Tumgik
#ریختہ
maihonhassan · 11 months
Text
Aakhir ko hans parenge kisi ek baat par
Rona tamam umr ka be-kar jaega
In the end, something will make us laugh and our lifetimes of tears will be erased.
— Khurseed Rizvi
117 notes · View notes
alfaaz-kheyaal · 7 months
Text
Tumblr media
تم آ گئے ہو، تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں
زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے
6 notes · View notes
gulistan-e-muhabbat · 3 years
Text
اوجھل سہی نِگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
اے رات ہوشیار کہ ہارا نہیں ہوں میں
دَرپیش صبح و شام یہی کَشمکش ہے اب
اُس کا بَنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں
مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
جِتنا بُرا سمجھتے ہو اُتنا نہیں ہوں میں
اِس طرح پھیر پھیر کہ باتیں نہ کیجیئے
لہجے کا رُخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں
مُمکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ مُنافقت
دُنیا تیرے مزاج کا بَندہ نہیں ہوں میں
امجدؔ تھی بھیڑ ایسی کہ چلتے چلے گئے
گِرنے کا ایسا خوف تھا ٹِھہرا نہیں ہوں میں
شاعر»»» امجد اسلام امجد
1 note · View note
bazmeur · 5 years
Text
انتخابِ کلامِ میر محمدی بیدارؔ ۔۔۔ میر محمدی بیدارؔ ۔ جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
انتخابِ کلامِ میر محمدی بیدارؔ ۔۔۔ میر محمدی بیدارؔ ۔ جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
      انتخابِ کلامِ میر محمدی بیدارؔ
    ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
      جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
      ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
              عاشق نہ اگر وفا کرے گا
پھر اور کہو تو کیا کرے گا
  مت توڑیو دل صنم کسی کا
اللہ ترا بھلا کرے گا
  ہے عالم خواب حال دنیا
دیکھے گا جو چشم وا کرے گا
    جیتا نہ بیچے گا کوئی ظالم
ایسی ہی جو تو ادا کرے گا
  کل کے تو کئی پڑے ہیں زخمی
View On WordPress
1 note · View note
urdu-poetry-lover · 3 years
Text
قندپارسی
آشوب آرزو / وقار خان
اب آپ سے کیا پردہ، ہمیں فارسی اور سرائیکی بہت پسند ہیں۔ اگرچہ ہم ان زبانوں پر اتنی بھی دسترس نہیں رکھتے، جتنی واپڈا بجلی کی ترسیل پر یا عدالتیں انصاف کی فراہمی پر رکھتی ہیں، البتہ الفاظ کی نشست و برخاست، برجستگی، طرز تکلم و طرز تخاطب اور جملوں، محاوروں اور اشعار کا جامعیت سے بھرپور اختصار ہمیں بہت بھاتا ہے۔ اگر مقرر فارسی یا سرائیکی لہجے میں موتی پرونے والی کوئی خوش اطوار سی خاتون ہو تو واللہ، اس کی گلفشانی کی پھوار ہمیں براہ راست اپنے قلب پر محسوس ہوتی ہے۔ بصورت دیگر ہم دستیاب مال سے بھی اپنا ٹھرک پورا کر لیتے ہیں، چاہے وہ آغا پٹھان ہی کیوں نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے مواقع پر شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ’’سماع وعظ کجا، نغمہ رباب کجا‘‘
