Tumgik
#سندھ کا اقتدار
googlynewstv · 19 days
Text
اسٹیبلشمنٹ مخالف اچکزئی فوج کی پیداوار عمران کے ساتھ کیوں گئے
سینئیر صحافی رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اچکزئی ایک زمانے میں اصول پرست سیاستدان سمجھے جاتے تھے لیکن اب پنجاب اور سندھ کے دیگر سیاستدانوں کی طرح وہ بھی پاور پالیٹکس کے شوقین بن چکے ہیں اور ان کی زبان کو بھی اقتدار کی سیاست کا چسکا لگ چکا ہے۔ اب وہ پرانے محمود اچکزئی نہیں رہے، اسی لیے ساری زندگی فوجی اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کرنے والے اچکزئی اب اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار…
0 notes
emergingpakistan · 7 months
Text
عمران خان کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟
Tumblr media
الیکشن ہو گیا۔ اگلے چند دنوں میں تمام وفاقی اور صوبائی حکومتیں فنکشنل ہو جائیں گی۔ پنجاب اور سندھ میں تو ابھی سے ہوچکیں۔ اصل سوال اب یہی ہے کہ عمران خان کو کیا کرنا چاہیے، ان کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟ ایک آپشن تو یہ تھی کہ الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم وغیرہ کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت بنا لی جاتی۔ ابتدا میں اس کے اشارے بھی ملے، تحریک انصاف کے بعض لوگ خاص کر بیرسٹر گوہر وغیرہ اس کے حامی تھے۔ عمران خان نے البتہ عدالت میں اپنے کیس کی سماعت پرصحافیوں سے صاف کہہ دیا کہ وہ ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم سے کسی بھی صورت میں بات نہیں کریں گے۔ یوں فوری طور پر حکومت میں آنے کی آپشن ختم ہو گئی۔ اگلے روز ایک سینیئر تجزیہ کار سے اس موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ عمران خان کو ایسا کر لینا چاہیے تھا کیونکہ جب ان کی پارٹی اقتدار میں آتی تو خان کے لیے رہائی کی صورت نکل آتی، دیگر رہنما اور کارکن بھی رہا ہو جاتے، اسمبلی میں بعض قوانین بھی تبدیل کیے جا سکتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ 
یہ تمام نکات اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں مگر میری اطلاعات کے مطابق عمران خان کے دو دلائل تھے، ایک تو یہ کہ ان کا مینڈیٹ چھینا گیا ہے اور چھین کر جن پارٹیوں کو دیا گیا، وہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ اس لیے ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیوا یم کے ساتھ مل کر کیسے حکومت بنائیں؟ دوسرا یہ کہ یہ سب کچھ عارضی اور محدود مدت کے لیے ہے۔ جلد نئے الیکشن کی طرف معاملہ جائے گا اور تب تحریک انصاف کا اپنا بیانیہ جو دونوں جماعتون ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہے، اس پر ہی تحریک انصاف الیکشن جیت سکتی ہے۔ اگر ایک بار مل کر حکومت بنا لی تو پھر بیانیہ تو ختم ہو گیا۔ خیر یہ آپشن تو اب ختم ہو چکی۔ اب عمران خان کے پاس دو ہی آپشنز ہیں۔ پہلا آپشن کچھ انقلابی نوعیت کا ہے کہ ’ڈٹے رہیں انہیں پاکستان میں اداروں کے کردار کے حوالے سے سٹینڈ لینا چاہیے، اسٹبلشمنٹ کا ملکی معاملات میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔‘   دوسرا آپشن اصولی ہونے کے ساتھ کسی حد تک پریکٹیکل بھی ہے۔ اس کے مطابق عمران خان ن لیگ، پی پی پی، ایم کیوایم، ق لیگ وغیرہ کے حوالے سے اپنی تنقیدی اور مخالفانہ پالیسی پر قائم رہیں۔ دھاندلی پر احتجاج کرتے رہیں۔
Tumblr media
جو پارٹیاں دھاندلی پر احتجاج کر رہی ہیں، ان کی طرف ہاتھ بڑھائیں، ان کے ساتھ ایک وسیع اتحاد بنائیں، حکومت پر دباؤ بڑھاتے رہیں اور اپنے وقت کا انتظار کریں۔ یہ آپشن زیادہ منطقی اور سیاسی اعتبار سے معقول ہے اور غالباً عمران خان اسی راستے پر گامزن ہیں۔ اس حوالے سے البتہ انہیں دو تین باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ سب سے پہلے انہیں ان سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف ہاتھ بڑھانا ہو گا جو احتجاج کر رہی ہیں، بے شک ماضی میں انہوں نے تحریک انصاف کو دھوکہ ہی کیوں نہ دیا ہو۔ ایک نیا سیاسی آغآز کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ جماعت اسلامی اور جی ڈی اے کے ساتھ تحریک انصاف پہلے ہی کراچی میں مل کر احتجاج کر رہی ہے۔ جماعت کے ساتھ کراچی میں بھی تعاون کرنا چاہیے۔ جماعت کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں اس کی دو نشستیں چھن گئی ہیں، دونوں تحریک انصاف کو دی گئیں، اگر تحریک انصاف تدبر سے کام لے تو باجوڑ میں کیا گیا ایثار ان کے لیے مستقبل میں تعاون کے راستے کھول سکتا ہے۔ باجوڑ میں قومی اسمبلی کی سیٹ اور صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر الیکشن ہونا باقی ہے، ان سیٹس پر بھی کچھ ہو سکتا ہے۔
اختر مینگل نے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ختم کر کے تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کا ساتھ دیا تھا۔ عمران خان کو اس کا صدمہ ہو گا، مگر اب انہیں اختر مینگل اور دیگر بلوچ و پشتون قوم پرست جماعتوں کو ساتھ ملانا ہو گا۔ بلوچستان میں محمود اچکزئی کی پشونخوا میپ، بی این پی مینگل، ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی مشترکہ احتجاج کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف کو اس اتحاد کا حصہ بننا چاہیے۔ جے یوآئی کے مولانا فضل الرحمن بھی احتجاجی موڈ میں ہیں، ان کے ساتھ پی ٹی آئی کا ایک رابطہ ہو چکا ہے، احتیاط کے ساتھ تحریک انصاف کو اس جانب مزید بڑھنا ہو گا۔ مولانا کا احتجاج جن نکات پر ہے، وہ اصولی اور تحریک انصاف کی سوچ سے ہم آہنگ ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ کس نے اسمبلی میں اور کس نے حکومت کرنی ہے، یہ فیصلہ صرف عوام کو کرنا چاہیے۔ اس نکتہ پر تحریک انصاف اور جے یو آئی میں اتفاق ہو سکتا ہے۔ البتہ عمران خان کو علی امین گنڈا پور جیسے ہارڈ لائنرز کو مولانا کے خلاف بیان بازی سے روکنا ہو گا۔ دوسرا اہم کام عمران خان کو ریاستی اداروں کے ساتھ کشمکش اور کشیدگی میں کمی لانے کا کرنا پڑے گا۔ 
بیرسٹر گوہر اور عمرایوب دونوں معتدل اور عملیت پسند سیاستدان ہیں، ان کے ذریعے کوئی بریک تھرو ہو سکتا ہے۔ اس وقت خان صاحب کو اقتدار نہیں مل سکتا، البتہ ان کے لئے قانونی جنگ میں کچھ سہولتیں مل سکتی ہیں۔ وہ ضمانت پر باہر آ سکتے ہیں۔ ایسا ہونا بھی بڑی کامیابی ہو گی کیونکہ ان کی پارٹی کے لوگوں کی خان تک آزادانہ رسائی نہ ہونے سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور پارٹی میں مختلف گروپ بن چکے ہیں۔ عمران خان باہر ہوں گے تو یہ سب گروپنگ ختم ہو جائے گی۔  خان صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی سسٹم میں انہیں رہنا، اسی میں جگہ بنانی ہے۔ انہیں جذباتی غلطیوں سے گریز کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کو خط لکھنا ایک غلطی ہی تصور ہو گی، اس کا کوئی جواز اور دفاع ممکن نہیں۔ اسی طرح امریکی اراکین کانگریس کو خط لکھنا یا انہیں آواز اٹھانے کا کہنا ایک سیاسی حکمت عملی ہو سکتی ہے، مگر آئی ایم ایف یا کسی دوسرے عالمی ادارے کو خط لکھ کر ریاست پاکستان کو دی جانے والی کوئی مالی مدد رکوانا یا پابندی کی کوشش نہایت غلط اور بے کار کاوش ہے۔
اس سے کیا حاصل ہو گا؟ الٹا عمران خان کے لیے مقتدر حلقوں میں جو تھوڑی بہت حمایت ہے یا جو چند ایک حمایتی ہیں، وہ اس سے کمزور ہوں گے۔ عمران خان کو چاہیے کہ اپنے مشاورت کے عمل پر نظرثانی کریں، انہیں ایسا کرنے سے قبل امور خارجہ اور معاشی امور کے ماہرین سے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ مشاورت کرنی چاہیے۔ ابھی کچھ بگڑا نہیں۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ عمران خان کو فوکس ہو کر اپنے اہداف پر نظر رکھنی چاہیے۔ قدم بہ قدم آگے بڑھیں، تب ہی چیزیں بہتر ہوں گی۔ اگر کوئی قدم غلط پڑ گیا تو دو قدم پیچھے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ پیچھے ہٹ کر پھر سے آگے بڑھیں، دیکھ بھال کر، سوچ سمجھ کرآگے چلیں۔
عامر خاکوانی
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
emergingkarachi · 8 months
Text
قصہ سرکلر ریلوے کی بحالی کا
Tumblr media
سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا بیڑا اٹھا لیا۔ جسٹس مقبول باقر بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کے لیے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے وفد میں شامل تھے۔ وزیر اعلیٰ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کے سی آر کے فوائد بیان کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا بنیادی مقصد تجارت و صنعت کو فروغ دینا ہے اور کے سی آر صرف ٹریکس اور اسٹیشنوں کا قیام ہی نہیں بلکہ معاشی فوائد کو کراچی سے پاکستان کے اہم شہروں تک پہنچانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر سرکلر ریلوے بحال ہو گئی تو روزانہ لاکھ سے زیادہ مسافر ان ریل گاڑیوں میں سفر کریں گے۔ نگران وزیر اعلیٰ نے فورم کے شرکاء کو بتایا کہ اس منصوبہ پر 2 بلین ڈالر کی لاگت آئے گی اور سرکلر ریلوے کی لائن 43 کلومیٹر طویل ہو گی۔ کے سی آر شہر کے خاصے علاقوں سے گزرے گی۔ پھر یہ بھی کہا کہ سندھ کی نگراں حکومت اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔ جب میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں سی پیک منصوبہ پر دستخط کرنے کی تقریب بیجنگ میں منعقد ہوئی تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی وزیر اعظم کے وفد میں شامل تھے۔ انھوں نے واپسی پر کراچی آکر اعلان کیا کہ چین کے سی آر کی بحالی کے لیے تیار ہے۔
میاں نواز شریف کے اس وفد میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی شامل تھے، انھوں نے لاہور پہنچنے پر اعلان کیا کہ سی پیک کے منصوبہ میں لاہور کی اورنج ٹرین کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل کیا گیا ہے، یوں لاہور میں اورنج ٹرین کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ منصوبہ تکمیل کے قریب تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت وفاق اور پنجاب میں قائم ہوئی تو منصوبہ کئی مہینوں کے لیے التواء کا شکار ہوا، مگر یہ منصوبہ مکمل ہوا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ پھر تحریک انصاف کے وزیر اعظم کے ساتھ بیجنگ گئے اور واپسی پر یہ بری خبر سنائی کہ چین کو اس منصوبے میں دلچسپی نہیں رہی۔ سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی بد امنی کیس میں سماعت کے دوران ایمپریس مارکیٹ سے تجاوزات کے خاتمہ کا حکم دیا۔ ان کی توجہ کے سی آر کے التواء کے منصوبہ پڑ گئی۔ انھوں نے اس منصوبے کی عدم تکمیل پر سندھ حکومت کی کارکردگی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس وقت کے بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کو طلب کیا گیا اور یہ احکامات جاری کیے گئے کہ سرکلر ریلوے پر قائم تجاوزات کو ہنگامی طور پر ہٹایا جائے، یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ سرکاری مشینری نے فوری طور پر آپریشن شروع کیا۔ سرکلر ریلوے کی لائن پر سیکڑوں بستیاں، اسپتال اور سرکاری دفاتر حتیٰ کہ تھانے قائم تھے۔
Tumblr media
حکومتی عملے نے سپریم کورٹ کے طے شدہ وقت کے مطابق کام مکمل کیا۔ اس وقت کے ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ پاکستان ریلوے زبوں حالی کا شکار ہے اس بناء پر حکومت سندھ کو کے سی آر کی بحالی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں وفاق میں مختلف جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے احسن اقبال کو پلاننگ کی وزارت کی سربراہی سونپی گئی۔ احسن اقبال کی قیادت میں اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے دوسری فزیبلٹی تیار کی گئی جس پر 2.027 ملین ڈالرکا تخمینہ لگایا گیا۔ اس فزیبلٹی کے مطابق یہ منصوبہ 38 مہینوں میں مکمل ہونا تھا۔ احسن اقبال کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ چین کی حکومت پھر اس منصوبہ میں دلچسپی لے رہی ہے اس بناء پر نئی فزیبلٹی تیار کرنا ضروری ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سرکلر ریلوے 43.13 کلومیٹر طویل ہو گی، جس میں سے 17.74 کلومیٹر ریلوے لائن زمین پر تعمیر ہو گی اور 25.51 کلومیٹر ایلی ویٹر پر تعمیر ہو گی۔
اس فزیبلٹی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پہلے کے سی آر کی ملکیت وفاقی حکومت ہو گی اور پھر یہ بتدریج حکومت سندھ کو منتقل ہو جائے گی مگر یہ معاملہ محض فزیبلٹی تک محدود ہو گیا۔ یہ خبریں بھی ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں کہ چین کی حکومت پشاور سے کراچی کے لیے تعمیر ہونے والی نئی ریلوے لائن ایم۔ ون پر فوری طور پر سرمایہ کاری نہیں کرے گی۔ اب نگراں وزیر اعظم بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کے لیے چین کے دار الحکومت بیجنگ گئے تو پھر دونوں منصوبوں کی تجدید ہوئی۔ سرکلر ریلوے جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں تعمیرکی گئی، اس وقت شہر میں کئی نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ S.I.T.S میں بہت سے کارخانے قائم ہوئے یوں سرکلر ریلوے ایک نیم دائرہ کی شکل میں چلنے لگی۔ یہ سرکلر ریلوے پپری سے کراچی آنے کے لیے کم وقت میں سب سے زیادہ مناسب سواری تھی۔ اسی طرح وزیر منشن کیماڑی سے سائٹ، ناظم آباد، لیاقت آباد، یونیورسٹی روڈ سے سی او ڈی تک کے علاوہ سے ہوتی ہوئی مرکزی ریلوے سے منسلک ہوجاتی تھی۔ پھر مضافات کے علاقوں سے روزانہ علیٰ الصبح ہزاروں مسافر آدھے گھنٹہ میں (لانڈھی اور ملیر سٹی سے ) سٹی اسٹیشن پہنچ جاتے تھے۔
اس وقت تمام مالیاتی ادارے سرکاری ادارے، اسکول اور دیگر کاروباری اداروں کے دفاتر میکلوروڈ، آئی آئی چندریگر روڈ اور اطراف کے علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہ مسافر سرکلر ریلوے کے ذریعے اپنے گھروں تک آرام دہ سفر کے ذریعے واپس پہنچ جاتے تھے۔ اس زمانے میں اندرون شہر میں ٹرام وے چلتی تھی۔ سٹی اسٹیشن سے کینٹ اسٹیشن، سولجر بازار اور چاکیواڑہ تک ٹرام سفر کے لیے بہترین سواری تھی مگر پیپلز پارٹی کی حکومت میں ٹرانسپورٹ مافیا ارتقاء پذیر ہوئی۔  بیوروکریسی نے ساری دنیا کی طرح الیکٹرک ٹرام میں تبدیلی کرنے کے بجائے اس بناء پر بند کرنے کا فیصلہ کیا کہ ٹرام کی پٹری ٹریفک میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ٹرام کی جگہ چھوٹی منی بسوں نے لے لی جن میں مسافر مرغا بن کر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سرکلر ریلوے 1984 میں بند ہو گئی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں سندھ کے گورنر عشرت العباد نے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کو کراچی بلا کر سرکلر ریلوے کے افتتاح کی تقریب منعقد کی۔
یہ سرکلر ریلوے چنیسر ہالٹ تک جاتی تھی مگر کچھ عرصے بعد یہ بھی بند ہو گئی، بعد ازاں شیخ رشید کے پاس ریلوے کا محکمہ آگیا۔ انھوں نے ریلوے کے ملازمین کو صبح پپری مارشلنگ یارڈ لے جانے والی ریل گاڑی کو سرکلر ریلوے کا نام دیا مگر یہ تجربہ ناکام ہوا۔ ناقص پبلک ٹرانسپورٹ کی بناء پر 80ء کی دہائی میں کراچی خون ریز ہنگاموں کا شکار ہوا مگر کسی حکومت نے کراچی میں جدید ماس ٹرانزٹ منصوبہ پر کام نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ سال کراچی والوں پر ایک احسان کیا۔ پیپلز بس سروس کے نام پر 250 بسیں چلنے لگیں۔ اس سروس سے مسافروں کو خاصا فائدہ ہوا مگر نگران صوبائی وزیر منصوبہ بندی کے وزیر یونس دھاگہ کا تجزیہ ہے کہ شہر میں کم از کم 5 ہزار بسیں چلنی چاہئیں۔ اب نگران وزیر اعلیٰ نے سرکلر ریلوے کو متحرک کرنے کا عزم کیا ہے مگر کوئی شہری اس خبر پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کراچی کے شہریوں کو ممبئی، کلکتہ، دہلی اور ڈھاکا کی طرز پر انڈر گراؤنڈ ٹرین، الیکٹرک ٹرام اور جدید سفر کی سہولتیں سے اس صدی میں مستفید ہونے کا موقع ملے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 11 months
Text
نواز شریف اور سیاسی منظرنامہ
Tumblr media
نواز شریف کی پاکستان واپسی ہوگئی ہے۔ وہ بڑی دھوم دھام سے دوبارہ سیاسی منظر نامے میں وارد ہوئے ہیں۔ ان کا سیاسی استقبال ظاہر کرتا ہے کہ ان کی واپسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوئی، پس پردہ کچھ نہ کچھ تو طے ہوا ہے۔ اس نئے سیاسی کھیل کو ماضی کے جاری سیاسی کھیل اور مہم جوئی کی بنیاد پر دیکھا جائے تو بہت سے معاملات سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ نوازشریف کے جلسے میں کتنی بڑی تعداد میں لوگ شریک تھے، یہ بحث بے معنی ہے۔ اصل نقطہ ان کی واپسی ہے ، اب دیکھنا یہ ہو گا کہ سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں قومی سیاسی منظر نامہ میں کیا رنگ بکھیرنا چاہتی ہیں، اقتدار کس کے سپرد کیا جاتا ہے۔ ایک عمومی رائے یہ ہے کہ کھیل کا نیا اسکرپٹ تیار ہے، اسی اسکرپٹ کے تحت نواز شریف کی واپسی بھی ہوئی ہے۔ سیاسی پنڈت ان کو چوتھی بار وزیر اعظم کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے سب سے بڑے سیاسی مخالف اور ان کی پارٹی زیر عتاب ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف جیل میں قید ہیں جب کہ ان کی جماعت کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں، بہت سے لیڈر پارٹی چھوڑ گئے ہیں، کچھ منظر سے غائب ہیں، پارٹی الیکشن کیسے لڑے گی، اس کا بھی پتہ نہیں ہے، اس کا بھرپور سیاسی فائدہ مسلم لیگ ن کو پہنچانا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے بیشتر حامی سیاست دان اور صحافی نواز شریف کے لیے سیاسی میدان کو خالی سمجھ رہے ہیں اور ان کے بقول چیئرمین تحریک انصاف کی عدم موجودگی نواز شریف کی اقتدار میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنائے گی۔ نواز شریف کا نیا بیانیہ ملکی معیشت کی ترقی، پی ٹی آئی کے سوا سب سیاسی فریقین کو ساتھ لے کر چلنا، بدلے کی سیاست یا اداروں سے ٹکراؤ کے کھیل سے گریز کرنا اور ایک فرمانبردار فرد کے طور پر سیاسی کردار کی ادائیگی ہے۔ اس کی جھلک ان کی مینار پاکستان میں کی جانے والی تقریر تھی۔ قومی سیاسی منظرنامہ 2018 کے اسکرپٹ کی روشنی میں دوبارہ سجایا جارہا ہے۔ محض کرداروں کی تبدیلی کو بنیاد بنا کر پرانا کھیل نئے سیاسی رنگ کے طور پر سجایا گیا ہے۔  بلوچستان میں قوم پرستوں، سندھ میں پیپلزپارٹی، کے پی کے میں پی ٹی آئی اور وفاق میں مسلم لیگ ن کی مدد سے مخلوط حکومت جس میں پی ٹی آئی مائنس سب سیاسی جماعتیں جب کہ پنجاب میں کس کی حکومت ہو گی اور کیسے تشکیل دی جائے گی اس پر بظاہر لگتا ہے کہ ابھی بہت سے معاملات طے ہونا باقی ہیں۔ خود نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بن سکیں گے یا وہی اپنے بھائی شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی وجہ سے ان ہی کو وزیر اعظم کے طور پر نامزد کریں گے۔
