Tumgik
#مراعات
urduchronicle · 10 months
Text
ڈپٹی چیئرمین نیب 15 لاکھ، پراسیکیوٹر جنرل 16 لاکھ ماہانہ تنخواہ، پٹرول، گاڑی اور یوٹیلٹی بلز، کابینہ نے منظوری دے دی
وفاقی کابینہ نے ڈپٹی چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کی تنخواہ اور مراعات کی منظوری دے دی۔ ذرائع کے مطابق ڈپٹی چیئرمین نیب سہیل ناصر کو 15 لاکھ روپے ماہانہ اور مراعات جبکہ پراسیکیوٹر جنرل نیب سید احتشام شاہ کے لیے 16 لاکھ 58 ہزار روپے تنخواہ اور مراعات دینے کی منظوری دی گئی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ڈپٹی چیئرمین نیب کو 500 لیٹر پیٹرول، بجلی، گیس اور دیگر الاؤنس ہائی کورٹ کے جج کے مساوی ملیں گے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cybelle-jessy · 5 months
Text
صادفني ڤيديو جميل جدا لمصطفى حسني بيقول فيه:
"من علامات عدم صلاح القلب؛ عدم مراعات أثر تصرفاتي على قلب اللي قدامي!
بيسموها (الثُعبانية) يعني: 'هطفّشك من الحياة من غير ما أغلط' ازاي؟ بتّك ع الكلمة وانا بقولها، مع نظرية سخرية و body language مستفزة ..
اللي قال عليها ربنا {وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ} الهمز بالكلام واللمز بالجسم، وانا بتكلم أعمل حركات أخليك تتنطط عشان عايز أكيدك وأوجعك، ارحموا مَن في الارض يرحمكم مَن في السماء! من لا يرحم لا يُرحم ..
ومن علامات صلاح القلب إني ماابقاش حتة ازازة مكسورة .. أه بتلمع وحلوة من بعيد بس لو قربت هتتعور!
- يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فُلَانَةً تُذْكَرُ مِنْ كَثْرَةِ صَلَاتِهَا وَصِيَامِهَا وَصَدَقَتِهَا غَيْرَ أَنَّهَا تُؤْذِي جِيرَانَهَا بِلِسَانِهَا. قَالَ: «هِيَ فِي النَّـارِ» ، مش يمكن تكون بتصلي ألف ركعة تمسح الكلام اللي بتقوله وبتأذي وتوجع الخلق بيه؟ لا النبي قال هي في النـ ـار
{وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ} يعني أروح عند ربنا ألاقي نفسي واقف مع ناس مااتمناش أقف جنبهم، أصل كنت زيهم في الدنيا وأنا مش واخد بالي، كان عندي ضحايا كتير أوي ولامبالاه في المعاملة، وكنت فاكر نفسي أنا اللي ضحيتك وانت اللي مقصر معايا!
ركز في كلامك ولسانك ونظرة عينيك عشان اللي يتعامل معاك يحب نفسه، عشان تقف يوم القيامة في ضل عرش ربنا".
والحقيقة إن فيه مظالم كتير بتبقى غير (ملموسة) الله يعلمها ولو لم يستطِع الناس إثباتها ..
وعشان كده جزء كبير من حسابنا يوم القيامة هيكون على حاجه اسمها "العُنـف الصامت" الإيـذاء النفسي، الغِل، الشغل من تحت لتحت، إضمار الشـر، الحقـد، أو اللي ممكن نوصفه إجمالاً .. "ما تخفي الصدور".
2 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
Tumblr media
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔  کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو ��تایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
Tumblr media
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔ 
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔ 
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
متلازمه الاحتراق النفسي .
  . (Occupational burnout)
يتسم بمجموعة من العلامات والأعراض والمتغيرات في السلوكيات المهنية ، وفي بعض الحالات ، يتم رصد متغيرات في التكوين الجسدي والوظيفي والكيمياء الحيوية الجسمانية لدى بعض المصابين بهذا المرض .
وفقًا لتشخيص هذا المرض المتسبب الرئيسي له هو زياده الضغوط حيث تكون بشكل دائم ومستمر على الشخص .
إن متلازمة الاحتراق النفسي تستهدف ، بصفة أساسية ، الأشخاص الذين يتطلب نشاطهم المهني التزامات كبيرة في علاقات العمل مثل الأخصائيين الاجتماعيين وأصحاب المهن الطبية والمعلمين .
وقادت دراسة هذه الفئات المهنية هؤلاء الباحثين إلى إدراك أن مواجهة الألم والفشل المتكرر تعد من الأسباب الحاسمة في ظهور أعراض متلازمة الاحتراق النفسي .
أعراضه :
- الشعور بالتعب والإعياء الجسدي
- الاكتئاب
-الشعور المستمر بالإرهاق والرغبة فى الهروب من العمل
- التشاؤم والإنعزال
- الشعور بالغضب من زملاء العمل
- الشعور بعدم تحقيق إنجازات فى العمل .
أسبابه :
قد يسهم تطورها في الخلط بين فترات العمل وأوقات الراحة
(ظاهرةweisure = work + leisure)
، مما يؤدي إلى سلسلة لانهائية من الأسباب التالي ذكرها .
- الأدوار غير الواضحة والمتناقضه
- والعزلة
-ونقص الدعم الاجتماعي
-والنزاع بين الحياة الأسرية والحياة المهنية
-وانعدام الأمان
-الظلم ، الصراعات .
علاجه :
١-الحد من ضغوطاتك حيث ان؛ الاعمال الزائده عن نطاق عملك ولستَ مسؤول عنها وهي فقط (اضافه) تخلى عنها
٢-خذ وقتًا كافي من الراحه حتى من التفكير
٣-تنظيم الوقت بشكل مريح .
أخيرًا إن هذه الفتره مليئه بالضغوطات والواجب عليك هي مراعات نفسيتك وليس الزياده عليها ، كُل مايتطلبه الأمر هو أن تُشعر ذاتك أنه تبقى القليل ، وأن تفرح حتى وإن كان الإنجاز ليس بالكثير .
6 notes · View notes
Photo
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
التفكيُر التصميمُّي للتواصل البصر ّي
غاڤن أمبروز وپول هاريس
ترجمة: ديما إياسو
الطبعة العربية الأولى ٢٠٢٠م
الناشرون جبل عمان
طبع في مطابع المركزية
عدد الصفحات ١٨٩
عملية التصميم تعد تحدي أمام كل مصمم، تحدي إبداعي خلاق يخدم مفاهيم وأهداف محددة فتصميم عكس الفنون التي تفتح الأفاق الإبداعية للفنان دون تقييد، أما التصميم هي عملية موجهة تخدم رغبات العميل او القضية الم��روحة فيجب على مصمم أن يكون حريص على توجيه عملية التصميم بشكل صحيح ليصل الى الحل التصميمي الافضل لذلك يعتبر كتاب التفكير التصميمي للتواصل البصري الخيار الأفضل لصقل مهارات المصمم في عملية التصميم لأنه ينقل خبرات من أستوديوهات عالمية خلقة مفهوم جديد للإبداع ويصبه في هذا الكتاب. يتكون هذا الكتاب من ستة فصول يتميز كل فصل بالمعلومات الفريدة التي تخلق عند المصمم وعي اتجاه عملية التصميم، يعد هذا الكتاب الخيار الأفضل لكل مصمم سيتجه لسوق العمل لأنه تمنحه نظرة عامة عن التفكير التصميمي الذي يتخلل في كل مراحل التصميم، ويقدم مجموعة من الاعمال المعاصرة وبعض النظريات التي تولد الأفكار الإبداعية وتلبي أهدافه في موجز التصميم.
الفصل الأول مراحل التفكير:
يضم هذا الفصل من الكتاب مراحل التفكير لتصميم الموجز بشكل متكامل وخلاق بشكل مختصر ثم تتفرع باقي الفصول لتبين هذه المراحل بشكل اوفى وأوضح. عندما يتبع المصمم مراحل عملية التصميم التي طرحها الكاتب بشكل دقيق وملموس سينتج من خلالها عمل بعيد عن النمطية مليء بالتميز والابداع. عملية التصميم يجب ان تكون ذات مستوى عالي من الابداع ولكن يجب ان يخدم اهداف اقتصادية وابداعية على حد سوى ولذلك يجب توجيه عملية التصميم بشكل دقيق نحو تقديم حل لمسألة التصميم بشكل يمكن تطبيقه ويلبي الأهداف الرئيسية للتصميم ويفوقها. ويجب توليد عدد من الحلول التصميمية وتنفيذ خطوات تساهم في التفكير الإبداعي وتساعد الفريق بتفكير بشكل مميز بعيد عن المألوف ليظهر التصميم بحله جديدة بعيد عن نمطية. تتضمن عملية التصميم سبع خطوات وهي: عرَّف وابحَث وكوَّن تصوُّرًا، وضَع النماذج الأوَّليَّة، واختَر، ونفَّذ، وتعلَّم.
" تحل بتفكير منفتح، وفكر كما يفكر العميل، وأبق شمعة فضولك مضاءة على دوام" عبارة ستوقفني في مقابلة من عالم التصميم.
الفصل الثاني البحث:
تبدأ مرحلة البحث بعد تعريف موجز التصميم ومن خلال هذه المرحلة نتعرف على خصائص المجموعة المستهدفة لتحقيق التواصل الفعال مع هذه المجموعة.  وتساعد أيضا في توليد الافكار التي تفيد في المراحل التي تليها، لذلك يستعرض الكتاب بعض المهارات التي تستخدمها فرق البحث التي تكون تصور أعمق لمتطلبات العميل وتركيبة المجموعة المستهدفة. في مرحلة البحث يتم تحديد الدوافع والحواجز وتهدف الى تحديد الدوافع التي تحفز المجموعة المستهدفة والحواجز التي تعيق تفاعل الفئة مستهدفة ونجاح التصميم. أيضا جمع معلومات تندرج في فئتين كمية ونوعية وتساعد في تحديد حجم وخصائص السوق المستهدف. اهم ما تعينه مرحة البحث تركيبة وخصائص المجموعة المستهدفة، ومن خلال الملف الشخصي للمجموعة المستخدمة يتم تحفيز الأفكار في أثناء عملية التصميم واتخاد القرارات الصحيحة. يبين هذا الفصل كثير من التقنيات التي تحفز عملية البحث.
الفصل الثالث توليد الأفكار:
توليد الأفكار هو منطلق الابداع ويعتمد على مرحلتي عرف وابحث وفي تصميم لجرافك يجب استخدام ابداع موجه نحو غاية محددة يحمل رسالة واضحة للجمهور المستهدف. يطرح هذا الكتاب مجموعة من الأساليب وتقنيات المستخدمة لتوليد الأفكار.
تساعد هذه التقنيات من استقطاب الالهام لان الالهام يأتي عادتاً من وفرة المعلومات وتغدية بصرية مستمرة التي تخلق فكراً ابداعياً لا متناهي. ومن الأشياء رئيسة لاستقطاب الالهام والابداع العصف الذهني الذي يعتبر أسلوب ابداعي جماعي.
الفصل الرابع صقل الأفكار:
يجب الصقل المستمر لفكرة التصميم والرسالة التي ينقلها لا يتوجب في الصقل التغيير الجذري بالتغيير بسيط يضيف على الفكرة طابعة ابداعي مؤثر لزيادة الفاعلية وقدرة على إيصال الفكرة. وتهدف التعديلات لصقل الفكرة للوصول للكمال. يتناول هذا الفصل عناصر التصميم من أشكال ونصوص ونسب وأرقام ورموز غيرها التي تفيد في صقل الفكرة وتوليد الالهام.
الفصل الخامس وضع النماذج الأولية:
يعد وضع نماذج اولية لتصميم فرصة لاختبار الفكرة بطرق مختلفة لمعرفة ما إذا كانت الفكرة ذات فاعلية وتأدي الغرض المطلوب. فيجب اختبار الفكرة قبل القيام   بتنفيذها للحصول على النتائج المرجوة لذلك يختبر المصممون الأفكار بأساليب وتقنيات مختلفة لتطوير الفكرة وتحسين قدرتها لإيصال الرسالة المطلوبة. تكوين النماذج الأولية يساعد في تطوير التصميم وتوليد الحلول التي تخلق بعد جديد للإبداع وتميز مع مراعات اهداف التصميم. أحيانا يكون المصمم يائس من توليد الحل الأنسب لعملية التصميم فيعلق في دوامة نمطية من الأفكار لذلك يجب على مصمم اشعال شرارة الالهام في جوانح عقله، لذلك يطرح هذا الفصل طرق لضخ الأفكار وتجنب نضوبها ويقدم هذا الكتاب طيفا واسعا من الطرق لتحفيز الابداع وخلق فكر تصميمي متجدد.
الفصل السادس التنفيذ:
هذه المرحلة تحول التصميم لحقيقة وتسليمها للعميل وترتكز هذه العملية على مراحل التصميم التي سبقتها للوصول لجوهر التصميم. ويجب ان يراعي المصمم توقعات العميل المرجوة وينتج التصميم الذي وقع عليه اختيار العميل. وربما يجب تسليم التصميم الى جهات لاستكمال عمله مثل المطبعة او مبرمج وهذه الخطوة في قمة الأولوية لتحقيق النتائج المرجوة. يعرض هذا الفصل بعض النصائح التي تساعد في استكمال عملية التصميم بفاعلية أكبر.
يطرح هذا الكتاب أيضا مجموعة من الاعمال المتميزة لطلبة التصميم لجرافيكي، وتمتاز هذه الاعمال بخلق افق ابداعي مميزة ومؤثرة ومنعشة للأفكار.
يعرض هذا الكتاب مجموعة من اعمال مصممين عالميين لقية استحباب وتفاعل كبير للجمهور المستهدف ومجموعة من المقابلات مع مصممين متألقين، فيعد خيار جيد لتغديه البصرية وتطوير عملية التصميم والاستقصاء لتوليد الحل الاوفى للتصميم، وأيضا يخلق وعي كبير لدى المصمم اتجاه عملية التصميم مما يجعله يصقل مهارته ويسعى بخطوات ثابته وصحيحة اتجاه الحل الأنسب لتصميم.
3 notes · View notes
googlynewstv · 10 hours
Text
ایم این ایز کی تنخواہوں میں اضافےکااختیارقومی اسمبلی کومل گیا
ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافےکیلئےوزارت خزانہ اور حکومت کا اختیار ختم،قومی اسمبلی کوتنخواہوں میں اضافے کااختیارمل گیا۔ کابینہ ذرائع کےمطابق ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں اورمراعات میں اضافے کیلئے قومی اسمبلی خودفیصلہ کرےگی۔اس سےقبل ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہوں، مراعات میں اضافےکیلئےوزارت خزانہ سےمشاورت کی جاتی تھی اب ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہوں،مراعات میں اضافےکیلئے وزارت…
0 notes
shiningpakistan · 27 days
Text
’عدلیہ وکٹری کے نشان والے ہجوم کے نرغے میں‘
Tumblr media
سنا ہے کوئی زمانہ تھا جب کوئی سینیئر قانون دان جج کی کرسی پر بیٹھتے ہی دنیا تیاگ دیتا تھا۔ اپنا سماجی حقہ پانی خود ہی بند کر لیتا۔ شادی، بیاہ، سالگرہ، برسی، جنازے اور سیمیناروں میں جانا حرام کر لیتا۔ سوائے گھر والوں، قریبی عزیزوں یا دو چار پرانے دوستوں کے کسی دور پرے کے رشتہ دار یا واقف کار سے ملنا گناہ سمجھتا۔ سنا ہے مائی لارڈ کی کسی بھی وکیل سے صرف کمرہِ عدالت میں ہی ملاقات ممکن تھی۔ ججز چیمبرز میں پیش کار، رجسٹرار یا نائب قاصد کے سوا تیسرا شخص داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ جسے بھی کچھ کہنا سننا یا درخواست دینا مقصود ہو اس کے لیے عدالتی سیکرٹیریٹ کا نظام آج کی طرح کل بھی تھا۔ جج کا رابطہ اسی نظام کے توسط سے سرکار اور عوام سے رہتا تھا۔ جج کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ خود نہیں بولتا اس کے فیصلے بولتے ہیں۔ آج جب ہم اس طرح کے قصے سنتے ہیں تو یہ کوئی افسانہ یا سوشل ناول کا کوئی باب معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے باپ دادا نے ایسے جج ضرور دیکھے ہوں گے۔ ہم نے تو نہیں دیکھے۔
ہم نے تو عزت مآب کو ہر طرح کی تقریبات، کانفرنسوں، صحت افزا مقامات اور سب سے زیادہ ٹی وی چینلز کی پٹیوں میں دیکھا ہے۔ بھلا ہو میڈیائی کیمرے کے سحر کا کہ عدالتی کارروائی لائیو براڈ کاسٹ ہونے لگی۔ وکلا کو آستین چڑھاتے منھ سے تھوک نکالتے مائی لارڈ سے بدتمیزی کی سوشل میڈیا ویڈیوز دیکھی ہیں۔ لیک ہونے والی خفیہ ٹیپس سنی ہیں۔ خفیہ فلمیں افشا ہوتی دیکھی ہیں۔ توہینِ عدالت کو ایک پامال روایت بنتے دیکھا ہے۔ پلاٹوں اور بے نامی کاروبار سے لگنے والی چھوت کی بیماری دیکھی ہے، بے باک اور اصول پسند ججوں کا گھیراؤ اور کردار کشی کی مہم دیکھی ہے۔ اپنی اپنی پسند کے فیصلوں پر موکلوں کی جانب سے قصیدہ خوانی اور ناپسندیدہ فیصلوں پر جج کی ذات پر رکیک اور گھٹیا حملے دیکھے ہیں۔ نامعلوم سایوں کو ججوں، ان کے اہلِ خانہ اور جاننے والوں کو ہراساں کرتے سنا ہے اور ان کی ن��ی زندگی میں براہ راست مداخلت کی داستانیں خود ان ججوں کی زبانی سنی ہیں۔
Tumblr media
عدالتوں کے اکثر فیصلے یقیناً آج بھی منصفانہ اور معیاری ہوتے ہیں۔ مگر اس مطالبے کا کیا کیا جائے کہ میرا مقدمہ فلاں کے بجائے فلاں جج سنے۔ ان سرگوشیوں سے کیسے کان بند کریں کہ بس اس جج کو ریٹائر ہونے دو۔ اس کے بعد آنے والا معاملات سیدھے کر دے گا۔ کئی وکلا اور پیش کاروں کو پسندیدہ فیصلوں کے لیے دلالی کا دعوی کرتے سنا ہے۔ عمارت ایک دن میں نہیں گرتی۔ نہ ہی ایک ضرب سے گرتی ہے۔ مگر ہر ضرب اسے کمزور ضرور کرتی چلی جاتی ہے۔ بھلا کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے برسراقتدار آ کر ججوں کو طرح طرح کی ترغیبات اور بعد از ریٹائرمنٹ پیش کشوں سے رجھانے کی کوشش نہ کی ہو۔ عدلیہ کے احترام کی تسبیح پڑھتے پڑھتے ہجوم اکھٹا کر کے انصاف کے ایوان پر چڑھ دوڑنے اور عدلیہ کو ’ساڈے تے پرائے‘ میں تقسیم کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ کون سی سرکار ہے جس نے عدلیہ کے ناپسندیدہ فیصلوں پر بھی بلا چون و چرا مکمل عمل کیا ہو۔ بلکہ ناپسندیدہ فیصلوں کو مسخ کرنے کے لیے آئین کو موم کی ناک بنا کر استعمال نہ کیا ہو۔
آخر ایسا کیا ہوا کہ اس زمین پر انصاف کی مقدس نشست پر بیٹھنے والی جس ہستی کو عام آدمی واقعی خدا کا نائب سمجھتا تھا۔ اب وہی آدمی شاید ہی کسی جج کو رول ماڈل سمجھتا ہو۔ سوچیے ایسے کروڑوں انسانوں کی تنہائی کا کیا عالم ہو گا جنھیں زمین پر انصاف کی آخری امید جج میں نظر آتی تھی اور اب اس کی پتھرائی ہوئی آنکھ صرف آسمان کی جانب ہی مرکوز ہے۔ عمارت ایک ضرب سے منہدم نہیں ہوتی۔ خود ججوں نے انصاف کے مندر کے ساتھ کیا کیا؟ پہلی کاری ضرب اندر سے جسٹس منیر کے نظریہِ ضرورت نے لگائی۔ اس نظریے نے آئینی حرام کو بیک قلم حلال قرار دے دیا۔ یہ نظریہ آج ستر برس بعد بھی شکل بدل بدل کے آئین کو بھوت کی طرح ڈراتا رہتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدلیہ کے حلق میں آج بھی کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ نہ اُگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔ کسی آمر کے کرسی پر متمکن ہوتے ہوئے کسی عدالت نے مارشل لا کو بالائے آئین شب خون قرار نہیں دیا گیا۔ یحییٰ خان اور پرویز مشرف کو بھی معزولی کے بعد غاصب ڈکلیئر کیا گیا۔ بلکہ ہر طالع آزما کو آئین سے کھلواڑ کا انعام عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھا کے دیا گیا۔ 
غیر منظورِ نظر سیاسی حکومتوں کا باہم مل کے ہانکا کیا گیا اور منظورِ نظر کے سات گناہ بھی درگذر ہو گئے۔ اب یہ کوئی خبر نہیں کہ عدلیہ نے اپنی پنشنوں اور تنخواہوں میں ازخود کتنا اضافہ کر لیا۔ کتنے جج باقی ہیں جنھیں حاصل سرکاری مراعات و وسائل کا اہلِ خانہ استعمال نہیں کرتے۔ بہت عرصے سے یہ خبر بھی تو نہیں آئی کہ کسی جج نے یہ مراعات لینے سے صاف انکار کر دیا۔ زیریں سے اعلیٰ عدالتوں میں روزانہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے مگر مقدمات کا انبار ہے کہ سال بہ سال بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس انبار کے سبب جنتا کے عدم اعتماد کا بوجھ بھی پہاڑ ہوتا جا رہا ہے۔ جب سب نے ریاستی استحکام کے نام پر عدم استحکام کے ہتھوڑوں سے اپنے ہی اداروں کو ضرب در ضرب کمزور کرنا شروع کر دیا تو پھر ہجوم بھی دلیر ہوتا چلا گیا۔ پارلیمنٹ بانجھ ہوئی تو فیصلے سڑک پر ہونے لگے۔ حتیٰ کہ غضب ناک ہجوم کے دباؤ کی تپش اعلیٰ عدالتوں کے کمروں میں محسوس ہو رہی ہے۔ 
اب تک ججوں کے فیصلوں پر جج ہی نظرثانی کرتے آئے ہیں۔ مگر یہ چلن بھی دیکھنا پڑ گیا ہے کہ اب ہجوم کے سرخیل ابھی اور اسی وقت فیصلے پر نظرِ ثانی کی دھمکی آمیز درخواست کرتے ہیں اور لجلجاتے کمرہِ عدالت میں اندر کے شور سے زیادہ باہر کھڑے ہجوم کے نعرے سنائی دیتے ہیں۔ مگر عدالت بھی خلا میں تو سماعت نہیں کرتی۔ عدالت کے پیچھے جب ریاست اور سماج کھڑا ہوتا ہے تو اس کے فیصلوں کا معیار ہی کچھ اور ہوتا ہے اور جب ریاست اور سماج بھی عدلیہ کو بے توقیری کی جانب دھکیلنے پر سڑک سے ہاتھ ملانے پر تل جائیں تو پھر عدالت اور جرگے میں تمیز کہاں رہتی ہے۔ ہم نے مسلسل ساڑھے سات دہائیوں تک زوال کو عروج تک پہنچانے کے لیے خوب محنت کی اور اب اس محنت کا ثمر ادارہ جاتی انہدام کی شکل میں اپنے سامنے دیکھ کر خود ہی وکٹری کا نشان بھی بنا رہے ہیں۔
خدا بچائے کس طرف مرا وطن چلا ہے یہ ابھی تو کچھ نہیں ہوا ابھی تو ابتدا ہے یہ ( حمایت علی شاعر )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
ایس او ایس، سۄ چھےٚ روٗس منٛز اَتہِ چُھ اَکھ سۄ رامہٕ ہوٗن رَس منٛز نیبر نیرُن، نیبر نیرُن، نیبر نیرُن اکھ پالتو کورِ، ژٕ چھُکھٕ مےٚ مُتلِق یِتُے پرژھان ڈارلنگ، یہٕ چُھنہٕ کانٛہہ جوک، یہٕ چُھ لیکنتھروپی زوٗن چُھ وۄنۍ جاگان، أچھ ؤلِتھ میٲنِس جِسمس چُھ ترسُن، لہاذا چُھ بھوکِس کھیٚوان بہٕ چھُس/چھَس پنُن پان ژٔنٛدٕروارِ پٮ۪ٹھٕ ژٔنٛدٕروارِ دۄہ تہٕ جُمعہ پٮ۪ٹھٕ جُمعہ تا مےٚ اتھ منٛز تھاونہٕ خٲطرٕ مِلٮ۪و نہٕ کٲفی بدلہٕ یا مہذب مراعات مےٚ چھُ آفسَس منٛز کافی مشینہِ ہٕنٛدۍ پٲٹھۍ تھوڑا بدسلوکی محسوس کرُن شروٗع کوٚرمُت تَوَے گَژھٕ بہٕ کُنہِ جایہِ آرام دہ مےٚ عاشق دِنہٕ تہٕ تۄہہِ اَتھ مُتعلِق سٲری وَنُن المارِ منٛز چُھ اکھ سۄ رامہٕ ہوٗن اوپْن اپ کْریو تْہ کْریو یہ فری سیٹ تُہٕنٛزِ المارِ منٛز چُھ اَکھ سۄ رامہٕ ہوٗن یہِ ترٛٲوِو نیبر، یُتھ یہِ شاہ ہیکہِ کٔرِتھ أکِس بارَس اَپارِ بِہِتھ، پنٛنِس شِکارس کُن دٔچِھنہِ وُچھان یہِ چُھ وُنیُک تام اصل پٲٹھۍ چلان، سۄ کَرِ پنٕنۍ وتھ راتٕچ مخلوق چِھ نہٕ تیژ ہوشیار آسان۔ زوٗن چُھ میون ٹیچر، تہٕ بہٕ چُھس أمۍ سُنٛد طالبہِ علِم وٲحد نفر ژھانٛڑنہٕ خٲطرٕ، مےٚ مِلیوٚو پانس پیٚٹھ اکھ خاص ریڈار تہٕ فائر ڈیپارٹمنٹ ہاٹ لایِن، اگر مےٚ پتہٕ پریشٲنی منٛز یِیہِ خوبصورت لۄکُٹ ڈیوو چُھ نْہ ژھانڈان
0 notes
aminafzalpour · 2 months
Text
پیدایی مراعات نظیر تصویری در طراشعر
نویسنده: مانیا میرزایی
پایگاه خبری زرک
0 notes
takieef2024 · 2 months
Text
أفضل أنواع الغسالات
الغسالة تعتبر من الأجهزة المنزلية للغسالة تعتبر من الأجهزة المنزلية الضرورية لأي منزل عصري حيث تعمل على توفير الوقت والجهدة وتضمن نظافة فائقة للملابس بشكل فعال ففي العصر الحالي أصبحت الغسالة جزءا لا يتجزأ من حياه الكثير من المواطنين حيث تعكس النظافة الشخصية والنظافة العامة لجميع أفراد الأسرة ولا تقتصر الغسالة وفوائدها على تسهيل عملية الغسيل فقط بل تتعدى ذلك لتساهم في الحفاظ على الأقمشة مع رفع كفاءة المياه والطاقة وفي ظل التطور التكنولوجي  تطورت الغسالات تطوراً كبيراً مما جعلها أكثر كفاءة وفاعلية 
أفضل أنواع الغسالات
الغسالات الأمامية تعد من أفضل الخيارات المتاحة وذلك لأنها تتميز بالكفاءة في استهلاك المياه والطاقة كما أنها توفر دورات غسيل متقدمة تتناسب مع مختلف أنواع التمسه كما أن الغسالات الأمامية تكون أكثر كفاءة في إزالة البقع الصعبة والعنيدة وتتوفر الغسالات الأمامية مع خيارات متقدمة مثل التحكم الذكي مع توافر إمكانية ضبط درجة الحرارة ودورات الغسيل المختلفة 
٠ غسالات علويه 
وهذا النوع من الغسالات يعد خيارا شائعا في العديد من المنازل ولربات البيوت وذلك بفضل سهولة الإستخدام وتمتعها بالقدرة العالية على التعامل مع الأحمال الكبيرة من الملابس كما أنها تتميز بقدرتها على تعبئة المياه بشكل أسرع مع توفير دورة غسيل قويه تناسب الملابس الثقيلة 
ارخص غسالات ملابس
عند البحث عن أرخص غسالات الملابس يجب علينا أن نضع في الإعتبار المميزات الأساسية التي تستطيع من خلالها أن تلبي الغسالة احتياجاتنا اليومية دون أن نضطر لدفع مبالغ كبيره فيتوافر بعض الغسالات الاقتصادية التي تقدم أداء جيدا كما تحتوي على وظائف اساسيه ومنها الغسيل والشطف والتجفيف بسرعه فائقة فمن المهم عند إختيار أرخص غساله أن نتحقق من استهلاك الغسالة للمياه والكهرباء مع ضمان الكفاءة الاقتصادية علي المدى الطويل 
غسالات حوضين 
تعد غسالات حوضين خيارا مثالياً للعديد من ربات البيوت الذين يبحثون عن تكلفه منخفضه مع توافر مرونة أكبر في عملية الغسيل حيث تحتوي هذه الغسالات على حوضين أحدهما يستخدم للغسيل والآخر يستخدم لتجفيف الملابس حيث يسمح بأجراء عملية الغسيل والتجفيف في وقت واحد وذلك يعمل على توفير الوقت والجهد كما أن غسالات حوضين أقل تكلفة من الغسالات الأوتوماتيكية 
مجففات ملابس 
في العصر الحديث وفي تسارع ريتم الحياه تعد مجففات الملابس من الأجهزة المنزلية الضرورية في المنازل العصرية خاصو في المناطق ذات الطقس الرطب والبارد حيث تساعد مجففات الملابس ربه المنزل في تجفيف الملابس بسرعة وكفاءة عالية كما أنها تساهم في توفير الوقت وتجنب نشر الملابس لفترات طويله كما  أن مجففات الملابس تحافظ على الملابس من التعرض لا شعه الشمس المباشرة التي تسبب الضرر بالملابس وتلاشي الألوان وتلف الأقمشة
مجفف الملابس يحافظ على الملابس من تعرضها للكرمشة كما يعمل على توفير الوقت الذي يهدر في عملية كي الملابس
معايير إختيار مجفف الملابس 
عند التفكير في إختيار مجفف الملابس يجب مراعات بعض المعايير حتى يتم الحصول على أفضل أداء وكفاءه 
٠ يجب شراء المجفف ذات السعه المناسبة والذي يتناسب مع كمية الملابس التي يتم غسلها 
٠ البحث عن المجفف الذي يتمتع بكفاءة الطاقة حتى يتم التوفير في فاتورة الكهرباء وعدم تحمل مصاريف اضافيه 
٠ البحث عن المميزات الإضافية المتوفرة في المجفف من أهم المعايير التي يجب أن تراعى حيث يتوافر به برامج التجفيف المختلفة مع سهولة التحكم في درجة الحرارة وخاصية التجفيف بالبخار 
٠ ا��إهتمام بالعلامة  التجارية وفترة الضمان من أهم المعايير للحصول على أفضل مجفف ملابس
الغسالات و المجففات أصبحت من الأجهزة الأساسية التي تعمل على توفير الراحة للأسر مع توفير الوقت والجهد فعند إختيار غسالة ملابس او مجفف يجب الاعتماد على الاحتياجات اليومية والمزايا التي يوفرها كل جهاز حيث نستطيع الحصول على أفضل غسالة وأفضل مجفف ملابس من متجر تكييف بالرياض حيث يقدم المتجر أقوى العروض المميزة على الغسالات بجميع أنواعها ومجففات الملابس مع توفير كافة الماركات العالمية وبأسعار لا تقبل المنافسة فبادر واحصل أفضل مجفف ملابس وأفضل غساله بأفضل الأسعار في المملكة
0 notes
wleakblog · 2 months
Text
شركة عزل اسطح بجدة
Tumblr media
شركة عزل اسطح بجدة من البداية يجب معرفة ان الاسطح يجب ان تكون معزولة من بداية الانشاء بنوعين من العزل النوع الاول هو العزل المائى ⇐وهو الذى يمنع تسربات المياة من الاسطح بجدة والنوع الثانى هو العازل الحرارى وهو الذى يساعد على عدم مواصلية الحرارة ويساعد على توفير فى استهلاك الكهرباء ⇐ ويوجد العديد من انواع العزل المائى والحرارى فى السوق بجدة.
فيجب عند اختيار نوع العازل يجب اختيار الانواع الجيدة من حيث المواصفات الجيدة لهذا الغرض نختار وبعناية كل المواد لدينا من مواد عزل مائية ومواد العزل الحرارية ونعمل بصفة مستمر على التوصل لاحدث مواد العزل والمحافظة على ذلك وزى ما عرفنا انواع عزل الاسطح هنعرف مع بعض النوع الثالث شركة عزل اسطح بجدة العزل بعض البلاط للاسطح⇐ فهناك الكثير من الانواع هنعرفها مع بعض وطريقة العملة
عزل الاسطح قبل البلاط بجدة
وطريقة شركة عزل اسطح بجدة قبل البلاط هناك اكثرمن طريقة واكثر من نوع ولكن خلينا نقول مع اشهر طرق العزل قبل البلاط النوع الاول ⇐من عزل الاسطح بجدة هو عازل الفات اوالزفت او الرمبارين ولة الكثير من المسمايات لكن عازل الفات هذة هو من اقدم انواع العازل وطريقة العمل علية بسيطة الخطوة الاولة هى تنظيف السطح بلكامل من الاوساخ والاتربة والركام ومن سما طلى السطح بزفت وفى نوعان من الزفت النوع الاول البارد والنوع الثانى الساخن هما الاثنان لهم نفس الخواص ولكن هو اختلاف لذوق الفنى فقد وليس لة الكثير من شركة عزل اسطح بجدة وبعد طلاء جزء من السطح بعرض الروال يبداء الفنى بفرد الروال ⇑ على على الطلاء.
عزل السطح الاسمنتى بجدة
شركة عزل اسطح بجدة الاسمنتى او البلاستيكى وهما الاثنان يشتريكا فى طريقة العمل الخطوة الاولة هى تنظيف السطح بلكامل من الاوساخ والاتربة والركام لكامل السطح بجدة ومن سما معالجة الشروخ والشطوب والاماكن المعشعشة فى السطح بجدة بمادة الربدو ومن سما الانتظار لين الجفاف ومن سما البدء فى رل الطبقة الاولة على السطح بجدة مع مراعات ان تكون الطبقة الاولة على شكل سالب( — -) .
ومن سما الانتظار لين الجفاف والعمل على المعاينة وما اذا كانت توجد بعض الشطوب ان وجدت يقوم الفنين بعمل مادة متماسكة وسد هذة الشطوب ومن سما والبدء فى رل الطبقة الثانية مع مراعات ان تكون الطبقة الثانية على شكل موجب( + ) ومن سما الانتظار لين الجفاف وما اذا كان شركة عزل اسطح بجدة لطبقة الثالثة وتسمر العملية لين الانتهاء من كامل السطح بجدة وامعاينة الميدانية لسطح وما اذا كان يستحق لطبقات اخرة من المادة العازل ويترك لمدة 24 ساعة لين تمام جفاف المادة لكامل السطح بجدة .
0 notes
urduchronicle · 1 year
Text
ارکان پارلیمنٹ کو اسلحہ لائسنس کے اجرا میں تاخیر پر پارلیمانی کمیٹی برہم
اسلحہ لائسنسوں کی خصوصی کمیٹی نے ارکان پارلیمنٹ کو اسلحہ لائسنس جاری کرنے میں تاخیری حربے استعمال کرنے پر وزارت داخلہ پر برہمی کا اظہار کیا۔ کمیٹی کا اجلاس ایم این اے سید غلام مصطفیٰ شاہ کی صدارت میں ہوا جس میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی جانب سے ارکان پارلیمنٹ کے لیے منظور شدہ اسلحہ لائسنس کے اجراء میں وزارت داخلہ کی جانب سے تاخیری حربوں کا سخت نوٹس لیا گیا۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ وزارت داخلہ 24…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 4 months
Text
نجکاری کی راہ میں رکاوٹیں
Tumblr media
نجکاری پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت پاکستان کے نقصان کرنے والے اداروں کی صورتحال یہی ہے کہ نقصان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ جو برداشت سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لیے ان اداروں سے جان چھڑانا لازمی ہو گیا ہے۔ خسارے میں چلنے والے ادارے کئی ہیں لیکن آجکل پی آئی اے کی نجکاری کی بہت بات ہو رہی ہے۔ تا ہم پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر اس کی نجکاری کی مخالفت کر رہی ہے‘ اس طرح نجکاری کو دوبارہ متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا ہے‘ ہمیشہ ہی ایسا ہوا ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے حکومتی تحویل میں موجود ائیر لائنز سے جان چھڑا لی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کافی سال پہلے اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ کاروبار کرنا حکومت کا کام نہیں۔ حکومت ریگولیٹر تو ہو سکتی ہے۔ لیکن حکومت خود کامیاب کاروبار نہیں کر سکتی ۔ اسی لیے آج جب لوگ پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کر رہے ہیں تو یہ سوال جائز ہے کہ کیا برطانیہ کی حکومت کوئی ائیر لائن چلا رہی ہے؟ کیا امریکا کی حکومت کوئی ائیر لائن چلا رہی ہے؟ کیا یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کوئی ائیر لائن چلا رہے ہیں؟ جواب یہی ہے کہ ان سب ممالک نے کئی سال پہلے اپنے اپنے ممالک کی ائیر لائنز کی نجکاری کر دی تھی۔ بھارت نے بھی سرکاری ائیر لائن کی نجکاری کر دی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ مسئلہ بن گیا ہے۔
پی آئی اے کا خسارہ ناقابل برداشت ہو چکا ہے‘ ہر حکومت اس مسئلہ سے آگاہ بھی ہے لیکن نجکاری کی سیاسی قیمت سے ڈر جاتی ہیں‘ حکومت نجکاری چاہتی ہے لیکن اپوزیشن نجکاری کی مخالفت کرتی ہے۔ جب اپوزیشن حکومت میں آتی ہے تو اس کے پاس بھی نجکاری کے سوا کوئی حل نہیں نظر آتا ہے۔ ہم نے پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں کو دیکھ لیا ہے۔ کسی کے پاس بھی نقصان میں چلنے والے کسی ادارے کا کوئی حل نظر نہیں آیا۔ تحریک انصاف کے دور میں بھی اداروں میں نقصان بڑھا ہے۔ پی آئی اے کو چھوڑیں آپ اسٹیل مل کی مثال ہی لے لیں۔ جب ن لیگ نے اس کی نجکاری شروع کی تھی تو تحریک انصاف نے اس کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ اسد عمر اسٹیل مل پہنچ گئے تھے۔ اعلان کیا تھا کہ ہم اس کو چلائیں گے۔ اس کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن پھر کیا ہوا ۔ چار سال تحریک انصاف کی حکومت رہی۔ اسٹیل مل کے نقصان میں اضافہ ہوتا رہا۔ نجکاری بھی نہیں ہوئی اور نقصان بھی بڑھتا رہا۔ ملازمین گھر بیٹھ کر تنخواہیں لیتے رہے۔ صاف بات ہے کہ اگر تحریک انصاف کے پاس کوئی پلان یا منصوبہ ہوتا تو وہ ضرور استعمال کرتے۔ لیکن شاید انھیں بھی علم تھا کہ نجکاری کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ لیکن سیاسی قیمت کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔
Tumblr media
جب بھی کوئی حکومت اس کی نجکاری کا عمل شروع کرتی ہے تو اسکینڈل شروع ہو جاتا ہے۔ تحریک انصاف نے کوشش کی لیکن سیاسی اسکینڈل کی وجہ سے ڈر گئی۔ سب ڈر گئے کوئی بھی اپنے ذمے کوئی اسکینڈل نہیں لینا چاہتا۔ اس لیے قدم بڑھانے سے ڈرتا ہے۔ تمام نقصان کرنے والے اداروں کے ساتھ یہی صورتحال ہے۔ آج پی آئی اے کی پھر وہی صورتحال ہے۔ ملازمین کو نکالا نہیں جا سکتا، جہاز خریدے نہیں جا سکتے‘ پھر کیا کیا جائے۔ نجکاری ہی واحد راستہ ہے۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نقصان سے بچنا اصل ہدف ہے۔ لیکن کوئی یہ کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہر کوئی نیب سے ڈرتا ہے۔ آج پیپلزپارٹی پھر مخالفت کر رہی ہے حالانکہ پی آئی اے کے زوال میں پیپلز پارٹی کا بھی حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں پی آئی اے میں ضرورت سے زائد بھرتیاں کی ہیں۔ یوں ادارے پر تنخواہوں اور مراعات کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔ 
اب فالتو ملازمین کو نکالنا بھی ایک عذاب بن گیا ہوا ہے۔ جیسے اسٹیل مل کے ملازمین کو نکالنا بھی ایک عذاب بن گیا ہوا ہے، ان کو نکالنے کی سیاسی قیمت ادا کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ جب ن لیگ کے گزشتہ دور میں پی آئی اے کی نجکاری کی بات شروع ہوئی تھی تو کراچی میں احتجاج شروع ہوا جس کی وجہ سے معاملہ رک گیا۔ میں سمجھتا ہوں اب معاملات وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں سے اب کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اب سیاسی قیمت کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ریاست کے پاس اب کوئی گنجائش ہے۔ اب سیاسی قیمت سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔  خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری پہلے ہونی چاہیے۔ حکومتی رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ نجکاری میں کسی کو بھی دے دیں اسکینڈل تو بننا ہے۔ لوگ باتیں تو کریں گے�� کہانیاں تو بنیں گی۔ لیکن معاملہ معیشت کا ہے۔ اس لیے ذمے داری نبھانا ہو گی۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔
مزمل سہروردی 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
نگران حکومت کی ضرروت ہی کیا ہے؟
Tumblr media
انتخابات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن نگران حکومتوں کے نام پر غیر منتخب لوگوں کو اقتدار میں لا بٹھانے کی یہ رسم صرف پاکستان میں ہے۔ سوال یہ ہے اس بندوبست کی افادیت کیا ہے اور نگران حکومتوں کے انتخاب، اہلیت، اختیارات اور کارکردگی کے حوالے سے کوئی قوانین اور ضابطے موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جہاں غیر منتخب نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں وہاں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نبٹا لیے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی انتخابات متنازع ہو جاتے ہیں؟ نگران حکومت کے نام پر عارضی ہی سہی، ایک پورا حکومتی بندوبست قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بندوبست کے بارے میں تفصیلی قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 اور آئین کے آرٹیکل 224 میں کچھ بنیادیں باتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن وہ ناکافی اور مبہم ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک رکن پارلیمان کی اہلیت کے لیے تو ایک کڑا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن نگران حکومت کی اہلیت کے لیے کوئی اصول طے نہیں کیا گیا؟ وزیر ��عظم یا وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کوئی نام تجویز کر دیں تو اس نام کی اہلیت کو پرکھنے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ تو ہونا چاہیے، وہ کہاں ہے؟ 
یہی معاملہ نگران کابینہ کا ہے۔ آئین کا آرٹیکل A 224 (1) صرف یہ بتاتا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلی کی ایڈوائس پر ہو گا لیکن یہ کہیں نہیں بتایا کہ نگران کابینہ کے لیے اہلیت کا پیمانہ کیا ہو گا۔ ایک جمہوری معاشرے میں ایسا صوابدیدی اختیار حیران کن ہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے اختیارات کا دائرہ کار کیا ہے؟َ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سے کام نہیں کر سکتی؟ اس کی مراعات کیا ہوں گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس کو جواب دہ ہو گی؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سولات کا تفصیلی جواب نہ آئین میں موجود ہے نہ ہی الیکشن ایکٹ میں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں کچھ وضاحت ہے لیکن ناکافی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ دو جمع دو چار کی طرح تحریری طور پر موجود ہونا چاہیے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزراء کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان سے کسی فورم پر سوال نہیں ہوتا۔ نگران حکومتوں کے دورانیے میں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن سینیٹ جیسا ادارہ تو موجود ہوتا ہے، سوال یہ ہے اس دورانیے میں سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا؟
Tumblr media
ہم نے ساری دنیا سے نرالا، نگران حکومتوں کا تصور اپنایا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس نامعتبر بندوبست نے ہمیں کیا دیا اور ہمیں اس پر اصرار کیوں ہے؟ نگران حکومت کے قیام کا واحد بنیادی مقصد انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے۔ سوال یہ ہے اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کو حکومت سونپنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت سرکاری محکموں اور وزارتوں کی صورت چلتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت بنانے کی بجائے حکومتی مشینری کو الیکشن کمیشن ہی کے ماتحت کر دیا جائے؟ جب آئین نے آرٹیکل 220 میں تمام اتھارٹیز کو چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی، یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کی مدد کریں گے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کے لیے غیر منتخب حکومت مسلط کی جائے؟  معمول کے کام چلانا بلا شبہ ضروری ہیں تا کہ ریاستی امور معطل نہ ہو جائیں لیکن اس کی متعدد شکلیں اور بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے غیر منتخب لوگووں کی حکومت بنانا ضروری نہیں۔
سینیٹ کی شکل میں جو واحد منتخب ادارہ اس دورانیے میں موجود ہوتا ہے، اسے عضو معطل کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ غیر منتخب نگران حکومت کو سینٹ کے سامنے جواب دہ قرار دیا۔ ہمارے اہل سیاست کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی محنت سے خود ہی خود کو بددیانت، ناقابل بھروسہ اور خائن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ اگر منتخب حکومت ہی کو نگران حکومت کی ذمہ داری دی گئی تو وہ لازمی بد دیانتی اور خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کریں گے؟ قانونی اورآئینی طور پر سارے اراکین پارلیمان سچے، نیک، پارسا، دیانت دار، امین اور سمجھ دار ہیں اور ان میں کوئی بھی فاسق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ عام انتخابات کے لیے اس کی دیانت اور امانت داری کا یقین کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ نگران حکومت کا تصور جمہوری حکومت نے نہیں دیا تھا۔ جمہوری حکومتیں البتہ اسے سرمایہ سمجھ کر گلے سے لگائے ہوئے ہں اور انہیں احساس ہی نہیں یہ اصل میں ان کے اخلاقی وجود پر عدم اعتماد ہےا ور ایک فرد جرم ہے۔ نگران حکومت کے موجودہ غیر منتخب ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ہماری سیاست کے اخلاقی وجود کو کسی دشمن کی حاجت نہیں۔ یہ الگ بات کہ انہیں اس حادثے کی کوئی خبر ہی نہیں۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes · View notes
us6 · 5 months
Text
سيدنا و والدنا أول البشر والناس كان وحيداً وشعر بالوحده لأنه كان فريداً وأحداً لا شبيه له ولا مؤنث له لنوعه البشري والإنساني ولم يستطع تحمل ذالك فا خلق الله من ضلعه مؤنث من نوعه البشري والإنساني وكان ذالك في الجنه فكان خلق البشريه والإنساني أثنين كباقي المخلوقات وكان خلقهم في المكان الذي سيعودان له في النهايه الأخيره
أما نحن بعد أجيال وأجيال ننحدر من سلاله أبناء نوح أحد سلالات أبناء أبينا وسيدنا أدم عليه السلام وذالك بعد الطوفان الذي إجتاح الكرة الأرضيه وملئها إلا أن أصبح ليس لها يابسه وأما القوم الذين كانوا معه في السفينه فكان معلوماً أنهم لم يكن بي إستطاعتهم الإنجاب عقم
والأن بعد مضي سنين و أعوام ومرور أجيالاً بعد جيل و جيل نشعر بالوحده و قد لا ناجد شريك لوحده كما هو الفطره كما سيدنا وأبيناء أدم وسيدتنا وأمنا حواء إلا بما تعارف عليه البشريه و أوجدته جيلاً بعد جيل بإيجاد المشقه والمعانات على نفسها وبينهم بعضاً لبعض فكادت أن تختفي البساطه والتواضع والتعايش العفوي بين بعض في وجود حضارات التطور والتكنلوجيا والحداثه وفي خضم الصراعات والأزمات وإنشاء الثروات وظهور العادات والتقاليد والثقافات وتنوعها بين الشعوب وتنوع اختلافاتهم وتنوع تفرع إختلافاتهم وتشعب تطورهم وثورتهم الثقافيه والثورات التنوعيه لباقي المتغيرات فكلما زاد البشريه والإنسانيه عدداً وعلماً وثروتاً وتطوراً زادت معها المشقه في وجود الراحه التي أصبح لها ثماً باهظاً مقارنتاً بي وضع معيشته إلا القله القليله التي يتوفر لها ما تريد أو بي أمكانهم تحقيق ما يريدون فاصبح وجود الشريك والإرتباط في الحياة أكثر تعقيداً مما كان عليه قديماً
فأصبح الكثيرون يعزفون ويتخلون عن فكره وجود شريك لهم في هذه الحياة نظير عدم أستطاعتهم لأحداً من الأسباب المتنوعه أو كلها
فا بي هذا سيهدر البشر والإنسانيه أعمارهم وحياتهم
وسيقل تعدادهم بعد مضي ؤقت ليس بالقريب وبالنهايه سيبقئ قله منهم مع وجود أجيال وأجيال مهدره لأعمارهم وحياتهم في عدم تحقيق شيء سؤ كان لأنفسهم أو لغيرهم أو لي أحداً منهم فئن كان هذه حال البشر والإنسانيه في ما بينهم لبعضهم البعض فيكفي لهم أن يكونوا سبباً لهلاك أنفسهم بدلاً من إعمار أنفسهم والمحافظه على بعضهم و مراعات والإهتمام والتعاون والإتحاد والتسهيل والتفريج في ما بينهم بعضاً لبعض
وهذا والله أعلم
0 notes
googlynewstv · 16 days
Text
جعلی ڈگری والا جنرل باجوہ کا بھائی PIA سے ڈالرز کیسے لوٹتا رہا
قومی ائیرلائن پی آئی اے کے جعلی ڈگری اسکینڈل میں مراعات کے ساتھ رخصت ہونے والے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے بھائی اقبال جاوید باجوہ کے حوالے سے انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے سامنے آنے والے حقائق کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے ایماء پر پی آئی اے انتظامیہ نے نہ صرف تین مرتبہ اقبال باجوہ کو برطرفی سے بچایا بلکہ ان کے 47 سالہ کیریئر کے دوران ان پر نوازشات کا سلسلہ بھرپور طریقے سے جاری…
0 notes