آغا افغانی کی مادری زبان فارسی ہے۔ وہ کئی سالوں سے ہمارے علاقے میں مزدوری کر رہا ہے۔ بوڑھا پٹھان اَن پڑھ ہے مگر سرمست حافظ شیرازی کی زبان بولتا ہے تو وہ کہیں اور سنا کرے کوئی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک دن سخت گرمی میں ہمارے گھر کلہاڑی سے لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔ پسینے میں شرابور تھا اور نقاہت اور تھکاوٹ اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ ہم نے اس کی خیریت دریافت کی ’’حال شما خوب است؟‘‘ (کیا تمہارا حال اچھا ہے؟) اس نے کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’خوب نیست، جوانی رفت‘‘ (اچھا نہیں، جوانی گزر گئی ہے) ہماری کج فہمی کہتی ہے کہ ایسے مختصر ترین مگر کوزے میں دریا بند کرنے والے جملے شاید ہی کسی زبان میں ملتے ہوں۔ ایسا ہی غالب کا ایک شعر یاد آیا ’’دریغا کہ عہد جوانی گزشت /جوانی مگو، زندگانی گزشت‘‘ آغا کی اردو بھی فارسیت زدہ ہے۔ شام اندھیرا ہونے سے پہلے گھر روانہ ہوتے ہوئے معذرت خواہانہ لہجے میں کہتا ہے ’’میرے سائیکل میں چراغ نہیں‘‘ ہمارے ملک میں کچھ پرانے لوگ کہتے ہیں ’’چشم ما روشن، دل ماشاد‘‘ ایران میں ہم نے دیکھا کہ لوگ مہمان کے سامنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اور قدرے جھک کر انہی معنوں میں مختصراً ایک لفظ بولتے ہیں’’چشم‘‘... یہ لفظ اپنے اندر خلوص اور وسعت کا جہاں سمیٹے ہوتا ہے۔ وہ لوگ مٹھاس سے لبریز لہجے میں کہتے ہیں ’’تو نورچشم ما ای‘‘ شاید اسی لئے فارسی کو ’’قند پارسی‘‘یعنی شکر کی طرح میٹھی زبان کہا جاتا ہے۔
دسمبر کی اس خنک اور خشک شب ہمیں کچھ بھولی بسری خوش گفتار خواتین کی نرماہٹ سے آراستہ اور رس گھولتی، نشاط انگیز فارسی گفتگو اس لئے یاد آئی ہے کہ جناب انوؔر مسعود نے جیو کے ’’جرگہ‘‘ میں کہا ہے کہ فارسی ہمارا ہزار سالہ حافظہ ہے، جسے چھوڑ دینے سے اردو پر ہماری گرفت کمزور ہو گئی۔ انہوں نے فرمایا ’’اردو کو بچانے کے لئے ہمیں دوبارہ فارسی سے رجوع کرنا پڑے گا‘‘ خوب است! لیکن ہمارے خیال میں اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا.....تیز رفتار ترقی کے اس سفر میں ہماری تہذیبی اقدار یوں گرد گرد ہوئی ہیں کہ اب یہاں نوشت و خواند، اہل علم کی صحبتیں، صاحب مطالعہ اور اہل زباں جیسے الفاظ اور اعمال بطور فیشن تو تھوڑے بہت استعمال ہوتے ہی ہیں مگر عملی طور پر متروک اور قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔
آج ہم نے برصغیر میں فارسی کی تاریخ بیان نہیں کرنی۔ مختصراً یہ عرض کرنا ہے کہ یقیناً ہمارا حافظہ ہزار سالہ ہو گا لیکن اب یہ حافظہ اتنا لاغر ہو گیا ہے کہ ہزار سال تو دور کی بات، اس میں تو سات دہائیاں قبل کی سب سے ضروری بات بھی محفوظ نہیں کہ محمدعلی جناح کس طرح کا ملک چاہتے تھے؟ اپنی بوسیدہ اقدار سے جان چھڑاتے ہوئے ہم نے کمپیوٹر کے عہد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ایسی قیامت خیز چال چلی کہ ’’کلاغی تگ کبک را گوش کرد، تو خودش را فراموش کرد‘‘ یعنی کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا۔ امروز فارسی اور اردو کی مہار ہمارے ایسے ’’ایں چیست؟ پکوڑے تلیست‘‘ برانڈ ’’اہل علم‘‘ لکھاریوں اور اینکرز کے ہاتھ ہے، جو ’’داشتہ بکار آید‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ ’’داشتہ کار پر آتی ہے‘‘ موزوں سمجھتے ہیں۔ اردو معلی پر دسترس کی بھی وہی مثال کافی ہے کہ استاد نے طلبا سے پوچھا کہ اس جملے میں گرامر کے لحاظ سے کون سا زمانہ پایا جاتا ہے ’’بچے نقل کررہے ہیں‘‘ شاگرد نے کہا ’’امتحان کا زمانہ‘‘ ٹی وی چینلز پر ہمارے برادران و ہمشیرگان نے گیسوئے اردو سنوارتے ہوئے اسے فارسی سے پاک کر کے انگریزی کا ایسا تڑکہ لگایا ہے کہ ریختہ کی عظمت بال کھولے بین کر رہی ہے۔ خدا معلوم یہ زبان اور اقدار کا کیسا ارتقا ہے کہ اب ہمیں واعظ شیریں لساں، خزینہ علم وحکمت اور منبع فصاحت وبلاغت تو تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں مگر فصاحت اور حکمت تو کجا، خطبات سے رتی برابر شیرینی برآمد کرنا محال ہے۔ بس شعلہ بار لہجے ہیں اور دشنہ و خنجرکا انداز بیاں ۔
آج ہم نے بات فارسی کی وسعت اور مٹھاس تک محدود رکھنی تھی مگر بموجب نوشتہ تقدیر کے کڑواہٹ کی طرف نکل گئی۔ ہمیں اکثر ملکی حالات پر فارسی کے محاورے اور کہاوتیں یاد آتی ہیں۔ کب اور کیوں یاد آتی ہیں؟ یہ آپ نے خود اخذ کرنا ہے۔ سنئے ’’آنچہ دانا کند، کند ناداں، لیک بعد ازخرابی بسیار‘‘ (دانا جو کام کرتا ہے، کرتا ناداں بھی وہی ہے لیکن نقصان اٹھانے کے بعد) آں را کہ حساب پاک است، از محاسبہ چہ باک است‘‘ (جس کا دامن صاف ہے، وہ محاسبے سے خوفزدہ کیوں ہے؟) ’’برزبان تسبیح و دردل گاوخر‘‘ (ظاہر میں نیک، دل میں لالچ) ’’ہرکہ درکان نمک رفت،نمک شد‘‘ (جو بھی نمک کی کان میں گیا، نمک ہو گیا) ’’ماتم زدہ را عید بود ماتم دیگر‘‘ (مفلس کی خوشی بھی ماتم سے خالی نہیں ہوتی)
’’آب آید،تیمم برخاست‘‘ (پانی مل جائے تو تیمم کی اجازت نہیں) اور ان الفاظ کا ہمیں مطلب تو معلوم نہیں مگر ان میں ردم کمال کا ہے کہ’’جواب جاہلاں، باشد خموشی‘‘(شیخ سعدی اختصار اور جامعیت کا بادشاہ ہے۔ صرف دو جملے نقل کرتے ہیں کہ ’’بخشیدم،گرچہ مصلحت ندیدم‘‘ (معاف کر دیا اگرچہ مجھے اس میں اچھائی نظر نہیں آتی) اور وہ جو بادشاہ نے ہزار دینار کی تھیلی ننگ دھڑنگ فقیر کی طرف اچھالتے ہوئے کہا کہ دامن پھیلا درویش، تو اس نے کیاجواب دیا؟....’’دامن از کجا آرم کہ جامہ ندارم‘‘ (میں دامن کہاں سے لائوں ،میرے تن پر تو لباس ہی نہیں) انوؔر مسعود صاحب نے اقبال کی فارسی شاعری کو بھی یاد کیا ہے،سو ہم اقبال کے ان سدا بہارفارسی اشعار پر بات ختم کرتے ہیں:
زمن بر صوفی و ملا سلامے
کہ پیغام خدا گفتند مارا
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفی ؐرا
(میری طرف سے صوفی اور ملا کو سلام کہ انہوں نے خدا کا پیغام ہم تک پہنچایا لیکن پیغام کی تاویل انہوں نے کچھ اس طرح کی کہ خود خدا، جبرئیل اورمصطفیﷺ بھی حیران رہ گئے)
8 notes · View notes
nadiaumberlodhi · 3 years
Text
کی تمام تحریریں نادیہ عنبر لودھی| ریختہ
کی تمام تحریریں نادیہ عنبر لودھی| ریختہ
کی تمام شاعری، غزل، نظم، مرثیہ، مثنوی اور ای -کتابیں یہاں دستیاب ہیں۔آپ ان کی آڈیو زاور ویڈیوز سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ نادیہ عنبر لودھی — Read on www.rekhta.org/poets/nadiya-ambar-lodhi
View On WordPress
1 note · View note
urduclassic · 5 years
Text
ہماری قومی زبان اردو
Tumblr media
دنیا میں قومیں جن چیزوں سے پہچانی جاتی ہیں ان میں سے ایک قومی زبان ہے۔ اسے صحیح مقام دیے بغیر قومی یگانگت پیدا نہیں ہو سکتی ۔ اس کے بغیر قوم کے دلوں سے احساسِ کمتری دور نہیں ہو سکتا اور نہ ہی خود اعتمادی پیدا ہو سکتی ہے۔ قومی زبان کے بغیر نہ تو ملک و قوم ترقی کر سکتے ہیں اور نہ ہی متحد و مستحکم رہ سکتے ہیں۔ قومی زبان کسی بھی قوم کی امنگوں کی آئینہ دار اور ہر میدان میں اس کی ترجمان ہوتی ہے۔ ہر شخص قومی زبان کے ذریعے اپنی آواز بیک وقت پوری قوم تک پہنچا سکتا ہے۔
جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے، یہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کی قومی زبان ہے۔ اردو زبان کی تخلیق کے بارے میں ماہرینِ لسانیات نے مختلف آرا پیش کی ہے۔ بیشتر ماہرین کہتے ہیں کہ لفظ اردو ترکی زبان سے نکلا ہے جس کے معنی لشکر یا فوج کے ہیں۔ اسے لشکری زبان بھی کہا گیا ہے۔ ترکی زبان میں فوج یا لشکر کو ’’اردو‘‘ یا ’’اوردو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کا استعمال شاہ جہان کے دور سے شروع ہوا جب دہلی کے پاس چھاونی کو اردو معلیٰ کے نام سے منسوب کیا گیا اور اسی طرح اس علاقے میں بولی جانے والی زبان بھی اردوئے معلیٰ کہلائی جانے لگی ، جو کہ بعد میں صرف اردو کہلائی جانے لگی۔ یہی زبان آج وطنِ عزیز میں بولی جاتی ہے۔ 
اردو زبان کو مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارا بھی گیا، جن میں ہندی، دہلوی، ریختہ، دکنی اور ہندستانی قابلِ ذکر ہیں۔ اس زبان کو ایک مخصوص گروہ کی جانب سے درباری زبان کے لقب سے بھی پکارا گیا۔ اس کے نفاذ کو ہمیشہ التوا میں ڈالا گیا۔ لیکن در حقیقت اردو وہ زبان ہے جس کا تعلق ہمیشہ سے عوام سے رہا ہے۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اردو زبان نے دوسری زبانوں اور علوم کو اپنے اندر سمونے میں تشنگی دکھائی۔ یہ اپنی وسیع القلبی کی بدولت مختلف زبانوں اور الفاظ کو اپنے اندر سمیٹ رہی ہے۔ 
یہاں یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ قرآن پاک میں جن الفاظ کا استعمال ہوا ہے، ان میں سے تقریباً ڈیڑھ ہزار ایسے الفاظ ہیں جو اردو زبان میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں سے پانچ سو الفاظ ایسے ہیں جو پاکستان کی دوسری علاقائی زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ اردو کم مایہ زبان نہیں ہے بلکہ وہ زبان ہے جس نے غالب، میر اور اقبالؒ جیسے مایہ ناز اور قد آور شاعر پیدا کیے۔ وہ زبان جس نے سر سید احمد خان، مولانا محمد حسین آزاد، ابوالکلام آزاد اور شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی جیسے نثر نگار پیدا کیے۔ 
اردو زبان کی ترقی و ترجیح میں صوفیائے کرامؒ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ان کی بدولت اس زبان نے ہندوستان بھر میں عروج حاصل کیا۔ تبلیغ کے لیے آنے والے صوفیاکرامؒ غیر ملکی ہونے کے باوجود مقامی زبان میں تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ان کا عمدہ اخلاق و کردار دیکھ کر لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے اور اسی زبان کی بدولت ہندوستان کی ایک کثیر آبادی مشرف بہ اسلام ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اردو کو بطور قومی زبان لاگو کیا گیا۔ 1956ء کے آئین میں اردو اور بنگالی دونوں قومی زبانیں قرار پائیں۔ 1962ء کے آئین میں بھی اردو کو قومی زبان تسلیم کیا گیا۔ 1973ء کے آئین کے تحت بھی سرکاری اور قومی زبان اردو ہی کو تسلیم کیا گیا۔ اس وقت ہمارا معاشرہ دو رنگی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ 
ملک میں دو قسم کے نظامِ تعلیم رائج ہیں۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ انگریزی تعلیم حاکم پیدا کرتی ہے اور اردو محکوم۔ اس سے نقصان یہ ہو رہا ہے کہ معاشرہ اپنی بہتر صلاحیتوں سے محروم ہو کر اسی راستے پر چل رہا ہے جس پر انگریز ڈال گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی ماحول میں پرورش پانے والے افراد قطعاً اس حق میں نہیں کہ اردو کو نافذ کیا جائے۔ اردو کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ اسے پوری ذمہ داری کے ساتھ تعلیم و تدریس کا وسیلہ بنایا جائے۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی مثال دیکھ لیجئے وہاں وہی زبان ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج ہوتی ہے جسے وہاں کے عوام کی اکثریت بولتی اور سمجھتی ہو۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس کو فروغ دینا حکومت سمیت ہر پاکستانی کا قومی فریضہ ہے کیوں کہ اردو دنیا بھر میں ہماری پہچان ہے۔
زینب آغا
37 notes · View notes
azharniaz · 2 years
Text
*کٹھ حجتی ہو یا کٹ حجتی، ہیں دونوں بُری*
*کٹھ حجتی ہو یا کٹ حجتی، ہیں دونوں بُری*
*ابونثر* مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق صدر نشیں محترم مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب حفظہٗ اللہ اپنے تازہ مکتوب میں رقم طراز ہیں: ’’ہم ’کٹ حجتی‘ لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔ ریختہ میں بھی ہم نے دیکھا تو کٹ حجتی ہی ہے۔ ’’کٹ حجتی‘‘ کے معنی ہیں: ’’خواہ مخواہ کی بحث، بحث برائے بحث،اپنی بات پر اڑنا، ضد سے کام لینا، بے جا حجت‘‘۔ لیکن جناب ابونثر نے ’’کٹھ حجتی‘‘ لکھا ہے، آیا یہ زیادہ فصیح ہے یا کاتب کی غلطی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 2 years
Text
اردو غزل کا توانا شجر: ولی ؔ  گجراتی دکنی - اردو نیوز پیڈیا
اردو غزل کا توانا شجر: ولی ؔ  گجراتی دکنی – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین زباں فہمی 121 خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے معشوق جو تھا اپنا باشند ہد کنکا تھا میرؔ نے اس شعر میں ولیؔ گجراتی (المعروف) دکنی کو منفرد انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ یہ وہی ولیؔ ہے جسے ’’آبِ حیات‘‘ کے مصنف محمد حسین آزادؔ نے اردو کا باوا آدم اور فارسی کے اولین غزل گو ، رودکی (وفات: ۹۴۰ء)ؔ اور انگریزی کے چاسر[Geoffrey Chaucer :1340s –25 October 1400]کا ہم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mujahidnaz-blog · 3 years
Text
0 notes
rlbmutofficial-blog · 4 years
Photo
Tumblr media
ریختہ کے تم ہی نہیں ہو شاعر غالب ۔۔ کہتے ہیں کسی زمانے میں کوئی میر بھی تھا 🍂 @_asadwrites_ Turn on Post Notifications #new #post #postoftheday #likeforlikes #likesforlike #likeme #follow4followback #followers #followersinstagram #followtrain #followforfollowback (at Sponsored) https://www.instagram.com/p/CA226f_B57P/?igshid=1reedpmxirf1x
0 notes
maihonhassan · 2 years
Text
Urdu is such a beautiful language;
It uses different words for rising intoxication and it wearing off. 'Suroor (سرور) is used for charhta hova nasha and 'Khumar (خمار) is utarta hova nasha.
304 notes · View notes
iloveurdu · 7 years
Text
میر تقی میر
،مولوی عبدالحق فرماتے ہیں کہ  میر تقی میر سرتاج شعرائے اردو ہیں ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی کا کلام فارسی میں، اگر دنیا کے ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میر کا نام اس فہرست میںضرور داخل ہوگا۔ ،بقول رشیداحمد صدیقی
 ” غزل شاعری کی آبرو ہے اور میر غزل کے بادشاہ ہیں“ ،ایک اور جگہ لکھتے ہیں ”میر کی بات دل سے نکلتی ہے اور سامع کے دل میں جگہ کر لیتی ہے“ …
اک بات کہیں گے انشاءتمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم لاکھ جہان کا علم پڑھے کوئی میرسا شعر کہا تم نے
3 notes · View notes
rezavi · 6 years
Text
A Note on the Development of Urdu / Hindavi During 17th & 18th Centuries
Tumblr media
Rekhta (Urdu: ریختہ, Hindi: रेख़्ता rekhtā, Persian: ریخته “poured” or “molded”, symbolizing the mixture of Hindi, Persian, and Arabic) was the Persianized form of the Khariboli dialect of Hindi now known by the names “Hindustani”, “Hindi”, and “Urdu”. From the late 17th century till the closing decades of the 18th century, the term was used for the Hindustani language. It was largely supplanted…
View On WordPress
0 notes
bazmeur · 6 years
Text
کلام مرزا رضا برقؔ ۔۔۔ جمع و ترتیب: اعجاز عبید اور محمد عظیم الدین
کلام مرزا رضا برقؔ ۔۔۔ جمع و ترتیب: اعجاز عبید اور محمد عظیم الدین
                کلام مرزا رضا برقؔ
      جمع و ترتیب: اعجاز عبید اور محمد عظیم الدین ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
  مکمل ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
              اثر زلف کا برملا ہو گیا
بلاؤں سے مل کر بلا ہو گیا
  جنوں لے کے ہم راہ آئی بہار
نئے سر سے پھر ولولا ہو گیا
  دیا غیر نے بھی دل آخر اسے
مجھے دیکھ کر من چلا ہو گیا
  سمائی دل تنگ کی دیکھیے
کہ عالم میں ثابت خلا ہو گیا
  تعلی زمیں…
View On WordPress
2 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 years
Text
Tumblr media
مینا کماری ناز
1933 - 1972 | ممبئی, ہندوستان
فلم اداکارہ جنہیں ’ملکہ غم ‘ کہا جاتا ہے ۔ ’ تنہا چاند ‘ ان کا شعری مجموعہ ہے
خدا کے واسطے غم کو بھی تم نہ بہلاؤ
اسے تو رہنے دو میرا یہی تو میرا ہے
تاریخ پیدائش : 1۔ اگست 1932��
تاریخ وفات : 31 مارچ 1972ء
مینا کماری کا اصل نام تو مہ جبیں تھا۔ اس کی پہلی فلم لیدر فیس کے بعد وجے بھٹ نے اس کا نام تبدیل کر دیا تھا اور اس کے لیے تین نام پربھا، کملا اور مینا چنے گئے اور آخر اسے مینا کا نام مل گیا۔ اور آٹھ سال بعد اپنی پہلی فلم میں وہ مینا کماری بن گئی۔ ویسے اس کا نک نیم منجو تھا۔ وہ تین بہنیں تھیں۔ اس کی ایک بہن کی شادی مشہور کامیڈین اداکار محمود سے ہوئی تھی۔ مینا نے ��ائلڈ اسٹار کی حیثیت سے فلموں میں کام کرنا شروع کیا تھا اور یہ فنی سفر طے کرتے ہوئے اپنے آخری لمحات تک انڈین فلم انڈسٹری کو دئیے۔ اس کو چالیس سال میں وہ بے پناہ کامیابی، عزت اور شہرت ملی جسں تک پہنچنا کسی اداکارہ کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ یہ پہلی اداکارہ تھی جس نے پہلا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا۔ اور یہ ایوارڈ اسے فلم بیجو باوارا پر ملا تھا۔ بیجو باورا ہی وہ پہلی فلم تھی جس نے مینا کو شہرت اور پہچان دی-
مینا کماری کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ مرزا غالب کی شاعری کی بہت بڑی فین تھیں۔ اور اس کے پاس غالب کا سارا کلام موجود تھا۔ اس کی اپنی ایک اچھی خاصی لائبریری اور کولیکشن موجود تھی۔ فلم بے نظیر کے سیٹ پر مشہور ڈائریکٹر بمل رائے کے اسسٹنٹ نے مینا کماری کو رائٹر اور شاعرگلزار سے ملایا اور یہاں سے اس کی زندگی میں اک نیا باب شروع ہوا شاعری کا، اور وہ خود بھی شعر کہنے لگی۔ ناز اس کا تخلص تھا۔ زندگی میں عزت، دولت، شہرت سب کچھ اسکے پاس تھا۔ لیکن بعض دفعہ انسان پھر بھی تشنہ رہ جاتا ہے۔ یہ بات مینا کماری پر صادق آئی۔ جہاں اس کی پروفیشنل زندگی میں سب کچھ اچھا چل رہا تھا وہیں اس کی ذاتی زندگی اتنی ہی ڈسٹرب تھی۔ پہلے وہ کمال امروہی کی دوسری بیوی بنی۔ پھر وہ چاہتے ہوئے بھی ماں نہ بن پائی۔ ان دنوں وہ عروج پر تھی۔ جب میاں بیوی میں کچھ ان بن ہوئی۔ جسے بد خواہوں نے ہوا دی اور میاں بیوی میں دوری ہوئی۔ یہ جدائی اور زخم اس نے اپنے دل پر لیے۔ میں جب بھی مینا جی کی لکھی شاعری پڑھتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے یہ ان کے ٹوٹے دل کی کرچیاں ہیں۔ جو غزل اور نظم کی صورت کاغذ پر پھیلی ہیں۔ دکھ اور غموں نے جیسے اسے مات دے دی ۔ اور اس کے اندر کی شاعرہ بیدار ہو گئی تھی۔
ہم سے کہاں بھول ہوئی
اے وقت سنبھال مجھے
اوراک بدن نے اپنی روح کو تیاگ دیا
یہ بھی نہ سوچا بدن تڑپتا رہے گا
اور
ٹکڑے ٹکڑے دن بیتا دھجی دھجی رات ملی
جس کا جتنا دامن تھا اتنی ہی سوغات ملی
جب چاہا دل کو سمجھانا ہنسنے کی آواز ملی
جیسے کوئی کہتا ہو لو پھر تم کو مات ملی
دل سا جب ساتھی پایا بے چینی بھی ساتھ ملی
۔ اداکار پردیپ کمار نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ موتی برستے تھے جب وہ بولتی تھی۔ الفاظ ترستے تھے کہ مینا کماری انھیں اپنے ہونٹوں سے ادا کرے۔مینا کماری کے بعد بہت سی اداکارئیں آئیں اور انھوں نے اس جیسا بننا چاہا لیکن بن نہ پائیں۔ سو وہ ایک ہی مینا کماری تھی اور اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکے گا۔ زندگی سے کافی کچھ پا کر بھی وہ اس بات کی تفسیر بن گئی۔
عجیب داستاں ہے یہ کہاں شروع کہاں ختم
یہ منزلیں ہیں کونسی نہ وہ سمجھ سکے نہ ہم
وہ ایک بہت بڑی اداکارہ تھی فلمی صنعت کے آکاش پر ایک چاند کی طرح اس کی جگمگاہٹ محسوس ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ ایک ایسی شاعرہ ، جس کے درد بھرے ٹوٹے دل سے صدائیں نکلتی تھیں
بحوالہ ریختہ-کام
منتخب کلام
عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے
مرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے
نمی سی آنکھ میں اور ہونٹ بھی بھیگے ہوئے سے ہیں
یہ بھیگا پن ہی دیکھو مسکراہٹ ہوتی جاتی ہے
تیرے قدموں کی آہٹ کو یہ دل ہے ڈھونڈتا ہر دم
ہر اک آواز پر اک تھرتھراہٹ ہوتی جاتی ہے
یہ کیسی یاس ہے رونے کی بھی اور مسکرانے کی
یہ کیسا درد ہے کہ جھنجھناہٹ ہوتی جاتی ہے
کبھی تو خوبصورت اپنی ہی آنکھوں میں ایسے تھے
کسی غم خانہ سے گویا محبت ہوتی جاتی ہے
خود ہی کو تیز ناخونوں سے ہائے نوچتے ہیں اب
ہمیں اللہ خود سے کیسی الفت ہوتی جاتی ہے
...................
آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا
ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہوگا
ذرے ذرے پہ جڑے ہوں گے کنوارے سجدے
ایک اک بت کو خدا اس نے بنایا ہوگا
پیاس جلتے ہوئے کانٹوں کی بجھائی ہوگی
رستے پانی کو ہتھیلی پہ سجایا ہوگا
مل گیا ہوگا اگر کوئی سنہری پتھر
اپنا ٹوٹا ہوا دل یاد تو آیا ہوگا
خون کے چھینٹے کہیں پوچھ نہ لیں راہوں سے
کس نے ویرانے کو گل زار بنایا ہوگا
4 notes · View notes