Tumblr media
اصل لڑائی پنجاب کی سیاست سے جڑی ہے جہاں مسلم لیگ ن کسی بھی صورت میں سیاسی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ان کو اندازہ ہے کہ پنجاب کے بغیر مرکز کے اقتدار کی کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن شریف خاندان کی خواہش سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کیا ہے اور وہ کیا چاہتی ہے، زیادہ اہم ہے۔ اس لیے اس موجودہ کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے چلنا اور بغیر کسی مزاحمت کے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر چلنا مسلم لیگ ن کی سیاسی مجبوری ہو گی۔ شریف خاندان کو معلوم ہے کہ وہ کیسے آئے ہیں یا کیسے لائے گئے ہیں اور یہ کھیل پہلی بار ان کے ساتھ نہیں ہورہا۔ نواز شریف کی واپسی کے بعد سب سے بڑا سوال ہی سیاسی اشرافیہ یا سیاسی مباحثوں میں یہ ہی ہے کہ کیا نواز شریف اس تاثر کو زائل کر سکیں گے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے بجائے خود آئے ہیں اور ا ن کی واپسی کسی بھی سیاسی سمجھوتے کا حصہ نہیں۔ کیونکہ نواز شریف کے پیچھے ڈیل کی یہ کہانی پیچھا کرتی رہے گی اور ان کی تقریر میں جو جوش تھا وہ کم اور فکرمندی یا ایک بڑا دباؤ زیادہ غالب نظر آیا۔
اسی طرح یہ نقطہ مسلم لیگ ن کی ضرورت تھی کہ نواز شریف کا واپس آنا اور انتخابی مہم میں حصہ لینا ناگزیر تھا۔ کیونکہ نواز شریف کی عدم موجودگی میں مسلم لیگ ن کی سیاسی یا انتخابی مہم میں جان نہیں پڑسکتی تھی۔ اس لیے نواز شریف کی واپسی نے یقینی طور پر مسلم لیگ ن کے مردہ جسم میں جان ڈالی ہے لیکن کیا واقعی وہ چیئرمین تحریک انصاف کے ووٹ بینک کا سائز کم کرسکیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ اور نگران حکومتوں کی مدد ایک طرف مگر یہ پہلو اہم ہے کہ کیا ووٹرز کی بڑی تعداد نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ کیونکہ ڈیل کی سیاست غالب رہتی ہے تو اس کا فائدہ نواز شریف کو کم اور چیئرمین تحریک انصاف کو زیادہ ہو گا۔ پھر مزاحمتی سیاست کا کارڈ نواز شریف کے پاس نہ��ں بلکہ چیئرمین تحریک انصاف کے پاس ہو گا۔ نواز شریف کی واپسی پر جو سیاسی دربار مینار پاکستان پر سجایا گیا اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ ایک بڑا جلسہ تھا، لیکن اس جلسے میں لاہور جو ان کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر سمجھا جاتا ہے، کوئی بڑا پرجوش منظر نامہ یا جوش وخروش دیکھنے کو نہیں مل سکا۔ ایک انگریزی معاصر کی ایک رپورٹ میں بھی یہی لکھا گیا ہے۔
اس کی ایک وجہ نوجوانوں میں چیئرمین تحریک انصاف کی مقبولیت ہے، ان کی مزاحمتی سیاست نے مسلم لیگ ن کی سیاست کو عملاً کمزور کیا ہے۔ لیکن اب دیکھنا ہو گا کہ نواز شریف نوجوان ووٹرز اپنی طرف کیسے لاتے ہیں۔ فعال کرتی ہے ۔ نواز شریف کے سیاسی حامی اورمیڈیا میں موجود ان کے حامی اینکرز، تجزیہ کار اور کالم نویس انھیں ’’ ایک سیاسی مسیحا ‘‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ان کی گفتگو سے یہ ہی تاثر ملتا ہے کہ شاید پہلی بار نواز شریف کا سیاسی ظہور ہورہا ہے۔ نواز شریف کی سیاست کوئی نئی نہیں اور جو لوگ ان کی سیاست کو سمجھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ دوران اقتدار اور اقتدار سے باہر کی سیاست مختلف ہے۔ یہی پہلو ہمیشہ ان کی سیاست کے تضادات، ٹکراؤ اور ذاتی سیاست کے مسائل کو نمایاں کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے بقول نواز شریف نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ یہ ہی منطق و دلیل ان کی جدہ سے جلاوطنی کے بعد بھی دی گئی تھی ، مگر کچھ نہیں بدلا تھا۔ اس وقت قومی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان جو بڑا ٹکراؤ ہے، اس نے اسٹیبلیشمنٹ کو نواز شریف کے قریب کیا ہے جیسے 2018 کے انتخابات میں نواز شریف کے مقابلے میں عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پزیرائی دی گئی تھی اور اب یہ کھیل ان کی مخالفت میں اور نواز شریف کی حمایت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 
نواز شریف کا پہلا چیلنج پنجاب میں اپنی مرضی کے نتائج کا حصول ہے۔ اس کے بعد وہ خود وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں یا اپنی بیٹی مریم نواز کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پوزیشن پر دیکھنا ان کی خواہش ہے۔ لیکن اس کھیل میں وہ تنہا کچھ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان کے پاس اب وہ بڑا ووٹ بینک ہے جہاں وہ کوئی بڑا بریک تھرو کرسکیں گے۔ ان کی طاقت اپنے ووٹ بینک سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے جڑی ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ چیئرمین تحریک انصاف سے اسٹیبلشمنٹ کی دوری کا براہ راست فائدہ ان کی سیاست کو ہو۔ نواز شریف یا ان کی جماعت کو یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن کیا محض اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ ہی وہ سب کچھ فتح کر سکیں گے، ممکن نہیں۔ سب سے پہلے تو ان کو جہاں قانونی مسائل کا سامنا ہے، وہیں ان کو سیاسی محاذ پر اور اپنی جماعت کی داخلی سیاست سمیت ووٹ بینک کی سیاست پر کافی مسائل کا سامنا ہے اور ان سے نمٹے بغیر وہ کچھ نہیں کرسکیں گے۔
سلمان عابد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
اس گھر کو آگ لگ گئی
Tumblr media
یہ آگ تو برسوں سے لگی ہوئی ہے صرف شعلے اب نظر آئے ہیں۔ تین صوبے تو یہ تپش بہت عرصہ سے محسوس کر رہے تھے کچھ رہنمائوں نے بار بار خبردار بھی کیا تھا، چاہے وہ خان عبدالولی خان ہوں یا مولانا شاہ احمد نورانی۔ ’تختہ دار‘ پر جانے سے پہلے تو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں آنے والے وقت کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا تھا۔ آج ساری لڑائی کا مرکز ’پنجاب‘ ہے اور جھگڑا بھی بظاہر ’تخت پنجاب‘ کا ہے دیکھیں ’انجام گلستاں کیا ہو گا‘۔ اس بار آخر ایسا کیا مختلف ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پہلے بھی سیاست بے ربط ہی تھی اب بھی کچھ مختلف نہیں، پہلے بھی ملک میں ’سنسرشپ‘ تھی اب بھی ’زباں بندی‘ ہے۔ پہلے بھی سیاسی کارکن، صحافی غائب ہوتے تھے اب بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، پہلے بھی ماورائے عدالت قتل ہوتے تھے اب بھی ہوتے ہیں۔ جو کچھ الگ ہو رہا ہے وہ کچھ یوں ہے: پہلے وزیراعظم کو گھر بھیجا جاتا تھا تو ’سہولت کار‘ عدلیہ اس عمل کو درست قرار دے دیتی، ملک میں آئین پامال ہوتا تو ’نظریہ ضرورت‘ آ جاتا، ایک وزیراعظم پھانسی چڑھا تو ایک نے ’جوڈیشل مرڈر‘ کیا دوسرے نے عمل کیا۔ دوتہائی اکثریت والے وزیراعظم کو چند افسران نے وزیراعظم ہائوس سے ’کان‘ پکڑ کر باہر نکالا تو اس اقدام کو درست قرار دیا اور کسی نے اف تک نہ کی۔ 
آج مختلف یہ ہے کہ عدلیہ منقسم ہی سہی بظاہر وقت کی اپوزیشن کے ساتھ کھڑی اور سابق وزیراعظم کو وہ ریلیف مل رہا ہے جو مانگا بھی نہیں۔ ’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘ گڈلک، بیسٹ آف لک کے ساتھ زمان پارک پہنچا دیا گیا۔ مگر یہ بات تاریخی طور پر جاننا بہت ضروری ہے کہ پہلے کسی وزیراعظم پر سو کے قریب مقدمات بھی نہیں بنائے گئے۔ جو کچھ پچھلے ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوا، کم و بیش ویسا ہی عمل 1992 میں پی پی پی کے رہنما مسرور احسن کے ساتھ سندھ ہائیکورٹ میں ہوا تھا جب چیف جسٹس ناصر اسلم زاہد تھے۔ مگر جو قید مسرور نے کاٹی اس کے بارے میں صرف عمران جان ہی لیں تو انہیں اندازہ ہو گا کہ قید و بند کیا ہوتی ہے۔ آج مختلف یہ ہے کہ بادی النظر میں عدلیہ عمران کو ریلیف دینے میں لگی ہے اور اسٹیبلشمنٹ 13 جماعتی حکومتی اتحاد کے ساتھ ہے مگر آگ ہے کہ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ یہ بھی پہلے نہیں دیکھنے کو ملا کہ ایک وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کیا گیا ہو اور وہ پارلیمنٹ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا ہو۔ اب وہ لڑائی کیسی لڑ رہا ہے کامیاب ہو گا یا ناکام اس پر دو رائے ہو سکتی ہیں مگر شاید عدلیہ سے ایسا ریلیف نہ ملتا تو اس کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا۔ رہ گئی بات اس کے ’لاڈلے‘ ہونے کی تو یہاں تو لاڈلوں‘ کی فوج ظفر موج ہے۔ جو لاڈلا نہیں رہا وہ دوبارہ بننا چاہتا ہے مگر کوئی بنانے کو تیار نہیں۔
Tumblr media
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بھٹو سے لے کر عمران خان تک زیادہ تر بڑے سیاست دان گیٹ نمبر 4 کی پیداوار ہیں مگر شاید یہ بات اس لئے بھی کی جاتی ہے کہ بھٹو کا سیاسی سفر ایوب خان سے شروع ہوا۔ اس نے اس کا آغاز اسکندر مرزا کے زمانے میں ایوان صدر کی لائبریری سے کیا اور بقول قدرت اللہ شہاب ’’چند روز میں پریزیڈینٹ ہائوس کی چھوٹی سی لائبریری کو کھنگال کر رکھ دیا۔‘‘ پھر تو وہ کوئے یار سے نکلا اور سوئے دار تک گیا۔ میاں صاحب اور عمران خان کی تخلیق میں قدر ِمشترک یہ ہے کہ دونوں کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جبکہ بھٹو نے اپنی عملی سیاست کا آغاز اسکندر مرزا کی کابینہ اور پھر ایوب خان کی کابینہ سے پہلے ہی کر دیا تھا جب وہ 1954ء میں لاڑکانہ آبادگار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔ بےنظیر بھٹو نے تو اپنی سیاست کا آغاز برطانیہ میں زمانہ طالب علمی سے کیا اور مارشل لا کیخلاف جدوجہد سے سیاست آگے بڑھائی۔ ہماری سیاست کو برا کہنے، جمہوریت اور سیاست دانوں کو گالی تک دینے والوں کی کوئی کمی نہیں مگر یہ سارے دانشور، تجزیہ کار اور سیاسی دوست صرف ’تخت پنجاب‘ کی سیاست کا جائزہ لے لیں تو بہت سی باتیں سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ 
ویسے تو یہ اصطلاح ’تخت لاہور‘ کی شریفوں کے دور میں آئی مگر اس کی اصل کہانی جاننے کیلئے سابق مشر��ی پاکستان کی سیاست، ون یونٹ اور پھر سانحہ مشرقی پاکستان کو سمجھنا ضروری ہے۔ میں نے کہا نا کہ آگ تو بہت پہلے سے لگی ہوئی ہے اب اس لئے محسوس ہو رہی ہے کہ اب پنجاب اس کی لپیٹ میں ہے۔ پی پی پی کو چار بار تقسیم کیا گیا کامیابی نہ ہوئی تو شریفوں کو تخلیق کیا گیا۔ انہوں نے آنکھیں دکھائیں تو عمران خان کی تخلیق ہوئی۔ پہلے جنرل ضیاء نے سیاست میں آنے کا مشورہ دیا، دعوت دی پھر جنرل حمید گل سے لے کر دیگر جرنیلوں نے حمایت کی زیادہ تر کا مسئلہ عمران کی محبت نہیں شریفوں اور بھٹو سے نفرت تھی۔ اور یہ سارے ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور آخر کار جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2018 میں اقتدار دلوانے میں مدد کی اور پھر جب وہ ناراض ہوئے تو بہت سے نئے پرانے لاڈلوں کو جمع کر کے اس لاڈلے سے نجات حاصل کی بس 13 لاڈلے اور تخلیق کار ایک غلطی کر گئے کہ ایک تیزی سے غیر مقبول ہوتے وزیراعظم کو مقبول ترین بنا دیا۔ دوسری غلطی یہ کر گئے کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے کہ جن کی کوئی کی ضد بن جائے تو وہاں وہ نقصانات اور انجام کی بھی پروا نہیں کرتے۔
اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا، اب بات بہت آگے تک جا چکی ہے۔ پچھلے چند دنوں اور ہفتوں میں جتنے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن گرفتار ہوئے، وہ تین چار سال میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ جو کچھ 9 مئی کو کراچی تا خیبر ہوا وہ بظاہر اتفاقیہ یا قدرتی ردعمل نہیں تھا ایک خاص منصوبہ بندی نظر آرہی تھی۔ عمران کی لڑائی حکومت سے نہیں کہ وہ اس حکومت کو کچھ سمجھتا ہی نہیں اس کی براہ راست لڑائی اور ٹارگٹ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ماضی میں جو لوگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہے ہیں وہ آج ’اگر مگر‘ کا شکار ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی سیاسی صورت حال ہے اور لگتا ہے انجام بھی غیر معمولی ہو گا۔ جب تک شعلے چھوٹے صوبوں تک رہے کسی کو اس کی تپش کا احساس تک نہ ہوا اب یہ آگ بڑے صوبے تک آگئی ہے۔ ’تخت پنجاب‘ کی لڑائی تختہ تک آن پہنچی ہے۔ ولی خان نے کہا تھا کہ ہم جو کھیل افغانستان میں کھیل رہے ہیں اس کا اختتام ایسا نہ ہو کہ اسلام آباد میں ہو۔ مولانا نورانی نے 1982ء میں کراچی پریس کلب میں کہا تھا ’’اگر یہ باربار کی مداخلت ختم نہ ہوئی تو اس آگ کو کوئی پھیلنے سےکوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
مظہر عباس 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistanpolitics · 1 year
Text
سیاسی پارٹیوں میں مطلق العنانی
Tumblr media
ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں میراث ہے نہ مطلق العنانی بلکہ جمہوریت ہے۔ جہاں امیر جماعت کی من مانی کی بجائے پارٹی مشاورت سے کام ہوتا ہے اور مقررہ مدت کے بعد طریقہ کار کے مطابق امیر کا انتخاب کیا جاتا ہے اور امارت کے حصول کے لیے کوئی رہنما از خود امیدوار نہیں بنتا بلکہ جماعت کے مجوزہ طریقے کے مطابق خفیہ ووٹنگ کے ذریعے مرکزی امیر منتخب کر لیا جاتا ہے جو حلف اٹھانے کے بعد من مانے فیصلے کر کے عہدیدار مقرر نہیں کرتا جب کہ باقی کسی جماعت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ پارٹی قائم کرنے والا ہی سربراہ ہوتا ہے اور وہ پارٹی میں اپنی مرضی ہی کے عہدیدار نامزد کرتا ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کوئی تقرری اور پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم ممکن نہیں ہوتی۔ ہر پارٹی اپنے امیدواروں کی نامزدگی کے لیے پارلیمانی بورڈ ضرور بناتی ہے اور پارلیمانی بورڈ اپنی سفارشات ہی پیش کر سکتا ہے حتمی فیصلہ پارٹی سربراہوں کا ہی ہوتا ہے۔ آصف زرداری کو پیپلز پارٹی، نواز شریف کو مسلم لیگ اور مولانا فضل الرحمن کو جے یو آئی بنی بنائی ملی۔ مسلم لیگ کو پاکستان بنانے کا اعزاز تو حاصل ہے مگر جتنے گروپ مسلم لیگ میں بنے اور کامیاب بھی رہے۔
غیر سول آمروں نے جب بھی اقتدار سنبھالا انھوں نے اپنی مرضی کی مسلم لیگ بنوائی اور اقتدار میں شریک کیا۔ جنرل ایوب کی مسلم لیگ کنونشن کا تو کوئی وجود نہیں رہا۔ بھٹو کے بعد ان کی بیگم پی پی کی چیئرمین بنی تھیں۔ جنھیں فارغ کر کے بے نظیر بھٹو نے پارٹی سنبھال لی تھی جن کی شہادت کے بعد آصف زرداری ہی پیپلز پارٹی کے وارث تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بنے گا اور وہ خود چیئرمین بن گئے مگر پارٹی میں وہی اہم فیصلے کرتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں محمد خان جونیجو کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ بنوائی گئی جس کی حکومت تین سال ہی میں جنرل ضیا نے ختم کر دی تھی جو بعد میں جونیجو لیگ کہلائی جس کے نواز شریف سربراہ بنے جو اب (ن) لیگ کہلاتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ق) قائم کر کے اس کی حکومت بنوائی جس نے 5 سال حکومت کی اور اس کے تین وزیر اعظم رہے، اگر بے نظیر کی شہادت نہ ہوتی تو مسلم لیگ (ق) 2008 میں دوبارہ حکومت بناتی۔ (ق) لیگ کی سربراہی میاں اظہر اور چوہدری شجاعت کے پاس تھی اس کے حقیقی سربراہ جنرل پرویز مشرف ہی تھے۔ (ق) لیگ سکڑ کر چوہدریوں تک رہ گئی ہے۔ 
Tumblr media
پیر پگاڑا مرحوم کی بنائی ہوئی مسلم لیگ (ف) بھی وراثت میں موجودہ پیر پگاڑا کو ملی ہے جو سندھ کے چند اضلاع اور پگاڑا خاندان تک محدود ہے۔ مسلم لیگ کے سب سے زیادہ گروپ بنے اور (ن) لیگ اب نواز شریف کی سربراہی میں کام کر رہی ہے اور انھی کی مرضی اور پالیسی کے مطابق چلائی جا رہی ہے اب میاں صاحب نے اپنی بیٹی مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر بھی بنا دیا ہے۔ میاں صاحب کے بھائی شہباز شریف کی حکومت پر اب (ن) لیگ کے سینئر رہنما بھی تنقید کر رہے ہیں اور نواز شریف دو سال سے لندن میں بیٹھ کر اپنی مرضی کے فیصلے کر رہے ہیں اور (ن) لیگ اب باپ بیٹی کے گرد گھومتی ہے اور (ن) لیگ میں دکھاؤے کے الیکشن بھی نہیں کرائے جا رہے۔ پیپلز پارٹی میں بھی من مانیوں کا راج ہے جو اب بھٹو خاندان سے ختم ہو کر زرداری خاندان کی ذاتی جاگیر بن چکی ہے اور پی پی کے سینئر رہنماؤں پر 32 سالہ بلاول زرداری کی حکمرانی ہے کیونکہ وہ وراثتی چیئرمین ہیں۔ جے یو آئی کے پی کے، بلوچستان اور سندھ میں اہم سیاسی پارٹی ہے جو پنجاب میں اہمیت کی حامل نہیں اور کے پی کے سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں کام کر رہی ہے، جہاں دکھاؤے کے الیکشن ہوتے ہیں۔ جے یو آئی کے سینئر رہنماؤں نے بلوچستان میں جے یو آئی کا نظریاتی گروپ ضرور بنایا ہوا ہے۔
پی ٹی آئی عمران خان نے بنائی تھی اور پی پی اور (ن) لیگ سے نالاں اچھی شہرت کے حامل سیاستدانوں اور ممتاز وکلا نے عمران خان سے اچھی توقعات وابستہ کر کے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی مگر جب انھوں نے قریب جا کر عمران خان کی من مانیاں اور پارٹی میں آمریت دیکھی تو ان رہنماؤں نے پی ٹی آئی چھوڑنا شر��ع کر دی تھی جس کا عمران خان پر کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ ان کے اصول بدلتے رہے اور انھوں نے مخلص اور نظریاتی رہنماؤں کو نظرانداز کر کے دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگوں کو اہمیت دینا اور الیکٹیبلز رہنماؤں کو بالاتروں کی مدد سے پی ٹی آئی میں لینا شروع کر دیا تھا کیونکہ عمران خان ہر قیمت پر اقتدار چاہتے تھے۔ انھوں نے عوام سے جھوٹے وعدے کر کے انھیں سہانے خواب دکھائے، بالاتروں کو متاثر کر کے ان کی حمایت حاصل کی اور اقتدار میں آ کر جو من مانی کی وہ دنیا نے دیکھ لی۔ عمران خان بیانیے تبدیل کرنے کے ماہر نکلے اور ساری پارٹیوں میں قائدین کی من مانیاں جاری ہیں۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
طلبہ یونین پر پابندی کا 39 واں سال، سندھ میں بحالی کا معاملہ پیچیدہ
حکومت کو تعلیمی اداروں کے سربراہوں کی جانب سے بدترین مخالفت کا سامنا ہے۔ فوٹو: فائل   کراچی: پاکستان میں طلبہ یونین پر لگائی گئی پابندی کے 39 ویں برس سندھ میں اس کی بحالی کے حوالے سے صورتحال انتہائی دلچسپ لیکن پیچیدہ ہوگئی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے جاری اقتدار کے چوتھے برس سال 2022 میں طلبہ یونین کی بحالی کا ایکٹ منظور کرواتے ہوئے اسے قانون تو بنادیا ہے تاہم اس کے نفاذ میں حکومت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
طلبہ یونین پر پابندی کا 39 واں سال، سندھ میں بحالی کا معاملہ پیچیدہ
حکومت کو تعلیمی اداروں کے سربراہوں کی جانب سے بدترین مخالفت کا سامنا ہے۔ فوٹو: فائل   کراچی: پاکستان میں طلبہ یونین پر لگائی گئی پابندی کے 39 ویں برس سندھ میں اس کی بحالی کے حوالے سے صورتحال انتہائی دلچسپ لیکن پیچیدہ ہوگئی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے جاری اقتدار کے چوتھے برس سال 2022 میں طلبہ یونین کی بحالی کا ایکٹ منظور کرواتے ہوئے اسے قانون تو بنادیا ہے تاہم اس کے نفاذ میں حکومت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
طلبہ یونین پر پابندی کا 39 واں سال، سندھ میں بحالی کا معاملہ پیچیدہ
حکومت کو تعلیمی اداروں کے سربراہوں کی جانب سے بدترین مخالفت کا سامنا ہے۔ فوٹو: فائل   کراچی: پاکستان میں طلبہ یونین پر لگائی گئی پابندی کے 39 ویں برس سندھ میں اس کی بحالی کے حوالے سے صورتحال انتہائی دلچسپ لیکن پیچیدہ ہوگئی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے جاری اقتدار کے چوتھے برس سال 2022 میں طلبہ یونین کی بحالی کا ایکٹ منظور کرواتے ہوئے اسے قانون تو بنادیا ہے تاہم اس کے نفاذ میں حکومت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
طلبہ یونین پر پابندی کا 39 واں سال، سندھ میں بحالی کا معاملہ پیچیدہ
حکومت کو تعلیمی اداروں کے سربراہوں کی جانب سے بدترین مخالفت کا سامنا ہے۔ فوٹو: فائل   کراچی: پاکستان میں طلبہ یونین پر لگائی گئی پابندی کے 39 ویں برس سندھ میں اس کی بحالی کے حوالے سے صورتحال انتہائی دلچسپ لیکن پیچیدہ ہوگئی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے جاری اقتدار کے چوتھے برس سال 2022 میں طلبہ یونین کی بحالی کا ایکٹ منظور کرواتے ہوئے اسے قانون تو بنادیا ہے تاہم اس کے نفاذ میں حکومت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
کیا اپنوں کو ہی نوازنے آئے تھے؟
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید 8 معاونین خصوصی مقرر کر دیے ہیں جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور اس نئے تقرر کے بعد کابینہ کی تعداد 70 ہو گئی ہے۔ برسوں قبل رقبے میں سب سے بڑا اور آبادی میں سب سے چھوٹے صوبے میں صرف ایک رکن بلوچستان اسمبلی اپوزیشن میں رہ گی�� تھا اور باقی تمام ارکان اسمبلی کو بلوچستان کابینہ میں مختلف عہدوں سے نواز دیا گیا تھا اور اب ایک نئی مثال موجودہ اتحادی حکومت میں پیش کی گئی ہے جس میں 11 جماعتیں شامل ہیں اور صرف دو چھوٹی جماعتیں ایسی ہیں جن کو حکومتی عہدہ نہیں ملا۔ اے این پی کو کے پی کی گورنر شپ دی جانی تھی جس میں مولانا فضل الرحمن رکاوٹ بنے تو ایک قومی نشست رکھنے والی اے این پی کو وفاقی وزارت دینے کی کوشش کی گئی مگر انھوں نے لینے سے انکار کر دیا اور سابق وزیر اعلیٰ کے پی آفتاب شیرپاؤ بھی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں اور اب 8 معاونین خصوصی کا حصہ بھی پیپلز پارٹی کو دیا گیا ہے کیونکہ سندھ میں برسر اقتدار اور اتحادی حکومت کی دوسری بڑی جماعت ہے جس کے پاس متعدد اہم وفاقی وزارتیں ہیں۔
قومی اسمبلی میں 85 نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ (ن) نے 5 ماہ قبل وزارت عظمیٰ اور بعض اہم وزارتیں لی تھیں جس کے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سیاسی کم اور کاروباری زیادہ ہیں اور انھوں نے ملک میں مہنگائی بڑھا کر ماضی کی پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) کو جولائی کے ضمنی انتخابات میں شکست سے دوچار کرا کر (ن) لیگ سے پنجاب کی حکومت بھی گنوائی اور آئی ایم ایف سے قسطیں ملنے کے بعد صورتحال میں بہتری کا جو خواب انھوں نے (ن) لیگی قیادت کو دکھایا تھا وہ بھی چکنا چور ہو گیا اور قرضے کی دو قسطیں ملنے کے بعد ڈالر کی مسلسل اڑان جاری ہے اور مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے جس کی ذمے داری خود لینے کے بجائے وزیر خزانہ سیلاب پر ڈال کر بری الذمہ ہو جائیں گے اور مفتاح اسمٰعیل کے اس دوسرے تجربے کی ناکامی کے بعد دس اکتوبر کے بعد وہ آئینی طور پر وزیر خزانہ نہیں رہ سکیں گے۔
محکمہ ریلوے کے ماضی کے کامیاب وزیر خواجہ سعد رفیق کو نہ جانے کیوں ہوا بازی کا محکمہ وزیر اعظم نے دیا ہوا ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف کی واپسی کی آئے دن تاریخیں دینے والے وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف سمیت متعدد وزیر محکموں سے محروم ہیں۔ بھٹو دور میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے میاں خورشید تو بھٹو حکومت کے خاتمے تک وزیر بے محکمہ ہی رہے تھے اور انھیں چار سال تک عہدہ نہیں ملا تھا جب کہ موجودہ اتحادی حکومت کا تو مستقبل بھی نظر نہیں آ رہا کہ کب اتحادی روٹھ جائیں یا کب کسی کے اشارے پر صدر مملکت وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیں اور کب نئے انتخابات کا بگل بج جائے۔ اتحادی حکومت میں یہ حال ہے کہ ان کی اپنی ہی پارٹی کے وزیر توانائی خرم دستگیر ہی اپنے وزیر اعظم کے اعلان کی تردید کر رہے اور کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کے اعلان کردہ تین سو یونٹوں تک فیول ایڈجسٹمنٹ کی رقم معاف نہیں کی جا رہی ہے بلکہ عارضی طور پر ملتوی کی جا رہی ہے جو یقینی طور پر سردیوں میں بجلی کے کم استعمال کے نتیجے میں جب بل کم ہوں گے تو یہ فیول ایڈجسٹمنٹ رقم وصول کر لی جائے گی۔
ملک بھر میں وزیر توانائی خرم دستگیر کے اپنے ضلع گوجرانوالہ سمیت بجلی بلوں کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ بل اور ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کی جا رہی ہیں، مظاہرین بل جمع نہ کرانے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت میں بڑے حصے کی حامل مسلم لیگ (ن) سے پوچھ رہے ہیں کہ بیوی بچوں کا پیٹ پالیں یا بجلی کے بھاری بل ادا کریں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف بھی عوام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پٹرول کی بچت کے لیے عوام پیدل چلیں یا سائیکلوں پر سفر کریں اور بجلی کی بھی بچت کریں تاکہ بجلی کے بل کم آئیں۔ وزیر توانائی سمیت متعدد (ن) لیگی وزیروں نے بارشوں سے قبل ملک میں بجلی کی بے پناہ لوڈ شیڈنگ کم ہونے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے مگر سخت گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ مزید بڑھ گئی تھی۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق تو ملک میں حکومت کا وجود ہے ہی نہیں بلکہ موقعہ پرستوں کا ایک ٹولہ ہے جو جلد سے جلد اپنے اقتداری حصے وصول کرنے میں دن رات مصروف ہے شاید انھیں خطرہ ہے کہ نہ جانے کب اتحادی حکومت ختم ہو جائے اس لیے زیادہ سے زیادہ مفادات اور مال سمیٹ لیا جائے جس میں وہ کمی نہیں کر رہے اور اپنوں کو نواز بھی رہے ہیں۔
گیارہ بارہ جماعتوں کی حکومتوں میں شامل سیاسی رہنما اپنے اتحادیوں کو بھی بھول چکے ہیں جن سے وعدے کر کے شہباز شریف کو اپنا وزیراعظم منتخب کرایا تھا۔ پیپلز پارٹی سندھ کا گورنر ایم کیو ایم کا بنوا سکی نہ کے پی میں اے این پی کو گورنری دلا سکی اور حکومت بلوچستان میں پانچ ماہ بعد بھی اپنے اتحادی کو گورنر کا عہدہ نہیں دلا سکی ہے البتہ آئے روز وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کے نوٹیفکیشن ضرور جاری کیے جا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے پی اور بلوچستان میں اپنے گورنر لگوانے کے لیے کوشاں ہیں اور باقی اتحادیوں کو کچھ نہیں ملا۔ مولانا کے صاحبزادے کے پاس مواصلات جیسی اہم وزارت اور جے یو آئی کے تین وزیر بھی حکومت کا حصہ ہیں۔ ایک سابق سینئر بیورو کریٹ نے اپنے ایکسپریس میں شایع ہونے والے کالم میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان سے بیرون ملک سرمایہ منتقل کرانے، شہریت دلوانے جیسے کام کرانے کے ایک ماہر نے انھیں بتایا ہے کہ اتحادی حکومت کے لوگ اپنا کمایا گیا ناجائز مال بیرون ملک محفوظ کرانے میں پہلے والوں سے بھی زیادہ پیش پیش ہیں اور بہت جلدی یہ کام کرا رہے ہیں۔
