Tumgik
#اخبا��
thecalmeyeshuntter · 14 days
Text
كلما أردت أن اخبا بعض النقود لوقت الشدة ، تأتيني الشدة والضمة والفتحة والكسرة!
16 notes · View notes
mehdibk009 · 8 months
Video
انقسام الناتو ! فرنسا و ألمانيا تتخلى عن ايطاليا في وضع حرج #ترند #اخبا...
0 notes
Video
فيلا نموذج Z في مدينة الرحاب 2 تشطيب الترا سوبر لوكس بحمام سباحة أوفر فلو 50 متر فيلا نموذج Z الفيلا تطل علي حديقة كبيرة الفيلا أول سكن ولم تستخدم مساحة الارض 700 متر مساحة المباني 514 متر مساح الحديقة 500 متر تشطيب الترا سوبر لوكس الارضي: رسيبشين كبير (56 قطع) + غرفة طعام + مطبخ + غرفة مربية بالحمام الاول: 4 غرف نوم ماستر + ليفينج + مطبخ صغير الروف: 3 غرفة + حمام الابواب خشب ماسيف التشطيب رخام بوتشينو الغرف HDF المطبخ بولي لاك نظام تدفئة و تكيفات مركزي في الفيلا حمام سباحة خاص أوفر فلو للتواصل 01113729398 //01100009424 مدير تسويق لدي شركه Dreamhomes شركة #دريم_هومز( Dream homes#) تضمن لكم تسويق وحداتكم (#بيع_او_ايجار ) بافضل سعر واسرع وقت ( #بيع_شراء_ايجار_مفروش_قانون_جديد_شقة_شقق #فيلات_فلل_فيلا_المالك_كاش_تقسيط_مدينتي_الرحاب #مطعم_مطاعم_كافيه_كافيهات_تجاري_اداري_مول_محل #محلات_عقار_عقارات_قصور_قصر_ ) #السعودية #الكويت🇰🇼 #السودان #ايطاليا_بالعربي #الامارات #مصر #العاصمة_الإدارية_الجديدة #الرحاب #اخبا (at الرحاب 2) https://www.instagram.com/p/CPG9O_gBRFI/?utm_medium=tumblr
0 notes
mostafawagdi1 · 3 years
Video
youtube
هل سمعت بالمرأة التي نجت قبل 40 عامًا بعد أن تجمدت تماما لست ساعات؟-اخبا...
1 note · View note
urduclassic · 4 years
Text
ہمارے اطہر ہاشمی بھائی
احمد حاطب صدیقی کو‘ یاد ہے سب ذرا ذرا...اخبار کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ‘ جو ''ذاتی
 زندگی‘‘ میں خاصے نرم مزاج تھے لیکن دفتر میں ہمیشہ سنجیدہ (اور کبھی کبھار غصے کی کیفیت میں بھی) نظر آنا شاید دفتری نظم و ضبط اور فرائض ِمنصبی کا تقاضا سمجھتے تھے۔ ایک دن انہیں ایک نوجوان سب ایڈیٹر کی چھٹی کی درخواست موصول ہوئی : ''3 مئی 1979 کو فدوی کی خالہ محترمہ کی دخترِ نیک اختر کی شادی ہے‘ جس کے لیے عارض کو ایک ماہ کی رخصتِ استحقاقی مرحمت فرمائی جاوے‘‘۔ ایگزیکٹو ایڈیٹر نے درخواست گزار کو فی الفور دفتر طلب کیا اور مخصوص انداز میں باز پرس فرمائی ''کیوں میاں صاحبزادے! اپنی خالہ کی دخترِ نیک اختر کی شادی میں ایک مہینے تک آپ کیا کردار ادا فرمائیں گے‘‘؟ میاں صاحبزادے نے شرما کر‘ بڑی سعادت مندی اور متانت سے عرض کیا ''دلہا کا‘‘۔ یہ صاحبزادے اطہر علی ہاشمی تھے۔ ان کی اس حد درجہ سنجیدگی اور متانت پر ایگزیکٹو ایڈیٹر بھی مسکراہٹ پر قابو نہ رکھ سکے۔ اسی روز اخبار کے نوٹس بورڈ پر یہ ''اطلاع ‘‘ بھی آویزاں تھی کہ آج اتنے بج کر اتنے منٹ پر جناب ایگزیکٹو ایڈیٹر مسکراتے ہوئے دیکھے گئے ہیں‘‘۔
اخبار کے ایڈیٹر صلاح الدین شہید ‘ اپنے جونیئرز کی صلاحیتوں کو جانچ لینے‘ انہیں نکھارنے ‘ سنوارنے اور ان کے مطابق انہیں آگے بڑھانے کو اپنے     ''ایڈیٹرانہ‘‘ فرائض کا حصہ سمجھتے تھے۔ نوجوان سب ایڈیٹر نیوز ڈیسک پر بھی ٹھیک جارہا تھا۔ صلاح الدین صاحب کو اس کے ذوقِ مزاح کا اندازہ ہوا‘ تو اسے مزاحیہ / فکاہیہ کالم لکھنے کے لیے کہا۔ یہی معاملہ طاہر مسعود کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت نوجوان طاہر مسعود کراچی میں تھا اور پھر یہیں کا ہو رہا۔ اس کا اپنا ذوق بھی تھا‘ اور کچھ گھریلو ماحول کا اثر بھی ‘ اس نے بھی اخبا ر نویسی کو روزگار بنایا... طاہر اور اطہر ہم عمر بھی تھے اور ہم ذوق بھی۔ صلاح الدین ‘ طاہر کو بھی کالم نویسی کی طرف لے آئے۔ ان کے کالم کا نام ''دامِ خیال ‘‘ اور اطہر کے کالم کا نام ''بین السطور‘‘ صلاح الدین صاحب ہی نے تجویز کیا تھا۔ طاہر مسعود بعد میں جامعہ کراچی میں شعبہ ابلاغیات میں کل وقتی استاد ہو گئے اور ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ اب وہ ڈاکٹر طاہر مسعود ہیں۔ اطہر ہاشمی نائٹ شفٹ کے انچارج اور میگزین ایڈیٹر سمیت مختلف ذمہ داریاں نبھاتے رہے‘ لیکن علمی وادبی اور سیاسی وصحافتی حلقوں میں ان کی پہچان ایک مزاح نویس اور فکاہیہ نگار کی تھی۔ وہ سنجیدہ سیاسی مسائل کو بھی اس طرح موضوع بناتے کہ قاری مسکرائے بغیر نہ رہتا ۔ وہ طنز بھی کرتے تو اس شائستگی کے ساتھ کہ ''زیرِ طنز ‘‘ شخص بھی لطف اٹھاتا۔ قلم سے دلوں کو زخمی کرنے کا کام تو انہیں آتا ہی نہ تھا۔
انگریزی اور عربیِ کے درجن بھر سے زائد جرائد نکالنے والے‘ سعودی عرب کے ایک بڑے پبلشنگ ہائوس نے 1994 میں جدہ‘ دمام اور ریاض سے اردو اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا تو اس کے سٹاف میں زیادہ تر لوگ پاکستان سے منتخب کیے گئے۔''سینئرز‘‘ میں اطہر ہاشمی اور نوجوانوں میں ہمارے ''حسبِ حال ‘‘ والے جنید سلیم بھی تھے۔ اطہر ہاشمی 2000 میں واپس آگئے۔ بیس سال گزر گئے۔ بے پناہ مصروفیات کے اس دور میں‘ بیس سال بعد بھی جدہ والوں کو اطہر ہاشمی اسی طرح یاد تھے‘ جیسے یہ کل کی بات ہو۔ جدہ میں پاکستانی صحافیوں کی تنظیم ''پاکستان جرنلسٹس فورم‘‘ نے گزشتہ شب آن لائن تعزیتی اجلاس میں اطہر کو یاد کیا‘ اور خوب یاد کیا کہ ان کے حسنِ اخلاق کے نقوش‘ بیس سال گزر جانے کے بعد بھی تروتازہ تھے۔ پاکستان جرنلسٹس فورم نے ہر سال پاکستان میں اردو کے بہترین صحافی کے لیے اطہر ہاشمی ایکسیلنس ایوارڈ کے اجرا کا اعلان کیا۔ ابتدا میں یہ ایک لاکھ روپے کا ہو گا‘ بعد میں رقم کے علاوہ کیٹیگریز میں اضافے پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔
اطہر ہاشمی کچھ عرصہ قبل باریش ہو گئے۔ سر کے گھنے سفید بالوں کے ساتھ‘ سفید مونچھیں اور خاص سٹائل میں ترشی ہوئی سفید داڑھی نے ان کے بڑھاپے کو زیادہ وجیہ اور شکیل بنا دیا تھا۔ نماز روزے کے وہ لڑکپن سے ہی پابند تھے۔ اندر سے وہ اس وقت بھی ''صوفی ‘‘ تھے‘ جب جینز کی پینٹ اور شرٹ پہنا کرتے اور کبھی گریبان کا اوپر والا بٹن کھلا بھی چھوڑ دیتے ۔ شادی ابھی نئی نئی تھی۔ ایسے میں اخراجات بھی کچھ زیادہ ہی ہو جاتے ہیں: تب تنخواہ بینک اکائونٹ میں نہیں جاتی تھی‘ مہینے کی پہلی دوسری تاریخ کو نقد تھما دی جاتی۔ دفتر کے ایک بزرگ ساتھی نے اپنی ضرورت کا اظہار کچھ یوں کیا (غالباً بیٹی کی شادی کے لیے اخراجات کا معاملہ تھا) کہ اطہر نے میز کی دراز سے تنخواہ کا لفافہ نکالا اور اس کی نذر کر دیا اور گھر آکر بیگم صاحبہ سے کہہ دیا‘ اس مہینے میری تنخواہ کے بغیر‘ گھر چلانا ہو گا۔
کہتے ہیں‘ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اور بعض جوڑوں کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ انہیں فرصت میں‘ خاصے اہتمام کے ساتھ بنایا گیا ہو گا۔ اطہر اور نیلوفر بھی ایسا ہی جوڑا تھے۔ ہماری نیلوفر بھابی بھی اطہر والا مزاج ہی رکھتی تھیں ‘ کچھ کمی بیشی تھی تو اطہر کی صحبت اور رفاقت نے پوری کر دی۔ ڈاکٹر نیلوفر ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی سے فزیالوجی کی پروفیسر کے طورپر ریٹائر ہوئیں۔ ان دنوں لیاری میں شہید بے نظیر بھٹو ٹیچنگ ہسپتال میں اپنے شعبے کی سربراہ ہیں۔ ڈائو میں اور یہاں بھی‘ مرد اور خواتین رفقا میں بعض ان کے سابق شاگرد ہیں۔ معاشی خود انحصاری نے ملازمت پیشہ خاتون میں ایک خاص قسم کی خود اعتمادی پیدا کر دی ہے‘ جس سے بعض گھرانوں میں‘ میاں بیوی کے درمیان مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ جدہ سے واپس آ کر‘ وہ اسی اخبار کے ایڈیٹر انچیف ہو گئے جس میں انہوں نے سب ایڈیٹر کے طور پر کیرئیر کا آغاز کیا تھا ۔ 
وہ اپنے اخبار کے سنڈے میگزین میں ''آدھی بات‘‘ لکھتے۔ اپنے ادارے کے ہفت روزہ ''فرائڈے سپیشل‘‘ میں ''خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ کے عنوان سے زبان و بیان کی غلطیوں کی اصلاح کرتے۔ اس میں انہیں خود اپنے ادارے کے اخبار اور رسالے میں زبان کی غلطیوں کی نشاندہی میں بھی عار نہ ہوتی۔ اصلاح کا یہ خشک کام وہ بڑے دلچسپ انداز میں کرتے۔ مثلاً: ''ہم پورا زور لگا چکے ‘یہ سمجھانے میں کہ ''عوام‘‘ جمع مذکر ہیں‘ واحد مؤنث نہیں لیکن بقول احمد فراز‘ شہر کا شہر ہی دشمن ہو تو کیا کی جے؟ ٹی وی چینلز کے بقراط اور مضمون نگار عوام کومؤنث بنانے پر تلے ہوئے ہیں‘ حتیٰ کہ ہمارے اپنے گھر کے چراغ سنڈے میگزین کے کالم نگار بھی باز نہیں آتے۔ لکھتے ہیں: عوام سحر میں مبتلا ہو چکی تھی اور سوشل میڈیا پر اصرار کر رہی تھی۔ ہماری مرضی ہم عوام کو مذکر کریں یا مؤ نث‘ ہم تو ''علاوہ‘‘ اور ''سوا‘‘ میں تفریق نہیں کر پاتے‘ ایک بڑے استاد کا شعر ہے ؎
در کتنے ہی کھلتے رہے اک در کے علاوہ اک درد بھری سن کے صدا تیری گلی میں
معذرت کے ساتھ یہاں ''علاوہ‘‘ کے بجائے ''سوا‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ ''علاوہ‘‘ کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ در بھی کھل گیا‘ جس کے کھلنے کی آس تھی۔ ایک صاف ستھری اور مطمئن زندگی نے اطہر کو کسی بھی طبی عارضے سے محفوظ رکھا (سگریٹ نوشی میں البتہ مبتلا رہے)۔ البتہ ڈیڑھ دو سال سے دل کی دھڑکن بے ترتیب سی رہنے لگی۔ سگریٹ نوشی سے زیادہ اس کا سبب عمر بھر کی ساتھی کو درپیش کینسر کے عارضے کا دکھ تھا۔ عید کی چھٹیاں ختم ہوئیں تو سوموار کو دفتر میں پوری ''ڈیوٹی‘‘ دی۔ منگل ‘بدھ کو طبیعت مضمحل رہی۔ جمعرات کو فجر سے کچھ پہلے‘ سوتے میں ہی آخری سفر پر روانہ ہو گئے۔ یہ آسمانوں پر تاروں کے ڈوبنے کا وقت تھا ۔ اِدھر آسمانِ صحافت کا ایک درخشندہ ستارہ بھی غروب ہو گیا۔
رؤف طاہر
بشکریہ دنیا نیوز
2 notes · View notes
apkhay · 2 years
Photo
Tumblr media
اخبار العراق الآن اخبار العراق الآن   Ứng dụng اخبا... #apkhay #gameandroid #gameapk #gameupdate
0 notes
columnspk · 2 years
Text
Phalon Ki Chori Ka Muqadma
Phalon Ki Chori Ka Muqadma
  پھلو ں کی چو ری کا مقدمہ  گذ شتہ دنوں اخبا ر میں پھلوں کی ایک ریڑھی سے پھلوں کی چوری کی ایک دلچسپ خبر شائع ہو ئی۔ ہو ا یو ں کہ ریڑھی کا ما لک کچھ دیر کے لئے ریڑھی سے غیر حا ضر ہو اتو اس کی غیر موجودگی میں ایک مفلوک الحا ل شخص چند کیلے اور کچھ سیب اٹھا کر بھا گنے کو تھا کہ ریڑھی کے مالک نے اسے اچا نک آ لیا۔وہ چو ر کو سیدھا تھا نے لے گیا۔سنا ہے کہ اب پھلو ں کی چوری کا مقد مہ عدا لت میں ہے اور…
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
پاکستان کے ز رعی مسا ئل
پاکستان کے ز رعی مسا ئل
1960کی د ہائی کے دنو ں میں ہم اپنی درسی کتابو ں میں پڑھا کر تے کہ اگر مغربی پا کستان کو چاندی کا دیس اور مشر قی پا کستان کو سونے کا دیس کہا جا ئے تو بے جا نہ ہو گا۔ سن اکہتر میں مشر قی پا کستان ہم سے جدا ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ لہٰذ ا اس کے ذ کر کو نظر اندا زکر تے ہو ئے بتاتا چلوں کہ تب مغر بی پاکستان یعنی اب پا کستان کو چا ندی کا دیس کہنے کی وجہ یہا ں دنیا کی اعلیٰ تر ین اور انتہا ئی وا فر مقد ار میں اگنے وا لی کپا س کی پید ا وا ر تھی۔ مگر پھر کیا ہوا؟ ہمارے مو قع پر ست اور خو د غر ض جا گیر دا روں  اور وڈیر وں نے کر پٹ بیوروکر یسی کی مد د سے کپا س کی جگہ گنے کی بو ائی شروع کر دی۔ گنے کی پیداوار سے ان کی شوگر ملو ں کو اندھا فا ئد ہ ہو ا سو ہوا، مگر اس نے ہماری بہترین زرعی زمین کو بنجر کر کے رکھ دیا کیو ں کہ گنے کی فصل زمین سے سب پا نی چو س لیتی ہے۔ با ت کو آگے بڑ ھا تے ہو ئے اگر ملک کی زراعت کا جا ئز ہ لیا جا ئے تو با ت کچھ یو ں ہے کہ پاکستان کا کل رقبہ 79.6 ملین ایکڑ ہے جس میں سے 23.77 ملین ایکڑ زرعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28 فیصد بنتا ہے۔ اس میں سے بھی 8 ملین ایکڑ رقبہ زیر کاشت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑا ہے۔ حالانکہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا ماحول اور موسم بھی زراعت کے لیے بہترین زونز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں ہمہ قسم کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ اس کی 75 فیصد سے زائد آبادی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 21 فیصد ہے۔ یہ شعبہ ملک کے 45 فیصد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے۔ زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اور صنعتوں کو خام مال (Raw Materials) کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِمبادلہ (exchanges) کا 45 فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے۔پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔ ہمارے مقابلے میں دنیا کے دیگر ملک زیادہ پیداوار دے رہے ہیں۔ اگر زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتے ہیں۔ ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے پھنسے جارہے ہیں۔ کھاد نہ صرف مہنگی ہورہی ہے بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہوجاتی ہے۔ دیگر زرعی لوازمات بھی ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگے ہو رہے ہیں۔ ہماری حکومت نے زرعی ٹیکس اور دیگر کئی صورتوں میں اشیاء کو شدید مہنگا کردیا ہے۔ غریب پہلے مہنگائی کی وجہ سے سبزی کھانے پر ترجیح دیتا تھا مگر اب وہ بھی مہنگائی کے باعث غریبوں کی پہنچ سے دور ہورہی ہے۔ موجودہ حالات میں کسان کھیتی باڑی کے بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کرکے شہروں میں منتقل ہورہے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو ملکی زرعی صورت حال مکمل طور پر ٹھپ ہوجائے گی۔ زراعت خود کفالت کا بہترین ذریعہ ہے۔ زرعی شعبہ ملک کی آبادی کو خور اک مہیا کرتا ہے اور یہی پاکستان کی آبادی کی روزگار ک�� سب سے بڑا ذریعہ ہے اور پاکستان کی زرعی حکمت عملی میں خود کفالت کے اصولوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ زراعت پاکستان کے لیے ایک جڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن زرعی شعبے کا حصہ ہماری معیشت میں کم ہوتا جارہا ہے۔ 
اس وقت ملک کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً 18 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ جی ڈی پی میں 20 فیصد انڈسٹری اور 60 فیصد سروسز کا حصہ ہے۔ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ زرعی شعبے سے وابستہ ہے اور زراعت ان کے روزگار کا اہم جزو ہے۔ اس وقت ملک کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ پانی ہے۔ پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ہمیں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پانی کی قلت کے باعث کاشتکاروں کو فصلوں کی کاشت میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے باعث ہر آنے والے سال میں یا تو فصلوں کی پیداوار میں کمی آرہی ہے یا پھر فصلوں کی کوالٹی متاثر ہورہی ہے۔ اچھی فصل کے حصول کے لیے مناسب اور بروقت پانی بہت زیادہ ضروری ہے۔ہماری کاشتکار اور کسانوں کی اکثریت 
غیرتعلیم یافتہ ہے اور انہیں جدید طریقوں سے آگاہی حاصل نہیں ہے۔ انہیں جراثیم کش ادویات کے استعمال، معیاری بیجوں کے انتخاب اور مصنوعی کھاد کے مناسب استعمال کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی فی ایکڑ پیداوار ملک کی ضروریات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ وہ کاشتکاری کے صرف ان روایتی طریقوں پر یقین رکھتے ہیں جو انہوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھے ہیں۔ نئی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کسان بہتر پیداوار حاصل کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے کسانوں اور کاشتکاروں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور زراعت کے شعبہ کی ترقی کے سلسلہ میں بہتر اقدامات کیے جائیں اور سیلاب کی صورت حال کے پیش نظر ایسی حکمت عملی بنائی جائے جس سے ان علاقوں کو محفوظ رکھا جاسکے جو زیر کاشت ہیں۔ ڈیم کا بننا ہمارے لیے اس وقت اشد ضروری ہے کیونکہ اس سے سیلاب کو کافی حد تک روکا جاسکتا ہے اور پانی کو سٹور کیا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت زراعت کے شعبہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلے اور اس کے گونا گوں مسائل پر توجہ دے تو یہ بآسانی حل ہوسکتے ہیں۔ اس سے زراعت کا شعبہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا۔ یوں پاکستان خوش حال ہوگا اور اس کے عوام آسودہ ہوں گے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے وافر افرادی قوت سے بھی نوازا ہے جو باصلاحیت اور ہنرمند ہے۔ کمی صرف باہمت اور پُر عزم قیادت کی ہے جو دیانتدار ہو اور پاکستان سے مخلص بھی ہو۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں زرعی آلات پر ٹیکس عائد ہے۔ حکومت نے اپنے فیصلوں میں زراعت کو کبھی ترجیحی طور پر نہیں لیا۔ اس لیے یہ شعبہ حکومتی عدم دلچسپی کا شکارہے۔ حکومت کو زراعت کی ترقی کے لیے انفراسٹرکچر پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمارا ملک زراعت کے شعبے میں جب ہی ترقی کرسکتا ہے جب حکومت خود نیک نیتی سے زرعی شعبے کی ترقی پر توجہ دے اور زرعی ترقی کے لیے اقدامات کرے۔مگر یہا ں کے دولت کے پجا ری مگر مچھو ں کے بہت لمبے ہیں۔ انہیں ہما ری کر پٹ بیو روکر یسی کی تا ئید حا صل ہے۔ اس کی وجہ سے ہماری زرعی ز مینو ں کو جس انتہا ئی خطر نا ک مسئلے کا سا منا ہے وہ یہ ہے کہ ان زرخیز زمینو ں کو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ زیا دہ دور جا نے کی ضر ورت نہیں، آ پ صرف چکو ال کے نو احی علا قوں سے اگر اسلام آ با دلاہو ر کی مو ٹر وے کی جانب سفر کر یں تو آ پ دیکھیں گے کس ظلم سے وہا ں کی ز رعی ز مینو ں پہ پے در پے ہاؤسنگ سو سائٹیز تعمیر ہو رہی ہیں۔ اور یہ سب کر نے وا لے حکمر ا ن جما عت کے وہی کر تا دھرتا ہیں جن کے نا م آ پ آ ئے دن اخبا رو ں میں پڑھتے رہتے ہیں۔
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 315458908831110, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
maqsoodyamani · 3 years
Text
ایردوآن نے ترکی کو مطلق العنان ریاست میں بدل دیا: داؤد اولو کا الزام
ایردوآن نے ترکی کو مطلق العنان ریاست میں بدل دیا: داؤد اولو کا الزام
ایردوآن نے ترکی کو مطلق العنان ریاست میں بدل دیا: داؤد اولو کا الزام انقرہ ، 8مارچ ( آئی این ایس انڈیا ) ترکی کے سابق وزیر اعظم اور فیوچر پارٹی کے سربراہ احمد داؤد اولو کا کہنا ہے کہ 2016میں انقلاب کی ناکام کوشش کے بعد کیے گئے فیصلوں نے ترکی کو مزید مطلق العنانیت کی طرف دھکیل دیا۔پیر کے روز یونانی اخبا ر سے گفتگو کرتے ہوئے اولو نے کہا کہ انقرہ حکومت کی موجودہ روش ترکی کو یورپ کے جمہوری اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
medo1234me · 4 years
Video
الفنان أحمد عز يطالب بتعو��ض 20 مليون جنيه تعويض من الفنانة زينة_اخر اخبا ...
0 notes
my-yasiuae · 4 years
Photo
Tumblr media
#عاجل مصادر: إعلان الحكومة اللبنانية الجديدة الليلة . . #لبنان #بيروت #ياسي_الامارات #شبكة_ياسي_الامارات #اخبا #اخبار_العالم #اخبار_الامارات #ابوظبي #دبي #الشارقة #عجمان #الفجيرة #أم_القيوين # راس_الخيمة — view on Instagram https://ift.tt/2TMJ1EW
0 notes
akksofficial · 4 years
Text
یوکرینی جہاز کو ایک نہیں بلکہ دو میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا،امریکی اخبا ر
Tumblr media
واشنگٹن(عکس آن لائن)امریکی اخبارنے بتایا ہے کہ سیکیورٹی کیمرے کے ذریعہ ریکارڈ کی گئی نئی ویڈیو فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ 8 جنوری کو تہران سے پرواز کے بعد دوایرانی میزائل 30 سیکنڈ کے وقفے سے یوکرین کے مسافر طیارے سے ٹکرائے تھے۔ اس فوٹیج سے ظاہرہوتا ہے کہ یوکرین کے جہاز کو ایک میزائل نہیں بلکہ دو بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ یہ دونوں میزائل طیارے سے تقریبا 12 کلومیٹر دور ایرانی فوجی مرکز سے لانچ کیے گئے۔ میزائل حملوں کے بعد طیارہ فورا نہیں گرا بلکہ اس میں آگ بھڑک اٹھی تھی اور اس نے واپس تہران ہوائی اڈے کی طرف آنے کی بھی کوشش کی تھی۔اس سے قبل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک فوٹیج میں جہاز کو آگ کے گولے کی شکل میں فضاء سے زمین پر گرتے دیکھا جاسکتا تھا۔ Read the full article
0 notes
gcn-news · 5 years
Text
قائدِ مِلّت کی شہادت16اکتوبر1951کو راول پنڈی میں واقع ہوئی۔ جمہوریت کا چراغ اس دن بجھ گیا اور نوکر شاہی کے لیے آگے بڑھنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا راستہ کھل گیا۔خود شہادت والے واقعے کی نوعیت یہ تھی۔قائدِ مِلّت 16اکتوبر کی صبح راول پنڈی پہنچے ۔ان کو جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا ۔بہ قول بیگم رعنا لیاقت علی خان ،جن کا انٹرویو حال ہی میں ایک مقامی اخبا رمیں چھپ چکا ہے،شہیدِمِلّت کو اس جلسہ عام کے سامنے نئے انتخابات کا اعلان کرنا تھا (اگر اس روز یہ اعلان ہوجاتا اور انتخابات ہوجاتے تو تاریخ بدل جاتی ۔اور نوکر شاہی کے سیاسی عزائم خاک میں مل جاتے ۔کیوں کہ انتخابات سےنظامِ جمہوریت میں از سرِ نو توانائی پیدا ہو جاتی)مگر ہوا یوں کہ اس جلسہ ع��م میں جیسے ہی قائدِ مِلّت تقریر کرنے کے لیے اٹھے اور ابھی دو الفاظ’’برادرانِ اسلام ‘‘ ہی بولے تھے کہ دو گولیاں چل گئیں۔ ایک ان کے سینے میں پیوست ہوگئی اور دوسری نے ان کے قاتل کو ڈھیر کردیا۔ یعنی موقعے پر ہی بانس کے کٹ جانے سے بانسری کے بجنے کا خطرہ نہیں رہا۔
Tumblr media
قتل کی تفتیش کا کام مرکز کے ایک پولیس افسر کے سپرد ہوا۔ وہ بد قسمت افسر کچھ دستاویزلیے ابھی کراچی آرہا تھا کہ اس کا ہوائی جہاز کراچی پہنچنے سے پندرہ منٹ پہلے راستے ہی میں گر کر تباہ ہوگیا۔افسر مرگیا،تفتیش کے کاغذ جل گئے۔آن دفتر سے راگا ؤخورد،گاؤ راقصاب برد،قصاب ہم مردشہید کی بیوہ کے بین نےطوالت پکڑی تو اس کو سفارت دے کر ملک سے ہی باہر بھیج دیا گیا۔یہ خونیں ڈراما اگر امریکا جیسے ملک میں ہوتا تو اس پر کم از کم کئی ایک ڈیٹیکٹیو فلمیں بن جاتیں۔مگر یہاں دستور کے مطابق سارا بوجھ قدرت کے سر تھوپ دیا گیا اور اگر کوئی انکوائری ہوئی بھی تو اس کی رپورٹ عوام کے سامنے نہیںآئی۔حساب ِ دوستاں درِ دلبہ ہر حال قائدِ مِلّت جیسا وزیرِ عظم،جو پاکستان کو صحیح جمہوری ملک بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا اور قائد اعظم کے بعد تنہا ملک کی امیدوں کا سہارا تھا، بغیر کچھ کہے یا وصیت کیے یا آخری پیغام دیے ،ایک بیوہ اور،دو کم سن بچے اور چار سگریٹ لائٹروں پر مشتمل جائیداد چھوڑکر ہم سے رخصت ہوگیا۔
Tumblr media
خالی ہاتھ آیا تھا اور خالی ہاتھ چلا گیا۔اپنوں سے اپنی عمر بھر کی خدمات کا صلہ پاکر! یہ واقعہ درکنار ،حقیقت یہ ہے کہ نئے انتخابات کی بات وزیراعظموں کےلیے ہمیشہ خطرناک ہوتی رہی ۔ 1951میں لیاقت علی خان مرحوم ابھی، بہ قول ان کی راز دار بیوی کے ،نئے انتخابات کا اعلان کرنے والے تھے کہ اس طرح مارے گئے۔1958میں فیروز خان نون ، وزیر اعظم،اسی طرح 1956والے آئین کے تحت نئے عام انتخابات کا رسمی اعلان کرنے کے لیے لاہورسے کراچی پہنچےتھے کہ مارشل لا لگ گیا۔اور خود ڈسمس ہوگئے۔لیاقت علی خان مرحوم کیوں شہید کردیےگئے؟سید اکبر کے علاوہ کوئی اور بھی اس کام میں اس کے ساتھ شریک تھا یا نہیں ،قتل کسی سازش کے تحت ہوا یا یہ ایک انفرادی فعل تھا،سید اکبر کا پس منظر کیا تھا؟۔۔۔۔۔ان سوالات کے جوابات کم ازمجھے معلوم نہیں۔اس زمانے میں تو جتنے منہ تھے، اتنی باتیں تھیں۔اب اکتّیس سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد ان باتوں کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا،یا کسی شخص یا گروپ پر الزام دھرنا بے انصافی ہوگی۔بہ ہر حال جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی بدقسمتی اور اس کے جمہوری خوابوں کی پراگندگی پر منتج ہوا۔البتہ بہ ظاہر، ،لیاقت علی خان مرحوم کی شہادت نو کر شاہی کے لیے وجہ ترقّیِ درجات بن گئی۔بہ قول شاعر عالمے رازندہ کردی آفرین بر مُردنت Read the full article
0 notes
mostafawagdi1 · 3 years
Video
youtube
هل تعاني من بطء جهاز الكمبيوتر؟ إليك 7 طرق لتسريعه وجعله أكثر كفاءة-اخبا...
0 notes
healthzigzag · 5 years
Photo
Tumblr media
سعودی بادشاہ اور ولی عہد کے درمیان اختلافات کی افواہیں ، صورتحال کس وقت مزید کشیدہ ہو ئی؟برطانوی اخبا رنے بڑا دعویٰ کردیا لندن (این این آئی)برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے بیٹے اور ملک کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے م��بین یمن میں جنگ سمیت دیگر اہم مسائل پر شدید اختلافات جنم لے چکے ہیں۔برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’دونوں اہم شخصیات کے درمیان اختلافات کیفضا ترکی میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد پیدا ہوئی۔واضح رہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے الزام لگایا تھا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر جمال خاشقجی کو قتل
0 notes
mwhwajahat · 5 years
Photo
Tumblr media
کشمیری لڑکی پہلی کمرشل پائلٹ بن گئی سری نگر سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ ارم حبیب نے پہلی کشمیری خاتون کمرشل پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ غیر ملکی اخبا ر کے مطابق ارم حبیب نے جب پائلٹ بننے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہیں بتایا گیا کہ ایک کشمیری لڑکی کبھی پائلٹ نہیں بن سکتی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اُنہیں اپنے والدین کو راضی کرنے میں 6 سال کا عرصہ لگا کیوں کہ ان کے والدین کی نظر میں فضائی شعبہ تنازعات میں گھرے ہوئے علاقے کشمیر میں رہنے والی خواتین کے لیے نہیں بنا۔ ارم نے ڈیہرہ دون سے جنگلات کے شعبے میں گریجویشن اور شیر کشمیر یونیورسٹی سے زرعی سائنس اور ٹیکنالوجی میں پوسٹ گریجویشن کیا۔ انہوں نے امریکا کی ریاست میامی سے جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کی جس کے بعد 2016 میں وہ کمرشل پائلٹ کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے بھارت واپس آگئیں۔امریکا میں ارم حبیب نے سخت محنت کے بعد فضائی امتحان پاس کیا اور لائسنس کے حصول کے لیے ضروری 260 گھنٹے کی فلائٹ کا تجربہ حاصل کیا۔
0 notes