Tumgik
#آفاق احمد
urduchronicle · 8 months
Text
اگر طے ہوچکا ہے کراچی میں کس کو کتنی سیٹیں ملیں گی تو الیکشن کا فائدہ نہیں، آفاق احمد
چئیرمین مہاجر قومی موومنٹ افاق احمد نے کہا ہےکہ اس وقت ایسا طے ہوچکا ہے کہ شہر میں کس کو کتنی سیٹیں ملیں گی،شہر میں مخصوص سیاسی جماعت کے نمائندے یہ بول رہے ہیں کہ ہمیں سیٹیں مل گئی ہیں،اگر اس طرح بند کمروں میں فیصلے ہوئے تو انتخابات کی افادیت ختم ہوجائے گی۔ کراچی میں اپنی رہائش  گاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے  چئیرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد نے کہا ہےکہ ہم نے الیکشن کمیشن کو درخواست میں ہونے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jawak · 24 days
Link
تُعدُّ الطاقة الشمسية من أهم مصادر الطاقة المتجددة التي باتت تحظى باهتمام عالمي متزايد...
0 notes
seras1975 · 1 year
Text
حياته الشخصيه & الأنجازات :
- أحمد الرائد هو شخصية مؤلفة وباحثة ناجحة ومشهورة. ولد أحمد الرائد في ال 1 من اكتوبر عام 2002  في جمهوريه مصرالعربيه تحديدا  محافظه الأسماعيليه  يأتي أحمد الرائد من عائلة ضخمة تتألف من أعضاء عسكريين وشخصيات عامة ورتب عالية تربى فيبيئة محفزة وتعلم منذ صغره قيم العمل الجاد والالتزام بالمثل الأعلىصوره السيد / أحمد الرائدصوره محافظه الأسماعيليه
وترعرع في بيئة تربوية تحفزه على الاستكشاف والاكتشاف منذ الصغر، أظهر احمد الرائد رغبة قوية في فهم العالم من حوله،وذلك بفضل فضوله الشديد وحبه للمعرفة
تميز أحمد الرائد  بتلميعه العديد من الأعمال المؤلفة التي حققت نجاحًا كبيرًا قدم أحمد الرائد نظريات وتحليلات مبتكرة فيمجاله، مما ساهم في إثراء المعرفة وفتح آفاق جديدة للعلم تم نشر العديد من أعماله في المجلات القانونيه الرفيعة المستوى ولقدحازت على ��هتمام العديد من الباحثين والأكاديميين
بفضل تقدمه في مجاله، أصبح أحمد الرائد لاعبًا مؤثرًا في المجتمع القانوني والأكاديمي تم تكريمه عدة مرات عن مساهماته الكبيرة في مجاله من قبل الجامعات والمنظمات العلمية المختلفة أصبح أحمد الرائد رمزًا للنجاح والتفوق في مجال الأبحاثالقانونيه وغيرها
لقد كتب ونشر العديد من المقالات والأبحاث القانونية في العديد من المجلات المرموقة وحاز على إعجاب الكثير من الخبراءوالمحترفين في مجاله
بفضل معرفته وخبرته الواسعة في القانون والعلاقات الدولية، تمت دعوة الباحث أحمد الرائد للانضمام إلى الأمم المتحدة كان عضوًا متميزًا ومساهمًا نشطًا في المناقشات والتفاوضات الدولية حول القضايا العالمية المختلفة
بجانب عمله في المنظمة الدولية، قام  أحمد الرائد  بتأليف العديد من الكتب القانونية المرموقة والتي نالت شهرة واسعة تناولت كتبه القضايا القانونية الراهنة وأثرت في النقاشات السائدة في المجتمع القانوني
ايضا صاحب عدة كتب ومؤلفات في مجال القانون، من بينها "أساسيات القانون الدستوري" و"قوانين الأعمالالدولية"و"حمايةحقوقالملكية الفكرية". وقد تم نشر هذه الكتب وحظيت بتقدير واسع في الأوساط القانونية
مساهم في العديد من المقالات والأبحاث المنشورة في مجالات المحكمة التي تتناول مواضيع مختلفة في القانون
وبالإضافة إلى انشغاله الدائم بالأبحاث، يمارس أحمد الرائد  دورًا نشطًا في تحفيز الرواد الشباب وتوجيهه.
1 note · View note
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
Tumblr media
سیالکوٹ کا ایک مکان تھا فیض صاحب جٹ تھے سامنے ایک لڑکی رہتی تھی اور فیض صاحب شاید اس کے عشق میں مبتلا تھے لیکن ایک دن کالج سے جب واپس گئے تو وہ لڑکی وہاں نہیں تھی
آغا ناصر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بہت سال بعد جب فیض، فیض احمد فیض بن گئے تو واپس آئے تو وہ لڑکی آئی ہوئی تھی اور اپنے شوہر کو فیض صاحب سے ملوانے لائی. کہتے ہیں اسکا شوہر نہایت خوبصورت آدمی تھا تو فیض صاحب کہتے ہیں کہ میں ان سے ملا اور وہ لڑک�� مجھ سے کہتی ہے؛
"میرا شوہر کتنا خوبصورت ہے"
اس پر شہرہ آفاق رقیب (نظم) لکھی گئی تھی
آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھُلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اُس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈ لاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
فیض صاحب
5 notes · View notes
urduclassic · 4 years
Text
بانو قدسیہ ایک عہد… اور سحر انگیز افسانے
گزشتہ دنوں کئی اہم کتابیں میرے زیر مطالعہ رہیں، انھی میں ایک خاص کتاب بعنوان ’’بانو قدسیہ ایک عہد ایک داستان‘‘ بھی شامل تھی، خوبصورت سرورق بالکل بانو قدسیہ کی پروقار شخصیت کی طرح، تالیف جناب رانا عامر رحمن محمود کی ہے، عامر محمود نے بے حد محبت عقیدت و احترام کے ساتھ کتاب کو منصہ شہود پر لانے کا اہتمام کیا ہے، اہم قلم کاروں سے مضامین لکھوائے اور انھیں یکجا کیا ہے۔ کتاب قلم فاؤنڈیشن سے شایع ہوئی ہے۔ دوسری کتاب افسانوں کی ہے ’’دھوپ میں جلتے خواب‘‘ اس کی مصنفہ نغمانہ شیخ ہیں، نغمانہ شیخ تقریباً دو دہائیوں سے قلم کا جادو جگا رہی ہیں ان کا یہ پہلا مجموعہ منظر عام پر آیا ہے۔ ’’دیر آید درست آید‘‘ والا معاملہ ہے ’’ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا‘‘ نغمانہ کے افسانوں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ عام ڈگر سے ہٹ کر ہیں، انھوں نے عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے بلکہ خون دل سے افسانے تخلیق کیے ہیں تحریریں وہی موثر ہوتی ہیں جو خون جگر سے لکھی جاتی ہیں۔ تجربات کا نچوڑ، حسن بیان نے انھیں دو آتشہ بنا دیا ہے۔ قاری تادیر محو حیرت اور تجسس کی فضا میں گم رہتا ہے۔ تیسری کتاب ’’دنیا کے میلے میں‘‘ اس میں پندرہ افسانے شامل ہیں اور اس کے مصنف توصیف چغتائی ہیں۔ توصیف صاحب نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میں تقریباً پچاس برس سے کہانیاں لکھ رہا ہوں، میں کہانی نہیں لکھتا ہر کہانی مجھے لکھتی ہے۔ بے شک قلم کار حساس دل رکھتا ہے اسی بنا پر وہ لوگوں کے دکھوں کو شدت سے محسوس کرتا ہے اور پھر اس اذیت اور ظلم کو اپنی تحریروں میں سلیقے سے ڈھالتا ہے۔ اور یہ واقعات افسانے، شاعری اور دوسری اصناف سخن میں ڈھل جاتے ہیں۔ مذکورہ کتابوں کے مختصراً تعارف کے بعد اس کی اہمیت، خصوصیات اور فن پر روشنی ڈالنے کے لیے بات کو ذرا آگے بڑھاتے ہیں اسی ترتیب کے ساتھ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ بانو قدسیہ پر شایع ہونے والی کتاب اپنی تحریروں اور دلفریب ٹائٹل کے حوالے سے ایک بے مثال کتاب ہے اور بانو آپا کی ہستی بھی نایاب و بے مثال رہی ہے نیکی کے چرچے میں شہرت کے ڈنکے بجتے ہیں سادگی، انکساری اور شرافت کا بول بالا ہے، اس کے ساتھ تخلیقیت کے سنہرے رنگ نمایاں ہیں، الفاظ کی جدت و ندرت نے اور خیال آفرینی نے ان کی تحریروں میں بلا کی کشش اور معنویت بھر دی ہے۔
ان کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ کا شمار شہرہ آفاق ناولوں میں ہوتا ہے۔ یہی ناول بانو آپا کی شناخت ٹھہرا۔ بانو آپا کی یادوں اور ان کے ادبی و علمی کارناموں، ذاتی زندگی کے اوراق سے کتاب مرصع ہے ان اعلیٰ حضرات کے مضامین شامل اشاعت ہیں جن کا تعلق بانو آپا سے بہت گہرا تھا اور جو انھیں قریب سے جانتے تھے ان کے گھرانے اور حالات زیست سے اچھی طرح واقف تھے، پہلا مضمون رانا عامر الرحمن محمود صاحب کا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ آپا جی بانو قدسیہ 3 فروری2017 کو بھرپور علمی، ادبی، روحانی زندگی گزارنے کے بعد ایک دنیا سے دوسری دنیا میں چلی گئیں۔ بانو آپا نے تعلیم، ادب اور روحانیت کی دنیا میں بلند مقام پایا اور اپنے کام سے ایک عہد کو متاثر کیا ’’راجہ گدھ‘‘ ان کی ایسی باکمال اور لازوال کتاب ہے جو پاکستان اور ہندوستان کے اعلیٰ ترین نصاب میں شامل ہے۔ جناب ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ خدا کی قسم وہ پاکستان کی سب سے بڑی خاتون تھیں ان سے زیادہ احترام کے قابل کوئی نہ تھا وہ اس نسل کا آخری چراغ تھیں جس میں قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، اشفاق احمد شامل تھے۔ جناب مستنصر حسین تارڑ نے اپنے مضمون بعنوان ’’صاحباں کے مرنے پر کل خدائی آگئی‘‘ میں بانو قدسیہ کے سفر آخرت کا نقشہ جس دردمندی کے ساتھ کھینچا ہے، اس سے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے بانو قدسیہ ہر خاص و عام کی محبوب ترین ہستی تھیں۔ وقت الوداع کا منظر ملاحظہ فرمائیے ’’ایک مرتبہ پھر ماڈل ٹاؤن کے گھر ’’داستان سرائے‘‘ کی جانب جتنی گلیاں جاتی تھیں، جتنی سڑکیں اس سرائے کی طرف اترتی تھیں وہ سب کی سب لوگوں کے ہجوم سے اٹی پڑی تھیں، نوجوان عورتیں اور بوڑھیاں جیسے گھر سے کسی ماتم کدہ کی جانب رواں ہوں ان کے چہرے الم کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے صرف ان کی آنکھیں تھیں جو آنسوؤں سے روشن ہوتی تھیں کتاب میں 53 مضامین شامل ہیں، تمام مضامین بانو قدسیہ کی زندگی کا مکمل طور پر احاطہ کرتے ہیں اس قدر دل فریب کتاب شایع کرنے پر میں خلوص دل کے ساتھ پبلشر رانا عامر رحمن محمود کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ ’’دھوپ میں جلتے خواب‘‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مذکورہ مجموعہ میں وہی افسانے شامل ہیں جن کے کرداروں نے تپتی دھوپ میں زندگی کا امرت پیا ہے اور ارمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائی ہے تمناؤں کی چتا اپنے ہاتھوں سے جلائی ہے کہ وقت کا یہی تقاضا تھا، کشتی کو ڈوبنا ہی تھا سو وہ ڈوب گئی لیکن ایک داستان ایک کہانی طشت از بام کر گئی کہ اے قلم کارو! لکھو کہ ہم جیسے لوگ کس قدر بے بس اور دنیا کے بازار میں اس پنچھی کی مانند پھینک دیے جاتے ہیں جس کے بال و پر کاٹ دیے گئے ہوں۔
جی ہاں نغمانہ شیخ کے افسانے اسی قبیل کے ہیں، تنہا عورت رات کی سیاہی، بہکتے اور بھٹکتے ہوئے قدم اور پھر شیطان کی آمد اور اس کی فتنہ پروری اور پھر عمر بھر کا پچھتاوا دل کے بوجھ اور تڑپتے ضمیر کو لوریاں دینے کے لیے گھر میں درس و تدریس اور قرآن خوانی کا ورد، اگربتی کا پاکیزہ دھواں مولوی صاحب کی آمد۔ نغمانہ شیخ کے افسانے ’’تنہائی‘‘ میں ایسی ہی صورت حال نظر آتی ہے افسانہ ہم عمر، سپردگی کا ملال، خود فریبی، ان افسانوں میں خواتین کے معاشرتی مسائل، ذہنی کرب اور نفسیاتی الجھنوں سے پیدا ہونے والے دکھوں، غموں، یاسیت اور کرب نے کہانیوں کی شکل اختیار کر لی ہے، نغمانہ شیخ کہانی لکھنے اور انھیں افسانوں کے قالب میں ڈھالنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں وہ ایک بہترین تخلیق کار کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ اللہ انھیں فن افسانہ نگاری میں مزید عروج سے نوازے آمین۔ ’’دنیا کے میلے میں‘‘ اس کتاب سے میں نے کئی افسانے پڑھے اور بار بار پڑھے، لکھنے کا انداز بہت دل نشیں ہے واقعے کو کہانی میں ڈھالنے اور اسے افسانے کا رنگ دینے کے ہنر سے اچھی طرح واقف ہیں، مصنف کے افسانے سماج کے غموں، افلاس اور وطن کے لیے جان قربان کرنے والے فوجی جوانوں کے گرد گھومتے ہیں، جب کہ ان حقائق ک�� برعکس کئی افسانے ایسے بھی ہیں جو بھٹکتی ہوئی روحوں کا المیہ بیان کرتے ہیں اور ایک خوف و تحیر کی فضا جنم لیتی ہے، ’’گولر کا پیڑ‘‘، ’’اپنی نعش‘‘ اسی طرح کے افسانے ہیں جب کہ ’’دس پیسے کا سکہ‘‘ غریب، بے بس اور بے سہارا پانچ سالہ بچے کی زندگی کی نقاب کشائی کرتا ہے اس افسانے کو پڑھ کر اس بات کا احساس شدت سے اجاگر ہوتا ہے کہ پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی جان تک کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے کبھی زندگی بھوک پر غالب آجاتی ہے اور کبھی زندگی پر موت کے سائے لہرانے لگتے ہیں۔ یہی المیہ اور معاشرتی تضاد ہے۔ اس افسانے کو پڑھ کر قاری کے ذہن میں یہ خیال جاگتا ہے کہ یتیم و نادار سڑکوں پر گھومتے پھرتے، در در کی ٹھوکریں کھانے والے بچوں کے لیے حکومت سنجیدگی سے اقدامات کرے انھیں تعلیم، سہارا اور محبت کا ستون میسر آجائے تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مدینے کی ریاست ایک بار پھر وجود میں آگئی ہے۔
نسیم انجم  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
nowpakistan · 4 years
Text
عامر خان کے آفاق احمد سے متعلق اہم انکشافات
عامر خان کے آفاق احمد سے متعلق اہم انکشافات
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینئر رہنما عامر خان نے آفاق احمد سے متعلق اہم انکشاف کیا ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس سے قبل میئر کراچی وسیم اختر، سینئر رہنما کنور نوید اور عامر خان کی گفتگو کیمرے میں ریکارڈ ہوگئی۔
عامر خان نے کہا کہ نثار مورائی کی جے آئی ٹی میں ذوالفقار مرزا کی جانب سے آفاق احمد کو پیسے اور ہتھیار دیے جانے کی بات ہے جو حقیقت ہے۔
انہوں نے اپنے ساتھیوں کو…
View On WordPress
0 notes
qaumisafeer · 7 years
Text
ایران کادھمکی آمیزرویہ
تحریر: محمد شاہد محمود ایرانی فوج کے سربراہ نے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے اپنی حدود میں دہشت گردوں کے ”محفوظ ٹھکانے” ختم نہ کیے تو ایرانی فوج پاکستان پر حملہ کردے گی۔میجر جنرل محمد باقری نے الزام لگایا کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی تنظیم ”جیش العدل” سرحدپار ایرانی فوجیوں پر حملوں اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں میں ملوث ہے اور اس تنظیم کے ٹھکانے پاکستانی حدود کے اندر واقع ہیں جہاں سے یہ اپنی…
View On WordPress
0 notes
essadapress · 2 years
Text
وزير الداخلية السوداني في زيارة لانواكشوط
وزير الداخلية السوداني في زيارة لانواكشوط
استقبل وزير الداخلية محمد احمد  محمد الأمين نظيره السوداني عنان حامد محمد عمر، وزير الداخلية ال��كلف، في الحكومة السودانية. وقد تبحث الوزيران آفاق العلاقات الثنائية بين البلدين ، خاصة في مجال الأمن والتعدين .  وتضمن جدول أعمال الوزير السوداني ووحده المرافق زيارة عدة عدة مرافق حكومية من بينها الإدارة العامة للأمن الوطني وشركة معادن موريتانيا والوكالة الوطنية لسجل السكان والوثائق المؤمنة.
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز شکیل عادل زادہ کے ساتھ خصوصی نشست
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023ءکے دوسرے دن ” شکیل عادل کا نگار خانہ“کے نام سے نشست کا اہتمام کیاگیا جس میں انور شعور، ہاشم ندیم اور شکیل عادل زادہ نے گفتگو کی جبکہ نظامت کے فرائض اخلاق احمد نے انجام دیے.  نشست میں شکیل عادل کا شہرہ آفاق ”سب رنگ“ ڈائجسٹ موضوع گفتگو رہا۔ معروف شاعر انور شعور نے کہا کہ شکیل صاحب کی سب سے بڑی جیت یہ ہی تھی کہ وہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amazinganimalsfacts · 3 years
Text
نظّمت إدارة التربية والتعليم م/ المنصورة قسم الانشطة المدرسية مسابقة الروبوت البيئي والتي يتنافس فيها عددآ من طلبة المدارس من مختلف المديرية وذلك باستضافة مدارس النورس الاهلية ..وقد تناولت المسابقة هذا العام الموضوع البيئي والذي يؤكد أنّ الطلبة جزء من المجتمع ولديهم القدرة على الإلهام والإبداع والأمل بمستقبل أقوى، وتطوير الجانب البيئي والأماكن التي تتصل بالمنزل والمجتمع للوصول إلى آفاق جديدة. كما أنّ هذه المسابقة تهيئ هؤلاء الطلبة في التفكير كالعلماء ومهندسين، وذلك باختيار روبوت مستقل للقيام بمجموعة من المهام في لعبة الروبوت، وحل مشكلة حقيقية في مشروع الابتكار..وقد تمت آلية التقييم لهذه المسابقة  من قبل لجان تحكيم متخصصة، وذلك من خلال معايير معينة يتم من خلالها اعطاء النتائج للمدارس المشاركة والمدرسة الحاصلة على المركز الأول في المسابقة سيتم ترشيحها للمشاركة في مسابقة الروبوت البيئي على مستوى مديريات محافظة عدن ..وبعد كلمات ترحيبية وشكر قدمت من قبل الاستاذ محمد فيصل رئيس قسم الانشطة المدرسية بمكتب التربية بالمديرية شكر فيها ادارة مدرسة النورس على استضافتها لهذه المسابقة  ووكلاء ومشرفين الانشطة ومدراء المدارس المهتمين بمثل هذه المسابقات ،كما شكر زملائه في قسم الانشطة وقسم الإعلام التربوي على ��لجهود التي تبدل من قبلهم والتي ساعدت في نجاح هذه الفعاليات، كما وجه شكر خاص لكلاً من مدير مديرية المنصورة الاستاذ احمد الداؤودي لدعمه وتشجيعه للعملية التربوية والتعليمية والانشطة المدرسية بالمديرية ومدير إدارة التربية بالمديرية الاستاذ علي علوي على حثه المستمر للنجاح وتشجيعه على الفوز والحصول على اعلا المراكز ..وانهى كلمته متمنيا للطلاب المشاركين النجاح والتوفيق في هذه المسابقة وفي حياتهم العملية والعلمية ..توج بالمركز الأول  مدرسة سماء عدن الاهلية ، وحصل مدرسة النورس الاهلية على المركز الثاني ، ومدرسة عدن النموذجية على المركز الثالث ..وبهذه النتائج تنتهي مسابقة الروبوت البيئي بتتويج الفائزين الثلاثة وتكريم كل من شارك وساهم بهذه المسابقة من المدارس ولجنة التحكيم المشاركة ...*من أ.لوريزا نصر علويرئيس قسم الاعلام التربوي بالمديرية ..عزيزي الزائر لقد قرأت خبر إدارة التربية والتعليم بالمنصورة تنظم مسابقة الروبوت البيئي بين مدارس المديرية في موقع المكلا نت ولقد تم نشر الخبر من موقع عدن الغد وتقع مَسْؤُوليَّة صحة الخبر من عدمه على عاتقهم ويمكنك مشاهدة مصدر الخبر الأصلي من الرابط التالي عدن الغد
0 notes
urdu-poetry-lover · 5 years
Text
سیالکوٹ کا ایک مکان تھا فیض صاحب جٹ تھے سامنے ایک لڑکی رہتی تھی اور فیض صاحب شاید اس کے عشق میں مبتلا تھے لیکن ایک دن کالج سے جب واپس گئے تو وہ لڑکی وہاں نہیں تھی
آغا ناصر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بہت سال بعد جب فیض، فیض احمد فیض بن گئے تو واپس آئے تو وہ لڑکی آئی ہوئی تھی اور اپنے شوہر کو فیض صاحب سے ملوانے لائی. کہتے ہیں اسکا شوہر نہایت خوبصورت آدمی تھا تو فیض صاحب کہتے ہیں کہ میں ان سے ملا اور وہ لڑکی مجھ سے کہتی ہے؛
"میرا شوہر کتنا خوبصورت ہے"
اس پر شہرہ آفاق "رقیب سے" (نظم) لکھی گئی تھی
آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھُلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اُس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈ لاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
(فیض احمد فیض)
6 notes · View notes
ksacurrentevents · 3 years
Text
کراچی کے مسائل کے حل کیلئے عشرت العباد متحرک؛ آفاق احمد سے رابطہ
کراچی کے مسائل کے حل کیلئے عشرت العباد متحرک؛ آفاق احمد سے رابطہ
سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کا چئیرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد سے رابطہ ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد اور چئیرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد کے درمیان رابطے میں سیاسی صورتحال اور کراچی کے موجودہ حالات پر گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے کہا کہ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ منقسم قیادت کراچی کے عوام اور مسائل کے حل کے لیے ایک جگہ ہوکر مضبوط طریقے سے آواز بلند کرے۔ سابق گورنر نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nowpakistan · 4 years
Text
ہمیشہ صاف ستھری سیاست کی، JIT سے نہیں ڈرتے
ہمیشہ صاف ستھری سیاست کی، JIT سے نہیں ڈرتے
مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیوایم) حقیقی کے چیئرمین آفاق احمد نے کہا ہے کہ ہمیں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) سے نہیں ڈرایا جاسکتا۔
کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب میں آفاق احمد نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ صاف ستھری سیاست کی، ذوالفقارمرزا سے ملاقات اُن کے وزیرداخلہ ہونے کی بنا پر ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ آفاق احمد کو جے آئی ٹی سے نہیں ڈرایا جاسکتا، سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے کا…
View On WordPress
0 notes
nsalaheldin · 3 years
Text
فرفة "كيان فنان" تحيى من جديد المسرح الشعرى
فرفة “كيان فنان” تحيى من جديد المسرح الشعرى
فرفة “كيان فنان” تحيى من جديد المسرح الشعرى كتب: احمد حمدى شهد مسرح آفاق بوسط البلد بمحافظة القاهرة، أروع العروض المسرحية “في صعيد مصر” و “راغم” ، بحضور عدد من الإعلاميين والصحفيين، حيث تألق وأبدع فريق “كيان فنان” على خشبة المسرح. قام فريق “كيان فنان” بقيادة المخرج المسرحي يحيى البحيرى بإعادة المسرح الشعرى العامى بعد غياب أربعون عامًا، وذلك من خلال العمل المسرحي ” فى صعيد مصر”، الذى يقدم رسالة…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
sabry127 · 3 years
Text
فرقة إبداع كيان فنان تُحدث طفرة جديدك على مسرح آفاق
فرقة إبداع كيان فنان تُحدث طفرة جديدك على مسرح آفاق
كتب / ياسر عامر  طفره جديده لم تحدث منذ وقت كثير في عالم مسرح الهواة فريق مسرحي  يبدع في تقديم نوع من أنواع المسرح وهو المسرح الشعري علي طريقة امير الشعراء احمد شوقي مثل مسرحية الست هدى وغيرها من أنواع المسرح الشعري   قام فريق كيان فنان بإعادة المسرح الشعري العامي باللهجه الصعيديه وتحدوا الكثير من الصعاب لإكمال هذا العمل المسرحي الذي يتحدث عن منع الثأر في صعيد مصر والترابط الأسري تدور الاحداث حول…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
سندھ حکومت نے کورونا کی آڑ میں کراچی سے زیادتی بند نہ کی تو ہڑتال کی کال دیں گے، آفاق احمد - اردو نیوز پیڈیا
سندھ حکومت نے کورونا کی آڑ میں کراچی سے زیادتی بند نہ کی تو ہڑتال کی کال دیں گے، آفاق احمد – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین کراچی: آفاق احمد کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے کورونا کی آڑ میں کراچی سے زیادتی بند نہ کی تو ہڑتال کی کال دیں گے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے کہا کہ اگر سندھ حکومت کی جانب سے کورونا ایس او پیز کے نام پر کراچی کے باسیوں اور تاجروں کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو ہم صوبائی حکومت کیخلاف ہڑتال کی کال دیں گے، یہ زیادتیاں اور دہرا معیار کراچی سے کاروبار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes