Tumgik
#قبضہ
forgottengenius · 8 months
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
Tumblr media
اور کل جنت دریاؤں اور سائے سے چمکے گی۔
And tomorrow Paradise will shine with rivers and shadows
اور کل ہم بھول جاتے ہیں، اس لیے ہم اس ماضی پر غمزدہ نہیں ہوتے جس نے قبضہ کر لیا ہے۔
And tomorrow we forget, so we do not grieve over a past that has taken over
اور کل ہم خوشحال ہوں گے، اس لیے ہمیں غیب کی جگہ کا علم نہیں ہے۔
And tomorrow we prosper, so we don't know the unseen place
اور کل خوشحال حال کے لیے ہم کچھ نہیں جیتے سوائے اس کے
And tomorrow for the prosperous present we live nothing but
ام کلثوم نے آخر میں کہا:
Umm Kulthum concluded with:
"غیب میٹھا ہو سکتا ہے، لیکن حال زیادہ میٹھا ہے۔"
“The unseen may be sweet, but the present is sweeter.”
45 notes · View notes
emergingpakistan · 11 months
Text
طاقت سے مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو دبایا نہیں جاسکتا‘
Tumblr media
اسرائیل-فلسطین تنازع اور غزہ میں جنگ ایک ایسا لاوا تھا جو طویل عرصے سے پک رہا تھا۔ فلسطین پر 7 دہائیوں کے وحشیانہ اسرائیلی قبضے کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے۔ اسرائیل جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ’حالتِ جنگ‘ میں ہے، اس نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا جبکہ انہیں ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔
ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ’دردناک انتقام‘ لے گا اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جو کہ بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سے 700 بچوں سمیت 2 ہزار 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 5 لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کر کے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 11 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ 
Tumblr media
اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس مؤقف کی غیرمشروط حمایت کر رہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو ’جدید ہتھیار‘ بھی فراہم کیے ہیں۔ کوئی بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا جس کے تحت دونوں جانب بےگناہ افراد مارے گئے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتوں نے اسرائیلیوں کی اموات پر تو غم و غصے کا اظہار کیا مگر بے گناہ فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے پر وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ جس دوران اسرائیلی بمباری سے پوری کی پوری آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ 
لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔ نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ درحقیقت نارملائزیشن کی اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آزادانہ طور پر غزہ میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 8 اکتوبر کو حالات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن یہ اجلاس اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب سیکیورٹی کونسل کوئی بیان ہی جاری نہ کرسکی۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی ممالک چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے جبکہ کشیدگی کم کرنے پر ہرگز زور نہ دے۔
روسی نمائندے نے کونسل پر جنگ بندی اور بامعنیٰ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنیٰ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کوئی توجہ نہ مل سکی جبکہ اس پر ووٹ ہونا ابھی باقی ہے لیکن اس قرارداد کو اکثریت کی حمایت ملنا ناممکن لگ رہا ہے۔ یوں سلامتی کونسل تشدد کو روکنے کا اپنا فرض ادا نہیں کر پائی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 
فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہو گا۔ لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کر کے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ ان قراردادوں پر عمل نہ کر کے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ موجودہ تنازع ’اچانک کھڑا نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک ’دیرینہ مسئلہ ہے جو 56 سال پرانے قبضے سے پروان چڑھا‘۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خونریزی کو بند کیا جائے اور ’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پیش کردہ دو ریاستی حل کی روشنی میں مذاکرات کر کے امن بحال کیا جائے۔ اسی طرح اس سرزمین کے لوگوں اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پائیدار استحکام لایا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے اسرائیل پر یہ بھی زور دیا کہ وہ 11 لاکھ لوگوں کے انخلا کے اپنے حکم پر نظرثانی کرے۔ اس طرح کی اپیلوں پر اسرائیل بالکل بھی کان نہیں دھر رہا۔ اسرائیل کی غزہ پر زمینی کارروائی اور غزہ پر دوبارہ قبضے کی منصوبہ بندی کے باعث اس تنازع کے نتائج واضح نہیں ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جنگ خطے میں پھیل سکتی ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ خطے میں نارملائزیشن کی تمام کوششیں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بنانے کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ پھر گزشتہ 7 دہائیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ طاقت اور جبر سے کوئی بھی مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا سکتا ۔
ملیحہ لودھی  یہ مضمون 16 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر حکومت پنجاب ننکانہ صاحب فون نمبر056-9201028
ہینڈ آوٹ نمبر415
ننکانہ صاحب:( )22 ستمبر 2024۔۔۔۔۔۔وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راو نے ناجائز تجاوزات کا جائزہ لینے کے لیے ننکانہ سٹی، موڑ کھنڈا اور منڈی فیض آباد کا طویل دورہ کیا۔اس موقع پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل رائے ذوالفقار علی، اسسٹنٹ کمشنر ننکانہ وجیہہ ثمرین، سی او ضلع کونسل عامر اختر بٹ، سی او میونسپل کمیٹی راو انوار، متعلقہ انکروچمنٹ انسپکٹرز، انجمن تاجران کے نمائندے، میڈیا نمائندگان سمیت دیگر افسران بھی ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ موجود تھے۔طویل دورے کے دوران ڈپٹی کمشنر محمد تسلیم اختر راو نے ننکانہ سٹی، موڑکھنڈا اور منڈی فیض آباد کے تاجران سے ملاقات بھی کی۔ڈپٹی کمشنر نے انجمن تاجران کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دوکاندار حضرات 25 ستمبر تک ناجائز تجاوزات اپنی مدد آپ کے تحت ہٹا لیں، 25 ستمبر کے بعد ناجائز تجاوزات کرنے والوں کا سامان ضبط کر لیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ 25 ستمبر کے بعد ضلع کے تمام شہروں اور قصبوں میں بیک وقت ناجائز تجاوزات کے خلاف سخت کریک ڈاون کا آغاز کیا جائے گا۔انجمن تاجران کے نمائندوں نے 25 ستمبر تک ڈپٹی کمشنر کو ناجائز تجاوزات ہٹانے کی یقین دہانی کروائی۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ نے کہا کہ ناجائز تجاوزات اور اسٹیٹ لینڈ پر قبضہ کرنے والوں کے ساتھ بلاتفریق کاروائیاں کریں گے، شہریوں کی سہولت کے لیے بنائے جانے والے راستوں ہر صورت کلیئر کروایا جائے گا، اداروں سے مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کے ویژن کے مطابق عوام الناس کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے۔ڈپٹی کمشنر نے عوامی مسائل کے حل کے لیے موڑ کھنڈا اور منڈی فیض آباد کی مساجد میں کھلی کچہریاں بھی لگائیں، ڈپٹی کمشنر نے مساجد میں عوام الناس کے مسائل سنے اور متعلقہ افسران کو عوامی شکایات موقع پر حل کرنے کے احکامات بھی جاری کیے۔ڈپٹی کمشنر نے کھلی کچہری کے دوران ریڑھی بانوں سے ملاقات بھی کی۔اس موقع پر ڈپٹی کمشنر ننکانہ محمد تسلیم اختر راو نے متعلقہ افسران کو ضلع کے تمام شہروں میں ریڑھی بانوں کے لیے فوری جگہ مختص کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضلع کے ہر شہر میں ریڑھی بانوں کو جگہ کی دستیابی سمیت تمام تر سہولیات فراہم کریں گے تاکہ یہ اپنے بچوں کے لیے بہتر روزگار کما سکیں۔انہوں نے ریڑھی بانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریڑھی بان شہریوں کی گزرگاہوں کو بند نہ کریں اور کسی سرکاری اہلکار یا دوکاندار کو ریڑھی لگانے کے پیسے ادا نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ بھتہ مانگنے والوں کے خلاف مجھے ڈائریکٹ شکایت کریں، سخت ایکشن لیا جائے گا، ریڑھی بان غریب لوگ ہیں، ان کا رزق بند نہیں کرنا چاہتے، آپ کو بھی انتظامیہ کے احکامات پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کے لیے رزق کمائیں لیکن شہریوں کو اشیاء جائز منافع رکھ فروخت کریں۔بعد ازاں ڈپٹی کمشنر محمد تسلیم اختر راو نے وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کے ستھرا پنجاب مہم کے تحت ضلع بھر میں جاری شجرکاری، شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کو خوبصورت بنانے کے حوالے سے کھیاڑے کلاں تا ننکانہ روڑ کا دورہ کیا۔انہوں نے متعلقہ اداروں کی جانب سے لگائے جانے والے پودوں کا جائزہ لیا۔اس موقع پر انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پودوں کی نگہداشت میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا، پودے درخت بن کر آنے والی نسلوں کو سرسبز و شاداب ماحول فراہمی کے ساتھ ساتھ ماحول کو صاف کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔علاوہ ازیں ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راو نے گزشتہ دنوں شاہکوٹ روڑ پر واگزار کروائی جانے والی اسٹیٹ لینڈ کا دورہ کیا۔اسسٹنٹ کمشنر ننکانہ وجیہہ ثمرین سمیت دیگر ریونیو عملہ بھی ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ تھے۔اس موقع پر ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راو نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ لینڈ کو قابضین سے واگزار کروانے کے لیے آپریشن کو تیز کیا جائے گا اور سرکاری اراضی کا چپہ چپہ قابضین سے واگزار کروایا جائے گا۔
0 notes
alkamunia · 15 days
Text
Tumblr media
فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 27═(قرطبہ پر قبضہ )═ http://dlvr.it/TD0NTX
0 notes
discoverislam · 28 days
Text
ہم مسجد سے دور کیوں ہو گئے؟
Tumblr media
کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ ہم مسجدوں سے دور کیوں ہو گئے؟ علی کی عمر چارسال ہے۔ میرے گھر کا آنگن بہنوں کے ساتھ اس کی شرارتوں سے مہک رہا ہے۔ہمارے گھر کے قریب ہی ایک مسجد ہے۔ جو قاری صاحب گھر پر بچوں کو قرآن پڑھانے تشریف لاتے ہیں وہی اس کے امام ہیں۔ کچھ دنوں سے میں محسوس کر رہا تھا کہ علی مسجد میں دل چسپی لینے لگا ہے۔ ہم سامنے سے گزر رہے ہوتے تو وہ رک جاتا اور اس کی متجسس نگاہیں مسجد کا جائزہ لینے کی کوشش کرنے لگتیں۔ ایک دو دن کے بعد اس کا تجسس سوال میں ڈھلنے لگا : مسجد کیا ہوتی ہے؟ یہاں کون رہتا ہے؟ اسے بتایا کہ یہ اللہ کا گھر ہے اور لوگ یہاں نماز پڑھنے آتے ہیں۔ اب اگلا سوال یہ تھا کہ اگر یہ اللہ کا گھر ہے اور لوگ یہاں نماز پڑھنے آتے ہیں تو آپ نماز پڑھنے مسجد کیوں نہیں جاتے؟ اذان کی آواز آتی تو وہ میرے پاس آ کھڑا ہوتا کہ اذان ہو رہی ہے آپ مسجد کیوں نہیں جاتے۔ آپ گھر میں نماز کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نماز پڑھنے مسجد کیوں نہیں جاتے؟ اس تکرار کے ساتھ اس نے سوال اٹھایا کہ مجھے مسجد جانا ہی پڑا۔
چند روز گزرے تو اس نے کہنا شروع کر دیا کہ اب وہ بھی مسجد جائے گا۔ میں اسے مطالعاتی دورے پر مسجد لے گیا اور اسے دکھا لایا کہ مسجد ایسی ہوتی ہے۔لیکن اس کا کہنا تھا کہ اسے صرف مسجد نہیں جانا اسے وہاں جا کر دوسرے لوگوں کے ساتھ نماز بھی پڑھنا ہے۔ میں نے اس سے وعدہ کر لیا کہ کل شام آپ کو بھی مسجد لے جائوں گا۔ عروہ تو اب سمجھدار ہو چکی ہے لیکن عائشہ جو ابھی کلاس ٹو کی طالبہ ہے اور ہمارے گھر کی تحریک انصاف ہے اس نے تحریک انصاف کے مخصوص اندازمیں فیصلہ سنا دیا کہ صرف علی کیوں جائے گا وہ بھی ساتھ جائے گی۔ اس کے پاس ایک دلیل بھی تھی: ’’یا تو مسجد علی کا گھر ہو تو پھر صرف علی جائے۔ جب مسجد اللہ کا گھر ہے تو پھر صرف علی کیوں جائے۔ میں بھی جائوں گی۔ جب اللہ صرف علی کا نہیں سب کا ہے تو اس کے گھر صرف علی کیوں جائے گاــ‘‘۔اب اس سوال کا میرے پاس تو کیا میرے پورے معاشرے کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کہ اللہ کے گھر کے دروازے لڑکیوں اور عورتوں پر کیوں بند ہیں اور روایات کو مذہب پر فوقیت کس نے دے رکھی ہے؟ بے شک عورت کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے لیکن رسالت مآب ﷺ کا یہ فرمان ہمیں کیوں بھول گیا کہ اپنی عورتوں کو مسجد میں جانے سے مت روکو۔
Tumblr media
خیر عائشہ کو مطمئن کر کے میں علی کو ساتھ لے کر مسجد پہنچا۔ جماعت کھڑی ہونے میں ابھی وقت تھا۔علی بہت خوش تھا۔ مسجد پہنچ کر اس نے کہا کہ مجھے تو نماز پڑھنی ہی نہیں آتی میں کیسے نماز پڑھوں گا۔ پھر خود ہی اس نے حل نکال لیا کہ میں آپ کے ساتھ کھڑا ہو جائوں گا اور جیسے آپ پڑھتے جائیں گے ویسے ہی میں بھی پڑھتا جائوں گا۔ لیجیے صاحب نماز کھڑی ہو گئی۔ علی میرے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ابھی پہلی رکعت ہی جاری تھی کہ ایک صاحب تشریف لائے، انہوں نے علی کو پکڑ کر پرے کر دیا اور خود میرے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اتنے میں ایک اور صاحب آئے، انہوں نے اسے مزید پرے دھکیل دیا اور اس کی جگہ پر خود کھڑے ہو گئے۔ پہلی ہی رکعت میں ایک اور صاحب تشریف لائے اور انہوں نے علی کو مزید پرے دھکیل کر اس کی جگہ پر قبضہ فرما لیا۔ پھر غالبا ایک اور صاحب آئے اور انہوں نے اسے مزید پرے دھکیل دیا۔ نماز ختم ہوئی تو میں نے علی کو اپنے پاس بلایا۔ اس کی آنکھوں میں شوق، خوشی اور تجسس کی جگہ اب پریشانی اور دکھ تھا۔آنکھوں کی نمی بتا رہی تھی کہ اس تجربے کے بعد آئندہ وہ مسجد کا رخ نہیں کرے گا۔
میرے ساتھ جو صاحب بیٹھے تھے میں نے انہیں غور سے دیکھا۔ یہ ایک نوجوان تھے۔ مجھے ان پر شدید غصہ تھا لیکن آداب مسجد مانع تھے۔ میں نے ان سے عرض کی کہ آپ کس جماعت کے خدائی فوجدار ہیں۔ کہیں آپ صالحین میں سے تو نہیں جو ساری دنیا میں اسلامی انقلاب کے لیے کوشاں ہیں۔ نوجوان گڑ بڑا گیا۔ وہ جمعیت ہی سے تھا۔ اس نے شائستگی سے کہا : سر کوئی غلطی ہو گئی ہے؟اس کے لہجے کی شائستگی نے میرا آدھاغصہ ختم کر دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ اس بچے کو میں مسجد نہیں لایا تھا۔ یہ بچہ مجھے مسجد لایا تھا۔ آپ اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تب بھی آپ کی نماز ہو جانی تھی۔ لیکن آپ سے آپ کا زعم تقوی نہیں سنبھالا جا رہا تھا آپ نے اس کو پرے دھکیل دیا۔ ساتھ والے صاحب آپ سے بھی زیادہ نیک تھے انہوں نے اسے اور پرے دھکیل دیا۔ اس کے بعد ایک صاحب تشریف آئے، ان کا خیال تھا وہ آپ دونوں سے زیادہ پارسا ہیں، انہوں نے اسے اور پرے دھکیل دیا۔یہ بچہ شوق سے مسجد آیا تھا، اس نے آئندہ بھی آنا تھا لیکن آج کے واقعے کے بعد یہ مسجد نہیں آئے گا۔ آپ اپنے تقوی کی روشنی میں میری رہنمائی فرما دیجیے کہ اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟
خیریت گزری کہ تینوں حضرات نے اپنی غلطی تسلیم کر لی اور معذرت کر لی۔ لیکن اس دن کے بعد سے آج تک علی نے مسجد کا نام نہیں لیا۔ اس نے ایک دفعہ نہیں کہا کہ اسے مسجد جانا ہے۔ جو بچہ ابھی انگلی پکڑ کر چلتا ہو اس کو آپ کا زعم تقوی دھکیل کر اس کے باپ سے دور ایک کونے میں کھڑا کر دے تو اس عمر میں اس کے لیے اس سے خوفناک تجربہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ دوبارہ اس تجربے سے کیوں گزرے؟ یہ قریب قریب ہر مسجد کی کہانی ہے۔ بچوں کے ساتھ نفرت، حقارت اور رعونت سے برتائو کیا جاتا ہے۔ جدید تہذیب کی یلغار نے پہلے ہی لوگوں کو مسجد سے دور کر دیا ہے جو تھوڑے بہت اس سے وابستہ رہ گئے ہیں ان کا بچوں سے سلوک اتنا توہین آمیز ہے کہ اس کے بعد بچوں کے لیے مسجد کا رخ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ آ ج کے یہ بچے کسی پارک ، کسی شاپنگ مال ، سکول جہاں کہیں بھی جاتے ہیں انہیں خوش آمدید کہا جاتا ہے لیکن یہ مسجد چلے جائیں تو ان کی توہین اور تذلیل کی جاتی ہے۔ انہیں یوں بھگایا جاتا ہے جیسے شیطان آ گیا ہو جو اہل تقوی کی عبادات میں خلل ڈال دے گا۔
آج مسجد میں بچوں کا وجود آپ کو برداشت نہیں تو آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کل یہ جوان ہو کر مسجد کا رخ کریں گے؟ تاریخ اسلام ہمارے سامنے ہے۔ خود رحمت دو جہاں ﷺ سجدے میں تھے اور نواسہ رسول اوپر بیٹھ گئے تو آپ ﷺ نے سجدہ طویل کر دیا۔ نہ خفا ہوئے نہ ڈانٹا۔ سراپا محبت۔ سراپا شفقت۔ ذرا بخاری اور مسلم کو کھول کر پڑھیے تو سہی کہ آقائے دو جہاں ﷺ کی گود میں جب امامہ بنت زینب ؓ آ کر بیٹھ جاتیں تو آپ کی نماز کا عالم کیا ہوتا تھا۔ آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ مسجد میں سیدنا حسن ؓ اور سیدنا حسین ؓ تشریف لائے۔ نئے کپڑے پہن رکھے تھے اور پھسل گئے۔ آپ ﷺ نے خطبہ روک دیا ، منبر سے اترے انہیں گود میں لے لیا اور پھر واپس منبر پر تشریف لے گئے۔ ہمیں اپنے بچوں کو مساجد سے مانوس کرنا ہو گا اور اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے اپنے زعم تقوی کو گھر چھوڑ کر آیا کریں۔ عاجزی اور محبت سے مسجد کا رخ کیا کریں۔ ہمارے بزرگ خدا جانے ہر وقت جلال میں کیوں ہوتے ہیں۔ ان کا رویہ جلادوں بلکہ دجالوں والا ہوتا ہے ۔ سریل ، سنکی اور انسان بے زار۔
میں نے مسجد میں بچوں کو ڈانٹ کھاتے ہی دیکھا ہے۔ حالانکہ انہیں پیار سے بھی بہت کچھ سمجھایا جا سکتا ہے۔ بچے تو بچے ہیں۔ انہیں گنجائش دینا ہو گی۔ ہمارے ہاں اکثر عالم یہ ہوتا ہے کہ ریٹائرڈ بزرگان نے محلے کی مساجد میں کرفیو نافذ کر رکھا ہوتا ہے اور بچوں کا داخلہ ممنوع اور ناپسندیدہ قرار پاتا ہے۔ چنانچہ مساجد خالی ہوتی جا رہی ہیں اور ہمارے شکوے بڑھتے جا رہے ہیں کہ نوجوان دین سے دور ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہم اپنے رویے بدلنے کو تیار ہیں؟
آصف محمود  
0 notes
emergingkarachi · 28 days
Text
کراچی کا ماضی
Tumblr media
آج میں آپ کو ڈیڑھ سو برس پیچھے لے جانا چاہتا ہوں۔ آپ کو ماضی کی سیر کرانا چاہتا ہوں۔ آپ کو ویزا کی یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گزرا ہوا کل دیکھنے کے لیے آپ کو کسی قسم کا ٹکٹ خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیتے ہوئے ادوار کی طرف ہوائی جہاز، ریل گاڑی اور بسیں نہیں جاتیں، میں آپ سے دنیا دکھانے کا وعدہ نہیں کرتا۔ ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے کا بھیانک آنکھوں دیکھا حال میں آپ کو سنا نہیں سکتا۔ ہندوستان کے ایک جزیرہ انڈومان پر انگریزوں نے روح فنا کردینے جیسی جیل بنائی تھی۔ سمندر میں گھرے ہوئے انڈومان جیل میں سیاسی قیدیوں کو پابند سلاسل کیا جاتا تھا۔ انڈومان جیل میں آپ کو نہیں دکھائوں گا۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں دکھائوں گا کہ شہنشاہ ہند اورنگزیب نے کس بیدردی سے اپنے تین بڑے بھائیوں کو قتل کروا دیا تھا۔ ماضی کی جھلک دکھاتے ہوئے میں اس بات پر بحث نہیں کروں گا کہ ہندو اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے انگریز نے ریلوے پلیٹ فارم اور ریل گاڑیوں میں ہندو پانی اور مسلمان پانی، ہندو کھانے اور مسلمان کھانے کا رواج ڈالا تھا۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں بتائوں گا کہ تب کراچی سے کلکتہ جانے کے لیے آپ کو ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ آپ کو صرف ریل گاڑی کا ٹکٹ خریدنا پڑتا تھا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ اگست انیس سو سینتالیس سے پہلے ہندوستان میں رہنے والے ہم سب لوگ پیدائشی طور پر ہندوستانی ہوتے تھے۔
کراچی، لاہور اور پشاور میں پیدا ہونے والے بھی پیدائشی ہندوستانی Born Indian ہوتے تھے۔ مدراس سے بمبئی آنے جانے پر روک ٹوک نہیں ہوتی تھی۔ ایسا ہوتا تھا ہمارے دور کا برصغیر، کڑھنے یا میری نسل کو برا بھلا کہنے سے زمینی حقائق بدل نہیں سکتے۔ اگست 1947ء سے پہلے ہندوستان کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا۔ اگست 1947ء سے پہلے پاکستان عالم وجود میں نہیں آیا تھا۔ لہٰذا اگست 1947ء سے پہلے ہم سب نے ہندوستان میں جنم لیا تھا۔ تب کراچی، لاہور اور پشاور برٹش انڈیا کا حصہ تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے، گھڑی ہوئی کہانی نہیں ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں ہمارا اہم اور بہت بڑا حصہ ہے۔ میں نے سیانوں سے سنا ہے کہ اپنے تاریخی اور ثقافتی حصہ سے دستبردار ہونا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہوتا۔ اس لمبی چوڑی اور نامعقول تمہید کا مطلب اور مقصد بھی یہی ہے جو ابھی ابھی میں نے آپ کے گوش گزار کیا ہے۔ میں آپ کو سیر کروانے کے لیے لے جارہا ہوں مچھیروں کی چھوٹی سی بستی کی طرف۔ یہ بستی نامعلوم صدیوں سے بحر عرب کے کنارے آباد ہے۔ اب یہ چھوٹی سی بستی ایک بہت بڑے تجارتی شہر میں بدل چکی ہے۔ 
Tumblr media
یوں بھی نہیں ہے کہ ڈیڑھ سو برس پہلے مچھیروں کی چھوٹی سی بستی گمنام تھی۔ تب ٹھٹھہ معہ اپنے اطراف کے مشہور تجارتی شہر ہوا کرتا تھا۔ بیوپاری اپنا سامان ملک سے باہر بھیجتے تھے اور بیرونی ممالک سے برآمد کیا ہوا سامان اپنے ملک سندھ میں بیچا کرتے تھے۔ تاریخ کے بد خواہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ سندھ انگریز کے آنے سے پہلے خودمختار ملک تھا۔ سندھ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ اٹھارہ سو تینتالیس میں سر چارلس نیپئر نے فتح کرنے کے بعد سندھ کو ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دیکھنے کے لیے بمبئی یعنی ممبئی صوبے سے ملا دیا تھا ۔ اس طرح انیس سو تینتالیس میں سندھ ہندوستان کا حصہ بنا۔ یہاں مجھے ایک تاریخی بات یاد آرہی ہے بلکہ دو باتیں یاد آرہی ہیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر کسی مسلمان سیاستدان نے انگریز سے سوال نہیں اٹھایا کہ انگریز کی فتح سے پہلے سندھ ایک الگ تھلگ خودمختار ملک تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے سندھ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ کسی بھی موقع پر کسی سیاستدان نے یہ سوال انگریز سے نہیں پوچھا تھا کہ آپ لوگوں نے سندھ ایک آزاد ملک کے طور پر جنگ میں جیتا تھا، ہندوستان کے ایک حصے یا صوبہ کے طور پر نہیں۔ 
اب آپ سندھ کا بٹوارہ ہندوستان کے ایک صوبہ کے طور پر کیوں کررہے ہیں؟ آپ سندھ کو ایک آزاد ملک کی طرح آزاد کیوں نہیں کرتے؟ اسی نوعیت کی دوسری بات بھی ہمارے سیاستدانوں نے انگریز سے نہیں پوچھی تھی۔ انگریز نے مکمل طور پر جب ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا تب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یہاں سے کوچ کرتے ہوئے آپ نے ہندوستان کے ٹکڑے کیوں کر دیے؟ انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا، نیپال وغیرہ کی طرح ایک ملک کے طور پر ہندوستان کو آزاد کیوں نہیں کیا؟ اور سب سے اہم بات کہ آپ نے ہندوستان مسلمان حکمراں سے جیتا تھا، ہندوئوں سے نہیں۔ جاتے ہوئے آپ نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کے حوالے کیوں نہیں کی تھی؟ ڈیڑھ سو برس بعد ایسے سوال فضول محسوس ہوتے ہیں۔ انگریز میں بے شمار اچھائیاں تھیں، بے شمار برائیاں تھیں۔ انہوں نے بھرپور طریقے سے ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ کراچی کو ننھا منا لندن بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ جنہوں نے 1947ء کے لگ بھگ لندن دیکھا تھا، وہ کراچی کو چھوٹا سا لندن کہتے تھے اور پھر کراچی جب ہمارے ہتھے چڑھا، ہم نے انگریز کی نمایاں نشانیاں غائب کرنا شروع کر دیں۔ 
دنیا بھر کے مشہور شہروں میں آج بھی ٹرام رواں دواں ہے۔ ہم نے ٹرام کی پٹریاں اکھاڑ دیں۔ ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسوں کا رواج ختم کر دیا۔ مشرقی اور مغربی امتزاج کی ملی جلی عمارتوں میں ایک عمارت کا نام تھا پیلس ہوٹل، یہ انتہائی خوب صورت عمارت تھی، ہم نے گرا دی۔ ایسی کئی عمارتیں ایلفنسٹن اسٹریٹ اور وکٹوریا روڈ صدر پر شاندار انداز میں موجود ہوتی تھیں۔ ہم نے ان عالی شان عمارتوں کا ستیاناس کر دیا۔ جانوروں کے لیے شہر میں جابجا پانی کے حوض ہوا کرتے تھے، ہم نے اکھاڑ دیے۔ کراچی سے ہم نے اس کا ماضی چھین لیا ہے۔
امر جلیل
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
kanpururdunewsa · 2 months
Text
نزول کی زمین قبضہ مافیا ابھیتک فرار مسلم ہوتا تو اب تک بلڈوشت چل چکا ہوتا
Tumblr media
0 notes
apnabannu · 2 months
Text
پیراشوٹ سے نازیوں کے زیرِ قبضہ پولینڈ میں جاسوسی کے لیے اترنے والی خاتون جن کے سرپرست بھی ان کے مخالف تھے
http://dlvr.it/TBTgvx
0 notes
the-royal-inkpot · 2 months
Text
مشتری ہوشیار باش
احمدیہ جماعت میں ایک خلیفہ کی موت کے بعد نئے خلیفہ کا انتخاب کرنے کے لیے ایک خلافت کمیٹی موجود ہوتی ہے جو پرانے خلیفہ کی موت پر ایک عالمی اجلاس منعقد کرتی ہے جس میں پوری دنیا کے ہر ملک سے نیشنل امیر اور نیشنل مشنری انچارج کو مدعو کیا جاتا ہے اور صرف یہی لوگ ووٹ دینے یا اپنی پسند کے خلافت کے امیدوار کو چننے کے اہل ہوتے ہیں۔
خلافت کمیٹی نام تجویز کرتی ہے ،جو بعض اوقات ایک اور بعض اوقات ایک سے زیادہ ہوتے ہیں۔
پھر ان ناموں پر ووٹنگ ہوتی ہے اور جس مجوزہ نام کے ووٹ سب سے زیادہ ہوں وہ خلیفہ بن جاتا ہے۔
احمدیہ جماعت کا سب سے بڑا جھوٹ
احمدیہ جماعت ان افراد کے ذریعہ خلیفہ منتخب کر کے دنیا میں ایک نیا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹتی ہے اور وہ یہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔حالانکہ صاف نظر آتا ہے کہ ان کی خلافت کمیٹی و ممبران ووٹنگ کر کے خلیفہ منتخب کرتے ہیں لیکن یہ جماعت برابر اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔
اس جماعت کے دعوےداروں سے ایک سچا سوال ہے کہ وہ کونسا خدا ہے جو ہمیشہ مرزا غلام احمد کے خاندان میں سے ہی خلیفہ چنتا ہے۔ہم جس خدا کو جانتے ہیں وہ تو العدل ہے اور سب سے بڑھ کر انصاف کرنے والا ہے لیکن یہ خدا جو مسلسل مرزا خاندان سے ہی خلیفہ چن رہا ہے العدل تو دور خدا بھی نہیں معلوم ہوتا۔اتنی جانبداری مرزا خاندان کے راتب خواروں میں تو ہو سکتی ہے لیکن اللہ عزوجل اتنا جانبدار نہیں ہو سکتا۔سو ثابت ہو گیا کہ اگر واقعی احمدیہ کی خلافت خداوند کریم کی جانب سے جاری ہوتی تو خدا کبھی کوئی پنجابی خلیفہ بنتا،کبھی کوئی حبشی خلیفہ بنتا،کبھی مرزا،کبھی کوئی فرنگی،کبھی کوئی ہسپانوی،کبھی کوئی اور نسل سے چنا جاتا۔لہذا احمدیہ جماعت جو خلافت کی آڑ میں ایک ہی خاندان کو نظام بادشاہت سونپنے کے درپے ہے اس کو آنکھ بند کر کے سوائے غلامانہ ذہنیت کے حامل افراد کے کوئی ترقی پسند دماغ کبھی قبول نہیں کرتا۔
احمدیہ مرکز ربوہ کے اندر جتنے دفاتر بڑی کرسیاں رکھتے ہیں وہاں مرزا کے فیملی سے پوتے ،پڑپوتے نواسے پڑ نواسے اور مرزا کے خاندان سے نسبت رکھنے والوں کو بڑی کرسیاں عطا کی جاتی ہیں جو اس نظام کو ایک دیمک کی طرح کھا رہے ہیں اور چونکہ مرزا کا نام ساتھ جڑا ہے اس لیے انکی شکایت کرنا گناہ تصور ہوتا ہے بلکہ اگر اس مرزا کی کوئی جائز شکایت بھی کرے تو مرزا کی باقیات اس کے خلاف سازش کر کے اسے سائیڈ لائن کر دیتے ہیں۔
دراصل مرزا خاندان کو انگریزوں کی پشت پناہی حاصل تھی،اور آج بھی فرنگی محل سے اس خاندان کے لیے خاص آشیرباد نازل ہوتی ہے۔مبارک ہے وہ جو اس ایک خاندان کی استعماریت و قبضہ گیری کے خلاف جہاد کرتا ہے۔سچا ہے وہ جو خدا کو العدل حقیقت کے ساتھ ثابت کرنا چاہتا ہے۔خدا اتنا جانبدار اور انصاف سے دور کیسے ہو سکتا ہے جسے ہمیشہ خلافت کی گدی مرزا کے خاندان سے ہی ملتی ہے۔ثابت ہوتا ہےکہ خلافت احمدیہ چند سازشی عناصر کے دماغوں کی ذہانت کا ایک مرکب ہے اور اس طرح کی خلافت کو بالکل بھی خدا پسند نہیں کرتا۔لہذا مرزا کے خاندان کو گدی سونپ کر یہ کہنا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے خدا پر افترا ء باندھنے کے مترادف ہے اور ایسے سب لوگ ہلاک کیئے جاویں گے۔
0 notes
googlynewstv · 2 months
Text
 نارملائزیشن کمیٹی نے پی ایف ایف کے عہدیداروں پرپابندی لگادی
پاکستان فٹبال فیڈریشن کے دفتر پر قبضہ کے معاملے پر نارملائزیشن کمیٹی نے پی ایف ایف کے سابق صدر انجینئر اشفاق احمد سمیت تین عہدیداروں پر پابندی  لگا دی نارملائزیشن کمیٹی نے تحقیقاتی رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد سابق صدر اور کانگریس ممبر ناصر کریم اور سابق ایگزیکٹو کمیٹی ممبر جمیل احمد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے ، تین سابق عہدیداروں پر 27 مارچ 2021 میں لاہور میں  فٹبال ہاوس پر قبضہ اور متوازن…
0 notes
petnews2day · 3 months
Text
بلی نے پورے گلاس پر قبضہ کر لیا ہے😬😬😬😬😬😬😬😬
New Post has been published on https://petn.ws/wE8Gi
بلی نے پورے گلاس پر قبضہ کر لیا ہے😬😬😬😬😬😬😬😬
funny cat, funny cat videos, enimal, very funny video. funny cats,cat,cat videos,funny cat oscar,funny video,funny,funny dogs,funny pets,cute and funny cat,funny videos,funny animals,funny cat,funny dog videos,funny cat moments,funny cat video 2023,funny animals life,funny animal videos,smart cat,funny horses,oscar funny world,funny prank,cute funny cat,oscar’s funny world,funny cat memes,funny dog,funny cats 2024,funny cat of tiktok,cat memes funny Duration 00:00:08 […]
See full article at https://petn.ws/wE8Gi #HilariousCatVideos
0 notes
0rdinarythoughts · 2 years
Text
لوگ سمجھتے ہیں کہ چیزیں خرید کر انھوں نے ان پر قبضہ کر لیا، ہوتا یہ ہے کہ چیزیں آہستہ آہستہ آدمی پر قبضہ کر لیتی ہیں۔پھر وہ ان کا غلام ہو جاتا ہے ۔چاہے وہ ایشٹرے ہو، یا پھولدان ہو، موٹر کار ہو یا بیڈ روم کی وہ پرانی کرسی ہو جس پر پچھلے بیس برس سے دن کے کپڑے اتار کر رکھ دئیے جاتے ہیں وہ سب تم پر اپنا حق جتانے لگتے ہیں ۔
People think they have owned them by buying things,it is that the things slowly take over the man.then he becomes their slave.whether it's an ashtray, a vase, a motor car or an old bedroom There is a chair on which the clothes of the day have been laid off for the last twenty years, they all start to show their right on you.
Krishn Chandra
4 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
جیسی قوم ویسے حکمران
Tumblr media
آپ مانیں یا نہ مانیں جیسی قوم ہوتی ہے اسے ویسے ہی حکمران ملتے ہیں۔ جب ہم مظلوم تھے تو ہمیں محمد علی جناح ؒکی صورت میں ایک قائد ملا جس نے برطانوی سرکار کی طرف سے متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش ٹھکرا کر ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔ ہمیں پاکستان تو مل گیا لیکن ہم نے پاکستان کی قدر نہ کی اور آزادی کے فوراً بعد آپس میں لڑنا شروع کر دیا لہٰذا قدرت نے ہم سے ہمارا قائد اعظم ؒقیام پاکستان کے ایک سال بعد واپس لے لیا۔ آج کے پاکستان میں قائدین کی بہتات ہے اور قیادت کا فقدان ہے عمران خان اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا لیڈر قرار دیتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں دور دور تک قائداعظمؒ کی تعلیمات کی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ عوام کی مدد سے نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے وزیر اعظم بنے اور اپنی حکومت میں اپنے ارکان اسمبلی کو آئی ایس آئی کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔ بطور وزیر اعظم توشہ خانہ سے گھڑیاں اور ہار سستے داموں خرید کر جعلی رسیدیں توشہ خانہ میں جمع کراتے رہے۔ انکی سیاست کا محور سیاسی مخالفین پر مقدمے بنا کر انہیں جیل میں ڈالنا تھا وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے رہے لیکن اتنی اخلاقی جرات نہ دکھا سکے کہ اپنی بیٹی کی ولدیت کو تسلیم کر لیں جو لندن میں انکے دو بیٹوں کے ساتھ انکی سابق اہلیہ کے ساتھ مقیم ہے۔ 
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلے تو انکے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا تھا۔ 9 مئی کو انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو ان کے کارکنوں نے ملک بھر میں جلائو گھیرائو کیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جلائی گئی۔ سب سے پہلے میں نے ہی 9 مئی کی شب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں بتایا کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ دراصل قائد اعظم ؒکا گھر تھا جو قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم ؒکو واپس نہ کیا گیا۔ اس گھر کے متعلق فوجی حکام کےساتھ قائد اعظم ؒکی خط وکتابت ’’جناح پیپرز‘‘ میں محفوظ ہے جو ڈاکٹر زورار حسین زیدی نے بڑی محنت سے مرتب کئے۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ اور اسے جلا دینا ایک قابل مذمت واقعہ تھا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے لیکن موجودہ حکمرانوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ صرف عمران خان کی مذمت کیلئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ تحریک انصاف والوں نے جناح ہائوس جلا دیا۔ کیا کوئی صاحب اختیار یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ جناح ہائوس کو قومی میوزیم بنانے کی بجائے کور کمانڈر کی رہائش گاہ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟ 
Tumblr media
قائد اعظمؒ ؒنے یہ گھر قاضی محمد عیسیٰ (قاضی فائز عیسیٰ کے والد) کے ذریعے موہن لال بھاسن سے خرید ا تھا 1944ء میں برطانوی فوج نے اس بنگلے کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ذریعے اپنے قبضہ میں لے کر سات سو روپے ماہانہ کرایہ دینا شروع کر دیا۔ کرایہ داری کا معاہدہ 28 اپریل 1947ء کو ختم ہونا تھا لہٰذا 3 جنوری 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو برطانوی فوج نے بتایا کہ ہم کرایہ داری معاہدہ کے بعد بھی آپ کو آپ کا گھر واپس نہ کر سکیں گے جس پر قائداعظم ؒنے قانونی کارروائی شروع کر دی۔ یکم اگست 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو خط لکھا گیا کہ آپ کا گھر واپس کر دیا جائے گا۔ 31 جنوری 1948ء کو اس گھر کی توسیع شدہ لیز ختم ہو گئی لیکن قائد اعظم ؒکو اس گھر کا قبضہ نہ دیا گیا۔ قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد اس گھر کو پاکستانی فوج کے دسویں ڈویژن کے جی او سی کی رہائش گاہ قرار دیکر محترمہ فاطمہ جناح کو پانچ سو روپیہ ماہوار کرایہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعدازاں 1959ء میں جنرل ایوب خان کے حکم پر جناح ٹرسٹ میں ساڑھے تین لاکھ روپے جمع کروا کر اسے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ قرار دے دیا گیا۔ کچھ سال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو جنرل صاحب نے فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا۔ جس جنرل ایوب خان نے قائد اعظم ؒکے گھر پر قبضہ کیا اس کا پوتا عمر ایوب خان آج تحریک انصاف میں شامل ہے۔
پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے شہداء کی یادگاروں اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں بنا کر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افسوس کہ ’’جناح ہائوس لاہور‘‘ پر حملے کی مذمت کرنے والی حکومت قائد اعظم ؒمحمد علی جناح کی تعلیمات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ قائد اعظم ؒنے تمام عمر قانون کی بالادستی، شخصی آزادیوں اور صحافت کی آزادی کیلئے جدوجہد کی لیکن پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے قائداعظم ؒکی تعلیمات کےساتھ ساتھ آئین پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کر رکھا ہے جو تحریک انصاف نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور کے ساتھ کیا۔ کیا وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو معلوم ہے کہ 1919ء میں محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب عدالتی انکوائری کے بغیر کسی انسان کی آزادی ایک لمحہ کےلئے بھی نہیں چھینی جا سکتی۔ رولٹ ایکٹ کا مقصد پولیس کو نقص امن کے خدشات پر گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دینا تھا۔ 
ایک انگریز رکن اسمبلی آئرن سائڈ نے قائداعظم محمد علی جناح کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ رولٹ ایکٹ کا مقصد صرف چند شرپسندوں کو قابو کرنا ہے۔ قائد اعظم ؒنے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تخریب کاروں اور بدمعاشوں کے خلاف کارروائی کی مذمت نہیں کر رہے لیکن کسی مہذب ملک میں عدالتی ٹرائل کے بغیر شہریوں کی آزادی سلب نہیں کی جاتی۔ قائد اعظم ؒکی مخالفت کے باوجود رولٹ ایکٹ منظور ہو گیا تو انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’یہ قانون ساز اسمبلی ایک جابرانہ حکومت کی آلہ کار بن گئی ہے اس لئے میں اس اسمبلی سے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قائد اعظم ؒجو ٹرائل کے بغیر گرفتاریوں کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے اسی قائد کے پاکستان میں جنرل ایوب خان نے 1960ء میں رولٹ ایکٹ کو ایم پی او کا نام دیکر دوبارہ نافذ کر دیا۔ افسوس کہ اس جابرانہ قانون کو عمران خان کی حکومت نے بھی استعمال کیا اور آج شہباز شریف کی حکومت بھی اسے استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کر رہی ہے ایم پی او کےتحت گرفتاریاں توہین قائد اعظم ؒکے مترادف ہیں۔ حکمرانوں نے توہین پارلیمینٹ کا قانون تو منظور کر لیا لیکن توہین قائداعظم ؒکے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ ہم قائد اعظم ؒکا نام تو لیتے ہیں لیکن انکی تعلیمات سے سینکڑوں میل دور ہیں۔ خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ہمارے لیڈر بھی جھوٹے ہیں، جیسی قوم ویسے حکمران۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر ننکانہ صاحب
ننکانہ صاحب:22 ستمبر 2024
ڈپٹی کمشنر ننکانہ محمد تسلیم اختر راو کا ناجائز تجاوزات کا جائزہ لینے کے لیے ننکانہ سٹی ، موڑ کھنڈا اور منڈی فیض آباد کا دورہ
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ، اسسٹنٹ کمشنر ننکانہ ، سی او ضلع کونسل ، سی او میونسپل کمیٹی سمیت دیگر افسران بھی ہمراہ
ڈپٹی کمشنر کی ننکانہ ، موڑکھنڈا اور منڈی فیض آباد کے تاجران سے بھی ملاقات
دوکاندار حضرات 25 ستمبر تک ناجائز تجاوزات اپنی مدد آپ ہٹا لیں۔ڈی سی تسلیم اختر راو
25 ستمبر کے بعد ناجائز تجاوزات کرنے والوں کا سامان ضبط کر لیا جائے گا۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ
25 ستمبر کے بعد ضلع کے تمام شہروں اور قصبوں میں بیک وقت ناجائز تجاوزات کے خلاف سخت کریک ڈاون ہو گا۔ڈی سی ننکانہ
ناجائز تجاوزات اور اسٹیٹ لینڈ پر قبضہ کرنے والوں کے ساتھ بلاتفریق کاروائیاں کریں گے۔ڈی سی ننکانہ
شہریوں کی سہولت کے لیے بنائے جانے والے راستوں ہر صورت کلیئر کروایا جائے گا۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ
اداروں سے مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹیں گے۔ڈی سی تسلیم اختر راو
وزیر اعلی پنجاب کے ویژن کے مطابق عوام الناس کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ
ڈپٹی کمشنر نے موڑ کھنڈا اور منڈی فیض آباد کی مساجد میں کھلی کچہریاں بھی لگائیں
ڈپٹی کمشنر نے مساجد میں عوام الناس کے مسائل سنے اور متعلقہ افسران کو موقع پر حل کرنے کے احکامات بھی جاری کیے
ڈپٹی کمشنر کی کھلی کچہری کے دوران ریڑھی بانوں سے ملاقات
ڈپٹی کمشنر کی متعلقہ افسران کو ضلع کے تمام شہروں میں ریڑھی بانوں کے لیے فوری جگہ مختص کرنے کی ہدایت
ضلع کے ہر شہر میں ریڑھی بانوں کو جگہ کی دستیابی سمیت تمام تر سہولیات فراہم کریں گے۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ
ریڑھی بان شہریوں کی گزرگاہوں کو بند نہ کریں۔ڈپٹی کمشنر محمد تسلیم اختر راو
ریڑھی بان کسی سرکاری اہلکار یا دوکاندار کو ریڑھی لگانے کے پیسے ادا نہ کرے۔ڈی سی تسلیم اختر راو
بھتہ مانگنے والوں کے خلاف مجھے ڈائریکٹ شکایت کریں ، سخت ایکشن لیا جائے گا۔ڈپٹی کمشنر تسلیم اختر
ریڑھی بان غریب لوگ ہیں ، ان کا رزق بند نہیں کرنا چاہتے ، آپ کو بھی احکامات پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔ڈی سی ننکانہ
بچوں کے لیے رزق کمائیں لیکن شہریوں کو اشیاء جائز منافع رکھ فروخت کریں۔محمد تسلیم اختر راو
وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کے حکم کے مطابق غریب مزدور کے لیے بھی آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ڈی سی ننکانہ
0 notes
mediazanewshd · 5 months
Link
0 notes