Tumgik
#پاک امریکا تعلقات
urduchronicle · 7 months
Text
پاکستانی عوام جس کو بھی منتخب کریں گے ہم اس حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہے کہ پاکستانی عوام جس کو بھی اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کریں گے، ہم اس حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ اور جہاں تک الیکشن فراڈ کے دعووں کا تعلق ہے، ہم ان کی مکمل تحقیقات دیکھنا چاہتے ہیں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے معمول کی پریس بریفنگ کے دوران پاکستان میں عام انتخابات کے دوران مبینہ بے ضابطگیوں کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کچھ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
پاکستان کا مستقبل امریکا یا چین؟
Tumblr media
پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری بلاشبہ دونوں ممالک کی دوستی اور دوطرفہ تعلقات کی بہترین مثال ہے۔ چین نے ایسے وقت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا جب پاکستان دہشت گردی اور شدید بدامنی سے دوچار تھا اور کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تھا۔ چین کی جانب سے پاکستان میں ابتدائی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری 62 ارب ڈالر تک ہو چکی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت اب تک 27 ارب ڈالر کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ سی پیک منصوبوں سے اب تک براہ راست 2 لاکھ پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع ملے اور چین کی مدد اور سرمایہ کاری سے 6 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کا حصہ بنی۔ سی پیک کو پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ترین منصوبہ ہے، لیکن منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے پروجیکٹس کے بعد سی پیک کے دیگر منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں ملک کے چاروں صوبوں میں خصوصی اکنامک زونز کا قیام تھا جس کے بعد انڈسٹری اور دیگر پیداواری شعبوں میں چینی سرمایہ کاری میں بتدریج اضافہ کرنا تھا لیکن اب تک خصوصی اکنامک زونز قائم کرنے کے منصوبے مکمل نہیں کیے جا سکے۔
سی پیک منصوبوں میں سست روی کی ایک وجہ عالمی کورونا بحرا ن میں چین کی زیرو کووڈ پالیسی اور دوسری وجہ امریکا اور مغربی ممالک کا سی پیک منصوبوں پر دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔ سی پیک منصوبوں کی ترجیحات اور رفتار پر تو تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان کے پاس چینی سرمایہ کاری کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں۔ پاکستان کا معاشی مستقبل اور موجودہ معاشی مسائل کا حل اب سی پیک کے منصوبوں اور چینی سرمایہ کاری سے ہی وابستہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیر مملکت حنا ربانی کھر اور وزیراعظم شہباز شریف کی گفتگو پر مبنی لیک ہونے والے حساس ڈاکومنٹس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو اب چین یا امریکا میں سے کسی ایک کو اسٹرٹیجک پارٹنر چننا ہو گا۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات خصوصا مشرقی وسطی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اب چین عالمی سیاست کا محور بنتا نظر آرہا ہے۔
Tumblr media
پاکستان کو اب امریکا اور مغرب کو خوش رکھنے کی پالیسی ترک کر کے چین کے ساتھ حقیقی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرنا ہو گی چاہے اس کے لیے پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ چین کی طرف سے گوادر تا کاشغر 58 ارب ڈالر ریل منصوبے کی پیشکش کے بعد پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اس منصوبے سے نہ صرف پاک چین تعلقات کو اسٹرٹیجک سمت دے سکتا ہے بلکہ اس منصوبے کی بدولت پاکستان چین کو بذریعہ ریل گوادر تک رسائی دیکر اپنے لیے بھی بے پناہ معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان نے تاحال سی پیک کے سب سے مہنگے اور 1860 کلومیٹر طویل منصوبے کی پیشکش پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کیا پاکستان کے فیصلہ ساز امریکا کو ناراض کر کے چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو طویل مدتی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں تبدی�� کرنے کا فیصلہ کریں گے یا دونوں عالمی طاقتوں کو بیک وقت خوش رکھنے کی جزوقتی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں اشرافیہ کے کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کے مفادات براہ راست امریکا اور مغربی ممالک سے وابستہ ہیں۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے بچے امریکا اور مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ ان افراد کی اکثریت کے پاس امریکا اور مغربی ممالک کی دہری شہریت ہے۔ ان کی عمر بھر کی جمع پونجی اور سرمایہ کاری امریکا اور مغربی ممالک میں ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک ہی اشرافیہ کے ان افراد کا ریٹائرمنٹ پلان ہیں۔ یہ لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو قربان کر کے چین کے ساتھ طویل مدتی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرے ان کوخوف ہے کہیں روس، ایران اور چین کی طرح پاکستان بھی براہ راست امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آجائے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے ریٹائرمنٹ پلان برباد ہو جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہترین خارجہ پالیسی کا مطلب تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات اور معاشی ترقی کے نئے امکانات اور مواقع پیدا کرنا ہے۔ لیکن ماضی میں روس اور امریکا کی سرد جنگ کے تجربے کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کے لیے امریکا اور چین کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ جلد یا بدیر پاکستان کو امریکا یا چین میں سے کسی ایک کے ساتھ تعلقات کی قربانی کا فیصلہ کرنا ہو گا تو کیوں نہ پاکستان مشرقی وسطیٰ میں چین کے بڑھتے کردار اور اثرورسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کے ساتھ طویل مدتی شراکت داری قائم کرنے کا فیصلہ کرے یہ فیصلہ پاکستان کے لیے مشکل ضرور ہو گا لیکن عالمی حالات یہی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل اب چین کے مستقبل سے وابستہ ہے۔
ڈاکٹر مسرت امین    
بشکریہ ایکسپریس نیوز
3 notes · View notes
meta-bloggerz · 3 months
Text
پاک امریکہ تعلقات بہترین پوزیشن پر ہیں،امریکی نائب معاون وزیر خارجہ
امریکا کی پرنسپل نائب معاون وزیر خارجہ ایلزبتھ ہورسٹ نے پاک امریکا تعلقات میں مزید بہتری کی خواہش ظاہر کردی انہوں نے کہا پاکستان اور امریکا کے تعلقات گزشتہ برسوں کی نسبت آج سب سے بہترین مقام پر ہیں، ان بہترین تعلقات کا تمام تر سہرا امریکا میں پاکستان کے سفیر سردار مسعود خان کو جاتا ہے۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر سردار مسعود خان کے اعزاز میں دیے گئے الوداعی عشائیہ کے موقع پر امریکا کی پرنسپل نائب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
کسی پروپیگنڈے اور غلط معلومات کو پاک امریکا تعلقات میں حائل نہیں ہونے دیں گے، امریکا
واشنگٹن : ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ کسی پروپیگنڈے اور غلط معلومات کو پاک امریکا تعلقات میں حائل نہیں ہونے دیں گے۔ تفصیلات کے مطابق ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں۔ نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان سے دو طرفہ تعلقات کو اہم سمجھتا ہے ، کسی پروپیگنڈے اور غلط معلومات کو دو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
’پاکستان، امریکا سے سفارتی، دفاعی تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے‘
اسلام آباد: سربراہ پاک فضائیہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکا سے سفارتی، اقتصادی، دفاعی تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق سربراہ پاک فضائیہ سے کمانڈر امریکی ایئرفورسز سینٹرل کمانڈ کی ملاقات ہوئی جس میں علاقائی سلامتی کی صوت حال، دو طرفہ دفاعی تعاون بڑھانے پر گفتگو کی گئی۔ ترجمان پاک فضائیہ کا کہنا ہے کہ معزز مہمان کی پاک فضائیہ کی خود…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
آخر امریکہ چاہتا کیا ہے؟
امریکہ کے منصب صدارت پر متمکن 80 سالہ صدر جو بائیڈن نے گزشتہ دنوں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے متعلق ایک متنازعہ بیان دے کر ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا۔ جو احباب پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ سے واقف ہیں ان کے لیے اس بیان میں کوئی نئی بات نہیں۔ 1950 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران پاکستان نے روس کے بجائے امریکہ کا انتخاب کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان نے روس کے بجائے امریکہ کا دورہ کر کے واضح طور پر امریکی اتحادی ہونے کا اعلان کیا۔ لیکن پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ دھوپ چھاؤں کی مانند ہی رہی۔ کبھی پاکستان امریکی توقعات پر پورا نہ اترا تو کبھی امریکہ نے پاکستان کی امیدوں کے برعکس اقدامات کئے۔ تاہم پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں امریکہ واحد ملک ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کے سیاسی اور دفاعی معاملات میں شریک کار رہا۔ 1954 سے لیکر اب تک مختلف مواقع پر امریکہ نے پاکستان کو امداد فراہم کی۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ جب گندم بھی امریکہ سے آتی تھی اور گندم اٹھانے والے اونٹوں کے گلے میں’’تھینک یو امریکا ‘‘کا ٹیگ لگا ہوتا تھا۔ امریکہ کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ امریکہ نے اس گندم کے پیسے ڈالر کے بجائے روپوں میں وصول کرنے کی سہولت دی اور ساتھ ہی یہ بھی پیش کش کر دی کہ وہ یہ رقم امریکہ کو ادا کرنے کے بجائے پاکستان میں ہی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کریں۔  1954 میں دونوں ممالک کے درمیان پہلا دفاعی معاہدہ ہوا۔ 1954 سے 1964 تک امریکہ کی جانب سے پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے۔ 1980 کی دہائی پاک امریکا تعلقات کے نئے دور کے آغاز کی دہائی کہلائی جا سکتی ہے۔ 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ لیا۔  ابتدا میں صدر جمی کارٹر نے پاکستان کو 40 کروڑ ڈالر کی پیشکش کی جسے پاکستان نے ’’مونگ پھلی‘‘ کہہ کر مسترد کر دیا۔ 1981 میں صدر ریگن نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کی پیشکش کی جسے قبول کر لیا گیا۔ 1980 سے 1990 کے درمیان امریکہ نے پاکستان کو 2 اعشاریہ 19 ارب ڈالر کی فوجی معاونت فراہم کی جبکہ معاشی ترقی کے لیے 3 اعشاریہ 1 ارب ڈالر بھی فراہم کیے۔
اس دور میں مسلح افواج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا گیا۔ امریکہ نے پاکستان کو 40 ایف 16 طیاروں سمیت جدید ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ بھی مہیا کی۔ اس وقت کے صدر پاکستان، جنرل محمد ضیاء الحق نے امریکی عزائم کو بھانپتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تیزی سے عملدرآمد شروع کیا۔ مختلف حکومتوں کی تبدیلیوں کے باوجود پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کسی حکمران جماعت نے سمجھوتا نہ کیا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ذوالفقار علی بھٹو کا منصوبہ تھا جسے بعد میں آنے والے تمام حکمرانوں نے تیز رفتاری کے ساتھ جاری رکھا۔ یہاں تک کہ جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے 28 مئی 1998 کو ایٹم�� دھماکے کر کے پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا۔ اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن نے دھماکے رکوانے کے لئے میاں نوازشریف کو متعدد فون کئے۔ ان پر دباؤ ڈالا۔ 
مبینہ طور پر رقم دینے کی بھی پیشکش کی۔ تاہم انہوں نے پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق ایٹمی دھماکے کر دئیے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمیشہ امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے۔ ہر امریکی حکمران اس حوالے سے مختلف نوعیت کے بیانات دے کر اپنے خبث باطن کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا حالیہ بیان بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے بجا طور پر امریکی صدر کے بیان کو مسترد کیا ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے محفوظ ہونے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بجا طور پر یہ کہا گیا کہ اگر ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کی بات کرنی ہے تو اس کا سب سے پہلا نشانہ تو بھارت ہونا چاہیے جس کے میزائل پاکستان میں آکر گرے جب کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کمیشن نے اس کے انتظامات کو عالمی معیار کے عین مطابق قرار دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکی صدر کا بیان ان کے اس ذہنی دباؤ کی عکاسی کرتا ہے جس سے وہ دوچار ہیں۔
ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی کے استقبالیے میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا خطاب وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔ جس میں بائیڈن کے حوالے سے لکھا گیا کہ’’ میرے نزدیک شاید دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک، پاکستان ہے۔ اس کے پاس موجود جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں۔‘ ''امریکی صدر کے یہ الفاظ بدلتے ہوئے عالمی سیاسی منظرنامے کوذہن میں رکھ کر ادا کیے گئے۔ روس یوکرائن جنگ کے دوران روس کی مسلسل بالادستی اور چین کی عالمی سفارتکاری نے امریکی صدر کو شدید ذہنی دباؤ کا شکار کر دیا ہے۔ عالمی منظر نامے پر امریکہ کے کئی پرانے اتحادی اسے چھوڑ رہے ہیں۔ کئی نئے بلاک امریکی طاقت کو چیلنج کرنے جا رہے ہیں۔ روس یوکرین تنازعات کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان سمیت متعدد ممالک کے غیر جانبدار رویے نے بھی امریکی صدر کو جھنجھلا کر رکھ دیا ہے۔ اس امر میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج دنیا کی بہترین پروفیشنل افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی، توازن اور سمجھ داری کے ساتھ چلائی جا رہی ہے۔ بعض اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دفتر خارجہ پر کی گئی تنقید بلا جواز معلوم ہوتی ہے کیونکہ پاکستانی وزارت خارجہ نے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔ اس بیان کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے یک زبان ہو کر ایٹمی پروگرام کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا اور امریکی صدر کے بیان کو نہ صرف غیر ضروری قرار دیا بلکہ اس کی مذمت بھی کی۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے بیان میں صدر بائیڈن سے کئی سوالات پوچھے جبکہ صف اول کے دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مثبت اور ذمہ دارانہ بیانات انکے ذمہ دار فرد ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ آنے والے دنوں میں نئی عالمی صف بندی کی جائے گی جس کیلئے نئے کردار کے تعین کیلئے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا تاکہ ایسی پالیسی ترتیب دی جا سکے جو بدلتے ہوئے عالمی تقاضوں کے مطابق پاکستانی مفادات کا تحفظ کر سکے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
پاک امریکا دوستانہ تعلقات باہمی اعتماد پر مبنی ہیں:وزیراعظم
پاک امریکا دوستانہ تعلقات باہمی اعتماد پر مبنی ہیں:وزیراعظم
اسلام آباد(آواز نیوز) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاک امریکا دوستانہ تعلقات باہمی اعتماد پر مبنی ہیں، دونوں ممالک کے تعلقات کو چین اور افغانستان کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا، مشکل حالات میں امریکانے پاکستان کی مدد کی۔ امریکا ہمارا بہترین دوست ہے۔ وزیرِاعظم نے اسلام اباد میں امریکی سفارتخانہ میں پاک ، امریکا تعلقات کی 75ویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کی۔ پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
پاکستانی الیکشن میں تشدد کے واقعات اور میڈیا پابندیوں پر تشویش ہے، امریکی محکمہ خارجہ
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستانی انتخابات کے دوران ہمیں تشدد کے تمام واقعات اور میڈیا کی آزادی پر پابندیوں پر تشویش ہے۔ معمول کی پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل سے سوال کیا گیا کہ  پاکستانی انتخابات میں بس چند دن رہ گئے ہیں۔ سابق وزیراعظم اور مقبول رہنما عمران خان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے انتخابی عمل کی شفافیت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
ایں جہالت بزورِ بازو نیست
Tumblr media
جو جو تاریخ و جغرافیے سے عاری اینکرز اور ’’سینئر جونیئر ‘‘ تجزیہ کار چابی بھرے بھالو کی طرح پاک ایران تعلقات کو پاک بھارت اور پاک افغان تعلقات کے روایتی بھاشنیے پلڑے میں رکھ کے ’’ منہ توڑ ، دندان شکن ‘‘ جیسی لفظیات استعمال کر رہے ہیں انھیں شاید اندازہ ہی نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ انھیں شاید یہ اندازہ بھی نہیں کہ افغان، بھارت پاکستان تعلقات اور ایران پاک تعلقات کے بارے میں ریاستی بیانیہ بالکل مختلف اور مبنی بر احتیاط ہے۔ انھیں شاید یہ بھی اندازہ نہیں کہ ہر بحران پوائنٹ اسکورنگ اور بڑھ چڑھ کے موسمی وفاداریاں ظاہر کرنے کا نہیں ہوتا بلکہ ہر مناقشے کو اس کے اپنے تناظر میں کامن سنس کے ساتھ پرکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ایں جہالت بزورِ بازو نیست۔ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان قائم ہوتے ہی سب سے پہلے جس ملک نے اس کے وجود کو پہلے ہی روز سفارتی طور پر تسلیم کیا وہ ایران تھا۔ پاکستان نے سب سے پہلے جس ملک میں اپنا سفیر ( راجہ غضنفر علی خان ) مقرر کیا اور مئی انیس سو اڑتالیس میں سفارتی دفتر کھولا وہ تہران تھا۔ پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے مئی انیس سو انچاس میں جس ملک کا پہلا اسٹیٹ وزٹ کیا وہ ایران تھا۔
رضا شاہ پہلوی پہلے حکمران تھے جنھوں نے مارچ انیس سو پچاس میں پاکستان کا دورہ کیا اور دو طرفہ دوستی معاہدہ طے پایا۔ (جب کہ بھارت سے ایران کے رسمی سفارتی تعلقات مارچ انیس سو پچاس میں یعنی تقسیم کے تین برس بعد قائم ہوئے۔ شاہ ایران نے دلی کا پہلا دورہ فروری انیس سو چھپن میں کیا۔ مسز اندرا گاندھی پہلی بھارتی حکمران تھیں جنھوں نے انیس سو چوہتر میں ایران کا سرکاری دورہ کیا)۔ پچاس کی دہائی میں پاکستان اور ایران امریکی حمایت یافتہ سیٹو اور سینٹو میں شامل رہے۔ انیس سو چونسٹھ میں ایوب خان کی تجویز پر ایران اور ترکی نے سہ طرفہ علاقائی تعاون کا سمجھوتہ آر سی ڈی کیا۔ اس کی افادیت کو پاکستانی تعلیمی نصاب میں بھی شامل کیا گیا ( یہ تجربہ سارک، روڈ اینڈ بیلٹ، شنگھائی کوآپریشن کاؤنسل، ہارٹ آف ایشیا سے بہت پہلے کا ہے)۔ ایران میں بھلے شاہی دور رہا یا انقلابی۔ مسئلہ کشمیر پر ایرانی موقف کبھی بھی بھارت کے حق میں نہیں رہا۔ 
Tumblr media
انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں جن ممالک نے پاکستان کا کھل کے ساتھ دیا وہ چین ، ایران اور انڈونیشیا تھے۔ اس جنگ کے دوران ایران نے پاک فضائیہ کو لاجسٹک سہولتیں بھی فراہم کیں۔ انیس سو اکہتر کی خانہ جنگی کے دوران بھی ایران نے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے غیر جانبدار رویہ برتا نیز مشرقی و مغربی پاکستان کی قیادت کے درمیان ثالثی کی بھی پیش کش کی۔ بھٹو صاحب کے دور میں خلیجی ممالک سے پاکستان کے اقتصادی تعلقات میں اضافہ ہوا۔ مگر پاکستان کے صنعتی سیکٹر میں ایرانی سرمایہ کاری بھی بڑھی۔ انیس سو تہتر میں بلوچستان میں بدامنی سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت نے جو آپریشن شروع کیا۔اس میں بھی ایرانی حکومت نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی اسٹرٹیجک مدد کی تاکہ بے چینی کا دائرہ وسیع ہو کر ایرانی بلوچستان اور سیستان تک نہ پھیل جائے۔ مگر بلوچستان کے دونوں اطراف آباد قبائل کے رابطوں اور آمدو رفت اور غیر رسمی تجارتی لین دین میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔
بھارت اور افغانستان کے برعکس پاکستان اور ایران کا سرحدی حد بندی پر کبھی کوئی جھگڑا یا دعویٰ نہیں رہا۔ انقلاب کے بعد مجاہدینِ ِ خلق سمیت متعدد ایرانی منحرفین نے پاکستان میں پناہ لی۔ نئی مذہبی قیادت چہار جانب انقلاب ایکسپورٹ کرنے کی حامی تھی۔ چنانچہ پاکستان کے اندر بھی اسے فرقہ وارانہ زاویے سے دیکھا جانے لگا اور اس کے منفی اثرات بھی سامنے آئے (پراکسیوں کے جواب میں پراکسیاں پیدا کی گئیں جو اپنے ہی سماجی دھاگے کو چبانے لگیں)۔ انیس سو اناسی میں افغانستان میں براہ ِ راست سوویت مداخلت کے سبب پاکستان، خلیجی ممالک اور امریکا کا جو اسٹرٹیجک اتحاد ابھر کے سامنے آیا اس کے سبب بھی ایران نے خود کو علاقائی گھیراؤ میں محسوس کیا۔ تناؤ طرح طرح سے ظاہر ہونے لگا۔ حتی کہ ایرانی عدالتی نظام کے سربراہ آیت اللہ خلخالی نے اپنے بیان میں یہ تک کہا کہ پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ امریکا نواز فوجی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ مگر پاکستانی حکومت کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہ ایران کی ریاستی پالیسی ہرگز نہیں۔
جب مجاہدینِ خلق کے خلاف ایرانی حکومت نے بیرونِ ملک کارروائیاں شروع کیں تو پاکستان بھی اس کی زد میں آیا۔ کوئٹہ اور کراچی میں انیس سو ستاسی میں فریقین کی مسلح جھڑپوں میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ پاکستان نے تہران پر واضح کر دیا کہ اس سطح کی کارروائیاں ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ اسی عرصے میں جنرل ضیا الحق نے ایران عراق جنگ کے خاتمے کے لیے اسلامی کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ثالثی کی بھی ناکام کوشش کی۔ ایران گیس کے ذخائر کی پیداوار کے لحاظ سے دوسرا بڑا اور تیل کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ مگر پاکستان ہمسائیگی کے باوجود اس سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا پایا۔ اس بابت امریکی دباؤ اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقاتی نزاکتیں ہمیشہ آڑے آتی رہیں۔ اس کی ایک مثال پاک ایران گیس پائپ لائن ہے جو پاکستان کو توانائی کے بحران سے خاصی حد تک نجات دلا سکتی تھی مگر دو ہزار بارہ سے اب تک یہ منصوبہ ٹھپ ہے۔ البتہ مکران ریجن کے لیے ایرانی بجلی کی فراہمی کا منصوبہ مقامی سطح پر خاصی حد تک کامیاب ہے اگرچہ پاک ایران سرحد پر حفاظتی باڑھ بھی لگ چکی ہے۔
اس کے باوجود منشیات، تیل اور مسلح افراد کی غیر قانونی آمد و رفت کے مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ اگر دونوں ریاستیں چاہیں تو طے شدہ مقامی سیکیورٹی میکنزم پر عمل پیرا ہو کے ان مسائل کا سدِ باب بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر علاقائی اسٹرٹیجک گیم میں ریاستوں کو اپنے قلیل اور طویل مفادات کے لیے ایک دوسرے کو حد میں رکھنے اور چیک کرنے کے لیے پیادوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کروڑوں ڈالر پیدا کرنے والی غیر قانونی معیشت سے بھی سرحد کے آر پار بہت سے طاقتوروں کی روزی روٹی وابستہ ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ مفاداتی تضادات اچھل کے سامنے آ جاتے ہیں اور بیچ چوراہے میں بھانڈا بھی پھوٹ جاتا ہے۔  افغانستان جو پاکستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کے تنازعے میں مسلسل تاریخی فریق ہے اور بھارت جس کے ساتھ تعلقات نارمل رکھنے کا عمل ایک ٹیڑھی کھیر ہے۔ ان دونوں کے برعکس ایران پاکستان کے درمیان ایسا کوئی تاریخی یا جغرافیائی تنازعہ نہیں جسے جواز بنا کے دونوں ممالک ایک دوسرے کے مسلسل درپے ہوں۔ 
چین دونوں کا مشترکہ دوست ہے اور دونوں ممالک میں اس کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔ چین کبھی نہیں چاہے گا کہ کسی ایک فریق کی وقتی جذباتیت اور بے وقوفی سے اس کے علاقائی مفادات میں وہ آگ لگ جائے جس پر ہاتھ تاپنے کو بھارت اور مغربی دنیا سمیت کئی شکاری تیار بیٹھے ہیں۔ لہٰذا پاکستان ایران کے مابین جو بھی گرم سرد ہے وہ بقول ایک سفارت کار بہت آسانی سے مینیج ایبل ہے۔ چنانچہ میری اپنی میڈیا برادری سے درخواست ہے کہ اس معاملے کو حق و باطل کی لڑائی اور دندان شکن اور منہ توڑ قرار دینے سے پرہیز کریں۔ ضروری نہیں کہ ہر خواہش پوری بھی ہو جائے۔ ریاستیں اپنے حساب سے چلتی ہیں تیرے میرے موڈ سے نہیں۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistantime · 4 years
Text
ریمنڈ ڈیوس کی برسوں پرانی حیرت
دھند اور سردی سے لاہور کی سڑکیں اُن دنوں ٹھٹھر رہی تھیں ، اسی ہیجان میں ٹریفک کی تندی میں بھی تھوڑا اضافہ ہو گیا تاکہ لوگ باگ جاڑے کے بے رحم جھکڑوں سے بچ کر محفوظ ٹھکانوں پر پہنچ سکیں۔ اسی اثنا میں شہر گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھا ، اس کے بعد کیا سردی اور کیا جھکڑ، جذبات میں طلاطم پیدا ہو گئے ، پھر سارا ملک اسی کیفیت میں مبتلا ہوتا چلا گیا۔ یہ واقعہ ایک امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو افراد کے قتل کا تھا ، آنے والے دنوں میں جس سے پاک امریکا تعلقات ہی نہیں بلکہ قومی سیاست پر بھی انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ پیسے کی ریل پیل، دباؤ اور دیگر ہتھ کنڈوں کے زور پر قاتل جب امریکا جا پہنچا تو اس نے عافیت کی گود میں بیٹھ کر لاہور کے واقعات کو یاد کیا ۔ یوں اس کی یاداشتوں کا مجموعہ” The Contractor: How I Landed in a Pakistani Prison and Ignited a Diplomatic Crisis”کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ قاتل نے اس کتاب میں ایک عجب بات لکھی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس نے لکھا ہے کہ اس کی گرفتاری کے بعد مقامی سطح پر ہی سرگرمیاں تیز نہیں ہو گئیں بلکہ اسلام آباد سے واشنگٹن تک طوفان بپا ہو گیا۔ اسی طوفان نے بعد میں قاتل کی رہائی کاراستہ ہموار کیا۔ اس نے لکھا ہے کہ امریکا روانگی سے قبل ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں کوئی ایک حلقہ بھی ایسا نہیں بچا تھا جس نے اس معاملے میں خاموشی اختیار نہ کی ہو، سوائے ایک شخص کے۔ ریمنڈ ڈیوس کے دعوے کے مطابق ترغیب، تحریص اور دھمکی سمیت تمام حربے اختیار کر کے دیکھ لیا گیا لیکن یہ شخص ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس شخص کا نام تھا، سید منور حسن۔ اس انکشاف کے بعد ریمنڈ ڈیوس نے اس واقعے پر جو تبصرہ کیا، وہ بڑا دلچسپ ہے۔ اس نے لکھا کہ قومی غیرت کے اس مظاہرے، اپنے موقف کی سچائی پر اعتماد اور کردار کی پختگی نے مجھے حیران کر دیا اور میں نے یہ جانا کہ قومی قیادت کیا ہوتی ہے اور کیسا اسے ہونا چاہیے۔
اس تبصرے کے بعد اس نے ایک سوال اٹھایا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستانی قوم نے اپنی قیادت کے انتخاب کے مرحلے پر غیر معمولی کردار کے حامل اس رہنما اور اس کی جماعت کو نظر انداز کیوں کر دیا؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے اور سید منور حسن جیسے رہنما کی رحلت کے موقعے پر ایسے واقعات کی بازگشت کا سنائی دینا فطری ہے ۔ کسی سیاسی جماعت پر عوام کے اعتماد کا اظہار یا نظر انداز کر دینے کا عمل اپنی جگہ ایک پیچیدہ واقعہ ہے جس میں بہت سے عوامل کردار ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے غیر متوقع واقعات صرف سیاست کے میدان میں ہی رونما نہیں ہوتے بلکہ خارجہ تعلقات اور قومی سلامتی کے معاملات میں بھی ان کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال چین اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر رونما ہونے والی صورت حال ہے جس میں بھارت کو تاریخی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
لائن آف کنٹرول پر وادیِ گلوان میں رونما ہونے والے واقعات ممکن ہے کہ کسی اتفاق کا نتیجہ رہے ہوں، لیکن ان واقعات کو جنوبی ایشیا میں تسلسل کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔ دنیا کی واحد ہندو ریاست نیپال کو فطری طور پر بھارت کے دم چھلے کا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں اگر نیپالی عوام اور حکومت کے حقیقی جذبات کا مطالعہ ذرا باریک بینی سے کیا جائے تو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ ان دونوں قوموں کے درمیان تعلقات حقیقی معنوں میں کبھی خوش گوار نہیں رہے۔ نیپال اگر کھل کر بھارت کی مخالفت نہیں کرتا تو اس کا سبب یہ ہے کہ اپنے طاقت ور پڑوسی کے خفیہ اداروں کی ریشہ دوانیوں ، جارحانہ رویے رکھنے والی فوج کے دباؤ اور بیرونی تجارت کے لیے بھارتی بندرگاہوں کا دست نگر ہونا اس کی بڑی مجبوری ہے۔
اسی وجہ سے یہ ملک بھارت کے معاملے میں اپنے قومی مفادات کے مطابق آزادانہ رائے کے اظہار سے معذور رہتا ہے لیکن حال ہی میں ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ کا ایک غیرمعمولی اور تاریخی واقعہ رونما ہوا ہے جس میں نیپال نے بڑی جرأت مندی کے ساتھ کہا ہے کہ بھارت نے کالا پانی اور ملحقہ علاقوں پر غیر قانونی طور پر تسلط جما رکھا ہے۔ نیپال نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت اپنا قبضہ فوری طور پر ختم کر کے یہ علاقے اس کے حوالے کرے۔ بھارت نیپال تعلقات میں یہ واقعہ ایک ایسی انگڑائی کی حیثیت رکھتا ہے جو مستقبل میں اس خطے کی سیاسی اور جغرافیائی صورت گری کی بنیاد بن جائے گا۔ پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات کی نوعیت بھارت نیپال تعلقات جیسی ہی ہونی چاہیے تھی لیکن ابتدائی کچھ عرصے کے بعد ان دونوں ملکوں کے تعلقات کو اونچ نیچ ہی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ کئی مواقعے تو ایسے بھی آئے جن میں بھارت کے مقابلے میں بنگلہ دیش پاکستان کے زیادہ قریب آگیا۔
عوامی سطح پر ممکن ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ضمن میں بنگلہ دیشی عوام کے روّیوں میں زیادہ فرق نہ آیا ہو لیکن حسینہ واجد کے اقتدار میں آنے کے بعد صورت حال میں جوہری تبدیلی رونما ہو گئی اور دونوں ملک ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی لیکن اب اگر اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور چین کے تعلقات پاک چین تعلقات جیسی کیفیت اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بتدریج دوری کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ چین بنگلہ دیش تعلقات کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے محض اتنی مثال ہی کافی ہے کہ چین گوادر کی طرز پر بنگلہ دیش میں ایک بندرگاہ کی تعمیر کے علاوہ بہت سے دیگر منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ چین کے مقابلے میں بھارت کی سرمایہ کاری آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔
چین اور جنوبی ایشیا کے دو اہم ملکوں کے ساتھ بھارت کے تیزی کے ساتھ روبہ زوال تعلقات دراصل پاکستان کے لیے پیش بہا مواقعوں کی نوید کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کو دنیا ��یں تنہائی سے دوچار کرنے کی ڈیڑھ دو دہائی پرانی بھارتی حکمت عملی کے تناظر میں ان تبدیلیوں کی حیثیت دو چند ہو جاتی ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اس وقت ہمارے قومی ایجنڈے پر خطے میں تیزی سے ظہور پزیر ہونے والی یہ صورت حال کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ہماری حکومت اور سیاسی جماعتیں داخلی سیاسی جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہیں جب کہ ذرائع ابلاغ کے ایجنڈے پر ان تاریخی تبدیلیوں پر کوئی مکالمہ اور بحث دکھائی نہیں دیتی۔ یہی صورت حال ہے جو ریمنڈ ڈیوس کی برسوں پرانی حیرت کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔
فاروق عادل  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
weaajkal · 6 years
Photo
Tumblr media
امریکی دبائو:دوٹوک فیصلہ کا وقت #Taliban #Afghanistan #PakAmericaRelations #America #Pakistan #aajkalpk #urdu #urduposts #headlines #editorial #newspaper خصوصی رپورٹ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے امریکہ نے امداد نہیں بلکہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی وہ رقم روکی ہے جو پاکستان دہشتگر دی کیخلاف خرچ کرچکا ہے۔اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی محکمہ دفاع کے 30 کروڑ ڈالر کی امداد منسوخ کرنے کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا امریکی سیکر یٹری خارجہ آرہے ہیں، کوشش ہوگی باہمی عزت و احترام کا رشتہ قائم کرتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنائیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات تقریباً معطل ہیں۔ وز یرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ باہمی دلچسپی کے مفادات کو سامنے رکھ کر امریکا کے ساتھ تعلقات بڑھائیں گے۔5 ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ پاکستان کے دورے پر آ رہے ہیں، امریکا کا نقطہ نظر سنیں گے اور اپنا موقف پیش کریں گے۔امریکا کی جانب سے پاکستان کو اتحادی سپورٹ فنڈ روکنے کے معاملے پر میڈیا سے گفتگو میں وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کیخلاف پاکستان نے قربانیاں دیں، امریکا اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں ڈالر دے رہا تھا، یہ کوئی امداد نہیں وہ پیسہ ہے جو ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ مین خرچ کیا تھا اور امریکہ نے پاکستان کو دینا تھی مگر امریکہ نے ہماری جانی اور مالی قربانیوں کا بدلہ اتحادی سپورٹ فند روک کر دیا ہے ۔وزیرِ خارجہ نے کہا کہ وزیرِاعظم اور امریکی وزیرِ خارجہ میں ٹیلیفون پر گفتگو کے حوالے سے ہم نے پسپائی اختیار نہیں کی، اپنے موقف پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے پاکستان کی جانی اور مالی قربانیوں کا بدلہ طے شدہ فنڈ روک کر دیا۔انہوں نے کہا کہ امریکا نے 300 ملین ڈالر امداد نہیں بلکہ اتحادی سپورٹ فنڈ کا پیسہ روکا، امریکی ہم منصب مائیک پومپیو سے دو ٹوک بات کریں گے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ مشترکہ مفادات کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھیں۔ گزشتہ روز امریکا نے کولیشن سپورٹ فند کے تحت نے پاکستان کی 30 کروڑ ڈالر کی امداد منسوخ کردی۔ترجمان پینٹاگون کے مطابق امریکا کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردوں کیخلاف جنگ کے لیے دی جانے والی 30 کروڑ ڈالر کی امداد منسوخ کردی گئی جب کہ امداد کی منسوخی کا فیصلہ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کیا۔ترجمان پینٹاگون کا کہنا کہ امداد دہشت گردوں کیخلاف فیصلہ کن کارروائی نہ کرنے پر منسوخ کی گئی تاہم اگر پاکستان اپنا رویہ تبدیل کرلے اور دہشت گردوں کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کا پھر سے آغاز کرے تو امداد حاصل کر سکتا ہے۔واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے روکی جانے والی اب تک کی امداد میں کٹوتی کی مجموعی مالیت 800 ملین ڈالرز ہو گئی ہے۔مودی سرکار کی خوشنودی کی خاطر ٹرمپ انتظامیہ پاکستان پر غیر اصولی دبائو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہر ایک دو ماہ بعد تاش کا ایک نیا پتا کھیل رہی ہے۔ سات دہائیوں میں پاکستان نے امریکی اتحادی کی حیثیت سے جس قدر مثبت کردار ادا کیا ہے، موجودہ امریکی حکومت اسے جھٹلانے پر تلی ہوئی ہے۔اس پالیسی کے تحت پینٹاگون نے عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام میں ناکامی کا الزام لگا کر پاکستان کی مزید30کروڑ ڈالرز کی امداد منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس ضمن میں موقف یہ اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان اگر اپنا رویہ تبدیل کرلے تو یہ امداد بحال ہو سکتی ہے جبکہ پاکستان کی ہر حکومت دو ٹوک الفاظ میں امریکہ پر یہ واضح کرتی چلی آرہی ہے کہ پاکستان تو خود دہشت گردوں کا بدترین ہدف رہا ہے اور ان کے خلاف جیسی فیصلہ کن کارروائی پاکستان نے کی ہے اس کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ عمران خان نے بھی وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعداپنی پہلی نشری تقریر میں عالمی برادری پر یہ بات واضح کردی ہے کہ پاکستان امریکہ سمیت عالمی برادری خصوصاً پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات پر یقین رکھتا ہے۔ پاکستان بلا شبہ اس وقت انتہائی اقتصادی بد حالی کا شکار ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ اس مشکل سے نکلنے کی خاطر اصولوں پر سمجھوتہ کر لے ۔ متذکرہ امریکی امداد کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں دی جاتی تھی جس معطلی کا اعلان رواں سال کے شروع میں صدر ٹرمپ نے کیا تھا۔یہ وضا حت بھی ضروری ہے کہ پاکستان امریکی حکومتوں سے زیادہ امریکہ سے دوستی پر یقین رکھتا ہے اور اس شاندار دوستی کا مظاہرہ ماضی میں کئی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ٹرمپ حکومت نے یہ امداد روکنے کا اعلان اس وقت کیا ہے جب امریکی وزیر خارجہ پومپیو کے پاکستان آنے میں چاردن باقی رہ گئے ہیں۔جس سے واضح ہے کہ یہ من مانے مطالبات منوانے کیلئے پاکستان پر دبائو ڈالنے کاحربہ ہے ۔پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے وقت بھی امریکی جنوبی اور وسط ایشیا امور کی نائب سیکرٹری ایلس ویلز نے کہاتھاکہ ان کا ملک پاکستان کے نئے وزیراعظم کی جانب سے انڈیا اور افغانستان کے ساتھ امن کی خواہش کاخیر مقدم کرتاہے۔ افغانستان میں استحکام لانے میں پاکستان کا اہم کردار ہے۔ ہم نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف مزید اقدامات کرے اور یا تو ان کو مذاکرات کے لئے تیار کرے یا پھر ان کو افغانستان میں دھکیلا جائے نہ کہ ان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کیے جائیں ۔عمران خان کی قیادت میں معرض وجود میں آنے والی حکومت کو امریکہ کی طرف سے خیر سگالی کے پیغامات آئے ۔ ایلس ویلز کی طرح وزیر خارجہ پومپیو کی طرف سے بھی پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ دہشتگردوں کے مکمل خاتمے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے اور اب تک امریکہ کی طرف سے پاکستان کے دہشتگردوں کے خلاف اقدامات پر عدم اعتماد کے باوجود ایسا ہو بھی رہاہے مگر امریکہ کی تشویش بے جا ہے کہ پاکستان میں دہشتگرد گروہ محفوظ پناہ گاہیں انجوائے کر رہے ہیں۔ اگر پاکستان میں دہشت گرد محفوظ ہیں تو پھر پاکستانی فورسز کس کا مقابلہ کرتے ہوئے جانوں کی قربانی دے رہی ہیں ۔ طالبان خود مذاکرات پر آمادہ ہیں۔ امریکہ افغان انتظامیہ کے بجائے خود طالبان سے مذاکرات کرے تو افغان مسئلے کا حل ممکن ہے۔ افغان حکومت طالبان کو اقتدار میں شامل کرنے سے انکاری ہے۔جن لوگوں سے اقتدار چھینا گیا ان سے غیر مشروط سرنڈر کی امید احمقانہ پن ہے۔ امریکہ نے وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ پومپیو کی فون کال کو متنازعہ بنا دیا۔ جن امور پر بات ہی نہیںہوئی اسے بھی کال کا حصہ ظاہر کرکے دونوںممالک میں مزید غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں ۔ کرٹسی کال میں ایسی باتیں نہیں ہوتیں جن کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے سختی سے تردید کی ہے کو پومپیو کی طرف سے اس فون کال میں تمام دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کن اہمیت کو اجاگر کیا گیا ۔پاک امریکا تعلقات پہلے ہی نازک موڑ پر ہیں، امریکی امداد کی بندش اور نت نئے مطالبات کے بعد صورتحال مزید کشیدگی کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن امریکہ یاد رکھے کہ ابھی دہشتگردی کے خلافجنگ جاری ہے اور اسے قدم قدم پر پاکستان کی ضرورت پڑے گی۔ ٭٭٭
0 notes
risingpakistan · 5 years
Text
پاکستان پر بیتے ہوئے دوعشروں کا سبق
پاکستان ڈپلومیسی کی راہوں پر اب تنہائیوں کو پیچھے جھٹک کر آگے بڑھ رہا ہے۔ چند برس پہلے یوں لگ رہا تھا کہ پاکستان عالمی محاذ پر یکا وتنہا ہے اور اگر اپنے سوا اس کا کوئی مونس وغم خوار ہے تو وہ عوامی جمہوریہ چین ہے۔ چین نے پاکستان کو مشکل ترین لمحوں میں عالمی سطح پر ہی نہیں دفاعی اور داخلی محاذوں پر بھی سہارا دیے رکھا۔ جب بھی امریکی بلاک پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات کی بارش تیز کرتا تو چین عالمی امن وستحکام کے لیے پاکستان کی قربانیوں کی تعریف پر مبنی ایک بیان جاری کر کے پاکستان کی تنہائی کے تاثر کو دور کرتا۔ گزشتہ بیس برس پاکستان کے لیے بہت خوفناک تھے۔ جب اس کے وجود اور بقا کا ٹائٹینک حالات کے آئس برگ سے ٹکرانے سے بال بال بچا۔ 
ان ماہ وسال نے پاکستان کے پالیسی سازوں کو بہت سبق پڑھائے کیوںکہ تجربہ اور وقت سب سے بڑا اتالیق ہے۔ بس اب اس سبق کو یاد رکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس عرصے میں جب امریکا پاکستان کو طعنوں اور دشنام کا نشانہ بناتا تو چین دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کر کے اس بین الاقومی ساکھ اور اعتبار بخشتا۔ ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کیوںکہ پاکستان پر ٹوٹ پڑنے والے بہت سے عذابوں اور عتابوں کا تعلق پاک چین دوستی اور بالخصوص اقتصادی راہداری سے تھا۔ پاک چین تعلقات صرف چین کی ضرورت ہی نہیں تھے بلکہ یہ خود پاکستان کی دفاع کے لیے بھی لازمی تھے۔ امریکا علاقائی سیاست میں پاکستان کو بھارت کی دُم کے ساتھ باندھنا چاہتا تھا اور بھارت کو بڑا بنانے کے لیے پاکستان کو مختلف حوالوں سے چھوٹا کرنا چاہتا تھا جس میں ایٹمی صلاحیت سے محرومی کا معاملہ بھی شامل تھا۔ 
پاکستان کے لیے اس انداز اور اسٹائل کے ساتھ بھارت کا ہمنوا بننا ممکن نہیں تھا۔ اس طرح پاکستان چین کے ساتھ دوستی کی آڑ لے کر اس دبائو کا مقابلہ کر رہا تھا۔ یہ مشکل وقت گزرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورے کے طویل المیعاد اثرات پر بات کرنا تو قبل از وقت ہو گا مگر اس کا فوری اثر یہ ہوا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بڑھتا ہوا بگاڑ رکتا محسوس ہو رہا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان مورگن نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ دورہ کامیاب رہا اور یہ کہ اب پاک امریکا تعلقات میں پیش رفت کا وقت آگیا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں حد درجہ بگاڑ پاکستان کے لیے اچھا نہیں تھا۔ بدلتی ہوئی دنیا میں کوئی بھی ملک کسی ایک بلاک اور ملک کے ساتھ نتھی ہو کر نہیں رہ سکتا۔
دنیا میں جس جانب نظر دوڑائیں ہر ملک اپنے قومی اور عوامی مفاد میں دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہوئے ہے۔ ضروری نہیں کہ جو ملک چین کے ساتھ تعلقات رکھے وہ امریکا سے مستقل ناتا توڑ کر بیٹھ جائے۔ باقی ملکوں کے معاملے میں بھی یہی اصول اپنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے کئی گرم جوش دوست جن میں خود چین اور سعودی عرب شامل ہیں، بھارت کے ساتھ مضبوط اقتصادی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس لیے پاک امریکا تعلقات میں مستقل خرابی کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اُٹھانا پڑ رہا تھا۔ تعلقات اگر مثالی نہ بھی ہوں تو کم از کم ابتری کی طرف مسلسل گامزن نہیں ہونا چاہیے۔ پاک امریکا تعلقات کا بگاڑ چین کے فائدے میں بھی نہیں تھا اور چین کی درپردہ کوشش تھی کہ پاکستان اور امریکا اور پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کچھ بہتری ہو۔ 
پاکستان چین کا اسٹرٹیجک شراکت دار ہے اور چین ہرگز نہیں چاہیے گا کہ اسے دنیا میں تنہائی کا شکار اور ناقابل قبول شراکت دار کا ساتھ میسر ہو۔ اس لیے پاک امریکا تعلقات کی بہتری میں چین کا خاموش کردار کہیں نہ کہیں موجود ہو گا۔ اسی طرح چین کی پوری کوشش ہو گی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان منجمد تعلقات کی برف پگھل جائے اور کشمیر سمیت اختلافی معاملات پر ٹھوس پیش رفت ہو۔ عمومی طور ٹرمپ کی طرف سے کشمیر پر ثالثی کی بات سے چین کو چیں بہ جبیں ہونا چاہیے تھا مگر چینی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس کا خیرمقدم کر تے ہوئے کہا کہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے امریکا سمیت عالمی برادری کے کردار کے حامی ہیں۔ چین کو آم کھانے سے غرض ہے پیڑ گننے سے نہیں چین کا مفاد اس میں ہے کہ سی پیک عملی شکل میں ڈھل جائے۔ 
یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کا سب سے بڑا علاقائی شراکت دار سفارتی محاذ پر بہتر پوزیشن میں ہو۔ امریکا اور بھارت سے حالت جنگ میں کھڑا پاکستان چین کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔ اس لیے پاک امریکا تعلقات کی بحالی میں چین نہ تو نظر انداز ہو سکتا ہے اور نہ پاک چین دوستی کی قیمت پر کوئی نئی کہانی رقم ہو سکتی ہے۔ تاہم پاکستان کی بین الاقوامی اہمیت بڑھ رہی ہے اور امریکی صدر کے دورہ پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی طالبان نے بھی پاکستان کا دورہ کرنے اور وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ خطے میں برسوں سے جاری خوں ریز تنازعے کے دو مرکزی کردار اور فریق امریکا اور طالبان دونوں پاکستان آرہے ہیں تو یہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے قد اور وزن کا واضح ثبوت ہے۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے وفد کا اعلانیہ طور پر پاکستان آنا اس بات کا ثبوت ہو گا کہ پاکستان کو اس تنازعے میں ایک ثالث اور سہولت کار کے طور تسلیم کیا گیا ہے۔ گویا کہ سترہ برس تک جس ملک کو تنازعے کا مسئلہ اور درد سرقرار دیا جاتا رہا آخر کار اسے علاج اور حل تسلیم کر لیا گیا۔ اُدھر ترکی کے دورے کے دوران ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے رجب طیب اردوان کے سامنے اسلامی ثقافت کی تعمیر نو کی تجویز پیش کی اور اس کے لیے ترکی، ملائیشیا اور پاکستان کے مابین قریبی تعاون پر زور دیا۔ یہ تجویز طیب اردوان کے دل کو بھاگئی اور انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو فون کر اس حوالے سے ایک سہ فریقی معاہدے کی دعوت دی۔ جسے عمران خان نے قبول کیا۔ پاکستان قانون کی حکمرانی اور بدعنوانی سے پاک ملک بننے کی راہ پر گامزن رہے تو دنیا میں اس کا بڑھتا اور پھیلتا ہو کردار مزید وسعت اختیار کر سکتا ہے۔
عارف بہار
بشکریہ روزنامہ جسارت
1 note · View note
pakistan-news · 3 years
Text
چین، ایک مخلص اور دانا دوست
ہمارے وزیر اعظم چین کا دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین اور پاکستان کی دوستی لازم و ملزوم اور کسی اگر مگر سے پاک ہے۔ آج تک جس طرح چین نے یہ دوستی نبھائی ہے وہ ملکوں کی تاریخ کا ا��ک عجوبہ ہے، اس عجوبے کی سلامتی میں پاکستانی کی سلامتی ہے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کہا کرتے تھے کہ ہمیں اپنے آنے والی نسلوں کو بھی بتا کر جانا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے چین سے دوستی ہر حال میں قائم رکھنی ہے۔ پاکستان کے لیے چین کی دوستی اس کے تحفظ کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ بھارت سے بھی چین نے دوستی کا تجربہ کیا اور ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ بھی بلند ہوا تھا لیکن یہ تعلق زیادہ ��یر نہ چل سکا جب کہ پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ چین کی دوستی نے دو ملکوں کے تعلقات کی ��یک نئی مثال پیش کی۔ نظام حکومت اور مذہب و ثقافت کے مکمل اختلافات اور دوری کے باوجود مسلمانوں اور کیمونسٹوں کی یہ دوستی دور جدید کا ایک عجوبہ ہے۔
مغربی دنیا اور امریکا کی مسلسل مداخلت کے باجود دوستی کا یہ سفر جاری ہے اور اگر پاکستانی حکمران عقلمند فیصلے کرتے رہے تو یہ سفر بڑا طویل رہے گا۔ چین اب وہ پرانا چین نہیں رہا۔ دنیا میں کیمونسٹ انقلاب کا بانی سوویت یونین کئی دہائیاں قبل ختم ہو گیا مگر چین زندہ سلامت ہی نہیں دنیا کی ایک ایسی زبردست طاقت ہے، آج کا چین خوشحال ہے اور یہ خوشحالی کسی ورلڈبینک یا امریکا کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ چینیوں کی اپنی ہے، اس ترقی کا سب سے بڑا راز ان کا قومی ڈسپلن ہے۔ اس کی سیاسی قیادت نے ڈسپلن کی پابندیوں سے باہر ایک قدم بھی نہیں رکھا۔  موجودہ دور میں چین کی عالمی سیاست اور اقتصادیات کی کئی مجبوریاں اور مصلحتیں بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ بدلے ہوئے چین کو اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے مزید منڈیاں درکار ہیں، اس ضرورت کے لیے وہ دنیا سے جڑا رہنا چاہتے ہیں۔
جدید دنیا چین کی مصنوعات کی منڈی بن چکی ہے اورمغرب اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان اور خوفزدہ ہے کیونکہ چین کی کم قیمت مصنوعات نے دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے خاص طور پرپاکستان کے ساتھ سی پیک کا معاہدہ دنیا کی نظروں میں بری طرح کھٹک رہا ہے اورچین مخالف قوتوں کی یہ کوشش ہے کہ اس اقتصادی راہداری میں جس قدر ممکن ہو سکے تاخیر ہو کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یہ راہداری نامکمل رہ جائے البتہ اس میں تاخیرکی صورت میں مخالف قوتوں کو کچھ اضافی وقت ضرور مل سکتا ہے جس میں وہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ماضی ہو یا حال ہو چینی قیادت ایک بات پر بہت زیادہ اور خصوصی زور دیتی ہے کہ چین اور پاکستان کی دوستی دونوں ملکوں کے عوام کی دوستی بھی ہے بلکہ سچ پوچھیں تو یہی عوام کی دوستی دونوں حکومتوں کی دوستی کو سہارا دیے ہوئے ہے اور پاکستان کے بعض نالائق حکمرانوں کو بھی حوصلہ دیتی ہے۔ چینی ہمارے حکمرانوں کو خوب سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان کے ساتھ دوستی کو کمزور نہیں ہونے دیتے۔
ایک مخلص اور دانا دوست کی طرح چینی پاکستانیوں کو مشورے بھی دیتے رہتے ہیں کیونکہ کوئی دوست یہ نہیں چاہتا کہ اس کا دوست کمزور ہو۔ چینی پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اس کے میزائلوں سے بہت خوش ہیں کیونکہ یہ ان کے دوست کی مضبوط دفاعی طاقت ہے مگر وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے بغیر وہ پاکستانی حکمرانوں کی نادانیوں پر ایک دوست کی طرح ناخوش ہوتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے لیکن وہ مطمئن ہیں کہ پاکستان بھارت کے لیے ترنوالہ ہر گز نہیں ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے پاکستان کے عوام کے رہنما پاکستان کی سبکی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور حکمرانوں کے دوست ملک چین کے دوروں کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ پاکستانی قوم کے رہنماؤں کو کم ازکم چین کے معاملے میں محتاط رہنا چاہیے۔
اطہر قادر حسن  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
columnspk · 3 years
Text
Pakistan, Cheen Aur AMerica Taluqat Ki Noiyat
Pakistan, Cheen Aur AMerica Taluqat Ki Noiyat
پاکستان، چین اور امریکا تعلقات کی نوعیت وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین سے ذرا پہلے آئی ایم ایف کا پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی قسط کا اجراء جو مہینوں سے رکا ہوا تھا معنی خیز ہے کہ ناراض پاکستان کہیں بہت زیادہ ہی چین کی طرف نہ جھک جائے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ دورہ چین کے بعد پاک امریکا تعلقات کی اصل صورت حال واضح ہوگی کہ یہ مستقبل میں کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ امریکا نے پچھلے 10 سالوں میں…
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
عمران خان کو سزا عدالتی معاملہ ہے، الیکشن مانیٹر کریں گے، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم کو سزا پاکستان کی عدالتوں کا معاملہ ہے،ہم اس بات کی نگرانی کریں گے کہ الیکشن کیسے آگے بڑھتا ہے۔ معمول کی پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے سوال کیا گیا کہ الیکشن سے عین قبل عمران خان کو قید کی سزا، کیا امریکہ کے پاس اس بارے میں کچھ کہنا ہے؟ کیا یہ جمہوری اقدار کے مطابق ہے؟ اس پر ترجمان نے جواب دیا کہ یہ بالآخر پاکستان کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 5 years
Text
بھارت امریکا اتحاد کے خلاف پاک چین اتحاد ناگزیر کیوں بنتا جارہا ہے؟
گزشتہ ہفتے سوئٹزرلینڈ میں خفیہ نوعیت کے بلڈربرگ اجلاسوں کے بعد فنانشل ٹائمز کے محترم اقتصادی کالم نگار مارٹن وولف نے ‘The 100 year fight facing the US and China’ کے عنوان سے مضمون لکھا۔ وولف نے جو نتائج اخذ کیے وہ کافی اہم ہیں۔ وولف کے مطابق ’چین سے مسابقت امریکی اقتصادی، خارجہ اور سیکیورٹی پالیسیوں کا ایک مرکزی اصول بنتی جا رہی ہے اور اصل مقصد ہے امریکی غلبہ۔ اس کا مطلب ہے کہ چین پر کنٹرول یا پھر چین سے علیحدگی۔ اس کوشش کی ناکامی تو ناگزیر ہے۔ یہ ہمارے دور کی ایک سب سے اہم جغرافیائی پیش قدمی ہے۔ اس طرح تمام ممالک یا تو کسی ایک کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور ہو جائیں گے یا پھر غیر جانبداری کے لیے زبردست جدوجہد کرنی پڑ جائے گی۔ ہر ایک جو یہ سمجھتا ہے کہ قوانین و ضوابط پر مشتمل غیر ملکی تعلقات کا نظم و سق، ہماری عالم گیر معیشت یا ہم آہنگی سے بھرپور بین الاقوامی تعلقات کے باعث اس تنازع سے بچا جا سکتا ہے وہ خود کو دھوکہ دے رہا ہے۔‘
پاکستان، بھلے ہی چین اور امریکی کے اس ابھرتے طوفان کے مرکز میں نہ ہو لیکن اس کے قریب ضرور ہے۔ غیر جانبداری کا آپشن پاکستان کو دستیاب نہیں ہے۔ امریکا ’انڈو پیسیفک‘ اور جنوبی ایشیا کے خطے میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کو پہلے ہی اپنا اسٹریٹجک پارٹنر منتخب کر چکا ہے۔ امریکا کی جنوبی ایشیا پر اعلانیہ پالیسی برِصغیر کے ہندوستانی غلبے پر مشتمل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہندوستانی تجارت کو لے کر ہونے والی ہلکی پھلکی تُو تُو میں میں کے باوجود امریکی اسٹیبلشمنٹ چین کا مقابلہ کرنے کی خاطر ہندوستان کی فوجی طاقت کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہے۔ دوسری طرف چین کے ساتھ شراکت داری پاکستان کی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا اور بھارت کے اتحاد کے باعث پاک چین شراکت داری میں اور بھی زیادہ پختگی پیدا ہو جائے گی۔ ہندوستان کی جنوبی ایشیا میں اجارہ داری اور امریکا بھارت گرینڈ اسٹریٹجی کی کامیابی میں پاکستان ایک سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ اس ’رکاوٹ‘ کو راستے سے ہٹانے یا پھر غیر جانبدار بنانے کی کوششیں کریں گے۔
امریکا بھارت کو جدید ترین اسلحے اور ٹیکنالوجی سے لیس کرنے میں مصروف ہے، جس کا فوری اور سب سے بڑا اثر پاکستان پر پڑے گا۔ بھارت کی فوجی طاقت میں اضافے سے پاکستان کے ساتھ اسلحے کا توازن بدترین حد تک بگڑ رہا ہے، جس کے باعث بھارتی جارحیت کو ہوا ملے گی اور پاک بھارت تنازع میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی نہج تک پہنچنا پہلے کے مقابلے میں مشکل نہیں ہو گا۔ صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ اب واشنگٹن نے بھی بھارت کی صف میں شامل ہو کر کشمیر کی جائز جدوجہد آزادی کو ’مذہبی دہشتگردی‘ کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کو ہائبرڈ وار کا ہدف بنایا جا رہا ہے۔ اسلحے کی طاقت میں اضافے، ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور کشمیر کی آزادی کی مخالفت کے علاوہ مغربی خصوصیات کی حامل منحرف میڈیا مہم کے ساتھ سابقہ فاٹا میں نسلی جارحیت اور تحریک طالبان پاکستان اور بی ایل اے کی دہشتگردی کو کھلے عام ہندوستان کا تعاون رہا ہے۔
ہندوستان کی جنوبی ایشیا میں اجارہ داری اور امریکا بھارت گرینڈ اسٹریٹجی کی کامیابی میں پاکستان ایک سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ اس ’رکاوٹ‘ کو راستے سے ہٹانے یا پھر غیر جانبدار بنانے کی کوششیں کریں گے۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کی دھمکیوں اور سی پیک کی مخالفت کے پیچھے امریکا اور ہندوستان مرکزی ��ردار ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ امریکا پہلے ہی بیل آؤٹ میں سے چینی قرضوں کی ادائیگی کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پیکیج کو تاخیر کا شکار بھی بنا چکا ہے۔ اگرچہ امریکا نے طالبان کو ’مناسب‘ رویے کی طرف راغب کرنے کے لیے پاکستان کا تعاون استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی جانب اپنی کھلے بیر کو معتدل رکھا ہوا ہے، مگر ایک بار جب افغانستان کا مسئلہ حل ہو جائے یا پھر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو گیا تو امریکا اپنا مؤقف بدلنے میں دیر نہیں لگا سکتا۔
مستقبل قریب میں چین امریکی تنازع میں مزید شدت آسکتی ہے۔ امریکا کی جانب سے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو اپنی صفوں میں کھڑا کرنے کی خاطر ڈالا جانے والا دباؤ امریکی ہاکس کی ہدایت کے تحت شدید تر ہو جائے گا۔ ژی جن پنگ کے زیرِ اقتدار چین ’نہ اپنی طاقت چھپائے گا اور نہ ہی درست وقت کا انتظار کرے گا‘۔ بیجنگ واشنگٹن کی تجارتی پابندیوں کے خلاف اپنا جواب بخوبی انداز میں دے چکا ہے۔ چین اپنی سرزمین کے ’ایک ایک انچ کا دفاع‘ کرے گا۔ قوی امکان ہے کہ نریندر مودی اپنی دوسری مدت میں پاکستان کی جانب زیادہ لچک کا مظاہرہ نہیں کریں گے کیونکہ وہ انتہا پسند ہندو قوم پرستی اور مسلمانوں، کشمریوں اور بالخصوص پاکستان کی جانب دشمنی کے جذبات کی بنیاد پر منتخب ہو کر آئے ہیں۔ مودی اپنے اس لب و لہجے اور کردار کو ترک کرنا نہیں چاہیں گے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ عوام کا دھیان نوکریاں فراہم کرنے میں بی جے پی کی ناکامی کی طرف نہ جائے، اور نہ ہی اس طرف کہ ہندوستان میں اشرافیہ کی طرزِ زندگی کس طرح بہتر ہوئی ہے۔
بھارتی معیشت کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں اور پیداوار بھی کم ہوئی ہے۔ بھارت کو صرف متنازع کشمیر کا ہی مسئلہ درپیش نہیں، بلکہ وہاں بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف مقبول اور مستحکم بغاوت کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں کئی جگہوں پر شورش برپا ہے۔ پلوامہ بحران نے کشمیر تنازع سے ممکنہ خطرات کی تصدیق کر دی ہے۔ بھارتی قبضے کے خلاف اپنی مزاحمت میں کشمیری گروہ چند موقعوں پر انسانی حقوق کی ناگوار اور منظم بھارتی خلاف ورزیوں کا جواب پُرتشدد انداز میں دیں گے۔ بھارت اس تشدد اور کشمیری مزاحمت کو دبانے میں اپنی ناکامی کا الزام پاکستان پر لگائے گا۔ اگلا پاک بھارت تنازع عام دشمنیوں کا دروازہ کھول سکتا ہے جن کی شدت بڑھ کر جلد ہی ایٹمی نہج تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان کے لیے سب سے خطرناک منظرنامہ امریکی ایٹمی ’چھتری‘ تلے بھارتی روایتی حملہ ثابت ہو گا اور پاکستان کے پاس جوابی ایٹمی حملے کی صلاحیت ہی اس آفت خیز منظرنامے کا مقابلہ کرنے کا واحد اور یقینی طریقہ ہے۔ کسی بھی قیمت پر ہندوستان کے ساتھ امن کی آواز کو اس سے لاحق ہونے والے چیلنجز کے باعث پاکستان میں چند لوگوں کا دل خاصا دکھ سکتا ہے۔ مگر پاکستان کے پاس ‘سرینڈر کا آپشن نہیں ہے۔‘ (یہ اقتباس اقوام متحدہ کے حوالے سے جان بولٹن کی کتاب کے عنوان سے لیا گیا ہے)۔ جنوبی ایشیا میں ہندوستانی غلبے کو تسلیم کرنا تشکیلِ پاکستان کے اہم ترین مقصد کو ٹھیس پہنچانے کے برابر ہو گا۔ ہندوستان میں محصور زندگی گزارنے والے مسلمانوں کی موجودہ بدتر صورتحال ان لوگوں کے لیے ایک عملی مثال ہے جو یہ مانتے ہیں کہ خیر سگالی کے مظاہرے سے ہندوستان کی دوستی حاصل کر لی جائے گی۔ پھر ہزاروں برسوں پر محیط تاریخ اس سوچ کو مسترد کرتی ہے۔
پاکستان چاہے جو بھی کرے اس سے قطع تعلق کشمیری ہر ہر موقعے پر تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ وہ پاکستانی لاتعلقی کے کئی ادوار بھی جھیل چکے ہیں۔ اگر مودی حکومت انتخابی مہم کے دوران جموں کشمیر کے خصوصی، خودمختار حیثیت کو ختم کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کی کوششیں کرتی ہے تو اس سے کشمیری مزاحمت میں مزید شدت پیدا ہو گی۔ جس کے بعد اسلام آباد کے پاس 2 ہی آپشن باقی رہ جائیں گے۔ یا تو وہ جائز کشمیری جدوجہد کا ساتھ دے یا پھر اس کے دبانے کے لیے ہندوستان کو تعاون فراہم کرے (ٹھیک جس طرح ریاستی حیثیت کے لیے جاری فلسطینی جدوجہد کو دبانے کے لیے عرب ریاستوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔) جہاں پاکستان اپنی معیشت کو مستحکم اور پیداوار کی بحالی کے لیے کوشاں ہے وہیں سول اور فوجی قیادت کو اس ملک کی سلامتی اور اسٹریٹجک آزادی کے تحفظ کا پورا پورا دھیان رکھنا ہو گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر خود کو بھارتی و امریکی صوبہ دار بنا لیا جائے۔
بہتر مستقبل ممکن ہے۔ لیکن مستقبل قریب میں یہ زیادہ نمایاں انداز میں نظر نہیں آتا۔ خیر، امریکی صدر ��رمپ اور چینی صدر ژی آئندہ جی 20 سمٹ یا اس کے بعد تجارت اور ٹیکنالوجی پر اپنے اپنے اختلافات کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ یا پھر 2020ء کے انتخابات میں ٹرمپ چین کے ساتھ سرد جنگ کے مخالف معقول ڈیموکریٹ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کر سکتے ہیں۔ بعد ازاں ممکن ہے کہ پیوٹن، ژی اور قومی غیرت مل کر مودی کو امریکی اشاروں سے جان سے چھڑانے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات نارمل بناتے ہوئے ایک اشتراکی ایشیائی نظم و نسق میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کر دیں۔ تاہم پاکستان اس قسم کے امید افزا مستقبل کے منظرناموں کو اپنی سلامتی اور اپنے وجود کے لیے بنیاد نہیں بنا سکتا۔ پاکستان کو بدترین حالات کے لیے تیاری جبکہ بہترین حالات کی امید کرنی ہو گی۔
منیر اکرم یہ مضمون 9 جون 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔  
1 note · View note