Tumgik
#شریف کنبہ
urdutahzeeb · 8 years
Text
لاہورہائی کورٹ سے نواز شریف کنبہ کی دو شوگر ملوں کو سیل لگانے کا حکم جاری
لاہور: گذشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے ان د و شوگر ملوں پر، جن کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ نواز شریف کے کنبہ کی ہیں، سیل لگانے کا حکم جاری کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ سیلنگ کا یہ حکم ملوں کو کسی نئی جگہ منتقل نہ کرنے کے حکم کے باوجود منتقل کرنے پر جاری کیا گیا ہے۔چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کی سر...
0 notes
breakpoints · 3 years
Text
عمر شریف ٹھیک ہے اور گھر پر ، کنبہ کی تصدیق کرتا ہے | ایکسپریس ٹریبیون۔
عمر شریف ٹھیک ہے اور گھر پر ، کنبہ کی تصدیق کرتا ہے | ایکسپریس ٹریبیون۔
لاہور: تجربہ کار فنکار عمر شریف حال ہی میں اس وقت ٹاک آف ٹاؤن بنے جب ان کی وہیل چیئر پر بظاہر ایک ہسپتال میں تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ تصویر میں ، معروف کامیڈین کو ایک کمزور حالت میں دیکھا گیا ، جس نے مداحوں اور پیروکاروں کی طرف سے پریشان کن پیغامات کو آگے بڑھایا جنہوں نے اس کی جلد صحت یابی کے لیے دعا شروع کی۔ ٹوئٹر پر گردش کرنے والے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ عمر ایک جان لیوا بیماری…
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 6 years
Text
ڈاکٹر سعید اختر اب آپ جا نہیں سکتے
آج کل میڈیا پر سیاسی خبروں کے علاوہ ایک عدالتی نوٹس کا بہت تذکرہ ہو رہا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ " چیف جسٹس پاکستان نے پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ میں بھاری تنخواہوں کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پی کے ایل آئی کے بجٹ اور بھرتی کیے گئے ڈاکٹرز اور عملے کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے پی کے ایل آئی اے میں ملازمین کے سروس اسٹرکچر کی تفصیلات بھی طلب کر لیں جب کہ چیف جسٹس نے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب آج شام تک تمام تفصیلات میرے گھر پر فراہم کی جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے نوٹس میں آیا ہے کہ 15 ،15 لاکھ روپے پر ڈاکٹروں کو بھرتی کیا گیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی کے ایل آئی کے سربراہ کون ہیں۔ کمرہ عدالت میں موجود چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر سعید اختر پی کے ایل آئی کے سربراہ ہیں اور وہ عمرے کی ادائیگی کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سنا ہے ڈاکٹر سعید کی اہلیہ بھی پی کے ایل آئی میں تعینات کی گئی ہیں، عدالت کو تمام تر تفصیلات فراہم کی جائیں "۔ اس خبر کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ڈاکٹر سعید کے حوالے سے ایک بھیانک مہم کا آغاز ہو گیا جس کا مقصد ڈاکٹر سعید کو ایک نااہل ڈاکٹر کے طور پر پیش کرنا تھا ۔ 
میں یہ کالم کبھی نہ لکھتا اگر میں ڈاکٹر سعید کو ذاتی طور پر نہ جانتا ۔ قریباََ دو سال پہلے رمضان کے مہینے میں ہمارے ایک پرانے مہربان کا فون آیا ۔ یہ وہ صاحب ہیں جو نیکی کے ہر کام میں اپنا نام خفیہ رکھتے ہیں بہت ہی ثروت مند شخصیت ہیں مگر نہایت درد مند دل رکھتے ہیں۔ ان کی بات کا احترام ہم پر واجب رہتا ہے ۔ انہوں نے کہا آج آپ کے گھر کھانا کھائیں گے اور آپ کو ایک لاجواب شخصیت سے ملوائیں گے۔ ان کے ساتھ آنے والی وہ لاجواب شخصیت ڈاکٹر سعید تھے۔ چند لمحوں کی گفتگو میں ڈاکٹر سعید کی وطن سے محبت واضح ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب امریکہ کے نامی گرامی ڈاکٹر تھے اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی محبت میں واپس آئے تھے۔ شفا انٹرنیشنل اسپتال میں آپ نے پاکستان کڈنی انسٹیٹیوٹ قائم کیا جہاں ڈیڑھ لاکھ مستحق مریضوں کا مفت علاج کیا۔ ان تمام غریب مریضوں کو وہی سہولتیں دی گئیں جو شفا انٹرنیشنل جیسے مہنگے اسپتال میں کسی بھی امیر مریض کو حاصل ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب اب پاکستان کڈنی انسٹیٹیوٹ کو پاکستان کڈنی اور لیور اسپتال بنانے چلے تھے۔ ان کے عزم کے مطابق یہ پاکستان بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے عمدہ اسپتال ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب جس لگن سے اس اسپتال کا ذکر کر رہے تھے اس کے لئے ایک نشست ناکافی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے چند دن کے بعد اپنے گھر دعوت افطار پر دعوت دی۔ وہاں ایک چادر میں لپٹی نہایت سادہ خاتون سے تعارف ہوا یہ ڈاکٹر معصومہ سعید تھیں جو دنیا بھر میں جانی پہچانی انستھیزیسٹ کے طور پر کام کر چکی تھیں اور اب تک ہزاروں پیچیدہ آپریشنز کروا چکی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی دو صاحبزادیاں بھی ڈاکٹر ہیں اور امریکہ میں مزید تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔افطار کی دعوت میں کھجور اور دال چاول تھے جو ڈاکٹر معصومہ نے خود بنائے تھے۔ ہماری دوست شخصیت نے بتایا کہ ڈاکٹر سعید اپنے امریکہ کے قیام میں ایک ماہ میں کئی کروڑ روپے کماتے تھے اور ان کے پاس اپنا ایک چار نشستوں والا ہائی پرفارمنس سیسنا جہاز بھی تھا ۔
ڈاکٹر صاحب کی سادگی دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا مگر انکے علم و فضل کو دیکھ کر یہ لگتا تھا کہ یہ رقم انکے تجربے کے حوالے سے کم تھی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی دھن میں نئے پروجیکٹ کا ذکر کرتے رہے کہ زمین کا انتظام تو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کر دیا ہے بس اب جلدی سے تعمیر مکمل ہو جائے تو ہزاروں مریضوں کا فائدہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے اس ملاقات میں بھی اپنے اسپتال کے خواب کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کی بس ایک جنون کے عالم میں پاکستان سے اپنے عشق کا ذکر کرتے رہے اور بتاتے رہے کس طرح ایک دن ان کی کایا پلٹ گئی اور انہوں نے سوچا بہت کما لیا اب وطن کی خدمت کے لئے باقی زندگی وقف کی جائے۔ ڈاکڑ صاحب کی گفتگو میں قرآن کریم کی آیات کا ذکر مسلسل رہا اور اس بات پر زور رہا کہ انسان کو اللہ کی مخلوق کی خدمت میں پہل کرنی چاہئے۔ خصوصاً وہ اس حدیث کا ذکر کثرت سے کرتے رہے مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔
ڈاکٹر سعید کے زیر نگرانی لاہور میں تعمیر ہونے والا پاکستان کڈنی اور لیور اسپتال معیار کے اعتبار سے پاکستان کا ہاورڈ کہلایا جا سکتا ہے۔ جے سی آئی کے بین الاقوامی معیار پر پورا اترنے والا یہ پہلا اسپتال ہو گا۔ ابتدا میں اس میں چار سو ستر بیڈ کا انتظام ہو گا اور تکمیل کے بعد بیک وقت پندرہ سو مریض داخل کئے جا سکیں گے۔ اس اسپتال کی خاص بات اس کی ٹیچنگ اور شعبہ تحقیق ہے جو ایشیا میں اپنی مثال ہو گی۔ پنجاب حکومت کی شعبہ صحت میں اس بڑی کامیابی کا چرچا بہت ہی کم کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کے نوٹس کے بعد میں نے بڑی مشکل سے ہمت کر کے اس فرشتہ سیرت انسان کو فون کرنے کی ہمت کی تو ڈاکٹر صاحب کو ہمیشہ کی طرح حوصلہ مند پایا۔ میں جانتا تھا کہ وہ امریکہ میں کتنا کماتے تھے اس لئے سوال کرتے حجاب آیا کہ آپ کی تنخواہ پر جو اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں وہ کتنے رکیک ہیں مگر ڈاکٹر صاحب نے خود ہی بتا دیا کہ پاکستان میں بھی باہر سے آنے والے ڈاکٹر اس سے کہیں زیادہ تنخواہ پر کام کر رہے ہیں ۔
خود شوکت خانم میں ایک ڈاکٹر صاحب تیس لاکھ روپیہ تنخواہ لے رہے ہیں۔ ڈاکٹر سعید نے یہ بھی بتایا کہ وہ حکومت سے اپنی تنخواہ صرف تین سال لیں گے اور اسکے بعد اس اسپتال کے تمام تر اخراجات اسپتال سے ہی پورے ہوں گے۔ ڈاکٹر سعید نے یہ بھی بتایا کی سوشل میڈیا کی رکیک مہم کے برعکس انکی اہلیہ کے سوا انکے خاندان کا کوئی شخص اس اسپتال میں ملازمت نہیں کر رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی گواہی دینے کے لئے ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی کے حالیہ چیئر مین ڈاکٹر ورنر کا خط بھی منگوا لیا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ انیس سو چھیانوے میں ڈاکٹر سعید شعبہ یورالوجی کے چیئرمین تھے۔
ڈاکٹر سعید تین سال سے اس اسپتال کے پروجیکٹ سے وابستہ ہیں اور ان تین سالوں میں انہوں نے اسپتال سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا بلکہ تمام دنیا میں اس اسپتال کی پبلسٹی کے لئے تمام دورے بھی اپنی جیب سے کئے۔ امریکہ میں ایک ماہ میں کروڑوں کمانے والے ڈاکٹر سعید آج کل لاہور میں ایک گیسٹ ہائوس کے کمرے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے ہیں جس کا کرایہ اور تمام تر اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ ہم نے ڈاکٹر سعید اختر جیسے انسان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ درست نہیں مگر حوصلہ ہے ان کا جو اب بھی کہہ رہے تھے کہ اللہ پاک جب مشکل دیتا ہے تو آسانی بھی عطا کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اور بھی کچھ کہا ہو گا مگر ان کے حوصلے کی تاب میں نہ لا سکا اور بس اتنا کہہ کر فون بند کر دیا کہ ڈاکٹر صاحب ان حالات سے پریشان ہو کر ملک نہ چھوڑ جائیے گا ۔ ہزاروں مستحق مریض ان نوٹسز سے بے خبر آپ کی راہ تکتے ہوں گے ۔ شفا کو ترستے ہوں گے۔ آپ کو ان غریب مریضوں کی قسم اب آپ یہ ملک چھوڑ کر جا نہیں سکتے۔ 
عمار مسعود  
3 notes · View notes
apnibaattv · 4 years
Text
جمعہ کو جنازے کے بعد نواز شریف کی والدہ کی میت کو پاکستان روانہ کیا جائے گا: کنبہ
جمعہ کو جنازے کے بعد نواز شریف کی والدہ کی میت کو پاکستان روانہ کیا جائے گا: کنبہ
[ad_1]
Tumblr media
لندن: نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ بیگم شمیم ​​اختر کی نماز جنازہ آج جمعہ کی صبح یہاں ریجنٹ پارک مسجد میں ادا کی جائے گی۔
خاندانی ذرائع نے دی نیوز اور جیو کی تصدیق کی ہے کہ نماز جمعہ کی نماز جمعہ کی صبح کے لئے انتظامات کردیئے گئے ہیں اور اس کے فورا بعد ہی لاش کو عمرہ عمرہ میں تدفین کے لئے پاکستان روانہ کیا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ میت کو قطر یا برٹش ایئرویز کے توسط سے پاکستان واپس…
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
جب طالبان نے نجیب اللہ کو مار کر لاش کھمبے سے لٹکا دی ریحان فضلبی بی سی ہندی16 منٹ قبل18 مارچ 1992 کو افغانستان کے صدر نجیب اللہ نے اعلان کیا کہ جیسے ہی ان کے متبادل کا بندوبست ہوتا ہے وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔انھوں نے اپنے استعفے کی تاریخ کی وضاحت نہیں کی لیکن کہا کہ ان کا استعفے کے آپشن کے ساتھ جانا بہت ضروری ہے۔ سنہ 1989 میں افغانستان سے سوویت فوج کے انخلا کے بعد سے نجیب اللہ کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوتی جا رہی تھی۔گذشتہ کئی برس سے تقریباً 15 مختلف مجاہدین تنظیمیں کابل کی طرف گامزن تھیں اور ان سب کا مقصد ایک ہی تھا یعنی نجیب اللہ کو اقتدار سے ہٹانا۔ وہ نجیب کو نہ صرف سوویت یونین کی کٹھ پتلی بلکہ ایک ایسا کمیونسٹ سمجھتے تھے جو خدا پر یقین نہیں رکھتا تھا مگر ایک مکمل مذہبی مسلم ملک کا حکمران تھا۔انڈیا میں سیاسی پناہ لینے کی کوشش17 اپریل 1992 تک، نجیب اللہ اپنے ہی ملک میں تنہا ہو چکے تھے۔ دو ہفتے قبل ان کی اہلیہ اور بیٹیاں انڈیا جا چکی تھیں۔اس دن وہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے نمائندے بینن سیون کے ساتھ ایک خفیہ پرواز میں انڈیا جانا چاہتے تھے۔انڈیا کے سابق سفارتکار ایم کے بھدر کمار نے اخبار دی ہندو کے 15 مئی، 2011 کے شمارے میں اپنے مضمون 'منموہن سنگھ تک پہنچنے والی افغان پالیسی' میں لکھا ’بنین سیون نے انڈیا سے نجیب اللہ کو سیاسی پناہ فراہم کرنے کی درخواست کرنے سے پہلے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے یہی درخواست کی۔ نواز شریف کو اس بارے میں اعتماد میں لیا گیا تھا‘۔ایک گھنٹے میں ہی انڈیا وزیراعظم نرسمہا راؤ نے بھی یہ پیغام دے دیا کہ انڈیا نجیب اللہ کا بطور سرکاری مہمان استقبال کرے گا۔ یوں تین کاروں کے قافلے میں، نجیب اللہ نے کابل ایئرپورٹ کا رخ کیا۔،تصویر کا کیپشنبینن سیوناقوام متحدہ کے ایک اور عہدیدار فلپ کورون اپنی کتاب 'ڈومڈ اِن افغانستان - اے یو این آفیسرز میموائرز آف دی فال آف کابل اینڈ نجیب اللہ فیلڈ ایسکیپ' میں اس دن کے بارے میں لکھتے ہیں، ’17 اپریل 1992 کو میں آدھی رات کو نجیب کی رہائش گاہ پر پہنچا۔ نجیب نے گہرے خاکستری رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ ان کے ہمراہ ان کے چیف آف اسٹاف جنرل توخی بھی تھے جن کے ساتھ ان کی اہلیہ اور تین بچے بھی تھے۔ نجیب کے ساتھ ان کے بھائی، محافظ اور ایک نوکر بھی تھے۔ اس ٹیم میں مجموعی طور پر نو افراد شامل تھے ، جن میں نجیب بھی شامل تھے۔ رات پونے دو بجے ہم نے سارا سامان تین کاروں میں بھرا۔’میں اقوام متحدہ کے انتظامی افسر ڈین کوئرک کے ساتھ آگے والی کار کی اگلی نشست پر بیٹھ گیا۔ نجیب اللہ کا محافظ اور نوکر پچھلی سیٹ پر کلاشنکوف لیے بیٹھے تھے۔ نجیب اور ان کے بھائی درمیانی گاڑی میں پچھلی سیٹ پر تھے۔ تیسری ٹویوٹا منی بس میں جنرل توخی اور ان کا کنبہ بیٹھا ہوا تھا۔ ہمیں اندرونی سکیورٹی کے وزیر نے ایک کوڈ ورڈ دیا تھا جس کا استعمال کرتے ہوئے ہم نے متعدد چوکیوں کو عبور کیا۔ جب ہم آخری چوکی پر پہنچے تو اب وہاں موجود سکیورٹی اہلکار نے جو کوڈ ورڈ چل رہا تھا اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ڈین نے کئی بار کوڈ ورڈ دہرایا لیکن فوجیوں نے ہماری گاڑی کو آگے نہیں بڑھنے دیا‘۔،@facebook،تصویر کا کیپشننجیب اللہ کی اہلیہہوائی اڈے کے قریب کاریں رک گئیںاچانک کوئرک نے دیکھا کہ ان فوجیوں نے دوسری وردی پہن رکھی ہے۔ کوئرک اور کورون نے اس سے اندازہ لگایا کہ عبدالرشید دوستم کے ساتھی راتوں رات ہوائی اڈے پر قابض ہو چکی ہے۔نجیب کا محافظ بھی اپنی کلاشنکوف کے ساتھ اترا اور وہاں موجود فوجیوں سے بحث شروع کر دی۔ اسی دوران کار کے ڈرائیور اونی نے ہوائی اڈے پر بینن سے رابطہ کیا جو رن وے پر اقوام متحدہ کے طیارے میں بیٹھے نجیب اللہ کا انتظار کر رہے تھے۔انھوں نے بتایا کہ وہاں موجود فوجیوں نے طیارے کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ انھوں نے اپنے ہوائی جہاز کو اندر سے مقفل کر لیا ہے تاکہ وہ جہاز پر سوار نہ ہو سکیں۔،تصویر کا کیپشنعبدالرشید دوستمفلپ کورون بتاتے ہیں کہ، ’پھر نجیب نے گاڑی کے اندر سے فوجیوں پر چیخنا شروع کر دیا۔ ان کی آواز بلند تھی لیکن ان کے سارجنٹ نے جواب دیا کہ اگر انھیں آگے جانے کی اجازت دے بھی دی جائے تو پورا عملہ ہوائی اڈے پر مارا جائے گا کیونکہ دوستم کے سپاہی کسی کو ہوائی اڈے میں داخل ہونے کی اجازت دے رہے ہیں اور نہ باہر جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔‘’چند منٹ تک اپنی بات سمجھانے کی ناکام کوششوں کے بعد، نجیب اللہ نے ہی گاڑیاں واپس موڑنے کا فیصلہ کیا۔ ڈرائیور نے ان سے پوچھا کہ کیا ہم آپ کو آپ کی رہائش گاہ پر لے جائیں، نجیب نے چیخ کر کہا نہیں، ہم اقوام متحدہ کے احاطے میں جائیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ اپنے گھر واپس جاتے ہیں تو جن لوگوں نے انھیں کابل ایئرپورٹ پر نہیں جانے دیا وہ انھیں جان سے مار ڈالیں گے۔ رات کے دو بجے کاروں کا قافلہ اقوام متحدہ کے صدر دفتر کی طرف روانہ ہو گیا۔‘نجیب اللہ کے قریبی لوگوں نے انھیں دھوکہ دیادریں اثنا، نہ صرف دوستم بلکہ ان کی اپنی جماعت کے لوگوں نے بھی ان سے چھٹکارا پانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔نیویارک ٹائمز نے 18 اپریل 1992 کے اپنے شمارے میں لکھا تھا، ’نجیب اللہ کے وزیر خارجہ عبدالوکیل اور ان کے آرمی چیف جنرل محمد نبی عظیمی اپنے سیاسی دفاع کے لیے نجیب کو مجاہدین فوجیوں کو بطور تحفہ دینا چاہتے تھے‘۔عبدالوکیل نے ریڈیو کابل پر ایک پیغام نشر کیا اور اعلان کیا کہ ’فوج نے نجیب اللہ کے ملک سے فرار کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔‘چند گھنٹوں میں نجیب اللہ عبدالوکیل کے لیے ایک ’قابلِ نفرت آمر' بن گئے۔ سیون شروع سے ہی نجیب کو ان حالات سے بچانا چاہتے تھے۔ نجیب کے اقوام متحدہ کے ہینڈلرز نے تقریبا 3:20 منٹ پر، انڈین سفیر ستیش نمبیار کو اطلاع دی کہ نجیب کو دوستم کے فوجیوں نے روک لیا ہے۔،Satish_Nambir_twitter،تصویر کا کیپشنستیش نمبیارنمبیار 4.35 بجے اقوام متحدہ کے دفتر پہنچے۔ اس دن نجیب اللہ سے ملنے والے وہ پہلے غیرملکی تھے۔بعد میں نمبیار نے خود ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ 'انڈیا اور اقوام متحدہ نجیب کو بچانے کے اس منصوبے کے بارے میں اتنے پراعتماد تھے کہ انھوں نے کسی بھی متبادل منصوبے پر سوچا ہی نہیں تھا'۔پھر جب اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے اصرار کیا تو نمبیار نجیب اللہ کو انڈین سفارت خانے میں پناہ دینے پر راضی ہو گئے مگر شرط رکھی کہ اس کے لیے درخواست اقوام متحدہ کی جانب سے کی جائے۔اویناش پلییوال اپنی کتاب 'میرے دشمن کے دشمن' میں لکھتے ہیں، ’نمبیار نے ہم سے دہلی ریڈیو کا استعمال کرتے ہوئے رابطہ کیا اور تازہ ترین پیشرفت سے آگاہ کیا اور انڈین سفارتخانے میں نجیب کو سیاسی پناہ دینے کے لیے حکومت سے اجازت مانگی۔ انڈیا کے لیے دہلی میں نجیب کے اہل خانہ کو پناہ دینا اور ان کی دیکھ بھال ایک چیز تھی لیکن نجیب کو خود اپنے سفارتخانے میں رکھنا ایک اور بات تھی۔ 5.15 منٹ پر حکومت ہند نے نجیب کو ہندوستانی سفارتخانے کو سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ نمبیار نے دلیل دی کہ نجیب اقوام متحدہ کے دفتر میں زیادہ محفوظ رہیں گے۔’اگر ہم انھیں انڈین سفارتخانے میں پناہ دیتے تو ہر طرح کے مسائل پیدا ہو جاتے اور نجیب کی حفاظت کرنا مشکل ہوتا۔‘،تصویر کا کیپشنوزیر داخلہ شنکرراؤ چاون اور وزیراعظم نرسہما راؤبھارت نے نجیب اللہ کو مایوس کیاانڈیا کو تشویش لاحق تھی کہ جب کابل کے عوام کو معلوم ہو گا کہ نجیب اللہ انڈین سفارتخانے میں چھپے ہوئے ہیں تو وہ وہاں مقیم ہندوستانی نژاد افراد کو نشانہ بنانا شروع کر دیں گے۔ اس وقت سفارتخانے کے عملے سمیت چند سو انڈینز کابل میں قیام پذیر تھے۔ اسی دوران جے این ڈکشٹ کو، جو 1991 سے 1994 تک انڈیا کے سیکریٹری خارجہ رہے، یہ خدشہ بھی تھا کہ نجیب اللہ کو پناہ دینے سے انڈیا کے لیے سیاسی طور پر صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔22 اپریل 1992 کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری بطروس غالی اچانک انڈیا پہنچے۔ اس دورے کا واحد مقصد وزیراعظم نرسمہا راؤ کو تیار کرنا اور نجیب کو کابل سے نکال کر انڈیا میں سیاسی پناہ دلوانا تھا۔چھ دن کی مشاورت کے بعد، وزیر داخلہ شنکرراؤ چاون نے اعلان کیا کہ اگر نجیب اللہ چاہیں تو انڈیا انہیں پناہ دے سکتا ہے۔ چاون کے بیان سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ انڈیا اس معاملے میں احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔،تصویر کا کیپشنبطروس غالیجب اس بارے میں پارلیمنٹ میں پوچھا گیا تو وزیر مملکت برائے امور خارجہ ایڈورڈو فیلیرو نے کہا کہ یہ ایک فرضی سوال ہے کیونکہ انھیں نجیب اللہ کی جانب سے اس بارے میں کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔ جب ارکان پارلیمان نے اصرار کیا کہ اگر ایسی کوئی درخواست آجاتی ہے تو حکومت کا رویہ کیا ہو گا تو نرسمہا راؤ اور فلرو دونوں نے اس سوال کو نظرانداز کر دیا۔اویناش پلییوال اپنی کتاب ’میرے دشمنوں کا دشمن‘ میں لکھتے ہیں، ’انڈیا نے نجیب اللہ کو فضائی یا کسی اور راستے سے کابل سے باہر نکالنے میں کوئی دلچسپی نہیں ظاہر کی جبکہ بطروس غالی سے کہا گیا کہ انڈیا اپنا طیارہ کابل بھیجے گا۔ کہا گیا کہ یہ طیارہ تیار ہے اگر اقوام متحدہ کی طرف سے ایسی کوئی درخواست موصول ہوتی ہے لیکن یہ درخواست کرنے سے پہلے اقوام متحدہ کو اس معاملے پر پاکستان اور مجاہدین سے اتفاق رائے کرنا چاہیے۔ دہلی میں نجیب اللہ کے کنبے کی دیکھ بھال کرنے کے علاوہ، انڈیا نے نجیب اللہ کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘،تصویر کا کیپشنکابل ایئرپورٹبعدازاں، را کے ایک سینیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، اویناش پلییوال کو بتایا، ’دکشت اور ان کے ساتھیوں کو نجیب اللہ کو ��ہ بچانے پر ہمیشہ افسوس رہا۔ ہم نے نجیب کو یقینی طور پر جہاز بھیجا ، اگرچہ ہمارے پاس جہاز نہیں تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ مجاہدین انھیں جانے دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے دنیا میں شور کیا کہ ہم نجیب کو باہر نکال رہے ہیں لیکن ہم نے اس بارے میں مرکزی کردار رشید دوستم سے بات نہیں کی۔‘1994 میں سچن ایم کے بھدر کمار پاکستان، افغانستان اور ایران ڈیسک سے کابل گئے تھے۔ انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کابل میں انڈین سفارتخانہ دوبارہ کھولنے کی کوشش کریں اور احمد شاہ مسعود سے نجیب اللہ کو انڈیا جانے کی اجازت دینے کی درخواست کریں۔لیکن احمد شاہ مسعود نے بھدرا کمار کی اس درخواست کو یہ کہتے ہوئے قبول نہیں کیا کہ یہ مجاہدین کے دیگر رہنماؤں کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔،تصویر کا کیپشناحمد شاہ مسعودپاکستان کی نجیب کو پناہ دینے کی پیشکش 17 اپریل کو جب نجیب اللہ کو انڈیا جانے سے روکا گیا تو پاکستان نے انھیں اپنے سفارتخانے میں سیاسی پناہ کی پیش کش کی۔ پاکستان اور ایران کے نمائندے اس پر تبادلہ خیال کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر پہنچے۔ بینن انھیں نجیب کے سامنے لے گئے۔ فلپ کورون اپنی کتاب 'ڈومڈ ان افغانستان' میں لکھتے ہیں، ’نجیب ایران کے نمائندے پر چیخنے لگے۔ ایک وقت تو میں نے محسوس کیا کہ نجیب ایرانی نمائندے کو اٹھا کر کھڑکی سے نیچے پھینک دے گا۔ اس نے ان دونوں سے کہا، مجھے تم پر قطعی اعتبار نہیں۔ میں تم دونوں کو بچانے کی بجائے مرنے کو ترجیح دوں گا دوم مجھے یقین نہیں ہے کہ تم بھی میری حفاظت کرنا چاہتے ہو۔‘طالبان نے نجیب کو مار ڈالا اور اس کی لاش کو کھمبے پر لٹکا دیانجیب اللہ اگلے ساڑھے چار سال اقوام متحدہ کے دفتر میں رہے۔ 27 ستمبر 1996 کو نجیب اللہ یو این او آفس میں واقع اپنے کمرے سے قاتلوں کی آواز واضح طور پر سن سکتے تھے۔کابل پر طالبان کی فتح کے دوران، گولوں اور راکٹوں کی آواز پھانسی دینے والے کے آگے بڑھنے کے قدموں کی طرح تھی۔پھر طالبان فوجیوں کے 15 ٹرک اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر آ کر رکے۔ہر ٹرک میں 8 سے 10 سپاہی تھے۔ صبح تین بجے نجیب اللہ کو معلوم ہوا کہ اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر تعینات سنتری اچانک وہاں سے غائب ہو گئے۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے ایک اور دفتر سے مدد کا مطالبہ کیا لیکن وہاں سے جواب میں صرف خاموشی ملی۔،تصویر کا کیپشنطالبانمشہور صحافی ڈینس جانسن نے اپریل 1997 میں ایسکوائر میگزین میں نجیب اللہ کے آخری دن کے عنوان سے لکھا تھا، ’مختصر عرصے میں طالبان جنگجو اقوام متحدہ کے دفتر میں گھس گئے۔ ایک جنگجو نے نوکر سے پوچھا، نجیب اللہ کہاں ہے؟۔ اس نے کچھ بہانہ بنانے کی کوشش کی لیکن وہ مکان میں گھس کر عمارت کی تلاشی لینے لگا۔ چند ہی منٹوں میں اسے نجیب اپنے بھائی شاہ پور یوسف زئی، محافظ جعفر اور سیکریٹری توخی کے ساتھ مل گیا۔ ’وہ نجیب اللہ کو گھسیٹ کر کمرے سے باہر لایا۔ نجیب کو بری طرح مارا پیٹا گیا۔ ان کے جنسی عضو کاٹ ڈالے گئے اور پھر سر میں گولی مار دی گئی۔ پہلے ان کی لاش کرین پر لٹکائی گئی اور پھر اسے محل کے قریب ایک کھمبے سے لٹکا دیا گیا تھا۔ نجیب کے مردہ جسم کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور ان کے منہ میں سگریٹ زبردستی ٹھونسی گئی تھی جبکہ جیب میں کٹے پھٹے کرنسی نوٹ بھی دکھائی دے رہے تھے۔ "طالبان کو نجیب سے اس حد تک نفرت تھی کہ انھوں نے ان کی نمازِ جنارہ بھی نہیں پڑھائی۔ نجیب اور ان کے بھائی کی لاشوں کو پھر ریڈ کراس کے حوالے کر دیا گیا جنھوں نے لاش کو صوبہ پکتیا کے شہر گردیز منتقل کیا جہاں احمد زئی قبیلے کے لوگوں نے اسے دفن کر دیا۔افغانستان میں اب بھی بہت سے لوگ ہیں جو نجیب کی اہلیہ فتانہ اور بیٹیوں کو پناہ دینے پر انڈیا کے شکرگزار ہیں لیکن انھیں یہ بھی شکایت ہے کہ نئے دوست بناتے ہوئے انڈیا نے اپنے پرانے دوست کا ساتھ نہیں دیا اور وہ بھی اس وقت جب اسے اس ساتھ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
weaajkal · 4 years
Photo
Tumblr media
سیاسی مفادات رکھنے والا ٹولہ اور بھان متی کا کنبہ اکٹھا ہوچکا ہے، شہباز شریف @CMShehbaz #Pakistan #government #Aajkalpk لاہور: مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کی بجائے وزرا ایک دوسرے سے لڑرہے ہیں۔
0 notes
urdutahzeeb · 8 years
Text
سپریم کورٹ نے نواز شریف کنبہ کی تین شوگر ملوں میں کام رکوادیا
لاہور: سپریم کورٹ نے شمال سے جنوبی پنجاب میں شوگر ملوں کی منتقلی کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے نواز شریف کے خاندان کی اتفاق، ��ودھری اور حسیب نام سے تین شوگر ملوں میں گنا کرشنگ کا کام رکوادیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سنیٹر بیرسٹر اعتزاز احسان نے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی والی تین جج...
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
سہیل وڑائچ کا کالم: اپوزیشن کی ’سرگرمیاں‘ سہیل وڑائچ صحافی و تجزیہ کار26 منٹ قبل،@PPP Media Cellجمہوری طرزِ حکومت میں حکومت اور اپوزیشن ایک ہی گاڑی کے دو پہیے تصور کیے جاتے ہیں، حکومت کا کام گورننس ہے تو اپوزیشن کا کام حکومت کی نگرانی ہے۔ حکومت ملک چلاتی ہے تو اپوزیشن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ اس نے مستقبل میں حکومت کو چلانا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت سے لوگوں کو شکایت ہے کہ گورننس اچھی نہیں ہے اور فیصلے درست نہیں کیے جا رہے، دوسری طرف اپوزیشن بھی اپنا کردار صحیح طریقے سے ادا نہیں کر رہی۔اپوزیشن کا اسمبلی کے اندر جس طرح جاندار کردار ہونا چاہیے وہ نہیں ہے، پارلیمانی مباحث کی کوالٹی وہ نہیں جو پہلے ادوار میں ہوتی تھی، اپوزیشن ابھی تک اپنی صفوں کو درست نہیں کر سکی، نون لیگ کے پیپلزپارٹی کے حوالے سے تحفظات ہیں تو پیپلز پارٹی کو نون لیگ کی پالیسیوں پر شدید اعتراضات ہیں، مولانا فضل الرحمن دونوں بڑی جماعتوں کے رویے سے شاکی ہیں غرضیکہ اپوزیشن فی الحال بھان متی کا ایک کنبہ ہے جس سے کسی عوامی تحریک کی توقع عبث ہے۔اپوزیشن کے اس ڈھیلے ڈھالے انداز کو سمجھنا ہو تو اس کی لیڈرشپ کی سرگرمیوں پر غور کرنا ہو گا۔سہیل وڑائچ کے دیگر کالم پڑھیےمیاں نواز شریف لندن میں موجود ہیں، کبھی کبھار اپنے سٹاف یا بیٹوں کے ہمراہ واک کرتے یا اہلخانہ کے ہمراہ کافی پیتے اُن کی تصاویرسامنے آتی رہتی ہیں۔ وہ سیاسی حوالے سے لب سیے ہوئے ہیں البتہ کوئی ن لیگی رہنما قید سے رہا ہو تو اُس کو فون کر کے اس کی خیریت ضرور دریافت کرتے ہیں۔اندازہ یہی ہے کہ میاں نواز شریف زیادہ وقت پارک لین کے فلیٹ میں ہی گزارتے ہوں گے، اپنے پسندیدہ ایک دو کالم پڑھتے ہوں گے اور کبھی دن میں ایک دو بار پاکستانی نیوز چینل بھی دیکھ لیتے ہوں گے۔،Twitter/@MaryamNSharif،تصویر کا کیپشنمیاں نواز شریف لندن میں موجود ہیں، کبھی کبھار اپنے سٹاف یا بیٹوں کے ہمراہ واک کرتے یا اہلخانہ کے ہمراہ کافی پیتے اُن کی تصاویر سامنے آتی رہتی ہیںان کے دونوں صاحبزادے حسین نواز اور حسن نواز اپنے اہل و عیال کے ساتھ لندن ہی میں موجود ہیں۔ نواز شریف حسین نواز کے بیٹے ذکریا کے ساتھ گپ شپ لگاتے ہوں گے، سیاست سے ہٹ کر انھیں وقت ملا ہے تو انھوں نے خاندانی امور کی طرف بھی توجہ دی ہے اور اپنے نواسے جنید صفدر اعوان کی شادی قطر میں آباد سیف الرحمن (احتساب بیورو والے) کے خاندان میں طے کر دی ہے۔اندازہ ہے کہ مریم نواز کا والد سے روزانہ کی بنیاد پر رابطہ ہو گا اور شہباز شریف بھی سیاسی اور ملکی امور پر رہنمائی کے لیے نواز شریف سے رابطہ رکھتے ہوں گے۔شہباز شریف کی فرسٹ فیملی آج کل لندن گئی ہوئی ہے، سلیمان شہباز اور ان کے بہنوئی علی عمران کے خاندان ویسے ہی لندن میں ہیں، بیگم شہباز شریف بھی دورہ لندن میں نواز شریف کو ملنے گئی ہوں گی، میاں نواز شریف کی چھوٹی بیٹی اسما اسحاق ڈار کی بہو ہیں اس لیے اس خاندان سے بھی میل جول ہوتا ہو گا۔دوسری طرف لاہور میں موجود شہباز شریف کورونا وائرس کی وجہ سے زیادہ وقت گھر پر ہی گزارتے ہیں۔ سیاسی گپ شپ اور سماجی ملاپ کی خاطر اپنی دوسری بیگم تہمینہ درانی کے ہاں ان کا اکثر چکر لگتا رہتا ہے۔،شہباز شریف کے انداز و اطوار سے لگتا ہے کہ فی الحال وہ کسی احتجاجی مہم یا جلسے ک��نے کا ماحول ساز گار نہیں پاتے، ویسے بھی نون لیگ کا ووٹر احتجاجی مہم یا دھرنوں کا قائل نہیں کیونکہ اس کی نون لیگ سے محبت ووٹ کی حد تک ہے، وہ جیل جانے یا پولیس کے ڈنڈے کھانے والا مزاج نہیں رکھتا۔اپوزیشن کی اہم جماعت پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت چلا رہی ہے اور وفاق سے چھیڑ چھاڑ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ پہلے کورونا کی حکمت عملی پر اختلاف تھا پھر نالوں کی صفائی کا معاملہ چھڑ گیا اور اب آٹے پر بحث جاری ہے۔اس دوران پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کراچی بلاول ہاؤس میں مقیم ہیں، وہ عام حالات میں بھی بڑےاحتیاط پسند ہیں اور دور صدارت میں بھی سینیٹائزر استعمال کیا کرتے تھے۔ کورونا آنے کے بعد سے وہ بہت ہی احتیاط کر رہے ہیں، نہ صرف ماسک پہنتے ہیں بلکہ ڈاکٹروں والا احتیاطی فلٹر بھی استعمال کر رہے ہیں۔اپنے تمام دوستوں کو فون کر کے نہ صرف سماجی فاصلہ رکھنے کی بات کرتے ہیں بلکہ انھیں احتیاطی تدابیر بھی تجویز کرتے ہیں۔ آصف زرداری اور محترمہ بینظیر بھٹو کی دونوں بیٹیاں بختاور اور آصفہ بھی کراچی میں ہیں۔ بلاول ہاؤس کے اخراجات اور اس کا بجٹ اب یہ دونوں بیٹیاں چلا رہی ہیں، سننے میں آیا ہے کہ اپنی والدہ کی طرح وہ بھی کفایت شعاری کو پسند کرتی ہیں۔بلاول اگر دورے پر ہوں تو آصف زرداری روزانہ ان کا حال چال جانتے ہیں اور انھیں ایڈوائس بھی کرتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں بلاول بھٹو لاہور میں مولانا فصل الرحمان اور شہباز شریف سے ملے تو زرداری صاحب بلاول سے گاہے بگاہے اپ ڈیٹ لیتے رہے۔پیپلز پارٹی کا مخمصہ یہ ہے کہ پنجاب میں وہ احتجاجی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ انھیں اب وہ افرادی قوت میسر نہیں جو تحریک کو چلا سکے۔ سندھ میں ان کے پاس ایسے جیالے بکثرت موجود ہیں مگر سندھ میں اپنی حکومت کی موجودگی میں وہ احتجاجی جلسہ جلوس بھی کر لیں تو اس سے کیا حاصل وصول ہو گا؟،پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی لیڈر شپ کے درمیان لاہور میں جو مکالمہ ہوا وہ دونوں کے رویوں کا عکاس ہے۔ بلاول نے ہنستے ہنستے کہا کہ شہباز شریف اپوزیشن کے انقلاب کی رہنمائی کریں گے، جواباً شہباز شریف نے کہا کہ نہیں قیادت کو بلاول کے جوان کندھوں کی ضرورت ہے۔گویا دونوں میں سے کوئی بھی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں بلکہ یہ ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کر مطمئن ہونا چاہتے ہیں۔ بھلا ایسے میں اپوزیشن کیسے چل سکتی ہے؟ تحریک یا عدم اعتماد کی راہ کیسے ہموار ہو سکتی ہے؟احتجاجی تحریک کی بات ہو یا دھرنے کا معاملہ ہو مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کسی مخمصے کا شکار نہیں۔ اس لیے حالیہ دنوں میں جب ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے حکومتی بل کے حق میں خاموشی سے ووٹ دے دیے تو مولانا عطا الرحمان اور مولانا اسد محمود دونوں بھڑک اٹھے اور دونوں جماعتوں کو برملا کہہ دیا کہ آئندہ سوچ سمجھ کر ہی آپ کے ساتھ چلا جائے گا۔اپوزیشن کی گذشتہ دو سال کی کارکردگی دیکھتے ہوئے باآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگلے چھ ماہ میں کوئی احتجاجی تحریک یا کسی بڑی مزاحمتی تحریک کا امکان نظر نہیں آ رہا۔معاشی حوالے سے کاٹن انڈسٹری اور کنسٹرکشن کے شعبے میں تیزی آئی ہے لیکن بیروزگاری اور مہنگائی کا عفریت بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ عوامی تحریک تب چلتی ہے جب لوگوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوں، اگر تو حکومت معیشت میں بہتری لے آئی تو اگل�� چھ ماہ میں لوگ سکون کا سانس لیں گے اور اگر معاشی ابتری بڑھی اور عوام میں بے چینی میں اضافہ ہوا تو پھر یہی مردہ اپوزیشن جاگ اٹھے گی، بڑھ بڑھ کر تقریریں کرے گی اور عوامی تحریک کی قیادت کو سنبھالنے کو تیار ہو گی۔ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
urdutahzeeb · 6 years
Text
شہباز شریف بیگم کلثوم نواز کی میت لانے لندن روانہ
اسلام آباد: شریف کنبہ کے ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نواز(پی ایم ایل این ) کے صدر اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد شہباز شریف اوران کے بیٹے حمزہ شہباز بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے لندن روانہ ہو گئے۔ شہباز شریف ایک غیر ملکی ایرلائنز کے طیارے سے لاہور کے علامہ اقبال بین الا...
0 notes
urdutahzeeb · 6 years
Text
نواز شریف اینڈ فیملی ایون فیلڈ مقدمہ میں جمعہ کو بیان ریکارڈ کرائیں گے
اسلام آباد: اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے کنبہ کے خلاف بدعنوانی کیسوں کی سماعت شروع کرتے ہوئے حکم دیا کہ نواز شریف، ان کی بیٹی مریم اور داماد کیپٹن محمد صفدر ایون فیلڈ کیس میں اپنا بیان جمعہ کو قلمبند کرائیں ۔ احتساب عدالت اول کے جج محمد بشیر نے کہا کہ...
0 notes
urdutahzeeb · 6 years
Text
ایون فیلڈ املاک ریفرنس کی سماعت شروع، نواز اور مریم کو ایک روز کے لیے استثنیٰ، واجد ضیاءسے جرح جاری
اسلام آباد:شریف کنبہ کے خلاف ایو ن فیلڈ املاک ریفرنس کی سماعت کرنے والی احتساب عدالت نے آج اپنی کارروائی شروع کر دی۔موسم کی خرابی کے باعث سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم لاہورسے سماعت کے لیے نہیں آسکے۔ سماعت کے دوران عدالت کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے نواز اور مریم کو آ...
0 notes
urdutahzeeb · 7 years
Text
وزیر خارجہ خواجہ آصف ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ:عمران خان
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصادف (پی ٹی آئی) کے چیرمین عمران خان نے نااہل قرار دیے گئے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے کنبہ پر منی لانڈرنگ کے کئی الزامات عائد کیے۔ایک پریس کانفرنس میں عمران نے کہا کہ ان لوگوںنے اپنے ملازمین کو پیسہ ادھر ادھر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے دعویٰ کی...
0 notes
urdutahzeeb · 7 years
Text
جسٹس آصف کھوسہ نے خود کوحدیبیہ کاغذ ملز کیس کی سماعت سے الگ کر لیا
اسلام آباد: کسٹس آصف سعید کھوسہ نے خود کو معزول وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے کنبہ کی حدیبیہ پیپز ملز کے حوالے سے ریفرینس کی سماعت کرنے والی سپریم کورٹ کی بنچ سے الگ کر لیا اور پاکستان ے چیف جسٹس میاں ��اقب نثار سے التماس کیا کہ اس کیس کی سماعت کے لیے وہ کوئی نئی بنچ تشکیل دیں۔ پیر کے روز جیسے ...
0 notes
urdutahzeeb · 7 years
Text
نواز شریف کے بیٹوں اور بیٹی و داماد کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری
اسلام آباد: پاکستان کے نا اہل قرار دیے گئے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے کنبہ کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کی سماعت کرنے والی قومی احتساببیورو کی عدالت نے نواز شریف کے بیٹوں حسین اور حسن ، بیٹی مریم اور داماد و ممبر قومی اسمبلی کیپٹن صفدر کی عدالت میں پیشی یقینی بنانے کے لیے ان کے خلاف قابل...
0 notes
urdutahzeeb · 7 years
Text
منی لانڈرنگ کیس میں حسین نواز سے پوچھ گچھ ہوگئی،مریم نواز سے بدھ کو ہوگی
اسلام آباد:پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز سے شریف کنبہ پر لگے منی لانڈرنگ کے الزامات میں چھ رکنی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے آج پوچھ گچھ کی جبکہ ان کی بہن مریم نواز کل پہلی بار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گی۔ پاکستانی اخبار ڈان کی رپورٹ کے مطابق مسٹر حسین نواز چھٹی بار ج...
0 notes
urdutahzeeb · 7 years
Text
نواز شریف نے پنامہ گیٹ معاملہ سے ہٹ جانے کے لیے 10 بلین ڈالر رشوت کی پیش کش کی: عمران خان
اسلام آباد: وزیر اعظم میاں محمدنواز شریف اور ان کے کنبہ کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ نوازنے انہیںپنامہ گیٹ معاملہ سے ہٹ جانے کے لیے 10کروڑ بلین ڈالر کی رشوت دینے کی پیش کش کی ہے۔میڈیا ذرائع کے مطابق عمران خان نے اپنے پارٹی رہنماوں کے اجلاس سے ...
0 notes