Tumgik
#عالمی اردو کانفرنس
urduchronicle · 10 months
Text
عالمی اردو کانفرنس میں معروف مزاح نگاروں کی تحریروں کے اقتباسات پڑھ کر سنائے گئے
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز ”اردو مزاح کی پڑھنت” پرسیشن کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیشن میں اردو مزاح کے نامور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی پطرس بخاری ابن انشا اور پنڈت رتن ناتھ سرشار کے شاہکار مزاح سے مختلف اقتباس پڑھ کر سنائے گئے۔ پڑھنت کو ضیاءمحی الدین سے منسوب کیا تھا، جس میں فواد خان، میثم نقوی اور کرن صدیقی نے پڑھنت کی۔ سید نصرت علی  نے دلاورفگار ،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduclassic · 4 years
Text
بچوں کے ادب کی بے ادبی
میں کتابوں کی ایک دو منزلہ دکان میں گیا اور عملے کے ایک شخص سے پوچھا کہ بچوں کی کتابیں کہاں ہیں؟ اس نے کہا کہ اوپر پڑی ہیں۔ میں اوپر کی منزل میں گیا تو دیکھا ، بچوں کی کتابیں فرش پر پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ رکھی ہوئی نہیں تھیں، واقعی پڑی ہوئی تھیں۔ کتابوں کے جس شان دار شو روم میں نو نو سو روپے کی کتاب آراستہ ہو وہاں تیس پینتیس روپے کی کتاب کی قدر کون کرے گا اور کیوں کرے گا؟ یہ حال ہے ہمارے مستقبل کے معماروں کے لئے تخلیق ہونے والے ادب اور کتب کا۔ جن کتابوں کا نہ گاہک ہو، نہ قاری، جن کی نہ فروخت ہو، نہ کاروبار اور نہ بڑا منافع، تو پھر نہ کوئی انہیں چھاپے گا، نہ بیچے گا اور ان کا ٹھکانا فرش پر ہی ہو گا۔ کسی اور کا دُکھا ہو یا نہ دُکھا ہو، میرا دل یوں دُکھا کہ میں نے جب ہوش سنبھالا ، یہ بات سنہ چالیس کی ہو گی، ہمارے گھر میں لاہور سے بچوں کا نہایت خوش نما رسالہ ’’پھول‘‘ آیا کرتا تھا۔ بدقسمتی سے ’’پھول‘‘ کا بھی چل چلاؤ تھا۔ پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پیام تعلیم نام کا ماہنامہ نکلا۔ ایسا اعلیٰ معیاری رسالہ پھر کبھی نہ نکلا۔ 
اس کے بعد ماہنامہ شمع کے ادارے نے اپنے بے پناہ مراسم اور وسائل کی بنا پر رسالہ کھلونا جاری کیا جو گھر گھر پڑھا گیا۔ وہ ملک کی تقسیم کی زد میں آکر اپنے خاتمے کو پہنچا لیکن پاکستان میں فیروز سنز جیسے بڑے اشاعتی ادارے نے بچوں کا بیش بہا ادب شائع کیا اور اسی دوران روزنامہ جنگ نے بے مثال رسالہ بھائی جان جاری کیا۔ وہ بھی تھک ہار کے بیٹھ رہا تب حکیم سعید مرحوم اس میدان میں اترے اور انہوں نے رسالہ نونہال ہمدرد جاری کیا جس نے اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا۔ اسی دوران ایک ادارے نے کمال ذہانت سے کام لے کر جدید دور کی نئی نسل کو سامنے رکھ کر رسالہ سنگترہ شائع کیا۔ وہ بھی حوصلہ ہار گیا۔ لاہور سے نئے زمانے کا پھول نکل رہا ہے اور کراچی سے کھلاڑی شائع ہو رہا ہے اور ان کے حوصلے کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ کچھ پرچے اور بھی ہیں کہ جیسے بھی بنے جاری ہیں۔ 
کتنے ہی شان و شوکت سے نکلے اور چل بسے۔ غنیمت ہے کہ آرٹس کونسل آف پاکستان ، کراچی جو سال کے سال دھوم مچاتی ہوئی عالمی اردو کانفرنس منعقد کرتی ہے اور جس کو اب خیر سے تیرہ برس ہو چلے ہیں، اس میں بیچ میں کہیں کچھ وقت نکال کر ’بچوں کا ادب‘ کے عنوان سے ایک اجلاس ضرور سجایا جاتا ہے۔اس سال بھی محفل آراستہ ہوئی اور میری خوش نصیبی کہ مجھے بھی بلایا گیا۔ لیکن اُس َبلا نے کہ جس کا نام کورونا ہے، ہمارے سارے ہی کس بل نکال دئیے۔ میں جو چھ ماہ سے خود کو بچائے بیٹھا تھا، ان دشوار حالات میں اپنے اندر کراچی جانے کی ہمت نہ پا سکا اور آرٹس کونسل کے کرتا دھرتا محمد احمد شاہ صاحب سے معذرت کر لی۔ انہوں نے جدید ٹیکنالوجی سے کام لیا اور میں گھر بیٹھے ’آن لائین‘ صدارت کے فرائض انجام دے سکا۔ کانفرنس میں بچوں کا ادب لکھنے والی محترمہ نیّر رُباب، اردو کے سرکردہ اسکالر ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور بچوں کی خاطر طویل عرصے تک خدمات انجا م دینے والے جناب سلیم مغل بھی شریک تھے۔
نئی نسل کے لئے ادب تخلیق کرنے کی راہ میں ساری دشواریاں گنوائی گئیں اور خاص طور پر سلیم مغل صاحب نے ماضی کے ان نام ور اور سر کردہ ادیبوں، شاعروں کو خراج ِتحسین پیش کیا جنہوں نے بچوں کے لئے بہت کام کیا لیکن جن میں سے زیادہ تر بھلا دیے گئے۔ اس سیشن میں ویسے بھی کم ہی احباب آتے ہیں ۔ اس بار ’ایس او پیز‘ کی پابندیوں کی وجہ سے شرکا کو دو دو میٹر کے فاصلے پر بٹھایا گیا۔ اس سے ہال بھرا بھرا لگا۔ لیکن مجھے پچھلے سال کا سیشن بہت یا د آیا ۔ اُس روز اجلاس کی کارروائی جاری تھی اور خاصی سنجیدہ گفتگو ہو رہی تھی کہ اچانک ہال کا دروازہ کھلا اور آٹھ دس بچے ہنستے کھل کھلاتے داخل ہوئے۔ ان کا آنا تھا کہ ساری فضا بدل گئی اور اسٹیج پر بیٹھے ہوئے عمائدین نے وہ سنجیدہ گفتگو رکھی ایک طرف اور ہم نے بچوں کی دل چسپی کی چیزیں سنانی شروع کر دیں۔اسٹیج پر محترم محمود شام بھی موجود تھے جنہوں نے کسی کو دوڑا کر باہر بُک اسٹال سے بچوں کے گیتوں کی اپنی کتاب منگوائی اور نو وارد کمسن سامعین کو گیت سنائے۔ بچوں کے آنے پر مجھے مومنؔ کا شعر یاد آیا:
مومن آیا ہے بزم میں ان کی صحبتِ آدمی مبارک ہو
تو بات یہ ہو رہی تھی کہ کتاب ہماری زندگی سے رخصت ہو رہی ہے۔ جن بچوں کے بارے میں ہمارا جی چاہتا ہے کہ وہ کتاب پڑھیں، وہ بچے اب اسمارٹ فون کے لتّی ہو گئے ہیں۔ جو بچے کبھی لوری سن کر سویا کرتے تھے وہ اب کمپیوٹر گیمز کھیلتے کھیلتے سوتے ہیں۔غضب یہ ہوا ہے کہ آج کی مائیں لوری بھول گئی ہیں۔ میں نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر ’ لفظوں کا سفر‘ کے عنوان سے احباب جو مشقیں کر رہے ہیں، میں نے ان سے کہا کہ پرانی لوریاں لکھ کر بھیجیں۔ زیادہ تر کو فلمی لوریاں یاد تھیں ، بہت کم نے پرانی لوریاں لکھیں اور اُن میں بھی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ میں نے تجویز پیش کی کہ ہمیں ’بیڈ ٹائم اسٹوریز‘ کو رواج دینا چاہئے، یعنی بچے کو سلاتے وقت ماں کو چاہئے کہ کتاب سے پڑھ کر چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنائے۔ اس سے بچے کی ذہنی تربیت بھی ہو گی اور وہ کتاب سے روشناس ہو گا۔خیال رہے کہ اس سے پہلے کہ وہ کمپیوٹر گیمز کی طرف راغب ہو اس کا کتاب سے تعارف کرا دیا جائے۔
بیڈ ٹائم اسٹوریز بہت چھوٹے بچوں کے لئے لکھی جاتی ہیں اور ا س کے لئے آن لائن ورک شاپ کرائے جا سکتے ہیں۔ شاید مجھ ہی کو اٹھنا پڑے گا۔ مسافر نواز بہتیرے ہیں ، مل جائیں گے۔ مجھے شکایت اپنے ادیبوں شاعروں سے ہے (جانتا ہوں کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا) شکایت یہ ہے کہ وہ بچوں کے لئے کیوں نہیں لکھتے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس کام میں نہ شہرت ہے، نہ عزت ہے اور سب سے بڑھ کر نہ دولت ہے۔ ہماری نگاہوں کے سامنے ابنِ انشا، شان الحق حقی اور صوفی تبسم بچوں کے لئے کمال کی چیزیں لکھ گئے ہیں۔ راجا مہدی علی خاں کی تحریریں ہمیں یاد ہیں۔ یہاں تک کہ تلوک چند محروم جیسے سینئرشاعر بھی بچوں کے لئے کافی مواد چھوڑ گئے ہیں۔ آج کے شاعر اُن کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟ شاید یہ خسارے کا سودا ہے۔ قصور کسی کا نہیں ، ہمارا ہی ہے کہ ابھی تک خود کو اس خواب سے نکال نہیں پائے ہیں۔
رضا علی عابدی
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes · View notes
emergingpakistan · 5 years
Text
کورونا وائرس سے بچنے کے لیے پاکستان نے کیا اقدامات کیے ہیں؟
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے ملک بھر میں تمام تعلیمی اداروں کو بند، فوجی پریڈ کو منسوخ، پاکستان کی سرحدوں کو پندرہ روز تک مکمل بند اور بین الاقوامی پروازوں کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ پاکستان میں لوگوں کی صحت وزیراعظم کی اولین ترجیح ہے۔ انھوں نے بتایا تھا کہ تفتان میں ایران سے آئے کچھ افراد کے کیسز بھی سامنے آئے تھے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020 کو کراچی میں سامنے آیا تھا جس کے بعد اب تک ملک کے مختلف علاقوں میں 672 سے زیادہ افراد کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پیغام میں عوام کو بتایا: ’ ہم خطرات سے پوری طرح آگاہ اور چوکنے ہیں اور اپنے لوگوں کی صحت و سلامتی کیلئے مناسب انتظامات کر چکے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) نے اس حوالے سے ہماری کاوشوں کو سراہا ہے اور انھیں دنیا میں بہترین قرار دیا ہے۔ پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عوام کے لیے ہدایات پر مشتمل خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ نماز جمعہ کے لیے حکومتی احکامات پر عمل کریں اور ان باتوں کا خیال رکھیں کہ اگر آپ کو کھانسی، بخار یا زکام ہے یا آپ بزرگ، کم عمر یا دمے کے مریض ہیں تو گھر پر نماز پڑھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر آپ مسجد جا رہے ہیں تو وضو گھر پر کریں اور 20 سیکنڈ تک صابن سے ہاتھ دھوئیں، جائے نماز یا کوئی کپڑا ساتھ لے کر جائیں اور سجدے کے دوران سانس روک لیں۔ اس کے علاوہ مصافحہ کرنے، بغل گیر ہونے اور قریبی میل جول سے بھی گریز کریں۔
بشکریہ بی بی سی اردو
1 note · View note
urdunewspedia · 3 years
Text
کرنسی ویلیو کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی بڑھی،ترجمان وزاتِ خزانہ - اردو نیوز پیڈیا
کرنسی ویلیو کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی بڑھی،ترجمان وزاتِ خزانہ – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  اسلام آباد: وزراتِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے کہا ہے کہ کرنسی کی قدر کم ہونے کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی بڑھی ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان وزارت خزانہ مزمل اسلم نے کہا کہ کورونا کے باعث عالمی سطح پر مہنگائی بڑھنے سے پاکستان بھی متاثر ہوا، ہم جو اشیا درآمد کررہے ہیں اُن میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے کئی ممالک کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
islamiclife · 3 years
Text
پیغمبر اسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں ہے : روسی صدر پوتن
روسی صدر ولادی میر پوتن کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام کی توہین کو آزادی کا اظہار نہیں کہا جا سکتا۔ روسی خبر رساں ادارے ٹاس کے مطابق روسی صدر کا کہنا تھا کہ ’پیغمبر کی توہین مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے اور یہ ان لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے جو اسلام کے ماننے والے ہیں۔‘ روسی صدر نے ان ویب سائٹس پر بھی تنقید کی جن پر دوسری عالمی جنگ میں مرنے والے روسیوں اور نازیوں کی تصاویر پوسٹ کی جاتی ہیں۔ پوتن کا کہنا تھا کہ ایسی حرکات انتہاپسندی میں اضافہ کرتی ہیں۔ انہوں نے پیرس میں شارلی ایبدو میگزین کے ادارتی دفتر پر ہونے والے حملے کی مثال دیتے ہوئے کہا ایسی باتیں انتہا پسندانہ سوچ میں اضافہ کرتی ہیں۔  یاد رہے فرانسیسی میگزین شارلی ایبدو نے چند سال قبل ایسے خاکے شائع کیے تھے جن پر مسلمان ممالک کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ 
اپنی پریس کانفرنس میں روسی صدر نے جمالیاتی آزادی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’مجموعی طور پر تخلیقی آزادی کی حدود مقرر ہونی چاہییں اور ان میں کسی اور کی آزادیوں کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔‘ روسی صدر کا مزید کہنا تھا کہ ’روس ایک کثیر النسلی اور کثیرالمذہبی ملک کے طور پر ابھرا ہے اس لیے روسی ایک دوسرے کی روایات کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن کئی ممالک میں ایسا احترام کم ہی پایا جاتا ہے۔‘ روسی صدر پوتن کے اس بیان پر پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا اپنی ٹویٹ میں کہنا ہے کہ ’میں روسی صدر کے اس بیان کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ یہ میری اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں ہے۔‘  ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم مسلمانوں، بالخصوص مسلمان رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ غیر مسلم دنیا کے رہنماؤں تک اس پیغام کو پہنچایں تاکہ اسلاموفوبیا کا مقابلہ کیا جا سکے۔‘
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو  
0 notes
siyyahposh · 3 years
Text
قافلہ سالارِ اردو - ایکسپریس اردو
قافلہ سالارِ اردو – ایکسپریس اردو
ابھی چند روز قبل شہر قائد کراچی میں جوکبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا اور جسے گردش حالات نے شہر ناپرساں بنادیا ہے۔ چودہویں عالمی اردو کانفرنس کا نہایت شاندار انعقاد ہوا ، جس کا افتتاح وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے دست مبارک سے کرکے 1972 میں ہونے والے سندھ کے لسانی فسادات کے نتیجے میں لگنے والے خونی داغ دھو دیے۔وزیر اعلیٰ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ’’ انتہا پسندی کے ماحول کو ختم کرنے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-news · 3 years
Text
حضرتِ جو بائیڈن لکھنوی کو پر نام
بیجنگ میں چار تا دس فروری سرمائی اولمپکس منعقد ہو رہے ہیں۔ امریکا نے چین میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ بھی اس بابت جلد فیصلہ کرے گا۔چین کا کہنا ہے کہ اب تک امریکا کو اولمپکس کا دعوت نامہ ہی نہیں بھیجا گیا تو بائیکاٹ کا کیا مطلب ؟ دوسری خبر یہ ہے کہ گذرے جمعرات اور جمعہ کو امریکی صدر کی دعوت پر ایک سو دس ممالک کے سربراہوں یا اعلیٰ شخصیات نے جمہوریت کو عالمگیر سطح پر مستحکم کرنے کے طریقوں پر غور کرنے کے لیے ایک ورچوئل چوٹی کانفرنس میں شرکت کی۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نٹالی بینیٹ اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی بھی مدعو تھے۔ مشرقِ وسطی سے اس کانفرنس میں صرف عراق کو نیوتا دیا گیا۔ جنوبی امریکا سے دیگر کے علاوہ برازیل کے انتہا پسند ماحولیات دشمن صدر بولسنارو کو بھی دعوت دی گئی۔
چین کو دعوت نامہ بھیجنے کا تو خیر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ البتہ تائیوان کو مدعو کر کے چین کو مزید چڑانے کی کوشش ضرور کی گئی۔ کانفرنس کا ایجنڈا تھا کہ عالمی سطح پر آمرانہ سوچ ، بڑھتی ہوئی کرپشن اور انسانی حقوق کی پامالی سے جمہوریت کا کیسے تحفظ کیا جائے ؟ پاکستان کو بھی بطور ایک ابھرتی جمہوریت کے اس چوٹی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی مگر عین ایک روز قبل اسلام آباد نے یہ کہہ کر اس میں شرکت سے معذرت کر لی کہ ہم مناسب وقت پر فروغِ جمہوریت کے معاملے پر امریکا سے رابطے میں رہیں گے۔ اس سفارتی جملے کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے کہ بھائی میزبان صاحب چلیے آپ نے ہمارے دوست چین کو مدعو نہیں کیا نہ سہی مگر آپ نے تائیوان کو مدعو کر کے اور ترکی کو دعوت نہ دے کر اور مودی اور نٹالی بینیٹ کو آمنترت کر کے ہمارے لیے ایک بہت بڑی سفارتی مشکل کھڑی کر دی۔ لہٰذا آپ کی چوٹی کانفرنس کے چکر میں ہم اپنے دیرینہ دوستوں کو تو خفا کرنے سے رہے۔
سرد جنگ کے پینتالیس سالہ دور میں امریکا نے کیمونسٹ دنیا کو انسانی حقوق کی پامالی کے ڈنڈے سے مسلسل پیٹا اور انسانی حقوق کے ان دشمنوں کو نیچا دکھانے کے لیے لاطینی امریکا سے انڈونیشیا تک ہر رنگ و نسل و قسم کے فوجی و غیر فوجی آمروں کو آزاد دنیا کا پاسبان قرار دے کر ان کے سات خون بھی معاف کر دیے۔ آج بظاہر پہلی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دوسری سرد جنگ شروع ہو گئی ہے مگر کردار وہی پرانے ہیں۔ وہی روس اور چین ، وہی امریکا اور برطانیہ جو پہلی سرد جنگ کی طرح دوسری سرد جنگ میں بھی مدِمقابل طاقتوں کو مغربی طرزِ زندگی ، جمہوریت اور سلامتی کے لیے خطرہ نمبر ایک بتا رہے ہیں اور انسانی حقوق کے اسی پرانے ڈنڈے کو گھما رہے ہیں۔ اس کے برعکس آج حواری ممالک میں انسانی حقوق اور آزادیوں کے ساتھ ہونے والی کھلواڑ انھیں یاروں کا اندرونی معاملہ نظر آتا ہے۔ گویا نہ بوتل بدلی نہ شراب اور نہ ہی کمپنی۔
یوں سمجھ لیجیے کہ مغرب کو جہاں منڈی دستیاب ہے وہاں انسانی حقوق کا کوئی آڑھتی نہیں۔ جہاں مغرب کو اقتصادی مسابقت و اسٹرٹیجک چیلنج کا سامنا ہے وہاں صرف انسانی حقوق کی پامالی ہی بیچنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مثلاً امریکا کا سرکاری کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی ( یو ایس سی آئی آر ایف ) گزشتہ دو برس سے بھارت کو بھی چین اور پاکستان کے ساتھ ساتھ ان تیرہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش پیش کر رہا ہے جہاں مذہبی آزادی روز بروز سکڑتی جا رہی ہے۔ لیکن پچھلے سال وزیرِ خارجہ مائک پومپیو نے اس فہرست میں بھارت کا نام شامل کرنے کی سفارش کو مسترد کر دیا اور اس برس وزیرِ خارجہ انتھونی بلنکن مذہبی تنگ نظری کی سرکاری فہرست پڑھتے ہوئے بھارت کا نام لیے بغیر آگے بڑھ گئے۔ حالانکہ انھی انتھونی بلنکن نے سات ماہ قبل مذہبی آزادی اور اقلیتوں سے سلوک کے بارے میں محکمہ خارجہ کی جاری کردہ عالمی فہرست میں بھارت کی شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
اس رپورٹ میں مودی کابینہ کے کئی وزرا کا نام لیا گیا اور حکمراں جماعت کا تعلق آر ایس ایس سے جوڑتے ہوئے اقلیتوں کی زبوں حالی کا تذکرہ بھی تھا۔ اس رپورٹ میں بھارتی پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل، سرسری گرفتاریوں ، صحافیوں کے خلاف مقدمات اور ہراسگی اور میڈیا سنسر شپ کے بڑھتے ہوئے رجحان کا بھی اعتراف کیا گیا تھا۔ جیسے جیسے حالیہ مہینوں میں چین اور روس کے ساتھ کشیدگی کا گراف بڑھتا گیا۔ محکمہ خارجہ ، محکمہ دفاع اور وائٹ ہاؤس کا ہاتھ بھارت پر ہولا ہوتا گیا۔ وہی مودی جنھیں دو ہزار دو کے گجرات قتلِ عام کے بعد امریکی ویزہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ وہی مودی بائیڈن کے صدر بننے کے بعد ورچوئل ملاقات کرنے والے اولین رہنماؤں میں شامل ہو گئے۔ حالانکہ اس ملاقات سے چند ہفتے پہلے ہی انسانی آزادیوں کی تحقیق سے متعلق ایک موقر ادارے فریڈم ہاؤس کی شایع کردہ رپورٹ میں بھارت کا درجہ جمہوری ممالک سے اٹھا کر نیم آزاد جمہوریت کے خانے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
اس اعلیٰ ملاقات کے ایک ہفتے بعد نئے امریکی وزیرِ دفاع لائڈ آسٹن اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر نئی دلی پہنچے اور انھوں نے مشترکہ اہداف کے حصول میں پیش رفت کا تفصیلی جائزہ لیا۔ ان مشترکہ اہداف میں انسانی حقوق کا سوال بالواسطہ چھوڑ بلاواسطہ بھی نہیں اٹھا۔ اس سے ایک برس پہلے جب ٹرمپ نئی دلی میں موجود تھے تو پرانی دلی میں مسلم اکثریتی علاقے آتشیں حملوں اور نقلِ مکانی کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ مگر ٹرمپ دور آسمان سے اٹھتے دھوئیں کو بادل ہی سمجھتے رہے۔ ٹرمپ تو خیر ٹرمپ تھے مگر ڈیموکریٹس تو صدارتی مہم میں انسانی حقوق کے مامے بنے ہوئے تھے۔ بقول ایک امریکی مدبر فرق صرف اتنا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں ریپبلیکن انتظامیہ سادہ چھری چلاتے ہوئے نہیں ہچکچاتی البتہ ڈیموکریٹ انتظامیہ اس چھری پر شہد لگا کے وار کرتی ہے۔ تین ماہ قبل ( ستمبر ) دلی میں تعینات امریکی ناظم الامور اتل کیشپ ( ہندوستانی نژاد ) نے بھارت کو ہر سطح پر ایک سیکولر جمہوریت سے ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے علم بردار آر ایس ایس پرمکھ موہن بھاگوت سے ملاقات میں ’’ جمہوریت ، گروہی ہم آہنگی ، روشن خیالی اور مختلف برادریوں کے درمیان پرامن بقاِ باہمی‘‘ کے امور پر تبادلہِ خیالات کیا اور اس بابت کیے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔
اکتوبر میں امریکی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمین نے اپنے دورے میں اس امر کو سراہا کہ بھارت اور امریکا پھلتی پھولتی جمہوریتیں ہیں اور ان کے مابین قریبی تعاون خطے اور عالم کے مفاد میں ہے۔ جب بھی امریکا کے دہرے پن پر انگلی اٹھتی ہے تو امریکی دفترِ خارجہ یہ صفائی دیتا ہے کہ جب بھی اعلیٰ بھارتی قیادت سے ہمارا رابطہ ہوتا ہے تو ہم پس ِ پردہ اسے انسانی حقوق کی اندرونی صورتِ حال پر اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کا ثبوت محکمہ خارجہ نے یہ پیش کیا کہ ستمبر میں مودی بائیڈن ملاقات کے دوران امریکی صدر نے عدم ِتشدد ، احترامِ آدمیت اور درگزر کے بارے میں گاندھی جی کے وچاروں کا تذکرہ کیا۔ ( سبحان اللہ۔ جو بائیڈن لکھنوی کی جے)۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
کہانی میرے اندر بنتی ہے یہی کہانی ’ پری زاد‘ ڈرامہ کی صورت میں نشر ہوگئی، ہاشم ندیم
اداکاری سکھائی نہیں جاتی ،اداکار یاتو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ،فلم معاشرے کی عکاس ہے موجودہ دور میں فلم انڈسٹری کی صورتحال خراب ہے حکومت اس انڈسٹری پر توجہ دے ۔آرٹ اور کلچر بھی پانچواں اہم ستون ہے ۔70 کی دہائی تک فلم ترقی کررہی تھی وہی دور سنہرا تھا ۔آج کے دور کے نوجوان فنکار بہت ذہین ہیں وہ کچھ دیر قبل ہی اسکرپٹ دیکھتے ہیں اور ان میں سے بعض بہت عمدہ پرفارم بھی کردیتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں ایک ڈرامے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
کرنل انیل اے اتھلے (ریٹائرڈ): طالبان کی جڑیں
کرنل انیل اے اتھلے (ریٹائرڈ): طالبان کی جڑیں
کرنل انیل اے اتھلے (ریٹائرڈ) نوٹ کرتے ہیں کہ اندرونی جھگڑے اور قبائلیت افغانستان کے لیے مقامی ہے۔
تصویر: عبداللطیف منصور ، بائیں ، شہاب الدین دلاور ، مرکز اور سہیل شاہین – طالبان کے سیاسی دفتر کے ارکان – 9 جولائی 2021 کو ماسکو میں ایک نیوز کانفرنس میں۔ فوٹو: تاتیانا میکائیفا/رائٹرز
القاعدہ کی تلاش کے لیے امریکہ کے افغانستان میں داخل ہونے کے تقریبا 20 20 سال بعد 6 جولائی 2021 کو بگرام ایئر بیس سے امریکی انخلا گھڑی کو مکمل دائرے میں لے آیا۔ یہ تقریبا almost ایک پرانی فلم کو دوبارہ بنانے کی طرح لگتا ہے جہاں ولن-طالبان ایک جیسے رہتے ہیں جبکہ ہارنے والے سوویت یونین سے امریکہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں جو کہ ایک سابقہ ​​سپر پاور ہے۔
یقینا ، ممکنہ متاثرین – عام افغان شہری – دونوں سانحات کے لیے پھر سے مشترک ہیں۔ اگر کوئی جدید واقعہ کہاوت ثابت کرتا ہے کہ ‘تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے’ ، یہ افغانستان میں گزشتہ تین دہائیوں کے واقعات ہیں۔
اس سے پہلے کہ کوئی حقیقت پسندانہ اندازہ لگائے کہ آنے والے واقعات کے عالمی/علاقائی اثرات کیا ہوں گے ، 1989 میں سوویت یونین کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور افغانستان کو خالی کرنے کے موجودہ امریکی اقدامات کے مابین مماثلت اور فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔
زیادہ تر تجزیہ تنہائی میں فوری سیاسی یا فوجی پہلو پر مرکوز ہے۔ یہ کسی حد تک ہاتھی کو بیان کرنے کی کوشش کرنے والے نابینا افراد کی مشق کی طرح رہا ہے۔
افغانستان کے مسئلے کی کئی جہتیں ہیں-عالمی ، علاقائی اور داخلی اور عسکری پہلو جو شورش اور انسداد شورش سے متعلق ہے۔ موجودہ مشکلات کی جڑیں قوم کے ماضی ، اس کی تاریخ اور سماجیات میں ہیں۔
ان تمام پہلوؤں کا پس منظر موجودہ واقعات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے ممکنہ راستوں کا نقشہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔
تاریخی طور پر ، ہندو/بدھ مت افغانستان کو قدیم زمانے سے شمالی ہندوستان کے زرخیز میدانوں پر حملے کے لیے اسٹیجنگ پوسٹ یا راستے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں سکندر کا پہلا معروف استعمال تھا۔ سکندر کے بعد ہن ، منگول اور ایرانی تھے۔
یہ تمام حملہ آور فوجیں حالیہ افغانستان سے گزر گئیں اور مخلوط نسلی آبادی چھوڑ گئی جو مسلسل متحارب قبیلوں میں شامل ہو گئیں جو حسد سے اپنی نسل کی حفاظت کرتی ہیں۔
افغان تاریخ بلقان سے ملتی جلتی ہے اور اس کے مسلسل تنازعات اور انتشار کے نتائج ہیں۔ یہ بنیادی حقیقت 21 ویں صدی میں بھی افغان معاشرتی منظر نامے میں پائی جاتی ہے۔
اندرونی جھگڑا اور قبائلی ازم افغانستان کے لیے مقامی ہے۔
مستحکم ریاستیں اس وقت بنتی ہیں جب نسلی ، مذہبی ، لسانی اور تاریخی مشترکات ہوں۔
اس میٹرکس پر ، جدید افغانستان تاریخ کا ایک حادثہ ہے۔ یہ بمشکل 300 عجیب سالوں سے موجود ہے اور اس نے اپنے ہندو/بدھ مت ماضی کو مسترد کردیا ہے۔
پاکستان ، اس کا پڑوسی ، مذہبی شناخت کے ایک عنصر پر قائم پایا گیا کہ ایک قوم صرف ایک عنصر کی بنیاد پر متحد نہیں رہ سکتی اور 50 سال پہلے دو ٹکڑے ہو گئی۔ افغانستان کی قومیت کی یہ نزاکت موجودہ حالات کا مطالعہ کرتے وقت ایک عنصر ہے۔
تصویر: ملا عبدالغنی برادر ، بائیں ، طالبان کے اہم مذاکرات کار ، اور وفد کے دیگر ارکان 18 مارچ ، 2021 کو ماسکو میں ہونے والی افغان امن کانفرنس میں شریک ہیں۔ تصویر: الیگزینڈر زیملیانچینکو/پول/رائٹرز
جدید افغانستان نے 18 ویں صدی میں احمد شاہ درانی کی قیادت میں شکل اختیار کی جس نے متحارب افغان قبائل کو متحد کیا۔ افغانستان 19 ویں صدی کی جیو پولیٹکس کے لیے اپنی آزادی کا مقروض ہے جب اسے روس کی بڑھتی ہوئی سلطنت اور ہندوستان میں برطانوی سلطنت کا لالچ تھا۔
طویل لڑائی اور بعد میں دو حملوں کے بعد ، برطانوی اور روسی دونوں افغانستان کو بفر سٹیٹ کے طور پر رکھنے پر متفق ہوگئے۔
اپنی ہندوستانی سلطنت کی مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے ، انگریزوں نے پختون قبائلی اکثریتی علاقوں کو خیبر پاس کے مشرق ، نام نہاد ڈیورنڈ لائن سے ملا دیا۔ اس نے پختونوں کو برٹش انڈیا اور افغانستان کے درمیان مؤثر طریقے سے تقسیم کیا۔
انگریزوں اور بعد میں پاکستان نے کھلی سرحد رکھی اور پختون سرحد تک باڑ لگانے تک 2010 تک آزاد تھے۔ مشکل پہاڑی علاقے کی وجہ سے ، سرحد پار نقل و حرکت جاری ہے۔
قطع نظر اس کے کہ کون افغانستان پر حکومت کرتا ہے ، ڈیورنڈ لائن اور پختون اکثریتی علاقے کی تقسیم کسی افغان حکومت ، طالبان یا کسی طالبان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
19 ویں اور 20 ویں صدی میں یورپی نوآبادیاتی حکمرانی سے افغانستان کا آزاد رہنا اینگلو روسی دشمنی کا نتیجہ ہے نہ کہ افغانیوں کی کوئی خاص خوبیاں ، لیکن اس کے باوجود افغانی استثناء کے تصور کو جنم دیا ہے۔
1979 تک افغانستان پر ایک بادشاہت کا راج تھا جو جدید اور لبرل تھا۔ لیکن افغانستان کی جدیدیت اپنے بڑے شہروں تک محدود رہی جبکہ دیہی علاقوں میں گہرے قدامت پسند رہے اور قبائلی طریقوں پر عمل کیا۔
اس سال (1979) میں ، جیسا کہ ایران میں اسلامی انقلاب نے ایران کے مغرب نواز شاہ کا تختہ الٹتے دیکھا ، روس نے اس کا موقع دیکھا اور افغانستان پر براہ راست کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا۔
افغانستان میں ہمیشہ مضبوط سوشلسٹ پارٹیاں تھیں – خلق اور پرچم جو ایک جدید سوشلسٹ افغانستان کے لیے کھڑے تھے۔
1979 میں ، جب سوویت افواج بائیں بازو کی حکومت کی حمایت کے لیے افغانستان میں داخل ہوئیں ، امریکہ نے سوویت یونین پر ‘ویت نام’ کرنے کا موقع دیکھا۔ سابقہ ​​بادشاہ داؤد حکومت کے برعکس ، ببرک کارمل کی قیادت میں کمیونسٹ حکومت نے افغانستان کو جدید بنانے کے لیے دیہی علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں ، یہ قدامت پسند قبائلی قیادت کے ساتھ براہ راست تنازعہ میں آگیا۔
امریکہ اور سعودی عرب نے مل کر کام کیا اور مذہبی قدامت پسندوں کی ‘دیوتا’ کمیونسٹوں کے خلاف بغاوت کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا
پاکستان نے جوش و خروش سے اس جنگ میں شمولیت اختیار کی اور اس کے بدلے میں امریکی اسلحہ اور سعودی رقم وصول کی۔ پاکستان نے اس عرصے کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تعمیر کے لیے بھی استعمال کیا کیونکہ امریکہ نے اس پھیلاؤ سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ‘اچھے’ جہاد کے لیے پاک سپورٹ کی قیمت دی۔
امریکہ نے افغان مہاجرین کو بنیاد پرست بنانے کے لیے خصوصی کورسز (وسکونسن یونیورسٹی میں) تیار کیے اور اسکول کی سطح پر اسلامی بنیاد پرستی کو فعال طور پر فروغ دیا تاکہ نوجوان جنونی بھرتیوں کی فوج بنائی جا سکے ، جسے بعد میں طالبان کے نام سے جانا جاتا ہے ، اردو کا مطلب طالب علم ہونا ہے۔
ایک سعودی ، اسامہ بن لادن اس جہاد یا مذہبی جنگ میں شریک تھا۔
افغان مجاہدین ، ​​پاکستان میں اڈوں کے ساتھ ، تازہ ترین امریکی اسلحے کے ساتھ بائیں بازو کی افغان حکومت کے خلاف 1979 سے 1989 تک ایک گوریلا جنگ لڑی۔
سوویت اور افغان افواج مشترکہ طور پر ہارنے لگیں جب امریکہ نے ‘سٹنگر’ اینٹی ایئرکرافٹ میزائل سپلائی کیے جس نے فضائی طاقت میں سوویت فوائد کو ختم کردیا۔ بھاری جانی و مالی نقصانات کے بعد ، سوویت 1989 میں افغانستان سے نکل گئے۔
اس کے کچھ ہی عرصے بعد ، 1992 میں سوویت یونین خود ٹوٹ گیا۔ اس وقت ڈاکٹر نجیب اللہ کی قیادت میں افغان حکومت سوویت یونین کی حمایت کے بغیر تنہا لڑنے کے لیے رہ گئی۔
اگلے ہفتے حصہ 2 کو مت چھوڑیں!
فوجی تاریخ دان کرنل انیل اے اتھلے (ریٹائرڈ) یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے سابق چھترپتی شیواجی چیئر فیلو ہیں۔
فیچر پریزنٹیشن: آشیش نرسلے/ Rediff.com
. Source link
0 notes
emergingpakistan · 6 years
Text
ملک شام جو بچوں کا ’مقتل‘ بن گیا، شامی بچوں کا ناقابل بیان المیہ
یورپی دارالحکومت برسلز میں جاری ’تیسری عالمی ڈونر کانفرنس برائے شام‘ کے موقع پر یونیسف کی جاری کردہ اپیل کے مطابق 1106 ہلاکتوں کے ساتھ 2018 شامی بچوں کے لیے بدترین سال تھا۔ یونیسف کی اپیل شام کے متحارب فریقوں، ہمسایہ ممالک (اردن، مصر، عراق، لبنان اور ترکی)، ہنگامی اور طویل المدتی انسانی امداد فراہم کرنے والی تنظیموں اور حکومتوں کو متنبہ کرتی ہے کہ شام کے بچے پہلے سے زیادہ مشکل صورت حال کا شکار ہیں۔ 2018 اس حوالے سے بدترین سال تھا کہ جب 1106 بچے جنگ کا ایندھن بن گئے۔ یونیسف کا کہنا ہے کہ یہ صرف ان بچوں کی تعداد ہے جن کی ہلاکت کی تصدیق اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے کر پائے ہیں ورنہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ 2018 میں تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز پر 262 حملے ہوئے جو اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
شام کے لیے یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فورے کے مطابق، ’بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے گزشتہ برس 434 بچے ہلاک اور شدید زخمی ہوئے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں شمال مغربی شام میں تقریبا 59 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف شام کے شمال مشرق میں واقع الہول کیمپ میں 65000 لوگ موجود ہیں جن میں 240 لاوارث بچے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران، باغوز سے کیمپ تک 300 کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے 60 بچے ہلاک ہو گئے۔‘ رپورٹ کے مطابق، 26 لاکھ شامی ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہیں جو اتنی بڑی آبادی کو رہائش، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے سے قاصر ہیں.
لہذا چائلڈ لیبر، جنسی استحصال، اغوا اور نوعمری میں شادی جیسے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ یونیسف نے ڈونر کانفرنس سے اپیل کی ہے کہ بچوں کے مفادات کو ترجیح دی جائے اور ان کی مناسب دیکھ بھال اور حفاظت کرتے ہوئے یہ مت دیکھا جائے کہ ان کا خاندان کس فریق سے تعلق رکھتا ہے۔ شام کے مصیبت زدہ خاندانوں اور ان کے بچوں کی ہنگامی اور طویل المدتی امداد اور بحالی کے لیے موجودہ سطح سے کہیں زیادہ مالی وسائل درکار ہوں گے۔
شام کی جنگ دراصل بچوں کے خلاف لڑی گئی ہے مزکورہ بالا رپورٹ جاری کرنے والے، یونیسف کے دفتر برائے یورپی یونین کو ڈی ڈبلیو اردو نے چند سوالات ارسال کیے جن کے تحریری جواب کا خلاصہ درج زیل ہے۔
ڈی ڈبلیو: کیا شام کی جنگ کے متحارب فریقین، ہمسایہ ممالک اور مغربی ممالک شامی بچوں کی صورت حال کا ادراک رکھتے ہیں؟ یونیسف: حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ سے شام کا ہر بچہ متاثر ہوا ہے۔ ادراک سب کو ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیسے نکالا جائے۔ شام میں 57 لاکھ بچوں اور 70 لاکھ بالغ افراد کو فوری امداد درکار ہے اور یہ کام ہنگامی بنیادوں اور اجتماعی طور پر ہونا چاہیے۔ بچوں کی ایک غالب تعداد ذہنی صدمے سے دوچار ہے جس کے دور رس اور مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔ یونیسف اور اس کی ساتھی تنظیموں نے شام کے 377000 بچوں کو نفسیاتی علاج کی مدد فراہم کی ہے لیکن بحران بہت بڑا ہے۔ اسی طرح تحفظ اطفال پروگرام میں بارودی سرنگوں سے متاثرہ بچوں کی مدد اور اس حوالے سے دیگر بچوں کی تعلیم و تربیت کو ترجیح دی گئی جس سے 1,168,000 بچوں کو فائدہ ہوا۔ شامی پناہ گزینوں کے مہمان ممالک میں بھی بچوں پر تشدد، جنسی استحصال، چائلڈ لیبر، نو عمری کی شادیوں وغیرہ جیسے مسائل کے حوالے سے کام کیا گیا جس سے 381000 بچوں کو فائدہ ہوا۔ اسی طرح 68000 بچوں کو خصوصی نگہداشت فراہم کی گئی۔ 
ڈی ڈبلیو: حقوق طفلاں کا اعلامیہ جنگ زدہ بچوں کے حوالے سے کیا کہتا ہے؟ یونیسیف: 1989 میں جب یہ اعلامیہ منظور کیا گیا تو اس کا مقصد یہی تھا کہ بچوں کے مفادات پر کسی بھی صورت حال میں سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ بدقسمتی سے آج ان قوانین اور اقدار کو مضبوط کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ شام کی جنگ کا ہر فریق بچوں کے حقوق کی سنگین پامالیوں کا مرتکب ہوا ہے۔ درحقیقت یہ جنگ بچوں کے خلاف لڑی گئی ہے۔ ان آٹھ برسوں کے دوران ہر لمحہ بچے کے حق تحفظ کو پامال کیا گیا ہے۔ کچھ اس جنگ کے فریق ہیں، کچھ بلواسطہ طور پر کسی فریق کو مدد اور حمایت فراہم کر رہے ہیں اور کچھ دور کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں، تو شام کے بچوں کے مجرم ہم سب ہیں۔ ہم سب ان قدروں، اصولوں اور قوانین کی پامالیوں کے مرتکب ہوئے ہیں جن پر غیر مشروط عمل درآمد معاشروں، حکومتوں، ریاستوں اور عالمی برادری پر لازم ہے۔
ڈی ڈبلیو: سینکڑوں شامی بچوں کی گمشدگی کے بارے میں یونیسف کا موقف کیا ہے؟ یونیسیف: اقوام متحدہ کے مرتب کردہ اعداد و شمار سے تصدیق ہوتی ہے کہ 2013 سے 2018 تک شام کے 693 بچے اغوا ہوئے ہیں جو ابھی تک لاپتا ہیں۔ جنگ میں فریقین ایک دوسرے کے بچوں کو اغوا کر کے شدید تشدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیشتر اوقات بچوں کا اغوا دیگر انسانی حقوق کی پامالیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ ان بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بعض اوقات زبردستی جنگوں میں جھونک دیا جاتا ہے۔ یونیسف اپیل کرتا ہے کہ ان بچوں کی فوری رہائی، والدین سے ملاپ، نفسیاتی اور جسمانی بحالی ہونی چاہیے۔
شامی بچوں کا المیہ ناقابل بیان ہے برسلز میں جاری عالمی ڈونر کانفرنس میں شریک، بچوں کے تحفظ کے لیے سرگرم شامی تنظیم سے وابستہ، ریاض نجم نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد ذہنی مسائل کا شکار ہو چکی ہے خصوصا بے گھری اور پناہ گزینی کا شکار ہونے والے بچوں کا المیہ ناقابل بیان ہے۔ لاکھوں بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں اور جنگ نے ان کے دل و دماغ میں گہرا خوف پیدا کر دیا ہے۔ یہ بچے اپنے والدین یا دیگر اہل خانہ سے دوری کا کرب سہہ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر، شہر ، گاؤں اور اسکول تباہ ہوتے دیکھے ہیں۔ یہ بچے ناامیدی اور یاسیت کا شکار ہو چکے ہیں، کچھ بے خوابی کا شکار ہیں، کچھ اچانک چیخنے لگتے ہیں اور کچھ بالکل خاموش ہو چکے ہیں۔
جنگ زدہ علاقوں اور کیمپوں میں بچوں کے جنسی استحصال کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ معروف عالمی تنظیم کاریتاس جرمنی کے فونسوا لانج کا کہنا تھا کہ شام کی ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد آبادی کو مہاجرت اور بے گھری کا سامنا ہے۔ یہ لوگ بہت بری صورت حال میں، سہولیات سے محروم پلاسٹک کی خیمہ بستیوں میں رہ رہے ہیں۔ شام کے بچے امید کھو چکے ہیں۔ اسکول ہوں یا کھیل کے میدان، سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔ بہت سے بچے دوران پیدائش یا نہایت کم عمری میں مر جاتے ہیں کیونکہ تربیت یافتہ دائیوں، صفائی ستھرائی اور بنیادی ادویات جیسی سہولیات میسر نہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کھانے کو خوراک ہی نہیں۔
بشکریہ DW اردو
3 notes · View notes
urdunewspedia · 3 years
Text
طالبان کا 2 فروری سے تمام یونیورسٹیز کھولنے کا اعلان - اردو نیوز پیڈیا
طالبان کا 2 فروری سے تمام یونیورسٹیز کھولنے کا اعلان – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین کابل: طالبان حکومت کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ 2 فروری سے تمام جامعات کھول دی جائیں گی تاہم سرد علاقوں کی یونیورسٹیز میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز 26 فروری سے ہوگا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کے وزیر برائے ہائیر ایجوکیشن شیخ عبدالباقی حقانی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ملک بھر کی اگست سے بند جامعات کو فوری طور پر کھولنے کا فیصلہ کرلیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
کیا دہائیوں سے جدوجہد کرنے والے کشمیری پاکستان سے ناامید ہو چکے ہیں؟ ریاض مسرور بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرینگر54 منٹ قبل،،تصویر کا کیپشنشیخ عبداللہ سنہ 1949 میں گاندھی پارک میں خطاب کرتے ہوئے۔ شیخ عبداللہ ایک خودمختار کشمیر کے حامی تھی جس کا انڈیا کے ساتھ اتحاد ہواگست 1947 میں جب برِ صغیر انڈیا اور پاکستان کی دو آزاد مملکتوں میں تقسیم ہو گیا تو سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں کئی روز تک لوگوں نے جشن منایا۔ اُس وقت کے مقبول رہنما شیخ محمد عبداللہ جیل میں تھے لیکن معروف سماجی مسلح اور مذہبی رہنما مولوی محمد یوسف شاہ راولپنڈی روڈ کے ذریعہ قائد اعظم محمد علی جناح کو مبارکباد دینے کراچی پہنچے تھے لیکن بعد میں اُنھیں حکومت ہند نے واپس کشمیر لوٹنے کی اجازت نہیں دی تھی۔محقق، مصنف اور معروف تجزیہ نگار پی جی رسول کہتے ہیں کہ شیخ عبداللہ کو علم نہیں تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے انڈیا کے ساتھ الحاق کیا ہے۔ ’تاہم اکتوبر میں جب وہ رہا کیے گئے تو اُنھیں مہاراجہ کی نگرانی میں ہی جموں و کشمیر کا ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر (ہنگامی منتظم) بنایا گیا۔‘ پورے انڈیا اور پاکستان کے کئی علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر جاری تھی اور نومبر میں جموں کے کئی علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں نے بڑی تعداد میں مسلمانوں کا قتل عام کر کے جموں صوبے کا مسلم اکثریتی کردار ختم کر دیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان دو سال تک جنگ جاری رہی اور اس دوران پاکستان کے قبائلی عسکریت پسندوں نے بھی مقامی مزاحمت کاروں کی مدد کے لیے سرینگر کا رُخ کیا۔تاہم انڈین فضائیہ نے سرینگر کے مغربی علاقہ شال ٹینگ میں بمباری کر کے قبائلی عسکریت پسندوں کی پیش قدمی کو روک دیا اور اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد شیخ عبداللہ نے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کا ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر بنتے ہی پاکستان کی طرف سے کشمیر پر چڑھائی کے خلاف تحریک چھیڑنے کی کوشش کی۔ کئی جگہوں پر شیخ اور اُن کے حمایتیوں نے لاٹھیاں اور کدالیں لے کر یہ تاریخی نعرہ بلند کیا: ’حملہ آور خبردار، ہم کشمیری ہیں تیار‘۔ تاہم اکثر مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شیخ عبد اللہ نے غالب عوامی خواہشات کے برعکس انڈیا کا ساتھ دیا تھا۔،،تصویر کا کیپشنتقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان دو سال تک جنگ جاری رہی اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد شیخ عبداللہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر بنائے گئے لیکن غالب اکثریت پاکستان نواز تھی تو شیخ عبداللہ کے لیے یہ ممکن کیسے ہوا؟ معروف اشتراکی دانشور اور سیاستدان آنجہانی رام پیارا صراف نے 20 سال قبل میرے ساتھ ایک گفتگو کے دوران بتایا: ’اُس وقت جنوبی ایشیا میں کمیونسٹ لہر جاری تھی اور جواہر لعل نہرو نے شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کو کمیونسٹ نظریات کا حامل بنایا تھا۔ ’پارٹی کا نام پہلے ہی مسلم کانفرنس سے نیشنل کانفرنس اور جھنڈا سبز سے سُرخ ہو گیا تھا اور بعد میں سرینگر کے مرکزی علاقہ شیخ باغ کا نام ماسکو کے ریڈ سکوائر کے نام پر لال چوک رکھا گیا۔‘ پی جی رسول کہتے ہیں کہ کشمیر کی کمیونسٹ لابی میں کشمیری پنڈتوں کا گہرا اثر تھا اور انھوں نے شیخ عبداللہ کے سیاسی نظریات پر انڈین قوم پرستی کا ملمعہ چڑھا دیا تھا۔ ’لیکن عوام کی غالب اکثریت انڈیا کی بجائے پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی اور شیخ نے انڈیا کے لیے عوامی خواہشات کا دھارا اشتراکی نظریات کی مدد سے موڑ دیا۔‘ 1947 سے 1953 تک کشمیر بھارتی وفاق میں ایک خصوصی خطہ تھا، جس کے حکمران شیخ عبداللہ ’وزیراعظم‘ اور گورنر ڈاکٹر کرن سنگھ ’صدر ریاست‘ کہلاتے تھے۔ اُن پانچ یا چھ برسوں کے دوران شیخ عبداللہ انڈیا نواز کشمیری قوم پرستی کا پرچار کرتے رہے، لیکن اُنھیں مولوی یوسف شاہ کے خاندان اور اُن کے لاکھوں حمایتیوں کی طرف سے زبردست مخالفت کا سامنا رہا۔ ہر سال 14 اگست کے روز مختلف علاقوں میں پاکستانی یوم آزادی کے موقع پر پاکستانی پرچم لہرایا جاتا اور پریڈ کی جاتی۔ ان تقاریب کو پولیس تتر بتر بھی کرتی تھی، لیکن کشمیر کا سیاسی بیانیہ سیکولر .انڈیا کے ساتھ خودمختار کشمیر اور پاکستان نوازی کے لہجوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ ،،تصویر کا کیپشنانڈیا مخالف کارروائیوں کے الزام میں چودہ سال کی نظر بندی کے بعد شیخ عبداللہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔1953 کے اگست میں جب حکومت ہند نے ’وزیراعظم‘ شیخ محمد عبداللہ کو معزول کر کے جیل بھیج دیا تو شیخ نے جیل سے ہی پاکستان نواز تحریک چلائی جس کا نام ’محاذ رائے شماری‘ رکھا گیا۔ بھارت کے پہلے انٹیلجنس چیف بی این ملک اپنی کتاب ’مائی یئرز وِد نہرو کشمیر‘ میں لکھتے ہیں کہ دو دہائیوں تک محاذ رائے شماری کے لیے پاکستان فنڈنگ کرتا رہا اور اس کے لیے شیخ عبداللہ کے دستِ راست پیر مقبول گیلانی راولپنڈی اور سرینگر کے درمیان معتبر رابطے کا کام کرتے رہے۔ شیخ عبداللہ جب جیل میں تھے اور اُن کے معتمد مرزا افضل بیگ لوگوں کے ہجوم میں ٹھوس نمک (پاکستانی نمک) ٹھیکری اور سبز رومال لہرا کر بھیڑ کے جذبات اُبھارتے تھے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ 1971 میں سقوط ڈھاکہ ہوا اور پاکستان دو حصوں میں بٹا تو جیل میں شیخ عبد اللہ کو اس بات پر قائل کر لیا گیا کہ پاکستان کا وجود چند سال کی کہانی ہے۔ سیاسیات کے محقق اور کالم نگار جاوید نقیب کہتے ہیں کہ ’اُس وقت ظاہر ہے سب کو یہ لگتا تھا کہ انڈیا پاکستان کی بُری حالت کرنے والا ہے۔ ’شیخ عبد اللہ نئی دہلی کے ساتھ کشمیریوں کی پاکستان نوازی کے نام پر بارگین کرنا چاہتے تھے۔ وہ باور کرتے تھے کہ لوگ انڈیا نواز ہو جائیں گے اگر اُن کی حکمرانی میں خلل نہ ڈالا جائے۔’ یہی وہ سال تھا جب اندرا گاندھی کی طرف سے اُس وقت کے سفیر جی پارتھا سارتھی اور شیخ عبداللہ کی طرف سے مرزا افضل بیگ نے مذاکرات کے طویل سلسلہ کی شروعات کیں جو 1975 میں ’اندرا۔عبداللہ ایکارڈ’ پر منتج ہوئیں۔ ’اس کے عوض شیخ عبداللہ کو حکومت ملی، لیکن اب وہ وزیراعظم نہیں بلکہ وزیراعلیٰ تھے، اور صدر ریاست کا عہدہ گورنر میں بدل گیا تھا۔ خود مختاری اب چند معاملوں تک محدود تھی۔‘شیخ عبداللہ نہایت مقبول تھے اور اب اُن کے پاس طاقت بھی تھی، لہٰذا پاکستان نوازی کا جذبہ دبانے میں وہ کامیاب ہوئے، لیکن .انڈیا مخالف جذبات اندر ہی اندر دہکتے رہے۔ شیخ کی وفات کے بعد اُن کے فرزند فاروق عبداللہ حکومت کا تختہ بھی 1984 میں پلٹ دیا گیا تو پاکستان نواز جذبات کو مزید تقویت پہنچی۔ فاروق کی حکومت اُن سے اُس دستخط کے بعد چھین لی گئی جو اُنھوں نے محمد مقبول بٹ کی پھانسی کے حکم نامے پر کیے تھے۔ ،تصویر کا کیپشنشیخ عبداللہ کےبیٹے فاروق عبداللہایک زمانے میں کشمیریوں کے سیاسی پیشوا رہنے والے شیخ عبداللہ کی پارٹی نیشنل کانفرنس اور شیخ عبداللہ کے فرزند فاروق عبداللہ کی مقبولیت اب بتدریج گھٹ رہی تھی۔ اسی دوران کشمیر کے تقریباً سب ہی ہند مخالف حلقوں نے نیشنل کانفرنس کے خلاف ’مسلم متحدہ محاذ’ نام سے ایک اتحاد قائم کر کے الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ 1987 میں ہونے والے ان انتخابات میں شرمناک دھاندلی ہوئی اور جن لوگوں کو جیت کر بھی شکست خوردہ قرار دیا گیا اُن میں محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین بھی تھے، جو اب کشمیر کی سب سے پرانی مسلح تنظیم حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر اور کئی مسلح گروہوں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل کے چئیرمین ہیں۔ الیکشن میں اُن کے ایجنٹ یاسین ملک جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں۔ وہ فی الوقت جیل میں ہیں اور اُن پر الزام ہے کہ انھوں نے انڈین فضائیہ کے چار افسروں کو قتل کیا تھا۔ اکثر مبصرین کہتے ہیں کہ سنہ 1987 کے انتخابات میں ہوئی دھاندلی نے کشمیریوں کو بندوق اُٹھانے پر آمادہ کیا۔ اُس کے بعد ہلاکتوں، ظلم و جبر، قدغنوں، گرفتاریوں، کشیدگی اور غیریقنیت کا جو طویل دور شروع وہ اب 30 سال سے جاری ہے۔ لیکن عوام کی غالب اکثریت مسلسل پاکستان نواز رہی، اور عوامی جذبات کو دیکھتے ہوئے ہی نہ صرف حکومت سیکورٹی پالیسی ترتیب دیتی رہی بلکہ یہاں کے انڈیا نواز سیاستدان بھی اپنا لہجوں میں اُسی حساب سے تراش خراش کرتے رہے، تاکہ وہ لوگوں سے ووٹ حاصل کر سکیں۔ گذشتہ سات دہائیوں کے دوران انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاست کا ایک ہی رُخ رہا ہے، لیکن سیاسی ڈھانچے پر انڈیا کا ہی غلبہ رہا۔ تجزیہ نگار اور ماہر اقتصادیات اعجاز ایوب کہتے ہیں: ’یہاں ہمیشہ انڈیا کو سیاسی اہمیت حاصل رہی اور پاکستان کو جذباتی۔ نہ پاکستان جذبات کو سیاست میں ڈھال سکا اور نہ انڈیا سیاست کو جذبات میں۔‘موجودہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں نہایت پیچیدہ ہے کیونکہ روایتی طور پر ہند نواز رہ چکے سیاسی رہنماوں پر نئی دہلی نیم علیحدگی پسندی کا الزام عائد کررہی ہے۔ اُنھیں گذشتہ برس پانچ اگست کے فیصلے سے پہلے ہی گرفتار کیا گیا اور جب وہ طویل نظر بندی کے بعد رہا ہوئے تو اُن کا لہجہ نہایت محتاط بن چکا تھا۔،،تصویر کا کیپشنکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیری مظاہرینایک سال کی غیریقینی صورتحال کے دوران فوجی کاروائیوں میں 200 عسکریت پسندوں کے علاوہ 73 عام شہری اور 76 سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔ تیزرفتار انٹرنیٹ پر پابندی ہے، تعلیم اور تجارت معطل ہے اور فضا میں خوف طاری ہے کہ بی جے پی کی حکومت جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی کردار کو ختم کر کے خطے کو ایک ہندو اکثریتی خطے میں بدل کر مسلمانوں کو سیکنڈ کلاس شہری بنا کے رکھ دے گی۔اس سب کے بیچ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے پچھلے سال اکتوبر میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دورے کے دوران کہا تھا کہ مسلح مزاحمت کشمیر کے کاز کے لئے مُضر ہے۔ انھوں نے پوری دُنیا میں کشمیریوں کا سفیر بننے کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر عالمی حمایت حاصل کرے گا۔ ،MIRZA AURANGZEB JARRALاس دوران ایل او سی پر بھی کشیدگی رہی اور انڈیا چین مناقشہ بھی علاقائی امن کے لیے خطرہ بنا رہا لیکن کشمیریوں کو 70 سال میں پہلی ��رتبہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان اپنے مسائل میں اس قدر اُلجھا ہوا ہے کہ وہ انڈیا کو نہ کشمیریوں کو رعایت دینے پر مجبور کر سکتا ہے اور نہ مذاکراتی میز پر لا سکتا ہے۔ تجزیہ نگار اور معروف فوٹو گرافر جاوید ڈار کہتے ہیں: ’ضروری نہیں کہ یہی سچ ہو، لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے پانچ اگست کے بعد حالات کو کنٹرول کرنے میں انڈیا کی نادانستہ مدد کی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’لوگ پاکستان کی طرف دیکھتے رہے اور پاکستان اقوام متحدہ کی طرف۔ اس میں تو انڈیا کو بھی شک نہیں کہ انتخاب کا حق دیا جائے تو کشمیریوں کی اکثریت پاکستان کو ووٹ دے گی، لیکن زمینی حالات بدل رہے ہیں اور پاکستان عالمی اخبارات میں مضامین اور اقوام متحدہ میں بند کمروں کے اجلاس پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔ ’لوگ کھلے عام پاکستان کے خلاف نہیں بول سکتے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ 30 سالہ قربانی اُن سے کس وعدے پر لی گئی تھی۔‘ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
emergingkarachi · 4 years
Text
کراچی اپنے اصل جوہر کی طرف
کراچی اپنے اصل جوہر کی طرف لوٹ آیا ہے۔ یہ شہر ایک بار پھر ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بن رہا ہے۔ تین روزہ کراچی لٹریچر فیسٹیول جاری ہے اور آج اس کا آخری دن ہے۔ اس ادبی میلے میں لوگوں کی بھرپور شرکت شہر کے مزاج کا پتا دیتی ہے۔ دعا ہے کہ کراچی کو کسی کی نظر نہ لگے اور دوبارہ بدامنی کے عذاب کا شکار نہ ہو۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول کے ساتھ ساتھ کتب میلے، عالمی اردو کانفرنس اور سندھ لٹریچر فیسٹیول سمیت کئی ادبی اور ثقافتی میلے سالانہ بنیادوں پر منعقد ہو رہے ہیں۔ ایک سالانہ کتب میلہ کراچی کے ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوتا ہے۔ یہ میلہ بہت بڑے پیمانے پر ہوتا ہے اور اس میں لوگوں کی شرکت حیرت انگیز طور پر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مرد، خواتین، بچے، جوان اور بزرگ بہت بڑی تعداد میں صبح سے رات تک اس میلے میں نہ صرف موجود رہتے ہیں بلکہ کتابوں کی فروخت بھی عام اندازے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس سالانہ کتب میلے کے علاوہ شہر میں سال بھر درجنوں کتب میلے منعقد ہوتے ہیں۔ 
کراچی یونیورسٹی کا کتب میلہ ابھی چند دن پہلے اختتام پذیر ہوا ہے۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول، سندھ لٹریچر فیسٹیول اور عالمی اردو کانفرنس سالانہ کی بنیاد پر ایسے ایونٹس ہیں، جن میں کراچی کے لوگوں کی تو بہت بڑی تعداد شرکت کرتی ہی ہے لیکن ان کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان اور دنیا بھر سے اہم شخصیات بھی ان میں شریک ہوتی ہیں۔ یہ تینوں میلے کراچی کی ثقافتی پہچان بن گئے ہیں۔ ان کا لوگ شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ تو اپنی نوکریوں اور کاموں سے چھٹی کرکے خاص طور پر ان میلوں میں اپنی کل وقتی موجودگی کو یقینی بناتے ہیں۔ لوگوں کا جوش وخروش دیدنی ہوتا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ موبائل فون اور سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کا مطالعہ اور کتب بینی کا شوق ختم ہو گیا ہے۔ ان میلوں میں جاکر پتا چلتا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے۔ کتابوں کے سینکڑوں اسٹالز لگے ہوتے ہیں اور ہر سال ان پر لوگوں کا رش ہوتا ہے۔ عالمی اور پاکستانی ادب، تاریخ، فلسفہ اور پیچیدہ سائنسی موضوعات پر کتابوں کی خریداری کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔
وہاں کھڑے ہوئے لوگوں کو بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی کے لوگ مزاجاً لبرل اور ترقی پسند ہیں۔ کتابوں کے انتخاب سے ان کے ذہنی رجحانات کا پتا چلتا ہے۔ ہم یہ بھی سمجھتے تھے کہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا آنے کے بعد ادبی، تنقیدی، سیاسی اور فلسفیانہ مباحث ختم ہو گئے ہیں۔ ان میلوں میں جاکر پتا چلتا ہے کہ نئی نسل میں بھی یہ مباحث نہ صرف جاری ہیں بلکہ یہ زیادہ علم اور معلومات کے ساتھ ان مباحث میں حصہ لے رہی ہے۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول کا اہتمام اگرچہ ایک معروف اشاعتی ادارہ کرتا ہے لیکن اس کی اسپانسر شپ میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ 2010ء میں پہلا فیسٹیول منعقد ہوا تھا، اس مرتبہ 11واں فیسٹیول ہے۔ اسی طرح آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام سالانہ عالمی اردو کانفرنسوں کا انعقاد کو بھی ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔
غالباً حالیہ عالمی اردو کانفرنس 12ویں سالانہ کانفرنس تھی اور اس میں خصوصی فیچر پاکستان کی دیگر زبانوں کے متعدد سیشنز کی صورت میں شامل کیا گیا، جس کی وجہ سے اس کانفرنس میں شرکا کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ گزشتہ دنوں منعقد ہونے والا سندھ لٹریچر فیسٹیول بھی ایک بڑے سالانہ ادبی اور ثقافتی میلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ سالانہ کراچی بک فیئر (کتب میلہ) بھی کراچی کی شناخت بن چکا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان بڑے ادبی اور ثقافتی میلوں میں انتہائی سنجیدہ موضوعات پر سیمینارز، مذاکروں اور نشستوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور لوگ گھنٹوں ادیبوں، دانشوروں اور ماہرین کی گفتگو سنتے رہتے ہیں۔ ان نشستوں میں سامعین کے سوالات سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ذہنی اُپچ بہت بلند ہے۔ ان بڑے میلوں کے ساتھ ساتھ شہر میں ہر سال سینکڑوں چھوٹے بڑے میلے، مشاعرے اور پروگرامز ہوتے رہتے ہیں۔
آرٹس کونسل، تھیٹرز اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ ساتھ شہر کے مختلف علاقوں کے پارکس، میدانوں اور شادی ہالز میں روزانہ کی بنیاد پر پروگرامز ہو رہے ہوتے ہیں موسیقی اور ڈرامہ نئی جہتوں کے ساتھ کراچی میں ترویج پا رہے ہیں۔ مصوری اور دیگر فنونِ لطیفہ میں بھی کراچی کی نوجوان نسل کی دلچسپیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماضی میں بھی کراچی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ یہ ہر قسم کی سیاسی تحریکوں خصوصاً جمہوری، محنت کشوں اور مظلوم گروہوں کے حقوق کی تحریکوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ کراچی اپنے اصل جوہر میں پاکستان کے ہر شعبے میں ماضی میں بھی قائدانہ کردار ادا کرتا رہا ہے اور اب بھی اس کے لیے تیار ہے۔ کراچی پاکستان ہے، اس عظیم شہر کے اصل جوہر کو اجاگر کرنے اور اس کے تحفظ کیلئے ہم سب کو اہم کردار ادا کرنا ہے ۔  کراچی لٹریچر فیسٹیول میں بڑی تعداد میں مختلف زبانوں، ثقافتوں، علاقوں اور گروہوں کے افراد کے جوش و خروش اور ہم آہنگی کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ کراچی اور اس کے اصل جوہر کو مزید اجاگر کرنے اور اس کے تحفظ میں ہراول دستے کا کردار ادا کریں گے۔
عباس مہکری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 5 years
Text
’’پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں‘‘
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ ان کے پاکستان کے دورے کا مقصد وہاں کے عوام کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس افغان مہاجرین پر ہونے والی دو روزہ عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان پہنچے ہیں۔ پاکستان میں اقوام متحدہ کے دفتر نے سیکریٹری جنرل کی مصروفیات کے حوالے سے ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ تین روزہ دورے کے دوران اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ ارکان پارلیمان، میڈیا اور نوجوانوں سے بھی ملاقات کریں گے۔ انتونیو گوتریس کی پاکستان میں مصروفیات میں لاہور کا دورہ بھی شامل ہے۔ اس دوران وہ گردوارا کرتار پور بھی جائیں گے۔ دو روزہ عالمی افغان مہاجرین کانفرنس کا مقصد پاکستان کی چالیس سالہ میزبانی کی کوششوں کو اجاگر کرنا ہے، اور دنیا کو یہ احساس دلانا ہے کہ مہاجرین کا بوجھ اٹھانے میں پاکستان کی مدد کی جائے۔ 
کانفرنس کا آغاز وزیراعظم عمران خان کے خطاب سے ہو گا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے سربراہ فلپو گرانڈی کے علاوہ ان بیس ممالک کے وفود بھی کانفرنس میں شریک ہوں گے جو افغان مہاجرین کی بحالی میں اپنا کرداد ادا کرتے رہے ہیں۔ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان پہنچنے سے پہلے ٹویٹ کیا کہ وہ پاکستان کی عوام کا شکریہ ادا کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا اقوام متحدہ کے امن مشن میں سب سے زیادہ قابل اعتماد کردار ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی آج صبح آمد پر پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم دفترخارجہ اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام نے نور خان ایئر بیس پر ان کا استقبال کیا۔
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
اگلی اسمبلی میں بھی جاگیرار اور ریئل سٹیٹ ڈیلرز کی اکثریت ہوئی تو معاشی دلدل سے نکلنا مشکل ہوگا، فواد حسن فواد
وفاقی وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے کہا کہ ملک کو معیشت کی دلدل سے اس وقت نکالا جا سکتا ہے جب ہم یہ سوچ لیں کہ ہم نے اس سے نکلنا ہے اور اس کے لیے ہمیں خود کام کرنا ہو گا۔ اگر آئندہ انتخابات میں رئیل اسٹیٹ اور فیوڈل لارڈز کی اسمبلی میں اکثریت ہو گی تو ملک کا معاشی دلدل نکلنا مشکل ہو گا لہٰذا آئندہ چند ہفتے پاکستانی عوام کے لیے بہت اہم ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 5 years
Text
ب سے پہلے کورونا وائرس سے آگاہ کرنے والے چینی ڈاکٹر بھی جان کی بازی ہار گئے
چینی میڈیا کے مطابق کرونا وائرس کی ممکنہ وبا کے بارے میں خبردار کرنے والے چینی ڈاکٹر، ڈاکٹر لی وینلیانگ، اسی وائرس سے ہلاک ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر لی وینلیانگ نے سب سے پہلے اپنے ساتھی ڈاکٹروں کو اس خطرے سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے پولیس نے انہیں تنبیہ بھی دی تھی۔ ڈاکٹر لی وینلیانگ اس بیماری کے بارے میں خبردار کرنے والے ان آٹھ افراد میں شامل تھے جنہوں نے دسمبر کے اخر میں دوسرے ڈاکٹروں کو سارس کی طرح کی بیماری کے بارے میں پیغام پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ چینی کمیونسٹ پارٹی سے منسلک انگریزی زبان کے اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ نے اس سے پہلے رپورٹ کیا تھا کہ ووہان سنٹرل ہسپتال میں داخل ڈاکٹر لی کے دل نے ’دھڑکنا بند کر دیا‘ جس کے بعد ان کی حالت نازک ہو گئی تھی۔
ہسپتال نے ویبو (چین میں استعمال کی جانے والی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ) کے اکاؤنٹ پر ایک بیان میں کہا کہ ڈاکٹر لی ایمرجنسی علاج کے بعد (چینی وقت کے مطابق) دو بج کر اٹھاون منٹ پر انتقال کر گئے۔ اس سے پہلے اطلاعات سامنے آئیں تھیں کہ وہ ڈاکٹر لی کو ایمکو (سانس کے مصنوعی نظام) پر رکھا گیا ہے اور ڈاکٹر ان کی حالت میں بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دسمبر میں پولیس نے ڈاکٹر لی پر افواہیں پھیلانے کا الزام لگایا تھا اور حکومت کے پبلک سیفٹی بیورو نے انہیں طلب کیا تھا جہاں انہیں خبردار کیا گیا تھا انہیں ایسے بیانات نہٰیں دینے چاہییں جن سے ’معاشرے میں بے چینی پھیلتی ہو۔‘
ڈاکٹر لی کو دیے گئے خط میں کہا گیا: ’ہم آپ کو باضابطہ طور پر خبردار کرتے ہیں: اگر آپ ایسی بےتکی ضد پر قائم رہے اور اس غیرقانونی سرگرمی کو جاری رکھا تو آپ کو انصاف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیا آپ بات سمجھ گئے؟‘ چین کی سپریم کورٹ نے بعد میں ووہان میں کریک ڈاؤن پر پولیس پر تنقید کی اور تسلیم کیا کہ کرونا وائرس کے بارے میں اطلاع مکمل طور پر غلط نہیں تھی۔ کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر لی میں بھی وائرس کی موجودگی کی تشخیص 30 جنوری کو ہوئی۔ وائرس کے نتیجے میں اب تک سات سو سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 30 ہزار سے زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ہنگامی حالات کے پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیک رائین نے ڈاکٹر لی موت کی خبر کے بعد جنیوا میں ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’ہمیں اگلی صفوں میں کام کرنے والے ایک ایسے کارکن کی موت کا بہت دکھ ہوا ہے جنہوں نے مریضوں کی دیکھ بھال کی کوشش کی۔ ہم خود اگلی صفوں میں کام کرنے والے اپنے دوستوں کو کھو چکے ہیں اس لیے ہمیں ڈاکٹر لی کے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ مل کر ان کی زندگی پر خوش اور موت پر غم زدہ ہونا چاہیے۔‘ برطانیہ میں کرونا وائرس کا تیسرا کیس رپورٹ کیا گیا اگرچہ حکومتی چیف میڈیکل افسر کرس ویٹی نے کہا کہ مریض کو بیماری برطانیہ میں نہیں لگی۔
ایسا چین کے لندن میں سفیر کے برطانیہ پر الزام کے چند گھنٹے بعد ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ برطانیہ کرونا وائرس کی وبا پر ضرورت سے زیادہ ردعمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ برطانوی حکومت نے چین میں موجود اپنے شہریوں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔ برطانیہ میں چینی سفیر لیو شیاؤمنگ نے کہا: ’ہم نے انہیں زور دے کر کہا ہے کہ ضرورت سے زیادہ ردعمل کا مددگار نہیں ہو گا۔ ہم نے ان سے کہا کہ وہ ایک معقول ردعمل کے لیے عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مشورہ کریں۔ ضرورت سے زیادہ ردعمل کا مظاہرہ نہ کریں۔‘ انہوں نے مزید کہا: ’برطانیہ سمیت تمام ملکوں کو سمجھنا چاہیے اور چین کی مدد کرنی چاہیے۔ ضرورت سے زیادہ ردعمل اور خوف پھیلانے سے گریز کیا جائے اور ملکوں کے درمیان معمول کا تعاون اور تبادلے یقینی بنائے جائیں۔‘
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو  
0 notes