Tumgik
#پورٹ
apnibaattv · 2 years
Text
طیارے کی کھڑکی کو نقصان پہنچانے والے پاکستانی مسافر کو دبئی سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
طیارے کی کھڑکی کو نقصان پہنچانے والے پاکستانی مسافر کو دبئی سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
اسلام آباد: پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے ترجمان نے پیر کو بتایا کہ ایک پاکستانی شہری کو دبئی سے ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے کیونکہ وہ جہاز کی درمیانی ہوا میں خلل ڈالنے اور اس کی کھڑکی کو نقصان پہنچانے کا سبب بنا۔ یہ واقعہ 14 ستمبر کو پیش آیا، جب مبینہ طور پر ذہنی طور پر غیر مستحکم مسافر سوار ہوا۔ پی آئی اے کے ترجمان نے مزید کہا کہ پشاور سے دبئی جانے والی پرواز PK-283 نے پرواز کے اڑان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
اے ایس ایف کے عملے کی اسلام آباد ایئر پورٹ پر کارروائی، منشیات اسمگلنگ کی کوششں ناکام
اے ایس ایف کے عملے کی اسلام آباد ایئر پورٹ پر کارروائی، منشیات اسمگلنگ کی کوششں ناکام
اے ایس ایف کے عملے کی جانب سے اسلام آباد ایئر پورٹ پر کارروائی کی گئی ہے جس دوران منشیات اسمگلنگ کی کوششں ناکام بنادی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایئرپورٹس سیکورٹی فورس نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر کارروائی  کرتے ہوئے اسمگلنگ کی کوششں ناکام بناتے ہوئے 524 گرام ہیروئن برآمد کر لی ہے۔ اس حوالے سے ترجمان کا کہنا ہے کہ اے ایس ایف کے عملے نے بحرین جانے والے مسافر سے 524 گرام ہیروئن برآمد کر لی ہے ۔ ترجمان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 5 months
Text
ڈومیسٹک پروازوں کے مسافر اب ایئرپورٹ چارجز بھی ادا کریں گے
سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ڈومیسٹک پرواز کے مسافروں پر ’ائرپورٹ چارجز‘ مقررکردیے۔ اندرون ملک پروازوں پر سفر کرنے والے ہر مسافرکو اب 100 روپے فیس دینی ہوگی۔ ایرلائنز مسافروں سےچارجز وصول کر کے سول ایوی ایشن اتھارٹی کو دیں گی۔ اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ سول ایوی ایشن کا نیا ہدایت نامہ ائرلائنز کو بھی موصول ہو گیا ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کا کہنا ہے کہ مسافروں سے چارجزکی وصولی کا حکم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
کارٹیلز نہیں چاہتے کہ گوادر کی بندرگاہ ترقی کرے، وزیر اعظم
کارٹیلز نہیں چاہتے کہ گوادر کی بندرگاہ ترقی کرے، وزیر اعظم
سکھر (نمائندہ عکس) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کارٹیلز نہیں چاہتے کہ گوادر کی بندرگاہ ترقی کرے، گوادر پورٹ کے کام کو آگے بڑھانے کا کہا تو کہا گیا کہ خرچہ بڑھے گا، اس سب کے پیچھے ان کی کرشمہ سازی ہے، میں نے انہیں بتایا کہ ہم نے گندم کی درآمد کے سودے کم سے کم قیمت پر کئے، ہم نے ان سے اور بھی پی��ے کم کرائے جس سے اربوں کا فائدہ ہوا،سمجھ لو کہ ہم نے یہ جو بچت وہ وہاں خرچ ہوجائے گی، پاکستان کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amiasfitaccw · 3 months
Text
گھر کا معاملہ
قسط 02
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ میں امی کے اتنا قریب تھا میں نہیں گئے لگا لیا اور اسکے جسم کو چھونے لگا امی بھی جانتی تھیں کہ میں کافی عرصے سے ان پر نظر رکھے ہوئے ہوں ڈانس کرتے ہوئے ہم ایک دوسرے کے جسم کو جسم سے رگڑ رہے تھے اور گزرتے وقت کے ساتھ اس بارے میں زیادہ بے فکر ہو رہے تھے میں نے امی کو اپنے قریب کر لیا امی نے بھی اپنے ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ دیئے ہم ایک کونے میں آگئے جہاں سے ابو ہمیں نہیں دیکھ سکتے تھے اور اگر وہ دیکھ بھی لیتے تو کسی کو فکر تھی میں نے کہا ، امی آپ بہت سیکسی لگ رہی ہیں ۔ امی بولیں ، شکریہ کا شف تمہاری تعریف اچھی کئی مجھے۔ میں نے کہا ، امی آپ مجھےکسی بھی لباس میں اچھی لگتی ہیں ۔ امی بولیں کسی بھی لباس میں؟ میں نے کہا، اچھا امی آپ مجھے برتھ ڈے پر کیا گفٹ دے رہی ہیں؟ امی بولیں، تجھے کیا چاہیئے ؟ میں نے کہا آپ بولیں ۔
Tumblr media
اور امی کو اپنی طرف کھینچ لیا امی کے سڈول محے میرے سینے پر دینے لگے امی بولیں ، بول نا کیا چاہئے؟ میں نے کہا، نہیں آپ نے گفٹ دینا ہے آپ بتائیں ۔ امی بولیں ، مجھے پتا ہے تجھے کیا چاہئے ۔ میں نے کہا، کیا ؟ امی نے کچھ نہیں کہا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے امی کے ہونٹ بہت رسیلے تھے پھر انہوں نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی ہماری زبانیں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں اور میرے ہاتھ امی کی گانڈ پر پہنچ گئے میں انکی بڑی سے گانڈ دونوں ہاتھوں میں لی اور دبانے لگا انکے ممے میرے سینے سے دبے ہوئے تھے اور مجھے موں کے سخت تپل محسوس ہو رہے تھے کافی دیر ہم کسی کرتے رہے، ہماری سانسیں تیز ہوگئی تھی قریب 10 منٹ تک ہم کس کرتے رہے پھر امی نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے دور کیئے لیکن ہم ڈانس کرتے رہے میرے ہاتھ امی کی کمر اور گانڈ پر گھوم رہے تھے اور امی کے ہاتھ بھی ایسے ہی کام کر رہے تھے اپنی ٹیبل پر واپس آنے سے پہلے ہم نے ایک بار پھر ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ دیئے اور اسی دوسرے سے لپٹ گئے اسی وقت ابو کا فون آیا
Tumblr media
میرے موبائل پر انہوں نے ہمیں واپس بلایا ہم واپس ٹیبل پر آگئے تو ابو بولے، سائر ومیرا خیال ہے اب ریسٹورنٹ چلنا چاہئے ورنہ میں اپنی فلائٹ سے لیٹ ہو جاؤں گا ۔ ہم جلدی سے ریسٹورنٹ گئے اور کھانا کھایا جب گھر پہنچے و رات آدھی گزر چکی تھی ابو نے اپنا سامان پیک کیا اور تیار ہو گئے امی نے بھی کپڑے بدلے اور جیز اور ٹی شرٹ پہن لی ابو کو ایئر پورٹ چھوڑنے کے لیبیا ہو نے پوچھا تم کہاں جارہی ہو؟ امی بولین ، آپکو ایئر پورٹ چھوڑنے ۔ ابو بولے نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے میں ٹیکسی کے لیئے فون کر دیا ہے بہت دیر ہو گئی ہے ۔ امی بولیں لیکن ۔۔ ابو بولے ٹھیک ہے سائرہ، کاشف کو وقت دو ، اوکے کا شف بیٹا انجوائے کرو اپنی برتھ ڈے۔ ابو چلے گئے جیسے ہی ابو گھر سے نکلے میں نے امی کو پیچھے سے گلے لگا لیا امی اس ٹائٹ لباس میں بہت سیکسی دکھ رہی تھیں میں انکی گردن چومنے لگا اور انکے مموں پر ہاتھ لے جا کر کہا، اب میں اٹھارہ سال کا ہو گیا ہوں امی اور میں اپنا کنوار پن آپکو چود کر ختم کرنا چاہتا ہوں ۔ امی بولیں ، میں کیوں ، کوئی اپنی عمر کی لڑکی دیکھونا۔
Tumblr media
میں نے کہا نہیں امی آپ بہت گرم ہیں جب بھی آپ ابو سے یا اپنے کسی دوست سے چدواتی ہیں تو میں خیالوں میں خود کو انکی جگہ رکھ کر محسوس کرتا ہوں میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں امی ۔ امی بولیں ، اوہ بیا فکر مت کر آج رات میں تیرے سارے خواب بیچ کر دوں گی آج میں اپنے بیٹے کومر درنا دوں گی اپنے سارے خزانے تجھے سونپ دوں گی ۔ امی نے اپنا پہر میری طرف کیا اور ہم دونوں ایک دوسرے کو ہونٹ چومنے لگے امی کے ہونٹ بہت رسیلے تھے
جاری ہے...
Tumblr media
3 notes · View notes
jhelumupdates · 6 days
Text
پاپوا نیو گنی؛ لینڈ سلائیڈنگ میں 2 ہزار سے زائد افراد زندہ دب گئے
0 notes
shiningpakistan · 1 month
Text
پاکستانی بھکاریوں کے دنیا میں چرچے
Tumblr media
بیرون ملک پاکستانی بھکاریوں کے بارے میں حالیہ خبر نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں کہ ’’خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں گرفتار کئے جانے والے 90 فیصد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔‘‘ یہ ہوشربا انکشاف گزشتہ دنوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیوں کے اجلاس میں سامنے آیا اور سیکریٹری اوورسیز ذوالفقار حیدر نے اجلاس میں شریک حکام کو مزید حیرت زدہ کر دیا کہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی حدود سے گرفتار کئے جانے والے اکثر پاکستانی بھکاری جیب کترے تھے جو عازمین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے پکڑے گئے۔ سیکریٹری اوورسیز کے مطابق صرف رمضان المبارک میں سعودی عرب کی پولیس نے 202 بھکاریوں جن میں 90 خواتین بھی شامل تھیں، کو گرفتار کر کے پاکستان ڈی پورٹ کیا جو عمرہ کے ویزے پر سعودی عرب گئے تھے اور زیارات کے مقامات پر بھیک مانگنے اور جیب کاٹنے میں ملوث تھے۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ پاکستانی پیشہ ور بھکاریوں کی سرگرمیاں صرف سعودی عرب تک محدود نہیں بلکہ یو اے ای بھی پھیل گئی ہیں۔ صرف رمضان المبارک کے دوران یو اے ای میں پہلے دو عشروں میں 200 سے زیادہ پیشہ ور پاکستانی بھکاری پکڑے اور 5 ہزار درہم جرمانہ کی ادائیگی کے بعد ڈی پورٹ کئے گئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ 
یہ بھکاری یو اے ای کی نرم ویزا پالیسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئے تھے تاکہ لوگوں کی رحمدلی کا فائدہ اٹھا کر بھاری رقم بٹوری جاسکے۔ سعودی عرب اور یو اے ای حکام نے پاکستانی حکام کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے اور اور درخواست کی ہے کہ گداگروں کو ان ممالک میں آنے سے روکا جائے کیونکہ ان کی جیلیں پاکستانی بھکاریوں سے بھری ہوئی ہیں اور اطلاعات ہیں کہ پکڑے جانے والے بھکاریوں کو اب پاکستانی قونصلیٹ اور سفارتخانوں کے حوالے کیا جارہا ہے جبکہ یو اے ای حکومت نے پاکستانیوں کیلئے ویزے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ اسی طرح ایران اور عراق سے بھی ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ ان ممالک میں بھی زیارت کے نام پر وہاں جا کر گداگری کا پیشہ اختیار کرنے والے پاکستانیوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور ان ممالک کی حکومتوں نے بھی حکومت ِپاکستان سے شکایت کی ہے۔ گزشتہ دنوں ایف آئی اے کے حوالے سے یہ خبر منظر عام پر آئی کہ ملتان ائیرپورٹ پر عمرے کی آڑ میں سعودی عرب جانے والے بھکاریوں کے ایک گروہ کو آف لوڈ کر دیا گیا۔ ایف آئی اے ترجمان کا کہنا تھا کہ ان مسافروں سے امیگریشن حکام کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ افراد بھیک مانگنے کیلئے سعودی عرب جارہے تھے جہاں ایجنٹ ان کا منتظر تھا اور بھیک کی آدھی رقم اس ایجنٹ کو دینی تھی۔ 
Tumblr media
اطلاعات ہیں کہ یہ ایجنٹ ان افراد سے بیرون ملک بھیجنے کیلئے بھاری رقم وصول کرتے ہیں اور یہ ایجنٹ ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ اسی طرح یو اے ای سے ڈی پورٹ کئے جانے والے پاکستانی بھکاریوں نے فی کس 5 ہزار درہم جو تقریباً 4 لاکھ روپے بنتے ہیں، جرمانہ یو اے ای حکومت کو ادا کیا۔ اس طرح اگر ٹکٹ، ویزا، رہائش اور ٹرانسپورٹ اخراجات بھی شامل کر لئے جائیں تو ایک بھکاری پر 10 لاکھ روپے بنتے ہیں جو معمولی رقم نہیں اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ عرب ممالک میں پکڑے جانے والے غریب افراد نہیں بلکہ فیملی سمیت عرب ممالک جا کر پیشہ ور بھکاری کا روپ دھار لیتے ہیں اور صاحب حیثیت لوگوں کو دیکھ کر انہیں اپنی دکھ بھری داستان سناتے اور بھاری رقم بٹورتے ہیں۔ بھارتی میڈیا بھی پاکستانی بھکاریوں کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی خبروں کوخوب مرچ مسالہ لگا کر پیش کر رہا ہے اور مختلف وی لاگ میں تضحیک آمیز تبصرے کئے جارہے کہ پاکستان دنیا کو بھکاری (Beggars) ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ 
اس طرح کے تبصرے پاکستان کی تضحیک کا سبب بن رہے ہیں جس سے نہ صرف ملک کی ساکھ مجروح ہو رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ خلیجی ممالک میں ان واقعات کے بعد وہاں مقیم پاکستانی ورکرز کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے اور انہیں خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں بھیک مانگنے پر 3 سال قید کی سزا ہے مگر وکلاء اور پولیس حکام کے بقول ان پیشہ ور بھکاریوں کو یہ سزا کم ہی ملتی ہے اور وہ معمولی جرمانہ ادا کر کے دوبارہ اپنا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ پیشہ ور بھکاریوں اور اس دھندے میں ملوث مافیا سے سختی سے نمٹا جائے اور سخت قوانین مرتب کئے جائیں تاکہ یہ افراد ملک کی بدنامی کا سبب نہ بن سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیشہ ور بھکاریوں، جو وبا کی صورت اختیار کر گئے ہیں، کے خاتمے کیلئے بھی موثر اقدامات کیے جائیں اور ان ایجنٹس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جو لوگوں کی غربت کا فائدہ اٹھاکر انہیں گداگری کیلئے اکسا رہے ہیں۔ اسی طرح خلیجی ممالک سے ڈی پورٹ کئے جانے والے بھکاریوں کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے تاکہ یہ افراد دوبارہ ان ممالک کا سفر نہ کر سکیں۔
مرزا اشتیاق بیگ 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
mediazanewshd · 2 months
Link
0 notes
rising-gwadar · 2 months
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
پاکستان چین کا 5 نئی اقتصادی راہداریوں کے لیے کوششیں تیز، ورکنگ گروپ بنانے پر اتفاق_
ان رہداریوں کو 5 ایز فریم ورک سے منسلک کیا جائے گا_ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور چینی سفیر کا ملاقات میں اتفاق
یہ اتفاق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال اور چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ کے درمیان وزارت منصوبہ بندی میں ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی ملاقات میں کیا گیا_
چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے پروفیسر احسن اقبال کو چوتھی بار وزیر منصوبہ بندی کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی_
واضح رہے کہ ان پانچ نئے اقتصادی راہداریوں پر ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا جاہے گا ان راہداریوں ملازمتوں کی تخلیق کی راہداری، اختراع کی راہداری، گرین انرجی کی راہداری، اور جامع علاقائی ترقی شامل ہیں_
ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ چین کی وزارت منصوبہ بندی اور قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن (این ڈی آر سی) اور وزرات منصوبہ بندی اقتصادی راہدریوں پر الگ الگ Concept Paper مرتب کریں گے، جو مستقبل میں ہر شعبے کے لیے ایک ��اضح روڈ میپ فراہم کریں گے_
جبکہ بعدآزں یہ Concept Paper جے سی سی میں پیش کی جاہیں گی_
یاد رہے کہ وزارت منصوبہ بندی نے پہلے ہی 5Es فریم ورک پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے جس میں ایکسپورٹ، انرجی، ایکویٹی، ای پاکستان اور ماحولیات شامل ہیں_
وزیر اعظم شہباز شریف کے وژن کے تحت ہر شعبے میں پاکستان کی خوشحالی کو آگے بڑھانے کے لیے یہ فریم ورک پانچ نئے اقتصادی راہداریوں کے ساتھ منسلک کیا جائے گا_
ملاقات میں وفاقی وزیر نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ذریعے پاکستان کی برآمدی صلاحیتوں کو تیز کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے پاکستان کے اندر خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) کی کامیابی کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے ایک حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا_
انہوں نے ایک "ون پلس فور" ماڈل تجویز کیا، جس کے تحت پاکستان میں ہر SEZ کو چین کے ایک صوبے کے ساتھ شراکت داری کی جائے گی، SEZs کے اندر خصوصی کلسٹرز تیار کرنے کے لیے ایک صنعتی گروپ، تکنیکی مہارت فراہم کرنے کے لیے چین سے ایک SEZ، اور ایک سرکاری کمپنی کے ساتھ شراکت داری کی جائے گی_
جبکہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زور اشتراکی فریم ورک پاکستان میں SEZs کے قیام اور ترقی کو تیز کرے گا، ان کی مسابقت اور سرمایہ کاروں کے لیے کشش میں اضافہ کرے گا_
اس موقع پر چین کے سفیر کے سی پیک کے فیز ٹو پر عمل دررامد تیز کرنے پر پاکستان کی کاوشوں کو سراہا_
انہوں نے خصوصی طور پر وفاقی وزیر کی سی پیک کے منصوبوں پر دلچسبیبی لینے اور منصوبوں کو تیز کرنے پر کوششوں کو سراہا_
جبکہ وفاقی وزیر کو خصوصی طور پر مسٹر سی پیک کے لقب سے مخاطب کرتے ہوے کہا چینی قیادت اپکی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے_
مزید براں، پروفیسر احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ SEZs کی کامیابی کا انحصار ان کی مخصوص صنعتوں کے کلسٹر بننے، پیمانے کی معیشتوں کو فروغ دینے، اور جدت اور ترقی کے لیے سازگار ایک متحرک ماحولیاتی نظام کی تشکیل پر ہے_
ملاقات میں بات گوادر پورٹ اور M-8 موٹروے جیسے اہم بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر خصوصی زور دینے کے ساتھ علاقائی روابط بڑھانے پر بھی توجہ مرکوز کی گئی، جو تجارتی روابط کو مضبوط کریں گے اور علاقائی انضمام کو آسان بنائیں گے_
ملاقات میں وفاقی وزیر نے چینی سفیر کو یقین دلایا کہ حکومت چینی حکام کی سیکورٹی کے کیے بھر پور اقدامات اٹھا رہئ ہے_
1 note · View note
emergingpakistan · 3 months
Text
قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کو کتنے میں پڑتا ہے؟
Tumblr media
نئی قومی اسمبلی وجود میں آ چکی ہے۔ اس کے پہلے اجلاس کا ماحول دیکھا تو کرامزن کے ناول کا وہ چرواہا یاد آ گیا جو آتش فشاں پر بیٹھ کر بانسری بجا رہا تھا۔ میں نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا کہ قومی اسمبلی کے ماحول سے لطف اندوز ہونے والوں کو کیا یہ معلوم ہے کہ قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کو قریب آٹھ سو لاکھ میں پڑتا ہے؟ کچھ نے حیرت کا اظہار کیا، بعض نے اپنے تئیں تصحیح فرمانے کی کوشش کی کہ شاید یہ رقم آٹھ لاکھ ہے جو غلطی سے آٹھ سو لاکھ لکھ دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی ایک سال میں قریب 135 دن اجلاس منعقد کرتی ہے۔ 2017 کے اسمبلی بجٹ کے مطابق پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس کا اوسط خرچ ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ تھا۔ اس دوران کئی بار تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیے گئے۔ پوچھنے والا تو کوئی تھا نہیں کہ پارلیمان خود ہی فیصلہ ساز تھی اور اپنی مراعات کے فیصلے خود ہی کرتی تھی۔ ساتھ ہی مہنگائی بھی بڑھ رہی تھی اور اوسط اخراجات برھتے ہی جا رہے تھے۔ چند سال تک میں اس مشق سے جڑا رہا اور مراعات و معاوضے میں اضافے اور مہنگائی کی شرح کے حساب سے تخمینہ لگاتا رہا کہ بات اب کہاں تک پہنچی ہے۔
قریب 2020 میں تنگ آ کر اور تھک کر جب میں نے یہ سلسلہ منقطع کر دیا کیونکہ متعلقہ وزارتوں سے تازہ ترین معلومات اکٹھے کرتے رہنا ایک بلاوجہ کی مشقت تھی اور اس سے بہتر تھا کہ جنگل میں جا کر کسی چرواہے سے بانسری سن لی جائے۔ جس وقت یہ سلسلہ منقطع کیا اس وقت تک محتاط ترین اندازے کے مطابق یہ اخراجات دگنے ہو چکے تھے۔ اس کے بعد مہنگائی کا وہ طوفان آیا کہ الامان۔ اخراجات، مہنگائی اور افراط زر کی شرح کے مطابق اگر جمع تقسیم کی جائے اور انتہائی محتاط جمع تقسیم کی جائے تو اس وقت قومی اسمبلی کا ایک دن کا اجلاس قوم کو قریب آٹھ سو لاکھ میں پڑتا ہے۔ نہ جھکنے والے ، نہ بکنے والے ، عوام کے خیر خواہ ، کردار کے غازیوں اور بے داغ ماضیوں میں سے کوئی ایوان میں سوال کر دے کہ اسمبلی کے آخری مالی سال کے بجٹ کے مطابق تازہ ترین اعدادو شمار کیا ہیں اور مہنگائی کی اس لہر میں قومی اسمبلی کے ایک دن کا اجلاس اوسطا قوم کو کتنے میں پڑتا ہے تو جواب سن کر شاید بہت ساروں کو دن میں وہ تارے بھی نظر آ جائیں جو آج تک ماہرین فلکیات بھی نہیں دیکھ سکے۔
Tumblr media
سوال البتہ اخراجات کا نہیں ہے۔ پارلیمان چلانی ہے تو اخراجات تو اٹھیں گے۔احساس کیا جائے تو اخراجات کم ضرور ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی ہوں گے تو سہی۔ اس لیے سوال اخراجات کا نہیں بلکہ کارکردگی کا ہے۔ چارجڈ ماحول میں ایک آدھ اجلاس تلخی اور اودھم کی نذر ہو جائے تو یہ ایک فطری سی بات ہے۔ لیکن اگر یہ مشق مسلسل جاری رہنے لگے تو پھر یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ عالم یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کی دفعہ 5 کے مطابق صرف ایک چوتھائی اراکین بھی موجود ہوں تو کورم پورا تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم اکثر یہ خبر پڑھتے ہیں کہ کورم ٹوٹ گیا اور اجلاس ملتوی ہو گیا۔ گزشتہ سے پیوستہ سابقہ اسمبلی کے 74 فیصد اجلاس کا عالم یہ تھا کہ ان میں حاضری ایک چوتھائی سے بھی کم تھی۔ اس اسمبلی میں پارلیمانی لیڈروں میں سب سے کم حاضریاں عمران خان کی تھیں تو اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا تھا کہ وہ اس اسمبلی کو دھاندلی کی پیداوار سمجھتے ہیں لیکن اب جس اسمبلی نے انہیں وزیر اعظم بنایا تو اس میں ان کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ پہلے 34 اجلاسوں میں وہ صرف چھ اجلاسوں میں موجود تھے۔
اسمبلی کے رولز آف بزنس کے تحت ارکان کو باقاعدہ چھٹی کی درخواست دینا ہوتی ہے لیکن ریکارڈ گواہ ہے کہ اس تردد میں اراکین اسمبلی تو کیا، خود سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی نہیں پڑتے۔ ہر محکمے کی چھٹیوں کا کوئی ضابطہ اور تادیب ہے لیکن اراکین پارلیمان سے کوئی سوال نہیں ہو سکتا کہ عالی جاہ آپ کو لوگوں نے منتخب کیا ہے تو اب ایوان میں آ کر اپنی ذمہ داری تو ادا کیجیے۔ یہ خود ہی قانون ساز ہیں اس لیے انہوں نے یہ عظیم الشان قانون بنا رکھا ہے کہ جو رکن اسمبلی مسلسل 40 اجلاسوں میں نہیں آئے گا اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ غور فرمائیے مسلسل چالیس اجلاس کی شرط کیسی سفاک ہنر کاری ہے۔ غریب قوم کا یہ حق تو ہے کہ وہ اپنی پارلیمان سے سنجیدگی کی توقع رکھے۔ بنیادی تنخواہ، اس کے علاوہ اعزازیہ، سمپچوری الاؤنس ، آفس مینٹیننس الاؤنس الگ سے ، ٹیلی فون الاؤنس ، اسکے ساتھ ایک عدد ایڈ ہاک ریلیف الائونس، لاکھوں روپے کے سفری واؤچرز، حلقہ انتخاب کے نزدیک ترین ایئر پورٹ سے اسلام آباد کے لیے بزنس کلاس کے 25 ریٹرن ٹکٹ، اس کے علاوہ الگ سے کنوینس الاؤنس، ڈیلی الاؤنس کے ہزاروں الگ سے، اور پھر پارلیمانی لاجز کے باوجود ہاؤسنگ الاؤنس۔ 
یہی نہیں بلکہ موجودہ اور سابق تمام ارکان قومی اسمبلی اور ان کے اہل خانہ تاحیات 22 ویں گریڈ کے افسر کے برابر میڈیکل سہولت کے حقدار ہیں۔ تمام موجودہ اور سابق اراکین قومی اسمبلی کی اہلیہ اور شوہر تاحیات بلیو پاسپورٹ رکھنے کے بھی مجاز ہیں۔ سپیکر صاحبان نے جاتے جاتے خود کے لیے جو مراعات منظور کیں وہ داستان ہوش ربا اس سب سے الگ ہے۔ مسئلہ پارلیمان کے اخراجات ہی کا نہیں، مسئلہ کارکردگی کا بھی ہے۔ کارکردگی اگر اطمینان بخش ہو تو یہ اخراجات بھی گوارا کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہماری پارلیمان کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ حتیٰ کہ یہاں اب جو طرز گفتگو اختیار کیا جاتا ہے وہ بھی لمحہ فکریہ ہے۔ وہ زمانے بیت گئے جب نا مناسب گفتگو کو غیر پارلیمانی کہا جاتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ گالم گلوچ اور غیر معیاری خطابات فرمائے جاتے ہیں اور خواتین پر جوتے اچھالے جاتے ہیں۔ پارلیمان کو کسی کارپوریٹ میٹنگ جیسا تو یقینا نہیں بنایا جا سکتا اور اس میں عوامی رنگ بہر حال غالب ہی رہتا ہے لیکن رویے اگر ایک معیار سے گر جائیں تو پھر یہ تکلیف دہ صورت حال بن جاتی ہے۔ پارلیمان اسی بحران سے دوچار ہو چکی ہے۔
سوال اٹھایا جائے تو اراکین پارلیمان جواب آں غزل سناتے ہیں کہ فلاں اور فلاں کے اخراجات بھی تو ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ فلاں اور فلاں کے اخراجات کو بھی ایک حد میں پارلیمان نے ہی رکھنا ہے۔ پارلیمان اگر اپنے اخلاقی وجود کا تحفظ کرے تو پھر وہ اس ذمہ داری کو بھی نبھا سکتی ہے لیکن وہ اگر یہاں بے نیازی کرے تو پھر وہ فلاں اور فلاں کے اخراجات پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ ہمیں اس وقت معاشی مسائل کا حل چاہیے۔ صرف عوام کی رگوں سے بجلی گیس کے بلوں کے نام پر لہو نچوڑ لینا کوئی حکمت نہیں۔ کب تک اور کتنا نچوڑیں گے؟ اصل چیز معاشی بحالی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمان کا ماحول بہتر ہو اور یہاں سنگین موضوعات پوری معنویت سے زیر بحث آئیں۔
آصف محمود 
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
0 notes
newsupdate-nu · 5 months
Text
‫سانیا، ہینان نے فری ٹریڈ پورٹ کے لئے “ٹیکنالوجی اور جدت طرازی ہائی لینڈ” کی ایک نئی کاروباری تصویر بنائی
http://dlvr.it/T1STZy
0 notes
businessnewspakistan · 5 months
Text
‫سانیا، ہینان نے فری ٹریڈ پورٹ کے لئے “ٹیکنالوجی اور جدت طرازی ہائی لینڈ” کی ایک نئی کاروباری تصویر بنائی
http://dlvr.it/T1SGRf
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
پورٹ قاسم اور کراچی بندرگاہ پر بحری جہازوں کا رش، کام رک گیا
ایکسل لوڈ کے سبب کراچی کی بندرگاہوں پورٹ قاسم اورکراچی پورٹ پربحری جہازوں کا رش لگ گیا،مال بردارجہازوں پرلوڈنگ اورڈسچارجنگ کا عمل رک گیا۔ ذرائع کے مطابق ایکسل لوڈ معاملے کے باعث بندرگاہوں پربحری جہازوں کا رش لگ گیا، پورٹ قاسم اورکراچی پورٹ پرجہازوں پرلوڈنگ اورڈسچارنگ بند ہوگئی۔ کئی بحری جہاز لنگرانداز ہونے کیلیے خالی برتھوں کے منتظرہیں، لوڈنگ اورڈسچارنگ بند ہونے سے جہازمالکان کو ڈیمرجزکا خدشہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
گوادر پورٹ فورم کا ورچوئل انعقاد
گوادر پورٹ فورم کا ورچوئل انعقاد
گوادر (نمائندہ عکس) چائنا ایسوسی ایشن برائے فروغ بین الاقوامی اقتصادی اور تکنیکی تعاون کی اوورسیز یونائیٹڈ ورکنگ کمیٹی ، چائنا میڈیا گروپ کی اردو سرویس اور فرینڈز چائنا فورم کے اشتراک سے ” گوادر پورٹ فورم” کا ورچوئل انعقاد کیا گیا۔ہفتہ کے روز فورم میں چین اور پاکستان کی نمایاں شخصیات سمیت 100 سے زائد چینی کاروباری اداروں نے شرکت کی۔اس فورم کا مقصد چین پاکستان دوستی کے تناظر میں گوادر بندرگاہ کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amiasfitaccw · 4 months
Text
گوری میم کی چدائی
( قسط 3 )
کہا کہ ماموں کو آئے لینے دو میں ان کو بتاؤں گا کہ ان کے پیچھے آپ کس کس کے ساتھ گل چھرے اڑاتی رہتی ہو ۔۔ میری بات سنتے ہی ممانی کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا … اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بظاہر بولڈ …. لیکن نیم خوف ذده .. لہجے میں کہنے لگیں تت تم ايسا نہیں کر سکتے۔ پھر وہ بھپرے ہوئے لہجے میں بولیں۔۔۔۔ كان كھول کر سن لو مسر عدیل میرے بارے میں اگر تم نے ایک لفظ بھی اپنے ماموں سے کہا تو یاد رکھو میرے ساتھ تو جو ہو گا سو ہوگا ۔ لیکن اس کے بعد میں تم کو بھی ادھر نہیں رہنے دوں گی۔ بلکہ تمہیں اسی ماموں سے دھکے دے دے کر یہاں سے نہ نکلوایا تو میرا نام بهی ندرت نہیں۔۔۔ اس کے فوراً بعد وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بڑے ہی سرد لہجے میں کہنے لگیں … سنو مسٹر !!.. میں تمہیں آج رات کی مہلت دیتی اگر تم نے یہاں رہنا ہے تو جیسے میں چاہوں گی تمہیں ویسے ہی رہنا پڑے گا ۔ ورنہ یاد رکھو !!!!!!!! میری یہاں اتنی واقفیت ہے کہ میں تم پر پولیس کیس بنوا کر تمہیں ڈی پورٹ کروا دوں گی ……. اتنی بات کر کے ممانی تو پاؤں پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ جبکہ ادھر میرا غصے کے مارے برا حال ہو رہا تھا ۔ اگر اس وقت میرے پاس ماموں کا سیل نمبر ہوتا تو میں نے اسی وقت ان کو فون کر کے مامی کے سارے كرتوت بتا دینے تھے ۔ لیکن شکر ہے کہ میرے پاس ان کا فون نمبر نہ تھا…. لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ پولیس کا نام سن کر اندر سے میں بھی ڈر گیا تھا۔ چنانچہ میں غصے کے عالم میں ٹہلتا رہا اور ممانی اور خاص کر اس کی دھمکیوں کے بارے
میں سوچتا رہا. اسی دوران سوچتے سوچتے ۔ جب میرا غصہ کچھ کم ہوا …. تو مجھے ممانی کی پولیس اور ماموں کے ہاتھوں دھکے دے کر نکلوانے کی دھمکی یاد آ گئی اور میں یہ بات بھی اچھی طرح سے جانتا تھا کہ میرے ماموں پوری طرح سے اس چڑیل کے قبضے میں تھے۔ پھر میں نے سوچا کہ ماموں تو اس قدر مامی کے نیچے لگے ہوئے ہیں کہ اگر انہوں نے میری بات کا یقین نہ کیا تو ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔ اس سے آگے میں نہ سوچ سکا۔۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ میں اندیشہ ہائے دور دراز میں گھرنے لگا۔۔۔ کہ اگر ماموں نے میری بات نہ مانی۔۔۔۔ اور ثبوت لانے کو کہا --- تو ؟؟؟؟ یا اگر اس حرافہ نے مجھے پولیس پولیس کا خیال آتے ہی مجھے اپنا گھر بھی یاد آ گیا کہ جن کی قسمت سنوارنے کے لیئے میں پڑھائی چھوڑ کر امریکہ میں آیا تھا اس کے بعد وہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولا…..
جیسا کہ تم جانتے ہو کہ جب میں یہاں سے گیا تھا تو اس وقت میرے ابو ایک سرکاری دفتر میں ہیڈ کلرک کی پوسٹ پر تعینات تھے اور مجھے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ان کی تھوڑی سی تنخواہ میں ہم لوگ بمشکل گزارا کیا کرتے تھے ۔ اور خاص کر۔۔۔ مہینے کے آخر میں تو ہماری حالت بہت ہی زیادہ پتلی ہو جایا کرتی تھی جبکہ اس کے برعکس میری امی کے باقی رشتے دار بڑے امیر اوراچھے کھاتے پیتے لوگ تھے۔ اور ان رشتے داروں میں صرف امی ہی غریب تھیں ۔ اور تمہیں تو معلوم ہی ہو گا کہ فیملی فنگشنز میں امیر لوگوں کے ہاں ایک غریب رشتے دار کی کیا حالت ہوتی ہے ایسے موقعوں پر بے چارہ غریب نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا ۔ اور چونکہ ہم نے فیملی تقریبات میں ایسی ذلتیں بہت جھیلی تھی اسی لیئے اس غربت کو دور کرنے کے لیئے امی نے بڑے ترلے منتوں کے بعد مجھے امریکہ بجھوایا تھا اور آتے وقت بس ایک ہی بات کہی تھی کہ امریکہ جا کر میں ڈھیر سارے پیسے کماؤں تا کہ وہ بھی اپنی فیملی میں سر اُٹھا کر چل سکیں۔ چنانچہ امی کی اس بات…. اور گھر میں پھیلی ہوئی غربت کا خیال آتے ہی میں بلکل ٹھنڈا پڑ گیا ۔۔ اور سوچنے لگا کہ فرض کرو اگر میں ماموں کو اس بارے میں بتا بھی دوں تو ؟ اس کا مجھے کیا فائدہ ہو گا؟ بکہ اُلٹا نقصان ہونے کا شدید خدشہ تھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اس کے بعد ممانی نے مجھے نہیں چھوڑنا تھا۔ اتنی بات کرنے کے بعد عدیل نے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا یقین کرو شاه… وہ رات میرے لیئے بہت کرب والی رات تھا - میں ساری رات اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے سوچتا رہا اور پھر سوچ سوچ کر آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ …. دریا میں رہ کر مامی تو کیا۔۔۔۔ میں کسی بھی مگر مچھ سے بیر نہیں لوں گا بلکہ اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے بس ڈالر کماؤں گا … اس لیئے -- مامی جائے بھاڑ میں۔۔۔۔ وہ کسی ہندو سے چدوائے یا کسی کالے حبشی سے گانڈ مروائے۔ آئیندہ سے میں نے کسی پنگے
میں نہیں پڑنا اور امی کی فرمائیش پر ڈھیر سارے ڈالر کمانے ہیں تا کہ ہم لوگ بھی خاندان میں سر اُٹھا کر چل سکیں ۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد میں بہت پرسکون ہو گیا۔ اور پھر پلنگ پر جا کر لیٹتے ہی
سو گیا۔
Tumblr media
رات گئے سونے کے باوجود بھی صبح سویرے میری آنکھ کھل گئی۔ چنانچہ میں جلدی سے اٹھا …. اور ہاتھ منہ دھوئے بغیر ہی کمرے سے باہر نکل گیا دیکھا تو ماموں ابھی تک کام سے واپس نہیں آئے تھے ۔۔۔ جبکہ ندرت مامی ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی ان کی حالت کو دیکھ کر صاف پتہ چل رہا تھا کہ میری طرح انہوں نے بھی رات بہت ٹینشن میں گزاری تھی ۔ ۔۔۔ میں جھجک کر چلتا ہوا ان کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ ظاہر ہے کہ میرے آنے سے وہ پوری طرح باخبر تھیں لیکن بظاہر بڑی بے نیازی کے ساتھ ڈبل روٹی پر جیم لگا رہی تھیں۔ لیکن ان کی اس بے نیازی سے بھی ایک گہرا اضطراب - جھلک رہا تھا …. میں کچھ دیر یونہی کھڑا رہا ۔ اس دوران انہوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر اسی بے نیازی …. لیکن اضطراری حالت میں ڈبل روٹی پر جیم لگاتی رہیں ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے انہیں اپنی طرف مخاطب کیا اور پھنسی پھنسی آواز میں بولا ممانی جی آئی ایم سوری !!! رات جو کچھ بھی ہوا میں اس کے لیئے آپ سے معافی چاہتا ہوں ۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے معافی مانگنے کی بات سن کر مامی چونک اٹھیں تھیں اور میری معافی والی بات سے ۔۔۔ ان کے تنے ہوئے عضلات کافی ڈھیلے پڑ گئے تھے۔۔۔ لیکن بظاہر انہوں نے مجھ پر کچھ بھی ظاہر نہیں کیا بلکہ میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی طنز یہ لہجے میں کہنے لگیں ۔ رات کو تو تم کچھ اور کہہ رہے تھے تو اس پر میں نے بڑی شرمندگی سے جواب دیتے ہوئے کہا۔….. مامی جی میں رات والی بات پر ہی آپ سے ایکسپوز کرنے آیا ہوں۔ اس لیئے پلیز مجھے معاف کر دیں۔۔۔ میں وعده كرتا ہوں کہ آئیندہ سے آپ کے کسی بھی معاملے دخل اندازی نہیں کروں گا ۔۔ میری بات سن کر مامی کے چہرے پر ایک مخصوص قسم کی خبیث … لیکن فاتحانہ سی مسکراہٹ پھیل گئی اور انہوں نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے میری طرف ہاتھ بڑھایا اور کہنے لگیں تم ٹھیک کہہ رہے ہو؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی شرمندگی سے ہاتھ بڑھاتے ہوئے جواب دیا کہ مامی جی میں جو کہہ رہا ہوں خوب سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں میری بات مکمل ہوتے ہی مامی نے ایک گہری سانس لی .. اور پھر میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کرسی سے اُٹھیں اور مجھے گلے سے لگاتے ہوئے بولی شاباش عدیل !!!!! … اگر تم اپنی اس بات پر قائم رہے تو فائدے میں رہو گے ورنہ !!!!!!! - اپنے نقصان کے تم خود ذمہ دار ہو گئے۔ پھر کچھ دیر بعد میرے ساتھ ان کا رویہ پہلے جیسا ہو گیا بلکہ میں نے محسوس کیا کہ اس واقعہ کے بعد وہ میرے ساتھ پہلے سے کچھ زیادہ فری ہو گئیں تھیں ۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھولے سے بھی نارائن جی کے ساتھ ہونے والے اپنے افئیر کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔۔۔
لیکن پھر ایک دن کمال ہو گیا یہ اس واقعہ سے دو دن بعد کی بات ہے اس دن ماموں کی نائیٹ تھی وہ ہفتے میں ایک آدھ ہی نائیٹ کرتے تھے۔ ڈنر کے کافی دیر بعد …. مامی میرے پاس آئی اس وقت میں پلنگ پر لیٹا سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ انہوں نے دروازے میں جھانک کر ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر بڑے ہی دو معنی الفاظ میں بولی … میں ذرا نیچے جا رہی ہوں ۔ مامی کے منہ سے یہ بات سنتے ہی میرے سارے بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی اور میں یہ سوچ کر ایک دم سے گرم ہو گیا ۔۔۔ کہ میرے بیڈ کے عین نیچے والے کمرے میں مامی اس ہندو نارائن سے چدوانے جا رہی تھی۔ اور یہ خیال آنے کی دیر تھی کہ اچانک ہی میرا لن تن کر کھڑا ہو گیا ۔ اور میں نے بے اختیار ) اسے ہاتھ میں پکڑ کر سہلانا شروع کر دیا۔۔۔۔ مامی کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد مجھے اپنی کھڑکی میں سے ( جو کہ اس وقت کھلی ہوئی تھی ) ایک تیز سسکی سنائی دی ۔۔ اس سسکی کا سننا تھا کہ اچانک میرے دل میں یہ زبردست خواہش جاگی کہ کیوں نہ مامی کا لائیو شو دیکھا جائے۔ اس خواہش کا ذہن میں آنے کی دیر تھی کہ میں بے حد بے چین ہو گیا …… میں نے اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹکنے کی بڑی کوشش کی ……. لیکن جوں جوں میں اسے اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کرتا توں توں یہ خیال اتنی ہی شدت سے ابھرکر ۔۔۔ میرے سامنے آ جاتا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں زیادہ قصور مامی کا تھا جو کہ عین میری کھڑکی کے نیچے اونچی آواز میں مست اور شہوانی سسکیاں بھر رہی تھیں جنہیں سن سن کر میں پاگل ہوا جا رہا تھا………. ادھر جب میری یہ خواہش حد سے زیادہ بڑھ گئی تو آخر کار مجبور ہو کر میں اپنے پلنگ سے نیچے اترا اور بڑے محتاط طریقے سے چلتا ہوا گیلری کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات کا دھڑ کا بھی لگا ہوا تھا کہ اگر مامی نے مجھے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو وہ میرے ساتھ بڑا برا سلوک کرے گی ۔ لیکن اس کے باوجود بھی میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے۔۔۔۔ دھیرے دھیرے سیڑھیاں اترنے لگا۔۔۔۔ ۔۔۔
Tumblr media
جیسے جیسے میں سیڑھیاں اترتا گیا ویسے ویسے -- مامی کی مست سسکیوں کی آوازیں اور بھی نمایاں ہونا شروع ہو گئیں۔۔۔ جنہیں سن سن کر میرا لن مزید تن گیا ۔ سیڑھیوں کے قریب ہی نارائن صاحب کا کمرہ واقع تھا چنانچہ جیسے ہی میں آخری سیڑھی اترا اور نارائن کے دروازے کی طرف دیکھا تو اس کے دونوں پٹ پوری طرح سے کھلے ہوئے تھے ان لوگوں نے دروازہ بند کرنے کی زحمت ہی نہیں گوارا کی تھی۔ یہ دیکھ کر میں خاصہ مایوس ہوا ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اب میں کیا کروں ؟ کہ۔۔۔ اسی اثنا میں مامی کی شہوت سے بھر پور سسکی سنائی دی اوووچ چ چ چ جسے سنتے ہی میرے لن کو ایک شدید جھٹکا لگا۔ عین اسی وقت میرے ذہن میں اس کھڑکی کا خیال آ گیا جو کہ میری کھڑکی کے بلکل نیچے واقع تھی یہ خیال آتے ہی میں بڑے ہی محتاط قدم اٹھاتا
ہوا کمرے کے پچھلی طرف چل پڑا کہ جہاں پر یہ کھڑکی واقع تھی توقع کے عین مطابق نارائن کے کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی میں سر جھکا کر چلتا ہوا جا کر کھڑکی کے نیچے بیٹھ گیا کمرے سے روشنی چھن چھن کر باہر آ رہی تھی چونکہ ان کی کھڑکی پر جالی لگی ہوئی تھی …. اور ویسے بھی کمرے میں فل لائٹس آن تھیں اس لیئے اندر سے باہر کا منظر دیکھے جانے کا کوئی احتمال نہ تھا البتہ باہر سے اندر کا سارا منظر صاف نظر آ رہا تھا ….تمام سچوئیشن کا جائزہ لے کر میں نے ۔۔۔ دھیرے دھیرے ۔۔۔ لیکن بڑے محتاط طریقے سے اپنا سر اٹھایا اور دھڑکتے دل کے ساتھ کھڑکی کے ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ اس وقت میرا جسم پسینے میں شرابور ….. اور دل دھک دھک ….. کر رہا تھا۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ مامی کے خوف سے میری ٹانگیں بھی کانپ رہیں تھیں . لیکن مجھ پر ان کا سیکس سین دیکھنے کا اس قدر شوق چڑھا ہوا تھا کہ اتنے بڑے رسک کے باوجود میں نے کانپتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ۔۔۔ دھیرے دھیرے سر اُٹھا کر اندر کی جانب دیکھا…
واوْ وَوَوَووَووَووَو اندر کا منظر بہت گرم اور ہوش ربا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ مامی اور نارائن کے کپڑے فرش پر پڑے ہوئے تھے جبکہ مامی پلنگ سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی اور نارائن مامی کی چھاتیوں کو چوس رہا تھا ویسے تو میں ڈھکے چھپے انداز میں مامی کی چھاتیاں کو روز ہی دیکھا کرتا تھا لیکن آج پہلی دفعہ ان کی چھاتیوں کو پوری طرح ن��گا دیکھنے کا موقع مل رہا تھا - أف ف ف فف …. کیا بتاؤں دوستو مامی کی چھاتیاں فٹ بال کے سائز سے تھوڑی ہی چھوٹی ہوں گی لیکن تھیں اسی کی طرح گول اور …… ان گول گول چھاتیوں کے آگے ان کے موٹے موٹے نپلز اکڑے ہوئے کھڑے تھے نارائن کے ایک ہاتھ میں مامی کی چھاتی کا نپل تھا جبکہ مامی کی دوسری چھاتی اس کے منہ میں تھی اور وہ اسے بڑے جوش خروش کے ساتھ چوس رہا تھا۔ یہ دل کش اور سیکس بهرا نظارہ دیکھ کر میں وقتی طور پر اپنا سارا ڈر اور خوف بھول گیا۔۔۔ اور بڑے دھیان سے اندر کا منظر دیکھنے لگا ۔۔۔ ادھر مامی کی چھاتی کو چوستے چوستے جیسے ہی نارائن ان کے نپل پر ہلکا سا کاٹتا تو مامی کے منہ سے ایک جل ترنگ سی دل کش اور لذت بهری چیخ نکلتی جسے سن کر ایک دفعہ تو نارائن نے ان سے کہہ بھی دیا تھا کہ - آہستہ چیخ سالی کہیں تمہارا بھانجھا نہ اُٹھ جائے۔۔ تو اس کی بات سن کر مامی بڑی ادا سے کہنے لگی۔ تم بھا نجے کی بات کر رہے ہو۔۔۔۔۔ میری طرف سے چاہے پوری بلڈنگ اُٹھ جائے ۔۔۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ تم بس میری چھاتیاں چوسو ا ور….. چوستے جاؤ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مامی کو اپنی چھاتیاں چسوانا بہت اچھا لگتا تھا ) چنانچہ نارائن نے ان کے نپل پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ وہ تو میں چوس ہی رہا ہوں ۔۔ لیکن پھر بھی ڈارلنگ ……. احتیاط اچھی ہوتی ہے ۔ نارائن کی بات سن کر مامی
نے اپنی لیفٹ چھاتی کو اس کے منہ سے نکالا اور رائیٹ والی چھاتی کو اس کے منہ میں دیتے ہوئے بولی ۔ اس بات کی تم فکر نہ كرو ! میرا بهانجها بڑی گہری نیند سوتا ہے اس کے ساتھ ہی مامی کی آہوں اور سسکیوں کا وہی کھیل دوبارہ سے شروع ہو گیا۔۔۔۔ مامی کی دل کش اور لذت بھری چیخیں سن سن کر میں بڑا بے چین ہو گیا تها … اور اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑے اسے بری طرح سے مسل رہا تھا۔۔۔ جبکہ دوسری طرف نارائن بھی بڑی بے دردی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ مامی کی تنی ہوئی چھاتیوں کو ندیدنوں کی طرح چوس رہا تھا بلکہ وہ ترنگ میں آ کر بار بار ان پر دانت بھی کاٹ رہا تھا … پھر اچانک ہی مامی نے اپنی چھاتیوں کو نارائن کے چنگل سے آزاد کروایا اور بیڈ پر کھڑی ہو گئی اور بنا کچھ کہے اپنی دونوں ٹانگوں کو آخری حد تک کھول دیا۔ یہ دیکھ کر نارائن بھی گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا ادھر مامی کی یہ پوزیشن دیکھ کر ۔۔ میں سمجھ گیا کہ اب وہ نارائن سے اپنی چوت چٹوانے والی ہیں ۔ پھر وہی ہوا. مامی نے نارائن کو بالوں سے پکڑا اور بڑی مست آواز میں کہنے لگی ۔ چل میرے کتے ۔۔ پھدی چاٹ مامی کی یہ بات سن کر حیرت انگیز طور پر نارٹن نے اپنے منہ کو مامی کی کھلی ٹانگوں کی طرف کیا … اور پھر کتے کی طرح اپنی زبان کو منہ سے باہر نکالا
(جاری ہے)....
Tumblr media
2 notes · View notes
jhelumupdates · 11 days
Text
سعودی عرب سے 92 پاکستانی نرسیں ڈی پورٹ، جعلسازی میں ملوث ملزمان گرفتار
0 notes