Tumgik
#مہاجر قومی موومنٹ
urduchronicle · 8 months
Text
اگر طے ہوچکا ہے کراچی میں کس کو کتنی سیٹیں ملیں گی تو الیکشن کا فائدہ نہیں، آفاق احمد
چئیرمین مہاجر قومی موومنٹ افاق احمد نے کہا ہےکہ اس وقت ایسا طے ہوچکا ہے کہ شہر میں کس کو کتنی سیٹیں ملیں گی،شہر میں مخصوص سیاسی جماعت کے نمائندے یہ بول رہے ہیں کہ ہمیں سیٹیں مل گئی ہیں،اگر اس طرح بند کمروں میں فیصلے ہوئے تو انتخابات کی افادیت ختم ہوجائے گی۔ کراچی میں اپنی رہائش  گاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے  چئیرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد نے کہا ہےکہ ہم نے الیکشن کمیشن کو درخواست میں ہونے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
’پیپلزپارٹی کراچی کے الیکشن کو ہائی جیک کرنا چاہتی ہے‘
’پیپلزپارٹی کراچی کے الیکشن کو ہائی جیک کرنا چاہتی ہے‘
کراچی: مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد کا کہنا ہے کہ تینوں جماعتوں کے ملنے پر مبارک باد دیتا ہوں موجودہ غیریقینی صورتحال کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے، پیپلزپارٹی شہر کے الیکشن کو ہائی جیک کرنا چاہتی ہے۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دعا ہے کہ یہ تینوں جماعتیں مل کر قوم کے لیے کچھ کریں گے، مہاجر قومی موومنٹ اور تینوں جماعتوں نے…
View On WordPress
0 notes
nowpakistan · 4 years
Text
عامر خان کے آفاق احمد سے متعلق اہم انکشافات
عامر خان کے آفاق احمد سے متعلق اہم انکشافات
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینئر رہنما عامر خان نے آفاق احمد سے متعلق اہم انکشاف کیا ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس سے قبل میئر کراچی وسیم اختر، سینئر رہنما کنور نوید اور عامر خان کی گفتگو کیمرے میں ریکارڈ ہوگئی۔
عامر خان نے کہا کہ نثار مورائی کی جے آئی ٹی میں ذوالفقار مرزا کی جانب سے آفاق احمد کو پیسے اور ہتھیار دیے جانے کی بات ہے جو حقیقت ہے۔
انہوں نے اپنے ساتھیوں کو…
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 5 years
Text
ایک تھی ایم کیو ایم...ایم کیو ایم کے عروج و زوال کی کہانی
سوچتا ہوں آغاز کہاں سے کروں اور اختتام کہاں۔ ان چالیس سالوں میں مہاجر قومی موومنٹ کا عروج بھی دیکھا اور متحدہ قومی موومنٹ کا زوال بھی۔ سیاست میں تشدد غالب آجائے تو نہ سیاست رہتی ہے نہ نظریات۔ پہلے تالیاں نہ بجانے اور نعرہ کا جواب نہ دینے پر ناراضی کا اظہار کیا جاتا تھا۔ آج کل تالیاں بجانے اور نعرے کا جواب دینے کے مقدمات کا سامنا ہے۔ شہری سندھ کی سیاست 70 کے بعد کچھ اس طرح پروان چڑھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ اقتدار (1972-1977) وہ وقت تھا جب مذہبی جماعتوں کا زور تھا، ’’مہاجر کارڈ‘‘ ان کے پاس تھا۔ سندھی زبان کا بل اور اس پر لسانی فسادات۔ کوٹہ سسٹم، تعلیمی اداروں میں داخلے میں دشواریاں، نوکریوں میں کراچی، حیدرآباد، سکھر کے لوگوں پر پابندی۔ بھٹو اور اردو بولنے والے دانشوروں کے درمیان مسئلے کے حل کے لئے مذاکرات اور معاملہ 60 فیصد دیہی اور 40 فیصد شہری کوٹہ پر حل ہو گیا۔ بدقسمتی سے یہ فارمولہ سیاست کی نذر ہو گیا۔
سن 1976 میں الیکشن ہوئے، نتائج تسلیم نہیں کئے گئے۔ قومی اتحاد کی تحریک چلی اور شہری سندھ گڑھ بنا۔ جولائی 1977 مارشل لا کا نفاذ، شہروں میں مٹھائی تقسیم، 90 روز کےوعدے پر الیکشن ملتوی۔ 1978 اردو بولنے والے نوجوانوں کا مہاجر سیاست، مہاجر کے نام سے کرنے کا فیصلہ۔ کہتے ہیں APMSO سے ایم کیو ایم تک کے سفر میں بنیادی لوگوں میں بانی متحدہ کے علاوہ اختر رضوی مرحوم، عظیم احمد طارق مرحوم، ڈاکٹر عمران فاروق مرحوم، سلیم شہزاد مرحوم، ڈاکٹر سلیم حیدر، ماسٹر علی حیدر، احمد سلیم صدیقی، طارق مہاجر، کشور زہرہ، زرین مجید اور کچھ لوگ شامل تھے۔ 1984 طلبہ تنظیم سے سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ مگر سندھی، مہاجر، اتحاد قائم کرنا جس میں رضوی صاحب کا اہم کردار رہا جس کی ایک وجہ ان کا بائیں بازو کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی سے تعلق۔ 1986 میں نشتر پارک میں پہلا جلسہ، سفید کرتا پاجامہ کو مہاجر شناخت کے طور پر متعارف کرانا۔
سن 1978 سے 1986 تک شہری علاقوں خاص طور پر کراچی میں بدترین فرقہ وارانہ اور پھر لسانی فسادات، نئی نئی تنظیمیں اور گروپ تشکیل پاتے گئے۔ 1987 بلدیاتی الیکشن کے نتائج نے سندھ میں ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ دی جسے بھرپور عوامی پذیرائی ملی۔ ایسے ایسے لوگ ایوانوں میں پہنچے جنہیں پتا بھی نہیں تھا کہ بلدیہ عظمیٰ کی عمارت کدھر ہے اور حلف کیسے لیتے ہیں۔ 1988 الیکشن سے کچھ ہفتے پہلے حیدر آباد میں دو سو افراد منٹوں میں قتل کر دیئے گئے۔ جواب میں کراچی میں خونیں ردعمل سامنے آیا اور سو سے زائد افراد مار دیئے گئے۔ انتخابات ہوئے تو ایسا لگا جیسے سندھ کو انتخابی طور پر دیہی اور شہری سندھ میں تقسیم کر دیا گیا ہو پھر پی پی پی اور ایم کیو ایم حکومتی اتحاد بنا۔ 1989 بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ایم کیو ایم کا خفیہ طور پر حکومتی اتحاد ی ہوتے ہوئے مخالفت میں ووٹ۔ دونوں جماعتوں میں بد اعتمادی کی ابتدا ہوئی جو شاید آج تک قائم ہے۔ 
ایم کیو ایم کے نعروں میں شدت آگئی، الگ صوبے سے لے کر محصورین مشرقی پاکستان کی واپسی، شہروں میں فسادات اور 6 اگست 1990 کو بے نظیر حکومت کا خاتمہ۔ 1990کے الیکشن اور متحدہ کی کامیابی مگر اس بار زور زبردستی کا الزام، جام صادق کی حکومت قائم، نواز شریف اتحادی، 1992 ڈاکوئوں اور کرمنل کے خلاف فوجی آپریشن۔ کراچی میں ایم کیو ایم میں پہلی تقسیم، حقیقی کا قیام اور آفاق اور عامر خان الگ، بانی متحدہ جام صادق کے مشورے پر جنوری 92ء میں لندن روانہ جہاں سے آج تک واپسی نہیں ہوئی۔ 1994 میں پولیس آپریشن میں متحدہ کے کئی سو مبینہ کرمنل مارے گئے مگر بڑی تعداد میں لوگ ماورائے عدالت بھی قتل کئے گئے۔ 1993 میں بانی چیئرمین عظیم احمد طارق کا قتل الزام متحدہ پر، وجہ بانی سے اختلاف۔ 
اس کے بعد یہ سلسلہ رک نہ سکا مگر ان تمام سالوں میں کچھ خفیہ ہاتھ بھی نمایاں رہے اور ان کی سیاست بھی۔ 2002 سے 2007 تک ایم کیو ایم کو جیسے نئی زندگی مل گئی ہو۔ پہلی بار شہری علاقوں خاص طور پر کراچی میں ترقیاتی کام ہوئے مگر جس چیز نے ایم کیو ایم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ علاقہ کنٹرول، زور زبردستی، بھتہ خوری اور پرتشدد واقعات تھے۔ 2013 الیکشن میں متحدہ کامیاب مگر بانی پارٹی سے ناراض۔ تحریک انصاف کو 8 لاکھ ووٹ کیسے پڑ گئے۔ یہیں سے جماعت کے خاتمہ کا آغاز ہوا۔ اس بار ہونے والے آپریشن کو وہ سمجھ ہی نہیں پائے۔ کچھ عرصے بعد قابل اعتراض تقاریر کرنے پر لاہور ہائی کورٹ نے اس کی کوریج پر پابندی لگا دی جو اب تک برقرار ہے۔ 22؍ اگست 2016 کو رہی سہی کسر بھی پوری ہوئی۔ متحدہ کا مرکز، دفتر سیل ہوا بلکہ اس کے اطراف تمام سیاسی سرگرمیاں بھی۔ 
کچھ رہنمائوں نے پارٹی کو بچانے کی کوشش کی اور شاید آج بھی کر رہے ہیں مگر اب یہ اندر کی لڑائی زیادہ نظر آتی ہے۔ چالیس سال کا سفر بے نتیجہ ہی رہا مگر آج بھی مطالبات وہی ہیں نوکریاں، داخلے نہیں تو الگ صوبہ۔ تقسیم نہیں اتحاد میں اتفاق میں برکت ہوتی ہے۔ ناانصافیاں بہرحال ختم کرنا ہوں گی۔ کراچی کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھنا چھوڑیں یہ سندھ کا دارالحکومت بھی اور پاکستان کا معاشی حب بھی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ غلطیوں سے سیکھیں۔ حقیقت یہ کہ آپ کا اصل امتحان ہوتا ہی اس وقت ہے جب آپ کے پاس اختیار بھی ہو اور آپ شریک اقتدار بھی ہوں۔ یہ مواقع ملے مگر آپ کے لوگ چمک کا شکار ہو گئے اور آپ کسی اور جانب نکل گئے۔ تشدد اور سیاست، جرائم اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ استعمال ہونے والوں کو بھی سوچنا ہے اور استعمال کرنے والوں کو بھی۔ جنہوں نے ہتھیار اٹھائے ان کے لئے بھی سبق ہے اور جنہوں نے ہتھیار دینے میں سہولت کاری کی ہے، پھر کبھی سہی۔ اگر موقع ملے تو حسن جاوید کا ناول ’’شہر بے مہر‘‘ پڑھ لیجئے گا۔
مظہر عباس بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes · View notes
columnspk · 3 years
Text
Karachi Kay Halat Khabardar Rehne Ki Zaroorat
Karachi Kay Halat Khabardar Rehne Ki Zaroorat
کراچی کے حالات، خبردار رہنے کی ضرورت یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے جماعت اسلامی کے مطالبات تسلیم کر لئے ہیں اور سندھ کے نئے بلدیاتی قانون میں ایسی تبدیلیاں کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے ، جن کی سفارش جماعت اسلامی نے کی تھی جس پر جماعت اسلامی نے اپنا احتجاجی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ البتہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) پاکستان ، پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر…
View On WordPress
0 notes
news360updates · 3 years
Text
منقسم مہاجروں کے ووٹوں کو اکٹھا کرنے کا ٹاسک کس نےدیا؟میدان سیاست میں ہلچل بپا
منقسم مہاجروں کے ووٹوں کو اکٹھا کرنے کا ٹاسک کس نےدیا؟میدان سیاست میں ہلچل بپا
جیسے جیسے بلدیاتی انتخابات قریب آرہے ہیں ویسے ویسے تمام سیاسی جماعتوں کی پھرتیوں میں بھی اچانک تیزی دکھائی دے رہی ہے۔ ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کراچی میں اردو اسپیکنگ بولنے والوں کے ووٹ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، تنظیم بحالی کمیٹی (فاروق ستار گروپ) پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی)، مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) میں بٹے ہوئے ہیں۔ ووٹوں کے بٹ جانے کی وجہ سے مہاجر کارڈ کھیلنے والی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
ksacurrentevents · 3 years
Text
کراچی کے مسائل کے حل کیلئے عشرت العباد متحرک؛ آفاق احمد سے رابطہ
کراچی کے مسائل کے حل کیلئے عشرت العباد متحرک؛ آفاق احمد سے رابطہ
سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کا چئیرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد سے رابطہ ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد اور چئیرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد کے درمیان رابطے میں سیاسی صورتحال اور کراچی کے موجودہ حالات پر گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے کہا کہ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ منقسم قیادت کراچی کے عوام اور مسائل کے حل کے لیے ایک جگہ ہوکر مضبوط طریقے سے آواز بلند کرے۔ سابق گورنر نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
مہاجروں کی منقسم قیادت کراچی کیلیے ایک جگہ ہوکر آواز بلند کرے، ڈاکٹرعشرت العباد - اردو نیوز پیڈیا
مہاجروں کی منقسم قیادت کراچی کیلیے ایک جگہ ہوکر آواز بلند کرے، ڈاکٹرعشرت العباد – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  کراچی: سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کا کہنا ہے کہمہاجروں کی منقسم قیادت کراچی کیلیے ایک جگہ ہوکر آواز بلند کرے۔ ایکسپریس نیوز کے سابق گورنر سندھ  سیاسی طور پر متحرک ہوگئے، ڈاکٹر عشرت العباد نے مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد سے رابطہ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔ ذرائع کے مطابق ٹیلیفونک رابطے میں دونوں رہنماؤں میں ملک کی سیاسی صورتحال اور خصوصاً کراچی کے موجودہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
siyyahposh · 3 years
Text
مہاجروں کی منقسم قیادت کراچی کیلیے ایک جگہ ہوکر آواز بلند کرے، ڈاکٹرعشرت العباد
مہاجروں کی منقسم قیادت کراچی کیلیے ایک جگہ ہوکر آواز بلند کرے، ڈاکٹرعشرت العباد
عشرت العباد سیاسی طور پر متحرک، مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد سے رابطہ – فوٹو:فائل  کراچی: سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کا کہنا ہے کہمہاجروں کی منقسم قیادت کراچی کیلیے ایک جگہ ہوکر آواز بلند کرے۔ ایکسپریس نیوز کے سابق گورنر سندھ  سیاسی طور پر متحرک ہوگئے، ڈاکٹر عشرت العباد نے مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد سے رابطہ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔ ذرائع کے مطابق ٹیلیفونک رابطے میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 3 years
Text
جناح پور کا نقشہ پکڑا جانا ایک سازش تھی یا حقیقت؟
جناح پور کا نقشہ پکڑا جانا ایک سازش تھی یا حقیقت؟
فوج کی جانب سے الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ پر جناح پور منصوبہ بنانے کا الزام عائد ہوئے بیس برس گزر گئے لیکن تمام  تردیدوں کے باوجود یہ داغ آج دن تک مہاجر پارٹی کے دامن سے نہیں دھل پایا۔ یاد رہے کہ یہ الزام 19 جون 1992 کو کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن کلین اپ کے بعد عائد کیا گیا تھا۔ 17 جولائی 1992 کو کراچی میں فوج کی ففتھ ’ریزرو‘ کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ جنرل سلیم ملک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan24 · 4 years
Text
سندھ اسمبلی میں پرتشدد واقعات کی تاریخ کیا ہے؟
سندھ اسمبلی میں پرتشدد واقعات کی تاریخ کیا ہے؟
رپورٹ: عبدالجبارناصر سندھ اسمبلی میں کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ہمیں دو ہائیاں ہونے والی ہیں اور دودہائیوں میں چار شرمناک واقعات پیش آئے ، جس میں ارکان اسمبلی کو ہی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پہلا شرمناک واقعہ 2003ء میں اس وقت پیش آیا ، جب مشرف کی آمریت میں سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم )کا عروج تھا اور کراچی سے اس کی مخالف جماعت مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کا ایک رکن قومی اسمبلی اور ایک رکن سندھ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nowpakistan · 4 years
Text
ہمیشہ صاف ستھری سیاست کی، JIT سے نہیں ڈرتے
ہمیشہ صاف ستھری سیاست کی، JIT سے نہیں ڈرتے
مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیوایم) حقیقی کے چیئرمین آفاق احمد نے کہا ہے کہ ہمیں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) سے نہیں ڈرایا جاسکتا۔
کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب میں آفاق احمد نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ صاف ستھری سیاست کی، ذوالفقارمرزا سے ملاقات اُن کے وزیرداخلہ ہونے کی بنا پر ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ آفاق احمد کو جے آئی ٹی سے نہیں ڈرایا جاسکتا، سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے کا…
View On WordPress
0 notes
emergingkarachi · 6 years
Text
کراچی کیا چاہتا ہے ؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ تین عشروں سے متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کو کراچی پر سیاسی اجارہ داری حاصل رہی ہے، حکومت PPP کی رہی ہے جس کے یقینا کچھ اسباب تھے ۔ ایم کیو ایم میں شیرازہ بندی اور دھڑے بندی کیساتھ ساتھ کراچی میں امن قائم ہونے سے جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے ، اسے دیگر سیاسی جماعتیں اور خود ایم کیو ایم کے دھڑے پر کرنیکی کوشش کر رہے ہیں ۔ تاہم ابھی تک کسی کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ کراچی کی سیاسی سمت کیا ہو گی اور کراچی کیا چاہتا ہے ۔ کسی سیاسی پارٹی کا کراچی کیلئے کوئی پروگرام نہیں ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایم کیو ایم کا سیاسی قلعہ رہنے والے علاقے لیاقت آباد ( لالو کھیت ) میں ایک جلسے سے خطاب کیا ۔ پیپلز پارٹی نے 44 سال بعد یہاں جلسہ منعقد کیا ۔ لیاقت آباد ایک ایسا علاقہ ہے ، جو طویل عرصے تک سیاسی تحریکوں کا مرکز رہا ہے اور ان تحریکوں کے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ لیاقت آباد کو کراچی کی نبض تعبیر کیا جاتا رہا ہے ۔ ایوب خان کے خلاف تحریک میں لیاقت آباد سب سے آگے تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک میں بھی اس علاقے نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ۔ دائیں بازو اور بائیں بازو کی دیگر تحریکوں کا بھی یہ علاقہ مرکز رہا ۔ لیاقت آباد کی سیاسی حساسیت کے پیش نظر مختلف سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں نے اس علاقے کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال بھی کیا ۔ آج بھی یہ علاقہ کراچی کا مزاج تصور کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں جلسہ منعقد کرنا یا اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہر سیاسی جماعت ضروری سمجھتی ہے ۔ نئی صورتحال میں کئی سیاسی جماعتیں یہاں اپنا پاور شو کر چکی ہیں ۔
میں PPP میں ہوں اور میری ہمدردی بھی اسکے ساتھ ہے لیکن میں کراچی میں بھی رہتا ہوں بلکہ کراچی میرے اندر رہتا ہے۔ اگر کراچی کیساتھ نا انصافی ہو گی تو اہلِ کراچی درد محسوس کرینگے۔ اگر آس پاس میں آگ لگی ہوگی تو تپش ضرور محسوس ہو گی۔ آج کراچی کیساتھ ناانصافی پر ایک درد میرے دل میں بھی اٹھا ہے مجھے بھی دکھ ہوتا ہے میں اس دکھی دل کے ساتھ یہ تحریر کر رہا ہوں۔PPP جلسے میں کوئی اردو اسپیکنگ اسٹیج پر نہیں تھا۔ پروفیسر این ڈی خان، تاج حیدر، شہلا رضا کوئی بھی تو نہیں تھا۔ لیاقت آباد ٹنکی گراؤنڈ میں پیپلز پارٹی کے جلسہ کا ردعمل یہ ہوا کہ ایم کیو ایم کے دو دھڑے یعنی بہادر آباد اور پی آئی بی دونوں متحد ہو گئے اور انہوں نے اسی جگہ جوابی جلسہ کیا ۔ اس سے پہلے دونوں دھڑوں کے اتحاد کی ساری کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی تھیں ۔ 
اس جلسہ میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے دوبارہ ’’ جئے مہاجر ‘‘ کا نعرہ لگا دیا اور ایک بار پھر مہاجر سیاست کا کارڈ پھینک دیا ایم کیو ایم کے مشترکہ جلسے میں بلا شبہ لوگوں نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی اور ایم کیو ایم نے یہ باور کرا دیا کہ انکا یہ جلسہ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کے بیانیہ کا ردعمل ہے ۔ میرے نزدیک سندھ کی سیاست میں تقسیم کا یہ عمل دوبارہ شروع ہونا خوش آئند نہیں ہے ۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ لسانی اور گروہی بنیادوں پر تقسیم کے اسباب اس وقت بھی موجود ہیں ، جنہیں ختم کرنے کی سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئیں ۔ کسی کو کراچی کی اونرشپ لینی چاہئے۔
پاکستان تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی کراچی میں بظاہر پیدا ہونیوالے سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے کوشاں ہیں ۔ ان کوششوں میں ایم کیو ایم سے منحرف ہونے والے سیاسی رہنماؤں کی نئی جماعت پاک سرزمین پارٹی بھی شامل ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایم کیو ایم میں دھڑے بندی، امن قائم ہونے اور نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے کراچی کی سیاسی حرکیات (Dynamics ) تبدیل ہو گئی ہے لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ کراچی آبادی کے مختلف گروہوں کا شہر ہے ۔ دنیا کے ہر بڑے شہر کی طرح ثقافتی ، تہذیبی ، سیاسی اور سماجی تنوع ( Diversity ) اس شہر کا بھی خاصا ہے لیکن بدقسمتی سے دنیا کے دیگر بڑے شہروں کی طرح یہاں لوگوں میں ہم آہنگی اور تنوع کو قبول کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے ۔ اسکا بنیادی سبب یہ ہے کہ کراچی گمبھیر مسائل کا شکار ہے اور یہ مسائل آبادی کے تمام گروہوں کیلئے ہیں ۔
 یہ اور بات ہے کہ کچھ گروہ اس معاملے میں زیادہ حساس ہیں ۔ روس کے انقلاب کے بانی ولادی میر لینن نے ایک گلہ لکھا تھا کہ ناانصافی ہم آہنگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور کراچی میں آبادی کا ہر گروہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اسکے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے ۔ کراچی کی عدم ہم آہنگی اور گروہی تضادات کو بعض ملکی اور بین الاقوامی طاقتوں نے بھی سیاسی طور پر بے رحمی کیساتھ استعمال کیا ہے اور ان تضادات کو بھڑکا کر کراچی کو آگ اور خون میں نہلایا ہے۔ ملکی طاقتوں نے کراچی کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اور بین الاقوامی طاقتوں میں کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو کراچی کو ترقی یافتہ نہیں دیکھنا چاہتیں اور کراچی کی بربادی میں وہ اپنی خوش حالی دیکھتی ہیں جبکہ کچھ طاقتیں ایسی ہیں ، جو کراچی کی بربادی سے اپنے عالمی اور علاقائی ایجنڈے کی تکمیل کرتی ہیں ۔
اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اسباب کا خاتمہ کیا جائے ، جو کراچی میں گمبھیر مسائل کو جنم دیتے ہیں اور تضادات میں اضافہ اور تقسیم کو مزید گہرا کر رہے ہیں ۔ بنیادی سبب یہ ہے کہ کراچی کا کوئی ایسا انتظامی ڈھانچہ ہو، جو اس طرح بڑے بین الاقوامی اور کاسموپولیٹن سیٹیز ( Cities ) کا ہوتا ہے ۔ کراچی کا موجودہ انتظام ناقابل عمل ہے ۔ کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے ۔ پہلے ہی اتنی بڑی آبادی کے حساب سے منصوبہ بندی نہیں ہوئی اور اب حالیہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کم ظاہر کر کے اس شہر کی حقیقی منصوبہ بندی کی بنیادیں ہی ختم کر دی گئی ہیں کیونکہ منصوبہ بندی اصل آبادی کی ضرورتوں کے مطابق نہیں ہو سکے گی ۔ اس سے مسائل میں اضافہ ہو گا ۔
لوگوں میں بے چینی پیدا ہو گی اور نتیجہ میں حالات مزید خراب ہونگے۔ اگرچہ کراچی کو دنیا کے جدید ، پر امن ، ترقی یافتہ اور ہر طرح کی منافرت اور امتیاز کے خلاف شعوری طورپر مزاحمت کرنے والے شہروں کی طرح کا ایک شہر بنانا ہے تو اسے اب جدید انتظامی ڈھانچے کے ساتھ چلانا ہو گا ۔ کراچی پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے ۔ کراچی پاکستان کو سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے ۔ کراچی اس حوالے سے اپنا حصہ اور حکومت میں کوٹہ مانگتا ہے۔ کراچی کے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کا شہر بین الاقوامی معیار کے مطابق ہو ۔ یہاں امن ہو ، کراچی کے لوگ نوکریوں اور وسائل میں اپنا پورا حصہ چاہتے ہیں ۔ 
موجودہ ڈھانچے میں کراچی جیسا بڑا شہر قابل انتظام نہیں رہا کیونکہ بہت بڑی آبادی میں اس طرح کے مسائل افراتفری اور انارکی پیدا کرتے ہیں اور یہاں تضادات بہت تیزی سے ابھرتے ہیں ۔ کم اور غیر گنجان آبادی والے علاقوں میں شاید یہ مسئلہ نہیں ہو تا ہو گا ۔ ویسے بھی بڑے انتظامی یونٹ ازخود مسائل پیدا کرتے ہیں ۔ پنجاب کو تین یا چار حصوں میں تقسیم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ منتخب قیادت نے اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں خود پنجاب کو تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کی ہے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مزید انتظامی یونٹس بننے چاہئیں ۔ نہ صرف پنجاب میں بہاولپور، جنوبی پنجاب اور پوٹھوہار صوبے قائم ہوں بلکہ خیبرپختونخوا میں ہزارہ صوبہ بھی بننا چاہئے اور بلوچستان کو بھی انتظامی طور پر تقسیم ہونا چاہئے ۔ 
اسی طرح کراچی سمیت سندھ کے کراچی سے ملحق دیگر دو تین اضلاع کو ملا کر ایک انتظامی یونٹ بنایا جا سکتا ہے ۔ صوبے صرف لسانی بنیادوں پر نہیں ہوتے اور نہ ہی نئے صوبے بنانے کا مقصد کسی ایک لسانی گروہ کی بالادستی قائم کرنا ہے ۔ کراچی میں تو کسی ایک گروہ کی بالادستی قائم نہیں رہ سکے گی کیونکہ یہاں پاکستان کی تمام قومیتوں اور لسانی گروہوں کی کثیر آبادیاں ہیں ۔ نئے انتظامی یونٹس سے انتظام سنبھالنے میں آسانی ہو گی ۔ معاملات کو مزید بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایا جائے جمہوریت کا تصور مضبوط مقامی حکومتوں کے بغیر ممکن نہیں یہاں یہ بات واضح رہے کہ میں بعض حلقوں کی جانب سے کسی الگ مہاجر صوبے کے نعرے کی حمایت نہیں کر رہا ۔
میں کراچی میں رہنے والے آبادی کے تمام گروہوں کے مسائل کا حل تجویز کر رہا ہوں ۔ جس طرح دیگر صوبوں میں انتظامی مسائل کی وجہ سے نئے یونٹس بنانے کی بات ہو رہی ہے ۔ کراچی میں تضادات گہرے ہیں اور ان کا سبب سنگین مسائل ہیں ۔ میں نئے صوبوں کے حوالے سے آئین میں دی گئی اسکیم کا حامی ہوں لیکن پاکستان مزید تصادم کی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ کراچی کو اس صورت حال سے نکالنا بہت ضروری ہے اور میری دانست میں کراچی کو ایک نئے اور الگ انتظام سے چلانا وقت کا تقاضا ہے ۔
نفیس صدیقی  
1 note · View note
karachitimes · 4 years
Text
کراچی کو کس نے برباد کیا ؟
کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (سابق مہاجر قومی موومنٹ ) یعنی ایم کیو ایم کی حکومت کا آغاز شہر کی بلدیہ سے ہوا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں الطاف حسین کی قیادت میں نوجوانوں کے ہاتھ جو شہر چڑھا تو اس کا انجام وہی ہوا جو لڑکوں بالوں کے ہاتھ لگنے والی چیزوں کا ہوتا ہے۔ فاروق ستار میئر بنے اور ان کی نگرانی میں اگر نہیں تو نظروں کے سامنے ہی بلدیہ کے ملازمین کی بھرتی کے لیے صرف ایک معیار طے ہوا اور وہ تھا ایم کیو ایم سے تعلق۔ شاید کچھ لوگ میرٹ پر بھی رکھے گئے ہوں لیکن بیشتر بھرتی ایسے ہی ہوئی۔ ایم کیو ایم سے تعلق اتنا کارگر تھا کہ تعلیم، متعلقہ شعبے میں تجربہ اور کام کرنے کی لگن جیسی خصوصیات بے معنی سی ہو کر رہ گئیں۔ تنظیم سے اگر تعلق مضبوط تھا تو سب کچھ ہو سکتا تھا۔ اس طریقے سے بھرتی ہونے والوں کے ذمے کام صرف یہ تھا کہ اپنی تنخواہ سرکاری خزانے سے وصول کریں لیکن صلاحیتیں ایم کیو ایم کے لیے وقف کر دیں۔ 
اس سب کے باوجود ایسی اندھی نہیں مچی تھی کہ بلدیہ کچھ کرتی ہی نہیں تھی۔ پرانے ملازمین یا اکا دکا وہ لوگ جو کسی طرح میرٹ پر بھرتی ہوگئے تھے کام کرتے رہے۔ شہر میں جہاں بہت برا ہونے لگا تھا، وہاں اچھا بھی ہو رہا تھا۔ جیسے جیسے پرانے لوگ اٹھتے گئے، شہر میں گندگی کے پہاڑ کھڑے ہونے لگے اور وہ شہر جس کی سڑکیں بھی دھلا کرتی تھیں، آج غلاظت کا نمونہ بنا ہمارے سامنے ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 1986 میں جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئیں تو یہ سمجھ ہی نہ پائیں کہ زمانہ بدل چکا ہے۔ انہیں شہر پر ایم کیو ایم کی حکومت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ نئے سیاسی حقائق سامنے رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی بنانے کے بجائے انہوں نے ایم کیو ایم کو غیرسنجیدہ قوت سمجھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو ٹھوکر کھائی۔ انہوں نے مجبوراً ایم کیو ایم سے اتحاد بھی کیا مگر اس کا وجود انہیں برداشت نہ تھا۔ ان کے اس رویے نے پیپلزپارٹی کی جڑوں میں ایم کیو ایم کی نفرت بٹھا دی جو سندھ کے مخصوص حالات میں غیر سندھیوں سے نفرت میں بدل گئی۔ 
دلوں کے اندر گہرائی میں اتری اس نفرت و کدورت کے ساتھ یہ دونوں جماعتیں بظاہر اتحادی بھی رہیں اور کئی بار رہیں، لیکن ایک دوسرے کی تباہی کے لیے انہوں نے کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ کراچی کی بلدیہ میں کارکنوں کی بھرتی کا جو کام ایم کیو ایم نے شروع کیا تھا، سندھ اور وفاق کی حکومت ملتے ہی پیپلزپارٹی نے اسے آگے بڑھایا۔ کراچی میں اندرون سندھ سے لوگوں کو لا کر بغیر کسی میرٹ کے سرکاری نوکریاں دی گئیں، شہر پر اپنا تسلط قائم کرنے کے اس طریقے نے اتنا زور پکڑا کہ کوئی ادارہ نہ بچ سکا۔ جب یہ دونوں جماعتیں اتحاد بنا کر حکومت میں ہوتیں تو اہم ترین مفاد جو ایک دوسرے کو دیا جاتا وہ نوکریوں کا تھا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ آج کراچی سے لے کر کشمور تک کے صوبائی محکموں میں سرکاری ملازم صرف دو طرح کے ملیں گے، ایک پیپلزپارٹی کے کارکن اور دوسرے ایم کیو ایم کے کارکن۔ 
یہ لوگ کام کرتے ہیں نہ کر سکتے ہیں؛ البتہ سرکاری مال ٹھکانے لگانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں اور اس معاملے میں بھی اتنے پھسڈی ہیں کہ ذرا سی کرید کوئی کرے تو پکڑے جائیں چونکہ پکڑنے والے بھی ''سیاسی میرٹ‘‘ پر آئے ہیں، اس لیے ان بے چاروں کو بھی اپنا کام نہیں آتا۔ اس مشترکہ نااہلی کا غیر سرکاری حل یہ ہے کہ سندھ کی سرزمین پر آپ کو چور اور سپاہی ایک ساتھ کھاتے پیتے نظر آتے ہیں۔ اب یہ اتنے شیر و شکر ہیں کہ دیکھنے والے اکثر اوقات چور کو سپاہی یا سپاہی کو چور سمجھ لیتے ہیں۔ کراچی میں ایک اہم ادارہ واٹراینڈ سیوریج بورڈ ہے۔ شہر میں پانی کی فراہمی اور نکاسی اسی کی ذمے داری ہے۔ اس ادارے کا عالم یہ ہے کہ اس میں کام کرنے والا شاید ہی کوئی ایسا ہو جو میرٹ پر بھرتی ہوا ہو۔ ایم کیو ایم کا دائو چلا تو اس نے ہزاروں بھرتی کیے۔ آج کل پیپلزپارٹی ہے تو اپنے لوگوں کو دھڑادھڑ رکھا جارہا ہے۔ حد یہ ہے کہ 2008 میں آغا سراج درانی (موجودہ سپیکر سندھ اسمبلی) وزیر بلدیات بنے تو انہوں نے باقاعدہ حکم جاری کیا کہ ان چھ ہزار لوگوں کونکال دیا جائے جنہیں نگران حکومت نے بھرتی کیا تھا۔ 
یہ چھ ہزار وہ تھے جنہیں ایک ہلے میں ایم کیو ایم نے بھرتی کرایا تھا۔ اس وقت ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی اتحادی تھے‘ اس لیے لین دین ہوا اور چند گھنٹے بعد یہ حکم واپس ہو گیا۔ واٹر ہائیڈرینٹ کھولنے یا بند کرنے میں، پانی کی فراہمی کے منصوبوں اور نکاسی کے لیے ہونے والے کاموں میں سیاسی بھرتیاں کیا فائدہ دیتی ہوں گی، یہ سمجھنے کے لیے افلاطون ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسے لوگوں کے ہوتے، شہر ڈوبے گا نہیں تو اور کیا ہو گا؟ کراچی کے اندھیروں میں اترنے کی کہانی بھی یہی ہے۔ کراچی الیکٹرک نجی شعبے میں جانے سے پہلے سرکاری کمپنی ہوا کرتی تھی۔ 1990 کی دہائی میں بھی یہ کمپنی فائدے میں چلا کرتی تھی۔ پھر اس کمپنی میں جو ہوا سب نے دیکھا۔ ایم کیو ایم نے اپنی طاقت استعمال کر کے اس میں بندے بھرتی کرائے اور اتنے کہ یہ کمپنی اس کی ذیلی تنظیم بن کر رہ گئی۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے بجلی چوری کرانے کی حد تک تو اتفاق رائے پیدا کر لیا لیکن دیگر معاملات میں لڑائی اتنی بڑھی کہ کئی لوگ مارے گئے جن میں سے کے الیکٹرک کے ایک منیجنگ ڈائریکٹر بھی تھے۔ 
اس کمپنی کے لوگ سیاست اور جرائم میں اتنے دھنس چکے تھے کہ اسے ان کے نرغے سے نکالنے کیلئے فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کراچی میں دیکھا کہ سابق کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی گاڑیاں ایم کیو ایم کے جلسوں میں حاضری پوری کرنے کیلئے استعمال ہوا کرتی تھیں۔ کراچی پریس کلب کے اردگرد جھنڈے اور بینر لگانے کیلئے بھی اس کمپنی کی وہ گاڑیاں بروئے کار آیا کرتی تھیں جن پر سیڑھی لگی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی سب خاموش رہتے جیسے آج کل بھی سب کچھ دیکھ کر خاموش ہی رہنا پڑتا ہے۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان شہر میں کبھی صاف ستھری سیاست نہیں ہوئی بلکہ ان دونوں کے درمیان قبضے کی جنگ ہے جس میں کسی قاعدے قانون کا دھیان نہیں رکھا جاتا۔ یہ جنگ اتنی پھیل چکی ہے کہ دوہزار آٹھ سے تیرہ تک کے اپنے دورِ حکومت میں پیپلزپارٹی نے شہر میں اس تناسب کو بدلنے کی کوشش سے بھی گریز نہیں کیا۔ 
کبھی دوہزار دس کے سیلاب کی آڑ میں اندرون سندھ سے لوگ لا کر شہر میں بسائے تو کبھی جعلی ڈومیسائل دے کر شہر میں نوکریوں پر لگا دیا۔ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ایم کیو ایم شہرکی آبادی کم دکھائے جانے کا شکوہ کرتی ہے مگر اس کی تہہ میں چھپا مطالبہ یہ ہے کہ شہر کے مخصوص علاقوں میں آبادی کا تناسب وہ دکھایا جائے جو وہ چاہتی ہے۔ حقیقت اس پورے معاملے میں بس اتنی ہے کہ دونوں جماعتیں شہر کو ٹھگنے کا حق بس اپنے لیے محفوظ کرنا چاہتی ہیں۔ کراچی کی سیاست صوبائی حکومت، بلدیہ اور وفاق کے گرد گھومتی ہے۔ شہر میں کچھ بھی کرنے کے لیے ان تینوں یعنی پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کا ساتھ بیٹھنا لازمی ہے۔ کراچی نے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی لڑائی سے نکلنے کیلئے عمران خان سے امید لگائی لیکن انجام یہ کہ ایسے لوگ ان کے سروں پر سوار ہو گئے جنہیں ائیرپورٹ سے لے کراپنے گھر تک کا راستہ بھی معلوم نہیں۔ اس پر قیامت یہ کہ عمران خان صوبائی حکومت کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے تحریک انصاف سے تو کوئی امید باقی نہیں۔ ہاں، اگر کوئی کچھ کر سکتا ہے تو وہ بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ لیکن اس کے لیے انہیں اپنی پارٹی اور صوبائی حکومت کو سندھی عصبیت سے نکالنا ہو گا۔ وہ یہ کر پائیں تو کراچی بھی ان کا ہو جائے گا اور شاید پاکستان بھی۔ ورنہ ڈوبتا ہوا کراچی سب کو لے ڈوبے گا۔
حبیب اکرم
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
سندھ حکومت نے کورونا کی آڑ میں کراچی سے زیادتی بند نہ کی تو ہڑتال کی کال دیں گے، آفاق احمد - اردو نیوز پیڈیا
سندھ حکومت نے کورونا کی آڑ میں کراچی سے زیادتی بند نہ کی تو ہڑتال کی کال دیں گے، آفاق احمد – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین کراچی: آفاق احمد کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے کورونا کی آڑ میں کراچی سے زیادتی بند نہ کی تو ہڑتال کی کال دیں گے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے کہا کہ اگر سندھ حکومت کی جانب سے کورونا ایس او پیز کے نام پر کراچی کے باسیوں اور تاجروں کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو ہم صوبائی حکومت کیخلاف ہڑتال کی کال دیں گے، یہ زیادتیاں اور دہرا معیار کراچی سے کاروبار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paktoday · 4 years
Photo
Tumblr media
مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے سربراہ آفاق احمد نےجے آئی ٹی رپورٹ کو ماننے سے انکار کردیا ۔ مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) حقیقی کے سربراہ آفاق احمد کا کہنا ہے کہ
0 notes