Tumgik
#چوہدری
apnibaattv · 2 years
Text
فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کو بتایا کہ 'وزیراعظم ہاؤس میں بات کرنا محفوظ نہیں'
فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کو بتایا کہ ‘وزیراعظم ہاؤس میں بات کرنا محفوظ نہیں’
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری۔ فائل فوٹو آڈیو لیکس کے ایک سلسلے کے بعد ایک چونکا دینے والی پیش رفت میں، سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بدھ کے روز دعویٰ کیا کہ چیف آف آرمی سٹاف (سی او اے ایس) جنرل قمر جاوید باجوہ نے سابق وزیراعظم عمران خان کو متعدد بار آگاہ کیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس اہم بات چیت کے لیے غیر محفوظ ہے۔ ایک نجی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ آرمی چیف نے اس وقت کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
امید ہے لاہورہائیکورٹ حمزہ شہباز کا الیکشن کالعدم قرار دے گی، فواد چوہدری
امید ہے لاہورہائیکورٹ حمزہ شہباز کا الیکشن کالعدم قرار دے گی، فواد چوہدری
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ امید ہے لاہورہائیکورٹ حمزہ شہباز کا الیکشن کالعدم قرار دے گی۔ سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بی اے پی رکن نے کہا ٹیلی فون کال پر اجلاس کا بزنس چل رہا ہے، کہاجارہا ہے اسمبلی اجلاس ایجنڈے پر نہیں کالز پر چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی استحکام کیلئے انتخابات کی طرف جانا ہوگا، آئین…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 2 years
Text
ظہور الٰہی سے مونس الٰہی تک: چوہدری خاندان کے سیاسی داؤ پیچ
ظہور الٰہی سے مونس الٰہی تک: چوہدری خاندان کے سیاسی داؤ پیچ
پاکستان کی سیاست میں متحرک چند بڑے خاندانوں کی اجارہ داری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس اجارہ داری کو موروثی سیاست سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان موروثی سیاسی خاندانوں میں بھٹو خاندان، شریف خاندان اور گجرات کا چوہدری خاندان قابل ذکر ہیں۔ ان خاندانوں کی سیاست نے کئی مرتبہ ملکی تاریخ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا۔ ان خاندانوں کے اندر سیاسی اختلافات نے ہمیشہ ہی شہ سرخیوں میں جگہ پائی ہے۔ جیسے حال میں گجرات کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
c002a7134 · 2 years
Text
Tumblr media
✿ معنى حديث (لا يغرنكم الساطع المصعد)  :
في قول النبي ﷺ : " لا يغرنكم الساطع المصعد -أي الفجر الكاذب- حتى يعترض لكم الأحمر -أي الفجر الصادق- " ،
قال ثعلب : ( المراد بالأحمر : الأبيض ؛ لأن الحمرة إنما تبدو في البياض ، قال : والعرب لا تطلق الأبيض في اللون ، وإنما تقوله في نعت الطاهر والنقي والكريم ونحو ذلك ) .
📚 فتح الباري ( ٤٥٣/٩ ) .
3 notes · View notes
urduchronicle · 3 months
Text
راولپنڈی میں سابق رکن پنجاب اسمبلی چوہدری عدنان ڈرائیور سمیت قتل
راولپنڈی کے تھانہ سول لائن کے علاقے میں سابق ایم پی اے اور  امیدوار صوبائی اسمبلی چودھری عدنان فائرنگ کے واقعہ میں جاں بحق ہوگئے، چوہدری عدنان کے ڈرائیور زاہد حفیظ بھی اسپتال میں دم توڑ گئے۔  سی پی او راولپنڈی سید خالد ہمدانی نے سابق ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری عدنان کے قتل کے واقعہ کا نوٹس لے لیا اور ایس پی پوٹھوہار کو واقعہ میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری یقینی بنانے  کا حکم دیا ہے۔ واقعہ کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
6 ماہ بعد انتخابات ہونے ہیں، صوبے میں گورنر راج نافذ نہیں کرنا چاہتا،گورنر کے پی
6 ماہ بعد انتخابات ہونے ہیں، صوبے میں گورنر راج نافذ نہیں کرنا چاہتا،گورنر کے پی
