Tumgik
#چیف جسٹس عمر عطا بندیال
urduchronicle · 1 year
Text
نئے آنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کام کا طریقہ الگ ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا ہے کہ میری نئے آنے والے چیف جسٹس  سے مختلف رائے ہو سکتی ہے، نئے آنے والے چیف جسٹس پاکستان قابل تعریف انسان ہیں۔ نئے عدالتی سال پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میڈیا معاشرے کی آنکھیں اور کان ہیں، میرے حوالے سے میڈیا میں غلط رپورٹنگ بھی کی گئی، گڈ ٹو سی یو والے میرے جملے کو غلط رنگ دیا گیا، شارٹ اینڈ سویٹ ججمنٹ کے  بارے میں  آبرزویشن دی جس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 8 months
Text
آمریتوں سے جمہوریت تک کا ناکام سفر
Tumblr media
ملک میں پہلی بار چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دس ججزکے اکثریتی فیصلے میں پارلیمنٹ کی اہمیت اور قانون سازی کی برتری تسلیم کی گئی اور جن ججز نے اس کی مخالفت کی، وہ وہی ہیں جنھیں ہم خیال کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں عدلیہ نے پارلیمنٹ کو اہمیت دی، نہ اس کے قانون سازی کے حق کا احترام کیا، بلکہ گزرے چھ سات برسوں میں تو پارلیمنٹ کی چلنے دی گئی اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کو قانون بننے سے پہلے ہی کالعدم قرار دیا جاتا رہا ہے۔ 1956 کے آئین کے خاتمے اور 1973 کے آئین کی متعدد بار معطلی کے اور بحالی کے چکر میں آئین کے 50 سال تو مکمل ہو گئے مگر آئین میں بعض خامیوں کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور رہی۔ جنرل پرویز کو آئین میں ترمیم کا وہ اختیار دیا جو صرف پارلیمنٹ کا آئینی اختیار تھا مگر اس وقت کی سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کو قانونی کور فراہم کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جنرل پرویز نے ہی ملک میں پہلی بار پارلیمنٹ کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا جب کہ 1985 کے بعد سے 1999 تک کوئی پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کر سکی اور نہ ہی کسی وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری کرنے دی گئی۔
Tumblr media
وزیر اعظم کو فوجی صدور، سویلین صدور کے بعد 2008 میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد سپریم کورٹ نے دو منتخب وزرائے اعظم کو عہدے سے ہٹایا جب کہ اس سے قبل فوجی صدور اور سویلین صدور ہی وزیر اعظم کو برطرف کیا کرتے تھے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کے آئین مارشل لا کو روکنے کی کوشش کی تھی جو 1977 میں ناکام رہی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دور میں سویلین صدور کے 58-2/B کے اس اختیار کو ختم کیا جو فوجی صدر کے بعد دو سویلین صدور کو حاصل ہو گیا جس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کو برطرف کر کے پارلیمنٹ بھی ختم کی تھی مگر سپریم کورٹ کے حکم پر انھیں تین سال میں الیکشن کرانا پڑے تھے جس پارلیمنٹ سے انھوں نے وردی میں خود کو صدر منتخب کرا لیا تھا۔ جنرل پرویز کے اقتدار میں پارلیمنٹ اتنی مضبوط تھی کہ پارلیمنٹ سے خطاب جنرل پرویز صرف ایک بار کر سکے تھے اور اپنے خلاف پارلیمنٹ کے رویے پر انھوں نے آئین کے مطابق کیا جانے والا یہ صدارتی خطاب بھی ترک کر دیا تھا اور پارلیمنٹ میں نعرے بازی پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔
یہ بھی غنیمت ہے کہ آئین کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں جو بھی خطاب کریں، اس پر گرفت نہیں ہوتی اور پہلی بار اتحادی حکومت میں پارلیمنٹ میں بعض عدالتی فیصلوں پر کڑی تنقید ہوئی۔ پہلے پارلیمنٹ اور اس کے منتخب کیے گئے وزیر اعظم کو دور آمریت میں نقصان پہنچا اور فوجی جنرلوں نے اقتدار سنبھال کر وزیر اعظم اور پارلیمنٹ برطرف کی مگر جنرل پرویز مشرف دور میں 2007 تک قومی اسمبلی نے پہلی بار ا��نی مدت پوری کی مگر اس پارلیمنٹ نے جنرل پرویز کی مرضی کے تین وزرائے اعظم منتخب کیے تھے۔ 2008 کی پارلیمنٹ کے بعد ملک میں آمریت کی جگہ جمہوریت تو آگئی مگر عدلیہ بحالی کے بعد مضبوط عدلیہ نے دو بار ملک کے منتخب وزرائے اعظم کو برطرف کیا۔  چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے عمر عطا بندیال تک عدلیہ نے پارلیمنٹ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں اور اسے مضبوط نہیں ہونے دیا۔ پارلیمنٹ کے منظور کیے کیے قوانین اور ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا جاتا رہا جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور ہوئی اور آمریت کے بعد جمہوریت کا سفر کمزور ہوا۔ دنیا میں پارلیمنٹ مضبوط اور بااختیار ہوتی ہے۔
1973 کا آئین پارلیمنٹ نے بنایا تھا، ہر ادارے کے لیے قانون سازی کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے مگر پارلیمنٹ اپنے اس حق اور اختیار پر سمجھوتے بازی کرتی رہی جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی مگر پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے جانے کے بعد پارلیمنٹ کو اپنے حق اور اختیار کے لیے مزاحمت کرنا پڑی، جس کے جمہوریت اور سسٹم پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
نئے چیف جسٹس سے قوم کی توقعات
Tumblr media
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس منصب جلیلہ پر فائز ہوتے ہی ان سے قوم نےبہت سی توقعات وابستہ کر لی ہیں کیونکہ ان کی شہرت ایک ایسے جج کی ہے جو نہ صرف آئین کی پاسداری کرتے ہیں بلکہ آئین کی بنیادی روح کو بھی سمجھتے ہیں اور ان پر کوئی اثر انداز بھی نہیں ہو سکتا۔ بحیثیت قوم ہمارا عظیم المیہ یہ رہا کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ قابل فخر نہیں رہی، جس کی وجہ سے ہم عظیم بحرانوں کا شکار ہیں ۔ چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال کا دور ختم ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے ان کے دور میں بھی ہماری عدلیہ کے ناقابل فخر کردار کا عمومی تاثر نہ صرف یہ کہ ختم یا کم نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے فیصلوں سے جتنا اختلاف ان کے ساتھ بینچز میں شامل جج صاحبان نے کیا ، شاید اتنا اختلاف کسی اور چیف جسٹس کے فیصلوں پرنہیں ہوا ۔ ان کی سربراہی میں قائم کردہ ایک بینچ کے اکثریتی فیصلے پر تو ایک جج صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ تک لکھ دیا کہ’’ اس فیصلے سے آئین کو ازسر نو تحریر کیا گیا ہے۔ ‘‘اختلافی نوٹ کا یہ جملہ عدلیہ کی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کی ایک تاریخی چارج شیٹ ہے۔ 
چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال نے جاتے جاتے اپنی سربراہی میں قائم کردہ تین رکنی بینچ کا دو ایک کی اکثریت سے جو آخری فیصلہ سنایا ہے، جس میں قومی احتساب آرڈی ننس یعنی نیب آرڈی ننس میں پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، اس فیصلے سے نہ صرف بینچ کے ایک رکن جسٹس منصور علی شاہ نے اختلاف کیا بلکہ اپنا ایک ایسا اختلافی نوٹ لکھا ہے، جس میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے بنیادی مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ ’’ اس کیس میں بنیادی سوال نیب آرڈی ننس میں ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمان کی بالادستی کا ہے۔‘‘ اس اختلافی نوٹ میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے پارلیمان کے اختیارات استعمال کئے ہیں۔ ہماری عدلیہ کا یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ اس نے نہ صرف مقننہ ( پارلیمنٹ ) اور انتظامیہ (ایگزیکٹو) کے اختیارات میں مداخلت کی اور جوڈیشل ایکٹیوزم سے اس مداخلت میں اضافہ کیا بلکہ اسٹیبلشمنٹ خصوصاً فوجی آمروں کی آئین شکنی کو بھی درست قرار دیا۔ 
Tumblr media
عدلیہ پر نہ صرف یہ الزام ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے راستہ ہموار کیا بلکہ بعض جج صاحبان نے خود بھی پولیٹیکل انجینئرنگ بھی کی۔ عمر عطا بندیال ، ثاقب نثار ، آصف سعید کھوسہ ، گلزار احمد اور افتخار چوہدری پر یہ الزامات بہت زیادہ ہیں ۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی ، کرپشن اور معاشی بحران کا شکار ہے ۔ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف جنگ اور معاشی بحران پر قابو پانے کی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن اس جنگ اور ان کی کوششوں میں ہر ادارے کی اپنی آئینی حدود ہیں ، جو خطرناک حد تک پار کر لی گئی ہیں۔ یہ صورت حال حقیقی جمہوریت ، قانون، آئین کی عمل داری اور معاشی استحکام کیلئے خطرناک ہے ۔ اگر ادارے اپنی آئینی حدود میں کام نہیں کریں گے تو حالات مزید بگڑ تے جائیں گے ۔ ملک میں نہ جمہوریت جڑ پکڑ سکے گی، نہ امن قائم ہو سکے گا ، نہ معیشت ٹھیک ہو گی اور نہ احتساب کا مضبوط نظام قائم ہوپائے گا۔ اس صورت حال میں پاکستان کی عدلیہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود سمیت دیگر اداروں کو آئینی حدود سے باہر نہ نکلنے دے۔ 
مقننہ اور سویلین انتظامیہ کے اختیارات میں تجاوز کر کے انہیں مفلوج کر دیا گیا ہے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ اس صورت حال سے نکلنے کیلئے ’’ ہیرو‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس ناجائز خواہش پر مبنی کردار کی تمنا ہی ازخود آئینی اور ریاستی ڈھانچے کو منہدم کر رہی ہے ۔ ریاست پاکستان میں طاقت کا ایک مرکز نہیں رہا، جس کی مضبوط بنیاد عوام کے آزادانہ جمہوری فیصلے ہوتے ہیں بلکہ طاقت کے کئی مراکز بن گئے ہیں ، جو انتشار کا باعث ہیں۔ احتساب کا نظام صرف پولیٹیکل انجینئرنگ کا ہتھیار بن کر رہ گیا ہے اور بعض طاقتور حلقے احتساب سے بالاتر ہیں۔ اب پاکستان کو کسی ’’ ہیرو ‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کی ضرورت نہیں ۔ مہذب اور جمہوری معاشروں کی طرح ایسے لوگوں کی ضرورت ہے ، جو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے قائل ہوں ۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ داروں کو مقننہ اور انتظامیہ کی حدود میں مداخلت سے روکنا ہی آج کی عدلیہ اور خصوصاً نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ 
دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس چیلنج سے کیسے بنرد آزما ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلے انہیں اپنے ’’ ہاوس کو آرڈر میں لانا ہو گا ‘‘ یعنی اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا تاکہ جج صاحبان میں گروہ بندی کا وہ تاثر ختم ہو ، جو عمر عطا بندیال کے دور میں پیدا ہوا ۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کے مطابق یا خود عدلیہ کی سوچ کے مطابق سب مسائل کو حل کرنے کا زعم اگر کسی میں ہے تو اسے ختم کرنا ہو گا۔ پاکستان میں مقننہ اور سول انتظامیہ کو مضبوط بنانا ہو گا۔ احتساب کا سیاسی انتقام یا پولیٹیکل انجینئرنگ والا نظام ختم کر کے جمہوری اداروں کے ذریعے احتساب کا مضبوط نظام قائم کرنا ہو گا۔ اس کیلئے نیب آرڈی ننس کو درست کرنے کی پارلیمان کی دانش سے اتفاق ک��نا ہو گا کیونکہ یہ آرڈی ننس نہ صرف پروڈا ، ایبڈو اور پوڈا جیسے سیاہ قوانین کا چربہ اور تسلسل ہے بلکہ انہی سیاہ قوانین کے پس پردہ مذموم مقاصد اور بدنیتی کا ورثہ ہے۔ اگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ادارے اپنی آئینی حدود میں واپس آجاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی بڑی کامیابی ہو گی بلکہ عدلیہ کی ساکھ اور اس کا اعتبار بحال کرنے میں مددگاربھی ملے گی۔ قوم کو نئے چیف جسٹس سے یہی توقعات ہیں۔
نفیس صدیقی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
نئے چیف جسٹس پاس ہونگے یا فیل
Tumblr media
چیف جسٹس عمر عطا بندیال رخصت ہو گئے اور جاتے جاتے اپنے ساتھ ایسے تنازعات کی ایک لمبی فہرست لے گئے جن کا تعلق اُن کے دور کے عدالتی فیصلوں سے ہے۔ اپنے مختلف پیشروئوں کی طرح ہو سکتا ہے وہ بھی اپنے آپ سے مطمئن ہوں کہ اُنہوں نے بہت کام کئے لیکن سچ پوچھیں تو بندیال کا نام بھی تاریخ کے ناکام چیف جسٹسز میں ایک اور اضافہ ہو گا۔ ویسے تو اُنہیں تاریخ اس حوالے سے بھی یاد رکھے گی اُنہوں نے سیاسی نوعیت کے فیصلے کس قدر جانبداری سے کئے، کیسے ہم خیال ججوں کو مرضی کے فیصلے کرانے کےلئے استعمال کیا، کس طرح سپریم کورٹ کے اندر تقسیم پیدا کی لیکن اُن کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے دور میں عدالتوں پر عوام کا اعتماد بحال نہ کر سکے۔ کسی فرد سے پوچھ لیں، پاکستان کے کسی خطہ میں چلے جائیں کسی کو بھی عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں۔ لوگ عدالتوں میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ نہ صرف انصاف بہت مہنگا ہو چکا بلکہ اگر کوئی اپنا سب کچھ بیچ کر انصاف کے لئے عدالت میں چلا بھی جائے تو برسوں بلکہ کچھ کیسوں میں تو دہائیوں تک فیصلے نہیں ہوتے۔
Tumblr media
مجموعی طور پر عدالتی نظام ناکام ہو چکا۔ اپنے گزشتہ کئی چیف جسٹسز کی طرح بندیال صاحب نے بھی اس بنیادی مسئلہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ دوسروں کی طرح اُن کی توجہ بھی بڑے بڑے سیاسی مقدمات پر ہی مرکوز رہی اور یوں عدلیہ مزید تنازعات کا بھی شکار ہوئی اور عوام کو انصاف دینے کے بنیادی فریضے سے بھی مزید دور ہوتی چلی گئی۔ بندیال رخصت ہو گئے اور اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے چیف جسٹس بن گئے۔ اب اُن کا امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔ نئے چیف جسٹس اچھی ساکھ کے مالک ہیں لیکن اُن کو تاریخ کیسے دیکھے گی اس کا فیصلہ اس بات پر ہو گا کہ اُن کا کردار بحیثیت چیف جسٹس کیا رہتا ہے۔ مختلف لوگوں کی اُن سے مختلف توقعات وابستہ ہیں۔ کوئی چاہتا ہے کہ چیف جسٹس ماضی میں کئے گئے غلط سیاسی فیصلوں کو درست کریں۔ کسی کی خواہش ہے کہ وہ فوجی عدالتوں کو سب سے پہلے ختم کریں۔ سیاسی جماعتوں کی چیف جسٹس سے متعلق اپنی اپنی توقعات ہیں۔ تاہم میری نظر میں چیف جسٹس صاحب کا اصل امتحان یہ ہو گا کہ کیا وہ عمومی طور پر پاکستان کی عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کر پائیں گے۔
اگر ایک طرف سپریم کورٹ سے یہ توقع ہو گی کہ اُس کا جھکاؤ کسی ایک سیاسی طبقہ کی بجائے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے پر مرکوز ہو، عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تقسیم ختم ہو، چیف جسٹس کے بینچ بنانے، مقدمات لگانے وغیرہ جیسے اختیارات کو غلط استعمال ہونے سے بچانے کے لئے اصلاحات کی جائیں تو دوسری طرف پاکستانی قوم کو عام عدالتوں میں انصاف چاہئے۔ جلد اور سستا انصاف۔ ایسا عدالتی نظام جو مظلوم کے لئے امید کا ذریعہ ہو اور ظالم اور قانون شکن کے لئے خوف کی علامت۔ پاکستان کی عدلیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا میں انصاف کی فراہمی کے لحاظ سے آخری نمبروں پر آتی ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری عدالتیں انصاف دینے میں ناکام ہیں۔ اگر یہاں مظلوم تھانے میں جانے سے ڈرتا ہے تو کورٹ کچہری کا بھی یہی حال ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سب سے زیادہ توجہ پاکستان کے عدالتی نظام کی سمت درست کرنے کی طرف ہونی چاہئے تاکہ عدالتیں ظالم کی بجائے مظلوم کو انصاف دینا شروع کریں۔ عدالتیں انصاف دیں گی تو اُن کا احترام ہو گا۔ اگر سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا جیسے کئی دہائیوں سے چل رہا ہے تو پھر چیف جسٹس فائز عیسیٰ خود سوچ سکتے ہیں کہ تاریخ اُن کے بارے میں کیا فیصلہ کرے گی۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
htvpakistan · 1 year
Text
سپریم کورٹ، 15کروڑ سے زائد آمدن والوں کو 50فیصد سپر ٹیکس 14روز میں ادا کرنیکا حکم
سپریم کورٹ نے 15کروڑ سے زیادہ آمدن والے ٹیکس دہندگان کو 50 فیصد سپر ٹیکس ادا کرنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔عدالت نے قرار دیا کہ زیادہ آمدن والے ٹیکس دہندگان 14روز میں ایف بی آر کو سپر ٹیکس جمع کروائیں۔ وکیل ایف بی آر نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس میں ایک نیا سیکشن ڈال کر15 ک��وڑ روپے سے زیادہ کمانے والوں پریہ سپر ٹیکس عائد کیا گیا۔ چیف جسٹس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
762175 · 2 years
Text
بینچ میں شامل دو ججز نے اعتراض اٹھا دیے
اسلام آباد: پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ میں شامل دو ججز نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ازخود نوٹس پر اعتراض اٹھا دیے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ اس دوران انہوں نے ریماکس دیے کہ عدالت نے تین معاملات کو سننا ہے سیکشن 57  کے تحت صدر مملکت نے 9 اپریل کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
بینچ میں شامل دو ججز نے اعتراض اٹھا دیے
اسلام آباد: پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ میں شامل دو ججز نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ازخود نوٹس پر اعتراض اٹھا دیے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ اس دوران انہوں نے ریماکس دیے کہ عدالت نے تین معاملات کو سننا ہے سیکشن 57  کے تحت صدر مملکت نے 9 اپریل کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
دو صوبوں میں الیکشن پر ازخود نوٹس کی سماعت: بینچ کی تشکیل پر دو ججوں کا اعتراض
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے بدھ کو  پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق صورت حال پر ازخود نوٹس لیا تھا، جس کی سماعت جمعرات کو ہونے کے بعد جمعے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ لارجر بینچ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
دو صوبوں میں الیکشن پر ازخود نوٹس کی سماعت: بینچ کی تشکیل پر دو ججوں کا اعتراض
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے بدھ کو  پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق صورت حال پر ازخود نوٹس لیا تھا، جس کی سماعت جمعرات کو ہونے کے بعد جمعے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ لارجر بینچ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 1 year
Text
ہر مسئلے کا حل حکومت کے سر ڈالنا درست نہیں، بہتری کے لیے سب کو حصہ ڈالنا ہوگا، چیف جسٹس
چیف جسٹس سپریم کورٹ عمرعطا بندیال نے کہا ہے کہ ہم ہر مسئلے کی تلاش کا حل حکومت کے سرپر  ڈال دیتے ہیں، ہرچیز کی ذمہ داری حکومت پر چھوڑنا درست نہیں، معاشرے کی بہتری کیلئے سب کو حصہ ڈالنا ہوگا۔ اسلام آباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین میں بنیادی حقوق کا مقصد عوام کو خوش رکھنا ہے، فرد کی خوشی خاندان کی خوشی میں مضمر ہے،ماں اوربچے کی صحت اور بنیادی ضرورتوں کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
دو صوبوں میں الیکشن پر ازخود نوٹس کی سماعت: بینچ کی تشکیل پر دو ججوں کا اعتراض
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے بدھ کو  پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق صورت حال پر ازخود نوٹس لیا تھا، جس کی سماعت جمعرات کو ہونے کے بعد جمعے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ لارجر بینچ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
نئے نیب قانون میں کوتاہیاں ہیں جسے دیکھ رہے ہیں، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے 23 کروڑ روپے کرپشن کے ملزم کی ضمانت منسوخی کی درخواست غیرموثر ہونے پرخارج کردی:فوٹو:فائل  اسلام آباد: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ نئے نیب قانون میں کوتاہیاں ہیں جسے دیکھ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں 23 کروڑ روپے کی کرپشن کے ملزم نواب خان کی ضمانت منسوخی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ نئے نیب قانون میں کچھ کوتاہیاں ہیں جسے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کاش چیف جسٹس ایسا نہ کرتے
Tumblr media
کاش چیف جسٹس عمر عطا بندیال فل کورٹ بنا دیتے۔ کاش چیف جسٹس اُسی تین رُکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے پنجاب میں الیکشن کروانے جیسا اہم سیاسی فیصلہ نہ کرتے جس کے بارے میں سب کو پہلے سے معلوم تھا کہ یہ بنچ کیا فیصلہ کرسکتا ہے۔ کاش چیف جسٹس تمام سیاسی جماعتوں کا مؤقف سن کر اپنا فیصلہ سناتے اور بنچ پر اعتراض کرنے والوں کی بات سن لیتے۔ کاش چیف جسٹس اپنے ساتھی ججز کے اعتراضات اور اُن کے فیصلوں کو بھی اہمیت دیتے۔ کاش چیف جسٹس یہ فیصلہ نہ کرتے، ایک ایسا فیصلہ نہ کرتے جسے ناصرف تاریخ کے متنازعہ فیصلوں میں شامل کیا جائے گا بلکہ اس کے سبب موجودہ سیاسی انتشار اور تقسیم مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ مجھے ذاتی طور پر بنچ پر بھی اعتراض تھا اور فیصلہ بھی میری نظر میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود جب فیصلہ آ گیا تو اس کو حکومت کیسے مسترد کر سکتی ہے؟ یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت کے پاس اگر کوئی قانونی اور آئینی راستہ موجودہ ہے تو وہ ضرور اسے اپنے حق میں استعمال کرے لیکن یہ کہنا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی نہیں مانتے اور اس پر عمل بھی نہیں کریں گے تو یہ بھی انتشار کی ایک نئی شکل ہو گی۔
نہ کابینہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر سکتی ہے نہ ہی حکمراں اتحاد کے رہنمائوں کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ یہ کہیں کہ اس فیصلے پر عمل نہیں کیا جائے گا چاہے اس کے جو مرضی نتائج ہوں۔ حکومت کے پاس اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست کرنے کا حق موجود ہے۔ یہ نظرثانی کی اپیل ایک ماہ کے اندر سپریم کورٹ میں پیش کی جا سکتی ہے اور اس کے لئے حکومت حال ہی میں پارلیمنٹ کے ذریعے پاس ہونے والے چیف جسٹس کے اختیارات کے متعلق بل کے قانون بننے کا انتظار بھی کر سکتی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ شاید صدر پاکستان اس بل پر دستخط نہیں کریں گے جس کے باعث حکومت کو اس بل کو قانون کی شکل دینے میں پندرہ دن بھی لگ سکتے ہیں۔ جب یہ بل قانون بن جائے گا تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے اور نئے بننے والے قانون کے مطابق چیف جسٹس اور دو سینئیر ترین ججوں کی کمیٹی یہ فیصلہ کرے گی کہ اس اپیل کو سننے کے لئے کن کن ججز پر مشتمل بنچ بنایا جائے۔
Tumblr media
تحریک انصاف کے سینیٹر اور سپریم کورٹ کے وکیل علی ظفر نے اس قانون کی تجویز پر سینیٹ میں بحث کے دوران حکومت کو یہ وارننگ دی تھی کہ عدلیہ اس قانون کو بننے کے 10/20 دن کے اندر ہی کالعدم قرار دے دے گی۔ اگر ایسا ہوا تو معاملہ مزید گمبھیر ہو جائے گا اور سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے ہوں گے۔ حکومت کی طرف سے فیصلہ دینے والے تین رُکنی بنچ میں شامل ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ میری دانست میں فیصلوں کی بنیاد پر ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ صرف اُسی صورت میں ایسا ریفرنس قابلِ سماعت ہو سکتا ہے جب شکایت کنندہ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہو کہ اس فیصلے کے پیچھے کوئی سازش تھی یا کوئی غیر قانونی اقدام اس کی وجہ تھا۔ صرف یہ کہنا کہ یہ تین ججز تو عمران خان کے حق میں اور ن لیگ اور پی ڈی ایم کے خلاف فیصلے دیتے ہیں، کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
چیف جسٹس اگر انصاف ہوتا ہوا نظر آنے کے اصول کی پاسداری کے لئے فل کورٹ بنا دیتے تو ہمیں اس موجودہ صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا جس میں اس بات کو یقینی طور پر کہا ہی نہیں جا سکتا تھا کہ پنجاب میں الیکشن 14 مئی کو ہی ہوں گے اس طرح حکومت اور پی ڈی ایم کو چاہئے کہ جذباتی انداز میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کی بجائے قانونی اور آئینی راستہ اختیار کرے۔ حکومت اور حکمراں جماعتیں ہی اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانیں گی تو پھر عام لوگ عدالتوں کے فیصلوں کو کیوں تسلیم کریں گے۔ یہاں اب بھی سیاسی حل کی بات کی جا سکتی ہے۔ عمران خان نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ وہ اکتوبر میں الیکشن کے لئے انتظار کر سکتے ہیں اگر حکومت کے پاس کوئی ٹھوس تجویز ہو۔ کتنا اچھا ہو کہ حکمراں جماعتیں اور تحریک انصاف پورے پاکستان میں اکتوبر میں ایک ساتھ الیکشن کروانے کے نکتے پر اتفاق کر لیں تو اس سے ہم بہت سی خرابیوں سے بچ جائیں گے۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
762175 · 2 years
Text
چیف جسٹس کا 2 صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 2 صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان نے 2 صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس لیتے ہوئے بینچ تشکیل دے دیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا جو کل سماعت کرے گا۔ بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصور علی خان، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
چیف جسٹس کا 2 صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 2 صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان نے 2 صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس لیتے ہوئے بینچ تشکیل دے دیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا جو کل سماعت کرے گا۔ بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصور علی خان، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
‏انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا وقت مزید بڑھ سکتا ہے، چیف جسٹس
 اسلام آباد: چیف جسٹس عمر بندیال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، ‏انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پنجاب اور خیبرپختون میں انتخابات پر از خود نوٹس کیس کی سماعت نو رکنی لارجر بینچ نے کی۔ بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس محمد علی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes