Tumgik
forgottengenius · 9 days
Text
چاند پر گیا پاکستانی سیٹلائٹ ’آئی کیوب قمر‘ کیا ہے؟
Tumblr media
ملکی تاریخ میں پہلی بار 3 مئی کو پاکستانی سائنس دانوں اور سائنس کے طلبہ کی جانب سے تیار کردہ سیٹلائٹ ’آئی کیوب قمر‘ چین کی جانب سے بھیجے گئے چاند مشن ’چینگ ای 6‘ کے ساتھ گیا تو بہت سارے لوگ اس بات پر پریشان دکھائی دیے کہ مذکورہ خلائی مشن میں پاکستان کا کیا کردار ہے اور یہ پاکستان کے لیے کس طرح تاریخی ہے؟ درج ذیل مضمون میں اسی بات کا جواب دیا جائے گا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی (آئی ایس ٹی) کی ویب سائٹ کے مطابق ’آئی کیوب قمر‘ سیٹلائٹ کا وزن محض 7 کلو گرام ہے لیکن وہ چینی خلائی مشن کا سب سے اہم کام سر انجام دے گا۔ پاکستانی سیٹلائٹ چاند پر پہنچنے کے بعد وہاں کی تصاویر، ویڈیوز اور دیگر ڈیٹا زمین پر چینی ماہرین کو بھیجے گا۔ پاکستان کی جانب سے تیار کردہ سیٹلائٹ دو ہائی روزولیوشن آپٹیکل کیمروں سے لیس ہے جو کہ چاند پر پہنچنے کے بعد وہاں کی تصاویر اور دیگر ڈیٹا زمین پر بھیجیں گی۔ ’آئی کیوب‘ دراصل ایک خلائی سائنس کی اصطلاح ہے، جس کا مقصد چھوٹے سیٹلائٹ ہوتا ہے اور پاکستان نے پہلی بار اس طرح کے سیٹلائٹ ایک دہائی قبل 2013 میں بنائے تھے اور اب پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار چھوٹے سیٹلائٹ کو چاند کے مشن پر روانہ کر دیا۔
Tumblr media
’آئی کیوب قمر‘ کس طرح چینی خلائی مشن کا حصہ بنا؟ اسلام آباد میں موجود خلائی ادارے انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے مطابق چین نے چاند پر اپنا مشن بھیجنے سے دو سال قبل ایشیائی خلائی ایجنسی ایشیا پیسفک اسپیس کو آپریشن آرگنائزیشن کے رکن ممالک کو دعوت دی کہ وہ اپنے خلائی سیٹ لائٹ چین کے مشن کے ساتھ بھیج سکتے ہیں۔ چینی خلائی ایجنسی نے 2022 میں ایشیائی خلائی ایجنسی کے رکن ممالک کو دعوت دی تھی، ایشیائی ایجنسی کے ترکی، منگولیا، پیرو، تھائی لینڈ، ایران، بنگلہ دیش اور پاکستان رکن ہیں۔ چینی درخواست کے بعد اگرچہ دیگر ممالک نے بھی اپنے خلائی سیٹس بھیجنے کی درخواست کی لیکن چینی سائنس دانوں نے پاکستانی سیٹلائٹ کا انتخاب کیا، جس کے بعد پاکستانی ماہرین اور طلبہ نے دو سال کے کم عرصے میں ’آئی کیوب قمر‘ سیٹلائٹ تیار کیا۔ ’آئی کیوب قمر‘ سیٹلائٹ کو سپارکو اور اسلام آباد کے ادارے انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے ماہرین، اساتذہ اور طلبہ نے تیار کیا اور چین بھیجا۔ چینی سائنس دانوں نے پاکستانی سیٹلائٹ کو اپنے چینی خلائی مشن کا حصہ بنا کر تین مئی 2024 کو اسے چاند پر بھیجا جو کہ دونوں ممالک کے لیے تاریخی دن تھا اور یوں پاکستان پہلی بار چاند پر جانے والے مشن کا حصہ بنا۔
بشکریہ ڈان نیوز  
0 notes
forgottengenius · 9 days
Text
آئی کیوب قمر : خلا میں پاکستان کا پہلا قدم
Tumblr media
پاکستان کے سیٹلائٹ آئی کیو ب قمر کا گزشتہ روز چین کے خلائی مشن چینگ ای 6 کے ساتھ چاند تک پہنچنے کیلئے روانہ ہو جانا اور یوں خلائی تحقیقات کے میدان میں وطن عزیز کا دنیا کے چھٹے ملک کا درجہ حاصل کر لینا پاکستانی قوم کیلئے یقینا ایک اہم سنگ میل ہے۔ وزیر اعظم نے اس پیش رفت کو بجا طور پر خلا میں پاکستان کا پہلا قدم قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں خدمات انجام دینے والے ہمارے تمام سائنسداں اور تحقیق کار پوری قوم کی جانب سے دلی مبارکباد کے حق دار ہیں۔ دو سال کی قلیل مدت میں آئی کیوب قمر تیار کرنے والے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے جنرل منیجر ثمر عباس کا یہ انکشاف ہمارے سائنسدانوں کی اعلیٰ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ 2022 میں چینی نیشنل اسپیس ایجنسی نے ایشیا پیسفک اسپیس کارپوریشن آرگنائزیشن کے توسط سے اپنے آٹھ رکن ممالک پاکستان ، بنگلا دیش، چین، ایران، پیرو، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ترکی کو چاند کے مدار تک مفت پہنچنے کا منفرد موقع فراہم کیا تھا لیکن ان میں سے صرف پاکستان کے منصوبے کو قبول کیا گیا۔ ہماری لامحدود کائنات کے کھربوں ستارے، سیارے اور کہکشائیں ناقابل تصور وسعت رکھنے والے جس خلا میں واقع ہیں، اس کے اسرار و رموز کیا ہیں اور زمین پر بسنے والا انسان اس خلا سے کس کس طرح استفادہ کر سکتا ہے؟ 
Tumblr media
کثیرالوسائل ممالک اس سمت میں پچھلے کئی عشروں سے نہایت تندہی سے سرگرم ہیں۔ ان کے خلائی اسٹیشن انفارمیشن ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کے علاوہ سائنسی تحقیق کے متعدد شعبوں میں قیمتی اضافوں کا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں جبکہ دنیا کے دیگر ممالک خلائی تحقیق کی دوڑمیں براہ راست شرکت کیلئے کوشاں ہیں۔ پاکستان میں بھی 1961 سے پاکستان اسپیس اینڈ اَپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن قائم ہے اور مختلف اہداف کے حصول کیلئے کام کررہا ہے جن میں اسے چین کا خصوصی تعاون حاصل ہے۔ آئی کیوب قمر کو انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی نے چین کی شنگھائی یونیورسٹی اورسپارکو کے تعاون سے تیار کیا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا مشن ہے جو چاند کی دوسری طرف سے نمونے حاصل کرے گا۔ پاکستانی سیٹلائٹ آئی کیوب قمر آپٹیکل کیمروں سے لیس ہے۔ ٹیسٹنگ اور قابلیت کے مرحلے سے کامیابی سے گزرنے کے بعد آئی کیوب قمر کو چین کے چینگ 6 مشن کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے رکن کور کمیٹی ڈاکٹرخرم خورشید کے مطابق سیٹلائٹ چاند کے مدار پر پانچ دن میں پہنچے گا اورتین سے چھ ماہ تک چاند کے اطراف چکر لگائے گا، سیٹلائٹ کی مدد سے چاند کی سطح کی مختلف تصاویر لی جائیں گی جس کے بعد پاکستان کے پاس تحقیق کیلئے چاند کی اپنی سیٹلائٹ تصاویر ہوں گی۔
ڈاکٹرخرم خورشید کے بقول سیٹلائٹ پاکستان کا ہے اور ہم ہی اس کا ڈیٹا استعمال کریں گے لیکن چونکہ اسے چین کے نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے چاند پر پہنچایا جارہا ہے اس لیے چینی سائنسدان بھی اس ڈیٹا کو استعمال کرسکیں گے۔انہوں نے بتایا کہ یہ اگرچہ ایک چھوٹا سیٹلائٹ ہے لیکن مستقبل میں بڑے مشن کیلئے راہ ہموار کرے گا۔ دنیا کے تقریباً دو سو سے زائد ملکوں میں ساتویں ایٹمی طاقت کا مقام حاصل کرنے کے بعد خلا میں اپنا سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن جانا بلاشبہ پوری پاکستانی قوم کیلئے ایک بڑا اعزاز اور اس کی اعلیٰ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو ترقی یافتہ ملکوں جیسا معیاری تعلیمی نظام اور وسائل مہیا کیے جائیں تو ایسے سائنسداں اور تحقیق کار بڑی تعداد میں تیار ہو سکتے ہیں جو خلائی تحقیقات کے میدان میں نمایاں پیش قدمی کے علاوہ ملک کو درپیش توانائی کے بحران، پانی کی کمیابی ، فی ایکڑ زرعی پیداوار کے نسبتاً کم ہونے، موسمی تبدیلی جیسے مسائل سے نمٹنے اور صنعتی جدت طرازی کی نئی راہیں اور طریقے تلاش کرسکتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
forgottengenius · 4 months
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes
forgottengenius · 4 months
Text
انسانی دماغ میں نصب کی گئی کمپیوٹر چپ کیا ہے؟
Tumblr media
ارب پتی بزنس مین ایلون مسک نے اعلان کیا ہے کہ ان کی کمپنی ’نیورالنک‘ نے انسانی دماغ میں پہلی بار کمپیوٹر چِپ نصب کر دی ہے۔ یہ اعلان ایلون مسک نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کیا، انہوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ امریکی نیورو ٹیکنالوجی کمپنی ’نیورا لنک نے  پہلے انسان کے دماغ میں کمپیوٹر چپ نصب کر دی ہے اور وہ شخص صحت یاب ہو رہا ہے‘۔ ایلون مسک نے یہ بھی بتایا کہ ’ابتدائی نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں جس دوران نیورونز کی سرگرمیوں میں اضافے کو دیکھا گیا۔‘ ایلون مسک نے بتایا کہ اس چپ کی مدد سے لوگ اپنے خیالات کے ذریعے موبائل فون، کمپیوٹر سمیت تمام الیکٹرونک ڈیوائس کو استعمال کر سکیں گے ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں یہ چپ ہاتھوں پیروں کو استعمال کرنے سے معذور افراد کے دماغ میں نصب کیا جائے گا۔ ایلون مسک نے اس تجربے کے بارے میں مزید تفصیلات ظاہر نہیں کیں اور نہ ہی یہ بتایا کہ پہلی چپ لگوانے والا شخص کون تھا یا ٹیکنالوجی کیا تھی، تاہم انہوں نے بتایا کہ نیورالنک کا پہلا پروڈکٹ ٹیلی پیتھی ہے۔
Tumblr media
یاد رہے کہ ’نیورا لنک‘ ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک کی کمپنی ہے، جسے 2016 میں بنایا گیا تھا، اس کمپنی کا مقصد ایسی کمپیوٹرائزڈ چپ تیار کرنا ہے، جنہیں انسانی دماغ اور جسم میں داخل کر کے انسان ذات کو بیماریوں سے بچانا ہے۔ اسی کمپنی نے 2020 میں تیار کردہ کمپیوٹرائزڈ چپ کو جانوروں کے دماغ میں داخل کر کے اس کی آزمائش بھی کی تھی اور پھر کمپیوٹرائزڈ چپ والے جانوروں کو دنیا کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا۔ کمپنی نے مذکورہ چپ کی انسانوں پر آزمائش کے لیے امریکی محکمہ صحت سے اجازت طلب کی تھی اور مئی 2023 کو نیورا لنک کو آزمائش کی اجازت دے دی گئی تھی۔ نیورا لنک کی جانب سے اپنی ٹوئٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکا کے ’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘ (ایف ڈی اے) نے کمپیوٹرائزڈ چپ کی انسانی دماغ میں آزمائش کی اجازت دے دی۔
انسانی دماغ میں نصب کی گئی کمپیوٹر چپ کیا ہے؟ نیورا لنک کی جانب سے بنائی گئی مذکورہ چپ کسی چھوٹے سکے کی سائز کی ہے اور وہ انتہائی پتلی ہے، جسے کسی بھی جاندار کے دماغ میں نصب کر کے اسے وائرلیس سسٹم کے ذریعے اسمارٹ فون سے منسلک کیا جاسکے گا۔ مذکورہ چپ فالج، انزائٹی، ڈپریشن، جوڑوں کے شدید درد، ریڑھ کی ہڈی کے درد، دماغ کے شدید متاثر ہوکر کام چھوڑنے، نابینا پن، سماعت گویائی سے محرومی، بے خوابی اور بے ہوشی کے دوروں سمیت دیگر بیماریوں اور مسائل کو فوری طور پر حل کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔ مذکورہ چپ کو موبائل فون کے سم کارڈ کی طرح ایسے سسٹم سے بنایا گیا ہے جو سگنل کی مدد سے اسے اسمارٹ فون سے منسلک کرے گا اور پھر فون کے ذریعے مذکورہ چیزیں شامل کی جا سکیں گی اور چپ سے چیزیں نکالی بھی جا سکیں گی۔ مذکورہ چپ انسانی خیالات کا ریکارڈ بھی جمع کرے گی جب کہ انسان کی یادداشت کو بھی محفوظ رکھ سکے گی۔ چپ میں محفوظ انسانی یادداشت کو کمپیوٹر یا موبائل کے ذریعے کسی بھی وقت ری پلے کیا جا سکے گا یا کسی بھی وقت ماضی میں گزرے دنوں کو اسکرین پر ڈیٹا کی صورت میں لایا جا سکے گا۔
بشکریہ ڈان نیوز  
0 notes
forgottengenius · 8 months
Text
ہم سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے کیوں ہیں؟
Tumblr media
موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ جو ملک سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے ہے اس کی معیشت بھی مضبوط ہے اور اس کا دنیا میں نام بھی ہے۔ ممالک تو کیا حالیہ دور میں افراد بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر کے دنیا پر راج کررہے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں بڑے بڑے نام ایسے ہیں جن کا دنیا میں ایک خاص مقام ہے، جیسے بل گیٹس کو دیکھ لیجیے۔ انہوں نے ٹیکنالوجی میں ہی مہارت حاصل کی اور اس کے بعد دنیا میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بل گیٹس جب کسی ملک کا دورہ کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی ملک کا وزیراعظم یا صدر آگیا ہو۔ انہیں بہترین پروٹوکول دیا جاتا ہے، وزرائے اعظم، وزرا اور صدور ان سے ایسے ملاقاتیں کرتے ہیں جیسے کسی دوسرے ملک کے اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقات کر رہے ہوں۔ حالانکہ ان کے پاس کسی ملک کا کوئی سیاسی یا انتظامی عہدہ نہیں لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی میں انہوں نے اتنا نام کمایا ہے کہ ان کا مقام اب کسی بڑے عہدے دار سے کم نہیں ہے۔ 
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضروری نہیں سیاست میں حصہ لیا جائے یا یہ ضروری نہیں کہ سرکاری عہدوں پر فائز ہوا جائے تبھی دنیا میں مقام حاصل ہو سکتا ہے اور عزت مل سکتی ہے بلکہ اب تو لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر کے دنیا پر راج کرتے ہیں، اپنا نام بناتے ہیں اور ایک بہت بڑا مقام حاصل کر لیتے ہیں اور ایسا مقام حاصل کرتے ہیں جو دیگر ممالک کے وزرائے اعظم اور صدور کو بھی حاصل نہیں ہوتا۔ دنیا کے بہت سے ممالک ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلسل ترقی کر رہے ہیں اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں۔ یورپ اور امریکا تو پہلے سے ہی سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل چکے ہیں مگر اب ایشیائی ممالک بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کافی تیزی سے ترقی کررہے ہیں، بھارت تو اس میں کافی آگے نکل چکا ہے۔ بھارت کے نوجوان فری لانسنگ میں دنیا بھر میں سب سے آگے ہیں اور اسی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں بھی بھارت ایک خاص مقام حاصل کررہا ہے اور نہایت تیزی سے اس میدان میں آگے بڑھ رہا ہے۔
Tumblr media
بھارت میں تو ریڑھی بانوں نے بھی کیو آر کوڈ رکھے ہوتے ہیں جس کے ذریعے لوگ آن لائن رقم کی ادائیگی کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے بڑے بڑے تاجروں کے پاس ��ھی آن لائن رقم کی ادائیگی کی سہولت نہیں ہے۔ کئی بار بڑی بڑی دکانوں پر جائیں ان سے آن لائن پیمنٹ کے بارے میں پوچھیں تو کہتے ہیں، ہمیں کیش ہی چاہیے۔ ہماری حکومتوں نے بھی اس شعبے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی اور اس میدان میں ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں اگر انٹرنیشنل ویب سائٹس پر کچھ خریدنا پڑجائے تو ہمارے لیے مصیبت بن جاتی ہے اور لوگ سوچتے رہتے ہیں کہ کس طرح سے آن لائن پیمنٹ کی جائے۔ پے پال کا دنیا میں بہت بڑا نام ہے جس سے پاکستان محروم ہے اور جس کی بہت زیادہ ضرورت بھی ہے۔ پے پال کی سروس پاکستان میں نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کو آن لائن کام کرنے میں بہت زیادہ مشکل پیش آرہی ہے مگر ہمارے حکمرانوں کی اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں۔
کچھ عرصہ قبل بل گیٹس نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے انہیں پولیو اور ک��رونا کے سینٹرز کا دورہ کروایا مگر ٹیکنالوجی میں ان سے مدد لینے کی کوئی بات نہیں کی، حالانکہ ان کا اصل شعبہ صحت نہیں بلکہ ٹیکنالوجی ہے۔ بل گیٹس سے اس شعبے میں مدد لینی چاہیے تھی کہ ہمارے ہاں نوجوانوں کو آن لائن کام کرنے میں بہت سی مشکلات پیش آرہی ہیں، آپ ہمارے نوجوانوں کو اس کےلیے سہولیات فراہم کریں۔ پے پال اور اس جیسی اور دیگر بہت سی کمپنیاں ہیں جو پاکستان میں کام کرنے پر آمادہ نہیں، تو بل گیٹس سے ان کے لیے مدد حاصل کرتے کہ انہیں قائل کریں کہ وہ پاکستان میں اپنی سروسز فراہم کریں تاکہ نوجوانوں کو آن لائن کام کرنے میں سہولت میسر آئے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا شعبہ نہایت اہم ہے جس میں پاکستان بہت پیچھے ہے اور ہمارے ہمسایہ ممالک اس میں تیزی سے ترقی کرتے چلے جارہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی اس شعبے کی طرف خصوصی طور پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ نوجوانوں کےلیے سہولتیں فراہم کریں اور ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ اس شعبے میں خصوصی طور پر دل جمعی سے کام کریں اور دنیا میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کریں۔
ضیا الرحمٰن ضیا 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
forgottengenius · 8 months
Text
چین زمین میں 32 ہزار فٹ گہرا سوراخ کیوں کر رہا ہے؟
Tumblr media
چین کے سائنس دانوں نے زمین کی بیرونی پرت (قشر ارض) میں 32 ہزار 808 فٹ (10 ہزار گز) گہرے سوراخ کی کھدائی شروع کر دی ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی دوسری بڑی معیشت کرہ ارض کی سطح کے اوپر اور نیچے نئے ذخائر کے مواقع تلاش کر رہی ہے۔  رپورٹ میں سرکاری خبر رساں ادارے زینوا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ چین کی سب سے گہرے سوراخ کے لیے کھدائی تیل کے ذخائر سے مالامال خطے سنکیانگ میں شروع ہو گئی ہے۔  چین نے اپنے پہلے سویلین خلاباز کو صحرائے گوبی سے خلائی سٹیشن بھیج دیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق 10 ہزار گز گہری کھدائی کے دوران 10 بین الابراعظمی چٹانوں میں سوراخ کیا جائے گا جس کے بعد یہ سوراخ زمین کی 14 کروڑ 50 لاکھ پرانی تہہ تک پہنچ جائے گا۔ چین کے اکیڈمی آف انجینیئرنگ سے وابستہ سائنس دان سن جن گنگ کا کھدائی کے دوران درپیش مشکلات کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’یہ ایسا ہی ہے کہ آپ بہت بڑے ٹرک کو لوہے کے دو باریک تاروں پر چلا رہے ہیں سنہ 2021 میں چین کے چوٹی کے سائنس دانوں سے خطاب میں صدر شی جن پنگ نے زمین کی تہہ کے نیچے کھوج اور تلاش کی سرگرمیاں تیز کرنے اور ان میں پیش رفت پر زور دیا تھا۔ مذکورہ سرگرمی زمین کے نیچے معدنیات اور توانائی کے ذخائر کی تلاش اور زلزلے اور آتش فشاں کی وجہ سے درپیش خطرات کو پیشگی بھانپنے میں مددگار ہو گی۔ خیال رہے کہ اب تک انسانوں کی جانب سے کھودا گیا سب سے گہرا سوراخ روس کا ’کولا سپرڈیب بورہول‘ ہے جس کی گہرائی 12 ہزار 262 میٹر ہے۔ اس بور ہول (گہرے سوراخ) کی کھدائی 20 سال کے عرصے میں 1989 میں مکمل کی گئی تھی۔
0 notes
forgottengenius · 9 months
Text
ہم چاند کب تلک دوربین سے دیکھیں گے ؟
Tumblr media
سب جانتے ہیں کہ امریکا اور چین کے بعد جاپان تیسری بڑی اقتصادی طاقت ہے اور اس کا خلائی پروگرام بھی اسی تناسب سے ہے۔ مگر گزشتہ برس نومبر میں چاند پر اترنے کی پہلی جاپانی کوشش ناکام ہو گئی۔ گزشتہ ماہ اس مقصد کے لیے تیار کیا جانے والا ایک طاقتور راکٹ بھی آزمائش کے دوران پھٹ گیا۔ اگلے ہفتے جاپان مون سنائپر کے نام سے ایک اور خلائی مشین چاند کی جانب روانہ کرے گا۔ روس کا خلائی پروگرام امریکا سے بھی پرانا ہے۔ چار اکتوبر انیس سو ستاون کو سوویت یونین نے پہلا مصنوعی سیارہ سپوتنک خلا میں بھیج کر امریکا کو چیلنج کیا۔ اپریل انیس سو اکسٹھ میں پہلے سوویت انسان یوری گگارین نے ستائیس ہزار کلومیٹر کی اونچائی پر زمین کے گرد چکر لگا کے امریکی خلائی ادارے ناسا کو چکرا دیا۔ صدر جان ایف کینیڈی نے اعلان کیا کہ ساٹھ کا عشرہ ختم ہونے سے پہلے امریکا چاند پر انسان اتار دے گا اور سولہ جولائی انیس سو انہتر کو نیل آرمسٹرانگ کے چاند پر پہلے انسانی قدم نے یہ دعوی سچ کر دکھایا۔ اس کے بعد سوویت یونین نے سویوز خلائی اسٹیشن خلا میں بھیجا۔ امریکا نے جواباً اسکائی لیب خلا میں بھیجی۔ دونوں ممالک نے دوسرے ممالک کے مصنوعی سیارے خلا میں بھیجنے کا کاروبار بھی شروع کیا۔ اور پھر چین بھی اس دوڑ میں شامل ہو گیا۔
گزشتہ بیس برس کے دوران چاند پر جو تین مشنز اتارے گئے۔ وہ تینوں چینی تھے۔روس نے سینتالیس برس کے وقفے سے گزرے بیس اگست کو لونا پچیس مشن چاند کے مشکل ترین قطبِ جنوبی میں اتارنے کی ناکام کوشش کی۔ تین روز بعد ( تئیس اگست ) بھارت پہلا ملک بن گیا جس نے چاند کے جنوبی کرے میں کامیاب لینڈنگ کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ بھارتی خلائی پروگرام کی اس اعتبار سے بھی تعریف ہو رہی ہے کہ یہ کامیابیاں بہت کم بجٹ میں حاصل کی گئیں۔ مثلاً چاند پر اترنے والے چندریان تھری مشن پر چھ ارب روپے لاگت آئی۔ یہ رقم بالی وڈ کی تین بلاک بسٹر ہندی فلموں کے بجٹ کے برابر ہے اور ناسا کے اسی طرح کے خلائی مشنز کی لاگت کا صرف بیس فیصد بنتی ہے۔ بھارت کا خلائی بجٹ ک�� قومی آمدنی کے محض صفر اعشاریہ 33 فیصد کے برابر ہے یعنی ایک فیصد کا بھی ایک تہائی۔ بھارت کا اگلا ہدف خلا میں اسپیس اسٹیشن بھیجنا اور چاند پر انسانی مشن اتارنا ہے۔ بھارت کا خلائی پروگرام پاکستان کے خلائی پروگرام کے ایک برس بعد ( انیس سو باسٹھ ) شروع ہوا۔ مگر اکسٹھ برس سے اس پروگرام کو آگے بڑھانا ہر حکومت کی ترجیحات میں شامل رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ پچاس کی دہائی میں پنڈت نہرو کے سائنسی ترقی کے ویژن کے تحت بھارت کے اہم شہروں میں انڈین انسٹی ٹیوٹس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ( آئی آئی ٹی ) قائم ہوئے۔
Tumblr media
ان میں داخلے کا معیار کسی بھی اے گریڈ مغربی یونیورسٹی میں داخلے کے معیار کے برابر رکھا گیا۔ چنانچہ ان اداروں سے وہ کریم نکلی جس نے بھارت کو پچھلی تین دہائیوں میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جدید تربیت یافتہ افرادی قوت کی مسلسل رسد کو یقینی بنایا۔ اور کل کے یہ طلبا آج بھارت سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں جدید سائنس کے میدان میں کلیدی صف میں ہیں۔ اس افرادی قوت نے بھارت کے خلائی ادارے اسرو کو بھی مالامال رکھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ انیس سو پچھتر میں سوویت یونین کی مدد سے پہلا مصنوعی سیارہ آریا بھٹ خلا میں بھیجا گیا۔ انیس سو چوراسی میں کیپٹن راکیش شرما نے سوویت خلائی اسٹیشن سویوز میں کئی ماہ گذارے۔ پچھلے بیس برس میں بھارت مختلف ممالک کے مصنوعی سیارے اپنے راکٹوں کے ذریعے خلا میں بھیجنے کی صنعت میں ایک کلیدی کھلاڑی ہے۔ اب تک وہ چونتیس ممالک کے چار سو سترہ سیارے خلا میں لانچ کر چکا ہے۔ خود بھارت نے اپنے لیے جو مصنوعی سیارے لانچ کیے ان میں سے چودہ فوجی مقاصد کو پورا کر رہے ہیں۔
دو ہزار تیرہ میں مریخ کی جانب منگل یان کے نام سے ایک کامیاب مشن بھیجا گیا۔چندریان سیریز کے اب تک تین مشنز چاند کی جانب بھیجے گئے۔ ان میں سے دو ہزار آٹھ کا پہلا اور دو ہزار انیس کا دوسرا مشن ناکام ہوا مگر تئیس اگست کو چندریان تھری چاند کے مشکل ترین علاقے میں لینڈنگ میں کامیاب ہو گیا۔ اس مشن کی کامیابی کے پیچھے نصف کوشش بھارت کی خواتین خلائی سائنس دانوں کی ہے۔ پاکستان نے اپنا خلائی پروگرام انیس سو اکسٹھ میں امریکی ادارے ناسا کی مدد سے شروع کیا اور اس میں صدر ایوب ِخان کے مشیرِ سائنس ڈاکٹر عبدالسلام نے بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ انیس سو سڑسٹھ تک پاکستان کے خلائی تحقیقی ادارے سپارکو کے منتظم رہے۔ اس دوران ایک سمجھوتے کے تحت پاکستان کے خلائی ماہرین کی تربیت ناسا کے تحت ہوئی۔ اپنے قیام کے دوسرے ہی برس جون انیس سو باسٹھ میں سپارکو نے پہلا خلائی تحقیقی راکٹ کراچی کے قریب سونمیانی کے ساحل سے چھوڑا۔ یوں پاکستان ان گنے چنے اس وقت دس ممالک کے کلب میں شامل ہو گیا جو خلا میں لانچنگ کی اہلیت رکھتے تھے۔
رہبر راکٹ سیریز انیس سو بہتر تک فعال رہی۔ پھر فنڈز کی قلت آڑے آنے لگی۔ انیس سو چوہتر میں بھارت نے جب پہلا جوہری دھماکا کیا تو ایٹمی پروگرام اور میزائل لانچنگ پروجیکٹ کی تیز رفتار ترقی ریاستی ترجیحات میں اوپر آ گئے۔ راکٹ ٹیکنالوجی میں ترقی کا رخ دفاعی ضروریات کی جانب مڑتا چلا گیا۔ ضیا دور میں سپارکو کو تحقیق و تخلیق کی مد میں بہتر بجٹ ملنا شروع ہوا۔ چین سے خلائی ٹیکنالوجی میں تعاون شروع ہوا۔ انیس سو نوے میں شنجیانگ کے خلائی مرکز سے بدر اول نامی مصنوعی سیارہ لانچ ہوا۔ دو ہزار چار میں پاک سیٹ لانچنگ سیریز پر کام شروع ہوا۔ انیس سو ننانوے میں سرکار نے جوہری تجربات کی کامیابی کے جوش میں اعلان کر ڈالا کہ پاکستان اگلے تین برس میں اس قابل ہو جائے گا کہ اپنے مصنوعی سیارے خود لانچ کر سکے۔ چوبیس برس گذر گئے اور یہ دعوی عملی جامہ نہ پہن سکا۔ اس دوران دو ہزار اٹھارہ میں چین کی مدد سے ریموٹ سینسنگ میں مدد کے لیے دو سیارے لانچ ہوئے۔ 
سن دو ہزار سے سپارکو نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے تحت کام کر رہا ہے۔ اس عرصے میں فوج کی انجینئرنگ کور سے تعلق رکھنے والے چار اعلیٰ افسر یکے بعد دیگرے سپارکو کی سربراہی کر چکے ہیں۔ دنیا بدل چکی ہے۔ پاکستان کے تین اطراف ایڈوانس خلائی پروگرام سے لیس طاقتیں ہیں۔ خلائی ٹیکنالوجی میں روز افزوں تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے جو انتہائی تربیت یافتہ افرادی قوت درکار ہے۔ اس کی کھپت اندرونِ ملک نہ ہونے کے سبب نوجوان ٹیلنٹ کا ہدف بیرونِ ملک نوکری ہے۔ مگر خلائی دنیا میں داخلے کے لیے پاکستان کا ویژن دو ہزار چالیس منصوبہ بہرحال اپنی جگہ قائم ہے۔ فی زمانہ عالمی خلائی دوڑ میں نجی شعبہ بھی برابر کا شریک ہے مگر پاکستان میں خلائی سائنس اور متعلقہ ادارے ابھی تک روائیتی بیورو کریٹک چنگل میں ہیں۔ ارادے ہمیشہ کی طرح بلند ہیں مگر عمل کب ٹیک آف کرے گا ؟ اس بابت یقین سے کچھ کہنا اپنی پیش گویانہ شہرت کو داؤ پر لگانے جیسا ہے۔ اللہ مالک ہے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
forgottengenius · 9 months
Text
کمپیوٹر چپ کو انسانی دماغ میں آزمانے کی اجازت
Tumblr media
امریکی نیورو ٹیکنالوجی کمپنی ’نیورا لنک‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے امریکی محکمہ صحت نے کمپیوٹر چپ کو انسانی دماغ میں آزمانے کی اجازت دے دی ہے۔ ’نیورا لنک‘ ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک کی کمپنی ہے، جسے 2016 میں بنایا گیا تھا، اس کمپنی کا مقصد ایسی کمپیوٹرائزڈ چپ تیار کرنا ہے، جنہیں انسانی دماغ اور جسم میں داخل کر کے انسان ذات کو بیماریوں سے بچانا ہے۔ اسی کمپنی نے 2020 میں تیار کردہ کمپیوٹرائزڈ چپ کو جانوروں کے دماغ میں داخل کر کے اس کی آزمائش بھی کی تھی اور پھر کمپیوٹرائزڈ چپ والے جانوروں کو دنیا کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا۔ کمپنی نے مذکورہ چپ کی انسانوں پر آزمائش کے لیے امریکی محکمہ صحت سے اجازت طلب کی تھی اور اب نیورا لنک کو آزمائش کی اجازت دے دی گئی۔ نیورا لنک کی جانب سے اپنی ٹوئٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ امریکا کے ’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘ (ایف ڈی اے) نے کمپیوٹرائزڈ چپ کی انسانی دماغ میں آزمائش کی اجازت دے دی۔
Tumblr media
اسی حوالے سے خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) نے بتایا کہ اگرچہ محکمہ صحت نے اس حوالے سے مزید کوئی تفصیلات شیئر نہیں کیں، تاہم اس بات کی تصدیق کی کہ ادارے نے ایلون مسک کی کمپنی کو کمپیوٹرائزڈ چپ کی آزمائش کی اجازت دے دی۔ نیورا لنک کے مطابق کمپیوٹرائزڈ چپ کی انسانی دماغ میں آزمائش کے پروگرام کو امریکی محکمہ صحت کے تعاون سے مکمل کیا جائے گا اور اس ضمن میں مزید تفصیلات جلد ہی جاری کی جائیں گی۔ ادارے کے مطابق ابھی آزمائشی پروگرام کے لیے بھرتیاں نہیں کی جا رہیں لیکن اس ضمن میں جلد ہی مزید معلومات کو عام کیا جائے گا۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگلے چند ماہ میں نیورا لنک کمپنی محدود رضاکاروں کو بھرتی کر کے ان کے دماغوں میں کمپیوٹرائزڈ چپ کو داخل کر کے آزمائشی پروگرام کا آغاز کر دے گی۔ نیورا لنک کی جانب سے بنائی گئی مذکورہ چپ کسی چھوٹے سکے کی سائز کی ہے اور وہ انتہائی پتلی ہے، جسے کسی بھی جاندار کے دماغ میں نصب کر کے اسے وائرلیس سسٹم کے ذریعے اسمارٹ فون سے منسلک کیا جاسکے گا۔
مذکورہ چپ فالج، انزائٹی، ڈپریشن، جوڑوں کے شدید درد، ریڑھ کی ہڈی کے درد، دماغ کے شدید متاثر ہو کر کام چھوڑنے، نابینا پن، سماعت گویائی سے محرومی، بے خوابی اور بے ہوشی کے دوروں سمیت دیگر بیماریوں اور مسائل کو فوری طور پر حل کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔ مذکورہ چپ کو موبائل فون کے سم کارڈ کی طرح ایسے سسٹم سے بنایا گیا ہے جو سگنل کی مدد سے اسے اسمارٹ فون سے منسلک کرے گا اور پھر فون کے ذریعے مذکورہ چیزیں شامل کی جا سکیں گی اور چپ سے چیزیں نکالی بھی جا سکیں گی۔ مذکورہ چپ انسانی خیالات کا ریکارڈ بھی جمع کرے گی جب کہ انسان کی یادداشت کو بھی محفوظ رکھ سکے گی۔ چپ میں محفوظ انسانی یادداشت کو کمپیوٹر یا موبائل کے ذریعے کسی بھی وقت ری پلے کیا جا سکے گا یا کسی بھی وقت ماضی میں گزرے دنوں کو اسکرین پر ڈیٹا کی صورت میں لایا جا سکے گا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
forgottengenius · 1 year
Text
سوشل میڈیا بلیک آؤٹ سے بچانے والا وی پی این کیا ہے؟
Tumblr media
جس طرح لوک کہانیوں میں ایک سلیمانی ٹوپی کا ذکر ملتا ہے جسے پہن کر آپ دوسروں کی نظر سے غائب ہو جاتے ہیں، اسی طرح وی پی این یا ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک ایک طرح کی سلیمانی ٹوپی ہے جو انٹرنیٹ صارفین کی لوکیشن کو چھپا دیتی ہے اور حکام کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس جگہ سے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ صارفین وی پی این کی مدد سے ایک ملک میں بیٹھ کر اپنے آپ کو کسی اور ملک میں موجود ظاہر کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ پاکستان میں ہیں، لیکن وی پی این کی مدد سے خود کو برطانیہ، بیلجیئم یا کینیڈا، غرض کسی بھی ملک میں ظاہر کر سکتے ہیں۔ ایسا ہونے سے وہ اپنے ملک میں موجود کسی بھی قسم کی پابندی کو بائی پاس کر سکتے ہیں۔
Tumblr media
مثال کے طور پر پاکستان میں اس وقت ٹوئٹر اور فیس بک پر سرکاری سطح پر پابندی عائد ہے لیکن جب کوئی صارف وی پی این کے ذریعے ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرے تو وہ اس پابندی کو بائی پاس کر سکتا ہے۔ پاکستان میں وی پی این کے استعمال کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی سے سروس کو رجسٹر کروانا ضروری ہے اور غیر رجسٹرڈ وی پی این کو استعمال کرنا خلاف قانون ہے۔ عالمی سطح پر کئی کمپنیاں وی پی این سہولت مہیا کرتی ہیں جو صارفین مفت یا فیس ادا کر کے استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک صارف قمر شہباز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ تقریباً چھ سال سے وی پی این سروس استعمال کر رہے ہیں۔ قمر کا کہنا تھا کہ ’میں کچھ امریکی برانڈز کے لیے ایمازون پر ورچوئل اسسٹنٹ ہوں۔ مجھے اپنے کام کے لیے ایسے سوفٹ ویئر استعمال کرنا پڑتے ہیں جو صرف امریکہ کے اندر رہتے ہوئے استعمال ہو سکتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وی پی این کے ذریعے میرے کمپیوٹر کی لوکیشن وقتی طور پر امریکہ کی ظاہر ہو جاتی ہے جس سے میں ان سافٹ ویئرز پر ��ام کر سکتا ہوں۔‘ قمر نے یہ بھی بتایا کہ وہ جو وی پی این استعمال کرتے ہیں اس کی فیس ادا کرتے ہیں لیکن بہت سے ایسے وی پی اینز بھی موجود ہیں جو مفت میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم ’مفت سروس میں محدود گھنٹوں کے لیے ہی وی پی این استعمال کی جا سکتی ہے۔‘ وی پی این کا ایک اور استعمال یوں کیا جاتا ہے کہ مثال کے طور پر نیٹ فلکس کے کچھ پروگرام امریکہ میں دیکھے جا سکتے ہیں مگر پاکستان میں نہیں۔ لوگ وی پی این کی مدد سے اپنے آپ کو امریکہ میں ظاہر کر کے یہ پروگرام دیکھ سکتے ہیں۔
محمد حسان گُل 
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
forgottengenius · 1 year
Text
مصنوعی ذہانت کے ’گاڈ فادر‘ کی وارننگ : یہ ٹیکنالوجی ’خوفناک‘ ہے
Tumblr media
’مصنوعی ذہانت کے موجد‘ کے نام سے مشہور جیفری ہنٹن نے اس ٹیکنالوجی سے لاحق خطرات کے بارے میں ایک خوفناک وارننگ دیتے ہوئے گوگل کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ جیفری ہنٹن نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک گوگل میں کام کیا اور ایسی ٹیکنالوجی تیار کی جس نے چیٹ جی پی ٹی جیسے موجودہ مصنوعی ذہانت کے نظام کے لیے راہ ہموار کی۔ لیکن انہوں نے مصنوعی ذہانت کے خطرات کے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے کمپنی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ انہیں اس شعبے میں اپنے کام پر افسوس ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’میں اپنے آپ کو تسلی دیتا ہوں: اگر میں ایسا نہ کرتا تو کوئی اور کرتا۔‘ انہوں نے کہا، انہیں خدشہ ہے مستقبل قریب میں اس ٹیکنالوجی کا مطلب یہ ہو گا کہ جعلی تصاویر، ویڈیوز اور متن کے پھیلاؤ کی وجہ سے لوگ ’یہ نہیں جان سکیں گے کہ سچ کیا ہے۔‘ لیکن مستقبل میں مصنوعی ذہانت کے سسٹم بالآخرغیر متوقع، خطرناک رویہ سیکھ سکتے ہیں اور یہ کہ اس طرح کے نظام بالآخر قاتل روبوٹس کو تقویت دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی متنبہ کیا کہ یہ ٹیکنالوجی لیبر مارکیٹ میں نقصان دہ انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔
Tumblr media
ان کا کہنا تھا، ’کچھ لوگوں کو یقین ہے کہ یہ چیزیں درحقیقت لوگوں سے زیادہ ذہین بن سکتی ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ اور میرا بھی خیال تھا کہ اس میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ 30 سے 50 سال یا اس سے بھی زیادہ وقت لگے گا۔ اب میں ایسا نہیں سوچتا۔‘  انہوں نے متنبہ کیا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قواعد و ضوابط کی ضرورت ہے کہ گوگل اور مائیکروسافٹ جیسی کمپنیاں خطرناک دوڑ میں نہ لگ جائیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ہو سکتا ہے یہ کمپنیاں پہلے ہی خطرناک سسٹم پر خفیہ طور پر کام کر رہی ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا، ’مجھے نہیں لگتا کہ انہیں اس کو مزید بڑھانا چاہیے جب تک کہ وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ آیا وہ اسے کنٹرول بھی کر سکتے ہیں یا نہیں۔‘ ڈاکٹر جیفری ہنٹن مصنوعی ذہانت کے متعلق خطرے کی گھنٹی بجانے والے پہلے شخص نہیں ہیں۔ حالیہ مہینوں میں دو بڑے واضح خطوں میں ’معاشرے اور انسانیت کے لیے سنگین خطرات‘ کے متعلق متنبہ کیا گیا تھا، جن پر بہت سے ایسے لوگوں کے دستخط تھے جنہوں نے اسے بنانے میں مدد کی۔
بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ڈاکٹر جیفری ہنٹن نے کہا کہ وہ گذشتہ سال کے دوران اوپن اے آئی کی ’چیٹ جی پی ٹی‘ اور گوگل کی ’بارڈ‘ جیسی ٹیکنالوجیوں کی ترقی سے ٹیکنالوجی کے خطرات کے بارے میں زیادہ فکرمند ہو گئے ہیں۔ ان کا نظریہ اس وقت بدل گیا جب انہیں یقین ہو گیا کہ سسٹم ایسے طریقوں سے برتاؤ کرنے لگے ہیں جو انسانی دماغ میں ممکن نہیں ہیں۔ انھوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا، ’ہو سکتا ہے کہ ان سسٹمز میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دراصل اس سے بہتر ہو جو دماغ میں ہو رہا ہے۔‘ انہوں نے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ کمپنیاں اپنے مصنوعی ذہانت کے نظام کو مزید بہتر اور تربیت دیتی ہیں لہٰذا امکان ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ مزید درست ثابت ہو گا۔ وہ جیسے جیسے اسے(بہتر) کریں گے، سسٹم زیادہ خطرناک ہو جائیں گے۔ انہوں نے ٹیکنالوجی کے بارے میں کہا، ’دیکھیں کہ یہ پانچ سال پہلے کیسی تھی اور اب کیسی ہے۔ فرق کو سمجھیں اور اسے آگے بتائیں۔ یہ خوفناک ہے۔‘
اینڈریو گرفن، گریم میسی 
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
forgottengenius · 1 year
Text
مصنوعی ذہانت اپنی وضاحت کرنے میں بری طرح ناکام
Tumblr media
چیٹ جی پی ٹی کے تخلیق کاروں نے کوشش کی ہے کہ سسٹم اپنی وضاحت خود کر سکے۔ انہیں معلوم ہوا کہ جب انہیں کچھ کامیابی ملی ہی تھی تو وہ کچھ مسائل میں الجھ گئے۔ ان میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ مصنوعی ذہانت ایسے تصورات کا استعمال کر رہی ہے جن کا انسانوں کو علم نہیں یا انہیں سمجھ نہیں سکتے۔ چیٹ جی پی ٹی تیار کرنے والے اوپن اے آئی کے محققین نے جی پی ٹی -2 کے طرز عمل کی وضاحت کرنے کی کوشش کرنے میں اپنے ماڈل کے حالیہ ورژن جی پی ٹی فور کا استعمال کیا۔ یہ جی پی ٹی جیسے بڑے لینگویج ماڈلز کے ساتھ نام نہاد بلیک باکس کے مسئلے پر قابو پانے کی ایک کوشش ہے۔ اگرچہ ہمیں اس بات کی نسبتاً اچھی سمجھ ہے کہ اس طرح کے سسٹم میں جاتا کیا اور نکلتا کیا ہے، لیکن اصل کام جو اندر ہوتا ہے وہ بڑی حد تک پراسرار رہتا ہے۔ یہ صرف اس لیے ایک مسئلہ نہیں کہ یہ محققین کے لیے چیزوں کو مشکل بنا دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس سسٹم میں استعمال ہونے والے ممکنہ تعصبات یا اگر یہ اپنے صارفین کو غلط معلومات فراہم کر رہا ہے، تو اسے جاننے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ یہ کس طرح اس نتیجے پر پہنچا۔
انجینیئروں اور سائنس دانوں نے اس مسئلے کو ’تشریحی تحقیق‘ کے ساتھ حل کرنے کا ارادہ کیا ہے، جو ماڈل کے اندر ہی دیکھنے اور جو کچھ ہو رہا ہے اسے بہتر طریقے سے سمجھنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے ہے۔ اس کے لیے اکثر ’نیوٹرون‘ کو دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس طرح کا ماڈل بناتے ہیں: انسانی دماغ کی طرح، ایک مصنوعی ذہانت کا سسٹم نام نہاد نیوٹرونز کے ہوسٹ پر مشتمل ہوتا ہے جو اس کی استعمال کردہ معلومات کو ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم، ان کو تلاش کرنا مشکل ہے کیونکہ انسانوں کو نیورونز منتخب کرنے پڑتے ہیں اور مینوئلی پر ان کا معائنہ کرنا پڑتا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ ان کے پیچھے کیا ہے۔ لیکن کچھ سسٹمز میں سینکڑوں ارب پیرامیٹرز ہوتے ہیں لہذا اصل میں ان سب کا انسانوں کے ذریعے معائنہ ناممکن ہے۔ اب اوپن اے آئی کے محققین نے اس عمل کو خودکار بنانے کے لیے جی پی ٹی فور کا استعمال کرنے پر غور کیا ہے تاکہ طرز عمل کو زیادہ تیزی سے سمجھا جاسکے۔
Tumblr media
انہوں نے ایک خودکارعمل تخلیق کرنے کی کوشش کر کے ایسا کیا، جس سے سسٹم کو نیورون کے طرز عمل کی قدرتی زبان کی وضاحت فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ اور اسے ایک اور سابقہ زبان کے ماڈل پر استعمال کیا۔  اس نے تین مراحل میں کام کیا: جی پی ٹی ٹو میں نیورون کو دیکھا اور جی پی ٹی فور نے اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کرنا۔ پھر اس نیورون کی نقل کی، تیار کردہ نقل اصل کے ساتھ کس طرح کام کرتی ہے، اس کی درجہ بندی کر کے اپنی ہی وضاحت کے ساتھ موانہ کیا۔ ان میں سے زیادہ تر وضاحتیں بری ثابت ہوئیں اور جی پی ٹی فور نے خود کو بہت کم نمبر دیے۔ لیکن محققین کا کہنا تھا انہیں امید ہے کہ تجربے سے معلوم ہو گا کہ مزید کام سے مصنوعی ذہانت اپنی وضاحت کر سکے گی۔  تاہم تخلیق کاروں کو متعدد ’رکاوٹوں‘ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ نظام طرز عمل کی وضاحت کرنے میں انسانوں کی طرح اچھا نہیں۔ یہ وضاحت کرنا بھی مسئلے کا ایک حصہ یہ ہو سکتا ہے کہ نظام عام زبان میں کیسے کام کر رہا ہے ناممکن ہے کیونکہ نظام انفرادی تصورات استعمال کر سکتا ہے جنہیں انسان نام نہیں دے سکتے۔
مصنفین لکھتے ہیں، ’ہم نے مختصر قدرتی زبان کی وضاحت پر توجہ مرکوز کی، لیکن نیورونز کا رویہ بہت پیچیدہ ہو سکتا ہے جسے مختصر طور پر بیان کرنا ناممکن ہے۔ ’مثال کے طور پر، نیورونز انتہائی پولیسیمینٹک ہوسکتے ہیں (بہت سے مختلف تصورات کی نمائندگی کرنے والے) یا واحد تصورات کی نمائندگی کر سکتے ہیں جن کو انسان نہیں سمجھتے یا ان کے لیے الفاظ ہی نہیں۔‘ مسائل اس وجہ سے بھی ہو سکتے ہیں کیوں کہ یہ بالخصوص اس بات پر مرکوز ہے کہ ہر نیورون انفرادی طور پر کیا کرتا ہے، اور اس پر نہیں کہ بعد میں متن چیزوں کو کس طرح متاثر کرسکتا ہے۔ اسی طرح یہ مخصوص طرز عمل کی وضاحت کرسکتا ہے لیکن یہ نہیں کہ کون سا میکانزم اس طرز عمل کو پیدا کررہا ہے، اور اس طرح اس کی نشاندہی ہوسکتی ہے۔ محققین نے نوٹ کیا کہ یہ نظام کمپیوٹنگ کی بہت زیادہ طاقت بھی استعمال کرتا ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
forgottengenius · 1 year
Text
زندگی و موت کے فیصلے کرنے والے روبوٹس
Tumblr media
میزائلوں سے تحفظ کے امریکی سسٹم پیٹریاٹ، اسرائیلی سسٹم آئرن ڈوم، چین کے بلو فش اے ٹو ڈرون ، ٹینکوں کو میزائلوں اور راکٹوں سے بچانے والے روسی سسٹم ایرینا ، اسرائیلی سسٹم ٹرافی اور جرمن سسٹم اماپ ایڈز میں کیا قدرِ مشترک ہے۔ مصنوعی ذہانت سے مسلح یہ سب ہتھیار بنا کسی انسانی مداخلت ازخود کسی ہدف کو سونگھ کے ، محسوس کر کے یا دیکھ کے اسے تباہ یا ہلاک کرنے یا زندہ رکھنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ آپ انہیں خود مختار ہتھیار یا قاتل روبوٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ دو ہزار بیس میں لیبیا میں ترک ساختہ کرگو ڈرون نے ازخود ایک انسانی ہدف کو نشانہ بنایا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جب کسی خودکار ہتھیار نے خود ہی ہدف کا تعین کر کے اسے ختم کر دیا۔ مئی دو ہزار اکیس میں اسرائیل نے مصنوعی ذہانت سے لیس خودمختار ڈرونز کے ایک اسکواڈرن کو غزہ پر بمباری کے لیے استعمال کیا۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ اس وقت مصنوعی ذہانت کی مدد سے ہدف کی شناخت اور اس کے خلاف کارروائی کا ازخود فیصلہ کرنے والے ہتھیاروں کی تحقیق و تیاری پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری امریکا ، چین ، روس ، برطانیہ ، اسرائیل ، جنوبی کوریا ، آسٹریلیا ، بھارت اور ترکی میں ہو رہی ہے۔
ایسے خودمختار ہتھیاروں کے حامی طبقے کی دلیل یہ ہے کہ ان کے استعمال سے فوجی افرادی قوت خواہ مخواہ کے جانی نقصان سے بچ سکتی ہے۔ یہ چونکہ پروگرامڈ ہتھیار ہیں اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے آس پاس اور ہدف کا بہتر اندازہ لگا کے انسانی غلطی سے پاک نشانہ باندھ سکتے ہیں۔ چنانچہ میدانِ جنگ میں حادثاتی اموات کا تناسب کم کر سکتے ہیں۔ ایسے ہتھیار اپنے الگورتھم سسٹم کی تجزیاتی صلاحیت کی مدد سے دشمن کی جانب سے آنے والے میزائلوں یا دیگر ایمونیشن کو زیادہ مستعدی اور درستی کے ساتھ اپنے فوجیوں اور اثاثوں کو نشانہ بنانے سے روک سکتے ہیں۔ مگر ان ہتھیاروں کی تیاری کے مخالفین کہتے ہیں کہ ان کے استعمال کو جنگی اخلاقیات کے تابع کرنے کے لیے فی الحال کوئی علاقائی یا بین الاقوامی ضابطہ یا معاہدہ نہیں۔ اگر یہ کسی بھی ہدف کے خلاف ازخود کارروائی کرتے ہوئے آپے سے باہر ہو جائیں اور یوں کسی حادثے یا بیگناہ انسانوں کی موت کا سبب بن جائیں تو ان ہتھیاروں پر جنگی جرائم کی فرد عائد نہیں ہو سکتی۔ تو پھر ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے گا۔
Tumblr media
یہ ہتھیار بنانے والا، اسے نصب کرنے یا میدان ِ جنگ میں پہنچانے والا یا وہ اعلی فوجی و سویلین قیادت جس نے یہ ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا یا اجازت دی؟ اس بابت خود مختار ہتھیار بنانے اور انہیں استعمال کرنے والے ممالک حسبِ معمول منقسم ہیں۔ مثلاً روس ان کے استعمال کے شرائط و ضابطے عالمی سطح پر وضع کرنے کا کھلا مخالف ہے۔ امریکا اور برطانیہ فی الحال ان ہتھیاروں کو کسی بین الاقوامی کنونشن یا سمجھوتے کے تابع کرنے کو قبل از مرگ واویلا بتا رہے ہیں۔چین اگرچہ خود مختار ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی کے حق میں ہے تاہم ان سے متعلق تحقیق روکنے کے حق میں نہیں۔ چین کی کوشش ہے کہ ایسے کسی بھی جامع معاہدے سے پہلے پہلے وہ اس میدان میں بھی مغربی اسلحہ سازوں کو جتنا پیچھے چھوڑ سکے چھوڑ دے۔ بھارت کو اگرچہ اس طرح کے ہتھیاروں کی تیاری کی عالمی دوڑ اور ان کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا خدشہ ہے تو دوسری جانب وہ ان ہتھیاروں کی تیاری کے منصوبے پر تیزی سے کام بھی کر رہا ہے۔
ایسے ہتھیاروں کی تیاری ، تنصیب اور استعمال کی سب سے زیادہ مخالفت تیسری دنیا کی جانب سے ہو رہی ہے۔ اور اس کی قیادت وسطی امریکا کا ملک کوسٹاریکا کر رہا ہے۔ وہاں انیس سو اڑتالیس میں فوج کا ادارہ ہی ختم کر دیا گیا۔ تب سے اب تک کسی ہمسائے سے جنگ نہیں ہوئی اور خانہ جنگیوں کے شکار خطے میں کوسٹاریکا ایک مستحکم جزیرے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ گزرے فروری میں تیس ترقی پذیر ممالک نے ان ہتھیاروں کے استعمال و تیاری پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا اور اس بابت کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری و استعمال پر پابندی کے بین الاقوامی کنونشن کی طرز پر خود مختار ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے ایک جامع عالمی معاہدے کی فوری تیاری پر زور دیا۔ کانفرنس میں شریک جنوبی افریقہ نے ایسے ہتھیاروں کے لیے بنیادی ضوابط کی تشکیل کا تو مطالبہ کیا البتہ مکمل پابندی کی حمائیت سے اجتناب برتا۔ اگرچہ یورپی پارلیمنٹ بھی ایسے ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف ایک قرار داد منظور کر چکی ہے۔ مگر ان سب مطالبات کے موثر ہونے کی راہ میں ایک نفسیاتی و مفاداتی رکاوٹ ہے۔ جو ممالک یہ ہتھیار بنا رہے ہیں وہ مکمل پابندی کے بالکل حق میں نہیں۔ 
جن ممالک نے ابھی یہ ہتھیار نہیں بنائے مگر ان کے پاس اس بارے میں مناسب تکنیکی و سائنسی صلاحیت ہے وہ اس لیے مکمل پابندی کے حق میں نہیں کہ اگر ہتھیار ساز ممالک ایسی پابندیاں قبول کرنے سے انکاری ہیں تو پھر ہم کیوں رضاکارانہ طور پر ان پابندیوں کو قبول کر کے اپنے ہاتھ بندھوالیں اور دفاع کے ایک موثر ذریعے سے خود کو محروم رکھیں۔ ویسے بھی تخفیفِ اسلحہ یا کسی بھی مخصوص وسیع تر تباہی پھیلانے والے اسلحے کی تیاری مکمل طور پر روکنے کے معاہدوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ باہمی اعتماد کا سنگین فقدان رہا ہے۔ اسی لیے اس بابت مذاکرات سالہا سال جاری رہتے ہیں۔ کوئی ایک ہتھیار ساز ملک بھی پیچھے ہٹ جائے تو باقی ممالک بھی کوئی ٹھوس وعدہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ انہیں یہ بھی خدشہ ہوتا ہے کہ کیا ضمانت ہے کہ حریف نے بظاہر ہتھیاروں کی تیاری روکنے کی حامی بھر لی ہو مگر درپردہ تیاری جاری ہو۔ رکاوٹوں کا سبب کچھ بھی ہو۔ مگر انسانوں کی زندگی و موت کے فیصلے کسی انسان کے بجائے کوئی مشین کرے تو انسانی جان کی اس سے زیادہ تذلیل فی الحال کیا ہو سکتی ہے ؟
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
forgottengenius · 1 year
Text
البرٹ آئن سٹائن کی زندگی کے چند دلچسپ حقائق
Tumblr media
معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن جنہیں’فادر آف ماڈرن فزکس‘ کہا جاتا ہے، 14 مارچ 1879ء کو جرمنی کے شہر اولم میں اشکنازی یہودیوں کے ایک خاندان میں پیدا ہوئے۔ البرٹ آئن سٹائن کے والد ہرمن آئنسٹائن ایک سیلز مین اور انجینئر تھے، 1880ء میں یہ فیملی اولم سے میونخ شفٹ ہو گئی۔ ’فادر آف ماڈرن فزکس‘ کہلائے جانے والے نامور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کو اسکول میں لیٹریچر اور دیگر مضامین پڑھتے ہوئے بہت دشواری کا سامنا تھا جس کی وجہ سے اُنہیں اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔ البتہ، البرٹ آئن سٹائن ریاضی میں بہت مہارت رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے صرف 12 سال کی عمر میں گرمیوں کے موسم میں الجبرا اور یوکلیڈین جیومیٹری سیکھ لی تھی۔ اس کے بعد اُنہوں نے اپنے والد سے تحفے میں ملنے والےایک کمپاس سے متاثر ہو کر صرف 16 سال کی عمر میں مقناطیسی قوت پر اپنا پہلا علمی مقالہ لکھا۔ البرٹ آئن سٹائن نے’Conclusions from Capillarity Phenomena‘ کے عنوان سے 1900ء میں اپنا پہلا مقالہ شائع کروایا اور 1905ء میں فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی۔
Tumblr media
اُنہوں نے 1905ء میں فوٹو الیکٹرک افیکٹس، براؤنین موشن، اسپیشل ریلیٹیویٹی، اور ماس اور انرجی کی مساوات پر چار اہم مقالے شائع کروائے اور اس سال کو آئن سٹائن کے ’معجزوں کا سال‘بھی کہا جاتا ہے۔ 1925ء میں، البرٹ آئن اسٹائن کو تھیوری آف ریلیٹیویٹی اور کوانٹم تھیوری بنانے کے لیے ان کی خدمات پر رائل سوسائٹی آف لندن کے ممتاز کوپلے میڈل سے نوازا گیا تھا۔ اُنہیں سب سے زیادہ شہرت تھیوری آف ریلیٹیویٹی اور ماس- انرجی ایکیویویلنس فارمولا (E = mc2) کو تیار کرنے کے لیے ملی۔ البرٹ آئن اسٹائن کو 1921ء میں تھیوریٹِکل فزکس کے لیے بہترین خدمات اور لاء آف فوٹو الیکٹرک افیکٹس کی دریافت پر نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ البرٹ آئن سٹائن کی نجی زندگی کے حوالے سے بات کی جائے تو اُنہوں نے جنوری 1903ء میں میلیوا مارک نامی ایک لڑکی سے شادی کی لیکن ان کی یہ شادی زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی اور 1919ء میں طلاق ہو گئی۔ سائنسدان کی پہلی شادی کی ناکامی کی وجہ ان کی اپنی کزن ایلسا کے لیے دلچسپی تھی، طلاق کے فوراََ بعد 1919ء میں ہی اُنہوں نے اپنی کزن ایلسا لوونتھل سے شادی کر لی تھی، جن کا گردوں کی بیماری کی وجہ سے 1936ء میں انتقال ہو گیا تھا۔ 17 اپریل 1955ء میں البرٹ آئن سٹائن کا 76 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا۔
البرٹ آئن اسٹائن کے مشہور اقوال: آج البرٹ آئن اسٹائن کی سالگرہ کے موقع پر ان چند مشہور اقوال پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ 1- زندگی میں دو چیزیں لامحدود ہیں: کائنات اور انسانی حماقت 2- اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے ذہین ہوں تو انہیں پریوں کی کہانیاں پڑھنے دیں اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ زیادہ ذہین ہوں تو انہیں مزید پریوں کی کہانیاں پڑھنے دیں۔ 3- زندگی بالکل ایک سائیکل پر سواری کرنے کی طرح ہے کیونکہ اپنا توازن برقرار رکھنے کے لیے انسان کو ہمیشہ حرکت کرتے رہنا پڑتا ہے۔ 4- ایک ہوشیار شخص مسئلے کا حل تلاش کرتا ہے لیکن ایک عقلمند شخص ہمیشہ مسئلے سے بچتا ہے۔
 بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
forgottengenius · 1 year
Text
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
Tumblr media
ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے آخری چند برس بظاہر ایک خاموشی، بدگمانی، فرسٹریشن، مایوسی اور ناقدری کے احساس کے آئینہ دار ہیں اور یہ احساس کچھ ایساغلط، بے جا یا فرضی بھی نہیں لیکن جو لوگ اُن کے قریب یا اُن سے رابطے میں رہے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ کبھی ربِ کریم کی رحمت سے مایوس اور اُس کے بندوں کی محبت سے محروم نہیں ہوئے۔ دراصل اُن کا کام ہی اتنا بڑا، غیر معمولی اور شاندار تھا کہ اُس نے دنیا بھر کے حاکم سیاسی طبقوں اور اپنے تکبر میں ڈوبے ہوئے ہمسایہ ملک کے جارحانہ عزائم کو ایک ایسا شدید اور غیر متوقع جھٹکا دیا کہ تب سے اب تک ہر دو قوتیں غصے اور انتقام کی آگ میں جل تو رہی ہیں لیکن پاکستان کو حربی قوت کے زور پر اپنے قابو یا رعب میں رکھنا اب اُن کے لیے ممکن نہیں رہا، سو اَب سرمایہ بنیاد معیشتیں جہاں ہمیں معاشی طور پر کمزور اور اپنا تابعدار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں وہاں بھارت یہ کام سازش، بد امنی اور تخریبی کارروائیوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
ڈاکٹر قدیر خان بھی شائد بہت سے دیگر ہنرمند اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل پاکستانی تارکینِ وطن کی طرح ایک بظاہر کامیاب آسودہ اورمتمول زندگی گزار کر وہیں کہیں کسی مغربی سرزمین میں آسودہ خاک ہو جاتے مگر دو باتوں (و یقینا تقدیر کا مدعا بھی تھیں) نے ایسا نہیں ہونے دیا، ایک تو اُن کی وہ طبیعت، افتاد و طبع اور اپنے اختیار کردہ ملک پاکستان اس کی حفاظت اور ترقی سے محبت تھی اور دوسری 1974 میں بھارت کی طرف سے کیے گئے وہ ایٹمی دھماکے جن کے متوقع اثرات کی سنگینی نے ہالینڈ کی کسی سائنس لیبارٹری میں کام کرتی ہوئی ایک خوبصورت اور محبِ وطن رُوح کو بے چین کر دیا جسے دنیا ایک عام سے سائنس کے طالب علم کے طور پر جانتی تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے بنیادی طور پر ایک نیوکلیئر سائنس دان نہ ہونے کے باوجود بھی اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے خود رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ ہم جوابی طور پر اور اپنی مدافعت اور حفاظت کے لیے کس طرح سے ایسی جوہری قابلیت حاصل کرسکتے ہیں۔ 
Tumblr media
اب یہاں داد بھٹو مرحوم کے لیے بھی بنتی ہے کہ انھوں نے نہ صرف اس معاملے کی سنگینی، جواب کی ضرورت اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صلاحیت اور خلوص کو سمجھا بلکہ عملی طور پر اس مشن کے آغاز کے لیے نہ صرف ڈاکٹر صاحب کو وہاں سے بلوایا بلکہ انھیں اور ان کی ٹیم کو ایسے وسائل بھی مستقل طور پر مہیا کیے جن کی فراہمی اُن حالات میں ناممکن حد تک مشکل تھی اور پھر ڈاکٹر صاحب ہی کے بیان کے مطابق جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحق خان نے بھی نہ صرف اس پالیسی کو جاری رکھا بلکہ ہر طرح کے دباؤ کو سہتے ہوئے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور ڈاکٹر اے کیو خان لیبارٹری کے کام کو اوّلین ترجیح دی۔ اب 28 مئی 1998 کے جوابی دھماکوں کے فیصلے اور عمل کے درمیان کیا کچھ ہُوا اس کی تفصیل میں جائے بغیر اور بھارت کے فطری ردعمل کی کیفیات اور تفصیلات میں اُلجھے بغیر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کے فوراً بعد ایک طرف تو ڈاکٹر صاحب کی طرف سے دھماکے کے کریڈٹ کے ضمن میں سیاستدانوں کے رویے پر ناراضی کا اظہار سامنے آیا اور دوسری طرف بڑی عالمی قوتوں کی طرف سے حیرت اور بے یقینی کے فوری تاثر کے بعد اس کی مخالفت میں بیانات آنے شروع ہو گئے۔
9/11 کے پس منظر اور ڈاکٹر صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان دونوں باتوں نے ایک نیا اور بے حد تکلیف دہ رُخ اختیار کر لیا جس کے نتیجے میں جنرل مشرف کے زمانے میں ڈاکٹر صاحب کو امریکا کے بے حد اصرار کے باوجود اس کے حوالے تو نہیں کیا گیا مگر طرح طرح کے الزامات، معافی ناموں اور نقل و حرکت پر پابندیوں کی وجہ سے انھیں کئی برس ایک طرح کی نظر بندی میں رہنا پڑا جو یقیناً ایک ایسے شخص کے لیے جو محسنِ پاکستان بھی کہلاتا ہو اور جس نے اپنی ساری زندگی اپنی قوم کو محفوظ اور باوقار رکھنے میں صَر ف کر دی ہو ایک بہت تکلیف دہ صورتِ حال تھی۔ ذاتی طور پر مجھے اُن سے ملنے اور اُن سے بات چیت کرنے کے مواقعے دونوں طرح کے حالات میں حاصل رہے ہیں کہ میری اُن سے پہلی بالمشافہ ملاقات ایٹمی دھماکے سے کچھ عرصہ قبل ہوئی تھی اور پھر یہ سلسلہ وقفوں سے ہی سہی مگر کبھی منقطع نہیں ہوا کہ وہ سائنس دان تو بڑے تھے ہی شعر و ادب سے بھی اُن کی واقفیت نہ صرف بہت گہری اور عمدہ تھی بلکہ عام میل جول میں وہ بے حد دلچسپ، خوش دل، خوش مذاق اور Down to Earth انسان تھے اور پھر آخر ی عمر میں انھوں نے کالم نگاری کے ذریعے اپنے مطالعے ، مشاہدے ، تجزیے ، ادبی ذوق اور اپنی فہم کا جو مرقعّ ہمارے سامنے پیش کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے وہ بہت سادہ، سچے، مخلص اور قدرے جذباتی مزاج کے حامل تھے۔
اب جہاں تک اُن کی سادگی، سچائی اور خلوص کا تعلق ہے وہ تو بیشتر سائنس دانوں کی مشترکہ خوبی رہی ہے مگر زندگی، فنونِ لطیفہ سے محبت اور جذباتیت وہ اوصاف ہیں جو یقیناً اپنی برادری سے انھیں ممیز اور ممتاز کرتے ہیں بلاشبہ وہ کچھ عمائدینِ سلطنت اور اُن کے حواریوں سے نالاں تھے مگر اُن میں سے بھی کسی کی نیکی توجہ یا اچھے کام کی تحسین میں وہ بخل سے کام نہیں لیتے تھے انھیں احسان فراموشی سے چِڑ تھی چنانچہ اس حوالے سے وہ بعض اوقات بہت سخت باتیں بھی کر جاتے تھے لیکن جہاں تک پاکستانی عوام اور عام انسانی ضمیر کا تعلق ہے۔ اُس کے لیے میں نے کبھی اُن کے منہ سے کوئی شکایتی لفظ نہیں سُنا۔ چند برس قبل ایک محفل میں اُن کے کچھ احباب نے بتایا کہ وہ آج کل ایک عوامی اسپتال کے قیام کے لیے بھی بہت محنت اور سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں کہ خیر کے کاموں کے لیے وہ ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ایک ملاقات کے دوران انھوں نے مجھ سے اپنے اس اسپتال کے لیے اُسی طرح کا ایک ترانہ نما گیت لکھنے کی فرمائش کی جسے میں اس سے قبل ’’الخدمت ‘‘ اور ’’اخوت‘‘ کے لیے لکھ چکا تھا مجھے خوشی ہے کہ مجھے اس کی تعمیل کا موقع ملا اور مزید خوشی اس بات کی ہے کہ انھوں نے اسے پسند بھی کیا۔
اُن کی نماز جنازہ اور تدفین کے مناظر اور خبریں دیکھنے اور حکومتِ وقت کی طرف سے اُنہیں قومی اعزاز اور احترام کے ساتھ دفنانے کے اعلانات سننے اور ان پر عمل کی مختلف صورتیں دیکھنے اور عوام کا جوش �� خروش اور ہر طرح کے میڈیا پر اُن کے لیے دعاؤں اور کلماتِ خیر کا ہجوم دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ اُن کی رُوح پر سے اُس ناقدری اور احسان فراموشی کے گِلوں کا بوجھ اُتر گیا ہو گا جسے انھیں اپنی عمر کے آخری برسوں میں اُٹھانا پڑا اور بلاشبہ عوام کی یہ محبت اُن تمام سرکاری اعزازت پر بھاری ہے جو انھیں بار بار ملے کہ یہ محبت مستقل اور پائیدار ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد گہری اور مضبوط بھی ہے اور مجھ سمیت وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں جنھیں اُن سے ملنے، باتیں کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا ہے۔
امجد اسلام امجد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
forgottengenius · 1 year
Text
انٹرنیٹ کا آغاز کیسے ہوا ؟، موجد کون تھا ؟
Tumblr media
انٹرنیٹ ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ دنیا کی تمام ٹیکنالوجی اور ارتقاء انٹرنیٹ کی مرہون منت ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ اربوں ڈالر کی موبائل فون انڈسٹری ہو یا ورچوئل ورلڈسب انٹر نیٹ کے شاہکار ہیں۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کو 50 سال سے زائدکا عرصہ گزر چکا ہے۔ 1969ء کے اختتام میں، چاند پر انسانی قدم پڑنے کے کچھ ہفتوں بعد یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر لیونارڈ کلائن روک کے دفتر میں ایک سرمئی رنگ کا دھاتی باکس موصول ہوا۔ اس باکس کا سائز ایک ریفریجریٹر جتنا تھا۔ یہ بات عام لوگوں کے لئے حیران کن تھی لیکن کلائن روک اس سے بہت خوش تھا اور پرجوش نظر آرہا تھا۔ 60 کی دہائی میں گہرے خاکی رنگ میں لی گئی اس کی تصویر اس کی خوشی کی بخوبی ترجمانی کر رہی ہے۔ وہ تصویر میں کھڑا ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی باپ اپنی باصلاحیت اور قابل فخر اولاد کے ساتھ کھڑا ہو۔
کلائن روک نے اپنی خوشی کی وجہ اپنے قریبی احباب کے علاوہ کسی کو سمجھانے کی کوشش کی ہوتی تو شائد وہ سمجھ نہ پاتے۔ کچھ لوگ جنہیں اس باکس کی موجودگی کا علم تھا وہ بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ آخر یہ ہے کیا اور اس کا نام کیا ہے۔ یہ'' آئی ایم پی‘‘ تھا جسے انٹرفیس میسج پروسیسر بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ دیر قبل بوسٹن کی ایک کمپنی نے اسے بنانے کا ٹھیکہ حاصل کیا تھا۔ بوسٹن کے سنیٹر ٹیڈ کینیڈی نے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے اس کی افادیت اور ماحول دوست ہونے کا اظہار کیا تھا۔ کلائن کے دفتر کے باہر موجود مشین صرف دنیا میں رہنے والے مختلف لوگوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم کام کر سکتی تھی۔ دنیا میں انٹرنیٹ پہلی مرتبہ کب استعمال ہوا اور اس کا باقاعدہ آغاز کس وقت ہوا اس کے متعلق یقینی طورپر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں کہ بہت سے لوگ اس کی تخلیق میں شامل تھے اور کئی لوگوں نے اس کی تخلیق میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
Tumblr media
اس لئے بہت سے لوگ اس کا اعزاز اپنے نام کرنا چاہتے تھے۔ 29 اکتوبر 1969ء میں انٹرنیٹ کا آغاز ہوا، یہ کلائن روک کا مضبوط دعویٰ ہے کیونکہ اسی تاریخ کو پہلی مرتبہ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے پیغام ایک سے دوسرے سرے پر بھیجا گیا تھا۔ 29 اکتوبر 1969ء رات 10 بجے جب کلائن، اس کے ساتھی پروفیسر اور طلباء ہجوم کی صورت میں اس کے گرد جمع تھے تو کلائن روک نے کمپیوٹر کو آئی ایم پی کے ساتھ منسلک کیا جس نے دوسرے آئی ایم پی سے رابطہ کیا جو سیکڑوں میل دور ایک کمپیوٹر کے ساتھ منسلک تھا۔ چارلی کلین نامی ایک طالب علم نے اس پر پہلا میسج ٹائپ کیا اور اس کے الفاظ وہی تھے جو تقریباً 135 برس قبل سیموئیل مورس نے پہلا ٹیلی گراف پیغام بھیجتے ہوئے استعمال کئے تھے۔ کلائن روک کو جو ذمہ داری دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ اسے لاس اینجلس میں بیٹھ کر سٹینفرڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں موجود مشین میں لاگ ان کرنا ہے لیکن ظاہر طور پر اس کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے تھے۔
کلائن نے جو بھی کیا وہ ایک تاریخ ہے اور اب اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسا کہنا حماقت ہو گی کیونکہ کلائن روک کے پہلا پیغام بھیجنے کے 12 سال بعد اس سسٹم پر صرف 213 کمپیوٹر موجود تھے۔ 14 سال بعد اسی سسٹم پر ایک کروڑ 60 لاکھ لوگ آن لائن تھے اور ای میل دنیا کے لئے نئے دروازے کھول رہی تھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 1993ء تک صارفین کے پاس کوئی قابل استعمال ویب براؤزر موجود نہیں تھا۔ 1995ء میں ہمارے پاس ایمزون تھا، 1998ء میں گوگل اور 2001ء میں وکی پیڈیا موجود تھا اور ُاس وقت تک 513 ملین لوگ آن لائن ہو چکے تھے۔ اس رفتار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انٹر نیٹ نے کتنی تیزی سے کامیابی کی منازل طے کیں اور اب انٹرنیٹ اپنی اگلی جنریشن میں داخل ہونے کو تیار ہے، جسے میٹاورس کہا جاتا ہے۔ تاحال میٹا ورس ابھی ایک تصور سے زیادہ کچھ نہیں لیکن اس میٹا ورس کی ورچوئل ورلڈ میں آپ ہیڈ سیٹ کا استعمال کرتے ہوئے ڈیجیٹل دنیا میں قدم رکھ پائیں گے اور اپنے روز مرہ کے کام سر انجام دے سکیں گے۔
انٹرنیٹ کے ارتقاء کا عمل اتنا برق رفتار تھا کہ یہ بہت سے نشیب و فراز جو اس دنیا نے دیکھے ان کا ''گواہ‘‘ بن گیا۔ آج انٹرنیت اپنی ایک الگ دنیا رکھتا ہے۔ کلائن نے پہلا پیغام بھیجتے وقت یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ 50 برس بعد یہ دنیا انٹرنیٹ کے ذریعے، فیس بک، ٹوئٹر، وٹس ایپ اور انسٹا گرام جیسی ورچوئل ورلڈ سے متعارف ہو گی، جس کا استعمال دنیا کی سپر پاورز کے وزرائے اعلیٰ اور صدور بھی کیا کریں گے۔ انٹرنیٹ نے دنیا کی سیاست کو بھی یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے یہی انٹرنیٹ کئی انقلاب اور بغاوتوں کا بھی گواہ ہے اور کسی حد تک وجہ بھی۔ جس انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے کلائن روک سٹینفرڈ انسٹیٹیوٹ میں موجود کمپیوٹر پر لاگ ان کرنے کے لئے پریشان تھا وہی انٹرنیٹ ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ پوری دنیا صرف 135 سے 150 گرام کے موبائل میں قید کر کے آپ کے ہاتھ میں پکڑا دی گئی ہے۔ آج دنیا کے 4 ارب 66 کروڑ لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔
(تنزیل الرحمن ایک نوجوان لکھاری ہیں اور تحقیق کے شعبہ سے وابستہ ہیں)
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
forgottengenius · 2 years
Text
کیا زمین کی ایک سے دوسرے سرے تک کھدائی ممکن ہے؟
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھدائی کر کے پہنچنا ممکن ہے یا نہیں ؟ اگر ایسا کیا جائے تو اس کے کیا نتائج حاصل ہوں گے ؟ جانئے اس خصوصی رپورٹ میں۔ فرض کریں کہ اگر سائنس ایسی کوئی تیکنیک ایجاد کر لے کہ پاکستان سے سوراخ کر کے زمین کے دوسرے سرے تک پہنچا جائے تو زمین کا یہ دوسرا سِرا میکسکو اور ارجنٹینا کے درمیان سمندر میں نکلے گا جس کی پیمائش 12740 کلو میٹر ہو گی۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ اگر انسان ساڑھے 5 کروڑ کلو میٹر (55,000,000KM ) فاصلہ طے کر کے مارس تک پہنچ سکتا ہے تو صرف 12740 کلو میٹر زمین میں سوراخ کر کے دوسرے سرے تک کیوں نہیں جا سکتا۔ رپورٹس کے مطابق سائنس کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تا حال انسان زمین کی صرف 12 کلو میٹر تک کی ہی کھدائی کر سکا ہے۔ ایک محتاط تحقیق کے مطابق زمین میں سب سے کم کھدائی قبر کی ہے جس کی گہرائی 6 فُٹ ہے۔
دوسری جانب جانوروں کی بات کی جائے تو نائل مگر مچھ 40 فُٹ کی گہرائی تک اپنی بِل کھود سکتا ہے جو کہ اب تک کی جانوروں کی جانب سے کھودی گئی سب سے گہرا بل ہے۔ دبئی میں تاریخ کا سب سے گہرا سوئمنگ پول ’ڈیپ ڈائیو‘ بنایا گیا تھا جس کی گہرائی 170 فٹ تھی اور اس میں ٹوٹل ڈیڑھ کروڑ لیٹر پانی موجود ہے۔ 346 فُٹ کی گہرائی تک دنیا کا سب سے گہرا میٹرو اسٹیشن بنا ہوا ہے جو کہ یوکرین کے شہر کیف میں واقع ہے۔ 720 فُٹ کی گہرائی تک دنیا کے سب سے گہرے دریا ’کونگو رِیور‘ کی گہرائی ناپی جا چکی ہے، یہ دریا افریقا میں واقع ہے۔ دنیا کی سب سے گہر ی ریل سرنگ ’سائکن ٹنل‘ کی گہرائی 790 فُٹ ہے ، یہ سرنگ نما ٹرین کا راستہ زیر زمین جاپان کے دو شہروں کو آپس میں ملاتا ہے۔ دنیا کی سب سے گہری سرنگ کی پیمائش 958 فُٹ ہے جو کہ روگا لینڈ میں موجود ہے۔ زمین کی 1000 فُٹ گہرائی تک نیوکلیئر ہتھیار وار کر سکتا ہے۔
دنیا کے سب سے گہرے غار کی گہرائی 7200 فُٹ ہے جو کہ جارجیا میں موجود ہے۔ افریقا میں موجود دنیا کی سب سے گہری سونے کی کان کی گہرائی 13120 فُٹ ہے جس میں جانے کے لیے کان کُنوں کو پورا ایک گھنٹہ سفر کرنا پڑتا ہے، اس گہرائی تک پہچنے تک زمین کا درجہ حرارت 66 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے جبکہ انسان اس سے زیادہ گہرائی تک زمین میں سوراخ کر چکا ہے۔ جی ہاں ! انسان 23 سینٹی میٹر چوڑا، 40230 فُٹ گہرائی تک ایک سوراخ کر چکا ہے جسے ’کولا سُپر ڈیپ بُور ہول ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ روس کی جانب سے کیے جانے والے اس سوراخ کا مقصد زمین کے درمیان (زمینی مرکز) تک پہنچنا تھا مگر ڈِرِلنگ مشین اس مشن کو پورا نہ کر سکی جس کی وجہ زمین کا دجہ حرارت تھا۔ 9 سالوں کی مسلسل کوشش کے بعد ڈرلنگ مشین نے زمین کے دجہ حرارت کے آگے ہار مان لی تھی، 180 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ کر ڈرلنگ مشین آگے سوراخ کرنے سے قاصر رہی۔
حیرت انگیز طور پر انسان اپنے اس ریکارڈ کو خود ہی توڑنے میں کامیاب رہا ہے۔ قطر کی ایک آئل کمپنی ’الشاہین‘ کی جانب سے 40,318 فُٹ گہرا سوراخ کر کے دنیا کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ ہماری زمین کا مرکز 6371 کلو میٹر ہے جبکہ تا حال انسان صرف 12 کلو میٹر تک ہی زمین میں سوراخ کر چکا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
forgottengenius · 2 years
Text
ہبل خلائی دور بین کائنات کے بہت سے راز فاش کر رہی ہے
چار دہائیوں کی منصوبہ بندی کے بعد 24 اپریل 1990 کو شٹل ڈسکوری کے ذریعے ہیلی سپیس ٹیلی سکوپ (ہبل خلائی دوربین) زمین کے گرد 381 میل بلند مدار میں پہنچائی گئی۔ زمین سے کنٹرول کیا جانے والا بارہ ٹن وزنی اور ایک کار کی جسامت کا یہ خلا میں چھوڑا جانے والا سب سے بڑا جسم تھا۔ اس کا نام ایڈون پاول ہبل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ایڈون پاول ہبل (Edwin Powell Hubble) امریکی ماہر فلکیات تھے۔ انہوں نے 1923ء میں نو تعمیر شدہ سوانچی انعکاسی دوربین سے اینڈرومیڈا میں کچھ عام ستارے (یعنی نووا کے علاوہ) دریافت کیے تھے جن میں سیفیڈ بھی شامل تھے۔ کرۂ ہوائی فلکی اجسام سے خارج ہونے والی مرئی، بالائے بنفشی اور انفراریڈ شعاعوں کا ایک خاصا بڑا حصہ روک لیتا ہے اور وہ جسم دھندلا جاتے ہیں۔ بلندی پر ہونے کی وجہ سے یہ دور بین فلکی اجسام کی طیف کے وہ حصے بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے جو زمین پر ممکن نہیں تھا۔ 
ہبل دوربین کی مدد سے زمین پر موجود آلات سے 10 گنا زیادہ صاف طیف بنانا ممکن ہو جاتا ہے۔ ہبل کے عد سے میں کردی کجی نامی ایک فنی خامی کے باعث یہ مرئی روشنی کی شبہیں متوقع صفائی کے ساتھ حاصل نہیں کر سکا۔ پھر سورج کی روشنی کے باعث بھی اس کی بھیجی تصاویر میں 15 سے 20 فیصد تک دھندلاہٹ شامل ہوتی تھی۔ اس کے باوجود ہبل نے پہلے دو سال کے دوران ایسی معلومات ارسال کیں جن تک پہلے رسائی نہیں تھی ۔ اس نے بڑے میگینک بادل میں پھٹنے والے سپر نوا کے گرد گیس کے ایک دمکتے ہالے کی نشان دہی کی۔ اس کی بھیجی گئی تصاویر میں سے ایک کہکشاں M51 کے مرکز میں ایک تاریک علاقہ دریافت کیا گیا جو ایک بلیک ہول کے گرد کے علاقے ہو سکتے ہیں۔ اس دوربین کی خامیاں دور کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ہبل خلائی دوربین Hubble Space Telescope زمین کے مدار میں گردش کرنے والی ایک خلائی رصد گاہ و دوربین ہے۔ اسے خلائی جہاز ڈسکوری کے ذریعے اپریل 1990ء میں مدار میں بھیجا گیا تھا۔ اس کا نام امریکی خلائی سائنسدان ایڈون ہبل کے نام پر رکھا گیا ہے۔
امجد احسان
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes