Tumgik
#لیبیا
urduchronicle · 1 year
Text
لیبیا سے اٹلی کے لیے پروازیں 10 سال بعد بحال
لیبیا کے دارالحکومت سے روم جانے والا ایک طیارہ ہفتے کے روز روانہ ہوا، لیبیا نے یورپی یونین کی پابندی کی وجہ سے تقریباً ایک دہائی کی معطلی کے بعد اٹلی کے لیے پروازیں دوبارہ شروع کی ہیں۔ یورپی یونین نے 2014 میں لیبیا کی فضائی کمپنیوں کی پروازوں کو روک دیا تھا اور ان پر رکن ممالک کی فضائی حدود میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی، کیونکہ جنگ زدہ شمالی افریقی ملک شدید جنگ کا شکار تھا۔ ہفتہ کی پرواز نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Text
AFRICAN FLAG-DESIGN TOURNAMENT
ROUND 2 - 6 Matches (Regional Showdowns)
Vote for the best-designed national flag in Africa! Links to the individual matches are below the bracket image
Tumblr media
Link to tournament masterpost
MATCH 1 - 🇸🇳 Sénégal 🇧🇫 Burkina Faso 🇬🇭 Ghana
MATCH 2 - 🇱🇾 لیبیا/Libya 🇲🇦 المغرب/Morocco 🇲🇷 موریتانیا/Mauritania
MATCH 3 - 🇨🇻 Cabo Verde 🇳🇬 Nigeria 🇸🇹 São Tomé e Príncipe
MATCH 4 - 🇪🇷 إرتريا/ኤርትራ/Eritrea 🇰🇪 Kenya 🇸🇨 Sesel/Seychelles
MATCH 5 - 🇸🇸 South Sudan 🇷🇼 Rwanda 🇦🇴 Angola
MATCH 6 - 🇲🇼 Malaŵi 🇧🇼 Botswana 🇿🇦 Mzansi/South Africa
37 notes · View notes
apnabannu · 23 days
Text
وہ فوجی بغاوت جس کے بعد لیبیا کے شاہ کو اقتدار سے بے دخل کر کے معمر قذافی حکمراں بنے
http://dlvr.it/TCh74r
0 notes
googlynewstv · 1 month
Text
پاکستان کے ڈیفالٹ کا بیانیہ بنانے والے آج کہاں ہیں؟آرمی چیف
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کاکہنا ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ کا بیانیہ بنانے والے آج کہاں ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق  سپر سالار جنرل سید عاصم منیر کا نوجوانان پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ  نوجوانوں کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔آزاد ریاست کی اہمیت جاننی ہے تو لیبیا، شام، کشمیر، اور غزہ کے عوام سے پوچھو۔ ‎نوجوانوں کو مخاطب کرتے…
0 notes
pakistantime · 10 months
Text
الجزیرہ کا کامیاب تجربہ
Tumblr media
غزہ کی لڑائی میں ٹی وی چینل الجزیرہ اسرائیل، امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے نیا چیلنج بن گیا ہے۔ امریکا کے وزیر خارجہ الجزیرہ کی حقائق سے بھرپور رپورٹنگ سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ انھوں نے قطر کی حکومت پر زور دیا ہے کہ الجزیرہ خطہ میں انتشار پھیلا رہا ہے۔ اس بناء پر اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اسرائیل نے غزہ میں الجزیرہ کے بیورو آفس کو تباہ کر دیا ہے۔ غزہ میں الجزیرہ کے بیورو چیف کے گھر پر حملے میں اس کے خاندان کے افراد جاں بحق ہوئے ہیں ۔ الجزیرہ کے قیام کی کہانی خاصی دلچسپ ہے۔ لندن میں بی بی سی کی عالمی سروس کے فیصلہ ساز ادارہ کے افسروں نے مشرق وسطیٰ کو خصوصی کوریج دینے کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ سعودی عرب سے بی بی سی کا عربی چینل شروع کیا جائے، یوں اس چینل کے قیام کے لیے بی بی سی میں کام کرنے والے عربی صحافیوں کو منتخب کیا گیا مگر اس وقت سعودی عرب میں ایک شاہانہ نظام تھا۔ جدہ سے شایع ہونے والے اخبارات اور ٹیلی وژن چینل سعودی حکومت کی ہدایات پر عملدرآمد کرنے کے پابند تھے۔ بی بی سی نے اپنی آزادانہ پالیسی کو تبدیل کرنے پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکار کیا، یوں یہ پروجیکٹ ابتدائی مرحلہ میں بند ہو گیا۔
اس زمانہ میں قطر کے امیر کے سعودی عرب سے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ قطر نے ایران سے تعلقات قائم کر لیے تھے اور سرکاری ملکیت میں 1996 میں الجزیرہ کے عرب چینل کا آغاز ہو گیا۔ جب بی بی سی کا عربی چینل کا پروجیکٹ بند ہوا تو 2006 میں حکومت نے الجزیرہ کا انگریزی ایڈیشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا، یوں بی بی سی کے پروجیکٹ سے فارغ ہونے والوں کو الجزیرہ کے انگریزی چینل کو منظم کرنے کا موقع ملا اور دوحہ سے اس کی نشریات شروع ہوئیں۔ یوں مشرقِ وسطیٰ کا پہلا آزاد ٹی وی چینل وجود میں آیا۔ الجزیرہ نے یورپ، امریکا اور مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک بشمول اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب، اسلام آباد نئی دہلی وغیرہ میں اپنے بیورو آفسز قائم کیے۔ الجزیرہ نے افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ کے معاملات پر خصوصی توجہ دی۔ پاکستان کے ایبٹ آباد میں مقیم سعودی منحرف اسامہ بن لادن پر امریکی میرین دستوں کے آپریشن، اسامہ کی ہلاکت، کابل شہر پر امریکا اور اتحادیوں کے حملے جیسے اہم موضوعات پر خصوصی توجہ دی گئی۔ القاعدہ کی سرگرمیوں، القاعدہ کے قائدین کی افغانستان اور پاکستان میں گرفتاریوں کے بارے میں سب سے پہلے الجزیرہ کے رپورٹرز نے دنیا کو آگاہ کیا اور افغانستان میں امریکا اور اتحادیوں کی بمباری نے مساجد اور گھروں میں مقیم افراد کو نشانہ بنایا۔
Tumblr media
امریکا اور اتحادی فوج کے تعلقات عامہ کے افسروں نے مرنے والوں کو طالبان دہشت گرد قرار دیا مگر الجزیرہ کی نشریات سے پوری دنیا کو پتہ چلا کہ مرنے والے بے گناہ تھے، یوں امریکی حکومت کو الجزیرہ کی آزادانہ پالیسی پر اعتراضات ہونے لگے۔ الجزیرہ نے اپنے قیام کے بعد سے فلسطینیوں کی جدوجہد کو بہت زیادہ کوریج دی۔ لبنان، اردن، مغربی کنارہ اور غزہ میں حماس اور حزب ﷲ کی کارروائیوں اور اسرائیل میں ان کارروائیوں کے اثرات کے بارے میں الجزیرہ نے معروضی رپورٹنگ کر کے ایسے بہت سے حقائق کو آشکار کیا جن کو مغربی میڈیا Kill کر دیتا تھا، یوں سب سے پہلا اعتراض اسرائیل کو ہوا اور اسرائیل کی حکومت نے تل ابیب میں قائم الجزیرہ کے بیورو کو پہلے ہی بند کر دیا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں 2010 میں ایک عوامی جدوجہد شروع ہوئی جس کو Arab Spring کا نام دیا گیا۔ یہ عوامی جدوجہد تیونس سے شروع ہوئی اور مصر اور لیبیا تک پھیل گئی۔ سعودی عرب بھی اس عوامی احتجاج سے محفوظ نہ رہ سکا۔ سعودی عرب میں 2011 میں حکومت مخالف احتجاج ہوئے۔ الجزیرہ نے ان تمام واقعات کو بہت تفصیل سے اپنے ناظرین کے لیے ٹیلی کاسٹ کیا۔ 
جب سعودی عرب کو بھی الجزیرہ کی نشریات پر اعتراض ہو گیا اور سعودی عرب اور قطر کے درمیان دوبارہ مفاہمت کے لیے بات چیت ہوئی تو سعودی حکومت نے قطر کے سامنے جو مطالبات رکھے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ الجزیرہ پر پابندی عائد کی جائے۔ قطر کی حکومت نے اس مطالبہ کو نہیں مانا البتہ الجزیرہ کی پالیسی میں کچھ تبدیلی کے رجحا��ات کی عکاسی نظر آنے لگی۔ جب حماس کے جہادیوں نے اسرائیل پر حملہ کیا اور پھر اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند بم باری شروع کر دی تو اسرائیل نے اس بمباری میں خاص طور پر بچوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ میں فرائض انجام دینے والے 16 کے قریب صحافیوں کو قتل کیا۔ گزشتہ ہفتے 17 اکتوبر کو اسرائیل کی فوج نے الحئی اسپتال پر براہِ راست حملہ کیا۔ الحئی اسپتال جس کو دار الشفاء بھی کہا جاتا ہے غزہ کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔ اسرائیل کے حملے میں 500 کے قریب مریض جاں بحق ہوئے جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ مرنے والوں میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل عملہ بھی شامل تھا۔
الجزیرہ نے اس اسپتال پر حملے کو تفصیلی طور پر کور کیا اور اس رپورٹنگ میں واضح شواہد سے ثابت کیا گیا کہ اسرائیل کے راکٹ نے الشفاء اسپتال کو تباہ کیا۔ یہ اسرائیل کی غزہ میں سب سے بڑی کارروائی تھی جس سے پوری دنیا میں اس واقعے پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ سب سے پہلے اسرائیلی میڈیا نے الزام لگایا تھا کہ یہ راکٹ اسرائیل کا نہیں تھا بلکہ یہ راکٹ حماس کے فدائین نے پھینکا تھا۔ مغربی میڈیا نے اس بیانیہ کو نشر کرنا اور شایع کرنا شروع کیا۔ امریکا کے معروف نشریاتی اداروں فوکس اور سی این این وغیرہ نے بھی یہ الزام لگایا کہ اسپتال پر گرنے والا راکٹ اسرائیلی فوج کا نہیں تھا، یہ حماس کا راکٹ تھا۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن بھی اسرائیل کے اس پروپیگنڈے کا شکار ہوئے۔ انھوں نے دورہ اسرائیل کے دوران یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا کہ الشفاء اسپتال پر حملے میں اسرائیل ملوث نہیں، یوں الجزیرہ کو ایک متعصب چینل قرار دینے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ 
اس واقعے کے بارے میں آزادانہ تحقیقات نیو یارک ٹائمز کے سامنے آنے والی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ ان کے ماہرین نے تمام شہادتوں کے جائزے کے بعد حملے کے بارے میں وڈیوز کا بغور جائزہ لیا اور ماہرین نے اپنی رپورٹ میں اسرائیل کے اس دعویٰ کو مسترد کر دیا کہ حماس کے راکٹ سے اسپتال میں تباہی ہوئی۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ جو وڈیوز ٹیلی کاسٹ کی گئی ہے، اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اسپتال پر گرنے والا میزائل حماس یا اسلامی جہادی گروپوں نے پھینکا تھا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان وڈیوز کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ یہ راکٹ اسرائیل نے نہیں پھینکا۔ برطانیہ کے نشریاتی ادارے، بی بی سی نے جو تحقیقات کی تھیں ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ آزادانہ ذرایع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ اسرائیل نے الشفاء اسپتال پر حملہ کے بارے میں وڈیوز پیش کی ہیں ان کی تصدیق نہیں ہوتی۔ الجزیرہ مسلسل دباؤ میں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ جہاں بیشتر ممالک میں اس وقت بادشاہتیں ہیں، کچھ ممالک میں شخصی آمریتیں اور کچھ میں فوجی حکومتیں ہیں اس ماحول میں الجزیرہ کا ایک کامیاب تجربہ ہے۔ الجزیرہ کے اس آزادانہ کردار کو اگر باقی ممالک بھی اپنا لیں تو اسرائیل اور مغربی پروپیگنڈے کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
حماس، عرب ممالک، ایران اور ترکیہ
Tumblr media
یہ 29؍ جنوری 2009ء کی بات ہے وزیراعظم ایردوان اور اسرائیل کے صدر شمعون پیرز نے سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس میں منعقد ہونے والے عالمی اقتصادی فورم میں حصہ لیا۔ اس عالمی اقتصادی فورم میں ماڈریٹر نے اسرائیلی صدر کو 25 منٹ تک اظہار خیال کرنے اور ایردوان کو صرف بارہ منٹ بولنے کی اجازت دی جس پر اردوان نے ماڈریٹر کو کھری کھری سنائیں اور پھر شمعون پیرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ آپ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں لیکن آپ کی آواز اور ٹون بہت بلند ہے جو مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے اس موقع پر ماڈریٹر سے مزید One minute دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیلی فوج اور وزرائے اعظم کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کو تسلیم کرنے سے متعلق بیانات کی قلعی کھول کر رکھدی اور دنیا کے سامنے لائیو نشریات میں اسرائیل کو بے نقاب کیا جس پر ایردوان عالمِ اسلام میں نڈر اور دلیر لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ اس صورتِ حال کے بعد عرب ممالک طویل عرصے تک صدر ایردوان سے ملنے سے کتراتے رہے جبکہ فلسطینی عوام نے انہیں اپنا ہیرو قرار دے دیا اور اس وقت سے لے کر کچھ عرصہ قبل تک (جب تک ترکیہ نے دوبارہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہ کر لیے) صدر ایردوان اور فلسطینی رہنماؤں محمود عباس اور اسماعیل حنیہ کے درمیان بڑی گاڑھی چھنتی تھی اور دونوں لیڈر ترکیہ میں ہونے والے اعلیٰ سطحی مذاکرات میں خصوصی طور پر شرکت کرتےتھے۔ 
اگرچہ یہ تعلقات موجودہ دور میں بھی قائم ہیں لیکن یہ تعلقات ماضی والی گرمجوشی سے کچھ حد تک عاری دکھائی دیتے ہیں۔ شاید اس کی بڑی وجہ ترکیہ کا ان دنوں اقتصادی لحاظ سے مشکلات میں گھرا ہونا ہے۔ ترکیہ اس وقت ایسا کوئی بیان دینے سے گریز کر رہا ہے جس کے نتیجے میں ڈالر ایک بار پھر راتوں رات آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے، اس لیے حکومت اب نئی مالی پالیسی پر بڑی سختی سے عمل درآمد کررہی ہے۔ صدر ایردوان نے حماس کے حملے کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ القدس شہر ہمارے لیے انتہائی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ترکوں نے 4 صدیوں سے زائد عرصے تک القدس کی خدمت کرنے کا اعزاز حاصل کیے رکھا اور وہاں پر آباد تمام مذاہب کے افراد کیلئے رواداری اور اعلیٰ ظرفی کا رویہ اپنایا، یہاں تک کہ اس وقت کے ترک حکمران سلطان سلیمان قانونی نے الخلیل گیٹ پر’’لا الہ الا اللہ، ابراہیم خلیل اللہ ‘‘ کی عبارت کندہ کروا کر القدس کی بھرپور خصوصیات کو اجاگر کیا تھا تاہم خطے سے عثمانیوں کے انخلا کے بعد القدس پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے حقوق کی اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کے باوجود خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔
Tumblr media
صدر ایردوان نے کہا کہ مسئلہ فلسطین خطے کے تمام مسائل کی جڑ ہے اور جب تک یہ مسئلہ منصفانہ طریقے سے حل نہیں کر لیا جاتا خطے میں امن قائم کرنا ممکن نہیں۔ اس مسئلے کا واحد حل دو ریاستی حل ہے جس میں تاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔ انہوں نے اس موقع پر آگ پر تیل چھڑکنے کی بجائے تحمل سے کام لینے کی ضرورت پر زور دیا۔ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں ترکیہ میں اقتصادی مشکلات کی وجہ سے ترکیہ اس باراسرائیل کے خلاف پہلے جیسا جارحانہ رویہ اختیار کرنے سے گریز کررہا ہے۔ اگر ترکیہ کے اقتصادی حالات بہتر ہوتے تو شاید ترکیہ کی جانب سے حماس کو ترک ڈرونز فراہم کیے جاسکتے تھے جیسا کہ ترکیہ اس سے قبل یہ ڈرونز آذربائیجان کے علاقے قارا باغ کو آزاد کروانے اور لیبیا میں مخالف ملیشیا گروپوں کے خاتمے کیلئے استعمال کر چکا ہے لیکن ان حالات میں ایسا ممکن نہیں۔ جہاں تک عرب ممالک کا تعلق ہے یہ تمام ممالک اب فلسطین اور اسرائیل سے متعلق اپنی پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں کر چکے ہیں اور وہ فلسطین کو اپنے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لحاظ سے بہت بڑی رکاوٹ بھی سمجھتے ہیں۔ اسی لیے امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے بیان دیتے ہوئے ایران پر سعودی عرب اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کو ڈائنا مائٹ سے اُڑانے کی کوشش قرار دیا ہے اور حماس پر ایران کا آل�� کار بننے کا الزام عائد کیا ہے۔
ایران، اسرائیل کو اپنا ازلی دشمن قرار دیتا ہے اور اس نے اس بار حزب اللہ سے زیادہ حماس کی مدد کی ہے اور اس نے حماس کو ٹریننگ فراہم کرتے ہوئے اس پلان کو آخری وقت تک خفیہ رکھا اور دنیا کی سب سے بڑی انٹیلی جنس سروس موساد جسے دنیا بھر میں اپنے خفیہ منصوبوں کو عملی جامہ پہننے کا گھمنڈ تھا، یہ گھمنڈ خاک میں ملا دیا۔ اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار حماس کے نوجوانوں نے موٹر سائیکلز، پیرا گلائیڈرز اور کشتیوں کے ذریعے بیک وقت حملے کرتے ہوئے اسرائیل کی سرزمین کے اندر ہی اسے آن دبوچا ہے۔ غزہ کو کہیں دیوار اور کہیں خاردار تار لگا کر چاروں طرف سے محصور کر دیا گیا ہے اور جگہ جگہ اسرائیلی چوکیاں بھی قائم ہیں۔ فلسطینی جانبازوں کے حوصلے ہمیشہ بلند رہے ہیں، انھوں نے خالی ہاتھ، بے سروسامان ہونے کے باوجود بارہا پتھروں سے اسرائیلی ظالمانہ بمباری کا مقابلہ گھریلو ساخت کے ہتھیاروں سے کیا ہے۔ سوچئے، چند منٹ کے اندر اسرائیل پر پانچ ہزار میزائلوں کی برسات کوئی معمولی بات ہے ؟ یہ مزائل کہاں سے آئے اور ایک اوپن ائیر جیل کی حیثیت رکھنے والے غزہ کے ایک سو مقامات سے چند ایک منٹ کے اندر بیک وقت کیسے داغے گئے اور دنیا کی بہترین انٹیلی جنس سروس موساد کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔
ڈاکٹر فر قان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ    
0 notes
anarkistan · 1 year
Text
خۆپیشاندان و ناڕەزایی لە لیبیا
19/03/2023 خۆپیشاندەرانی لیبیا لە توڕەییدا بەهۆی مردنی زیاتر لە ١٣ هەزار کەس و سەرنگوونبوونی ٢٠ هەزاری دیکە بەهۆی لافاوەکەی دێرنا ماڵی سەرۆکی شارەوانی، عەبدولمەنام ئەلغەیسی، لیبیان ئاگردا. دوێنی، دووشەمە، بە هەزاران کەس خۆپیشاندانیان کردووە و داوای لێکۆڵینەوەی نێودەوڵەتی ‘بەپەلە’یان کردووە سەبارەت بەو کارەساتەی کە هەزاران کەسی کوشتووە. دواتر لە ئێوارەدا خۆپیشاندەران لە دەرەوەی مزگەوتی سەحابە،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 1 year
Text
فوج مجھ سے اہم والا عمران کھو گیا
Tumblr media
عمران خان رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ افسوس کی بات ہے کہ وہ لگاتار فوج اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کو دیئے جانے والے اپنے انٹرویوز میں ایک طرف اُنہوں نے آرمی چیف کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے تو دوسری طرف اُنہوں نے مئی 9 کے سانحہ پر ایک نیا بیانیہ تشکیل دیتے ہوئے کہا کہ وہ تو False Flag Operation تھا، جس کا مقصد اُنہیں فوجی عدالت کے ذریعے سزا دلوا کر جیل میں ڈالنا تھا۔ پہلے اُنہوں نے کہا یہ ایجنسیوں کا کام ہے پھر کہا اُن کے ورکرز نے اُن کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری کا منظر دیکھ کر یہ ردعمل دیا۔ جو تباہی اور گھنائونا کام 9 مئی کو ہوا تھا اُس کے بارے میں جاننے کے بعد بھی اُنہوں نے ایک بار یہ دھمکی دی تھی کہ اگر اُنہیں پھر گرفتار کیا گیا تو پھر ردعمل آئے گا۔ تحریک انصاف نے جناح ہاؤس حملہ میں شامل ایک شخص کو ایجنسیوں کا آدمی بنا کر پیش کیا تھا، وہ بھی آج پکڑا گیا اور تحریک انصاف کا ہی ووٹر، سپورٹر نکلا۔ جو کچھ 9 مئی کو ہوا اُس پر اُنہیں شرمندگی ہونی چاہئے تھی، اُس پر اُنہیں معافی مانگنی چاہئے تھی، اُس کی بغیر کسی لگی لپٹی کے سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنی چاہئے تھی لیکن یہاں تو کھیل ہی نیا کھیلا جا رہا ہے۔ 
اب تو حدہی ہو گئی ہے کہ امریکہ میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے پاکستانی، جن کے پاس امریکی نیشنلٹی ہے، وہ عمران خان کی محبت میں پاکستان کے خلاف ہی سرگرم ہو گئے ہیں۔ ان افراد میں ایک ایسا شخص بھی شامل ہے جو خود کو عمران خان کا امریکہ میں فوکل پرسن کہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کا امریکہ میں سابق صدر ہونے کا بھی دعویٰ کرتا ہے۔ امریکی کانگریس اراکین کے ذریعے پاکستان پر امریکہ کی طرف سے دباو ڈالنے کیلئے کوشش کی جا رہی ہے لیکن جو بات بہت سنگین ہے وہ یہ کہ یہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ امریکہ میں ایک قانون سازی کروائی جائے جس کا مقصد امریکہ کی طرف سے پاکستان کی فوج کی کسی بھی قسم کی امداد کو انسانی حقوق کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ یہ نہیں معلوم کہ عمران خان کے کہنے پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے یا پی ٹی آئی امریکہ یہ سب کچھ اپنی تئیں کر رہی ہے لیکن ابھی تک عمران خان یا تحریک انصاف کی طرف سے اس اقدام سے نہ تو لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کی مذمت کی گئی ہے۔ 
Tumblr media
جو کوئی بھی اس حرکت کے پیچھے ہے اُسے امریکہ کا ماضی یاد رکھنا چاہئے جس نے جمہوریت، انسانی حقوق، حقوق نسواں جیسے بہانے تراش کر عراق، لیبیا، افغانستان اور شام وغیرہ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ 2011-12 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران جو میموگیٹ اسکینڈل سامنے آیا تھا اُس میں امریکی حکومت کی جانب سے پاک فوج پر دبائو ڈالنے کی بات کی گئی تھی۔ اُس میموگیٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ماتحت ایک کمیشن بنا جس نے یہ تصدیق کی کہ میمو ایک حقیقت تھی، اُس میموگیٹ کے مقابلے میں اِس وقت امریکہ میں مقیم تحریک انصاف کے لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کہیں زیادہ سنگین ہے۔ وہ تو کھل کر پاکستان پر دباو ڈالنے اور فوجی امداد پر پابندیاں لگانے کی تجویز دے رہے ہیں اور ایک ایسا ماحول پیدا کر رہے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ تحریک انصاف تو امریکہ کی مداخلت کے خلاف تھی اور اسی لئے Absolutely not کا نعرہ بھی بلند کیا تھا لیکن اپنے سیاسی مفاد کیلئے اُسی امریکہ کواب پاکستان پر دباو ڈالنے، پاکستان کی امداد پر پابندیاں لگانے اور یہاں مداخلت کرنے کی کھلی دعوت دے رہی ہے! 
عمران خان تو کہتے تھے کہ پاکستانی فوج اُن سے زیادہ اہم ہے لیکن اب نہ پاکستان کا، نہ ہی پاکستانی فوج کا مفاد دیکھا جا رہا ہے۔ عمران خان نہیں تو کچھ بھی نہیں والی پالیسی نہیں چلے گی۔ کوئی بھی پاکستانی رہنما چاہے وہ نواز شریف ہوں، آصف علی زرداری یا عمران خان، پاکستان سے اہم نہیں۔ اور عمران خان کے ماضی کے بیانات کے مطابق پاک فوج پاکستان کیلئے انتہائی اہم ہے اور اگر پاک فوج کمزور ہو جائے یا نہ ہو تو پاکستان کی سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ کوئی عمران خان کو ماضی میں دیئے گئے ان کے یہ بیانات یاد دلائے اور احساس دلوائے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، جو کچھ تحریک انصاف نے 9 مئی کو کیا اور جو کچھ تحریک انصاف امریکہ میں کر رہی ہے، کیا وہ پاک فوج کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں۔؟ جو عمران خان کہتے تھے کہ فوج مجھ سے زیادہ اہم ہے، وہ عمران خان کہاں کھو گئے ہیں۔؟
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
forgottengenius · 1 year
Text
زندگی و موت کے فیصلے کرنے والے روبوٹس
Tumblr media
میزائلوں سے تحفظ کے امریکی سسٹم پیٹریاٹ، اسرائیلی سسٹم آئرن ڈوم، چین کے بلو فش اے ٹو ڈرون ، ٹینکوں کو میزائلوں اور راکٹوں سے بچانے والے روسی سسٹم ایرینا ، اسرائیلی سسٹم ٹرافی اور جرمن سسٹم اماپ ایڈز میں کیا قدرِ مشترک ہے۔ مصنوعی ذہانت سے مسلح یہ سب ہتھیار بنا کسی انسانی مداخلت ازخود کسی ہدف کو سونگھ کے ، محسوس کر کے یا دیکھ کے اسے تباہ یا ہلاک کرنے یا زندہ رکھنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ آپ انہیں خود مختار ہتھیار یا قاتل روبوٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ دو ہزار بیس میں لیبیا میں ترک ساختہ کرگو ڈرون نے ازخود ایک انسانی ہدف کو نشانہ بنایا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جب کسی خودکار ہتھیار نے خود ہی ہدف کا تعین کر کے اسے ختم کر دیا۔ مئی دو ہزار اکیس میں اسرائیل نے مصنوعی ذہانت سے لیس خودمختار ڈرونز کے ایک اسکواڈرن کو غزہ پر بمباری کے لیے استعمال کیا۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ اس وقت مصنوعی ذہانت کی مدد سے ہدف کی شناخت اور اس کے خلاف کارروائی کا ازخود فیصلہ کرنے والے ہتھیاروں کی تحقیق و تیاری پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری امریکا ، چین ، روس ، برطانیہ ، اسرائیل ، جنوبی کوریا ، آسٹریلیا ، بھارت اور ترکی میں ہو رہی ہے۔
ایسے خودمختار ہتھیاروں کے حامی طبقے کی دلیل یہ ہے کہ ان کے استعمال سے فوجی افرادی قوت خواہ مخواہ کے جانی نقصان سے بچ سکتی ہے۔ یہ چونکہ پروگرامڈ ہتھیار ہیں اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے آس پاس اور ہدف کا بہتر اندازہ لگا کے انسانی غلطی سے پاک نشانہ باندھ سکتے ہیں۔ چنانچہ میدانِ جنگ میں حادثاتی اموات کا تناسب کم کر سکتے ہیں۔ ایسے ہتھیار اپنے الگورتھم سسٹم کی تجزیاتی صلاحیت کی مدد سے دشمن کی جانب سے آنے والے میزائلوں یا دیگر ایمونیشن کو زیادہ مستعدی اور درستی کے ساتھ اپنے فوجیوں اور اثاثوں کو نشانہ بنانے سے روک سکتے ہیں۔ مگر ان ہتھیاروں کی تیاری کے مخالفین کہتے ہیں کہ ان کے استعمال کو جنگی اخلاقیات کے تابع کرنے کے لیے فی الحال کوئی علاقائی یا بین الاقوامی ضابطہ یا معاہدہ نہیں۔ اگر یہ کسی بھی ہدف کے خلاف ازخود کارروائی کرتے ہوئے آپے سے باہر ہو جائیں اور یوں کسی حادثے یا بیگناہ انسانوں کی موت کا سبب بن جائیں تو ان ہتھیاروں پر جنگی جرائم کی فرد عائد نہیں ہو سکتی۔ تو پھر ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے گا۔
Tumblr media
یہ ہتھیار بنانے والا، اسے نصب کرنے یا میدان ِ جنگ میں پہنچانے والا یا وہ اعلی فوجی و سویلین قیادت جس نے یہ ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا یا اجازت دی؟ اس بابت خود مختار ہتھیار بنانے اور انہیں استعمال کرنے والے ممالک حسبِ معمول منقسم ہیں۔ مثلاً روس ان کے استعمال کے شرائط و ضابطے عالمی سطح پر وضع کرنے کا کھلا مخالف ہے۔ امریکا اور برطانیہ فی الحال ان ہتھیاروں کو کسی بین الاقوامی کنونشن یا سمجھوتے کے تابع کرنے کو قبل از مرگ واویلا بتا رہے ہیں۔چین اگرچہ خود مختار ہ��ھیاروں کے استعمال پر پابندی کے حق میں ہے تاہم ان سے متعلق تحقیق روکنے کے حق میں نہیں۔ چین کی کوشش ہے کہ ایسے کسی بھی جامع معاہدے سے پہلے پہلے وہ اس میدان میں بھی مغربی اسلحہ سازوں کو جتنا پیچھے چھوڑ سکے چھوڑ دے۔ بھارت کو اگرچہ اس طرح کے ہتھیاروں کی تیاری کی عالمی دوڑ اور ان کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا خدشہ ہے تو دوسری جانب وہ ان ہتھیاروں کی تیاری کے منصوبے پر تیزی سے کام بھی کر رہا ہے۔
ایسے ہتھیاروں کی تیاری ، تنصیب اور استعمال کی سب سے زیادہ مخالفت تیسری دنیا کی جانب سے ہو رہی ہے۔ اور اس کی قیادت وسطی امریکا کا ملک کوسٹاریکا کر رہا ہے۔ وہاں انیس سو اڑتالیس میں فوج کا ادارہ ہی ختم کر دیا گیا۔ تب سے اب تک کسی ہمسائے سے جنگ نہیں ہوئی اور خانہ جنگیوں کے شکار خطے میں کوسٹاریکا ایک مستحکم جزیرے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ گزرے فروری میں تیس ترقی پذیر ممالک نے ان ہتھیاروں کے استعمال و تیاری پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا اور اس بابت کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری و استعمال پر پابندی کے بین الاقوامی کنونشن کی طرز پر خود مختار ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے ایک جامع عالمی معاہدے کی فوری تیاری پر زور دیا۔ کانفرنس میں شریک جنوبی افریقہ نے ایسے ہتھیاروں کے لیے بنیادی ضوابط کی تشکیل کا تو مطالبہ کیا البتہ مکمل پابندی کی حمائیت سے اجتناب برتا۔ اگرچہ یورپی پارلیمنٹ بھی ایسے ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف ایک قرار داد منظور کر چکی ہے۔ مگر ان سب مطالبات کے موثر ہونے کی راہ میں ایک نفسیاتی و مفاداتی رکاوٹ ہے۔ جو ممالک یہ ہتھیار بنا رہے ہیں وہ مکمل پابندی کے بالکل حق میں نہیں۔ 
جن ممالک نے ابھی یہ ہتھیار نہیں بنائے مگر ان کے پاس اس بارے میں مناسب تکنیکی و سائنسی صلاحیت ہے وہ اس لیے مکمل پابندی کے حق میں نہیں کہ اگر ہتھیار ساز ممالک ایسی پابندیاں قبول کرنے سے انکاری ہیں تو پھر ہم کیوں رضاکارانہ طور پر ان پابندیوں کو قبول کر کے اپنے ہاتھ بندھوالیں اور دفاع کے ایک موثر ذریعے سے خود کو محروم رکھیں۔ ویسے بھی تخفیفِ اسلحہ یا کسی بھی مخصوص وسیع تر تباہی پھیلانے والے اسلحے کی تیاری مکمل طور پر روکنے کے معاہدوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ باہمی اعتماد کا سنگین فقدان رہا ہے۔ اسی لیے اس بابت مذاکرات سالہا سال جاری رہتے ہیں۔ کوئی ایک ہتھیار ساز ملک بھی پیچھے ہٹ جائے تو باقی ممالک بھی کوئی ٹھوس وعدہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ انہیں یہ بھی خدشہ ہوتا ہے کہ کیا ضمانت ہے کہ حریف نے بظاہر ہتھیاروں کی تیاری روکنے کی حامی بھر لی ہو مگر درپردہ تیاری جاری ہو۔ رکاوٹوں کا سبب کچھ بھی ہو۔ مگر انسانوں کی زندگی و موت کے فیصلے کسی انسان کے بجائے کوئی مشین کرے تو انسانی جان کی اس سے زیادہ تذلیل فی الحال کیا ہو سکتی ہے ؟
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistanpress · 1 year
Text
خان کو کون سمجھائے
Tumblr media
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو لیبیا، شام اورعراق بنانے کی طرف تیزی سے دھکیلا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ 9 مئی کو ہوا وہ ملک میں خانہ جنگی شروع کرانے کی پہلی جھلک تھی، جان بوجھ کر فوج اور دفاعی اداروں پر حملے کروائے گئے تاکہ اُس ادارے کو Demoralise کر دیا جائے جو پاکستان کے لیبیا، شام اور عراق بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مجھے نہیں معلوم واقعی کوئی سازش موجود ہے کہ نہیں لیکن حالات خانہ جنگی اور افراتفری کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ سب کو نظر آ رہا ہے کہ حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اور یہاں وہ کچھ ہو رہا ہے جس کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا نہ دیکھا۔ عمران خان پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ کس نے بھڑکایا اور کس نے دفاعی اداروں پر پرتشدد حملے اور، جلائو گھیراو کیا۔ ایک طرف عمران خان کہتے ہیں کہ یہ اُن کے لوگ نہیں دوسری طرف اُنہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر direct حملے شروع کر دئیے اور تمام تر صورتحال کا ذمہ دار اُنہیں ٹھہرا دیا۔ نیب کے چیئرمین کیلئے ’’بے غیرت‘‘ جیسے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے یہاں تک کہہ گئے کہ نیب چیئرمین کے ہینڈلرز بھی بے غیرت ہیں۔
دو دن کی قید کے بعد ملنے والی رہائی کے بعد عمران خان مزید بپھر گئے۔ جو کچھ 9 مئی کو ملک میں ہوا اُسے دیکھ کر خان صاحب کو ماحول کو ٹھنڈا کرنا چاہئے تھا لیکن مجھے محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ جس انداز میں عدلیہ نے9 مئی کےانتہائی قابل مذمت واقعات اور فوج پر حملوں کے باوجود اُن کو ضمانتوں پر ضمانتیں دیں اور حکومت کو اُنہیں کسی بھی پرانے یا نئے کیس میں گرفتار کرنے سے روکا، اسے خان صاحب اور اُن کے سپورٹرزنے اپنی جیت تصور کیا۔ شاہد یہی وجہ ہے کہ اب عمران خان خود کو پاکستان کا مضبوط ترین شخص سمجھتے ہوئے فوج کے سربراہ کو کھلا چیلنج کر رہے ہیں۔ دوسری طرف جنرل عاصم منیر نے واضح کر دیا ہے کہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو کٹہرے میں لائیں گے اور فوجی تنصیبات کو جلانے اور نقصان پہنچانے کی اب کسی کوشش کو برداشت نہیں کریں گے۔ ایک نہیں دو نہیں بلکہ کئی وڈیوز اور آڈیوز موجود ہیں جس میں تحریک انصاف کے رہنما 9 مئی کے منصوبہ ساز دکھائی دینے کے ساتھ ساتھ اشتعال انگیزی اور حملہ آوروں کے ساتھ موقع پر موجود پائے گئے لیکن عمران خان ماننے پر تیار نہیں۔
Tumblr media
اپنی رہائی کے بعد عمران خان نے آرمی چیف سے کھلی ٹکر لے لی ہے جس سے صورتحال پاکستان کیلئے بہت خطرناک ہو گئی ہے۔ اس صورت حال کی خرابی میں کیا عدلیہ کی کوئی ذمہ داری ہے؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی عمران خان کو دیکھ کر خوشی کا اظہار اور میڈیا کا یہ الزام کہ خان صاحب کی ضمانت اور اُنہیں دوبارہ گرفتاری سے بچانے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے ہو چکا تھا اور اس سلسلے میں خواجہ طارق رحیم اور جیو کے سینئر رپورٹر قیوم صدیقی کی آڈیو لیک کا سامنے آنا بہت حیران کن تھا۔ دوسرے دن اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت یا کسی دوسرے ادارے کو عمران خان کو کسی بھی کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا۔ عدلیہ نے عمران خان کو وہ سب کچھ دیا جو اُنہوں نے مانگا۔ یہاں تک کہ توشہ خانہ کیس جس میں عمران خان پیش ہونے سے کتراتے رہے اور اُن کی دو دن کی قید کے دوران اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں اُن پر فرد جرم عائدکی گئی، اُس کیس کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے سٹے دے کر خان صاحب کے حق میں روک دیا۔ دوسرے دن اسلام آباد کی ایک عدالت نے عمران خان اور بشری بی بی کے عدت کے دوران نکاح والے کیس کو بھی ختم کر دیا۔
عدلیہ کی عمران خان پر ان بے مثال عنائتوں کو دیکھ کر حکومتی اتحاد نے بھی سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ کر لیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور ججوں پر خوب طعن کیا جا رہا ہے اُنہیں عمران خان کی ٹائیگر فورس سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ اب ڈر ہے، ایسا نہ ہو کہ حکومتی اتحاد کے دھرنے میں شامل عدلیہ کے خلاف بھڑکے ہوئے مظاہرین سپریم کورٹ پر ہی حملہ کر دیں جو ایک اور خطرناک عمل ہو گا اور موجودہ حالات کی مزید خرابی کا باعث بنے گا۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ حکومتی اتحاد کو سپریم کورٹ کے سامنے ایسا مظاہرہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اب بھی وقت ہے کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے۔ اگر ایک طرف عدلیہ کو اپنے رویے اور انصاف کے دہرے معیارپر نظر ثانی کرنی چاہئے تو دوسری طرف حکومت حالات کی مزید خرابی کا ذریعہ مت بنے۔ باقی جہاں تک عمران خان کا معاملہ ہے تو مجھے نہیں معلوم اُن کو کون سمجھا سکتا ہے؟
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 1 year
Text
سیلاب زدہ شہر جہاں ہر لمحے بچوں کے رونے کی آوازیں گونجتی ہیں
 سیلاب زدہ شہر درنہ میں لوگ “قیامت کے دن” کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مشرقی شہر میں دو ڈیم پھٹنے اور گھروں کے بہہ جانے سے 5,300 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ بی بی سی کے ٹوڈے پروگرام سے بات کرتے ہوئے جوہر علی نے کہا کہ زندہ بچ جانے والوں نے مکمل تباہی کے مناظر کی اطلاع دی۔پورے پورے خاندان پانی کے طاقتور ریلوں میں بہہ گئے ہیں۔ ایک دوست نے اپنے بھتیجے کو گلی میں مردہ پایا، جسے پانی نے چھت سے نیچے پھینک دیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Text
AFRICAN FLAG-DESIGN TOURNAMENT: Round 2 - Match 2: Northern Showdown
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
Link to the tournament masterpost, and kindly reblog!
23 notes · View notes
googlynewstv · 2 months
Text
ورلڈ رینکنگ میں پاکستانی پاسپورٹ اور بھی نیچے کیوں گر گیا؟
   دنیا بھر کے ممالک کے پاسپورٹس کی رینکنگ جاری کرنے والے ادارے ’ہینلے اینڈ پارٹنرز‘ پاسپورٹ انڈیکس کے مطابق سنگاپور مضبوط ترین پاسپورٹ رکھنے والا دنیا کا واحد ملک بن گیا ہے جبکہ پاکستان کا پاسپورٹ کمزور ترین پاسپورٹس کی فہرست میں فلسطین، لیبیا اور صومالیہ سے بھی نیچلے درجے پر پہنچ گیا ہے۔ جاری ہونے والی تازہ ترین درجہ بندی میں سنگاپور نے دنیا کے طاقتور ترین پاسپورٹ کے طور پر اپنا اعزاز دوبارہ…
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
لیبیا میں جمہوری نظام کے قیام کا راستہ ہموار
یوکرین فلسطین کی ہنگامہ آرائیوں سے دور افریقہ کے اہم مسلم عرب ملک لیبیا میں 2001سے جاری خانہ جنگی اور انتشار کے ختم ہونے کا امکان دکھائی دے رہا ہے۔ یہ پہلا عرب مسلم لیگ ہے جہاں پچھلے دنوں انتشار اور برادری کشی کے خاتمہ کی کوششوں کے خاتمہ کے لیے متحارب طاقتیں اور فوجیں راضی ہوئی ہیں۔ خاص بات یہ رہی کہ تمام گروپوں میں فائربندی کا اطلاق ہوگیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام بڑی طاقتوں امریکہ، روس، ترکی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
پاکستان ایک ناکام ریاست ہے؟
Tumblr media
Fund for Peace ایک تھنک ٹینک ہے۔ یہ ایک تحقیقی ادارہ ہے جو ملکوں اور ریاستوں کو سائنسی اور منطقی انداز میں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کامیاب یا ناکام قرار دیتا ہے۔ یہ محنت طلب اور دلیل پر مبنی کام ہے۔ کیونکہ کسی بھی صورت میں‘ کسی بھی ملک کے متعلق غلط بات کرنا‘ اپنے آپ کو عذاب میں ڈالنے والی بات ہے۔ چنانچہ ‘ اس ادارے کو بہت زیادہ احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ یہ امریکی تھنک ٹینک تحقیق حد درجہ محتاط انداز پر کرتا ہے۔ اس میں جذباتیت یا تعصب نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر سال یہ ادارہ ایک فہرست چھاپتا ہے جس میں مختلف ممالک کی ساخت‘ کامیابی یا ناکامی کے حساب سے ان کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس فہرست کو پہلے Failed State Index کہا جاتا تھا۔ لیکن اب اس کا نام Fragile State Index رکھ دیا گیا ہے۔ مگر مطلب تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔ یعنی کمزور ریاستیں یا جنھیں توڑنا مشکل نہ ہو۔ یہ ادارہ ’’فارن پالیسی‘‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی شایع کرتا ہے۔ اس مرتبہ 179 ملکوں کا ایک جائزہ لیا گیا ہے۔ ہر ملک کو 120 میں سے نمبر دیتے جاتے ہیں‘ ملک کے نمبر جتنے کم ہوں گے‘ وہ اتنا ہی مستحکم ہو گا۔
اس تحقیق کے مطابق فن لینڈ دنیا کا سب سے مستحکم اور بہترین ملک ہے۔ اس کے مجموعی نمبر صرف پندرہ ہیں۔ اس کے علاوہ ناروے‘ آئس لینڈ ‘ نیوزی لینڈ بھی کم نمبروں کی بدولت استحکام پر مبنی معاشرے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان اس فہرست کے 89.7 ویں نمبر پر ہے‘ صرف یمن‘ صومالیہ‘ ایتھوپیا‘ عراق‘ افغانستان اور لیبیا وغیرہ ہم سے نیچے ہیں۔ شمالی کوریا‘ کینیا اور فلسطین ہم سے کئی گنا بہتر ہیں۔ علم میں نہیں کہ ہمارے ملک میں اس ناکامی اور اس کے اسباب پر کیوں غور نہیں کیا گیا۔ کسی بھی حکومتی یا ریاستی ادارے نے اس رپورٹ کے حقائق کے حساب سے نفی کیوں نہیں کی۔ اس معذوری کی صرف ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے متعلق جو کچھ اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے۔ وہ بالکل درست ہے۔ اور اسے غلط ثابت کرنا حکومتی سطح پر ناممکن ہے۔ اب میں ان نکات کی طرف آتا ہوں جو کہ اس مقالہ کی بنیا د ہیں۔ بنیادی طور پر پانچ ایسے ٹھوس نکات ہیں جو قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان میں ہر ایک کے آگے مزید نکات بھی شامل ہیں۔ سب سے پہلے ان پانچ نکات کو بیان کرتا ہوں۔
Tumblr media
Economic, Cohesion (معاشی)‘ Political (سیاسی) ‘ Social (سماجی) اور Cross Cutting ۔ یہاں میں ایک اہم ترین عنصر کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہوں۔ تنزلی کا سفر آہستہ آہستہ طے ہوتا ہے۔ یہ بھی نہیں کہ اس ملک میں صلاحیت کی کمی ہوتی ہے۔ مگر اصل مسئلہ قومی صلاحیت کو بروئے کار نہ لانے کا المیہ ہے۔ تمام ناکارہ ریاستوں میں اشرافیہ ‘ اقتدار اور وسائل پر ناجائز طریقے سے قابض ہو جاتی ہے۔ اور عوام بتدریج غریب سے غریب تر ہوتے جاتے ہیں اور یہ خاموش المیہ‘ قوموں کو ختم کر دیتا ہے۔ ہاں ‘ ایک اور حد درجہ تلخ سچ جو اس رپورٹ میں درج ہے۔ وہ یہ کہ ریاستی اور حکومتی ادارے بنیادی طور پر Extractive طرز کے ہوتے ہیں۔ وہ ہر قسم کی جدت کو ختم کرتے ہیں۔ عام لوگوں کے ٹیلنٹ کو برباد کیا جاتا ہے۔ ان پر کامیابی کے تمام راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کے اشرافیہ Extraction کی بدولت زندہ اور توانا رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اشرافیہ‘ تمام جمہوری اداروں کو اپنی طرز پر ڈھال لیتی ہے۔ پورے نظام کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیتی ہے۔ 
مگر اس رپورٹ کے مطابق ایک بات طے ہے۔ اشرافیہ کی اکثریت‘ ملک کے ختم یا برباد ہونے کے ساتھ ہی ڈوب جاتی ہے۔ مگر یہ سب کچھ ایک حد درجہ تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ تمام عوامل موجود ہیں۔ چند ممالک کی عملی مثال بھی اس زاویہ کو تقویت دیتی ہے۔ شمالی کوریا‘ افغانستان‘ مصر‘ صومالیہ‘ کولمبیا‘ پیرو‘ بولیویا وغیرہ اس بربادی کی بھرپور مثالیں ہیں۔ مصر کی مثال ہمارے ملک کے قریب ترین ہے۔ مصر میں ریاستی اور حکومتی اداروں کے پاس ملکی معیشت کا پچاس فیصد قبضہ تھا۔ حسنی مبارک کے اقتدار اور اس کے بعد کے عسکری سربراہان نے معیشت کو De-regulate کرنے کی جعلی کوشش کی۔ مگر اس ڈرامے میں اشرافیہ کے چند حلقوں کو تمام وسائل کا مالک بنا دیا گیا۔  حسنی مبارک کا بیٹا جمال‘ مکمل طور پر صنعتی زار بن گیا۔ تمام صنعت کار جو ریاستی حلقوں کے نزدیک تھے۔ وہ مزید امیر بنا دیے گئے۔ جیسے احمد از کو لوہے کے کارخانے دے دیے گئے‘ سوارس خاندان ‘ ٹیلی کمیونیکشن کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ اور محمد نصیر کو میڈیا ڈان کر دیا گیا۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے ان لوگوں اور صنعتی گروپوں کو وہیل مچھلی سے تشبیہہ دی۔ جنھوں نے مصر کی معیشت کو ہڑپ کر لیا۔
پاکستان میں بعینہ یہی مماثلت موجود ہے۔ حکومت کی طرف سے بنائی گئی اشرافیہ ملک کے تمام وسائل کو ناجائز طریقے سے ہڑپ کر چکی ہے۔ اور اس ظلم کو روکنے والا کوئی بھی نہیں ہے‘ نا فرد اور نا ہی کوئی ادارہ۔ ایک کالم میں تو خیر اس Fragile index کا سرسری تذکرہ بھی نہیں ہو سکتا۔ مگر جو پانچ سنجیدہ نکات شروع میں عرض کیے تھے۔ ان کی حد درجہ معمولی سی تفصیل ضرور درج کرنا چاہتا ہوں۔ Cohesion کے عنوان کے نیچے ‘دفاعی مشین ‘ حصوں میں بٹی ہوئی اشرافیہ اور گروہی رقابتیں شامل کی گئیں ہیں۔ غور سے پرکھیے۔ ہمارا دفاعی نظام‘ کیا واقعی لوگوں کی حفاظت کر رہا ہے۔ اس میں پولیس اور دیگر ریاستی ادارے بھی شامل ہیں۔ کسی بھی ذی شعور کا جواب منفی میں ہو گا۔ اس طرح مختلف حصوں پر قابض اشرافیہ بڑی مہارت سے عوام کے ایک حصے کو دوسرے کے خلاف لڑوا رہی ہے۔ پھر گروہی رقابتیں بھی عروج پر ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے پاس مسلح ملیشیا موجود ہیں۔ جو ایک دوسرے کے مسالک کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ اب ذرا معاشی صورت حال کی طرف آیئے۔ اس میں معاشی تنزلی ‘غربت‘ ناہموار ترقی اور ذہین لوگوں کا ملک چھوڑنے کا رجحان شامل ہے۔ 
جو اب دیجیے۔ کیا یہ تمام عناصر بھرپور طریقے سے ہمارے سماج میں برہنہ ہو کر رقص نہیں کر رہے۔ غربت عروج پر ہے۔ صنعت دم توڑ چکی ہے۔ ملک کے کچھ علاقے ترقی یافتہ نظر آتے ہیں۔ چند کلو میٹر کی ترقی کے باہر یک دم آپ کو غربت‘ جہالت اور پسماندگی کے سمندر نظر آتے ہیں۔ جواب دیجیے۔ کیا کوئی شخص ملک میں رہنے کے لیے تیار ہے۔ ہرگز نہیں‘ ہماری سیاسی قیادت تک پاکستان رہنے کے لیے تیار نہیں۔ اب ذرا سیاسی معاملات کی طرف نظر دوڑائیے جو کہ اس فہرست میں تیسرا حصہ ہے۔ حکومت کا قانونی جواز‘ عوامی رعایت کے معاملات‘ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی‘ اس کے لازم جزو ہیں۔ اس تیسرے حصے میں کوئی ایک ایسا معاملہ نہیں جس میں ہم لوگ مثبت ڈگر پر چل رہے ہوں۔ سماجی نکتہ میں۔ آبادی کا بڑھنا اور مہاجرین کا عنصر شامل ہے۔ آبادی تو خوفناک طریقے سے مسلسل پھیل رہی ہے۔ اور ہر ملک کے مہاجرین بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ آخری نکتہ Crosscutting ہے جس میں بیرونی مداخلت شامل ہے۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ ہم ہر طور پر بیرونی مداخلت بلکہ جنگ کی کیفیت میں ہیں۔ ہماری افغانستان اور ہندوستان بلکہ ایران تک سے بھی لڑائی ہی لڑائی ہے۔
طالب علم نے حد درجہ احتیاط سے کام لے کر پاکستان کا ’’ناکام اقوام‘‘ میں معاملہ دلیل کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ دراصل ہم مکمل طور پر ناکام ریاست بن چکے ہیں۔ ہر ذی شعور کو معلوم ہے۔ مگر حکومتی اور ریاستی سطح پر ہم سے بھرپور طریقے سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ سب اچھا تو دور کی بات‘ کچھ بھی اچھا اور درست سمت میں نہیں ہے۔ ریاستی دروغ گوئی ہمیں اس سطح پر لے آئی ہے۔ کہ غربت‘ جہالت کے ساتھ ساتھ مسلح جتھے پوری طاقت سے عسکری اداروں سے جنگ کر رہے ہیں۔ کوئی مثبت بات یا خبر بھٹک کر بھی ہمارے سامنے نہیں آتی۔ بین الاقوامی ادارے ہماری اشرافیہ کی ناجائز دولت سے واقف ہیں۔ لہٰذا اب ہمیں کوئی بھی قرض دینے کے لیے تیار نہیں۔ ورلڈ بینک کھل کر کہہ چکا ہے کہ پاکستان ٹیکس اور امداد وصول کر کے اپنی اشرافیہ کو مزید سہولت فراہم کرتا ہے۔ دنیا کا ہر ملک ہمیں منفی انداز میں دیکھتا ہے۔ کسی جگہ پر ہماری کوئی عزت نہیں ہے۔ 
ہم جھوٹ فریب‘ ریاکاری‘ دوغلہ پن‘ منافقت کا وہ ملغوبہ بن چکے ہیں۔ جس کو دیکھ کر مہذ ب ممالک اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ ہم سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ بڑی ڈھٹائی سے اپنے متعلق کسی منفی عنصر کو خاطر میں نہیں لاتے۔ بلکہ اپنی پہاڑ جیسی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے ‘ یہود و ہنود کی سازش کے مفروضہ میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اب شاید پانی سر سے گزر چکا ہے۔ بدقسمتی سے اب ہمارا ملک ایک ناکام ریاست ہے! جس کا کوئی والی وارث نہیں!
راؤ منظر حیات  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
anarkistan · 1 year
Text
خۆپیشاندان و ناڕەزایی لە لیبیا
19/03/2023 خۆپیشاندەرانی لیبیا لە توڕەییدا بەهۆی مردنی زیاتر لە ١٣ هەزار کەس و سەرنگوونبوونی ٢٠ هەزاری دیکە بەهۆی لافاوەکەی دێرنا ماڵی سەرۆکی شارەوانی، عەبدولمەنام ئەلغەیسی، لیبیان ئاگردا. دوێنی، دووشەمە، بە هەزاران کەس خۆپیشاندانیان کردووە و داوای لێکۆڵینەوەی نێودەوڵەتی ‘بەپەلە’یان کردووە سەبارەت بەو کارەساتەی کە هەزاران کەسی کوشتووە. دواتر لە ئێوارەدا خۆپیشاندەران لە دەرەوەی مزگەوتی سەحابە،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes