Tumgik
#چینی خلائی اسٹیشن
forgottengenius · 1 month
Text
آئی کیوب قمر : خلا میں پاکستان کا پہلا قدم
Tumblr media
پاکستان کے سیٹلائٹ آئی کیو ب قمر کا گزشتہ روز چین کے خلائی مشن چینگ ای 6 کے ساتھ چاند تک پہنچنے کیلئے روانہ ہو جانا اور یوں خلائی تحقیقات کے میدان میں وطن عزیز کا دنیا کے چھٹے ملک کا درجہ حاصل کر لینا پاکستانی قوم کیلئے یقینا ایک اہم سنگ میل ہے۔ وزیر اعظم نے اس پیش رفت کو بجا طور پر خلا میں پاکستان کا پہلا قدم قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں خدمات انجام دینے والے ہمارے تمام سائنسداں اور تحقیق کار پوری قوم کی جانب سے دلی مبارکباد کے حق دار ہیں۔ دو سال کی قلیل مدت میں آئی کیوب قمر تیار کرنے والے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے جنرل منیجر ثمر عباس کا یہ انکشاف ہمارے سائنسدانوں کی اعلیٰ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ 2022 میں چینی نیشنل اسپیس ایجنسی نے ایشیا پیسفک اسپیس کارپوریشن آرگنائزیشن کے توسط سے اپنے آٹھ رکن ممالک پاکستان ، بنگلا دیش، چین، ایران، پیرو، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ترکی کو چاند کے مدار تک مفت پہنچنے کا منفرد موقع فراہم کیا تھا لیکن ان میں سے صرف پاکستان کے منصوبے کو قبول کیا گیا۔ ہماری لامحدود کائنات کے کھربوں ستارے، سیارے اور کہکشائیں ناقابل تصور وسعت رکھنے والے جس خلا میں واقع ہیں، اس کے اسرار و رموز کیا ہیں اور زمین پر بسنے والا انسان اس خلا سے کس کس طرح استفادہ کر سکتا ہے؟ 
Tumblr media
کثیرالوسائل ممالک اس سمت میں پچھلے کئی عشروں سے نہایت تندہی سے سرگرم ہیں۔ ان کے خلائی اسٹیشن انفارمیشن ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کے علاوہ سائنسی تحقیق کے متعدد شعبوں میں قیمتی اضافوں کا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں جبکہ دنیا کے دیگر ممالک خلائی تحقیق کی دوڑمیں براہ راست شرکت کیلئے کوشاں ہیں۔ پاکستان میں بھی 1961 سے پاکستان اسپیس اینڈ اَپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن قائم ہے اور مختلف اہداف کے حصول کیلئے کام کررہا ہے جن میں اسے چین کا خصوصی تعاون حاصل ہے۔ آئی کیوب قمر کو انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی نے چین کی شنگھائی یونیورسٹی اورسپارکو کے تعاون سے تیار کیا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا مشن ہے جو چاند کی دوسری طرف سے نمونے حاصل کرے گا۔ پاکستانی سیٹلائٹ آئی کیوب قمر آپٹیکل کیمروں سے لیس ہے۔ ٹیسٹنگ اور قابلیت کے مرحلے سے کامیابی سے گزرنے کے بعد آئی کیوب قمر کو چین کے چینگ 6 مشن کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے رکن کور کمیٹی ڈاکٹرخرم خورشید کے مطابق سیٹلائٹ چاند کے مدار پر پانچ دن میں پہنچے گا اورتین سے چھ ماہ تک چاند کے اطراف چکر لگائے گا، سیٹلائٹ کی مدد سے چاند کی سطح کی مختلف تصاویر لی جائیں گی جس کے بعد پاکستان کے پاس تحقیق کیلئے چاند کی اپنی سیٹلائٹ تصاویر ہوں گی۔
ڈاکٹرخرم خورشید کے بقول سیٹلائٹ پاکستان کا ہے اور ہم ہی اس کا ڈیٹا استعمال کریں گے لیکن چونکہ اسے چین کے نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے چاند پر پہنچایا جارہا ہے اس لیے چینی سائنسدان بھی اس ڈیٹا کو استعمال کرسکیں گے۔انہوں نے بتایا کہ یہ اگرچہ ایک چھوٹا سیٹلائٹ ہے لیکن مستقبل میں بڑے مشن کیلئے راہ ہموار کرے گا۔ دنیا کے تقریباً دو سو سے زائد ملکوں میں ساتویں ایٹمی طاقت کا مقام حاصل کرنے کے بعد خلا میں اپنا سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن جانا بلاشبہ پوری پاکستانی قوم کیلئے ایک بڑا اعزاز اور اس کی اعلیٰ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو ترقی یافتہ ملکوں جیسا معیاری تعلیمی نظام اور وسائل مہیا کیے جائیں تو ایسے سائنسداں اور تحقیق کار بڑی تعداد میں تیار ہو سکتے ہیں جو خلائی تحقیقات کے میدان میں نمایاں پیش قدمی کے علاوہ ملک کو درپیش توانائی کے بحران، پانی کی کمیابی ، فی ایکڑ زرعی پیداوار کے نسبتاً کم ہونے، موسمی تبدیلی جیسے مسائل سے نمٹنے اور صنعتی جدت طرازی کی نئی راہیں اور طریقے تلاش کرسکتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 5 years
Text
چین کا ناقابل یقین اور دنگ کر دینے والا منصوبہ
چین ایک ایسے ملک کے طور پر ابھر رہا ہے جس کے منصوبے ناقابل یقین ہوتے جا رہے ہیں لیکن وہ انہیں حقیقت کا روپ دینے میں کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اور چین اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سورج کا سہارا لینے کا ارادہ رکھتا ہے مگر اس میں انفرادیت یہ ہے کہ وہ بالائی خلا میں پاور اسٹیشن تعمیر کرنے جارہا ہے۔ یہ بجلی گھر یا پاور اسٹیشن زمین کے مدار میں ہوگا اور سورج کی شعاعوں کو بجلی میں بدل کر یہ توانائی واپس زمین پر بیم کی شکل منتقل کرے گا۔ چین کو توقع ہے کہ اگر چینی اسپیس ایجنسی اس کے لیے درکار ٹیکنالوجی تیار کرنے میں کامیاب ہوئی تو اس منصوبے کو 2030 تک مکمل کرلیا جائے گا اور اس کی بدولت ہر وقت بجلی کی سپلائی جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔
اس ٹیکنالوجی کی آزمائش 2021 سے 2025 کے درمیان کیے جانے کا امکان ہے جس کے بعد ایک میگاواٹ سولر پاور اسٹیشن 2030 تک خلا میں بھیجے جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت مستقبل میں زیادہ بڑے اور موثر پاور اسٹیشنز کو بھی خلا میں منتقل کیا جائے گا۔ اس حوالے سے تجرباتی بیس کو چین کے شہر چونگ چنگ میں تیار کر لیا گیا ہے۔ چین کا یہ مجوزہ پاور اسٹیشن 36 ہزار کلومیٹر بلندی پر زمین کی مدار میں موجود ہو گا، جس سے پہلے چینی سائنسدان چھوٹے پاور اسٹیشن تعمیر کر کے خلا میں بھیجیں گے۔ چینی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے 99 فیصد تک بجلی کی فراہمی وقت پر ہو گی جبکہ یہ ماحول دوست بھی ہو گی۔ اس منصوبے کے تحت سولر انرجی کو خلا میں پہلے بجلی میں منتقل کیا جائے گا جس کے بعد مائیکرو ویو یا لیزر کی شکل میں زمین پر بیم کیا ج��ئے گا جہاں گرڈ اسٹیشن اسے موصول کرے گا۔ 
سائنس فکشن ناول جیسا یہ منصوبہ نیا نہیں، جاپان اس بارے میں ایک دہائی قبل بات کر چکا ہے جبکہ امریکا میں بھی گزشتہ سال اس طرح کے منصوبے پر بات کی گئی۔ چین اس وقت خلائی منصوبوں پر امریکا کے بعد سب سے زیادہ فنڈز خرچ کرنے والا ملک ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے 8 ارب ڈالرز سالانہ بجٹ مختص کیا ہوا ہے تاکہ اس معاملے میں روس اور امریکا کو پیچھے چھوڑا جا سکے۔ چین دنیا کا پہلا ملک بننا چاہتا ہے جو چاند پر ایک بیس قائم کرنے میں کامیاب ہو گا اور اس کے لیے وہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد لے گا۔
بشکریہ ڈان نیوز اردو
1 note · View note
apnibaattv · 2 years
Text
چینی خلاباز چھ ماہ خلا میں رہنے کے بعد زمین پر واپس خلائی خبریں۔
چینی خلاباز چھ ماہ خلا میں رہنے کے بعد زمین پر واپس خلائی خبریں۔
تین افراد کا عملہ 183 دن تک خلا میں رہا جو کہ چینی خلابازوں کا اب تک کا طویل ترین مشن ہے۔ ریاستی نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے کہا کہ تین چینی خلاباز 183 دن خلا میں رہنے کے بعد ہفتے کے روز شمالی چین میں اترے، جس سے ملک کے اب تک کے سب سے طویل خلائی مشن کا اختتام ہوا۔ دو مرد اور ایک عورت – زہائی ژیگانگ، یی گوانگفو اور وانگ یاپنگ – چین کے تیانگونگ خلائی اسٹیشن کے تیانھے کور ماڈیول پر چھ ماہ گزارنے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
breakpoints · 2 years
Text
خلائی اسٹیشن کے قریب سے غائب ہونے کے بعد چینی شہریوں نے مسک کو آن لائن تھپڑ مارا۔ ایکسپریس ٹریبیون
خلائی اسٹیشن کے قریب سے غائب ہونے کے بعد چینی شہریوں نے مسک کو آن لائن تھپڑ مارا۔ ایکسپریس ٹریبیون
بیجنگ: چینی شہریوں نے سوموار کو ارب پتی Tesla (TSLA.O) کے بانی ایلون مسک کے خلائی عزائم کے خلاف آن لائن نعرے لگائے جب چین نے شکایت کی کہ اس کے خلائی اسٹیشن کو مسک کے اسٹار لنک پروگرام کے ذریعے لانچ کیے گئے سیٹلائٹس سے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے مضحکہ خیز کارروائی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ مسک کی اسپیس ایکس ایرو اسپیس کمپنی کے ایک ڈویژن اسٹارلنک انٹرنیٹ سروسز کے سیٹلائٹس نے یکم جولائی اور 21 اکتوبر کو…
View On WordPress
0 notes
maqsoodyamani · 3 years
Text
وانگ یاپنگ، خلا میں چہل قدمی کرنے والی پہلی چینی خاتون
وانگ یاپنگ، خلا میں چہل قدمی کرنے والی پہلی چینی خاتون
وانگ یاپنگ، خلا میں چہل قدمی کرنے والی پہلی چینی خاتون بیجنگ،9نومبر (آئی این ایس انڈیا ) چین کے خلائی اسٹیشن کے لیے موجود مشن میں شامل خاتون وانگ یاپنگ اسپیس واک یعنی خلا میں چہل قدمی کرنے والی پہلی چینی خاتون بن گئی ہیں۔خبر رساں ادارے کے مطابق چائنا مینڈ اسپیس (سی ایم ایس) کا کہنا تھا کہ وانگ اور ان کے ایک اور ساتھی خلاباز ڑائِی ڑی گانگ نے اتوار کی شام کو اسٹیشن کے مرکزی ماڈیول سے باہر چھ گھنٹے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
htvpakistan · 3 years
Text
چین کے ’’ایک میل لمبے خلائی جہاز‘‘ پر امریکا سمیت مغربی ممالک میں تشویش
چین کے ’’ایک میل لمبے خلائی جہاز‘‘ پر امریکا سمیت مغربی ممالک میں تشویش
گزشتہ دنوں ’’نیشنل نیچرل سائنس فاؤنڈیشن آف چائنا‘‘ (NNSFC) کے ایک اعلان میں چینی سائنسدانوں کو دیگر بڑے منصوبوں کے ساتھ ساتھ ایک ’’بہت بڑے خلائی جہاز/ خلائی اسٹیشن‘‘ پر تحقیق کی دعوت دی گئی ہے جس پر مغربی ممالک، بالخصوص امریکا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ممکنہ طور پر یہ خلائی جہاز یا خلائی اسٹیشن تقریباً ایک میل لمبا ہوگا جہاں خلا نورد طویل مدت تک قیام کرسکیں گے۔ اس حوالے سے ابتدائی تحقیق کےلیے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
omega-news · 3 years
Text
ایک میل لمبا چینی خلائی جہاز، امریکہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی
ایک میل لمبا چینی خلائی جہاز، امریکہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی
’ چین کے ایک لمبے میل خلائی جہاز نے امریکہ کو پریشان کر دیا. بتایا گیاہے کہ ’نیشنل نیچرل سائنس فاؤنڈیشن آف چائنا‘‘ (NNSFC) کے ایک اعلان میں چینی سائنسدانوں کو دیگر بڑے منصوبوں کے ساتھ ساتھ ایک ’’بہت بڑے خلائی جہاز/ خلائی اسٹیشن‘‘ پر تحقیق کی دعوت دی گئی ہے جس پر مغربی ممالک، بالخصوص امریکا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ممکنہ طور پر یہ خلائی جہاز یا خلائی اسٹیشن تقریباً ایک میل لمبا ہوگا جہاں خلا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
چین کے ’’ایک میل لمبے خلائی جہاز‘‘ پر امریکا میں تشویش - اردو نیوز پیڈیا
چین کے ’’ایک میل لمبے خلائی جہاز‘‘ پر امریکا میں تشویش – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین بیجنگ: گزشتہ دنوں ’’نیشنل نیچرل سائنس فاؤنڈیشن آف چائنا‘‘ (NNSFC) کے ایک اعلان میں چینی سائنسدانوں کو دیگر بڑے منصوبوں کے ساتھ ساتھ ایک ’’بہت بڑے خلائی جہاز/ خلائی اسٹیشن‘‘ پر تحقیق کی دعوت دی گئی ہے جس پر مغربی ممالک، بالخصوص امریکا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ممکنہ طور پر یہ خلائی جہاز یا خلائی اسٹیشن تقریباً ایک میل لمبا ہوگا جہاں خلا نورد طویل مدت تک قیام کرسکیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
forgottengenius · 10 months
Text
ہم چاند کب تلک دوربین سے دیکھیں گے ؟
Tumblr media
سب جانتے ہیں کہ امریکا اور چین کے بعد جاپان تیسری بڑی اقتصادی طاقت ہے اور اس کا خلائی پروگرام بھی اسی تناسب سے ہے۔ مگر گزشتہ برس نومبر میں چاند پر اترنے کی پہلی جاپانی کوشش ناکام ہو گئی۔ گزشتہ ماہ اس مقصد کے لیے تیار کیا جانے والا ایک طاقتور راکٹ بھی آزمائش کے دوران پھٹ گیا۔ اگلے ہفتے جاپان مون سنائپر کے نام سے ایک اور خلائی مشین چاند کی جانب روانہ کرے گا۔ روس کا خلائی پروگرام امریکا سے بھی پرانا ہے۔ چار اکتوبر انیس سو ستاون کو سوویت یونین نے پہلا مصنوعی سیارہ سپوتنک خلا میں بھیج کر امریکا کو چیلنج کیا۔ اپریل انیس سو اکسٹھ میں پہلے سوویت انسان یوری گگارین نے ستائیس ہزار کلومیٹر کی اونچائی پر زمین کے گرد چکر لگا کے امریکی خلائی ادارے ناسا کو چکرا دیا۔ صدر جان ایف کینیڈی نے اعلان کیا کہ ساٹھ کا عشرہ ختم ہونے سے پہلے امریکا چاند پر انسان اتار دے گا اور سولہ جولائی انیس سو انہتر کو نیل آرمسٹرانگ کے چاند پر پہلے انسانی قدم نے یہ دعوی سچ کر دکھایا۔ اس کے بعد سوویت یونین نے سویوز خلائی اسٹیشن خلا میں بھیجا۔ امریکا نے جواباً اسکائی لیب خلا میں بھیجی۔ دونوں ممالک نے دوسرے ممالک کے مصنوعی سیارے خلا میں بھیجنے کا کاروبار بھی شروع کیا۔ اور پھر چین بھی اس دوڑ میں شامل ہو گیا۔
گزشتہ بیس برس کے دوران چاند پر جو تین مشنز اتارے گئے۔ وہ تینوں چینی تھے۔روس نے سینتالیس برس کے وقفے سے گزرے بیس اگست کو لونا پچیس مشن چاند کے مشکل ترین قطبِ جنوبی میں اتارنے کی ناکام کوشش کی۔ تین روز بعد ( تئیس اگست ) بھارت پہلا ملک بن گیا جس نے چاند کے جنوبی کرے میں کامیاب لینڈنگ کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ بھارتی خلائی پروگرام کی اس اعتبار سے بھی تعریف ہو رہی ہے کہ یہ کامیابیاں بہت کم بجٹ میں حاصل کی گئیں۔ مثلاً چاند پر اترنے والے چندریان تھری مشن پر چھ ارب روپے لاگت آئی۔ یہ رقم بالی وڈ کی تین بلاک بسٹر ہندی فلموں کے بجٹ کے برابر ہے اور ناسا کے اسی طرح کے خلائی مشنز کی لاگت کا صرف بیس فیصد بنتی ہے۔ بھارت کا خلائی بجٹ کل قومی آمدنی کے محض صفر اعشاریہ 33 فیصد کے برابر ہے یعنی ایک فیصد کا بھی ایک تہائی۔ بھارت کا اگلا ہدف خلا میں اسپیس اسٹیشن بھیجنا اور چاند پر انسانی مشن اتارنا ہے۔ بھارت کا خلائی پروگرام پاکستان کے خلائی پروگرام کے ایک برس بعد ( انیس سو باسٹھ ) شروع ہوا۔ مگر اکسٹھ برس سے اس پروگرام کو آگے بڑھانا ہر حکومت کی ترجیحات میں شامل رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ پچاس کی دہائی میں پنڈت نہرو کے سائنسی ترقی کے ویژن کے تحت بھارت کے اہم شہروں میں انڈین انسٹی ٹیوٹس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ( آئی آئی ٹی ) قائم ہوئے۔
Tumblr media
ان میں داخلے کا معیار کسی بھی اے گریڈ مغربی یونیورسٹی میں داخلے کے معیار کے برابر رکھا گیا۔ چنانچہ ان اداروں سے وہ کریم نکلی جس نے بھارت کو پچھلی تین دہائیوں میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جدید تربیت یافتہ افرادی قوت کی مسلسل رسد کو یقینی بنایا۔ اور کل کے یہ طلبا آج بھارت سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں جدید سائنس کے میدان میں کلیدی صف میں ہیں۔ اس افرادی قوت نے بھارت کے خلائی ادارے اسرو کو بھی مالامال رکھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ انیس سو پچھتر میں سوویت یونین کی مدد سے پہلا مصنوعی سیارہ آریا بھٹ خلا میں بھیجا گیا۔ انیس سو چوراسی میں کیپٹن راکیش شرما نے سوویت خلائی اسٹیشن سویوز میں کئی ماہ گذارے۔ پچھلے بیس برس میں بھارت مختلف ممالک کے مصنوعی سیارے اپنے راکٹوں کے ذریعے خلا میں بھیجنے کی صنعت میں ایک کلیدی کھلاڑی ہے۔ اب تک وہ چونتیس ممالک کے چار سو سترہ سیارے خلا میں لانچ کر چکا ہے۔ خود بھارت نے اپنے لیے جو مصنوعی سیارے لانچ کیے ان میں سے چودہ فوجی مقاصد کو پورا کر رہے ہیں۔
دو ہزار تیرہ میں مریخ کی جانب منگل یان کے نام سے ایک کامیاب مشن بھیجا گیا۔چندریان سیریز کے اب تک تین مشنز چاند کی جانب بھیجے گئے۔ ان میں سے دو ہزار آٹھ کا پہلا اور دو ہزار انیس کا دوسرا مشن ناکام ہوا مگر تئیس اگست کو چندریان تھری چاند کے مشکل ترین علاقے میں لینڈنگ میں کامیاب ہو گیا۔ اس مشن کی کامیابی کے پیچھے نصف کوشش بھارت کی خواتین خلائی سائنس دانوں کی ہے۔ پاکستان نے اپنا خلائی پروگرام انیس سو اکسٹھ میں امریکی ادارے ناسا کی مدد سے شروع کیا اور اس میں صدر ایوب ِخان کے مشیرِ سائنس ڈاکٹر عبدالسلام نے بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ انیس سو سڑسٹھ تک پاکستان کے خلائی تحقیقی ادارے سپارکو کے منتظم رہے۔ اس دوران ایک سمجھوتے کے تحت پاکستان کے خلائی ماہرین کی تربیت ناسا کے تحت ہوئی۔ اپنے قیام کے دوسرے ہی برس جون انیس سو باسٹھ میں سپارکو نے پہلا خلائی تحقیقی راکٹ کراچی کے قریب سونمیانی کے ساحل سے چھوڑا۔ یوں پاکستان ان گنے چنے اس وقت دس ممالک کے کلب میں شامل ہو گیا جو خلا میں لانچنگ کی اہلیت رکھتے تھے۔
رہبر راکٹ سیریز انیس سو بہتر تک فعال رہی۔ پھر فنڈز کی قلت آڑے آنے لگی۔ انیس سو چوہتر میں بھارت نے جب پہلا جوہری دھماکا کیا تو ایٹمی پروگرام اور میزائل لانچنگ پروجیکٹ کی تیز رفتار ترقی ریاستی ترجیحات میں اوپر آ گئے۔ راکٹ ٹیکنالوجی میں ترقی کا رخ دفاعی ضروریات کی جانب مڑتا چلا گیا۔ ضیا دور میں سپارکو کو تحقیق و تخلیق کی مد میں بہتر بجٹ ملنا شروع ہوا۔ چین سے خلائی ٹیکنالوجی میں تعاون شروع ہوا۔ انیس سو نوے میں شنجیانگ کے خلائی مرکز سے بدر اول نامی مصنوعی سیارہ لانچ ہوا۔ دو ہزار چار میں پاک سیٹ لانچنگ سیریز پر کام شروع ہوا۔ انیس سو ننانوے میں سرکار نے جوہری تجربات کی کامیابی کے جوش میں اعلان کر ڈالا کہ پاکستان اگلے تین برس میں اس قابل ہو جائے گا کہ اپنے مصنوعی سیارے خود لانچ کر سکے۔ چوبیس برس گذر گئے اور یہ دعوی عملی جامہ نہ پہن سکا۔ اس دوران دو ہزار اٹھارہ میں چین کی مدد سے ریموٹ سینسنگ میں مدد کے لیے دو سیارے لانچ ہوئے۔ 
سن دو ہزار سے سپارکو نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے تحت کام کر رہا ہے۔ اس عرصے میں فوج کی انجینئرنگ کور سے تعلق رکھنے والے چار اعلیٰ افسر یکے بعد دیگرے سپارکو کی سربراہی کر چکے ہیں۔ دنیا بدل چکی ہے۔ پاکستان کے تین اطراف ایڈوانس خلائی پروگرام سے لیس طاقتیں ہیں۔ خلائی ٹیکنالوجی میں روز افزوں تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے جو انتہائی تربیت یافتہ افرادی قوت درکار ہے۔ اس کی کھپت اندرونِ ملک نہ ہونے کے سبب نوجوان ٹیلنٹ کا ہدف بیرونِ ملک نوکری ہے۔ مگر خلائی دنیا میں داخلے کے لیے پاکستان کا ویژن دو ہزار چالیس منصوبہ بہرحال اپنی جگہ قائم ہے۔ فی زمانہ عالمی خلائی دوڑ میں نجی شعبہ بھی برابر کا شریک ہے مگر پاکستان میں خلائی سائنس اور متعلقہ ادارے ابھی تک روائیتی بیورو کریٹک چنگل میں ہیں۔ ارادے ہمیشہ کی طرح بلند ہیں مگر عمل کب ٹیک آف کرے گا ؟ اس بابت یقین سے کچھ کہنا اپنی پیش گویانہ شہرت کو داؤ پر لگانے جیسا ہے۔ اللہ مالک ہے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
khouj-blog1 · 5 years
Text
چین کا ناقابل یقین اوردنگ کردینے والا منصوبہ
New Post has been published on https://khouj.com/technology/108967/
چین کا ناقابل یقین اوردنگ کردینے والا منصوبہ
Tumblr media
چین ایک ایسے ملک کے طور پر ابھر رہا ہے جس کے منصوبے ناقابل یقین ہوتے جارہے ہیں لیکن وہ انہیں حقیقت کا روپ دینے میں کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اور چین اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سورج کا سہارا لینے کا ارادہ رکھتا ہے مگر اس میں انفرادیت یہ ہے کہ وہ بالائی خلا میں پاور اسٹیشن تعمیر کرنے جارہا ہے۔
یہ بجلی گھر یا پاور اسٹیشن زمین کے مدار میں ہوگا اور سورج کی شعاعوں کو بجلی میں بدل کر یہ توانائی واپس زمین پر بیم کی شکل منتقل کرے گا۔
چین کو توقع ہے کہ اگر چینی اسپیس ایجنسی اس کے لیے درکار ٹیکنالوجی تیار کرنے میں کامیاب ہوئی تو اس منصوبے کو 2030 تک مکمل کرلیا جائے گا اور اس کی بدولت ہر وقت بجلی کی سپلائی جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔
اس ٹیکنالوجی کی آزمائش 2021 سے 2025 کے درمیان کیے جانے کا امکان ہے جس کے بعد ایک میگاواٹ سولر پاور اسٹیشن 2030 تک خلا م��ں بھیجے جائے گا۔
اس منصوبے کے تحت مستقبل میں زیادہ بڑے اور موثر پاور اسٹیشنز کو بھی خلا میں منتقل کیا جائے گا۔
اس حوالے سے تجرباتی بیس کو چین کے شہر چونگ چنگ میں تیار کرلیا گیا ہے۔
چین کا یہ مجوزہ پاور اسٹیشن 36 ہزار کلومیٹر بلندی پر زمین کی مدار میں موجود ہوگا، جس سے پہلے چینی سائنسدان چھوٹے پاور اسٹیشن تعمیر کرکے خلا میں بھیجیں گے۔
چینی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے 99 فیصد تک بجلی کی فراہمی وقت پر ہوگی جبکہ یہ ماحول دوست بھی ہوگی۔
اس منصوبے کے تحت سولر انرجی کو خلا میں پہلے بجلی میں منتقل کیا جائے گا جس کے بعد مائیکرو ویو یا لیزر کی شکل میں زمین پر بیم کیا جائے گا جہاں گرڈ اسٹیشن اسے موصول کرے گا۔
سائنس فکشن ناول جیسا یہ منصوبہ نیا نہیں، جاپان اس بارے میں ایک دہائی قبل بات کرچکا ہے جبکہ امریکا میں بھی گزشتہ سال اس طرح کے منصوبے پر بات کی گئی۔
چین اس وقت خلائی منصوبوں پر امریکا کے بعد سب سے زیادہ فنڈز خرچ کرنے والا ملک ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے 8 ارب ڈالرز سالانہ بجٹ مختص کیا ہوا ہے تاکہ اس معاملے میں روس اور امریکا کو پیچھے چھوڑا جاسکے۔
چین دنیا کا پہلا ملک بننا چاہتا ہے جو چاند پر ایک بیس قائم کرنے میں کامیاب ہوگا اور اس کے لیے وہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد لے گا۔
0 notes
summermkelley · 6 years
Text
پی آر ایس ایس۔1؛ پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ
پی آر ایس ایس۔1 سے خصوصاً پاکستانی سرحدوں کی نگرانی و جاسوسی کرنا بھی ممکن ہے فوٹو : فائل
الیکشن کی گہماگہمی میں پچھلے دنوں سامنے آئی ایک خوش خبری ماند سی پڑگئی، حالانکہ اسے نمایاں ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں خوش خبریاں کم ہی ملتی ہیں اور پژمردہ کرنے والی ضرورت سے زیادہ۔ بہرحال اچھی خبر یہ ہے کہ 9 جولائی کو پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ یا مصنوعی سیارہ’’ پی آر ایس ایس۔1 ‘‘(PRSS-1) خلا میں کامیابی سے بھجوا دیا گیا۔ ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ مصنوعی سیاروں کی خاص قسم ہے۔ اس میں ایسے طاقتور کیمرے، ریڈار اور دیگر حساس آلات نصب ہوتے ہیں جن کی مدد سے زمین کے مناظر کی صاف شفاف یا ہائی ریزولیشن تصاویر لینا ممکن ہے۔دنیا میں چند ہی ممالک ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کا کنٹرول رکھتے ہیں۔اب پاکستان بھی اس خصوصی کلب کا رکن بن چکا۔
ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ عسکری اور غیر عسکری، دونوں قسم کے مقاصد میں کام آتے ہیں۔ عسکری طور پر سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر دشمن کی نگرانی کرنے اور اس پہ نظر رکھنے میں کام آتی ہیں۔ وہ ایک ملک کی فوج کو دشمن کی نقل و حرکت دیکھنے میں مدد دیتی نیز سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ اگر کوئی بھی دشمن چوری چھپے سرحد پار کرے، تو تصاویر کے ذریعے اسے شناخت کرنا ممکن ہوتا ہے۔ جاسوسی و نگرانی کرانے کی صلاحیت رکھنے کے باعث ہی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ’’خلا میں آنکھ‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔ اصطلاح میں انہیں ’’جاسوس سیٹلائٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔غیر عسکری طور پہ اولیّں پاکستانی سیٹلائٹ وطن عزیز کے دوردراز علاقوں میں بسلسلہ قدرتی وسائل کی تلاش ارضیاتی سروے کرنے،قدرتی آفات پر نظر رکھنے ،زرعی تحقیق انجام دینے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں  مدد دے گا۔
عالمی طاقتوں مثلاً امریکا، روس، چین نے بڑی تعداد میں ریموٹ سیسنگ سیٹلائٹ خلا میں چھوڑ رکھے ہیں حتیٰ کہ ہمارا پڑوسی بھارت بھی خلا میں تیرہ ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ رکھتا ہے۔ یہ مصنوعی سیارے عسکری اور غیر عسکری، دونوں لحاظ سے بھارتیوں کے کام آرہے ہیں۔ بھارت نے آخری ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ، کارٹوسیٹ 2 ای (Cartosat-2E) پچھلے سال جون میں چھوڑا تھا۔ بھارت کے سائنسی و تحقیقی ادارے مزید ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ تیار کررہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ بھارتی فوج اپنی وسیع و عریض سرحدوں کی چوبیس گھنٹے نگرانی کرسکے۔
پاک فوج اپنی سرحدوں کی نگرانی و جاسوسی کی خاطر دوست ملک، چین کے ریموٹ سینسنگ سیاروں سے مدد لے رہی ہے۔ مگر ہمارے سیکورٹی اداروں کی خواہش تھی کہ پاکستان کے پاس اپنا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ نگرانی و جاسوسی کی اہم سرگرمی میں خود مختار ہوسکیں۔ ہر کام میں دوسروں پر انحصار قومی سلامتی کو خطرہ میں ڈال سکتا ہے۔اسی لیے مئی 2016ء میں ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ تیار کرنے کے سلسلے میں پاکستان اور چین کے مابین ایک اہم معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کی رو سے چین کے قومی ادارے، چائنا اکیڈمی آف سپیس ٹیکنالوجی نے پاکستان کے لیے جدید ترین آلات سے مزین ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بنانے کی ہامی بھرلی۔ معاہدے کے تحت اس سیٹلائٹ کی ٹیکنالوجی بھی پاکستان کو منتقل ہونی تھی۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے قومی خلائی ادارے، سپارکو کے ماہرین اور ہنرمندوں نے بھی پہلے پاکستانی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کی تیاری میں حصہ لیا۔ اسی لیے پی آر ایس ایس۔1 کی کامیابی سے تکمیل وطن عزیز کی سائنسی و تکنیکی تاریخ میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔
سپارکو کے ماہرین نے پاک ٹیس۔1 اے (PakTES-1A) کے نام سے ایک چھوٹا تجرباتی سیٹلائٹ تیار کیا تھا۔ اسے بھی پی آر ایس ایس۔1 کے ساتھ شمال مغرب چین میں واقع جیکوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے لانگ مارچ۔2 سی نامی راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا۔ یہ دونوں سیٹلائٹ اب اپنے متعین مدار میں گھوم رہے ہیں۔پاکستانی سائنس داں، انجینئر اور ہنرمند چاہتے تو اپنے طور پر بھی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بناسکتے تھے۔ مگر یہ خطرہ موجود تھا کہ تجربے کی کمی کے باعث منصوبہ ناکام ہوجائے۔ یوں کروڑوں روپے ضائع ہوجاتے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے ہی ضروری سمجھا گیا کہ پاکستانی سائنس داں و انجینئر چینی ہنرمندوں کے ساتھ کام کرکے پہلے تجربہ و مہارت حاصل کرلیں۔ اس کے بعد وہ اپنے وسائل سے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بنانے پر قادر ہوجاتے۔
پی آر ایس ایس۔1 بارہ سو کلو وزنی سیٹلائٹ ہے۔اب یہ 640 کلو میٹر کی بلندی پر فضا میںگھوم رہا ہے۔ اس کی تیاری پر چوبیس ارب چھبیس کروڑ روپے لاگت آئی۔ اس رقم کا ’’70 فیصد‘‘ سرمایہ چین نے فراہم کیا جو قسطوں کی صورت پاکستان کو لوٹانا ہے۔ یاد رہے، پاکستان اس قسم کا جدید ترین ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کسی مغربی ملک مثلاً جرمنی یا فرانس سے خریدتا تو خریداری پر کم از کم پینتالیس ارب روپے خرچ ہوجاتے۔ پی آر ایس ایس۔1 سات برس تک پاکستان کی عسکری و غیر عسکری ضروریات پوری کرے گا۔
پی آر ایس ایس۔1 تین بنیادی آلات رکھتا ہے… پنچرو میٹک کیمرا(panchromatic)، ملٹی سپیکٹل کیمرا(multispectral) اور سینیتھک اپرچر ریڈار(synthetic aperture radar) ۔دونوں کیمرے ہائی ریزولیشن تصاویر اتارنے میں کام آتے ہیں۔ جبکہ ریڈار ان تصاویر کو دو یا تین سہ العبادی (dimensional) صورت دیتا ہے۔ زمینی اسٹیشن پر بیٹھا پی آر ایس ایس۔1 کو کنٹرول کرنے والا عملہ درج بالا آلات کے ذریعے پاکستان کے کسی بھی علاقے کی صاف شفاف تصاویر حاصل کرسکتا ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا، پی آر ایس ایس۔1 سے خصوصاً پاکستانی سرحدوں کی نگرانی و جاسوسی کرنا بھی ممکن ہے۔آج دنیا بھر میں انٹیلی جنس یا شعبہ جاسوسی بہت ترقی یافتہ ہوچکا اور وہ کئی مرحلے یا تہیں رکھتا ہے۔ ایک مرحلہ سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر اور دیگر ڈیٹا پر مشتمل ہے۔ اصطلاح میں جاسوسی کا یہ مرحلہ ’’تصویری انٹیلی جنس‘‘ (imaging intelligence) کہلاتا ہے۔ بھارت سمیت دیگر سپرپاورز ایسے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بھی تیار کرچکیں جن میں کیمرے نہیں صرف ریڈار نصب ہیں۔ یہ ریڈار زمین سے آنے والی مختلف برق مقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک) شعاعیں پکڑ کر تصویری ہیت بناتے ہیں۔
پاک افغان سرحد پر نظر
پی آر ایس ایس۔1 خصوصاً پاک افغان سرحد پر نظر رکھنے میں کام آئے گاتاکہ وہاں سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوں تو فوراًنظروں میں آ جائیں۔یہ عمل دراصل بدلتی جیو پولیٹکس یا جغرافیائی سیاست سے تعلق رکھتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ یہ نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے کہ وہ امریکا کی چھیڑی تمام جنگیں ختم کردیں گے، مگر وہ اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکے۔ وجہ یہ کہ امریکی فوج ان پر حاوی ہوچکی۔امریکی جرنیل جغرافیائی اہمیت کے باعث افغانستان کو سونے کی چڑیا سمجھتے ہیں۔ اس مملکت کے ساتھ دو ایٹمی قوتوں (چین، پاکستان) کی سرحدیں لگتی ہیں۔ مستقبل کی ایٹمی قوت (ایران) بھی اس کی پڑوسی ہے۔دو اور ایٹمی قوتیں، روس اور بھارت بھی نزدیک ہی آباد ہیں۔ نیز قدرتی وسائل سے مالا مال وسطی ایشیا بھی افغانستان کے پچھواڑے واقع ہے۔ لہٰذا امریکی فوج اس ملک کو جغرافیائی سیاست کے حوالے سے نہایت اہم سمجھتی ہے اور اسے ہرگز خیرباد نہیں کہنا چاہتی۔
مسئلہ یہ ہے کہ امریکی فوج افغانستان میں اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑنے کے باوجود طالبان کو شکست نہیں دے سکی۔ اس ناکامی کے باعث امریکا میں مختلف دانشور اور عوام بھی اپنے حکمران طبقے پر گرجتے برستے رہتے ہیں۔ اکثر صدر ٹرمپ پر شدید دباؤ پڑجاتا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی فوج واپس بلوالیں مگر امریکی جرنیل ایسا ہرگز نہیں چاہتے۔
افغانستان میں اپنی فوج ٹھہرانے کی خاطر امریکی جرنیلوں نے حال ہی میں نئی چال چلی ہے۔ وہ یہ کہ داعش کو افغان طالبان کے سامنے کھڑا کیا جائے۔ اس چال سے امریکی جرنیل کئی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ دونوں گروہوں کی لڑائی سے طالبان کمزور ہوجائیں۔ دوم اس خانہ جنگی سے امریکی فوج کو افغانستان میں مذید قیام کا بہانہ مل جائے گا۔ امریکی فوج مسلسل یہ پروپیگنڈا کررہی ہے کہ اگر امریکا افغانستان سے رخصت ہوا، تو وہاں بستے جنگجو دوبارہ امریکی و یورپی مفادات کے خلاف سرگرم ہوجائیں گے اور امریکی عوام پر بھی حملے کریں گے۔
داعش یا امارات اسلامیہ کو عراق و شام میں شکست ہوچکی۔ اس شکست میں روس اور ایران نے اہم کردار ادا کیا۔ داعش میں ہزاروں غیر ملکی جنگجو بھی شامل تھے۔ اب خبریں ہیں کہ امریکی ہیلی کاپٹر عراق و شام سے ان غیر ملکی جنگجوؤں کو افغانستان لارہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اس مملکت کو داعش کا نیا ہیڈکوارٹر بنایا جاسکے۔عالم اسلام میں سرگرم جنگجوؤں کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنا امریکا نے وتیرہ بنالیا ہے۔ اس عمل کی باقاعد ابتدا سویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کی جنگ سے ہوئی۔ تب امریکا افغان مجاہدین اور القاعدہ جیسی جنگجو تنظیموں کو سرمایہ و اسلحہ فراہم کرتا رہا۔ جب 1989ء میں سویت فوج تھک ہار کر واپس گئی اور خصوصاً القاعدہ مقبوضہ کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، فلسطین، فلپائن میں متحرک ہوئی تو امریکی اس کے مخالف بن گئے۔ وہ اپنے مفادات کو کسی قیمت پر زک پہنچتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
القاعدہ اور امریکی جرنیلوں کا ٹکراؤ بڑھا اور اس نے عالم اسلام اور مغرب کے کئی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آخر امریکا جدید ترین اسلحے اور جاسوسی و کھوج کی اعلیٰ صلاحیتوں کے باعث القاعدہ کو تباہ کرنے میں کامیاب رہا۔ لیکن 2013ء میں القاعدہ نے صدر شام بشارالاسد کے خلاف اعلان جنگ کیا، تو امریکی اس کے سرگرم جنگجوؤں کو سرمایہ و اسلحہ فراہم کرنے لگی۔ وجہ یہی کہ امریکا بشارالاسد کے خلاف تھا۔ اس مثال سے عیاں ہے کہ امریکی حکمران طبقہ اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر ہر قسم کی جائز و ناجائز سرگرمیاں اپنا سکتا ہے۔
جب لیبیا میں القاعدہ اور دیگر جنگجو گروہ صدر معمر قذافی کے خلاف سرگرم ہوئے، تو امریکا نے انہیں بھی سرمایہ و اسلحہ فراہم کیا۔ امریکی حکمران صدر قذافی سے نفرت کرتے تھے کیونکہ وہ خصوصاً افریقی ممالک کو امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کے خلاف ابھارتے تھے۔ امریکا اور فرانس کی مالی و عسکری مدد ہی سے جنگجو قذافی حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوسکے۔آج امریکی جرنیل افغانستان میں ایک نئے خفیہ کھیل کی ابتدا کرچکے۔ اب امریکی چوری چھپے وہاں داعش کے بچے کھچے جنگجو لاکر انہیں سرمایہ و اسلحہ دے رہے ہیں تاکہ وہ ان کے مفادات پورے کرسکیں۔اکثر جنگجو سمجھتے ہیں کہ وہ ایک اہم نظریاتی یا مذہبی ذمے داری پوری کررہے ہیں۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ امریکی جرنیل انہیں اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان تحریک طالبان کے بیشتر عناصر بھی داعش کا حصہ بن چکے۔ جب گیارہ سال قبل یہ تنظیم قائم ہوئی تب بہرحال وہ نظریاتی جنگ لڑرہی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ تنظیم بھارت کی پراکسی یا خفیہ کٹھ پتلی بن گئی۔ اس نے پھر پاکستانی قوم اور سیکورٹی اداروں پر خوفناک حملے کیے۔ تاہم پاک فوج کی زبردست فوجی مہمات نے پاکستان تحریک طالبان کی کمر توڑ کر رکھی دی۔ چناں چہ اب تنظیم کے جنگجو امریکا و بھارت کی نئی پراکسی، داعش کا حصہ بن رہے ہیں۔روایتی طور پر پاکستان افغان طالبان سے قربت رکھتا ہے۔ اسی لیے داعش مملکت پاکستان کے خلاف بھی سرگرم ہوچکی۔ حال ہی میں خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں پاکستانیوں پر ہوئے بیشتر حملے داعش ہی نے مقامی دہشت گرد تنظیموں کی مدد سے کرائے۔ گویا پاک فوج اور پاکستانی قوم کے سامنے ایک نیا دشمن نمودار ہوچکا۔
افغان حکومت امریکی فوج کی کٹھ پتلی ہے، اس لیے وہ داعش کی راہ نہیں روک سکتی۔ چین، روس اور ایران بھی آگاہ ہیں کہ امریکا، بھارت اور افغان حکومت پر مشتمل ٹرائیکا اپنے مقاصد کے لیے داعش کو افغانستان میں طاقتور بنارہا ہے۔ چونکہ اس جنم لیتے دیو سے انہیں بھی خطرہ ہے، اس لیے وہ داعش سے نمٹنے کی خاطر پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں چاروں ممالک کے انٹیلی جنس سربراہوں کا اجلاس ہوا جو ایک زبردست اور تاریخی واقعہ ہے۔ یہ عیاں کرتا ہے کہ بدلتی جغرافیائی سیاست کے باعث خطے میں نئی گریٹ گیم شروع ہوچکی۔پاکستان کے لیے اس نئے خفیہ کھیل میں فوائد مضمر ہیں اور خطرات بھی، جن پر پھر کبھی تفصیلی بات ہوگی۔اس گریٹ گیم کے خطرات سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان پی آر ایس ایس۔1 جیسے مزید ریموٹ سینسنگ سیارے فضا میں بھجوائے۔ اس طرح وہ چوبیس گھنٹے اپنی مشرقی اور شمالی سرحدوں پر ہوشیاری سے اور چوکنے انداز میں نظر رکھ سکے گا۔
The post پی آر ایس ایس۔1؛ پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2L3DnuY via Roznama Urdu
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
شینژو 12 مشن نے چینی خلانوردوں کو خلائی اسٹیشن میں پہنچا دیا - اردو نیوز پیڈیا
شینژو 12 مشن نے چینی خلانوردوں کو خلائی اسٹیشن میں پہنچا دیا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین بیجنگ: شینژو 12 انسان بردار خلائی جہاز نے آج کامیاب اُڑان بھرنے کے سات گھنٹے بعد 3 چینی خلا نوردوں کو خلائی اسٹیشن ’’تیانہے‘‘ میں پہنچا دیا ہے۔ اس مرحلے کو چینی خلائی اسٹیشن کی تعمیر میں ایک اور بڑی پیش رفت بھی قرار دیا جارہا ہے۔ خبروں کے مطابق، آج صبح 9 بج کر 22 منٹ پر چین کا شینژو 12 انسان بردار خلائی جہاز تین خلا نوردوں کے ساتھ ’’جیوچھوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر‘‘ سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
dragnews · 6 years
Text
پی آر ایس ایس۔1؛ پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ
پی آر ایس ایس۔1 سے خصوصاً پاکستانی سرحدوں کی نگرانی و جاسوسی کرنا بھی ممکن ہے فوٹو : فائل
الیکشن کی گہماگہمی میں پچھلے دنوں سامنے آئی ایک خوش خبری ماند سی پڑگئی، حالانکہ اسے نمایاں ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں خوش خبریاں کم ہی ملتی ہیں اور پژمردہ کرنے والی ضرورت سے زیادہ۔ بہرحال اچھی خبر یہ ہے کہ 9 جولائی کو پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ یا مصنوعی سیارہ’’ پی آر ایس ایس۔1 ‘‘(PRSS-1) خلا میں کامیابی سے بھجوا دیا گیا۔ ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ مصنوعی سیاروں کی خاص قسم ہے۔ اس میں ایسے طاقتور کیمرے، ریڈار اور دیگر حساس آلات نصب ہوتے ہیں جن کی مدد سے زمین کے مناظر کی صاف شفاف یا ہائی ریزولیشن تصاویر لینا ممکن ہے۔دنیا میں چند ہی ممالک ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کا کنٹرول رکھتے ہیں۔اب پاکستان بھی اس خصوصی کلب کا رکن بن چکا۔
ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ عسکری اور غیر عسکری، دونوں قسم کے مقاصد میں کام آتے ہیں۔ عسکری طور پر سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر دشمن کی نگرانی کرنے اور اس پہ نظر رکھنے میں کام آتی ہیں۔ وہ ایک ملک کی فوج کو دشمن کی نقل و حرکت دیکھنے میں مدد دیتی نیز سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ اگر کوئی بھی دشمن چوری چھپے سرحد پار کرے، تو تصاویر کے ذریعے اسے شناخت کرنا ممکن ہوتا ہے۔ جاسوسی و نگرانی کرانے کی صلاحیت رکھنے کے باعث ہی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ’’خلا میں آنکھ‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔ اصطلاح میں انہیں ’’جاسوس سیٹلائٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔غیر عسکری طور پہ اولیّں پاکستانی سیٹلائٹ وطن عزیز کے دوردراز علاقوں میں بسلسلہ قدرتی وسائل کی تلاش ارضیاتی سروے کرنے،قدرتی آفات پر نظر رکھنے ،زرعی تحقیق انجام دینے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں  مدد دے گا۔
عالمی طاقتوں مثلاً امریکا، روس، چین نے بڑی تعداد میں ریموٹ سیسنگ سیٹلائٹ خلا میں چھوڑ رکھے ہیں حتیٰ کہ ہمارا پڑوسی بھارت بھی خلا میں تیرہ ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ رکھتا ہے۔ یہ مصنوعی سیارے عسکری اور غیر عسکری، دونوں لحاظ سے بھارتیوں کے کام آرہے ہیں۔ بھارت نے آخری ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ، کارٹوسیٹ 2 ای (Cartosat-2E) پچھلے سال جون میں چھوڑا تھا۔ بھارت کے سائنسی و تحقیقی ادارے مزید ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ تیار کررہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ بھارتی فوج اپنی وسیع و عریض سرحدوں کی چوبیس گھنٹے نگرانی کرسکے۔
پاک فوج اپنی سرحدوں کی نگرانی و جاسوسی کی خاطر دوست ملک، چین کے ریموٹ سینسنگ سیاروں سے مدد لے رہی ہے۔ مگر ہمارے سیکورٹی اداروں کی خواہش تھی کہ پاکستان کے پاس اپنا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ نگرانی و جاسوسی کی اہم سرگرمی میں خود مختار ہوسکیں۔ ہر کام میں دوسروں پر انحصار قومی سلامتی کو خطرہ میں ڈال سکتا ہے۔اسی لیے مئی 2016ء میں ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ تیار کرنے کے سلسلے میں پاکستان اور چین کے مابین ایک اہم معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کی رو سے چین کے قومی ادارے، چائنا اکیڈمی آف سپیس ٹیکنالوجی نے پاکستان کے لیے جدید ترین آلات سے مزین ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بنانے کی ہامی بھرلی۔ معاہدے کے تحت اس سیٹلائٹ کی ٹیکنالوجی بھی پاکستان کو منتقل ہونی تھی۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے قومی خلائی ادارے، سپارکو کے ماہرین اور ہنرمندوں نے بھی پہلے پاکستانی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کی تیاری میں حصہ لیا۔ اسی لیے پی آر ایس ایس۔1 کی کامیابی سے تکمیل وطن عزیز کی سائنسی و تکنیکی تاریخ میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔
سپارکو کے ماہرین نے پاک ٹیس۔1 اے (PakTES-1A) کے نام سے ایک چھوٹا تجرباتی سیٹلائٹ تیار کیا تھا۔ اسے بھی پی آر ایس ایس۔1 کے ساتھ شمال مغرب چین میں واقع جیکوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے لانگ مارچ۔2 سی نامی راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا۔ یہ دونوں سیٹلائٹ اب اپنے متعین مدار میں گھوم رہے ہیں۔پاکستانی سائنس داں، انجینئر اور ہنرمند چاہتے تو اپنے طور پر بھی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بناسکتے تھے۔ مگر یہ خطرہ موجود تھا کہ تجربے کی کمی کے باعث منصوبہ ناکام ہوجائے۔ یوں کروڑوں روپے ضائع ہوجاتے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے ہی ضروری سمجھا گیا کہ پاکستانی سائنس داں و انجینئر چینی ہنرمندوں کے ساتھ کام کرکے پہلے تجربہ و مہارت حاصل کرلیں۔ اس کے بعد وہ اپنے وسائل سے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بنانے پر قادر ہوجاتے۔
پی آر ایس ایس۔1 بارہ سو کلو وزنی سیٹلائٹ ہے۔اب یہ 640 کلو میٹر کی بلندی پر فضا میںگھوم رہا ہے۔ اس کی تیاری پر چوبیس ارب چھبیس کروڑ روپے لاگت آئی۔ اس رقم کا ’’70 فیصد‘‘ سرمایہ چین نے فراہم کیا جو قسطوں کی صورت پاکستان کو لوٹانا ہے۔ یاد رہے، پاکستان اس قسم کا جدید ترین ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کسی مغربی ملک مثلاً جرمنی یا فرانس سے خریدتا تو خریداری پر کم از کم پینتالیس ارب روپے خرچ ہوجاتے۔ پی آر ایس ایس۔1 سات برس تک پاکستان کی عسکری و غیر عسکری ضروریات پوری کرے گا۔
پی آر ایس ایس۔1 تین بنیادی آلات رکھتا ہے… پنچرو میٹک کیمرا(panchromatic)، ملٹی سپیکٹل کیمرا(multispectral) اور سینیتھک اپرچر ریڈار(synthetic aperture radar) ۔دونوں کیمرے ہائی ریزولیشن تصاویر اتارنے میں کام آتے ہیں۔ جبکہ ریڈار ان تصاویر کو دو یا تین سہ العبادی (dimensional) صورت دیتا ہے۔ زمینی اسٹیشن پر بیٹھا پی آر ایس ایس۔1 کو کنٹرول کرنے والا عملہ درج بالا آلات کے ذریعے پاکستان کے کسی بھی علاقے کی صاف شفاف تصاویر حاصل کرسکتا ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا، پی آر ایس ایس۔1 سے خصوصاً پاکستانی سرحدوں کی نگرانی و جاسوسی کرنا بھی ممکن ہے۔آج دنیا بھر میں انٹیلی جنس یا شعبہ جاسوسی بہت ترقی یافتہ ہوچکا اور وہ کئی مرحلے یا تہیں رکھتا ہے۔ ایک مرحلہ سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر اور دیگر ڈیٹا پر مشتمل ہے۔ اصطلاح میں جاسوسی کا یہ مرحلہ ’’تصویری انٹیلی جنس‘‘ (imaging intelligence) کہلاتا ہے۔ بھارت سمیت دیگر سپرپاورز ایسے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بھی تیار کرچکیں جن میں کیمرے نہیں صرف ریڈار نصب ہیں۔ یہ ریڈار زمین سے آنے والی مختلف برق مقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک) شعاعیں پکڑ کر تصویری ہیت بناتے ہیں۔
پاک افغان سرحد پر نظر
پی آر ایس ایس۔1 خصوصاً پاک افغان سرحد پر نظر رکھنے میں کام آئے گاتاکہ وہاں سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوں تو فوراًنظروں میں آ جائیں۔یہ عمل دراصل بدلتی جیو پولیٹکس یا جغرافیائی سیاست سے تعلق رکھتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ یہ نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے کہ وہ امریکا کی چھیڑی تمام جنگیں ختم کردیں گے، مگر وہ اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکے۔ وجہ یہ کہ امریکی فوج ان پر حاوی ہوچکی۔امریکی جرنیل جغرافیائی اہمیت کے باعث افغانستان کو سونے کی چڑیا سمجھتے ہیں۔ اس مملکت کے ساتھ دو ایٹمی قوتوں (چین، پاکستان) کی سرحدیں لگتی ہیں۔ مستقبل کی ایٹمی قوت (ایران) بھی اس کی پڑوسی ہے۔دو اور ایٹمی قوتیں، روس اور بھارت بھی نزدیک ہی آباد ہیں۔ نیز قدرتی وسائل سے مالا مال وسطی ایشیا بھی افغانستان کے پچھواڑے واقع ہے۔ لہٰذا امریکی فوج اس ملک کو جغرافیائی سیاست کے حوالے سے نہایت اہم سمجھتی ہے اور اسے ہرگز خیرباد نہیں کہنا چاہتی۔
مسئلہ یہ ہے کہ امریکی فوج افغانستان میں اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑنے کے باوجود طالبان کو شکست نہیں دے سکی۔ اس ناکامی کے باعث امریکا میں مختلف دانشور اور عوام بھی اپنے حکمران طبقے پر گرجتے برستے رہتے ہیں۔ اکثر صدر ٹرمپ پر شدید دباؤ پڑجاتا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی فوج واپس بلوالیں مگر امریکی جرنیل ایسا ہرگز نہیں چاہتے۔
افغانستان میں اپنی فوج ٹھہرانے کی خاطر امریکی جرنیلوں نے حال ہی میں نئی چال چلی ہے۔ وہ یہ کہ داعش کو افغان طالبان کے سامنے کھڑا کیا جائے۔ اس چال سے امریکی جرنیل کئی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ دونوں گروہوں کی لڑائی سے طالبان کمزور ہوجائیں۔ دوم اس خانہ جنگی سے امریکی فوج کو افغانستان میں مذید قیام کا بہانہ مل جائے گا۔ امریکی فوج مسلسل یہ پروپیگنڈا کررہی ہے کہ اگر امریکا افغانستان سے رخصت ہوا، تو وہاں بستے جنگجو دوبارہ امریکی و یورپی مفادات کے خلاف سرگرم ہوجائیں گے اور امریکی عوام پر بھی حملے کریں گے۔
داعش یا امارات اسلامیہ کو عراق و شام میں شکست ہوچکی۔ اس شکست میں روس اور ایران نے اہم کردار ادا کیا۔ داعش میں ہزاروں غیر ملکی جنگجو بھی شامل تھے۔ اب خبریں ہیں کہ امریکی ہیلی کاپٹر عراق و شام سے ان غیر ملکی جنگجوؤں کو افغانستان لارہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اس مملکت کو داعش کا نیا ہیڈکوارٹر بنایا جاسکے۔عالم اسلام میں سرگرم جنگجوؤں کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنا امریکا نے وتیرہ بنالیا ہے۔ اس عمل کی باقاعد ابتدا سویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کی جنگ سے ہوئی۔ تب امریکا افغان مجاہدین اور القاعدہ جیسی جنگجو تنظیموں کو سرمایہ و اسلحہ فراہم کرتا رہا۔ جب 1989ء میں سویت فوج تھک ہار کر واپس گئی اور خصوصاً القاعدہ مقبوضہ کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، فلسطین، فلپائن میں متحرک ہوئی تو امریکی اس کے مخالف بن گئے۔ وہ اپنے مفادات کو کسی قیمت پر زک پہنچتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
القاعدہ اور امریکی جرنیلوں کا ٹکراؤ بڑھا اور اس نے عالم اسلام اور مغرب کے کئی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آخر امریکا جدید ترین اسلحے اور جاسوسی و کھوج کی اعلیٰ صلاحیتوں کے باعث القاعدہ کو تباہ کرنے میں کامیاب رہا۔ لیکن 2013ء میں القاعدہ نے صدر شام بشارالاسد کے خلاف اعلان جنگ کیا، تو امریکی اس کے سرگرم جنگجوؤں کو سرمایہ و اسلحہ فراہم کرنے لگی۔ وجہ یہی کہ امریکا بشارالاسد کے خلاف تھا۔ اس مثال سے عیاں ہے کہ امریکی حکمران طبقہ اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر ہر قسم کی جائز و ناجائز سرگرمیاں اپنا سکتا ہے۔
جب لیبیا میں القاعدہ اور دیگر جنگجو گروہ صدر معمر قذافی کے خلاف سرگرم ہوئے، تو امریکا نے انہیں بھی سرمایہ و اسلحہ فراہم کیا۔ امریکی حکمران صدر قذافی سے نفرت کرتے تھے کیونکہ وہ خصوصاً افریقی ممالک کو امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کے خلاف ابھارتے تھے۔ امریکا اور فرانس کی مالی و عسکری مدد ہی سے جنگجو قذافی حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوسکے۔آج امریکی جرنیل افغانستان میں ایک نئے خفیہ کھیل کی ابتدا کرچکے۔ اب امریکی چوری چھپے وہاں داعش کے بچے کھچے جنگجو لاکر انہیں سرمایہ و اسلحہ دے رہے ہیں تاکہ وہ ان کے مفادات پورے کرسکیں۔اکثر جنگجو سمجھتے ہیں کہ وہ ایک اہم نظریاتی یا مذہبی ذمے داری پوری کررہے ہیں۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ امریکی جرنیل انہیں اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان تحریک طالبان کے بیشتر عناصر بھی داعش کا حصہ بن چکے۔ جب گیارہ سال قبل یہ تنظیم قائم ہوئی تب بہرحال وہ نظریاتی جنگ لڑرہی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ تنظیم بھارت کی پراکسی یا خفیہ کٹھ پتلی بن گئی۔ اس نے پھر پاکستانی قوم اور سیکورٹی اداروں پر خوفناک حملے کیے۔ تاہم پاک فوج کی زبردست فوجی مہمات نے پاکستان تحریک طالبان کی کمر توڑ کر رکھی دی۔ چناں چہ اب تنظیم کے جنگجو امریکا و بھارت کی نئی پراکسی، داعش کا حصہ بن رہے ہیں۔روایتی طور پر پاکستان افغان طالبان سے قربت رکھتا ہے۔ اسی لیے داعش مملکت پاکستان کے خلاف بھی سرگرم ہوچکی۔ حال ہی میں خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں پاکستانیوں پر ہوئے بیشتر حملے داعش ہی نے مقامی دہشت گرد تنظیموں کی مدد سے کرائے۔ گویا پاک فوج اور پاکستانی قوم کے سامنے ایک نیا دشمن نمودار ہوچکا۔
افغان حکومت امریکی فوج کی کٹھ پتلی ہے، اس لیے وہ داعش کی راہ نہیں روک سکتی۔ چین، روس اور ایران بھی آگاہ ہیں کہ امریکا، بھارت اور افغان حکومت پر مشتمل ٹرائیکا اپنے مقاصد کے لیے داعش کو افغانستان میں طاقتور بنارہا ہے۔ چونکہ اس جنم لیتے دیو سے انہیں بھی خطرہ ہے، اس لیے وہ داعش سے نمٹنے کی خاطر پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں چاروں ممالک کے انٹیلی جنس سربراہوں کا اجلاس ہوا جو ایک زبردست اور تاریخی واقعہ ہے۔ یہ عیاں کرتا ہے کہ بدلتی جغرافیائی سیاست کے باعث خطے میں نئی گریٹ گیم شروع ہوچکی۔پاکستان کے لیے اس نئے خفیہ کھیل میں فوائد مضمر ہیں اور خطرات بھی، جن پر پھر کبھی تفصیلی بات ہوگی۔اس گریٹ گیم کے خطرات سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان پی آر ایس ایس۔1 جیسے مزید ریموٹ سینسنگ سیارے فضا میں بھجوائے۔ اس طرح وہ چوبیس گھنٹے اپنی مشرقی اور شمالی سرحدوں پر ہوشیاری سے اور چوکنے انداز میں نظر رکھ سکے گا۔
The post پی آر ایس ایس۔1؛ پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2L3DnuY via Today Pakistan
0 notes
noorenazarnews · 3 years
Text
چینی خلائی اسٹیشن سے جدا ہونے والے راکٹ کو تباہ کرنے کا ارادہ نہیں، امریکہ
Tumblr media
امریکا نے کہا ہے کہ چینی خلائی اسٹیشن سے جدا ہونے والے راکٹ کو تباہ کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ چین کے بے قابو راکٹ لانگ مارچ 5 بی کو مار گرانے کا منصوبہ نہیں۔ بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امید ہے راکٹ جہاں گرے گا وہاں کسی کو نقصان نہیں ہوگا۔ پنٹاگون ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی راکٹ کی باڈی ہفتے یا اتوار کو زمین پر گر سکتی ہے۔ خیال رہے کہ چین کے خلائی اسٹیشن سے لانگ مارچ 5 بی راکٹ الگ ہو کر مدار سے باہر نکل چکا ہے۔ Read the full article
0 notes
informationtv · 4 years
Text
چینی خلائی اسٹیشن کےلیے مزید 18 افراد کا انتخاب
چینی خلائی اسٹیشن کےلیے مزید 18 افراد کا انتخاب
Tumblr media
چینی خلائی ایجنسی نے اپنے خلائی اسٹیشن ’’تیانگونگ 3‘‘ کے عملے کےلیے مزید 18 ناموں کا اعلان کردیا ہے
جس میں 17 مرد اور ایک خاتون شامل ہیں۔ قبل ازیں اسی خلائی اسٹیشن کےلیے 21 افراد منتخب کیے جاچکے تھے۔ اس طرح چینی خلائی اسٹیشن بھیجے جانے والے افراد کی تعداد 39 ہوگئی ہے۔
ان میں سے سات اسپیس پائلٹ بنیں گے، سات افراد کو فلائٹ انجینئرز کے طور پر تربیت دی جائے گی جبکہ باقی چار ’’مشن پے لوڈ…
View On WordPress
0 notes
katarinadreams92 · 6 years
Text
پی آر ایس ایس۔1؛ پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ
پی آر ایس ایس۔1 سے خصوصاً پاکستانی سرحدوں کی نگرانی و جاسوسی کرنا بھی ممکن ہے فوٹو : فائل
الیکشن کی گہماگہمی میں پچھلے دنوں سامنے آئی ایک خوش خبری ماند سی پڑگئی، حالانکہ اسے نمایاں ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں خوش خبریاں کم ہی ملتی ہیں اور پژمردہ کرنے والی ضرورت سے زیادہ۔ بہرحال اچھی خبر یہ ہے کہ 9 جولائی کو پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ یا مصنوعی سیارہ’’ پی آر ایس ایس۔1 ‘‘(PRSS-1) خلا میں کامیابی سے بھجوا دیا گیا۔ ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ مصنوعی سیاروں کی خاص قسم ہے۔ اس میں ایسے طاقتور کیمرے، ریڈار اور دیگر حساس آلات نصب ہوتے ہیں جن کی مدد سے زمین کے مناظر کی صاف شفاف یا ہائی ریزولیشن تصاویر لینا ممکن ہے۔دنیا میں چند ہی ممالک ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کا کنٹرول رکھتے ہیں۔اب پاکستان بھی اس خصوصی کلب کا رکن بن چکا۔
ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ عسکری اور غیر عسکری، دونوں قسم کے مقاصد میں کام آتے ہیں۔ عسکری طور پر سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر دشمن کی نگرانی کرنے اور اس پہ نظر رکھنے میں کام آتی ہیں۔ وہ ایک ملک کی فوج کو دشمن کی نقل و حرکت دیکھنے میں مدد دیتی نیز سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ اگر کوئی بھی دشمن چوری چھپے سرحد پار کرے، تو تصاویر کے ذریعے اسے شناخت کرنا ممکن ہوتا ہے۔ جاسوسی و نگرانی کرانے کی صلاحیت رکھنے کے باعث ہی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ’’خلا میں آنکھ‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔ اصطلاح میں انہیں ’’جاسوس سیٹلائٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔غیر عسکری طور پہ اولیّں پاکستانی سیٹلائٹ وطن عزیز کے دوردراز علاقوں میں بسلسلہ قدرتی وسائل کی تلاش ارضیاتی سروے کرنے،قدرتی آفات پر نظر رکھنے ،زرعی تحقیق انجام دینے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں  مدد دے گا۔
عالمی طاقتوں مثلاً امریکا، روس، چین نے بڑی تعداد میں ریموٹ سیسنگ سیٹلائٹ خلا میں چھوڑ رکھے ہیں حتیٰ کہ ہمارا پڑوسی بھارت بھی خلا میں تیرہ ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ رکھتا ہے۔ یہ مصنوعی سیارے عسکری اور غیر عسکری، دونوں لحاظ سے بھارتیوں کے کام آرہے ہیں۔ بھارت نے آخری ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ، کارٹوسیٹ 2 ای (Cartosat-2E) پچھلے سال جون میں چھوڑا تھا۔ بھارت کے سائنسی و تحقیقی ادارے مزید ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ تیار کررہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ بھارتی فوج اپنی وسیع و عریض سرحدوں کی چوبیس گھنٹے نگرانی کرسکے۔
پاک فوج اپنی سرحدوں کی نگرانی و جاسوسی کی خاطر دوست ملک، چین کے ریموٹ سینسنگ سیاروں سے مدد لے رہی ہے۔ مگر ہمارے سیکورٹی اداروں کی خواہش تھی کہ پاکستان کے پاس اپنا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ نگرانی و جاسوسی کی اہم سرگرمی میں خود مختار ہوسکیں۔ ہر کام میں دوسروں پر انحصار قومی سلامتی کو خطرہ میں ڈال سکتا ہے۔اسی لیے مئی 2016ء میں ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ تیار کرنے کے سلسلے میں پاکستان اور چین کے مابین ایک اہم معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کی رو سے چین کے قومی ادارے، چائنا اکیڈمی آف سپیس ٹیکنالوجی نے پاکستان کے لیے جدید ترین آلات سے مزین ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بنانے کی ہامی بھرلی۔ معاہدے کے تحت اس سیٹلائٹ کی ٹیکنالوجی بھی پاکستان کو منتقل ہونی تھی۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے قومی خلائی ادارے، سپارکو کے ماہرین اور ہنرمندوں نے بھی پہلے پاکستانی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کی تیاری میں حصہ لیا۔ اسی لیے پی آر ایس ایس۔1 کی کامیابی سے تکمیل وطن عزیز کی سائنسی و تکنیکی تاریخ میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔
سپارکو کے ماہرین نے پاک ٹیس۔1 اے (PakTES-1A) کے نام سے ایک چھوٹا تجرباتی سیٹلائٹ تیار کیا تھا۔ اسے بھی پی آر ایس ایس۔1 کے ساتھ شمال مغرب چین میں واقع جیکوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے لانگ مارچ۔2 سی نامی راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا۔ یہ دونوں سیٹلائٹ اب اپنے متعین مدار میں گھوم رہے ہیں۔پاکستانی سائنس داں، انجینئر اور ہنرمند چاہتے تو اپنے طور پر بھی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بناسکتے تھے۔ مگر یہ خطرہ موجود تھا کہ تجربے کی کمی کے باعث منصوبہ ناکام ہوجائے۔ یوں کروڑوں روپے ضائع ہوجاتے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے ہی ضروری سمجھا گیا کہ پاکستانی سائنس داں و انجینئر چینی ہنرمندوں کے ساتھ کام کرکے پہلے تجربہ و مہارت حاصل کرلیں۔ اس کے بعد وہ اپنے وسائل سے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بنانے پر قادر ہوجاتے۔
پی آر ایس ایس۔1 بارہ سو کلو وزنی سیٹلائٹ ہے۔اب یہ 640 کلو میٹر کی بلندی پر فضا میںگھوم رہا ہے۔ اس کی تیاری پر چوبیس ارب چھبیس کروڑ روپے لاگت آئی۔ اس رقم کا ’’70 فیصد‘‘ سرمایہ چین نے فراہم کیا جو قسطوں کی صورت پاکستان کو لوٹانا ہے۔ یاد رہے، پاکستان اس قسم کا جدید ترین ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کسی مغربی ملک مثلاً جرمنی یا فرانس سے خریدتا تو خریداری پر کم از کم پینتالیس ارب روپے خرچ ہوجاتے۔ پی آر ایس ایس۔1 سات برس تک پاکستان کی عسکری و غیر عسکری ضروریات پوری کرے گا۔
پی آر ایس ایس۔1 تین بنیادی آلات رکھتا ہے… پنچرو میٹک کیمرا(panchromatic)، ملٹی سپیکٹل کیمرا(multispectral) اور سینیتھک اپرچر ریڈار(synthetic aperture radar) ۔دونوں کیمرے ہائی ریزولیشن تصاویر اتارنے میں کام آتے ہیں۔ جبکہ ریڈار ان تصاویر کو دو یا تین سہ العبادی (dimensional) صورت دیتا ہے۔ زمینی اسٹیشن پر بیٹھا پی آر ایس ایس۔1 کو کنٹرول کرنے والا عملہ درج بالا آلات کے ذریعے پاکستان کے کسی بھی علاقے کی صاف شفاف تصاویر حاصل کرسکتا ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا، پی آر ایس ایس۔1 سے خصوصاً پاکستانی سرحدوں کی نگرانی و جاسوسی کرنا بھی ممکن ہے۔آج دنیا بھر میں انٹیلی جنس یا شعبہ جاسوسی بہت ترقی یافتہ ہوچکا اور وہ کئی مرحلے یا تہیں رکھتا ہے۔ ایک مرحلہ سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر اور دیگر ڈیٹا پر مشتمل ہے۔ اصطلاح میں جاسوسی کا یہ مرحلہ ’’تصویری انٹیلی جنس‘‘ (imaging intelligence) کہلاتا ہے۔ بھارت سمیت دیگر سپرپاورز ایسے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بھی تیار کرچکیں جن میں کیمرے نہیں صرف ریڈار نصب ہیں۔ یہ ریڈار زمین سے آنے والی مختلف برق مقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک) شعاعیں پکڑ کر تصویری ہیت بناتے ہیں۔
پاک افغان سرحد پر نظر
پی آر ایس ایس۔1 خصوصاً پاک افغان سرحد پر نظر رکھنے میں کام آئے گاتاکہ وہاں سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوں تو فوراًنظروں میں آ جائیں۔یہ عمل دراصل بدلتی جیو پولیٹکس یا جغرافیائی سیاست سے تعلق رکھتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ یہ نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے کہ وہ امریکا کی چھیڑی تمام جنگیں ختم کردیں گے، مگر وہ اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکے۔ وجہ یہ کہ امریکی فوج ان پر حاوی ہوچکی۔امریکی جرنیل جغرافیائی اہمیت کے باعث افغانستان کو سونے کی چڑیا سمجھتے ہیں۔ اس مملکت کے ساتھ دو ایٹمی قوتوں (چین، پاکستان) کی سرحدیں لگتی ہیں۔ مستقبل کی ایٹمی قوت (ایران) بھی اس کی پڑوسی ہے۔دو اور ایٹمی قوتیں، روس اور بھارت بھی نزدیک ہی آباد ہیں۔ نیز قدرتی وسائل سے مالا مال وسطی ایشیا بھی افغانستان کے پچھواڑے واقع ہے۔ لہٰذا امریکی فوج اس ملک کو جغرافیائی سیاست کے حوالے سے نہایت اہم سمجھتی ہے اور اسے ہرگز خیرباد نہیں کہنا چاہتی۔
مسئلہ یہ ہے کہ امریکی فوج افغانستان میں اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑنے کے باوجود طالبان کو شکست نہیں دے سکی۔ اس ناکامی کے باعث امریکا میں مختلف دانشور اور عوام بھی اپنے حکمران طبقے پر گرجتے برستے رہتے ہیں۔ اکثر صدر ٹرمپ پر شدید دباؤ پڑجاتا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی فوج واپس بلوالیں مگر امریکی جرنیل ایسا ہرگز نہیں چاہتے۔
افغانستان میں اپنی فوج ٹھہرانے کی خاطر امریکی جرنیلوں نے حال ہی میں نئی چال چلی ہے۔ و�� یہ کہ داعش کو افغان طالبان کے سامنے کھڑا کیا جائے۔ اس چال سے امریکی جرنیل کئی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ دونوں گروہوں کی لڑائی سے طالبان کمزور ہوجائیں۔ دوم اس خانہ جنگی سے امریکی فوج کو افغانستان میں مذید قیام کا بہانہ مل جائے گا۔ امریکی فوج مسلسل یہ پروپیگنڈا کررہی ہے کہ اگر امریکا افغانستان سے رخصت ہوا، تو وہاں بستے جنگجو دوبارہ امریکی و یورپی مفادات کے خلاف سرگرم ہوجائیں گے اور امریکی عوام پر بھی حملے کریں گے۔
داعش یا امارات اسلامیہ کو عراق و شام میں شکست ہوچکی۔ اس شکست میں روس اور ایران نے اہم کردار ادا کیا۔ داعش میں ہزاروں غیر ملکی جنگجو بھی شامل تھے۔ اب خبریں ہیں کہ امریکی ہیلی کاپٹر عراق و شام سے ان غیر ملکی جنگجوؤں کو افغانستان لارہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اس مملکت کو داعش کا نیا ہیڈکوارٹر بنایا جاسکے۔عالم اسلام میں سرگرم جنگجوؤں کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنا امریکا نے وتیرہ بنالیا ہے۔ اس عمل کی باقاعد ابتدا سویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کی جنگ سے ہوئی۔ تب امریکا افغان مجاہدین اور القاعدہ جیسی جنگجو تنظیموں کو سرمایہ و اسلحہ فراہم کرتا رہا۔ جب 1989ء میں سویت فوج تھک ہار کر واپس گئی اور خصوصاً القاعدہ مقبوضہ کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، فلسطین، فلپائن میں متحرک ہوئی تو امریکی اس کے مخالف بن گئے۔ وہ اپنے مفادات کو کسی قیمت پر زک پہنچتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
القاعدہ اور امریکی جرنیلوں کا ٹکراؤ بڑھا اور اس نے عالم اسلام اور مغرب کے کئی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آخر امریکا جدید ترین اسلحے اور جاسوسی و کھوج کی اعلیٰ صلاحیتوں کے باعث القاعدہ کو تباہ کرنے میں کامیاب رہا۔ لیکن 2013ء میں القاعدہ نے صدر شام بشارالاسد کے خلاف اعلان جنگ کیا، تو امریکی اس کے سرگرم جنگجوؤں کو سرمایہ و اسلحہ فراہم کرنے لگی۔ وجہ یہی کہ امریکا بشارالاسد کے خلاف تھا۔ اس مثال سے عیاں ہے کہ امریکی حکمران طبقہ اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر ہر قسم کی جائز و ناجائز سرگرمیاں اپنا سکتا ہے۔
جب لیبیا میں القاعدہ اور دیگر جنگجو گروہ صدر معمر قذافی کے خلاف سرگرم ہوئے، تو امریکا نے انہیں بھی سرمایہ و اسلحہ فراہم کیا۔ امریکی حکمران صدر قذافی سے نفرت کرتے تھے کیونکہ وہ خصوصاً افریقی ممالک کو امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کے خلاف ابھارتے تھے۔ امریکا اور فرانس کی مالی و عسکری مدد ہی سے جنگجو قذافی حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوسکے۔آج امریکی جرنیل افغانستان میں ایک نئے خفیہ کھیل کی ابتدا کرچکے۔ اب امریکی چوری چھپے وہاں داعش کے بچے کھچے جنگجو لاکر انہیں سرمایہ و اسلحہ دے رہے ہیں تاکہ وہ ان کے مفادات پورے کرسکیں۔اکثر جنگجو سمجھتے ہیں کہ وہ ایک اہم نظریاتی یا مذہبی ذمے داری پوری کررہے ہیں۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ امریکی جرنیل انہیں اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان تحریک طالبان کے بیشتر عناصر بھی داعش کا حصہ بن چکے۔ جب گیارہ سال قبل یہ تنظیم قائم ہوئی تب بہرحال وہ نظریاتی جنگ لڑرہی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ تنظیم بھارت کی پراکسی یا خفیہ کٹھ پتلی بن گئی۔ اس نے پھر پاکستانی قوم اور سیکورٹی اداروں پر خوفناک حملے کیے۔ تاہم پاک فوج کی زبردست فوجی مہمات نے پاکستان تحریک طالبان کی کمر توڑ کر رکھی دی۔ چناں چہ اب تنظیم کے جنگجو امریکا و بھارت کی نئی پراکسی، داعش کا حصہ بن رہے ہیں۔روایتی طور پر پاکستان افغان طالبان سے قربت رکھتا ہے۔ اسی لیے داعش مملکت پاکستان کے خلاف بھی سرگرم ہوچکی۔ حال ہی میں خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں پاکستانیوں پر ہوئے بیشتر حملے داعش ہی نے مقامی دہشت گرد تنظیموں کی مدد سے کرائے۔ گویا پاک فوج اور پاکستانی قوم کے سامنے ایک نیا دشمن نمودار ہوچکا۔
افغان حکومت امریکی فوج کی کٹھ پتلی ہے، اس لیے وہ داعش کی راہ نہیں روک سکتی۔ چین، روس اور ایران بھی آگاہ ہیں کہ امریکا، بھارت اور افغان حکومت پر مشتمل ٹرائیکا اپنے مقاصد کے لیے داعش کو افغانستان میں طاقتور بنارہا ہے۔ چونکہ اس جنم لیتے دیو سے انہیں بھی خطرہ ہے، اس لیے وہ داعش سے نمٹنے کی خاطر پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں چاروں ممالک کے انٹیلی جنس سربراہوں کا اجلاس ہوا جو ایک زبردست اور تاریخی واقعہ ہے۔ یہ عیاں کرتا ہے کہ بدلتی جغرافیائی سیاست کے باعث خطے میں نئی گریٹ گیم شروع ہوچکی۔پاکستان کے لیے اس نئے خفیہ کھیل میں فوائد مضمر ہیں اور خطرات بھی، جن پر پھر کبھی تفصیلی بات ہوگی۔اس گریٹ گیم کے خطرات سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان پی آر ایس ایس۔1 جیسے مزید ریموٹ سینسنگ سیارے فضا میں بھجوائے۔ اس طرح وہ چوبیس گھنٹے اپنی مشرقی اور شمالی سرحدوں پر ہوشیاری سے اور چوکنے انداز میں نظر رکھ سکے گا۔
The post پی آر ایس ایس۔1؛ پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2L3DnuY via Hindi Khabrain
0 notes