اتحادی حکومت کو عمران حکومت کی نااہلی اور آئی ایم ایف سے طے معاملات کا پتا تھا انھوں نے ریاست بچانے کی آڑ میں عمران خان کے خوف اور مزید مقدمات سے بچنے کے لیے عمران خان کو ہٹایا تھا یہ بھی سابق حکومت کی طرح عوام کے ہمدرد ہیں نہ ہی عوام کو ریلیف دینے آئے تھے بلکہ مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم کرنے عوام کے لیے بجلی گیس، پٹرول مہنگا کرنے آئے تھے۔ متعدد وزرا اپنا سوٹ پہننے کا شوق پورا کرنے آئے تھے تاکہ میڈیا میں منفرد نظر آئیں کیونکہ سوٹ پہنے بغیر یہ خود کو حاکم نہیں سمجھتے۔ اتحادی حکومت کو بھی عوام سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ انھوں نے عوام مخالفانہ اقدامات سے عوام کے دلوں میں اپنے لیے دوریاں بڑھا لی ہیں اور سب نے اپنوں کو نوازنا تھا اور مزید نوازیں گے۔ اب ان سے اچھائی کی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیے۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
نواز شریف واپس آ کر کیا کریں گے؟
Tumblr media
نواز شریف کی واپسی کا مقصد کیا ہے؟ کیا وہ محض انتخابی سیاست کرنے اور ایک بار پھر وزیر اعظم بننے آ رہے ہیں یا وہ اس کشمکش اقتدار سے بلند ہو کر ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اگر وہ چوتھی بار وزیر اعظم پاکستان بننے کے ارادے سے تشریف لا رہے ہیں تو ان کا آنا نہ آنا برابر ہے لیکن اگر وہ خود کو کشمکش سیاست سے بلند کر کے کسی بڑے مقصد کی جانب بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ان کی واپسی ملک کے لیے ایک نئے دور کی ابتدا ہو سکتی ہے۔ میاں نواز شریف کی عمر 73 سال ہے۔ بظاہر یہ عمر انتخابی سیاست کی مشقت اٹھانے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ انتخابی سیاست کی معراج وزارت عظمی کا حصول ہوتا ہے، میاں صاحب تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ بطور وزیر اعظم پاکستان میں سب سے طویل دورانیہ میاں صاحب کا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وہ وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ اس منصب کے ساتھ اگر کوئی رومان ہو تو وہ اب تک ختم ہو جانا چاہیے۔ اتنا طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے بعد اقتدار کی مزید کوئی خواہش یا حسرت بھی باقی نہیں رہتی۔ عمر کے اس حصے میں بطور وزیر اعظم وہ کوئی انقلاب لانے سے بھی رہے۔ 
سوال پھر یہ ہے کہ وہ واپس آ کر کیا کریں گے؟ کیا وہی جوڑ توڑ اور مفاہمت کی انتخابی سیاست، جس میں تمام آدرش مٹی میں ملا کر بالآخر وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے؟ عشروں پہلے جو پہیہ ایجاد ہو چکا، میاں صاحب اگر اسے نئے سرے سے ایجاد کریں گے تو یہ کوئی بڑا یا غیر معمولی کام نہیں ہو گا۔ وہ واپس آئیں یا نہ آئیں، کوئی فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ اس میدان میں یہ کام کرنے کے لیے اب ان سے زیادہ تجربہ کار اور زیادہ تازہ دم کھلاڑی موجود ہیں۔ ہاں البتہ اگر وہ انتخابی سیاست سے بالاتر ہو کر ایک ’سٹیٹس مین‘ کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں تو کرنے کو بہت کچھ ایسا ہے جس میں نواز شریف کی مقبولیت تجربے اور سیاسی قد کاٹھ کے سامنے کوئی متبادل اور مقابل موجود نہیں ہے۔ انتخابی سیاست سے بلند ہو کر اس ملک کے لیے جو کچھ وہ کر سکتے ہیں، اور کوئی نہیں کر سکتا۔ وہ ایک مقبول اور تجربہ کار سیاسی شخصیت ہیں۔ تجربے کے باب میں آصف زرداری بھی ان کے مقابل ہیں لیکن ان کے پاس زاد راہ محدود ہے۔ ان کا تجربہ سیاسی جوڑ توڑ میں تو کام آ سکتا ہے لیکن انتخابی سیاست سے اٹھ کر اخلاقی بنیادوں پر کوئی بڑا کام کرنے کی صلاحیت ان میں شاید اتنی نہیں ہے۔
Tumblr media
مولانا فضل الرحمان بھی ایک زیرک اور دانا سیاسی شخصیت ہیں لیکن وہ کسی ریاستی یا اعلیٰ حکومتی منصب پر فائز نہیں رہے اور ان کی سیاسی حیثیت کا دائرہ کار بھی محدود ہے۔ نواز شریف اپنی مقبولیت، تجربے اور سیاسی حیثیت میں ان دونوں شخصیات سے آگے ہیں۔ بات اب صرف افتاد طبع کی ہے کہ کیا میاں صاحب انتخابی سیاست ہی کے تقاضوں کے اسیر ہو کر رہ جائیں گے یا وہ اس سے کچھ بڑا سوچ سکیں گے۔ وہ اگر انتخابی سیاست اپنی جماعت کی دوسرے درجے کی قیادت کے سپرد کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیں کہ وہ وزارت عظمی کے امیدوار نہیں ہوں گے اور الیکشن جیتنے کی صورت میں وہ حکومت سے باہر رہ کر حکومت کی اصلاح ، مشاورت اور رہنمائی تک محدود رہتے ہوئے اقتدار سے بڑے مقصد کے لیے کام کریں گے تو یہ نسبتاً زیادہ بڑا اور شاندار اقدام ہو گا۔ پاکستان میں فالٹ لائنز بڑھتی جا رہی ہیں۔ قومی سیاست سمٹتی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی عملا سندھ کی جماعت بن کر رہ چکی ا ور مسلم لیگ ن جی ٹی روڈ کے اطراف کی جماعت ہے۔ چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی بڑھ رہا ہے کہ قومی زندگی کی فیصلہ سازی میں انہیں لاتعلق کر دیا گیا ہے۔ نواز شریف چاہیں تو وہ قومی وحدت کا پرچم اٹھا سکتے ہیں۔
وہ بھلے اپنی جماعت کی تنظیم سازی ہی کو لے کر آگے بڑھیں لیکن ان کی منزل وزیر اعظم ہاؤس یا پارلیمان نہیں ہے۔ ان کی منزل بلوچستان، کے پی اور سندھ کے دور دراز کے علاقے ہونے چاہییں جہاں قومی سطح کے سیاست دان کبھی گئے ہی نہیں۔ دوری، تلخی اور محرومی کا احساس بڑھ رہا ہے۔ قومی سیاست چند بڑے شہروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جب صرف لاہور کی قومی اسمبلی کی نشستیں قریب قریب پورے بلوچستان کے برابر ہوں تو کسی کو کیا پڑی ہے وہ بلوچستان کی خاک چھانتا رہے۔ لیکن اگر کوئی سیاست دان انتخابی سیاست سے بلند ہو کر چیزوں کو دیکھے تو اسے معلوم ہو گا کہ قومی وحدت کے لیے چھوٹے صوبوں میں قومی سیاست دانوں کا جانا اور بار بار جانا کتنا ضروری ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ آج تک ایک بھرپور سیاسی تنظیم نہیں بنا سکی۔ سیاسی نظم کے بغیر سیاسی جماعت ادھوری ہے۔ اہل سیاست کا خوف پارٹی کو خاندان سے باہر نکلنے ہی نہیں دیتا ، اور یہ خوف بلاوجہ بھی نہیں۔ لیکن نواز شریف چاہیں تو وہ اس خوف سے بے نیاز ہو کر مسلم لیگ ن کو ایک حقیقی سیاسی جماعت بنا سکتے ہیں۔
اہل سیاست میں بڑھتی تلخی کے ہنگام ایک میثاق اخلاقیات کی بھی شدید ضرورت ہے۔ اقتدار کی صف بندی سے بے نیاز ہو کر معاشی مبادیات وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سیاسی کارکنان کی تربیت اور احترام باہمی پر مبنی سیاسی کلچر کے فروغ کی بھی ضرورت ہے۔ نواز شریف صاحب اقتدار کی سیاست سے آگے نکل سکیں تو یہ سیاست اور یہ سماج قدم قدم پر رفو گری کا طالب ہے۔ گر یہ نہیں تو بابا باقی کہانیاں ہیں۔ اس صورت میں آنا نہ آنا برابر ہے۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
emergingkarachi · 1 year
Text
لاوارث شہر کا ’میئر‘ کون
Tumblr media
وہ شاعر نے کہا تھا نا’’ ؎ مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں۔‘‘ ابھی ہم پہلے سال کی بارشوں کی تباہ کاریوں سے ہی باہر نکل نہیں پائے کہ ایک اور سمندری طوفان کی آمد آمد ہے۔ اب خدا خیر کرے یہ طوفان ٹلے گا یا میئر کا الیکشن جو کم از کم کراچی میں کسی سیاسی طوفان سے کم نہیں۔ ویسے تو مقابلہ پی پی پی کے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب اور جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کے درمیان ہے مگر دونوں کی جیت اس وقت زیر عتاب پاکستان تحریک انصاف کے منتخب بلدیاتی نمائندوں پر منحصرہے، وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں۔ اتوار کے روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بڑے پراعتماد نظر آئے اور کہا نہ صرف میئر کراچی ایک ’جیالا‘ ہو گا بلکہ اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر سندھ کے لوگ پی پی پی کو ووٹ دیں گے۔ بظاہر کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے مگر شاہ صاحب پہلے آنے والے طوفان سے تو بچائیں۔ دوسری طرف اسی شام جماعت اسلامی نے، جس کی شکایت یہ ہے کہ پی پی پی زور زبردستی سے اپنا ’میئر‘ لانا چاہتی ہے، سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے ’مدد‘ طلب کی ہے۔ 
امیر جماعت اسلامی سراج الحق خصوصی طور پر کراچی آئے کیونکہ یہ الیکشن جماعت کیلئے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ شاید پورے پاکستان میں یہ واحد بلدیہ ہے جہاں ان کا میئر منتخب ہو سکتا ہے اگر پاکستان تحریک انصاف کے تمام منتخب بلدیاتی نمائندے حافظ نعیم کو ووٹ دے دیں۔ ماضی میں جماعت کے تین بار میئر منتخب ہوئے دو بار عبدالستار افغانی 1979ء اور 1983ء میں اور جناب نعمت اللہ ایڈووکیٹ 2001 میں، مگر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 1979ء میں پی پی پی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جیسا آج پی ٹی آئی کے بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ ہو رہا ہے ورنہ افغانی صاحب کا جیتنا مشکل تھا البتہ 1983ء میں وہ باآسانی جیت گئے اور دونوں بار ڈپٹی میئر پی پی پی کا آیا۔ لہٰذا ان دونوں جماعتوں کا یہاں کی سیاست میں بڑا اسٹیک ہے۔ اسی طرح نعمت اللہ صاحب کو 2001 کی میئر شپ متحدہ قومی موومنٹ کے بائیکاٹ کے طفیل ملی جنہوں نے اس وقت کے بلدیاتی الیکشن میں حصہ نہیں لیا، جو ایک غلط سیاسی فیصلہ تھا۔
Tumblr media
اب ت��وڑی بات ہو جائے پی پی پی کی بلدیاتی سیاست کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ 22 اگست 2016ء کے بعد جو ہوا اس سے شہری سندھ کا سیاسی توازن پی پی پی کے حق میں چلا گیا اور پہلی بار دیہی اور شہری سندھ کی بلدیاتی قیادت ان کے ہاتھ آنے والی ہے، جس میں حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر اور نواب شاہ شامل ہیں۔ پی پی پی پر تنقید اپنی جگہ مگر کسی دوسری سیاسی جماعت نے اندرون سندھ جا کر کتنا سیاسی مقابلہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہو یا 29 سال پرانی تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن)۔ رہ گئی بات ’قوم پرست‘ جماعتوں کی تو بدقسمتی سے یہ صرف استعمال ہوئی ہیں ’ریاست‘ کے ہاتھوں۔ ایسے میں افسوس یہ ہوتا ہے کہ اتنی مضبوط پوزیشن میں ہونے اور برسوں سے برسر اقتدار رہنے کے باوجود آج بھی سندھ کا اتنا برا حال کیوں ہے۔ شہروں کو ایک طرف رکھیں کیا صوبہ تعلیمی میدان میں آگے ہے کہ پیچھے۔ بارشوں کا پانی جاتا نہیں اور نلکوں میں پانی آتا نہیں۔ 
18ویں ترمیم میں واضح اختیارات کے باوجود۔ آج بھی منتخب بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت کے مرہون منت ہیں، آخر کیوں؟۔ چلیں اس کو بھی ایک طرف رکھیں۔ شاہ صاحب جس وقت پریس کانفرنس کر رہے تھے تو ان کے دائیں اور بائیں سب منتخب نمائندے بیٹھے تھے، سوائے میئر کیلئے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب کے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں بات بھی شائستگی سے کرتے ہیں جس میں والدین وہاب اور فوزیہ وہاب کی تربیت بھی نظر آتی ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ یو سی کا الیکشن جیت کر امیدوار بنتے۔ اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ اگر پی پی پی بلدیاتی الیکشن میں کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے تو کیا کوئی بھی منتخب نمائندہ اس قابل نہیں کہ ’میئر‘ کیلئے نامزد ہو سکے ایسے میں صرف ایک غیر منتخب نمائندے کو میئر بنانے کیلئے قانون میں ترمیم کی گئی۔ کیا یہ رویہ جمہوری ہے۔ مرتضیٰ سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ آپ نے بلدیاتی الیکشن نہیں لڑا اور اب کیا آپ کی نامزدگی منتخب یوسی چیئرمین کے ساتھ ’تھوڑی زیادتی‘ نہیں۔ 
تعجب مجھے اس لئے نہیں ہوا کیونکہ پی پی پی میں کچھ ایسا ہی چند سال پہلے بھی ہوا تھا جب پارٹی کی کراچی کی صدارت کیلئے رائے شماری میں تین نام تھے جن کو ووٹ پڑا مگر جب نتائج کا اعلان ہوا تو ایک صاحب جو دوڑ میں ہی نہیں تھے وہ کراچی کے صدر ہو گئے۔ ’جیالا‘ کون ہوتا ہے اس کا بھی شاید پی پی پی کی موجودہ قیادت کو علم نہ ہو کہ یہ لفظ کیسے استعمال ہوا اور کن کو ’جیالا‘ کہا گیا۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی چڑھ جانے والوں، خود سوزی کرنے اور کوڑے کھانے، شاہی قلعہ کی اذیت سہنے والوں کے لئے اس زمانے میں پہلی بار استعمال ہوا یعنی وہ جو جان دینے کے لئے تیار رہے اور دی بھی۔ اب مرتضیٰ کا مقابلہ ہے جماعت کے ’جیالے‘ سے یا انہیں آپ جماعتی بھی کہہ سکتے ہیں، حافظ نعیم سے ، جنہوں نے پچھلے چند سال میں خود کو ایک انتہائی محنتی اور متحرک سیاسی کارکن منوایا اور جلد کراچی شہر میں جماعت کی پہچان بن گئے۔ دوسرا 2016ء میں متحدہ کو ’ریاستی طوفان‘ بہا کر لے گیا جس کو حافظ نعیم نے پر کرنے کی کوشش کی اور بارشوں میں شہر کے حالات اور تباہی نے بھی انہیں فائدہ پہنچایا۔
مگر ان دونوں جماعتوں کے درمیان آئی، پی ٹی آئی اور 2018ء میں 14 ایم این اے اور 25 ایم پی اے جیت گئے جس کا خود انہیں الیکشن کے دن تک یقین نہیں تھا۔ البتہ حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں انہیں نشستیں ضرور مل گئیں کہ کراچی کا میئر جو بھی منتخب ہو گا وہ ’پی ٹی آئی‘ کی وجہ سے ہی ہو گا چاہے وہ ووٹ کی صورت میں، مبینہ طور پر ’نوٹ‘ کی صورت میں ہو یا لاپتہ ہونے کی صورت میں۔ اگر 9؍ مئی نہیں ہوتا توشاید ان کے معاملات خاصے بہتر ہوتے، اب دیکھتے ہیں کہ اگر الیکشن ہو جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کے کتنے نومنتخب نمائندے آتے ہیں اور کتنے لائے جاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ووٹنگ اوپن ہے سیکرٹ بیلٹ کے ذریعہ نہیں۔ رہ گئی بات ’لاوارث کراچی‘ کی تو بھائی کوئی بھی آجائے وہ بے اختیار میئر ہو گا کیونکہ سیاسی مالی اور انتظامی اختیارات تو بہرحال صوبائی حکومت کے پاس ہی ہوں گے یہ وہ لڑائی ہے جو کسی نے نہیں لڑی۔ لہٰذا ’کراچی کی کنجی‘ جس کے بھی ہاتھ آئے گی اس کا اختیار 34 فیصد شہر پر ہی ہو گا۔ جس ملک کے معاشی حب کا یہ حال ہو اس ملک کی معیشت کا کیا حال ہو گا۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
اگر عدلیہ آزاد ہوتی
Tumblr media
چیف جسٹس عمر بندیال کو تاریخ کیسے یاد رکھے گی یہ تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اب ہے امتحان نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں کہ الیکشن 2023ء کے ہونے نہ ہونے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ 2007ء میں سابق چیف جسٹس (ر) افتخار چوہدری کے انکار کے نتیجے میں جس تحریک نے جنم لیا وہ تاریخی جدوجہد ہونے کے باوجود اپنے اصل مقاصد یعنی اعلیٰ عدلیہ کو نظریہ ضرورت اور پی سی او کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد نہ کر پائی البتہ ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دیگر اداروں کی طرح یہاں عہدہ کی میعاد میں توسیع نہیں ہوتی اور آپ کو پتا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں کون کب چیف جسٹس ہو گا۔ جناب افتخار چوہدری سے لیکر جسٹس بندیال تک شاید ہم وہ خواب پورے نہ کر سکے کہ عام آدمی کو بھی جلد انصاف ملے۔ ایک ایسے تقسیم شدہ معاشرہ میں جہاں لوگ بینچ کی تشکیل سے فیصلے سمجھ جائیں، جہاں ریاست کے اندر ریاست کا تصور عدلیہ کو کمزور سے کمزور کر رہا ہو وہاں بہت زیادہ توقعات بھی نہیں ہونی چاہئیں بس نئے چیف پر بھاری ذمہ داری اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کی بھی آگئی ہے۔ 
ایک کنٹرول جمہوریت میں جہاں چند سال بعد سیاست کا نیا اسکرپٹ تیار کیا جاتا ہو، جماعتیں بنانے اور توڑنے کی فیکٹریاں لگی ہوں وہاں عدلیہ کے سیاسی فیصلوں میں شک و شہبات آتے ہی ہیں۔ ریاست کے چار ستونوں میں اگر تضاد آجائے اور تصادم والی صورت حال پیدا ہو جائے تو سب کی نظر اعلیٰ عدلیہ پر ہی جاتی ہے۔ کاش 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد کے گورنر راج والے فیصلے کو فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر نظریہ ضرورت کے تحت درست نہ قرار دیتے اور سندھ کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے تو شاید ہمیں 1971ء دیکھنے کو نہ ملتا۔ اس وقت غلام محمد اور جسٹس منیر کے درمیان خفیہ پیغامات نے پاکستان توڑنے کی بنیاد فراہم کر دی اور اسکے بعد سے آج تک ہم سنبھل ہی نہ پائے اور عدلیہ اتنی آزاد ہوئی جتنی جمہوریت اور صحافت۔ اس ملک میں چار مارشل لا لگے 1958ء سے 1999ء کے درمیان۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پہلی ہی آمریت کو آمریت اور آمر کو آمر کہہ دیتے تو شاید مارشل لا دفن ہو جاتا ہمیشہ کیلئے اور نظریہ ضرورت زندہ نہ ہوتا، کیا بدقسمتی ہے کہ جہاں ججز کیا عدلیہ ہی نظر بند ہو، ججز، چیف جسٹس اپنے گھروں سے باہر نہ آ سکیں وہاں کیسی آزاد عدلیہ اور کہاں کے انصاف پر مبنی فیصلے، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور گھروں کی آڈیو ویڈیو لیک ہوتی ہوں اور کوئی تحقیق تک نہ ہو کمیشن بنے تو اسے روک دیا جائے وہاں خود ججزز کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں۔
Tumblr media
ایسے فیصلے تو ویڈیو ریکارڈ کرنے والے کو حوصلہ دیتے ہیں۔ ایک بار سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی مرحوم نے بتایا تھا کہ 16؍ اکتوبر 1999ء کی شام جب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ حکومت ختم کر دی گئی ہے اور فوج نے اقتدار سنبھال لیا ہے میں نے ساتھی ججوں کو فون کرنا شروع کیا کہ کیا کرنا ہے ماسوا چند ججز کے جن کا تعلق کراچی سے تھا کسی نے یا تو فون نہیں اٹھایا یا اگر مگر کر کے اس مسئلے پر بات نہیں کی۔ جب ہم خود ہی کمزور ہو جائیں تو کسی سے کیا شکایت۔ میں کورٹ جانے کے لئے دوسرے دن باہر نکلا تو ایک جونیئر آفیسر نے جو باہر ہی کھڑا تھا مجھ سے کہا سر آپ گھر میں رہیں۔ جس ملک میں ایک وزیراعظم کو عدالتی قتل کے ذریعہ پھانسی دیدی جائے اور اس بینچ کے ایک جج سالوں بعد اعتراف کریں کہ انہوں نے جونیئر جج ہونے کے ناتے پھانسی کے حق میں فیصلہ دبائو میں دیا اور پھر وہی جج اس ملک کا چیف جسٹس بنے وہاں انصاف نہ ہوتا ہے اور نہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے، ایک زمانہ تھا جب ججزز اپنے فیصلوں سے بولتے تھے اب ریمارکس اور ٹی وی کے ٹکرز کے ذریعہ بولتے ہیں۔
بدقسمتی سے وکیلوں اور صحافیوں، سیاستدانوں اور سی ایس پی اور بیورو کریسی کی جو نئی پود اس فرسودہ تعلیمی نظام کی وجہ سے سامنے آ رہی ہے اسکے واضح اثرات ہمیں ان اداروں میں نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں اس ملک کے نئے چیف جسٹس کیا تبدیلی لاسکتے ہیں اور یہ ہی ان کا اصل امتحان ہو گا۔ ان کے سامنے کئی چیلنجزز ہیں کاش چیف جسٹس عمر بندیال صاحب فل کورٹ اجلاس بلا کر اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے تقسیم کا تاثر ختم کرتے، کسی ایک آدھ مسئلہ پر فل کورٹ بنا ڈالتے، مفادات کے ٹکرائو پر بینچ سے الگ ہونے کی اعلیٰ روایت برقرار رکھی جاتی اور کچھ نہیں تو یا تو پنجاب اسمبلی کے معاملے پر از خود نوٹس نہ لیتے اور یا پھر 14 مئی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کو توہین عدالت پر سزا ہی دے ڈالتے۔ ہر چیز تاریخ پرچھوڑنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ ہم تو تاریخ بھی اپنے مطلب کی لکھتے ہیں۔ 
اب نئے چیف صاحب ایک ایسے وقت میں اپنے عہدہ کا حلف لینے جا رہے ہیں جہاں انہیں ایک طرف اعلیٰ عدلیہ کی تقسیم کے تاثر کو زائل کرنا ہے، بہت سے اہم فیصلے کرنے ہیں، سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا ہے، ازخود نوٹس کے طریقہ کار کو اور اس کیخلاف اپیل والے مسئلے کو دیکھنا ہے اور سب سے بڑھ کر سول کورٹ سے سیشن کورٹ تک ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک اور ان عدالتوں کے درمیان انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے لے کر ملٹری کورٹ تک کے معاملات کو صرف دیکھنا ہی نہیں حل نکالنا ہے۔ عام آدمی کے لئے تاریخ پر تاریخ کے رحجان کو ختم کرنا ہے۔ شاید ان کے لئے یہ آسان نہ ہو کیونکہ خود ہماری وکلا برادری اور بار ایسوسی ایشن سیاسی طور پر مکمل تقسیم ہیں وکیلوں پر بدقسمتی سے سیاسی مفادات حاوی ہیں۔ خود میری برادری میں صحافیوں کو وزیر، مشیر اور وزیراعلیٰ بننے کا شوق بڑھتا جا رہا ہے تو دوسرں سے کیا شکایت۔ آج کا تو فلسفہ صحافت بھی یہ ہے جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔ چاہے ضمیر ہی کیوں نہ ہوں۔
مظہر عباس 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduinspire · 4 years
Text
مندر اور سیاست-- خورشید ندیم
Tumblr media
سیاست کے صنم خانے سے کعبے کو نئے پاسبان مل رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی سے سندھ اسمبلی تک، مذہبی شعار کے دفاع کا فریضہ وہ لوگ سر انجام دے رہے ہیں جو بظاہر غیر مذہبی سیاست دان ہیں۔ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر اب تازہ موضوع ہے۔ ہر سیاسی جماعت آگے بڑھ کر خود کو اسلام کا محافظ ثابت کر رہی ہے۔ پنجاب میں ن لیگ اور ق لیگ میں مقابلہ ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی اپنا وڈیو پیغام جاری کر چکے اور ن لیگ بھی سنتے ہیں پنجاب اسمبلی میں قرار داد پیش کر رہی ہے۔ اس سے پہلے پنجاب اسمبلی چند کتابوں پر مذہبی بنیادوں پر پابندی بھی لگا چکی۔ اللہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے مگر جب اہلِ سیاست اس طرح مذہب کی خدمت کے لیے سر بکف ہو جائیں تو میرا ماتھا ٹھنکنے لگتا ہے۔ اس تشویش کی بنیاد ہماری تاریخ میں ہے۔ پاکستان کی سیاسی کہانی یہ ہے کہ پہلے دن سے یہاں مذہب کو اقتدار کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ 1950ء سے 1970ء کی دہائی تک جو مذہبی تحریکیں چلیں، ان کے پس پردہ مقاصد سیاسی تھے۔ مذہب کے نام پر جب سیاسی تحریکیں اٹھتی ہیں تو ان کے تجزیے میں دو باتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ ایسی تحریکیں اکثر وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو ان سے سیاسی مقاصد کشید کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان تحریکوں میں کچھ سادہ لوح بھی شریک ہو جاتے ہیں جو دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی تحریکیں خدمتِ اسلام کے لیے اٹھائی جاتی ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو اپنی جان پر بھی کھیل جاتے ہیں۔ جو لوگ 1977ء میں سر پر کفن باندھ کر گولیاں کھانے کے لیے نکلے تھے، وہ بھٹو کو ہٹانے کے لیے تو جان نہیں دے رہے تھے۔ ان کے پیشِ نظر اسلام کا نفاذ تھا۔ یہ ان مخلصین کا لہو ہے جو ان تحریکوں میں جان ڈالتا ہے۔ اس کے سیاسی فوائد ان کی جھولی میں گرتے ہیں جو Read the full article
1 note · View note
pakistanpolitics · 2 years
Text
کیا ن لیگ اپنی طبعی عمر پوری کر چکی؟
Tumblr media
شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق اور مفتاح اسماعیل کے بدلتے تیور کیا اس بات کی علامت ہیں کہ موروثیت کا سرطان مسلم لیگ ن کو گھائل کر چکا اور اس کی طبعی عمر پوری ہو چکی؟ حزب اختلاف کا دور مسلم لیگ ن نے دلاوری سے گزارا لیکن اقتدار میں آئے ایک سہ ماہی نہیں گزری کہ اس کی صفوں میں اب ان رہنماؤں کا دم بھی گھٹنے لگا ہے جو عشروں پورے قد اور سارے حوصلے کے ساتھ مسلم لیگ ن کا حصہ رہے۔ شاہد خاقان عباسی الجھے الجھے سے پھر رہے ہیں، سعد رفیق جیسا آدمی دہائی دیتا ہے کہ موروثیت نے اس کا دل توڑ دیا ہے اور مفتاح اسماعیل معاشی پالیسی سے اختلاف کرتے ہیں تو انہیں ’جوکر‘ کا طعنہ دیا جاتا ہے؟ نجی معاملات اور پرائیویٹ لمیٹڈ قسم کے بندوبست میں خدام اور مشقتیوں کے ساتھ تو اس طرح کے بے نیازی اور تند خوئی گوارا کی جا سکتی ہو گی لیکن کیا ایک سیاسی جماعت اپنے کارکنان اور رہنماؤں کے ساتھ اس رویے کی متحمل ہو سکتی ہے؟
کہنے کو اسے سازش سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد، ہم خیال، پیٹریاٹ، ق لیگ اور تحریک انصاف جیسے تجربات کے بعد اس تجربہ گاہ میں تمام سیاسی جماعتوں سے ’نیک نام‘ لوگ اکٹھے کر کے ایک نیا تجربہ کیا جا رہا ہے لیکن فی الوقت اس کا یقین کرنا مشکل ہے۔ سعد رفیق کا تو معلوم نہیں لیکن شاہد خاقان عباسی ایسے کسی تجربے کی بھینٹ کیوں چڑھیں گے؟ انہوں نے ایسا کچھ کرنا ہوتا تو تجربہ گاہ میں انہیں بہت پہلے بہت سازگار ماحول میسر تھا۔ تب وہ ہلکا سا التفات کرتے اور سارے موسم ان پر سازگار ہو جاتے۔ لیکن انہوں نے نیب کی قید کاٹی اور جرات سے کاٹی۔ مسلم لیگ ن سے سعد رفیق کا تعلق بھی معمولی نہیں۔ ایک فعال وزیر رہے، ریلوے کو کھڑا کیا اور نیک نامی کمائی۔ اگرچہ ایک زمانے میں ان کے تحریک انصاف سے رابطوں کی کہانیاں عام ہوئیں لیکن ان کی صداقت کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ دور ابتلا میں بھی اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔
Tumblr media
مفتاح اسماعیل کو ن لیگ نے اس وقت متبادل معاشی مینیجر کے طور پر پیش کیا جب عمران خان کو حکومت سے الگ کر کے اقتدار سنبھالا گیا۔ پھر یہ کیا قصہ ہے کہ ایک دو ماہ میں وہ اتنے معتوب ہو گئے کہ شریف خاندان کے وہ نوجوان ان کی تضحیک کر رہے ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق ہے نہ ان کے پاس کوئی منصب ہے؟ یہ تینوں رہنما آج گریزاں گریزاں سے پھرتے ہیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ پارٹی میں ہر اس شخص کے لیے ماحول اجنبی ہوتا جا رہا ہے جو عقل پر عقیدت کی برتری کا قائل نہ ہو۔ سیاسی جماعتوں میں یہ رویہ ایک حد تک گوارا ہوتا ہے لیکن پھر ایک وقت آتا ہے، اس پر رد عمل آتا ہے۔ مسلم لیگ ن پر وہی وقت آ چکا ہے، آثار بتا رہے ہیں اس کی طبعی عمر تمام ہو چکی۔مسلم لیگ ن کے پاس کارکنان کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی رومان باقی نہیں رہا۔ جو پارٹی سیاست میں رومان برقرار نہ رکھ سکے وہ فعل ماضی بن جاتی ہے۔ اس کے پاس ایسا کوئی پروگرام بھی نہیں جو نوجوانوں کو اس کی طرف راغب کر سکے۔ پرانی عصبیت برف کے باٹ کی صورت دھوپ میں پڑی ہے اور نیا خون پارٹی میں شامل نہیں ہو رہا۔ ایسے میں انجام جاننے کے لیے آئن سٹائن کی ضرورت ہے نہ ابن خلدون کی۔
مسلم لیگ کی سب سے بڑی قوت اس کی معاشی استعداد تھی۔ ایک تاثر تھا کہ یہ جیسی بھی ہے معیشت کو سنبھال لے گی۔ یہ تاثر بھی بکھر چکا ہے۔ عمران کو ہٹانے کے بعد کوئی ایک کام ایسا نہیں کیا جا سکا جس سے عوام کو کچھ ریلیف ملا ہو۔ مسلم لیگ ن کی مبلغ معاشی مہارت کوئی دانش اجتماعی یا ادارہ سازی نہیں تھی صرف اسحاق ڈار تھے۔ معلوم نہیں وہ کہاں ہیں۔ ان کی معاشی پالیسیوں پر مفتاح اسماعیل کو بھی اعتماد نہیں، عوام کیسے کریں؟ اس کی قوت کا مرکز پنجاب تھا۔ پرویز الہی نے اعتماد کا ووٹ لے کر اس مرکز کے طلسم میں بھی شگاف ڈال دیا ہے کے پی، بلوچستان اور سندھ میں پہلے ہی مسلم لیگ ن کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب میں بھی سمٹ گئی تو اس کا مستقبل کیا ہو گا ؟ مسلم لیگ ن اگر ایک سیاسی جماعت ہے تو اسے ان پہلوؤں پر توجہ دینا ہو گی لیکن اگر وہ محض ایک موروثی بندوبست ہے توپھر اسے معلوم ہونا چاہیے وقت کا موسم بدل چکا ہے۔ نئے موسم موروثیت کو راس نہیں آئیں گے۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes