Tumgik
#صادق اور امین
emergingpakistan · 1 year
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
Tumblr media
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دھچکا لگا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کے اہم رہنما عمران خان کو اس سال کے آخر میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ اس قانونی جنگ کے بارے میں کئی اہم سوالات ہیں جن کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا؟ قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد کوئی شخص کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ نااہلی کی مدت کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ قانونی طور پر اس نااہلی کی مدت سزا کی تاریخ سے شروع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس صورت میں تاحیات پابندی عائد کر سکتی ہے اگر وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ بے ایمانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ سرکاری عہدے کے لیے ’صادق ‘ اور ’امین‘ کی آئینی شرط پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا فیصلہ 2018 میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف دیا گیا تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے باہر ہونے کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ان کی برطرفی اور ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں عسکری عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج اس سے انکار کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جو جیل گئے اور رہائی کے بعد زیادہ مقبول ہوئے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں نے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں وقت گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی جیل جا چکے ہیں۔ 
Tumblr media
عمران خان کے لیے قانونی راستے کیا ہیں؟ عمران خان کے وکیل ان کی سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ تک ان کے لیے اپیل کے دو مراحل باقی ہیں۔ سزا معطل ہونے کی صورت میں انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ان سزا معطل کر دی جاتی ہے تو عمران خان اب بھی اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو مجرم ٹھہرانے کے فیصلے کو بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا اور انہیں اپنے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن سزا سنانے والی عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے جو گواہ پیش کیے ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ بار بار طلب کیے جانے کے باوجود کئی ماہ تک عدالت میں پیش ہونے سے عمران خان کے انکار کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت تیز کر دی تھی۔ تاہم توشہ خانہ کیس ان پر بنائے گئے 150 سے زیادہ مقدمات میں سے صرف ایک ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات میں دو بڑے مقدمات شامل ہیں جن میں اچھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے انہیں زمین کے معاملے میں دھوکہ دہی اور مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لے جایا جائے گا کیوں کہ وہ تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے جیل جانے کے بعد ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ نو مئی کے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کئی اہم رہنماؤں کے جانے سے پارٹی پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض رہنما اور سینکڑوں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے لیکن سروے کے مطابق یہ زیادہ تر عمران خان کی ذات کے بدولت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے پاس اس طرح کے ذاتی فالوورز نہیں ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ کرکٹ کے ہیرو کی طرح تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پر پابندی کے بعد بھی عمران خان نے اپنے حامیوں کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا فورمز جیسے ٹک ٹاک ، انسٹاگرام، ایکس اور خاص طور پر یوٹیوب تقریبا روزانہ یوٹیوب تقاریر کے ذریعے رابطہ رکھا تھا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
risingpakistan · 7 months
Text
بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاست میں جمہوریت؟
Tumblr media
عالمی جمہوریت انڈیکس کے مطابق آمرانہ رجیم درجہ بندی میں گر کر پاکستان کا اسکور 3.25 ہو گیا ہے اور 11 درجے تنزلی ہو گئی ہے۔ پاکستان پہلے دنیا کی 165 ریاستوں میں ایک برس قبل 5.23 انڈیکس پر تھا جو اب گر کر 3.25 پر آ گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہائبرڈ رجیم سے تنزلی کے بعد آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں آ گیا ہے جب کہ عالمی سطح پر ریٹنگ میں گیارہ مقام نیچے چلا گیا ہے۔ ای آئی یو نے حالیہ انتخابات پر کہا ہے کہ یہ بات حیران کن نہیں کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور روس میں رجیم چینج یا زیادہ جمہوریت نہیں آئے گی اور پاکستان میں بھی مکمل جمہوریت نہیں آئے گی اور ناقص جمہوریت چلتی رہے گی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کو 1956 میں آئین ملا تھا جس کے نتیجے میں ملک کو 1958 میں جنرل ایوب خان کا جو طویل مارشل لا ملا تھا اس کے خاتمے کے بعد کہنے کو ملک کو 1973 کا متفقہ آئین ملا تھا جو بعد میں مارشل لاؤں کو نہیں روک سکا تھا جس کے بعد 1977ء اور 1999ء میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے مارشل لا آئے تھے جو جنرل پرویز کی وردی اترنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ 
2002ء سے 2024ء تک ملک میں چار بار قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال اور پی ٹی آئی حکومت نے پونے چار سال حکومت کی اور عمران خان کی اپنی حماقت کے نتیجے میں سولہ ماہ ملک میں ایک اتحادی حکومت رہی اور ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک میں جنرل یحییٰ نے جو الیکشن کرائے اور جیتنے والی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں 1971 میں ملک دولخت ہوا تھا جس کے بعد بھٹو صاحب نے 1972 میں حکومت بنائی تھی اور 1973 کا ایسا متفقہ آئین بنوایا تھا جو ملک میں جمہوریت برقرار رکھ سکے اور کسی اور جنرل کو آمریت قائم کرنے کا موقعہ نہ مل سکے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاسی حکومتیں آئیں اور ابتدا ہی میں بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر اپنی آمریت قائم کی اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جمہوریت کے نام پر وہ سلوک کیا جو کبھی جمہوریت میں نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں 1977 میں جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا تھا۔
Tumblr media
جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ قرار دی جانے والی حکومت میں سیاستدان شامل رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالا تھا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز کو وردی میں صدر منتخب کرانے میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزرائے اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت بنا لیا اور جمہوریت کے نام پر ملک میں اپنی ذاتی آمریت مسلط رکھی اور ملک میں حقیقی جمہوریت کسی ایک بھی سیاسی وزیر اعظم نے قائم نہ ہونے دی۔ محمد خان جونیجو نے کچھ کوشش کی تو برطرف کر دیے گئے۔ 1988 سے 2024 تک ملک میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے وہ سب متنازع رہے اور سیاسی رہنما اپنے مفادات کے لیے برسر اقتدار سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی سے اقتدار میں آئے اور بعد میں وہ بھی اپنے لانے والوں کو آنکھیں دکھانے لگتے تھے۔ ملک کو جو ترقی ملی اس میں بھی جنرلوں کے نام آئے مگر کسی سیاستدان کو تو تمغہ جمہوریت نہیں ملا مگر ایک جج نے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو صادق اور امین قرار دینے کا فیصلہ ضرور دیا تھا جو ان کا کام ہی نہیں تھا۔
بھٹو سے عمران خان تک تمام وزرائے اعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور فخریہ طور پر اپنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک پیج پر قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے تمام مخالف سیاستدانوں پر مقدمات بنوا کر سب کو جیل میں ڈلوایا جو بعد میں کوئی ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہوئے۔ پی ٹی آئی کی نام نہاد جمہوریت پونے چار سال ملک میں بدترین آمریت کی شکل میں قائم رہی اور وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں اپنے مخالف سیاستدان حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر سے ملنا گوارا نہ کیا جو کبھی آمریت میں نہ ہوا وہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کر دکھایا مگر جب دانشوروں نے انھیں سمجھانا چاہا تو وہ نہ مانے اور اپنے آمرانہ فیصلے کرتے تھے جو ان کی جمہوریت تھی۔ جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار میں آمریت قائم کرنے والے سیاسی وزیر اعظم اگر واقعی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور جمہوریت پر عمل کرتے تو ملک کو آج اس بدنامی کا سامنا نہ ہوتا اور آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں پاکستان مسلسل نہ گرتا اور جمہوریت بھی مستحکم ہوتی مگر جمہوریت کے لبادے میں اپنے اپنے اقتدار میں اگر سیاسی رہنما ذاتی آمریت قائم نہ کرتے اور ایک دوسرے سے انتقام نہ لیتے تو جمہوریت حقیقی شکل میں عوام کو میسر آتی۔ ملک میں آمریت کے ذمے دار صرف آمر ہی نہیں نام نہاد جمہوری وزرائے اعظم اور مفاد پرست بے اصول سیاستدان بھی ہیں۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
پلے بوائے کے لیے آج بھی صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ برقرار رکھا جا رہا ہے، جاوید لطیف
مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ پلے بوائے کے لیے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ برقرار رکھا جا رہا ہے۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید لطیف نے کہا کہ ملک میں معاشی، سیاسی اور خارجہ سطح پر غیر یقینی کی صورتحال ہے، پالیسیاں بنانے والے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بیانیہ بنانے والوں پر کروڑوں روپے خرچ کردیے گئے، کوئی تحقیق کرتا تو پتہ چل جاتا 9…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hassanriyazzsblog · 1 year
Text
🌹🌹 *ꓕSՈꓤꓕ ƎHꓕ NꓤՈꓕƎꓤ*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
4️⃣7️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *RETURN THE TRUST*
*The Quran urges, “O people, pay the trust to the trustees.”*
(Quran 4:58)
*This Quranic command relates to the whole of life.*
One form of trust is that if one has another’s property as a trust, it is obligatory for them to deliver it to its owner.
In the same way, a teacher of a school is also a trustee, and the students are in his trust.
The teacher must understand his responsibility and should not neglect the rights of the students entrusted to him.
In the same way, when a person becomes the ruler of a country, that country has come under his trust and he has become its trustee.
*In such a case, the ruler must fulfill the expectations of the people.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *"امانت داری" :*
*قرآن مجید میں "اللہ سبحانہ وتعالی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بےشک خدا سنتا اور دیکھتا ہے۔"*
(قرآن 4:58)
*اس قرآنی حکم کا تعلق انسان کی پوری زندگی کے معاملات سے ہے۔*
*"امانت داری"* کی ایک شکل یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس دوسروں کی جائیداد، روپیہ پیسہ اور زیورات بطور امانت ہوں، تو اسے *ان کے مالکان تک پہنچانا اس پر واجب ہے۔*
اسی طرح اسکول کا استاد بھی امانت دار ہوتا ہے اور طلبہ اس کی امانت میں ہوتے ہیں۔
اس لیے استاد کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے اور اس کے سپرد طلبہ کے حقوق میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
اسی طرح، جب کوئی شخص کسی ملک، تنظیم، دفتر اور افراد خاندان کاحکمران ( نگراں ، ذمہ دار ) بنتا ہے، تب وہ ملک، تنظیم، دفتر اور افراد خاندان اس کی امانت میں ہوتے ہیں اور وہ ان کا امانت دار بن جاتا ہے۔
*اس صورت میں حکمران ( نگراں ، ذمہ دار ) کو اپنے زیر دست لوگوں کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🍂 *امانت داری* 🍂
*دینِ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے* ، یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام ان اعمال و افعال کا حکم دیتا ہے جن کے ذریعے انسانی حقوق کی حفاظت ہو۔ ایسے ہی افعال میں سے ایک *“ امانت داری “* بھی ہے۔
اسلام میں *امانت داری* کی بڑی اہمیت ہے۔ *اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے :" بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو۔"*
🍂 *رسولُ اللہ ﷺ اور امانت داری :*
*رسولُ اللہ ﷺ کی ز ندگی امانت داری کا بہترین نمونہ تھی۔ آپ ﷺ کی ا مانت داری ہی کی وجہ سے کفارِ مکہ بدترین دشمن ہونے کے باوجود آپ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے۔*
🍂 *قابلِ تعریف افراد :*
*جو لوگ امانت داری کے وصف سے آراستہ ہوتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی بروقت ادائیگی کرتے ہیں وہ لوگوں میں پسندیدہ اور قابلِ تعریف ہوتے ہیں۔ امانت داری ایمان والوں کی بہترین صفت ہے اور ایک مسلمان کا امانت دار ہونا بہت ضروری ہے۔*
*رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا : جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔ [یعنی ایمان کا مل نہیں]*
🍂 *امانت داری کا وسیع مفہوم :*
*آج کل ہم سمجھتے ہیں کہ امانت داری کا تعلق صر ف مال سے ہے اور اگر کسی نے ہمارے پاس کوئی مال رکھوایا تو اس کی حفاظت کرنا اور اسے وقت پر مکمل طور پر واپس کر دینا ہی امانت داری ہے۔ یہ بات دُرست ہے لیکن جس طرح یہ امانت ہے اسی طرح اور بھی بہت ساری چیزیں امانت میں داخل ہیں۔*
*اللہ پاک اور اس کے بندوں کے وہ حقوق جو ہمارے ذمے ہوں اور ان کی حفاظت و ادائیگی ہم پر لازم ہو انہیں امانت کہتے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کریم اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی امانت داری ہے چنانچہ نماز پڑھنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، زکوٰة دینا ، حج کرنا ، سچ بولنا اور دیگر نیک اعمال ادا کرنا بھی امانت ہے۔ اسی طرح انسان کے اعضاء مثلاً زبان ، آنکھ ، کان ، ہا تھ وغیرہ بھی اللہ پاک کی امانت ہیں اور ان اعضاء کو گناہوں اور فضولیات سے بچانا ان اعضاء کے معاملے میں امانت داری ہے۔ یوں ہی دوسرے کے راز کی حفاظت کرنا ، پوچھنے پر دُرست مشورہ دینا ، مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کرنا ، مزدور اور ملازم کا اپنا کام مکمل طور پر پورا کرنا بھی امانت داری میں داخل ہے۔*
🍂 *ہم اور امانت داری :*
*جس طرح آج ہمارے معاشرے میں دیگر کئی اچھائیاں دَم توڑتی دکھائی دیتی ہیں وہیں امانت داری کا بھی فُقدان نظر آتاہے۔ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ امانت دار اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے والے افراد کو بعض کم عقل لوگ بے وقوف سمجھنے لگے ہیں۔ گویا معاشرے کی سوچ اس قدر منفی ہوچکی ہے کہ بُرائی کو اچھائی اور اچھائی کو بُرائی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اندر امانت داری کی صفت کو اجاگر کریں اور دوسروں کے حقوق پوری طرح ادا کریں۔*
🍁 *اللہ پاک ہمیں تمام امانتوں کی حفاظت کرنے اور ان کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے ایک امانت دار اور سچا پکا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے ، اٰمین۔*🍁
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
pakistanpress · 1 year
Text
جنرل باجوہ کیا کہتے ہیں؟
Tumblr media
وزیراعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی ملک احمد خان نے جو تازہ الزام عائد کیا ہے اُس پر تحقیقات ہونی چاہئیں۔ ملک صاحب نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار پر اثر انداز ہو کر بنی گالہ رہائش گاہ کے کیس کا فیصلہ عمران خان کے حق میں کروایا۔ یہ وہی کیس ہے جس میں عمران خان کو صادق و امین قرار دیا گیا تھا۔ ملک صاحب کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس شواہد موجود ہیں کہ یہ سب کیسے ہوا اور کس کو کس کے ذریعے کیا پیغام دیا گیا؟ یہ بات انہوں نے چند روز قبل ایک ٹی وی ٹاک شو میں کی۔ اس پر میں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے رابطہ کیا تو اُنہیں نے ملک صاحب کے الزام کی سختی سے تردید کی اور قسم اُٹھا کر کہا کہ یہ سب جھوٹ اور لغو ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے اس سلسلے میں جنرل باجوہ کے قریبی ذرائع سے بھی بات کی جن کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ نے خود تو ثاقب نثار صاحب یا عدلیہ سے رابطہ نہیں کیا لیکن اُنہوں نے عمران خان کو نااہلی سے بچانے کیلئے ایک ایجنسی کے سربراہ کے ذریعے خان صاحب کو این آر او دیا۔ 
جب ملک احمد خان کہہ رہے ہیں کہ اُن کے پاس ثبوت موجود ہیں تو پھر اس معاملےکی تحقیقات کا نہ ہونا افسوس ناک ہو گا۔ سچ جو بھی ہے وہ سامنے آنا چاہئے۔ پاکستان کی تاریخ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ملاپ سے سیاسی انجینئرنگ کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ عدلیہ پر بڑے بڑے الزامات لگتے رہے لیکن کبھی کسی نے تحقیقات کرنے کا فیصلہ نہ کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کئی جج خود بتاتے رہے کہ کیسے اُن پر دباؤ ڈال کر مرضی کے سیاسی فیصلے کروائے گئے۔ یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا۔ ماضی قریب میں اُس وقت کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت صدیقی نے بحیثیت جج دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ عدلیہ پر اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ ہے، اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کے بینچ بنواتی ہے، اپنی مرضی کے کیس مرضی کے بینچوں کے سامنے لگواتی ہے۔ جو کچھ جسٹس شوکت صدیقی نے کہا اُس پر اُس وقت کے چیف جسٹس کو سوموٹو لینا چاہئے تھا اور انکوائری کا حکم دینا چاہئے تھا لیکن جو ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔
Tumblr media
جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف ہی سپریم جوڈیشل کونسل میں تحقیقات شروع کر دی گئیں اور اُنہیں جج کے عہدے سے ہی فارغ کر دیا گیا۔ شوکت صدیقی صاحب نے اپنے حلفیہ بیان میں تفصیلات بھی بتائی تھیں کہ اُن سے اسٹیبلشمنٹ کا کون سا افسر ملنے آیا، کس نے رابطہ کیا اور کیا مطالبہ کیا لیکن یہ سب کچھ سننے پر کوئی تیار ہی نہ تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی صاحب کو جج کے عہدے سے فارغ کیا تو اُنہوں نے کونسل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی لیکن کوئی تین چارسال گزر چکے ہیں، صدیقی صاحب ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کب اُن کی اپیل کا فیصلہ کرتی ہے جو سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے اُن کو جج کے عہدے سے فارغ کرنے سے متعلق تھا۔ جہاں تک صدیقی صاحب کے اُس الزام کا تعلق ہے کہ جج اور عدلیہ کو اسٹیبلشمنٹ کیسے کنٹرول کرتی تھی، اُس پر تحقیقات کا ہونا اب ایک خواب یا خواہش ہی ہوسکتی ہے۔ ہمارے حالات بہت خراب ہیں۔ 
جس طرف دیکھیں مایوسی ہی مایوسی ہے۔ اداروں کا بُرا حال ہے، حکومت کسی کی بھی ہو معاملات نہ سدھرتے ہیں نہ انہیں سدھارنے کی کوشش ہی کی جاتی ہے۔ میری نظر میں تمام خرابیوں کی جڑ ہمارے نظامِ عدل کی خرابی ہے۔ اگر ہماری عدلیہ ٹھیک ہوتی، اگر یہاں انصاف دیا جاتا تو بہت سی خرابیاں پیدا ہی نہ ہوتیں۔ نہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت کر رہی ہوتی، نہ ہمارے ادارے، پولیس، سول سروس کو موجودہ تباہ حالی کا سامنا کرنا پڑتا۔ آزاد عدلیہ حکومتوں کا بھی قبلہ درست رکھتی، میرٹ اور رول آف لاء کو بھی یقینی بناتی لیکن افسوس کہ ہم آزاد عدلیہ کی نعمت سے محروم رہے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
gamekai · 2 years
Text
عمران خان! عوام نے پیسہ اسپتال کیلیے دیا تھا ہاؤسنگ سوسائٹی کیلیے نہیں، مریم اورنگزیب
 اسلام آباد: وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ عمران خان! عوام نے آپ کو زکوۃ کے پیسے شوکت خانم اسپتال کے لیے دئیے تھے پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے نہیں۔ اپنے بیان میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ثاقب نثار کے جعلی ’’صادق اور امین‘‘ نے شوکت خانم کے 30 لاکھ ڈالر کے خیراتی فنڈ کو ہاؤسنگ سوسائٹی میں لگانے کا اعتراف کرلیا ہے، پاکستان کے عوام نے آپ کو شوکت خانم اسپتال کے لیے زکوۃ کے…
View On WordPress
0 notes
امریکی ڈرون حملے ہوں یا امریکی اسلامی جہاد کمایا سب نے خوب ملکر وطن کو عوام کو کیا ملا یہ سب اپنے اپنے گربیانوں جھانک کر دیکھ لیں اس ملک تمام کی تمام حکومتیں کبھی بھی عوامی منشاء کی پنسل سے نہیں بلکہ یہ مقتدر اداروں اوربیرونی اسٹبلیشمنٹ کے افہام تہفیم سے وجود میں آتی رہیں وہ اپنی سوچ کی پنسل سے خود خاکہ بناتے ہیں اور خود ضرورت پڑنے پرمٹا دیتے ہیں اس فعل میں کافی مہارت رکھتے ہیں ادارے اگر صحیح مخلص عوام دوست ہوتے تو الیکشن کمشن سے تمام کرپٹ بدمعاش سیاسی افراد کاغذات نامزدگی رد ہوتے صادق اور امین افراد ایوانوں کی زینت بنتے اور ملک ترقی کرتا ابھی تک اس وطن عزیز کو گدھیں نوچ رھیں ہیں
1 note · View note
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
احمد فراز کی زمین پر متعدد شعرا کی طبع آزمائی
( یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زمین در اصل رام ریاض کی ہے-)
...
کیوں نہ ہم عہدِ رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
شاید اس زخم کو بھرنے میں زمانے لگ جائیں
نہیں ایسا بھی کہ اِک عمر کی قربت کے نشے
ایک دو روز کی رنجش سے ٹھکانے لگ جائیں
یہی ناصح جو ہمیں تجھ سے نہ ملنے کو کہیں
تجھ کو دیکھیں تو تجھے دیکھنے آنے لگ جائیں
ہم کہ ہیں لذتِ آزار کے مارے ہوئے لوگ
چارہ گر آئیں تو زخموں کو چھپانے لگ جائیں
ربط کے سینکڑوں حیلے ہیں ، محبت نہ سہی
ہم ترے ساتھ کسی اور بہانے لگ جائیں
ساقیا! مسجد و مکتب تو نہیں میخانہ
دیکھنا، پھر بھی غلط لوگ نہ آنے لگ جائیں
قرب اچھا ہے مگر اتنی بھی شدت سے نہ مل
یہ نہ ہو تجھ کو میرے روگ پرانے لگ جائیں
اب فراؔز آؤ چلیں اپنے قبیلے کی طرف
شاعری ترک کریں، بوجھ اٹھانے لگ جائیں
......
رام ریاض
چاند بے کل کرے جب تارے ستانے لگ جائیں
اہلِ غربت تری روداد سنانے لگ جائیں
ہم ترے غم میں اگر اشک بہانے لگ جائیں
دربدر آگ پھرے شہر ٹھکانے لگ جائیں
ان کو اتنے تو پروبال مہیا کر دے
یہ پکھیرو تری آواز پہ آنے لگ جائیں
......
بیدل حیدری
ہم کبھی شہرِ محبت جو بسانے لگ جائیں
کبھی طوفان کبھی زلزلے آنے لگ جائیں
کبھی اک لمحہء فرصت جو میسر آ جائے
میری سوچیں مجھے سولی پہ چڑھانے لگ جائیں
رات کا رنگ کبھی اور بھی گہرا ہو جائے
کبھی آثار سحر کے نظر آنے لگ جائیں
انتظار اس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا
کیا خبر برف پگھلنے میں زمانے لگ جائیں
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں تجھے دن میں ہم لوگ
شب کو کاغذ پہ ترا چہرہ بنانے لگ جائیں
ہم لکھاری بھی عجب ہیں کہ بیاضِ دل پر
خود ہی اک نام لکھیں‌خود ہی مٹانے لگ جائیں
گھر میں بیٹھوں تو اندھیرے مجھے نوچیں بیدل
باہر آؤں تو اجالے مجھے کھانے لگ جائیں
......
محسن احسان
اب کے صیاد جو دوچار ٹھکانے لگ جائیں
ہم پرندوں کی طرح باغ میں گانے لگ جائیں
......
ڈاکٹر مختار الدین مختار
اب یہ حسرت ہے کہ ہر بات بھلا کر مختار
خواب آنکھوں میں مدینے کے سجانے لگ جائیں
.....
صباحت عاصم واسطی
چلئے ہم ہی ترا بوجھ اٹھانے لگ جائیں
اس سے پہلے کہ ترے جسم کو شانے لگ جائیں
یوں نہ ہو کوئی مکینوں کی نہ سوچے عاصم
آگ ہی صرف رضا کار بجھانے لگ جائیں
.....
منصور آفاق
تیرے دن جو مری دہلیز پہ آنے لگ جائیں
ڈوبتے ڈوبتے سورج کو زمانے لگ جائیں
پل کی ریلنگ کو پکڑ رکھا ہے میں نے منصور
بہتے پانی مجھے دیکھیں تو بلانے لگ جائیں
......
عباس تابش
یہ بھی ممکن ہے کوئی روکنے والا ہی نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں
......
راشد امین
جیب میں رکھ لوں ترے شہر میں دونوں آنکھیں
گاؤں جانے میں مجھے پھر نہ زمانے لگ جائیں
تُو بگڑتا ہے تو ہم تجھ کو منا لیتے ہیں
ہم جو بگڑیں تو ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
.....
قیوم طاہر
خواب ایسے کہ گئی رات ڈرانے لگ جائیں
درد جاگیں تو سلانے میں زمانے لگ جائیں
......
حماد اظہر
ایک ناکام محبت کا حوالہ ہے بہت
کیا ضروری ہے کہانی ہی سنانے لگ جائیں
.....
نوید صادق
پھر وہی ضد کہ ہر اک بات بتانے لگ جائیں
اب تو آنسو بھی نہیں ہیں کہ بہانے لگ جائیں
.....
محسن علوی - جدہ
حُسن نے خود کو سنوارا ہے، خدا خیر کرے
عشق والے بھی ذرا خیر منانے لگ جائیں
درد دل تھام کے کہتا ہے یہ محسن ہم سے
دولت درد کو ہم دل سے کمانے لگ جائیں
5 notes · View notes
emergingpakistan · 2 years
Text
کیا ہماری قسمت میں یہی لوگ بچے ہیں؟
Tumblr media
اس خطے کے عوام کو بس دو بار اپنے اظہار کا حقیقی موقع ملا۔ پہلی بار 1947 میں، جب اُن سے پوچھا گیا کہ نیا ملک چاہیے یا نہیں۔ انھوں نے کہا کیوں؟ جواب ملا تاکہ تم استحصال سے پاک ایک پُرامن آزاد زندگی بسر کر سکو۔ لوگوں نے کہا ٹھیک ہے، یہ بات ہے تو بنا لو پھر نیا ملک۔ دوسری بار دسمبر 1970 میں پوچھا گیا کہ تمہیں ایسا ہی ملک چاہیے جیسا چل رہا ہے یا کچھ اور چاہتے ہو؟ عوام نے کہا کچھ اور چاہتے ہیں۔ بالکل ویسا جیسا کہ ڈیل کرتے ہوئے وعدہ کیا گیا تھا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ تو پرانی بات ہو گئی۔ رات گئی بات گئی۔ تمہاری بھلائی کس میں ہے یہ تم سے زیادہ ہم جانتے ہیں۔ جیسا تم چاہتے ہو ویسا ملک تو نہیں ملے گا، لہذا جیسا ہم چاہتے ہیں ویسا ہی تم بھی چاہو۔ عوام نے کہا تو پھر تمہاری ایسی کی تیسی۔ ان دو مواقع کے سوا یاد نہیں کہ ��وام سے کب اور کس نے رجوع کیا ؟ تو کیا اس ملک میں انتخابات ایک درجن سے زائد بار نہیں ہوئے؟ جی ہاں ہوئے؟ کیا یہاں پونے دو درجن حکومتیں تبدیل نہیں ہوئیں؟ یقیناً ہوئیں۔ تو پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ عوام سے سوائے دو بار کے کبھی نہیں پوچھا گیا؟
اب جب آپ نے یہ سوال اٹھا ہی دیا ہے تو پھر جواب بھی تحمل سے سنیے۔ پہلی قانون ساز اسمبلی اور ستر کی قانون ساز اسمبلی تو ہماری مرضی سے بنی۔ کوئی تیسری قانون ساز اسمبلی ہماری مرضی سے بنی ہو تو بتائیے۔ پہلی نے ہمیں ملک دیا اور ستر والی نے آئین۔ دیگر اسمبلیوں نے دُکھ یا ربر سٹیمپ کے سوا کیا دیا۔  تراکیب و استعاروں میں تو ویسٹ منسٹر ڈھانچے کی خوب نقالی کر لی۔ یہ عدلیہ ہے تو یہ ایوانِ بالا و زیریں ہے تو یہ کابینہ ہے اور یہ ہے آئینی دستاویز۔ مگر اس نظام کو چلانے کے لیے جو جمہوری روح درکار ہے وہ کہاں ہے۔ آپ کہتے ہیں ووٹر کو ضمیر کی آواز پر کُھلے ذہن سے سوچ سمجھ کے اپنا نمائندہ چننا چاہیے۔ لیکن اسی ضمیر کی آواز پر منتخب ہونے والا نمائندہ اپنا ضمیر گروی رکھنے پر مجبور ہے۔حالانکہ یہ سب کے سب صادق اور امین ہیں۔ یعنی عوام جو ووٹ حقیقی جمہوریت کی آس میں دیتے ہیں وہی ووٹ اوپر جا کر ایک غلام پارلیمانی پارٹی کی صورت میں پارٹی سربراہوں کی آمریت میں بدل جاتا ہے۔
Tumblr media
گویا کسی ایک ڈکٹیٹر سے بچنے کے چکر میں پورا نظام آٹھ، دس منتخب یا نامزد پارلیمانی ڈکٹیٹرز کا غلام بن جاتا ہے اور وہ بھی قانون کی بھرپور پشت پناہی کے ساتھ۔ اور پھر ان آٹھ، دس ڈکٹیٹرز کو پردوں کے پیچھے بیٹھا سپر ڈکٹیٹر ریموٹ کنٹرول پر چلاتا ہے۔ یوں عوام کا من و رنجن ایک کورئیو گرافڈ پتلی تماشے سے ہوتا رہتا ہے۔ کہانی بھی اس کی، ڈور بھی اس کی، پتلی بھی اس کی۔ سندھی کا محاورہ ہے ’واردات بھی جہان خان کی اور فیصلہ بھی جہان خان کا‘ اور وہ بھی وسیع تر قومی مفاد کے نام پر۔ آپ کو ثبوت چاہیے؟ کیا سرد جنگ کی ابتدا ہی میں امریکہ کا میلا اٹھانے کا فیصلہ عوام سے پوچھ کے ہوا تھا؟ کیا فالج زدہ غلام محمد اور لومڑ صفت اسکندر مرزا کو عوام نے منتخب کیا تھا؟ کیا ون یونٹ کا مطالبہ عوام نے کیا تھا؟ کیا اعلی عدلیہ نے نظریہ ضرورت کا عدالتی بم اس ملک کے سیاسی مستقبل پر عوام کے وسیع تر مفاد میں گرایا تھا؟ کیا جنرل ایوب خان کو مشرقی و مغربی پاکستان کے ایک ملین لوگوں نے پیٹیشن بھیجی تھی کہ خدا کے واسطے ہمیں کرپٹ نظام سے مارشل لا کے ذریعے نجات دلاؤ۔
کیا باسٹھ کا صدارتی آئین کسی منتخب رہنما نے کسی عوامی ریفرنڈم میں منظور کروایا تھا؟ کیا یہ لوگوں کی فرمائش تھی کہ ہمیں مغربی طرز ِجمہوریت نہیں بلکہ بنیادی طرزِ جمہوریت درکار ہے۔ کیا پینسٹھ کی جنگ عام آدمی کی بنیادی ضرورت تھی؟ کیا یحیی خان نے ایوبی آمریت کے خلاف ایجی ٹیشن کرنے والوں کی تائید سے مارشل لا لگایا؟ ستر میں عوام کو رائے دینے کی تو انتخابی آزادی ملی لیکن پھر رائے کی دھجیاں ملک کے کون سے عظیم تر مفاد میں اڑا دی گئیں۔ جو قتل ہوئے ان میں سے کون کون ووٹر نہیں تھا؟ جنھوں نے مارا ان میں سے کون کون ووٹر نہیں تھا؟ جنھوں نے مروایا ان میں سے کون کون ووٹر نہیں تھا؟ بھٹو کو پھانسی عوام کے پرزور مطالبے پر دی گئی؟ افغان خانہ جنگی میں اگر ضیا الحق نہ کودتا تو کیا عوام اس کا تختہ الٹ دیتے؟ جماعتی کی جگہ غیر جماعتی نظام کیا جمہوریت کو آگے لے کے گیا یا رہا سہا ستر بھی چاک کر گیا؟
پروڈا، ایبڈو، ڈی پی آر، اٹھاون ٹو بی، اے ٹی اے، نیب، صادق اور امین، جبری گمشدگیاں، محکمہ زراعت، آر ٹی ایس، سلیکٹڈ، امپورٹڈ۔ کیا ہماری قسمت میں یہی ہے؟ جہادی کلچر ریاست نے عوام کو دیا یا عوام میں خود بخود پنپا؟ فرقہ واریت کا وائرس کسی نصابی لیبارٹری میں تیار کر کے رگوں میں اتارا گیا یا پہلے سے ہی ہر پاکستانی کے ڈی این اے میں تھا؟ قرضے عوام کے نام پر عوام کے لیے کس نے لیے۔ ان میں سے کتنے عوام پر اور کتنے اشرافی فیصلوں اور فصیلوں کی تعمیر پر لگے؟ یہ قرضے کون چکائے گا؟ باجوہ، عمران، شہباز، اسحاق، زرداری یا وہ سکیورٹی گارڈ جو پندرہ ہزار روپے تنخواہ میں سے بھی ہر شے پر براہ راست یا بلاواسطہ ٹیکس دے رہا ہے۔ دس دس لاکھ روپے پنشن پانے والے مفلوک الحال تو اعزازی گاڑی، سکیورٹی، رہائش، کوڑیوں کے مول کروڑوں کے پلاٹ، ٹول ٹیکس کی معافی، اشرافی کلب میں مفت کے بھاؤ لنچ، ڈنر، گالف، بہترین ملکی و غیرملکی طبی سہولتوں کے قانونی حق دار بن کے فصیلی کالونیوں میں رہیں اور عوام اپنے لیے صبح سے شام تک ایک ایک لمحہ خریدیں اور اسحاق ڈاروں کی مسلسل خوش خبریوں کی اذیت بھی سہیں جمہوریت، آمریت، مستقبل گئے بھاڑ میں۔ یہ بتائیے 22 کروڑ میں سے اکیس کروڑ ننانوے لاکھ انسانوں کا اب کیا کرنا ہے کہ جن کی اوقات کچرا برابر کر دی گئی ہے؟ ان میں سے کتنوں کو ٹائی ٹینک سے اُتاری جانے والی کشتیوں میں جگہ یا لائف جیکٹ یا کوئی ٹوٹا تختہ مل سکے گا؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
likhdoo · 4 years
Link
یا اللہ! امت مسلمہ کو صادق و امین بنا ہم پر رحم و کرم فرما دکھ درد بانٹنے والا بنا ہمیں صراط مستقیم پر چلا من حیث القوم متحد فرما آمین!
2 notes · View notes
hassanriyazzsblog · 2 years
Text
🌹🌹 *ꓕSՈꓤꓕ ƎHꓕ NꓤՈꓕƎꓤ*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
4️⃣7️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *RETURN THE TRUST*
*The Quran urges, “O people, pay the trust to the trustees.”*
(Quran 4:58)
*This Quranic command relates to the whole of life.*
One form of trust is that if one has another’s property as a trust, it is obligatory for them to deliver it to its owner.
In the same way, a teacher of a school is also a trustee, and the students are in his trust.
The teacher must understand his responsibility and should not neglect the rights of the students entrusted to him.
In the same way, when a person becomes the ruler of a country, that country has come under his trust and he has become its trustee.
*In such a case, the ruler must fulfill the expectations of the people.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلا�� کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *"امانت داری" :*
*قرآن مجید میں "اللہ سبحانہ وتعالی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بےشک خدا سنتا اور دیکھتا ہے۔"*
(قرآن 4:58)
*اس قرآنی حکم کا تعلق انسان کی پوری زندگی کے معاملات سے ہے۔*
*"امانت داری"* کی ایک شکل یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس دوسروں کی جائیداد، روپیہ پیسہ اور زیورات بطور امانت ہوں، تو اسے *ان کے مالکان تک پہنچانا اس پر واجب ہے۔*
اسی طرح اسکول کا استاد بھی امانت دار ہوتا ہے اور طلبہ اس کی امانت میں ہوتے ہیں۔
اس لیے استاد کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے اور اس کے سپرد طلبہ کے حقوق میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
اسی طرح، جب کوئی شخص کسی ملک، تنظیم، دفتر اور افراد خاندان کاحکمران ( نگراں ، ذمہ دار ) بنتا ہے، تب وہ ملک، تنظیم، دفتر اور افراد خاندان اس کی امانت میں ہوتے ہیں اور وہ ان کا امانت دار بن جاتا ہے۔
*اس صورت میں حکمران ( نگراں ، ذمہ دار ) کو اپنے زیر دست لوگوں کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🍂 *امانت داری* 🍂
*دینِ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے* ، یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام ان اعمال و افعال کا حکم دیتا ہے جن کے ذریعے انسانی حقوق کی حفاظت ہو۔ ایسے ہی افعال میں سے ایک *“ امانت داری “* بھی ہے۔
اسلام میں *امانت داری* کی بڑی اہمیت ہے۔ *اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے :" بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو۔"*
🍂 *رسولُ اللہ ﷺ اور امانت داری :*
*رسولُ اللہ ﷺ کی ز ندگی امانت داری کا بہترین نمونہ تھی۔ آپ ﷺ کی ا مانت داری ہی کی وجہ سے کفارِ مکہ بدترین دشمن ہونے کے باوجود آپ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے۔*
🍂 *قابلِ تعریف افراد :*
*جو لوگ امانت داری کے وصف سے آراستہ ہوتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی بروقت ادائیگی کرتے ہیں وہ لوگوں میں پسندیدہ اور قابلِ تعریف ہوتے ہیں۔ امانت داری ایمان والوں کی بہترین صفت ہے اور ایک مسلمان کا امانت دار ہونا بہت ضروری ہے۔*
*رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا : جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔ [یعنی ایمان کا مل نہیں]*
🍂 *امانت داری کا وسیع مفہوم :*
*آج کل ہم سمجھتے ہیں کہ امانت داری کا تعلق صر ف مال سے ہے اور اگر کسی نے ہمارے پاس کوئی مال رکھوایا تو اس کی حفاظت کرنا اور اسے وقت پر مکمل طور پر واپس کر دینا ہی امانت داری ہے۔ یہ بات دُرست ہے لیکن جس طرح یہ امانت ہے اسی طرح اور بھی بہت ساری چیزیں امانت میں داخل ہیں۔*
*اللہ پاک اور اس کے بندوں کے وہ حقوق جو ہمارے ذمے ہوں اور ان کی حفاظت و ادائیگی ہم پر لازم ہو انہیں امانت کہتے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کریم اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی امانت داری ہے چنانچہ نماز پڑھنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، زکوٰة دینا ، حج کرنا ، سچ بولنا اور دیگر نیک اعمال ادا کرنا بھی امانت ہے۔ اسی طرح انسان کے اعضاء مثلاً زبان ، آنکھ ، کان ، ہا تھ وغیرہ بھی اللہ پاک کی امانت ہیں اور ان اعضاء کو گناہوں اور فضولیات سے بچانا ان اعضاء کے معاملے میں امانت داری ہے۔ یوں ہی دوسرے کے راز کی حفاظت کرنا ، پوچھنے پر دُرست مشورہ دینا ، مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کرنا ، مزدور اور ملازم کا اپنا کام مکمل طور پر پورا کرنا بھی امانت داری میں داخل ہے۔*
🍂 *ہم اور امانت داری :*
*جس طرح آج ہمارے معاشرے میں دیگر کئی اچھائیاں دَم توڑتی دکھائی دیتی ہیں وہیں امانت داری کا بھی فُقدان نظر آتاہے۔ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ امانت دار اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے والے افراد کو ب��ض کم عقل لوگ بے وقوف سمجھنے لگے ہیں۔ گویا معاشرے کی سوچ اس قدر منفی ہوچکی ہے کہ بُرائی کو اچھائی اور اچھائی کو بُرائی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اندر امانت داری کی صفت کو اجاگر کریں اور دوسروں کے حقوق پوری طرح ادا کریں۔*
🍁 *اللہ پاک ہمیں تمام امانتوں کی حفاظت کرنے اور ان کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے ایک امانت دار اور سچا پکا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے ، اٰمین۔*🍁
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
bazmeurdu · 5 years
Text
اکبر الٰہ آبادی : جن سے مسجد گونجتی تھی وہ مسلماں اب کہاں
انسانی جذبات کی ترجمان ہونے کے باعث شاعری تمام فنون لطیفہ میں ہمیشہ سرفہرست اور سب سے مقبول و معتبر قرار پائی ہے۔ درحقیقت شعر انسان کی داخلی کیفیات واحساسات کی ترسیل کا سب سے بڑا اور اظہار کا سب سے طاقتور اور جادو اثر ذریعہ ہے۔ چنانچہ ایک اچھا شعر شاعر کی زبان یا نوک نظم سے نکلتے ہی سامع اور قاری کے قلب و ذہن میں تیر بہ ہدف کی طرح تیزی سے جا کر پیوست ہو جاتا ہے۔ اچھا شعر اپنے ماحولیاتی اثاثوں کا امین بھی ہوتا ہے۔ انگریزی زبان کے مایہ ناز شاعر جون کیٹس (Jhon Keats) نے حسین شہ پارے کو لازوال مسرت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ 
اس کا کہنا ہے کہ A thing of beauty joy forever۔ اس کا یہ قول اعلیٰ شاعری پر بھی اسی طرح حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ جون کیٹس کو اگر انگریزی شاعری کا میر کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ اس حوالے سے میر صاحب کا یہ مشہور دعویٰ یاد آرہا ہے کہ ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔‘‘ گزشتہ نومبر کا مہینہ کئی حوالوں سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا جس میں حالات حاضرہ کو غلبہ حاصل رہنے کی وجہ سے صرف 9 نومبر کی تاریخ کی اہمیت بوجہ یوم ولادت علامہ اقبال کا تذکرہ تو شامل ہو گیا لیکن علامہ ہی کے دوش بہ دوش ہم عصر لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کو ان کے یوم ولادت مورخہ 16 نومبر کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرنا ممکن نہ ہو سکا، گویا:
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
اکبر کا پورا نام سید اکبر حسین رضوی تھا اور وہ 16 نومبر 1846 کو موضع بارہ ضلع الٰہ آباد (یو۔پی) میں پیدا ہوئے۔ ہندوتوا کے پرچارک بھارت کے موجودہ حکمرانوں نے الٰہ آباد کا نام تبدیل کر کے پریاگ رکھ دیا ہے۔ چنانچہ اگر آج اکبر زندہ ہوتے تو انھیں اپنے نام کے آخر میں الٰہ آبادی کی بجائے پریاگی کا لاحقہ لگانا پڑتا۔ اور یوں وہ اکبر پریاگی کہلاتے۔ اکبر نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سید تفضل حسین رضوی سے حاصل کی جو نائب تحصیل دار تھے۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز عرض نویس کی حیثیت سے کیا اور پھر نائب تحصیل دار ہوئے اور ترقی کرتے کرتے 1894 میں سیشن جج کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو گئے۔ لیکن 1903 میں صحت کی خرابی کے باعث انھوں نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے لی اور شاعری کی آبیاری کرتے ہوئے عملی زندگی اختیار کر لی۔ 
مرزا اسداللہ خاں کو اگرچہ اپنے آبا کے پیشرو سپہ گری پر ہی ناز تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھیں جو غیر معمولی اور لافانی شہرت حاصل ہوئی وہ شاعری ہی کی بدولت حاصل ہوئی۔ یہی بات علامہ اقبال پر بھی صادق آتی ہے اور جوں کی توں اکبر الٰہ آبادی پر بھی۔ اگر اکبر محض جج ہوتے تو اپنی زندگی ہی میں فراموش کر دیے جاتے۔ یہ شاعری ہی کا کرشمہ ہے کہ انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا کر لافانی بنا دیا۔ اگرچہ غزل گوئی ان کا مزاج نہیں تھا مگر اقبال کی طرح روایت کی پیروی میں اکبر کو بھی اپنی شاعری کی شروعات غزل گوئی سے ہی کرنا پڑی جس کا انھوں نے حق ادا کر دیا۔ لیکن ان کا اصل میدان طنز و مزاح تھا جہاں ان کی شاعری کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ انھوں نے اپنے تیکھے طنزیہ اور مزاحیہ اشعار سے وہ زبردست کام لیا جو بڑے بڑے مصلح اور واعظ اپنی تقریروں اور مواعظ سے نہ لے سکے۔ اقبال کی طرح مشرقی تہذیب پر مغربی تہذیب کا غلبہ انھیں ذرا بھی گوارا نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ:
راہ مغرب میں یہ لڑکے لٹ گئے واں نہ پہنچے اور ہم سے چھٹ گئے
اکبر ایسی تعلیم کے سخت مخالف تھے جو بھاری نوجوان نسل کو مشرقی تہذیب سے اس حد تک بیگانہ کر دے کہ وہ ’’کوا چلا تھا ہنس کی چال مگر اپنی ہی چال بھول گیا‘‘ والی ضرب المثل کے مصداق اپنے بزرگوں کا ادب و احترام چھوڑ کر انھیں تضحیک و تنقید کا ہدف بنانے لگے۔ اس حوالے سے وہ دو ٹوک کہتے ہیں:
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اکبر نے زندگی کے کسی بھی غلط پہلو کو اپنی تیکھی تنقید سے نہیں بخشا۔ مذہب، تعلیم، اخلاقیات، تہذیب و تمدن اور سیاست و معاشرت سمیت سبھی پر انھوں نے ناقدانہ نظر ڈالی ہے اور تنقید کے تیز نشتر چبھوئے ہیں۔ وہ ایک جانب شیخ و واعظ پر طنز کرتے ہیں تو دوسری جانب ہماری نئی نسل کی غلط روش پر زبردست چوٹ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نہ مسٹر کو بخشتے ہیں اور نہ ہی مولانا کو۔ وہ مذہب کے نام پر ریاکاری کے سخت مخالف ہیں۔ وہ محض شکم پروری کے لیے تعلیم کے حصول اور استعمال کو جائز نہیں سمجھتے۔ اس حوالے سے ان کے درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں اور ان کی جرأت اظہار اور انداز بیان کی داد دیں۔
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا شیخو مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ کھا ڈبل روٹی‘ کلرکی کر‘ خوشی سے پھول جا
اکبر حسنِ مستور کی نمائش اور بے حجابی کے سخت مخالف تھے۔ انھیں ایسی تعلیم و طرز معاشرت سے سخت چڑ تھی جو عورت کی ذہنیت کو بے نقاب کر کے اسے سبھا کی پری بنا دے۔ وہ تعلیم نسواں کے نہیں ایسی تعلیم کے خلاف تھے جہاں عورت کی پردہ پوشی برقرار اور محفوظ نہ رہ سکے۔ وہ کہتے ہیں:
جاتی ہے اسکول میں لڑکی تو کچھ حاصل کرے کیا ہوا حاصل جو بس بے باک بن کر رہ گئی
اکبر کو جوہر نسواں کی عریانی کسی صورت اور کسی طور بھی گوارا نہیں۔ خواہ کوئی انھیں قدامت اور رجعت پسند ہونے کا طعنہ کیوں نہ دے۔ انھوں نے عورت کی بے پردگی کے خلاف کھلم کھلا جہاد کیا۔ اس حوالے سے ان کے یہ اشعار پیش ہیں:
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
اکبر کی شاعری میں اخلاقیات کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ انھوں نے اپنے مزاحیہ کلام میں مسلمانوں کی اخلاقی پستی پر، انھیں ان کے زوال کے اسباب کا احساس دلا کر حالی و اقبال کی طرح خواب غفلت سے بیدار کرنے کی دردمندانہ کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
عاجلانہ کر کے سجدے چل دیے گودام کو جن سے مسجد گونجتی تھی وہ مسلماں اب کہاں نئے مولوی برسر جوش ہیں جو پیر طریقت ہیں خاموش ہیں اختلافوں کے مہیا ہیں جب امکاں اتنے متفق ہو نہیں سکتے ہیں مسلماں اتنے
دین و مذہب کے حوالے سے اکبر بحث و مباحث میں الجھنے کو سعی لاحاصل سمجھتے تھے۔ وہ اپنے مشاہدے سے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ :
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں
ان کی طویل نظم بعنوان ’’شریعت و طریقت‘‘ ان کی تفہیمی طبیعت و صلاحیت کا شاہکار اور آئینہ دار ہے جس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے بہ آسانی و بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی جیسے عالم و فاضل اہل قلم اور دانشور نے اس نظم کو الہامی قرار دیا ہے۔
سنو دو ہی لفظوں میں مجھ سے یہ راز شریعت وضو ہے طریقت نماز
طریقت شریعت کی تکمیل ہے شریعت عبادت کی تکمیل ہے
علامہ اقبال کے فلسفہ ’’خودی‘‘ کے حوالے سے اکبر الٰہ آبادی کا یہ شاعرانہ تبصرہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں:
ادبار بے خودی سے جو سازش میں مست ہے اقبال اب خودی کی سفارش میں مست ہے
کار جہاں خدا کے ارادوں کا ہے مطیع ہر ایک لیکن اپنی ہی خواہش میں مست ہے
اقبال اپنے بس کا نہیں کیا کرے کوئی اکبر فقط دعائے گزارش میں مست ہے
اکبر الٰہ آبادی اردو زبان کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے انگریزی الفاظ کو اردو کے سانچے میں ڈھال کر ایک نئی طرز کی بنیاد رکھی جس سے آج تک استفادہ کیا جا رہا ہے۔ وہ بامقصد اور خالص مزاحیہ شاعری کے میر کاررواں ہیں۔ اگرچہ اکبر اپنی شاعری میں ہندو اور مسلمان دونوں ہی سے مخاطب ہوئے لیکن ان کا روئے سخن زیادہ تر مسلمانوں ہی کی طرف رہا۔ جس کا اندازہ ان کی خدا پرستی اور حبیب خدا حضرت محمدؐ کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
خوف حق الفت احمدؐ کو نہ چھوڑ اے اکبر منحصر ہے انھیں دو لفظوں پہ سارا سلام
شاعری اکبر کی شناخت اور اوڑھنا بچھونا تھی۔ وہ اگر کچھ اور نہ ہوتے تو بھی شاعر ضرور ہوتے ۔ ان کے بقول:
بے کار شب کو یوں سر بستر پڑا نہ رہ اکبر جو تجھ کو نیند نہ آئے تو شعر کہہ
شکیل فاروقی 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
5 notes · View notes
andarabi · 2 years
Text
کچھ احباب عزاء کے مسلسل اصرار پر
اپنے کم مائیگی علم کا اعتراف کرتے ہوئے
شھزادی جناب فاطمہ صغریٰ علیہ السلام
کی زندگی مختصر ترین احوال بیان کرنے کی جسارت کی ہے
اور دعا گو ہوں بارگاہِ امام حسین علیہ السلام اور خاص طور پر ملکہ کونین سیدہ ع کی بارگاہِ میں کے شھزادی اگر کوئی ایک بھی حروف آپ کی شان کے خلاف ہے تو مجھے اپنے خانوادۀ کے صدقہ معاف کیجئے گا آمین
جناب فاطمہ صغریٰ بنت امام حسین ع ❣️
صادق کرباسی نے سن50ھ اورسن 62ھ وفات درج کیا ہے💥 معجم انصار الحسین النساءجلد3💥
یعنی واقعہ کربلا کے وقت شھزادی کی عمر 6/7 برس ہے
مورخین نے حتمی طور پر والدہ کا تزکرہ نہیں کیا ہے البتہ جناب ام لیلیٰ مادر علی اکبر نے ہی اپنی آغوش میں آپ کو پالا ہے تو معروف ہے کہ وہ ہی آپ کی والدہ ہیں اور آپ کو بھی ان سے بے انتہا محبت تھی
مشیت الٰہی تھی کہ جناب صغریٰ کو تیز بخار تھا
امام حسین جب 28 رجب کو مدینہ سے نکلے تو صغریٰ کو مدینہ میں نانی ام المومنین جناب ام سلمیٰ اور
دادی جناب ام البنین کے پاس چھوڑ دیا گیا
امام نے بیٹی کو کہا اگر حالات سازگار ہوئے تو
علی اکبر آپ کو لینے آئیں گے
ریاض القدس جلد 2💥
یہاں پر تذکرہ پر درد منظر
علی اصغر ع
جناب صغریٰ کی آغوش میں رہنا اور پھر جیسے ہی امام عالمقام کا اصغر سے کان میں کہنا
کے بیٹے حرملا کا تیر کھانے کربلا نہ چلو گے
علامہ طالب جوہری 💥
جب ایک ایک کر کے سب سوار ہو گئے تو صغریٰ علی اکبر سے لپیٹ کر وہ گریہ وزاری کی کے
علی اکبر نے کہا صغریٰ بھیا وعدہ کرتا ہے جب بھی شادی کریں گے تمہیں لینے ضرور آئیں گے
کارواں چلا گیا اور صغریٰ اکیلے گھر میں
اکبر کا انتظار کرتی رہی عاشورہ محرم
وقت رخصت علی اکبر نے جب آخری بار رخصت ہوئے
سجاد سے تو کہا بھیا وعدہ کیا تھا صغریٰ سے
بھیا سجاد جب آپ مدینے جائیں تو اس سے کہہ دیجیے گا
اکبر پر فوجوں کی گھٹا چھا گئی صغریٰ
آنے ہی کو ہم تھے کہ اجل آگئی صغریٰ
علی اکبر سینے پہ سناں کھا کر مقتل میں سوگئے
آقائے دربندی کتاب اسرار الشہادت 💥
میں لکھتے ہیں کہ فاطمه صغریٰ روز یاد امام میں گریہ کرتی اور مسافروں کو یاد کرتی ایک عربی قاصد جو ملک عراق جارہا تھا جب اس نے یہ گریہ سنا تو کہا میں عراق جارہا ہوں اگر کوئی بات ہے تو بیان کردیں تب شہزادی نے کہا کہ میں بنت حسین ابن علی ع ہوں میرے بابا بھی وہیں عراق کی طرف گے ہیں میرے بابا کو آپ میرا خط پہنچا دیں گے
وہ قاصد جو کربلا میں صغریٰ کا خط لئے کے روزہ عاشور پہنچا ہے
اس کے بارے ميں يہ ظاہر نہیں ہو سکتا ہے کہ
وہ قاصد انسان تھا یا فرشتہ
ایک روایت کے مطابق وہ جبرئیل امین تھے
جو خاندان زہراء کے پرانے خادم تھے
امام نے اہل حرم میں صغریٰ کا نامہ پڑھ کر سنایا جس کے بعد اہل حرم میں کہرام برپا تھا
امام حسین نے خط لاشہ اکبر کے پاس آکر سنایا اور کہا
اکبر صغریٰ کا نامہ وطن سے آیا ہے
دس محرم روزہ عاشورہ معروف ہے کہ
صغریٰ نے خواب دیکھا ہے
اپنے بابا کو اس کی سند تو نہیں ہے
لیکن خاندان اہل بیت کی بیٹیوں سے انکے بابا عالم خواب میں آئیں ہیں ملنے وہ جناب سیدہ کا خواب مدینہ میں ہو کے سکینہ کا زنداں میں واقعات سے ملتا ہے
امام جعفر صادق ع سے روایت ہے کہ
بحارالانوار میں مجلسی 💥
نے لکھا ہے کہ
امام محمد باقر ع نے ارشاد فرمایا
کہ دس محرم کو کبوتر اپنے پروں میں امام حسین کا خون لئے کے مدینہ گیا امام حسین کی خوشبو سونگھ کر اہل مدینہ کو صغریٰ نے خبر دی ہے کہ امام حسین کربلائے معلی میں شہید ہو گئے
لیکن گورنر مدینہ نے کہا کہ بنی ہاشم جادوگر ہے اور یہ لڑکی بھی جادوگر ہے جادو دیکھا رہی ہے
ریاض الاحزان صحفہ 15/52💥
اہل حرم کا لٹا ہوا قافلہ جب مدینہ پہنچا تو سب نے
صغریٰ کو جوانان بنی ہاشم کا پرسہ دیا 😭
بی بی صغریٰ اپنے
بابا حسین چچا غازی بھیا علی اکبر علی اصغر کو
یاد کرتے ہوئے روتی رہی کے😭
شھزادی نے اپنی دوبہنوں کے بارے میں دریافت کیا کے
میری بہن سکینہ بنت حسین اور میمونہ بنت حسن کہاں ہیں ?
بنت علی ع نے کہا کہ
سکینہ ع زنداں شام میں بابا کو یاد کر کر کے مرگئی اور میمونہ ع راہ کوفہ و شام میں اونٹ سے گری
اور اونٹ کے قدموں تلے پامال ہو کر شہید ہو گئی بعض مقاتل نے اونٹ سے پامال شہادت شام غریباں کی بیان کی ہے
جناب فاطمہ صغریٰ نے جب یہ سنا شھزادی نے اتنا گریہ وزاری کی کے تین دن مسلسل غش میں رہی اور تین روز بعد ہی بہن بابا بھائی کو روتے روتے رحلت فرما گئی الطرازالمزہب💥
میں شھزادی فاطمہ صغریٰ کی شہادت کا تذکرہ موجود ہے
اودھ کے بادشاہ نصیر الدین حیدر نے سب سے پہلے
جناب صغریٰ کے حال کی مجلس وتابوت اٹھایا اور
بی بی کی شہادت کا مرثیہ کہا اور پڑھا ہے
ماتم تھا اہل بیت کا صغریٰ کی لاش پر
تربت بنا کے صغریٰ کی سجاد نوحہ گر
واقعہ کربلا کے بعد شھزادی فاطمہ صغریٰ کی زندگی کے صرف یہ ہی واقعات ملتے ہیں جو میں
ذاکرہ شیریں زہرا عابدی نے رقم کردیئے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ بیمار مدینہ شھزادی فاطمہ صغریٰ
بعد کربلا چند دن حیات رہی ہیں اور
فاطمہ صغریٰ بیمار مدینہ خاندان زہراء کی وہ مظلومہ ہے جو اپنے پردیسیوں کو یاد کر کے روتی رہی مدینہ میں وہ مقام بھی ہے جو جناب صغریٰ سے منسوب ہے
جہاں شھزادی گریہ زاری کرتی تھیں شام میں موجود فاطمہ صغریٰ بیمار مدینہ کا مزار نہیں ہے بلکہ یہ ایک اور دختر حسین ع کا مزار شریف ہے
کیونکہ آپ سب کو معلوم ہے کہ امام حسین کے ہر بیٹے کا نام علی ع اور ہر بیٹی کا نام فاطمۃ الزہرا ع کے نام پر رکھا گیا ہے
تمام تر اہل تشیع افراد سے گزارش ہے کہ انکے وجود کے خلاف بےسروپا باتیں نہ کریں
خاص طور پر مقلدین آیت اللہ ڈھکو صاحب نے سب سے زیادہ خانوادہ اہل بیت خصوصی طور پر
خواتین خاندان زہرا ع کی تضحیک کی ہے
اور بعد میں آنے والے مسلسل افراد گستاخی کر رہے ہیں
کے اس فلاں شخص سے شادی کی شادی کی 🤬
ہم بنا طہارت کے ان پاک طاہرہ ہستیوں کے نام نہیں لیتے ہیں اور آپ ان آیت تطہیر کے پیکروں کو کسی بھی دشمنانِ سیدہ سے منسوب کر رہے ہیں
بلکہ علم پسندی کا ثبوت دیں
اور ان روایات کو تسلیم کریں جو محبت اہل بیت ع کا باعث ہیں جو زرا سی بھی تضحیک آمیز ہو اس روایات کو اٹھا کر دیوار پر دے ماریں
ورنہ بروز محشر جناب سیدہ ع کی بارگاہِ میں
سوائے آپ کی رسوائی و سزا دینے کا کوئی اور راستہ نہیں ہو گا
وسلام ذاکرہ شیریں زہرا عابدی
0 notes
engrfattah · 2 years
Photo
Tumblr media
اٹھارہویں پارے کا خلاصہ اٹھارہویں پارے کا آغاز سورہ ٔمومنون سے ہوتا ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے اس گروہ کا ذکر کیا ہے‘ جو جنت کے سب سے بلند مقام فردوس کا وارث بننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں '' وہ مومن کامیاب ہوئے‘ جنہوں نے اپنی نمازوں میں اللہ کے خوف اور خشیت کو اختیار کیا‘ جنہوں نے لغویات سے اجتناب کیا‘ جو زکوٰۃ کو صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں‘ جو امانتوں اور وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں‘ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہی‘ جو اپنی پاک دامنی کا تحفظ کرتے ہیں‘ جو صاحب ایمان ایسا کرے گا‘ وہ فردوس کا وارث بن جائے گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب کافروں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے گا تو وہ چیخ پڑیں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا‘ آج چیخ و پکار مت کرو بے شک ہمارے مقابلے میں کسی طرف سے تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ ہماری آیات کی تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی تو تم ایڑیوں کے بل بھاگ پڑتے تھے۔ تکبر کرتے اور اپنی رات کی محفلوں میں اس قرآن کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے۔ اللہ تعالیٰ کافروں کی غفلت اور سرکشی کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا انہوں نے قرآن کریم پر غور نہیں کیا یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آگئی ہے‘ جو ان کے آباء کے پاس نہیں آئی یا انہوں نے اپنے رسولﷺ کو پہلے سے نہیں پہچانا‘ جو ان کا انکار کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو واضح فرما رہے ہیں کہ رسول کریمﷺ کی سابقہ زندگی ان کے سامنے ہے‘ اس لیے ان کو صادق اور امین رسول کا انکار نہیں کرنا چاہیے اور صرف اس وجہ سے قرآن کو رد نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ان کے آباو اجداد کے عقائد سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ ان کو حق پر مبنی دعوت پر غور کرنا چاہیے اور اللہ کی اس وحی کو دل وجان سے قبول کرنا چاہیے۔ درحقیقت وہ یہ چاہتے تھے کہ حق ان کی خواہشات کے تابع ہوجائے؛ حالانکہ اگر وحی کو ان کی خواہشات کے تابع کردیا جائے تو آسمان وزمین میں موجود ہر چیز فساد کا شکار ہو جائے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ ہم نے ان کو بغیر وجہ کے پیدا کردیا ہے اور انہوں نے ہمارے پاس پلٹ کر نہیں آنا؛ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دوبارہ پیش ہوں گے اور ان کو اپنے کئے کا جواب دینا ہوگا۔ اس سورت کے آخر میں ارشاد ہوا کہ جو کوئی بھی غیر اللہ کو پکارتا ہے اس کے پاس ایسا کرنے کی کوئی دلیل نہیں اور اس کا حساب پروردگار کے پاس ہے۔ سورہ نور میں اللہ تعالیٰ نے فحاشی کی روک تھام کیلئے سزائیں مقرر فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں حضرت عائشہ رضی https://www.instagram.com/p/Ccrj12Utjc-/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
columnspk · 3 years
Text
Aab Aya Unt Pahar Kay Nechy
Aab Aya Unt Pahar Kay Nechy
اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان خود کو پاک اور شفاف قرار دیتے آرہے ہیں بلکہ صادق و امین کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ لگاتے ہیں اپنی ہر تقریر میں اپنے مخالفین کے لتے لیتے ہیں انہیں چور ،بد عنوان اور نہ جانے کیا کیا کہتے آرہے ہیں، کرپشن کا خاتمہ ان کا اوڑھنابچھونا ہے، لیکن شو مئی قسمت ساری احتیاطوں لیت و لعل کے باوجود کئی سالوں سے لٹکائے گئے کیس فارن فنڈنگ کی فیکٹ…
View On WordPress
0 notes
omega-news · 3 years
Text
پاکستانی قانون کو جوتے کی نوک پر رکھنے والے آل شریف مکافات عمل کا شکار ہیں.شہباز گل
پاکستانی قانون کو جوتے کی نوک پر رکھنے والے آل شریف مکافات عمل کا شکار ہیں.شہباز گل
وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہےچھوٹے میاں روز وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کو اعلیٰ عدلیہ صادق اور امین قرار دے چکی ہے۔ معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے شہباز شریف کے بیان پر ردعمل میں کہا کہ اربوں کی منی لانڈرنگ کرنے والے قانون پڑھا رہے ہیں جبکہ پورا ٹبر لوٹ مار میں ضمانتی جبکہ ان کی شوبازیاں عروج پر ہیں۔ شہباز گل نے کہا کہ پاکستانی قانون کو جوتے کی نوک پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes