Tumgik
#سیگل
Text
«آموزش سیگل جذب ثروت» را در YouTube تماشا کنید
youtube
1 note · View note
ivaracosmetics-blog · 5 years
Photo
Tumblr media
🌺 کرم دور چشم سی گل مدل ایج پرو . 📌 سفت کننده پوست 📌کاهش چروک اطراف چشم و خط خنده 📌 کاهش پف و کبودی و تغییر رنگ دور چشم .  #سی_گل #سیگل #کرم_دور_چشم #مرطوب_کننده #جوان_کننده #ضدچروک #ضدپیری #ضدتیرگی #ضدپف #رطوبت_رسان #فروشگاه_آرایشی #پرداخت_در_محل #مراقبت_پوست #مرطوب_کننده #سفت_کننده #antiaging #lifting #seagull #antiwrinkle #skincare (at Tehran, Iran) https://www.instagram.com/p/B0Qe5OVgoNj/?igshid=vpmlilejudcf
0 notes
viadescioism · 4 years
Note
سیگل مطالعه چگونه کار می کنه
نحوه استفاده از سیگیل (ساده شده): برای استفاده از سیگیل باید سیگلی را که می خواهید استفاده کنید ، شارژ کرده و فعال کنید. شما می توانید هر سیگیل یا هر سیگلی که ایجاد کرده اید را انتخاب کنید. بعد سیگن را با استفاده از روش شارژ شارژ کنید می توانید این کار را با مدیتیشن با سیگل ، خیره شدن به سیگیل ، یا فشار دادن انرژی معنوی خود به داخل سیگیل یا روش دیگری از روش شارژ ، انجام دهید. برای فعال کردن سیگیل ، تنها کاری که باید انجام دهید این است که آن را نزد خود نگه دارید یا پس از شارژ شدن ، آن را از بین ببرید. از آنجا کار در آشکار کردن تمایل شما آغاز می شود. این همه کاری است که شما باید برای استفاده از سیگنال انجام دهید.
1 note · View note
ebraimsaeedinejhad · 2 years
Text
.
بعد از "مرگ الیویه بکای" از امیل زولا و "مرگ کامو" از جووانی کاتللی، "کلاس تشریح -کالبدشکافی- دکتر تولپ" نوشته‌ی نینا سیگل، سومین کتاب درخشانی بود که در این مدت و در میان کلی کتاب کم‌رمق و بی‌جان خواندم.
کتاب -رمان- همان‌طور که از نام‌اش بر می‌آید درباره‌ی جهانی است که مهم‌ترین اثر "رامبرانت" -چه در میزانسن و ترکیب‌بندی و چه در نورپردازی و پرداخت- یعنی "کلاس کالبدشکافی دکتر تولپ" در آن شکل گرفته و ساخته و پرداخته شده است.
"کلاس کالبدشکافی دکتر تولپ" اثری است که رامبرانت آن را در بیست و شش‌سالگی کشیده است و در واقع اولین اثری است که با نام کامل خود آن را امضا کرده است. در این اثر دکتری با نام "نیکولاس تولپ" به شرح ماهیچه‌های دست یک جسد برای متخصصان پزشکی می‌پردازد. در نقاشی -آن‌طور که طبق منابع و در کتاب نینا سیگل آمده- تماشاگران حاضر در اثر، جراحان مختلفی از انجمن صنفی جراحان آمستردام هستند که مبلغی را پرداخت کرده‌اند تا در نقاشی حضور داشته باشند. تاریخ این رویداد باید ۳۱ ژانویه ۱۶۳۲ باشد: انجمن صنفی جراحان آمستردام فقط یک بار در سال مجاز به برگزاری کالبدشکافی به صورت عمومی بود و بدن مورد تشریح هم می‌بایست حتما متعلق به یک جنایتکار اعدام شده باشد.. دروس آناتومی در قرن ۱۷ میلادی یک رویداد مهم اجتماعی بود که در سالن‌های سخنرانی برگزار می‌شد و عموم مردم به شرط پرداخت هزینه ورودی، مجاز به شرکت در آن بودند. از جمله کسانی مانند "دکارت".
نینا سیگل که کتاب‌ش را در فرصت مطالعاتی- تحقیقی نوشته، انگیزه‌اش را فکر کردن به گذشته‌ی جسدی که در نقاشی است دانسته. این که پیش از این او سرگذشتی داشته است و بارها و بارها به آغوش کشیده و کشیده شده است. و همین روایتِ کتاب درجه یک و خواندنی او می‌شود که در دویست و شصت و سه صفحه با ترجمه‌ی ��لی جمالی پور در نشر خوب منتشر شده است. ترجمه بسیار خوب و روان و نزدیک به حال و هوای متن است -بدون سکته و سکسکسه- و چاپ اثر رامبرانت روی جلد هم بسیار خوب است چون در حین خواندن کتاب، مدام مجبوری به نقاشی رجوع کنی. با تمام این‌ها اما باید بگویم تمام چیزی که گفتم تنها تکه‌ی کوچکی از این کتاب درخشان و پرجان است. کتابی متفاوت که باید خوانده شود..
Tumblr media Tumblr media
1 note · View note
telegramchannel · 3 years
Text
کانال ابزارسیگل
ابزار سیگل فروشنده انواع ابزار و یراق ساختمانی و صنعتی،تعمیرگاهی و برقی،کشاورزی و باغبانی و… (تکی و عمده) – برای خرید کافیست به ما پیام دهید:👇 @Unes0007 @hosein007007 – تماس 09163419606 – اینستاگرام Instagram.com/AbzarSigol – وب سایت Www.abzarsigol.ir افزودن کانال
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
informationtv · 4 years
Text
ٹرمپ دوبارہ صدر بھی بن جائیں تو اُن کا اکاؤنٹ بند رہے گا: ٹوئٹر انتظامیہ
ٹرمپ دوبارہ صدر بھی بن جائیں تو اُن کا اکاؤنٹ بند رہے گا: ٹوئٹر انتظامیہ
ویب ڈیسک —  ٹوئٹر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ مستقل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ دوبارہ امریکہ کے صدر بھی بن گئے پھر بھی ٹوئٹر استعمال نہیں کر سکیں گے۔ بدھ کو امریکی نشریاتی ادارے ‘سی این بی سی’ کو دیے گئے انٹرویو میں ٹوئٹر کے چیف فنانشل آفیسر (سی ایف او) نیڈ سیگل کا کہنا تھا کہ اگر سابق صدر نے 2024 کا صدارتی الیکشن لڑا اور اس میں کامیاب بھی ہو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years
Text
این آر او کیلیے مارک سیگل کو 60 لاکھ ڈالرز دیے، فرخ حبیب
این آر او کیلیے مارک سیگل کو 60 لاکھ ڈالرز دیے، فرخ حبیب
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وفاقی پارلیمانی سیکریٹری برائے ریلوے فرخ حبیب نے کہا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کسی ایک جماعت کے نہیں بلکہ تمام جماعتوں سے متعلق ہے۔ پی ڈی ایم ماضی کا حصہ بن چکی،اداروں کو دھمکا رہے ہیں:شبلی فراز ہم نیوز کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما فرخ حبیب نے کہا کہ اپوزیشن…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
viadescioism · 4 years
Note
سلام این سیگل ها از کجا آمدن
من خودم آنها را دوست خود ایجاد می کنم
0 notes
sorenel46 · 5 years
Photo
Tumblr media
ا✔پشتین خودکشی کرد یا به قتل رسید؟ به گزارش اسپوتنیک به نقل از «فاکس نیوز»، جفری اپشتین میلیاردر آمریکایی که به اتهام قاچاق جنسی در زندان در حبس بود به احتمال زیاد به قتل رسیده است. دکتر مارک سیگل بر اساس نتایج کالبدشکافی اعلام کرد:«مرگ اپشتین می تواند خودکشی و یا قتل باشد. اما بر اساس نتایج کالبدشکافی با اطمینان بیشتری می توانم بگویم که او به قتل رسیده است. زیرا بر بدن او علایمی گویای این امر مشاهده شده است». وی همچنین بر شرایط مشکوکی استناد کرد که می توانستند با مرگ او مرتبط باشند. به گفته او، در زندان نیویورک میلیاردر 6 روز در یک سلول ویژه قرار داشت تا تمام مدت تحت نظارت قرارداشته باشد، زیرا خطر آن می‌رفت که او دست به خودکشی بزند. سپس بدون هرگونه هشداری نظارت ها پایان یافت و محافظان زندان لحظه مرگ او را به ثبت نرساندند. جفری اپشتین، میلیاردر 66 ساله آمریکایی که به اتهام «قاچاق دختران کم سن برای استفاده جنسی» و سوءاستفاده جنسی از افراد زیر سن قانونی زندانی شده بودشاید به قتل رسیده باشد. اکنون پرسش‌ در خصوص نحوه مرگ جفری اپشتین که با دونالد ترامپ هم رابطه داشت افزایش یافته و قرار است در مورد این پرونده تحقیق کند. جفری اپشتین رابطه نزدیکی با سیاستمداران و چهره‌های پرنفوذ آمریکا از جمله دونالد ترامپ رئیس جمهوری این کشور داشت. یک ویدئویی جنجالی نیز که به سال 1992 بر می‌گردد، چندی پیش منتشر شد که در آن جفری اپشتین در کنار دونالد ترامپ دیده می شد.✔ (at Gorgan, Iran) https://www.instagram.com/p/B1Oe9IiAgau/?igshid=fgndof564dxw
0 notes
weaajkal · 5 years
Text
سلمان خان کی ’ملال‘ کی ہیروئن شرمین سیگل کے لئے نیک خواہشات کا اظہار
سلمان خان کی ’ملال‘ کی ہیروئن شرمین سیگل کے لئے نیک خواہشات کا اظہار @BeingSalmanKhan #SharminSegal #Aajkalpk
سلمان خان نے نئی آنے والی بالی ووڈ فلم ’ملال‘ کی ہیروئن شرمین سیگل کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔
سلمان خان نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک تصویر شیئر کی ہے، جو سالگرہ کے موقع پر لی گئی ہے اور اس میں سلمان خان ایک بچی کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔
Just like that, it’s time now to see this beautiful little Sharmin bloom on the silver screen in her debut film, Malaal. May this new journey bring…
View On WordPress
0 notes
Text
نمایشگاه اسلحه‌‌های نمادین با استفاده از قطعات دوربین
نمایشگاه اسلحه‌‌های نمادین با استفاده از قطعات دوربین
[ad_1]
دو هنرمند که یکی از آنها یک عکاس حرفه‌ای است با ساخت اسلحه‌‌های نمادین با استفاده از قطعات دوربین، سعی دارند تا  برای پیام ضد خشونت خود را به گوش همه برسانند.
جیسون سیگلعکاسی است که با استفاده از روشی جالب و خلاقانه قصد دارد پیامی ضد خشونت را به گوش جهان برساند. او می‌گوید از ابتدای سال ۲۰۱۷ کار خود را به صورت جدی آغاز کرده است. سیگل اسلحه‌ها و سلاح‌های جنگی را با استفاده از دوربین‌،…
View On WordPress
0 notes
mypakistan · 9 years
Text
بے نظیر بھٹو قتل اور جنرل (ر) پرویز مشرف
جنرل (ر) پرویز مشرف کے سیاسی اور آئینی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ آئین کو پہلے توڑا۔ پھراس کا حلیہ بگاڑا اور عدلیہ کو ہاتھ کی چھڑی بنانے کی کوشش کی۔ اپنے اقتدار کو مقدم اور قومی مفاد کو موخر رکھا۔ وہ فوج جیسے قومی ادارے کو متنازع بنانے کا موجب بنے۔ احتساب کے نام پر سیاسی بلیک میلنگ کی۔ کراچی میں آج فوج کے جوان جن کانٹوں کو چن رہے ہیں ٗ ان کو اگایا جنرل ضیاء الحق نے تو بچھایا جنرل پرویز مشرف نے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وار آن ٹیرر کے حوالے سے ڈبل گیم سے کام لے کر پاکستان کو دہشتستان بنایا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود میرے ذہن نے کبھی اس دعوے کو قبول نہیں کیا کہ
بے نظیر بھٹو کو مارنے میں جنرل پرویز مشرف کا کوئی ہاتھ تھا۔
یہ افواہیں اور سازشی تھیوریاں بڑی حد تک دم توڑ گئی تھیں لیکن اب جبکہ ایک امریکی لابیسٹ مارک سیگل نے اس حوالے سے بیان دے دیا تو ایک بار پھر زور پکڑ گئیں۔ حالانکہ مارک سیگل جیسے لوگوں کی باتوں پر شاید ان کے ملک کے اندر بھی کوئی شخص یقین نہ کرے لیکن نہ جانے ہم امریکہ سے کیوں اس قدر مرعوب ہوگئے ہیں کہ ان کا کوئی سازشی ذہن جب بھی چاہے کوئی بیان دے دیتا ہے اور اس سے ہمارے ملک میں طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مارک سیگل ایک لابیسٹ اور بنیادی طور پر سازشی انسان ہے ۔ انہیں بے نظیر بھٹو سے اس وقت تک ہمدردی تھی جب تک وہ ان سے فیس بٹورتا رہا ۔ ان میں اگر اخلاقی جرات ہوتی تو وہ ان کے قتل کے فوراً بعد پاکستان آکر تحقیقات میں 
معاونت کرتے۔
دوسری بات یہ کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جس وقت انہیں بے نظیر بھٹو کی کال آئی اس وقت آصف علی زرداری بھی موجود تھے ۔ اب بے نظیر بھٹو کے وارث، مارک سیگل نہیں بلکہ آصف علی زرداری ہیں لیکن انہوں نے کسی انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت مح��وس کی اور نہ کبھی اس دعوے کی تائید کی ۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیا پرویز مشرف کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ غیرملکی ایجنسیاں ان کے اور بے نظیر بھٹو کے فون کو ٹیپ کررہی ہیں ؟
انہیں اگر بے نظیر بھٹو کو دھمکی دینی بھی تھی تو اس کیلئے موبائل فون کے علاوہ کوئی اور ذریعہ استعمال نہیں کرسکتے تھے ۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے بھی بے نظیر بھٹو کے قتل کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اورمحترمہ بھی جب تک زندہ تھیں وہ بھی اپنی زندگی کو لاحق خطرے کے معاملے کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتی رہیں۔ انہوں نے ای میل میں جن چار لوگوں پر اپنے قتل کی سازش کا الزام لگایا ان میں جنرل پرویز مشرف ٗ جنرل (ر) حمید گل ٗ چوہدری پرویز الٰہی اور بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ شامل تھے۔ اب ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت جنرل پرویز مشرف اور جنرل حمید گل ایک دوسرے کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے ۔ اب ان حالات میں جنرل حمیدگل ٗ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ مل کر کس طرح بے نظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ تیار کرسکتے تھے؟
چونکہ طالبان یا القاعدہ کا نام لینے سے پیپلز پارٹی کی قیادت کیلئے خطرات مزید بڑھ سکتے تھے اور اس کا کوئی سیاسی فائدہ بھی نہیں تھا ٗ اس لئے وہ ابتداء میں کبھی پرویز مشرف کی طرف اشارہ کرتے اور کبھی قاتل لیگ قاتل لیگ پکارتے لیکن اگر واقعی پیپلز پارٹی کی قیادت کی نظروں میں بے نظیر بھٹو کے قتل میں پرویز مشرف اور پرویز الٰہی کا کوئی ہاتھ تھا تو پھر پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر کیوں دیا گیا اور پرویز الٰہی کو زرداری صاحب نے اپنی حکومت میں نائب وزیراعظم کیوں بنایا ؟۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کیساتھ ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پرپرویز مشرف خوش نہیں تھے تو بھی اس سے یہ بات کہاں سے نکلتی ہے کہ وہ ان کے قتل کی سازش میں بھی شریک تھے ۔ ان کا ایسا ارادہ ہوتا تو ایک رات قبل ڈی جی آئی ایس آئی جاکر ان کو خطرے سے کیوں آگاہ کرتے ۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) ندیم تاج سیاسی مزاج کے حامل متنازع ڈی جی آئی ایس آئی نہیں تھے بلکہ ایک خالص پروفیشنل تھے جو اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے کے بعد خاموش زندگی گزاررہے ہیں۔ مستقبل کے لحاظ سے پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو سے نہیں بلکہ میاں نوازشریف سے زیادہ خطرہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ میاں نواز شریف منتقم مزاج انسان ہیں جبکہ اقتدار انہوں نے بے نظیر سے نہیں بلکہ میاں نوازشریف سے چھینا تھا۔ معاہدے کی خلاف ورزی بے نظیر بھٹو سے بڑھ کر میاں نوازشریف نے بھی کی تھی ۔ جنرل پرویز مشرف اگر قتل کی سازش تیار کرنے کے اتنے ماہر تھے تو پھر خاکم بدہن انہوں نے میاں صاحب کیخلاف کوئی سازش کیوں تیار نہیں کی؟
پاکستان سازشی نظریات سے مالامال ملک ہے ۔ یہاںآج بھی ان لوگوں کی کمی نہیں جو یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ایبٹ آباد آپریشن کے وقت اسامہ بن لادن وہاں موجود نہیں تھے اور ایک بڑا طبقہ آج بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ طالبان کی شکل میں جو لوگ پاکستانی فوج سے لڑرہے ہیں ٗ وہ مسلمان اور پاکستانی ہیں ۔ میں بھی چاہوں تو بے نظیر بھٹو کے قتل میں جنرل پرویز مشرف کے شریک ہونے پرسو دو سو صفحات کے سازشی نظریات اور ان کے دلائل تحریر کرسکتا ہوں جبکہ زرداری صاحب کو شریک جرم بنانے کے سازشی نظریے کے حق میں تو چار پانچ سو صفحات آسانی کے ساتھ لکھے جاسکتے ہیں لیکن اگر بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو ذہن میں رکھا جائے تو حقیقت تک رسائی میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ میں اپنی ذاتی تحقیق کے ذریعے خود بھی اس نتیجے تک پہنچا ہوں اور تمام قرائن اور شواہد بھی پتہ دیتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کو تحریک طالبان پاکستان نے القاعدہ کے ایما ء پر قتل کیا۔
اب تک اس حوالے سے میں نے جو کچھ سناٗ پڑھا اور دیکھا ہے ٗ ان کے تناظر میں ٗ میں اس بات پر مطمئن ہوں کہ بے نظیر بھٹو کو القاعدہ کی قیادت کے ایما پر بیت اللہ محسود کے حکم سے ان کے طالبان نے قتل کیا اور اس دعوے کی تائید بے نظیر بھٹو کے سیاسی جانشین یوسف رضاگیلانی اور سیاسی وارث آصف علی زرداری بھی کرچکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے نظیر بھٹو سے القاعدہ اور طالبان کی دشمنی کیا تھی؟ تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ القاعدہ کی قیادت شروع دن سے نظیر بھٹو کو اپنا مسلکی مخالف اور امریکہ کا آلہ کار سمجھ رہی تھی۔ یہ دشمنی اتنی پرانی تھی کہ اسامہ بن لادن نے ابتدائی دنوں میں میاں نوازشریف کی بھرپور مدد کی تھی۔
القاعدہ اور طالبان کی قیادت کا یہ خیال تھا کہ امریکہ نے بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کی ڈیل اس بنیاد پر کی ہے کہ وہ دونوں مل کر خطے سے ان دونوں کا قلع قمع کریں۔ گویاپرویز مشرف کی موجودگی میں بے نظیر بھٹو کا وزیراعظم بننا وہ اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھ رہے تھے ۔ اب جبکہ یہ بات طے ہے کہ قتل کا منصوبہ القاعدہ اور طالبان نے تیار کیا تو پھر ان کی قیادت کے ساتھ پرویز مشرف کے گٹھ جوڑ کی کوئی منطق مارک سیگل اور ان کے سازشی نظریے کے حامیوں کو دینی ہوگی۔
یہ اس طرح کا دعویٰ ہے کہ کوئی یہ کہہ کہ نریندرا مودی نے حافظ سعید کے ساتھ مل کر سونیا گاندھی کو قتل کرنے کی سازش تیار کی۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں تو ان دنوں اسامہ بن لادن یا بیت اللہ محسود کے ساتھ پرویز مشرف کے ساز باز اور وہ بھی بے نظیر بھٹو کو مارنے کیلئے ٗ کا کوئی امکان موجود نہیں تھا۔
القاعدہ کے خالد شیخ محمد جیسے اہم ترین لوگ پرویز مشرف کے دور میں پکڑ کر امریکہ کے حوالے کئے جاچکے تھے ۔ خود پرویز مشرف کو مارنے کیلئے القاعدہ اور تحریک طالبان نے دو حمل�� کئے تھے اور کئی مزید منصوبے ناکام بنائے جاچکے تھے۔
 اگر تو یہ کام افغان طالبان یا کسی پاکستانی جہادی گروہ نے کیا ہوتا پھر بھی گٹھ جوڑ کا کوئی امکان تلاش کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس عالم میں جبکہ پرویز مشرف کی حکومت ٗ القاعدہ اور پاکستانی طالبان کے ساتھ حالت جنگ میں تھی ٗ نے مل کر بے نظیربھٹو جیسی لیڈر کے قتل کی سازش تیار کی ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ یہ الزام لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کماحقہ سیکورٹی فراہم نہ کرنے کی غفلت کی مرتکب ہوئی لیکن ایک رات قبل ڈی جی آئی ایس آئی کا خود بے نظیر بھٹو سے ملاقات اور انہیں خطرے سے آگاہ کرنا ٗ کیا غیرمعمولی حساسیت کا اظہار نہیں ۔
پھر اگر سیکورٹی نہ ہوتی تو جلسہ گاہ میں ان کو نشانہ بنایا جاتا ۔ اگر بے نظیر بھٹو اس وقت گاڑی سے سر باہر نہ نکالتیں تو پھر بھی تو انتظامات کافی تھے۔ مکرر عرض ہے کہ پرویز مشرف کے سیاسی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے ۔ مجھے ان سے کوئی ہمدردی ہے نہ تو کوئی غرض لیکن کسی کی مخالفت میں حق کا دامن چھوڑنا اور ایک سابق وزیراعظم کے قتل کے معاملے کو مزید الجھنوں کا شکار بنانا اور اسے سازشی تھیوریز کی بھینٹ چڑھانا بھی درست نہیں ۔
سلیم صافی
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘
0 notes
risingpakistan · 9 years
Text
بے نظیر بھٹو قتل اور جنرل (ر) پرویز مشرف
جنرل (ر) پرویز مشرف کے سیاسی اور آئینی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ آئین کو پہلے توڑا۔ پھراس کا حلیہ بگاڑا اور عدلیہ کو ہاتھ کی چھڑی بنانے کی کوشش کی۔ اپنے اقتدار کو مقدم اور قومی مفاد کو موخر رکھا۔ وہ فوج جیسے قومی ادارے کو متنازع بنانے کا موجب بنے۔ احتساب کے نام پر سیاسی بلیک میلنگ کی۔ کراچی میں آج فوج کے جوان جن کانٹوں کو چن رہے ہیں ٗ ان کو اگایا جنرل ضیاء الحق نے تو بچھایا جنرل پرویز مشرف نے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وار آن ٹیرر کے حوالے سے ڈبل گیم سے کام لے کر پاکستان کو دہشتستان بنایا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود میرے ذہن نے کبھی اس دعوے کو قبول نہیں کیا کہ
بے نظیر بھٹو کو مارنے میں جنرل پرویز مشرف کا کوئی ہاتھ تھا۔
یہ افواہیں اور سازشی تھیوریاں بڑی حد تک دم توڑ گئی تھیں لیکن اب جبکہ ایک امریکی لابیسٹ مارک سیگل نے اس حوالے سے بیان دے دیا تو ایک بار پھر زور پکڑ گئیں۔ حالانکہ مارک سیگل جیسے لوگوں کی باتوں پر شاید ان کے ملک کے اندر بھی کوئی شخص یقین نہ کرے لیکن نہ جانے ہم امریکہ سے کیوں اس قدر مرعوب ہوگئے ہیں کہ ان کا کوئی سازشی ذہن جب بھی چاہے کوئی بیان دے دیتا ہے اور اس سے ہمارے ملک میں طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مارک سیگل ایک لابیسٹ اور بنیادی طور پر سازشی انسان ہے ۔ انہیں بے نظیر بھٹو سے اس وقت تک ہمدردی تھی جب تک وہ ان سے فیس بٹورتا رہا ۔ ان میں اگر اخلاقی جرات ہوتی تو وہ ان کے قتل کے فوراً بعد پاکستان آکر تحقیقات میں 
معاونت کرتے۔
دوسری بات یہ کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جس وقت انہیں بے نظیر بھٹو کی کال آئی اس وقت آصف علی زرداری بھی موجود تھے ۔ اب بے نظیر بھٹو کے وارث، مارک سیگل نہیں بلکہ آصف علی زرداری ہیں لیکن انہوں نے کسی انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت محسوس کی اور نہ کبھی اس دعوے کی تائید کی ۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیا پرویز مشرف کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ غیرملکی ایجنسیاں ان کے اور بے نظیر بھٹو کے فون کو ٹیپ کررہی ہیں ؟
انہیں اگر بے نظیر بھٹو کو دھمکی دینی بھی تھی تو اس کیلئے موبائل فون کے علاوہ کوئی اور ذریعہ استعمال نہیں کرسکتے تھے ۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے بھی بے نظیر بھٹو کے قتل کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اورمحترمہ بھی جب تک زندہ تھیں وہ بھی اپنی زندگی کو لاحق خطرے کے معاملے کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتی رہیں۔ انہوں نے ای میل میں جن چار لوگوں پر اپنے قتل کی سازش کا الزام لگایا ان میں جنرل پرویز مشرف ٗ جنرل (ر) حمید گل ٗ چوہدری پرویز الٰہی اور بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ شامل تھے۔ اب ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت جنرل پرویز مشرف اور جنرل حمید گل ایک دوسرے کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے ۔ اب ان حالات میں جنرل حمیدگل ٗ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ مل کر کس طرح بے نظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ تیار کرسکتے تھے؟
چونکہ طالبان یا القاعدہ کا نام لینے سے پیپلز پارٹی کی قیادت کیلئے خطرات مزید بڑھ سکتے تھے اور اس کا کوئی سیاسی فائدہ بھی نہیں تھا ٗ اس لئے وہ ابتداء میں کبھی پرویز مشرف کی طرف اشارہ کرتے اور کبھی قاتل لیگ قاتل لیگ پکارتے لیکن اگر واقعی پیپلز پارٹی کی قیادت کی نظروں میں بے نظیر بھٹو کے قتل میں پرویز مشرف اور پرویز الٰہی کا کوئی ہاتھ تھا تو پھر پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر کیوں دیا گیا اور پرویز الٰہی کو زرداری صاحب نے اپنی حکومت میں نائب وزیراعظم کیوں بنایا ؟۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کیساتھ ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پرپرویز مشرف خوش نہیں تھے تو بھی اس سے یہ بات کہاں سے نکلتی ہے کہ وہ ان کے قتل کی سازش میں بھی شریک تھے ۔ ان کا ایسا ارادہ ہوتا تو ایک رات قبل ڈی جی آئی ایس آئی جاکر ان کو خطرے سے کیوں آگاہ کرتے ۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) ندیم تاج سیاسی مزاج کے حامل متنازع ڈی جی آئی ایس آئی نہیں تھے بلکہ ایک خالص پروفیشنل تھے جو اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے کے بعد خاموش زندگی گزاررہے ہیں۔ مستقبل کے لحاظ سے پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو سے نہیں بلکہ میاں نوازشریف سے زیادہ خطرہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ میاں نواز شریف منتقم مزاج انسان ہیں جبکہ اقتدار انہوں نے بے نظیر سے نہیں بلکہ میاں نوازشریف سے چھینا تھا۔ معاہدے کی خلاف ورزی بے نظیر بھٹو سے بڑھ کر میاں نوازشریف نے بھی کی تھی ۔ جنرل پرویز مشرف اگر قتل کی سازش تیار کرنے کے اتنے ماہر تھے تو پھر خاکم بدہن انہوں نے میاں صاحب کیخلاف کوئی سازش کیوں تیار نہیں کی؟
پاکستان سازشی نظریات سے مالامال ملک ہے ۔ یہاںآج بھی ان لوگوں کی کمی نہیں جو یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ایبٹ آباد آپریشن کے وقت اسامہ بن لادن وہاں موجود نہیں تھے اور ایک بڑا طبقہ آج بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ طالبان کی شکل میں جو لوگ پاکستانی فوج سے لڑرہے ہیں ٗ وہ مسلمان اور پاکستانی ہیں ۔ میں بھی چاہوں تو بے نظیر بھٹو کے قتل میں جنرل پرویز مشرف کے شریک ہونے پرسو دو سو صفحات کے سازشی نظریات اور ان کے دلائل تحریر کرسکتا ہوں جبکہ زرداری صاحب کو شریک جرم بنانے کے سازشی نظریے کے حق میں تو چار پانچ سو صفحات آسانی کے ساتھ لکھے جاسکتے ہیں لیکن اگر بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو ذہن میں رکھا جائے تو حقیقت تک رسائی میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ میں اپنی ذاتی تحقیق کے ذریعے خود بھی اس نتیجے تک پہنچا ہوں اور تمام قرائن اور شواہد بھی پتہ دیتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کو تحریک طالبان پاکستان نے القاعدہ کے ایما ء پر قتل کیا۔
اب تک اس حوالے سے میں نے جو کچھ سناٗ پڑھا اور دیکھا ہے ٗ ان کے تناظر میں ٗ میں اس بات پر مطمئن ہوں کہ بے نظیر بھٹو کو القاعدہ کی قیادت کے ایما پر بیت اللہ محسود کے حکم سے ان کے طالبان نے قتل کیا اور اس دعوے کی تائید بے نظیر بھٹو کے سیاسی جانشین یوسف رضاگیلانی اور سیاسی وارث آصف علی زرداری بھی کرچکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے نظیر بھٹو سے القاعدہ اور طالبان کی دشمنی کیا تھی؟ تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ القاعدہ کی قیادت شروع دن سے نظیر بھٹو کو اپنا مسلکی مخالف اور امریکہ کا آلہ کار سمجھ رہی تھی۔ یہ دشمنی اتنی پرانی تھی کہ اسامہ بن لادن نے ابتدائی دنوں میں میاں نوازشریف کی بھرپور مدد کی تھی۔
القاعدہ اور طالبان کی قیادت کا یہ خیال تھا کہ امریکہ نے بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کی ڈیل اس بنیاد پر کی ہے کہ وہ دونوں مل کر خطے سے ان دونوں کا قلع قمع کریں۔ گویاپرویز مشرف کی موجودگی میں بے نظیر بھٹو کا وزیراعظم بننا وہ اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھ رہے تھے ۔ اب جبکہ یہ بات طے ہے کہ قتل کا منصوبہ القاعدہ اور طالبان نے تیار کیا تو پھر ان کی قیادت کے ساتھ پرویز مشرف کے گٹھ جوڑ کی کوئی منطق مارک سیگل اور ان کے سازشی نظریے کے حامیوں کو دینی ہوگی۔
یہ اس طرح کا دعویٰ ہے کہ کوئی یہ کہہ کہ نریندرا مودی نے حافظ سعید کے ساتھ مل کر سونیا گاندھی کو قتل کرنے کی سازش تیار کی۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں تو ان دنوں اسامہ بن لادن یا بیت اللہ محسود کے ساتھ پرویز مشرف کے ساز باز اور وہ بھی بے نظیر بھٹو کو مارنے کیلئے ٗ کا کوئی امکان موجود نہیں تھا۔
القاعدہ کے خالد شیخ محمد جیسے اہم ترین لوگ پرویز مشرف کے دور میں پکڑ کر امریکہ کے حوالے کئے جاچکے تھے ۔ خود پرویز مشرف کو مارنے کیلئے القاعدہ اور تحریک طالبان نے دو حملے کئے تھے اور کئی مزید منصوبے ناکام بنائے جاچکے تھے۔
 اگر تو یہ کام افغان طالبان یا کسی پاکستانی جہادی گروہ نے کیا ہوتا پھر بھی گٹھ جوڑ کا کوئی امکان تلاش کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس عالم میں جبکہ پرویز مشرف کی حکومت ٗ القاعدہ اور پاکستانی طالبان کے ساتھ حالت جنگ میں تھی ٗ نے مل کر بے نظیربھٹو جیسی لیڈر کے قتل کی سازش تیار کی ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ یہ الزام لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کماحقہ سیکورٹی فراہم نہ کرنے کی غفلت کی مرتکب ہوئی لیکن ایک رات قبل ڈی جی آئی ایس آئی کا خود بے نظیر بھٹو سے ملاقات اور انہیں خطرے سے آگاہ کرنا ٗ کیا غیرمعمولی حساسیت کا اظہار نہیں ۔
پھر اگر سیکورٹی نہ ہوتی تو جلسہ گاہ میں ان کو نشانہ بنایا جاتا ۔ اگر بے نظیر بھٹو اس وقت گاڑی سے سر باہر نہ نکالتیں تو پھر بھی تو انتظامات کافی تھے۔ مکرر عرض ہے کہ پرویز مشرف کے سیاسی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے ۔ مجھے ان سے کوئی ہمدردی ہے نہ تو کوئی غرض لیکن کسی کی مخالفت میں حق کا دامن چھوڑنا اور ایک سابق وزیراعظم کے قتل کے معاملے کو مزید الجھنوں کا شکار بنانا اور اسے سازشی تھیوریز کی بھینٹ چڑھانا بھی درست نہیں ۔
سلیم صافی
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘
0 notes
swstarone · 4 years
Text
بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ 13 برس بعد بھی حل نہ ہو سکا
بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ 13 برس بعد بھی حل نہ ہو سکا
راولپنڈی: سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے لیاقت باغ میں قتل کو 13 برس بیت گئے لیکن یہ معمہ آج بھی حل نہ ہو سکا۔ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیربھٹو کا قتل ملکی تاریخ کے بڑے سانحات میں سے ایک ہے۔ بینظیر قتل کیس انسداد دہشتگردی کی عدالت میں 9 سال 8 ماہ اور 4 دن چلا اور 8 چالان پیش کیے گئے۔ استغاثہ کی جانب سے 6 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے۔ ویڈیو لنک کے ذریعے صحافی مارک سیگل نے بھی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
news-hst-pakistan · 3 years
Text
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ سامنے والا جھوٹ بول رہا ہے؟ - BBC News اردو
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ سامنے والا جھوٹ بول رہا ہے؟ – BBC News اردو
جیسیکا سیگل ماہرِ نفسیات 43 منٹ قبل ،تصویر کا ذریعہAlamy پولیس کا خیال تھا کہ جب 17 سالہ مارٹی ٹینکلیف کو پتا چلا کہ اُن کی ماں کو چھری کے وار کر کے مار دیا گیا ہے اور اُن کے والد کو لانگ آئلینڈ میں ان کے آبائی گھر میں ڈنڈے سے مار مار کر موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے تو وہ مشکوک حد تک پرسکون نظر آئے۔ حکام نے ان کی بے گناہی کے دعووں پر یقین نہیں کیا اور انھیں قتل کے الزام میں 17 سال جیل میں گزارنے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shadimehr-blog · 4 years
Text
کتاب چرا این ها را در مدرسه یادم ندادند (آوین)
چرا این ها را در مدرسه یادم ندادند
کتاب چرا این ها را در مدرسه یادم ندادند اثری است از کری سیگل به ترجمۀ مهدی گازر/ مهدی بختیاری و چاپ انتشارات آوین. نویسنده در کتاب حاضر با توجه به تجربیات خود در طول زندگی مالی و با تمرکز بر آموزه های زندگی، بودجه بندی، پس انداز، خرج کردن، استقراض و وام کارت اعتباری، مسکن و بیمه به ارائۀ 99 قانون مدیریت پول شخصی در زندگی می پردازد. گزیده ای از کتاب نگرش خود را از هزینه به پس انداز تغییر دهید. زمانی که روی پس انداز به جای هزینه تمرکز کنید، متوجه خواهید شد که این طرز فکر می تواند ضمن تسری به تمامی جوانب زندگی، سبک زندگیتان را دستخوش تغییرات مثبت نماید. در حقیقت می توان افراد را به دو دسته «پس انداز کننده» و «خرج کننده» تقسیم کرد. برخی افراد می گویند که ما «معتاد به خرج کردن» هستیم و نمی توانیم این عادت خود را ترک کنیم. من کاملا با این حرف مخالفم. واقعیت این است که آنها خودشان تمایلی به تغییر ندارند و پول خرج کردن را دوست دارند، حتی پولی که هنوز به دستشان نیامده! این افراد فاقد خویشتن داریِ لازم برای تغییر عادات قبلی و تبدیل شدن به فردی «پس انداز کننده» هستند، در صورتی که اگر واقعا بخواهند می توانند تغییر کنند و این تغییر صرفا به انتخاب خودشان بستگی دارد. همان گونه که یک «معتاد به خرید» از ولخرجی لذت می برد، شما هم از پس انداز کردن لذت خواهید برد. در واقع این نقطه همان جایی است که «بودجه بندی» و «صورت خالص دارایی» ها پا به عرصه می گذارند. این موارد در واقع نشانگر «امتیاز» شما در زمینه پیشرفت مالی هستند. Read the full article
0 notes