Tumgik
#یورپی یونین
urduchronicle · 8 months
Text
یورپی یونین کی پاکستان کے لیے مزید 10 کروڑ گرانٹ، پانچ معاہدوں پر دستخط
یورپی یونین نے پاکستان کے لیے مزید 10کروڑ یورو گرانٹ کی سپورٹ کا اعلان کردیا۔ یورپی یونین کی سفیر رینا کیونکا اور وزارت اقتصادی امور کے سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز کے پانچ گرانٹ معاہدوں پر دستخط کئے۔ وزارت اقتصادی امور کےاعلامیہ کے مطابق گرانٹ معاہدوں کا مقصد سیلاب کے بعد پاکستان کی لچک کو مضبوط کرنا ہے۔یورپی یونین کی مدد سے پاکستان کیلیے 2022 کے سیلاب کیلیے مجموعی ردعمل 930 ملین یورو سے زیادہ ہو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 11 months
Text
طاقت سے مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو دبایا نہیں جاسکتا‘
Tumblr media
اسرائیل-فلسطین تنازع اور غزہ میں جنگ ایک ایسا لاوا تھا جو طویل عرصے سے پک رہا تھا۔ فلسطین پر 7 دہائیوں کے وحشیانہ اسرائیلی قبضے کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے۔ اسرائیل جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ’حالتِ جنگ‘ میں ہے، اس نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا جبکہ انہیں ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔
ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ’دردناک انتقام‘ لے گا اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جو کہ بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سے 700 بچوں سمیت 2 ہزار 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 5 لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کر کے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 11 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ 
Tumblr media
اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس مؤقف کی غیرمشروط حمایت کر رہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو ’جدید ہتھیار‘ بھی فراہم کیے ہیں۔ کوئی بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا جس کے تحت دونوں جانب بےگناہ افراد مارے گئے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتوں نے اسرائیلیوں کی اموات پر تو غم و غصے کا اظہار کیا مگر بے گناہ فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے پر وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ جس دوران اسرائیلی بمباری سے پوری کی پوری آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ 
لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔ نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ درحقیقت نارملائزیشن کی اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آزادانہ طور پر غزہ میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 8 اکتوبر کو حالات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن یہ اجلاس اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب سیکیورٹی کونسل کوئی بیان ہی جاری نہ کرسکی۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی ممالک چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے جبکہ کشیدگی کم کرنے پر ہرگز زور نہ دے۔
روسی نمائندے نے کونسل پر جنگ بندی اور بامعنیٰ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنیٰ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کوئی توجہ نہ مل سکی جبکہ اس پر ووٹ ہونا ابھی باقی ہے لیکن اس قرارداد کو اکثریت کی حمایت ملنا ناممکن لگ رہا ہے۔ یوں سلامتی کونسل تشدد کو روکنے کا اپنا فرض ادا نہیں کر پائی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 
فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہو گا۔ لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کر کے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ ان قراردادوں پر عمل نہ کر کے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ موجودہ تنازع ’اچانک کھڑا نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک ’دیرینہ مسئلہ ہے جو 56 سال پرانے قبضے سے پروان چڑھا‘۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خونریزی کو بند کیا جائے اور ’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پیش کردہ دو ریاستی حل کی روشنی میں مذاکرات کر کے امن بحال کیا جائے۔ اسی طرح اس سرزمین کے لوگوں اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پائیدار استحکام لایا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے اسرائیل پر یہ بھی زور دیا کہ وہ 11 لاکھ لوگوں کے انخلا کے اپنے حکم پر نظرثانی کرے۔ اس طرح کی اپیلوں پر اسرائیل بالکل بھی کان نہیں دھر رہا۔ اسرائیل کی غزہ پر زمینی کارروائی اور غزہ پر دوبارہ قبضے کی منصوبہ بندی کے باعث اس تنازع کے نتائج واضح نہیں ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جنگ خطے میں پھیل سکتی ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ خطے میں نارملائزیشن کی تمام کوششیں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات ��نانے کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ پھر گزشتہ 7 دہائیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ طاقت اور جبر سے کوئی بھی مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا سکتا ۔
ملیحہ لودھی  یہ مضمون 16 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
risingpakistan · 9 months
Text
ماحولیاتی تبدیلیاں اور پاکستان کا مستقبل
Tumblr media
اقوام متحدہ کے زیر انتظام متحدہ عرب امارات میں ہونے والی’’کوپ 28 ماحولیاتی کانفرنس‘‘نے قدرتی آفات سے متاثرہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کی مدد کیلئے57 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے خصوصی فنڈ قائم کیا ہے۔ ورلڈ بینک کے زیرانتظام اس فنڈ کے ذریعے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث آنے والی قدرتی آفات سے متاثرہ ممالک میں ہونے والی تباہی اور نقصان کا ازالہ کیا جائے گا۔ اس طرز پر عالمی فنڈ کے قیام کا مطالبہ طویل عرصے سے کیا جا رہا تھا کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے کاربن کے بڑھتے ہوئے اخراج کے باعث پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کو گزشتہ کئی سال سے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث آنے والی قدرتی آفات سے بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے۔ اس تباہی کی ایک جھلک ہم گزشتہ سال شدید بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سیلاب سے مجموعی طور پر 1700 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور ملک بھر میں انفراسٹرکچر اور نجی املاک کی تباہی کے باعث 15 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا تھا۔ اس فنڈ کے قیام میں’’کوپ 28 ماحولیاتی کانفرنس‘‘ کے صدر سلطان الجابر نے اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے فنڈ کے قیام کی کوششیں طویل عرصے سے جاری تھیں۔ 
تاہم ’’کوپ 28‘‘ کے اجلاس میں آغاز پر ہی یورپی یونین نے 275 ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات نے 100 ملین ڈالر، امریکہ نے 17.5 ملین ڈالر، جاپان نے 10 ملین ڈالر، جرمنی نے 10 ملین ڈالر اور دیگر 100 رکن ممالک نے مجموعی طور پر 100 ملین ڈالر سے زائد کی فراہمی کا اعلان کر کے دنیا کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچانے کے لئے شروع ہونے والے سفر میں ایک اہم سنگ میل طے کیا ہے۔ اس تناظر میں’’کوپ 28‘‘ کے رکن 120 ممالک نے 2030ء تک دنیا کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو تین گنا بڑھانے کے معاہدے پر دستخط کر کے ایک اور مثبت پیشرفت کی ہے۔ علاوہ ازیں رکن ممالک نے رواں دہائی کے آخر تک عالمی قابل تجدید توانائی کی پیداواری صلاحیت کو کم از کم گیارہ ہزار میگا واٹ تک لانے جبکہ کانفرنس میں شریک تیل اور گیس پیدا کرنے والی 50 بڑی کمپنیوں نے 2050 تک کاربن فری ہونے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی آرامکو اور متحدہ عرب امارات کی اے ڈی این او سی اُن 29 سرکاری کمپنیوں میں شامل ہیں جنہوں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس میں میتھین کا اخراج صفر کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ 
Tumblr media
ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا جائزہ لینے اور ان کے حل سے متعلق اقدامات کرنے کے لئے ’’کوپ 28‘‘ دنیا کا سب سے بڑا عالمی اجتماع تھا جس میں برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوم سمیت دنیا بھر سے آئے ہوئے سو سے زائد سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ 97 ہزار مندوبین شریک تھے۔ دو ہفتوں تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں کمی پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس دوران سال 2023 کو انسانی تاریخ کا گرم ترین سال قرار دیا گیا اور اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ عالمی تپش کے خطرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں فوسل فیول یعنی حیاتیاتی ایندھن کے بڑے پیمانے پر استعمال سے ہونے والے کاربن کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا کے ایک بڑے حصے میں پانی کی قلت اور اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جنگلوں میں آگ لگنے کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی اسی صورت حال کا نتیجہ ہیں۔
علاوہ ازیں گلیشیروں کے پگھلنے اور سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے وسیع آبادیاں پانی میں غرق ہونے کے امکانات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل تیز تر ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان کیلئے اسکے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ اب ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اس حوالے سے درپیش چیلنجز کو نظر انداز کر سکیں کیونکہ کچھ عرصہ قبل تک ہم گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے، شہری اور دیہی علاقوں میں بارشوں کے باعث آنے والے سیلابوں کے سبب جانوروں کے خاتمے اور انسانی زندگی کے متاثر ہونے کی باتیں صرف کتابوں میں پڑھا کرتے تھے یا اس طرح کی منظر کشی ہالی وڈ فلموں میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ تاہم اب یہ صورتحال پاکستان میں عملی طور پر ہر چند سال یا چند ماہ بعد بار بار دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان ارضیاتی طور پر ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیاں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی آمدنی، رہائش، خوراک اور سلامتی کو خطرے میں ڈال چکی ہیں۔ اس سنگین صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو عالمی اوسط کی نسبت زیادہ اوسط درجہ حرارت کا سامنا ہے۔ 
دنیا میں سب سے زیادہ آفات کے خطرے کی سطح کو ماپنے کے نظام انفارم رسک انڈیکس کی طرف سے 2023ء میں جاری کی گئی رینکنگ کے مطابق پاکستان 191 ممالک میں سے 16ویں نمبر پر ہے۔ علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلی کی تخفیف کے اقدامات اکثر غیر متناسب طور پر سب سے زیادہ پسماندہ افراد کو متاثر کرتے ہیں۔ اسلئے ہمیں ہر ممکن طریقے سے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے متحرک ہونے اور آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے لے کر مقامی حکومتوں تک کی سطح پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وہیں ہمیں اسے سکولوں کی سطح پر نصاب کا بھی حصہ بنانا ہو گا تاکہ ہماری نئی نسل موسمیاتی تبدیلیوں کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو سکے۔
کاشف اشفاق 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistanpress · 10 months
Text
ایردوان امریکہ کے سامنے ڈٹ گئے
Tumblr media
ترکیہ، اس وقت نیٹو میں امریکہ کا قریبی اتحادی ہونے کے علاوہ یورپی یونین کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کا منتظر ہے چنانچہ امریکہ اور یورپی یونین کے چند ایک رکن ممالک ترکیہ سے حماس کی حمایت ختم کرنے اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن صدر ایردوان نے یورپی یونین کے دباؤ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ امریکہ کسی نہ کسی طریقے سے صدر ایردوان کو اقتدار سے ہٹانے میں مصروف رہا ہے، اس نے پہلے ترکیہ میں فیتو دہشت گرد تنظیم کی پشت پناہی کرتے ہوئے ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی، پھر بائیڈن نے صدر منتخب ہونے سے قبل صدر ایردوان کو مختلف طریقے سے اقتدار سے ہٹانے کیلئے، ترکیہ کی اپوزیشن کی حمایت کرنے کا کھلا پیغام دیا۔ پھر بائیڈن نے ترکیہ کی جیل میں جاسوسی کے الزام میں قید پادری Brunson کی رہائی کیلئے ترکیہ پر دبائو ڈالا اور رہا نہ کرنے کی صورت میں ترکیہ کو سبق سکھانے کی دھمکی بھی دی۔ اسی طرح یورپی یونین کے دس ممالک نے ترک بزنس مین عثمان کوالا کو رہا کروانے کیلئے ترکیہ پر شدید دباؤ ڈالا لیکن صدر ایردوان امریکہ اور یورپی یونین کی ان دھمکیوں سے ذرہ بھر بھی مرعوب نہ ہوئے بلکہ انہوں نے فوری طور پر ان دس ممالک کے سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر جلا وطن کرنے کا حکم جاری کر دیا تاہم ان ملکوں کی جانب سے معذرت کرنے پر معاملے کو بگڑنے سے روک لیا گیا۔ 
Tumblr media
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے ترکیہ آئے ہوئے اعلیٰ امریکی حکام نے تر کیہ کی حماس کی کھل کر حمایت کیے جانے پر تشو یش سے آگاہ توضرور کیا لیکن وہ صدر ایردوان کے موقف کو اچھی طرح جاننے کی وجہ سے ترک حکام کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ امریکی انڈر سیکرٹری برائن نیلسن حماس اسرائیل جنگ میں تر کیہ سے حماس کو فنڈز کی منتقلی کے شواہد تو پیش نہ کر سکے تاہم انہوں نے ماضی میں ترکیہ کی جانب سے حماس کو فنڈز فراہم کیے جانے کا الزام ضرور عائد کیا جسے ترک وزارتِ خارجہ نے یکسر مسترد کر دیا۔ یاد رہے صدر ایردوان بڑے واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک حماس کو کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتا کیونکہ حماس فلسطین کی حقیقت ہے اور وہاں کی سیاسی جماعت ہے جو عام انتخابات جیت کر غزہ میں بر سر اقتدارآئی ہے۔ صدر ایردوان نے کہا کہ ترکیہ کسی بھی ملک کو ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دے گا، ترکیہ کی خارجہ پالیسی ترک عوام کی توقعات اور مفادات کےمطابق ہی انقرہ میں مرتب کی جاتی ہے۔ 
صدر ایردوان نے امریکی حکام کے دورے سے قبل پارلیمنٹ میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے گروپ اجلاس میں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یا ہو کے بارے میں سخت بیان دیتے ہوئے یاہو کو " غزہ کا قصاب" اور اسرائیل کو ایک" دہشت گرد ریاست " قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے نیتن یا ہو کو عالمی عدالت کے روبرو پیش کرنے کیلئے اپنی تیاریوں سے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تقریباً 3 ہزار وکلاء نے دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اس حوالے سے پہلے ہی سے درخواستیں دے رکھی ہیں، جس میں بڑی تعداد میں ترک وکلاء اور ترک اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہیں جو اس کیس کی پیروی کریں گے۔ وہاں ہمیں یقین ہے جس طرح سربیہ اور کوسوو میں مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے"سربیہ قصاب" کرادزیچ کو دی ہیگ کی عالمی عدالت سے سزا دلوائی گئی تھی بالکل اسی طرح "غزہ کے قصاب" نیتن یا ہو کو نسل کشی کے الزام میں سزا دلوا کر ہی دم لیں گے۔
ہزاروں سال سے آباد فلسطینیوں کے مکانات، زمینوں اور دفاتر کو ناجائز طور پر اپنے قبضے میں لے رکھا ہے جسے کسی بھی صورت قابلِ قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور ہم اس ریاستی دہشت گردی پرخاموش نہیں رہ سکتے۔ ہمارے بین الاقوامی رابطوں کا سب سے اہم ایجنڈا بلا شبہ غزہ کی جنگ ہے۔ صدر ایردوان نے اس وقت تک 50 سے زائد عالمی رہنمائوں سے رابطہ کیا ہے۔ وہ رواں ہفتے 2 اہم دورے کر رہے ہیں، پہلے قطر اور پھر یونان کا دورہ کریں گے قطر نے ترکیہ ہی کے تعاون سے اسرائیل اور حماس تنازع کو روکنے میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا اور اب وہ اس دورے کے دوران قطر کے امیر سے مستقل جنگ بندی کیلئے کیے جانے والے اقدامات پر تبادلہ خیال کریں گے جبکہ یونان کے دورے میں غزہ کی صورتحال پر بھی غور کیا جائے گا۔
ڈاکٹر فر قان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
besturdunews · 1 year
Text
ایک تلخ لڑائی کے بعد، یورپی قانون سازوں نے فطرت کی مرمت کے لیے ایک بل پاس کیا۔
یورپی قانون سازوں نے ایک غیر متوقع طور پر تلخ سیاسی لڑائی کے بعد بدھ کے روز ایک بل کی منظوری دی جس کے تحت یورپی یونین کے ممالک کو زمین اور سمندر پر اپنی سرحدوں کے اندر تمام تباہ شدہ فطرت کے 20 فیصد علاقوں کو بحال کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ اقدام، بلاک کے گرین ڈیل ماحولیاتی اقدام کا ایک اہم عنصر، حق میں 336 ووٹوں، مخالفت میں 300 اور 13 غیر حاضری کے ساتھ منظور ہوا۔ اب یہ یورپی یونین کے ایگزیکٹو،…
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 1 year
Text
چین روس تعلقات میں کمان کس کے ہاتھ میں ہے؟
Tumblr media
ٹونی بلیئر کے دور سے تعلق رکھنے والے برطانوی خارجہ پالیسی کے آرکائیوز کی ریلیز اس وقت کی یاد دہانی کرواتی ہے جب دنیا کو امید تھی کہ روس کے اس وقت کے نوجوان نئے رہنما ولادی میر پوتن اپنی قوم کو پورے دل سے جمہوریت پسند بین الاقوامی برادری کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ سال 2001 میں ٹونی بلیئر نے دوسرے یورپی رہنماؤں اور واشنگٹن میں جارج ڈبلیو بش کی طرح روس کے ساتھ سفارتی طور پر بہت زیادہ توانائی خرچ کی۔ جارج بش نے اس وقت عوامی طور پر پوتن کے بارے میں کہا تھا کہ ’میں نے اس شخص کی آنکھوں میں دیکھا۔ میں نے انہیں بہت کھرا اور قابل بھروسہ پایا۔ میں نے ان کے اندر کے احساس کو جان لیا تھا۔‘ ادھر ٹونی بلیئر نے صدر پوتن کو چاندی کے کفلنک کا ایک سیٹ سالگرہ کے تحفے کے طور پر بھیجا تھا۔ لیکن اب ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ مغرب کے صلاح کار اس وقت بھی زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جب (یورپ اور امریکہ) ان سے پرامید تھے، اس وقت بھی روس مغربی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے انٹیلی جنس ایجنٹس تعینات کر رہا تھا۔
اب ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ پوتن کی اصلاح پسندانہ جبلت اسی وقت سے حاوی تھی، جب انہیں مشرقی جرمنی کے سویت انٹیلی جنس ’کے جی بی‘ کے سٹیشن سے واپس بلایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ 20 سال پہلے انہوں نے سوویت یونین کے زوال اور مشرقی یورپ میں اس پر انحصار کرنے والی ریاستوں کے بلاک کو تاریخی تناسب کے سانحے کے طور پر دیکھا اور اس وقت بھی انہیں یوکرین ایک دکھاوے کا ملک ہی لگتا تھا۔ ایسٹونیا کی طرح کے نقصان سے کہیں زیادہ 1990 میں یوکرین کی آزادی یو ایس ایس آر کے خاتمے کی علامت ہے۔ اگر یوکرین روس کے ساتھ اپنی شراکت داری برقرار رکھتا تو شاید یو ایس ایس آر ٹوٹنے سے بچ جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا اور پوتن تب سے ہی اس حقیقت سے نالاں تھے اور جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، انہوں نے اسے پلٹنے کی کوشش کی۔ اس وقت ٹونی بلیئر اور جارج بش پوتن کی حقیقی فطرت کے بارے میں بے وقوف بنے رہے کیوں کہ بعد میں انہیں حقیقت سمجھ میں آئی۔
Tumblr media
لیکن پوتن کے نئے دوست اور حلیف شی جن پنگ کے ساتھ ایسا نہیں ہے، جنہوں نے ایک ویڈیو کانفرنس میں ان کے ساتھ بات چیت کی۔ جب صدر شی نے گذشتہ سال فروری میں یوکرین پر روسی حملے سے قبل اعلان کیا تھا کہ ماسکو کے ساتھ بیجنگ کی دوستی کی ’کوئی حد‘ نہیں ہے، تو شاید ان کے ذہن میں مغرب کے ساتھ تھرمونیوکلیئر جنگ کا خطرہ نہیں تھا، جو کرہ ارض کو تباہ کر دے گی۔ یہ چین اور صدر شی کو فراموشی میں لے جائے گی۔ اور نہ ہی حقیقت میں صدر شی نے اس بات کا تصور کیا کہ اب یوکرین میں ایک طویل جنگ جاری ہے، جس کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آرہا ہے، جو عالمی تجارت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے اور اس وجہ سے ہی چین کی صنعتی برآمدات متاثر ہو رہی ہی۔) اور نہ ہی مسٹر پوتن نے اس کا تصور کیا تھا، جنہوں نے اپنی فتح کے بارے میں اسی اعتماد کا ظاہر کیا، جو انہوں نے میدان جنگ میں اپنی افواج کی تذلیل سے پہلے باقی دنیا کے سامنے کیا تھا۔)
اس رشتے میں یہ بہت واضح ہے کہ اب کمان کس کے ہاتھ میں ہے۔ چین دنیا میں روس کا واحد اہم اتحادی ہے اور سخت مغربی پابندیوں کے دور میں اپنی معاشی بقا کے لیے اس پر اور بھی زیادہ انحصار کر چکا ہے۔ چین جو اس وقت کرونا بحران کی گرفت میں ہے، کی معیشت مغرب کی جانب سے سرمایہ کاری ختم کرنے اور اس کی برآمدات پر پابندیاں لگانے سے پہلے بھی، روس کی نسبت کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ درحقیقت تنازع کے دوران روس کے ساتھ چین کی دوستی کی حدیں واضح تھیں اور کچھ کو عوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ چین مغربی پابندیوں کے خوف سے روس کو اس ناامیدی والی جنگ میں کوئی اہم فوجی سازوسامان فروخت نہیں کرے گا، جس میں تبدیلی کا بھی امکان نہیں ہے۔ بیجنگ کو شاید یوکرین کے مستقبل کی زیادہ پرواہ نہ ہو لیکن وہ بلاوجہ امریکہ کو اکسانا نہیں چاہے گا کیوں کہ یوکرین کا تنازع پہلے ہی چین کے لیے غیر مددگار ثابت ہوا ہے۔ مثال کے طور پر تائیوان پر تیزی سے حملہ کرنے کے لیے یوکرین کی نظیر اور خلفشار دونوں کو استعمال کرنے کا اس کا خواب اس وقت تیزی سے دھندلا گیا جب روسی فوج ڈونیتسک کے مشرقی محاذ سے شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئی۔
جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا جیسی علاقائی طاقتوں سمیت مغرب کے اتحاد اور لچک کے مظاہرے نے روس اور چین کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور خطے میں چینی توسیع پسندی کے متوازی خطرات اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو (بی آر آئی) کے ذریعے طاقت کے حصول کے لیے اس کی عالمی رسائی کو اجاگر کیا ہے۔ جرمنی نے اپنی سابقہ نیم امن پسندی کی پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے اور جاپان اپنے دفاعی پروگراموں کو تیز کرنے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی پیش رفت چینی مفادات کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ یہاں تک کہ چین کی اقتصادی مدد، جس کا دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے بعد جاری کیے گئے بیان میں پیش رفت کے ایک اہم شعبے کے طور پر حوالہ دیا گیا ہے، کریملن کے لیے دو دھاری تلوار ہے۔ مغربی توانائی کی منڈیوں کے نقصان کے ساتھ چین اب روس کی اہم برآمدی منڈی بن گیا ہے اور صدر شی نے درحقیقت اپنا جوتا روسی معیشت کی ونڈ پائپ پر رکھ دیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ روس آسانی سے چینی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کر سکتا اور بی آر آئی نیو۔ کالونیل کی طرح کا قبضہ ہے۔ 
یہاں تک کہ ماؤ کے زمانے میں اور ایک مشترکہ مارکسسٹ لیننسٹ نظریے کے تحت، جب چین اور روس عالمی کمیونسٹ انقلاب کی قیادت کے لیے لڑ رہے تھے اور ان کی دشمنی کبھی کبھار سرحدی تشدد میں بدل سکتی تھی، امریکہ سے ان کی باہمی دوری نے انہیں قریب لانے کا سامان پیدا کیا لیکن واضح طور پر دیوار ابھی بھی موجود ہے اور تعلقات یک طرفہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چین کو روس سے زیادہ مغرب کی ضرورت ہے اور روس کو چین کی ضرورت ہے، چین کو روس کی نہیں۔ ان رہنماؤں کی اگلی ملاقات کے وقت تک جب صدر شی ماسکو کا سرکاری دورہ کریں گے، چین ممکنہ طور پر یوکرین میں جنگ کے خاتمے اور اس کے نتیجے میں عالمی معیشت میں استحکام دیکھنے کو ترجیح دے گا۔ اس دوران یوکرین میں جنگ کے خاتمے کا مطلب ولادی میر پوتن کی معزولی اور روسی دارالحکومت میں تقریب کے لیے ایک نئے میزبان کو دیکھنا ہو سکتا ہے۔ اگر یہ چین کے مفاد میں ہوتا تو صدر شی اسے یکسوئی کے ساتھ قبول کر لیتے کیوں کہ بہترین دوستی کی بھی اپنی حدود ہوتی ہیں۔
بشکریہ دی انڈپینڈنٹ  
0 notes
ijazmilansblog · 2 years
Text
یورپ بھر میں اب ایک ہی یورپین ڈیجیٹل شناخت چلے گی
  یورپ بھر میں اب ایک ہی یورپین ڈیجیٹل شناخت چلے گی، جس کے ذریع یورپی شہری اپنے شناختی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے یا کسی بھی دوسرے یورپین ممبر ملک میں تمام ڈیجیٹل سہولتوں تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔
اس بات کا فیصلہ یورپی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے انڈسٹری، ریسرچ اینڈ انرجی کے اجلاس میں اس حوالے سے پیش کردہ نئی تجاویز میں کیا گیا۔ ان تجاویز کو جلد ہی پارلیمنٹ کے پلینری سیشن میں پیش کیا جائے گا۔
اس تجویز کے تحت یورپین ڈیجیٹل شناخت ( eID) کے ذریعے شہری صرف اپنے قومی شناختی کارڈ کا استعمال کریں گے۔
اسی الیکٹرانک شناختی کارڈ کے اندر ان کا ڈرائیونگ لائسنس اور برتھ سرٹیفکیٹ بھی ہوگا۔ جبکہ اسی شناختی کارڈ کے ذریعے وہ یورپ بھر میں ہوٹل کی بکنگ اور کار کرائے پر حاصل کر سکیں گے۔
اس کے علاوہ اسی یورپین ڈیجیٹل شناخت کے ذریعے وہ دیگر عوامی خدمات تک بھی رسائی حاصل کریں گے جس میں برتھ اور میڈیکل سرٹیفکیٹ کے حصول کی درخواست کرنا، پتہ کی تبدیلی کی اطلاع دینا، بینک اکاؤنٹ کھولنا، ٹیکس ریٹرن فائل کرنا، اپنے یا کسی دوسرے یورپین ملک میں یونیورسٹی کیلئے درخواست دینا اور ایک ایسا طبی نسخہ جو یورپ بھر میں کسی بھی جگہ استعمال کیا جا سکتا ہو، شامل ہیں۔
کمیٹی ممبران کے مطابق کوویڈ-19 کے بعد بہت سی پرائیویٹ اور پبلک سروسز آن لائن ہو چکی ہیں۔ جس کیلئے محفوظ اور قابل اعتماد آن لائن شناخت بے حد اہم ہے۔
کمیٹی کے اجلاس میں مزید تجویز کیا گیا ہے کہ 2030 تک یورپی یونین کی 80 فیصد آبادی کے پاس اس شناختی کارڈ کے ذریعے متعلقہ سہولتوں تک رسائی ہونی چاہیے۔
from Blogger https://ift.tt/H816Frq via IFTTT
1 note · View note
marketingstrategy1 · 2 years
Text
بھارتی میڈیا جعلی ذرائع سے پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں ملوث، رپورٹ میں انکشاف
پاکستان مخالف بیانیے کو جعلی میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے:فوٹو:اے این آئی سوشل میڈیا برسلز: پاکستان کے خلاف جعلی ذرائع سے فیک نیوز چلانے والے بھارتی میڈیا کا مکروہ کردار پھربے نقاب ہوگیا۔ یورپی یونین میں فیک نیوز کے حوالے سے کام کرنے والے تحقیقی ادارے ’ای یو ڈس انفو لیب‘ کی نئی رپورٹ جسے ’بیڈ سورس‘ کا نام دیا گیا ہے کے مطابق بھارتی نیوز ایجنسی ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) پاکستان کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
بھارتی میڈیا جعلی ذرائع سے پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں ملوث، رپورٹ میں انکشاف
پاکستان مخالف بیانیے کو جعلی میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے:فوٹو:اے این آئی سوشل میڈیا برسلز: پاکستان کے خلاف جعلی ذرائع سے فیک نیوز چلانے والے بھارتی میڈیا کا مکروہ کردار پھربے نقاب ہوگیا۔ یورپی یونین میں فیک نیوز کے حوالے سے کام کرنے والے تحقیقی ادارے ’ای یو ڈس انفو لیب‘ کی نئی رپورٹ جسے ’بیڈ سورس‘ کا نام دیا گیا ہے کے مطابق بھارتی نیوز ایجنسی ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) پاکستان کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
یورپی یونین یورو کو ہتھیار بنانے سے گریز کرے، پالیسی سازوں کا انتباہ
بااثر یورپی مرکزی بینک کے پالیسی ساز نے جمعہ کو کہا کہ یورو زون کو عالمی تنازع میں اپنی کرنسی کو ہتھیار نہیں بنانا چاہئے کیونکہ یہ بالآخر اسے کمزور کر سکتا ہے۔ یورپی یونین روسی ریاست کے اثاثوں کو ضبط کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یورپی حکام کئی مہینوں سے اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا روس کے منجمد اثاثوں کو ضبط کیا جائے، جس میں مرکزی بینک کے ذخائر بھی شامل ہیں، تاکہ اس نقد رقم کو یوکرین کی تعمیر نو کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
یورپی یونین کی دو ایرانی وزرا پر پابندیاں
یورپی یونین نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن پر تہران کے خلاف پابندیوں کے پانچویں دور میں پیر کو ایران کے وزرائے تعلیم اور ثقافت کے اثاثے منجمد کر کے ان پر ویزا پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یورپی یونین کے نئے اقدامات میں 32 افراد اور دو اداروں کو ہدف بنایا گیا ہے اور ان کا مقصد زیادہ تر قانون سازوں، عدلیہ کے اہلکاروں اور جیل حکام  پر پابندی لگانا جن پر جبر میں ملوث ہونے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
جرمنی نے تو امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا
Tumblr media
امریکا پر تو خیر کیا اثر ہو گا البتہ غزہ پر اسرائیلی فوج کشی کو تقریباً نسل کشی قرار دینے کی بابت بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی عبوری رولنگ میں اسرائیل کے ممکنہ مواخذے کی رائے سامنے آنے کے بعد یورپی یونین میں اسرائیل کا غیر مشروط ساتھ دینے کے بارے میں اختلاف بڑھ گیا ہے۔ مثلاً سلووینیا نے یہ رولنگ سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق عالمی عدالت میں دائر ایک اور درخواست کا بھی حمایتی ہے۔ آئرلینڈ نے بھی اس معاملے میں فلسطین کے پلڑے میں وزن ڈال رکھا ہے۔ جب کہ اسپین کی مخلوط حکومت بٹی ہوئی ہے۔ بائیں بازو کی ایک اتحادی جماعت سومار پارٹی فوری جنگ بندی کی حامی ہے اور اس کی حامی ایک خاتون وزیر حال ہی میں حکومت کی جانب سے گومگو کے موقف کے خلاف بطور احتجاج استعفیٰ دے چکی ہیں۔ جب کہ بیلجیئم نے بھی فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں متاثرہ آبادی تک انسانی امداد کی ہنگامی فراہمی کا در کھل سکے۔ دوسری جانب یورپ کے اسرائیل نواز ممالک بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ برطانیہ تو خیر اس معاملے میں امریکا کا دائمی مرید ہے۔ البتہ آسٹریا، چیک جمہوریہ، ہنگری اور ہالینڈ بھی بدستور اسرائیل کو مظلوم سمجھنے پر بضد ہیں۔ 
فرانسیسی وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو نسل کش سمجھنا تمام مروجہ اخلاقی اقدار پھلانگنے کے برابر ہے اور فرانس اس بارے میں اسرائیل کے شانہ بشانہ ہے۔ جرمنی نے تو اس معاملے میں امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر نسل کشی کی پیٹیشن کی اگلی سماعتوں میں اسرائیل کے حق میں فریق بننے کی بھی درخواست کی ہے۔ ایسی وفاداری تو سترہ رکنی بنچ میں شامل اسرائیلی جج نے بھی نہیں دکھائی جس نے اسرائیل پر عائد پانچ میں سے دو الزامات سے اتفاق کیا ہے۔ نمیبیا نے جرمنی کی اسرائیل سے اندھی محبت اور بین الاقوامی عدا لتِ انصاف کی رولنگ مسترد کرتے ہوئے مقدمے میں فریق بننے کے اعلان پر صدمے کا اظہار کیا ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ نمیبیا جیسے دور دراز افریقی ملک کا ذکر اچانک کیوں آ گیا اور اس کا جرمنی کے موقف سے کیا لینا دینا ؟ یہ بات ہے اٹھارہ سو چوراسی کی جب برلن میں تیرہ یورپی سامراجی طاقتوں کی سال بھر طویل کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں امریکا بھی شریک تھا۔ میز پر افریقہ کا نقشہ پھیلا کے بندربانٹ ہوئی اور جرمنی کے حصے میں تنزانیہ (زنجبار، ٹانگا نیکا) اور نمیبیا آیا۔ نمیبیا کا رقبہ کم و بیش جرمنی کے ہی برابر ہے مگر آبادی محض ڈھائی لاکھ ہے۔
Tumblr media
جب برلن کانفرنس میں افریقہ کا تھان کھول کے اسے بانسوں کے گز سے ناپا گیا تو جرمنی بھی قبضہ لینے نمیبیا پہنچا اور پسماندہ مکینوں کی اس سرزمین پر قبضہ کر لیا۔ مقامی لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے لگ بھگ پانچ ہزار جرمن آبادکاروں کو بسایا گیا ( جیسے یہودی آبادکاروں کو مقبوضہ فلسطین میں بسایا گیا)۔سب سے بڑے دو قبائل ہریرو اور ناما کو ایک مخصوص علاقے میں دھکیل دیا گیا   جیسے اسرائیل نے فلسطینیوں کو دھکیلا)۔ جس جس نے مزاحمت دکھائی اسے کوڑے مارے گئے یا پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ اکتوبر انیس سو چار میں ہریرو اور ناما نے اجتماعی بغاوت (انتفادہ) کر دی اور لگ بھگ ایک سو بیس جرمن آبادکاروں کو قتل کر دیا (جیسے سات اکتوبر کو حماس نے کیا)۔ قبائلیوں کے پاس تیر کمان ، نیزے اور بھالے تھے اور ڈیڑھ ہزار جرمن فوجیوں کے پاس توپیں اور مشین گنیں۔ غاصب جرمن فوجی کمانڈر جنرل لوتھر وان ٹروٹھا نے حکم جاری کیا کہ ’’ہر مسلح و غیر مسلح ہریرو اور ناما کو اس کے جانوروں سمیت مار دیا جائے۔ ان کی عورتوں اور بچوں کو بیابانوں میں دھکیل دیا جائے اور اگر وہ کہیں دوبارہ نظر آئیں تو اڑا دیا جائے‘‘۔
( جرمن جنرل کے اس فرمان کے ایک سو انیس برس بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے غزہ کے فلسطینیوں کی نسل کشی کو جائز قرار دینے کے لیے تورات کی آیات کا حوالہ دیا۔ جن میں بنی اسرائیل کے حریف صحراِ سینا میں آباد قدیم امالک قبیلے کے ہر مرد اور بچے کو جانوروں سمیت قتل کرنے اور ان کی املاک مٹا دینے کی بھی ہدایت کی گئی۔ نیتن یاہو نے فلسطینیوں کو جدید زمانے کا امالک قرار دیا جو یہودیوں کے خون کے پیاسے ہیں لہٰذا انھیں بھی صفحہِ ہستی سے مٹا دینا چاہیے)۔ جب انیس سو آٹھ میں نمیبیا میں قائم نظربندی کیمپ ختم کر دیے گئے۔ تب تک اسی فیصد ہریرو قبائلی ( نوے ہزار ) اور نصف ناما قبیلہ ( بیس ہزار ) مٹ چکا تھا۔ کنسنٹریشن کیمپوں میں قید بچی کھچی آبادی کو مسلح جرمن آبادکاروں کی جبری بیگار پر لگا دیا گیا۔ یہ فرمان بھی جاری ہوا کہ نافرمانوں کے قتل کی صورت میں آبادکاروں پر کرمنل دفعات لاگو نہیں ہوں گی۔ ہریرو اور ناما کا قتلِ عام بیسویں صدی کی پہلی منظم نسل کشی تھی۔ سیکڑوں کھوپڑیاں نمبر لگا کے جرمنی کی جامعات، اسپتالوں اور عجائب گھروں تک پہنچائی گئیں۔ وہاں عمرانیات اور اینتھروپولوجی کے ماہرین نے ان کھوپڑیوں کی ناپ تول کر کے نسلی برتری و کمتری کے بارے میں اپنے نظریات کو ’’ سائنسی انداز ‘‘ میں سیقل کیا ( ان میں سے کچھ کھوپڑیاں دو ہزار اٹھارہ میں نمیبیا کو واپس کی گئیں جہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد انھیں سپردِ خاک کر دیا گیا)۔
گویا جرمنوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران کنسنٹریشن کیمپوں میں نسلی برتری کے نشے میں یہودیوں کی جس صنعتی پیمانے پر نسل کشی کی۔ اس کی بنیاد نمیبیا میں انیس سو چار تا آٹھ نسل کشی، کنسنٹریشن کیمپوں کے قیام اور جبری مشقت کے تجربات اور مقتولوں کی کھوپڑیوں کا حجم ناپنے کی بنیاد پر سائنسی انداز میں نسل کشی کا پائلٹ پروجیکٹ تھا۔ جسے جرمنوں کی اگلی پڑھی لکھی پیڑھی نے صنعتی پیمانے پر اختیار کیا۔ آج نمیبیا میں جرمن آبادکاروں کی آبادی محض دو فیصد ہے مگر ستر فیصد قابلِ زراعت اراضی ان کی ملکیت ہے۔ انیس سو آٹھ میں نمیبیا میں ہیروں کی کانیں دریافت ہوئیں۔ ان کی بدولت ایک عرصے تک ہیروں کی تیس فیصد عالمی تجارت پر جرمن تسلط تھا۔ مجموعی طور پر جرمنی نے نمیبیا کی کتنی زمینی دولت لوٹی اس کا کوئی منظم تخمینہ نہیں مگر بدلے میں کیا ہرجانہ دیا ؟ ایک سو سترہ برس بعد دو ہزار اکیس میں جرمنی نے ان مظالم پر نمیبیا سے باقاعدہ معافی مانگی۔ نمیبیا کو تین برس کی سودے بازی کے بعد بطور ہرجانہ لگ بھگ ڈیڑھ ارب یورو دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ مگر متاثرین کے ورثا نے اس قلیل معاوضے کو قومی توہین قرار دیتے ہوئے اسے نمیبیا کی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ مقامی اور جرمن حکومت کو عدالت نے نوٹس جاری کر دیے اور یہ مقدمہ اب تک زیرِ التوا ہے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
نیٹو ہے کیا اور اس کا قیام کیوں عمل میں آیا؟
Tumblr media
نیٹو دراصل 'نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن' کا مخفف ہے، جسے سن 1949 میں قائم کیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کے قیام کا اولین اور اہم مقصد یورپ میں سوویت یونین کے پھیلاؤ کے خطرے کو روکنا تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ نے یورپ میں قوم پرستانہ رجحانات کی بحالی کو روکنے اور براعظم میں سیاسی انضمام کو فروغ دینے کے لیے بھی اسے ایک آلے کے طور پر دیکھا۔ تاہم حقیقت میں اس کا قیام پہلی بار سن 1947 میں اس وقت ہوا تھا، جب برطانیہ اور فرانس نے جنگ کے نتیجے میں جرمن حملے کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اتحاد کے طور پر ڈنکرک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس سیاسی اور فوجی اتحاد کے اصل بانی 12 ارکان: امریکہ، برطانیہ، بیلجیئم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، آئس لینڈ، اٹلی، لکسمبرگ، ہالینڈ، ناروے اور پرتگال ہیں۔ اجتماعی سیکورٹی اس وقت اس تنظیم کے 31 ارکان ہیں اور یہ اتحاد تمام ارکان کی اجتماعی سیکورٹی کے طور پر کام کرتا ہے، جس کا مقصد اگر کسی رکن ملک کو کسی بیرونی ملک سے خطرہ لاحق ہو، تو اسے فوجی اور سیاسی ذرائع سے باہمی دفاع فراہم کرنا ہے۔ اجتماعی سکیورٹی کی بنیاد چارٹر کے آرٹیکل پانچ پر مشتمل ہے، جس میں اس کا تفصیلی ذکر ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، ''تمام فریق اس بات پر متفق ہیں کہ یورپ یا شمالی امریکہ میں ان میں سے کسی ایک پر یا ایک سے زیادہ کے خلاف مسلح حملہ ہوتا ہے، تو اسے سب کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ایسا مسلح حملہ ہوتا ہے، تو ان میں سے ہر ایک انفرادی طور پر یا تمام فریق اقوام متحدہ کے چارٹر کے تسلیم شدہ آرٹیکل 51 کی طرف سے خود کے دفاع کے اپنے حق کا استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔''  "جس پر بھی حملہ ہو، اس کے دفاع کے لیے ادارہ انفرادی طور پر یا دیگر فریقوں کے ساتھ مل کر فوری طور پر، مسلح فورس کے ذریعے یا جو بھی کارروائی ضروری سمجھی جائے، شمالی بحر اوقیانوس کے علاقے کی سلامتی کو بحال اور برقرار رکھنے کے لیے تمام فریقوں کی مدد کرے گا۔'' سن 2001 میں 9/11 کے حملوں کے بعد امریکہ نے اس اتحاد کے چارٹر میں اس آرٹیکل پانچ کا اضافہ کیا اور تبھی سے یہ نافذ ہوا۔
Tumblr media
سوویت روس کے خلاف طاقت کا مظاہرہ سوویت یونین نے بھی سن 1955 میں سات دیگر مشرقی یورپی کمیونسٹ ریاستوں کے ساتھ اپنا ایک الگ فوجی اتحاد بنا کر نیٹو کو جواب دیا، جسے وارسا معاہدہ کہا جاتا ہے۔ لیکن دیوار برلن کے گرنے اور سن 1991 میں سوویت یونین کے انہدام کی وجہ سے یورپ میں سرد جنگ کے بعد ایک نئے سکیورٹی آرڈر کی راہ ہموار ہو گئی۔ سوویت یونین سے آزاد ہونے کے بعد وارسا معاہدے کے بھی کئی سابقہ ممالک نیٹو کے رکن بن گئے۔ ویزگراڈ گروپ کے ارکان ہنگری، پولینڈ اور جمہوریہ چیک نے سن 1999 میں نیٹو میں شمولیت اختیار کی۔ پانچ برس بعد 2004 میں نیٹو نے بلغاریہ، ایسٹونیا، لاتوئیا، لتھوانیا، رومانیہ، سلوواکیہ اور سلووینیا پر مشتمل نام نہاد ولنیئس گروپ کو بھی تسلیم کر لیا۔ البانیہ اور کروشیا نے سن 2009 میں شمولیت اختیار کی جب کہ مونٹی نیگرو اور شمالی مقدونیہ نے سن 2020 میں ایسا کیا۔ فن لینڈ رواں برس اپریل میں نیٹو میں شامل ہوا، جو سب سے نیا رکن ہے۔ اس کے نورڈک پڑوسی ملک سویڈن نے بھی بلاک میں شامل ہونے کے لیے درخواست دی ہے، تاہم اس کے الحاق کی کوشش کو فی الحال ترکی اور ہنگری نے روک رکھا ہے۔ تین ممالک : بوسنیا ہرزیگوینا، جارجیا اور یوکرین کو فی الحال اس فہرست میں رکھا گیا ہے، جو اس میں شامل ہونے کے ''خواہش مند'' ہیں۔
نیٹو کی اوپن ڈور پالیسی روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے پس منظر میں نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے کییف کی خواہش ایک بار پھر تیز ہو گئی ہے۔ تاہم روس کے لیے سابق سوویت یونین کی جمہوریہ ہونے کی وجہ سے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کا تصور ایک سرخ لائن ہے۔ نیٹو کی نام نہاد اوپن ڈور پالیسی، جیسا کہ معاہدے کی دفعہ 10 میں بیان کیا گیا ہے، کسی بھی اس یورپی ملک کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دیتی ہے جو ''شمالی بحر اوقیانوس کے علاقے کی سلامتی میں اضافہ اور تعاون کر سکتا ہو۔''۔ نیٹو کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ ''نیٹو کی رکنیت کے خواہشمند ممالک سے بھی کچھ سیاسی، اقتصادی اور عسکری اہداف کو پورا کرنے کی توقع کی جاتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اتحاد کی سلامتی کے ساتھ ہی اس سے فائدہ اٹھانے والے بھی بن سکیں گے۔''
 روب موڈگے 
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
gamekai · 2 years
Text
یورپی یونین کی دو ایرانی وزرا پر پابندیاں
یورپی یونین نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن پر تہران کے خلاف پابندیوں کے پانچویں دور میں پیر کو ایران کے وزرائے تعلیم اور ثقافت کے اثاثے منجمد کر کے ان پر ویزا پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یورپی یونین کے نئے اقدامات میں 32 افراد اور دو اداروں کو ہدف بنایا گیا ہے اور ان کا مقصد زیادہ تر قانون سازوں، عدلیہ کے اہلکاروں اور جیل حکام  پر پابندی لگانا جن پر جبر میں ملوث ہونے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
زمبابوے برطانوی منافقت کے ہاتھوں ڈاکٹروں اور اساتذہ کو کھو رہا ہے۔ صحت
یونائیٹڈ کنگڈم جو ایک کے نیچے جھک رہا ہے۔ کمی کو گہرا کرنا نرسوں اور اساتذہ کی یورپی یونین سے باہر نکلنے کے بعد، دیگر ممالک کے علاوہ، اپنی سابق کالونی زمبابوے میں پبلک سیکٹر کے اہم کارکنوں: نرسوں، ڈاکٹروں اور اساتذہ کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔ یہ ظلم ہے۔ یہ نہ رکنے والا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ ایک شیطانی چکر بھی پکڑتا ہے جس میں غیر ملکی امداد کا مقصد زمبابوے جیسے ممالک کو ان کی تعلیم اور صحت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 1 year
Text
آئی ایم ایف کی 1998 جیسی سخت شرائط
Tumblr media
آئی ایم ایف کی اضافی شرائط اور پروگرام کی بحالی میں تاخیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار پاکستان کو آئی ایم ایف کی 1998 ء جیسی سخت شرائط کا سامنا ہے، جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے اور معاشی مشکلات کے باعث پاکستان کو 400 ملین ڈالر کے مالیاتی فرق کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا جس پر 1999 میں آئی ایم ایف نے پروگرام بحالی کیلئے 24 سخت شرائط رکھیں جنہیں پاکستان نے پورا کیا۔ اس بار بھی ہمیں معاہدے کی بحالی میں آئی ایم ایف کا رویہ سخت نظر آرہا ہے جس نے شرائط پر عمل کرنا نہایت مشکل بنا دیا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے پہلے ہی تمام شرائط مان لی ہیں اور پارلیمنٹ سے اضافی ریونیو کیلئے 170 ارب روپے کا منی بجٹ بھی منظور کرا لیا ہے جبکہ اسٹیٹ بینک نے افراط زر پر قابو پانے کیلئے اپنے ڈسکائونٹ ریٹ میں 3 فیصد اضافہ کر کے 20 فیصد کر دیا ہے جس کے بعد آئی ایم ایف نے 4 پیشگی اقدامات کی اضافی شرائط رکھی ہیں جن میں گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے کیلئے تمام صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں 3.82 روپے فی یونٹ چارج لگایا جانا، مارکیٹ کی بنیاد پر روپے کو فری فلوٹ رکھنا جس میں حکومت کی کوئی دخل اندازی نہ ہو اور بیرونی ادائیگیوں میں 7 ارب ڈالر کی کمی کو پورا کرنے کیلئے دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹس یا رول اوور کی ضمانت حاصل کرنا شامل ہے۔ 
اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے پاکستانی روپے کے ایکسچینج ریٹ کو افغان بارڈر ریٹ سے منسلک کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جو پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث ہو گا کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈالر ریٹ میں تقریباً 20 روپے کا فرق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر سال تقریباً 2 ارب ڈالر پاکستان سے افغانستان اسمگل ہوتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف معاہدہ جون 2023 میں ختم ہو جائے گا لہٰذا بجلی کے بلوں میں مستقل بنیادوں پر سرچارج لگانا مناسب نہیں۔ حکومت اور آئی ایم ایف کی بیرونی ادائیگیوں کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ حکومت کے مطابق ہمیں 5 ارب ڈالر جبکہ آئی ایم ایف کے حساب سے 7 ارب ڈالر کمی کا سامنا ہے۔ چین کی طرف سے پاکستان کو پہلے ہی 700 ملین ڈالر مل چکے ہیں اور 1.3 ارب ڈالر کی 3 قسطیں جلد ملنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر، UAE سے 1 ارب ڈالر، ورلڈ بینک اور ایشین انفرااسٹرکچر بینک کے 950 ملین ڈالر کے اضافی ڈپازٹس ملنے کی توقع ہے جس سے جون 2023 تک پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر موجودہ 4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 10 ارب ڈالر ہو جائیں گے جو آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرتا ہے۔
Tumblr media
آئی ایم ایف کا پاکستان اور دیگر ممالک کو قرضے دینا احسان نہیں بلکہ یہ آئی ایم ایف کے ممبر ممالک کا حق ہے کہ مالی مشکلات کے وقت آئی ایم ایف ان کی مدد کرے۔ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے والے ممالک میں ارجنٹائن 150 ارب ڈالر قرضے کے ساتھ سرفہرست ہے جس کے بعد مصر 45 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے، ایکواڈور 40 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے، یوکرین 20 ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے جس کے بعد پاکستان، لاطینی امریکی ممالک اور کولمبیا آتے ہیں۔ پاکستان اب تک آئی ایم ایف کے ساتھ مجموعی 23.6 ارب ڈالر کے 22 سے زائد معاہدے کر چکا ہے لیکن ان سے صرف 14.8 ارب ڈالر کی رقم حاصل کی ہے اور باقی پروگرام مکمل ہوئے بغیر ختم ہو گئے۔ آئی ایم ایف کا موجودہ 6.5 ارب ڈالر کا توسیعی فنڈ پروگرام 2019 میں سائن کیا گیا تھا جس کو بڑھا کر 7.5 ارب ڈالر تک کر دیا گیا جو جون 2023 میں ختم ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے حالیہ نویں جائزے کی شرائط مکمل کرنے کے بعد پاکستان کو1.1 ارب ڈالر کی قسط ملے گی۔ 
حکومت کے آئی ایم ایف شرائط ماننے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آنے کے علاوہ بیرونی ممالک سے بھی شکایتیں اور دبائو بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں جرمنی کے سفیر الفریڈ گرناس نے وفاقی وزیر معاشی امور سردار ایاز صادق سے اسٹیٹ بینک کی جرمنی سے مرسڈیز، BMW اور Audi الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ اور بینکوں کے LC کھولنے پر پابندی پر اعتراض کیا ہے کہ یہ WTO معاہدے، جس کا پاکستان ممبر ملک اور دستخط کنندہ ہے، کے خلاف ہے لہٰذا جرمنی سے الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ کی فوری اجازت دی جائے بصورت دیگر جرمنی، پاکستان کے یورپی یونین کے ساتھ GSP پلس ڈیوٹی فری معاہدے، جو 31 دسمبر 2023 کو ختم ہو رہا ہے، کی مزید 10 سال تجدید کیلئے پاکستان کو سپورٹ نہیں کرے گا اور اس پابندی سے پاکستان اور جرمنی کے تجارتی تعلقات پر اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ غیر ملکی ایئر لائنز کی 225 ملین ڈالرکی ترسیلات زر نہ ہونے کے باعث غیر ملکی ایئر لائنز نے پاکستان کیلئے سخت پالیسیاں اور ٹکٹ مہنگے کر دیئے ہیں جس میں حکومت کی حج زائرین کیلئے ڈالر کی فراہمی پر بھی نئی پابندیاں شامل ہیں۔
پاکستان ان شاء اللہ ڈیفالٹ نہیں ہو گا لیکن بے شمار قارئین نے مجھ سے ڈیفالٹ کے ملکی معیشت پر اثرات کے بارے میں پوچھا ہے۔ آسان الفاظ میں ایک خود مختار ملک کے واجب الادا قرضوں اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز کی ادائیگی میں ناکامی کو ’’ساورن ڈیفالٹ‘‘ کہا جاتا ہے جس کا حکومت رسمی اعلان کر سکتی ہے جیسے سری لنکا نے کیا یا پھر حکومت ان قرضوں کو ری اسٹرکچر یا ادائیگی میں تاخیر کی درخواست کرتی ہے جو تکنیکی اعتبار سے ڈیفالٹ ہی کہلاتا ہے۔ اس صورت میں مقامی کرنسی کی قدر کافی حد تک گر جاتی ہے اور بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اُس ملک کی ریٹنگ کم کر دیتی ہیں جس سے ملک کے بینکوں کا بین الاقوامی مارکیٹ میں تجارت کرنا مشکل ہو جاتا ہے، شرح سود میں اضافہ اور سپلائرز LCs پر غیر ملکی بینکوں کی کنفرمیشن مانگتے ہیں جس سے LCs اور امپورٹ کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNCTD نے پاکستان کو دنیا کے اُن 5 ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا ناقابل برداشت دبائو ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ سری لنکا، مصر، کولمبیا اور انگولا شامل ہیں۔ ایسی صورتحال میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپیل کی ہے کہ پاکستان کی موجودہ مالی مشکلات کا سبب کچھ ترقی یافتہ ممالک کی معاشی پالیسیاں ہیں، امیر ممالک کو چاہئے کہ وہ پاکستان کی مدد کریں جس کیلئے میرے نزدیک ملک میں سیاسی استحکام اشد ضروری ہے۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes