Tumgik
#انسان بخیل
minhajbooks · 8 months
Text
Tumblr media
🔰 سیرت نبوی ﷺ کا اصل خاکہ
اِس کتاب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کا اصل خاکہ (Real Sketch) شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کی کتب اور اِفادات و ملفوظات سے مرتب کیا گیا ہے۔ اِس کتاب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی شخصیت، حسن و جمال، سیرت و کردار، اخلاق و اوصاف، رحمت و رافت، جود و سخا، عدل و انصاف، انسانی ہمدردی، محبت و الفت اور عظمت و شان کا اَصل خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے ورق ورق اور سطر سطر میں پیغمبر اسلام ﷺ کی حیات بخش، فیض رساں اور انسان دوست سیرت کی نورانی کرنیں پھوٹتی نظر آئیں گی۔ یہ ایمان افروز کتاب سیرت طیبہ پر لکھی جانے والی کتب میں اَہمیت و مؤثریت اور جامعیت کے اِعتبار سے بہت عشق آمیز، روح پرور اور فقید المثال ہے۔
یہ کتاب دراصل فروری 2021ء میں طبع ہونے والی کتاب A Real Sketch of the Prophet Muhammad ﷺ کا اُردو ترجمہ ہے۔
📖 کتاب کی خصوصیات و امتیازات
📗 رسول الله ﷺ کی سیرتِ طیبہ صرف عالمِ اِسلام کے لیے نہیں بلکہ پورے عالمِ اِنسانیت کے لیے عظیم نمونۂ حیات ہے۔ آپ ﷺ کی پوری سیرتِ طیبہ کا حقیقی خاکہ اِس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔
📗 رسول الله ﷺ خُلقِ عظيم كے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حسنِ خُلق کی تمام صفات آپ ﷺ کی جبلّت اور طبیعت میں پیدائشی طور پر ودیعت فرما دی تھیں۔
📗 رسول الله ﷺ كى صفتِ رحمت سارى كائنات پر محیط اور غیر محدود طور پر وسیع ہے، جس سے مخلوق كا ہر طبقہ فیض یاب ہوتا رہا ہے اور قيامت تك ہوتا رہے گا؛ بلكہ اختتامِ قيامت تك تمام اُمتیں بھى اِس چشمۂ رحمت سے اپنی تشنگی مٹاتی رہیں گی۔
📗 رسول الله ﷺ کے چہرۂ اَقدس پر ہمیشہ کُشادگی اور بشاشت رہتی تھی۔ آپ ﷺ کے اَخلاق اور برتاؤ میں ہمیشہ نرمی ہوتی، اس لیے آپ ﷺ سے معاملہ کرنا نہایت آسان ہوتا تھا۔ آپ ﷺ طبعاً نرم جُو تھے۔ (گویا آپ ﷺ کی طبیعتِ مقدسہ اور عادتِ مبارکہ میں ہمیشہ نرمی اور لچک ہوتی تھی۔)
📗 رسول الله ﷺ نہ سخت مزاج تھے، اور نہ ہی سخت دل تھے۔ آپ ﷺ نہ تو سختی کے ساتھ اپنی آواز بلند فرماتے، اور نہ ہی کبھی (کسی سے) سخت کلامی فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نہ تو عیب جُو تھے، اور نہ ہی بخیل تھے (یعنی طبیعت میں سخاوت، فراخی اور پردہ پوشی تھی)۔
📗 رسول اللہ ﷺ بہت زیادہ حیا دار تھے۔ آپ ﷺ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو آپ ﷺ وہ عطا فرما دیتے۔ آپ ﷺ پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔
📗 رسول الله ﷺ بچوں، عورتوں اور کمزور و نادار اَفراد کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آتے تھے۔
📗 رسول الله ﷺ کبھی اگلے دن کے لیے کوئی چیز ذخیرہ نہ فرماتے تھے۔ آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی سامانِ خور و نوش ذخیرہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ جب کھانا تناول فرماتے تو اپنے سامنے سے تناول فرماتے۔ آپ ﷺ کا ہاتھ برتن میں اِدھر اُدھر نہیں جاتا تھا (یعنی آپ ﷺ صرف اپنے سامنے سے تناول فرماتے تھے)۔
📗 رسول اللہ ﷺ تحفہ قبول فرما لیتے اور اس کا بدلہ بھی عطا کر دیتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ مریضوں کی عیادت اور اُن کی صحت یابی کے لیے دعا فرماتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نرم برتاؤ کو پسند فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی خوب ترغیب دیتے تھے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جس شخص کی طبیعت کو نرمی میں سے حصۂ وافر دیا گیا اُسے بھلائی کا بڑا حصہ دیا گیا اور جسے نرمی کے حصہ سے محروم رکھا گیا اُسے بھلائی کے حصہ سے محروم رکھا گیا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اے ابن آدم! اپنے رب سے ڈرو، اپنے والدین سے حسنِ سلوک کرو اور صلہ رحمی کرو، تمہاری عمر دراز ہوگی، تمہیں آسانیاں نصیب ہوں گی، تم تنگی و پریشانی سے محفوظ رہو گے اور تمہارے رزق میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ بیٹیوں پر بہت زیادہ رحم فرمانے والے تھے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، وہ اُن سے اچھا سلوک کرے اور اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اُس کے لیے جنت ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ یتیموں کے والی تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یتیم کی پرورش کرنے والا، اگرچہ وہ اُس کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو، وہ اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ راوی (مالک) نے درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی ملا کر اشارہ کیا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کو وہ گھر سب سے زیادہ محبوب ہے جس میں یتیم باعزت (زندگی گزار رہا) ہو۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ بیواؤں اور مساکین پر رحم فرمانے والے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بیوہ عورت اور مسکین کے (کاموں) کے لیے کوشش کرنے والا راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ قیدیوں پر بھی رحمت و شفقت فرمانے والے تھے آپ ﷺ نے فرمایا ہے: بھوکے کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو آزاد کراؤ۔
📗 رسول اللہ ﷺ مریضوں پر شفقت فرمانے والے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: بے شک ایک مسلمان جب اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہاں سے لوٹنے تک مسلسل جنت کے باغ میں رہتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی اپنے بھائی کے لیے اُس کی عدم موجودگی میں دعا کرتا ہے تو ایک فرشتہ (اُس کے لیے دعا کرتا اور) کہتا ہے: تیرے لیے بھی اِس کی مثل ہو (یعنی جس چیز کی دعا تو نے اپنے بھائی کے لیے کی ہے وہ تجھے بھی نصیب ہو)۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: تمہارا اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹکے ہوئے کو راستہ بتانا صدقہ ہے، کسی اندھے کو راستہ دکھانا بھی صدقہ ہے، راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (وغیرہ) ہٹانا بھی صدقہ ہے، اپنے برتن سے دوسرے بھائی کے برتن میں پانی ڈالنا بھی صدقہ ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص دنیا میں کسی کے عیب کا پردہ رکھے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُس کے عیب کا پردہ رکھے گا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے اعلیٰ فضیلت یہ ہے کہ تم اس شخص سے رشتہ جوڑو جو تم سے تعلق توڑتا ہے، اُسے عطا کرو جو تجھے (ضرورت کے وقت) انکار کرتا ہے اور اُس سے درگزر کرو جو تجھے گالی دیتا ہے۔
📗 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ بلحاظِ صورت و خِلقت انسانوں میں سب سے زیادہ حسین تھے۔
📗 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول الله ﷺ کا چہرۂ انور سب سے حسین و جمیل تھا اور رنگت و نگہت سب سے زیادہ (براق اور) روشن تھی۔ جس نے بھی آپ ﷺ کا وصف بیان کیا ہے اورجو ہم تک پہنچا ہے ہر ایک نے آپ ﷺ کے چہرۂ انور کو چودھویں کے چاند سے تشبیہ دی ہے۔ اُن میں سے کوئی کہنے والا یہ کہتا ہے: شاید ہم نے چودھویں رات کا چاند دیکھا۔ کوئی کہتا ہے: حضور نبی اکرم ﷺ ہماری نظروں میں چودھویں رات کے چاند سے بھی بڑھ کر حسین تھے۔ آپ ﷺ کی رنگت و نزہت بہت روشن، اور چہرہ نہایت دل کش اور نورانی تھا۔ یہ روئے انور (زمین پر) یوں جگمگاتا تھا جیسے چودھویں رات کا چاند (آسمان پر) چمکتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ کی رحمت و رافت اور شفقت و عنایت کا اعجاز تھا کہ ہر کہ و مہ کو محسوس ہوتا کہ آپ ﷺ اسی سے مخاطب ہیں۔ ہر شخص اپنی سماعتوں کے دامن اور قلب و نظر کے سفینے میں حکمت و بصیرت، ذکاوت و ذہانت اور دین و دانش کے انمول اور نادر و نایاب موتیوں کو سمیٹتا چلا جاتا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: مجھے کلمات کے آغاز اور اِختتام کا حسن و کمال اور ان کی جامعیت عطا کی گئی ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو کسی کو خوشی و مسرت بہم پہنچانے کا موجب ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو (اُس کے) بندوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جس نے (اِس دنیا میں) کسی مومن کی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اُس سے قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل رفع فرما دے گا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اَعلیٰ مقام تلاش کرو: جو تمہارے ساتھ جہالت سے پیش آئے، تم اس سے بردباری سے پیش آؤ اور جو تمہیں محروم رکھے تم اُسے عطا کرو۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، اللہ تعالیٰ کو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ وہ شخص محبوب ہے جو اس کے کنبہ کے لیے سب سے زیادہ نفع رساں ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں نماز، روزہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) کیوں نہیں! (ضرور بتائیے۔) آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے درمیان صلح کرانا، (کیونکہ) باہمی تعلقات کا بگاڑ اَمن و سلامتی کو تباہ کرنے (اور ظلم و زیادتی کو فروغ دینے) والا عمل ہے (اور قطع رحمی کا باعث بنتا ہے)۔
📧 کتاب حاصل کرنے کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/p/6916217205118025/923097417163
🔗 https://www.minhajbooks.com/english/book/688/Sirat-e-Nabawi-ka-Asal-Khakah-Real-Sketch
🔗 https://www.google.com/search?q=milad+un+nabi+books+minhajbooks.com
0 notes
deenrahmat · 5 years
Photo
Tumblr media
❤🌷پندهای از پیامبر (ص)👇 ۱ _ کسی که نماز عصرش فوت گردد ، گویا خانواده و سرمایه اش نابود شده است . (بخاری و مسلم) ۲ _ ملائکه رحمت خدا به خانه ای که در آن سگ یا عکسی باشد ، داخل نمی شود . (بخاری و مسلم) ۳ _ از حسادت پرهیز کنید زیرا حسد نیکیها را می بلعد مثل اینکه آتش هیزم را می خورد . (بخاری و مسلم) ۴ _ افراد فریبکار ، بخیل و منت گذار به بهشت نمی روند . (ترمذی) ۵ _ دشنام دادن مسلمان گناه و قتل بدون دلیل کفر است . (بخاری و مسلم) ۶ _ مسلمان واقعی کسی است که مسلمانان از دست و زبان او در امان باشند . (بخاری) ۷ _ نشانه یک منافق سه چیز است ، زمان حرف زدن دروغ می گوید ، زمانی که قول و قرار می گذارد خلاف وعده عمل می کند ، زمانی که امین قرار می گیرد خیانت می کند . (بخاری و مسلم) ۸ _ بهترین شما کسی است که قرآن را یاد بگیرد و به دیگران تعلیم دهد . (بخاری) ۹ _ به یکدیگر هدیه دهید تا دوست شوید . (سنن کبری) ۱۰ _ نماز ، نشانه شناخت یک مسلمان با کافر است . (ابی داود) ۱۱ _ در دنیا طوری زندگی کن مثل اینکه مسافر هستی . (بخاری و مسلم) ۱۲_ خداوند به چهره ها و به سرمایه تان توجهی ندارد ، البته به قلب ها و اعمالتان متوجه است . (مسلم)
0 notes
urdu-poetry-lover · 3 years
Text
1- تماشے میں جان مداری کی ڈگڈگی سے نہیں، تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے، مداری تب تک تماشا دکھاتا ہے جب تک ہم اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ہماری زندگی میں بھی ایسے کئی مداری ہوتے ہیں جو جلن حسد اور بغض میں ہماری زندگیوں کا سکون برباد کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ان کے بندر تماشے پر توجہ دینا چھوڑ دیں ان کی شرپسندی یعنی فن اپنی موت آپ مر جائے گا۔
2- حاسد کیلئے اللہ کا دوہرا عذاب ہوتا ہے، اپنی ناکامی پر دُکھی ہونے کے بعد دوسرے کی کامیابی پر تکلیف بھی اٹھانی ہوتی ہے۔
3- مفاد پرستوں اور کم ظرفوں میں زندگی گزارنے والے انسان کو خیرخواہی اور خلوص ہضم نہیں ہوتے۔
4- احمق کو دوست مت بنائیں وہ فائدے کی بجائے نقصان دیتا ہے بخیل سے بھی دوستی مت کرنا وہ مشکل میں مدد کی بجائے چھپ جاتا ہے
غیبت والے کو بھی دوست مت بنانا وہ کسی بھی لمحے دغا دے جاتا ہے
5- سب کا دوست کسی کا دوست نہیں ہوتا
6- کسی کی جیب سے جتنا مرضی مہنگا اور شاندار کھانا کھالیں، صبح دوبارہ بھوک لگ ہی جاتی ہے
7- لفظوں کی جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو، شہید ہمیشہ سچائی ہوتی ہے
8- مرض کا نام معلوم ہونے پر تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے
9- قبر کھودنے والا گورکن ہر میت پر آنسو بہانے بیٹھ جائے تو روتے روتے اندھا ہوجائے
6 notes · View notes
informationtv · 3 years
Text
کسی گاؤں میں ایک شخص رہتا تھا
کسی گاؤں میں ایک شخص رہتا تھا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک شخص رہتا تھا جو انتہائی بخیل اور کنجوس قسم کے انسان تھا اس نے اپنی بیوی کو قسم دے رکھی تھی اگر تم نے کسی کو کچھ دیا ہے تو تجھ پر طلاق ہے ایک دن ایک سائل ان کے گھر پے آیا۔ اور خدا کے نام پہ کچھ مانگا تو اس عورت نے سائل کو تین روٹی دی۔ واپسی پر سائل کو وہی بخیل آدمی راستے میں مل گیا۔ اس بخیل نے پوچھا کہ تجھے یہ روٹیاں کہاں سے مل گئی۔ مطلب آپ کو کس نے روٹیاں…
View On WordPress
0 notes
islamiclife · 4 years
Text
ناشُکرے انسان کی پہچان
’’ قسم ہے اُن گھوڑوں کی جو ہانپ ہانپ کر دوڑتے ہیں۔ پھر جو (اپنی ٹاپوں سے) چنگاریاں اُڑاتے ہیں۔ پھر صبح کے وقت یلغار کرتے ہیں۔ پھر اُس موقع پر غبار اُڑاتے ہیں۔ پھر اُسی وقت کسی جمگھٹے کے بیچوں بیچ جا گھستے ہیں۔ کہ انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ اور وہ خود اس بات کا گواہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ مال کی محبّت میں بہت پکّا ہے یعنی وہ دولت کا رسیا ہے۔ بھلا کیا وہ وقت اُسے معلوم نہیں ہے جب قبروں میں جو کچھ ہے، اُسے باہر بکھیر دیا جائے گا۔ اور سینوں میں جو کچھ ہے، اُسے ظاہر کر دیا جائے گا۔ یقینا اُن کا پروردگار اُس دن اُن (کی جو حالت ہوگی اُس) سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘ (سورۃ العادیات کا مفہوم)
خلاصۂ: ﷲ تعالیٰ نے اس سورۃ میں انسان کو بتایا ہے کہ وہ اس دنیا میں ﷲ تعالیٰ کی بے شمار مخلوقات سے فائدہ اٹھاتا ہے اور عمومی طور حیوانات، نباتات اور جمادات سب ﷲ تعالیٰ کے حکم سے انسان ہی کے تصرّف میں ہیں۔ کیوں کہ ﷲ تعالیٰ نے انسان ہی کو زمین میں اپنا خلیفہ متعین فرمایا ہے، جیسا کہ ﷲ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں ذکر فرمایا ہے۔ اس موقع پر خصوصاً جنگی گھوڑوں کی انسانوں کی حفاظت کے لیے قربانیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ انسان کی اطاعت و خدمت کے لیے اپنی جان کی بازی لگا کر ہر وقت اپنے دنیاوی مالک کی حفاظت کے لیے تیار رہتا ہے۔ پانچ آیات میں قسم کھانے کے بعد ﷲ تعالیٰ نے انسان کی ناشکری کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے گھوڑوں اور بے شمار دیگر اشیاء جس کو ﷲ تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لیے مہیّا کیا ہے، سے سبق حاصل کر کے اپنے حقیقی مالک کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتا ؟ انسانوں کا بھی تو خالق، مالک اور رازق وہی ہے۔ گھوڑوں سے عبرت حاصل کر کے انسان اپنے حقیقی مالک کی فرماں برداری کے لیے اُس کے احکام کے مطابق دنیاوی زندگی کیوں نہیں گزارتا ؟ اپنی مرضی سے دنیا کے لیل و نہار کیوں گزارنا چاہتا ہے ؟
 ﷲ تعالیٰ نے انسان کے بخیل ہونے پر اُس کی ملامت کی ہے کہ ﷲ تعالیٰ ہی نے انسان کو دولت، منصب اور اولاد دی ہے اور یہ ساری کائنات بھی ﷲ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آئی ہے، لیکن مال حاصل کرنے کے بعد انسان مال کے متعلق ﷲ تعالیٰ اور لوگوں کے حقوق کماحقہ ادا نہیں کرتا بلکہ گن کر چھپا کر رکھتا ہے اور لوگوں پر ظلم بھی کرتا ہے۔ حالاں کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ مال و دولت اور ساری جائیداد یہیں رہ جائے گی اور خالی ہاتھ دنیا کو چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ قدرت کا کیسا عجیب نظام ہے کہ ہر سو سال کے بعد دنیا کے ظاہری مالک زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ دوسروں کو بھی ایک دن خالی ہاتھ اس دنیا سے چلے جانا ہے۔ چند دن وارثین مرنے والے اپنے قریبی رشتے داروں کو یاد رکھتے ہیں، پھر وہ بھی اپنی دنیاوی زندگی میں ایسے مست ہو جاتے ہیں کہ کبھی کبھار صرف اُن کا تذکرہ کیا کرتے ہیں۔ حالاں کہ انہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی بھی لمحے موت کا فرشتہ اُن کی بھی روح قبض کرنے کے لیے آسکتا ہے اور انہیں بھی اس دنیا سے اپنے باپ دادا کی طرح خالی ہاتھ جانا ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے بیان کیا کہ انسان کی کام یابی یہ نہیں ہے کہ ساری صلاحیتیں صرف اس دنیاوی زندگی کو سنوارنے میں لگا دے، بلکہ اصل کامیابی و کامرانی یہ ہے کہ انسان آخرت کی زندگی کو سامنے رکھ کر دنیاوی فانی اور وقتی زندگی گزارے اور خود کو اس دنیا میں مسافر سمجھے۔ اس بات کا کامل یقین رکھ کر دنیاوی زندگی کے قیمتی اوقات گزارے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ دنیا کے وجود سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو حشر کے میدان میں جمع کیا جائے گا اور ہر شخص کا نامۂ اعمال پیش کیا جائے گا۔ عقل مند شخص وہ ہے جو مرنے سے قبل مرنے کے بعد والی ہمیشہ کی زندگی کے لیے تیاری کرے۔ اصل بات یہ ہے جس پر شہادت کے لیے گھوڑوں کے چند اوصاف کی قسمیں کھائی گئی ہیں۔ یعنی چند قسمیں کھا کر خالق کائنات نے فرمایا: انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ اس آیت میں ﷲ تعالیٰ نے حضرت انسان کو کنود کہا ہے، جس کے معنی ناشکرے کے ہیں۔ حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا: ’’ وہ شخص جو مصائب کو یاد رکھے اور نعمتوں کو بُھول جائے اُس کو کنود کہا جاتا ہے۔‘‘ غرض یہ کہ جو انسان اپنے گھوڑوں کی یہ ساری جاں نثاری دیکھتا ہے اور ان کی قربانیوں سے فائدہ اٹھاتا ہے لیکن اسے یہ سوچنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ بھی اپنے رب کا غلام ہے، اس کو بھی کسی نے پیدا کیا ہے، کیوں کہ وہ اور پوری کائنات خود بہ خود کیسے قائم ہو سکتی ہے؟ لہٰذا اس کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بھی انہی گھوڑوں کی طرح اپنے حقیقی مولا و آقا کی اطاعت کے لیے ہر وقت تیار رہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ انسان ناشکرا ہے کیوں کہ گھوڑا جانور ہوکر بھی اپنے مالک کا حق پہچانتا ہے لیکن انسان اشرف المخلوقات ہوکر بھی اپنے حقیقی رب کا حق نہیں سمجھتا۔ اس جگہ پر گھوڑوں کا ذکر صرف مثال کے طور پر کیا گیا ہے، ورنہ ﷲ تعالیٰ نے اپنی بے شمار مخلوقات انسان کے لیے مسخّر کر دی ہیں۔ انسان کی زندگی کا کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ وہ ﷲ تعالیٰ کے سیکڑوں انعامات سے فائدہ نہ اٹھا رہا ہو حتی کہ انسان جو سانس لیتا ہے وہ بھی ﷲ کے فضل و کرم اور اس کی مخلوقات سے استفادہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ انسان کے ناشکرے ہونے پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، اس کا طرز عمل خود گواہی دیتا ہے کہ وہ ناشکرا ہے۔ انسان کے ناشکرے ہونے کے لیے اس کے کردار سے ہی ایک دلیل ﷲ تعالیٰ پیش فرما رہا ہے کہ وہ مال کی بے جا محبت کا شکار ہے۔ انسان کو اپنے گھوڑوں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ جان کی بازی لگا کر جو کچھ حاصل کرتے ہیں وہ سب مالک کا ہو جاتا ہے۔ اپنے لیے وہ کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے۔ مالک جو کچھ اُن کے آگے ڈال دیتا ہے اس پر قناعت کرلیتے ہیں۔ لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جو مال بھی ﷲ کے فضل و کرم سے اسے حاصل ہوتا ہے اُس کو صرف اپنا سمجھ کر اپنی خواہشات پر عمل کرنا چاہتا ہے۔ اور مال کے متعلق ﷲ تعالیٰ کے حقوق کو ادا کرنا درکنار، دوسرے انسانوں کے حقوق بھی کھا جاتا ہے۔ ان آیات سے غافل انسان کو ﷲ تعالیٰ متنبہ کر رہا ہے کہ کیا وہ اُس دن کو بھول گیا ہے جب مردے قبروں سے زندہ کر کے اٹھا لیے جائیں گے اور دلوں میں چھپی ہوئی باتیں سب کھل کر سامنے آجائیں گی۔ 
حالاں کہ حضرت انسان جانتا ہے کہ ﷲ تعالیٰ تمام انسانوں کے احوال سے بہ خوبی واقف ہے۔ اس لیے عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ﷲ تعالیٰ کی ناشکری سے باز آئے اور مال کی محبت میں ایسا مغلوب نہ ہو جائے کہ اچھے بُرے کی تمیز بھی نہ کرے۔ کیوں کہ قیامت کے دن ہر شخص سے سوال کیا جائے گا کہ مال کہاں سے کمایا ؟ یعنی وسائل حلال تھے یا حرام، نیز کہاں خرچ کیا ؟ یعنی ﷲ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق ادا کیے یا نہیں۔ ﷲ تعالیٰ نے یہ اعلان کر دیا کہ ہر انسان کی زندگی کے ہر ایک لمحے کو محفوظ کیا جارہا ہے۔ آج کے کمپیوٹر کے زمانے میں اس کو سمجھنا بہت آسان ہو گیا ہے کیوں کہ جب انسان کے تیار کردہ پروگراموں کے ذریعے لوگوں کی ساری نقل و حرکت محفوظ ہو جاتی ہیں تو پھر خالق کائنات کے نظام میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
1 note · View note
razavinews · 4 years
Photo
Tumblr media
. امام رضا (ع)فرمودند: «با انسان بخیل مشورت نکنید؛ زیرا مشورت‌گیرنده را از هدفش که کمک به دیگران است، بازمی‌دارد ...» #امام_مهربانم #قرار_عاشقی #ساعت_هشت #الامام_الرضا #مشهد_الرضا #imamreza#mashhad #holy_shrine #muslimquotes #lovequotes #iran_tourism https://www.instagram.com/p/B5-qsjsAFvf/?igshid=1pgk61nmj7l7q
0 notes
humlog786-blog · 5 years
Text
اوروں پر الزام تراشی فطرت ہے ہم لوگوں کی : ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ
Tumblr media
کالج میں امتحانات کے سالانہ نتائج کا اعلان ہونے کے بعدایک ناکام طالبعلم کا اپنے استاد سے استفسار ؟ سر! آپ نے مجھے فیل کردیا! استاد : میں نے کسی کو بھی فیل نہیں کیا بلکہ تمام طلباء کو 100 نمبرز دیئے ہیں! طالبعلم:100 نمبرز تو کسی طالب علم کے نہیں ہیں۔ کسی کے کم،کسی کے زیادہ ۔اور مجھے تو آپ نے واقعی فیل کیا ہے، ایسا کیوں ہے؟ استاد:نہیں میں نے توواقعی 100 نمبر ہی کے سوالات دیئے تھے۔ لیکن ہرطالبعلم نے اپنی لیاقت، ذہانت، صلاحیت،محنت کے مطابق جوابات رقم کیے اوراپنے جوابات کے مطابق نمبر(ارقام) حاصل کیے۔ اگر تمہارا خیال یہ ہے کہ یہ نمبر تم نے اپنی محنت سے خود حاصل کئے ہیں تو جتنے بھی نمبر تم نے حاصل کیے ہیں تم ان کے حقدار ہو اورجو اس میں کمی رہ گئی اسے اگلی بار مزید محنت سے حاصل کرو! اوراگر یہ نمبر تم نے خود محنت سے حاصل نہیں کیے بلکہ میں نے دیئے ہیں پھرانہیں خیرات سمجھ لو!بیٹا یہ ذہن میں رکھو کہ خیرات کے حصول میں ڈیمانڈ نہیں چلتی، جتنی ملی۔شکرادا کرو! بیٹا: ہم اس نہج پر سوچتے ہی نہیں کہ دوسروں کی طرح مجھ سے بھی کوئی غلطی سرزد ہوسکتی ہے۔کوئی شخص بھی معصوم عن الخطا نہیں ۔ بقول نظمی سبھی مجرم ہیں یہاں آپ بھی،میں بھی،وہ بھی سارے الزام مگرایک کے سرجائیں گے ہرشخص دوسروں پر الزام اس طرح ڈالتا ہے کہ صرف سامنے والا ہی خطاؤں کا پتلا ہے اور وہ تو جیسے دودھ کا دھلا ہوا ہے۔اس طرز فکر سےمسائل کبھی حل نہیں ہوتے، ان میں اضافہ ضرورہوتا رہتا ہے۔ ایک تمثیل: بیٹا:اپنی بات کی مزید وضاحت کے لئے میں آپ کے سامنے ایک تمثیل پیش کرتا ہوں: ایک طالب علم اپنی لاپرواہی کے سبب اپنا ایڈمٹ کارڈ اپنے بستر پر چھوڑ دیتا ہے جہاں سے اس گھر کا کوئی چھوٹا بچہ اسے اٹھاکر فرش پر پھینک دیتا ہے۔پھروہاں سے گھر میں صفائی کرنے والی اسے کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہے اور کچرا اٹھانے والا اس ایڈمٹ کارڈ کو اس بچے سے مستقل دورکردیتاہے۔یوں ایڈمٹ کارڈ نہ ہونے کے سبب طالب علم پرچہ میں حاضر نہیں ہوپاتا اور اس کا سال ضائع ہوجاتا ہے۔بھلا اس پورے واقعہ میں قصوروار کون ٹھہرا؟ غلطی کے نتائج کون بھگتے گا؟ دوسروں پر الزام ڈالنے یا لعن طعن کرنے سے بھلا کیافائدہ حاصل ہوگا؟ بیٹا: یہ تمثیل آپ کے سامنے ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی بھی مشقت میں ڈالتے ہیں اور دوسروں کی بھی۔ پھر دوسروں کے سامنے ہر وقت شکو ہ کناں رہتے ہیں کہ کاروبار بند ہے گھریلو حالات نہایت پریشان کن ہیں اپنے قریبی رشتہ دار واحباب بلکہ اپنی اولاد تک سے بھی نالاں رہتے ہیں۔الزام دوسروں پر ڈالنا ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے حالانکہ یہ رویہ تو جہنمیوں کا ہے جو روز محشر بھی اسی دھوکہ میں مبتلا ہوں گے۔ یہاں تک کہ روزمحشر بھی یہ اسی دھوکہ میں مبتلا ہونے کے سبب رب سے فریاد کریں گے کہ اس دوسرے گروہ کو دگنا عذاب دے جس پر رب فرمائے گا تم دونوں گروہوں کے لئے دگنا عذاب ہے لیکن تم جانتے نہیں ہو۔قرآن مجید جہنمیوں کے اس رویہ کی وضاحت کچھ ان الفاظ میں کرتاہے : قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ فِي النَّارِ ۖ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا ۖ حَتَّىٰ إِذَا ادَّارَكُوا فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لِأُولَاهُمْ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ۖ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَٰكِن لَّا تَعْلَمُونَ (الاعراف:38) اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جن و انس میں سے جو امتیں تم سے پہلے گزرچکی ہیں تم بھی ان کے ہمراہ دوزخ میں داخل ہو جاؤ، جب ایک امت داخل ہوگی تو وہ دوسری امت پر جو(گناہوں میں) اس جیسی ہوگی لعنت بھیجے گی، یہاں تک کہ جب سب (امتیں) اس میں (یعنی دوزخ میں) گرچکیں گی ، تو ان کی پچھلی امت پہلی امت کے متعلق کہے گی کہ اے ہمارے رب! ہمیں انہوں نے گمراہ کیا۔پس تو ان کو آتشِ جہنم کا دونا عذاب دے(اللہ تعالیٰ) فرمائے گا کہ ہر ایک کے لئے دوگنا (عذاب) ہے لیکن تم جانتے نہیں۔ ہمارے معاشرے میں دوسروں پر ذمہ داری ڈالنے کی عادت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اگر وہ کسی اورکو مورد الزام نہ ٹھہراسکیں تو پھر تقدیر کو ہی ذمہ دار ٹھہرادیں گے کہ ہماری تو تقدیر میں ہی یہ لکھا تھا۔ اس قبیل کے افراد کے لئے اقبال عظیم صاحب نے کیا ہی خوب فرمایا ہے: قصور کس کا ہے اپنے ضمیر سے پوچھو خدا کے واسطے تقدیر کا گلہ نہ کرو مقام تاسف: بیٹا اس رویہ کے حامل تم تنہا فرد نہیں ہو۔سوائے چند معدودہ افراد کے بلا تخصیص دیندار طبقہ یا سیکولر طبقہ پورے کا پورا کارواں تمہارا ہمرکاب،ہم مشرب اورہم مسلک ہے۔ ہمارا عجب معاشرہ اورعجب مزاج ہے۔ پورا معاشرہ ایک دوسرے پرالزام تراشی کرنے میں مصروف ہے۔الزام تراشی کے اس زہریلے ناگ سے ہر ایک دوسرے کو ڈسنے میں مصروف ہے اوریوں اپنی غلطیوں کا تدارک نہ کرکے آخر کار خود ناکام ہوکراس ناگ کے زہر کا شکار ہوجاتےہیں: اوروں پر الزام تراشی فطرت ہے ہم لوگوں کی سچ پوچھو تو پال رکھے ہیں ہم نے خود زہریلے ناگ شو رتن لال برق پونچھوی مسلمان ممالک کی اندرونی وبیرونی سطح پراگردیکھا جائے تو ہم بغیر کسی محدب شیشہ کے دیکھ سکتے ہیں کہ کرپشن بڑھتی جارہی ہے،تعلیم ابتری کا شکار ہے، لاء اینڈ آرڈر میں بہتری نہیں آرہی ہے، ہسپتالوں میں صحت وصفائی کی صورتحال ابتر ہے۔ لیکن عام آدمی سے اعلیٰ انتظامیہ تک سب ایک دوسرے کومورد الزام ٹھہرارہے ہیں۔ ہر ذمہ دار شخص اپنی ناکامی کاملبہ دوسروں پر ڈال کر خود کو مطمئن کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ مثلاً ہمارا پرائمری کلاسز کے طلباء سے لے کر ہائر کلاسز تک ،وکلاء سے ججز تک، کونسلر سے سٹی ناظم تک،عام سیاسی کارکن سے وزیراعظم تک، اساتذہ سے انتظامیہ تک ہر ایک دوسروں کی جانب انگلیاں اٹھائے شکوہ کناں بلکہ نوحہ خواں ہے۔اوریہ لاحاصل شکووں کاانبار آنکھوں میں اشک ہی لاسکتا ہے ، پانی ہی لاسکتا ہے مزیداس پانی میں طغیانی ہی لاسکتاہے۔۔۔کامیابی نہیں دلاسکتا۔بقول احمد فراز شکوۂ ظلمتِ شب سے توکہیں بہترتھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے جملہ معترضہ: یہ رویہ صرف خیرات، چندوں اوردوسروں کے ٹکڑوں ہی کوحسرت اورملنے کی امید سے دیکھتا ہے۔ اور اس میں بھی ڈیمانڈ کا عنصر شامل ہوچکاہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ خیرات کے حصول میں ڈیمانڈ نہیں چلتی، جتنی ملی۔صبرکرناپڑتا ہے اورشکرادا کرنا پڑتا ہے! جیسا کہ بنی اسرائیل جب صحرا میں من وسلویٰ جیسی نعمتوں سے بہر ہ ور تھی جو انہیں بغیر کسی مشقت کے رب کی جانب سے مل رہی تھیں انہوں نے لہسن پیاز اور دیگر اس قبیل کی چیزوں کا مطالبہ کیا تو رب نے انہیں وہ دینے کے بجائے انہیں آگے پیش قدمی کا حکم دیا کہ جاؤ کوئی علاقہ فتح کرلو پھر تمہیں وہ سب حاصل ہوگا جس کی تم آرزو کرتے ہو ۔حالانکہ وہ چیزیں اس من و سلویٰ کے مقابلے میں ادنیٰ تھیں پھر بھی رب نے ان کی ڈیمانڈ کو پورا نہ کیا ۔فتدبر! ہمارا حال یہ ہے کہ ضمیر کوسلانے کی کوشش کی جارہی ہے(دوہ چیز جو اول تو اب ہم میں ہے ہی نہیں اوراگر ہے تو شایدبسترمرگ پر اپنی آخری سانسیں لے رہاہو ) ۔یہ بھی نہیں سوچتے نکتہ بعد الوقوع یعنی ناکامی،ذلت ورسوائی کے بعد اگرہم اپنی ناکامی کا ملبہ کسی اورپرڈالیں گے تو اس سے ہماری ناکامی کامیابی میں نہیں بدل جائیگی۔ بلکہ ایسا کرنے سےمزید دوبہت بڑے نقصان رونماہوسکتے ہیں۔ اول ہم اپنے اردگرد کے افراد سے معاشرتی تعلقات بھی خراب کرلیتے ہیں اوربعض اوقات ایسا کرنے میں ہم اپنے مخلص اوردیرینہ دوست کھوبیٹھتے ہیں۔دوم یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جب ہم اپنی خامیوں پر غور ہی نہیں کریں گے، پھران کو تسلیم کیسے کریں گے اور بھلا ان کا تدارک کیسے کریں گے؟ ویسے ہمارے معاشرتی رویہ کا ایک اورعجیب لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہر شخص یہی اعلان کرتا ہوانظرآتاہے کہ میں تو اپنی غلطی تسلیم کرنے والوں میں سے ہوں(شاید اس لئے کہ غلطی تسلیم کرنا ایک اچھائی سمجھا جاتاہے) لیکن غلطی ہوگی تو تسلیم کی جائے ۔ یعنی بالفاظ دیگر مجھ سے تو کوئی غلطی ہوتی ہ نہیں۔یوں کہتے ہوئے اپنی سینکڑوں غلطیوں سے صرف نظرکرتے ہوئے اپنی غلطیوں کا ایک انبار لگاتاجاتاہے اوردوسروں پر الزام۔ اس طرز عمل کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم دوبارہ اس مقام پر آکرپھر شکست کھاجائیں گے کیونکہ ہم اس زعم میں مبتلاہوں گے میں تو سوفیصد صحیح تھا اوریہ ناکامی فلاں فلاں بندوں کی وجہ سے ہے۔ جب میں اپنی غلطی صحیح کرنے کی کوشش ہی نہیں کروں گا تو سائنٹفک فارمولہ کا نتیجہ تو وہی نکلے گا ۔جس کے لئے کسی راکٹ سائنس کی قطعاً حاجت نہیں۔ بیٹا ایک نصیحت غور سے سنو اوراسے گرہ میں باندھ لودوسروں پر الزام تراشی کے بجائے اپنی اصلاح کرو جس سےہر آنے والا لمحہ پہلے سے بہتر ہوگا۔اس موضوع پر Paulo Coelho, Aleph کا ایک بہت خوبصورت قول ہے : It's always easy to blame others. You can spend your entire life blaming the world, but your successes or failures are entirely your own. دوسروں پر الزام لگانا بہت آسان ہے۔تم اپنی پوری عمر دنیا والوں پر الزام لگانے میں صرف کرسکتے ہو لیکن تمہاری کامیابی یا ناکامی وہ صرف تمہاری ہے(یعنی تمہاری کامیابی سے سے دنیا والوں کو کچھ لینا دینا نہیں بلکہ تمہاری کامیابی صرف تمہارے صحیح رویہ پر منحصرہے)۔ قابل غورنکتہ: نیز اس طرز فکر وعمل یعنی دوسروں پر الزام تراشی کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ بسا اوقات انسان الزام تراشی کرتے ہوئے جھوٹ کا مرتکب ہوتاہے کیونکہ وہ دانستہ ونادانستہ خود کو بچانے کے لئے دوسروں پر الزام تراشتاہے جو کہ جھوٹ ہی سے تعبیر کیاجائے گا۔ جس پر اللہ رب العزت نے لعنت ہی فرمائی ہے۔آیت کریمہ ملاحظہ ہو: فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْکٰذِبِيْنَ (آل عمران:61) اورحدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: وَحَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، أَنَّهُ قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ جَبَانًا؟ فَقَالَ: «نَعَمْ» ، فَقِيلَ لَهُ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ بَخِيلًا؟ فَقَالَ: «نَعَمْ» ، فَقِيلَ لَهُ: «أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ كَذَّابًا» ؟ فَقَالَ: «لَا» کیا مومن بزدل ہوسکتاہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، عرض کیا گیا کہ مومن بخیل ہوسکتاہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، پھر آپ ﷺ سے پوچھاگیا کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں(موطا امام مالک) دوسرا بہتان باندھنے کی وجہ سے دوسروں کی دل آزاری ہوتی ہے اورمومن کو جسمانی،ذہنی اورروحانی ایذاپہنچانا بھی ایک گناہ ہے۔ جس کے بارے میں ایک حدیث مبارکہ یہ الفاظ وارد ہوتے ہیں: وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ أَسْكَنَهُ اللّٰهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جوا س میں نہیں تھی تو اللہ اس کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنا ئے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئی بات سے تو بہ کر لے۔(سنن ابی داؤد) عملی پہلو: اصولی طور پر اپنی غلطی تسلیم کی جانی چاہئے کسی بھی شخص سے غلطی سرزد ہوسکتی ہے۔ اچھے انسان کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلے اور اس سے تائب ہوجائے۔ گرے ہوئے دودھ پر آنسو بہانے ، روتے ہوئے دوسروں پر الزام لگانے سے بہتر یہ ہے کہ آئندہ اس غلطی کا تدارک کر لیا جائے اور دودھ گرنے سے بچا لیا جائے تاکہ رونے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ۔ عام فہم الفاظ میں اگر کہا جائے تو الزام تراشی اوردوسروں کے رویہ میں اصلاح کے بجائے اپنی غلطی کی اصلاح کی جائے ،اپنی شخصیت بہتر وکردار نکھاراجائے۔لیکن شاید ہم یہ اس لئے نہیں کرتے کہ یہ کردار سازی کوئی آسان عمل نہیں بلکہ بہت ہی دشوار اورطویل المیعاد عمل ہے۔ اس کے برعکس یہ سب سے آسان ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ ہوجائیں۔بقول الطاف حسین حالی سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے اللہ رب العزت ہمیں اپنی غلطیاں تسلیم کرنے اوران کی اصلاح کرتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار کرے وہ کامیابی جو ہماری کوتاہیوں کے سبب ہم سے روٹھ چکی ہے ۔ آمین     Read the full article
0 notes
minhajbooks · 2 years
Text
Tumblr media
🔰 سیرت نبوی ﷺ کا اصل خاکہ
اِس کتاب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا اَصل خاکہ (Real Sketch) شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتب اور اِفادات و ملفوظات سے مرتب کیا گیا ہے۔ اِس کتاب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی شخصیت، حسن و جمال، سیرت و کردار، اَخلاق و اَوصاف، رحمت و رافت، جود و سخا، عدل و اِنصاف، اِنسانی ہمدردی، محبت و اُلفت اور عظمت و شان کا اَصل خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے ورق ورق اور سطر سطر میں پیغمبر اسلام ﷺ کی حیات بخش، فیض رساں اور انسان دوست سیرت کی نورانی کرنیں پھوٹتی نظر آئیں گی۔ یہ ایمان افروز کتاب سیرت طیبہ پر لکھی جانے والی کتب میں اَہمیت و مؤثریت اور جامعیت کے اِعتبار سے بہت عشق آمیز، روح پرور اور فقید المثال ہے۔
📧 کتاب حاصل کرنے کیلئے رابطہ کریں
https://wa.me/p/6916217205118025/923097417163
📖 کتاب کی خصوصیات و امتیازات
📗 رسول الله ﷺ کی سیرتِ طیبہ صرف عالمِ اِسلام کے لیے نہیں بلکہ پورے عالمِ اِنسانیت کے لیے عظیم نمونۂ حیات ہے۔ آپ ﷺ کی پوری سیرتِ طیبہ کا حقیقی خاکہ اِس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔
📗 رسول الله ﷺ خُلقِ عظيم كے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حسنِ خُلق کی تمام صفات آپ ﷺ کی جبلّت اور طبیعت میں پیدائشی طور پر ودیعت فرما دی تھیں۔
📗 رسول الله ﷺ كى صفتِ رحمت سارى كائنات پر محیط اور غیر محدود طور پر وسیع ہے، جس سے مخلوق كا ہر طبقہ فیض یاب ہوتا رہا ہے اور قيامت تك ہوتا رہے گا؛ بلكہ اختتامِ قيامت تك تمام اُمتیں بھى اِس چشمۂ رحمت سے اپنی تشنگی مٹاتی رہیں گی۔
📗 رسول الله ﷺ کے چہرۂ اَقدس پر ہمیشہ کُشادگی اور بشاشت رہتی تھی۔ آپ ﷺ کے اَخلاق اور برتاؤ میں ہمیشہ نرمی ہوتی، اس لیے آپ ﷺ سے معاملہ کرنا نہایت آسان ہوتا تھا۔ آپ ﷺ طبعاً نرم جُو تھے۔ (گویا آپ ﷺ کی طبیعتِ مقدسہ اور عادتِ مبارکہ میں ہمیشہ نرمی اور لچک ہوتی تھی۔)
📗 رسول الله ﷺ نہ سخت مزاج تھے، اور نہ ہی سخت دل تھے۔ آپ ﷺ نہ تو سختی کے ساتھ اپنی آواز بلند فرماتے، اور نہ ہی کبھی (کسی سے) سخت کلامی فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نہ تو عیب جُو تھے، اور نہ ہی بخیل تھے (یعنی طبیعت میں سخاوت، فراخی اور پردہ پوشی تھی)۔
📗 رسول اللہ ﷺ بہت زیادہ حیا دار تھے۔ آپ ﷺ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو آپ ﷺ وہ عطا فرما دیتے۔ آپ ﷺ پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔
📗 رسول الله ﷺ بچوں، عورتوں اور کمزور و نادار اَفراد کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آتے تھے۔
📗 رسول الله ﷺ کبھی اگلے دن کے لیے کوئی چیز ذخیرہ نہ فرماتے تھے۔ آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی سامانِ خور و نوش ذخیرہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ جب کھانا تناول فرماتے تو اپنے سامنے سے تناول فرماتے۔ آپ ﷺ کا ہاتھ برتن میں اِدھر اُدھر نہیں جاتا تھا (یعنی آپ ﷺ صرف اپنے سامنے سے تناول فرماتے تھے)۔
📗 رسول اللہ ﷺ تحفہ قبول فرما لیتے اور اس کا بدلہ بھی عطا کر دیتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ مریضوں کی عیادت اور اُن کی صحت یابی کے لیے دعا فرماتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نرم برتاؤ کو پسند فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی خوب ترغیب دیتے تھے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جس شخص کی طبیعت کو نرمی میں سے حصۂ وافر دیا گیا اُسے بھلائی کا بڑا حصہ دیا گیا اور جسے نرمی کے حصہ سے محروم رکھا گیا اُسے بھلائی کے حصہ سے محروم رکھا گیا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اے ابن آدم! اپنے رب سے ڈرو، اپنے والدین سے حسنِ سلوک کرو اور صلہ رحمی کرو، تمہاری عمر دراز ہوگی، تمہیں آسانیاں نصیب ہوں گی، تم تنگی و پریشانی سے محفوظ رہو گے اور تمہارے رزق میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ بیٹیوں پر بہت زیادہ رحم فرمانے والے تھے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، وہ اُن سے اچھا سلوک کرے اور اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اُس کے لیے جنت ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ یتیموں کے والی تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یتیم کی پرورش کرنے والا، اگرچہ وہ اُس کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو، وہ اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ راوی (مالک) نے درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی ملا کر اشارہ کیا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کو وہ گھر سب سے زیادہ محبوب ہے جس میں یتیم باعزت (زندگی گزار رہا) ہو۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ بیواؤں اور مساکین پر رحم فرمانے والے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بیوہ عورت اور مسکین کے (کاموں) کے لیے کوشش کرنے والا راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ قیدیوں پر بھی رحمت و شفقت فرمانے والے تھے آپ ﷺ نے فرمایا ہے: بھوکے کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو آزاد کراؤ۔
📗 رسول اللہ ﷺ مریضوں پر شفقت فرمانے والے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: بے شک ایک مسلمان جب اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہاں سے لوٹنے تک مسلسل جنت کے باغ میں رہتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی اپنے بھائی کے لیے اُس کی عدم موجودگی میں دعا کرتا ہے تو ایک فرشتہ (اُس کے لیے دعا کرتا اور) کہتا ہے: تیرے لیے بھی اِس کی مثل ہو (یعنی جس چیز کی دعا تو نے اپنے بھائی کے لیے کی ہے وہ تجھے بھی نصیب ہو)۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: تمہارا اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹکے ہوئے کو راستہ بتانا صدقہ ہے، کسی اندھے کو راستہ دکھانا بھی صدقہ ہے، راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (وغیرہ) ہٹانا بھی صدقہ ہے، اپنے برتن سے دوسرے بھائی کے برتن میں پانی ڈالنا بھی صدقہ ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص دنیا میں کسی کے عیب کا پردہ رکھے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُس کے عیب کا پردہ رکھے گا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے اعلیٰ فضیلت یہ ہے کہ تم اس شخص سے رشتہ جوڑو جو تم سے تعلق توڑتا ہے، اُسے عطا کرو جو تجھے (ضرورت کے وقت) انکار کرتا ہے اور اُس سے درگزر کرو جو تجھے گالی دیتا ہے۔
📗 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ بلحاظِ صورت و خِلقت انسانوں میں سب سے زیادہ حسین تھے۔
📗 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول الله ﷺ کا چہرۂ انور سب سے حسین و جمیل تھا اور رنگت و نگہت سب سے زیادہ (براق اور) روشن تھی۔ جس نے بھی آپ ﷺ کا وصف بیان کیا ہے اورجو ہم تک پہنچا ہے ہر ایک نے آپ ﷺ کے چہرۂ انور کو چودھویں کے چاند سے تشبیہ دی ہے۔ اُن میں سے کوئی کہنے والا یہ کہتا ہے: شاید ہم نے چودھویں رات کا چاند دیکھا۔ کوئی کہتا ہے: حضور نبی اکرم ﷺ ہماری نظروں میں چودھویں رات کے چاند سے بھی بڑھ کر حسین تھے۔ آپ ﷺ کی رنگت و نزہت بہت روشن، اور چہرہ نہایت دل کش اور نورانی تھا۔ یہ روئے انور (زمین پر) یوں جگمگاتا تھا جیسے چودھویں رات کا چاند (آسمان پر) چمکتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ کی رحمت و رافت اور شفقت و عنایت کا اعجاز تھا کہ ہر کہ و مہ کو محسوس ہوتا کہ آپ ﷺ اسی سے مخاطب ہیں۔ ہر شخص اپنی سماعتوں کے دامن اور قلب و نظر کے سفینے میں حکمت و بصیرت، ذکاوت و ذہانت اور دین و دانش کے انمول اور نادر و نایاب موتیوں کو سمیٹتا چلا جاتا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: مجھے کلمات کے آغاز اور اِختتام کا حسن و کمال اور ان کی جامعیت عطا کی گئی ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو کسی کو خوشی و مسرت بہم پہنچانے کا موجب ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو (اُس کے) بندوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جس نے (اِس دنیا میں) کسی مومن کی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اُس سے قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل رفع فرما دے گا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اَعلیٰ مقام تلاش کرو: جو تمہارے ساتھ جہالت سے پیش آئے، تم اس سے بردباری سے پیش آؤ اور جو تمہیں محروم رکھے تم اُسے عطا کرو۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، اللہ تعالیٰ کو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ وہ شخص محبوب ہے جو اس کے کنبہ کے لیے سب سے زیادہ نفع رساں ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں نماز، روزہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) کیوں نہیں! (ضرور بتائیے۔) آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے درمیان صلح کرانا، (کیونکہ) باہمی تعلقات کا بگاڑ اَمن و سلامتی کو تباہ کرنے (اور ظلم و زیادتی کو فروغ دینے) والا عمل ہے (اور قطع رحمی کا باعث بنتا ہے)۔
🔗 https://www.minhajbooks.com/english/book/674/A-Real-Sketch-of-the-Prophet-Muhammad
📲 موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کریں https://get.minhajbooks.com
0 notes
discoverislam · 11 years
Text
AlQuran: If ye had control of the Treasures of the Mercy of my Lord, behold
    فرما دیجئے: اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تب بھی (سب) خرچ ہوجانے کے خوف سے تم
  (اپنے ہاتھ) روکے رکھتے، اور انسان بہت ہی تنگ دل اور بخیل واقع ہوا ہے Say: "If ye had control of the Treasures of the Mercy of my Lord, behold, ye would keep them back, for fear of spending them: for man is (every) niggardly!" سورہ بنی اسرائیل آیت 100
0 notes
rahrahtanz-blog · 5 years
Link
اخبار طنز چیست؟ 
طنز، هنر دیرین آدمی است که دربرخورد با ناسازی های اجتماعی و ناهنجاری های فردی یا برخی حالات فردی و اجتماعی بروز می کند. طنز با برداشت و تعریف های متفاوت معرفی شده است و عموم طنزپردازان سعی کرده اند این هنر را از جلوه های دیگر برخورد با نارسایی ها، کمبودها، بدخلقی ها، خودخواهی های فرد و جمع یا سنت ها و آیین های رایج ناساز مانند هزل، هجو، فکاهه، مزاح و... جدا سازند. در نوشتار زیر، به طنز پرداخته شده است ازنظر لفظ و مفهوم و با ارجاع به منابع عربی و اروپایی. متأسفانه نشانی از جست و جوی نویسنده درمتون زبان فارسی دیده نمی شود. هر دوره ادبی را، سبکی خاص و معروف است که به کمک آن، ادیبان آنچه را که در ذهن و خاطرشان می گذرد، بیان کنند. علاوه براین، ادبیات سلاحی است برّان در دستان فرزندان جامعه برای دفاع از حقوق پایمال شده مردم و دراین میان، سبک و روش طنزآمیز در ادبیات یکی از بهترین سلاح ها برای رسیدن به این هدف است. زیرا زبان «طنز» یکی از روش های بیانی، در ادبیات است که از قدرت تأثیرگذاری فراوانی بر ذهن خواننده یا شنونده برخوردار است. لفظ «طنز» هرچند که در زبان عربی کاربردی در صیغ مختلف دارد اما برای بیان آنچه که معنی لفظ «طنز» فارسی را به زبان عربی بیان کنیم از لفظ «السخریه» استفاده می کنیم و دراصطلاح غربی آن لفظ «آیرونی» )Irony( را معادل قرارمی دهیم. «طنز» در کتاب لغت «لسان العرب» تعریفی این چنینی دارد: طنز به معنی مسخره گرفتن و دست انداختن و «طناز» کسی است که این عمل را به کثرت انجام دهد و چنانچه بخواهد مردمی یا گروهی را نکوهش کنند، گویند «هؤلاء قوم مطنزه» یعنی این که: آن قوم نفس خویش را سبک شمرند و هیچ امید انجام کار نیک از آنان نرود.(1) اما کاربرد اصطلاحی آن، تعریف چنین دارد که:«شکل بیانی از شعر یا نثر است، که در کار یا سخن یا نوشته ای آورده شود و بیانگر معایب و مفاسد و رذایل فرد یا گروهی باشد، به شرط آن که باعث انگیزش خنده در خواننده یا شنونده گردد.»(2) البته دراین تعریف، اختلاف نظر فراوانی وجود دارد، بعضی ها براین عقیده اند که:طنز، بیانگر عیوب یا زشتی ها است، اما این بیان نباید به درجه ای از آزار یا مجروح ساختن احساسات شخصی تبدیل گردد. یعنی طرز بیان به اندازه ای لطیف و با ظرافت آورده شود، که حتی شخص مورد نظر نیز خودرا از آن ویژگی بدور بداند و همراه با دیگران، لبخند بر لب هایش بشکفد. اما در ادبیات غرب کلمه «ایرونیا» (eironeia)، صنعتی بود برای بیان گفتار یکی از شخصیت های کمدی یونان قدیم، معروف به «ایرون» (eiron). این شخصیت از ویژگیهای برخوردار بود که می توان به لاغری، کوتاهی، بدسرشتی و زیرکی باطنی او اشاره کرد و این که همیشه در نبرد با شخصیت «الازون» (alaxon) مغرور و احمق و پیروز بود و به طور معمول سلاح او دراین نبرد، نیرنگ و پنهان نمودن قدرت و زیرکی خود از دیگران بود. (3) نوشته های طنزآمیز، در نزد غربیان، برای اولین بار به وسیله شاعران و نویسندگان یونانی و رومی آغاز شد، از مشهورترین شخصیت های آن دوره، می توان به: اریستوفان (4) (448 -388 ق. م) و هوراسیوس (5) (8، 65 ق. م) و جوفینال (6) (60-140 م ) اشاره کرد. در قرون وسطی می توان آثار طنزی را در بعضی از داستان های «کانتربری» نوشته «چوسر» (7) و در عصر نهضت در نوشته های «رابله» (8) و اثر مشهور «سروانتس» یعنی «دن کیشوت» (9) مشاهده کرد. و در عصر حاضر، طنز به عنوان هنری قائم به ذات، جایگاه خود را در ادبیات غربی یافته و ادیبان برجسته در این هنر، مشهور گشتند، همانند: آنتوان چخوف (10)، آناتول فرانس (11)، برنارد شاو (12)، ادوارد آلبی و گونترکراس. چنانچه بخواهیم تعریف دقیقی از «طنز» داشته باشیم. باید گفت: «طنز»، گونه ای از هجو است، با این تفاوت، که درهجو به طور معمول زبان گفتاری یا نوشتاری، برنده تر و تلخ تر وبه صورت مستقیم (FORMAL) است و شخص یا گروه موردنظر، به طور مستقیم موردعیب و نکوهش قرار می گیرند. اما در طنز، روش بیان غیر مستقیم (INFORMAL) است و طنزگو، تنها عیوب را به طور کلی بر می شمارد و نمایان می سازد، در حالی که شخص یا گروه مورد نظر مضحکه و مورد تحقیر دیگران قرار میگیرند اما خنده بر لبانشان شکوفاست، از این گذشته طنز صراحت بیان هجا را ندارد. از سوی دیگر، گروهی گمان می برند که لفظ طنز معادل لفظ کمدی است. در واقع این گفتار صحیح نیست، درست است که وجه اشتراکی بین این دو وجود دارد و آن خندیدن است ولی در طنز از پس هرخنده، هدف و فلسفه ای نهفته است اما در کمدی خنده برای خنده است، پس می توان گفت که طنز وسیله ای جهت رسیدن به هدف است نه خود هدف. در نوشته های طنزآمیز، شخص ادیب یا هنرمند، به طور معمول شخص خاصی یا گروهی یا ملتی یا قومیتی را مورد هدف خویش قرار می دهد و گاهی نویسنده قهرمان، داستان هایش را مورد طنز و سخریه قرار می دهد و احتمال دارد که یک نویسنده خود را نیز مسخره و در زیر شلاق های طنز خویش، قرار دهد تا به هدف مطلوب دست یابد. که در این صورت همانطور که ادونیس (13) می گوید: «نویسنده باید خیلی انسان شریف و بزرگواری باشد تا خود را مسخره و مورد طنز قرار دهد تا به هدف مورد نظر دست یابد. زیرا معمولاً انسان سعی می کند دوست، همسایه یا هر کس دیگر جز خویشتن را سوژه ای برای طنز خود قرار دهد». (14) اگر بخواهیم انگیزه های روی آوردن به طنزگویی را بیان کنیم می توان یکی از علل زیر را برای روی آوردن نویسنده به طنز برشمریم: 1- گاهی استفاده از طنز در نزد یک شاعر یا نویسنده، نوعی از انتقام است، که شاعر به سبب اهانت ها و خواری هایی که بر او روا شده، مورد استفاده قرار می دهد. «طنز بیانگر یک حالت روحی است، بدین شکل که جامعه با عدم توجه و بی اهمیت شمردن شاعر، او را خرد می کند و شاعر درمقابل با روی آوردن به طنز و سخریه از آنان انتقام می ستاند». (15) 2- عده ای دیگر از شاعران یا ادیبان «طنز» را سلاحی برای دست یافتن به حقوق از دست رفته خویش - حداقل در تصور شاعر - می دانند. 3- گروه دیگر از ادیبان «طنز» را روش مناسبی برای آگاه ساختن یا مجازات ظالمان و اشرار می دانند، بدون آن که بخواهند خویشتن را در معرض خطر قرار دهند. 4- و بعضی اوقات شاعر «طنز» را وسیله ای برای جبران آنچه که خود از آن محروم است، زیبایی ظاهری، ثروت، مقام و... به شمار می آورند. این چند مورد، بعضی از انگیزه های روی آوردن شاعران و ادیبان به طنز است که با توجه به محدودیت موضوع مقاله نمی توان بیش از این، آن را گسترد. «طنز و مردم» دستاوردهای فکری هر ملتی، به طور معمول، درنوشته های مختلف آنان که درباره اتفاقات حقیقی و واقعی آورده می شود به وسیله نویسندگان عرضه می شوند و می توان آن اتفاقات را درنوشته های آنان به روشنی یافت. بدون شک این نوشته ها، که بیانگر گرایش های هر ملت است با یکدیگر متفاوتند، زیرا هرگروه یا جامعه ای گرایش خاص خود را داراست. از این جهت می توان گفت: که: هر ملتی طنز و طنزسرایان خاص خود را دارد زیرا هر جامعه ای صفات و ویژگیهای خود را داراست که با دیگران متفاوت است. به عنوان مثال، قوم عرب به بلاغت درسخن وری شهره اند و این صفت،اغلب مایع طنزی درنزد نویسندگان و شاعران ازقدیم الایام بوده است و تأکیدی بر این نکته است که طنز هر قومی، تحت تأثیر محیطی است که درآن زندگی می کنند. از سوی دیگر، اگر به دلالت های اخلاقی طنز بنگریم، خواهیم یافت که: طنز بیانگر رابطه شخص با برادر، فرزند، دوست، میهمان و حتی رابطه شخص با خودش، است. و از خلال آن می توان عادات و رسوم افراد یک قوم را در منزل و خارج از آن، درسفر، عزا، عروسی، مورد بررسی قرارداد. و رفتار و برخورد انسان های ثروتمند و فقیر و قاضی و بازرگان و پیر وجوان را ارزیابی کنیم. نکته دیگری که باید به آن توجه داشت این که،اقوام مختلف هریک ممکن است صفتی را ناپسند و نکوهیده بپندارند، درصورتی که همان صفت در نزد اقوام دیگر صفت ناپسندی به شمار نیاید. به عنوان مثال، قوم عرب بخل را نمی پسندند و انسان بخیل را، به ریشخند می گیرند، درحال که اهالی اسکاتلند یا یهودیان آنچه را که عرب بخل می داند، صرفه جویی و دوراندیشی می دانند و ممکن است بسیاری از کارهایی که درنزد مردم اسپانیا، شجاعت و دلاوری نامیده می شود درنزد ملت های دیگر، نوعی حماقت و خیره سری به شمار آید. درپایان ذکر این نکته به عنوان افق هایی جهت بحث و پژوهش درهنر طنز برای کسانی که قصد تعمق و تفحص دراین صنعت را، چه در ادبیات فارسی یا عربی و هر ادبیات دیگر دارند، می تواند راهگشا باشد. 1-طنزگویی و طنزنویسی درگونه های مختلف ادبی آن (شعر، نثر، کاریکاتور، نمایشنامه و...) صنعت ادبی نو خواسته ای درعصر حاضر نیست، بلکه ریشه های عمیقی دردوره های پیشین ادبی دارد. 2-فرهنگها و تمدن های مختلف تاثیرات گوناگونی را بر ذوق طنزآمیز یکدیگر برجای نهاده اند. که می توان آن را از خلال بررسی این گونه متون در فرهنگهای مختلف به دست آورد. 3- اوضاع سیاسی، اجتماعی، اقتصادی وفرهنگی تأثیر به سزایی دربیان اندیشه ها و احساسات به روش طنزآمیز داشته است. 4-روی آوردن به سبک های طنزآمیز توسط نویسندگان و شاعران، اغلب وسیله ای مناسب جهت گرفتن انتقام ازطرف مقابل بوده است، که به طور مفصل دراین زمینه سخن به میان آمد. 5- بیان و شرح هر موضوعی به روش طنزآمیز، باعث می گردد که خوانندگان، خواص و عوام، با علاقه و عشق فراوانی بحث را دنبال کنند.
0 notes
nighatnaeem · 5 years
Text
Tumblr media
آج جھوٹ کا دور ہے۔۔۔مگر اٹل نہیں۔۔۔باطل کیتنا ہی طاقتور ہو جاے۔۔ حق کو دبا نہیں سکتا۔۔ منافق اور بخیل انسان۔۔۔کی آخرت دردناک ہے۔۔ 😏😠😡نعیم۔
♈ن👤
0 notes
Photo
Tumblr media
‏‎ 💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐 🌹🌹آثار #فقر از دیدگاه امیرالمومنین علی علیه السلام 8⃣◀️ فقر و انحراف اخلاقی 👇 💢زشتی اخلاق یعنی دچار دنائت طبع و صفات پست نفسانی شدن و نیز انجام رفتارهایی که از این صفات سرچشمه گرفته اند. حضرت علی علیه السلام نیز به صورت مکرر فرموده است فقر باعث کارهای زشت می شود. 🔹«العسر یشین الاخلاق» تنگدستی اخلاق را زشت می کند(غرر الحکم جلد 2) 🔹«المسکنه مفتاح البوس»؛ ناداری کلید نکبت است(بحارالانوار جلد 87) 💢امام علی(ع) همچنین در توصیه ای به امام حسن مجتبی(ع) می فرماید: 🔹انسانی را که طلب روزی خود می کند ملامت مکن؛ چه هر کس روزی خود و خانواده خود را نداشته باشد، خطاهایش فزون می گردد به هر حال، روایات مزبور با لحن قاطع این حقیقت را اعلام می کنندکه فقر بر رفتار و خصوصیات اخلاقی فرد تاثیر بسیار منفی دارد. 9⃣◀️ فقدان منزلت اجتماعی 👇 💢در بعضی از روایات بر این نکته تاکید شده است که فقر موجب حقارت می گردد. حضرت علی(ع) می فرماید: 🔹«الفقر یخرس الفطن عن حجته»؛ فقیر از بیان دلیلش عاجز است 📚نهج البلاغه، حکمت 3 💢حضرت علی(ع) همچنین خطاب به فرزند خود می فرماید: 🔹پسرم! کلام فقیر شنیده نمی شود و مقام او شناخته نمی گردد. آن حضرت در چند فرمایش جداگانه می فرماید: 🔹هر کس فقیر باشد از مقام و موقعیتی برخوردار نیست و کوچک و خوار شمرده می شود. محرومیت باعث خواری است. 0⃣1⃣◀️ فقر و انزوای سیاسی 👇 💢 انسان های فقیر، معمولا در مراکز قدرت جایگاهی ندارند، چرا که برای شرکت در رقابت های سیاسی؛ توان مالی نداشته و نفوذ و تاثیر چندانی در میان توده های مردم نمی توانند داشته باشند. 🌹امام علی(ع): 🔹الفقیر حقیر لایسمع کلامه و لا یعرف مقامه [فقیر در چشم مردم] بی مقدار است؛ نه سخنش شنیده می شود و نه جایگاهش شناخته می شود 📚نهج البلاغه، حکمت 44 💜💥اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ 💚⭐️وآلِ مُحَمَّدٍ ♥️🌙وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ 🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷 👌دختران مومن سه ویژگی دارند: 【متکبر،بخیل و ترسو هستند!】 💗✨ﺍمیرالمؤمنین ﻋﻠﯽ علیه السلام ﻣﯽ ﻓﺮﻣﺎﯾﻨﺪ:ﺯﻧﺎﻥ ﻭ ﺩﺧﺘﺮﺍﻥ ﻣﻮﻣﻦ ﺑﺎﯾﺪ ﺍﯾﻦ ﺳﻪ ﺻﻔﺖ ﺭﺍ ﮐﻪ ﺑﺮﺍﯼ ﻣﺮﺩﺍﻥ ﺑﺪ ﺍﺳﺖ،ﺩﺍﺷﺘﻪ ﺑﺎﺷﻨﺪ... ➊⇜ﺍﻭﻝ ﺍﯾﻨﮑﻪ ﻣﺘﮑﺒﺮ ﺑﺎﺷﻨﺪ ➋⇜ﺩﯾﮕﺮ ﺍﯾﻨﮑﻪ ﺗﺮﺳﻮ ﺑﺎﺷﻨﺪ ➌⇜ﺳﻮﻡ ﻫﻢ ﺍﯾﻨﮑﻪ ﺑﺨﯿﻞ ﺑﺎﺷﻨﺪ ✨🕊ﺍﻣﺎ ﺍﯾﻨﮑﻪ ﻣﺘﮑﺒﺮ ﺑﺎﺷﻨﺪ ﯾﻌﻨﯽ ﺩﺭ ﻣﻘﺎﺑﻞ ﻧﺎﻣﺤﺮﻡ ﺑﺎ ﻗﺎﻃﻌﯿﺖ ﻭ ﺗُﺮﺷﺮﻭﯾﯽ ﺻﺤﺒﺖ ﮐﻨﻨﺪ ﻭ ﺍﺯ ﺣﺮﻑ ﺯﺩﻥ ﺑﺎ ﻋِﺸﻮﻩ ﻭ ﺗﺒﺴﻢ ﮐﻪ ﺩﯾﮕﺮﺍﻥ ﺭﺍ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﻣﯿ ﮑﻨﺪ ﺑﭙﺮﻫﯿﺰﻧﺪ... ﻣﻨﻈﻮﺭ ﺍﺯ ﺗﺮﺱ ﻫﻢ ﺗﺮﺱ ﺍﺯ ﺗﻨﻬﺎ ﺑﻮﺩﻥ ﻭ ﺗﻨﻬﺎ ﻣﺎﻧﺪﻥ ﺑﺎ ﺷﺨﺼﯽ ﺍﺳﺖ ﮐﻪ ﻋﻨﻮﺍﻥ ﻧﺎﻣﺤﺮﻡ ﺩﺍﺭﺩ... ﺍﻣﺎ ﺍﯾﻨﮑﻪ ﺑﺨﯿﻞ ﺑﺎﺷﺪ ﯾﻌﻨﯽ ﺩﺭ ﺣﻔﻆ ﻣﺎل ﺧﻮﺩ‎‏ https://www.instagram.com/p/CKeG4pnBwz5/?igshid=13dqfiynbau8q
0 notes
myasirkh90-blog · 6 years
Video
حقیقت یہ ہے کہ انسان بہت کم حوصلہ پیدا کیا گیا ہے۔ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جاتا ہے۔ اور جب اس کے پاس خوشحالی آتی ہے تو بہت بخیل بن جاتا ہے۔ مگر وہ نمازی ایسے نہیں ہیں۔جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں۔ 📚 سورة المعارج 19 - 23۔ 🎙 قارئ عبدالعزيز الزهراني۔
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years
Text
مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو
اللہ تعالیٰ ہی سے اپنی تمام تر حاجات اور ساری ضروریات (خواہ ان کا تعلق دنیا سے ہو یا آخرت سے) مانگنا شریعت میں دعا کہلاتا ہے۔ اللہ رب العزت ہی حاجت روا اور مشکل کشا ہیں، اللہ کے علاوہ نہ تو کوئی حاجت روا ہے اور نہ ہی مُشکل کشا۔ صرف وہی ذات ہمیں فائدہ پہنچا سکتی اور نقصان سے بچا سکتی ہے۔ ہم سب اس کے مملوک اور وہ ذات ہم سب کی
مالک ہے۔ ہم سب اس کے در کے فقیر اور محتاج ہیں، وہ غنی اور وہاب ذات ہے، ہم مانگنے والے اور وہ دینے والا ہے۔ ال غرض ہم بندے ہیں اور وہ آقا ہے۔ اس کریم ذات کا محض اتنا کرم ہی کافی ہے کہ وہ ہم جیسے نالائق، غیر مستحق بل کہ قابلِ سزا و عتاب لوگوں کو اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے، لیکن یہاں تک معاملہ صرف کرم کا ہے اب اْس کرم کی انتہا تو دیکھیے کہ جو اس سے دعا نہ مانگے وہ ذات اس سے ناراض ہوجاتی ہے۔ایک حدیث پاک میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : ’’ جو شخص اللہ سے (دعا) نہیں مانگتا تو اس پر اللہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ ( جامع الترمذی، باب ماجاء فی فضل الدعاء، حدیث نمبر 3295)
یہ دستورِ دنیا کے بالکل برعکس ہے، کیوں کہ دنیا والوں سے مانگو تو ناراض اور نہ مانگو تو خوش ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہم اس ذات سے اپنی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے کی دعا نہ مانگیں تو بتائیے ہم سے زیادہ بے عقل اور کون ہوگا ؟ اس لیے ہمیں اپنی ضروریات کے حل کے لیے دعا کی اہمیت کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ یوں تو مسلمان کے لیے صرف اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مملوک اور بندہ ہے، اس لیے اسے اللہ سے اپنی حاجات اور ضروریات کو مانگنا چاہیے۔ مزید یہ کہ اگر غور کیا جائے تو کئی وجوہات ایسی ہیں کہ جن کا بھی تقاضا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگنی چاہیے۔ ان میں سے چند یہ ہیں : 1 رحمٰن و رحیم قرآن کریم میں ہے: اَلرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ۔ (سورہ الفاتحہ، آیت نمبر 2) یہ بات بالکل واضح ہے کہ بے رحم سے کچھ نہیں مانگا جاتا، رحم کرنے والے سے ہی مانگا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات تو صرف رحم کرنے والی ہی نہیں، بل کہ بے حد رحم کرنے والی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ دعا صرف اسی سے مانگی جائے جو بے حد رحم کرنے والا ہے۔
2 : قدرت کاملہ قرآن کری�� میں ہے، مفہوم: اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 20) جس ذات سے مانگنا ہے اس کے لیے قدرت والا ہونا بھی ضروری ہے اگر اس کی قدرت ہی نہ ہو تو دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں، وہ مرادیں کیسے پوری کرے گا ؟ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دعا اس سے کی جائے جس کو ہر کام کی مکمل قدرت ہو اور وہ ذات سوائے اللہ رب العزت کے اور کسی کی نہیں۔
3 : قبولیت: اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو فرماتے ہیں، مفہوم : ’’ اے میرے پیغمبر(ﷺ) ! جب کوئی آپ سے میرے بارے میں سوال کرے تو (آپؐ فرما دیں کہ ) میں قریب ہوں، جب کوئی دعا کرنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں قبول کرتا ہوں۔‘‘ اس کا تقاضا ہے کہ انسان کو ہر وقت اللہ ہی سے مانگنا چاہیے۔
4 : الحی القیوم بے جان اور کم زور کسی کو کیا دے سکتا ہے اور ایسا زندہ جس کو ہر وقت مرنے کا دھڑکا لگا رہتا ہو، وہ کسی کی حاجت روائی کیسے کرسکتا ہے۔ اس لیے دعا اس ذات سے مانگنی چاہیے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے، قوت و طاقت والا ہے، کم زور نہیں ہے یعنی اس سے دعا کی جائے جو ’’ الحی القیوم ‘‘ ہے اور وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔
5 : غنی کریم ظاہر سی بات ہے کہ جو خود کسی دوسرے کا محتاج ہو اس سے کیا مانگنا ؟ مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو۔ اس لیے دست دعا بھی اس کے سامنے دراز کرنا چاہیے۔ غنی کے ساتھ اس کا کریم ہونا بھی ضروری ہے۔ کریم کا مقابل بخیل ہوتا ہے، بخیل سے کچھ نہیں مانگا جاتا اور مانگ بھی لیا جائے تو بخیل نہیں دیتا، اگر دے بھی دے تو ضرورت سے کم دیتا ہے۔ کریم وہ ذات ہے جو استحقاق کے بغیر بھی نواز دے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ہی در کا محتاج بناکر غیروں کی محتاجی سے محفوظ فرمائے۔ آمین
The post مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2Bltd2C via Daily Khabrain
0 notes
newestbalance · 6 years
Text
مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو
اللہ تعالیٰ ہی سے اپنی تمام تر حاجات اور ساری ضروریات (خواہ ان کا تعلق دنیا سے ہو یا آخرت سے) مانگنا شریعت میں دعا کہلاتا ہے۔ اللہ رب العزت ہی حاجت روا اور مشکل کشا ہیں، اللہ کے علاوہ نہ تو کوئی حاجت روا ہے اور نہ ہی مُشکل کشا۔ صرف وہی ذات ہمیں فائدہ پہنچا سکتی اور نقصان سے بچا سکتی ہے۔ ہم سب اس کے مملوک اور وہ ذات ہم سب کی
مالک ہے۔ ہم سب اس کے در کے فقیر اور محتاج ہیں، وہ غنی اور وہاب ذات ہے، ہم مانگنے والے اور وہ دینے والا ہے۔ ال غرض ہم بندے ہیں اور وہ آقا ہے۔ اس کریم ذات کا محض اتنا کرم ہی کافی ہے کہ وہ ہم جیسے نالائق، غیر مستحق بل کہ قابلِ سزا و عتاب لوگوں کو اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے، لیکن یہاں تک معاملہ صرف کرم کا ہے اب اْس کرم کی انتہا تو دیکھیے کہ جو اس سے دعا نہ مانگے وہ ذات اس سے ناراض ہوجاتی ہے۔ایک حدیث پاک میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : ’’ جو شخص اللہ سے (دعا) نہیں مانگتا تو اس پر اللہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ ( جامع الترمذی، باب ماجاء فی فضل الدعاء، حدیث نمبر 3295)
یہ دستورِ دنیا کے بالکل برعکس ہے، کیوں کہ دنیا والوں سے مانگو تو ناراض اور نہ مانگو تو خوش ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہم اس ذات سے اپنی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے کی دعا نہ مانگیں تو بتائیے ہم سے زیادہ بے عقل اور کون ہوگا ؟ اس لیے ہمیں اپنی ضروریات کے حل کے لیے دعا کی اہمیت کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ یوں تو مسلمان کے لیے صرف اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مملوک اور بندہ ہے، اس لیے اسے اللہ سے اپنی حاجات اور ضروریات کو مانگنا چاہیے۔ مزید یہ کہ اگر غور کیا جائے تو کئی وجوہات ایسی ہیں کہ جن کا بھی تقاضا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگنی چاہیے۔ ان میں سے چند یہ ہیں : 1 رحمٰن و رحیم قرآن کریم میں ہے: اَلرّ��حمٰنِ الرَّحِیمِ۔ (سورہ الفاتحہ، آیت نمبر 2) یہ بات بالکل واضح ہے کہ بے رحم سے کچھ نہیں مانگا جاتا، رحم کرنے والے سے ہی مانگا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات تو صرف رحم کرنے والی ہی نہیں، بل کہ بے حد رحم کرنے والی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ دعا صرف اسی سے مانگی جائے جو بے حد رحم کرنے والا ہے۔
2 : قدرت کاملہ قرآن کریم میں ہے، مفہوم: اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 20) جس ذات سے مانگنا ہے اس کے لیے قدرت والا ہونا بھی ضروری ہے اگر اس کی قدرت ہی نہ ہو تو دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں، وہ مرادیں کیسے پوری کرے گا ؟ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دعا اس سے کی جائے جس کو ہر کام کی مکمل قدرت ہو اور وہ ذات سوائے اللہ رب العزت کے اور کسی کی نہیں۔
3 : قبولیت: اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو فرماتے ہیں، مفہوم : ’’ اے میرے پیغمبر(ﷺ) ! جب کوئی آپ سے میرے بارے میں سوال کرے تو (آپؐ فرما دیں کہ ) میں قریب ہوں، جب کوئی دعا کرنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں قب��ل کرتا ہوں۔‘‘ اس کا تقاضا ہے کہ انسان کو ہر وقت اللہ ہی سے مانگنا چاہیے۔
4 : الحی القیوم بے جان اور کم زور کسی کو کیا دے سکتا ہے اور ایسا زندہ جس کو ہر وقت مرنے کا دھڑکا لگا رہتا ہو، وہ کسی کی حاجت روائی کیسے کرسکتا ہے۔ اس لیے دعا اس ذات سے مانگنی چاہیے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے، قوت و طاقت والا ہے، کم زور نہیں ہے یعنی اس سے دعا کی جائے جو ’’ الحی القیوم ‘‘ ہے اور وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔
5 : غنی کریم ظاہر سی بات ہے کہ جو خود کسی دوسرے کا محتاج ہو اس سے کیا مانگنا ؟ مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو۔ اس لیے دست دعا بھی اس کے سامنے دراز کرنا چاہیے۔ غنی کے ساتھ اس کا کریم ہونا بھی ضروری ہے۔ کریم کا مقابل بخیل ہوتا ہے، بخیل سے کچھ نہیں مانگا جاتا اور مانگ بھی لیا جائے تو بخیل نہیں دیتا، اگر دے بھی دے تو ضرورت سے کم دیتا ہے۔ کریم وہ ذات ہے جو استحقاق کے بغیر بھی نواز دے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ہی در کا محتاج بناکر غیروں کی محتاجی سے محفوظ فرمائے۔ آمین
The post مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2Bltd2C via Urdu News
0 notes
dani-qrt · 6 years
Text
مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو
اللہ تعالیٰ ہی سے اپنی تمام تر حاجات اور ساری ضروریات (خواہ ان کا تعلق دنیا سے ہو یا آخرت سے) مانگنا شریعت میں دعا کہلاتا ہے۔ اللہ رب العزت ہی حاجت روا اور مشکل کشا ہیں، اللہ کے علاوہ نہ تو کوئی حاجت روا ہے اور نہ ہی مُشکل کشا۔ صرف وہی ذات ہمیں فائدہ پہنچا سکتی اور نقصان سے بچا سکتی ہے۔ ہم سب اس کے مملوک اور وہ ذات ہم سب کی
مالک ہے۔ ہم سب اس کے در کے فقیر اور محتاج ہیں، وہ غنی اور وہاب ذات ہے، ہم مانگنے والے اور وہ دینے والا ہے۔ ال غرض ہم بندے ہیں اور وہ آقا ہے۔ اس کریم ذات کا محض اتنا کرم ہی کافی ہے کہ وہ ہم جیسے نالائق، غیر مستحق بل کہ قابلِ سزا و عتاب لوگوں کو اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے، لیکن یہاں تک معاملہ صرف کرم کا ہے اب اْس کرم کی انتہا تو دیکھیے کہ جو اس سے دعا نہ مانگے وہ ذات اس سے ناراض ہوجاتی ہے۔ایک حدیث پاک میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : ’’ جو شخص اللہ سے (دعا) نہیں مانگتا تو اس پر اللہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ ( جامع الترمذی، باب ماجاء فی فضل الدعاء، حدیث نمبر 3295)
یہ دستورِ دنیا کے بالکل برعکس ہے، کیوں کہ دنیا والوں سے مانگو تو ناراض اور نہ مانگو تو خوش ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہم اس ذات سے اپنی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے کی دعا نہ مانگیں تو بتائیے ہم سے زیادہ بے عقل اور کون ہوگا ؟ اس لیے ہمیں اپنی ضروریات کے حل کے لیے دعا کی اہمیت کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ یوں تو مسلمان کے لیے صرف اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مملوک اور بندہ ہے، اس لیے اسے اللہ سے اپنی حاجات اور ضروریات کو مانگنا چاہیے۔ مزید یہ کہ اگر غور کیا جائے تو کئی وجوہات ایسی ہیں کہ جن کا بھی تقاضا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگنی چاہیے۔ ان میں سے چند یہ ہیں : 1 رحمٰن و رحیم قرآن کریم میں ہے: اَلرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ۔ (سورہ الفاتحہ، آیت نمبر 2) یہ بات بالکل واضح ہے کہ بے رحم سے کچھ نہیں مانگا جاتا، رحم کرنے والے سے ہی مانگا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات تو صرف رحم کرنے والی ہی نہیں، بل کہ بے حد رحم کرنے والی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ دعا صرف اسی سے مانگی جائے جو بے حد رحم کرنے والا ہے۔
2 : قدرت کاملہ قرآن کریم میں ہے، مفہوم: اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 20) جس ذات سے مانگنا ہے اس کے لیے قدرت والا ہونا بھی ضروری ہے اگر اس کی قدرت ہی نہ ہو تو دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں، وہ مرادیں کیسے پوری کرے گا ؟ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دعا اس سے کی جائے جس کو ہر کام کی مکمل قدرت ہو اور وہ ذات سوائے اللہ رب العزت کے اور کسی کی نہیں۔
3 : قبولیت: اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو فرماتے ہیں، مفہوم : ’’ اے میرے پیغمبر(ﷺ) ! جب کوئی آپ سے میرے بارے میں سوال کرے تو (آپؐ فرما دیں کہ ) میں قریب ہوں، جب کوئی دعا کرنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں قبول کرتا ہوں۔‘‘ اس کا تقاضا ہے کہ انسان کو ہر وقت اللہ ہی سے مانگنا چاہیے۔
4 : الحی القیوم بے جان اور کم زور کسی کو کیا دے سکتا ہے اور ایسا زندہ جس کو ہر وقت مرنے کا دھڑکا لگا رہتا ہو، وہ کسی کی حاجت روائی کیسے کرسکتا ہے۔ اس لیے دعا اس ذات سے مانگنی چاہیے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے، قوت و طاقت والا ہے، کم زور نہیں ہے یعنی اس سے دعا کی جائے جو ’’ الحی القیوم ‘‘ ہے اور وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔
5 : غنی کریم ظاہر سی بات ہے کہ جو خود کسی دوسرے کا محتاج ہو اس سے کیا مانگنا ؟ مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو۔ اس لیے دست دعا بھی اس کے سامنے دراز کرنا چاہیے۔ غنی کے ساتھ اس کا کریم ہونا بھی ضروری ہے۔ کریم کا مقابل بخیل ہوتا ہے، بخیل سے کچھ نہیں مانگا جاتا اور مانگ بھی لیا جائے تو بخیل نہیں دیتا، اگر دے بھی دے تو ضرورت سے کم دیتا ہے۔ کریم وہ ذات ہے جو استحقاق کے بغیر بھی نواز دے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ہی در کا محتاج بناکر غیروں کی محتاجی سے محفوظ فرمائے۔ آمین
The post مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2Bltd2C via Urdu News
0 notes