در ‏‎شرکت بازرگانی تجاری چرو‎‏) https://www.instagram.com/p/Cn9aHQ6oew9/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
urdu-poetry-lover · 2 months
Text
اب کے برسات کی رُت اور بھی بھڑکیلی ہے،
جسم سے آگ نکلتی ہے قبا گیلی ہے،
سوچتا ہوں کہ اب انجامِ سفر کیا ہوگا؟
لوگ بھی کانچ کےہیں راہ بھی پتھریلی ہے،
پہلے رگ رگ سے مری خون نچوڑا اسنے،
اب یہ کہتا ہے کہ رنگت ہی مری پیلی ہے،
مجھکو بے رنگ نہ کردیں کہیں رنگ اتنے،
سبزموسم ہے، ہوا سرخ، فضا نیلی ہے،
مظفر وارثی
3 notes · View notes
dushmanejaan · 2 months
Text
آج تک سرخ و سیہ صد یوں کے سائے کے تلے
آدم و حوّا کی اولاد پہ کیا گذری ہے
موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم پہ کیا گزرے گی، اجداد پہ کیا گزری ہے
اِن دمکتے ہوے شہروں کی فراواں مخلوق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے
یہ حسیں کھیت پھٹا پڑ تاہے جوبن جن کا
کس لئے اِن میں فقت بھوک اُگا کرتی ہے
A new favorite from Faiz <3
2 notes · View notes
avengersnewb · 9 months
Text
دکتر پاتس و کاپیتان استیونز
تونی استیو رو فشار داد سمت کمد. 
چیکار— استیو با اندکی مقاومت رفت تو تا ته تا اونجا که جعبه های شوینده رو روی هم چیده بودن.
تونی دنبالش رفت و در رو پشت خودش بست. یه ضربه به عینکش زد که زودتر با فضای تاریک هماهنگ بشه. ”دنبالمونن!“ 
فضا تنگ بود. تونی سعی کرد بره عقبتر ولی هیچ عقبتری وجود نداشت برای همین سرجاش وایساد و سعی کرد نفسشو تو بده به امید اینکه شکمش به پهلوی استیو برخورد نکنه. 
استیو سرجاش جابجا شد. معلوم بود که اونم داره سعی می کنه یه کم فضا بینشون بذاره اما موفق نمی شه. آروم پرسید ”ازکجا فهمیدی؟“ 
تونی زمزمه کرد ”فرایدی. همه حرکات رو بررسی می کنه و ناهمگونی ها رو تشخیص می ده.“ 
استیو چشماشو نازک کرد. ”آفرین دکتر پاتس! فرایدی این کارارو قبلا که با هم ماموریت می رفتیم بلد نبود.“ 
یه حس گرم تو دل تونی پیچید. استیو با یه اسم و یه جمله هوشیارانه دل تونی رو لرزونده بود و ناگهان تونی پرت شده بود به سالها قبل وقتی که هر گفتگو پر از چیزای ناگفته بود پر از حرفای شیرین شیطنت آمیز پر از امید. 
تونی نفسشو بیرون داد. ”کاپیتان استیونز خیلی چیزا از آخرین باری که ما با هم ماموریت رفتیم عوض شده.“ 
”اوه!“  با اینکه فضایی بینشون نبود استیو اومد  یه کم نزدیکتر. گونه هاش تو نوری که فرایدی به فضای تاریک توی کمد می تابون از چند لحظه پیش سرختر شده بودن. گردنش سینه اش تمام پوستی که از لای یقه ی کت ارتشی اش بیرون بود سرخ شده بود.”مثلا چه چیزایی؟“ 
قلب تونی تند تر می تپید. بدن استیو به بدنش فشرده بود و تونی می تونست صدای آروم نفساشو بشنوه. می تونست گرمایی که از بدن استیو صاطع می شه رو حس کنه. 
تونی یه لحظه ایستاد و فکر کرد.
اونا توی یه دنیای دیگه بودن. آدمای دیگه با اسمای دیگه و شغلای دیگه و شاید فقط شاید دکتر پاتس و کاپیتان استیونز هم تمام وقتشونو صرف آهسته از کنار هم گذشتن کرده بودن. شاید دکتر پاتس سالها به کاپیتان استیونز خیره شده بود که جوون بود و زیبا و زود به زود سرخ می شد  شاید کاپیتان استیونز این دنیا از دکتر پاتس خیلی خوشش می یومد ولی جرات نداشت حرفشو بلند بزنه و شاید دکتر پاتس شک نداشت شاید خوب می دونست تو سر کاپیتان چی می گذره.
تونی در حالیکه لباش به گردن استیو می خورد زمزمه کرد ”مثلا این.“ و سرشو بلند کرد تا لبهاشو به لبهای استیو بچسبونه. 
برای یه لحظه ی طولانی بدن استیو منقبض شد. تونی داشت با سرعت تو مغزش حساب می کرد که چهطور می تونه یه کم بره عقبتر که استیو دستشو دو صورت تونه گرفت لبهاشو از هم باز کرد تا تونی راه بده تو و به آرومی  زمزمه ی لذت بخشی کرد در حالیکه دست آزادش به یقه ی کت تونی گره خورد. تونی پشت گردن استیو رو گرفت تا اونو خودش نزدیکتر کنه که کاری کنه که به هم بچسبن در حالیکه دهن استیو رو مزه می کرد. بوسه مثل آتیش بود گرم و روون توی رگهاش جاری می شد. 
دکتر پاتس و کاپیتان استیونز لیاقت این رو داشتن که همدیگه رو در آغوش بگیرن و با بوسه نفس نفس بزنن و فراموش کنن که کجان درست مثل استیو و تونی. مثل همزادهاشون در ۱۹۷۰ اونا هم به اندازه ی کافی صبر کرده بودن.
5 notes · View notes
sam9827 · 5 months
Text
دپوکو به عنوان یکی از ارائه دهندگان خدمات فروش وسایل منزل به علت مهاجرت تهران، پیشنهاد ویژه ای را برای کسانی که قصد خروج از کشور را دارند و می خواهند تمام اثاثیه خود را به پول تبدیل کنند، در نظر گرفته است. در این حالت ترجیح مشتریان این است که هیچکس متوجه نشود که قصد فروش برای مهاجرت را دارد. زیرا در بسیاری از موارد مشاهده شده است که افراد سودجو قیمت بسیار کمتری را برای لوازم خانگی در نظر می گیرند. 
فروش فوری لوازم خانگی در تهران
در بحث فروش لوازم و لوازم خانگی یکی از موارد اساسی و مهم تعیین دسته بندی کالا، مشخصات فنی، برند عرضه کننده، قیمت نمونه جدید است.
عموما اکثر افرادی که قصد مهاجرت دارند می خواهند لوازم اصلی خود را در اسرع وقت به فروش برسانند اما با قیمت های غیر منطقی و یا حتی در قیمت گذاری لوازم با مشکل مواجه می شوند.
سه نوع مختلف از لوازم خانگی وجود دارد:
لوازم اولیه یا لوازم خانگی لوازم کوچک برقی و غیر برقی لوازم الکترونیکی مصرفی و کالا تجهیزات اولیه
دستگاه های تهویه مطبوع، ماشین ظرفشویی، خشک کن، کابینت های خشک کن، فریزر، یخچال، اجاق گاز، آبگرمکن، ماشین لباسشویی، فشرده ساز زباله، اجاق مایکروویو و اجاق القایی تنها چند نمونه از لوازم خانگی اصلی هستند.
دستگاه کوچک
لوازم خانگی کوچک اغلب وسایل برقی جمع و جور برای خانه هستند که نصب آنها نیز بسیار کاربردی و ساده است.
آبمیوه گیری، همزن برقی، چرخ گوشت، آسیاب قهوه، سرخ کن، آسیاب سبزی، غذاساز، کتری برقی، وافل ساز، قهوه ساز، میکسر و خمیر گیر و همچنین پلوپز، توستر و هود از دسته دیگر هستند.
فروش فوری لوازم خانگی در تهران تجهیزات الکترونیکی (آنالوگ یا دیجیتال) که برای استفاده منظم، اغلب در خانه های شخصی طراحی شده اند، لوازم الکترونیکی مصرفی یا الکترونیک خانگی نامیده می شوند. وسایل سرگرمی، ارتباطات و سرگرمی همگی لوازم الکترونیکی مصرفی محسوب می شوند.
به عنوان مثال می توان به لوازم خانگی مانند گیرنده های رادیویی، تلویزیون، پخش کننده سی دی، دستگاه های ویدئویی، پخش کننده دی وی دی، دوربین های دیجیتال، دوربین های ویدئویی و دوربین های عکاسی، و همچنین ساعت ها، رایانه ها، کنسول های بازی بازی های ویدئویی، سیستم های wifi و تجهیزات سینمای خانگی اشاره کرد. انجام داد
فروش لوازم خانگی و آشپزخانه دست دوم خریداران برای اهداف خاص به انواع خاصی از لوازم خانگی نیاز دارند. با این حال، قبل از تهیه لیستی از بهترین لوازم خانگی، پیشنهاد می کنیم انواع لوازم خانگی را بشناسید.
محصولات برودتی شامل انواع کولر و بخاری می باشد، لیست لوازم آشپزخانه طولانی بوده و شامل مواردی مانند: قوری، مایکروفر و ... می باشد. از طرفی شست و شو و خشک کردن هم البته به جز محصولات بزرگ، از موارد مهمی است. . سامساری دپوکو خریدار انواع لوازم خانگی و یا حتی محل کار شما خواهد بود.
برای اینکه بدانید ضایعات را کجا بفروشید روی لینک زیر کلیک کنید.
لیست تجهیزات برودتی لیست ظروف آشپزخانه لیست تجهیزات شستشو و خشک کن لیست تجهیزات گرمایش و تهویه مطبوع وسایل آشپزی سایر لوازم خانگی لیست لوازم متفرقه در بازار ایران قیمت گذاری لوازم خانگی کارکرده بر اساس نمونه های جدید، مقایسه با سایر سمساری و یا بررسی دقیق انجام می شود. حتی اگر قصد خرید لوازم دست دوم و استوک را دارید، باید روی این مسائل حساس باشید و با دید بازتری وارد بازار شوید. واگذاری فروش انواع لوازم آشپزخانه به دلالان; آنها این کار را به خوبی انجام می دهند. در حال حاضر سامساری دپوکو با سالها تجربه و مجوزهای رسمی از موسسات ناظر در کنار شماست تا تجربه ای فوق العاده داشته باشید.
2 notes · View notes
humansofnewyork · 8 months
Photo
Tumblr media
(8/54) “There’s only one way for love to begin in a traditional society. With the eyes. At the dinner table Mitra disagreed with everything I said. If I said ‘red,’ she said ‘green.’ If I said ‘spice,’ she said ‘sweet.’ But there was something between us. I could see it in the eyes. It was like glancing at a beautiful mountain from afar. The mountain hasn’t been experienced yet. Its cliffs have not been climbed. Its flowers have not been picked. But you are drawn to its beauty, even at a distance. On her fifteenth birthday I got her flowers. It was winter. There weren’t many flowers during winter. So I went to an Armenian flower shop and got fifteen white carnations, with one red in the center. I was shy with my words, so I wrote her a long letter. I told her the story of the female knight Gordafarid, one of the bravest champions in all of Shahnameh. Gordafarid was a master of archery. No bird could escape her arrows. And she was beautiful: her face glowed like the moon. Her waist was cypress-shaped. Her hair was worthy of a crown. I told Mitra: ‘She’s just like you. Together we can do great things for Iran!’ Mitra hid the letter from her father. One night over dinner I told him about my plans to become king. I told him that I would use my voice, and speak about 𝘋𝘢𝘢𝘥. Justice. He said: ‘This boy is delusional! He’s living in a thousand-year-old book!’ He told me that Iran was a constitutional monarchy. And unless I planned to lead a coup, the highest I could rise was Prime Minister. He said that Iranians were too worried about survival to care about ideals. So if I wanted to be Prime Minister, I’d need to put away childish ideas and learn about the real world. A few weeks later I joined a club of students at my school who met each week to discuss politics. It was the youth chapter of a new party called the Pan-Iranist Party. The leader of the club was a medical student from the University of Tehran. His name was Dr. Mohammadreza Ameli Tehrani. But everyone called him by his nickname: The Siren.”
 در جامعه‌ی سنتی تنها یک راه برای ابراز دلبستگی هست. آن هم راه نگاه. سر میز شام میترا با هر آنچه می‌گفتم مخالفت می‌کرد. می‌گفتم سرخ، می گفت سبز. می‌گفتم تند، می گفت شیرین. ولی حسی میان ما‌ در حال شکفتن بود. می‌توانستم در دیدگانش ببینم. مانند تماشای کوهی در دوردست. کوهی که هنوز آزموده و پیموده نشده است. صخره‌هایش هنوز پیموده و گل‌هایش هنوز چیده نشده‌اند. ولی می‌شد از دور پیوندی گیرا را احساس کرد. در پانزدهمین زادروز میترا به او دسته‌ گلی‌ هدیه کردم. زمستان بود و در زمستان گل‌های زیادی یافت نمی‌شد. به یک گل‌فروشی ارمنی رفتم و پانزده گل میخک سفید و یک میخک سرخ در میان‌شان، خریدم. از سخن گفتن خجالت می‌کشیدم. از این رو نامه‌ی بلندی برایش ‌نوشتم. ��استان زن پهلوانی را به نام گردآفرید برایش بازگفتم. گردآفرید از دلیرترین پهلوانان شاهنامه است. تیرانداز چیره‌دستی‌ست. هیچ پرنده‌ای را یارای رهایی از تیرش نیست. زیباست: رخسارش چون خورشید درخشان، سر و گیسوانش شایسته‌ و درخور تاج. رها شد ز بند زره موی او / درخشان چو خورشید شد روی او / بدانست سهراب کاو دختر است / سر و موی او از در افسر است. به میترا گفتم: «به راستی که مانند توست! همگام با هم می‌توانیم کارهای ارزشمندی برای ایران انجام دهیم.» میترا نامه را از پدرش پنهان کرد. شب‌هنگام آرزویم را برای شاه شدن با پدر میترا در میان گذاشتم. به او گفتم که سخنانم، صدای دادخواهی همه‌ی ایرانیان خواهد بود. گفت: «این پسر رؤیایی‌ست! او در کتابی هزارساله زندگی می‌کند!» به من گفت مگر آنکه نقشه‌ای برای کودتا داشته باشم وگرنه بالاترین جایگاهی که می‌توانم به آن دست یابم نخست وزیری‌ست. و ایرانیان بیش از آنکه در اندیشه‌ی آرمان‌ باشند، نگران زنده ماندنند. چنانچه بخواهم نخست‌وزیر شوم، باید خیال‌های کودکانه‌ را کنار بگذارم و به دنیای راستین بیندیشم. چند هفته پس از آن دیدار، به گروهی از دانش آموزان دبیرستان که گردهمایی سیاسی هفتگی داشتند پیوستم. این گروه شاخه‌ی جوانان حزب نوپایی بود که پان‌ایرانیست خوانده می‌شد. رهبر گروه، دانشجوی پزشکی دانشگاه تهران بود. نامش محمدرضا عاملی تهرانی. ولی همه او را با نام مستعارش صدا می‌زدند: آژیر
174 notes · View notes