Tumgik
#بے خود دہلوی
modern-tiles · 4 years
Text
سب نے مجھ ہی کو در بدر دیکھا
بے گھری نے مرا ہی گھر دیکھا
بند آنکھوں سے دیکھ لی دنیا
ہم نے کیا کچھ نہ دیکھ کر دیکھا
کہیں موج نمو رکی تو نہیں
شاخ سے پھول توڑ کر دیکھا
خود بھی تصویر بن گئی نظریں
ایک صورت کو اس قدر دیکھا
ہم نےحسنِ ہزار شیوہ کو
کت��ی نظروں سے اک نظر دیکھا
اب نمو پائیں گے دلوں کے زخم
ہم نے اک پھول شاخ پر دیکھا
تابش دہلوی
1 note · View note
bazmeur · 6 years
Text
انتخابِ بیخودؔ دہلوی ۔۔۔ بیخودؔ دہلوی، جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
انتخابِ بیخودؔ دہلوی ۔۔۔ بیخودؔ دہلوی، جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 5 years
Text
ہماري آنکھوں نے بھي تماشا عجب عجب انتخاب ديکھا
برائي ديکھي ، بھلائي ديکھي ، عذاب ديکھا ، ثواب ديکھا
نہ دل ھي ٹھرا ، نہ آنکھ جھپکي ، نہ چين پايا، نہ خواب آيا
خدا دکھائے نہ دشمنوں کو ، جو دوستي ميں عذاب ديکھا
نظر ميں ہے تيري کبريائي، سما گئي تيري خود نمائي
اگر چہ ديکھي بہت خدائي ، مگر نہ تيرا جواب ديکھا
پڑے ہوئے تھے ہزاروں پردے کليم ديکھوں تو جب بھي خوش تھے
ہم اس کي آنکھوں کے صدقے جس نے وہ جلوہ يوں بے حجاب ديکھا
يہ دل تو اے عشق گھر ہے تيرا، جس کو تو نے بگاڑ ڈالا
مکاں سے تالا ديکھا ، تجھي کو خانہ خراب ديکھا
جو تجھ کو پايا تو کچھ نہ پايا، يہ خاکداں ہم نے خاک پايا
جو تجھ کو ديکھا تو کچھ نہ ديکھا ، تما م عالم خراب ديکھا
داغ دہلوی
2 notes · View notes
asraghauri · 3 years
Text
دل سے دلی: کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!
دل سے دلی: کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!
بدھ 14 اپریل 2021 9:48 معصوم دہلوی -نئی دہلی امریکہ کے بعد دنیا بھر میں انڈیا کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی) انسان چاہے کتنا بھی سمجھدار کیوں نہ ہو، کچھ باتیں پھر بھی سمجھ سے باہر ہی رہتی ہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ سمجھداری کا کوئی یکساں پیمانہ تو ہوتا نہیں ہے، ہم سب ہی خود کو دوسروں سے سمجھدار سمجھتے ہیں تو پھر اس بے کار کی بحث سے کیا فائدہ، لیکن پھر بھی کچھ سوال آپ کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
faizaneruhaniyat · 3 years
Text
Tumblr media
حب کا مجرب اور آسان عمل
از
عامل کبیر ماہرِ علومِ روحانیت
حکیم ایڈووکیٹ محمد جاوید اختر نوری دہلوی
معشوق کتنا ہی دور ہو، بے پرواہ ہو، ظالم ہو، انا باز ہو، یہاں تک کہ مایوسی کی آخر حد بھی گزر گئی ہو تو یہ اس عمل کو ایک بار ضرور آزمائیں۔ لیکن عمل شروع کرنے سے پہلے اجازت ضرور حاصل کر لیں۔ بغیر اجازت کے عمل کے نتیجے کے آپ خود ذمہ دار ہوں گے۔ اس عمل کو ایک خاص طریقہ سے کیا جاتا ہے۔
طریقہ۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قل ھو اللہ احد بحرمت جبرائیل اللہ الصمد بحرمتہ اسرافیل لم یلد بحرمتہ میکائیل ولم یولد بحرمتہ عزرائیل ولم یکن له کفواً احدُ بحرمتہ دررائیل و مھرائیلُ
اوپر لکھے عظیمت 360 بار پڑھنی ہے مع اول آخر درود شریف 9 - 9 بار۔
یہ عمل دن میں تین بار کرنا ہے یعنی دن میں دو بار، رات میں ایک بار۔ لفظ سہی ادا کریں ورنہ شکایت نہ کیجئے گا۔ عمل تنہائی میں کریں۔ شرط یہ کہ جس کے لئے پڑھا جائے اسکا مکمل تصور ذہن میں لازمی رکھنا ہے۔
ایک ضروری بات۔۔۔
اس عمل کی اجازت اور دیگر معلومات کے لئے اور گھر بیٹھے روحانی علاج کروانے کے لئے رابطہ کریں؛
📲 +91 7053477786
📲 +91 9719143163
📲 +91 9999085942
0 notes
islam365org · 4 years
Text
New Post has been published on Islam365
https://islam365.org/islamic-books/hifaz-e-hadees-course-part-1/
حفظ حدیث کورس (حصہ اول)
اللہ تعالیٰ نے یوں تو انسان کو بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں لیکن قوتِ حافظہ ان میں اہم ترین نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس خاص نعمت سے انسان مشاہدات و تجربات اور حالات و واقعات کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھتا ہے اور ضرورت کے وقت انہیں مستحضر کرکے کام میں لاتا ہے-اہل عرب قبل از بعثت ِنبویﷺ ہزاروں برس سے اپنا کام تحریر و کتابت کے بجائے حافظہ سے چلانے کے خوگر تھے-عرب بے پناہ قوت حافظہ کے مالک تھے۔ ان کے شعرا، خطبا اور اُدبا ہزاروں اشعار، ضرب الامثال اور واقعات کے حافظ تھے۔ شجر ہائے نسب کومحفوظ رکھنا ان کا معمول تھا بلکہ وہ تو گھوڑوں کے نسب نامے بھی یاد رکھتے تھے۔ موجودہ دور میں بھی مختلف اقوام میں ایسے بے شمار افراد پائے جاتے ہیں جن کے حافظوں کو بطورِ نظیر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ خود ہندوستان میں سیدانور شاہ کشمیری، سید نذیر حسین محدث دہلوی، حافظ عبدالمنان وزیرآبادی اور حافظ محمد محدث گوندلوی ﷭ بے نظیر حافظے کے مالک تھے-عربوں کا تعلق جب کلامِ الٰہی سے ہوا تو ان کو رسولِ کریمﷺاور قرآنِ مجید سے بے پناہ عقیدت ومحبت ہوئی۔ انہوں نے قرآن و حدیث کو حفظ کرنا شروع کیا۔ حضرت انس بن مالک﷜ جو آپ کے خادمِ خاص تھے، کہتے ہیں کہ’ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس ہوتے اور حدیث سنتے جب ہم اٹھتے تو ایک دوسرے سے دہراتے حتیٰ کہ ہم اس کو ازبر کرلیتے۔ نبی پاکﷺنے ان اشخاص کے لئے خصوصی دعا فرمائی جو آپ کی باتوں کو سن کر یاد رکھیں اور دوسروں تک پہنچائیں۔ کئی ائمہ محدثین ہزاروں احادیث کے حافظ تھے۔ عصر حاضر میں متون احادیث کو یاد کرنے کا ذوق موجود ہے۔ احادیث کو یاد کرنے کے لیے مختلف مجموعہ جات موجود ہیں۔ زیر تبصرہ کتابچہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔یہ کتابچہ ڈاکٹر نور الحسین قاضی کا مرتب شدہ ہے۔ انہو ں نے صحیح بخاری کی 100 چھوٹی چھوٹی مگر جامع حدیثیں جمع کی ہیں۔ تاکہ گھر کے او ر چھوٹے بڑے مدرسہ اور سکولوں کے بچے اسے آسانی سے یاد کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ مرتب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور طلبہ وطالبات کو اسے یادکرنی کی توفیق دے۔ آمین (م۔ا)
                                                        downlaod the complete book
0 notes
urduclassic · 6 years
Text
اردو ادب کا ماضی قریب میں
1935ء کے لگ بھگ اردو ادب کی رومانیت سماجی معنویت کی نئی جہت سے آشنا ہونے لگی۔ تخیلیت، جذباتیت، انفرادی درد مندی پر پلنے والی رومانیت کی سرحدیں محض ذات تک محدود نہ رہیں، بلکہ انفرادیت کا جوش و خروش اپنی خوشی اور سماج کو خوش حال دیکھنے کی تمنا میں ان تمام سماجی اداروں سے ٹکرانے لگا جو اس کی تمنا ؤں کی تکمیل میں حائل تھے۔ سب سے پہلی یلغار جنس اور مذہب کے مسلمہ اداروں پر ہوئی اور اس کے بعد سیاست پر۔ مگر ہر صورت میں اس یلغار کی بنیادی حیثیت انفرادی اور رومانی تھی اور اس کے ہتھیار جذبے کا وفور اور تخیل کی بے پناہ قوت ہی کے ذریعہ فراہم کیے گئے تھے۔ 
اس امتزاج کی سب سے ��اضح مثالیں اقبالؒ، اختر شیرانی اور جوش کی شاعری سے اور قاضی عبدالغفار، نیاز فتح پوری اور ابوالکلام آزاد کی نثر سے فراہم کی جا سکتی ہیں جو ذات ہی کے راستے سے ایک بت شکن رومانی انانیت تک پہنچے تھے اور یہ رومانی انانیت محض حجاب امتیاز علی کے ’’صنوبر کے سائے‘‘ خلیق دہلوی کے ’’ادبستان‘‘ اور سجاد حیدر یلدرم کے ’’خیالستان‘‘ تک محدود نہ تھی بلکہ ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ میں طوائف کے بدنام کردار کو موضوع سخن بنا کر سماج سے انتقام لیتی تھی۔ کبھی اختر شیرانی کے لفظوں میں اٹھ ساقی، اٹھ تلوار اٹھا کا راگ الاپتی تھی۔
کبھی جوش کی طرح مذہب کے سکہ بند ادارے کو للکارتی تھی، کبھی ابوالکلام کی نثر کا رجزیہ اسلوب بن کر سیاست کے رموز کھولتی تھی اور کبھی اقبالؒ کے تصور خودی کی شکل اختیار کر کے مرد کامل کے عشق کو عقل پر فوقیت دے کر تخیل اور جذبے کے رومانی آدرشوں کا پرچم بلند کرتی تھی۔ اس دور کے تخلیقی فن پاروں میں بنیادی فنی آویزش تغزل اور باطنی تجربے کی توسیع ہے۔ اس ضمن میں نظم میں سب سے اہم تجربے فیض، مجاز اور مخدوم نے کیے اور اپنی شاعری کو ذاتی تجربے کی واقعیت اور کلاسیکی درو بست کو سرشار شعریت سے پیوند کیا۔ فیض نے اپنے دور کے دکھ درد کو اپنی ذات کا حصہ بنا کر اسی کرب امروز کو نشاط فردا کی عظمت اور کج کلاہی کا ضامن بنا کر سطوت غم سے معمور چٹیل شعریت سے نئے آہنگ میں ڈھالا۔ 
مجاز کے سرشار لب و لہجے اور مخدوم کی رنگین غنائیت میں ڈوبے رجزیوں نے شعریت کو ایک نئی جہت دے دی۔ غزل میں فراق نئے دور کے کائنات آشنا انسان کی ربودگی کی آپ بیتی لکھ رہے تھے جبکہ جذبی کلاسیکی درو بست کے ساتھ غزلیہ رمز و ایما میں اور مجروح سلطانپوری بھر پور رومانی سرمستی سے سیاسی حالات کو غزل کی علامتوں میں سمونے کا تجربہ کر رہے تھے۔ اس کے پہلو بہ پہلو شعری سانچوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی تھی۔ راشد نے سب سے پہلے مؤثر طریقے پر آزاد نظم کو پرانے عروضی سانچوں سے آزاد کر کے شعری اظہار کا وسیلہ بنایا۔ (گو تصدق حسین خالد اس قسم کی کوششوں کا آغاز کر چکے تھے ) اور نظم کو براہ راست بیانیہ اظہار کے بجائے متنوع اور مختلف جہات کے پیرایہ بیان کے لیے اختیار کیا جس میں کرداری پیرایہ بھی تھا اور ڈرامائی صورتحال سے نظم کے تاثر پیدا کرنے کی کوشش بھی تھی۔ (دریچے کے قریب) 
میراجی نے آزاد نظم کو لاشعوری کی پہنائیوں میں بکھیر کر اسے نجی اظہار کا پیرایہ بنایا اور ذاتی علامتیں ڈھال کر اسے ابہام اور اہمال کے قریب لے گئے جبکہ سلام مچھلی شہری نے عروضی تجربوں میں رقص اور مصوری کے طرز کو آزاد نظم کے لیے برتنے کی کوشش کی اور مختار صدیقی نے موسیقی کے طرز کو اپنایا۔ اس کے پہلو بہ پہلو قدیم طرز شاعری بھی پروان چڑھتا رہا گو اس طرز میں بھی مذاق عصر کے مطابق تبدیلیاں آنے لگیں۔ جگر مراد آبادی کے تغزل کی رنگینی اور سرمستی اب بھی مشاعروں پر چھائی ہوئی تھی مگر وہ بھی اب اپنی غزلوں میں سیاسی رمزیت کو جگہ دینے لگے۔ یگانہ کا آخری زمانہ تھا مگر اس زمانے میں بھی غزل میں خود داری اور بانکپن ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ 
افسانوی ادب میں کرشن چندر کے ناول ’شکست‘ اور افسانے ’زندگی کے موڑ پر‘ اور ’بالکونی‘ میں جس رنگین اور سرشار رومانی نثر کو اس دور کے بے بس نوجوانوں کی تصویر کشی کے لیے استعمال کیا گیا اس نے ایک طلسماتی فضا پیدا کر دی تھی۔ راجندر سنگھ بیدی نے اسلوب کے بجائے کرداروں کی دروں بینی اور فرد کی سماج سے مطابقت کے مسئلے کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اور انہیں چھوٹے چھوٹے اشاروں سے انسانی شخصیت اور بصیرت کی داستانیں بیان کی ہیں۔ عصمت مسلم گھرانوں کی دبی کچلی جوانیوں کی بے جھجک فریاد بیان کرتی ہیں اور غلام عباس کی ’آنندی‘ اور حیات اللہ انصاری کی ’آخری کوشش‘ دونوں کہانیاں اردو مختصر افسانے کو سماجیاتی سطح پر اقدار کی آبادکاری اور انسانی خواہشات کی چوکھٹ پر اقدار کی شکست و ریخت کی رزمیہ کہی جا سکتی ہیں۔
سعادت حسن منٹو نے سماج کے معیاروں سے گرے ہوئے کرداروں کی تصویر کشی کر کے فرد کی تکمیل ذات کے نئے مطالبوں اور سماجی اقدار کے از کار رفتہ شکنجے کی کشمکش کو بے نقاب کر کے انسان کی بنیادی سچائی اور معصومیت کی کہانی بیان کی اور تکنیک کے اعتبار سے رومانی طرز احساس کو حقیقت پسندانہ سادگی میں بے محابا ادا کیا۔ طنز و مزاح میں رشید احمد صدیقی نے نئی ادبی اور فکری تہہ داری پیدا کی اور شوکت تھانوی نے اسے سماجی طنز کے طور پر برتا۔ کنہیا لال کپور کے ہلکے پھلکے مزاح نے سماجی ناہمواری اور ذات کے غیر متوازن رد عمل کو موضوع بنایا۔ ’’اداس نسلیں‘‘ سے لے کر ’’خدا کی بستی‘‘، ’’آنگن‘‘ اور ’’چاند گہن‘‘ تک اور پھر تمام ناسٹلجیائی افسانوی ادب میں فسادات، تقسیم اور جاگیرداری ثقافت کا زوال موضوع بنا رہا گو وہاں کے رویے مختلف تھے۔ 
صنعتی دور کی طرف بڑھنے والے سماج کا اعصابی تشنج، احساس تنہائی اور بکھرے ہوئے شعور نے فکر اور فن دونوں میں عہد آفریں تبدیلیاں پیدا کیں۔ نظم و نثر دونوں میں بکھرے تاثر پاروں سے وحدت تاثر کی مرکزیت حاصل کرنے کا تجربہ عام ہونے لگا جس کی مثالیں نظم میں اختر الایمان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ اور ’’سبزۂ بے گانہ‘‘ سے عمیق حنفی کی ’’سند ��اد‘‘ تک بکھری ہوئی ہیں۔ اسی طرح قرۃ العین حیدر کے ناولوں ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ اور ’’آگ کا دریا‘‘ میں یہی ریزہ کاری مرکزی تاثر کی تشکیل کرتی ہے۔ غزل میں بلند آہنگی کے بجائے نرمی اور آہستگی کے رواج نے میر کی تقلید کی طرف متوجہ کیا اور پاکستان میں ابن انشا اور ناصر کاظمی کی غزل میں نئے آہنگ نے رواج پایا۔
محمد ریاض
3 notes · View notes
my-urdu-soul · 7 years
Text
کیف مستی میں عجب جلوۂ یکتائی تھا - ساحر دہلوی
کیف مستی میں عجب جلوۂ یکتائی تھا تو ہی تو تھا نہ تماشا نہ تماشائی تھا حسن بے واسطۂ ذوق خود آرائی تھا عشق بے واہمۂ لذت رسوائی تھا تیری ہستی میں نہ کثرت تھی نہ وحدت پیدا ہمہ و بے ہمہ و با ہمہ یکجائی تھا پردہ در کوئی نہ تھا اور نہ در پردہ کوئی غیرت عشق نہ تھی عالم تنہائی تھا لا فنا تیری صفت تھی تیری ہستی کا ثبوت بے نشاں تیرا نشاں صورت بینائی تھا حال تھا حال نہ ماضی تھا نہ تھا مستقبل از ازل تا بہ ابد جلوہ بہ رعنائی تھا ذات قائم تھی بذات اور صفت تھی معدوم کن نہ تھا معرکۂ انجمن آرائی تھا بزم میں تو نے جو الٹا رخ روشن سے نقاب ایک عالم تیرے جلوہ کا تماشائی تھا فتنہ زا حسن ہوا عشق ہوا شور فگن رم ہوا شوق فزا شوق تمنائی تھا کوئی ثابت کوئی سیارہ کوئی متحیر کوئی عاشق کوئی مجنوں کوئی سودائی تھا حرف اور صوت میں آتا ہے کسی کا ہو کلام ساحرؔ آغاز میں کن غایت پیدائی تھا
3 notes · View notes
pridesofpakistan · 7 years
Text
کراچی میں اپنی نوعیت کے پہلے روٹی بینک کا آغاز
 ’روٹی بینک‘کے ایک عہدیدار حارث علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’ اس بینک کے قیام کا مقصد سفید پوش لوگوں کی مدد کرنا ہے۔ شہر میں جگہ جگہ دسترخوان لگتے ہیں جہاں راہ گیر وں کو مفت کھانا کھلایا جاتا ہے لیکن کچھ ’وائٹ کالرز ‘سڑک کنارے بیٹھ کر کھانے میں شرم محسوس کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ کسی جاننے والے سے دیکھ لیا تو کیا ہو گا. یہ ’روٹی بینک انہی وائٹ کالرز یا سفید پوش لوگوں کی مدد کے لئے کھولا گیا ہے۔ ‘‘ ​ حارث نے وی او اے کے ایک سوال پر بتایا ’ کوئی بھی وائٹ کالر یا ضرورت مند شخص اپنا اور اپنی اہلیہ کا شناختی کارڈ اور بچوں کا برتھ سرٹیفکیٹ کی فوٹو کاپی ہمارے پاس جمع کرا کے دونوں وقت کا کھانا اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے۔ ہر فیملی کی فائل ہم الگ رکھتے ہیں اور پوری راز داری برتے ہیں ۔ روٹی بینک کراچی کی ایک رفاعی تنظیم سیلانی ٹرسٹ نے شروع کیا ہے. ٹرسٹ کے منیجر زوہیب نے بتایا کہ ٹرسٹ نے بڑے پیمانے پر ایک کچن بنا رکھا ہے جہاں دونوں وقت کھانا بنتا اور باقاعدہ کمرشل انداز میں پیک ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسے ہر دوپہر اور شام کو’ روٹی بینک ‘بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے ضرورت مند اسے لے جاتے ہیں یا پھر گھروں پر ارسال کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ ایک دن میں تقریباً گیارہ سو افراد کا کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ تمام خرچ لوگوں کی جانب سے ملنے والے چندے اور امدادی رقم سے پورا ہوتا ہے۔ بےشمار لوگ فی کس کے حساب سے بھی روزانہ کی بنیاد پر رقم دے جاتے ہیں۔ ایک فرد کے کھانے کے 50 روپے لیے جاتے ہیں اس لحاظ سے کوئی دس تو کوئی پندرہ اور بعض لوگ اس سے بھی کہیں زیادہ افراد کے کھانے کے لئے نقد رقم دے جاتے ہیں۔ کراچی میں ضرورت مندوں کو مفت کھانا کھلانے کے لئے ایک دو نہیں متعدد رفاعی تنظیمیں اور ادارے کام کر رہے ہیں۔ سرجانی ٹاؤن میں پروین نامی ایک خاتون صرف تین روپے میں ایک وقت کا کھانا کھلاتی ہیں اور برسوں سے ان کا یہی معمول ہے۔
چھیپا نامی مشہور فلاحی ٹرسٹ بھی اپنے طور پر یہ انسانی خدمت انجام دے رہا ہے۔ شہر کے ہر حصے اور علاقے میں مختلف چوراہوں پر دوپہر کا سورج چڑھنے اور رات کا اندھیرا چھانے سے ذرا پہلے ’چھیپا دسترخوان ‘سج جاتے ہیں۔ ان دسترخوانوں پر دال روٹی اور سبزی ہی نہیں گائے اور بکرے کے گوشت کا سالن ملنا بھی معمول کی بات ہے۔ بے شمار لوگ صدقوں کی غرض سے بکرے ذبح کراتے اور چھیپا ٹرسٹ کو دے جاتے ہیں۔ پورے ملک میں مشہور ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی’ بحریہ‘ بھی اس خدمت پر مامور ہے ۔ ’ بحریہ دسترخوان‘ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں آنے والوں کو سر راہ بیٹھنا نہیں پڑتا بلکہ’ بحریہ دسترخوان‘ کو دیکھ کر کسی بڑے ہوٹل کا گمان ہوتا ہے۔ نہایت صاف ستھرا ماحول، بہترین کھانے، ائیرکنڈیشن ماحول، باوردی ملازم، مہنگی کٹلری اور قیمتی برتن۔
رفاعی تنظیم کے ایک کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی او اے کو بتایا کہ’ بے شک بھوکے کو روٹی کھلانا بہت بڑی نیکی ہے لیکن کہیں ایسا تو نہیں اس کوشش میں ہم معاشرے کے افراد کو کھانے کی مفت سہولتیں دے کر انہیں ان کی ذمے داریوں سے راہ فرار کا موقع دے رہے ہوں؟ ‘ کارکن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح نوجوانوں میں محنت کرنے کا جذبہ کم ہو جائے گا، خاص طور سے بچے ۔۔کم عمری سے ہی ان کے عادی ہوجائیں گے، ان میں اپنا مستقبل بنانے، حالات کو بدلنے اور اپنے لئے باعزت روزگار کے مواقع تلاش کرنے کا جذبہ ہی ختم ہو جائے گا۔ وہ شروع ہی سے دوسروں کے کندھوں کے عادی ہوجائیں گے ۔‘‘ وی او اے کے نمائندے نے اس پر ایک اور فلاحی تنظیم عالمگیر ویلفیئرٹرسٹ کے منیجر شکیل دہلوی سے گفتگو کی تو ان کا موقف تھا کہ’ انسان کا پیٹ خالی ہو تو جرائم کی راہ نکلتی ہے ۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے انسان کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ بے روزگاری بہت بڑا عذاب ہے، بچے بھوک سے بلک رہے ہوں تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے ۔ اگر مفت د سترخوان سے معاشرے کے لوگوں کی خود انحصاری کی عادت ختم ہونے کا خدشہ ہے تو بہت سے سنگین مسائل بھی تو حل ہورہے ہیں۔ ‘ پاکستان کو غذائی قلت کا سامنا انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسر چ انسٹی ٹیوٹ، واشنگٹن کی جاری کردہ’ گلوبل ہنگرانڈیکس‘یعنی جی ایچ آئی‘2017کے مطابق پاکستان کو غذائی قلت کی شکل میں سنجیدہ خطرے کا سامنا ہے اور آنے والے برسوں میں صورت حال سنگین ہو سکتی ہے۔ غذائی کمی اور بھوک کا شکار 119 ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 106 ہے جبکہ انڈکس میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی شرح یا اسکور اسے ’خطرناک ‘کیٹگری کی جانب لے جا رہا ہے۔  
0 notes
airnews-arngbad · 4 years
Text
Regional Urdu Text  Bulletin, Aurangabad, Date : 13.06.2020, Time : 9:00 to 9.10 AM
Regional Urdu Text Bulletin, Aurangabad. Date: 13 June-2020 Time: 09:00 to 09:10 am آکاشوانی اَورنگ آباد علاقائی خبریں تاریخ:۱۳؍جون  ۲۰۲۰؁ وَقت :  ۱۰:۹۔ ۰۰:۹ ***** ***** ***** ::::: سرخیاں:::::: شروع میںچند اہم خبروںکی سرخیاں: ٭ ملک میں کووِڈ 19- کے مریضوں کے صحت یاب ہونے کا تناسب تقریباً پچاس فیصد۔ ٭ ریاست میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ ٭ دوبارہ لاک ڈائون عائد کرنے کی خبروں کی تردید‘ ریاستی حکومت نے کی۔ ٭ اورنگ آباد میں کل 7/ کورونا متاثرین فوت۔ جالنہ ایک، تاہم ناندیڑ اور لاتور میں 2-2 افراد ہلاک۔ ٭ اورنگ آباد ضلع میں آج 87/ نئے کورونا متاثرین کااضافہ۔ ٭ اُردو کے مشہور شاعر گلزار دہلوی نہیں رہے۔ ٭ مراٹھواڑہ میں کئی مقامات پر بارش‘ بیڑ ضلع میں بجلی گرنے سے بہن اور بھائی ہلاک۔ ***** ***** ***** خبریں تفصیل سے۔۔۔ کووِڈ کے مثبت معاملوں کی صحت یابی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور یہ شرح اب 49/ اعشاریہ چار سات فیصد ہوگئی ہے۔ مجموعی طور پر ایک لاکھ 47/ ہزار 194/ افراد صحت یاب ہوچکے ہیں، جبکہ ایک لاکھ 41/ ہزار 842/ افراد فعال طبّی نگرانی میں موجود ہیں۔ پچھلے 24/ گھنٹے کے دوران کووِڈ اُنیس سے متاثرہ 6/ ہزار سے زیادہ افراد شفاء یاب ہوئے ہیں۔ دُگنا ہونے کی شرح لگاتار بہتر ہوکر لاک ڈائون کے شروعاتی دِنوں کے تین اعشاریہ چار سے موجودہ سترہ اعشاریہ چار پر پہنچ گئی ہے۔ کابینہ سیکریٹری نے کل سبھی ریاستوں کے چیف سیکریٹریوں‘ صحت سے متعلق سیکریٹری اور شہری ترقی سے متعلق سیکریٹری کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کی۔ صحت کی مرکزی وزارت نے کہا کہ کووِڈ اُنیس کے مؤثر بندوبست کیلئے ریاستوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ گھیرا بندی ٹسٹنگ اور پتہ لگانے کے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے‘ معاملے کے Clinical بندوبست اور کمیونٹی تعلق پر توجہ مرکوز کریں۔ ریاستوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وائرس کے پھیلائو پر قابو پانے کیلئے اُن علاقوں پر خاص توجہ مرکوز کریں جہاں سے یہ وائرس پھیل رہا ہے اور اس پر کنٹرول کرنے کیلئے سخت اقدامات کریں۔ ***** ***** ***** سپریم کورٹ نے اسپتالوں میں مرنے والوں کی لاشیں کووِڈ اُنیس کے مریضوں کے قریب ہی رکھے جانے پر اسپتالوں کی حالت کو خوفناک قرار دیا ہے۔ عدالت ِ عالیہ نے اسپتالوں میںمریضوں کے علاج اور لاشوں کے بندوبست پر از خود نوٹس لیتے ہوئے مرکز اور مختلف ریاستوں سے جواب طلب کیے ہیں۔ عدالت عالیہ نے کہا ہے کہ اسپتالوں میں لاشوں کو رکھنے پر مناسب توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ اہلِ خانہ کو مریض کی موت کے بارے میں مطلع بھی نہیں کیا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں وہ مرنے والے کی آخری رسومات میں بھی شریک نہیں ہوپاتے۔ جسٹس اشوک بھوشن‘ ایس کے کول اور ایم آر شاہ پر مشتمل بینچ نے مرکز‘مہاراشٹر‘ مغربی بنگال اور تمل ناڈو کو بھی نوٹس جاری کیے ہیں۔ سماعت کے دوران بینچ نے کہا ہیکہ دلّی میں صورتحال انتہائی خوفناک اور دردناک ہے۔ اس نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت کے رہنما خطوط پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے۔ عدالت ِ عالیہ نے ریاستوںکے چیف سیکریٹریوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ مریضوں کے بندوبست کے نظام کا جائزہ لیں اور اسپتال کے عملے اور مریضوںکی دیکھ بھال سے متعلق صورتحال کی رپورٹ پیش کریں ۔ عدالت ِ عالیہ نے اس معاملے کو اسپتالوں میں کووِڈ اُنیس کے مریضوں کا مناسب علاج اور لاشوں کے باوقار بندوبست کا نام دیا ہے۔ اس معاملے کی اگلی سماعت جمعہ کو ہوگی۔ ***** ***** ***** ریاست میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد نے ایک لاکھ کا مرحلہ طئے کرلیا ہے۔ کل تمام دِن میں 3/ ہزار 493/ نئے مریضوں کا اندراج ہوا۔ ریاست میں جملہ مریضوں کی تعداد ایک لاکھ ایک ہزار 141/ ہوگئی ہے۔ کل 127/ متاثرین فوت ہوگئے۔ ریاست میں اب تک اس مہلک مرض کی وجہ سے تین ہزار 717/ افراد اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔ تاہم کل ایک ہزار 718/ مریض شفاء یاب ہوگئے اور انہیں ڈسچارج کردیا گیا۔ ریاست میں اب تک 47/ ہزار 796/ کورونا وائرس متاثرین صحت یاب ہوچکے ہیں۔ ***** ***** ***** ریاست میں دوبارہ لاک ڈائون کرکے تمام دُکانیں بند کرنے کی خبروں کی ریاستی حکومت نے تردید کی ہے۔ ریاستی حکومت نے ایسا کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ اس کی وضاحت وزیرِ اعلیٰ اُدّھو ٹھاکرے نے کی ہے۔ اپنی شان بتاتے ہوئے اس طرح کی بے بنیاد خبریں نشر نہ کریں۔ یہ ایک جرم ہے۔ یہ بات کل انھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے کہی۔ ریاست میں معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنے کاکام جاری ہے۔ اس کیلئے آہستہ آہستہ کاروبار شروع ہورہے ہیں۔ تاہم ہجوم نہ کرنا‘ سماجی فاصلہ برقرار رکھنا‘ صفائی کا خیال رکھنا اس طرح کے اُصول و ضوابط پر عمل کرنا چاہیے۔ یہ بات وزیرِ اعلیٰ نے کہی۔ ***** ***** ***** حکومت تمام ریاست میں میڈیکل سہولتیں فراہم کررہی ہے۔ یہ بات وزیرِ اعلیٰ اُدھو ٹھاکرے نے کہی ہے۔ اورنگ آباد میں صنعتی ترقیاتی کارپوریشن کی جانب سے کورونا وائرس مریضوں کیلئے کووِڈ19- کیئر سینٹر اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے وائرس جانچ لیباریٹری اور ریسرچ سینٹر کا آن لائن افتتاح کرنے کے بعد وہ مخاطب تھے۔ لوگوں میں کووِڈ 19- کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر عوامی بیداری کی ضرورت پر انھوں نے زور دیا۔ ***** ***** ***** اورنگ آباد میں صنعتی ترقیاتی کارپوریشن کی جانب سے قائم کیے گئے 256/ پلنگوں کے کووِڈ کیئر سینٹر میں 128/ پلنگوں پر آکسیجن کی سہولت فراہم ہے۔ اسی کے ساتھ ICU‘ ایکسرے وغیرہ ضروری سہولتیں یہاں موجود ہیں۔ اس اسپتال کیلئے درکار 115/ افراد کا Man Power قومی طبّی مہم کے تحت فراہم کیا گیا ہے۔ ملک کے مقابلے میں ریاست میں بڑے پیمانے پر کووِڈ 19- کو کنٹرول کرنے کیلئے بہترین کام ہورہا ہے۔ یہ بات وزیرِ صحت راجیش ٹوپے نے کہی ہے۔ ***** ***** ***** ریاست کے سماجی انصاف وزیر دھننجے منڈے کورونا وائرس سے متاثر ہوگئے ہیں۔ انہیں ممبئی کے بریچ کینڈی اسپتال میں شریک کیا گیا ہے۔ منڈے کے ساتھ ان کے مددگار کو بھی کورونا وائرس سے متاثر پایا گیا۔ منڈے کی صحت مستحکم ہے۔ انہیں کسی قسم کی علامت نہیں ہے۔ اس کی اطلاع وزیرِ صحت راجیش ٹوپے نے کل دی۔ منڈے نے راشٹروادی کانگریس پارٹی کے یومِ تاسیس کی تقریب میں اور ریاستی کابینہ کی میٹنگ میں شرکت کی تھی۔ تاہم ان دونوںمقامات پر احتیاط برتی گئی تھی۔ اس لیے دیگر افراد کے متاثرہونے کا خوف نہیں ہے۔ یہ بات ٹوپے نے کہی۔ ***** ***** ***** اورنگ آباد شہر میں کل سات کورونا وائرس متاثرین دورانِ علاج چل بسے۔ اس میں مدنی کالونی کا 65/ سالہ شخص، فاضل پورہ کا 52/ سال کا‘ کیلاش نگر میں 40/ سال کا‘ مل کارنر میں 36/ سال کا‘ پدم پورہ میں 50/ سال کا‘ اندرا نگر بائجی پورہ میں 61/ سالہ اور امبیڈکر نگر میں 62/ سال کا شخص شامل ہے۔ شہر میں اب تک اس بیماری کی وجہ سے 135/ افراد فوت ہوچکے ہیں۔ ***** ***** ***** اسی بیچ کل ضلع میں مزید 105/ نئے متاثرین پائے گئے۔ اس میںاورنگ آباد شہر میں 92/ اور 13/ مریض دیہی علاقوں میں پائے گئے۔ اس میں سلوڑ تعلقے کے نلّوڑ میں 3/ کنڑ اور بجاج نگر میں 2-2 اور گنگا پور میں ماری سوری کالونی‘ گنیش نگر پنڈھر پور‘ ویجا پور‘ خلدآباد اور کانڑ گائوں میں ایک۔ ایک مریض پایا گیا۔ اس کی وجہ سے ضلع میں جملہ مریضوں کی تعداد 535/ ہوگئی ہے۔ ضلع میں اب تک 1400/ مریض صحت یاب ہوچکے ہیں اور فی الحال ایک ہزار مریضوں کا علاج جاری ہے۔ آج صبح ملی اطلاع کے مطابق اورنگ آباد ضلع میں مزید 87/ متاثرین کا اضافہ ہوا ہے۔ ***** ***** ***** اس بیچ اورنگ آباد ضلع میں کورونا وائرس کی بیماری سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد توجہ طلب ہے۔ سرکاری انتظامیہ اور شہری مشترکہ طور پر اس بحران کو شکست دیں۔ ایسی اپیل رابطہ وزیر سبھاش دیسائی نے کی ہے۔ کل ضلع کلکٹر آفس میں اس سلسلے میں جائزہ میٹنگ سے وہ مخاطب تھے۔ ***** ***** ***** جالنہ شہر میں مزید ایک 55/ سال کا شخص کورونا وائرس کے علاج کے درمیان ضلع سول اسپتال میں چل بسا۔ اسکی وجہ سے ضلع میں اس مرض کی وجہ سے مرنے والوںکی تعداد 8/ ہوگئی ہے۔ کل ضلع میں مزید 7/ کورونا متاثرین پائے گئے۔ ناندیڑ ضلع میں کل 2/ کورونا وائرس متاثرین دورانِ علاج چل بسے۔ اسی طرح لاتور میں بھی کورونا وائرس متاثرین اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔ کل ناندیڑ میں 9/ ہنگولی میں 2/ لاتور میں 2/ اور عثمان آباد میں 3/ نئے مریضوں کا اندراج ہوا۔ ***** ***** ***** اُردو کے معروف شاعر آنند موہن زتشی‘ گلزار دہلوی کا کل سہ پہر نوئیڈا میں ان کی رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا۔ وہ 93/ برس کے تھے۔ مجاہد ِ آزادی اوربنیادی طور پر انقلابی شاعر‘ گلزار دہلوی کو یکم جون کو ایک پرائیویٹ اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ ان کے بیٹے انوپ زتشی نے کہا ہیکہ 7/ جون کو‘ ان کا کورونا ٹسٹ منفی آیا تھا او رانہیں چھٹی دے دی گئی تھی۔ انھوںنے کہا کہ کل انھوں نے دوپہر کا کھانا کھایا‘ جس کے بعد تقریباً ڈھائی بجے ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ 1926ء میں پرانی دِلی کی گلی کشمیریان میں پیداہوئے تھے۔ وہ سائنس کی دُنیا کے ایڈیٹر بھی رہے ہیں‘ جو حکومت ہند کے ذریعے 1975ء میں شروع کیا گیا تھا۔ ***** ***** ***** مراٹھواڑہ میں کل بھی کئی مقامات پر بارش ہوئی۔ اورنگ آباد‘ بیڑ، ناندیڑ، عثمان آباد اور ہنگولی اضلاع میں بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ بیڑ ضلع میں کل جسم پر بجلی گرنے سے بہن اور بھائی چل بسے۔ وڑونی تعلقے کے موروڑ میں کھیت سے گھر واپس آرہے بہن اوربھائی پر بجلی گر گئی۔ شدید زخمی حالت میں انہیں ضلع سول اسپتال میں علاج کیلئے شریک کیا گیا، تاہم وہ علاج کے دوران چل بسے۔ ***** ***** ***** اورنگ آباد شہر اور ضلع میں کل دوپہر کو موسلا دھار بارش ہوئی۔ ضلع میں کرماڑ میں کرماڑسے پمپری راجہ راستے پر پل منہدم ہونے سے آمد و رفت مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔ ناندیڑ ضلع کے عمری اوردیگر علاقوں میں پرسوں شب سے کل صبح تک موسلا دھار بارش ہوئی۔ عثمان آباد ضلع میں کلمب‘ واشی‘ بھوم تعلقوں میں بارش ہوئی۔ ہنگولی ضلع میں پرسوں شب سے کل صبح تک 19/ ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ اس سال وقت پر بارش ہونے کی وجہ سے چند علاقوں میں تخم ریزی کے کاموں کا آغاز ہوگیا ہے۔ ***** ***** ***** ::::: سرخیاں:::::: سرخیاں ایک بار پھر۔۔۔ ٭ ملک میں کووِڈ 19- کے مریضوں کے صحت یاب ہونے کا تناسب تقریباً پچاس فیصد۔ ٭ ریاست میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ ٭ دوبارہ لاک ڈائون عائد کرنے کی خبروں کی تردید‘ ریاستی حکومت نے کی۔ ٭ اورنگ آباد میں کل 7/ کورونا متاثرین فوت۔ جالنہ ایک، تاہم ناندیڑ اور لاتور میں 2-2 افراد ہلاک۔ ٭ اورنگ آباد ضلع میں آج صبح 87/ نئے کورونا متاثرین کااضافہ۔ ٭ اُردو کے مشہور شاعر گلزار دہلوی نہیں رہے۔ ٭ مراٹھواڑہ میں کئی مقامات پر بارش‘ بیڑ ضلع میں بجلی گرنے سے بہن ‘بھائی ہلاک۔ ***** ***** *****
0 notes
dani-qrt · 5 years
Text
ایک انگریز کے گیراج میں بہادر شاہ ظفر کی عبرت موت کے بعد انہیں دفناتے وقت ایسا کیا ہوا کہ گیراج کے مالک انگریز کی آنکھوں میں آنسو آگئے ؟
ایک انگریز کے گیراج میں بہادر شاہ ظفر کی عبرت موت کے بعد انہیں دفناتے وقت ایسا کیا ہوا کہ گیراج کے مالک انگریز کی آنکھوں میں آنسو آگئے ؟
ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو میکنن میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا۔یہ جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچا ،شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین بھی تاج دار ہند کے ساتھ تھیں۔ کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا۔وہ بندر گاہ پہنچا۔ اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا۔رسید لکھ کر دی اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرمانروا کو ساتھ لے کر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا۔
نیلسن پریشان تھا۔ بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجودبادشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کو جیل میں پھینک دے مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں بہادر شاہ ظفر کو رکھا جا سکتا۔ وہ رنگون میں
پہلا جلا وطن بادشاہ تھا۔نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیا۔نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور تاجدار ہند۔ ظِلّ سْبحانی اور تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ کو اپنے گیراج میں قید کر دیا۔بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858ء کو اس گیراج میں پہنچا اور 7 نومبر 1862ء تک چار سال وہاں رہا۔آخری دن بدنصیب بادشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی میں کیپٹن نیلسن ڈیوس کے دروازے پر دستک دی اور اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔ملازمہ کی آواز سن کر نیلسن نے اپنا پسٹل اٹھایا، گارڈز کو ساتھ لیا اورگیراج میں داخل ہو گیا۔ بادشاہ کی آخری آرام  گاہ کے اندر بَدبْو، موت کا سکوت اور اندھیرا تھا۔اردلی لیمپ لے کر بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔
نیلسن آگے بڑھا۔بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر۔اْس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی۔ آنکھوں کے ڈھیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر اْبل رہے تھے۔ گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور خشک زرد ہونٹوں پر مکھّیاں بِھنبھِنا رہی تھیں۔ نیلسن نے زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے لیکن اس نے کسی چہرے پر اتنی بےچارگی۔ اتنی غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی۔ وہ کسی بادشاہ کا چہرہ نہیں تھا۔وہ دنیا کے سب سے بڑے بھکاری کا چہرہ تھا اور اس چہرے پر ایک آزاد سانس جی ہاں…….
صرف ایک آزاد سانس کی اپیل تحریر تھی۔ کیپٹن نیلسن نے بادشاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا۔ زندگی کے قافلے کو رگوں کے جنگل سے گزرے مدت ہو چکی تھی۔ ہندوستان کا آخری بادشاہ زندگی کی حد عبور کر چکا تھا۔ نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا۔ لواحقین تھے ہی کتنے ایک شہزادہ جوان بخت اور دوسرا اس کا استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی۔ وہ دونوں آئے. • انھوں نے بادشاہ کو غسل دیا۔ کفن پہنایا اور جیسے تیسے بادشاہ کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ قبر کا مرحلہ آیا تو
پورے رنگون شہر میں آخری تاجدار ہند کے لیے دوگز زمین دستیاب نہیں تھی۔ نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں قبر کھدوائی اور بادشاہ کو خیرات میں ملی ہوئی مٹی میں دفن کر دیا۔ قبر پر پانی کا چھڑکاؤ ہورہا تھا ۔ گلاب کی پتیاں بکھیری جا رہی تھیں تو استاد حافظ ابراہیم دہلوی کے خزاں رسیدہ ذہن میں 30 ستمبر 1837ء کے وہ مناظر دوڑنے بھاگنے لگے جب دہلی کے لال قلعے میں 62 برس کے بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنایاگیا۔ ہندوستان کے نئے بادشاہ کو سلامی دینے کے لیے پورے ملک سے لاکھ لوگ دلی آئے تھے اور
بادشاہ جب لباس فاخرہ پہن کر ایک شان سے سب کے سامنےموجود تھا مگر سات نومبر 1862ء کی اس ٹھنڈی اور بے مہر صْبح بادشاہ کی قبر کو ایک خوش الحان قاری تک نصیب نہیں تھا. استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے جوتے اتارے۔ بادشاہ کی قبر کی پائینتی میں کھڑا ہوا اور سورہ توبہ کی تلاوت شروع کر دی۔ یہ قرآن مجید کی تلاوت کا اعجاز تھا یا پھر استاد ابراہیم دہلوی کے گلے کا سوز کیپٹن نیلسن ڈیوس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اس نے ہاتھ اٹھایا اور اس غریبْ الوطن قبر کو سیلوٹ پیش کر دیا اور اس آخری سیلوٹ کے ساتھ ہی مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آپ اگر کبھی رنگون جائیں تو آپ کو ڈیگن ٹاؤن شِپ کی کچّی گلیوں کی بَدبْودار جْھ��ّیوں میں آج بھی بہادر شاہ ظفر کی نسل کے خاندان مل جائیں گے۔ یہ آخری مْغل شاہ کی اصل اولاد ہیں مگر یہ اولاد آج سرکار کے وظیفے پر چل رہی ہے۔ یہ کچی زمین پر سوتی ہے۔ ننگے پاؤں پھرتی ہے۔ مانگ کر کھاتی ہے اور ٹین کے کنستروں میں سرکاری نل سے پانی بھرتی ہے مگر
یہ لوگ اس کَسمَپْرسی کے باوجود خود کو شہزادے اور شہزادیاں کہتے ہیں۔ یہ لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں اور لوگ قہقہے لگا کر رنگون کی گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں یہ لوگ شہر میں نکلتے ہیں تو ان کے چہروں پر صاف لکھا ہوتا ہے۔ جو بادشاہ اپنی سلطنت۔ اپنے مینڈیٹ کی حفاظت نہیں کرتے۔جو عوام کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ ان کی اولادیں اسی طرح گلیوں میں خوار ہوتی ہیں۔ یہ عبرت کا کشکول بن کر اسی طرح تاریخ کے چوک میں بھیک مانگتی ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھ نہیں آتی۔ یہ خود کو بہادر شاہ ظفر سے بڑا بادشاہ سمجھتے ہیں
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2UTZGIC via Urdu News
0 notes
dragnews · 5 years
Text
ایک انگریز کے گیراج میں بہادر شاہ ظفر کی عبرت موت کے بعد انہیں دفناتے وقت ایسا کیا ہوا کہ گیراج کے مالک انگریز کی آنکھوں میں آنسو آگئے ؟
ایک انگریز کے گیراج میں بہادر شاہ ظفر کی عبرت موت کے بعد انہیں دفناتے وقت ایسا کیا ہوا کہ گیراج کے مالک انگریز کی آنکھوں میں آنسو آگئے ؟
ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو میکنن میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا۔یہ جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچا ،شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین بھی تاج دار ہند کے ساتھ تھیں۔ کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا۔وہ بندر گاہ پہنچا۔ اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا۔رسید لکھ کر دی اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرمانروا کو ساتھ لے کر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا۔
نیلسن پریشان تھا۔ بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجودبادشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کو جیل میں پھینک دے مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں بہادر شاہ ظفر کو رکھا جا سکتا۔ وہ رنگون میں
پہلا جلا وطن بادشاہ تھا۔نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیا۔نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور تاجدار ہند۔ ظِلّ سْبحانی اور تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ کو اپنے گیراج میں قید کر دیا۔بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858ء کو اس گیراج میں پہنچا اور 7 نومبر 1862ء تک چار سال وہاں رہا۔آخری دن بدنصیب بادشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی میں کیپٹن نیلسن ڈیوس کے دروازے پر دستک دی اور اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔ملازمہ کی آواز سن کر نیلسن نے اپنا پسٹل اٹھایا، گارڈز کو ساتھ لیا اورگیراج میں داخل ہو گیا۔ بادشاہ کی آخری آرام  گاہ کے اندر بَدبْو، موت کا سکوت اور اندھیرا تھا۔اردلی لیمپ لے کر بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔
نیلسن آگے بڑھا۔بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر۔اْس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی۔ آنکھوں کے ڈھیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر اْبل رہے تھے۔ گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور خشک زرد ہونٹوں پر مکھّیاں بِھنبھِنا رہی تھیں۔ نیلسن نے زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے لیکن اس نے کسی چہرے پر اتنی بےچارگی۔ اتنی غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی۔ وہ کسی بادشاہ کا چہرہ نہیں تھا۔وہ دنیا کے سب سے بڑے بھکاری کا چہرہ تھا اور اس چہرے پر ایک آزاد سانس جی ہاں…….
صرف ایک آزاد سانس کی اپیل تحریر تھی۔ کیپٹن نیلسن نے بادشاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا۔ زندگی کے قافلے کو رگوں کے جنگل سے گزرے مدت ہو چکی تھی۔ ہندوستان کا آخری بادشاہ زندگی کی حد عبور کر چکا تھا۔ نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا۔ لواحقین تھے ہی کتنے ایک شہزادہ جوان بخت اور دوسرا اس کا استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی۔ وہ دونوں آئے. • انھوں نے بادشاہ کو غسل دیا۔ کفن پہنایا اور جیسے تیسے بادشاہ کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ قبر کا مرحلہ آیا تو
پورے رنگون شہر میں آخری تاجدار ہند کے لیے دوگز زمین دستیاب نہیں تھی۔ نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں قبر کھدوائی اور بادشاہ کو خیرات میں ملی ہوئی مٹی میں دفن کر دیا۔ قبر پر پانی کا چھڑکاؤ ہورہا تھا ۔ گلاب کی پتیاں بکھیری جا رہی تھیں تو استاد حافظ ابراہیم دہلوی کے خزاں رسیدہ ذہن میں 30 ستمبر 1837ء کے وہ مناظر دوڑنے بھاگنے لگے جب دہلی کے لال قلعے میں 62 برس کے بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنایاگیا۔ ہندوستان کے نئے بادشاہ کو سلامی دینے کے لیے پورے ملک سے لاکھ لوگ دلی آئے تھے اور
بادشاہ جب لباس فاخرہ پہن کر ایک شان سے سب کے سامنےموجود تھا مگر سات نومبر 1862ء کی اس ٹھنڈی اور بے مہر صْبح بادشاہ کی قبر کو ایک خوش الحان قاری تک نصیب نہیں تھا. استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے جوتے اتارے۔ بادشاہ کی قبر کی پائینتی میں کھڑا ہوا اور سورہ توبہ کی تلاوت شروع کر دی۔ یہ قرآن مجید کی تلاوت کا اعجاز تھا یا پھر استاد ابراہیم دہلوی کے گلے کا سوز کیپٹن نیلسن ڈیوس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اس نے ہاتھ اٹھایا اور اس غریبْ الوطن قبر کو سیلوٹ پیش کر دیا اور اس آخری سیلوٹ کے ساتھ ہی مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آپ اگر کبھی رنگون جائیں تو آپ کو ڈیگن ٹاؤن شِپ کی کچّی گلیوں کی بَدبْودار جْھگّیوں میں آج بھی بہادر شاہ ظفر کی نسل کے خاندان مل جائیں گے۔ یہ آخری مْغل شاہ کی اصل اولاد ہیں مگر یہ اولاد آج سرکار کے وظیفے پر چل رہی ہے۔ یہ کچی زمین پر سوتی ہے۔ ننگے پاؤں پھرتی ہے۔ مانگ کر کھاتی ہے اور ٹین کے کنستروں میں سرکاری نل سے پانی بھرتی ہے مگر
یہ لوگ اس کَسمَپْرسی کے باوجود خود کو شہزادے اور شہزادیاں کہتے ہیں۔ یہ لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں اور لوگ قہقہے لگا کر رنگون کی گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں یہ لوگ شہر میں نکلتے ہیں تو ان کے چہروں پر صاف لکھا ہوتا ہے۔ جو بادشاہ اپنی سلطنت۔ اپنے مینڈیٹ کی حفاظت نہیں کرتے۔جو عوام کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ ان کی اولادیں اسی طرح گلیوں میں خوار ہوتی ہیں۔ یہ عبرت کا کشکول بن کر اسی طرح تاریخ کے چوک میں بھیک مانگتی ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھ نہیں آتی۔ یہ خود کو بہادر شاہ ظفر سے بڑا بادشاہ سمجھتے ہیں
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2UTZGIC via Today Pakistan
0 notes
faizaneruhaniyat · 4 years
Text
Tumblr media
نقشِ محبت (مجرب المجرب)
از
عامل کبیر ماہر علوم روحانیت
حضرت حکیم صوفی ایڈووکیٹ محمد جاوید اختر نوری دہلوی صاحب
طریقہ۔۔۔
اس نقش کو اکسیر محبت کا نقش کہا جاتا ہے۔ اس سے محبوب کے دل میں بے پناہ محبت ڈالنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نقش کو استعمال کرنے سے پہلے کوٸی بھی میٹھی چیز چھوٹے بچوں میں بانٹ دینی ہیں۔
اس نقش کو جمعہ کے صبح کے وقت یعنی ساعت زہرہ میں تین عدد تیار کرنے ہیں اور نقش تیار کرتے وقت تصور پختہ رکھنا ہے۔ ساتھ ہی ایک موم بتی لینی ہے، اس موم بتی پر 41 مرتبہ محبوب اور اس کی ماں کا نام لے کر دم کرنا ہے۔ پھر رات کو عشإ کے وقت اُس موم بتی کو جلا کر اس کی آگ سے ایک تعویز جلا دینا ہے اور جلا��ے وقت تصور قاٸم رکھنا ہے۔ ان تین تعویذوں کو 3 دن اسی طرح اس ایک موم بتی سے جلا دینا ہے۔ عمل صرف جاٸز مقصد کے لئے کرنا ہے۔ اس نقش کا غلط استعمال آپ کے لئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
نوٹ۔۔۔
اس نقش کو استعمال کرنے سے پہلے اجازت ضرور حاصل کریں۔ بغیر اجازت کے آپ خود ذمہ دار ہوں گے۔
عملیات کی تعلیم اور مکمل جانکاری کے لئے "ادارہ فیضان روحانیت" سے جڑے رہیں۔۔۔
📲 +91 7053843786
📲 +91 7053477786
📲 +91 9719143163
0 notes
islam365org · 4 years
Text
New Post has been published on Islam365
https://islam365.org/hadith-collection/memorization-hadith-course-part-dr-noorul-hussain-qazi/
Memorization Hadith Course (Part I) by Dr. Noorul Hussain Qazi
Tumblr media
#3394
مصنف : ڈاکٹر نور الحسین قاضی
مشاہدات : 3474
حفظ حدیث کورس (حصہ اول)
ڈاؤن لوڈ 1 
آپ کے براؤزر میں پی ڈی ایف کا کوئی پلگن مجود نہیں. اس کے بجاے آپ یہاں کلک کر کے پی ڈی ایف ڈونلوڈ کر سکتے ہیں.
اللہ تعالیٰ نے یوں تو انسان کو بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں لیکن قوتِ حافظہ ان میں اہم ترین نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس خاص نعمت سے انسان مشاہدات و تجربات اور حالات و واقعات کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھتا ہے اور ضرورت کے وقت انہیں مستحضر کرکے کام میں لاتا ہے-اہل عرب قبل از بعثت ِنبویﷺ ہزاروں برس سے اپنا کام تحریر و کتابت کے بجائے حافظہ سے چلانے کے خوگر تھے-عرب بے پناہ قوت حافظہ کے مالک تھے۔ ان کے شعرا، خطبا اور اُدبا ہزاروں اشعار، ضرب الامثال اور واقعات کے حافظ تھے۔ شجر ہائے نسب کومحفوظ رکھنا ان کا معمول تھا بلکہ وہ تو گھوڑوں کے نسب نامے بھی یاد رکھتے تھے۔ موجودہ دور میں بھی مختلف اقوام میں ایسے بے شمار افراد پائے جاتے ہیں جن کے حافظوں کو بطورِ نظیر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ خود ہندوستان میں سیدانور شاہ کشمیری، سید نذیر حسین محدث دہلوی، حافظ عبدالمنان وزیرآبادی اور حافظ محمد محدث گوندلوی ﷭ بے نظیر حافظے کے مالک تھے-عربوں کا تعلق جب کلامِ الٰہی سے ہوا تو ان کو رسولِ کریمﷺاور قرآنِ مجید سے بے پناہ عقیدت ومحبت ہوئی۔ انہوں نے قرآن و حدیث کو حفظ کرنا شروع کیا۔ حضرت انس بن…
0 notes
urduclassic · 7 years
Text
کہاں گئے وہ بچوں کے شاعر اور ادیب ؟
ایک دور تھا جب ملک میں بچوں کے بے شمار جرائد شائع ہوتے تھے۔ ان میں کئی لوگ اپنی کہانیاں اور نظمیں ��ائع کراتے تھے۔ یہ جرائد بچوں میں بہت زیادہ مقبول تھے۔ اس کے علاوہ اخبارات میں بھی ہفتے میں ایک بار بچوں کا صفحہ شائع کیا جاتا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے کم ہوتے گئے۔ بچوں کے کئی جرائد بھی بند ہو گئے جن میں ’’کھلونا، غنچہ جگنو، بچوں کا ڈائجسٹ، بچوں کا گلشن، چندا ماموں‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اب تو چند جرائد شائع ہوتے ہیں جن کے بارے میں سب کو معلوم ہے۔ اسی طرح بچوں کے بڑے شاندار ناول لکھے گئے۔ 
بچوں کا سب سے بڑا ناول ’’عالی پر کیا گزری‘‘ تھا جس کے بے شمار ایڈیشن شائع ہوئے۔ اسے معروف ادیب عزیز اثری نے تحریر کیا تھا۔ اتنی شہرت کسی اور ناول کو نہیں ملی۔ اس کے بعد اگر کسی ناول کو بچوں نے پسند کیا تو اس کا نام تھا ’’میرا نام منگو ہے‘‘۔ اسے جبار توقیر نے تحریر کیا تھا۔ جبار توقیر کو یہ ناول لکھنے پر بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ کئی اور ناول بھی بچوں میں بے حد مقبول ہوئے لیکن مندرجہ بالا ناولوں جیسی شہرت کسی کو حاصل نہ ہو سکی۔ بچوں کے دیگر مشہور ناولوں میں ’’محمود کی آپ بیتی‘‘، ’’خزانے کا راز‘‘، ’’چھونپڑی سے محل تک‘‘ اور کئی دوسرے ناول شامل ہیں۔ 
عزیز اثری اور جبار توقیر کے علاوہ محمد یونس حسرت کے ناولوں کو بھی بڑی پذیرائی ملی۔ اس دو ر میں کچھ جرائد ایسے تھے جو مافوق الفطرت کہانیاں شائع کرتے تھے۔ ان کے مالکان سمجھتے تھے کہ جِنوں اور پریوں کی کہانیاں بچے بہت پسند کرتے ہیں۔ اس لیے ان کہانیوں کو شائع کرنا بہت مناسب ہے۔ پھر مقبول جہانگیر کی امیر حمزہ کی سیریز شائع ہوئی اور ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آ گئیں۔ اس کے بعد اشتیاق احمد نے بچوں کا جاسوسی ادب تخلیق کیا۔ انہیں بچوں کا ابنِ صفی کہا جاتا ہے۔ ان کے جاسوسی ناول بہت مقبول ہوئے۔ ایک طویل عرصے تک ان کا طوطی بولتا رہا۔ پھر کچھ اشاعتی اداروں نے ایک نیا کام شروع کیا۔ انہوں نے بچوں کے لیے پاکٹ سائز کتابیں شائع کرنا شروع کر دیں۔ اس پاکٹ سائز کتاب کی قیمت 50 پیسے تھی۔ یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا اور طویل عرصے تک یہ پاکٹ سائز کتب شائع ہوتی رہیں۔
مشہور ادیب اے حمید نے بھی بچوں کے لیے بہت اچھا لکھا۔ انہوں نے امبر، ناگ اور ماریا کے عنوان سے کئی کتابیں لکھیں۔ ان کی کتابوں کو جلال انور مرحوم نے شائع کیا جو ان دنوں ’’مکتبہ اقرا‘‘ کے نام سے اشاعتی ادارے کے مالک تھے۔ جلال انور نے بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی کتابوں پر مشتمل کہانیاں بھی شائع کیں اور ہر کتاب کی قیمت دو روپے رکھی گئی۔ ان کی یہ کتب ایک لمبے عرصے تک بچوں کی توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ پھر آہستہ آہستہ بچوں کی کتب کی اشاعت کا سلسلہ کم ہوتا گیا اور اب شاذ ہی بچوں کا ادب دیکھنے کو ملتا ہے۔ اب ذرا بچوں کی شاعری کے بارے میں بھی بات ہوجائے۔ بچوں کی نظموں کے شعری مجموعے بھی شائع ہوئے لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔
بچوں کے لیے نعتیں بھی کئی شعرا نے لکھیں۔ ��ور انہوں نے بڑا نام کمایا۔ بچوں کے جن شعرا نے گراں قدر کام کیا ان میں زاہد الحسن زاہد، افضال عاجز، امان اللہ نیر شوکت، افق دہلوی، غلام محی الدین نظر، طالب حسین طالب، اقبال نواز، قندیل ناصرہ، محمد احمد شاد، ظفر محمود انجم، سرور بجنوری اور کئی اور لوگ شامل ہیں۔ ان میں سے کئی افراد اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ زاہد الحسن زاہد مرحوم کے بارے میں بتانا ضروری ہے کہ وہ بچوں کے شاعر تو تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ایک بہت اچھے آرٹسٹ بھی تھے۔ وہ بچوں کے کئی جرائد میں تصاویر بناتے تھے جو کہانیوں کے عین مطابق ہوتی تھی۔
امان اللہ نیر شوکت بھی شاعر اور ادیب کے ساتھ ساتھ آرٹسٹ تھے۔ وہ بفضلِ خدا اب بھی حیات ہیں۔ وہ شروع شروع میں ’’بچوں کا ڈائجسٹ‘‘ کے معاون مدیر کے طور پر کام کرتے رہے۔ پھر انہوں نے بچوں کے لیے خود ایک جریدہ شائع کرنا شروع کیا جس کا نام تھا ’’بچوں کا گلشن‘‘۔ مذکورہ بالا جرائد میں سے اب کوئی بھی شاید شائع نہیں ہوتا کیونکہ یہ سب بند ہو چکے ہیں۔ اب بچوں کے چند ایک جرائد شائع ہوتے ہیں اور ان میں نئے لکھنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ملتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بچوں کا معیاری ادب تخلیق ہونا بند ہو گیا ہے۔ کہاں گئے وہ شاندار ادیب اور شاعر جو ایک زمانے میں بچوں کے ادب کی شان تھے۔ وہ رسائل و جرائد کہاں گئے جن کا بچے انتظار کیا کرتے تھے۔
بچوں کے ناول لکھنے والے غائب ہو گئے۔ بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنے والے ادیب بھی مدت ہوئی نظر نہیں آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج سماجی قدریں بدل چکی ہیں۔ ادیبوں، شاعروں اور پبلشرز کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ ان کے نزدیک اب یہ منافع بخش کاروبار نہیں رہا۔ اب ہر کام کو تجارتی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ آج کل اگر بچوں کا معیاری ادب پڑھنے کو ملتا ہے تو وہ پرانے ادیبوں کا ہے جو اب بھی اسی لگن اور جذبے سے لکھتے ہیں جتنا کئی عشرے پہلے لکھتے تھے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ عزیز اثری اور غلام محی الدین نظر جن مشہور اخبارات میں ’’بچوں کا صفحہ‘‘ کے انچارج کے طور پر کام کرتے تھے وہ اخبار بھی اپنے اس صفحے کی وجہ سے کافی پسند کیے جاتے تھے۔
ان دونوں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی اور وہ بڑی باقاعدگی سے ان کی کہانیاں اور نظمیں شائع کرتے رہے۔ طالب حسین طالب ’’کھلونا‘‘ کے ایڈیٹر تھے اور انہوں نے بھی بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے نئے لکھاریوں کو بہت مواقع دیئے لیکن اب نہ وہ رسائل، نہ وہ ناول، نہ وہ کہانیاں اور سب سے بڑھ کر نہ وہ بچوں کے شاندار ادیب اور شاعر موجود ہیں۔۔۔۔ کہاں گئے یہ سب لوگ؟ کہاں گئے؟
عبدالحفیظ ظفر
0 notes
alltimeoverthinking · 5 years
Text
ایک انگریز کے گیراج میں بہادر شاہ ظفر کی عبرت موت کے بعد انہیں دفناتے وقت ایسا کیا ہوا کہ گیراج کے مالک انگریز کی آنکھوں میں آنسو آگئے ؟
ایک انگریز کے گیراج میں بہادر شاہ ظفر کی عبرت موت کے بعد انہیں دفناتے وقت ایسا کیا ہوا کہ گیراج کے مالک انگریز کی آنکھوں میں آنسو آگئے ؟
ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو میکنن میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا۔یہ جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچا ،شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین بھی تاج دار ہند کے ساتھ تھیں۔ کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا۔وہ بندر گاہ پہنچا۔ اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا۔رسید لکھ کر دی اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرمانروا کو ساتھ لے کر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا۔
نیلسن پریشان تھا۔ بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجودبادشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کو جیل میں پھینک دے مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں بہادر شاہ ظفر کو رکھا جا سکتا۔ وہ رنگون میں
پہلا جلا وطن بادشاہ تھا۔نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیا۔نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور تاجدار ہند۔ ظِلّ سْبحانی اور تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ کو اپنے گیراج میں قید کر دیا۔بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858ء کو اس گیراج میں پہنچا اور 7 نومبر 1862ء تک چار سال وہاں رہا۔آخری دن بدنصیب بادشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی میں کیپٹن نیلسن ڈیوس کے دروازے پر دستک دی اور اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔ملازمہ کی آواز سن کر نیلسن نے اپنا پسٹل اٹھایا، گارڈز کو ساتھ لیا اورگیراج میں داخل ہو گیا۔ بادشاہ کی آخری آرام  گاہ کے اندر بَدبْو، موت کا سکوت اور اندھیرا تھا۔اردلی لیمپ لے کر بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔
نیلسن آگے بڑھا۔بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر۔اْس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی۔ آنکھوں کے ڈھیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر اْبل رہے تھے۔ گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور خشک زرد ہونٹوں پر مکھّیاں بِھنبھِنا رہی تھیں۔ نیلسن نے زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے لیکن اس نے کسی چہرے پر اتنی بےچارگی۔ اتنی غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی۔ وہ کسی بادشاہ کا چہرہ نہیں تھا۔وہ دنیا کے سب سے بڑے بھکاری کا چہرہ تھا اور اس چہرے پر ایک آزاد سانس جی ہاں…….
صرف ایک آزاد سانس کی اپیل تحریر تھی۔ کیپٹن نیلسن نے بادشاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا۔ زندگی کے قافلے کو رگوں کے جنگل سے گزرے مدت ہو چکی تھی۔ ہندوستان کا آخری بادشاہ زندگی کی حد عبور کر چکا تھا۔ نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا۔ لواحقین تھے ہی کتنے ایک شہزادہ جوان بخت اور دوسرا اس کا استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی۔ وہ دونوں آئے. • انھوں نے بادشاہ کو غسل دیا۔ کفن پہنایا اور جیسے تیسے بادشاہ کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ قبر کا مرحلہ آیا تو
پورے رنگون شہر میں آخری تاجدار ہند کے لیے دوگز زمین دستیاب نہیں تھی۔ نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں قبر کھدوائی اور بادشاہ کو خیرات میں ملی ہوئی مٹی میں دفن کر دیا۔ قبر پر پانی کا چھڑکاؤ ہورہا تھا ۔ گلاب کی پتیاں بکھیری جا رہی تھیں تو استاد حافظ ابراہیم دہلوی کے خزاں رسیدہ ذہن میں 30 ستمبر 1837ء کے وہ مناظر دوڑنے بھاگنے لگے جب دہلی کے لال قلعے میں 62 برس کے بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنایاگیا۔ ہندوستان کے نئے بادشاہ کو سلامی دینے کے لیے پورے ملک سے لاکھ لوگ دلی آئے تھے اور
بادشاہ جب لباس فاخرہ پہن کر ایک شان سے سب کے سامنےموجود تھا مگر سات نومبر 1862ء کی اس ٹھنڈی اور بے مہر صْبح بادشاہ کی قبر کو ایک خوش الحان قاری تک نصیب نہیں تھا. استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے جوتے اتارے۔ بادشاہ کی قبر کی پائینتی میں کھڑا ہوا اور سورہ توبہ کی تلاوت شروع کر دی۔ یہ قرآن مجید کی تلاوت کا اعجاز تھا یا پھر استاد ابراہیم دہلوی کے گلے کا سوز کیپٹن نیلسن ڈیوس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اس نے ہاتھ اٹھایا اور اس غریبْ الوطن قبر کو سیلوٹ پیش کر دیا اور اس آخری سیلوٹ کے ساتھ ہی مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آپ اگر کبھی رنگون جائیں تو آپ کو ڈیگن ٹاؤن شِپ کی کچّی گلیوں کی بَدبْودار جْھگّیوں میں آج بھی بہادر شاہ ظفر کی نسل کے خاندان مل جائیں گے۔ یہ آخری مْغل شاہ کی اصل اولاد ہیں مگر یہ اولاد آج سرکار کے وظیفے پر چل رہی ہے۔ یہ کچی زمین پر سوتی ہے۔ ننگے پاؤں پھرتی ہے۔ مانگ کر کھاتی ہے اور ٹین کے کنستروں میں سرکاری نل سے پانی بھرتی ہے مگر
یہ لوگ اس کَسمَپْرسی کے باوجود خود کو شہزادے اور شہزادیاں کہتے ہیں۔ یہ لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں اور لوگ قہقہے لگا کر رنگون کی گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں یہ لوگ شہر میں نکلتے ہیں تو ان کے چہروں پر صاف لکھا ہوتا ہے۔ جو بادشاہ اپنی سلطنت۔ اپنے مینڈیٹ کی حفاظت نہیں کرتے۔جو عوام کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ ان کی اولادیں اسی طرح گلیوں میں خوار ہوتی ہیں۔ یہ عبرت کا کشکول بن کر اسی طرح تاریخ کے چوک میں بھیک مانگتی ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھ نہیں آتی۔ یہ خود کو بہادر شاہ ظفر سے بڑا بادشاہ سمجھتے ہیں
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2UTZGIC via Daily Khabrain
0 notes