Tumgik
#انکم
usmansani · 2 years
Text
ویب ٹاک اپنے صارفین کے ساتھ اپنی آمدنی بانٹتی ہے
ویب ٹاک اپنے صارفین کے ساتھ اپنی آمدنی بانٹتی ہے
ویب ٹاک فلوریڈا میں مقیم اگلی نسل کی آل ان ون سوشل نیٹ ورکنگ ایپ ہے جو اپنے منفرد الحاق پروگرام کا استعمال کرتے ہوئے اپنے صارفین کے ساتھ اپنی آمدنی بانٹتی ہے۔یہ پروگرام 10% ادا کرتا ہے ویب ٹاک اشتہار کی آمدنی ان مواد کے مالکان کو جن سے مواد کے اشتہارات استعمال کیے گئے تھے اور مواد کے مالکان کے کفیلوں کو۔ اس کے علاوہ، سپانسرز کو دیگر کا 10% ادا کیا جاتا ہے ویب ٹاک اندر اندر مصنوعات اور خدمات کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 14 days
Text
انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی آخری تاریخ 30 ستمبر مقرر
ایف بی آر نے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی آخری تاریخ 30 ستمبر مقررکردی۔ ایف بی آر کے مطابق انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی تاریخ میں توسیع نہیں کی جائے گی۔ٹیکس دہندگان کے لیے 30 ستمبر 2024 تک کے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروائیں،ابتک تقریبا 14 لاکھ 25 ہزار افراد نے مالی سال 2024 کے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرا دیے ہیں۔سالانہ 6 لاکھ روپے سے زیادہ آمدن والے افراد ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کے پابند ہیں۔گھر،…
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
بینظیر انکم سپورٹ سمیت سماجی بہبود کے پروگرام جاری رکھے جانے چاہئیں، آئی ایم ایف
آئی ایم ایف نے بینظیر انکم کارڈ سمیت سماجی بہبود کے پروگرام جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں  کمزور طبقے کے سماجی تحفظ کے زیادہ اقدامات کرنے چاہیئں،منتخب حکومت مالی سال کے آخر تک سماجی تحفظ کے اخراجات جاری رکھے،پروگرام میں تقسیم کے طریقہ کار اور شفافیت کو بہتر بنانے کی گنجائش ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہےکہ کمزور طبقے کے لیے پروٹیکٹڈ بجلی اور گیس ٹیرف سلیب جاری رہنا چاہئے،رواں مالی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
ikarachitimes · 2 years
Text
ایف بی ار نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ میں 31 اکتوبر تک توسیع کردی یاد رہے گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ 30 ستمبر تھی. https://t.co/FDi7d6KCjf
ایف بی ار نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ میں 31 اکتوبر تک توسیع کردی یاد رہے گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ 30 ستمبر تھی. https://t.co/FDi7d6KCjf
— Karachi_Times (@Karachi_Times) Sep 30, 2022
from Twitter https://twitter.com/Karachi_Times
2 notes · View notes
Text
با تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس قصور
محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب
٭٭٭٭٭
وزیر اعلی پنجاب کے احکامات کی روشنی میں عوامی مسائل کے بروقت حل کیلئے اوپن ڈور پالیسی پر عملدرآمد جاری‘
ڈپٹی کمشنر قصور کیپٹن ریٹائرڈ اورنگزیب حیدر خان نے اپنے دفتر میں شہریوں کے مسائل سنے اور فوری حل کیلئے احکامات جاری کئے
قصور(20ستمبر 2024ء)وزیر اعلی پنجاب کے احکامات کی روشنی میں ضلع قصور میں عوامی مسائل کے بروقت حل کیلئے اوپن ڈور پالیسی پر عملدرآمد جاری‘ڈپٹی کمشنر قصور کیپٹن ریٹائرڈ اورنگزیب حیدر خان نے اپنے دفتر میں شہریوں کے مسائل سنے اور فوری حل کیلئے متعلقہ افسران کو احکامات جاری کئے۔ڈپٹی کمشنر نے سیوریج، ریونیو، صفائی ستھرائی اور دیگر عوامی مسائل کے فوری حل کیلئے متعلقہ افسران کو ہدایات دیں۔ پنجاب حکومت کی ہدایت پر اوپن ڈور پالیسی کے تحت روزانہ صبح 10بجے سے ساڑھے 11بجے تک تمام ضلعی افسران عوامی مسائل سنا کرینگے۔تمام افسران مختص اوقات کے دوران اپنے دفاتر میں بیٹھیں گے اور سائلین کو ہر ممکن ریلیف فراہم کرینگے۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ اورنگزیب حیدر خان کا کہنا تھا کہ عوام کے مسائل کا حل اور شکایات کا فوری ازالہ پنجاب حکومت کی پالیسی اور ضلعی انتظامیہ کی اولین ذمہ داری ہے۔ سائلین کی شکایات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے گی۔اوپن ڈور پالیسی کے مطابق میرے دفتر کے دروازے عوام الناس کے مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے ضلعی افسران کو لوگوں کے مسائل کو میرٹ اور قانونی تقاضوں کے مطابق فوری حل کرنے کا حکم دیا۔ ڈپٹی کمشنر کا مزید کہنا تھا کہ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار عوام الناس کو ریلیف فراہم کرنے کا سلسلہ روزانہ کی بنیادوں پر جاری رہے گا۔ شہری اپنے مسائل کے حل کیلئے سرکاری دفاتر میں تشریف لائیں تاکہ انہیں فوری ریلیف فراہم کیا جاسکے۔
٭٭٭٭٭
اسسٹنٹ کمشنر کے بے نظیر انکم سپورٹ سینٹروں کے دورے‘خواتین میں رقوم کی تقسیم سمیت دیگر سہولیات کا جائزہ لیا
قصور(20ستمبر 2024ء)ڈپٹی کمشنر قصور کے حکم پر اسسٹنٹ کمشنر زقصور عطیہ عنایت مدنی اور کوٹ رادھاکشن ڈاکٹر محمد انس سعید کے بے نظیر انکم سپورٹ سینٹرز کے دورے‘مستحقین خواتین میں رقوم کی تقسیم سمیت دیگر سہولیات کا جائزہ لیا۔ اسسٹنٹ کمشنر قصور عطیہ عنایت مدنی نے شہبازشریف سپورٹس کمپلیکس اور اسسٹنٹ کمشنر کوٹ رادھاکشن ڈاکٹر محمد انس سعید نے گھنیکے میں قائم قائم بی آئی ایس پی سینٹروں کادورہ کر کے وہاں پر مستحق خواتین میں رقوم کی تقسیم سمیت دیگر سہولیات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے سینٹر ز انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ سینٹرز پر مستحقین میں منظم و شفاف انداز میں رقوم کی تقسیم کا عمل جاری رکھیں اور سینٹر پر پینے کے ٹھنڈے پانی، سائے اور بیٹھنے کیلئے مناسب انتظامات کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔
٭٭٭٭٭
ڈپٹی کمشنر کی ہدایت‘اسسٹنٹ کمشنرز کے عام مارکیٹوں کے دورے‘روٹی کا وزن کم ہونے پر قصور میں ایک تندور سیل‘پیمانہ کم ہونے پر ایک پٹرول پمپ کو بھاری جرمانہ عائد
قصور(20ستمبر 2024ء) وزیر اعلی پنجاب مریم نوازشریف کے احکامات اور ڈپٹی کمشنر قصور کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنرز کے عام مارکیٹوں کے دورے‘اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور پٹرول پمپس کے پیمانوں کی چیکنگ‘ایک تندور سیل۔ تفصیلات کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر ز قصور عطیہ عنایت مدنی نے عام مارکیٹ کا دورہ کر کے پھلوں، سبزیوں، روٹی و نان، بریڈ اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور ریٹ لسٹوں کی نمایاں جگہوں پر موجودگی کو چیک کیا تا ہم روٹی کا وزن کم ہونے پر ایک تندور کو سیل کر دیا جبکہ پیمانہ کم ہونے پر ایک پٹرول پمپ کو بھاری جرمانہ عائد کیا۔اسسٹنٹ کمشنر کوٹ رادھاکشن ڈاکٹر محمد انس سعید نے عام مارکیٹ کا دورہ کر کے پھلوں، سبزیوں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی چیکنگ کی تا ہم ناجائز منافع خوری پر متعدد دوکانداروں کو بھاری جرمانے عائد کئے۔
٭٭٭٭
وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کے ستھرا پنجاب پروگرام کے تحت ضلع بھر میں صفائی ستھرائی کا کام جاری‘
ضلعی انتظامیہ قصور کے شہری و دیہی علاقوں کی صفائی ستھرائی، پارکس، گرین بیلٹس کی خوبصورتی کیلئے اقدامات جاری
قصور(20ستمبر 2024ء)وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کے ستھرا پنجاب پروگرام کے تحت ضلع بھر میں صفائی ستھرائی کا کام بھرپور طریقے سے جاری، شہری و دیہی علاقوں میں سڑکوں، گرین بیلٹس، گلی محلوں کی صفائی ستھرائی کو یقینی بنانے کیلئے متعلقہ افسران فیلڈ میں متحرک۔ ضلعی انتظامیہ عوام الناس کو بہترین میونسپل سروسز کی فراہمی کیلئے دن رات کوشاں ہے۔ڈپٹی کمشنر قصور کیپٹن ریٹائرڈ اورنگزیب حیدر خان کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرجنرل /ایڈمنسٹریٹر میونسپل کمیٹی قصور محمد جعفر چوہدری، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فنانس اینڈ پلاننگ مرتضیٰ ملک،اسسٹنٹ کمشنرز و ایڈمنسٹریٹر میونسپل کمیٹیز قصور عطیہ عنایت مدنی، چونیاں طلحہ انور، پتوکی رانا امجد محمود اور کوٹ رادھاکشن ڈاکٹر محمد انس سعید فیلڈ میں صفائی ستھرائی کے عمل کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔ شہری و دیہی علاقوں میں صفائی ستھرائی کو بروقت یقینی بنانے کیلئے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ نالہ جات اور ڈرینز کی صفائی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ستھرا پنجاب پرو��رام کے تحت شہری و دیہی علاقوں کی صفائی ستھرائی، پارکس، گرین بیلٹس کی خوبصورتی کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ شہروں کی سڑکوں، گلی محلوں اور دیگر عوامی مقامات کی صفائی ستھرائی کو یقینی بنانے کیلئے مانیٹرنگ کا عمل بھی جاری ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے کہ ستھرا پنجاب پروگرام کے تحت عوام کو صاف ستھرا اور اچھا ماحول فراہم کیا جائے۔
٭٭٭٭٭
0 notes
airnews-arngbad · 2 months
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chhatrapati Sambhajinagar
Date : 24 July 2024
Time : 09.00 to 09.10 AM
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ  :  ۲۴ ؍جولائی  ۲۰۲۴؁ ء
وقت  :  صبح  ۹.۰۰   سے  ۹.۱۰   بجے 
پہلے خاص خبروں کی سر خیاں  ... 
٭ مرکزی بجٹ میں پید واری صلاحیت  ‘  روز گار  ‘  سماجی انصاف  ‘  سمیت  بدلتے وقت کے ساتھ 
اصلاحات کو تر جیح 
٭ تنخواہ دار ملازمین کے لیے معیاری کٹو تی  کی حد   75؍ ہزار  روپئے  اور  فیمیلی  پینشنرس کے لیے 25؍ ہزار 
روپئےکی حد مقرر  
٭ مہاراشٹر کے لیے تقریباً  4؍ ہزار  545؍ کروڑ  روپئے مختص  ‘  جبکہ ریاست کے ساتھ سوتیلا سلوک کرنے کی اپوزیشن پارٹیوں کی تنقید
٭ ریاستی کا بینہ کا آشا رضاکاروں ‘  آنگن واڑی کارکنوں ‘  گروپ پر موٹروں کو حادثاتی موت کے لیے  10   لاکھ  روپئے  اور  معذوروں کےلیے 5   لاکھ روپئے دینے کا فیصلہ 
اور
٭ خواتین ایشیاء کپ T-20؍ کر کٹ ٹور نا منٹ میں نیپال کو ہرا کر بھارت سیمی فائنل میں داخل 
اب خبریں تفصیل سے...
ٹیکس دہندہ گان کو راحت  ‘  صنعتی شعبہ کو بڑھوتری  ‘  مدہبی سیاحت کی تر قی  اور  قدرتی کھیتی کو برھا وا دینےوالا  رواں مالی سال کا بجٹ مرکزی وزیر مالیات نِر ملا سیتا رمن نے کل پارلیمنٹ میں پیش کیا ۔ پیدا وار  ‘  روز گار  ‘  سماجی انصاف ‘  شہری تر قی ‘  توا نائی  ‘  سکیو ریٹی   ‘  بنیاد ی سہو لیات  سمیت یہ بجٹ دیگر  9؍ تر جیحات پر مبنی ہے ۔ اِس بجٹ میں تنخواہ دار ملازمین کے لیے معیاری کٹو تی کی حد   75؍ ہزار  روپئے  اور  فیمیلی پینشنرس کے لیے  25؍ ہزار  روپئے کرنے کی تجویز ہے ۔
3؍ لاکھ روپئے تک کی سالا نہ آمد نی پر مکمل چھوٹ ہے ۔  3؍  سے  7؍ لاکھ رو پئے کے در میان آمدنی پر  5؍ فیصد  ‘  7؍  سے  10؍ لاکھ روپئے تک  10؍ فیصد ‘  10؍ سے  12؍ لاکھ تک  15؍ فیصد  ‘  12؍ لاکھ تا  15؍ لاکھ روپئے تک  20؍ فیصد جبکہ  15؍ لاکھ روپئے سے زائد سالانہ آمدنی پر  30؍ فیصد انکم ٹیکس لگا یا جائے گا ۔ یہ دفعات نئے ٹیکس ریٹرن کے طریقہ کار کے تحت ٹیکس کی تشخیص کے لیے لاگو ہو گی ۔ اِن تبدیلیوں سے تنخواہ دار ملازمین کے انکم ٹیکس میں ساڑھے سترہ ہزار  روپئے کی بچت ہو گی  اور  4؍ کروڑ سے زائد تنخواہ دار ملازمین اِس سے مستفید ہوں گے ۔
***** ***** ***** 
اِس بجٹ میں کینسر مرض کی  3؍ دوائیں  اور  طبی آلات  ‘  مو بائیل فون  اور  الیکٹرک گاڑیوں کےکَل پُرزے   ‘  چمڑے کے سامان ‘ جوہری توانائی کے آلات  بشمول پلاٹینم  ‘  سونا  ‘  چاندی  ‘  تانبا  اور  دیگر  25؍ دھاتوں پر کسٹم ڈیو ٹی میں کمی کی گئی ہے جبکہ پلاسٹک  ‘  فلیکس  و  دیگر پر کسٹم ڈیوٹی میں اضا فہ کی تجویز ہے ۔
***** ***** ***** 
پی  ایم  آواس اسکیم کے تحت 3؍ کروڑ  اضا فی گھر بنا ئے جا ئیں گے ۔ شہری علاقوں میں غریبوں کی رہائش کے لیے  10؍ لاکھ کروڑ  روپئے مختص کیے گئے ہیں ۔ جبکہ خواتین  اور  لڑ کیوں کی تر قی کے لیے 3؍ لاکھ کروڑ روپئے مختص کیے گئے ہیں ۔ روز گار  اور  ہنر کی تر بیت کے لیے  5؍ اسکیموں کے پیکیج کا اعلان کیاگیا ۔پہلی مرتبہ نو کری تلاش کرنے والوں کو کام پر لینے کی مد دکے لیے اَجروں کو ایک ماہ کی تنخواہ بطور سبسیڈی دی جائے گی ۔ اِس اسکیم کےلیے اہلیت کی حد ایک لاکھ روپئے ما ہانہ تنخواہ ہے  اور  اسکیم کی مدت 2؍ سال ہو گی ۔
***** ***** ***** 
  نوجوانوں کے لیے انٹر ن شپ اسکیم کا  نِر ملا سیتا رمن نے اعلان کیا ۔ اِس میں آئندہ 5؍ سالوں میں 500؍ کمپنیوں میں نو جوانوں کو  12؍مہینے انٹرن شپ کی تجربہ ملے گا ۔ اِس کے لیے ہر مہینہ  5؍ ہزار  روپئے اسکا لر شپ  اور  میعاد مکمل ہونے پر 6؍ ہزار  روپئے کی مالی امداد کی جائے گی ۔ مُدرا اسکیم کی قرض کی حد 20؍ لاکھ روپئے تک بڑھائی گئی ہے ۔
ایک کروڑ کسانوں کو قدرتی کھیتی کی تر غیب دینے کے لیے زائد پیداوار دینے والی مختلف  32؍ اقسام  اور  باغبانی فصلوں کے لیے 100؍ نئے اقسام دستیاب کر وائی جا ئیں گی ۔
***** ***** ***** 
زرعی شعبہ کی تر قی کے لیے ایک لاکھ  52؍ ہزار  کروڑ  روپئے  ‘ دیہی تر قی کے لیے  2؍ لاکھ 66؍ہزار  کروڑ  روپئے جبکہ تعلیم  ‘  روزگار  اور  ہنر کی تر قی کے لیے  ایک لاکھ 48؍ ہزار  کروڑ  روپئے کی فراہمی کی گئی ہے ۔ وزیر اعظم قبائلی ترقی  مشن کا اعلان اِس بجٹ میں کیاگیا ہے ۔ اِس کے ذریعے  63؍ ہزار  گائوں کے  5؍ کروڑ  آدی واسیوں کو فائدہ ہو گا ۔
***** ***** ***** 
وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ یہ بجٹ سماج کے تمام طبقات کو خود مختار کرنے والا ہے ۔ اِس سے معا شی ترقی کو نئی رفتار ملے گی  اور  یہ رفتار مسلسل رہے گی ۔ صنعت  اور معاشی شعبہ میں کام کرنے والی بھارتی  صنعتی تنظیم CII      ‘  بھارتی معاشی و صنعت تنظیم  FICCI    اسو چیم  و دیگر تنظیموں نے اِس بجٹ کا خیر مقدم کیا ہے ۔
***** ***** ***** 
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا ہے کہ یہ بجٹ تر قی یافتہ بھارت  کے تصور کو تقویت دے گا جبکہ نائب وزیر اعلیٰ  و  وزیر خزانہ اجیت پوار نے کہا کہ یہ بجٹ عوامی بہبود کا بجٹ ہے جس میں کمزور  ‘  پسماندہ  اقلیتی گروہ کی ترقی پر زور دیاگیا ہے ۔
***** ***** ***** 
***** ***** ***** ***** ***** ***** 
یہ خبریں آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** ***** ***** ***** ***** 
اپوزیشن جماعتوں نے اِس بجٹ پر تنقید کی ہے ۔ ودھان پریشد کے قائد حزب اختلاف امبا داس دانوے نے تنقید کی ہے کہ مرکزی حکو مت ملک کو سب سے زیادہ ٹیکس دینے والی مہا راشٹر ریاست کےساتھ سوتیلا سلوک کر رہی ہے ۔ ودھان سبھا کے قائد حزب اختلاف وجئے وڈیٹی وار نے کہا کہ بہار  اور  آندھرا پر دیش کو مرکز میں حکو مت سازی کی حمایت کی وجہ سے فنڈ دیا جا رہاہے ۔
دریں اثناء اِس بجٹ میں مہاراشٹر کے لیے تقریباً 7؍ ہزار کروڑ روپئے کی فراہمی ہونے کی اطلاع نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑ نویس نے دی ۔ انھوں نے کہا کہ ابتدائی جائزہ کے مطا بق اِس میں وِدربھ  اور  مراٹھواڑہ میں آبپاشی کے منصوبوں کے لیے 600؍ کروڑ  روپئے  ۔ دیہی سڑ کوں کی بہتری کے لیے 400؍ کروڑ  روپئے زرعی منصبوں کے لیے 598؍ کروڑ  روپئے  ‘  صنعتوں کے لیے 466؍ کروڑ  روپئے شامل ہیں ۔
چھتر پتی سنبھا جی نگر کے چار ٹرڈ اکائو  نٹنٹ  نند کشور مالپانی کے اِس بجٹ کا تجزیہ آج صبح 11؍ بجے ہمارے مرکز سے نشر کیے جانے والے پروگرام  ’’  پراسنگک  ‘‘  میں سنا جا سکتا ہے ۔
***** ***** ***** 
طبی نصاب داخلہ امتحان  NEET-UG   کو منسوخ کرکے دوبارہ امتحان منعقد کیے جانے کی در خواست کو سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا ۔ اِس معاملہ میں داخل کر دہ کئی عرضیوں پر ہوئی سماعت میں چیف جسٹِس کی سربراہی والی بینچ نے فیصلہ سنا تے ہوئے کہا کہ پر چہ افشاء ہونے اور امتحانی نظام میں خرابی کا کوئی ثبوت نہیں ملا  ۔  اگر  دوبارہ امتحان لیاجا تا ہے تو عدالت نے امکان ظاہر کیا کہ  23؍ لاکھ سے زائد امتحانی  اور  تعلیمی پروگرام متاثر ہوں گے ۔
***** ***** ***** 
مہا راشٹر پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ منعقدہ2023؁ء  کے ریاستی خدمات کے مین امتحان کے انٹر ویو کے لیے اہل امید واروں کا طبی معائنہ چھتر پتی سنبھا جی نگر  ‘  ممبئی   ‘  پونے  اور  ناگپور میں کیا جائے گا ۔ امید واروں کو تاریخ  اور مقام علیحدہ طور پر بتلا یا جائے گا ۔
***** ***** *****
آشا کار کنان  اور  آنگن واری خد مت گاروں سمیت گروپ صدور کو ہمدر دانہ امداد دینے  کافیصلہ ریاستی مجلس وزراء نے لیا ہے ۔ حادثاتی موت والوں کے لیے 10؍ لاکھ روپئے  اور  معذوری کے لیے 5؍ لاکھ روپئے امدا فراہمی کا فیصلہ بھی کل کا بینہ نے لیا ۔ معذور ملازمین کے لیے  30؍ جو ن   2016؁ء سے عہدہ پر تر قی کے لیے تحفظات  ‘  زرعی پیدا وار کے نقصا نات طئے کرنے کے لیے جدید طریقے کار  وضع کرنے ‘  یشونت رائو ہولکر  اسکیم مستقل جاری رکھنے جیسے فیصلے بھی کل منعقدہ اجلاس میں لیے گئے ۔ ریاست میں بارش کی صورتحال  اور  سبھی آبی ذخائر میں موجود پانی کے ذخیرے کا جائزہ بھی وزیر اعلیٰ نے اِس اجلاس میں لیا ۔
***** ***** *****
خواتین کے ایشیاء کپ  ٹی  ٹوئنٹی کرکٹ ٹور نا منٹ میں کل نیپال کو 82؍ رنوں سے شکست دے کر بھارت نے سیمی فائنل میں داخلہ حاصل کر لیا ۔ سری لنکا کے دامبو لہ میں کل کھیلے گئے مقابلے میں بھارت نے پہلے بلّے بازی کر تے ہوئے 3؍ وکٹوں کے نقصان پر  178؍ رنز اسکور کیے ۔ تاہم اِس ہدف کا تعاقب کر تے ہوئے نیپال کی ٹیم  20؍ اوور وں میں صرف 96؍ رنز ہی بنا پائی ۔ اِس جیت کے ساتھ ہی بھارت نے سیمی فائنل میں ا پنی جگہ پکی کر لی ہے ۔
***** ***** *****
ریاستی وزیر محصول رادھا کرشن وِکھے پاٹل سے ملا قات کے بعد محکمہ ٔ  محصول کے تمام شعبہ جات کے ملازمین نے اپنی ہڑتال ختم کر دی ۔ وکھے پاٹل نے ملازمین سے ہڑ تال ختم کر کےاعلیٰ سطحی انتظامی افسر  اور  ملازمین یو نین کے عہدیداروں کی مشتر کہ میٹنگ لے کر مطالبات کا حل نکالنے کے احکامات دیے ۔ جس کے بعد محصول ملازمین کی تنظیموں نے ہڑ تال واپس لینے کا ا علان کیا ۔
***** ***** *****
ہنگولی ضلع ا سپتال کے شعبہ امراض اطفال کو ریاست کے اولین  ’’ قو می معیاری  ایوارڈ  ‘‘ کے لیے منتخب کر لیاگیا ہے ۔ شعبہ امراض اطفال کے سر براہ ڈاکٹر گوپال کدم  اور  اُن کے معاونین کی بہتر و معیاری خدمات کے اعتراف میں یہ ایوارڈ دیا جارہا ہے ۔ آئندہ یوم آزادی کے موقع پر سبھی  کو ایوارڈس سے نوازا جائے گا ۔
***** ***** *****
بیڑ ضلعے میں کمسنی کی شادی مخالف مہم کے تحت پالی ضلع پریشد اسکول میں بیداری پروگرام منعقد کیاگیا ۔ اِس موقعے پر  طلباء کو کم عمری کی شادی سے متعلق آگا ہی حاصل کرنے کے لیے  1098 ؍ چائلڈ ہیلپ لائن سے رابطہ کرنے کی معلو مات دی گئی ۔
***** ***** *****
تر میم شدہ فوجداری قوانین سے متعلق عوامی بیداری کے مقصد سے دھاراشیو میں ملٹی میڈیا نمائش کا کل سے آغاز ہوا ۔ دھارا شیو ضلعے کے پولس سپرنٹنڈنٹ اتل کلکر نی  اور  ضلع وکیل تنظیم کے صدر پر ساد جو شی کےہاتھوں اِس معلو ماتی  نمائش کا افتتاح عمل میں آیا ۔ 
***** ***** *****
آخر میں اہم خبروں کی سر خیاں ایک مرتبہ پھر سن لیجیے  ...
٭ مرکزی بجٹ میں پید واری صلاحیت  ‘  روز گار  ‘  سماجی انصاف  ‘  سمیت  بدلتے وقت کے ساتھ
اصلاحات کو تر جیح 
٭ مرکزی بجٹ میں پید واری صلاحیت  ‘  روز گار  ‘  سماجی انصاف  ‘  سمیت  بدلتے وقت کے ساتھ اصلاحات کو تر جیح 
٭ تنخواہ دار ملازمین کے لیے معیاری کٹو تی  کی حد   75؍ ہزار  روپئے  اور  فیمیلی  پینشنرس کے لیے 25؍ ہزار  روپئےکی حد مقرر  
٭ مہاراشٹر کے لیے تقریباً  4؍ ہزار  545؍ کروڑ  روپئے مختص  ‘  جبکہ ریاست کے ساتھ سوتیلا سلوک کرنے کی اپوزیشن پارٹیوں کی تنقید
٭ ریاستی کا بینہ کا آشا رضاکاروں ‘  آنگن واڑی کارکنوں ‘  گروپ پر موٹروں کو حادثاتی موت کے لیے  10   لاکھ  روپئے  اور  معذوروں کےلیے 5   لاکھ روپئے دینے کا فیصلہ 
اور
٭ خواتین ایشیاء کپ T-20؍ کر کٹ ٹور نا منٹ میں نیپال کو ہرا کر بھارت سیمی فائنل میں داخل  
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل AIR چھتر پتی سنبھا جی نگر پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
٭٭٭
0 notes
severeninjastarlight · 7 months
Text
مجھے آنلائن کام کے لئ ورکرز کی ضرورت ہے ۔
وقت : 2 سے 3 گھنٹہ روزانہ
عمر : 15 سے اوپر
ایجوکیشن : ضروری نہیں۔ بس اردو اچھی ھو
مہینہ انکم: 30,000
BOYS/GIRLS
تمام تربیت فری فراہم کی جائے گی۔
Contact Me....
1 note · View note
kanpururdunews · 7 months
Text
انکم ٹیکس کا چھاپہ
Tumblr media
جانکم ٹیکس کا چھاپہ
0 notes
emergingpakistan · 9 months
Text
کیا کاشت کاروں سے انکم ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے؟
Tumblr media
ریونیو بڑھانے میں ناکامی کی وجہ سے پاکستان خود کو ہمیشہ بین الاقوامی قرض دہندگان کے رحم وکرم پر پاتا ہے۔ فی الحال ہم ایک آئی ایم ایف معاہدے میں شامل ہیں جو حکومت کو ریونیو میں اضافہ کرنے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بہتر بنانے کا پابند کرتا ہے۔ ایسا اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک ریاست معیشت کے تمام شعبوں پر یکساں طور پر ٹیکس عائد نہ کرے۔ ان شعبہ جات میں زرعی شعبہ بھی شامل ہے جہاں زرعی پیداوار پر مؤثر ٹیکس لگانے کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان کی 350 ارب ڈالرز کی مجموعی معیشت میں تقریباً پانچواں حصہ زراعت کا ہے۔ اگر یہ شعبہ معیشت میں اپنا منصفانہ حصہ ڈال رہا ہے تو موجودہ سال کے 9 ہزار 415 ارب روپے کی ٹیکس وصولی کے طے شدہ ہدف کا پانچواں حصہ زرعی پیداوار سے آنا چاہیے۔ تاہم متوقع رقم کا چھوٹا سا حصہ ہی حاصل ہو پاتا ہے۔ لوگوں میں اس عام غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے کہ زراعت کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے کیونکہ ایسا نہیں ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے مطابق زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر دیگر کسی بھی آمدنی کی طرح ٹیکس عائد کیا جاتا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ٹیکس فیڈرل بورڈ آف ریونیو نہیں بلکہ صوبائی حکام وصول کرتے ہیں۔
کاشت کار اور دیگر مفاد پرست گروہ زرعی انکم ٹیکس کے خلاف مختلف دلائل پیش کرتے ہیں۔ وہ عام طور پر محسوس کرتے ہیں کہ چونکہ ان پر پہلے سے ہی بالواسطہ طور پر بھاری ٹیکس عائد کیا جاتا ہے اس لیے ان سے انکم ٹیکس وصول نہیں کیا جانا چاہیے۔ وہ اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کی شکایت بھی کرتے ہیں جوکہ ان کی آمدنی پر بالواسطہ ٹیکس جیسا ہے۔ اگرچہ ایسی شکایات غلط نہیں ہیں لیکن 2022ء میں گندم کی قیمتوں میں دگنا اضافہ ہونے سے قیمتوں پر حکومتی کنٹرول غیر موثر ہو گیا ہے۔ البتہ دیگر اجناس جیسے کپاس اور چاول کو برآمد کرنے کی آزادی ہے بلکہ حکومتی پالیسی کے تحت چاول کی برآمدات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ دیگر اہم اجناس میں چینی وہ واحد شے ہے جو اس سے مستثنیٰ ہے۔ چینی سخت حکومتی کنٹرول کے تابع ہے اور اسے عام طور پر برآمدی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان پابندیوں کو پورا کرنے اور مقامی صنعتوں اور بڑے کاشت کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے چینی کی درآمدات پر بھاری ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ بہت سے ٹیکس ماہرین کا خیال ہے کہ محدود دستاویزی معیشت اور وسیع جغرافیائی رقبے پر زراعت کی وجہ سے اس پر زرعی ٹیکس کا نفاذ ممکن نہیں۔ 
Tumblr media
شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے زرعی ریونیو پر فرضی ٹیکس عائد کیا اور اس ٹیکس کی بنیاد اصل پیداوار یا پیداواری صلاحیت کے بجائے زمین کے کرائے پر رکھی۔ تاہم اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ اب پالیسی سطح پر اس کام کو کرنے کا عزم موجود ہے تو سیٹلائٹ تصاویر اور مشین لرننگ ٹیکنالوجیز کے دور میں زراعت پر ٹیکس لگانا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ درحقیقت اگر کسان چاہتے ہیں کہ پاکستان میں زراعت کو باضابطہ طور پر بڑی معیشت کا حصہ سمجھا جائے اور قومی سپلائی چین کے حصے کے طور پر دستاویزی شکل دی جائے تو انہیں اس طرح کے خیال کی وکالت کرنی چاہیے۔ یہ بہت ہی مضحکہ خیز بات ہے کہ ریونیو اسٹاف اب بھی اپنے ہاتھوں سے زرعی ریونیو وصول کرتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے وہ گزشتہ 100 سالوں سے کرتے آرہے ہیں۔ مروجہ نظام میں اگر کوئی ادائیگی نہیں کرتا ہے یا اس سے زیادہ ٹیکس لیا جاتا ہے تو نگرانی یا ناانصافی کا ازالے کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ پورے نظام کو جدید بنایا جائے۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف اور دیگر قرض یا عطیہ دہندگان کو قیادت کرنا ہو گی کیونکہ ہمارا ملکی نظام ذاتی مفادات کے ماتحت نظر آتا ہے جس کی وجہ سے زراعت اور دیہی معیشتوں میں ٹیکنالوجی کے ذریعے شفافیت لانے کا امکان موجود نہیں ہے۔
بین الاقوامی قرض دہندگان اور ترقیاتی شراکت داروں کو چاہیے کہ وہ زرعی زمینوں کو ڈیجیٹل بنانے اور زمین کے ریکارڈز کو آسانی سے تلاش کرنے کے قابل بنانے کے لیے گرانٹ فراہم کریں۔ دوسرے مرحلے کے طور پر زرعی زمینوں کی تمام تصاویر سال بھر انفرادی کاشت کاروں (ان کی ملکیت میں موجود رقبے سے قطع نظر) کے ساتھ ساتھ حکومت کو فراہم کی جائیں۔ ان تصاویر کے ذریعے کسانوں کو وقتاً فوقتاً اپنی فصلوں کا جائزہ لینے کے قابل بنانا چاہیے (روزانہ جائزہ لینا بہترین ہو گا) جبکہ حکومت کو فصل کے حوالے سے اعدادوشمار کی نگرانی اور اسے جمع کرنے میں آسانی ہو گی۔ اس سے حکومت کو ٹیکس وصولی میں بہت حد تک مدد ملے گی کیونکہ ڈیجیٹل دور میں کچھ چھپایا نہیں جا سکتا۔ مشین لرننگ حکومت اور کسانوں کو سیٹلائٹ تصاویرکو سمجھنے میں مدد کر سکتی ہے اور یہاں تک کہ اگر تصویر کا تجزیہ کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے نظام، اس کام میں مکمل تربیت یافتہ ہوں تو کٹائی کے وقت مشین لرننگ مختلف فصلوں کی پیداواری صلاحیت کا اندازہ بھی لگا سکتی ہے۔ 
محدود وسائل کے پیش نظر زرعی ٹیکس کے ساتھ ساتھ مالیاتی منتقلی بھی ٹیکنالوجی کے تابع کرنے کی ضرورت ہے۔ کاشت کاروں کی سطح پر جو لوگ ٹیکس ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں ان پر جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے جیسے حکومت کو واجبات کی ادائیگی کے بغیر اپنی جائیداد کو خاندان کے افراد کو فروخت کرنے یا تحفے میں دینے پر پابندی ہونی چاہیے۔ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب زمین کے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کیا جائے۔ ٹیکنالوجی بڑے کاشت کاروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے میں مدد کرے گی جو ویسے تو تمام کاشت کاروں کا محض چار فیصد ہیں لیکن تقریباً 40 فیصد زرعی زمینوں کے مالک ہیں۔ اس سے زرعی انکم ٹیکس کی مد میں سیکڑوں ارب روپے کی وصولی ہو گی جبکہ کاشت کاری کے طریقوں کو جدید بنانے میں بھی مدد حاصل ہو گی۔
اعجاز اے نظامانی   یہ مضمون 11 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
risingpakistan · 10 months
Text
زرعی ٹیکس کا حال زار
Tumblr media
زرعی آمدنی پر ٹیکس کی باتیں ملک میں عشروں سے ہو رہی ہیں کیونکہ ہماری آبادی کا بہت بڑا حصہ زراعت پیشہ ہے لیکن اس ضمن میں کوئی قابل لحاظ پیش رفت اب تک نہیں ہو سکی ہے۔ اس حقیقت کا ایک واضح ثبوت عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ میں کیا گیا یہ انکشاف ہے کہ پاکستان میں 90 فیصد زراعت پیشہ افراد ٹیکس نہیں دیتے جبکہ زرعی آمدن پر انکم ٹیکس وصولی کی بہتری سے ٹیکسوں کا حصہ ایک فیصد جبکہ ٹیکس کے نظام میں تمام مطلوبہ اصلاحات سے دو فی صد تک بڑھ سکتا ہے۔ زرعی آمدنی پر ٹیکس کی اس ابتر صورت حال کا سبب رپورٹ کے مطابق وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کی کمی ہے۔ ملک میں انکم ٹیکس کی مجموعی کیفیت کا اندازہ عالمی بینک کے ان اعدادوشمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ گیا رہ کروڑ چالیس لاکھ برسر روزگار افراد میں سے صرف 80 لاکھ یعنی کل تعداد کا محض تقریباً 14 واں حصہ انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ ہے۔
Tumblr media
عالمی بینک کے یہ اعداد وشمار یقینا حیرت انگیز نہیں۔ ہمارے نظام محصولات کے نقائص کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے بقول پاکستان میں صرف تنخواہ دار طبقہ پورا ٹیکس دیتا ہے جبکہ شہریوں پر ٹیکس لگانے کے فیصلے کرنے والے بیشتر ارکان پارلیمنٹ اور حکمراں خود برائے نام ٹیکس دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بالواسطہ ٹیکسوں کا بھاری بوجھ عام آدمی کو تمام اشیائے ضرورت پر جی ایس ٹی اور بجلی گیس پٹرول وغیرہ پر بھاری محصولات کی شکل میں ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک میں مہنگائی کے بے لگام ہونے کا بھی یہ ایک بڑا سبب ہے۔ بڑے زمیندار ، وڈیرے ، جاگیردار اور مقتدر طبقات اگر اپنی آمدنی پر پورا ٹیکس ادا کریں تو صورت حال میں یقینا مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ اس کے لیے معیشت کو مکمل طور پر دستاویزی بنانا ضروری ہے اور جدید ٹیکنالوجی نے اس عمل کو ماضی کے مقابلے میں بہت آسان کر دیا ہے چنانچہ اس سمت میں فوری اور نتیجہ خیز پیش قدمی کی جانی چاہئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 1 year
Text
آئی پی پیز معاہدوں کی تجدید ملکی مفاد میں نہیں
Tumblr media
اپنے گزشتہ کئی کالموں میں بار بار حکومت سے آئی پی پیز سے گئے معاہدوں اور ان سے بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی مد میں ادائیگی پر گہری تشویش کا اظہار کر چکا ہوں۔ میں نے یہاں تک کہا ہے کہ یہ کینسر زدہ معاہدے پاکستان کے پاور سیکٹر اور معیشت کو ڈبو سکتے ہیں لہٰذا جلدازجلد پاور سیکٹر میں اصلاحات لا کر اِن معاہدوں کی تجدید پر نظرثانی کی جائے جو پاکستان کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بجلی کے حالیہ اجلاس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال 2023-24 میں بجلی کے صارفین کیپسٹی سرچارج کی مد میں 1300 ارب روپے بجلی خریدے بغیر آئی پی پیز کو ادا کرینگے۔ کیپسٹی سرچارج میں اضافے کی وجوہات میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی، درآمدی کوئلے، RLNG اور بینکوں کا شرح سود میں اضافہ شامل ہے۔ گزشتہ 20 سال میں حکومت آئی پی پیز کو کیپسٹی سرچارج کی مد میں 8000 ارب روپے ادا کر چکی ہے جبکہ صرف گزشتہ سال 2000 ارب روپے ادا کئے گئے جو فوج کے بجٹ 1800 ارب روپے سے بھی زیادہ ہیں۔ آج کیپسٹی سرچارج کا یہ کینسر بڑھکر صارفین کے بلوں کا آدھے سے زیادہ تک پہنچ چکا ہے۔ 2021-22ء میں پاور سیکٹر میں ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کے نقصانات اور چوری بڑھکر 550 ارب روپے (17 فیصد) تک پہنچ چکی ہے جس میں پشاور الیکٹریسٹی کے صرف ایک سال میں 154 ارب روپے (37 فیصد) کے نقصانات شامل ہیں جس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جو پورے سسٹم کو تباہ کر رہا ہے۔ 
اسمارٹ گرڈ اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم ترسیل کے نقصانات کو ایک سال میں 50 فیصد کم کر سکتے ہیں لیکن ہم IMF کے مطالبے پر ان نقصانات کو عام صارفین سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے وصول کر رہے ہیں جس سے بجلی کے نرخ ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکے ہیں۔ میرے دوست اور فیصل آباد کے سابق ضلعی ناظم رانا زاہد توصیف نے مطالبہ کیا ہے کہ آئی پی پیز معاہدوں کی انکوائری اور بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی پر ایک انکوائری کمیشن بنایا جائے اور ان کالی بھیڑوں کو، جو آئی پی پیز میں کک بیکس اور غیر حقیقی مراعات حاصل کر رہی ہیں، بے نقاب کیا جائے جس نے ملکی صنعت کو بھی خطے میں غیر مسابقتی بنا دیا ہے جس کا اندازہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باوجود ملکی ایکسپورٹس میں مسلسل کمی سے لگایا جاسکتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن نقصانات اور چوری، بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی، بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار، درآمدی کوئلے، فرنس آئل اور RLNG سے مہنگی بجلی کی پیداوار، فاٹا اور ٹیوب ویل کے صارفین کو سبسڈی اور واپڈا کے افسران کو مفت بجلی کی فراہمی شامل ہے۔ یہ سب خامیاں اور کوتاہیاں غریب صارفین سے بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کی جارہی ہیں جو سراسر ناانصافی ہے۔
Tumblr media
2018ء میں بجلی کا اوسط یونٹ 11.72 روپے تھا جسکے بعد PTI دور حکومت میں بجلی کے نرخ میں 60 فیصد اضافہ کیا گیا اور بجلی فی یونٹ تقریباً 18 روپے ہوگئی۔ PDM حکومت نے گزشتہ سوا سال میں 4 مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جس سے بجلی کی قیمت 50 روپے فی یونٹ سے بھی بڑھ گئی ہے جبکہ اسکی اصل لاگت 30 روپے سے بھی کم ہے۔ بجلی کے بلوں میں 14 ٹیکسز وصول کئے جاتے ہیں جن میں الیکٹریسٹی ڈیوٹی، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، فیول پرائز ایڈجسٹمنٹ (FPA)، فنانشل کاسٹ سرچارج (FCS)، میٹر رینٹ، ریڈیو، ٹی وی ٹیکس، ایکسٹرا ٹیکس اور دیگر ٹیکسز شامل ہیں۔ بجلی کے بلوں پر سامنے آنے والا عوامی ردعمل فطری ہے۔ حکومت IMF کی منظوری کے بغیر عوام کو بجلی کے بلوں میں کوئی ریلیف نہیں دے سکتی۔ ملک میں معاشی اور صنعتی سرگرمیوں میں سست رفتاری کی وجہ سے بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ملک میں معاشی اور صنعتی سرگرمیاں تیز ہوں اور آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر ادائیگیاں کرنے کے بجائے بجلی خرید کر انہیں ادائیگیاں کی جائیں۔ حکومت نے 1995، 2002، 2012، 2015 اور 2020 کی پاور پالیسی کے تحت 42 آئی پی پیز سے 15663 میگاواٹ بجلی کے معاہدے کئے ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کی معیاد اس سال یا آئندہ سال ختم ہونیوالی ہے۔ 
سابق مشیر پیٹرولیم ندیم بابر نے حکومت سے سفارش کی تھی کہ آئی پی پیز معاہدوں کی پرانی شرائط پر تجدید نہ کی جائے بلکہ نئے معاہدوں میں ڈالر میں منافع اور کیپسٹی سرچارج کے بجائے صرف خریدی گئی بجلی کی ادائیگی Competative Bidding کے ذریعے سب سے کم نرخ والے آئی پی پیز سے بجلی خریدی جائے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ زیادہ تر آئی پی پیز کی پلانٹ مشینری میں اوور انوائسنگ کی گئی ہے اور 10 سال میں 60 ارب روپے کی سرمایہ کاری پر 400 ارب منافع لے چکے ہیں اور اب یہ پلانٹ مفت ہو گئے ہیں اور ان سے بجلی کی پیداواری لاگت نہایت کم ہو گئی ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے آئی پی پیز معاہدوں کو غیر منصفانہ کہا ہے جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے آئی پی پیز کو 10 سال میں کی گئی ادائیگیوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر گزشتہ ایک ہفتے میں ایک درجن سے زائد افراد خود کشی کر چکے ہیں اور مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ستائے لوگ سول نافر مانی کی طرف جارہے ہیں۔ نگراں حکومت کو چاہئے کہ آئی پی پیز معاہدوں کی پرانی شرائط پر تجدید نہ کی جائے۔ اسکے علاوہ درآمدی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو تھرکول پر منتقل کیا جائے تاکہ مقامی کوئلے سے سستی بجلی پیدا کی جاسکے۔ یاد رکھیں کہ اس بار مہنگائی اور اضافی بلوں کا ڈسا مڈل کلاس طبقہ ہی الیکشن کا فیصلہ کریگا کیونکہ اسکے پاس اب کھونے کیلئے کچھ نہیں بچا۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
googlynewstv · 1 month
Text
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ
حکومت نےبینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ کرلیا۔بی آئی ایس پی ہولڈرز کی تعداد ایک کروڑ تک لے جانے کا ہدف مقرر کردیاگیا۔ ذرائع کے مطابق بی آئی ایس پی کارڈ ہولڈرز کی تعداد 93 لاکھ کے قریب ہے،ڈائنامک سروے  میں مزید لوگ ��ی آئی ایس پی میں شامل کئے جائیں گے،چاروں صوبوں کے مخصوص اضلاع میں ڈائنامک سروے جاری ہے،دور دراز علاقوں کے لوگوں کی رجسٹریشن اولین  ترجیح ہے،ڈائنامک سروے کیلئے…
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
ٹیکس نوٹسز کا اجرا شروع، 30 دن میں تعمیل ورنہ بجلی اور گیس کنکشنز کاٹ دیئے جائیں گے
حکومت نے ملک بھر کے عوام کو ٹیکس نوٹسز کا اجرا شروع کر دیا ہے جس کی تعمیل کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا جائے گا ورنہ گیس اور بجلی کے کنکشن منقطع کر دیئے جائیں گے۔ یہ بات چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے بدھ کو سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ اجلاس کو نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
ایف بی آر اور غریب
Tumblr media
عجب تیری سیاست عجب تیرا نظام جاگیرداروں ، مل مالکان کو سلام جبکہ غریبوں کا کردیا ہے تو نے جینا حرام، ہماری ریاست کا کچھ یہ ہی حال ہے، ریاست کے پارلیمان میں بیٹھے ہوئے ہر شخص کا غریب سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا عمران خان کا سچ سے رہا ہے۔ پارلیمان میں بیٹھے ہوئے لوگ ہوں یا اسلام آباد میں بیٹھا بابو، یہ تمام لوگ عوام کے پیسے پر عیاشیاں کر رہے ہیں، ان کی اولادیں بھی عوام کے پیسے پر دنیا بھر گھومتی ہیں، میرے اور آپ کے بچوں کا علاج پاکستان میں مفت نہیں ہو سکتا مگر ہمارے سیاسی لوگوں اور ان کی اولادوں کے علاج کے لیے بیرون ملک میں بھی انسانی ہمدردی کے نام پر گرانٹس جاری کر دی جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے پالیسی سازوں کا اگر ٹیکس چیک کیا جائے تو ان کے سر شرم سے جھکیں نہ جھکیں ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ یہ ہیں ہمارے پالیسی ساز جو ہر حوالے سے ٹیکس چوری میں کسی سے کم نہیں ہیں مگر وہ کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑتے جس سے عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے میں کمی ہو۔ ایسے میں ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سینئر سٹیزن کو بھی نہیں بخشتے۔ 
Tumblr media
حال ہی میں حکومت نے بہبود سرٹیفکیٹ ، شہداء فیملی اکاؤنٹ اور پنشنرز بینیفٹ اکاؤنٹ کی آمدنی پر پانچ فیصد انکم ٹیکس عائد کر دیا ہے، جو سال 2023ء سے لاگو ہو گا، یعنی شہداء کو بھی ٹیکس دینا ہو گا، جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل پر قربان کر دیا ہم نے انھیں بھی نہ بخشا، بنیادی طور پر، اس طرح کی اسکیمیں شہداء کے اہل خانہ کو مالی فوائد فراہم کرنے کے لئے متعارف کروائی گئی تھیں، جنہوں نے قوم اور شہریوں کے لئے اپنی زندگی قربان کر دیں یا پھر وہ سینئر سٹیزن جو تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ایک حصے کے طور پرانکم ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتا رہے ہیں اور جب ان کے پاس آمدنی کا باقاعدہ ذریعہ ہوتا تھا تو قوم کی ترقی میں حصہ ڈالتے تھے ٹیکس کی صورت میں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی جمع پونجی کو ایسی اسکیموں میں اس لئے لگاتے ہیں کہ بڑھاپا آسانی سے کٹ جائے۔ یہ کلاس اب اس طرح کی اسکیموں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر مکمل طور پر انحصار کرتا ہے،
آرام دہ اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے اس طبقے میں مزید وسائل کی ضرورت ہے مگر ہونا تو چاہے تھا کہ ان کی بچت اسکیموں میں ٹیکس کی شرح صفر رہتی لیکن حکومت نے ان کو بھی نہ بخشا، ٹیکس لگانے سے ان اسکیموں پر منافع کے مارجن میں اضافے کے بعد اکاؤنٹ ہولڈرز کی قلیل زندگی کی خوشی ختم ہو جائے گی فیڈرل بورڈ آف ریونیوپالیسی ونگ کو انسانی بنیادوں پر اس آمرانہ پالیسی کو ختم کرنا چاہئے۔ کیا ایف بی آر مل مالکان، جاگیرداروں یا سرمایہ کاروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے ؟ کیا ایف بی آر خود اپنا کام ٹھیک کر رہا ہے، ایف بی آر جیسے ادارے کا تو ملک سے فوری خاتمہ ہونا چاہیے کیوں کہ سندھ میں 2011 میں قائم ہونے والا ایس آر بی ایف بی آر سے 1000 فیصد بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے۔ نگراں وزیر اعظم اور کابینہ سے گزارش ہے کہ بچت اسکیموں میں غریبوں کو پہنچنے والے فائدے پر دوبارہ سوچ بچار کیا جائے۔ اور پرانے نظام میں واپس آنا چاہئے جہاں اس طرح کی آمدنی سے غربت کا خاتمہ اور ساتھ لوگوں کے وسائل میں اضافہ ہورہا تھا. اور اس آمدنی پر ٹیکس مسلط کر کے یہ چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کاروں پر بہت زیادہ بوجھ ثابت ہو رہا ہے۔ موجودہ شرح ٹیکس پر 5 ملین روپے کی سرمایہ کاری پرنئی نافذ شدہ پالیسی کے تحت قابل اطلاق انکم ٹیکس 41 ہزار روپے ہو گا، جبکہ، پرانےنظام کے تحت یہ 11 ہزارروپے ہوتا تھا۔ حکومت سے گزارش ہے کہ بچت اسکیموں میں بیواؤں، سینئر سٹیزن اور شہداء کی فیملیز کی سرمایہ کاری کو تحفظ دے اور فی الفور ٹیکس کی مکمل چھوٹ کا اعلان کرے۔
محمد خان ابڑو
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
dpr-lahore-division · 2 months
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس ، محکمہ تعلقات عامہ ، حکومت پنجاب ، شیخوپورہ
ہینڈ آؤٹ نمبر: 10052
18 جولائی :- ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار علی خان کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنرز سمیت دیگر ضلعی افسران کے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت نادار اور مستحق خواتین کی رجسٹریشن اور حکومت کی جانب سے مالی امدادی رقم کی تقسیم کا جائزہ لینے کے لیے ضلع بھر میں قائم کیے گئے BISP سنٹرز کے اچانک دورے جاری ، ضلعی افسران نے بینظیر انکم سپورٹ سنٹرز میں بیٹھنے کے لیے سایہ دار جگہ ، پینے کے صاف پانی ، سیکورٹی سمیت سول ڈیفنس ، ریسکیو1122، محکمہ صحت و دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے مہیا کی جانیوالی سہولیات کا تفصیلی جائزہ لیا اور سنٹرز پر آئی ہوئی خواتین سائلین سے بات چیت کی اور ان کے مسائل سے متعلق دریافت کیا اور خواتین سائلین کو درپیش مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ ڈاکٹر وقار علی خان نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت قائم کیے گئے سنٹرز میں فراہم کی جانیوالی سہولیات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر ضلعی انتظامیہ BISP کی انتظامیہ کے ساتھ مل کے مستحق خواتین کی رجسٹریشن اور مالی امداد کو مستحقین میں احسن انداز میں تقسیم کرنے کو یقینی بنا رہی ہے۔ مالی امداد کی رقم غریب اور مستحق افراد کی امانت ہے ، غفلت اور لاپروائی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ ڈاکٹر وقار علی خان نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ضلع بھر میں قائم کیے گئے سنٹرز میں مستحق خواتین میں مالی امداد کی رقم کی تقسیم کا عمل شفاف انداز میں جاری ہے ، اس پروگرام کے تحت 1 لاکھ 12 ہزار 196 غریب اور نادار افراد کو 10 ہزار 500 روپے فی کس کے حساب سے مالی امداد تقسیم کی جارہی ہے ۔ ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار علی خان نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ شہریوں اور بالخصوص مستحق افراد کے لئے بہترین اقدامات کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں ہے۔ ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ نے کہا کہ مستحق خواتین کو حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی امدادی رقم میں کٹوتی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور اس میں ملوث عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 notes
newsworld123 · 1 year
Text
سندھ ہائی کورٹ کا پولیس افسران کے اثاثوں کی تفصیل بتانے کا حکم
سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ سے لے کر ڈی ایس پی رینک کے تمام افسران کے اثاثوں کی تفصیلات اور انکم ٹیکس گوشوارے سندھ پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ان تمام معلومات تک عام آدمی کی رسائی ہونی چاہیے۔ عدالت کا حکم سندھ بھر میں داخلِ دفتر سنگین مقدمات اور جرگوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سامنے آیا۔ #سندھ #ہائی #کورٹ #کا #پولیس #افسران #کے #اثاثوں #کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes