Tumgik
#پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ
emergingpakistan · 7 months
Text
عمران خان ہر بار عوامی عدالت میں سرخرو کیوں ہوتے ہیں؟
Tumblr media
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آج عمران خان کو بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرنا کسی بھی طرح قابلِ فہم نہیں۔ تمام پیش گوئیاں کہ ایک بار اقتدار سے جانے کے بعد عمران خان کی مقبولیت کا سورج جلد غروب ہو جائے گا، غلط ثابت ہوئیں۔ جیسے ہی معاملات ان کے خلاف جانے لگتے ہیں، کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس سے ان کی مقبولیت میں ایک بار پھر اضافہ ہو جاتا ہے۔ عوام سے تعلق ہمیشہ سے ان کی سیاست کا اہم حصہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر اپریل 2022ء میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد عمران خان نے مئی 2022ء میں اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن لانگ مارچ اس وجہ سے ناکام رہا کیونکہ اتنی تعداد میں لوگ جمع نہیں ہو پائے کہ جس سے کوئی تبدیلی لائی جاتی۔ اسلام آباد پہنچ کر اچانک عمران خان نے لانگ مارچ ختم کر دیا اور بنی گالا چلے گئے۔ یہ گمان کیا جارہا تھا کہ اگست 2014ء کے نام نہاد سونامی مارچ نے ان کے عروج میں جو کردار ادا کیا، اب وہ ہیجان کی سیاست کام نہیں آئے گی کیونکہ اب انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل نہیں جوکہ اس سے قبل ان کی سیاست کا اہم عنصر تھی۔ اس کے باوجود عمران خان نے غرور اور دھوکے سے بھری شدید بیان بازی کے ذریعے لوگوں کی بڑی تعداد کو متوجہ کیا۔
لیکن پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے خالی کی جانے والی پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات کی باری آئی اور عمران خان نے ان میں سے 15 نشستیں جیت لیں۔ یہ پہلا جھٹکا تھا جس نے یہ عندیہ دیا کہ کچھ چل رہا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے وہی نشستیں دوبارہ جیتیں جو ان کی تھیں۔ اس کے باوجود کچھ حلقوں کے نزدیک ان کی اس کامیابی میں حکومت مخالف جذبات نے اہم کردار ادا کیا کیونکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے ایندھن اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس سے افراطِ زر اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور عوام کی قوتِ خرید شدید حد تک متاثر تھی۔ پھر اکتوبر 2022ء آیا جس میں قومی اسمبلی کی 11 نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہوئے، ان میں سے 7 نشستوں پر عمران خان خود بطور امیدوار کھڑے ہوئے اور وہ 6 نشستیں جیتنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ عمران خان، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار سے ملیر کراچی کی نشست ہار گئے جس پر پی پی پی نے کافی بڑھ چڑھ کر بات کی۔ لیکن بڑے منظرنامے پر تصویر واضح ہو رہی تھی اور وہ یہ تھی کہ عمران خان جب جب عوام کی عدالت میں گئے ہیں، ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
Tumblr media
اسی زعم میں عمران خان نے بڑی چال چلی اور جنوری 2023ء میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں کیونکہ انہیں امید تھی کہ دونوں صوبوں کے ضمنی انتخابات میں وہ درکار آئینی اکثریت حاصل کر لیں گے۔ لیکن یہ اندیشہ کہ انتخابات سے ان کی طاقت میں اضافہ ہو گا، پی ڈی ایم حکومت انتخابات کو طول دیتی رہی اور بلآخر وہ انہیں سال تک ملتوی کرنے میں کامیاب رہے۔ 8 فروری 2024ء ایک اور موقع تھا کہ عمران خان عوام کے سامنے جائیں اور اس دفعہ انہیں دبانے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ عمران خان جیل میں تھے ، ان کی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں تھا، ان کے کارکنان و رہنما زیرِحراست تھے، پارٹی رہنماؤں کی بڑی تعداد کو سیاست چھوڑنے یا کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے مجبور کیا گیا جبکہ ان کے سیاسی رہنماؤں کو انتخابات کے لیے ریلیاں تو کیا کارنر میٹنگ کرنے تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے انتخابی نتائج کی ساکھ کافی حد تک متاثر ہوئی کیونکہ کچھ حلقے جہاں سے عمران خان کے امیدوار جیت رہے تھے، وہاں مخالفین کو جتوایا گیا۔
اس کے باوجود عمران خان کے امیدواروں نے کاسٹ کیے گئے مجموعی ووٹوں میں سے ایک تہائی حاصل کیے ہیں جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا ووٹ بلاک سب سے بڑا ہے۔ نشستیں بھی انہیں زیادہ ملیں کیونکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ووٹرز کو متحرک کرنے کی ان کی حکمت عملی اچھی تھی۔ اس بات سے انکار کرنا یا اس حقیقت کو دبانے کا کوئی مطلب نہیں کہ عمران خان نے ووٹرز کے ساتھ ایک مضبوط تعلق قائم کر لیا ہے۔ انہیں جتنا زیادہ دبانے کی کوشش کی جائے گی، عوام اور ان کا تعلق اتنا ہی مضبوط ہو گا اور ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہو گا۔ اس حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ ان کی کامیابی کے پیچھے کون سے عناصر ہیں۔ کچھ کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ مخالف ووٹ ہے۔ جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ 20 ماہ تک عوام کو جس کمرتوڑ مہنگائی کا سامنا تھا، اس نے عوام کو عمران خان کی جماعت کی جانب راغب کیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ عمران خان کے لیے عوام کی پسندیدگی نہیں بلکہ یہ نواز شریف کے لیے ناپسندیدگی (حتیٰ کہ نفرت بھی کہہ سکتے ہیں) ہے جس کا نتیجہ ہم نے عام انتخابات 2024ء میں بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی کامیابی کی صورت میں دیکھا۔
ہم عمران خان کی طاقتور عوامی حمایت کے حوالے سے بات کر سکتے ہیں لیکن اس کے ختم ہونے کی امید نہیں کر سکتے۔ عمران خان کو اپنی سوچ سے بھی زیادہ کامیابی ملی ہے۔ اس لیے اب ان کی اس شاندار سیاسی کہانی کے گہرے اور بنیادی محرکات کا جائزہ لینا اہم بن چکا ہے۔ اس حوالے سے ناکام معیشت اور بدلتی ہوئی ڈیموگرافی اہمیت کی حامل ہیں جن پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ پاکستان کو سنجیدہ فیصلے درکار ہیں، اس لیے ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو فیصلہ کرنے میں نہ ہچکچائے۔ سب سے پہلے تو ہمیں مستقل طور پر مہنگی توانائی کا سامنا ہے جبکہ گھریلو گیس کے کم ہوتے ذخائر کی جگہ اب درآمد شدہ ایل این جی لے رہی ہے۔ دوسری بات، قرضوں کے غیرمعمولی بوجھ کا مطلب یہ ہے کہ معمول کے مطابق کاروبار نہیں چل پائیں گے۔ پاکستان کو ان دو حقائق، توانائی پر مبنی پیداوار کو ترک کرنا اور توانائی کے شعبے میں ترقی کو فروغ دینے کے لیے غیر ملکی قرضوں کے بجائے ملکی وسائل پر انحصار کرنے پر بیک وقت کام کرنا ہو گا۔ یہ تبدیلیاں لانے میں ناکامی کا مطلب مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہے جبکہ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور ملک کی افرادی قوت میں ہر سال 20 لاکھ افراد شامل ہورہے ہیں۔
یہ تمام نوجوان ہیں۔ یہ لوگ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب 9/11 کا واقعہ ہوا تھا۔ یہی نوجوان تیزی سے ہماری ووٹر لسٹوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات سے موازنہ کریں تو 2024ء میں 2 کروڑ 20 لاکھ افراد کا ووٹر لسٹوں میں اندراج ہوا جوکہ ایک ریکارڈ اضافہ ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں نوجوانوں کی تعداد کیا تھی۔ پاکستان بدل رہا ہے۔ اقتصادی اعتبار سے پرانے پیداواری شعبوں کو متروک قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ توانائی کی قیمتیں ہر گزرتے سال کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ جبکہ سیاسی دنیا میں جیسے جیسے نوجوان ووٹرز کے اندراج میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، پرانی سیاسی جماعتوں کی سرپرستوں کے لیے دشوار حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ جو تبدیلی کو اپنا کر اس میں خود کو ڈھال لیں گے وہی سالم رہیں گے، بصورت دیگر ان کا اس نظام میں حصہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔
خرم حسین 
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
urduintl · 8 months
Text
6 security personnel killed in kpk Baluchistan attacks
6 security personnel killed in kpk balochistan attacks
Urdu International
Tumblr media
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں الگ الگ حملوں میں کم از کم چھ سکیورٹی اہلکار جاں بحق
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک ) “ڈان نیوز “ کے مطابق یہ واقعات اس وقت پیش آئے جب ملک بھر میں تقریباً 128 ملین (12 کروڑ سے زائد ) افراد نے انٹرنیٹ اور سیلولر بندش کے درمیان اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ اس سے پہلے دن میں وزارت داخلہ نے کہا کہ موبائل نیٹ ورک سروسز کو بلاک کرنے کا فیصلہ سیکورٹی کی صورتحال کے پیش نظر کیا گیا تھا۔
کے پی کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس گشت پر حملے میں 4 پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے۔
مقامی پولیس چیف رؤف قیصرانی کے مطابق بم دھماکوں اور فائرنگ سے کلاچی کے علاقے میں پولیس کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔
ایک بیان میں کے پی کے عبوری وزیر اعلیٰ جسٹس (ر) ارشد حسین شاہ نے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں حملوں کی مذمت کی۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ٹانک میں فائرنگ کے ایک واقعے میں ایک شخص ہلاک ہوا، تاہم کسی اہلکار نے ہلاکتوں کی صحیح تعداد یا واقعے کی نوعیت کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس طرح کے واقعات پولیس کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے نہیں روکیں گے، اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ قوم اور ریاست قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔
ادھر بلوچستان کے علاقے خاران میں دو لیویز اور پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ ضلع کے ڈپٹی کمشنر منیر احمد سومرو نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب لیویز کی ایک گاڑی پولنگ اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی۔
اہلکار نے بتایا کہ اس واقعے میں سات سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ ڈی سی سومرو نے مزید کہا کہ جن کی حالت تشویشناک ہے انہیں کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
محسن داوڑ نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ دیا۔
دریں اثنا، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کے چیئرمین اور سابق قانون ساز محسن داوڑ نے شمالی وزیر ستان کے علاقے ٹپی این اے 40 کی سیکیورٹی صورتحال سے متعلق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو ایک خط لکھا تھا۔
ایکس پر داوڑ کے اکاؤنٹ پر پوسٹ کیے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ عسکریت پسند حلقے میں مقامی لوگوں اور پولنگ عملے کو دھمکیاں دے رہے تھے۔
ہماری تین خواتین پولنگ ایجنٹس 8 فروری کو پولنگ والے دن کی صبح حملوں سے بال بال بچ گئیں، انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ “علاقے میں طالبان نے پولنگ اسٹیشنوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
داوڑ نے مزید کہا کہ انہوں نے ضلعی ریٹرننگ آفیسر کو صورتحال کے حوالے سے ایک خط لکھا تھا لیکن کہا کہ اسے “نظر انداز” کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا، “الیکشن کمیشن کو صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور مقامی لوگوں اور پولنگ عملے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری کارروائی کرنی چاہیے۔
دہشت گردی میں اضافہ
پاکستان نے حال ہی میں خاص طور پر کے پی اور بلوچستان میں دہشت گردی میں اضافہ دیکھا ہے۔
گزشتہ روز بلوچستان کے قلعہ سیف اللہ اور پشین میں انتخابی دفاتر کے باہر یکے بعد دیگرے دھماکوں میں کم از کم 28 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ دریں اثنا، جے یو آئی (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ چمن جاتے ہوئے اپنی گاڑی پر حملے میں بال بال بچ گئے۔
ایک دن پہلے، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک غیر واضح بیان جاری کیا جس میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں “مہلک اور ٹارگٹڈ” تشدد کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
منگل کو جاری کردہ ایک بیان میں، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے “سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے خلاف تشدد کی تمام کارروائیوں” پر تشویش کا اظہار کیا۔
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی جانب سے جاری کردہ سالانہ سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 2023 میں 789 دہشت گرد حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں تشدد سے متعلق 1,524 ہلاکتیں اور 1,463 زخمی ہوئے جو کہ چھ سال کی بلند ترین سطح ہے۔
کے پی اور بلوچستان تشدد کے بنیادی مراکز تھے، جو کہ تمام ہلاکتوں کا 90 فیصد اور 84 فیصد حملوں، بشمول دہشت گردی کے واقعات اور سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں کا حصہ تھے۔
الیکشن کمیشن خیبرپختونخوامیں امیدواروں کی جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری
ماہ رنگ کے سر پر ’بلوچی پاگ‘: کیا بلوچستان کی قوم پرست
1 note · View note
alhaqnews12 · 1 year
Text
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اگلے ماہ بھی بجلی کے بلوں میں دگنا اضافے کی پیش گوئی کردی۔ جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق خان کا کہنا تھاکہ عوام ستمبر کے  بلوں کےلیے بھی تیار ہوجائیں، ستمبرکے بل میں فی یونٹ 90 روپے کا ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حکومت کے 15ماہ میں 500 ارب روپےکی بجلی چوری ہوئی۔عوام تیار ہوجائیں، ستمبرکے بل میں فی یونٹ 90 روپے کا ہوجائے گا: سینیٹر مشتاق خاندوسری جانب بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف عوامی احتجاج شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور ملک کے کونے کونے میں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔آج بھی ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور بل جلائے گئے، سڑکیں بند کی گئیں اور کہیں کہیں کاروبار بھی بند ہوا۔راولپنڈی میں سیکروں افراد نے آئیسکو کے دفتر کا گھیراؤ کیا، حیدرآباد میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی اور بازار بند رہے۔مالاکنڈ کے بٹ خیلہ بازار میں مظاہرین نے قومی شاہراہ احتجاجاً بند کردی، شبقدر اور صوابی میں بھی احتجاجی مظاہرہ ہوا جبکہ مانسہرہ میں تاجروں کی ہڑتال کے باعث کاروبار مکمل طور پر بند رہا۔
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 2 years
Text
انتخابات ہی موجودہ دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ
Tumblr media
سپریم کورٹ کے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات آئین کی مقرر کردہ 90 دنوں کی مدت میں کروانے کا فیصلہ ملکی سیاست میں نئی پیش رفت ثابت ہوا ہے۔ اسمبلیاں جنوری میں ہی تحلیل ہو چکی تھیں لیکن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت جس نے دونوں صوبوں میں نگراں حکومت قائم کی ہے، اس نے اپنے گورنروں کو انتخابات کی تاریخ دینے سے روک رکھا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مشاورت کے کوئی خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ جب صدرِ مملکت عارف علوی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تب حکومت نے ان کے اس اقدام کی مذمت کی جبکہ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز کیا۔ اس الجھن اور غیریقینی کی صورتحال میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئینی اعتبار سے اس اہم اور فوری نوعیت کے معاملے پر ازخود نوٹس لیا۔ 2-3 سے آنے والے فیصلے میں سپریم کورٹ نے صدرِ مملکت کو ہدایت کی ہے کہ وہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ تجویز کریں جبکہ گورنر غلام علی کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ فیصلے کے مطابق اگر انتخابات 90 دنوں کی مدت میں منعقد نہیں ہو پاتے تو الیکشن کمیشن کو ایسی تاریخ تجویر کرنا ہو گی جو کہ مقررہ ڈیڈلائن سے قریب تر ہو۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اتحادی حکومت کے ترجمانوں نے فیصلے پر سوالات اٹھانا شروع کر دیے اور اس کے خلاف بحث و مباحثے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
فیصلے کی سب سے دلچسپ اور قانونی طور پر عجیب و غریب تشریح اٹارنی جنرل کی جانب سے کی گئی۔ انہوں نے دلیل پیش کی کہ یہ پٹیشن 3-4 سے خارج ہو چکی ہے کیونکہ 2 ججوں نے فیصلے سے اختلاف کیا جبکہ دیگر 2 ججوں نے پہلے سے مقدمے کی سماعت سے خود کو الگ کر دیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’اکثریتی فیصلہ‘ حقیقی فیصلے کے خلاف ہے اور یہ حکومت کے حق میں ہے۔ وفاقی وزیرِ قانون نے ٹی وی انٹرویوز میں اس حوالے سے گفتگو کی اور دعویٰ کیا کہ یہ ان کا ذاتی خیال ہے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں کہا کہ ’اس فیصلے کے تناظر میں پی ٹی آئی کی پٹیشن خارج ہو جاتی ہے جبکہ اس پر ازخود سماعت کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہی‘۔ حکومت نے فیصلے کی یہ تشریحات کر کے اپنی کمزوری کو ظاہر کیا ہے جبکہ آنے والے دنوں میں اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ اپنے ممکنہ تصادم کے حوالے سے حکومت کو نقصان دہ صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ فیصلے پر بحث اور تنازعات پیدا کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ انتخابات سے انکار کرنے والی اتحادی حکومت کے حق میں نہیں تھا۔
Tumblr media
گزشتہ ماہ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم دیا کہ وہ پی ڈی ایم کے تعینات کردہ گورنر بلیغ الرحمٰن سے انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کریں۔ اس فیصلے کو گورنر نے چیلنج کیا اور انٹرا کورٹ اپیل دائر کی۔ بعدازاں، الیکشن کمیشن نے بھی اسی طرح کی اپیل دائر کی۔ حکمراں اتحاد کے پاس سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ وہ آئینی طور پر اس کے پابند ہیں۔ الیکشن کمیشن نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے صدر عارف علوی کو خط لکھ کر مشورہ دیا ہے کہ پنجاب میں انتخابات 30 اپریل سے 7 مئی کے دوران کروائے جاسکتے ہیں۔ صدرِ مملکت نے انتخابات کے لیے 30 اپریل کی تاریخ کی منظوری دی ہے۔ اگر حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے انکار کرتی ہے تو یہ عدالتِ عظمیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہو گی جس کے بعد توہینِ عدالت کے مقدمات دائر کرنے کا راستہ کھل جائے گا۔ حکمران اتحاد یا تو اس فیصلے پر ہچکچاہٹ کے ساتھ عمل درآمد کرے یا پھر سیاسی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابات کا انعقاد کرے۔
عمران خان حکومت سے بات چیت کرنے سے انکاری ہیں، اگرچہ ان سے بات چیت کی راہ نکالنا آسان نہیں ہو گا لیکن حکومت کو ان سے روابط قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ دونوں فریقین کے اتفاقِ سے عام انتخابات کی تاریخ طے کی جا سکے۔ اگر یہ کوششیں کامیاب ہو جاتی ہیں جس کے لیے عمران خان کو بھی اپنے مزاج کے برخلاف لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا، تو یوں پورے ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن منعقد کیے جاسکتے ہیں جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کارروائی کے دوران دونوں فریقین کے وکلا کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی پارٹی قیادت سے عام انتخابات کی متفقہ تاریخ طے کرنے پر مشاورت کریں۔ لیکن سیاسی رہنماؤں نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اگرچہ وقت بہت کم ہے لیکن اگر صوبائی اور قومی انتخابات پر فریقین متفق ہو جاتے ہیں تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ عدالت ممکنہ طور پر متفقہ تاریخ کی منظور کر لے گی۔ جبکہ دوسری جانب اگر دونوں فریقین کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں ہوتا تب ملک میں غیرمعمولی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ 
ایسے میں پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے انتخابات اپریل میں جبکہ قومی اسمبلی کی مدت اگست میں ختم ہونے کے بعد اس کے انتخابات اکتوبر یا نومبر میں منعقد ہوں گے۔ اگر اس صورتحال میں عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو صوبوں میں غیرجانبدار نگراں حکومتوں کے بجائے منتخب حکومتیں ہوں گی۔ یوں آئین کے آرٹیکل 224 کی شق 1 اے کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ یہ شق حکومت اور حزبِ اختلاف کو ہدایت دیتی ہے کہ وہ انتخابات سے قبل نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے اتفاقِ رائے قائم کریں۔ جیسے جیسے عام انتخابات نزدیک آتے رہیں گے توقع یہی ہے کہ اس حوالے سے مزید قانونی چیلنجز بھی ہمارے سامنے آئیں گے۔  لیکن صوبائی اور عام انتخابات کا انعقاد مختلف تاریخوں پر کروانے کے دیگر نتیجہ خیز سیاسی مضمرات بھی ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت قومی انتخابات کو ٹالنے کی کوشش میں ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی صوبائی انتخابات کا معرکہ سر کر لیتی ہے تو عام انتخابات کا محاذ ممکنہ طور پر انہیں کے حق میں ہو گا۔ یوں عمران خان کے پاس سیاسی مومنٹم ہو گا جس کے باعث ان کے لیے جیت حاصل کرنا آسان ہو گا۔
اگر پی ڈی ایم حکومت کو یہ گمان ہے کہ انتخابات ملتوی کر کے وہ آئندہ انتخابات تک اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکتے ہیں تو ان کی یہ منطق کم فہمی لگ رہی ہے کیونکہ چند ماہ میں ان کی موجودہ حیثیت تبدیل ہو کر قابلِ تعریف کیسے بن سکتی ہے؟ اس بات کے تو سب ہی معترف ہیں کہ کمر توڑ مہنگائی، توانائی اور تیل کی اوپر جاتی ہوئی قیمتوں اور تباہ شدہ معیشت کے باعث حکومت عوامی حمایت کھورہی ہے۔ درحقیقت، اگر ’معیشت کو بچانا‘ پی ڈی ایم حکومت کا اقتدار میں آنے کا اولین جواز تھا تو اب یہ جواز کمزور پڑ چکا ہے۔ معیشت اب بدحالی کا شکار ہے، آئی ایم ایف معاہدہ بھی غیریقینی ہے، روپے کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اور مارکیٹ/کاروباری اعتماد تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ بین الاقوامی جائزوں کی ایجنسیوں ایک بار پھر پاکستان کو تنبیہ کر رہی ہیں کہ پاکستان قرضوں کے باعث ڈیفالٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ وزیرِخزانہ کے ناراضی کا اظہار کردینے سے مارکیٹس کی صورتحال بہتر نہیں ہو گی۔ جہاں ملکی استحکام کو سیاسی اور معاشی جیسے بڑے بحران کا سامنا ہے، وہاں ایسے حالات میں انتخابات منعقد کر کے اور تازہ مینڈیٹ حاصل کرنا ہی شاید موجودہ دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔
ملیحہ لودھی   یہ مضمون 7 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
ازخود نوٹس: حکومتی جماعتوں کا دو ججز پر اعتراض، فل کورٹ کی استدعا
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر جمعے کو ہونے والی سماعت میں مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام نے کیس سننے والے دو ججز پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے دونوں ججز کے مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے کیسز نہ سننے کی بھی استدعا کی ہے جبکہ پی پی پی نے عدالت سے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی بھی استدعا کی ہے۔ جمعے کو سپریم کورٹ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
ازخود نوٹس: حکومتی جماعتوں کا دو ججز پر اعتراض، فل کورٹ کی استدعا
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر جمعے کو ہونے والی سماعت میں مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام نے کیس سننے والے دو ججز پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے دونوں ججز کے مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے کیسز نہ سننے کی بھی استدعا کی ہے جبکہ پی پی پی نے عدالت سے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی بھی استدعا کی ہے۔ جمعے کو سپریم کورٹ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
ازخود نوٹس: حکومتی جماعتوں کا دو ججز پر اعتراض، فل کورٹ کی استدعا
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر جمعے کو ہونے والی سماعت میں مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام نے کیس سننے والے دو ججز پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے دونوں ججز کے مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے کیسز نہ سننے کی بھی استدعا کی ہے جبکہ پی پی پی نے عدالت سے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی بھی استدعا کی ہے۔ جمعے کو سپریم کورٹ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
آزادی کا مفہوم سمجھنا ہے تو باچا خان سے سمجھیں، فضل الرحمان
سربراہ جے یو آئی (فائل فوٹو)  پشاور: پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمیعت علما اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ باچا خان اور ولی خان کی آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے، آزادی کا مفہوم سمجھنا ہے تو باچا خان اور خدائی خدمت گاروں سے سمجھیں۔ پشاور میں منعقدہ باچا خان اور ولی خان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
’اندازہ لگانا مشکل نہیں آڈیو لیکس کے پیچھے کون ہے‘
Tumblr media
آڈیو ٹیپ لیکس کے اس نئے سلسلے نے ملک میں اقتدار کی سیاست کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ لیک ہونے والی نجی ٹیلیفونک گفتگو کو نہ صرف سیاسی حریفوں بلکہ ریاستی اداروں اور سرکاری عہدوں پر بیٹھی شخصیات کے خلاف بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ ججز اور ان کے اہلِ خانہ بھی اس سے سے محفوظ نہیں۔ یہ معاملہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خراب اور سنگین ہوتا جارہا ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس غیرقانونی فون ٹیپنگ اور آڈیو لیکس کے پیچھے کون ہے۔ لگتا یہ ہے کہ عوامی دفاتر کے اندر اور باہر کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔ نئی آڈیو لیک میں مبینہ طور پر دو خواتین کے درمیان نجی گفتگو ہے جن میں سے ایک خاتون کو منصف اعلیٰ کا رشتے دار بتایا جاتا ہے۔ اس آڈیو نے ایک نئے سیاسی جھگڑے کو جنم دیا ہے۔ آڈیو لیک میں کی جانے والی مبینہ گفتگو موجودہ صورتحال اور پنجاب کے انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے گرد گھومتی ہے۔ اس آڈیو لیک کا وقت بھی اہم ہے۔ یہ گفتگو ایک ایسے وقت پر لیک ہوئی ہے کہ جب چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا بینچ پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں تاخیر کے خلاف درخواست پر دوبارہ سماعت شروع کرے گا۔ 
ایسا لگتا ہے جیسے یہ کیس، 14 مئی کو انتخابات کے لیے فنڈز جاری کرنے کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان اور پارلیمنٹ کو آمنے سامنے لے آیا ہے۔ اس صورت حال نے اداروں کے تصادم کو سنگین بنا دیا ہے جس سے ملک میں سیاسی بحران خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت ان آڈیو لیکس کو چیف جسٹس کے خلاف اپنی مہم کو تیز تر کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے۔ وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ چاہتے ہیں کہ ان آڈیو لیکس پر ازخود نوٹس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’ان آڈیو لیکس کے ملک میں تشویش ناک اثرات مرتب ہوئے ہیں‘۔ کچھ وفاقی وزرا نے چیف جسٹس سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ دو شہریوں کی نجی گفتگو کی آڈیو ٹیپ حکمران اتحاد کی منظوری سے جاری کی گئی ہیں تاکہ جج پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ جو عدالت سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں، ان کے پاس بھی اس غیرقانونی فون ٹیپنگ پر کیے جانے والے سوالات سے متعلق کوئی جواب نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کس کی ہدایت پر ایجنسیاں ایسی غیرقانونی سرگرمی سرانجام دے رہی ہیں۔ یہ ایک مجرمانہ اقدام ہے۔
Tumblr media
اس پورے مسئلے نے انٹیلی جنس اداروں کے حوالے سے بھی متعدد سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ وہ یقینی طور پر خودمختار نہیں ہیں اور وہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں۔ آڈیو لیکس کے حالیہ سلسلے میں جیسے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اس سے واضح ہے کہ یہ سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ تازہ ترین آڈیو لیکس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ملک میں جاری اقتدار کی سیاست میں ایجنسیوں کا بھی عمل دخل ہے۔ شاید یہ پہلا موقع نہ ہو کہ جب نامور سیاسی رہنماؤں اور اہم سرکاری شخصیات کی نجی گفتگو کو انٹیلی جنس اداروں نے ٹیپ کیا ہو۔ تاہم اس غیراخلاقی اور غیرقانونی رجحان میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ درحقیقت اب سیاسی رہنماؤں کو کمزور کرنے کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پر آڈیو ٹیپس کا بےدریخ استعمال کیا جارہا ہے۔ حتیٰ کہ وزیراعظم کے دفتر میں ہونے والے اجلاس کی آڈیو ٹیپ تک لیک کر دی گئیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ سال 2022ء کے اواخر میں پیش آیا جب وزیراعظم شہباز شریف کی ان کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ گفتگو لیک ہو گئی تھی۔ 
انہوں نے اس معاملے پر تحقیقات کا حکم دیا۔ لیکن لگتا ہے کہ جب معاملہ حریف سیاسی رہنماؤں اور ججز سمیت دیگر مخالفین کا ہو تو حکومت کو فون ٹیپنگ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ماضی میں سپریم کورٹ کے کچھ اعلیٰ ججز نے شکایت کی تھی کہ ان پر انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے نگرانی رکھی جارہی ہے۔ سابق ججز سمیت دیگر کی آڈیوز کا یوں بار بار لیک ہونا کافی حیران کُن ہے۔ ملک میں جاری سیاسی کشمکش اور قانون کی کمزور حکمرانی نے انٹیلی جنس اداروں کو کھلا میدان فراہم کر دیا ہے۔ عملاً سیاسی نظام انٹیلی جنس اداروں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔ ایک سویلین حکومت کے لیے اس سے زیادہ شرمناک اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے حریف سیاسی رہنماؤں اور عوامی عہدیداران کی نجی گفتگو کی ٹیپ کرنے کی اجازت دے۔ یہ صرف پی ڈی ایم حکومت ہی نہیں بلکہ عمران خان نے بھی کیا جوکہ اب خود اس کا ہدف بن چکے ہیں۔ جب وہ اقتدار میں تھے تب انہیں حریف سیاسی رہنماؤں کے خلاف اس طرح کے غیرقانونی طریقے استعمال کرنے پر کچھ زیادہ تحفظات نہیں تھے اور اب جب وہ خود اس کا شکار ہورہے ہیں تو سابق وزیراعظم نے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
عمران خان نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ ’انہوں نے بطور وزیراعظم میری گفتگو ریکارڈ کی اور اسے لیک کیا۔ سپریم کورٹ کو اس پر اقدامات لینے چاہیئں‘۔ جب اقتدار ان کے ہاتھ میں تھا تب مخالفین کے خلاف اس طرز کے اقدامات کے جواز پیش کرنے کے بجائے وہ اس کے خلاف خود اقدامات لے سکتے تھے۔ سیاسی تقسیم بڑھنے کی وجہ سے انٹیلی جنس اداروں کو بھی کھلی چھوٹ ملی ہے۔ جہاں حکومت حالیہ آڈیو لیکس کو لے کر خوش ہے وہیں وہ یہ بات بھول رہی ہے کہ اس کے اپنے رہنماؤں کی بھی انٹیلی جنس ادارے نگرانی کر رہے ہیں اور اس طرح کی لیکس کو اتحادی حکومت کو بھی کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جو ہمارے پورے سیاسی نظام کو تباہ کر سکتا ہے اور ریاستی اداروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کی چیف جسٹس کے خلاف مہم، عدلیہ میں دراڑ ڈال سکتی ہے جس سے اس نظام کو نقصان پہنچے گا۔ شاید چیف جسٹس کے کچھ متنازع اقدامات پر سوال اٹھانے میں کوئی حرج نہیں اور اس کے لیے عدالتی اصلاحات کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اعلیٰ عدلیہ کو بدنام کرنے کے لیے غلط ہتھکنڈوں کا سہارا لینا پورے نظام کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
کسی رشتہ دار کے سیاسی نظریات کی وجہ سے جج کی غیرجانب داری اور دیانت داری پر سوال نہیں اٹھنا چاہیے۔ سیاسی محاذ آرائی کی سیاست نے صرف سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کیا ہے۔ سیاسی مسائل کو حل کرنا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے غیرقانونی اقدامات کو روکنا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی قیادت کا کام ہے کہ وہ اس بنیادی اور جمہوری انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکیں۔ غیر قانونی وائر ٹیپنگ کو روکنا ہو گا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اختیارات کی جانچ پڑتال کرنا ہو گی۔ ریاست کو سیاسی اقتدار اور قانون کے نفاذ میں ناکامی کا سامنا ہے جو ہمیں مکمل انارکی کی صورت حال میں دھکیل رہا ہے۔ ہمارا شمار اس وقت شاید ناکام ریاستوں میں نہ ہو لیکن ریاست کی کم ہوتی اتھارٹی کے باعث ہم تیزی سے اس جانب بڑھ رہے ہیں۔ آڈیو لیکس کا بڑھتا ہوا رجحان ایک کمزور ریاست کی جانب اشارہ کرتا ہے جو اپنے شہریوں کے بنیادی اور جمہوری حقوق کے تحفظ میں ناکام ہے۔ انٹیلی جنس اداروں اور سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ خطرناک ہے۔
زاہد حسین  یہ مضمون اپریل 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
’سابقہ ڈپٹی وزیرِاعظم تو اب حقیقی وزیرِاعظم کی طرح کام کرتے نظر آرہے ہیں‘
آج کل ملک کے بڑے سیاسی دفاتر میں ہونے والی گفتگو کی آڈیو لیک ہونے کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے جس نے ہماری ملکی سیاست میں تیزی سے نمایاں ہوتے جھوٹ اور فریب کی قلعی کھول دی ہے۔ ان آڈیو لیکس کا وقت بھی بہت غیر معمولی ہے۔ اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ یہ کام کس کا ہے۔ یہ جرم کی ایسی پُراسرار کہانی ہے جہاں مجرم کی سب کو تلاش ہے۔  وزیرِاعظم کے دفتر میں ہونے والی بگنگ اور اس کا یوں سامنے آجانا ہمارے سیکیورٹی نظام پر کئی سوالات اٹھاتا ہے۔ کیبل گیٹ کہلایا جانے والا یہ معاملہ بحران کا شکار ریاست کی طرف اشارہ ہے۔ یہ معاملہ ہمارے ملکی نظام کی اصلیت سب کے سامنے لے آیا ہے اور اس نے ملک کو افراتفری کا شکار کر دیا ہے۔ ان آڈیو لیکس میں جو کچھ بھی سامنے آیا ہے، اس نے قومی سیاست کے اسٹیج پر ایک نئے تماشے کا اضافہ کر دیا ہے۔ یہ تماشہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہے اور عام آدمی کو اقتدار کے اس بے ہودہ کھیل میں پیادے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
اب تک جو کچھ بھی سامنے آیا ہے وہ صرف شروعات ہے، کھیل ابھی جاری ہے، اس لیے مزید حیران کن معلومات سامنے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ موجودہ اور نہ سابق وزیرِاعظم ان لیک آڈیوز میں ہونے والی گفتگو سے انکاری ہیں۔ اقتدار کے حصول کی کشمکش میں مصروف مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) دونوں ان آڈیو لیکس کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان آڈیو لیکس میں وزیرِاعظم شہباز شریف کی اپنی بھتیجی مریم نواز سے پالیسی معاملات پر ہونے والی بات چیت اور اس کے بعد کابینہ اراکین سے ہونے والی گفتگو بھی شامل ہے۔ بہرحال ان لیکس سے اس معاملے پر ضرور روشنی پڑتی ہے کہ شریف خاندان میں سیاسی گرفت کس کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن زیادہ سنسنی خیز آڈیو تو سابق وزیرِاعظم عمران خان، ان کے پرنسپل سیکریٹری اور وزرا کے درمیان ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے جس میں سائفر کے مسئلے پر بھی بات چیت کی گئی۔ عمران خان نے انہیں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے لیے کی گئی مبیّنہ بیرونی سازش کے ثبوت کے طور پر وہ سائفر پیش کیا تھا۔
درحقیقت ان تمام لیک ہونے والی گفتگو سے اس دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ سابق پاکستانی سفیر کے واشنگٹن سے بھیجے گئے سائفر میں رد وبدل کیا گیا اور عوامی حمایت کو متحرک کرنے کے لیے ایک سازشی بیانیہ تشکیل دیا گیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کس طرح اقتدار کی جنگ جیتنے کے لیے ملکی مفادات کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان سازشی بیانیوں اور قوم پرست بیانات نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے مگر اس کے باوجود ان کے ذریعے عمران خان اپنے حامیوں کو جوش دلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ اب حکومت سائفر اسکینڈل کو سابق وزیرِاعظم کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق، وفاقی کابینہ نے آڈیو لیکس کی مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور ساتھ ہی حکومت سائفر کے حوالے سے عمران خان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے پر غور کر رہی ہے جبکہ سائفر کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ وزیرِاعظم ہاؤس سے غائب ہو چکا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سفارتی سائفر کی ’گمشدہ‘ کاپی حاصل کرنے کے لیے عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ پر چھاپہ مارنے کا مطالبہ بھی کیا اور پی ٹی آئی کے چیئرمین کو گرفتار نہ کرنے کی وجہ سے اپنی ہی جماعت کی حکومت پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔ اس طرح کا کوئی بھی اقدام سیاسی حالات کو بھڑکا سکتا ہے اور ایک ایسی صورتحال کو جنم دے سکتا ہے جس کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ محدود اختیارات والی یہ کمزور اور مخلوط اتحادی حکومت ایسی کسی سیاسی مہم جوئی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ درحقیقت مسلم لیگ (ن) کے اندر شدید ہوتی ہوئی اقتدار کی جدوجہد نے کیبل گیٹ کی اہمیت کو کم کر دیا ہے۔ دو اہم پیشرفت جن میں اسحٰق ڈار کی واپسی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے مریم نواز کی ایون فیلڈ کیس میں بریت شامل ہیں، ان دونوں نے پارٹی اور حکومت کی طاقت کی حرکیات کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ 
مریم کی بریت کے ساتھ ہی ان کی حکومتی اور پارلیمانی مناصب سنبھالنے کی اہلیت بحال ہو گئی ہے اور اب وہ اگلے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہیں۔ اس طرح شریف خاندان میں قوت کا توازن بھی یقینی طور پر تبدیل ہو گا۔ اسحٰق ڈار کی کابینہ کے ایک اہم عہدے پر تقرری کے ساتھ ہی ملک کی معاشی پالیسیاں اب ’معاشی زار‘ کے ہاتھوں میں چلی گئی ہیں جس نے ظاہری طور پر وزیرِاعظم شہباز شریف کی حیثیت کو کم کر دیا ہے۔ اسحٰق ڈار جنہیں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی طرف سے مکمل حمایت حاصل ہے، وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت میں گزشتہ 6 ماہ سے چلی آرہی معاشی اور مالیاتی پالیسیوں میں تبدیلی لارہے ہیں۔ اسحٰق ڈار نے پچھلے ہفتے اگلے 15 دن کے لیے تمام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً 5 فیصد کمی کی تھی۔ اس عمل سے بنیادی طور پر انہوں نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے طے شدہ ماہانہ قیمتیں بڑھانے کی پالیسی کی نفی کی ہے جس کے تحت ہر ماہ لیوی عائد کر کے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جانا تھا۔ 
اپنے اس اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے جو پہلے ہی تباہ کن سیلاب سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ شاید اس عوامی اقدام سے حکمران جماعت کو اپنے سیاسی نقصان کا ازالہ کرنے میں کچھ مدد مل جائے مگر یہ فیصلہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور معاشی بحران کو مزید سنگین بنا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے نمائندے نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ پاکستانی حکام نے جو پالیسی وعدے کیے ہیں انہیں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی پاکستان کے موجودہ معاشی حالات کو مزید پیچیدہ کر سکتی ہے۔ متوقع طور پر وزیرِ خزانہ اور معاشی پالیسی کی تبدیلی نے حکمران جماعت کی صفوں میں ایک نئے تنازعے کو جنم دے دیا ہے۔ سابق وزیرِ خزانہ کی جانب سے لیے گئے سخت فیصلوں جنہیں وزیرِاعظم اور کابینہ کی منظوری حاصل تھی، اس نے ملک کو ڈیفالٹ کی حالت سے نکلنے میں مدد کی۔ مگر اسحٰق ڈار کے فیصلے من مانے لگ رہے ہیں جنہیں مفتاح اسمٰعیل نے ’لاپروائی‘ قرار دیا ہے۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ پالیسی آخر ہے کس کی؟ لندن میں بیٹھے بڑے شریف صاحب کی یا ملک کے چیف ایگزیکٹو چھوٹے شریف صاحب کی؟ اسحٰق ڈار جو مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت میں ڈپٹی وزیرِاعظم کے طور پر کام کرتے نظر آئے اس بار حقیقی وزیرِاعظم کے طور پر کام کر رہے ہیں جو صرف لندن میں بیٹھے بڑے شریف صاحب کو جوابدہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے مریم نواز کے ساتھ اسحٰق ڈار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کے چچا کی حکومت کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیا اس کے بعد تو اب سب کچھ واضح ہو گیا ہے۔ مفتاح اسمٰعیل نے بہت تلخ انداز میں کہا کہ ’یہ ملک ایک فیصد اشرافیہ کے کنٹرول میں ہے‘۔ یہ سب خاندانی مفادات اور طاقت کا کھیل ہے۔ ملک کے طویل المدتی مفادات کے بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا۔ یہ صرف کیبل گیٹ کے بے نقاب کردہ جھوٹ اور فریب کی کہانی نہیں بلکہ اقتدار کے حصول کی کوشش بھی ہے۔ وہ ملک جو متعدد بحرانوں کا شکار ہے اس کے لیے یہ ایک ناقابلِ برداشت صورتحال ہے۔
زاہد حسین 
یہ مضمون 5 اکتوبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
weaajkal · 4 years
Text
پی ڈی ایم آج الیکشن کمیشن کے باہر سیاسی قوت کا مظاہرہ کرے گی
پی ڈی ایم آج الیکشن کمیشن کے باہر سیاسی قوت کا مظاہرہ کرے گی #PDM #Opposition #ElectionCommission #aajkalpk
اسلام آباد: پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) آج الیکشن کمیشن کے باہر سیاسی قوت کا مظاہرہ کرے گی، حکومت نے ریڈ زون میں داخلے کی اجازت دے دی،احتجاج پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں پیش رفت کیلئے کیا جائے گا، دوسری جانب الیکشن کمیشن کے اردگرد خاردار تاریں لگا دی گئیں اورمرکزی راستہ بند کردیا گیا، پی ڈی ایم کی قیادت کشمیر چوک پراکٹھی ہوگی، کنٹینر پر سوار ہو کر قیادت الیکشن کمیشن پہنچے گی،مولانا فضل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
پی ڈی ایم کے دباؤ پر پیپلزپارٹی کا بھی ضمنی الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم / حکومتی اتحاد) کے دباؤ پر پاکستان پیپلزپارٹی ضمنی الیکشن سے دستبردار ہوگئی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی نے تمام امیدواروں کو کاغذات نامزدگی واپس لینے کی ہدایت کردی، جس کے تحت آج تمام امیدوار کاغذات نامزدگی واپس لیں گے۔   وزیر خارجہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی مشاورت کے بعد الیکشن سے دستبرداری کی منظوری دے دی۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی خالی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
myknewstv · 4 years
Link
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے سینیٹ کے چیئرمین انتخابات میں اپوزیشن کے سات مسترد ووٹوں سے متعلق اپوزیشن کے شور سےمتعلق  کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو پیٹھ میں چھرا گھونپا اور پیپلز پارٹی نے غداری کی۔ جمعیت علمائے اسلام فضل (جے یو آئی-ف) کے سربراہ فضل الرحمن۔ وزیر نے ہفتے کے روز اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ انتخابات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اتحاد میں کام نہیں کرسکتی ہیں۔ یہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے لئے فائدہ مند ہوتا اگر وہ کھلی رائے دہندگی قبول کرتی۔
1 note · View note
gamekai · 2 years
Text
آزادی کا مفہوم سمجھنا ہے تو باچا خان سے سمجھیں، فضل الرحمان
سربراہ جے یو آئی (فائل فوٹو)  پشاور: پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمیعت علما اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ باچا خان اور ولی خان کی آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے، آزادی کا مفہوم سمجھنا ہے تو باچا خان اور خدائی خدمت گاروں سے سمجھیں۔ پشاور میں منعقدہ باچا خان اور ولی خان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspost · 4 years
Text
مردان میں PDM ریلی کے دوران مریم پشتو بول رہی ہیں
مردان میں PDM ریلی کے دوران مریم پشتو بول رہی ہیں
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بدھ کے روز مردان میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ایک جلسے میں اپنے خطاب کے دوران پشتو زبان میں تقریر کی ، ان کی تقریر سننے کے لئے جمع ہونے والے ہجوم کی طرف سے زور دار خوشی کا اظہار کیا۔ “آدمی چور ہونے کے باوجود وفادار سمجھا جاتا ہے کیونکہ آدمی ہے تابدار مریم نے پشتو میں اور پھر اردو میں ان لوگوں کے لئے جو زبان نہیں سمجھتے ، کہا ، انتہائی خدمت ہے۔ وہ وزیر اعظم…
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
emergingpakistan · 2 years
Text
کیا سیاسی معاملات کو اعلیٰ عدلیہ تک لے جانا درست ہے؟
Tumblr media
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری سیاسی محاذ آرائی نے ایک خطرناک صورت اختیار کر لی ہے۔ اب یہ ریاستی اداروں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر رہی ہے۔ یہ صورتحال کچھ اداروں کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے جبکہ تمام اداروں کو سیاسی تنازعات کے دلدل میں دھکیل رہی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ملک انتشار کی جانب جارہا ہے اور حالیہ دنوں میں ہونے والی پیش رفت اس بات کی تصدیق کرتی ہیں۔ شروعات صدرِ مملکت عارف علوی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے درمیان حالیہ دنوں میں ہونے والی تکرار سے کرتے ہیں۔ یہ تنازع اس بات پر شروع ہوا کہ جنوری میں تحلیل ہونے والی پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں میں انتخابات کی تاریخ کسے دینی چاہیے۔ صدر عارف علوی نے الیکشن کمیشن سے فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دینے کو کہا تھا۔ یہ پاکستان تحریک انصاف کا بھی مطالبہ تھا۔ یہ مؤقف بھی اپنایا گیا کہ اگر الیکشن کمیشن ایسا کرنے میں ناکام ہوا تو یہ آئین کی خلاف ورزی میں شمار ہو گا۔ اس کے بعد صدر نے پھر مشاورت کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو مدعو کیا جسے کمیشن نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ معاملہ ابھی عدالت میں ہے۔ 
ایک خط میں کمیشن نے صدر کی جانب سے اختیار کی جانے والی زبان پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ کمیشن ’اپنی آئینی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہے‘۔ یہ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا اور صدر عارف علوی نے یک طرفہ طور پر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ 9 اپریل دے دی۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس اقدام کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب عارف علوی نے آئین کے خلاف کوئی قدم اٹھایا ہو۔ صدرِ مملکت کے اس اعلان کے ردِعمل میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اٹارنی جنرل سے رجوع کیا جنہوں نے کہا کہ صدر کے پاس انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار موجود نہیں ہے۔ کچھ دنوں بعد ہی چیف جسٹس پاکستان نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا اور اسے ’آئینی طور پر انتہائی اہم‘ قرار دیا۔ 9 اراکین پر مشتمل خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا جو اس بات کا تعین کرے کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار کسے حاصل ہے۔ اس معاملے پر جلد ہی سماعت کا آغاز ہو گیا جبکہ سپریم کورٹ کے ججوں نے اپنی مختلف آرا کا بھی اظہار کیا۔ ملکی تاریخ میں کبھی بھی ایوانِ صدر اور الیکشن کمیشن جیسے دو اہم ریاستی ادارے اس طرح عوامی سطح پر آمنے سامنے نہیں آئے۔ 
Tumblr media
یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیرِسماعت ہے لیکن بدقسمتی سے ہم صدارت اور انتظامی جیسے دو آئینی اداروں کے ٹکراؤ کے شاہد بنے۔ اس تنازع کی بنیاد یہ ہے کہ اتحادی حکومت آئین کے مطابق 90 دنوں کے اندر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروانے سے ظاہری طور پر انکاری ہے۔ یہ امر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے تعینات کردہ 2 صوبوں کے گورنرز اور وفاقی وزرا کے بیانات سے واضح ہے۔ پی ڈی ایم حکومت اور عمران خان کی پی ٹی آئی کے درمیان جاری شدید محاذ آرائی کی وجہ سے اب عدالتیں سیاسی جنگ کے میدان کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ جب دونوں اپنے آپسی معاملات سلجھا نہیں پاتے تب وہ عدالتوں کا رخ کر لیتے ہیں جن سے امید ہوتی ہے کہ وہ قانون کے بجائے سیاسی ثالث کا کردار ادا کریں گی۔ پھر جب فیصلہ کسی مخصوص جماعت کے مفاد میں نہیں ہوتا تب وہ عدالت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ان پر جانب داری کا الزام عائد کرتے ہیں۔  دونوں فریق ہی عدالتوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
جس طرح اپنے سیکڑوں حامیوں کے ساتھ گزشتہ ہفتے عمران خان لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے اس سے واضح ہو گیا تھا کہ یہ عدالتوں پر دباؤ ڈالنے کے مقصد سے ہی کیا گیا تھا۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی عدالتوں پر براہِ راست تنقید کرتے ہیں اور ان پر دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ مریم نواز نے سرگودھا میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 2 موجودہ ججوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے عدلیہ کو پارلیمنٹ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا کہ کیا ماضی میں تمام فیصلے سیاسی مفادات کومدِنظر رکھ کر لیے گئے تھے یا پھر عوامی مفادات کو؟ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے الزام عائد کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کے ساتھ ترجیحی رویہ اختیار کیا ہے۔ کئی ججوں نے سیاسی رہنماؤں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سیاسی معاملات کو حل کرنے کے لیے عدالتوں کا سہارا نہ لیں لیکن ان مشوروں پر کان نہیں دھرے گئے۔ 
سیاسی معاملات کو اعلیٰ عدلیہ تک لے جانا درحقیقت ان کے کردار کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں تنازعات کی زد میں بھی لیتا ہے نتیجے کے طور پر اس شدید منقسم سیاسی صورت حال میں عدلیہ پر عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔  سیاسی محاذ پر اس سنگین صورتحال نے عدالتوں کو مشکل میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ بھی تقسیم ہو سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج کی جانب سے پہلے ہی یہ اعتراض کیا جاچکا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ازخود نوٹس لینے کی کیا واقعی کوئی بنیاد تھی۔ سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے وکلا اب بینچوں کی تشکیل پر بھی اعتراض کرتے نظر آتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ فلاں جج کو اس کیس سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔ ملک کی عدلیہ برادری کے چند ارکان کو تو مختلف سیاسی مقدموں میں اعلیٰ عدلیہ درمیان بھی تصادم کا خدشہ ہے۔ اس دوران سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مختلف وقتوں میں موجودہ سیاسی کھیل کے دونوں فریقوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا رہا ہے۔ 
جب اقتدار عمران خان کے ہاتھ میں تھا تب جنرل قمر جاوید باجوہ پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تنقید کے نشتر برسائے جاتے تھے جو انہیں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے اور 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کی جیت کے پیچھے اہم کردار کہتے ہیں۔ جب سے قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہوئے ہیں تب سے عمران خان نے ان پر تنقید شروع کر دی ہے اور وہ انہیں اقتدار سے ہٹانے اور ’بدعنوان پی ڈی ایم حکومت‘ کو ملک پر مسلط کرنے کی سازش کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ جنرل باجوہ سے ملاقات کرنے والے صحافی نے عمران خان کے بارے میں جنرل باجوہ کی جو تنقید بیان کی ہے اس نے اس تنازع اور لفظی جنگ کو مزید ہوا دی۔ عمران خان نے صدرِ مملکت کو خط بھی لکھا اور کہا کہ وہ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے قمر جاوید باجوہ کے خلاف اپنے ’حلف کی خلاف ورزی‘ کرنے پر ’فوری انکوائری‘ کروانے کا حکم دیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے بھی اس حوالے سے بیانات دے کر اس تنازع کو مزید تقویت دی۔
ان تلخ بیانات سے عمران خان دورِ حکومت کی ہائبرڈ نوعیت کی ہی تصدیق ہوتی ہے لیکن اس طرح کے عوامی تنازعات میں ملک کے سابق سپہ سالار کا ملوث ہونا فوج کی ساکھ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ سابق آرمی چیف کے اقدامات سے ان کے ادارے کو الگ نہیں کیا جاسکتا اور اس سے ادارے کے کردار پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ ماضی میں شاید ہی ایسا ہوا ہو کہ ملک کی سیاسی صورتحال میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کردار عوام، میڈیا اور ناقدین کی اس قدر توجہ کا مرکز رہا ہو۔  گمان ہوتا ہے جیسے ریاست کا ہر ادارہ ہی اس سیاسی طوفان کی لپیٹ میں آرہا ہے اور اس سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ چیز ملک کو ایک ایسی صورتحال کی جانب دھکیل رہی ہے جہاں اداروں کی حدود، ساکھ، سالمیت اور ان کی حیثیت پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔ اگر اداروں پر عوامی اعتماد ختم ہوتا ہے اور اگر ان کی قانونی حیثیت کو مجروح کیا جاتا ہے تو یہ ملک کو ایسی حالت میں ڈال دے گا جہاں اس کا انتظام چلانا ناممکن ہو جائے گا۔
ملیحہ لودھی
بشکریہ ڈان نیوز
یہ مضمون 27 فروری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
0 notes