Tumgik
#قوامی
efshagarrasu · 1 year
Photo
Tumblr media
(via ‼️برخی از مهمترین عناوین خبری یکشنبه ۲۹ مرداد ۱۴۰۲) ‼️برخی از مهمترین عناوین خبری یکشنبه  ۲۹ مرداد ۱۴۰۲  🔸برخی از عناوین خبری یکشنبه ۲۹ مرداد ۱. به گزارش رسانه‌های حکومتی در ۲۴ساعت گذشته ۴مامور سرکوبگر انتظامی در درگیریهای مسلحانه به هلاکت رسیدند.۱مامور در بیضاء،۲مامور در اصفهان، و ۱مامور در مسجد سلیمان کشته شدند.   ۲. روز شنبه دانشجویان دندان پزشکی و افراد شرکت کننده در کنکور همراه خانواده‌هایشان در تهران تجمع اعتراضی برپاکردند.دانشجویان خواستار حذف تاثیر معدل بودند. ۳. سازمان هواپیمایی رژیم در اقدامی غیر عادی به جای اعلام نظارت بر فروش بلیت هواپیما در ایام اربعین ۳پلتفرم خصوصی را معرفی کرد و فروش آن لاین بلیت خارج از این پلتفرمها را ممنوع اعلام کرد.این اقدام باعث ایجاد یک رانت انحصاری ۲هزار میلیاردی در فروش بلیت اربعین می‌شود. ۴. طوفان و گرد و غبار در ارومیه درروزهایی که دریاچه ارومیه آخرین نفسهایش را می‌کشد.   ۵. محمد درویش کارشناس حکومتی گفت تالاب درویش در خطر نابودی است دور نیست روزی که بشنویم تالاب انزلی مرد.۷۲دهنه فاضلاب خام به این تالاب وارد می‌شود.   ۶. در جریان جنگ گرگها پاسدار قالیباف گفت گر چه استیضاح وزیر کشور را فعلا مصلحت نمی‌دانم اما نمی‌توانم خلاف آیین‌نامه وصول آن را اعلام نکنم.  آخوند قوامی عضو پیشین مجلس ارتجاع با کنایه به حداد عادل گفت اگر شاه می‌ماند باز هم حداد عادل یکی از مسوولین کشور بود.   ۷. زهرا شیخی عضو کمیسیون بهداشت مجلس رژیم اعتراف کرد انسانهای زیادی داریم که به علت نرسیدن دارو جان خود را از دست داده‌اند. ۸. خبرگزاری ایرنا رژیم نوشت قیمت یک کیلو گوشت برابر با ۳۵ساعت اضافه کاری یک پرستار است که ساعتی ۱۶هزار تومان می‌گیرد. ۹. خبرگزاری آسوشیتدپرس - تخلیه نفتکشی که گمان می رود حامل نفت تحریم شده ایران است، به رغم تهدیدات تهران، در نزدیکی تگزاس آغاز می شود ۱۰. رادیو فرهنگ(رژیم) -  اسماعیل حسین زهی: جناب آقای رییسی تنها دولت تاریخ هستید که مرغ را به پرواز در آوردی تا جایی که مرغ از سفره های مردم پر کشید و قیمتش به افلاک رسید سفره های مردم... ۱۱. سازمان حقوق بشری هه نگاو(کردی) - اجرای حکم اعدام چهار زندانی در زندان‌های دزفول، مراغه و زاهدان#efshagar_rasu #rasuyab 🔴 (https://t.me/rasuyab2/14382)این #انقلابیست_تا_پیروزی 🆔 @Rasuyab                                         🆔 https://t.me/rasuyab2 🆔 https://t.me/EfshagarRasu 🆔 @Kashef_Rasu
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
یہ کیا ہوا، کیسے ہوا، کب ہوا؟
Tumblr media
گزرے جمعہ کو دو بڑے واقعات ہوئے۔ پہلا یہ کہ دوسری بڑی عالمی سپرپاور کی پیپلز کانگریس نے صفر کے مقابلے میں دو ہزار نو سو بانوے ووٹوں سے شی جن پنگ کو تیسری مدت کے لیے صدر منتخب کر لیا۔ گویا کم ازکم اگلے پانچ برس بھی چین اسی داخلی و خارجہ ٹریک پر آگے بڑھے گا جس پر آج ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان مسابقت میں مزید تیزی آئے گی۔ اگرچہ کوویڈ نے چینی معیشت کو سست رفتار کر دیا ہے اور اس میں گزشتہ برس محض تین فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور اگلے برس کے لیے پانچ فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس سست رفتاری کے باوجود تازہ ترین جائزے کے مطابق اکیسویں صدی میں کلیدی اہمیت کی حامل چوالیس میں سے سینتیس ٹیکنالوجیز کی تحقیق و ترقی میں چین امریکا سے آگے نکل گیا ہے۔ اب خارجہ پالیسی کے میدان میں بھی امریکا عالمی سطح پر چین سے پیچھے دکھائی دے رہا ہے۔ چینی سفارت کاری پہلے سے کہیں زیادہ بااعتماد اور اثر پذیر نظر آ رہی ہے۔ چین جنوبی امریکا، افریقہ اور مشرقِ وسطی میں بھی اپنی خارجہ و اقتصادی ڈپلومیسی کے گر آزما رہا ہے۔
یہ علاقے کچھ عرصہ پہلے تک امریکا کا روائیتی حلقہِ اثر سمجھے جاتے تھے۔ مگر امریکا کے مقابلے میں دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے چینی شرائط اتنی آسان ہیں کہ سفارتی گاہک کے لیے انھیں رد کرنا اتنا آسان نہیں۔ نہ داخلی پالیسی بدلنے کا مطالبہ نہ انسانی حقوق کا جھنجھٹ اور نہ ہی خارجہ پالیسی کے اہداف بدلنے کی ضد۔ مثلاً جس روز شی جن پنگ کی تیسری صدارتی مدت کی توثیق ہوئی عین اسی دن چین، ایران اور سعودی عرب نے ایک مشترکہ پالیسی دھماکا کیا۔ یہ اس قدر اچانک تھا کہ مشرقِ وسطی کے تنازعات میں آٹھ دہائیوں سے مرکزی کردار ادا کرنے والے امریکا کو بھی مکمل خبر نہیں ہوئی کہ دھماکے سے پہلے کے چار دنوں میں بیجنگ میں چینی سرپرستی میں مشرقِ وسطی کے دو اہم ترین ممالک کے مابین کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ تین دارالحکومتوں سے بیک وقت یہ خبر ریلیز ہوئی کہ چین کی مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب نے سات برس سے منقطع سفارتی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگلے دو ماہ میں یہ تعلقات مکمل طور سے معمول پر آ جائیں گے۔
Tumblr media
اس سلسلے میں کوششیں پچھلے دو برس سے جاری تھیں اور اس بابت سہہ فریقی اعلامیے میں عراق اور اومان کی درپردہ مصالحتی کوششوں کا بھی اعتراف کیا گیا ہے۔ بظاہر دو ممالک کے سفارتی تعلقات کا ٹوٹنا اور بحال ہونا کوئی ایسی انہونی خبر نہیں لیکن جب کسی خطے کے دو بااثر طاقتور ممالک کے سینگ کئی برس سے بری طرح پھنسے ہوں تو پھر ایسی خبر بریکنگ نیوز تو بنتی ہی ہے۔ دس برس سے جاری یمن کی لڑائی میں سعودی عرب کا براہ راست اور ایران کا بلاواسطہ کردار، شام کی خانہ جنگی میں دونوں ممالک کا اپنے اپنے طفیلیوں کی معرفت کھلا خونی مقابلہ، خلیج تعاون کونسل کے تین رکن ممالک کی جانب سے قطر کی ناکہ بندی کو ناکام بنانے میں ایران کا کلیدی کردار، مشرقی سعودی عرب میں شیعہ اقلیت کا دو طرفہ مناقشے میں ایندھن بننا اور سب سے بڑا تنازعہ یعنی ایران کا جوہری پروگرام جس کے سبب متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، اسرائیل اور امریکا ایک طرف ، ماسکو اور تہران دوسری طرف اور بیچ میں چین کے خلیج میں ہر طرف پھیلے تزویراتی و معاشی مفادات۔ اور ان مفادات کے سبب ایران سمیت تمام خلیجی ممالک کا چین پر اظہارِ اعتماد۔
ٹرمپ کے بعد کے امریکا کے بارے میں خلیجی ریاستوں کی حکمران نئی نسل کی سوچ اور پرانی نسل کے تاریخی برتاؤ میں اس قدر فرق ہے کہ تیس برس پہلے تک اتنی تیز رفتار تبدیلیوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایک جانب ایران گزشتہ چار دہائیوں سے مغرب کے ساتھ سفارتی و اقتصادی و مفاداتی شطرنج کھیلنے کے سبب مغرب کی نفسیاتی کمزوریوں کی تشخیص کا ماہر ہو گیا ہے۔ دوسری جانب خلیج کی دو ابھرتی طاقتوں یعنی امارات اور سعودی عرب میں برسرِاقتدار آنے والی نئی نسل نے اپنے بزرگوں کے برعکس اس راز کو بہت بہتر انداز میں سمجھ لیا ہے کہ بین الا قوامی اور علاقائی سیاست میں مروت ، دوستی ، تاریخی تعلق اور کاروبار کا ایک ہی مطلب ہے۔ عملیت پسندی اور مفادات۔ نہ کوئی دوستی مستقل ہے نہ دشمنی۔ کسی کا ایجنٹ ہی بننا ہے تو پھر اپنے مفادات کا آلہ کار بننا زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ نئے سعودی عرب اور امارات کے لیے کچھ بھی انہونا یا خلافِ معمول نہیں۔ دنیا میں دنیا کے رواجوں کے حساب سے چلو اور آخرت کو فرد کی سوچ پر چھوڑ دو۔
کل ترکی سے دشمنی تھی آج ترکی سے دوستی ہے۔ کل اسرائیل کا نام لینا تک حرام تھا آج اسرائیل سے کسی بھی سطح کے تعلقات میں کوئی خبریت ہی باقی نہیں رہی۔اگر روس تیل کی پیداوار کے نرخوں کے تعین میں ساجھے داری کے لیے سودمند اتحادی ہے تو پھر امریکا کی خوشنودی کا انتظار کیوں کیا جائے۔ اب تو عملی صورت یہ ہے کہ اگر امریکا دو کام کرنے کو کہے گا تو ایک کام امریکا کو بھی ہماری مرضی کا کرنا ہو گا۔ ورنہ تمہارے لیے تمہاری راہ ہمارے لیے ہماری۔ آپ روٹھیں یا منیں۔ گھر پے نہیں آتے یا گھر پے نہیں بلاتے تو کوئی بات نہیں۔ بازار میں تو آپ یقیناً ہم سے ملنا پسند کریں گے۔ وہیں بھاؤ تاؤ بھی ہو ہی جائے گا۔  خارجہ پالیسی اب آپ کی خواہشات کے تابع نہیں بلکہ منڈی کی طلب و رسد کے تابع ہو گی۔ تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکا چین کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ سے مسلسل پریشان ہوتا چلا جا رہا ہے۔ معاشی و جغرافیائی و سفارتی لحاظ سے اب چین کا گھیراؤ تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کے ہر ملک نے یہ سیکھ لیا ہے کہ معیشت اور نظریے اور آئیڈیل ازم کو گڈ مڈ کرنا پرلے درجے کی نادانی ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال خود امریکا ہے جو بیک وقت چین کا سب سے بڑا تجارتی ساجھے دار اور سب سے بڑا حریف ہے۔ بھارت چین کا سب سے بڑا علاقائی تجارتی ساجھے دار اور سب سے بڑا علاقائی دشمن ہے۔ مگر روس اور یوکرین کی جنگ کے پس منظر میں بھارت اور چین لگ بھگ ایک پیج پر ہیں۔ یہی گر اب دوسرے ممالک نے بھی ازبر کر لیے ہیں۔ دشمنی اپنی جگہ کاروبار اپنی جگہ اور دشمنی بھی ویسے ہی کرو اور اتنی ہی کرو جیسے کاروبار کرتے ہو۔ وفا اور بے وفائی فرد پر سجتے ہیں بین اللمملکتی تعلقات پر نہیں۔ ثبوت کے لیے چینی نگرانی میں سعودیوں اور ایرانیوں کا ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا ہے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
davoodghasemzadeh · 2 years
Photo
Tumblr media
حسن قوامی وکیل پایه یک دادگستری و عضو کانون وکلای دادگستری آذربایجان غربی بعنوان جوان برتر استان انتخاب شد . قوامی از عزیزان روشندل بوده که حائز رتبه اول در آزمون وکالت دادگستری نیزگردیده بود . کانون وکلای دادگستری استان این انتخاب را به ایشان و جامعه وکالت تبریک عرض می نماید . https://www.instagram.com/p/CpnKTeQITWV/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
amir1428 · 3 years
Photo
Tumblr media
به مناسبت سیزدهمین سال درگذشت بانو خاطره #پروانه..........#خاطره_پروانه ( #اقدس_خاوری ) ..صدایی که #ابوالحسن_صبا کشف کرد و استادانی مانند #امیرجاهد، #پایور، #دهلوی، #قوامی و ... او را آموزش دادند. مثنوی، مناجات و الهی نامه، از جمله قطعاتی است که از او به یادگار مانده است...از میان زنان آواز خوان، خاطره پروانه را به عنوان نخستین زن آواز خوان در تلویزیون ثابت پاسال برگزیدند...مادر او، پروانه (خانم موچول)، خواننده معروف سال‌های نخستین قرن جاری بود که علاوه بر صدای خوش اندوهگینی که داشت، با «نواختن» نیز بیگانه نبود.....خاطره پروانه که به دلیل شکستگی استخوان پا در بستر بیماری به سر می‌برد، پس از تحمل هشت ماه بیماری، ۱۵ آبان ۱۳۸۷ در سن ۷۹ سالگی در منزل خود بر اثر ایست قلبی درگذشت.یادش مانا....❤️ https://www.instagram.com/p/CWG96-1M9ST/?utm_medium=tumblr
0 notes
nimroozmag-blog · 6 years
Photo
Tumblr media
◾به‌مناسبت ۱۷ اسفند؛ سالروز درگذشت #حسین_قوامی(فاخته)، خواننده‌ی اثر مشهور #تو_ای_پری_کجایی . 🔻کاریکاتوریست: حمیدرضا حیدری‌صفت منتشر شده در #ماهنامه_طنز_نیمروز . . #قطعه_سرگشته #همایون_خرم #گلهای_جاویدان #گلهای_رنگارنگ #موسیقی #موسیقی_سنتی_ایرانی #موسیقی_سنتی #قوامی #قوامی_خواننده #حسین_قوامی_خواننده #حسین_قوامی_فاخته #امامزاده_طاهر_کرج #غلامحسین_بنان #مرتضی_حنانه #حسینقلی_مستعان #حسین_خان_اسماعیل_زاده #عبدالله_حجازی #برنامه_گلها #ردیف_آوازی #برنامه_برگ_سبز #گلهای_تازه #آواز_ایرانی #آواز_سنتی #آواز #موسیقی_ایرانی #تو_ای_پری #هوشنگ_ابتهاج https://www.instagram.com/p/BuwA13SguHm/?utm_source=ig_tumblr_share&igshid=ii2r7h9v3sex
0 notes
musicmandi98 · 5 years
Photo
Tumblr media
دانلود آهنگ جدید بهادر قوامی به نام لعنت دانلود آهنگ جدید بهادر قوامی به نام لعنت در موزیک مند Download New Song By Bahador Ghavami…
0 notes
Text
فهرست کامل برنامه سازان، آهنگ سازان، نوازندگان و خوانندگان برنامه رادیو گلها
برای بسیاری از ایرانیان، شنیدن نام «رادیو گلها» یادآور روزگاری‌است که طنین دلنشین موسیقی سنتی به همراه صدای دلنواز برترین اساتید آواز ایران، فضای خانه‌ها را سرشار‌می‌کرد. در روزگاری که تلویزیونی در کار نبود و سینما به قدر امروز معمول نبود، تنها دل‌خوشی مردم همین رادیو بود که تازه آن هم در هر خانه‌ای پیدا نمی‌شد.
Tumblr media
"مرتضی محجوبی، مرضیه، ابوالحسن صبا، علی تجویدی، عبدالله جهان‌پناه رضا ورزنده و.. در استودیو گلها، ۱۳۳۶"
رادیو گلها, برنامه گلها, ارکستر گلها, خرید آرشیو رادیو گلها , گلهای رنگارنگ, روشنک, اعضای ارکستر گلها, ارکستر گلها هایده, ارکستر گلها حمیرا, داوود پیرنیا, رادیو گلها موسیقی سنتی ایران,
در آن ایام بود که از تحصیل‌کردگان و سیاستمداران گرفته تا مردم عادی، پیر و جوان همگی با شنیدن نغمه‌ی آغازین برنامه‌ی گلها، دست از هر کاری می‌شستند و پای رادیو می‌نشستند تا شاهکار موسیقی و ادب ایرانی، روح وجان‌شان را تازه کند.
رادیو گلها که از نوروز سال ۱۳۳۵، به کوشش داوود پیرنیا آغاز به‌کار کرد، در طول ۲۳ سال فعالیت خود سهم بزرگی در احیاء و رشد موسیقی اصیل ایرانی داشته‌است. موسیقی ایرانی که تا پیش از آن، تحت تاثیر اوضاع نابسامان سیاسی و تغییر و تحولات اجتماعی می‌رفت تا در قهقراء به فراموشی سپرده‌شود، با آغاز به کار رادیو گلها و سعی و کوشش پیرنیا جان تازه‌ای گرفت.
Tumblr media
"برآورد می شود در طول ده سال سرپرستی داوود پیرنیا بر برنامه گلها، ۱۵۷ گلهای جاویدان، ۴۸۱ گلهای رنگارنگ، ۴۶۵ شاخه گل، ۳۱۲ برگ سبز، و ۶۲ گلهای صحرائی، در جمع ۱۴۳۷ برنامه در رادیو تولید شده باشد."
اوضاع و احوال اجتماعی ایران در دهه‌های ۴۰ و ۵۰ میلادی، موجب شده‌بود تا موسیقی اصیل ایرانی هرچه بیش‌تر از اصالت خود دور شود. در خلال سال‌های جنگ جهانی و پس از آن، اشغال ایران توسط روس‌ها، بریتانیا و امریکا، موجب بوجود آمدن شرایطی شد که فرهنگ ایران و به تبع آن موسیقی نیز متحمل لطمات جبران‌ناپذیری شدند.
پیروی از موسیقی‌های سطح پایین عوامانه‌ی خارجی –به‌خصوص ترکی و عربی‌- توسط خوانندگان و نوازندگان در رادیو  می‌رفت تا موسیقی سنتی اصیل ایرانی را از حافظه‌ی شنیداری مردم پاک‌کند. در این شرایط بود که پیرنیا با سعی و مساعدت عده‌ی کثیری از هنرمندان عرصه‌ی موسیقی، حرکتی را آغاز کرد که نه تنها موجب بازآفرینی و بالندگی موسیقی ایران شد، بلکه به‌ عقیده‌ی بسیاری از صاحب‌نظران تا به امروز همانندی نداشته‌است.
برنامه سازان
داوود پیرنیا
هوشنگ ابتهاج
آذر پژوهش
Tumblr media
"آذر پژوهش (زاده هشتم آذر ۱۳۱۹ در خوی)، از پیشکسوتان رادیو در ایران و یکی از گویندگان برنامه «گلها» است."
خوانندگان
اکبر گلپایگانی
حسین قوامی
عبدالوهاب شهیدی
مرضیه
الهه
محمود محمودی خوانساری
محمدرضا شجریان (سیاوش)
ایرج
سیما بینا
غلامحسین بنان
پوران
عهدیه
پروین
سید جواد ذبیحی
ناصر مسعودی
جمال وفایی
کوروس سرهنگ زاده
عبدالعلی وزیری
هایده
ناهید
آذر
حمیرا
مهستی
نادر گلچین
رؤیا
بانو فرح
عزت روحبخش
یاسمین
خاطره پروانه
ناهید دایی جواد
تاج اصفهانی
شهین دخت شبیری
درویش امیر حیاتی
انوشه
نوذر
سیمین غانم
عماد خراسانی
شمس
جفرودی
منوچهری شیرازی
ادیب خوانساری
رشید مستقیم
رامش
هنگامه اخوان
دادبه
زند وکیل
ملوک ضرابی
نزاکتی
ترانه
بهشته
فریده
رامین
سوگل
زهره
ویگن
آهنگ سازان
علینقی وزیری (کلنل)
جواد بدیع زاده
جواد معروفی
روح‌الله خالقی
پرویز یاحقی
حسین یاحقی
مرتضی محجوبی
همایون خرم
علی تجویدی
حبیب‌الله بدیعی
نصرالله زرین پنجه
محمد میرنقیبی
عبدالحسین برازنده
اسداله ملک
جهانبخش پازوکی
گویندگان
فخری نیکزاد
آذر پژوهش
فیروزه امیرمعزی
روشنک
کوکب پرنیان
شمسی فضل‌اللهی
مولود عاطفی
ایراندخت پرتوی
فروزنده اربابی
سرور پاک نشان
رضا معینی
قدسی رهبری
تقی روحانی
نورالدین ثابت ایمانی
اسداله پیمان
مرتضی اخوت
اکبر مشگین
بهرام سلطانی
امیر نوری
فرخنده
مهناز
1 note · View note
Video
‏‎بزم زیبای استاد جمال وفایی پس از دوازده سال سکوت!! . . . #جمال_وفایی #گلپا #ایرج #بنان #عبدالوهاب_شهیدی #محمودی_خوانساری #ادیب_خوانساری #محمدمنتشری #سیدرضاطباطبایی #قوامی #نادرگلچین #محمدرضاشجریان #شهرام_ناظری #بهرام_گودرزی_خواننده #اقبال_آذر #تاج_اصفهانی ‎‏ https://www.instagram.com/p/BsfbDCPgJsR/?utm_source=ig_tumblr_share&igshid=tva6rskyr2kx
0 notes
zarifhooman-blog · 5 years
Video
تیزر نخست #مستند_پیرنیا_باغبان_گلها درباره موسس #کانون_وکلا موسس #نخستین_برنامه_کودک_رادیو موسس #برنامه_گلها با نکوداشت #داود_پیرنیا #داریوش_پیرنیا #بیژن_پیرنیا #علیرضا_میرعلینقی #جین_لویزون #سیما_بینا #الهه #رامش #پوران #امین_الله_رشیدی #حسین_گل_گلاب #روح_الله_خالقی #غلامحسین_بنان #منصور_نریمان #ر_اعتمادی #گیتی_وزیری_تبار #مرتضی_محجوبی #رضا_محجوبی #علیرضا_پورامید #نواب_صفا #ایرج #گلپا #شاهرخ_نادری #درویش_امیر_حیاتی #حسین_بهزاد #جمال_وفایی #محمد_عرفان_رفیعی #حسن_ناهید #فضل_الله_توکل #عبدالوهاب_شهیدی #روشنک #آذر_حنانه #آذر_پژوهش #فرهاد_فخرالدینی #جواد_ذبیحی #مرضیه #عارف_قزوینی #فیروزه_امیرمعز #فخری_نیکزاد #محمد_ظریف #امیرناصر_افتتاح #حسین_تهرانی #محمد_شیرخدایی #تجویدی #فرهنگ_شریف #گلچین #قوامی #رهی_معیری #شوپن #برنامه_گلها #برنامه_گلهای_رنگارنگ #گلهای_جاویدان #برگ_سبز #گلهای_صحرایی #یک_شاخه_گل #نیکول_الوندی #منوچهر_معین_افشار #رحیم_معینی_کرمانشاهی 🙇‍♀️🙇‍♀️🙇‍♀️🙇‍♀️🙇‍♀️🙇‍♀️ در رادیو آلمان گفتگوی جالبی به صورت پادکست وجود دارد مشتی نمونه خروار،مستندی که حقیر طی پنج سال ساخته ام،به منظور شناخت پیرنیا و راه و منش و پژوهش های دوستان دیگر است.همانند پژوهش های دوستانی که نام بردم یا دیگرانی چون بانو فروغ بهمن پور.. ❤❤❤❤ حال عبارتی از رادیو المان: 🌷🌺🌼⚘🌱☘🌾🌴🌳🥀🌹🍃🍁🌻🌻🌻🌻 گلها برای کمک به زلزله زدگان آذر پژوهش نیز از نخستین برنامه‌ی صحنه‌ای گلهای جاویدان در لندن، به یاد نخستین برنامه صحنه‌ای گلها در ایران می‌افتد."صحنه‌ای شدن این برنامه در لندن مرا به یاد تنها باری می‌اندازد که برنامه گلها در ایران برای کمک به زلزله زدگان به صورت صحنه‌ای اجرا شد. د ر آن برنامه خانم مرضیه هم خواند و تصویرش هم برای نخستین بار نشان داده شد. این برنامه در هتل هیلتون با شرکت الهه، مرضیه، پوران و گویندگی من اجرا شد. زیبایی آن برنامه در ذهن من جاودانه شده است.آقای پیرنیا اصلا یک عارف بود و چشم به چیزهای دیگری داشت. او می‌خواست که این برنامه در همان حال و هوا و در خلوت اجرا شود. البته به همان صورت هم هست. شما گلها را وقتی در خلوت گوش می‌کنید پی به ارزش‌های آن می‌برید. این برنامه علی‌الاصول صحنه‌ای نبود. الان تازه مثل این است که مردم فرصت کردند گلها را کشف کنند." https://www.instagram.com/p/BvoN3GLnvjK/?utm_source=ig_tumblr_share&igshid=kuius8lmeob4
1 note · View note
emergingpakistan · 5 years
Text
نواز لیگ کا یو ٹرن اور پی پی پی کی توبہ
یہ بات درست ہے کہ آرمی ایکٹ کی پارلیمان میں حمایت سے پیپلز پارٹی نے اپنی نظریاتی سیاست کا سفر ختم کر دیا ہے۔ مسلم لیگ کے ’ووٹ کو عزت دو‘ سے یو ٹرن کے بعد پیپلز پارٹی کے پاس موقع تھا کہ وہ اپنے نظریاتی اور جمہوری وجود کو تسلیم کرواتی۔ ملکی سیاست میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرتی اور وفاق کی سیاست میں واپس آتی۔ مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی نے ظاہراً تو کچھ مزاحمت کرنے کی کوشش کی مگر عین وقت پر اس مزاحمت سے بھی توبہ کر لی۔ اس قانون کی پارلیمان سے منظوری کے بعد اب پیپلز پارٹی کے پاس نہ بھٹو کی قربانی کا نعرہ لگانے کا جواز ہے نہ بے نظیر کے خون کا حق اس ترمیم سے ادا ہوا ہے۔ یہ ترمیم پیپلز پارٹی کی سیاست پر ہمیشہ ایک تازیانہ رہے گی۔ ایک طعنہ بنے گی۔
یہ بات بھی درست ہے کہ ن لیگ کی طرح پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں بھی اس حوالے سے اختلاف رائے نظر آیا۔ کچھ لوگوں کی آواز بلند ہوئی، کچھ نے انکار کیا اور کچھ نے رسوائی سے بچنے کا مشورہ دیا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح ایسی جمہوریت پسند آوازوں کو دبا دیا گیا اور سب نے قیادت کے فیصلے پر آمنا و صدقنا کہنے میں ہی عافیت جانی۔ پیپلز پارٹی نے مزاحمت کی مقبول سیاست کرنے کا موقع ضائع کر دیا۔ اس امر کے ملکی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے اور پیپلز پارٹی کے بیانیے پر کیا اثر پڑے گا اس پر بہت بحث ہو چکی ہے۔ میرے لیے اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے خود منہ پر کالک کیوں ملی؟ اس فیصلے کے پیچھے کیا عوامل تھے؟
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ن لیگ یا پیپلز پارٹی کی وجہ سے یہ کام پارلیمان میں ایک ہفتہ تعطل سے ہوا اور یہی ہماری کامیابی ہے۔ یہ اس لیے غلط ہے کہ اس موقع پر ایک ہفتے کا تعطل معنی نہیں رکھتا تھا۔ اس تاریخی موقع پر جمہوری رویہ معنی رکھتا تھا۔ اس ترمیم کی تاخیر اہم نہیں تھی اس کی تادیب عوام کے پیش نظر تھی۔ تو یہ ایک ہفتے کی تاخیر یا تعطل کوئی کارنامہ نہیں۔ پیپلز پارٹی کی اس حمایت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سنہ 2013 کے بعد کی پیپلز پارٹی کو سمجھیں۔ سنہ 2013 کے بعد پیپلز پارٹی ایک صوبے تک محدود ہو گئی اور اندرون سندھ سلطنت ہی ان کی معراج رہا۔ پنجاب جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا وہاں رفتہ رفتہ پیپلز پارٹی مفقود ہوتی چلی گئی۔ 
گذشتہ انتخابات میں بھی پنجاب سے پیپلز پارٹی کو امیدوار تلاش کرنے میں دشواری پیش آئی۔ اس سے پہلے جو ضمنی انتخابات ہوئے ان میں پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی ضمانتیں تک ضبط ہوئی ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ایک طبقہ پیپلز پارٹی کی شہ پر مضبوط ہوتا رہا مگر یہ طبقہ اب کسی بھی پارٹی کا نہیں رہا۔ یہ پنچھی دانا دنکا چگ کر اب کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ ان کا کوئی بھی ٹھکانہ ہو سکتا ہے اس لیے انہیں پیپلز پارٹی کے سپورٹرز کہنا مناسب نہیں ہے۔ اب بھی پیپلز پارٹی پنجاب میں اگر سانس لے رہی ہے تو وہ دو لوگوں کی وجہ سے ہے۔ قمر الزماں کائرہ اور مصطفی نواز کھوکر نے پنجاب میں اس مشکل کام کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔ لیکن پورے صوبے میں ایک ملکی سیاسی پارٹی کو زندہ رکھنے کے لیے دو باہمت لوگ ناکافی ہیں۔
پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا المیہ 2008 سے لے کر 2013 تک کا دور حکومت ہے۔ اس زمانے کی داستانیں سن کر لوگ کانپ جاتے ہیں۔ اس زمانے میں ہمیں پتہ چلا کہ پیپلز پارٹی ہر منصوبے میں کرپشن کرتی ہے۔ گرچہ اب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ مسئلہ کرپشن کا نہیں گورننس کا تھا۔ کرپشن کے بے بنیاد الزامات تو سیاست دانوں پر لگتے ہی رہتے ہیں۔ ن لیگ نے کرپشن کے تمام تر الزامات کے باوجود گورننس بہتر کی۔ لیکن پیپلز پارٹی گورننس کے معاملے میں باکل ناکام رہی۔ اس زمانے میں ملک کی جو حالت زار تھِی وہ پیپلز پارٹی کے ووٹر کو منفور کرنے کے لیے کافی تھی۔ اسی طرح سندھ میں بھی گورننس کا یہی حال ہے۔ پنجاب والے گورننس کے ثبوت کے طور پر لاہور کی مثال دے سکتے ہیں۔ سندھ والے نہ کراچی کو مثال بنا سکتے ہیں نہ لاڑکانہ کو اپنا کارنامہ بتا سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو کا شمار ان لیڈروں میں ہوتا ہے جنہوں نے گذشتہ کچھ عرصے میں سب سے درست طرز بیان اختیار کیے رکھا۔ جمہوریت کے معاملے سے لے کر انسانی حقوق کی پاس داری تک، میڈیا کی آزادی سے لے کر ممبران اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر تک، بین الا قوامی تعلقات عامہ سے لے کر آصف زرداری کی علالت تک ہر معاملے میں بلاول کا بیانیہ درست رہا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بلاول کی قیادت ابھی تک پیپلز پارٹی کے تلخ ماضی سے آزاد نہیں ہوئی۔ اب بھی فیصلے کرنے میں بلاول کو دقت پیش آتی ہے۔ اب مسئلہ دو طرفہ ہے ایک طرف تو بلاول پارٹی کے اندر جو چاہتے ہیں کر نہیں سکتے دوسرا ان کا بیانیہ صرف تھیوری ہے۔ تھیوری سے سارے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی خدشہ ہے کہ پیپلز پارٹی پریکٹیکل میں فیل ہو جائے گی۔
موجودہ صورت حال میں پیپلز پارٹی کا سمجھوتہ ان عوامل کو مد نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ سیاست دان وہ ہوتا ہے جو آنے والے وقت کا پہلے سے تخمینہ لگا لے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے بہت سے جیالے وفاقی اور صوبائی حکومت میں پی ٹی آئی کے جھنڈے تلے جمع ہیں۔ پیپلز پارٹی مزاحمت کے بیانِیے کو آگے لے کر چل سکتی تھی مگر کچھ حالات اور کچھ اشاروں نے یہ بات سمجھائی کہ یہ مزاحمت کا نہیں مفاہمت کا وقت ہے۔ وفاق کی سیاست میں واپس آنے کا یہی لمحہ ہے۔ وہ جماعت جو اندرون سندھ تک محدود ہو چکی ہے اس کو زندہ کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ آئندہ آنے والے چند ماہ بتائیں گے کہ پیپلز پارٹی نے اس تاریخی موڑ پر یو ٹرن لے کر اپنی ساکھ کو قربان کر کے کیا اپنی جماعت کو بچا لیا ہے؟ کیا اس فیصلے کے ثمرات جون جولائی تک پیپلز پارٹی تک پہنچ پائیں گے؟ کیا پیپلز پارٹی صوبے سے نکل کر وفاق کی سطح پر ایک مضبوط سیاسی کردار ادا کر سکے گی؟ اس کے لیے آنے والے وقت کا انتظار کیجیے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ کھیل اب اختتامی لمحات میں داخل ہو چکا ہے کسی وقت بھی آخری سیٹی بج سکتی ہے۔
عمار مسعود
بشکریہ اردو نیوز
1 note · View note
telegramchannel · 3 years
Text
کانال تولید و پخش عمده پوشاک قوامی
کانال تولید و پخش عمده پوشاک قوامی
🌹آدرس : تهران ، میدان خراسان ، به سمت تیردوقلو 👈 ارسال از طریق باربری _ تیپاکس و پست بصورت پسکرایه انجام میشود . 👉 ☎️ تلفن تماس : ۰۹۰۱۸۹۶۶۶۳۱ آیدی ثبت سفارش : @L_mofidi افزودن کانال
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
omega-news · 3 years
Text
چینی، آٹا، منی لانڈرنگ کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانا اولین ترجیح
چینی، آٹا، منی لانڈرنگ کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانا اولین ترجیح
چئیرمین نیب جاوید اقبال نے کہا ہے کہ چینی، آٹا، منی لانڈرنگ کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانا اولین ترجیح ہے، گزشتہ 3 سال میں 535 ارب روپے کرپٹ عناصر سے برآمد کئے۔ نیب کی کارکردگی کو معتبر قومی اور بین الا قوامی اداروں نے سراہا، خصوصاَ َ ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل پاکستان، پلڈاٹ اور مثال پاکستان نے نیب کی کارکردگی کو سراہا، جو نیب کیلئے اعزاز ہے۔ چئیرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت اجلاس میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amir1428 · 4 years
Photo
Tumblr media
۶ اسفندماه زادروز #هوشنگ #ابتهاج شاعر ایرانی #امیر_هوشنگ_ابتهاج (زادهٔ ۶ اسفند ۱۳۰۶ در رشت) متخلص به، ه. ا. سایه، شاعر ایرانی است. امیر هوشنگ ابتهاج روز یکشنبه ۶ اسفند ۱۳۰۶ در #رشت متولد شد. پدرش #آقاخان_ابتهاج از مردان سرشناس رشت و مدتی رئیس بیمارستان پورسینای این شهر بود. برادران ابتهاج ((#غلامحسین_ابتهاج و #ابوالحسن_ابتهاج))عموهای او بودند. هوشنگ ابتهاج دوره تحصیلات دبستان را در رشت و دبیرستان را در تهران گذراند و در همین دوران اولین دفتر شعر خود را به نام نخستین نغمه‌ها منتشر کرد. ابتهاج در جوانی دلباخته دختری ارمنی به نام [گالیا] شد که در رشت ساکن بود و این عشق دوران جوانی دست‌مایه اشعار عاشقانه‌ای شد که در آن ایام سرود. بعدها که ایران غرق خون‌ریزی و جنگ و بحران شد، ابتهاج شعری به نام کاروان (دیرست گالیا…) با اشاره به‌همان روابط عاشقانه‌اش در گیرودار مسائل سیاسی سرود. ابتهاج مدتی به‌عنوان مدیر کل شرکت دولتی سیمان تهران به‌کار اشتغال داشت. منزل شخصی سایه که از منازل سازمانی شرکت سیمان است در سال ۱۳۸۷ با نام خانه ارغوان به ثبت سازمان میراث فرهنگی رسیده‌ است. دلیل این نام‌گذاری وجود درخت ارغوان معروفی در حیاط این خانه است که سایه شعر معروف ارغوان خود را برای آن درخت گفته است. سایه در سال ۱۳۴۶ به اجرای شعرخوانی بر آرامگاه حافظ در جشن هنر شیراز می‌پردازد که باستانی پاریزی در سفرنامه معروف خود (از پاریز تا پاریس) استقبال شرکت کنندگان و هیجان آن‌ها پس از شنیدن اشعار سایه را شرح می‌دهد و می‌نویسد که تا قبل از آن هرگز باور نمی‌کرده است که مردم از شنیدن یک شعر نو تا این‌حد هیجان زده شوند. ابتهاج از سال ۱۳۵۰ تا ۱۳۵۶ سرپرست برنامه گل‌ها در رادیوی ایران (پس از کناره‌گیری داوود پیرنیا) و پایه‌گذار برنامه موسیقایی گلچین هفته بود. تعدادی از غزل‌ها، تصنیف‌ها و اشعار نیمایی او توسط موسیقی‌دانان ایرانی نظیر محمدرضا شجریان، شهرام ناظری و حسین قوامی اجرا شده است. تصنیف خاطره‌انگیز تو ای پری کجایی و تصنیف سپیده (ایران ای سرای امید) از اشعار سایه است. سایه بعد از حادثه میدان ژاله (۱۷ شهریور ۱۳۵۷) به‌همراه محمدرضا لطفی، محمدرضا شجریان و حسین علیزاده، به‌نشانه اعتراض از رادیو استعفا داد. از مهم‌ترین آثار هوشنگ ابتهاج تصحیح او از غزل‌های حافظ است که با عنوان «حافظ به سعی سایه» نخستین بار در ۱۳۷۲ توسط نشر کارنامه به‌چاپ رسید و بار دیگر با تجدید نظر و تصحیحات تازه منتشر شد.(ادامه کامنت اول) https://www.instagram.com/p/CLsM0wKnSRO/?igshid=irte89aj9a1y
2 notes · View notes
skaziho · 4 years
Photo
Tumblr media
نارنجستان قوام رو شاید اکثرا دیده باشین یا اسمشو شنیده باشین اما در ظلع غربی نارنجستان قوام، عمارتی زیبا قرار دارد که به دلیل سکونت زینت‌الملک قوامی، دختر قوام‌الملک چهارم، به این نام معروف است. این عمارت که به فاصلهٔ یک کوچه با خانه قوام قرار دارد و به وسیلهٔ یک راه زیرزمینی با آن در ارتباط است، در حقیقت اندرونی خانهٔ قوام و محل رفت‌وآمد محارم بود.  . دیدن این خوته به شدت توصیه میشه، پر از معرق و نقاشی های حیوانات و هنرهای ایرانی👏😍 . . . #نارنجستان_قوام . #خانه_زینت_الملک . . #شیراز . . (at شیرازگردی) https://www.instagram.com/p/CLKHItVgc6P/?igshid=15x90m9i0df2m
0 notes
kalemehtv · 4 years
Photo
Tumblr media
اجلال قوامی: سریال «خودکشی کودکان» ادامه دارد و این داستان تلخ تمامی ندارد. در جهان کرونایی و این روزهای بیم و امید آنچه نفس ها را تنگ کرده نحیف شدن طبقه متوسط و ناتوانی طبقات پایین از برآورده ساختن نیازهای حداقلی خود.کرونا نفس ها را تنگ‌کرده و دغدغه معیشت هم تنگ تر.
0 notes