Tumgik
#وزیر اعلی سندھ
urduchronicle · 8 months
Text
وزیراعلیٰ سندھ کے لیے مراد علی شاہ کے علاوہ ناصر شاہ کا نام بھی زیرغور
پیپلز پارٹی نے وزیر اعلی سندھ کے لیے مراد علی شاہ کے علاوہ دیگر ناموں پر بھی غور شروع کردیا۔ پیپلز پارٹی قیادت نے پارٹی رہنماؤں سے وزیر اعلیٰ سندھ کے نام پر مشاورت شروع کردی ہے، پارٹی ذرائع کا کہنا ہے وزیر اعلی سندھ کے لیے ناصر حسین شاہ کا نام زیر غور ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی مرکز میں حکومت سازی کے اہم فیصلوں کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ کا فائنل کریگی۔ ناصر حسین شاہ اس سے پہلے صوبائی وزیر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 10 months
Text
جب شیر بلی کی تنخواہ پر کام کرنے لگے
Tumblr media
ویسے پچھتر برس میں ایسا کون سا وزیرِ اعظم یا وزیر گزرا ہے جو لاڈلا ہونے کی سند لیے بغیر اپنے عہدے پر آیا بھی ہو اور ٹک بھی پایا ہو۔ پچپن برس پہلے اپنے بچپن میں رحمے نائی کی دکان سے سردار موچی کے کھوکھے اور تانگہ سٹینڈ کے جیرو کوچوان تک ہر ماجھے ساجھے کن کٹے کو پورے تیقن سے یہی کہتے سنا کہ اگر کوئی امریکہ کا لاڈلا نہ ہو تو اس کی اجازت کے بغیر پتا تک نہیں ہلا سکتا۔ پھر اس آقا جاتی فہرست میں سعودی عرب بھی شامل ہو گیا۔ مگر آج کی جنریشن سمجھتی ہے کہ اب نہ وہ امریکہ رہا نہ اس کے ویسے وفادار۔ سعودی عرب بھی اب پہچانا نہیں جاتا۔ ان دونوں سمیت کسی کو بھی پاکستان کی شکل میں ویسٹ اوپن کارنر پلاٹ کی فی الحال ضرورت نہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ اب تو جرنیل جسے چاہیں وہی ہیرو۔ نہ چاہیں تو وہی ہیرو زیرو۔ جو خود کو لاڈلا نہیں سمجھتے انھیں بھی سردار اپنا کام نکلوانے کے لیے اٹھا کے لے جاتا ہے اور اپنی مرضی کے نکاح نامے اور طلاق نامے پر ایک ساتھ دستخط کروا لیتا ہے۔
سندھ کے ایک اسٹیبلشمنٹی چہیتے وزیرِ اعلی جام صادق علی کے بارے میں مشہور تھا کہ جس پر مہربان ہوتے تو سرکاری دکان پر دادا جی کی فاتحہ کے مصداق کوئی بھی پلاٹ یا قطعہِ اراضی بخش دیتے اور جب متعلقہ سیکریٹری ممنمناتا کہ حضور نے جو پلاٹ اپنے جس لاڈلے کو کوڑیوں کے مول بخشا ہے قانون میں اس کی گنجائش نہیں بنتی۔ اس اعتراضِ بے جا پر جام صاحب گرجتے کہ بابا میں نے تیرے کو سیکرٹری مفت کا مشورہ دینے کے لیے نہیں کام کرنے کے لیے رکھا ہے۔ میں نے آرڈر نکال دیا ہے اب اس کے لیے قانون ڈھونڈنا تیرا کام ہے۔ ورنہ قانون مجھے تیرے تبادلے یا ڈیموٹ کرنے یا او ایس ڈی بنا کے کراچی سے نکال کے کشمور میں پھینکنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ ذرا سی ترمیم و اضافے کے ساتھ یہ ’جام صادق ڈاکٹرائن‘ اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا چکی ہے۔ مہربان ہو تو کھل جا سم سم، ہر مقدمہ خارج، ہر موڑ پر سرخ قالین، دانے دنکے کے اسیر ہر کبوتر کو لاڈلے کے کندھے پر بیٹھنے کا اشارہ، ہر قانون و ضابطہ موم کی ناک۔
Tumblr media
سنگ دل ہو جائے تو قدموں تلے سے وہی سرخ قالین کھینچ کر، کبوتروں کو سیٹی بجا کر واپس چھت پر اتار کر، بدلے حقائق کی چلچلاتی دھوپ میں ننگے پاؤں چلواتے ہوئے سوائے جیل کے ہر دروازہ ایک ایک کر کے بند، مقدمات کا مسلسل پتھراؤ، ایک مقدمے میں ضمانت کے بدلے دس نئے پرچے تیار اور کردار کشی کی واشنگ مشین میں ڈال کے دھلائی الگ۔ اب ہر لاڈلا تو ’آج بازار میں پابجولاں چلو‘ نہیں گا سکتا۔ کچھ سائیڈ پکڑ لیتے ہیں، کچھ سیاسی پلاسٹک سرجری کروا لیتے ہیں، کچھ ’باہرلے ملخ‘ چلے جاتے ہیں اور کچھ شیر معافی تلافی کر کے بلی کی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے پھر سے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے کیونکہ مالک مکان کبھی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مسئلہ کرائے دار پ��دا کرتے ہیں۔ حالانکہ تمام شرائط کاغذ پر طے ہوتی ہیں۔ مثلاً مالک مکان کی اجازت کے بغیر کوئی اضافی کیل دیوار میں نہیں ٹھونکی جائے گی۔ کوئی دروازہ، کھڑکی اور روشندان تبدیل نہیں ہو گا۔ دیواروں کو داغ دھبوں سے پاک رکھا جائے گا۔ کوئی شے تبدیل کروانی ہو تو مالک سے درخواست کی جائے گی۔ اگر اس نے مناسب سمجھا تو درخواست قبول کر لے گا۔ نہ سمجھا تو اس سے فالتو کی جرح نہ کی جاوے۔ کرایہ ہر ماہ کی طے شدہ تاریخ تک پہنچا دیا جائے یا جمع کرا دیا جائے۔
پانی کی موٹر مسلسل نہیں چلے گی۔ تمام یوٹیلٹی بلز باقاعدگی سے مقررہ تاریخ سے پہلے پہلے ادا کرنا ہوں گے۔ ٹوٹ پھوٹ کے نقصان کی بھرپائی بھی کرائے دار کی ذمہ داری ہو گی۔ کرایہ نامہ گیارہ ماہ کے لیے ہو گا۔ مالک مطمئن ہو گا تو معاہدے کی تجدید ہو گی ورنہ گھر خالی کرنا پڑے گا۔ اور اگلا معاہدہ کم از کم دس فیصد اضافی کرائے کے ساتھ ہو گا۔ پھر بھی اگر مالک کو ضرورت ہو یا وہ جز بز ہو جائے تو ایک ماہ کے نوٹس پر گھر خالی کرا سکتا ہے تاکہ اسے اونچے کرائے پر کسی اور کو چڑھا سکے۔ جھگڑا تب شروع ہوتا ہے جب کرائے دار چھ ماہ گزرنے کے بعد اپنے تئیں انوکھا لاڈلا بن کے فرمائشیں شروع کر دیتا ہے، اضافی ایگزاسٹ فین لگوا دو، پانی کی موٹر پرانی ہے اس کی جگہ بڑی موٹر ہونی چاہیے۔ گیلری کی ریلنگ بدصورت ہے اسے بھی بدلنا ہو گا۔ اے سی کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا لہذا سنگل کے بجائے ڈبل کنکشن کی تار بدلوا دو۔ گھر فوری طور پر خالی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے دوسرے برس کے لیے بھی ابھی سے معاہدہ کر لو۔ زبردستی کی تو عدالت جاؤں گا اور کرایہ تمھیں دینے کے بجائے فیصلہ ہونے تک عدالت میں جمع کرواتا رہوں گا وغیرہ وغیرہ۔
تگڑے کرائے دار مالک مکان کو دبا لیتے ہیں۔ مگر ہم نے تو پچھلے پچھتر برس میں کرائے داروں کا سامان ہی سڑک پر دیکھا ہے اور احتجاج یا قانون کی دھمکی دینے پر مالک مکان کے مسٹنڈوں کے ہاتھوں چھترول اور پرچے کا اندیشہ الگ۔ ایسی صورت میں کم از کم اس محلے میں ایسے بدعقلوں کو کوئی اور اپنا مکان کرائے پر نہیں دیتا۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے بھیا۔ 
وسعت اللہ خان  
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
وزیراعلی سندھ کیخلاف بلدیاتی الیکشنز التوا پر توہینِ عدالت کی درخواست نمٹادی گئی
جماعت اسلامی نے درخواست واپس لے لی   کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے ممکنہ التوی سے متعلق وزیر اعلی سندھ، سیکٹریری بلدیات کیخلاف توہینِ عدالت کی درخواست واپس لینے پر نمٹادی۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو بلدیاتی انتخابات کے ممکنہ التواء سے متعلق وزیر اعلی سندھ، سیکریٹری بلدیات کیخلاف توہینِ عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ جماعت اسلامی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
irtibaat · 2 years
Text
سندھ حکومت طرح کے پی حکومت نے بھی فراڈ کو روکنے کے لیے ای اسٹامپ پیپر سسٹم کا آغاز کردیا۔
سندھ حکومت طرح کے پی حکومت نے بھی فراڈ کو روکنے کے لیے ای اسٹامپ پیپر سسٹم کا آغاز کردیا۔
خیبر پختونخواہ (کے پی) حکومت نئے ٹیکنالوجی کے اقدامات کے ساتھ بوگس اسٹامپ پیپرز اور متعلقہ فراڈ کو ختم کرنے کے ایک قدم اور قریب ہے۔ صوبے نے ایک ای-اسٹامپ پیپر سسٹم شروع کیا ہے جس سے پرانے اسٹامپ پیپرز کے نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ لانچ کی سربراہی کے پی کے وزیر اعلی (سی ایم) محمود خان نے کی۔ انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے اسٹامپ پیپرز کے متعدد مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nowpakistan · 4 years
Text
سندھ، کورونا سے مزید 9 مریض انتقال کرگئے
سندھ، کورونا سے مزید 9 مریض انتقال کرگئے
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا عالمی وبا کورونا وائرس سے متعلق کہنا ہے کہ صوبہ سندھ میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس سے مزید 9 مریض انتقال کر گئے ہیں جس کے بعد کورونا وائرس سے اموات کی مجموعی تعداد 3708 ہو گئی ہے۔ سید مراد علی شاہ نے صوبہ سندھ میں کورونا وائرس کی صورتحال سے متعلق بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران14137 نمونوں کی جانچ کی گئی ہے جبکہ اب تک 2498749 نمونوں کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
45newshd · 4 years
Photo
Tumblr media
وزیر اعلیٰ سندھ نے جعلی ڈومیسائل پر سندھ کے کوٹہ پر نوکریاں بانٹیں،دھماکہ خیز بات سامنے آ گئی کراچی(این این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدر و سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر حلیم عادل شیخ نے سندھ اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا گذشتہ روز وزیراعلیٰ کی بجٹ تقریر کسی ہارے ہوئے جواری کی کی تقریر لگ رہی تھی۔ ایسی تقریر ایک شکست خوردہ انسان ہو سکتی ہے۔ وزیراعلی نے جوکچھ کہا جھوٹ کا پلندہ تھا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کراچی کے لئے بہت کچھ نہیں کیا یہ سب جھوٹا تھا۔
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
سندھ میں الیکشن ڈیوٹی پر مامورسکیورٹی اہلکاروں کے کھانے پر 21 کروڑ سے زیادہ خرچ ہوں گے
سندھ کابینہ نے عام انتخابات کے دوران امن و امان قائم رکھنے کے لیے باسٹھ کروڑ چوون لاکھ روپے فنڈز کی منظوری دے دی۔ فنڈز کی رقم الیکشن کے دوران استعمال ہونے والی گاڑیوں کے کرایے، ایندھن، مرمت، کھانے اور اسٹیشنری کی مد میں خرچ کی جائے گی۔ سندھ کابینہ کا اجلاس نگران وزیر اعلی سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں کابینہ نے عام انتخابات کے دوران امن و امان قائم رکھنے کے لیے ہونے والے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 2 years
Text
بلوچستان کی تکلیف معاشی نہیں سیاسی ہے
Tumblr media
گذشتہ تین دہائیوں میں بلوچستان کی سیاسی، سماجی و اقتصادی محرومی کے خاتمے کے نام پر جتنے میگا پیکیجز کا اعلان ہوا اگر ان میں سے پچاس فیصد پر بھی عمل ہو جاتا تو آج بلوچستان بھی صوبہ پنجاب اور سندھ نہیں تو خیبر پختون خواہ کے ہم پلہ ضرور ہو جاتا۔ پرویز مشرف دور میں بلوچستان کے لئے کل ملا کے پانچ ارب روپے کی ترقیاتی اسکیموں کا اعلان ہوا جبکہ بغاوت ، شورش ، بدامنی ( آپ اپنی آسانی کے لئے جو بھی کہہ لیں ) کا تازہ دور بھی پرویز مشرف کی مقتدرہ کے ہوتے شروع ہوا۔ بلوچستان میں انیس سو سینتالیس سے آج تک مرکزی حکومت کی لاعلمانہ اور امتیازی پالیسیوں کے خلاف مختلف بلوچ تنظیموں یا قبائل نے کم ازکم چار بار ہتھیار اٹھائے۔ مگر تازہ شورش پاکستان بننے کے بعد اب تک کی سب سے طویل بلوچ قوم پرست مسلح تحریک ہے، جس نے چھبیس اگست دو ہزار چھ کو اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد زور پکڑا اور سترہ برس بعد بھی تسلسل نہیں ٹوٹ پایا۔ دو ہزار تیرہ تا دو ہزار اٹھارہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے سوا ہر سیاسی و غیر سیاسی حکومت نے بلوچستان میں بے روزگاری کے خاتمے، صحت، تعلیم اور معیشت کا معیار بڑھانے کے لئے اربوں روپے کے پیکیجز کا اعلان کیا۔
مشرف حکومت نے کوسٹل ہائی وے سمیت صوبے کا مواصلاتی نظام بہتر بنانے کی کوشش کی۔ گوادر کو چین کی مدد سے ایک جدید بندرگاہ میں تبدیل کیا، جو بعد ازاں سی پیک کا نقطہِ آغاز ثابت ہوئی۔ درجن بھر اچھے تعلیمی ادارے بھی بنوائے مگر یہ سب کچھ سیاسی مرہم پٹی کے بغیر اور مقامی آبادی کو اعتماد میں لیے بغیر تھوپا گیا۔ ترقی کے نام پر اس دور میں یہ بھی ہوا کہ گوادر میں صرف پچیس دن کے اندر ایک سو پچیس رہائشی اسکیموں کا اعلان ہوا اور ان میں نوے فیصد سرمایہ کاری کراچی، پنجاب اور اسلام آباد سے ہوئی۔ لہذا مقامی سطح پر عدم تحفظ اور بڑھ گیا۔ سابق گورنر بلوچستان اور وفاقی وزیر جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کے بقول ہر وفاقی حکومت یہی راگ الاپتی آئی کہ یہ بلوچ سردار ہیں، جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مشرف دور میں چوہتر میں سے اکہتر سردار حکومت کے ساتھ تھے۔ تب مشرف دور میں کیا بلوچستان پیرس بنا دیا گیا؟ گویا محرومی کے زخم پر اقتصادی پھاہا رکھنے سے بھی خاص افاقہ نہیں ہو سکا۔ سڑکیں عام آدمی اور ریاست کے مابین خلیج کم کرنے کے بجائے فاصلہ اور بڑھا گئیں (اس کا نتیجہ پندرہ برس بعد برآمد ہوا جب مقامی سطح پر مولانا ہدایت اللہ کی قیادت میں مکران کی ساحلی پٹی کو حق دو تحریک کے نعروں نے اپنی گونج کی لپیٹ میں لے لیا)۔
Tumblr media
دورِ مشرف کے بعد یوسف رضا گیلانی حکومت نے چوبیس نومبر دو ہزار نو کو آغازِ حقوقِ بلوچستان کے نام سے ایک روزگاری و اقتصادی پیکیج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا۔ بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے وفاقی ڈھانچے میں چھ فیصد ملازمتی کوٹے کے علاوہ اس پیکیج کے تحت پندرہ ہزار اضافی ملازمتیں تخلیق کی گئیں مگر اگلے چودہ برس کے دوران ان میں سے صرف دس ہزار آسامیوں پر تعیناتیاں ہوئیں جبکہ پانچ ہزار آسامیاں چھ فیصد طے شدہ کوٹے میں ضم کر دی گئیں یعنی عملاً انہیں ختم کر دیا گیا۔ جو دس ہزار آسامیاں بھری گئیں ان میں سے بھی زیادہ تر محکمہ تعلیم میں تدریسی عملے کی صورت میں، محکمہ صحت میں بطور ہیلتھ ورکرز اور دیگر محکموں میں ادنی سطح پر بھری گئیں۔ ان میں سے کتنے فیصد آسامیاں میرٹ پر بھری گئیں اور کتنی آسامیوں پر دیگر صوبوں کے لوگوں نے بلوچستان کے ڈومیسائل بنوا کے نقب لگائی۔ اس بارے میں حتمی اعداد و شمار کہیں ہیں بھی تو عام نگاہ کی دسترس سے دور ہیں۔
دو ہزار تیرہ سے سترہ تک مسلم لیگ ن کے مخلوط دور میں ڈاکٹر عبدالمالک اور ثنا اللہ زہری کی گردشی وزارتِ اعلی میں بلوچستان کو وفاقی بجٹ میں مختص گرانٹ کے سوا کوئی اضافی امداد نہیں ملی۔ البتہ عمران خان نے وزیرِ اعظم بننے کے سترہ ماہ بعد جنوبی بلوچستان کا پہلا دورہ کیا اور اس خطے کے لئے ڈیڑھ سو ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا۔ جنوبی بلوچستان کے نو اضلاع میں سوا تین لاکھ گھروں کو گیس اور بجلی کی سہولتیں کی فراہمی، ڈیڑھ لاکھ ایکٹر نئی زمین کی آبادکاری کے لئے سولہ آبپاشی ڈیمز کی تعمیر اور تربت ائیرپورٹ کی توسیع کا اعلان کیا گیا مگر جتنی رقم کا اعلان کیا گیا اس کا لگ بھگ پانچ فیصد ہی ریلیز ہو سکا۔ باقی غائب ہو گیا یا سردخانے میں آڑے وقتوں کے لئے محفوظ کر لیا گیا تاکہ آگے چل کے سیاسی بندربانٹ میں کام آ سکے۔ یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ بلوچستان اسمبلی کے سابق اسپیکر اسلم بھوتانی کے بقول یہ اقتصادی و ترقیاتی پیکیج بھی دراصل اسلام آباد کے سیکرٹیریٹ میں بیٹھے بابوؤں نے تیار کر کے سیاسی حکومت کو تھما دیا اور وفاقی حکومت نے یہ لالی پاپ بلوچوں کو تھما دیا اور بہت سی مشرف دور کی نامکمل اسکیموں پر بھی تازہ چونا پھیر کے اس نئے پیکیج میں پھر سے شامل کر لیا گیا۔
اتنے سارے ترقیاتی و اقتصادی پیکیجز کے نام پر اربوں روپے مختص کرنے کے بعد بھی حالت یہ ہے کہ بلوچستان میں یونیورسٹیوں اور کالجوں سے ہر سال جو پچیس ہزار گریجویٹ نکلتے ہیں ان میں سے محض دو ہزار گریجویٹس کو ہی ان کی تعلیم کے ہم پلہ ملازمت ملتی ہے۔ ہر ایک سرکاری آسامی کے لئے اوسطاً چار سے چھ ہزار درخواستیں آتی ہیں۔ جو بھی ترقیاتی بجٹ نصیب ہوتا ہے اس کا بہت بڑا حصہ سیکورٹی اور اتتظامی مدوں میں کھپ جاتا ہے۔ جو بچ جاتا ہے وہ حکمران اشرافیہ میں بٹ بٹا جاتا ہے اور جو پانچ سے دس فیصد لالچ و ہوس کے پنجوں سے گر جاتا ہے اسے عام آدمی ُچگ لیتا ہے۔ پھر بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر بہت سے بلوچ وفاقی پالیسیوں سے اتنے نالاں کیوں ہیں۔ نواب خیر بخش مری مرحوم ایک بات کہا کرتے تھے کہ بلوچ اس ریاست سے نفرت نہیں کرتے بلکہ بیزار ہیں۔ سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک کے بقول بلوچ اب اقتصادی ترقی کے لئے نہیں اپنی شناخت کے لئے بے چین ہیں۔ سیاسی حقوق کی غیر موجودگی میں اقتصادی حقوق کوئی مطلب ہی نہیں۔ مسئلہ روٹی کے چند ٹکڑوں یا پکی مہنگی سڑک کا نہیں۔ مسئلہ انتظامی خود مختاری اور وسائل پر کنٹرول کا ہے۔ جو ہم نہیں لینا چاہتے وہ زبردستی ہماری جیب میں ڈال رہے ہیں اور جو ہم لینا چاہتے ہیں وہ زبردستی چھین رہے ہیں۔ 
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
nowpakistan · 4 years
Text
سندھ، سکسیشن سرٹیفکیٹ بل 2020 منظور
سندھ، سکسیشن سرٹیفکیٹ بل 2020 منظور
سندھ کابینہ کی جانب سے سکسیشن سرٹیفکیٹ بل 2020ء منظور کرلیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں صوبائی وزرا، چیف سیکریٹری، صوبائی مشیر اور متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ ترجمان وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق سندھ کابینہ نے سکسیشن سرٹیفکیٹ بل 2020 منظور کر لیا یے جس کے بعد سکسیشن سرٹیفکیٹ کے نئے قانون کے تحت نادرا کو براہ راست درخواست کی جاسکے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
الخدمت فاؤنڈیشن
ہجومِ نالہ میں یہ ایک الخد مت فاؤنڈیشن ہے جو صلے اور ستائش سے بے نیاز بروئے کار آتی ہے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلاف ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ زلزلہ ہو یا سیلاب آئے یہ اس سماج کے گھائل وجود کا اولین مرہم بن جاتی ہے۔ خد مت خلق کے اس مبارک سفر کے راہی اور بھی ہوں گے لیکن یہ الخدمت فاؤنڈیشن ہے جو اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ مبالغے سے کوفت ہوتی ہے اور کسی کا قصیدہ لکھنا ایک ایساجرم محسوس ہوتا ہے کہ جس سے تصور سے ہی آدمی اپنی ہی نظروں میں گر جائے۔ الخدمت کا معاملہ مگر الگ ہے ۔ یہ قصیدہ نہیں ہے یہ دل و مژگاں کا مقدمہ ہے جو قرض کی صورت اب بوجھ بنتا جا رہا تھا۔ کتنے مقبول گروہ یہاں پھرتے ہیں۔ وہ جنہیں دعوی ہے کہ پنجاب ہماری جاگیر ہے اور ہم نے سیاست کو شرافت کا نیا رنگ دیا ہے ۔ وہ جو جذب کی سی کیفیت میں آواز لگاتے ہیں کہ بھٹو زندہ ہے اور اب راج کرے گی خلق خدا، اور وہ جنہیں یہ زعم ہے کہ برصغیر کی تاریخ میں وہ پہلے دیانتدار قائد ہیں اور اس دیانت و حسن کے اعجاز سے ان کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ بلے پر دستخط کر دیں تو کوہ نور بن جائے۔
ان سب کا یہ دعوی ہے کہ ان کا جینا مرنا عوام کے لیے ہے۔ ان میں کچھ وہ ہیں جو عوام پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ تو شہنشاہوں جیسی زندگی گزار رہے تھے، ان کے پاس تو سب کچھ تھا وہ تو صرف ان غریب غرباء کی فلاح کے لیے سیاست کے سنگ زار میں اترے ۔ لیکن جب اس ملک میں افتاد آن پڑتی ہے تو یہ سب ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ جن کے پاس سارے وسائل ہیں ان کی بے نیازی دیکھیے ۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو مل کر ایک ہیلی کاپٹر سے آٹے کے چند تھیلے زمین پر پھینک رہے ہیں۔ ایک وزیر اعظم ہے اور ایک وزیر خارجہ ۔ ابتلاء کے اس دور میں یہ اتنے فارغ ہیں کہ آٹے کے چند تھیلے ہیلی کاپٹر سے پھینکنے کے لیے انہیں خود سفر کرنا پڑا تا کہ فوٹو بن جائے، غریب پروری کی سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ فوٹو شوٹ سے انہیں اتنی محبت ہے کہ پچھلے دور اقتدار میں اخباری اشتہار کے لیے جناب وزیر اعلی شہباز شریف کے سر کے نیچے نیو جرسی کے مائیکل ریوینز کا دھڑ لگا دیا گیا تا کہ صاحب سمارٹ دکھائی دیں ۔ دست ہنر کے کمالات دیکھیے کہ جعل سازی کھُل جانے پر خود ہی تحقیقات کا حکم دے دیا ۔ راز کی یہ بات البتہ میرے علم میں نہیں کہ تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلا۔
ہیلی کاپٹرز کی ضرورت اس وقت وہاں ہے جہاں لوگ پھنسے پڑے ہیں اور دہائی دے رہے ہیں ۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر یہ اہل سیاست سیلاب زدہ علاقوں میں کیا دیکھنے جاتے ہیں ۔ ابلاغ کے اس جدید دور میں کیا انہیں کوئی بتانے والا نہیں ہوتا کہ زمین پر کیا صورت حال ہے ۔ انہیں بیٹھ کر فیصلے کرنے چاہیں لیکن یہ ہیلی کاپٹر لے کر اور چشمے لگا کر ”مشاہدہ“ فرمانے نکل جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا فائدہ کیا ہے؟ کیا سیلاب کو معطل کرنے جاتے ہیں؟ یا ہواؤں سے اسے مخاطب کرتے ہیں کہ اوئے سیلاب، میں نے تمہیں چھوڑنا نہیں ہے۔ سندھ میں جہاں بھٹو صاحب زندہ ہیں، خدا انہیں سلامت رکھے، شاید اب کسی اور کا زندہ رہنا ضروری نہیں رہا ۔ عالی مرتبت قائدین سیلاب زدگان میں جلوہ افروز ہوتے ہیں تو پورے پچاس روپے کے نوٹ تقسیم کرتے پائے جاتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیسے لوگ ہیں ۔ ان کے دل نہیں پسیجتے اور انہیں خدا کا خوف نہیں آتا؟ وہاں کی غربت کا اندازہ کیجیے کہ پچاس کا یہ نوٹ لینے کے لیے بھی لوگ لپک رہے تھے۔ 
یہ جینا بھی کوئی جینا ہے۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے جو ہمارے لوگ جی رہے ہیں۔ کون ہے جو ہمارے حصے کی خوشیاں چھین کر مزے کر رہا ہے ۔ کون ہے جس نے اس سماج کی روح میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں؟ یہ نو آبادیاتی جاگیرداری کا آزار کب ختم ہو گا؟ ٹائیگر فورس کے بھی سہرے کہے جاتے ہیں لیکن یہ وہ رضاکار ہیں جو صرف سوشل میڈیا کی ڈبیا پر پائے جاتے ہیں ۔ زمین پر ان کا کوئی وجود نہیں۔ کسی قومی سیاسی جماعت کے ہاں سوشل ورک کا نہ کوئی تصور ہے نہ اس کے لے دستیاب ڈھانچہ۔ باتیں عوام کی کرتے ہیں لیکن جب عوام پر افتاد آن پڑے تو ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ محاورہ بہت پرانا ہے لیکن حسب حال ہے۔ یہ صرف اقتدار کے مال غنیمت پر نظر رکھتے ہیں ۔ اقتدار ملتا ہے تو کارندے مناصب پا کر صلہ وصول کرتے ہیں۔ اس اقتدار سے محروم ہو جائیں تو ان کا مزاج یوں برہم ہوتا ہے کہ سر بزم یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمیں اقتدار سے ہٹایا گیا ہے اب فی الوقت کوئی اوورسیز پاکستانی سیلاب زدگان کے لیے فنڈز نہ بھیجے۔
ایسے میں یہ الخدمت ہے جو بے لوث میدان عمل میں ہے ۔ اقتدار ان سے اتنا ہی دور ہے جتنا دریا کے ایک کنارے سے دوسرا کنارا ۔ لیکن ان کی خدمت خلق کا طلسم ناز مجروح نہیں ہوتا ۔ سچ پوچھیے کبھی کبھی تو حیرتیں تھام لیتی ہیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ حکومت اہل دربار میں خلعتیں بانٹتی ہے اور دربار کے کوزہ گروں کو صدارتی ایوارڈ دیے جاتے ہیں ۔ اقتدار کے سینے میں دل اور آنکھ میں حیا ہوتی تو یہ چل کر الخدمت فاؤنڈیشن کے پاس جاتا اور اس کی خدمات کا اعتراف کرتا۔ لیکن ظرف اور اقتدار بھی دریا کے دو کنارے ہیں ۔ شاید سمندر کے۔ ایک دوسرے کے جود سے نا آشنا ۔ الخدمت فاؤندیشن نے دل جیت لیے ہیں اور یہ آج کا واقعہ نہیں ، یہ روز مرہ ہے ۔ کسی اضطراری کیفیت میں نہیں ، یہ ہمہ وقت میدان عمل میں ہوتے ہیں اور پوری حکمت عملی اور ساری شفافیت کے ساتھ ۔ جو جب چاہے ان کے اکاؤنٹس چیک کر سکتا ہے ۔ یہ کوئی کلٹ نہیں کہ حساب سے بے نیاز ہو، یہ ذمہ داری ہے جہاں محاسبہ ہم رکاب ہوتا ہے۔
مجھے کہنے دیجیے کہ الخدمت فاؤنڈیشن نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے ۔ میں ہمیشہ جماعت اسلامی کا ناقد رہا ہوں لیکن اس میں کیا کلام ہے کہ یہ سماج الخدمت فاؤنڈیشن کا مقروض ہے ۔ سیدنا مسیح کے الفاظ مستعار لوں تو یہ لوگ زمین کا نمک ہیں ۔ یہ ہم میں سے ہیں لیکن یہ ہم سے مختلف ہیں ۔ یہ ہم سے بہتر ہیں ۔ ہمارے پاس دعا کے سوا انہیں دینے کو بھی کچھ نہیں ، ان کا انعام یقینا ان کے پروردگار کے پاس ہو گا۔ الخدمت فاؤنڈیشن کی تحسین اگر فرض کفایہ ہوتا تو یہ بہت سے لوگ مجھ سے پہلے یہ فرض ادا کر چکے ۔ میرے خیال میں مگر یہ فرض کفایہ نہیں فرض عین ہے ۔ خدا کا شکر ہے میں نے یہ فرض ادا کیا۔
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ جسارت
0 notes
omega-news · 2 years
Text
سیلاب متاثرین کیلئے مالی امداد کی اپیل کریں. پرویز الہی کی عمران خان سے اپیل
سیلاب متاثرین کیلئے مالی امداد کی اپیل کریں. پرویز الہی کی عمران خان سے اپیل
وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے سابق وزیراعظم عمران خان سےدرخواست کی ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کے لیے مالی امداد کی اپیل کریں. انہوں نے اپنی اس خواہش کا اطہارسابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے ملاقات میں کیا ، اس مواقع پر مونس الٰہی اور وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری وزیر اعلی محمد خان بھٹی بھی موجود تھے۔ وزیر اعلی پنجاب نے کہا جنوبی پنجاب، بلوچستان، خیبر پختون خواہ اور سندھ میں تباہی پر ہر دل دکھی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
45newshd · 4 years
Photo
Tumblr media
کرونا وزیر اعلیٰ ہائوس سندھ میں پہنچ گیا، جانتے ہیں کتنے ملازمین وائرس کا شکار نکلے؟ اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعلیٰ ہائوس سندھ میں بھی کورنا وائرس کے متاثرین سامنے آگئے۔نجی ٹی وی کے مطابق اب تک وزیراعلیٰ ہائوس سے متعلقہ 6 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی راشد ربانی کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد عملے کے ٹیسٹ کئے گئے جس کے بعد ڈرائیورز اور ٹیکنیشن سمیت دیگر افراد میں بھی وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ۔
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
ایکسپو سنٹر کراچی میں کتاب میلہ سج گیا، بچوں کے ادب سے سائنس فکشن تک کئی موضوعات پر کتابیں دستیاب
کراچی کے ایکسپو سینٹر میں 5 روزہ سالانہ عالمی کتب میلہ سج گیا،کتب میلے کا افتتاح نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس(ریٹائرڈ) مقبول باقر نے کیا،ملکی اور غیرملکی پبلشرز کے 330 اسٹالزلگائے گئے ہیں۔ علم وادب کے متوالوں کے لئے کراچی میں عالمی کتب میلہ سج گیا، ایکسپوسیںٹرمیں پانچ روزہ سالانہ میلے کا افتتاح  نگراں وزیر اعلی سندھ جسٹس ر مقبول باقر نےکیا۔ میلے میں ہر مزاج کے قارئین کے ذوق کے مطابق پسندیدہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
ڈاکٹر سراج میمن جناح میڈیکل یونیورسٹی کے ایک بار پھر وائس چانسلر مقرر - اردو نیوز پیڈیا
ڈاکٹر سراج میمن جناح میڈیکل یونیورسٹی کے ایک بار پھر وائس چانسلر مقرر – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  کراچی: وزیر اعلی سندھ نے ایم بی بی ایس ڈاکٹر امجد سراج میمن کو جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کرنے کی منظوری دے دی، جسے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کو بھی بھیج دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ وزیر اعلی سندھ نے عدالتی احکامات پر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے شارٹ لسٹڈ امیدواروں کے انٹرویوز 4 روز قبل دوبارہ کیے تھے۔ اس سے قبل یہ انٹرویوز تلاش کمیٹی لے چکی تھی اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes