Tumgik
#ایلا
urdunewspost · 4 years
Text
نیا سال ، ترکی میں ایلا زلزلے سے بچ جانے والے افراد کے لئے نئے مکانات
نیا سال ، ترکی میں ایلا زلزلے سے بچ جانے والے افراد کے لئے نئے مکانات
جیسے ہی مشرقی صوبہ ایلاز میں تباہ کن زلزلے کی برسی قریب آرہی ہے ، اس علاقے کے لوگوں نے زندگی معمول پر آنے کے بعد ایک دم سکون کا سانس لیا۔ وزارت ماحولیات و شہری ترقی نے حال ہی میں 24 جنوری 2020 کو 6.8 شدت کے زلزلے کے دوران بے گھر ہونے والے افراد کے لئے مکانات کی فراہمی کے لئے 179 بالکل نئے اپارٹمنٹس بنائے تھے۔ عاصم کینپولٹ ، جو اپنے نئے مکان میں منتقل ہوا جس نے سارسری پڑوس میں اپنے پرانے گھر کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
namefarsi · 5 years
Photo
Tumblr media
آیلا⁠ برای آیلا بفرستید ⁦♥️⁩ از یک تا ده به اسم آیلا چند امتیاز میدهید؟......⁠ لیست کامل اسم با حرف آ:⁠ namefarsi.com/name-with-a/⁠ .⁠ Turkish girls' name with N⁠ ⁦✔️⁩ نام‌ دخترانه زیبای ترکی⁠ .⁠ .⁠ . .⁠ #اسم_دختر #اسمدخترباآ #بارداری #اسمترکیدختر #اتاق_نوزاد #لباس_بارداری #آ #ایلا #آیلا⁠ #ayla #turkish #nametorki (at Tabriz, Iran) https://www.instagram.com/p/B7fmAvlgcyL/?igshid=gsru2p4b1wcw
0 notes
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
Tumblr media
"محبت زندگی کا پانی ہے اورمحبوب کی روح آگ ہے
اور جب اسی آگ کو پانی سے محبت ہو جائے تو کائنات کا رخ بدل کر رہ جاتا ہے”.
ایک جادوئی ،مسحورکن ،دل کی تہوں میں طوفان برپا کر دینے والی تحریر جو ایک ترکش مصنفہ ایلف شفق کے قلم سے نکلتی ہے اور قاری پر اپنی ایسی تاثیر چھوڑ تی ہے کہ آپ پہلے لفظ سے خود کو بھول کر مصنفہ کے وجود میں سرایت کر جاتے ہیں اور اسکی تحریر کی دھڑکن کے ساتھ ساتھ رھڑکنے لگتے ہیں. قاری ایک ہی وقت میں اکسویں صدی کی یہودی عورت کی گھریلو،خوبصورت اور مکلمل زندگی کے ستم سہتا اور اسکی شناخت کے سفر میں اسکے حوصلےدیکھتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ تیرھویں صدی عیسوی کے درویش کے ساتھ صحراوں کی خاک چھانتا ، عشق کے عین سے قاف تک کے سبق سکھاتا ،فلسفی کو اسکے مرتبے سے اتار کر شاعر ،رقاص اور ملنگ بناتا ، تڑپاتا، ِِسِسکتا اور فنا ہو جاتا ہے.قاری دو مختلف صدی کے دو مختلف کرداروں میں ایک روح ایک وجود کی شبیہ دیکھتا ہے.ایمان اور یقین جو دنیاییں بدل دیتا ہے لہروں کے رخ موڑ دیتا ہے اور .عشق حقیقی جو توڑ کر جوڑ دیتا ہے، بگاڑ کے بعد تعمیر دیتا ہے اور فناییت کے بعد امر ہو جاتا ہے.
کہانی شروع ہوتی ہے نارتھ ایمپٹن کی یہودی خاتون ایلا سے ،نوجوان بچوں کی ماں اور بے وفا شوہر کی شریک حیات ، ماضی کی یادوں اور مستقبل کے خوابوں میں گم رہنے والی ،حال کی خوبصورتیوں سے نظر چرانے والی ایلا ،جسکی گھریلو زندگی اضطراب اور مسائل کا شکار ہے.ایلا کی خوبصورت اور مکمل گرہستی… جسمیں وہ ایک غیر ضروری ساماں کا حصہ ہو چکی ہے اور شوہر اور بچوں کے ساتھ بھرپور دکھنے والی زندگی میں درحقیقت تنہائیوں اور سناٹوں کی شکارہے.
.ایلا کی عزیز تر بیٹی ماں کی صورت سے بیزار گھر چھوڑ جاتی ہے ، بےوفا شوہر مصروفیت کے نام پر راتیں سراوَں کی نظر کر دیتا ہے .موم بتیوں سے سجی ڈنرٹیبل اسکے گھر کی زندگی میں اجالا کرنے سے قاصر تھی.گھر اور جگر گوشوں پر لٹای حیات اگر ایلا کو استحقاق نہ دے سکی تو بیکار جھوٹ تھا، زندگی اک گناہ بے لزت تھی.ایلا ایک مشرق کی ستی سوتری نہ تھی کہ جل جاے پر چولہے سے بندھی رہے.کچلی جاے مگر سرتاج کے پیروں تلے اور مر جاے اولاد پر نچھاور ہو کر، اسکے باوجود اس کے نزدیک رشتوں کی بے تحاشا ا ہمیت تھی.مغرب کے بے نیاز معاشرے کی وہ ایک وفا شعار اور روایت پسند بیوی تھی .شریک حیات کی بے نیازی اور بچون کی بے اعتنای ایلا کو اسکے سجے سجاے گھر میں تنہا کر دیتے ہیںں تو اس پر اپنے خسارے کا انکشاف ہوتا ہے .”کیا زندگی جیسی اب تک گزری،آگے بھی ایسے ہی گزرے گی؟ ایک خوفزدہ کرنے والی وحشت مجھے گھیرنے لگتی ہے ……… اا سوال کے جواب کی ‘ ہاں’ اور ‘ناں ‘ اگر ایک ہی جیسے تباہ کن حالات کا باعث بنیں ؟؟؟؟؟؟”
ایلا جو کسی خیال جزبے یا عادت کی موت بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی مگر شادی شدہ زندگی میں محبت کی حیات پر یقین نہیں رکھتی.بیکار حقیقت ہو چکی زندگی میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتی ا یلا برسوں سے جانتی ہے کہ اسکی زندگی محروم ِمحبت ہے. اور ان اطوار اور حالات کی عادی ہونے کےباوجوداپنے دل کی خاموش کوٹھری سے یہ بازگشت سنتی ہے کہ ایک دن خاموشی سے وہ اپنا گھر، بچے، بےوفا شوہر اور ہمساے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر دنیا کے خطرناک راستوں پر اکیلی نکل جاے گی.
” ہمیشہ !ہمیشہ محبت کا انتخاب کرو!!!!
تم دیکھ چکے کہ محبت کی مٹھاس کے بغیر زندگی اک ازیت ہے….!!!”
. ایلا عادتوں اور روایات میں خود کو دفناے ہوے ، برسوں کی مشقت اور قربانیوں کو مٹی ہوتے دیکھتی ہے. چند سو گز کے گھر میں میلوں کے فاصلے تھے ،قریب بیٹھے جسموں میں قیامت خیز دوری تھی.ایلا مرتے ہوے سپرٹ(اسکا پالتو کتا) کی طرح ناتواں ہڈیاں کھینچے زباں نکالے بیٹھ کر جب ایک ناآسودہ زندگی کی رنجیدگی سے تھک جاتی ہے تو “میٹھی گستاخی” کا مصنف کسی درویش کی طرح اسکی نبض پر ہاتھ رکھ دیتا ہے.. ایک دور دنیا کا باسی ،شفیق، محبت کرنے والا بےغرض شخص ایلا کو الجھنوں کے جالے سے باہر نکالتا ہے اور اسکی بے رنگ بصارت کو رنگین کر دیتا ہے. راہ کے پتھر چنتا ، ذات کا شعور اور جرات دیتا ہے.جب ایلا اپنی گھر اور بچوں کو اپنے خوابوں کی طرح خوبصورت بنانے کی بے اثر جدوجہد کرتی ہے تو ایسے میں کوی اسکے کان میں سرگوشی کرتا ہے.
” کچھ لوگ جھک جانے کو بزدلی تصور کرتے ہیں جبکہ ایسا نہیں.یہ تو کاینات کے ان اصولوں اور تقاضوں کو سکون اور اطمینان سے قبول کرنے کا اظہار ہے جن کو ہم بدل نہیں سکتے. “
ایلا کے لیے محبت، صرف ایک لمحاتی مٹھاس اور غیر اہم جزبہ تھا. .مگر محبت پر تنقید کرنے والے اکثر اسکے جانثار ثابت ہوتے ہیں.محبت کو وقتی جزبہ کہنے والی ایلا جب محبت کی تاثیر چکھتی ہے تو اسکے لیے دنیا تیاگ دیتی ہے. اسکی پرسکوں ٹھہری ہوی جھیل سی زندگی میں گرا محبت کا پتھر پانی کی سطح کو تلاطم میں بدل دیتا ہے اور پھر اسکی زندگی کی ساکن جھیل کناروں تک یکسر بدل جاتی ہے. زہرا دنیا کے دوسرے سرے سے ایلا کے من کے خالی گھڑے کو جانچتا، پرکھتا. اور اسے محبت کے میٹھے پانی سے بھر دیتا ہے.
” خدا کرے تمھیں محبت تب اور وہاں ملے جب اور جہاں تمھیں اسکی توقع تک نہ ہو.”
جب ایلا کے ساتھ بیٹھا ڈیوڈ اسے دیکھ نہیں پاتا عزیز سینکڑوں میل کی دوری سے اسکے رنگ پہچانتا ہے.اس کے دل کے ان کہے لفظ سنتا ہے اور خود اسکی نظروں سے بھی اوجھل اسکے خوف دور کرتا ہے. ایسے میں ایلا محفوظ جگہ پر آنے والی موت سے گھاٹیوں کی موت کو ترجیح دیتی ہے ، روایت کی پابند زندگی پر محبوب کے ساتھ کو اہمیت دیتی ہے. اور اس دنیا سے چلے جاتی ہے جہاں ہر وقت خوفزدہ کرنے والی چیزیں وقوع پزیر ہوتی ہیں .ایک کم ہمت ،کم حوصلہ عورت میں یہ جرات پیدا کرنے والا ،اسکے سکوت توڑنے والا اور اندھیر وں میں روشی کرنے والا عزیز تھا.
” ہر سچی محبت اوردوستی ایک غیر متوقع واقعات کی کہانی ہوتی ہے.اگر محبت کے آنے اور جانے سے ہماری حالوں میں تغیر برپا نہ ہو تو پھر وہ محبت نہیں.”
دنیا کے دوردراز ،خطرناک اور مشکل راستوں پر سیاحت کا شوقین ملنگ اور صوفی عزیز زہرہ صرف ایک ناول لکھتا ہے.زہرہ منزل منزل دنیا کے شواہد دریافت کرتا کائنات کے چھُپے راز ڈھونڈنے میں سرگرم ہے.زہرا نام کا یہ سورج ایلا کی زندگی کے ٹھہرے پانیوں میں طلوع ہوتا ہے تو ساکن پانی کی سطح کو ہزاروں جھلمل کرتے ستاروں سے بھر کر اپنی تمازت پانی کی تہہ تک پہنچا کر دم لیتا ہے.عشق کیا صرف مادی جسموں کا ملاپ ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ ناول کبھی نہ لکھا جاتا.عشق وہ معراج ہے جو صرف خالص دلوں پر اپنے آسماں کھولتی ہے.یہ کشکول پکڑے فقیر لوگوں کی میراث نہیں. ستاروں پر پاؤں دھرنا ،آسماں سے پانی برسانا اور سوکھے پیڑ پر منٹوں میں گلاب اُگا دینے کا ہنر رب صرف شمس آف تبریز اور عزیز زہرہ جیسے لوگوں کو ودیعت کرتا ہے.اتفاقات کے نام پر ہونے والے واقعات محبت کے معجزات تھے. جو ایلا کے پیروں کی بیڑھیاں کھول دیتے ہیں، اور نگاہوں سے غفلت کا پردہ ہٹا دیتے ہیں۔ دور کہیں انکی ڈوریں آسمانوں سے ہلای جاتی ہیں۔
“کوشش کرو کہ اپنی راہ میں آنے والی تبدیلیوں کی مزاحمت نہ کرو.اسکی بجاے زندگی کو انمیں سے گزرنے دو! پریشان مت ہو کہ تمھاری زندگی الٹ رخ چلنے لگی ہے.تم کیسے جان سکتے ہو کہ جس رخ کے تم عادی ہو وہی سب سے بہترین ہے؟”
اکسویں صدی کے مدمقابل چلتی دوسری کہانی ناول کے اندر موجود دوسرے ناول sweet blasphemy کی ہے جو عزیز زہرا کے قلم سے نکلا ہے اور ایلا کی نئی نویلی نوکری میں اس
کے ہاتھوں میں تبصرہ کے لیے پہنچا ہے. یہی وہ کتاب ہے جو ایلا کی زندگی کو نیے سرے سے تحریر کرتی ہے. یہ ناول کہانی سناتا ہے ہے شہرہ آفاق عالم اور عظیم فلاسفرجلال الدین رومی کے عروج سے زوال یا پھر زوال سے عروج کی، اسکے فلسفی سے درویشی اور ہستی سے مستی تک کی..اور اس تبدیلی کا باعث بننے والے اسکے دلعزیز دوست شمس آف تبریز کی. ایلا کی زندگی کی تحلیل نفسی سے لے کر تعمیر ہستی تک شمس کا ہی کارنامہ ہے .
.اس حصہ میں تیرھویں صدی عیسوی کے عشق و مستی کے وہ اسباق ہیں جو ایک ملنگ کو دنیا تیاگ کرنے پر پہنچا دیتے ہیں اور وہ سر پر راکھ ڈالے جنگلوں میں اور سر اور چہرے کے بال منڈوائے جنگلوں سے شہروں کی سمت جا نکلتا ہے. شمس آف تبریز اور رومی کے عشق کی حدتیں آنے والے صفحات پر طوفان برپا کر دیتی ہیں.اونچایوں پر رہنے والے فلاسفر کو زمین پر پٹخ دیتی ہیں اور رومی عشق کا عظیم سبق پڑھتا شمس کے ہاتھ سے ایک کے بعد ایک زہر کی پیالی امرت سمجھ کر پیتا جاتا ہے اور دونوں کا وجود دنیا میں امر ہو جاتا ہے.
“ محبت کی وضاحت نہیں کی جاسکتی.اسکا محض تجربہ کیا جا سکتا ہے،
محبت کی وضاحت نہیں کی جا تی، پھر بھی یہ سب
واضح کر دیتی ہے.”
شمس آف تبریز رومی کے لیے ایک آئینہ ہے ایک ایسا آیینہ جو اسے اسکا اصل اپنی پوری سچایوں، خوبصورتیوں اور بد صورتیوں کے ساتھ دکھاتا ہے.اپنی بدصورتیوں کو خوبصورت بنانے کے لیے رومی کئی کئی بھٹیوں میں جلتا ہے اور ہزار طرح کی آزمایشیں پار کرتا ہے. اپنے خیالات وتصورات سے تراشے سب بتوں کو گراتا اور نیی شکلوں میں ڈھالتا ہے.یہاں تک کہ بیچ چوراہے میں سیما( درویشانہ رقص ) تک جا پہنچتا ہے.اور عاشق و معشوق “ایک ہاتھ آسمانوں کی طرف بڑھاے ہوے اور دوسرا زمیں کی طرف جھکاے ہوے ، خدا سے ملنے والی ہر محبت اسکے بندوں تک پہنچاتے ہوے” ایک ایسی ِلے کو جنم دیتے ہیں ، ایسی مستی کی بنیاد رکھ دیتے ہیں جو آنے والی صدیوں تک درویشی کی پہچان بننے والی تھی.ایک ایسا رقص جو شمس وقمر کے متوازی چلتا فطرت اور کاینات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے. یہی درویشانہ رقص رومی کی زندگی میں طوفان و بادوباراں کے بعد اسکو تاریخ کے اوراق پر امر کر دیتا ہے اور رومی کے علم کو معراج نصیب ہوتی ہے
“محبت کی شراب بہت نرمی سے ہمارے سروں کو گھماتی ہے اور مجھے بہت خوشی اور شکرگزاری کے ساتھ محسوس ہوا کہ ہوا نے مایوسی کی سرگوشیاں بند کر دی ہیں. “
رومی کو ایک بے تاثیر مولانا سے ایک سچا عاشق، شاعر اور صوفی بناتے ہوے خود شمس ہزار طرح کی تکلیفوں سے گزرتا ہے.رومی کی نیک نامی کی دھجیاں اڑتی ہیں تو شمس کا دل بھی پاش پاش ہو جاتا ہے.رومی کی زات کا سفر شمس کو بھی موجود سے فنا ،بہار سے خزاں اور زندگی سے موت تک لے جاتی ہے.رومی کو نیے رنگ میں رنگ کر شمس تبریز کا مقصد حیات پورا ہوا تو اسکو الہام ہوتا ہے کہ اسکی روانگی کا نقارہ بج چکا.
“ریشم کے پھلنے پھولنے کے لیے ریشم کے کیڑے کا مرنا ضروری ہے. ”
رومی نام کے ستارےکو تاباں کرنے کے لیے شمس نام کے سورج کو غروب ہونا پڑے گا.
دنیا میں رہنمای کرنے والے لوگ ہی اکثر منزل چھوٹ جانے کا سبب بن جاتے ہیں. یہی لوگ جب اپنی نگاہ سے انسانوں کی شناخت کرنے لگتے ہیں اور انکو اپنے بناے پیمانوں پرجانچنے لگتے ہیں تو کھرے اور کھوٹے کی نہ صرف پہچان کھو بیٹھتے ہیں بلکہ ہماری روحوں کو زخمی کرتے جاتے ہیں
” تمھارے اور خدا کے بیچ کسی کو نہیں آنا چاہیے :کوی امام ، پادری نہ کوی ربی ، مزہبی اور اخلاقی اقدارر کے ٹھیکیدار نہ کوی روحانی عالم اور نہ ہی تمھارا اپنا ایمان .اپنی اقدار اور قواعد پر یقین رکھو لیکن انکو کسی بھی شے
پر حاوی مت ہونے دو!”
شمس آف تبریز کا یہ سبق دنیاوی مشعل برداروں کی نفی کرتا قاری کی آنکھ کو اس آئینہ میں جھانکنے کی ترغیب دیتا ہے کہ جس میں رب کا عکس دکھا ی دے رہا ہو .ہم ان کرداروں کی ازیتوں کو ایک ہمزاد کی طرح اپنے دل میں محسوس کرتے جاتے ہیں. شمس اور رومی کے تعلقات اور رومی کی شخصیت کا بدلاو معاشرے اور مذہب کے انہیں ٹھیکداروں کے ہاتھوں تنقید اور تحقیر کا باعث بنتا ہے.
تاریخ اور حال کا ایسا سنگم کہ جسکو الگ الگ کر کے دیکھنا مشکل ہے.تیرھویں صدی عیسوی کو مصنفہ نے اکسویں صدی کے ساتھ اتنی مہارت سے گوندھ دیا ہے کہ قاری انکو الگ الگ کر کے نہیں دیکھ سکتا نہ وہ دیکھنا ہی چاہتا ہے.شمس کی کہانی آپکو ایلا کی طرف دھکیلتی ہے اور ایلا کو پڑھتے آپکا دھیان شمس کی طرف لپکتا رہتاہے. ہر اگلا سبق پچھلے حصے کا بے اختیار تسلسل ہے. ظاہر میں ایک دوسرے سے الگ دکھتی کہانیاں اصل میں ایک ہی دھاگے سے باندھی گیی اور ایک ہی خوشبو سے مہکای گیی ہیں. عشق اور عشق حقیقی کی زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ خالق کی محبت انسانوں سے امتحان لیتی ہے۔ محبوب صرف واحد ہو سکتا ہے اور واحد کو محبوب بنانے کے لیے دنیاو ی شہرت اور عزت سے ماورا ہونا پڑتا ہے. کسی بشری تقاضے سے ماوارا ہونا عشق کی معراج بھی ہے اور صوفی ازم کا بنیاد ی نکتہ بھی جسکو درجہ بدرجہ چالیس اصول واضح کرتے جاتے ہی.
ناول کے ساتھ ساتھ چلتے ہوے سامنے آنے والے کردار آپکی روح میں پنجے گاڑ تے جاتے ہیں. روز آف فارسٹ، شرابی، فقیر ، کیارا، ایک ملنگ اور درویش کے عشق میں تڑپتی کیمیا، باپ پر یقین رکھتا سلطان ولد، دنیا کی نظروں میں زمینی حقایق، سچ اور جھوٹ، اصل اور نقل میں فرق، ظاہر اور باطن کا دھوکہ آنکھوں کے سامنے واضح ہوتے جاتے ہیں. عشق ومستی کا کھیل کبھی حسد، رقابت اور آگ سے دامن بچا سکا ہے اور نہ ہی حسن و محبت کی داستان نفرتوں کی شمولیت کے بغیر کبھی مکمل ہوی ہے .ان صفحات پر بھی الہ دین، بیبرز اور زیلٹ نفرت سے خون تک کا سفر طے کرتے نظر آ تے ہیں.کسطرح خبیث ترین کام مقدس سمجھ کر سرانجام دیے جاتے ہیں.روائتی طبقات کا نکتہ نظر کتنا سچ اور جھوٹ لیے ہے سب روز روشن کی طرح واضح ہوتا جاتا ہے.تعصبات حقایق کو دھندلاے رکھتے ہیں اور کالے بادل چمکتے سورج کو نظروں سے اوجھل کر دیتے ہیں.اسی طرح روایتی سوچ اور حسد شمس اور رومی کو ملحد دکھا کر بدصورت بنا دیتی ہے تو ایلا اور عزیز کی بے نیازی بھی برداشت نہیں کر پاتے.دونوں سطحوں پر متعلقہ معاشرہ کبھی الہ دین اور مقامی علما کی شکل میں اور کہیں شوہر اور بچوں کی صورت اپنی اپنی مزاحمتوں میں سرگرم عمل نظر آتا ہے.
شمس اور عزیز میں زمان و مکاں کا فرق ہونے کے باوجود عزیز شمس ہی کی ڈوری کا ایک سرا دکھای دیتا ہے.شمس کے برعکس عزیز دکھنے میں ایک عام انسان لگتا ہے مگر درحقیقت صوفیانہ لڑی سے جڑا شمس کا ہی ایک جنم ہے.صوفی سراے میں اپنے صوفیانہ تربیت کے دوران اسکا استاد اسکی شمس سےمماثلت کا زکر کرتا ہے تو عزیز کو اپنے پاس سے شمس کے لباس کی سرسراہٹ سنای دیتی ہےشمس کے بارے میں جان کراسے وہ کردار بہت جانا پہچانا اور دیکھا بھالا لگتا ہے.اور یہی بات جب ایلا پوچھتی ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ شمس رومی کے بغیر ادھورا ہے چونکہ روی کی زات کی تکمیل ہی شمس کی زندگی کا اصل مقصد تھا.
“اگر کوی شمس ہو بھی تو اسے دیکھنے والا رومی کہاں ہے؟”
ایلا عزیز کی محبت اور اپنے شمس کی رومی بن جاتی ہے. عشق خدا کا ایک جزباتی ، روحانی اور پراسرار رخ اور اعلیٰ ترین درجہ شمس کا تو دوسرا مغربی،دنیاوی اور انسانی رخ عزیز ہے.
” ہر چور جب دنیا سے روانہ ہوتا ہے تو ایک نیا جنم لیتا ہے.ہر مہزب انسان جب وفات پاتا ہے تو اسکی جگہ کوئی نیا لے لیتا ہے، اسطرح سے کچھ بھی ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا اور نہ ہی کچھ بھی ہمیشہ بدلتا ہے ۔کہیں کوئی صوفی مرتا ہے تو ااسی لمحے دوسرا کسی دوسرے کونے ميں پیدا ہو جاتا ہے ”
صوفی ازم ،تزکیہ نفس ، عشق حقیقی اور مجازی ، دماغوں کو نیے سُروں سے روشناس کرواتے ہیں تو تحریر کی پراسراریت، اسکے کرداروں کی طلسمیت، دل کو دہکا دینے والے لمحے اور گرما دینے والی حدتیں آپکو کئی کیئ حیران کن جزیروں کا سفر کرواتے ہیں.
” کنویں کے اندر سے دو چمکتی کالی پتھر سی آنکھیں ”
آپ کبھی بھول نہیں پاتے، کنویں کے کنارے گرا ہوارومی زمین پر نہیں آپکے دل پر گرتا ہے اور بین کرتا ہے جسکی نوحہ کنعایاں آپکے وجود میں زلزلے برپا کر دیتی ہیں. ایلا کے سامنے بیٹھا عزیز اپنے صوفی بننے کی کہانی سناتا ہے، ایلا کے ساتھ خوفناک رستوں پر چلنے کی بات کرتا ہے تو ایلا کے ساتھ آپکی زات بھی موم کی طرح پگھل کر بہہ جاتی ہے.معشوق کا وصال ہو یا جدای اپنے پنجے قاری کے دل میں گاڑھتی ہے.ایلف شفق اپنی تحریر سے آپکو شمس آف تبریز اور عزیز سے عشق کرنے پر مجبور کر دیتی یے تو رومی اور ایلا کے احترام اور رتبوں میں اضافہ کرتی جاتی ہے.کیمیا کی غیر فطری صلاحیتیں اسکے لیے فنا کا پیغام لاتی ہیں اور ایک غیر معمولی بچی سے درویش تک اور درویش سے فناییت تک کا سفر اسے عشق حقیقی کی تکمیل تک لے کر جاتا ہےکیمیا کا کرب اور جستجو اور من مندر میں لگی آگ قاری کا دامن جلانے لگتی ہے.
آپ ہر لفظ سے اپنی انگلی چھڑا کربھاگنا چاہتے ہیں مگر مصنفہ آپکا بازو پکڑے آپکو آگے سے آگے دھکیلتی جاتی ہے.یہ بلاشبہ لکھاری کی مہارت اور ہنر ہے کہ قاری نہ صرف کتاب سے چپک کر رہ جاتا ہے بلکہ اسے روح کی گہرایوں تک محسوس کر کے اگلے کیئ روز تک اسکی تاثیر محسوس کرتا رہتا ہے.ناول کے آغاز میں کنویں کی تہہ میں چمکتی ہوی آنکھوں سے شروع ہونے والا خوف ، تہہ میں گرنے کی آواز کے منتظر قاتل جو کنویں کی خاموشی سے سہم جاتے ہیں ، تک آپکی ازیت کو بڑھاتا ہی نظر آتا ہے یہاں تک کے قاری آخری صفحات پر پھر انہیں آنکھوں اور نوح و کنعاں تک آ ٹھہرتا ہے.
ایلا کی داستان آپکے اندر ایلا کو بیدار کر دیتی ہے تو .رومی کی تڑپ آپکو انگاروں پر جلانے لگتی ہے ،شمس آف تبریز کے ساتھ چلتے آپ درویش بن جاتے ہیں تو عزیز آپ کو منزل منزل روشنی دیتا ہے . بابا زمان اپنی شفقت اور لیاقت سے آپکو شرابور کر دیتے ہیں اورکیمیا کی حسرتیں آپکا دامن جلا دیتی ہیں.الہ دین کا حسد ، روز آف فارسٹ کی جستجو سب قاری کو خود پر سہنی پڑتی یے عشق حقیقی کے اسباق پڑھتے ،سمجھتے اور سیکھتے ہوئے.
صوفی ازم کو فلسفے کی کتابوں سے نکال کر ایک کہانی کی صورت میں مصنفہ نے اسطرح ڈھال دیا ہے کہ ایک عام سا قاری بھی سیما( درویشانہ رقص) کی دھڑکنوں میں گول گول گھومنے لگتا ہے.درویشانہ رقص ایک عام نظر کو منٹوں میں کندن کر کے حسن وعشق کے وہ اسباق پڑھا جاتا ہے جو عام حالات میں شاید فلسفے کی کتابوں میں بند رہ جاتے یا صرف فلسفہ کے شاگردوں کی ایک درسی ضرورت بن جاتے. مصنفہ کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ عشق حقیقی کے چالیس قوانیں وہ سیدھے ایک قاری کے دل میں اتار جاتی ہے بغیر کسی بحث و مباحثہ ،بغیرکسی حجت کے.اور فلاسفی کو اتنی خوبصورتی اورسادگی سے عوام الناس کے سامنے پیش کرکے اپنی ناول نگاری پر مکمل گرفت کا ثبوت دیتی ہے. فلسفہ کو ایک سادہ کہانی کی صورت بیان کرنے میں مصنفہ کی پختگی بہت جلد پایلو PAULO COELHOکو ہلو کو پیچھے چھوڑتی دکھای دیتی ہے.
صوفی ازم کو اپنے بہتریں انداز میں پیش کرتے ہوے جہاں مصنفہ اسلام میں چالیس کی اہمیت، اور چالیس قوانین کو واضح کرتی ہے وہیں اپنے ہر سبق کا آغاز ب سے کرکے اس لفظ کی اہمیت اجاگر کرکے ناول کی درویشیت کو تقویت دیتی ہے چونکہ بسم اللہ کے ب کو سارے قرآن کا مفہوم کہا گیا ہے. اپنے کرداروں، الفاظ اپنی کہانی کی بنت اور اتار چڑھاو، رومی کے چالیس اصول ہر شے کو مصنفہ بہت احتیاط سے چھان پھٹک کے اس موضوع کے ساتھ بہترین انصاف کرتی دکھائی دیتی ہے.
ناول کے کرداروں کو عام زندگی کی حکایتوں، فلموں اور ڈراموں کی محبت کے زاویے سے دیکھنا اس کے ساتھ زیادتی کرنا ہے.عشق حقیقی کی لہروں کو دھیرے دھیرے اپنی زات میں جزب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ زہن میں معاشرے اور روایات کے ہاتھوں پالی گیی بصیرت کو کچھ لمحوں کے لئے بھلا کر آپ خود کو اس کتاب کے کرداروں اور الفاظ کے سپرد کر دیں اور دیکھیں کہ آپکی استطاعت کتنے سمندروں کی حدوں تک ہے.میرا دعویٰ ہے کہ عشق کا سمندر آپکے پاوں گیلے نہیں کرے گا بلکہ اپنی لہروں میں ڈبو دے گا۔ اک حیات جادواں کا نظارہ دکھانے کے لیے.کچھ دنیائیں عام انسانوں کی نظر سے اوجھل رہتی ہیں جو صرف مقدر والوں کا مقدر اور بصیرت والوں کی بصارت بنتی ہیں
6 notes · View notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
2022 کے لیے بچوں کے سرفہرست نام: یہاں چند دلچسپ پیشین گوئیاں #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/2022-%da%a9%db%92-%d9%84%db%8c%db%92-%d8%a8%da%86%d9%88%da%ba-%da%a9%db%92-%d8%b3%d8%b1%d9%81%db%81%d8%b1%d8%b3%d8%aa-%d9%86%d8%a7%d9%85-%db%8c%db%81%d8%a7%da%ba-%da%86%d9%86%d8%af-%d8%af%d9%84%da%86/
2022 کے لیے بچوں کے سرفہرست نام: یہاں چند دلچسپ پیشین گوئیاں
Tumblr media
نئیاب آپ فاکس نیوز کے مضامین سن سکتے ہیں!
سب سے زیادہ مقبول کیا ہو گا بچوں کے نام 2022 کا؟
Names.org نے ابھی پیر کو اس سال کے لیے اپنی پیشین گوئیاں جاری کی ہیں – اور 2020 (حالیہ ترین سال جاری کیا گیا) اور ریاستہائے متحدہ کے مردم شماری بیورو سے ملنے والے ڈیٹا سے متعلق سوشل سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے اس کے نتائج پر مبنی چند حیرتیں ہیں۔ .
1980 اور 1990 کی دہائیوں کے دوران ونٹیج ناموں کے استعمال میں کمی آئی، لیکن اب ان ناموں کی واپسی نظر آ رہی ہے۔
لیام کا نام لڑکوں کے ناموں کی فہرست میں سرفہرست ہے – اور تنظیم نے “پیش گوئی کی ہے۔ [that] 2022 میں 18,960 بچوں کا نام لیام رکھا جائے گا۔
اس سال گروپ نے یہ بھی کہا کہ “نئے نام ٹاپ 10 میں داخل ہوئے۔
Tumblr media
ایک گروپ کی نئی پیشین گوئیوں کے مطابق، لیام 2022 کے لیے لڑکوں کے ناموں کی فہرست میں سرفہرست ہے۔ (iStock)
تاہم، ہنری کا نام ایک مقام اوپر چلا گیا، نمبر 8 پر — لوکاس نام کو ایک درجے نیچے دھکیل کر، نمبر 9 پر آگیا۔
Names.org نے کہا کہ اولیویا لڑکیوں کے لیے سرفہرست نام ہے، اس سال اولیویا کے نام سے 16,510 بچے پیش کیے گئے ہیں۔
یوکرین کی ماں نے بچوں کو گھومنے پھرنے والوں کے تحفے سے خوش آمدید کہا
ایک بیان میں، گروپ نے کہا کہ یہ “پچھلے تین سالوں میں پیشین گوئیوں میں 95 فیصد درست رہی ہے۔”
ونٹیج ناموں کے بارے میں کیا خیال ہے؟
تنظیم کے میتھیو کولب نے پیر کے روز فاکس نیوز ڈیجیٹل کو ایک ای میل میں کہا کہ جب جدید ناموں، منفرد ناموں، ونٹیج ناموں اور کلاسک ناموں کی بات آتی ہے تو کئی سالوں میں بہتے اور بہاؤ دیکھے گئے ہیں۔
names.org کے کولب نے مزید کہا کہ اس سال کا رجحان “کلاسک ناموں جیسے ولیم، جیمز اور بینجمن – اور ایما، ہنری، ایولین اور شارلٹ جیسے ونٹیج ناموں کی طرف واپسی” کو ظاہر کرتا ہے۔
Tumblr media
names.org کے میتھیو کولب نے کہا، “یہاں تک کہ لیام جیسے جدید ناموں میں سے کچھ بھی ولیم جیسے کلاسک ناموں سے اخذ کیے گئے ہیں۔
1980 اور 1990 کی دہائیوں کے دوران ونٹیج ناموں کے استعمال میں کمی آئی، لیکن اب ان ناموں کی واپسی نظر آ رہی ہے۔
کولب نے کہا، “یہاں تک کہ لیام جیسے جدید ناموں میں سے کچھ ولیم جیسے کلاسک سے مشتق ہیں۔”
ان تینوں ناموں نے مقبولیت حاصل کی۔
لونا نے اس سال پہلی بار فہرست بنائی، جو 10ویں نمبر پر آ رہی ہے۔
دریں اثنا، تنظیم نے کہا کہ شارلٹ اور امیلیا کے نام “مقبولیت میں بڑھ رہے ہیں۔”
شارلٹ نمبر 4 سے نمبر 3 تک پہنچ گئی، جب کہ امیلیا بھی نمبر 6 سے نمبر 4 پر آگئی۔
Tumblr media
میٹیو اور کیملا کے ناموں نے 2022 کے لئے اعزاز حاصل کیا ہے۔
کولب نے کہا کہ یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ لونا کا نام ٹاپ 10 کی فہرست میں ہے، کیونکہ حالیہ برسوں میں یہ نام تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
کولب نے کہا، “لونا ہماری ٹاپ 10 فہرستوں میں نمایاں ہے۔
کولب نے کہا کہ جیمز نام امریکہ میں 5.2 ملین لوگوں میں سب سے زیادہ مقبول نام ہے – اور جیمز لونا کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
بی بی کے ناموں کی ویب سائٹ 2020 کے سرفہرست ناموں کی پیش گوئی کرتی ہے۔
قابل احترام تذکرے بھی ہیں۔
میٹیو کو لڑکوں کے لیے یہ منظوری ملتی ہے، جبکہ کیملا لڑکیوں کے لیے اس زمرے میں ہے۔ میٹیو اور کیملا دونوں ہسپانوی نژاد ہیں۔
کن ناموں کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے؟
Names.org نے رپورٹ کیا کہ مائیکل، جیک، میسن اور لیوی ٹاپ 10 میں سے کم ہیں اور مقبولیت میں کمی آرہی ہے۔
Tumblr media
ایک گروپ کے مطابق، لیام، نوح اور اولیور 2022 میں لڑکوں کے لیے تین سب سے مشہور نام ہونے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ (iStock)
لڑکیوں کے ناموں کی مقبولیت میں ہارپر، الزبتھ، صوفیہ، ملا اور ایلا بھی کم ہو رہے ہیں۔
اس تنظیم کے مطابق، مقبول ترین ناموں کی مکمل فہرست مندرجہ ذیل ہے۔
2022 میں لڑکوں کے لیے 10 سب سے مشہور نام
1.) لیام
2.) نوح
3.) اولیور
4) ایلیاہ
5.) ولیم
Tumblr media
ہنری، لوکاس اور الیگزینڈر نے لڑکوں کے لیے ٹاپ 10 کی فہرست بنائی۔ (iStock)
6.) جیمز
7.) بنیامین
8.) ہنری
9.) لوکاس
10.) سکندر
2022 میں لڑکیوں کے لیے 10 مقبول ترین نام
1.) اولیویا
2.) ایما
3.) شارلٹ
4.) امیلیا
5.) صوفیہ
Tumblr media
میا، ایولین اور لونا نے لڑکیوں کے لیے ٹاپ 10 کی فہرست بنائی۔
6.) Ava
7.) ازابیلا
8.) میا
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
9.) ایولین
10.) لونا
Source link
0 notes
jfpalestine · 3 years
Photo
Tumblr media
معلوم نشد که مادر حولاتا چقد فارسی می داند. شاید بعدها شماره نیر، همسر اخینعام (از راست نفر دوم) را منتشر کردیم تا ببینیم اوضاع فارسی وی چطور است. در این تصویر مادر، برادر و خواهر نیر به نامهای ایلا، بنیامین، آهارون و عدی استر مشاهده می شود. شاید از آهارون هم تست فارسی گرفتیم. پدر نیر که ایرانی بود اما مادرش دارای ریشه استرالیایی است. با ما باشید ✌🏽⚖️🇵🇸 #عکس_اختصاصی #یوسی_کوهن #موساد #justiceforpalestine 🌐 https://t.me/justice_palestine 🇵🇸 https://www.instagram.com/p/CWGYsMiMpuO/?utm_medium=tumblr
0 notes
keomusic · 4 years
Text
دانلود آهنگ انگل از عمران و ایلا
دانلود آهنگ جدید انگل از عمران و ایلا
با دانلود و شنیدن این آهنگ لذت ببرید هم اکنون آهنگ جدید عمران و ایلا به نام انگل در کئوموزیک
دانلود آهنگ انگل عمران و ایلا
Download new Music by Emran & iLaa name is Angal
Tumblr media
متن اهنگ انگل
♫======کئوموزیک=====♫
♬======کئوموزیک=====♬
نوشته دانلود آهنگ انگل از عمران و ایلا اولین بار در دانلود آهنگ. پدیدار شد.
source https://keomusic1.ir/%d8%a7%d9%86%da%af%d9%84-%d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d9%88-%d8%a7%db%8c%d9%84%d8%a7.keo
0 notes
khoonevadeh · 4 years
Photo
Tumblr media
جاستین ترودو؛ نیمه تاریک نخست‌وزیر خوشتیپ و جذاب کاناداhttps://khoonevadeh.ir/?p=239166
برترین‌ها: جاستین ترودو، نخست‌وزیر ۴۸ ساله کانادا یکی از جذاب‌ترین سیاستمداران کنونی جهان است که هرازگاهی با رفتار‌ها و صحبت‌هایش دسته گل به آب می‌دهد. وی در ماه‌های اخیر به دلایل مختلفی به تیتر اول رسانه‌های جهان تبدیل شده که تازه‌ترین مورد آن واکنش‌هایش به ساقط شدن یک هواپیمای مسافربری خطوط اوکراین در آسمان تهران است که اکثر مسافران و قربانیان آن را شهروندان این کشور تشکیل می‌دادند.
ترودو با رفتن به منزل برخی از بازماندگان این حادثه و سپس سخنانش در مورد لزوم اجرای عدالت بیش از گذشته خبرساز شده و به همین دلیل تصمیم گرفتیم نگاهی به زندگی خصوصی و سیاسی او و البته حواشی و گاف‌هایش داشته باشیم.
زندگینامه جاستین ترودو
جاستین ترودو، فرزند نخست‌وزیر سابق مشهور کانادا، پیر ترودو، و رهبر حزب لیبرال کشور از سال ۲۰۱۳ تاکنون است که در ۲۵ دسامبر ۱۹۷۱ در شهر اوتاوا، استان اونتاریو به دنیا آمد. او اولین فرزند یک نخست‌وزیر کانادایی است که خود نیز به این مقام در کشور دست می‌یابد. او تا پیش از وارد شدن به دنیای سیاست، به عنوان مربی اسنوبرد، رقصنده کلوب‌های شبانه، مشاور کمپینگ و البته در زمینه بوکس فعالیت داشته است.
نکته جالب در مورد نخست‌وزیر شدن جاستین ترودو این بود که ریچارد نیکسون، رییس جمهور سابق ایالات متحده در آوریل سال ۱۹۷۲ و در جریان دیداری که با پدر وی داشت، نخست‌وزیری جاستین را چنین پیش‌بینی کرد: «امشب، ما قواعد رسمی را کنار می‌گذاریم. دوست دارم به سلامتی نخست‌وزیر آینده کانادا بنوشم: برای جاستین پیر ترودو». به نظر می‌رسد که زندگی وی از همان آغاز متفاوت از دیگران بوده و موفقیت و شهرت او از همان ابتدا تضمین‌شده بوده است.
نکته جالب دیگر در مورد جاستین ترودو این است که وی در شب کریسمس به دنیا آمده و از همان ابتدا زندگی خانوادگی‌اش با جنجال و شایعه همراه بود. مادرش، مارگارت، که ۲۹ سال از پیر ترودو (پدر جاستین) کوچکتر بوده و علیرغم اینکه خود فرزند یکی از مشهورترین سیاستمداران کانادایی بود، اما بعد از جدایی از نخست‌وزیر سابق کانادا شایعات بسیاری در مورد روابط عاشقانه‌اش با ستارگان راک و دیگر سلبریتی‌ها وجود داشت.
بعد از جدایی والدین، جاستین و دو برادر کوچکترش توسط پدر مجردشان بزرگ شدند که به مدت ۱۵ سال (از ۱۹۶۸ تا ۱۹۷۹ و از ۱۹۸۰ تا ۱۹۸۴) رهبری کشور را در اختیار داشت. بعد از پایان تحصیلات در یک مدرسه خصوصی یسوعی فرانسوی در مونترال که پدرش نیز همانجا تحصیل کرده بود، جاستین در سال ۱۹۹۴ در رشته زبان انگلیسی از دانشگاه مک‌گیل با مدرک کارشناسی فارغ‌التحصیل شد. در ادامه به عنوان مربی اسنوبرد فعالیت کرده و همزمان به تحصیل در رشته آموزش از دانشگاه بریتیش کلمبیا پرداخت.
بعد از آن، ترودو به تدریس زبان فرانسوی در دبیرستان و ریاضی در دبستانی در ونکوور پرداخت. در سال ۲۰۰۰، جاستین ترودو در مراسم تدفین پسرش یک سخنرانی به‌یادماندنی انجام داد که او را بار دیگر در کانون توجه مردم کانادا قرار داد. بعد از بازگشت به کبک در سال ۲۰۰۲، ترودو تحصیل در رشته مهندسی مکانیک در دانشگاه مونترال را آغاز کرده و سپس آن را رها کرد. در ادامه در رشته جغرافیای محیطی از دانشگاه مک‌گیل مدرک کارشناسی ارشد دریافت کرده و در ادامه در یک ایستگاه رادیویی در مونترال دست به کار شد که در آن به پوشش بازی‌المپیک آتن ۲۰۰۴ پرداخت.
بعد از آن بود که ترودو در مینی سریال «جنگ بزرگ» (The Great War) بازی کرده و مدتی نیز سخنگوی انجمن پارک‌ها و حیات وحش کانادا بود. مدت کوتاهی پس از آن سخنرانی مشهور در مراسم تدفین پدرش، نخست‌وزیر وقت کانادا او را به حزب لیبرال دعوت کرد و بعد از شرکت در انتخابات پارلمان در سال ۲۰۰۸، ترودو به عنوان نماینده پاپینو، از محله‌های مونترال، به پارلمان راه یافت.
در سال ۲۰۱۱ و علیرغم سقوط محبوبیت حزب لیبرال، ترودو بار دیگر به عنوان نماینده پارلمان انتخاب شده و مدتی نیز سخنگوی حزب متبوعش بود. خوش‎چهره، کاریزماتیک و جوان بودن ترودو باعث شد که بسیاری از اعضای حزب لیبرال او را گزینه‌ای مناسب برای هدایت حزب خود بدانند. در ادامه جاستین ترودو در سال ۲۰۱۳ به عنوان رهبر حزب لیبرال انتخاب شده و بعد از موفقیت حزبش در انتخابات پارلمانی در اکتبر ۲۰۱۵، به عنوان نخست‌وزیر کانادا سوگند یاد کرد و تا به امروز در این سمت باقی مانده است.
زندگی شخصی
جاستین ترودو در دوران نوجوانی در مونترال و در مدرسه با دختری به نام سوفی گریگوری آشنا شده و علاوه بر همکلاس بودن، سوفی دوست نزدیک برادر کوچکتر او، مایکل، نیز بود. بعد از سال‌ها دوری از هم، این دو در سال ۲۰۰۳ بار دیگر با هم روبرو شدند، زمانی که سوفی به عنوان یک مجری و شخصیت تلویزیونی در جریان یک فعالیت خیریه با ترودو همکار شد. این دو چند ماه بعد رابطه عاشقانه خود را آغاز کرده و در اکتبر ۲۰۰۴ نامزدی خود را به طور رسمی اعلام کردند. این زوج در می ۲۰۰۵ در یک کلیسای کاتولیک رومی ازدواج کرده و اکنون دارای سه فرزند به نام‌های خاویر (۱۰ ساله)، ایلا-گریس (۹ ساله) و هادرین (۴ ساله) هستند.
حواشی و گاف‌های جاستین ترودو
ماجرای عکس دوران جوانی با صورت سیاه
اولین جنجال جاستین ترودو زمانی رخ داد که تصویری از او با چهره سیاه‌شده منتشر شد. این عکس از ترودو سال ۲۰۰۱ گرفته شده بود که توسط مجله تایم در ۱۸ سپتامبر ۲۰۱۹ منتشر شد. در این تصویر، ترودو برای شرکت در یک مهمانی شبانه با تم «داستان هزار و یک شب» همراه با همکلاسی‌هایش صورت خود را سیاه کرده بود. این عکس ۱۸ ساله، ترودو را با عبا و سربند سفید و در حالی که تمام صورت و گردنش را سیاه کرده بود نشان می‌داد. ت
رودو به خاطر این عکس عذرخواهی کرده و آن را نژادپرستانه خواند: «بله نژادپرستانه بود، اما در آن زمان من نمی‌دانستم که نژادپرستانه است، اما امروزه چیز‌های بیشتری در این زمینه می‌دانیم». وی در ادامه گفت که با تماشای این عکس از خودش خجالت می‌کشد. وی که به خاطر لباس‌ها و ژست‌‎های نامناسب دیگرش در گذشته تحت فشار رسانه‌ها بود، اعتراف کرد که در دوران دبیرستان برای خواندن ترانه‌ای از هری بلافونته، فعال حقوق مدنی سیاهپوست آمریکایی، نیز صورت خود را سیاه کرده است. وی در ادامه افزود که عمیقاً از این کار خود پیشمان است. در کل وی اعتراف کرد که دستکم سه بار در زندگی‌اش صورت خود را سیاه کرده است.
ماجرای تتوی دست چپ
همچنین نخست‌وزیر کنونی کانادا به خاطر تتویی که روی دست چپ خود دارد مورد انتقاد قرار گرفته است، تتویی که که بر اساس یکی از آثار رابرت داویدسون طراحی شده است. داویدسون که یکی از اعضای جامعه بومیان هایدا در کانادا است، بعد از تایید ساخت یک مرکز استخراج نفت خام توسط ترودو که مردمان بومی منطقه مخالف ساخت آن بودند، به انتقاد از نخست‌وزیر پرداخته و ادعا کرد که ترودو در واقع هیچ حساسیت و اهمیتی نسبت به جمعیت بومی کانادا ندارد.
در پروژه مذکور، شن‌های نفتی منطقه آلبرتا به بندری در بریتیش کلمبیا منتقل می‌شد که به باور مردم بومی به محیط زیست آسیب زده و نقش مهمی در تغییرات اقلیمی داشت. ترودو این نقد‌ها را رد کرده و اعلام کرد که تصمیم وی برای دفاع از این پروژه بر اساس علم بوده و محیط زیست به هیچ عنوان مورد تهدید قرار نمی‌گیرد.
ماجرای رشوه دادن
در سال ۲۰۱۹ ترودو و تیم او متهم شده‌اند که به جودی ویلسون-ریبولد، اولین دادستان کل بومی کانادا، فشار آورده‌اند که با یک کمپانی مهندسی مستقر در ایالت کبک معامله کند و وقتی با مخالفتش روبرو شدند او را از مقامش خلع کرده‌اند. کمپانی مذکور در گذشته به پرداخت رشوه به مقامات دولتی لیبی برای گرفتن قرارداد‌های بزرگ متهم شده بود.
بر طبق ادعاها، ترودو از دادستان کل خواسته بود که از تعقیب قضایی این کمپانی خودداری کند، زیرا در صورت محکوم شدن، این کمپانی به مدت یک دهه حق گرفتن قرارداد‌های مرتبط با دولت فدرال را نداشت. این کمپانی در ایالت کبک که خانه ترودو محسوب می‌شود هزاران نفر را استخدام کرده و علت این کار وی نگرانی از بیکار شدن این افراد بوده است. این ماجرا ضربه سختی به چهره ترودو در کانادا وارد کرد که سال‌ها به عنوان چهره محبوب رسانه‌های کشور و قهرمان دفاع از حقوق زنان و مردم بومی شناخته می‌شد.
ترودو و توضیح محاسبات کوانتومی
در بهار ۲۰۱۶، ترودو در یک کنفرانس خبری در مو��سه پریمتر در اونتاروی حضور داشت که یکی از خبرنگاران به شوخی از وی خواست محاسبه کوانتومی را تشریح کند و او نیز این کار را کرد. به سرعت این ماجرا و توضیحات ترودو در این باره در شبکه‌های اجتماعی پیچید. بعد‌ها مشخص شد که این ماجرا کاملاً برنامه‌ریزی و صحنه‌سازی بوده و نخست‌وزیر از صبح همان روز برای این موضوع نقشه کشیده بود.
ماجرای زیر پا گذاشتن قوانین اخلاقی
در دسامبر ۲۰۱۷، کمیسیون اخلاقی کانادا اعلام کرد که ترودو قوانین اخلاقی کانادا را با دو سفری که به باهاماس داشته زیر پا گذاشته است. این جزیره متعلق به آقا خان، رهبر معنوی مسلمانان اسماعیلیه و یک میلیاردر معروف است. ترودو و خانواده‌اش یک سفر پنهانی به این جزیره در اواخر سال ۲۰۱۶ اشته و همسرش نیز در ماه مارس همان سال سفر دوم را به همان جزیره داشته بود. ترودو سعی کرد ثابت کند که سفر‌های او با هلیکوپتر شخصی به این جزیره ناقض قانون تعارض منافع نبوده، زیرا او و آقا خان شاه کریم الحسینی دوست بوده و مقامات دولتی می‌توانند از دوستانشان هدیه دریافت کنند.
اما مسئول بررسی این ماجرا این صحبت‌های ترودو را رد کرده و اعلام کرد که ترودو و آقا خان در ۳۰ سال قبل از رسیدن ترودو به نخست وزیری تنها یک بار با هم صحبت کرده بودند. در گزارش وی آمده بود که ترودو ۴ بخش از این قانون را زیر پا گذاشته و اولین نخست‌وزیری است که از زمان تصویب این قانون در سال ۲۰۰۶ آن را نقض می‌کند.
ماجرای خندیدن و تمسخر دونالد ترامپ
تنها چند هفته بعد از انتخاب دوباره به عنوان نخست‌وزیر کانادا در اکتبر گذشته، جاستین ترودو بار دیگر به فکر گاف دادن افتاد و آن زمانی بود که به نشست ناتو در لندن سفر کرده و در حالی که همراه با امانوئل مکرون و بوریس جانسون به تمسخر دونالد ترامپ پرداخته بودند و البته آقای ترودو نقش اصلی را در این تمسخر داشت، ویدیو مربوط به این ماجرا منتشر شده و خشم دونالد ترامپ را برانگیخت.
دونالد ترامپ در واکنش به این ماجرا، ترودو را «دورو» خطاب کرده و گفت که نخست‌وزیر کانادا به خاطر اینکه به دلیل فشار‌های او وادار شده هزینه بیشتری در ناتو کند ناراحت بوده و دست به تمسخر وی در غیاب او زده است. این دو پیش از این نیز بر سر افزایش تعرفه فولاد و آلومینیوم وارداتی از کانادا، محدودیت در ورود مسلمانان به ایالات متحده و ماجرای سهم کشور‌ها از بودجه ناتو با هم اختلاف داشتند.
ماجرای لباس‌‎ها در سفر به هند
در فوریه ۲۰۱۸، ترودو و خانواده‌اش در سفر به هند لباس‌های رنگی بسیار پرجزییاتی به تن داشتند که خبرساز شدند، به خصوص پس از آنکه مشخص شد بسیاری از مقامات رسمی هندی که ترودو با آن‌ها دیدار داشت کت و شلوار پوشیده بودند. در جریان این دیدار، انتقادات دیگری از ترودو شد که به استقبال جاسپال اتوال که در سال ۱۹۸۶ به خاطر تلاش برای قتل یک سیاستمدار هندی در سفر به کانادا متهم شده بود، از او مربوط می‌شد.
ماجرای دست زدن به بدن یکی از نمایندگان زن در پارلمان
در می ۲۰۱۶، ماجرایی که به آرنج‌گیت (ElbowGate) مشهور شد رخ داد. در این ماجرا، جاستین ترودو که کنترلش را از دست داده و از تاکتیک ایجاد بن‌بست مخالفان سیاسی در پارلمان درمانده شده بود، به سمت یکی از اعضای گروه مخالف رفت و به شکل تصادفی آرنجش با بدن یکی از نمایندگان زن برخورد کرد. ترودو بلافاصله بار‌ها به خاطر این ماجرای تصادفی عذرخواهی کرده و اعلام کرد که او نیز انسان بوده و فشار کاری بالا باعث شده از کوره در برود. وی همچنین قول داد که دیگر چنین اتفاقی تکرار نخواهد شد.
ماجرای خوش‌و‌بش صمیمی ترودو و ملانیا
در تصویری که در نشست سران جی ۷ در آگوست ۲۰۱۹ در فرانسه منتشر شد، بانوی اول ایالات متحده با لباس قرمز متفاوتش خم شده و با ژستی نشان دهنده خوشحالی و خرسندی به ترودو لبخند می‌زند در حالی که دونالد ترامپ با ظاهر و ژستی که انگار از این ماجرا ناخشنود است رویش را به سمت دیگری کرده است. این تصویر باعث ترند شدن هشتگی با عنوان اینکه ملانیا ترودو را دوست دارد در توئیتر شد و واکنش‌های بسیاری در پی داشت. با توجه به چهره جذاب و پسرانه ترودو و جوانی ملانیا نسبت به شوهرش و البته شایعاتی که در مورد خوب نبودن رابطه زناشویی این دو وجود دارد، نگاه خاص ملانیا به ترودو بیشتر جنجال‌آفرین شد.
جاستین ترودو و آن جوراب‌های رنگارنگ همیشگی
اگر شما نیز جاستین ترودو را در دیدار‌های رسمی دیده باشید متوجه جوراب‌های رنگارنگ و متفاوت او شده‌اید که بسیاری آن‌ها را دارای پیام‌هایی خاص می‌دانند. در واقع نخست‌وزیر کانادا دوست دارد که با رنگ و طرح جوراب‌های خود پیام‌هایی منتقل کند. از جوراب‌هایی با طرح جنگ ستارگان تا جوراب‌هایی با عبارت «عید مبارک» و شکل اردک، ترودو خود تصدیق کرده که هدف او از این کار ترویج کسب و کار افرادی است که به هر دلیلی در تبلیغ محصولات خود با مشکل مواجه هستند. دلیل دیگر اینکار او چنین است که وی با توجه به علایق فردی که با وی قرار ملاقات دارد رنگ و طرح جورابش را انتخاب می‌کند.
منبع : برترینها
0 notes
gcn-news · 4 years
Text
بیروت دھماکوں کے بعد معروف لبنانی کی ماڈل نور اریدا کہاں ہیں؟
Tumblr media
بیروت(جی سی این رپورٹ)لبنان کی ماڈل نور اریدا نے انکشاف کیا ہے کہ وہ بیروت میں واقع اپنا گھر چھوڑ کر فرانس کے دارالحکومت پیرس منتقل ہو گئی ہیں۔ ماڈل نور اریدا کا یہ فیصلہ گزشتہ ماہ 4 کو بیروت میں ہونے والے تباہ کن دھماکوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ یاد رہے کہ مشرق وسطیٰ کے ملک لبنان کے دارالحکومت بیروت میں 4 اگست کو ہونے والے ہولناک دھماکے کے نتیجے میں 200 سے زائد افراد ہلاک جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ 4 اگست کو جب بیروت کے ہزاروں شہری اپنے معمولات زندگی میں مصروف تھے کہ شہر دھماکے سے لرز اٹھا تھا۔ دھماکا بیروت کی بندرگاہ میں ہوا تھا جس سے اس کے قریبی علاقوں کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا، درجنوں عمارتیں منہدم ہوگئی تھیں، درجنوں گاڑیاں اور دیگر تنصیبات بھی شدید متاثر ہوئی تھیں جبکہ سیکڑوں افراد بے گھر ہوگئے تھے۔ انسٹاگرام پر جاری ایک ویڈیو میں نور اردیدا نے اپے مداحوں کو فرانس منتقل ہونے کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق نور اریدا نے کہا کہ 'ایک طرف میں اس نئی شروعات پر خوش اور شکرگزار ہوں لیکن دوسری جانب میں یہاں(بیروت میں) اپنی پوری زندگی پیچھے چھوڑ کر جا رہی ہوں اور یہ چیز مجھے افسردہ کر رہی ہے۔ اس سے قبل انہوں نے اپنی چار سالہ بیٹی ایلا کے ساتھ تصویر شیئر کی تھی اور کیپشن میں لکھا تھا کہ ' بیروت، تم نے ہمارے دل توڑ دیے گڈ بائے۔ خیال رہےکہ بیروت میں ہونے والے دھماکے میں جہاں ہزاروں لوگ زخمی ہوئے وہیں شوبز سے وابستہ شخصیات کو بھی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دھماکے کے نتیجے میں کچھ شوبز شخصیات زخمی بھی ہوئیں جبکہ ماڈل نور اریدا ان افراد میں شامل ہیں جن کا گھر دھماکے میں تباہ ہوگیا تھا۔ Read the full article
1 note · View note
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
Tumblr media
"کیا ہو اگر موت کے بعد انسانی دماغ کچھ اور منٹ تک چلتا رہے؟صرف دس منٹ اور اٹھتیس سیکنڈ ہی سہی!"
اور ایلف شفق کا ناول
Ten minutes,38 seconds in this strange world
انہی کچھ منٹس کی کہانی ہے جو ناول کے مرکزی کردار تاکیلہ لیلی نے مرنے کے بعد سانسیں بھرتے دماغ کے ساتھ گزارے ہیں وہ دس منٹ جس میں ذندگی بھر کے چلتے ہوئے قدموں پر سے اسے ایک بار پھر گزرنا پڑا،جب صرف دس منٹ میں اسے اپنی زندگی کا عذاب پھر سے جینا پڑا،سر سے اتار پھینکنے سے پہلے اس بوجھ کو برق رفتاری سے ہی سہی مگر دوبارہ کاندھے پر اٹھانا پڑا۔
تاکیلہ لیلی کون ہے؟ یہ ایک طوائف کی لاش ہے جس نے لاش بنننے سے پہلے ایک طوائف اور طوائف ہونے سے پہلے ایک بیٹی اور ایک بیٹی ہونے کے بعد چائلڈ ابیوز کا سامنا کیا ہے۔ذندگی میں طوائف ہونا بھی آسان کام نہیں، اس سے پہلے ہزار عذابوں سے عورت گزرتی ہے تب آ کر بازار میں سجتی ہے۔طوائف کا کوٹھا بہتی نہر میں لگی وہ جالی ہے جو ٹوٹی پھوٹی لاشوں کو رستے میں پکڑ کر کچھ اور سانسوں کے لئے سطح آب پر لے آتی ہے اور پھر عورت سب کچھ ہار کر محض ذندگی کی خاطر یہ ذندگی جیتی ہے ۔مگر یہ صرف طوائف کی کہانی نہیں۔یہ اس بیٹی کی بھی کہانی ہے جس کے پیدا ہوتے ہی مڈ وائف کے منہ سے بدشگونی نکلی کہ
"یہ لڑکی روئے گی!"
برے شگون واقع نہیں ہوتے ۔یہ تو برے نصیب ہوتے ہیں جن میں سے برے شگون بارش کی بوندوں کی مانند برسنے لگتے ہیں۔اور پھر مڈ وائف کے تین بار تھوکنے سے اور الٹے پاؤں پر سیدھا جما دینے سے بھی وہ اس بدشگونی کو اس سے جدا نہ کر سکی تھی۔اور وہ بیٹی جو بلآخر دل کی صدا سن کر رو پڑی نہیں جانتی تھی کہ اس دل کی صدا سن کر اسے ساری عمر رونا پڑے گا۔
لیلی کا نام اس کی نیک نانی کے نام پر اس شگن کے ساتھ رکھا گیا کہ ایک دن وہ بھی ایسی ہی نیک ،پرہیز گار،باوقار اور بہتے پانی کی طرح صاف ہو گی۔مگر یہ بچی صاف تھی نہ پاک تھی اور خالی نام رکھنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔جب مقدر میں سیاہیاں ہوں تو نام اجالا رکھ لینے سے بھی اجالا نہیں ملتا۔تو لیلی عفیفی کاملہ نہ حسین تھی نہ پاک باز نہ مکمل۔
اپنے آنگن کے راز رکھتے رکھتے لیلی ذندگی کے تازیانوں کے ساتھ تازیانوں کے ہاتھوں کو بھی سہتی رہی ۔
وہ شوق رکھتی تھی اور ذندگی جینے کی لگن اور استنبول کے عجوبے دیکھنے کی شوقین تھی۔فورٹی رولز آف لو کی ایلا کی طرح لیلی کو بھی یقین تھا کہ ایک دن وہ استنبول شہر کی روشنیاں دیکھنے وہاں ضرور جائیے گی۔استنبول جو اس کے خوابوں کا نگر تھا جہاں اس کے خوابوں کے مطابق اس کی کامیابیاں اور خوشیاں اس کا انتظار کر رہی تھیں۔تا کیلہ لیلی جو ذندگی کے زخمی ٹوٹے سروں کو جوڑنے کی کوشش میں کبھی بھی پوری نہ ہو سکی۔ایک ایسا مضبوط نسوانی کردار جو ہر لہو رنگ گلی سے گزرتا ہے مگر اس طرح کہ خودترسی کا واویلا نہیں کرتا،اپنی محرومیوں کا ماتم نہیں کرتا بلکہ ذندگی کے ہاتھوں جو کچھ اسے پیش کیا جاتا رہا ایک باوقار نظر سے قبول کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ بلآخر ایک جامنی رنگ کے شوخ کپڑوں میں کچرے کے ڈھیر پر پڑی لاش بن جاتا ہے۔
استنبول اس ناول کی مرکزی لوکیشن ہے مگر دراصل یہی مرکزی کردار بھی ہے۔استنبول ایک دھوکہ،استنبول ایک عجوبہ،جو اپنی روشنیوں سے دور دور کے لوگوں کی آنکھوں میں خواب جگاتا ہے،مگر اس کی روشنیاں دیکھنے جو بھی اس تک آتا ہے جھولی میں روشی بھرنے کی خواہش میں آنکھوں کا نور تک لٹا دیتا ہے۔اسے ذندگی کے کسی بھی خوبصورت دھوکے سے تشبیہ دی جا سکتی ہیں۔ہم سب کے ملکوں میں ہماری ریاستوں اور زندگیوں میں سب کے پاس ایک استنبول ہوتا ہے جو دور سے دیکھو تو تاروں کی کہکشاں لگتا ہے مگر قریب جاؤ تو دامن کو آگ پکڑ لیتی ہے۔
یہ ناول صرف ایک عورت کی کہانی نہیں ہے یہ بہت سارے افراد کی کہانیاں ہیں ۔ایسی عورت کی کہانی جس کی رضا کے بغیر اس کا بچہ اس کی گود سے لے کر اسے نیم پاگل کر دیا گیا تھا۔ترکی اور پاکستان کے حالات بہت ملتے جلتے ہیں نہ صرف سیاسی حالات بلکہ سماجی حالات بھی خصوصا پدسری نظام جہاں عورتوں کی زندگیوں کے تمام فیصلوں کا اختیار صرف ان کے مرد کے پاس ہوتا ہے۔
یہ اس جہالت کی بھی کہانی ہے جو تعلیم و شعور کی کمی،وسائل کی مشکل فراہمی،اور توہمات اور گزرے دنوں کی روایات کو ان کو بہترین سمجھتے ہوئے ان سے جڑی رہنے کی کوشش میں کی جاتی ہے۔یہ اس ظلم کی بھی داستان ہے جو بااختیار افراد اپنے سے کمزور پر کرتے ہیں پھر چاہے وہ مرد کا عورت پر ظلم ہو،کہ محبوبہ بیوی کا نئی بیوی پر،انکل کا بھانجی پر،دلال کا طوائف پر ،معاشرے کے معتبر لوگوں کا غیر معتبر پر،یہ ناول ان تمام نوحوں کی داستان ہے۔
یہ کہانی نالاں کی بھی کہانی ہے جو اپنے مردانہ وجود میں چھپی عورت کو ذندہ کرنا چاہتا ہے اور اپنی محبوب شناخت کے ساتھ ذندگی جینا چاہتا ہے
یہ ان باغیوں کی بھی کہانی ہے جو ماں جیسی ریاست کے اصولوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر تاریک راہوں میں ڈھیروں ڈھیر اپنے پیاروں کو لاوارث چھوڑ کر مارے جاتے ہیں۔
یہ اس امیر اور آسائیش یافتہ طبقے کی بھی کہانی ہے جو پیسے کے بل پر ذندگی کے ہر ناممکن کو ممکن بنا لینے کی طاقت رکھتا ہے،جو محض پیسے کی طاقت سے دنیا کی ہر طاقت سے لڑ سکتے ہیں اور ان کو اپنا محکوم کر سکتے ہیں۔
مصنفہ نے ایک خوبصورت پیرائے میں محض دس منٹ اور اڑتیس سیکنڈ میں ایک پورے سماج اور ایک پورے معاشرے کو قاری کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔کوڑے کے ڈھیر پر پڑی اس لاش کی نظر سے دنیا کی وہ بدصورت حقیقتیں دکھائی دیتی ہیں جو اکثر ذندہ آنکھیں دیکھنے سے قاصر رہ جاتی ہیں۔
اور جب ان بند آنکھوں کے آخری سانس رخصت ہوتے ہیں توقاری کے سامنے کچرا کچرا لوگوں کی وہ خوبصورتی رکھی جاتی ہے کہ جو چمکتے دفتروں والے،اعلی رتبوں والے اور بڑی بڑی پگڑیوں والے دکھا دینے سے قاصر رہتے ہیں۔معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے اپنی وفا دکھاتے ہیں اور جب روندی ہوئی چند عورتیں ایک کمزور مرد کے ساتھ اس لاش کی تعظیم کے لئے وہاں تک جاتے ہیں جہاں تک معاشرے کے اعلی اور معزز سر نگاہ اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں۔
ایلف شفق کی فیمنزم اس کتاب میں بھی اپنا خوب رنگ جماتی ہے جب رشتوں معاشرے اور رواج کے ہاتھوں پستی ہوئی عورت کو وہ اس ناول کے ذریعے کئی کئی رنگوں میں ظاہر کرتی ہے۔ایلف شفق کی عورت جو اکثر گھر سے نکلتی ہے کبھی تعلیم کی تلاش میں کبھی روشن مستقبل کی آس میں اور کبھی محبت کی پیاس میں ،اور جو ہر حال میں ہر مرتبے پر سر اٹھا کر چلتی ہے اور اپنی پہچان اور آن کے لئے خموشی کے ساتھ مگر مسلسل لڑتی رہتی ہے۔ایلف شفق کی عورت جو سماج کے لئے ایک بغاوت ہے ایک للکار ہے مگر دراصل اپنے وجود کا اعلان ہے جو اپنی آواز اور شناخت رکھنا چاہتا ہے۔عورت کا وجود جو قدرت کے کارخانہ میں ایک مقام چاہتا ہے۔
5 notes · View notes
healthzigzag · 6 years
Photo
Tumblr media
جارج کلونی اور امل کلونی میں اختلافات، نوبت طلاق تک پہنچ گئی نیویارک (این این آئی)ہولی وڈ اداکار 59 سالہ جارج کلونی اور ان کی 41 سالہ اہلیہ قانوندان اور انسانی حقوق کی کارکن امل کلونی کی جوڑی کو دنیا کی بہترین رومانوی جوڑیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔خیال رہے کہ دونوں نے دسمبر 2014 میں طویل تعلقات کے بعد شادی کی تھی اور دونوں کے ہاں جون 2017 میں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی تھی۔جوڑے کے ہاں ایک بیٹا الیگزینڈر اور بیٹی ایلا ہوئی تھی۔لبنانی نژاد امل کلونی پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں، وہ اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر بھی ہیں، جب کہ ان کا شمار اہم عالمی انسانی حقوق
0 notes
shoukatali · 6 years
Text
بیٹی کو شوبز میں متعارف کرانے پر کاجول کی نظر میں شاہ رخ بہادر
بیٹی کو شوبز میں متعارف کرانے پر کاجول کی نظر میں شاہ رخ بہادر
Tumblr media
بولی وڈ کی ورسٹائل اداکارہ کاجول نے کچھ دن قبل ہی ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر انہیں دوبارہ کالج پڑھنے کا موقع ملا تو وہ شاہ رخ خان کو اپنا کلاس فیلو بنانا چاہیں گی۔
کاجول نے یہ بیان اپنی آنے والی فلم ُہیلی کاپٹر ایلا‘ کی تشہیر کے دوران دیا تھا۔
اسی فلم کی تشہیر کے دوران ہی اب کاجول نے شاہ رخ خان کواپنی بیٹی سہانا خان کو شوبز…
View On WordPress
0 notes
drprabhatsharma · 5 years
Video
youtube
Learn Urdu Language : उर्दू सीखें | Nukta Wale Shabd | Rekhta | Amozish ...
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
مہاتما گاندھی کی پڑپوتی کو کرپشن الزام میں 7 سال قید - اردو نیوز پیڈیا
مہاتما گاندھی کی پڑپوتی کو کرپشن الزام میں 7 سال قید – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  کیپ ٹاﺅن: جنوبی افریقا میں بھارت کے بانی رہنما مہاتما گاندھی کی پوتی ایلا گاندھی کی بیٹی کو 6 کروڑ رینڈ کی کرپشن پر 7 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جنوبی افریقا کی ایک عدالت نے 56 سالہ مہاتما گاندھی کی پڑپوتی آشیش لتا رامگووند کو صنعتکار ایس آر مہاراج سے دھوکہ دہی کے ذریعے 6 کروڑ رینڈ ہتھیانے کے الزام میں 7 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ ایس آر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
prourduglobal · 4 years
Link
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے بین الپارلیمانی یونین کی صدر گیبری ایلا کیووس بیرن کی ایوان صدر میں ملاقات
مزید تفصیلات کے لئے لنک پر کلک کریں https://prourdu.com/2020/08/24/8393/
0 notes
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
" خلوت "
مُسکراو،
اور دُنیا تُمھارے ساتھ مُسکرائے
رونے لگو ،
تو تنہا آہ و زاری کرنی پڑ جائے
کہ اِس اُداس بوڑھی زمیں نے
اپنے لئے کُچھ سرور
مُستعار تو ضرور لینا ہے
مگر اس کے مسائل بھی تو کئی ہیں
گُنگناو،
اور پہاڑ جواب دینے لگیں
آہ بھرو،
تو ہواوں میں کھو جائیں
خوش لسانی پہ تو گونجیں یکتا ہوتی ہیں
لیکن احساس کی طلب سے سمٹنے لگتی ہیں
شادماں رہو،
اور آدمی تمھیں چاہتے جائیں
ماتم کرنے لگو ،
تو پلٹ کر لوٹنے لگ جائیں
وہ تُمھاری لطافت کی مُکمل حوالگی مانگیں
مگر تُمھارے غموں سے کوئی سروکار نہیں
خوش رہو،
تو تمُھارے دوست ہوں ہزار
اُداس ہو،
تو سب کو کھونے لگ جاو
ایسا کوئی نہیں ،
جو تُمھارے جامِ امرت سے انکاری ہو
مگر زندگی کا پَت نوش کرنے کو تُم تنہا ہو
ضیافت دو ،
تمُھارے مہمان خانے بھر جائیں
فاقہ کش ہوجاو ،
تو دُنیا پیچھے چھوڑ جائے
کامیابی حاصل کرو اور بانٹتے جاو
اور اسے جینے کے لئے مددگار بناو
مگر کوئی آدمی ،
مرنے میں تُمھاری مدد نہیں کرسکتا
لذتوں کے دیوان خانے میں اتنی زیادہ جگہ ہے
کہ اک لمبی شاہانہ ٹرین اس میں سما جائے
مگر ایک ایک کر کے ہم سب نے
درد کے تنگ و ناہموار رستوں سے ہی
گُزر کر چلے جانا ہے۔۔
شاعر : ایلا وھیلر ولکوکس
" Solitude "
Laugh, and the world laughs with you;
Weep, and you weep alone;
For the sad old earth must borrow its mirth,
But has trouble enough of its own.
Sing, and the hills will answer;
Sigh, it is lost on the air;
The echoes bound to a joyful sound,
But shrink from voicing care.
Rejoice, and men will seek you;
Grieve, and they turn and go;
They want full measure of all your pleasure,
But they do not need your woe.
Be glad, and your friends are many;
Be sad, and you lose them all,—
There are none to decline your nectared wine,
But alone you must drink life’s gall.
Feast, and your halls are crowded;
Fast, and the world goes by.
Succeed and give, and it helps you live,
But no man can help you die.
There is room in the halls of pleasure
For a large and lordly train,
But one by one we must all file on
Through the narrow aisles of pain.
BY ELLA WHEELER WILCOX
1 note · View note
modern-tiles · 4 years
Text
تین چراغ عشق کے
منگل 14 اپریل 2020ء
Dr Ashfaq Ahmad Virk
آج کل گوشۂ تنہائی میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ مختلف دوست مختلف کاموں، دھندوں اور مشغلوں میں مصروف ہیں۔ کوئی فیس بُک کا شہزادہ بنا ہوا ہے، کوئی سابقہ نیندیں پوری کر رہا ہے، کوئی کرونا سے ڈرا ڈرا کے قیامت یاد کرانے کی ڈیوٹی نبھا رہا ہے۔ کوئی پرانی فلموں میںاپنا ماضی تلاشنے میں مصروف ہیں۔ کوئی دوست مشکل مشکل فن پاروں کی تخلیق سے ہمیں مزیدگرویدہ کیے جا رہے ہیں۔ بعض احباب زندگی میں پہلی دفعہ ٹِک کے گھر بیٹھنے کے عجیب و غریب تجربے سے نالاںہیں، ایک ہم ہیں کہ مزے مزے کی کتاب یاترا سے فرصت نہیں۔ اس ہفتے جن تین کتابوں سے ہماری مُڈ بھیڑ رہی، اتفاق سے اُن تینوں کا تعلق ’عشق‘سے ہے۔ کہتے ہیں کہ عشق حقیقی ہو یا مجازی، ہمیشہ سر چڑھ کے بولتا ہے بلکہ بعض اوقات تو بڑھ چڑھ کے بولتا ہے۔ ہمار ادب، ہمارا تصوف، ہماری تہذیب اسی عشق کے عجیب و غریب قصوں، نشوں اور کیفیتوں سے لبالب ہے۔ اُردو شاعری میں عشق کی سب سے پُر تاثیر کیفیت، جو ہر خاص و عام کو اپیل کرتی ہے، بالعموم جگر مراد آبادی کے اس شعر سے واضح کی جاتی ہے:
یہ عشق نہیں آساں ، بس اتنا سمجھ لیجے !
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
استادِ محترم ڈاکٹر سجاد باقر رضوی اگرچہ تنقید بلکہ مغربی تنقید کے آدمی تھے لیکن انھوں نے بھی اس عشق کی حقیقت نہایت منفرد اور مشرقی انداز میں بیان کی ہے:
عشق تو ساری عمر کا اِک پیشہ نکلا کیا سمجھے تھے اس کو یارو! کیا نکلا ؟
ہمارے دیرینہ دوست ڈاکٹر اختر شمار خوب صورت شاعر، استاد اور کالم نگار تو ہیں ہی ، اُن کی شخصیت کا ایک نویکلا اَنگ تصوف بھی ہے۔ جس کا اظہار گاہے گاہے ان کی شاعری، کالموں اور پُر اسرار اسفار سے بھی ہوتا رہتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان کے صوفیانہ کالموں کا مجموعہ ’’جی بسم اللہ‘‘ بہت مقبول ہوا۔ حال ہی میں ان کے روحانی تجربات و مشاہدات پر مبنی کتاب ’’عشقِ درویش‘‘ دی بُک سائٹ، لاہور سے شائع ہوئی ہے، جس کا آغاز ان کے اس خوبصورت شعر سے ہوتا ہے، جو ان کے تصوف سے عشق کا ترجمان بھی ہے:
صبح ہوئی تو ہم نے دل سے پہلا کام لیا یعنی تجھ کو یاد کیا اور تیرا نام لیا
یہ کتاب اصل میں ڈاکٹر اختر شمار کے روحانی مرشد صوفی ناظر حسین المعروف تُوتاں والی سرکار سے سترہ سالہ ملاقاتوں کی یادوں کی جھلمل ہے ، جو پُر تاثیر مکالموں کی صورت آگے بڑھتی ہے، جس سے حکمت و دانش کی شعائیں برآمد ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک تصوف در اصل اپنے حواس کی نگہداشت کانام ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ انھی صوفی صاحب نے ان کی زندگی اور شخصیت کی پرداخت میں نمایاں کردار ا داکیا ہے۔
اس عشقیہ سلسلے کی اگلی کڑی برادرم رحمان فارس کا پہلا شعری مجموعہ ’ عشق بخیر‘‘ ہے۔ رحمان فارس کا تعلق سول سروس سے ہے۔ شکل سے نوجوان لیکن عمل سے پختہ کار نظر آتے ہیں۔ نئی نسل میں ان کی مقبولیت کا گراف خطرناک حدوں کو چھُو رہا ہے۔ ادب کی بہت سی اصناف سے ان کا اَکھ مٹکا جاری رہتا ہے۔ مزاج اور اسلوب سے شگفتگی اور وارفتگی چھلکتی ہے۔ شروع میں ہم انھیں ادب کی وساطت سے توجہ حاصل کرنے والا روایتی بیوروکریٹ ہی سمجھے تھے، لیکن پھر ان کے اس شعر نے چونکایا:
تم بھی ہو بیتے وقت کے مانند ہُو بہُو
تُم نے بھی یاد آنا ہے ، آنا تو ہے نہیں !
اس کے بعد تو وہ پرنٹ اور سوشل میڈیا پر مسلسل دھماکے کرتے چلے گئے۔ عشق سے متعلق ان کا نقطۂ نظر مزیدواضح ہوتا چلا گیا، ذرا دیکھیے اس شعر سے تو فارس کے معاشقوں اور میٹرک میں ریاضی کے نمبروں کا بھی ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو جاتا ہے۔ فرماتے ہیں:
عشق وہ علمِ ریاضی ہے کہ جس میں فارس دو سے جب ایک نکالیں تو صفر بچتا ہے پھر اس شعر میں تو انھوں نے عشقیہ سلطنت کا پورا بجٹ بنا کے ہماری ہتھیلی پہ رکھ دیا ہے: میرے کاسے کو ہے بس چار ہی سِکّوں کی طلب عشق ہو ، وقت ہو ، کاغذ ہو ، قلم ہو ، آمین !
میرے مطالعے کی عشقیہ مثلث کا تیسرا زاویہ تُرکی کی معروف کہانی کار ، ایلف شفق کے شہرۂ آفاق ناول The Forty Rules of Love کا اُردو ترجمہ ’’ چالیس چراغ عشق کے‘‘ ہے۔ ترجمے کی کاوش ہما انور کی ہے۔ اس وقت مصنفہ کی پندرہ سے زائد کتب منظرِ عام پر آ کر مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر چکی ہیں۔ وہ ترکی اور انگریزی دونوں زبانوں میں رواں ہیں۔پچاس کے قریب ممالک میں ان کی کتب کے تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ مڈل ایسٹ یونیورسٹی سے سیاسیات میں پی ایچ۔ڈی ہیں۔ وہ دنیا کے بڑے بڑے جرنلز میں مضامین اور تبصرے لکھتی ہیں۔ علاوہ ازیںترکی، برطانیہ اور امریکا کی مختلف جامعات میں لیکچر دینے کے ساتھ ساتھ پبلک سپیکر بھی ہیں۔ اس ناول کی کہانی جلال الدین رومی اور شمس تبریز کے گرد گھومتی ہے۔ مصنفہ نے اس ناول میں تاریخ، تصوف اور تصورات کاتڑکہ اتنی مہارت اور دانائی سے لگایا ہے کہ ایک مزے دار ادبی حلیم تیار ہو گئی ہے۔ رومی اور شمس تبریز کے زمانے کو ایلا اور اے زی ظہارا کے زمانے کے ساتھ اس طرح ہم آمیز کیا ہے کہ تیرھویں صدی عیسوی اکیسویں صدی میں مدغم ہوتی چلی گئی ہے۔ ناول کا آئیڈیا اور اردو ترجمہ دونوں شان دار ہیں۔ ٭٭٭٭٭
0 notes