Tumgik
#حکومت کو بڑا دھچکا
emergingpakistan · 8 months
Text
انتخابات سے قبل سنایا گیا فیصلہ سابق وزرائے اعظم کے مقدمات کی یاد تازہ کررہا ہے
Tumblr media
خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر دس سال قید کی سزا سنائی ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک اس فیصلے کا پہلے سے ہی اندازہ تھا۔ عام انتخابات سے صرف ایک ہفتہ قبل سنایا گیا یہ عدالتی فیصلہ سابق وزرائے اعظم کے مقدمات اور سزاؤں کی یاد تازہ کررہا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو مختلف مقدمات کے ذریعے منظر سے ہٹانے کی شرمناک سیاسی روایت کے تحت عمران خان نے اپنے بہت سے پیشروؤں جیسا ہی انجام پایا ہے۔ ان پر اور شاہ محمود قریشی پر جیل کے اندر سائفر سے متعلق مقدمہ چل رہا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی پاکستانی رہنما کو سرکاری راز افشا کرنے پر سزا سنائی گئی ہے۔ عمران خان پر ایک سفارتی دستاویز کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور خفیہ مواصلات کو گم کردینے کا الزام ہے عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ وہ دستاویز امریکا کی جانب سے درپیش ایک خطرے کو ظاہر کرتی ہے اور اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ان کی حکومت کو واشنگٹن اور اس وقت کی فوجی قیادت کی سازش کے ذریعے ہٹایا جارہا ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اس وقت واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کی طرف سے بھیجے گئے سائفر کو غلط طریقے سے استعمال کیا تھا اور یہ بیانیہ گھڑ لیا گیا تھا کہ ان کی حکومت کو بیرونی سازش کے ذریعے ہٹایا جا رہا ہے۔ انہوں نے نام نہاد دستاویز کو ایک سیاسی جلسے میں لہرایا، جس سے ان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹائے جانے سے کچھ ہفتوں پہلے عوامی جذبات کو بھڑکایا گیا۔ اس بیانیے نے کام دکھایا اور عمران خان کے حامیوں کو پرجوش کر دیا۔ یہ واضح ہے کہ سازش کا الزام انہیں عسکری قیادت کے ساتھ بھی محاذ آرائی پر لے آیا، وہی عسکری قیادت جس نے کبھی ان کی حکومت کو سہارا دیا تھا۔ درحقیقت سابق وزیر اعظم کے اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اقدام کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 5 کے تحت عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کے پیچھے بدلہ لینے کی خواہش کارفرما تھی۔ جیل کے اندر عدالتی کارروائی جس طریقے سے چلی اس سے مس ٹرائل کے الزامات کو تقویت ملی۔ پھر انتخابات سے چند روز قبل فیصلہ سنایا جانا بھی سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔
Tumblr media
 یہ سابق وزیر اعظم کی دوسری سزا ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی مجرم ٹھہرائے گئے تھے۔ انہیں گزشتہ سال اگست میں توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی، جس نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا۔ دریں اثنا، پی ٹی آئی کے خلاف سخت کریک ڈاؤن نے پارٹی کے ڈھانچے کو ختم کر دیا ہے۔ اس کا مقصد ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک کو انتخابی دوڑ سے باہر رکھنا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان یعنی کرکٹ بیٹ واپس لے لیا اور اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے انتخابی امکانات کو سب سے بڑا دھچکا پہنچا۔ پھر بھی تمام تر ریاستی جبر کے باوجود پی ٹی آئی ایک مضبوط قوت بنی ہوئی ہے، جس نے آنے والے انتخابات، جن کے بارے میں خیال ہے کہ انہیں مینیج کر لیا گیا ہے، میں اپنے حریفوں کو چیلنج کیا ہے۔ انتخابات کے موقع پر پارٹی کے دو اہم رہنماؤں کو سزا سنانے کا مقصد پارٹی کے حامیوں کے حوصلے پست کرنا لگتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ اس کے برعکس بھی نکل سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے حامی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلیں۔ ایسی صورتحال میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے اس لہر کو روکنا انتہائی مشکل ہو گا۔ 
پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما کی سزا پورے سیاسی ماحول کو بدل سکتی ہے۔ اگر ماضی کو دیکھا جائے تو مقبول سیاسی رہنماؤں کو الگ تھلگ کرنے کی ایسی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ درحقیقت، اس بات کے قوی اشارے ہیں کہ سزا سے سابق وزیر اعظم کی حمایت میں اضافہ ہو سکتا ہے خاص طور پر نوجوانوں میں جو کہ کل ووٹروں کی اکثریت ہیں۔ یہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مرکزی دھارے کی دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت سے کھیلے جانے والے طاقت کے کھیل کو بھی خراب کر سکتا ہے۔ انتخابی عمل میں عوام کی بڑھتی ہوئی مایوسی کا مظاہرہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کمزور انتخابی مہم سے ہوتا ہے۔پی ٹی آئی اور کچھ دوسرے گروہوں پر جاری جبر نے پہلے ہی ایک انتہائی غیر مستحکم صورتحال پیدا کر دی ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ عمران خان کی سزا ملک میں موجودہ سیاسی پولرائزیشن اور عدم استحکام کو بڑھا سکتی ہے، جس سے پورے جمہوری عمل کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ انتخابات کی ساکھ پہلے ہی مشکوک ہونے کے باعث ملک کے استحکام کی طرف بڑھنے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ 
مشکوک انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والی ایک کمزور سویلین حکومت کے لیے بہتر حکومت کرنے اور اقتصادی اور قومی سلامتی کے محاذوں پر کچھ ڈیلیور کرنے کا امکان نہیں ہے۔ جمہوری سیاسی عمل کے کمزور ہونے کے نتیجے میں طاقت کے ڈھانچے پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا سایہ پہلے ہی طویل ہو چکا ہے۔ ایک عوامی اجتماع میں آرمی چیف کے حالیہ تبصروں سے متعلق سامنے آنے والی کچھ خبریں موجودہ سیاسی نظام کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کے تنقیدی جائزے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس ملک میں آرمی چیف کا اسٹیبلشمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر کے موضوعات پر بات کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ لہٰذا، یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی جب موجودہ آرمی چیف نے طلبہ سے بات کرتے ہوئے سیاست سے لے کر معیشت، خارجہ پالیسی اور مذہب تک کے مسائل پر بات کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اپنا وژن تھا کہ ملک کس طرح اپنی تقدیر بدل سکتا ہے، کچھ لوگ اسے ’جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن‘ کہتے ہیں،۔ یہ یقینی طور پر پہلی بار نہیں ہے کہ اس طرح کے ریمارکس فوجی سربراہوں سے منسوب کیے گئے ہوں۔ 
سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھی ملک کو درست سمت میں لے جانے کے لیے اپنی ایک ’ڈاکٹرائن‘ تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طلبہ کے ساتھ یہ عوامی تعامل انتخابات کے قریب ہی ہوا تھا۔ ایسا عمران خان کی تازہ ترین سزا سے چند دن پہلے ہونا اتفاق نہیں ہو سکتا۔ یہ یقینی طور پر کوئی غیر سیاسی گفتگو نہیں تھی اور اس کے ملک کے مستقبل پر اثرات ہوں گے۔ اگرچہ سیاست کے بارے میں آرمی چیف کے خیالات زیادہ تر سویلین سیاسی رہنماؤں پر ادارہ جاتی عدم اعتماد کی عکاسی کرتے تھے تاہم سماجی اور ثقافتی مسائل پر ان کا نقطہ نظر زیادہ اہم لگا۔ اگرچہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ فوج زمام اقتدار سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ وہ سویلینز کو بھی کھلی چھوٹ نہیں دینا چاہتی ہے۔ سیاست دانوں کا عدم اعتماد اب بھی واضح ہے، حالانکہ انتخابات کے انعقاد پر شک کی اب کوئی وجہ نہیں ہے لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ عمران خان کی سزا کے بعد سیاسی منظر نامہ کیسا بنتا ہے۔
زاہد حسین  
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
risingpakistan · 2 years
Text
کیا موجودہ بحران سے نکلنے کی کوئی راہ ہے؟
Tumblr media
پاکستان نے ماضی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے جن میں 1968ء کی معاشی بدحالی، سیاسی نظام کی حقیقی یا انجینیئرڈ خرابی جس کا انجام بلآخر ہم نے 1958ء، 1977ء اور 1999ء میں مارشل لا کی صورت میں دیکھا، 1968ء میں عوامی مظاہروں کے بعد قومی سلامتی کے مسائل، 1970ء میں ملک میں خانہ جنگی، 1977ء میں ملک گیر احتجاج اور 2004ء سے 2017ء تک تقریباً پورے ملک میں ہی لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ شامل ہیں۔ 1970ء کی دہائی کے آغاز میں جب ہمارا ملک تقسیم ہوا تب ہمیں سیاسی اور سیکیورٹی بحران کی صورت میں بڑا دھچکا لگا تھا۔ لیکن 1971ء میں سقوط ڈھاکا کے سانحے کے علاوہ ہم نے بحیثیت قوم بیشتر بحرانوں کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ آج جو حالات ہم دیکھ رہے ہیں وہ معاشی، سیاسی اور سیکیورٹی بحرانوں کا امتزاج ہیں۔ ہم اس میں 2022ء میں شدید بارشوں اور سیلاب کی صورت میں اس ملک کو درپیش ماحولیاتی خطرات کو بھی شامل کر سکتے ہیں جس کے باعث پیدا ہونے ہونے والے چیلنجز کا مقابلہ ہم آج بھی بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے مختلف حصوں میں کر رہے ہیں۔
پوری دنیا ہی کورونا وائرس کے باعث آنے والے بحرانوں کے سنگین اثرات اور شدید معاشی عدم استحکام کا بھی سامنا کر رہی ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ پاکستان آج جن حالات کی لپیٹ میں ہے اسے کچھ لوگ پولی کرائیسس (بیک وقت متعدد بحران) کا نام بھی دیتے ہیں۔ جدید ریاستوں میں تمام اقسام کے بحرانوں سے نمٹنا سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستان کے لیے اس وقت تشویشناک عنصر یہ ہے کہ ہمارا سیاسی بحران دیگر تمام چیلنجز پر غالب ہے اور اس کے نتیجے میں اہم معاشی اور سیکیورٹی مسائل کا حل تلاش کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ موجودہ سیاسی بحران کو، شدید سیاسی تقسیم اور پولارائزیشن کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں پاکستان سیاسی تقسیم کی صورتحال کا سامنا کرچکا ہے جس کی مثال 1970ء کے عام انتخابات اور 1977ء کے انتخابات کے بعد کی صورتحال ہے لیکن موجودہ سیاسی بحران اس سے بھی زیادہ شدید اور گہرا محسوس ہوتا ہے۔ یہ تقسیم اب سیاسی محاذ تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ اب عدلیہ اور دیگر حساس اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے جبکہ سول بیوروکریسی کا شعبہ تو کافی عرصے قبل ہی سیاسی ہو چکا تھا۔
Tumblr media
کافی لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ملکی سیاست میں اس قدر عدم استحکام کیوں ہے اور سیاسی قیادت اور دیگر طاقتور عناصر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیوں نہیں لیتے؟ اس کا جواب اس مثال سے سمجھنا آسان ہو گا کہ جب کسی نشے کے عادی شخص کو نشے کی طلب ہوتی ہے اس وقت وہ جس کیفیت سے دوچار ہوتا ہے ویسا ہی آج ہمارے ملک کی سیاست میں ہو رہا ہے۔ جب نشے کے عادی شخص کو اس کی مطلوبہ چیز نہیں ملتی تب وہ غیرفعال اور تشدد پسند ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ خودکشی جیسا سخت اقدام تک اٹھانے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ وہ اپنی حالت کی درست تشخیص ہی نہیں کرپاتے ہیں تو اسے بہتر کرنا تو دور کی بات ہے۔ وہ اپنی مطلوبہ چیز کے لیے کوششیں کرتے ہیں، بھیک مانگ سکتے ہیں، قرض لے سکتے ہیں حتیٰ کہ چوری بھی کر سکتے ہیں، لیکن وہ اپنا علاج کروانے کی حالت میں نہیں ہوتے۔ پاکستان کے زیادہ تر سیاست دانوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت کام کرنے کی عادت ہو چکی ہے۔ اسے ہم مداخلت کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ یہ ہم گزشتہ 70 سالوں سے دیکھتے آرہے ہیں اور اس کا اعتراف حال ہی میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنی الوداعی تقریر میں کیا تھا۔
پاکستان میں سیاستدانوں کو آزادانہ فیصلے لینے کی عادت نہیں ہے۔ جب کبھی بھی انہوں نے ایسا کیا یا پھر ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو انہیں اس کی سنگین سزا دی گئی اور اسے دوسروں کے لیے مثال بنایا گیا۔ ملک کے صدر اور پھر وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے شاید اس آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھایا کیونکہ جب انہوں نے حکومت سنبھالی تب فوج مشرقی پاکستان میں شکست کے باعث کمزور دور سے گزر رہی تھی۔ انہوں نے کئی اعلیٰ ترین فوجی افسران کو برطرف کیا اور بعد میں فوج اور فضائیہ کے سربراہوں کو بھی اپنے عہدوں سے برطرف کر دیا۔ وہ بہت قابل اور تجربہ کار تو تھے لیکن وہ پھر بھی آزاد نہیں تھے۔ اسی لیے انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی جو انہیں پھانسی کے تختے تک لے گئی۔ بےنظیر بھٹو نے سمجھوتے کی کوشش کی لیکن شاید ان کی یہ کوشش ناکافی تھی۔ نواز شریف نے بطور وزیراعظم اپنے اختیارات استعمال کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کی لیکن انہیں برطرفی، قید، جلاوطنی اور آخر میں تاحیات نااہلی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو ان کے دور حکومت میں زیادہ تر عرصے حالات اچھے رہے اور فوج اور حکومت ’ایک صفحے‘ پر تھے لیکن وزیراعلیٰ پنجاب کو عہدے پر برقرار رکھنے اور آئی ایس آئی سربراہ کے انتخاب میں اصرار کرنے پر انہیں بھی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔
سیاستدان چاہے حکومت میں موجود ہوں یا حزبِ اختلاف میں وہ مداخلت کے عادی ہو چکے ہیں اور وہ ہمیشہ پالیسی ڈکٹیٹ کرنے اور ریاست کے تمام شعبہ جات میں ان پالیسیوں کے اطلاق میں مدد کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی جانب دیکھتے ہیں۔ ہمارے منتخب سیاستدان کس حد تک اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہیں اس کی ایک مثال کے ذریعے بھرپور عکاسی کی جاسکتی ہے۔ عمران خان نے حال ہی میں اپنے مزاج کے برخلاف یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کی حکومت پارلیمنٹ میں بل پاس کروانے، حتیٰ کہ سالانہ بجٹ منظور کرنے کے حوالے سے اراکین کی درکار تعداد کو یقینی بنانے کے لیے بھی ’ایجنسیوں‘ کا سہارا لیتی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ نومبر میں نئے فوجی سربراہ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد فوج نے شاید اپنے غیر سیاسی رہنے کے وعدے کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ہے یا پھر سیاست میں اپنے عمل دخل کو کسی حد تک کم کر دیا ہے۔ موجودہ سیاسی بحران اسی وجہ سے اتنی شدت اختیار کر چکا ہے کیونکہ سیاستدانوں کو اب وہ مداخلت نظر نہیں آرہی اور وہ لاعلم ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے بغیر سیاسی معاملات کیسے سنبھالے جاتے ہیں۔
عمران خان کی زیرِقیادت حزبِ اختلاف اور حکومت دونوں نے ہی موجودہ تعطل سے نمٹنے کے لیے کھلے عام اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کیا ہے۔ 2023ء میں پاکستان میں جمہوریت کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سیاستدانوں کی سیاست میں کردار ادا کرنے کی درخواست کرنے اور ڈیفالٹ کی جانب جاتی معیشت کے باوجود کیا اسٹیبلشمنٹ اپنے غیرسیاسی رہنے کے بیانیے پر قائم رہتی ہے؟ اگر وہ قائم رہتی ہیں تو اگلے 2، 3 سالوں میں افراتفری، ہلچل، اور تشدد کی صورتحال شدت اختیار کر لے گی۔ ہمارا سیاسی طبقہ بغیر کسی سرپرستی کے آئینی دائرہ کار میں اپنے معاملات خود ہی طے کرنا سیکھ لے گا۔ تب تک ہمیں اپنے حکمرانوں کے اس ٹوٹتے نشے کو برداشت کرنا ہو گا۔
احمد بلال محبوب   یہ مضمون 4 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
پی ٹی آئی نے ن لیگ کے خلاف کیس جیت لیا۔
پی ٹی آئی نے ن لیگ کے خلاف کیس جیت لیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز۔ – فائل فوٹو لاہور: پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بڑا دھچکا، لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) نے جمعرات کو حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے خلاف دائر پی ٹی آئی کی اپیلیں منظور کر لیں۔ جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں جسٹس شاہد جمیل، جسٹس شہرام سرور، جسٹس ساجد محمود سیٹھی اور جسٹس طارق سلیم شیخ پر مشتمل لاہور ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے آج فیصلہ سنایا۔ جسٹس ساجد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
مغربی انٹیلی جنس بریفنگ سے پتہ چلتا ہے کہ روس یوکرین میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے۔ #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d9%85%d8%ba%d8%b1%d8%a8%db%8c-%d8%a7%d9%86%d9%b9%db%8c%d9%84%db%8c-%d8%ac%d9%86%d8%b3-%d8%a8%d8%b1%db%8c%d9%81%d9%86%da%af-%d8%b3%db%92-%d9%be%d8%aa%db%81-%da%86%d9%84%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92-%da%a9/
مغربی انٹیلی جنس بریفنگ سے پتہ چلتا ہے کہ روس یوکرین میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے۔
Tumblr media Tumblr media
مغربی حکام کے مطابق، روس کی طرف سے یوکرین کی سرحدوں کے ساتھ متعدد حملوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، جس کا بنیادی ہدف کیف ہو گا اگر ولادیمیر پوٹن حملہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ روس کی 60 فیصد سے زیادہ زمینی جنگی طاقت، اس کی نصف فضائیہ، اور اس کی خصوصی افواج کا ایک بڑا حصہ بڑے پیمانے پر حملے میں حصہ لے گا، اگر دارالحکومت پر قبضہ کر لیا گیا تو کریملن کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہو گی۔ .
یہ تشویشناک تشخیص تنازعات کو روکنے کے لیے آخری سفارتی کوششوں کے درمیان سامنے آئی ہے، جس میں جرمن چانسلر اولاف شولز کا منگل کو ماسکو کا دورہ بھی شامل ہے۔
وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ روس کشیدگی میں کمی کے لیے امریکی تجاویز پر اپنے ردعمل کو حتمی شکل دے رہا ہے، جس سے بات چیت کے لیے کچھ گنجائش کا اشارہ ملتا ہے۔
لیکن یوکرین نے نیٹو می�� شمولیت کے لیے اپنے عزم کو دہرایا – جو ایک اہم نکتہ ہے – اور صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا کہ بدھ کو، جسے امریکی حکام نے خبردار کیا تھا کہ روسی حملے کی تاریخ ہو سکتی ہے، ان کے ملک میں “یوم اتحاد” ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم قومی پرچم لہرائیں گے، نیلے اور پیلے رنگ کے ربن لگائیں گے اور دنیا کو اپنا اتحاد دکھائیں گے۔
سکریٹری خارجہ لز ٹرس، جنہوں نے پیر کی سہ پہر COBR کے اجلاس کی صدارت کی، نے برطانیہ کے انتباہ کو دہرایا کہ روس “تقریباً فوری طور پر” حملہ کر سکتا ہے اور برطانویوں سے یوکرین چھوڑنے کے مطالبات کا اعادہ کیا۔
انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ افواج کی نقل و حرکت کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ روس کی مسلح افواج میں کل 170 میں سے 100 بٹالین ٹیکٹیکل گروپ (BTGs) اپنی جگہ پر ہیں، مزید 14 اپنے راستے میں ہیں۔
یہ خطرناک منظر نامہ تازہ ترین ہے جو مغربی دعوؤں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ فوجی کارروائی اب آسنن ہے — لیکن اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ حملے بدھ کو شروع ہو سکتے ہیں۔
(PA گرافکس)
روسی افواج کی تشکیل، ساخت اور تقسیم یوکرین پر حملے کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے نہیں ہو سکتی، حکام کا اصرار ہے، اور اہلکاروں اور ہتھیاروں کا پیمانہ اور ذخیرہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ کارروائی چھوٹی دراندازیوں سے کہیں زیادہ بڑی ہو گی۔ ماضی قریب میں منصوبہ بندی کی گئی۔
ٹینک اور توپ خانہ، جنگی طیارے اور بیلسٹک میزائل سرحد پر آگے کی پوزیشنوں پر رکھے گئے ہیں۔ اسی دوران روسی بحری جہازوں نے کریمیا کے ساحل سے بحیرہ اسود میں جانا شروع کر دیا ہے۔
تجزیہ کے مطابق، کریملن کے منصوبوں میں کیف پر قبضہ کرنا اور یوکرین میں ‘حکومت کی تبدیلی’ شامل ہے۔ دارالحکومت کی سرحد سے قربت — صرف 105 میل — روسیوں کو اپنی رفتار اور صلاحیتوں کے نظریے کو ایک صدمے کے عنصر کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے گی۔
حکام نے تسلیم کیا کہ شہر پر قبضہ کرنے کی کوششیں شدید قریبی لڑائی اور جانوں کے ضیاع کا باعث بنیں گی۔ لیکن شام میں روسی افواج کی وحشیانہ کارروائیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسٹر پوٹن بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکتوں کے امکان سے باز نہیں آئیں گے۔
بیانیہ کے مطابق، دارالحکومت کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ ملک کے مشرق میں یوکرین کی افواج پر جو علیحدگی پسند ڈونیٹسک اور لوہانسک ریپبلک کا سامنا کر رہے ہیں، پر مسلسل توجہ مرکوز کی جائے گی۔ وہاں موجود یونٹ یوکرین کی فوج میں سب سے زیادہ لیس اور سب سے زیادہ تجربہ کار ہیں، اور روسی افواج کے لیے خطرہ بنیں گے جب تک کہ انہیں بے اثر نہیں کیا جاتا۔
انٹیلی جنس کے سنگین جائزوں کی وجہ سے یوکرین میں تنقید ہوئی ہے جہاں حملے کی بات سے معیشت کو بڑا دھچکا لگا ہے۔
تاہم، حکام نے اصرار کیا کہ انہیں اپنی معلومات پر مکمل اعتماد ہے اور یہ کہ اسے پھیلانا کریملن کو یہ بتانے کا ایک طریقہ ہے کہ دشمنی پر اکسانے کے لیے ‘فالس فلیگ’ آپریشن جیسی کسی سازش کو پوشیدہ نہیں رکھا جا سکتا۔
Source link
0 notes
maqsoodyamani · 3 years
Text
گجرات حکومت کو ’لو جہاد‘ قانون پر سپریم کورٹ سے بڑا دھچکا ہائی کورٹ کے فیصلے پر پابندی لگانے سے انکار
گجرات حکومت کو ’لو جہاد‘ قانون پر سپریم کورٹ سے بڑا دھچکا ہائی کورٹ کے فیصلے پر پابندی لگانے سے انکار
گجرات حکومت کو ’لو جہاد‘ قانون پر سپریم کورٹ سے بڑا دھچکا ہائی کورٹ کے فیصلے پر پابندی لگانے سے انکار   نئی دہلی،14؍ فروری (آئی این ایس انڈیا)   لو جہاد ایکٹ پر راحت کی امید لگانے والی گجرات حکومت کو سپریم کورٹ نے بڑا جھٹکا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم کی بعض دفعات پر روک لگانے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
breakpoints · 3 years
Text
'جے یو آئی-ف کے پی میں سب سے بڑی سیاسی طاقت'، فضل کہتے ہیں کہ ایل جی پول کے نتائج ان کی پارٹی کو برتری دکھاتے ہیں۔
‘جے یو آئی-ف کے پی میں سب سے بڑی سیاسی طاقت’، فضل کہتے ہیں کہ ایل جی پول کے نتائج ان کی پارٹی کو برتری دکھاتے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام-فضل (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پیر کے روز کہا کہ ان کی جماعت خیبرپختونخوا (کے پی) میں “سب سے بڑی سیاسی طاقت” ہے – جہاں ایک روز قبل بلدیاتی انتخابات ہوئے اور غیر سرکاری نتائج سامنے آئے۔ دکھائیں کہ ان کی پارٹی قیادت کر رہی ہے۔ 2013 سے کے پی میں حکومت کرنے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ایک بڑا دھچکا، غیر سرکاری نتائج صوبائی دارالحکومت پشاور کے میئر کے…
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 3 years
Text
الیکشن کمیشن کی رپورٹ نے حکومتی ساکھ اڑا کر رکھ دی
الیکشن کمیشن کی رپورٹ نے حکومتی ساکھ اڑا کر رکھ دی
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ڈسکہ ضمنی الیکشن بارے تحقیقاتی رپورٹ نے تحریک انصاف حکومت کے خلاف نواز لیگ کی جانب سے لگائے گئے دھاندلی کے تمام الزامات کی تصدیق کر دی ہے جس سے حکومت کی ساکھ کو ایک اور بڑا دھچکا لگا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی الیکشن سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ضمنی الیکشن آزاد، صاف اور شفاف ماحول میں نہیں ہوئے تھے اور دھاندلی کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 3 years
Text
اٹھائیس 28 مئی کا تاریخی دن
پاکستان نہیں‘ یہ بھارت تھا جس نے 1974 میں اپنے پہلے ایٹمی تجربے کے ذریعے اس خطے کے غیرمستحکم سکیورٹی ماحول میں نیوکلیئر معاملات کو شامل کیا‘ جسے مغرب کے کچھ لوگوں نے ''مسکراتا بدھا‘‘ کا نام دیا۔ یہ نیوکلیئر عدم پھیلائو کے معاہدے کے تحت قائم نظام کو پہنچنے والا حقیقتاً پہلا بڑا دھچکا تھا۔ اس کے بعد بھارت نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ دنیا نے بھارت کے دعووں میں چھپے اس فریب کو بھی جلد ہی دریافت کر لیا کہ نہرو کے دور میں اس کا جوہری پروگرام خصوصی طور پر پُرامن استعمال کیلئے تھا اور یہ کہ جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شاستری حکومت نے 1964 میں چین کے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد شروع کیا تھا۔ اب اس امر کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں کہ نہرو کی منظوری سے بھارت اپنے سویلین جوہری پروگرام کے سٹرکچرل فریم ورک میں پہلے ہی خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا تھا۔ سوویت یونین سمیت بڑی طاقتوں کی واضح اور خفیہ حمایت کے ساتھ، بھارت نے دھوکہ دہی سے‘ درپردہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام جاری رکھا۔ 
مغربی طاقتوں نے نیوکلیئر عدم پھیلائو کے اصولوں کا چنیدہ نفاذ کیا۔ پاکستان کیخلاف ان اصولوں کو بروئے کار لایا گیا جبکہ بھارت کے نیوکلیئر پھیلائو کو عملی طور پر نظرانداز کیا گیا۔ یہی وہ عامل ہے جس سے شہ پاکر بھارت نیوکلیئر عدم پھیلائو کے عالمی معیارات سے انحراف کا مرتکب ہوتا رہا۔ 1974 کے بھارتی ایٹمی تجربات‘ جو صحرائے سندھ میں پاکستان کی سرحد کے قریب کئے گئے‘ نے پاکستان کو مجبور کر دیا کہ وہ بھی نیوکلیئر صلاحیت حاصل کرے۔ پاکستان کو دہرے خطرے کا سامنا تھا۔ ایک طرف ہم بھارت کے ایٹمی عزائم کا سامنا کر رہے تھے جو پاکستان کی سلامتی اور بقا کیل��ے براہ راست خطرہ تھے‘ دوسری طرف ''جوہری عدم پھیلاؤ‘‘ کے نام پر ہمیں دوستوں اور اتحادیوں کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے پاس اپنی سلامتی کیلئے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ 1968 میں جب ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے کو حتمی شکل دی جارہی تھی تو ہم نے اس کی حمایت کی تھی‘ تاہم ہم نے اس معاہدے پر دستخط اس لئے نہیں کیے تھے کہ بھارت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا اور وہ ایٹمی ہتھیاروں کے اپنے بے لچک پروگرام پر عمل پیرا تھا۔ 
تب سے ایٹمی عدم پھیلاؤ کا ہر اقدام پاکستان نے کیا۔ 1974 میں ہم نے اس خطے میں ایٹمی پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ایک بڑی سفارتی مہم چلائی تھی اور ایسی تجاویز پیش کی تھیں جن کا مقصد جنوبی ایشیا میں ایک غیرامتیازی نظام کے قیام کی کوشش تھا۔ ان میں بیک وقت این پی ٹی اور آئی اے ای اے کے سیف گارڈز سے وابستہ رہنے اور جنوبی ایشیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک زون قرار دینے جیسی تجاویز بھی شامل تھیں۔ ان تجاویز کو بھارت نے مسترد جبکہ عالمی طاقتوں نے نظرانداز کر دیا تھا۔ خدشات بے بنیاد نہیں تھے۔ بھارت نے مئی 1998 میں کئی ایٹمی تجربات کر کے این پی ٹی کے نظام کو ایک اور شدید دھچکا پہنچایا۔ مارچ 1998 میں برسراقتدار آنے کے فوراً بعد ہی بی جے پی کی حکومت نے ایٹمی آپشن استعمال کرنے اور جوہری ہتھیاروں کو فروغ دینے کے عزم کا اعلان کر دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اپریل 1998 میں وزیر اعظم پاکستان نے جی ایٹ کے سربراہان مملکت و حکومت کے نام ایک خط میں ان کی توجہ بھارت کے خطرناک ایٹمی منصوبوں اور جوہری ہتھیاروں کی طرف مبذول کرائی تھی۔ ہمارے اس انتباہ پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔
گیارہ اور 13 مئی 1998 کو بھارت کے پانچ ایٹمی تجربات، جو ایک بار پھر ہماری سرحدوں کے قریب تھے، نے ہمارے خدشات کو مکمل طور پر درست ثابت کر دیا۔ ہم نے اس کا جواب فوراً نہیں دیا، حالانکہ ہمیں ایسا کرنے کا قانونی اور سیاسی حق حاصل تھا۔ بھارت نے ہمارے اس تحمل کا غلط نتیجہ اخذ کیا اور یہ تصور کیا کہ ہمارے پاس ایٹمی صلاحیت کبھی بھی نہیں تھی۔ بی جے پی کی حکومت اور اس کے قائدین نے دھمکی آمیز بیانات داغنا شروع کر دیئے۔ یہ بیانات ایٹمی بلیک میلنگ کی حد تک بڑھ گئے۔ اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے 20 مئی کو علی الاعلان کہا ''بھارت اپنی نئی طاقت کو استعمال کرنے سے نہیں ہچکچائے گا‘‘۔ اگلے ہی روز، انہوں نے دھمکی دی ''ہم نے پاکستان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے‘ ہمارے دھماکوں نے سقوط ڈھاکہ جیسی صورتحال پیدا کر دی ہے‘‘۔ یہ پریشان کن اور انتہائی غیرذمہ دارانہ بیانات تھے، چاہے وہ داخلی تناظر میں ہی کیوں نہ تھے۔ اس جارحانہ طرزِ عمل کے محرکات جو بھی ہوں، ہم تب جان چکے تھے کہ جنوبی ایشیا میں امن ایک نازک دھاگے سے لٹکا ہوا ہے۔ 
ہم نے دنیا کی توجہ بھارتی جنونیت کی طرف مبذول کرائی‘ لیکن کوئی ردعمل نہ آیا۔ درحقیقت، ہمیں مشورہ دیا گیا تھاکہ بھارت کا جواب نہ دے کر ''اعلیٰ اخلاقی بنیاد‘‘ حاصل کر لیں اور یوں ایٹمی عدم پھیلاؤ کے نام پر، آزاد قوم کی حیثیت سے قائم رہنے کا اپنا حق ضبط کروا لیں۔ فوری جواب نہ دینے پر بھارت میں ہمارے تحمل کا غلط مطلب اخذ کیا جا رہا تھا۔ بھارت کے ایٹمی تجربات کے بعد 17 روز تک ہم نے عالمی برادری کا انتظار کیا کہ وہ ایٹمی خطرات کے حوالے سے کچھ کرے۔ عالمی سطح پر کچھ ہوتا نظر نہ آیا تو پاکستان نے 28 مئی کو پانچ ایٹمی تجربات اور پھر 30 مئی کو مزید ایک ایٹمی دھماکا کیا۔ ہم ایسا نہ کرتے تو بھارت مہم جوئی کر سکتا تھا۔ اس اقدام نے ہمارے لئے کم سے کم قابلِ بھروسہ جوہری روک تھام کا بندوبست کر دیا تھا۔
کوئی شک نہیں کہ یہ ایک مشکل لیکن ناگزیر فیصلہ تھا‘ جس کیلئے رہنمائی ہمارے اہم قومی مفادات نے کی۔ توقع کے مطابق امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی جانب سے منفی ردعمل آیا۔ بھارت کے ایٹمی تجربات پر ایسا ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ ان ممالک کا خیال تھا کہ پاکستان ان کے سیاسی اور معاشی دباؤ میں آ جائے گا‘ لیکن پاکستان نے قومی مفادات کے تحت ایٹمی دھماکے کئے۔ جنوبی ایشیا میں ان ایٹمی تجربات پر بین الاقوامی برادری‘ خصوصاً بڑی طاقتوں کی جانب سے روایتی ردعمل 6 جون 1998 کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1172 کی صورت میں سامنے آیا۔ اس قرارداد میں ایٹمی تجربات کی مذمت کرتے ہوئے دونوں ممالک سے اپنی جوہری صلاحیتوں کو رول بیک کرنے، سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے، ایف ایم سی ٹی پر پیشرفت کرنے اور میزائل ڈلیوری سسٹمز پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کونسل نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا کہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور صورتحال کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے فوجی چالوں یا دیگر اشتعال انگیزی سے گریز کریں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایٹمی تجربات پر ترتیب وار پہلے بھارت اور پھر پاکستان کی مذمت کی گئی جو پاکستان کیلئے ایک اہم سفارتی کامیابی تھی‘ کیونکہ اس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ ایٹمی تجربات پہلے بھارت اور پھر پاکستان نے کئے۔
اس طرح دنیا نے جوہری تجربات کرنے میں دونوں ممالک کے محرکات میں ایک تصوراتی فرق کو قبول کیا۔ بہرحال جوہری ہتھیار اب جنوبی ایشیا میں ایک حقیقت ہیں۔ عالمی برادری کیلئے ضروری یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے سٹریٹیجک تناظر کو سمجھے۔ بھارت کے ایٹمی تجربات نے خطے میں سکیورٹی کے ماحول کو غیرمستحکم کر دیا تھا جبکہ پاکستان کے ٹیسٹوں نے اس جوہری توازن کو بحال کیا۔ اب دونوں ممالک کو باہمی ضبط اور ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ انہیں اب مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی تلاش کرتے ہوئے امن کو ایک موقع دینا چاہئے۔ اس سے انہیں موقع ملے گا کہ اپنے وسائل کو اپنے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کر سکیں۔
شمشاد احمد
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)
بشکریہ دنیا نیوز
3 notes · View notes
urdunewspedia · 3 years
Text
ایکس چینج کمپنیز نے ڈالر کی قدر میں اضافے کو معیشت کیلئے بڑا دھچکا قرار دیدیا - اردو نیوز پیڈیا
ایکس چینج کمپنیز نے ڈالر کی قدر میں اضافے کو معیشت کیلئے بڑا دھچکا قرار دیدیا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  کراچی: ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن نے ڈالر کی قدر میں تسلسل سے اضافے کو معیشت کے لیے بڑا جھٹکا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو اب ڈالر کی قدر میں ہوشربا اضافے پر اپنی خاموشی توڑدینی چاہیے۔ ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے کہا ہے کہ ڈالر کی بے لگام قدر کے باعث سرمایہ کاروں کا پاکستانی روپیہ پر اعتماد متذلذل ہورہاہے، پیر کو ڈالر کی قدر10ماہ کی بلند ترین سطح تک پہنچنے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years
Text
نوازشریف کے باہر جانے سے احتساب کو بڑا دھچکا لگا، فواد چوہدری - Pakistan
نوازشریف کے باہر جانے سے احتساب کو بڑا دھچکا لگا، فواد چوہدری – Pakistan
اسلام آباد:وفاقی وزیرسائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہاکہ نوازشریف کے باہرجانے سے احتساب کو بڑا دھچکا لگا،وزارت داخلہ کو نوازشریف کو واپس لانا چاہیئے،فراڈ کے ذریعے جانے والے پر پنجاب حکومت کو انکوائری اور پبلک کرنی چاہیئے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے قائد اعظم یونی ورسٹی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اگلے 6ماہ میں ڈائیلاسز اور ایکسرے مشین بنائیں گے، ملکی پالیسز کے نتیجے میں ہیلتھ انڈسٹری پوری…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 4 years
Text
سمندر پار پاکستانی اور نوکریوں کا بحران
ہم بیرون ملک پاکستانیوں کے حوالے سے سیاسی نعرے لگا لگا کر تھکتے نہیں ہیں ہر حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ پاکستان سے باہر رہنے والے اس سے بےمثال محبت کرتے ہیں اور وہ ان کے لیے راستے میں پلکیں بچھانے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ عمران خان کی حکمراں جماعت بیرون ملک پاکستانیوں میں بالخصوص اس وجہ سے بھی مقبول ہے کہ پاکستان تحریک انصاف دوسری جماعتوں کے مقابلے میں دیار غیر میں موثر تنظیم سازی کر کے بہت سے ایسے گروپس کو اپنے سیاسی حلقے میں شامل کر پائی جو خود کو ہمیشہ بے یارو مددگار سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ عمران خان کی شخصیت جواں سال پاکستانیوں کے لیے بہرحال خاص مقناطیسیت رکھتی تھی۔ اس وجہ سے تحریک انصاف کا حلقہ اثر سرحدوں سے پار غیر معمولی طور پر نشونما پایا۔
عمران خان کے ذاتی پراجیکٹس جس طرح شوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی وہ اہداف ثابت ہوئے جن پر بیرون ملک پاکستانیوں کی ہمدردیاں اور چندے طلب کیے جا سکتے تھے۔ ایک طویل عرصے سے ملک سے باہر رہنے کا فائدہ یہ بھی تھا کہ پیسے والے بااثر خاندان جو ملکی سیاست میں یا کاروبار میں منافع بخش داخلے کی امید رکھتے تھے اب ایک سیاسی پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو سکتے تھے۔ ابھی بھی تحریک انصاف کے سب سے جوشیلے جیالے پاکستان سے باہر ملتے ہیں۔ وطن سے دور ہونے کا ایک فائدہ یہ ضرور ہے کہ یہاں کے تباہ کن طوفان دور سے محض وقتی مسائل نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے پچھلے کئی مہینوں سے بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے پاکستان کی تاریخ کے بدترین حالات بننے کے باوجود کوئی موثر لائحہ عمل ترتیب ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ 
پیسے والے بیرون ملک پاکستانی ان حالات سے متاثر نہیں ہو رہے۔ روپے کی گرتی ہوئی ساکھ اور سٹاک مارکیٹ سے لے کر ڈالر، پاؤنڈ کے اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری پر حیران کن منافع کمانے والے شاید اس درد کو محسوس نہ کر سکیں جو چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس پر کام کرنے والے یا دیہاڑی دار پاکستانی بیرون ملک نوکریاں ختم جانے کی وجہ سے سہہ رہے ہیں۔ یہ حقیقت ایک ایسا خوفناک رخ اختیار کر گئی ہے کہ چھپائے نہیں چھپتی۔ سٹیٹ بینک اپنی رپورٹ میں یہ ماننے پر مجبور ہو گیا ہے کہ ابھی تک ایک لاکھ سے زائد بیرون ملک پاکستانیوں کی نوکریاں جا چکی ہیں۔ ان نوکریوں پر انحصار کرنے والے خاندان اگر اوسطا ڈیڑھ درجن افراد پر مبنی ہیں تو تقریبا 12 لاکھ لوگ اس وقت ان نوکریوں کے جانے کی وجہ سے بدترین مشکلات کا شکار ہیں۔
ان میں وہ افراد شامل نہیں ہیں جو بیرون ملک دوسرے طریقوں سے گئے تھے اور جن کا سرکاری ریکارڈ میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس طرح کی لیبر فورس کا حجم سرکاری اعداد و شمار میں شمار کئے جانے والے پاکستانیوں سے تین گناہ زیادہ ہے۔ ملا کر تقریبا 30 لاکھ سے زائد پاکستانی بیرون ملک رزق کمانے کی پابندی کا براہ راست نشانہ بنے ہیں۔ یہ سب اس کے علاوہ ہیں جنہوں نے باہر جانے کے لیے اپنی تمام جمع پونچی استعمال کی تھی اور اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ باہر کو کھلنے والا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ حکومتی تخمینے خود یہ مانتے ہیں کہ تقریبا ایک لاکھ کے قریب ممکنہ نوکریاں مہیا نہیں ہونگی۔ پاکستان کے دوست ممالک کی طرف سے نوکریوں کے ویزوں پر پابندی خارجہ پالیسی کا ایک ایسا چیلینج ہے کہ جو کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر ہونے والی خلاف ورزیوں کی طرح سرخیاں تو نہیں بناتا لیکن اس سے کئی زیادہ گھمبیر صورت حال پیدا کر رہا ہے۔ 
ماہرین کے مطابق جس بے دردی سے بیرون ملک کام کرنے والے نکالے جا رہے ہیں اگر رفتار یہی رہی تو پاکستان کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر چار بلین ڈالر کی کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جس نے پچھلے دو سال میں قرضے لینے کا کوئی ذریعہ نہیں چھوڑا اور جو حکمران ہر وقت غیرملکی کرنسی گن کر معاشی ترقی یا تنزلی کے پیمانے بناتی ہے اتنا بڑا دھچکا کیسے برداشت کرے گی؟ دفاعی ضروریات کو ہی لے لیں۔ اخبارات میں چھپے ہوئے فوجی سربراہ کے بیان میں خود انحصاری کے حوالے دیے گئے ہیں۔ قوم کو ایک مرتبہ پھر بتایا گیا ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے بغیر ہم طویل المدت دفاعی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے۔ قوم تو اس فارمولے سے بخوبی واقف ہے۔ پاکستان کا ہر وہ شخص جو اپنے ہاتھ سے کماتا ہے اور ریاست کی جیبیں کاٹنے کی بجائے اپنے جبے میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالتا اور خرچ کرتا ہے جانتا ہے کہ خود انحصاری کتنی بڑی نعمت اور مانگ تانگ کر گزارہ کرنا کیسی زحمت ہے۔ 
اصل مسئلہ ریاست کے امور کا ہے۔ اسے چلانے والوں کی چمک دمک، رہن سہن اپنی خدمت پر معمور وسائل کی ریل پیل اور اگلی نسلوں کی لش پش کے لیے تو سب کچھ مہیا کیا جاتا ہے۔ مگر اصل معاملات کو چلانے کے لیے وسائل صرف قرضے یا باہر سے بھیجا جانے والا زرمبادلہ ہی ہے۔ یقینا آپ بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت کو اس توانائی سے نواز سکتے ہیں جس سے خود انحصاری رواں دواں ہوتی ہے۔ مگر جب اپنا سرمایہ کار اپنی مارکیٹ میں پیسہ نہیں ڈالے گا تو باہر سے خونخوار منافع خوروں کے علاوہ صاف ستھری انوسٹمنٹ کون لائے گا؟ ان حالات میں ترسیلات زر کی اہمیت چوگنا ہو جاتی ہے۔ ہمارے لیے بیرون ملک ایک نوکری کا جانا بھی ایک دھچکا ہے یہاں پر تو لاکھوں فارغ کر دیے گئے ہیں۔ بعض ممالک میں تو گردن سے پکڑ کر نکال دیا گیا ہے۔ حیرانی ہے کہ پاکستان میں اس پر کوئی بحث نہیں۔ کسی کا دل خون کے آنسو نہیں رو رہا۔ کوئی قومی مفادات کا بین نہیں ڈال رہا۔ کوئی خاص اجلاس طلب نہیں کیے گئے ہیں۔ 
یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بیرون ملک پاکستانیوں کا یہ حصہ جو غریب اور متوسط طبقے کی نمائندگی کرتا ہے کسی کھاتے میں لکھا ہی نہیں گیا۔ یاد رہے کہ ہم نے ان تمام لوگوں سے ہر مشکل وقت میں مدد طلب کی ہے۔ سیلاب آتے ہیں تو ان کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ڈیم بنانا ہو تو ان کا رخ کرتے ہیں۔ ان سے ہر قسم کی قربانی ملک کے نام پر مانتے ہیں۔ اب لاکھوں لوگ دھکے کھا رہے ہیں اور ہمارے نظام میں ان کو تسلی تک دینے کی سکت نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ ہمیں سمندر پار پاکستانیوں سے محبت نہیں تھی بلکہ ان کی خون پسینے کی کمائی کی طلب تھی۔ اب جب ان کی کمائی ختم ہوئی ہے تو ہماری محبت بھی دم توڑ گئی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے روزگار کا جانا ایک قومی بحران ہے اور اس پر قومی بحث کا نہ ہونا ایک قومی المیہ ہے۔
سید طلعت حسین  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
googlynewstv · 3 years
Text
کیا چیف الیکشن کمشنر بڑے فیصلے کرنے جا رہے ہیں؟
کیا چیف الیکشن کمشنر بڑے فیصلے کرنے جا رہے ہیں؟
باخبر ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی وزرا کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان پر بڑھتے ہوئے ذاتی حملوں کا جواب قانونی طریقے سے دینے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے جس کے نتیجے میں حکومت کو ایک بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے جج کے اختیارات رکھتا ہے اور وہ ریڈ لائن کراس کرنے پر ہتک عزت کی کارروائی بھی کر سکتا ہے۔ فواد چوہدری اور اعظم سواتی کی جانب سے حالیہ دنوں میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
karachitimes · 4 years
Text
کراچی کا کچھ ہو گا بھی یا پھر ڈرامہ بازی
ایسی خوفناک بارش جس نے سب کچھ اُلٹ پلٹ دیا۔ کراچی پہ کئی بپتائیں بیتیں لیکن قدرت کے ہاتھوں ایسی تباہی کب کراچی والوں نے دیکھی تھی۔ سیلابوں میں دیہات کے دیہات بہہ جاتے تھے اور شہری، امرا موسم کے مزے اُڑاتے۔ لیکن اس بار طوفانی بارشوں سے کچی آبادیاں تو ڈوبنی ہی تھیں لیکن ڈی ایچ اے جیسے پوش علاقوں کی بھی خیر نہ رہی۔ اسی لیے اسے قومی ایمرجنسی قرار دیا گیا۔ کراچی میں عمارتوں اور ناجائز قبضوں کے جنگلوں اور شہری سہولیات اور ماحولیات کی بربادی اور تگڑے اسٹیک ہولڈرز کی قبضہ گیری اور باہمی ٹکرائو کے ہاتھوں جو ہوا اس کا خمیازہ سبھی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ویسے بھی بڑے میگا شہروں کا بندوبست سنبھالنا دو بھر ہو چلا ہے۔ لیکن جدید سائنس و ٹیکنالوجی، اچھی منصوبہ بندی اور موثر گورننس سے درپیش مسائل کا حل نکالا جا رہا ہے اور لوگ بھی اب بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں اور قصبات کا رُخ کر رہے ہیں۔
لیکن کراچی کا معاملہ ہی علیحدہ ہے۔ جتنے یہاں گو نا گوں نسلیاتی گروہ ہیں (جو اسے کاسموپولیٹن بناتے ہیں)، اُتنے ہی پیچیدہ مسائل۔ کبھی کراچی ایک مچھیروں، دستکاروں اور تاجروں کی خاموش بستی تھا اور اس کے آبادی 1947 میں چار لاکھ کے لگ بھگ تھی اور یہاں انگریزوں نے اپنی فوجی و تجارتی آئوٹ پوسٹ بنائی۔ مہاجروں کی آمد کے بعد اس شہر کی آبادی چھلانگیں مارتی پھیلتی چلی گئی۔ جو بنیادی انفراسٹرکچر برطانوی نوآبادکاروں نے تعمیر کیا تھا، چند دہائیوں میں یہ آبادی کے بڑھتے ہوئے بوجھ تلے دب کر بے بس ہو گیا۔ اب نوبت یہ ہے کہ آبادی کے گھنے پن کے حساب سے کراچی میں فی مربع میل 63,000 نفوس ہیں اور ہر سال باہر سے 45,000 افراد کراچی میں سکونت اختیار کرتے ہیں۔ مہاجروں (48.52 فیصد) کی آمد کے بعد سے کراچی کا نسلیاتی جغرافیہ اتنا بدلا کہ یہ منی پاکستان کہلایا جہاں سندھیوں (7.22فیصد)، پشتونوں (11.42فیصد)، بلوچوں (4.34فیصد)، پنجابیوں (13.94فیصد)، سرائیکیوں (2.12فیصد)، گجراتیوں کے علاوہ بنگلہ دیشی، بہاری، افغانی، روہنگیاز، برمیز، یوغور اور جانے کون کون اور کہاں کے لوگ آباد ہو گئے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر معاشی ہجرت ہے جو لوگوں کو بڑے شہروں کی جانب کھینچتی ہے۔
پاکستان بننے پر کراچی دارالحکومت بنا اور ترقی کا سارا زور بھی وہیں رہا جس کا زیادہ تر فیض کراچی والوں ہی کو ملا۔ جب دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو یہ بڑا دھچکا تھا۔ جس کا نتیجہ ایوب خان کے خلاف زبردست مزاحمت کی صورت میں نظر آیا۔ یہ کراچی والوں کی آمریت کے خلاف پہلی اور آخری مزاحمت تھی۔ پھر 1973 کا آئین بنا اور صوبائی خودمختاری ملی اور سندھ کو وَن یونٹ کے خاتمے کے بعد اُس کی تاریخی شناخت واپس ملی۔ بعد ازاں سندھی زبان کے سرکاری اعتراف پر ہم نے ’’اُردو کا جنازہ ہے‘‘ کی رقعت آمیز آوازیں سُنیں۔ اور پھر ضیا الحق کی بھٹو دشمنی میں مہاجر کارڈ کو متحرک ہوتے دیکھا۔ نسلیاتی و لسانی تقسیم اور نفرت انگیزی نے لطیف بھٹائی کی سندھڑی کو خوفناک لسانی فسادات کے شعلوں میں لپٹتے دیکھا پھر الطاف حسین کے کلٹ اور ایم کیو ایم کی فسطائیت کے ہاتھوں کراچی دہائیوں تک یرغمال بنائے رکھا گیا۔ دہشت گردی، بھتہ خوری کے پھیلائو اور بوریوں میں لاشوں کے ڈھیر لگتے دیکھے۔ جو میونسپل ادارے بنے بھی تو وہ اسی مافیا اور دیگر مافیائوں کے لے پالک ہوتے۔
اسے شہری آبادی اور دیہی جاگیرداروں کے جھگڑے کا نام بھی دیا گیا اور اندرونِ سندھ اور شہری علاقوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا گیا۔ اس خانہ جنگی میں مافیاز پیدا ہوئیں اور وہ بھتہ خوری، پانی کے ٹینکر سے چائنا کٹنگ اور بڑے پیمانے پر زمینوں کے ہتھیانے تک ہر طرح کے سماج دشمن دھندوں میں شامل ہو گئیں۔ اس سب کا خمیازہ سب سے زیادہ کراچی والوں نے بھگتا اور جو تباہی ہوئی اس کا خمیازہ آج سب بھگت رہے ہیں۔ شکر ہے کہ افواجِ پاکستان نے کراچی میں دہشت گردی کا قلع قمع کر دیا اور امن بحال ہوا۔ فسطائیت کی کمر ٹوٹی اور ماحول کھلا ہوا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ دیہی سندھ اور شہری سندھ کے مینڈیٹ متصادم ہیں اور درجن بھر کرپٹ مقامی ادارے کراچی کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں۔ کہاں کس کی عملداری شروع ہوتی ہے اور کہاں کس کی ختم، بس اسی پہ سیاسی مناظرے جاری ہیں اور کراچی کی انتظامی حالت اور شہری سہولیات ایک مستقل سوہانِ روح بن کے رہ گئے ہیں۔
سندھ حکومت کی بنیادی ترجیح اس کا دیہی حلقۂ انتخاب ہے اور کراچی سمیت دوسرے شہروں میں اس کی کارکردگی ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے۔ دوسری طرف شہری علاقوں کے نمائندے بھی کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کے بے مقصد مجادلے میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان اِک نئے منصوبے کے ساتھ آج بوقتِ تحریر کراچی جا رہے ہیں۔ لیکن پہلے کی طرح وہ صوبائی حکومت سے کوئی مشاورت کر رہے ہیں اور نہ اُسے آن بورڈ لے رہے ہیں۔ خبر ہے کہ کورونا وائرس کے کنٹرول کے ادارے کی طرح کا کوئی ادارہ بنایا جائے گا جس کی صدارت کریں گے تو وزیرِ اعلیٰ سندھ، لیکن کنٹرول اُنہی کا ہو گا جنہوں نے کورونا کو روکنے کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم چلایا۔ شہری سیلاب کے دوران فوج کو سول انتظامیہ کی امداد کے لیے بلانا ایک مستحسن قدم تھا۔ ایمرجنسی کی حالت چند ہفتوں میں ختم ہو جائے گی۔
بہتر ہو گا کہ کراچی کے مسائل کے حل کیلئے آئینی راستہ اختیار کیا جائے۔ اٹھارہویں ترمیم کے دائرے میں صوبائی حاکمیت قائم رہے اور مرکز صوبے کی ضروری مدد کرے۔ صوبہ سندھ کو بھی اور دیگر صوبوں کو بھی ایک موثر مقامی حکومتوں کا نظام لانا ہو گا اور اختیارات و ذرائع کو مقامی کونسل اور وارڈ تک منتقل کرنا ہو گا۔ البتہ اس امر کا خیال رکھنا ہو گا کہ کوئی ایک سیاسی یا نسلیاتی گروہ دوسروں کو نکال باہر نہ کرے۔ رہا ماسٹر پلان تو اس کو وقت درکار ہو گا اور اس پر کام کی ضرورت ہے۔ ایک ہفتے میں ماسٹر پلان تیار نہیں ہوتے، انہیں وقت لگتا ہے اور نہ ہی ہفتوں مہینوں میں بڑے مسئلے حل ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے اور بڑے مسئلوں کا بتدریج حل نکالا جائے۔ پانی کی فراہمی، نکاسیِ آب، غلاظت کی صفائی، بجلی کی سپلائی اور ٹرانسپورٹ سسٹم کو ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ وزیراعظم کی پہل قدمی باعثِ انتشار بنے اور کراچی کے لوگ پھر منہ دیکھتے رہ جائیں اور ایک اور طوفانی بارش کا بے بسی سے انتظار کریں۔ کاش کوئی یہ بھی سوچے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے اور مستقبل میں کراچی سمیت سندھ کے ساحلی علاقوں کو سمندر میں غرق ہونے سے بچایا جائے۔ کراچی والو! تمہارا اللہ ہی حامی و ناصر ہے۔
امتیاز عالم 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 5 years
Text
کیا بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں؟
بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد ارکان پالیمان اور رہنماؤں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اگرچہ انہیں نئے متعارف کرائے گئے شہریت کے قانون اور قومی سطح پر شہریت کی رجسٹریشن کے اقدام کے خلاف مسلمان برادری سے کسی قدر غم و غصے کا اظہار کیے جانے کی توقع تھی، تاہم انہیں اس بات کی قطعاً توقع نہیں تھی کہ ان کے نتیجے میں ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑیں گے۔ بھارت میں ان نئے اقدامات کو مسلم مخالف قرار دیا جا رہا ہے اور بہت سے بھارتی اسے ملک کی سیکولر شناخت کے منافی قرار دے رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کے ان اقدامات کے سلسلے میں ملک بھر میں شدید مظاہرے جاری ہیں جن میں ہلاکتوں کی تعداد 21 تک پہنچ گئی ہے۔
بھارتی اور غیر ملکی تجزیہ کار اس صورت حال کو نریندر مودی کیلئے 2014 میں برسر اقتدار آنے کے بعد سب سے بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد اراکین پارلیمان نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی رائٹرز کو بتایا ہے کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں سے حیرت زدہ رہ گئے ہیں اور اب وہ اپنے ارکان کو ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے اتحادیوں اور مخالفوں کے ساتھ رابطے کر کے ان مظاہروں کی شدت کم کرنے کی کوشش کریں۔
حکمران جماعت کے رکن پارلیمان اور جونیئر مرکزی وزیر سنجیو بالیان نے رائٹرز کو بتایا کہ مجھے بالکل توقع نہیں تھی کہ مظاہرے ہوں گے۔ بی جے پی کے دیگر رہنما بھی ایسے مظاہروں کی پیش بندی کرنے میں ناکام رہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان احتجاجی مظاہروں سے وزیر اعظم مودی کو بڑا دھچکا پہنچا ہے، ان سے پارلیمان میں ان کی بھرپور اکثریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ انہوں نے عوامی سطح پر ایسی حکمت عملی اختیار کرنے کا وعدہ کیا ہے جس سے بھارت کو 2025 تک پانچ کھرب ڈالر کی معیشت میں تبدیل کیا جا سکے۔
تاہم، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ معاشی ایجنڈے پر توجہ دینے کے بجائے شہریت کے متنازعہ قانون نافذ کرنے کے باعث ملک میں غم و غصے کی شدید لہر پیدا ہوئی ہے۔ دوسری طرف بھارت کے متعدد مصنف اور فنکار بھی شہریت کے نئے قوانین کے خلاف احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں۔ معروف مصنفہ اور سماجی کارکن ارون دتی رائے نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ، "ہمیں ایک دوسرے کی حفاظت کرنا ہو گی۔ اور اب جبکہ سرکاری سیکیورٹی اہلکار گھروں میں داخل ہونے لگے ہیں خاص طور پر مسلمان علاقوں میں، ہمیں ہر صورت ایسے علاقوں میں گشت کرنا ہو گا اور اس کیلئے خود اپنے تحفظ کو خطرے ڈالنا ہو گا، جب ہم ایک دوسرے کی حفاظت کریں گے تو ہی عظیم بنیں گے۔‘‘
دوسری طرف بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں شہریت کے اندراج کا نفاذ کر دیا گیا ہے جس کے باعث لگ بھگ 20 لاکھ افراد بھارتی شہریت سے محروم ہو گئے ہیں۔ ان میں سے نصف ہندو اور نصف مسلمان ہیں۔ ایک سینئر کانگریس رہنما پرتھوی راج چون نے نیوز ایجنسی رائٹرز کو بتایا ہے کہ بھارت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مذہب کی بنیاد پر قانون بنائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکمران جماعت بی جے پی کی بھارت کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی ناکام ہو رہی ہے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
1 note · View note
sadi6662 · 4 years
Text
پیٹرولیم مصنوعات کا بحران
پیٹرولیم مصنوعات کا بحران
Tumblr media Tumblr media
 یہ پہلے ہی مشکلات میں مبتلا شہریوں کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا ،  کیونکہ نہ صرف وہ وبائی امراض کے دوران پٹرول سے محروم تھے ، اس قلت نے بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ کردیا تھا۔
مئی اور جون میں ، پاکستان کو پیٹرولیم مصنوعات کی ایک اور قلت کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد ملک بھر میں پٹرول پمپوں پر لمبی قطاریں لگ گئیں۔ اس بحران کے بعد ، حکومت اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (OMCs) کے مابین معمول…
View On WordPress
0 notes
dashtyus · 4 years
Photo
Tumblr media
امریکا کو بڑا دھچکا 2 اسلامی ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار رباط ( آن لائن) 2 اسلامی ممالک مراکش اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔روسی خبر رساں ادارے کے مطابق سوڈان کے وزیراعظم عبداللہ حمدوق نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی عبوری حکومت کے پاس اسرائیل سے تعلقات قائم کر نے کا اختیار نہیں ہے۔انہوں نے امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سوڈان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاستوں اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کے معاملے کو الگ الگ رکھیں۔ سوڈان میں عبوری حکومت ایک محدود ایجنڈے پر کام کر
0 notes