Tumgik
#برسا
my-urdu-soul · 2 months
Text
جمال آنکھوں سے ایسے جیسے چھلک رہا ہے
یہ ناز کیا ہے کہ دل یہ میرا بہک رہا ہے
کوئ کہ دل کے نہال خانے اٹک رہا ہے
کہیں محبت تو ہے نہیں یہ، سو شک رہا ہے
ہزار چہروں میں اُس کا مُکھڑا پہچان لوں میں
خیالوں میں ہی وہ چاند ایسا چمک رہا ہے
یہ کیسی حالت ہے آجکل اِس دیوانگی کی
کہ جیسے دھڑکن کے ساتھ کوئ دھڑک رہا ہے
یہ ہاتھ پالے کچھ ایسے ہم کو سنبھالتے ہیں
کہ اب یہ اُوپر سے چاہتے ہیں ، یہ شک رہا ہے
لڑی میں آنسو پروۓ کیوں ہیں بتاؤ جاناں
یہ آج ساون کہاں سے برسا ،ٹپک رہا ہے
ضرور کوئ بسا ہے آنکھوں میں اُس کی یارو
نگینہ لاگے جو آجکل یوں دمک رہا ہے
- فرحان ادیب کوٹ ادو
2 notes · View notes
0rdinarythoughts · 2 years
Text
میں تم پر بارش کے قطروں کی طرح برسا مگر تم نے ہر طرف سے چھتریاں تھام رکھی تھیں ۔
Me on you Poured down like raindrops But you were holding umbrellas from all sides.
Naseem Khan
3 notes · View notes
googlynewstv · 3 days
Text
اسرائیل کی لبنان پربمباری،خواتین بچوں سمیت50شہید
اسرائیلی فوج کی لبنان میں وحشیانہ بمباری میں خواتین اوربچوں سمیت50افراد شہیداور300سےزائدزخمی ہوگئے۔ لبنان کےجنوبی اورمشرقی علاقوں میں اسرائیلی فوج نےاندھا دھندبم برسا دیے ۔معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ لبنان کی وزارت صحت نے تصدیق کی ہےشہید اورزخمی ہونےوالوں میں زیادہ تر خواتین اوربچےبھی شامل ہیں جبکہ متعددگھربھی تباہ ہوگئے۔ہلاکتوں میں اضافے کاخدشہ ظاہرکیاجارہا ہے۔ خیال رہےکہ آج صبح اسرائیلی…
0 notes
urdu-poetry-lover · 2 months
Text
دم بخود ہے چاندنی چپ چاپ ہیں اشجار بھی
آج کی شب تھم گئی کیوں وقت کی رفتار بھی
دل کی باتیں کہنے والے اور آہستہ زرا
گوش بر آواز ہے کوئی پس دیوار بھی
آنسوؤں کا ابر وہ برسا کہ سب کچھ بہہ گیا
حسرتوں کے شہر بھی زخموں کے لالہ زار بھی
بشیر منذر
1 note · View note
shiningpakistan · 9 months
Text
پس ثابت ہوا امریکا یاروں کا یار ہے
Tumblr media
سامانِ مرگ و حرب ساختہِ امریکا ہے۔ اسرائیل تو بس غزہ اور غربِ اردن اذیت ساز لیبارٹری میں چابک دست نسل کشی اور صنعتی پیمانے پر املاکی بربادی کے لیے تیار اس سامان کا آزمائشی آپریٹر ہے۔ اسرائیل کے ایک مقبول ٹی وی چینل بارہ کے مطابق سات اکتوبر تا تئیس دسمبر امریکا سے آنے والی دو سو سترہ کارگو پروازوں اور بیس مال بردار بحری جہازوں کے ذریعے دس ہزار ٹن جنگی ساز و سامان اسرائیل میں اتارا جا چکا ہے۔ اس وزن میں وہ اسلحہ اور ایمونیشن شامل نہیں ہے جو امریکا نے اسرائیل میں اپنے استعمال کے لیے زخیرہ کر رکھا ہے اور اس گودام کی ایک چابی اسرائیل کے پاس ہے تاکہ نسل کشی کی مشین سست نہ پڑنے پائے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو ہنگامی سپلائی کے لیے لگ بھگ تین ارب ڈالر کے آرڈرز بھی جاری کیے ہیں۔ اسرائیل نے امریکا سے ہلاکت خیز اپاچی ہیلی کاپٹرز کی تازہ کھیپ کی بھی فرمائش کی ہے۔ یہ ہیلی کاپٹرز اسرائیل غزہ کو مٹانے کے لیے فضائی بلڈوزرز کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ خود اسرائیل کا شمار دنیا کے دس بڑے اسلحہ ساز ممالک میں ہوتا ہے۔ تاہم اس نے فی الحال تمام بین الاقوامی آرڈرز موخر کر دیے ہیں اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے خانہ ساز اسلحہ صنعت کی پروڈکشن لائن چوبیس گھنٹے متحرک ہے۔
جب چھ ہفتے میں لاہور شہر کے رقبے کے برابر تین ہیروشیما بموں کے مساوی طاقت کا بارود برسا دیا جائے تو سپلائی اور پروڈکشن لائن کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ امریکا اس بات کو ہمیشہ کی طرح یقینی بنا رہا ہے کہ اسرائیل کا دستِ مرگ کہیں تنگ نہ پڑ جائے۔ اب تک جو ہنگامی رسد پہنچائی گئی ہے اس میں اسمارٹ بموں کے علاوہ طبی سازو سامان ، توپ کے گولے ، فوجیوں کے لیے حفاظتی آلات ، بکتر بند گاڑیاں اور فوجی ٹرک قابلِ ذکر ہیں۔ اس فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ دانتوں تک مسلح اسرائیلی بری، بحری اور فضائی افواج کے لیے تیسرے مہینے میں بھی غزہ لوہے کا چنا ثابت ہو رہا ہے۔ ابتدا میں اسرائیل کا اندازہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ تین ہفتے میں غزہ کی مزاحمت ٹھنڈی پڑ جائے گی مگر اب اسرائیلی فوجی ہائی کمان کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے مطلوبہ نتائج فروری سے پہلے ظاہر نہیں ہوں گے۔ البتہ بری فوج کے سابق سربراہ جنرل ڈان ہالوٹز نے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا جتنا بھی فوجی تجربہ ہے اس کی بنیاد پر وہ کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل یہ جنگ ہار گیا ہے۔
Tumblr media
بقول جنرل ہالوٹز جنگ جتنا طول پکڑے گی اتنے ہی ہم دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔ اب تک ہمیں بارہ سو اسرائیلیوں کی ہلاکت، جنوبی اور شمالی اسرائیل میں دو لاکھ پناہ گزین اور حماس کی قید میں ڈھائی سو کے لگ بھگ یرغمالی سویلینز اور فوجی تو نظر آ رہے ہیں مگر کامیابی کہیں نظر نہیں آرہی۔ واحد فتح یہی ہو گی کہ کسی طرح بنجمن نیتن یاہو سے جان چھوٹ جائے۔ جہاں تک امریکا کا معاملہ ہے تو جو بائیڈن اسرائیل نواز امریکی کانگریس سے بھی زیادہ اسرائیل کے دیوانے ہیں۔ اس وقت بائیڈن کی اسرائیل پالیسی یہ ہے کہ ’’ تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے۔‘‘ چنانچہ دو ہفتے پہلے ہی بائیڈن نے کانگریس کے ذریعے اسرائیل کے لیے ہنگامی امداد منظور کروانے کی تاخیری کھکیڑ اور فالتو کے سوال جواب سے بچنے کے لیے ہنگامی قوانین کی آڑ میں کانگریس سے بالا بالا چودہ ارب ڈالر کے فنڈز کی منظوری دے دی جو اسرائیل کی فوجی و اقتصادی ضروریات کو مختصر عرصے کے لیے پورا کرنے کے قابل ہو گا۔ اسرائیل کو جب بھی ضرورت پڑی امریکی انتظامیہ اس کے لیے سرخ قالین کی طرح بچھتی چلی گئی۔ 
مثلاً چھ اکتوبر انیس سو تہتر کو جب مصر اور شام نے اپنے مقبوضہ علاقے چھڑانے کے لیے اسرائیل کو بے خبری میں جا لیا تو وزیرِ اعظم گولڈا مائر نے پہلا فون رچرڈ نکسن کو کیا کہ اگر ہمیں بروقت سپلائی نہیں ملی تو اپنی بقا کے لیے مجبوراً جوہری ہتھیار استعمال کرنے پڑ سکتے ہیں۔ نکسن اشارہ سمجھ گیا اور اس نے جنگ شروع ہونے کے چھ دن بعد بارہ اکتوبر کو پینٹاگون کو حکم دیا کہ اسرائیل کے لیے اسلحہ گودام کھول دیے جائیں۔ محکمہ دفاع کو اس ضمن میں جو فائدہ خسارہ ہو گا اس سے بعد میں نپٹ لیں گے۔ اسرائیل نے اپنی قومی ایئرلائن ال آل کے تمام کارگو طیارے امریکا سے فوجی امداد ڈھونے کے لیے وقف کر دیے۔ مگر یہ اقدام ناکافی تھا۔ سوویت یونین نے مصر اور شام کی ہنگامی فوجی امداد کے لیے دس اکتوبر کو ہی دیوہیکل مال بردار انتونوف طیاروں کا بیڑہ وقف کر دیا تھا۔ چنانچہ امریکی فضائیہ کا مال بردار بیڑہ جس میں سی ون فورٹی ون اور سی فائیو گلیکسی طیارے شامل تھے۔ ضرورت کا ہر سامان ڈھونے پر لگا دیے۔ یہ آپریشن تاریخ میں ’’ نکل گراس ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے امریکا اور اسرائیل کے درمیان ساڑھے چھ ہزار ناٹیکل میل کا ایئرکوریڈور بنا دیا گیا۔
پہلا سی فائیو گلیکسی مال بردار طیارہ چودہ اکتوبر کو ایک لاکھ کلو گرام کارگو لے کر تل ابیب کے لوڈ ایئرپورٹ پر اترا اور آخری طیارے نے چودہ نومبر کو لینڈ کیا۔ پانچ سو سڑسٹھ پروازوں کے ذریعے تئیس ہزار ٹن جنگی سازو سامان پہنچایا گیا۔جب کہ تیس اکتوبر سے امریکی کارگو بحری جہاز بھی بھاری سامان لے کر حیفہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے لگے۔ اس کے برعکس سوویت یونین ایک ماہ کے دوران نو سو پینتیس مال بردار پروازوں کے ذریعے پندرہ ہزار ٹن ساز و سامان مصر اور شام پہنچا سکا۔ حالانکہ روس سے ان ممالک کا فضائی فاصلہ محض سترہ سو ناٹیکل میل تھا۔ امریکا نے تہتر ٹن سامان اٹھانے والے سی فائیو گلیکسی کے ذریعے اسرائیل کو ایک سو پچھتر ملی میٹر تک کی توپیں ، ایم سکسٹی اور ایم فورٹی ایٹ ساختہ بھاری ٹینک ، اسکوراسکی ہیلی کاپٹرز ، اسکائی ہاک لڑاکا طیاروں کے تیار ڈھانچے اور بارودی کمک پہنچائی۔ یہ طیارے صرف پرتگال میں ری فیولنگ کے لیے رکتے تھے۔ اور اسپین ، یونان ، جرمنی اور ترکی نے انھیں اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اگر یہ کاریڈور نہ ہوتا تو اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں کے ساتھ ساتھ اپنی بقا کے لالے پڑجاتے۔ پس ثابت ہوا کہ امریکا یاروں کا یار ہے۔ وہ الگ بات کہ امریکا کو اسرائیل اپنی بین الاقوامی عزت سے بھی زیادہ پیارا ہے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 9 months
Text
الیکشن ہو رہے ہیں یا منہ پہ مارے جا رہے ہیں؟
Tumblr media
سپریم کورٹ کو الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے پہلے تو متعلقہ اداروں کے سر آپس میں ٹکرانے پڑے۔ جب عدالتِ عظمیٰ کے بے حد اصرار پر آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان ہو گیا تب بھی آنا کانی ہیرا پھیری کی کوشش جاری رہی اور معزز عدالت کو ایک بار پھر آٹھ تاریخ کو کھونٹے سے باندھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑی چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا۔ بالکل نوے نکور ناتجربہ کار دو کروڑ پینتیس لاکھ فرسٹ ٹائمر ووٹروں سے خائف اسٹیبلشمنٹ الیکشن کروانے پر آمادہ تو ہے مگر اب تک کی حرکتیں بتا رہی ہیں کہ گویا یہ الیکشن منعقد نہیں ہو رہے قوم کے منہ پہ مارے جا رہے ہیں ’لے مر ٹھونس لے۔‘ کسی ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی ’آج مورخہ چوبیس دسمبر کاغذاتِ نامزدگی چھیننے کا آخری دن ہے۔‘ اسٹیبلشمنٹ کی ذہنی کیفیت کو پڑھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آٹھ فروری کو (خدانخواستہ ) الیکشن ہوا تو اتنا شفاف ہو گا کہ سب اس میں اپنا سا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ ہمیں اور آپ کو گذشتہ الیکشنز کی قدر و قیمت بھی تب ہی معلوم ہو گی جب آٹھ فروری کے بعد بھی زنجیربکف پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھنے اور وعدوں کے تازہ خربوزے پھوڑنے کے کام کے لیے ایک اور منتخب ’نگراں حکومت‘ حجلہِ عروسی میں داخل ہو گی۔
شیر، مگرمچھ، بھیڑیے اور باز پر مشتمل چار رکنی کمیٹی کی نگرانی میں تیندوے، بکری، طوطے، گرگٹ، ہرن، مینڈک، بارہ سینگے، سانپ، کوّے، اور لگڑبگے پر مشتمل مخلوط سرکار جنگل کا نظام چلائے گی۔ یعنی ایک اور ہزمیجسٹیز لائل گورنمنٹ اور ہز میجسٹیز لائل اپوزیشن۔ شکار آدھا آدھا۔ نظام کی گرفت اس قدر سخت ہے کہ ہمارے مہربان ژوب کے انوار الحق کاکڑ جو ہم صحافیوں سے ایک برس پہلے تک اس بات پر خفا ہو جاتے تھے کہ یار تم لوگ کوئٹہ آ کے ملے بغیر کیسے چلے جاتے ہو۔ آج انہی کے صوبے کے کچھ مہمان ان کے سرکاری گھر سے محض دو کلومیٹر پرے پڑے ہیں۔ مگر کاکڑ صاحب شاید ان سے کبھی بھی نظریں ملا کے گلہ نہ کر سکیں گے کہ تم میرے صوبے سے آئے ہو۔ میرے لوگ ہو۔ اس موسم میں یہاں کیوں پڑے ہو۔ اتنا بڑا وزیرِ اعظم ہاؤس اور وہاں کے تمام روپہلے آتش دان حاضر ہیں۔ چل کے آرام کرو، بھلے دھرنا دو اور پھر بتاؤ کہ میں تمہاری کیا خدمت کروں۔ 
Tumblr media
کاکڑ صاحب کا مطالعہ خاصا وسیع ہے اور منطق کا سویٹر بننے کے لیے بھی ہمیشہ اچھی کوالٹی کا اون استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ گمان بھی ممکن نہیں کہ انھوں نے یہ بلوچی کہاوت سنی ہی نہ ہو کہ ’ایک پیالہ پانی کی قیمت سو برس کی وفاداری ہے‘۔ جو آدمی گھر آئے مہمانوں کو ایک کٹورہ پانی بھی نہ بجھوا سکے۔ اس کی بے چارگی کا عالم اللہ اللہ۔ سوری سوری سوری۔۔۔ شاید میں کچھ غلط کہہ گیا۔ اسلام آباد نے ان مہمانوں کو کٹورہ بھر پانی نہیں بھجوایا بلکہ ان پر ٹھنڈے پانی سے بھرا پورا ٹینکر برسا کے والہانہ سواگت کیا۔ تاکہ کل کوئی یہ طعنہ نہ دے سکے کہ گھر آئے مہمان کو پانی تک نہ پوچھا۔ کچھ حاسدوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہمان کوئی مسلح بلوچ سرمچار یا طالبان ہوتے اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوتے یا پھر 2014 کے دھرنے کی طرز پر پارلیمنٹ کے جنگلوں پر اپنے کپڑے سکھا رہے ہوتے اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے گیٹ پھلانگنے کی کوشش کر رہے ہوتے اور مسلسل الٹی میٹم دے رہے ہوتے اور کچھ نادیدہ سائے ان کے آگے پیچھے متحرک ہوتے تو شاید وزیرِ اعظم ان کا خیرمقدم ذاتی طور پر کرتے۔
مگر وفاق سے آخری امید رکھنے والے یہ مسلسل بے آرام بچے اور بوڑھے ایک دن جب اتمامِ حجت کے بعد خالی ہاتھ گھر لوٹیں گے تو ہو سکتا ہے کوئی وطن دشمن انھیں ایسی حرکتوں سے اکسانے کی کوشش کرے۔
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انھیں غور سے جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے (سلیم کوثر) اور جنہیں آٹھ فروری کے بعد بلوچستان میں بھی حکمرانی کی اداکاری کرنی ہے وہ کیا ہوئے؟ کوئی وفاق پرست بلاول یا مریم جو کوئٹہ جا کر بلوچ بچے بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کے اور گلے لگا کے فوٹو سیشن کرتے ہیں اب تک اسلام آباد پریس کلب کے اطر��ف میں بھی نہیں پھٹکے۔ منافقت اور دنیا دکھاوے میں بھی اس قدر احتیاط پسندی؟ ممکنہ خیرات چھن جانے کا اتنا خوف؟ استغفراللہ۔۔۔
برہنہ ہیں سرِ بازار تو کیا بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم ( جون ایلیا )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
bettercallrobin · 10 months
Text
بيقولك اتليتكوا عمرها ما كسبت برسا على ارضها
فرصتك جاتلك يا سيميوني :))
1 note · View note
moizkhan1967 · 10 months
Text
فیض احمد فیؔض ❤❤
آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے
ھس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ برسا ہے اسی بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
نا توانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
چازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
فیض احمد فیؔض
0 notes
emergingpakistan · 10 months
Text
قرضوں میں جکڑا ہوا ملک اور ہمارے حکمران
Tumblr media
ہمارا ملک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے بھاری قرضوں اور سود کی ادائیگی میں جکڑا ہوا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی خبروں کے بارے میں تحقیق کے مطابق اب تک قرضہ 62 ہزار 880 ارب روپے ہو گیا ہے۔ رپورٹ بھی آئی ایم ایف کو پیش کر دی گئی ہے۔ ملکی قرضہ 38 ہزار 809 ارب جب کہ غیر ملکی قرض 24 ہزار 71 ارب ہو گیا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں 13 ہزار 638 ارب اضافہ ہوا ہے جب کہ قرض پر سود کا حجم 3 ہزار 182 ارب سے بڑھ کر 5 ہزار 671 ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے ذمے 72 ارب ڈالر واجب ہے۔ اس دوران پاکستان کی کرنسی کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 204.4 سے گر کر 286.4 روپے تک ہو گئی ہے۔ وزارت خزانہ کے ڈائریکٹوریٹ جنرل ڈیٹ کی جانب سے تیارکردہ رپورٹ میں آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں ملکی قرض 7 ہزار 724 ارب روپے بڑھ کر 31 ہزار 685 ارب سے 38 ہزار 809 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ غیر ملکی قرض 5 ہزار 914 ارب سے بڑھ کر 18 ہزار 157 ارب سے 24 ہزار 71 ارب روپے ہو گیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں ملکی قرضہ جی ڈی پی کے 46.7 فی صد سے بڑھ کر 45.8 فیصد تک پہنچا ہے اور غیر ملکی قرض 27.3 فی صد سے بڑھ کر 28.4 فی صد پہنچا ہے، ملک پر واجب الادا قرض پر سود کی ادائیگی 3 ہزار 182 ارب سے بڑھ کر 5 ہزار 671 ارب ڈالر تک آگئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری اداروں کے لیے ریاستی گارنٹی پر لگائے گئے قرض کا حجم 14 ارب 60 کروڑ ڈالر تک ہے۔ آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض 37 ارب 91 کروڑ ڈالر اور دیگر ملکوں کا قرض 17 ارب 57 کروڑ ڈالر تک آگیا ہے جب کہ پنجاب کے لیے 5 ارب 95 کروڑ ڈالر، سندھ کے لیے 3 ارب 12 کروڑ ڈالر، کے پی کے لیے 2 ارب 5 کروڑ ڈالر، بلوچستان کے لیے 30 کروڑ ڈالر، گلگت بلتستان کے ذمے 5 کروڑ 93 لاکھ اور وفاقی حکومت کے ملکی قرضے کا حجم 72 ارب 34 کروڑ ڈالر۔ اس کا پریس کلب کا قرض ایک گورکھ دھندا جاری ہے۔ دوسری طرف ہمارے حکمران مرکزی ہوں یا صوبائی، سینیٹ چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین سابق ہوں یا موجودہ وزیر ہوں، سفیر ہوں، مشیر ہوں یا پھر اشرافیہ سب ہی مراعات یافتہ ہیں۔ ان کی تنخواہیں یا پھر الاؤنسز سب کچھ مفت ہے۔ پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس، اسپتال اور میڈیکل کی مفت سپلائی ساتھ بھی ملازمین کی بھاری تعداد بڑی گاڑیاں بڑے بڑے بنگلے مفت کی پروٹوکول سب کچھ فری اور مفت میں مل رہا ہے۔ بڑی بڑی جاگیریں ہیں زمینوں پر کاشت کاری سے لے کر شوگر مل مالکان، فیکٹری مالکان، بینکوں اور انشورنس کمپنی کے مالکان، دواؤں کی فیکٹریاں، بڑے شاپنگ مالزکے مالکان، شادی ہالوں کے مالکان، ہوائی جہاز اور فوکر طیاروں کے مالکان، بڑی بڑی گدی کے پیر اورسب ہی بلکہ ہمارے ملک اور صوبوں کے مالکان کہاں تک لکھوں بلکہ ہماری غربت، جہالت، بیماری اور اسپتالوں کے مالکان۔ 
Tumblr media
اب تو ملک کے ہوائی اڈے فروخت ہو رہے ہیں۔ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل اور ہمارے ہائی ویز بھی گروی رکھ دیے گئے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کی کم ازکم تنخواہ جو کہ آپ کے اعلان کے مطابق 32 ہزار مقرر کی گئی کم ازکم اس پر تو عمل درآمد کرا دو۔ تمام ٹی ایل اے اور کچے ملازمین کو مستقل ملازمت دے دو سیلاب زدگان کے گھر تو بنا دو۔ تعلیمی ادارے ہی ٹھیک کر دو، اپنے اسپتالوں میں دوائیں تو دے دو۔ ایک ایک گھر تو انھیں دے دو۔ ملک کو بنے ہوئے 76 سال ہو گئے ہیں۔ 50 سال پہلے تو ایسا پاکستان نہیں تھا۔ اتنی غربت اتنی بھوک اور اتنی لوٹ مار اور کرپشن تو نہ تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان شہید تو ایسے نہیں تھے، ان کی اتنی جائیدادیں تو نہیں تھیں اتنی رشوت اور کرپشن تو نہیں تھی۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے پاس اسلام آباد میں کوئی رہائشی پلاٹ تو نہیں تھا، صرف پاکستان کی قومی اسمبلی کی بنیاد ہی اسلام آباد میں رکھی تھی، بس کراچی میں ایک 70 کلفٹن کا بنگلہ تھا یا پھر گڑھی خدا بخش میں اپنی پہلی بیوی کی زمینیں ورثے میں ملی تھیں۔ خیر اب تو ایک طرف جاتی عمرہ رائے ونڈ ہے اور دوسری طرف بلاول ہاؤسز ہیں۔
بے چارے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک بلوچ کے پاس شاید اتنی جائیداد نہ ہو۔ خیر اب تو ایم کیو ایم سے لے کر پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کے پاس ایم این اے اور ایم پی اے بڑے مالدار ہیں لیکن غریب ہاری، کسان اور مزدور کو تو کوئی اسمبلی کا ٹکٹ بھی نہیں دیتا۔ وہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ سوشل ازم کا نعرہ طاقت کا سرچشمہ عوام اور اسلام ہمارا دین ہو گا، کیا ہوا؟ آج اسرائیل نے 11 ہزار فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی پر گولیاں اور بم برسا کر تباہ اور برباد کر کے رکھ دیا ہے، یورپ سمیت دنیا بھر کے عوام سڑکوں پر نکل کر اسرائیل کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں، خود بعض یہودی بھی اس کی مذمت کر رہے ہیں مگر ہمارے 57 اسلامی ممالک کے سربراہ اور ڈھائی ارب مسلمان کیا کر رہے ہیں؟  ہمارے جیسے دکھی انسان خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں اب چار ایشوز پر ٹی وی اور اخبارات میں خبریں آ رہی ہیں، الیکشن 8 فروری کو ہو گا جلسے جلوس جاری ہیں۔ 
ملک بھر میں ورلڈ کرکٹ کا زور شور جاری ہے۔ کراچی، سکھر، لاہور، اسلام آباد میں ہسٹری فیسٹیول ہو رہے ہیں، گانے بجانے اور قوالیاں ہو رہی ہیں، قانون کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں کچھ اچھے فیصلے ہو رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن الیکشن کرانے کے انتظامات میں لگا ہوا ہے۔ خیر شکر ہے کہ الیکشن کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ملک میں شفاف الیکشن کرا کے منتخب نمایندوں کے حوالے کیا جائے گا اور تمام سیاسی جماعتوں جن میں تحریک انصاف بھی شامل ہو، الیکشن لڑنے کا اختیار دیا جائے تو ہی اس الیکشن میں مزہ آئے گا۔ ہمیں امید ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا جلد خاتمہ ہو سکے، ملک امن کی طرف روانہ ہو سکے ملک میں تھوڑی بہت بہتر جمہوریت آ سکے اور پاکستان کے عوام کو عدالتوں سے کچھ انصاف مل سکے۔ منظر بھوپالی کا اشعار یاد آگئے۔
اونچے اونچے ناموں کی تختیاں جلا دینا ظلم کرنے والوں کی وردیاں جلا دینا
در بدر بھٹکنا کیا دفتروں کے جنگل میں بیلچے اٹھا لینا ڈگریاں جلا دینا
پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا
منظور رضی  
بشکریہ ��وزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 1 year
Text
اگر بی جے پی پاکستانی کرکٹرز پر پھول نچھاور کر سکتی ہے تو میں سوشلسٹوں سے ہاتھ ملا سکتا ہوں، اودے ٹھاکرے
شیو سینا (یو بی ٹی) کے رہنما اودے ٹھاکرے نے کہا ہے کہ سوشلسٹوں کے ساتھ پرانے اختلافات بنیادی طور پر نظریاتی تھے، جنہیں جمہوریت کی خاطر طے کیا جا سکتا ہے۔ 21 سوشلسٹ پریوار پارٹیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، ٹھاکرے نے یہ بھی کہا کہ اگر بی جے پی نریندر مودی اسٹیڈیم میں پاکستانی کرکٹرز پر پھول برسا سکتی ہے تو وہ سوشلسٹ پارٹیوں سے بھی بات کر سکتی ہے۔ ٹھاکرے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مہاراشٹر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mohsinshafisposts · 1 year
Text
آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ برسا ہے اسی بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
نا توانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
0 notes
my-yasiuae · 1 year
Text
ضخ نادي برشلونة الإسباني لكرة القدم، الغارق في ديونه، 120 مليون دولار الى حساباته ببيعه 29.5 بالمئة من "برسا فيسيون"، الشركة الفرعية الرقمية التابعة له، إلى صندوقي الاستثمار "ليبيرو" و"نيبا كابيتال" وفق ما أفاد اليوم. وقال النادي الكاتالوني في بيانه "ليبيرو فوتبول فايننس أيه جي والمستشارون في الاستثمار الخاص نيبا كابيتل بي.في. أصبحوا شركاء جدد لـبريدجبرغ إينفست، العلامة التجارية لبرسا فيسيون". وشركة "برسا فيسيون" هي فرع في النادي يضم تحت جناحه جميع الإجراءات المرتبطة بـ"ويب 3"، "أن أف تي"، "ميتافيرس" والمجتمع الرقمي لمشجعي برشلونة في جميع أنحاء العالم. وتسمح هذه الصفقة لبرشلونة بضخ إيرادات كافية لتسجيل لاعبه الألماني الجديد إيلكاي غوندوغان لدى رابطة الدوري الإسباني الذي يبدأ فيه النادي الكاتالوني مشواره الأحد في ملعب خيتافي. المصدر: الإمارات اليوم
0 notes
googlynewstv · 4 months
Text
حماس نے ایک بار تل ابیب پرراکٹ برسادیئے
حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے ایک بار پھر تل ابیب پر بڑی تعداد میں راکٹ برسا دیے۔ القسام بریگیڈز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے معصوم فلیسطینی شہریوں کے قتل عام کے جواب میں تل ابیب پر ایک بڑا حملہ کیا ہے، راکٹ حملوں کے بعد تل ابیب سمیت 50 سے زائد شہروں اور قصبوں میں سائرن گونج اٹھے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تل ابیب میں کم از کم 10 راکٹوں کو روکا گیا جبکہ مقامی میڈیا نے راکٹ حملوں کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 3 months
Text
دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے
کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے
بے تابی کچھ اور بڑھا دی ایک جھلک دکھلا دینے سے
پیاس بجھے کیسے صحرا کی دو بوندیں برسا دینے سے
ہنستی آنکھیں لہو رلائیں کھلتے گل چہرے مرجھائیں
کیا پائیں بے مہر ہوائیں دل دھاگے الجھا دینے سے
ہم کہ جنہیں تارے بونے تھے ہم کہ جنہیں سورج تھے اگانے
آس لیے بیٹھے ہیں سحر کی جلتے دیئے بجھا دینے سے
عالی شعر ہو یا افسانہ یا چاہت کا تانا بانا
لطف ادھورا رہ جاتا ہے پوری بات بتا دینے سے
جلیل عالیؔ
1 note · View note
risingpakistan · 9 months
Text
بے وطنوں کی دنیا
Tumblr media
16 دسمبر پھر آ گیا ہے۔ یہ 52 سال قبل مشرقی پاکستان میں آیا تھا۔ وہ پاکستان اور مشرقی پاکستان جس کی بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں۔ یقیناً آڑے وہی ہیں جنہیں مشیر کاظمی نے کہا تھا۔ کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے اس طرح ہم میں ہوتی گئی دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر تیری رسوائیاں بھی گوارا نہیں
اب اس 16 دسمبر میں غزہ کی جھلک شامل ہو رہی ہے۔ اس لیے بات صرف مشرقی پاکستان میں رہ جانے والے محصورین پاکستان کی ہو گی کہ پھر کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے۔ فلسطین میں بھی یہ واردات کی جانے کی تیاری ہے۔ وہ محصورین پاکستان جن کے ساتھ اب نام کی حد تک بھی پاکستان کا نام اور شناخت باقی نہیں رہی۔ بس ایک یاد ہے جو بہت تلخ، تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے۔ ان محصورین کا تذکرہ اس لیے کیا جانا چاہیے کہ اس لہو کا اتنا تو حق ہے۔ یہ وہ لہو تھا جو ’پاکستان کے لیے بہا اور پاکستان میں اجنبی ٹھہرا۔‘   ایک طرف وہ خون تھا جو البدر و الشمس کے مشرقی پاکستانی نوجوانوں نے پاکستان کے لیے دیا تھا اور بعد ازاں اس خون کی قربانی دینے والوں کو ابھی کل کی بات ہے مطیع الرحمٰن نظامی سے پروفیسر غلام اعظم تک پھر قربان ہونا پڑا۔ ان ہی قربانی دینے والوں میں وہ محصورین پاکستان ہیں جو 1971 سے لے کر آج تک وہیں بنگلہ دیش کے کیمپوں میں بے بسی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی کئی نسلیں انہی کیمپوں میں جی جی کے مرنے اور مر کے جینے پر مجبور ہیں۔ انہیں بنگلہ دیش قبول اور برداشت کرنے کو تیار ہے نہ پاکستان کی اتھارٹیز اپنے ہاں واپس لانے کو تیار ہیں۔ اپنے ہاں واپس لانے کی بات اس لیے کہی ہے کہ یہ سب اول و آخر پاکستانی تھے مگر پاکستان کی اتھارٹیز نے انہیں اپنے لیے ’بوجھ‘ سمجھ لیا۔ کبھی کبھی لگتا ہے ساری مسلم مملکتیں فلسطینی اتھارٹی کی طرح ہی بے بس اور کمزور ہیں۔ بے حس و حرکت، بے اختیار اور بے معنی۔ 1997 میں محصورین پاکستان کے قائد الحاج نسیم خان کی طرف سے اس وقت کی پاکستان کی منتخب اور دو تہائی اکثریت رکھنے والی عوامی جمہوری حکومت کے سامنے تجویز پیش رکھی تھی۔ محصورین کے نمائندہ فورم ’ایس پی جی آر سی‘ کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی اتھارٹیز باہم مل بیٹھ کر محصورین کے مستقبل کا فیصلہ کریں مگر اس وقت کی حکومت نے اس تجویز کو ’عزت دو کا مطالبہ‘ مان کر نہ دیا۔
Tumblr media
نتیجہ یہ ہے کہ 52 سال بیت گئے مگر یہ محصورین پاکستان آج تک اپنے وطن پاکستان آ سکے، نہ لائے جا سکے اور نہ ہی پاکستان اتھارٹیز (پی اے) کو قبول ہونے کی نوید پا سکے۔ کیا کل کلاں اسی حالت میں فلسطینیوں کو دیکھنے کی سازش بروئے کار ہے؟ محصورین پاکستان کی دوسری اور تیسری نسل انہی بنگلہ دیشی کیمپوں میں پل کر جوان اور بوڑھی ہو گئی۔ مگر ان کی قسمت نہ کھل سکی۔ اب ان کے بڑے جنہوں نے اپنے پیارے پاکستان کے لیے بنگلہ دیش بنانے والوں کی مخالفت مول لی تھی، انہی بنگلہ دیش کی ’حسینہ‘ کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے۔ یہ بنگلہ دیش کے مختلف شہروں اور مقامات پر 70 کیمپوں میں سے 1992 کے رابطہ عالم اسلامی کے تعاون سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق اس وقت دو لاکھ 35 ہزار 440 کی تعداد میں موجود تھے۔ اب ان کی آبادی کیا ہے، اس آبادی کا مسقبل کیا ہے، ہماری بلا سے! والی صورت حال ہے۔ اس سلسلے میں بے تعلقی و اجنبیت کی ایک موٹی دیوار حائل ہے۔ جی ہاں مفادات کی دیوار، بےحسی کی دیوار اور احسان فراموشی کی دیوار۔ ہم عالم اسلام کا ایک قلعہ ہیں، اس قلعے کی اونچی فصیلوں کو کون پھلانگ سکتا ہے۔ ماسوائے ایبٹ آباد میں بھی دو مئی کو سرحدیں پھلانگ کر آ جانے والوں کے۔
انہیں محصورین پاکستان کے پڑوس میں میانمار کے بے وطن بنا دیے گئے روہنگیا مسلمان بھی ہیں۔ صدیوں سے میانمار کے باشندے ہونے کے باوجود ان روہنگیا مسلمانوں کو اندھی طاقت اور مذہب کا متعصبانہ استعمال کرنے والوں نے انہیں نکال باہر کیا۔ ہاں یہ درست ہے کہ ’روہنگیا‘ کو بمباری کر کے اور جدید ترین بحری بیڑوں کو قریب تر منگوا کر نکال باہر نہیں کیا گیا۔ ان پر صرف فوجی بندوقوں سے گولیاں برسا کر یا پھر ان کے گھروں کو آتش گیر مادے سے آگ لگا کر پہلے انہیں بے گھر کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں جلاتے اور مارتے ہوئے زندگی سے بیگانہ یا گھروں اور ملکی سرحدوں سے دور کر دیا۔ مشرقی پاکستان اور میانمار کی ان ہی مثالوں نے مجبور کیا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر یا اردن میں محصور کر دیے جانے کے درد کو ابھی محسوس کر لیا جائے۔ ان کی بے گھری اور بے وطنی کے دکھ کو سمجھ لیا جائے کہ واقفان حال اور کھلی آنکھیں رکھنے والے سارے دیکھ رہے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر سات اکتوبر سے ’ایف 35‘ طیاروں کی مدد سے جاری بمباری اور چند ہفتوں سے شروع کر دی گئی ’مرکاوا‘ ٹینکوں سے گولہ باری یہی بتا رہی ہے کہ غزہ کے فلسطینیوں سے غزہ کو پاک کر دینے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔
حماس کے صفائے کا نام محض اصطلاحاً لیا جا رہا ہے تاکہ راستے میں سلامتی کونسل آ جائے تو اس پر ویٹو کا ہتھیار چلایا جا سکے۔ کوئی مسلمان ملک آنے کا سوچے یا زبانی ردعمل بھی دے تو اس کی قیادت کو اپنے پاس بلا لیا جائے۔ اگر ضروری ہو تو دھمکا دبکا دیا جائے۔ دولت و طاقت کے تمام نشے میسر ہونے کے باوجود سب ’آب غلیظ‘ کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی حکمت عملی کے تحت اب تک غزہ کے 80 فیصد سے زائد رہائشی فلسطینیوں کو بے گھر کیا جا چکا ہے۔ جی ہاں! بےگھر، بےدر اور آنے والے دنوں میں بے وطن کر دیے جانے کے خطرے کی زد میں ان فلسطینیوں کے آنے کا سو فیصد امکان بتایا جا رہا ہے۔ زبان و بیان کے فخر اور غرور کے تاج سروں پر سجائے پھرنے والے اور دنیا کے کئی خطوں میں پھیلے سب گونگے لوگ عملاً گونگے شیطان سے زیادہ کچھ نہیں۔ البتہ ایک اندر کے آدمی اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’اونروا‘ کے سربراہ فلپ ارزارمینی نے لنکا ڈھا دی ہے۔ انہوں نے ’لانس اینجلس ٹائمز‘ میں لکھے گئے اپنے تازہ ترین مضمون میں خبردار کیا ہے کہ ’اسرائیل ایسے اقدامات کر رہا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر کی طرف دھکیل دیا جائے۔‘
اگرچہ اسرائیل اس امر کی تردید کرتا ہے اور غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے سب سے بڑے مؤید و معاون امریکہ سمیت دیگر وغیرہ وغیرہ فلسطینیوں کے انخلا کے بظاہر حق میں نہیں ہیں۔ لیکن جس طرح منظم انداز میں غزہ پر بمباری کے لیے اسرائیل کو ہر طرح سے اور مسلسل مدد فراہم کی جا رہی ہے تو اس سے صاف لگتا ہے کہ سب کا اصلاً ایک ہی مقصد ہے کہ فلسطین کو فلسطینیوں سے پاک کر کے اسرائیلی قبضے کو آگے بڑھا لیا اور مستحکم کر لیا جائے۔ ’اونروا‘ سربراہ فلپ لازارینی کے اس تحریر کردہ مضمون کے مندرجات اس لیے بھی حقیقت نگاری کے زمرے میں آتے ہیں کہ وہ نہ صرف ’اندر‘ کے آدمی ہیں بلکہ غزہ جنگ کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں، وہ غزہ سے فلسطینیوں کی بے گھری کے چشم دید گواہ ہیں۔ سلامتی کونسل سے امریکہ کی جنگ بندی کے خلاف ویٹو کی تازہ گواہی اس پر مستزاد ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے بھی امریکہ کے حالیہ دورے اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی قرارداد ویٹو کیے جانے کے بعد دوحہ کانفرنس میں خطاب کے دوران یہی کہا ہے کہ ’اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ سے باہر دھکیلنے کی منظم پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔‘ 
اور تو اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتوتیو گوتیریش نے بھی اسرائیل اور امریکہ کے طور اطوار کے بعد جو ’حاصل کلام‘ پیش کیا ہے وہ یہی ہے ’اقوام متحدہ ’جیو سٹریٹیجک‘ تقسیم کی وجہ سے مفلوج ہو گئی ہے۔‘ بلاشبہ اقوام متحدہ پہلے بھی تیسری دنیا کے بسنے والوں اور مسلمان اقوام کے لیے بالخصوص ایک فالج زدہ ’باڈی‘ رہی ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کو طاقتوروں کے ساتھ مل کر کھیلنے کے لیے بھی جو لبادہ ضروری معلوم ہوتا تھا اب اس سے چھین لیا گیا ہے۔ غزہ میں تو بہت ساری مہذب دنیا اور عالمی اداروں کے چہروں کا خوشگوار سا لگنے والا غازا فلسطینی بچوں کے خون سے دھل کر صاف ہو گیا ہے۔ وگرنہ گوتریش اور ان کے پیش رو سیکریٹری جنرل حضرات کے سامنے ہی 75 برسوں سے فلسطین و کشمیر پر ان کی قراردادیں اسرائیل و انڈیا کی طرف سے سرعام ہی تو روندیں جاری رہی تھیں۔ فلسطینیوں کا حق واپسی، آزاد ریاست کا حق سب اقوام متحدہ کی موجودگی میں اسرائیلی صوابدید اور من مانیوں کی نذر رہا ہے۔
کیا اقوام متحدہ کو نظر نہیں آتا رہا کہ فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی اسرائیل کو دیے گئے ہتھیاروں کے علاوہ امریکہ و یورپ کی سرپرستی میں کروائے گئے اوسلو معاہدے ایسے معاہدوں کی صورت بھی نہیں کی جاتی رہی؟ ان سازشی معاہدوں پر بھی عمل نہ کرا سکنا اقوام متحدہ کے پیدائشی فالج زدہ ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ یہی صورت کشمیر کے حوالے سے انڈین کردار کی رہی۔ پانچ اگست 2019 کے انڈین اقدام سے اپنے ہی آئین کے ذریعے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری کے لیے موجود اکلوتی کڑی کو بھی ختم کر دیا گیا۔ اب بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار اور ’آر ایس ایس‘ کے انداز میں کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دے دیا ہے۔ کیا اقوام متحدہ کا ادارہ اس بارے میں کبھی کوئی حس و حرکت دکھا سکا یا اب دکھا سکے گا؟ یہ مفلوج عالمی ادارہ اگر تھوڑا بھی واپس آنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنے لیے چمڑے کے ایک ٹکڑے کی طرح محسوس کر لے، سانس اور اوسان بحال ہو گئے تو افاقہ ہو جائے گا، ورنہ ہمیشہ کی موت کا اعلان کرنے کا جواز رد نہ کیا جا سکے گا۔
کیونکہ اسرائیل اور بھارت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ عالمی طاقتوں کا ایک لاڈلا مشرق وسطیٰ میں ہے اور دوسرا جنوبی ایشیا میں۔ ایک فلسطینیوں کے حق واپسی اور حق خود ارادیت کو کچل رہا ہے اور فلسطینیوں کو بے گھر کر کے مار رہا ہے تو دوسرا کشمیریوں کے ساتھ یہی سلوک پچھلے 75 سال سے کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی عمل داری کے دونوں باغی ہیں۔ دونوں سرکشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حق میں فیصلے سے کشمیر کی ’ڈیموگرافی‘ تبدیل کر کے قضیہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اس مقدمے کی عدالت میں سماعت کے دوران کبھی اقوام متحدہ کا نوٹس نہ لینا شرمناک سے کم نہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ایک زیر التوا معاملے پر کیسے فیصلہ دے سکتی ہے۔ ہماری بات چھوڑیں ہم تو اپنے ملک کے اندر چوک چوراہوں پر اپنی عزت بچا کر بھاگ رہے تھے اور پاک وطن کی معیشت کی جلیبی کو سیدھا کرنے میں مگن ہیں۔ اسی بے عملی کا نتیجہ ہے کہ اب محصورین کے پاکستانی ماڈل کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل بروئے کار لا رہا ہے۔
فلسطینیوں کو پہلے غزہ سے اور پھر مغربی کنارے سے نکال کر ادھر ادھر دھکیل دو۔ پھر انہیں واپسی سے روکنے کے لیے طاقت استعمال کرتے رہو۔ ان کے کیمپوں پر بمباری کرتے رہو۔ انہیں اسی صحرائے سینا میں گھماتے پھراتے اور مارتے دباتے رہو۔ جس میں کئی صدیاں پہلے خود یہودیوں نے 40 سال اسی صحرا میں بھٹک بھٹک کر گزار دیے تھے۔ کم از کم 40 سال تو ان فلسطینیوں پر بھی یہ خواری مسلط کی جا سکتی ہے۔ پھر کون سا مسئلہ فلسطین، کون سے آزادی پسند فلسطینی، کہاں کی حق واپسی کے لیے سنبھال سنبھال کر رکھی گئی چابیاں اور کون سے سرزمین فلسطین پر آبائی گھر؟ اتنے عرصے میں تو آسانی سے مسجد اقصیٰ کے مینارے بھی یورپ و امریکہ ہی نہیں خلیج و عرب میں ابھر چکے عظمت کے نئے نئے میناروں کے سامنے ایک بھولی بسری تاریخ بن چکے ہوں گے۔ اسرائیل کی یہ سوچ اس تناظر میں کافی کارگر ہوتی نظر آتی ہے کہ ہر طرف سناٹا ہے، خاموشی ہے۔ ہتھیار ڈالنے والوں کا سکہ رائج ہے۔ 16 دسمبر کی طرح ہتھیار ڈالنے والا ماحول شرق سے غرب تک پھیل چکا ہے۔ عرصے سے طاؤس و رباب اول طاؤس و رباب آخر کا ماحول ہے۔ ایسے میں بے وطنوں میں اضافہ کرنا کیونکر ممکن یا مشکل ہو سکتا ہے۔
تو کیوں نہ بے وطنوں کی ایک نئی دنیا بسا دی جائے، غزہ سے باہر، رفح کے اس پار اور صحرائے سینا کے بیچوں بیچ، ایک بے آب و گیاہ دنیا۔ امریکہ اور مغربی وغیرہ وغیرہ کی مدد سے۔ جہاں لوگ پاکستانی محصورین اور روہنگیا محاجرین کو بھول گئے وہیں فلسطینیوں کے لیے کون تڑپے گا؟
منصور جعفر  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
762175 · 2 years
Text
پرویز مشرف: ایسا دبدبہ، ایسی بےبسی
پرویزمشرف کے انتقال کی خبر سنی تو یوں محسوس ہوا حسیات میں عبرت کے منظر آ کر بیٹھ گئے ہیں۔ ان پر عروج آیا تو ایسے آیا کہ کوئی زوال کبھی آنا ہی نہیں اور ان پر زوال برسا تو ایسے برسا جیسے عروج کبھی تھا ہی نہیں۔  کہاں وہ رعب و دبدبہ کہ عدالت ان کی جنبش ابرو کا مفہوم سمجھ کر فیصلے دیتی تھی اور کہاں وہ بےبسی کہ عدالت انہی کے خلاف فیصلہ سناتی ہے۔ کہاں وہ عالم ناز کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نہ صرف ان کی…
View On WordPress
0 notes