پشاور(نمائندہ عکس) گورنر خیبرپختونخوا غلام علی نے کہا ہےکہ 6 ماہ بعد ملک میں انتخابات ہونے ہیں لہذا صوبے میں گورنر راج نافذ نہیں کرنا چاہتا۔ گورنرخیبرپختونخوا غلام علی نے وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کو ٹیلی فون کیا جس دوران ملک کی سیاسی صورتحال پرگفتگو کی کی گئی۔ گورنر خیبرپختونخوا نے وزیراعلی پنجاب کو گورنر ہاس آنےکی دعوت دی اور ساتھ ہی شکوہ کیا کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے مبارک تک نہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
newstimeurdu · 2 years
Text
90 دن سے ایک روز بھی آگے کی حکومت منظور نہیں، فواد چوہدری
90 دن سے ایک روز بھی آگے کی حکومت منظور نہیں، فواد چوہدری
سابق وفاقی وزیر فوادچودھری کا کہنا ہے کہ نئی حلقہ بندیا ں غیر قانونی ہے، مردم شماری کے بعد حلقہ بندی کرائی جاسکتی ہے،  اگر نئی حلقہ بندیاں ہوں گی تو الیکشن نہیں ہوں گے۔ سپرریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہر وقت انتخابات کے لیے تیار رہنا چاہیے، نئی حلقہ بندیوں سے متعلق معاملے میں الیکشن کمیشن کی بدنیتی شامل ہے۔ ملک میں 2وزرئے اعظم ہیں، حکومت کو آئے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduclassic · 1 year
Text
شعر و ادب کی منفرد آواز ضیا محی الدین
Tumblr media
معروف ہدایت کار ضیا محی الدین نے 1949ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا، انہوں نے آسٹریلیا اور انگلینڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ 1956ء میں وہ وطن واپس لوٹے تو انہیں فلم ’لارنس آف عربیہ‘ میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے تھیٹر کے کئی ڈراموں اور ہالی وڈ کی کئی فلموں میں کردار ادا کیے تھے، انہوں نے 1962 میں مشہور فلم ’لارنس آف عربیہ‘ میں لازوال کردار ادا کیا۔ 1970ء میں انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ’ضیا محی الدین شو‘ کے نام سے ایک اسٹیج پروگرام کی میزبانی کی تھی۔ ضیا محی الدین نے پاکستان ٹیلی وژن سے جو پروگرام پیش کیے ان میں پائل، چچا چھکن اور جو جانے وہ جیتے کے نام سر فہرست ہیں۔ وہ اردو ادب کے فن پارے اپنی خوب صورت آواز میں پیش کرنے میں بھی ماہر تھے، انہیں 2004ء میں کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔
Tumblr media
ضیا محی الدین کو 2012 میں ہلال امتیاز ایوارڈ سمیت متعدد ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ اردو ادب کے ممتاز و معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی نے ضیا محی الدین کے بارے میں کہا تھا کہ رتن ناتھ سرشار، چوہدری محمد علی ردولوی، فیض احمد فیض اور پطرس کی تصانیف کے شہ پارے ضیا محی الدین نے پڑھے ہیں وہ جہاں لکھنے والے کے کمال فن کا نمونہ ہیں وہاں پڑھنے اور پیش کرنے والے کے حسن انتخاب، سخن فہمی، نکتہ سمجھنے اور سمجھانے کی اہلیت، لفظ کا مزاج اور لہجہ اور لہجے کا ٹھاٹ پہچان کی صلاحیت کا صحیح معنوں میں منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضیا محی الدین واحد ادبی شخصیت ہیں جن کے پڑھنے اور بولنے کے ڈھنگ کو عالمی شہرت نصیب ہوئی۔
بشکریہ ڈان نیوز
3 notes · View notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
’’ مجھے بھی پتا ہے اور تم بھی جانتے ہو کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ تم اس واقعہ کی مذمت کرو گے، تحقیقات کا اعلان کرو گے مگر ہم دونوں جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا کہ یہ قتل تمہاری ناک کے نیچے ہی ہو گا۔ بس مجھے فخر ہے کہ میں نے سچ کے راستے کو نہیں چھوڑا۔‘‘ یہ طاقتور تحریر آج سے کئی سال پہلے جنوری 2009 میں سری لنکا کے ایک صحافی LASANTA WICKRAMATUNGA نے اخبار‘دی سنڈے لیڈر، میں اپنے قتل سے دو دن پہلے تحریر کی۔ بس وہ یہ لکھ کر دفتر سے باہر نکلا تو کچھ فاصلے پر قتل کر دیا گیا۔ اس کی یہ تحریر میں نے اکثر صحافیوں کے قتل یا حملوں کے وقت کے لیے محفوظ کی ہوئی ہے۔ اس نے اپنے اداریہ میں اس وقت کے صدر کو جن سے اس کے طالبعلمی کے زمانے سے روابط تھے مخاطب کرتے ہوئے نہ صرف وہ پرانی باتیں یاد دلائیں جن کے لیے ان دونوں نے ساتھ جدوجہد کی بلکہ یہ بھی کہہ ڈالا،’’ میں تو آج بھی وہیں کھڑا ہوں البتہ تم آج اس مسند پر بیٹھ کر وہ بھول گئے ہو جس کے خلاف ہم دونوں نے ایک زمانے میں مل کر آواز اٹھائی تھی‘‘۔ 
مجھے ایک بار انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی طرف سے سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا جہاں وہ صحافیوں کو درپیش خطرات پر تحقیق کر رہے تھے۔ یہ غالباً 2009-10 کی بات ہے وہاں کے حالات بہت خراب تھے۔ بہت سے صحافی ہمارے سامنے آکر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کئی نے نامعلوم مقامات سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کس قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔ کچھ ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے کینیا کے شہر نیروبی میں قتل کی خبر آئی تو میری طرح بہت سے صحافیوں کے لیے یہ خبر نہ صرف شدید صدمہ کا باعث تھی بلکہ ناقابل یقین تھی۔ واقعہ کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب حقیقت کیا ہےاس کا تو خیر پتا چل ہی جائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ ایک صحافی کو ملک کیوں چھوڑ کر جانا پڑا؟ اس کی تحریر یا خیالات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر کیا کسی کو اس کے خیالات اور نظریات پر قتل کرنا جائز ہے۔ ہم صحافی تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا۔
ارشد نہ پہلا صحافی ہے جو شہید ہوا نہ آخری کیونکہ یہ تو شعبہ ہی خطرات کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک صحافی کا قتل دوسرے صحافی کے لیے پیغام ہوتا ہے اور پھر ہوتا بھی یوں ہے کہ بات ایک قتل پر آکر نہیں رکتی، ورنہ پاکستان دنیا کے تین سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل نہ ہوتا جہاں صحافت خطرات سے خالی نہیں جب کہ انتہائی مشکل ہے مگر مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اس سے پہلے کبھی کسی پاکستانی صحافی کا قتل ملک سے باہر ہوا ہو۔ ویسے تو پچھلے چند سال سے انسانی حقوق کے کچھ لوگوں کے حوالے سے یا باہر پناہ لینے والے افراد کے حوالے سے خبریں آئیں ان کے نا معلوم افراد کے ہاتھوں قتل یا پراسرار موت کی، مگر ارشد غالباً پہلا صحافی ہے جو اپنے کام کی وجہ سے ملک سے باہر گیا اور شہید کر دیا گیا۔ ہمارا ریکارڈ اس حوالے سے بھی انتہائی خراب ہے جہاں نہ قاتل پکڑے جاتے ہیں نہ ان کو سزا ہوتی ہے۔ اکثر مقدمات تو ٹرائل کورٹ تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ تحقیقاتی کمیشن بن بھی جائے تو کیا۔ 
میں نے اس شہر میں اپنے کئی صحافیوں کے قتل کے واقعات کی فائل بند ہوتے دیکھی ہے۔ 1989 سے لے کر2022 تک 130 سے زائد صحافیوں کا قتل کراچی تا خیبر ہوا مگر تین سے چار کیسوں کے علاوہ نہ کوئی پکڑا گیا نہ ٹرائل ہوا۔ مجھے آج بھی کاوش اخبار کے منیر سانگی جسے کئی سال پہلے لاڑکانہ میں با اثر افراد نے قتل کر دیا تھا کی بیوہ کی بے بسی یاد ہے جب وہ سپریم کورٹ کے باہر کئی سال کی جدوجہد اور انصاف نہ ملنے پر پورے کیس کی فائلیں جلانے پہنچ گئی تھی۔ میری درخواست پر اس نے یہ کام نہیں کیا مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا اس وقت کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے درخواست کے سوا، مگر اسے انصاف نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ہمارے ایک ساتھی حیات اللہ کی ہاتھ بندھی لاش اس کے اغوا کے پانچ ماہ بعد 2005 میں ملی تو کیا ہوا۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنا۔ 
اس کی بیوہ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے بیان دیا اور ان لوگوں کے بارے میں بتایا جواس کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ وہ بھی مار دی گئی۔ میں نے دو وزرائے داخلہ رحمان ملک مرحوم اور چوہدری نثار علی خان سے ان کے ادوار میں کئی بار ذاتی طور پر ملاقات کر کے درخواست کی کہ کمیشن کی رپورٹ اگر منظر عام پر نہیں لاسکتے تو کم ازکم شیئر تو کریں مگر وہ فائل نہ مل سکی۔ صحافی سلیم شہزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک نجی چینل پر پروگرام کرنے گیا تھا واپس نہیں آیا۔ یہ واقعہ اسلام آباد کے قریب پیش آیا۔ صبح سویرے اس کی بیوہ نے مجھے فون کر کے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ مجھ سے تو کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اس پر بھی ایک عدالتی کمیشن بنا اس نے ایک مفصل رپورٹ بھی تیار کی اور ٹھوس تجاویز بھی دیں مگر بات اس سے آگے نہیں گئی۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں کس کس کا ذکر کروں مگر صحافت کا سفر جاری رکھنا ہے۔ ناظم جوکھیو مارا گیا مگر قاتل با اثر تھے سیاسی سرپرستی میں بچ گئے بیوہ کو انصاف کیا ملتا دبائو میں ایک غریب کہاں تک لڑ سکتا ہے۔
ہر دور حکومت میں ہی صحافی اغوا بھی ہوئے، اٹھائے بھی گئے دھمکیاں بھی ملیںاور گمشدہ ہوئے پھر کچھ قتل بھی ہوئے سب کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نامعلوم کون ہیں پھر بھی حکمران اپنی حکومت بچانے کی خاطر یا تو بعض روایتی جملے ادا کرتے ہیں یا خود بھی حصہ دار نکلتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں محترمہ شیریں مزاری کی کاوشوں سے ایک جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور ہوا تھا۔ ایسا ہی سندھ اسمبلی نے بھی قانون بنایا ہے۔ اب اسلام آباد کمیشن کے سامنے ارشد شریف کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے جبکہ سندھ کمیشن کے قیام کا فیصلہ بھی فوری اعلان کا منتظر ہے۔ اتنے برسوں میں صحافیوں کے بہت جنازے اٹھا لیے ، حکومتوں اور ریاست کے وعدے اور کمیشن بھی دیکھ لیے۔ انصاف کا ترازو بھی دیکھ لیا، اب صرف اتنا کہنا ہے؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے   مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ  
2 notes · View notes
jhelumupdates · 5 hours
Text
دینہ: سیاسی و سماجی شخصیت چوہدری خالد حسین کی وفد کے ہمراہ ڈاکٹر فضل الحق سے ملاقات
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
عمران خان اور فواد چوہدری نے توہین عدالت کیس میں ای سی پی کے شوکاز نوٹس کو چیلنج کردیا۔
عمران خان اور فواد چوہدری نے توہین عدالت کیس میں ای سی پی کے شوکاز نوٹس کو چیلنج کردیا۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری اور پارٹی چیئرمین عمران خان۔ – ٹویٹر/فائل اسلام آباد: پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنما فواد چوہدری نے چیلنج کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ان کے، چوہدری اور اسد عمر کے خلاف توہین عدالت کیس میں شوکاز نوٹس۔ تینوں افراد کو ای سی پی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی توہین پر نوٹس جاری کیا گیا۔ کے لئے مشورہ کے طور پر خان اور فواد، فیصل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
فواد چوہدری نے خواجہ آصف کو ماہرِ نفسیات سے معائنے کا مشورہ دے دیا
فواد چوہدری نے خواجہ آصف کو ماہرِ نفسیات سے معائنے کا مشورہ دے دیا
تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری نے خواجہ آصف کو ماہرِ نفسیات سے فوری معائنے کا مشورہ دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق اپنے ایک بیان میں تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری نے خواجہ آصف کو ماہرِ نفسیات سے فوری معائنے کا مشورہ دیا جبکہ فواد چوہدری نے طبی معائنہ مکمل ہونے تک قلمدان واپس لینے کی بھی صلاح دی۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف کو دفاع کا وزیر لگانا خطرناک ہے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
muhammad-rehman · 23 days
Text
"افسانچہ"
الو کا پٹھا
بن بلاۓ مہمانوں کی آمد کا سن کر لمحہ بھر کے لیۓ چوھدری صاحب حقے کا کش لگانا بھول گئے!
بےچارے نام کے ھی چوھدری تھے، آمدنی محدود تھی، اور اخراجات زیادہ،
سفید پوشی کا بھرم رکھنا دشوار ھو گیا تھا،
مہمان کمرے میں آبیٹھے،تو کچھ دیر بعد وہ باہر نکلے اور نوکر کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا،
"گھر میں تو سبزی ھے یا دالیں"نوکر نے دبی آواز میں کہا،
"وہ مرغی کس کی پھر رھی ھے" انہوں نے صحن کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ھوۓ کہا،
ہمسائیوں کی ھے"دانہ دنکا چگنےآ جاتی ھے،
دانہ چگنے یا بیٹیں کرنے،پکڑ اور ذبح کر اسے، انہوں نے رعب دار آواز میں کہا اور اندر چلے گئے.
وہ مہمانوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ نوکر نے دروازہ بجا کر انہیں باہر بلایا اور ڈرتے،ڈرتے کہا،
چوہدری جی؛ ذبح کرتے ھوۓ گردن علیحدہ ھو گئ ھے."مرغی حرام ھو گئ ھے جی،
"الو کا پٹھا"
چوہدری صاحب کا پارہ چڑھ گیا،
اور کہنے لگے
پہلے حلال تھی کیا؟
پکا سالن۰۰۰۰😄🤣
1 note · View note
amiasfitaccw · 1 month
Text
ڈاکٹر ہما بشیر
قسط 01
ڈاکٹر ہما بشیر کا تعلق ایک 28 سال کی ایک بہت ہی خوبصورت اور جوان لڑکی تھی۔ بے حد گوری رنگت ، چکنا جسم، چھوڑ تو ہاتھ پھسلتا ہی جائے جسم پر سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے دودھ اور مکھن سے تراشا ہوا جسم ہوا سکا۔ مناسب قد، لیے سیاہ بال ، ہلکی سی نیلی آنکھیں، بے حد خوش مزاج اور ہنس مکھ لڑ کی۔ ویسا ہی شوہر اسے ملا تھا۔ انور بھی اپنے حسن اور وجاہت میں اپنی مثال آپ تھا۔ مناسب قد ، گورا رنگ ، مضبوط جسم اور پیار کرنے والا۔ دونوں کی جوڑی خوب جچتی تھی۔ جو بھی دیکھا تو دیکھتاہی رہ جاتا اور انکی جوڑی کی تعریف کیلئے بنا نہ رہ سکتا تھا۔ اگرچہ ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کر چکی ہوئی تھی اور شادی کو بھی ڈیڑھ سال ہو چکا تھا مگر دیکھنے میں ابھی بھی ایک کمین معصوم سی لڑکی ہی لگتی تھی۔ دل کی بہت اچھی تھی۔ غرور اور بد مزاجی تو اسکے مزاج میں دور دور تک نہیں تھی۔ کسی کو تکلیف دینے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ دوسروں پر بہت جلدی اعتبار کر لینے اور انکی باتوں میں آجانے والی نیچر تھی ہمائی۔ تعلق اس کا ایک متوسط گھرانے سے تھا جو کہ انتہائی شریف لوگ تھے۔ والد اسکے ایک سرکاری ملازم تھے۔ اپنی
زندگی میں پیسہ سے زیادہ انہوں نے عزت ہی بنائی تھی
Tumblr media
تعلیم مکمل ہونے کے بعد جب ہما کی شادی کی بات چلی تو انکے ایک بہت جگری دوست نے اپنے بیٹے کارشتہ پیش کیا جسے ہما کے والد نے بخوشی قبول کر لیا۔ اپنے والد کے فیصلے کو مانتے ہوئے اس نے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ابو کے دوست کے بیٹے سے شادی کو ہاں کر دی تھی۔ اسکے ابو کے دوست کا بیٹا انور ایک فرم میں انجینئر تھا۔ اچھی جاب تھی۔ انور کے والد گاؤں میں ہی رہتے تھے اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ۔ بھی دل کرتا تو شہر میں آ جاتے کچھ دن انور کے پاس رہنے کے لیے اور ہی چلے جاتے۔ ساتھ پینسٹھ سال کی عمر میں بھی چوہدری کرامت مکمل فٹ آدمی تھے۔ بڑا بیٹا عابد بھی پڑھا لکھاتھا مگر اب اپنے باپ کے ساتھ گاؤں میں ہی رہ گیا ہوا تھا اور اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ ہما بھی اس خاندان میں آکر بہت ہی خوش تھی۔ ساس اسکی تھی نہیں جس سے کسی بات پر اور بیچ بیچ ہوتی اور سسر تو تھے ہی بہت اچھے انسان۔
ہما اپنے شوہر انور کے ساتھ بہت خوش تھی۔ وہ اسکا بہت خیال رکھتا تھا یہ دونوں شہر میں ایک بلڈ نگ کی چوتھی منزل کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ اس سے اوپر کی منزل ابھی زیر تعمیر تھی جس میں بلڈ نگ کے سیکورٹی گارڈ رہتے تھے۔ ہما شادی کے ایک سال بعد تک ہما گھر پہ ہی رہی مگر شوہر کے ڈیوٹی پر چلے جانے کے بعد اسکا دل نہیں لگتا تھا۔ آخر اس نے جاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ انور نے بھی خوشدلی سے اسے اجازت دے دی۔ کیونکہ وہ بھی اپنی خوبصورت بیوی کی خوشی میں ہی خوش تھا۔
Tumblr media
پرائیویٹ ہسپتال میں رات کو کام تو اتنازیادہ نہیں ہوتا تھا بس جیسے ہی وہ اپنے اپنے کام سے یعنی مریض دیکھنے سے فارغ ہوتے اور کسی ایک کے آفس میں بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگتے۔ آخر دونوں نے اور کرناہی کیا تھا۔ کبھی زمان چائے منگواتا تو کبھی ہما اور کبھی کچھ کھانے پینے کا پروگرام بھی بن جاتا تو وہ بھی چلتارہتا اور بس ایسے ہی ہنسی کھیل میں بہا کی ڈیوٹی گزرنے لگی۔ وہ اب اپنے فارغ پن سے بھی نجات پاچکی تھی اور زمان کی شکل میں اسے ایک اچھا دوست بھی مل گیا تھا۔ہما ایک لڑکی تھی تو زمان کی اسکے اندر دلچسپی کو وہ کیسے محسوس نہ کر پاتی۔ اسے بھی احساس ہونے لگا کہ زمان اسکو
پسند کرتا ہے اور اسی لیے وہ اسکے ارد گرد ہی منڈلاتا رہتا ہے۔ ویسے بھی عورت بھی تو آخر انسان ہی ہوتی ہے نا تو
جیسے مرد کا دل باہر نظر آنے والی کسی بھی خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر مچل جاتا ہے تو ایسے ہی عورت کا بھی کسی پرائے
مرد کو دیکھ کر اس میں دلچسپی لینا بھی کوئی بڑی یا بری بات تو نہیں نا۔ اور یہ اکثر ایسا ہوتا ہے۔ مگر مردوں کے
بر عکس عور تیں اپنی اس قسم کی پسند کو بڑے سلیقے سے اپنے دل میں ہی چھپا جاتی ہیں ۔ کچھ ایسا ہی حال ہما کی بھی
تھا۔
Tumblr media
اسے بھی زمان اچھا تو لگتا تھا مگر وہ کوئی بھی قدم آگے بڑھانے سے ڈرتی یا بجاتی تھی۔
ہمالباس کے معاملے میں فیشن کا کافی خیال رکھتی تھی اور جب سے جاب پر آنے لگی تھی زمان کے ساتھ تو اور بھی اپنے پہنا دے کا خیال رکھتی تھی۔۔ فیشن کے مطابق ہی کپڑے پہنے کا شوق تھا اسکو۔۔ ہر طرح کے کپڑے پہننے کی اجازت تھی اسکو اپنے شوہر کی طرف سے۔۔ وہ اکثر قمیض ، شلوار یا نا ئٹس ، لیکی یا جینز پہنتی تھی۔ ہر لباس ہی اسکے کھلتے ہوئے خوبصورت جسم پر بچتا تھا۔۔ جب بھی ٹائٹس پہنتی تو اسکے جسم کے نشیب و فراز دلوں پر بجلیاں ہی
گراتے تھے۔ اور ایسی ہی بجلیاں ڈاکٹر زمان کہ گھائل کر چکی ہوئی تھی۔ ڈیوٹی پر موجود ایک نرس زیب سے ہما کی اچھی دوستی تھی وہ بھی ہا کو چھیڑ تی کہ زمان اسکو پسند کرنے لگا ہے۔ زیب: ڈاکٹر ہما آپ نے نوٹ نہیں کیا شائد کہ ڈاکٹر زمان ہر وقت آپکے ارد گرد ہی پھرتے رہتے ہیں۔ زیب نے اس وقت یہ بات کی جب زمان ایک مریض کو دیکھنے گیا ہوا تھا۔ اسکی بات سن کر ہما کے گورے گورے چہرے پہ ایک ہلکا سا سرخ رنگ لہرا کر گزر گیا اور وہ دھیرے سے مسکر اکر بولی۔
ہما۔ تو میں کیا کروں۔ زیب: ڈاکٹر صاحبہ کرنا تو آپکو وہی پڑے گا جو ڈاکٹر زمان چاہیں گے۔ ہم ہنس پڑی اور زیب کی طرف مصنوعی غصے سے دیکھتی ہوئی بولی۔۔ کیا مطلب ہے تمھارا۔۔ تم خود کر لوجو کرنا ہے اسکے ساتھ ۔۔ یا جو وہ کہتا ہے۔۔ زیب مسکرائی۔۔ ہائے ے ے ے ے۔۔۔ میں تو فور آتیار ہو جاؤں اگر زمان صاحب مجھے ایک بار بھی اشارہ کر دیں۔۔ ہما تبھی اسکی بات پر بننے لگی۔۔۔ اور تھوڑی شرماتی ہوئی بولی۔۔۔ تم تو ایسے کر رہی جیسے تمھارے اندر کوئی بہت ہی زیادہ آگ لگی ہوئی ہو۔۔ لگتا ہے کہ تمھارا دل ڈاکٹر زمان پر آگیا ہے۔۔
Tumblr media
زیب جنی۔۔ کیا کرؤں ڈاکٹر زمان ہیں ہی اتنے ہینڈ سم اور سمارٹ کہ ان پہ دل آجانا کوئی بڑی بات نہیں
ہا۔۔۔ پھر تمھارے اس عاشق کا کیا جو اکثر حمکو ملنے آتا ہے۔۔۔۔۔ راشد۔۔ زیب۔۔ ہو تو ہے ہی۔۔۔۔۔۔ پر اس دل کا کیا کرؤں ۔۔۔ زیب اپنے بائیں مے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔۔
پرائیویٹ ہسپتال میں رات کو کام تو اتنازیادہ نہیں ہوتا تھا بس جیسے ہی وہ اپنے اپنے کام سے یعنی مریض دیکھنے سے . فارغ ہوتے اور کسی ایک کے آفس میں بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگتے۔ آخر دونوں نے اور کرناہی کیا تھا۔ کبھی زمان چائے منگواتا تو بھی ہما اور بھی کچھ کھانے پینے کا پروگرام بھی بن جاتا تو وہ بھی چلتارہتا اور بیس ایسے ہی نہی کھیل میں ہما کی ڈیوٹی گزرنے لگی۔ وہ اب اپنے فارغ پن سے بھی نجات پاچکی تھی اور زمان کی شکل میں اسے ایک اچھا دوست بھی مل گیا تھا۔
ہما ایک لڑکی تھی تو زمان کی اسکے اندر دلچسپی کو وہ کیسے محسوس نہ کر پاتی۔ اسے بھی احساس ہونے لگا کہ زمان اسکو
پسند کرتا ہے اور اسی لیے وہ اسکے ارد گرد ہی منڈلاتا رہتا ہے۔ ویسے بھی عورت بھی تو آخر انسان ہی ہوتی ہے ناتو
جیسے مرد کا دل باہر نظر آنے والی کسی بھی خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر مچل جاتا ہے تو ایسے ہی عورت کا بھی کسی پرائے
مرد کو دیکھ کر اس میں و چیپسی لینا بھی کوئی بڑی یا بری بات تو نہیں نا۔ اور یہ اکثر ایسا ہوتا ہے۔ مگر مردوں کے
بر عکس عور تیں اپنی اس قسم کی پسند کو بڑے سلیقے سے اپنے دل میں ہی چھپا جاتی ہیں یہ کچھ ایسا ہی حال ہما کی بھی
تھا۔ اسے بھی زمان اچھا تو لگتا تھا مگر وہ کوئی بھی قدم آگے بڑھانے سے ڈرتی یا بجاتی تھی۔
Tumblr media
جمالیاس کے عالم میں فیشن کاکافی بھال رکھتی تھی اور جب سے جاب پر آنے لگی تھی زمان کے ساتھ تو اور بھی اپنے پہنا دیے کا خیال رکھتی تھی۔۔ فیشن کے مطابق ہی کپڑے پہننے کا شوق تھا اسکو۔۔ ہر طرح کے کپڑے پہنے کی اجازت تھی اسکو اپنے شوہر کی طرف سے۔۔ وہ اکثر قمیض ، شلوار یا نا ئٹس، لیگی یا جینز پہنتی تھی۔ ہر لباس ہی اسکے کھلتے ہوئے خوبصورت جسم پر جچتا تھا۔۔ جب بھی ٹائٹس پہنتی تو اسکے جسم کے نشیب و فراز دلوں پر بجلیاں ہی
گراتے تھے۔ اور ایسی ہی بجلیاں ڈاکٹر زمان کہ گھائل کر چکی ہوئی تھیں۔۔ ڈیوٹی پر موجود ایک نرس زیب سے ہما کی اچھی دوستی تھی وہ بھی ہم کو چھیڑتی کہ زمان اسکو پسند کرنے لگا ہے۔ زیب: ڈاکٹر ہما آپ نے نوٹ نہیں کیا شائد کہ ڈاکٹر زمان ہر وقت آپکے ارد گرد ہی پھرتے رہتے ہیں۔ زیب نے اس وقت یہ بات کی جب زمان ایک مریض کو دیکھنے گیا ہوا تھا۔ اسکی بات سن کر ہما کے گورے گورے چہرے پہ ایک ہلکا سا سرخ رنگ لہرا کر گزر گیا اور وہ دھیرے سے مسکرا کر بولی۔ ہما۔ تو میں کیا کروں۔ زیب: ڈاکٹر صاحبہ کرنا تو آپکو وہی پڑے گا جو ڈا کٹر زمان چاہیں گے۔ ہماہنس پڑی اور زیب کی طرف مصنوعی غصے سے دیکھتی ہوئی بولی۔ کیا مطلب ہے تمھارا۔۔۔ تم خود کر لوجو کرنا ہے اسکے ساتھ ۔۔ یا جو وہ کہتا ہے۔۔ زیب مسکرائی۔۔ ہائے سے سے سے ہے۔۔۔ میں تو فور آتیار ہو جاؤں اگر زمان صاحب مجھے ایک بار بھی اشارہ کر ی کی بات بنے گی اور تیموری رہائی ہوئی ہیں تم تو اسے کر دی جسے تمھارے اندر کوئی بت ہی زیادہ آگ لگی ہوئی ہو ۔۔ لگتا ہے کہ تمھار اول ڈاکٹر زمان پر آگیا ہے۔۔
جاری ہے
Tumblr media
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
بڑے مقابلے، جن کے نتائج پر سب کی نظر ہے
نمایاں سیاسی رہنما جن حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں، سب کی نظریں ان حلقوں پر ہوں گی جب نتائج سامنے آئیں گے۔ الیکشن 2024 کے بڑے مقابلوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف کا این اے 130 لاہور میں ڈاکٹر یاسمین راشد سے سامنا ہوگا۔  پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا این اے 194 لاڑکانہ میں جے یو آئی ف کے راشد حسین سومرو سے مقابلہ ہوگا۔ شہباز شریف کا این اے 123 میں افضال عظیم اور این اے 132 میں سردار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
تحریک انصاف کے ممبر کو تنخواہ نہیں مل رہی ، مستعفی ممبران کی تنخواہیں معطل ہیں، فواد چوہدری
تحریک انصاف کے ممبر کو تنخواہ نہیں مل رہی ، مستعفی ممبران کی تنخواہیں معطل ہیں، فواد چوہدری
اسلام آباد (نمائندہ عکس )سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ کل سپریم کورٹ میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی نہیں آ رہے لیکن تنخواہ لے رہے ہیں، یہ حکومتی جھوٹ تھا مستعفی ممبران کی تنخواہیں معطل ہیں، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک پیغام میں سابق وفاقی وزیر اطلاعات وپی ٹی آئی کے صدر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ کل سپریم کورٹ میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی نہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes